Dataset Viewer
title
stringlengths 21
72
| text
stringlengths 1.72k
15.6k
|
---|---|
کراچی: صدیوں کی کتھا! (تیسری قسط) | اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کا مُستقبل ماضی کے بغیر ہو؟ کیونکہ دن دن سے اور پل پل سے جُڑا ہوتا ہے۔ جس طرح ہم گزرے دن کو بھی کل کہتے ہیں اور آنے والے دن کو بھی کل کہتے ہیں، اس لیے کیونکہ کل اور کل میں جو آج ہے وہ ایک کڑی ہے جو دونوں کو آپس میں جوڑ کر رکھتی ہے۔ تو ہم اگر کبھی تنہائی میں کچھ پل نکال کر سوچیں کہ ہماری جتنی بھی زندگی گزری خواہ وہ 24 برس ہو، 64 کی یا 84 برس ہو، ہم یہ حیات اسی صورت میں گزار پاتے ہیں جب ہم اپنے گزرے برسوں اور شب و روز سے جُڑے رہتے ہیں۔
اگر لوگوں، قوموں اور تہذیبوں سے اُن کا ماضی چھین لیا جائے تو وہ شاید زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ پائیں گی۔ اُن میں آگے بڑھنے کی چاہت ختم ہوجائے گی، تگ و دو کا جوہر ان سے چھن جائے گا بالکل ایسے جیسے کسی وجود کو الزائمر کی بیماری لگتی ہے اور اُس کی یادداشت کے خلیے بے جان ہونے لگتے ہیں۔ آپ یہ سمجھیں کہ یہ بیماری اُس سے اُس کا ماضی چھین لیتی ہے۔ اور وہ اِسی کیفیت میں زیادہ زندگی نہیں جی سکے گا اور اگر جیے گا بھی تو حیات کے اُن رنگوں، ذائقوں اور کیفیتوں کے ریگستان میں جہاں موت کی ویرانی کے سوا کچھ نہیں بچتا۔ نہ رنگوں کے پھول کھلتے ہیں، نہ ذائقوں کی خوشبو کا کوئی جھونکا آتا ہے اور نہ غم و خوشی کی کوئی فاختہ اُڑتی ہے اور نہ آسمان کی نیلاہٹ کے گہرے رنگ میں کشش کی کوئی ناؤ چلتی ہے۔ بس ایک بے رنگ اور بے ذائقہ حیات۔
ہمارا آج کا سفر بھی سمندر کنارے اور ان پہاڑیوں کے جنگلات، آبشاروں، غاروں اور قدامت کی ان پگڈنڈیوں پر ہی ہے مگر آج ہمیں ڈاکٹر عبدالرؤف کی کراچی ریجن پر کی گئی تحقیق اور اُس تحقیق پر پاؤلو بیگی کی تازہ تحقیق پر تفصیلی بات کرنی تھی، لیکن جیسے ہی ہم سفر کرنے کی تیاری میں تھے تو ہمارے ساتھیوں میں سے کسی نے دو تین سوال کر ڈالے کہ کھیرتھر کے اس پہاڑی سلسلے پر ارتقا کا عمل کتنا قدیم ہوسکتا ہے اور ڈاکٹر عبدالرؤف سے پہلے بھی کراچی پر اس حوالے سے تحقیق ہوئی ہے یا نہیں؟
مختلف زمانوں کے نام اور ان کی عمریں—تصویر: ایکس
یہ سوالات اپنی جگہ پر اہم ہیں اور ان سوالات کا جواب ڈاکٹر صاحب کی رپورٹ ’اینشیئنٹ سیٹلمنٹس ان کراچی ریجن‘ (Ancient Settlements in Karachi Region) میں ضرور موجود ہوگا۔ مگر میں یہاں ہربرٹ جارج ویلز (Herbert George Wells) کی مشہور تحقیقی کتاب ’دی آؤٹ لائن آف ہسٹری‘ سے دو نقشے آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں جو آج سے 25 اور 50 ہزار سال پہلے کے جغرافیائی حالات کو ظاہر کرتے ہیں۔
50 ہزار سال پہلے کا نقشہ
50 ہزار برس پہلے والے نقشے کو دیکھیں گے تو آپ کو میدانی اور ریگستانی سندھ، پورا پنجاب، گنگا گھاٹی پانی کے نیچے نظر آئیں گے جبکہ سندھ کے مغربی اونچائی والے پہاڑی سلسلے اور بلوچستان آپ کو پانی سے آزاد نظر آئیں گے۔ جبکہ 35 سے 25 ہزار برس پہلے والے نقشے میں آپ کو سندھ کے میدانی اور ریگستانی حصے چولستان اور کَچھ پانی کے نیچے نظر آئیں گے اور باقی بہت سارے علاقوں سے پانی زمین کو چھوڑ چکا ہے۔ ایسے منظرنامے کو ذہن میں رکھ کر مانیک بی پٹھاوالا (Maneck B Pithawala) تحقیق پر مبنی اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ یہ ماحول انسان کی خوراک اور ترقی کے لیے انتہائی شاندار تھا۔
35 سے 25 ہزار برس پہلے والے نقشے
ڈاکٹر عبدالرؤف صاحب سے پہلے ہیو ٹریور لیمبرک (Hugh Trevor Lambric) نے انتہائی تفصیل سے سندھ کی ارضیات اور اُس کی تاریخ اور تاریخی مقامات پر تحقیق کی۔ نانی گوپال ماجمدر (Nani Gopal Majumdar) نے اس پہاڑی سلسلے کی تاریخ سے پہلے کے مقامات کی کھدائی اور سروے کیا تھا۔ 1976ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے پاکستان آرکیالوجی پر کام کرنے کے لیے آرکیالوجسٹ بریجٹ آلچن (Bridget Allchin) اپنے شوہر آلچن کے ہمراہ یہاں آئی اور اس نے تقریباً پورے پاکستان میں تحقیقی کام کیا۔
اس حوالے سے اس کی کتاب ’دی رائز آف سیویلائزیشن اِن انڈیا اینڈ پاکستان‘ شائع ہوئی جس میں اُنہوں نے پاکستان کی آرکیالوجی سائٹس کے حوالے سے انتہائی اہم تحقیق کی اور تحقیق کی بنیاد پر کہا کہ یہاں خاص طور پر سندھو گھاٹی کے جنوبی اور مغربی کنارے کے اطراف جن میں ملیر اور لیاری ندی کے بیچ اور اُس سے مغرب حب، لسبیلہ اور شمال بلوچستان میں، آخری پلائسیٹوسین پیلیولیتھک لوگوں کے رہنے کے لیے مناسب ماحول تھا کیونکہ یہاں کے جغرافیائی حالات جو دریائے سندھ کے بہاؤ کی وجہ سے تخلیق ہوئے تھے اُن میں جنوب مغرب میں میسولیتھک اور پیلیولیتھک صنعتیں موجود تھیں۔
ہولوسینو زمانے میں انسانی بستی
دریائے سندھ کے بہاؤ کے مغرب میں سلیمان اور کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے ہیں جبکہ اُس کے مشرق میں ریگستان کا ایک وسیع بیلٹ ہے۔ دریا نے ان دونوں کے بیچ میں اپنے بہاؤ کے ساتھ لائی ہوئی مٹی کی ایک زرخیز تہہ جمائی جو دونوں طرف رہنے والوں کے لیے ایک پُرکشش علاقہ بنا ہوگا کیونکہ میٹھے پانی کے ساتھ گھنے جنگلات، جنگلی حیات اور نباتات کی ایک وسیع کائنات اُس میں سمائی ہوئی تھی۔
اس محقق جوڑے نے جنوبی بلوچستان میں بالاکوٹ، سندھ میں کراچی، گُجو، اونگر، حیدرآباد، عمرکوٹ، کوٹڈیجی، روہڑی، موہن جو دڑو، آمری، شمالی بلوچستان میں جھڈیر، مہرگڑھ، پیرک (سبی)، پنجاب میں ملتان سے دیرہ جات، گومل، لاہور، ٹیکسلا، پشاور تک تحقیقی کام کیا تھا اس لیے اُس کی رائے کی خاص اہمیت ہے۔
اس سفر میں ہم جب سندھو گھاٹی تہذیب اور زرعی بستیوں کی بات کریں گے تو ہمیں اُمید ہے کہ بریجٹ اور آلچن ہماری ضرور مدد کریں گے۔ اب ہم پروفیسر عبدالرؤف خان کی تحقیقی رپورٹ کی بات کرتے ہیں جو جنوبی سندھ کے سمندری کنارے اور برساتی ندیوں، یہاں قدیم انسان اور ماحول کے حوالے سے انتہائی اہم تحقیق ہے۔ چونکہ یہ ایک طویل رپورٹ ہے جس کو مکمل طور پر یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے تو کوشش کرتے ہیں کہ اس کا لُب لباب یہاں بیان کیا جا سکے۔ اس تحقیق سے یہ سمجھنے میں آسانی رہتی ہے کہ منگھو پیر، مول، ملیر، لیاری، کھدیجی اور کھیرتھر پہاڑی سلسلے پر وہ کیا معروضی حالات تھے جن کی وجہ سے یہاں ابتدائی انسان کے رہنے کے لیے سازگار ماحول بنا۔
کھدیجی اور مول کی وادیاں
مسلسل ارضیاتی تبدیلیوں جن کا ذکر ہم ابتدا میں کرچکے ہیں، ان کی وجہ سے یہاں کا لینڈ اسکیپ اس طرح کا تخلیق ہوگیا تھا جس کے ایک طرف سمندر تھا، پانی کے چشمے تھے، پہاڑوں سے سمندر تک برساتی پانی کی ندیاں بہتیں اور یہاں گھنے جنگلات موجود تھے۔ ان تمام عناصر کی وجہ سے یہاں ایک ایسے ماحول نے جنم لیا جہاں میٹھے پانی، درختوں اور خوراک کی کمی نہیں تھی بالخصوص مچھلی اور دوسرے جانوروں کی بڑی تعداد یہاں موجود تھی۔
عبدالرؤف خان کہتے ہیں کہ چونکہ آج کے دور میں ہزاروں برس کا لینڈ اسکیپ تبدیل ہوگیا ہے مگر پھر بھی اس پہاڑی سلسلے پر ہزاروں خاندان اپنی زندگی گزار سکتے ہیں اور گزار بھی رہے ہیں۔ کراچی کے اطراف میں اب تک جو قدیم بستیاں ریکارڈ ہوئی ہیں اُن میں امیلانو، اورنگی، منگھوپیر، گجرو، نل بازار (الھڈنو بستی)، لسبیلو اور گُجو شامل ہیں جنہیں ’نیولیتھک دور‘ (2200 سے 1000 قبل از مسیح) کی قدامت کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالرؤف کی تحقیقی رپورٹ میں موجود نقشہ
ڈاکٹر عبدالرؤف ایک بستی ’گزکل‘ کا بھی ذکر کرتے ہیں جو کراچی سے سیوہن جانے والے قدیم راستے پر امیلانو سے فقط 5 میل اور الھڈنو بستی سے 3 میل کے فاصلے پر ہے۔ اس بستی کے قریب ایک طویل گبر بند (گبربند اُس خاص پشتے کو کہا جاتا ہے جو ارتقائی انسان پتھروں سے اس لیے بناتے تھے تاکہ پہاڑیوں سے آنے والے برساتی پانی کو روک کر اُس پانی کو اپنی مرضی سے استعمال کیا جا سکے، خاص طور پر زراعت کے لیے اور پانی کو طویل عرصے محفوظ رکھنے کے لیے ایسا کیا جاتا تھا۔ اس طرح کے قدیم پشتے کراچی سے جیکب آباد تک دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ انہیں ایران کے زرتشتیوں سے جوڑا جاتا ہے کیونکہ انڈس ویلی اور ایران کے آپس میں انتہائی قدیم اور دلچسپ رابطے رہے ہیں بلکہ ایک زمانے میں سندھ ایران کا صوبہ بھی رہا ہے۔ گبربند (پشتہ) ایک دلچسپ ایجاد تھی جس سے متعلق ہم آنے والے دنوں میں ضرور تفصیل سے بات کریں گے) کا ذکر کیا ہے جو ’تڑ واری‘ برساتی بہاؤ پر بنایا گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کراچی کے قرب و جوار میں 6 ایسے پشتوں کی بات کرتے ہیں۔ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ ان کی تعداد 6 سے زائد ہے۔
ڈاکٹر عبدالرؤف کی تحقیق میں کھدائی کے دوران ملنے والے اوزار
کھدیجی آبشاروں کے اوپر ایک قدیم انسانی بستی ہے جہاں پتھروں کی ایک دیوار موجود ہے جس کو مقامی لوگ کوٹاری (کوٹ والی) مقام کے نام سے بلاتے ہیں۔ دوسری بستی کونکر میں تھدھو ندی کے قریب کارو جبل کے پاس ہے۔ مگر کوٹاری مقام کی اپنی ایک الگ اہمیت ہے۔ یہ چھوٹی سی بستی اُس پہاڑی پر تھی جہاں سے کھدیجی وادی پر دُور دُور تک نظر رکھی جا سکتی ہے جبکہ اس مقام کے نیچے ایک خوبصورت آبشار ہے جس کا پانی وادی سے بہتا آگے جا کر مول ندی میں مل جاتا ہے۔ یہ بات بھی ممکن ہے کہ پرانے زمانے میں اس آبشار میں کافی پانی بہتا ہو اور بہتا ہوا ڈملوٹی تک پہنچتا ہو کیونکہ ملیر میں ڈملوٹی سے نکلنے والے پانی کا مرکزی مقام کھدیجی ہی رہا ہے۔
کھدیجی کی پہاڑیاں اور وادیوں کو ہم ارتقائی انسان کی بستیوں میں شامل کرتے ہیں
کھدیجی کی پہاڑیاں اور وادیاں وادی سندھ کی تہذیب سے پہلے کے آثار ہیں جس کو ہم ارتقائی انسان کی بستیوں میں شامل کرتے ہیں اس لیے کیونکہ وہاں وہ سارے اسباب موجود تھے جن میں ارتقائی انسان پنپ سکتا تھا جیسے شب و روز گزارنے کے لیے غاریں جو زیادہ ٹھنڈ، بارش، شدید گرمی، جانوروں کے حملے سے تحفظ فراہم کرتی تھیں، پانی کی فراوانی مطلب خوراک اور تحفظ فطری طور پر وہاں موجود تھا اس لیے اس کو یقینی طور پر نیولیتھک زمانے کی قدیم بستی کا اعزاز دے سکتے ہیں۔
محترم عبدالرؤف خان سندھ اور بلوچستان کے جنوبی حصے پر اور بھی تفصیل سے باتیں کرتا ہے جو دلچسپی سے خالی نہیں ہیں وہ میگالتھک (اس سے مراد وہ بڑے پتھر ہیں جو مرنے والوں کی یاد میں گاڑے گئے یا پتھریلا اسٹرکچر تعمیر کیا یا بنایا گیا، یہ انسان کی ترقی کی ایک اور منزل تھی جس کا زمانہ 2500 قبل از مسیح سے 200ء تک مانا جاتا ہے) بھاری پتھروں کی قبروں کی بھی بات کرتا ہے جو کراچی کے آس پاس ہیں اور جنوبی ہندوستان کے تسلسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ مول وادی کی کچھ محفوظ قبروں کا ذکر کرتا ہے جنہیں بھاری لمبے پتھر سے ڈھانپا گیا ہے ان میں سے کچھ قبریں 8 فٹ تک لمبی ہیں۔
عبدالرؤف خان کے مطابق یہ ڈملوٹی والی پتھروں کے زمانے کی قبروں سے مختلف ہیں اور ساتھ میں وہ حب وادی میں بڑے بھاری پتھروں سے بنائے ہوئے دائروں کی بھی بات کرتا ہے۔ ہمارے نصیب شاید اچھے ہیں کہ میگالتھک زمانے کے سندھ اور بلوچستان کی ان یادگاروں پر تحقیقی کام کرنے والے محترم ذوالفقار کہلوڑو صاحب بھی اس سفر میں ہمارے ساتھ شامل ہیں۔ ڈاکٹر عبدالرؤف صاحب اور بیگی صاحب کی تحقیق کے بعد ہم کلہوڑو صاحب سے اس زمانے کے متعلق ضرور تفصیلی بات کریں گے کیونکہ جس تسلسل کے ساتھ ہم آگے بڑھ رہے ہیں اُس میں یہ انتہائی اہم ہے کہ ہم انسانی ترقی کے ہر زمانے کے متعلق جانتے ہوئے آگے بڑھیں۔
ڈاکٹر عبدالرؤف خان کی تحقیقی رپورٹ میں کراچی ریجن کے قبلِ تاریخ دور سے پہلے کے مقامات
سمندر کے ساحلی حصے اور قدیم پتھر کے زمانے پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب جغرافیائی تبدیلیوں کا ذکر کرنا انتہائی ضرور سمجھتے ہیں۔ اُس کی مطالعہ اور تحقیق کے مطابق دلچسپ اور اہم بات اس خطے میں مائیکرولیتھس کی موجودگی ہے جن کا تعلق پہاڑیوں کی وادیوں اور اُن میں پانی کی چھوٹی چھوٹی گہرائیوں میں سے اُڑتی ہوئی پُرانی ریت سے ہے۔ جھیلوں کی طرح چھوٹے چھوٹے بہاؤ کی یہ گہری نشانیاں آخری برفانی زمانے کی بھی ہوسکتی ہیں۔
میسولیتھک اور آخری پیلیولیتھک دور کی ہمیں جو بستیاں ملی ہیں وہ گڈانی سے دھابیجی اور جنگشاہی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ان میں پہاڑیوں سے بہنے والے بہاؤ، کَلو، رن پٹیانی، کھدیجی، مول، تھدھو اور دوسری بارشی ندیوں کے قریب بہت بستیاں ملتی ہیں۔ ایک بستی یونیورسٹی کیمپس کے قریب تھی اور ایسی بستیوں کا سلسلہ حب ڈیم سے منگھوپیر پہاڑیوں تک پھیلا ہوا ہے ان پہاڑیوں میں اب بھی 12 سے زائد پانی کے چشمے ہیں جن میں سے کچھ خشک ہوچکے ہیں۔
ان بستیوں سے جو اوزار ملے ہیں اُن کے متعلق سماجی ارتقا کی بنیادوں پر آرکیالوجی کے ماہرین یہ رائے دیتے ہیں کہ سندھ اور بلوچستان کے میسولیتھک یقینی طور پر مچھلی اور جانوروں کے شکاری تھے، سمندر کے کناروں پر انہیں بھوک مٹانے کے لیے بہت سی آبی خوراک باآسانی سے مل جاتی ہوں گی جیسے سیپیاں، کچھوے، کیکڑے وغیرہ۔ ممکن ہے کہ اور بھی دیگر آبی مخلوقات بھی انہیں باآسانی کناروں پر سے مل جاتی ہوں جو اُن کے لیے پروٹین سے بھری شاندار خوراک ثابت ہوتی ہوں گی اور کم پانی والی جھیلوں سے وہ اپنی خوراک کے لیے مچھلیاں پکڑ لیتے ہوں گے۔
سندھ اور بلوچستان کے میسولیتھک یقینی طور پر مچھلی اور جانوروں کے شکاری تھے
اس کے علاوہ کچھ بستیوں سے مختلف جانوروں کی ہڈیاں بھی دریافت ہوئی ہیں۔ اور ان حقائق کی وجہ سے یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ شکار کے بہت سے ہتھیار لکڑیوں سے بنائے گئے ہوں گے۔ چونکہ ان ہتھیاروں کا ملنا انتہائی مشکل ہے اور اگر یہ مل جاتے ہیں تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا۔
ارتقائی انسان کے زمانے پر تحقیق کرنے والے محقق تاج صحرائی کہتے ہیں کہ ’سندھو دریا اور بہت زیادہ بارشوں کی وجہ سے یہاں گھنے جنگل اور قدآور درخت تھے کیونکہ اُس وقت کے معروضی حالات میں ممکن تھا۔ جنگلی بھینسیں، چیتے، جنگلی ہرنوں کی مختلف اقسام تھیں جن کے فوسلز (فوسلز پودوں اور جانوروں کی محفوظ باقیات کو کہا جاتا ہے جو ریت اور کیچڑ، قدیم سمندروں، جھیلوں اور دریاؤں کے نیچے دب جانے اور مخصوص ماحول ملنے سے پتھر میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ان کی کم سے کم عمر بھی 10 ہزار قبل از مسیح مانی جاتی ہے) ملے ہیں۔
موجودہ دور میں ان ہتھیاروں کا ملنا انتہائی مشکل ہیں جوکہ شکار کے لیے استعمال ہوتے تھے
’بالکل ایسے دریاؤں میں ڈولفن اور گھڑیال بھی رہتے تھے۔ دریاؤں اور جھیلوں میں مچھلیاں بہت تھیں تو یہاں کناروں پر بسنے والوں کو فش ایٹرز کہا جاتا ہے۔ میرے پاس گندم کے خوشے کا فوسلز موجود ہے۔ بلکہ میرے پاس قدیم زمانے کی حیات کے فوسلز کی ایک وسیع کلیکشن موجود ہے‘۔
ڈاکٹر صاحب آخری پیلیولیتھک دور کے اوزاروں (آخری پیلیولیتھک دور، نیولیتھک دور کی ابتدا پر ختم ہوا) کے متعلق کہتے ہیں کہ دو انچ سے کم مگر ایک تیز دھار چُھری جیسا کاٹنے کا اوزار کھدیجی وادی سے ملا ہے اور حب کے قریب بھی ایسے اوزار دریافت ہوئے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیلیولیتھک بستیوں میں سے کچھ بستیوں پر میسولیتھک زمانے کے لوگ آباد رہے ہوں گے۔
سندھو دریا کی پرانی بستیوں میں فوسلز بھی ملے ہیں
کچھ بستیوں میں ان کے رہنے کی نشانیاں نہیں ملتیں۔ مگر کونکر، لانڈھی کے جنوب میں، واگھو ڈر (ریڑھی میان) کے قلعے کی دیوار سے جو نوکدار اور تیز دھار والے تیر کی طرح ہتھیار ملا ہے وہ میسولیتھک دور کے ہتھیاروں سے بالکل الگ ہے۔ جس سے لگتا ہے کہ یہ آخری پلائسٹوسین کے زمانے کا ہے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس جگہ پر انسانی سرگرمی اس سے بھی قدیم رہی ہوگی۔
ڈاکٹر صاحب کی طویل تحقیقی رپورٹ سے آپ نے اہم باتیں ملاحظہ کیں۔ یہ ایک انتہائی حیرت انگیز تحقیق تھی۔ اس اہم تحقیق پر پائلو بیگی نے مختلف ادوار پر ترقی یافتہ سائنسی بنیادوں پر تحقیق کی جو اب میں آپ کو بتانے جارہا ہوں۔ بیگی صاحب کی تحقیق کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ یقیناً حیران ہوں گے۔ مگر اس رپورٹ سے پہلے اپنے ذہن سے موجودہ کراچی کی تصویر کو بالکل مٹادیں کیونکہ اگر موجودہ منظرنامہ آپ کے ذہن میں رہا تو گزرے زمانوں کو سمجھنے میں ضرور مشکل ہوگی۔
گزشتہ حصوں میں ہم نے اُن زمانوں کے اسکیچ اس لیے شیئر کیے تھے تاکہ ہم اُن زمانوں کے لینڈ اسکیپ کے منظرنامے آپ کے ذہن میں بُن سکیں۔ یہ تو ہزاروں برسوں کی کتھا ہے آپ سوچیں جب آپ فقط 100 برس سے بھی کم وقت پرانی عبداللہ شاہ غازی کے مزار کی ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر دیکھتے ہیں جہاں ایک ٹیلے پر درگاہ بنی ہوئی ہے اور وہ دیکھ کر ہم سب حیران رہ جاتے ہیں کہ ایک سو برس میں اتنی تبدیلی کیسے آگئی؟
میسولتھک دور میں انسانی بستیاں
مگر چونکہ ماضی کے مقابلے میں حال میں انسان میں ہر حوالے سے تیزی آئی ہے۔ مگر اس تیزی کی بنیادیں کم سے کم بھی 25 ہزار برس قبل مسیح کے پُرخطر، پُراسرار، پُرآشوب اور اچانک آجانے والے خطرات اور خوف سے بھری پڑی تھیں۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایک زمانے میں کراچی کے ان ساحلوں پر Giant Mangrove کے گھنے جنگلات تھے یہ تمر کے جنگلات کی وہ نسل ہے جو دیو ہیکل کہلاتی ہے؟ آنے والے سفر میں ہم تمر کے اُن دیوہیکل درختوں کے جنگلات میں بھی جائیں گے۔
حوالہ جات |
کراچی: صدیوں کی کتھا! (تیسری قسط) | اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کا مُستقبل ماضی کے بغیر ہو؟ کیونکہ دن دن سے اور پل پل سے جُڑا ہوتا ہے۔ جس طرح ہم گزرے دن کو بھی کل کہتے ہیں اور آنے والے دن کو بھی کل کہتے ہیں، اس لیے کیونکہ کل اور کل میں جو آج ہے وہ ایک کڑی ہے جو دونوں کو آپس میں جوڑ کر رکھتی ہے۔ تو ہم اگر کبھی تنہائی میں کچھ پل نکال کر سوچیں کہ ہماری جتنی بھی زندگی گزری خواہ وہ 24 برس ہو، 64 کی یا 84 برس ہو، ہم یہ حیات اسی صورت میں گزار پاتے ہیں جب ہم اپنے گزرے برسوں اور شب و روز سے جُڑے رہتے ہیں۔
اگر لوگوں، قوموں اور تہذیبوں سے اُن کا ماضی چھین لیا جائے تو وہ شاید زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ پائیں گی۔ اُن میں آگے بڑھنے کی چاہت ختم ہوجائے گی، تگ و دو کا جوہر ان سے چھن جائے گا بالکل ایسے جیسے کسی وجود کو الزائمر کی بیماری لگتی ہے اور اُس کی یادداشت کے خلیے بے جان ہونے لگتے ہیں۔ آپ یہ سمجھیں کہ یہ بیماری اُس سے اُس کا ماضی چھین لیتی ہے۔ اور وہ اِسی کیفیت میں زیادہ زندگی نہیں جی سکے گا اور اگر جیے گا بھی تو حیات کے اُن رنگوں، ذائقوں اور کیفیتوں کے ریگستان میں جہاں موت کی ویرانی کے سوا کچھ نہیں بچتا۔ نہ رنگوں کے پھول کھلتے ہیں، نہ ذائقوں کی خوشبو کا کوئی جھونکا آتا ہے اور نہ غم و خوشی کی کوئی فاختہ اُڑتی ہے اور نہ آسمان کی نیلاہٹ کے گہرے رنگ میں کشش کی کوئی ناؤ چلتی ہے۔ بس ایک بے رنگ اور بے ذائقہ حیات۔
ہمارا آج کا سفر بھی سمندر کنارے اور ان پہاڑیوں کے جنگلات، آبشاروں، غاروں اور قدامت کی ان پگڈنڈیوں پر ہی ہے مگر آج ہمیں ڈاکٹر عبدالرؤف کی کراچی ریجن پر کی گئی تحقیق اور اُس تحقیق پر پاؤلو بیگی کی تازہ تحقیق پر تفصیلی بات کرنی تھی، لیکن جیسے ہی ہم سفر کرنے کی تیاری میں تھے تو ہمارے ساتھیوں میں سے کسی نے دو تین سوال کر ڈالے کہ کھیرتھر کے اس پہاڑی سلسلے پر ارتقا کا عمل کتنا قدیم ہوسکتا ہے اور ڈاکٹر عبدالرؤف سے پہلے بھی کراچی پر اس حوالے سے تحقیق ہوئی ہے یا نہیں؟
مختلف زمانوں کے نام اور ان کی عمریں—تصویر: ایکس
یہ سوالات اپنی جگہ پر اہم ہیں اور ان سوالات کا جواب ڈاکٹر صاحب کی رپورٹ ’اینشیئنٹ سیٹلمنٹس ان کراچی ریجن‘ (Ancient Settlements in Karachi Region) میں ضرور موجود ہوگا۔ مگر میں یہاں ہربرٹ جارج ویلز (Herbert George Wells) کی مشہور تحقیقی کتاب ’دی آؤٹ لائن آف ہسٹری‘ سے دو نقشے آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں جو آج سے 25 اور 50 ہزار سال پہلے کے جغرافیائی حالات کو ظاہر کرتے ہیں۔
50 ہزار سال پہلے کا نقشہ
50 ہزار برس پہلے والے نقشے کو دیکھیں گے تو آپ کو میدانی اور ریگستانی سندھ، پورا پنجاب، گنگا گھاٹی پانی کے نیچے نظر آئیں گے جبکہ سندھ کے مغربی اونچائی والے پہاڑی سلسلے اور بلوچستان آپ کو پانی سے آزاد نظر آئیں گے۔ جبکہ 35 سے 25 ہزار برس پہلے والے نقشے میں آپ کو سندھ کے میدانی اور ریگستانی حصے چولستان اور کَچھ پانی کے نیچے نظر آئیں گے اور باقی بہت سارے علاقوں سے پانی زمین کو چھوڑ چکا ہے۔ ایسے منظرنامے کو ذہن میں رکھ کر مانیک بی پٹھاوالا (Maneck B Pithawala) تحقیق پر مبنی اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ یہ ماحول انسان کی خوراک اور ترقی کے لیے انتہائی شاندار تھا۔
35 سے 25 ہزار برس پہلے والے نقشے
ڈاکٹر عبدالرؤف صاحب سے پہلے ہیو ٹریور لیمبرک (Hugh Trevor Lambric) نے انتہائی تفصیل سے سندھ کی ارضیات اور اُس کی تاریخ اور تاریخی مقامات پر تحقیق کی۔ نانی گوپال ماجمدر (Nani Gopal Majumdar) نے اس پہاڑی سلسلے کی تاریخ سے پہلے کے مقامات کی کھدائی اور سروے کیا تھا۔ 1976ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے پاکستان آرکیالوجی پر کام کرنے کے لیے آرکیالوجسٹ بریجٹ آلچن (Bridget Allchin) اپنے شوہر آلچن کے ہمراہ یہاں آئی اور اس نے تقریباً پورے پاکستان میں تحقیقی کام کیا۔
اس حوالے سے اس کی کتاب ’دی رائز آف سیویلائزیشن اِن انڈیا اینڈ پاکستان‘ شائع ہوئی جس میں اُنہوں نے پاکستان کی آرکیالوجی سائٹس کے حوالے سے انتہائی اہم تحقیق کی اور تحقیق کی بنیاد پر کہا کہ یہاں خاص طور پر سندھو گھاٹی کے جنوبی اور مغربی کنارے کے اطراف جن میں ملیر اور لیاری ندی کے بیچ اور اُس سے مغرب حب، لسبیلہ اور شمال بلوچستان میں، آخری پلائسیٹوسین پیلیولیتھک لوگوں کے رہنے کے لیے مناسب ماحول تھا کیونکہ یہاں کے جغرافیائی حالات جو دریائے سندھ کے بہاؤ کی وجہ سے تخلیق ہوئے تھے اُن میں جنوب مغرب میں میسولیتھک اور پیلیولیتھک صنعتیں موجود تھیں۔
ہولوسینو زمانے میں انسانی بستی
دریائے سندھ کے بہاؤ کے مغرب میں سلیمان اور کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے ہیں جبکہ اُس کے مشرق میں ریگستان کا ایک وسیع بیلٹ ہے۔ دریا نے ان دونوں کے بیچ میں اپنے بہاؤ کے ساتھ لائی ہوئی مٹی کی ایک زرخیز تہہ جمائی جو دونوں طرف رہنے والوں کے لیے ایک پُرکشش علاقہ بنا ہوگا کیونکہ میٹھے پانی کے ساتھ گھنے جنگلات، جنگلی حیات اور نباتات کی ایک وسیع کائنات اُس میں سمائی ہوئی تھی۔
اس محقق جوڑے نے جنوبی بلوچستان میں بالاکوٹ، سندھ میں کراچی، گُجو، اونگر، حیدرآباد، عمرکوٹ، کوٹڈیجی، روہڑی، موہن جو دڑو، آمری، شمالی بلوچستان میں جھڈیر، مہرگڑھ، پیرک (سبی)، پنجاب میں ملتان سے دیرہ جات، گومل، لاہور، ٹیکسلا، پشاور تک تحقیقی کام کیا تھا اس لیے اُس کی رائے کی خاص اہمیت ہے۔
اس سفر میں ہم جب سندھو گھاٹی تہذیب اور زرعی بستیوں کی بات کریں گے تو ہمیں اُمید ہے کہ بریجٹ اور آلچن ہماری ضرور مدد کریں گے۔ اب ہم پروفیسر عبدالرؤف خان کی تحقیقی رپورٹ کی بات کرتے ہیں جو جنوبی سندھ کے سمندری کنارے اور برساتی ندیوں، یہاں قدیم انسان اور ماحول کے حوالے سے انتہائی اہم تحقیق ہے۔ چونکہ یہ ایک طویل رپورٹ ہے جس کو مکمل طور پر یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے تو کوشش کرتے ہیں کہ اس کا لُب لباب یہاں بیان کیا جا سکے۔ اس تحقیق سے یہ سمجھنے میں آسانی رہتی ہے کہ منگھو پیر، مول، ملیر، لیاری، کھدیجی اور کھیرتھر پہاڑی سلسلے پر وہ کیا معروضی حالات تھے جن کی وجہ سے یہاں ابتدائی انسان کے رہنے کے لیے سازگار ماحول بنا۔
کھدیجی اور مول کی وادیاں
مسلسل ارضیاتی تبدیلیوں جن کا ذکر ہم ابتدا میں کرچکے ہیں، ان کی وجہ سے یہاں کا لینڈ اسکیپ اس طرح کا تخلیق ہوگیا تھا جس کے ایک طرف سمندر تھا، پانی کے چشمے تھے، پہاڑوں سے سمندر تک برساتی پانی کی ندیاں بہتیں اور یہاں گھنے جنگلات موجود تھے۔ ان تمام عناصر کی وجہ سے یہاں ایک ایسے ماحول نے جنم لیا جہاں میٹھے پانی، درختوں اور خوراک کی کمی نہیں تھی بالخصوص مچھلی اور دوسرے جانوروں کی بڑی تعداد یہاں موجود تھی۔
عبدالرؤف خان کہتے ہیں کہ چونکہ آج کے دور میں ہزاروں برس کا لینڈ اسکیپ تبدیل ہوگیا ہے مگر پھر بھی اس پہاڑی سلسلے پر ہزاروں خاندان اپنی زندگی گزار سکتے ہیں اور گزار بھی رہے ہیں۔ کراچی کے اطراف میں اب تک جو قدیم بستیاں ریکارڈ ہوئی ہیں اُن میں امیلانو، اورنگی، منگھوپیر، گجرو، نل بازار (الھڈنو بستی)، لسبیلو اور گُجو شامل ہیں جنہیں ’نیولیتھک دور‘ (2200 سے 1000 قبل از مسیح) کی قدامت کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالرؤف کی تحقیقی رپورٹ میں موجود نقشہ
ڈاکٹر عبدالرؤف ایک بستی ’گزکل‘ کا بھی ذکر کرتے ہیں جو کراچی سے سیوہن جانے والے قدیم راستے پر امیلانو سے فقط 5 میل اور الھڈنو بستی سے 3 میل کے فاصلے پر ہے۔ اس بستی کے قریب ایک طویل گبر بند (گبربند اُس خاص پشتے کو کہا جاتا ہے جو ارتقائی انسان پتھروں سے اس لیے بناتے تھے تاکہ پہاڑیوں سے آنے والے برساتی پانی کو روک کر اُس پانی کو اپنی مرضی سے استعمال کیا جا سکے، خاص طور پر زراعت کے لیے اور پانی کو طویل عرصے محفوظ رکھنے کے لیے ایسا کیا جاتا تھا۔ اس طرح کے قدیم پشتے کراچی سے جیکب آباد تک دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ انہیں ایران کے زرتشتیوں سے جوڑا جاتا ہے کیونکہ انڈس ویلی اور ایران کے آپس میں انتہائی قدیم اور دلچسپ رابطے رہے ہیں بلکہ ایک زمانے میں سندھ ایران کا صوبہ بھی رہا ہے۔ گبربند (پشتہ) ایک دلچسپ ایجاد تھی جس سے متعلق ہم آنے والے دنوں میں ضرور تفصیل سے بات کریں گے) کا ذکر کیا ہے جو ’تڑ واری‘ برساتی بہاؤ پر بنایا گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کراچی کے قرب و جوار میں 6 ایسے پشتوں کی بات کرتے ہیں۔ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ ان کی تعداد 6 سے زائد ہے۔
ڈاکٹر عبدالرؤف کی تحقیق میں کھدائی کے دوران ملنے والے اوزار
کھدیجی آبشاروں کے اوپر ایک قدیم انسانی بستی ہے جہاں پتھروں کی ایک دیوار موجود ہے جس کو مقامی لوگ کوٹاری (کوٹ والی) مقام کے نام سے بلاتے ہیں۔ دوسری بستی کونکر میں تھدھو ندی کے قریب کارو جبل کے پاس ہے۔ مگر کوٹاری مقام کی اپنی ایک الگ اہمیت ہے۔ یہ چھوٹی سی بستی اُس پہاڑی پر تھی جہاں سے کھدیجی وادی پر دُور دُور تک نظر رکھی جا سکتی ہے جبکہ اس مقام کے نیچے ایک خوبصورت آبشار ہے جس کا پانی وادی سے بہتا آگے جا کر مول ندی میں مل جاتا ہے۔ یہ بات بھی ممکن ہے کہ پرانے زمانے میں اس آبشار میں کافی پانی بہتا ہو اور بہتا ہوا ڈملوٹی تک پہنچتا ہو کیونکہ ملیر میں ڈملوٹی سے نکلنے والے پانی کا مرکزی مقام کھدیجی ہی رہا ہے۔
کھدیجی کی پہاڑیاں اور وادیوں کو ہم ارتقائی انسان کی بستیوں میں شامل کرتے ہیں
کھدیجی کی پہاڑیاں اور وادیاں وادی سندھ کی تہذیب سے پہلے کے آثار ہیں جس کو ہم ارتقائی انسان کی بستیوں میں شامل کرتے ہیں اس لیے کیونکہ وہاں وہ سارے اسباب موجود تھے جن میں ارتقائی انسان پنپ سکتا تھا جیسے شب و روز گزارنے کے لیے غاریں جو زیادہ ٹھنڈ، بارش، شدید گرمی، جانوروں کے حملے سے تحفظ فراہم کرتی تھیں، پانی کی فراوانی مطلب خوراک اور تحفظ فطری طور پر وہاں موجود تھا اس لیے اس کو یقینی طور پر نیولیتھک زمانے کی قدیم بستی کا اعزاز دے سکتے ہیں۔
محترم عبدالرؤف خان سندھ اور بلوچستان کے جنوبی حصے پر اور بھی تفصیل سے باتیں کرتا ہے جو دلچسپی سے خالی نہیں ہیں وہ میگالتھک (اس سے مراد وہ بڑے پتھر ہیں جو مرنے والوں کی یاد میں گاڑے گئے یا پتھریلا اسٹرکچر تعمیر کیا یا بنایا گیا، یہ انسان کی ترقی کی ایک اور منزل تھی جس کا زمانہ 2500 قبل از مسیح سے 200ء تک مانا جاتا ہے) بھاری پتھروں کی قبروں کی بھی بات کرتا ہے جو کراچی کے آس پاس ہیں اور جنوبی ہندوستان کے تسلسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ مول وادی کی کچھ محفوظ قبروں کا ذکر کرتا ہے جنہیں بھاری لمبے پتھر سے ڈھانپا گیا ہے ان میں سے کچھ قبریں 8 فٹ تک لمبی ہیں۔
عبدالرؤف خان کے مطابق یہ ڈملوٹی والی پتھروں کے زمانے کی قبروں سے مختلف ہیں اور ساتھ میں وہ حب وادی میں بڑے بھاری پتھروں سے بنائے ہوئے دائروں کی بھی بات کرتا ہے۔ ہمارے نصیب شاید اچھے ہیں کہ میگالتھک زمانے کے سندھ اور بلوچستان کی ان یادگاروں پر تحقیقی کام کرنے والے محترم ذوالفقار کہلوڑو صاحب بھی اس سفر میں ہمارے ساتھ شامل ہیں۔ ڈاکٹر عبدالرؤف صاحب اور بیگی صاحب کی تحقیق کے بعد ہم کلہوڑو صاحب سے اس زمانے کے متعلق ضرور تفصیلی بات کریں گے کیونکہ جس تسلسل کے ساتھ ہم آگے بڑھ رہے ہیں اُس میں یہ انتہائی اہم ہے کہ ہم انسانی ترقی کے ہر زمانے کے متعلق جانتے ہوئے آگے بڑھیں۔
ڈاکٹر عبدالرؤف خان کی تحقیقی رپورٹ میں کراچی ریجن کے قبلِ تاریخ دور سے پہلے کے مقامات
سمندر کے ساحلی حصے اور قدیم پتھر کے زمانے پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب جغرافیائی تبدیلیوں کا ذکر کرنا انتہائی ضرور سمجھتے ہیں۔ اُس کی مطالعہ اور تحقیق کے مطابق دلچسپ اور اہم بات اس خطے میں مائیکرولیتھس کی موجودگی ہے جن کا تعلق پہاڑیوں کی وادیوں اور اُن میں پانی کی چھوٹی چھوٹی گہرائیوں میں سے اُڑتی ہوئی پُرانی ریت سے ہے۔ جھیلوں کی طرح چھوٹے چھوٹے بہاؤ کی یہ گہری نشانیاں آخری برفانی زمانے کی بھی ہوسکتی ہیں۔
میسولیتھک اور آخری پیلیولیتھک دور کی ہمیں جو بستیاں ملی ہیں وہ گڈانی سے دھابیجی اور جنگشاہی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ان میں پہاڑیوں سے بہنے والے بہاؤ، کَلو، رن پٹیانی، کھدیجی، مول، تھدھو اور دوسری بارشی ندیوں کے قریب بہت بستیاں ملتی ہیں۔ ایک بستی یونیورسٹی کیمپس کے قریب تھی اور ایسی بستیوں کا سلسلہ حب ڈیم سے منگھوپیر پہاڑیوں تک پھیلا ہوا ہے ان پہاڑیوں میں اب بھی 12 سے زائد پانی کے چشمے ہیں جن میں سے کچھ خشک ہوچکے ہیں۔
ان بستیوں سے جو اوزار ملے ہیں اُن کے متعلق سماجی ارتقا کی بنیادوں پر آرکیالوجی کے ماہرین یہ رائے دیتے ہیں کہ سندھ اور بلوچستان کے میسولیتھک یقینی طور پر مچھلی اور جانوروں کے شکاری تھے، سمندر کے کناروں پر انہیں بھوک مٹانے کے لیے بہت سی آبی خوراک باآسانی سے مل جاتی ہوں گی جیسے سیپیاں، کچھوے، کیکڑے وغیرہ۔ ممکن ہے کہ اور بھی دیگر آبی مخلوقات بھی انہیں باآسانی کناروں پر سے مل جاتی ہوں جو اُن کے لیے پروٹین سے بھری شاندار خوراک ثابت ہوتی ہوں گی اور کم پانی والی جھیلوں سے وہ اپنی خوراک کے لیے مچھلیاں پکڑ لیتے ہوں گے۔
سندھ اور بلوچستان کے میسولیتھک یقینی طور پر مچھلی اور جانوروں کے شکاری تھے
اس کے علاوہ کچھ بستیوں سے مختلف جانوروں کی ہڈیاں بھی دریافت ہوئی ہیں۔ اور ان حقائق کی وجہ سے یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ شکار کے بہت سے ہتھیار لکڑیوں سے بنائے گئے ہوں گے۔ چونکہ ان ہتھیاروں کا ملنا انتہائی مشکل ہے اور اگر یہ مل جاتے ہیں تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا۔
ارتقائی انسان کے زمانے پر تحقیق کرنے والے محقق تاج صحرائی کہتے ہیں کہ ’سندھو دریا اور بہت زیادہ بارشوں کی وجہ سے یہاں گھنے جنگل اور قدآور درخت تھے کیونکہ اُس وقت کے معروضی حالات میں ممکن تھا۔ جنگلی بھینسیں، چیتے، جنگلی ہرنوں کی مختلف اقسام تھیں جن کے فوسلز (فوسلز پودوں اور جانوروں کی محفوظ باقیات کو کہا جاتا ہے جو ریت اور کیچڑ، قدیم سمندروں، جھیلوں اور دریاؤں کے نیچے دب جانے اور مخصوص ماحول ملنے سے پتھر میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ان کی کم سے کم عمر بھی 10 ہزار قبل از مسیح مانی جاتی ہے) ملے ہیں۔
موجودہ دور میں ان ہتھیاروں کا ملنا انتہائی مشکل ہیں جوکہ شکار کے لیے استعمال ہوتے تھے
’بالکل ایسے دریاؤں میں ڈولفن اور گھڑیال بھی رہتے تھے۔ دریاؤں اور جھیلوں میں مچھلیاں بہت تھیں تو یہاں کناروں پر بسنے والوں کو فش ایٹرز کہا جاتا ہے۔ میرے پاس گندم کے خوشے کا فوسلز موجود ہے۔ بلکہ میرے پاس قدیم زمانے کی حیات کے فوسلز کی ایک وسیع کلیکشن موجود ہے‘۔
ڈاکٹر صاحب آخری پیلیولیتھک دور کے اوزاروں (آخری پیلیولیتھک دور، نیولیتھک دور کی ابتدا پر ختم ہوا) کے متعلق کہتے ہیں کہ دو انچ سے کم مگر ایک تیز دھار چُھری جیسا کاٹنے کا اوزار کھدیجی وادی سے ملا ہے اور حب کے قریب بھی ایسے اوزار دریافت ہوئے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیلیولیتھک بستیوں میں سے کچھ بستیوں پر میسولیتھک زمانے کے لوگ آباد رہے ہوں گے۔
سندھو دریا کی پرانی بستیوں میں فوسلز بھی ملے ہیں
کچھ بستیوں میں ان کے رہنے کی نشانیاں نہیں ملتیں۔ مگر کونکر، لانڈھی کے جنوب میں، واگھو ڈر (ریڑھی میان) کے قلعے کی دیوار سے جو نوکدار اور تیز دھار والے تیر کی طرح ہتھیار ملا ہے وہ میسولیتھک دور کے ہتھیاروں سے بالکل الگ ہے۔ جس سے لگتا ہے کہ یہ آخری پلائسٹوسین کے زمانے کا ہے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس جگہ پر انسانی سرگرمی اس سے بھی قدیم رہی ہوگی۔
ڈاکٹر صاحب کی طویل تحقیقی رپورٹ سے آپ نے اہم باتیں ملاحظہ کیں۔ یہ ایک انتہائی حیرت انگیز تحقیق تھی۔ اس اہم تحقیق پر پائلو بیگی نے مختلف ادوار پر ترقی یافتہ سائنسی بنیادوں پر تحقیق کی جو اب میں آپ کو بتانے جارہا ہوں۔ بیگی صاحب کی تحقیق کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ یقیناً حیران ہوں گے۔ مگر اس رپورٹ سے پہلے اپنے ذہن سے موجودہ کراچی کی تصویر کو بالکل مٹادیں کیونکہ اگر موجودہ منظرنامہ آپ کے ذہن میں رہا تو گزرے زمانوں کو سمجھنے میں ضرور مشکل ہوگی۔
گزشتہ حصوں میں ہم نے اُن زمانوں کے اسکیچ اس لیے شیئر کیے تھے تاکہ ہم اُن زمانوں کے لینڈ اسکیپ کے منظرنامے آپ کے ذہن میں بُن سکیں۔ یہ تو ہزاروں برسوں کی کتھا ہے آپ سوچیں جب آپ فقط 100 برس سے بھی کم وقت پرانی عبداللہ شاہ غازی کے مزار کی ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر دیکھتے ہیں جہاں ایک ٹیلے پر درگاہ بنی ہوئی ہے اور وہ دیکھ کر ہم سب حیران رہ جاتے ہیں کہ ایک سو برس میں اتنی تبدیلی کیسے آگئی؟
میسولتھک دور میں انسانی بستیاں
مگر چونکہ ماضی کے مقابلے میں حال میں انسان میں ہر حوالے سے تیزی آئی ہے۔ مگر اس تیزی کی بنیادیں کم سے کم بھی 25 ہزار برس قبل مسیح کے پُرخطر، پُراسرار، پُرآشوب اور اچانک آجانے والے خطرات اور خوف سے بھری پڑی تھیں۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایک زمانے میں کراچی کے ان ساحلوں پر Giant Mangrove کے گھنے جنگلات تھے یہ تمر کے جنگلات کی وہ نسل ہے جو دیو ہیکل کہلاتی ہے؟ آنے والے سفر میں ہم تمر کے اُن دیوہیکل درختوں کے جنگلات میں بھی جائیں گے۔
حوالہ جات |
کراچی: صدیوں کی کتھا! (دوسری قسط) | اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
یہ ممکن ہے کہ قارئین کو اس سلسلے کی پہلی قسط مُشکل لگی ہو کیونکہ ارضیاتی تاریخ اور اُس میں استعمال ہونے والے سائنسی نام کچھ زیادہ ہی مشکل تھے۔ ہماری مجبوری یہ تھی کہ ارضیاتی تاریخ کو ہم چھوڑ نہیں سکتے تھے کیونکہ اُس کو بیان کیے بغیر یہ سلسلہ بالکل بے مقصد رہ جاتا۔ بالکل ایسے درخت کی طرح جس کی جڑوں کا کوئی تصور ہی نہ ہو۔ ایسے درخت کے لیے ہم زیادہ پُر اُمید نہیں ہوتے کہ وہ اچھی چھاؤں یا ثمر دینے والا درخت ہوگا۔
ہم کوشش کریں گے ہم اس قسط کو تھوڑا آسان زبان میں بیان کریں اور اسے دلچسپ بنا سکیں۔
آرکیالوجی پر تحقیق کرنے والوں کے مطابق سندھ اور بلوچستان کے میسولتھک لوگوں کو سمندر اور ماحول نے اچھا شکاری بنادیا ہوگا اور وہ یقینی طور پر جانوروں کا شکار کرتے ہوں گے اور گہرے پانیوں سے مچھلیاں بھی پکڑتے ہوں گے۔ وہ زیادہ ترقی کی جانب مسلسل بڑھ رہے تھے۔ سندھ میں آخری پالیولتھک زمانے سے متعلق ڈاکٹر خان کہتے ہیں کہ ’ملیر وادی کی مختلف برساتی گزرگاہوں کے کناروں سے، حب ندی کے کنارے، کونکر اور ریڑھی میان کے قریب واگھوڈر سے جو اوزار ملے ہیں وہ مُڑے ہوئے ہیں اور انتہائی تیز کاٹ رکھنے والے ہیں۔ کچھ اوزار تو ان زمانوں سے بھی قدیم ہیں‘۔
میسولتھک دور کے انسانوں کی زندگی
ایک اور قدیمی سائٹ جو ’بازار نئے‘ کے کنارے ’الھڈنو گوٹھ‘ کے نام سے موجود تھی۔ اس کے متعلق گل حسن کلمتی لکھتے ہیں کہ ’میمن گوٹھ سے ڈملوٹی جاتے ہوئے ایک قدیم سائٹ گوٹھ الھڈنو جوکھیو کے نام سے مشہور ہے یہاں 1973ء میں کھدائی ہوئی تھی جہاں سے نوادرات کے ساتھ، ایک سینگ والے یوٹوپیائی جانور (Unicorn) کے نشان والی مہریں بھی ملی تھیں‘۔
ایک سینگ والے یوٹوپیائی جانور کے نشان والی مہریں
موکھی، سونگل، گجرو اور اورنگی، لیاری برساتی بہاؤ کے معاون نالے ہیں چونکہ یہ مرکزی بہاؤ اور یہ نالے فقط برساتی نالے ہیں اس لیے یہ بارشوں کے موسم میں ہی ایکٹو ہوتے ہیں۔ لیاری ندی کے میدان میں زراعت کے لیے زیرِزمین موجود پانی استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس کے دونوں کناروں پر زراعت ہوتی تھی اور اس بہاؤ کے بالائی علاقوں پر اب تک زراعت ہوتی ہے۔
لیاری کے قرب و جوار میں زمانہ قبلِ مسیح کی انسانی زندگی کی نشانیوں کا ماہرینِ آثار قدیمہ نے پتا لگایا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ تہذیب دریائے لیاری کے اردگرد اور دریائے حب کے علاقے تک پھیلی ہوئی تھی کیونکہ یہاں بارشوں کی صورت میں میٹھے پانی کی فراوانی تھی اور ساتھ ہی یہاں سمندر بھی تھا اس لیے ہم اُمید کرسکتے ہیں کہ نو حجری (Neolithic) دور کی ابتدا اس علاقے سے ہوئی ہوگی بالکل ایسے ہی جیسے دریائے سندھ، بولان، نیل، دجلہ و فرات کے کناروں پر زرعی زمانے کی داغ بیل پڑی اور ملیر کی طرح اس وادی میں بھی ارتقا پانے والے انسان نے تقریباً ساڑھے 4 ہزار قبل مسیح میں اپنے لیے ابتدائی گھاس پھوس کے گھر بنائے ہوں گے اور اُن کے تحفظ کے لیے لکڑیوں یا کانٹے دار جھاڑیوں کی باڑ بنانے کی ضرورت محسوس کی ہوگی۔
لیاری وادی کی ارضیاتی کیفیت
اسی دور میں انسان نے خوراک ڈھونڈنے کے لیے مچھلی اور دوسرے جانوروں کا آسان شکار کرنے کا سوچا ہوگا اور اُس شکار کو حاصل کرنے کے لیے پتھروں کے مختصر سے اوزار بھی بنائے ہوں گے۔ لیاری اور ملیر کی وادیوں میں قدیم بستیوں کی کھوج سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ نو حجری دور کی ثقافتی باقیات چمکیلے پتھر کے اوزاروں اور ہتھیاروں کی صورت میں وادی لیاری اور دریائے حب تک کے وسیع علاقوں میں باکثرت ملے ہیں۔
میسولتھک دور کے انسان خوراک کے لیے شکار کرتے ہوں گے
جامعہ کراچی سے ملحقہ علاقے میں ایک بستی کے آثار میں تانبے کے دور (آثار قدیمہ کے ماہر زمانہ قبل از تاریخ کو مختلف ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ مثلاً سب سے قدیم پتھر کا زمانہ تھا۔ پھر پتھر کے نئے زمانے کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد تانبے کا زمانہ آیا۔ پھر کانسی کا زمانہ اور سب سے آخر میں لوہے کا زمانہ جو اس وقت چل رہا ہے۔ سب سے پہلے زمانے میں لوگ پتھر کے ہتھیار استعمال کرتے تھے پھر دوسرے زمانے میں پتھر کے خوبصورت ہتھیار بننے لگے۔ تیسرے میں تانبے کے اور چوتھے میں برنج کے ہتھیار وجود میں آئے اور اب ہر اوزار اور ہتھیار لوہے سے تیار کیا جاتا ہے) سے مشابہت رکھنے والے متوازی دھار والے پتھر کے چاقو دریافت ہوئے۔ ان کی زیادہ سے زیادہ لمبائی تقریباً سوا انچ ہے۔ ان میں اکثر دندانے دار ہیں یعنی جن کو گِھس کر خوبصورت بنایا گیا ہے۔ ان کے علاوہ تین پتھر سے بنی ہوئی تیروں کی نوکیں بھی ملی ہیں۔
نوحجری دور کی انسانی آبادی
اس جگہ سے ملنے والے ایسے ہی پتھر کے دیگر اوزار ان سے کوئی مشابہت نہیں رکھتے۔ ان سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہاں کے ہنر مند دوسری ہم عصر تہذیبوں سے کچھ زیادہ سوچتے تھے اور اچھے ہنرمند تھے کیونکہ انہوں نے ہتھیاروں کو مزید نوک دار بنا کر ان کی کارکردگی میں اضافہ کردیا۔ اس بستی سے پتھر کی ایک ایسی رانپی بھی ملی ہے جو چمڑے کو کھرچنے کے کام آتی ہوگی۔ یہاں گلابی رنگ کی ٹھیکریاں بھی ملی ہیں جو یقیناً آگ میں پکے ہوئے برتنوں کی ہیں اس کے علاوہ یہاں سے جنگلی خنزیروں کی ہڈیاں بھی ملی ہیں۔
زمانہ قدیم میں انسان نوکدار پتھر سے بنے ہتھیاروں کو مزید نوکدار بنا کر شکار کرتے تھے
ڈاکٹر عبدالرؤف خان صاحب کی کراچی پر کی گئی اہم کھوج اور اس پر پائلو بیگی کی تفصیلی رپورٹس کو پڑھنے سے پہلے میرے سامنے 1953ء میں اے ایل باشم کی مشہور ضخیم کتاب The Wonder That Was Indi اور ساتھ میں یحییٰ امجد کی ’تاریخ پاکستان‘ (قدیم دور) بھی موجود ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی کھوج کو سمجھنے کے لیے ہم ان دونوں صاحب کی کتابوں سے مدد لے لیتے ہیں۔ مگر تاریخ، تحقیق اور مشاہدات کے جزیرے پر اُترنے سے پہلے ہمارے ذہن میں گزرے زمانوں کی تصویر بالکل صاف ہونی چاہیے۔ اگر تاریخ کے متعلق ہماری سوچ سائنسی بنیادوں پر نہیں ہوگی تو ہمیں اس سفر میں مشکلات پیش آئیں گی۔ دراصل تاریخ بے جوڑ واقعات، افراد کی زندگیوں اور اتفاقات و حوادث کے مجموعے کا نام نہیں بلکہ یہ مادی حالات کے ارتقا کے شانہ بشانہ سبب اور نتیجے کے رشتے سے جنم لینے والے قابل فہم اور مربوط حالات کا ارتقا ہے۔
میسولتھک دور کی دریافت ہونے والی ہڈیاں
باشم صاحب لکھتے ہیں کہ ’مجھے اُمید ہے کہ یہ کتاب ہندوستانی، پاکستانی اور سنہالی قارئین کے لیے یقیناً مُفید ثابت ہوگی۔ دریائے سندھ (جو اب پاکستان میں ہے) کے بہاؤ پر قدیم ترین تہذیب تھی اور اسی نے ہندوستان کو ہندوستان کا نام دیا۔ اب دریائے سندھ کا نشیبی حصہ جو پاکستان کے صوبہ سندھ میں ہے بنجر ریگستان سے ہوکر گزرتا ہے حالانکہ کسی زمانے میں یہ ایک سیراب اور زرخیز علاقہ تھا۔ قبل تاریخ زمانے کے یورپ کی طرح پاک و ہند کے شمالی علاقوں کو بھی برفانی ادوار سے گزرنا پڑا اور ان ادوار کے دوسرے دور (یعنی دوسرے برفانی دور) بعد 4 لاکھ سال قبل مسیح اور دو لاکھ سال قبل مسیح کے درمیان ہمیں انسان کی زندگی کے آثار سون ویلی (پوٹھوہار، کراچی سے 1262 کلومیٹر شمال مشرق میں دریائے سندھ کے کنارے) میں دریافت ہوئے ہیں۔ اس وادی سے ہمیں تمدن کے سنگی دور کے پتھر کے بنے ہوئے اوزار ملے۔
سون ویلی میں قدیم انسانی زندگی کے آثار دریافت ہوئے ہیں
اس تمدن کو یہ نام اس چھوٹے سے دریا کی وجہ سے دیا گیا جو پنجاب میں ہے جہاں یہ آثار باکثرت پائے جاتے ہیں۔ اپنی ساخت کے اعتبار سے یہ اوزار قدیم دور یعنی انگلستان سے لےکر افریقہ اور چین کے اوزاروں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ اب اگر ہم جنوب کی بات کریں تو وہاں بھی قبل تاریخ زمانے کے پتھر کی صنعت کا وجود تھا اور اندازاً یہی وہ زمانہ رہا ہوگا جو ہمیں سون وادی میں ملتا ہے۔ جنوب میں یہ تمدن رکھنے والے لوگ پتھروں میں شگاف کرکے اوزار بالخصوص عمدہ کلہاڑیاں کسی بڑی چٹان سے کاٹ کر بنایا کرتے تھے اور وہ لوگ وادی سون کے لوگوں کے مقابلے میں اپنے وسائل پر زیادہ قدرت رکھتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وادی گنگا جوکہ سطح ارض کا جدید ترین حصہ ہے، وہ اُن دنوں گہرے سمندر کے نیچے تھا۔
انڈس ویلی کی وادی سون سطح سمندر سے اونچائی پر ہے اور یہاں برفانی دور آیا تھا۔ چونکہ سندھو وادی کا جنوبی زیریں حصہ گرم ہے اس لیے یہاں برفانی دور نہیں آیا تھا اور یہاں ارتقا پانے والے انسان کی زندگی کا ایک الگ منظرنامہ ہے۔ کچھ بھی تھا وہاں اگر برف کی ٹھنڈ اور برف ایک مسئلہ تھی تو یہاں یقیناً اور مشکلات ہوتی ہوں گی کیونکہ زندگی سے جھوجھنا کبھی آسان نہیں رہا۔ اس لیے یہاں دانشمند انسان زندہ رہا اور اس کی صناعی اور اس کی صناعی کے آلات بعد کے ادوار تک غیر مرئی طور پر ارتقا پذیر رہے۔ اس نے پتھر کے ٹکڑوں کو سوارنا، چھوٹے اور نازک سنگی تیروں کی نوکیں اور دوسرے اوزار بنانا سیکھ لیا۔ یہ اوزار شمال مغربی سرحد سے لےکر انتہائی جنوب تک پائے گئے ہیں۔
انڈس ویلی کا تقشہ
قدیم پتھر کے دور کا انسان شکار اور غذا فراہم کرنے والا تھا، چھوٹے چھوٹے جتھوں میں رہتا تھا اور خانہ بدوش تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے آگ جلانا، موسم سے اپنے جسم کو محفوظ رکھنے کے لیے کھال، چھال یا پتیوں کا استعمال کرنا اور جنگلی کُتوں کو پالنا سیکھا جوکہ ان کی رہائش (گھاس پھوس کی جھونپڑی، درخت کی شاخوں سے بنائی ہوئی تحفظی گول دیوار، باڑ یا غار) کے آگے جلتی آگ کے آگے اپنے مالکوں کی حفاظت کے لیے گھوما کرتے تھے۔ دنیا کے دوسرے علاقوں اور دنیا کے دوسرے لوگوں کی طرح سندھو گھاٹی کے لوگ بھی لاکھوں برس تک اس طرح زندگی بسر کرتے رہے۔
قبلِ تاریخ کے نقشے میں کراچی اور سون ویلی
کچھ زمانے گزرنے کے بعد انسان کی زندگی میں عظیم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ یقینی طور پر 10 ہزار سال قبل مسیح سے پہلے نہیں اور شاید 6 ہزار قبل مسیح کے قریب وی گورڈن چائلڈ کے مطابق، ارتقا پانے والے انسان نے اپنے ماحول کی طرف ایک جارحانہ رویہ اختیار کرنا شروع کیا۔ اس نے غلہ اُگانا سیکھ لیا، اس نے گھریلو جانوروں کو پالنا شروع کیا، برتن بنائے اور کپڑے بُننے لگا، معدنیات کی دریافت اور استعمال سے قبل اس نے پتھروں کے ایسے چمکدار اوزار بنانا سیکھ لیے جو کہ پتھروں کے عہد سے کہیں زیادہ شاندار، خوبصورت اور زبردست تھے۔ ایسے اوزار ہمیں زیادہ تر سندھو گھاٹی کے شمال سے لےکر جنوب تک ملتے ہیں جہاں حجری تمدن کئی زمانوں تک قائم رہا۔
اگر ہم تحقیقات اور کھنڈرات سے اندازہ لگائیں تو مشرق وسطیٰ میں ترقی یافتہ زراعت اور مستقل گاؤں کا آغاز 5 ہزار سال قبل مسیح میں ہوا۔ وادی سندھ میں مستقل تمدن کے جو ابتدائی آثار ہمیں ملے ہیں وہ بلوچستان اور نشیبی سندھ میں چھوٹے چھوٹے زراعتی گاؤں کے ہیں جن کی تاریخ کا تعین 4 ہزار قبل مسیح کے اختتام میں کیا جا سکتا ہے۔
ادوار کے مطابق انسانوں کا ارتقا
قدیم کلاسیکی مصنفین ہمیں بتاتے ہیں کہ 326 قبل مسیح میں سکندر نے دریائے سندھ کو عبور کیا تو سندھو گھاٹی کی آب و ہوا کم و بیش ایسی ہی تھی جیسی آج ہے۔ ہوسکتا ہے کہ موجودہ آب و ہوا کے مقابلے میں نم زیادہ رہی ہو، دریا کی وادیاں زرخیز اور جنگلات سے بھری تھیں اگرچہ دریائے سندھ کا مغربی ساحلی علاقہ جس کو اب مکران کہا جاتا ہے اور بلوچستان کا بیشتر حصہ پہلے سے ہی خشک اور غیر آباد تھا لیکن 3 ہزار قبل مسیح میں یہاں کی آب و ہوا کافی مختلف تھی۔ سندھ کا پورا علاقہ جنگلات سے بھرا ہوا تھا اور بلوچستان میں جوکہ اب بے آب و گیاہ ریگ زار ہے بہت سے دریا تھے۔ یہ علاقہ بہت سے زراعت پیشہ دیہاتیوں کی مدد کرتا تھا جو بلوچستان کی وادیوں اور اُس وقت کے مکران کے زرخیز میدانی اور نشیبی سندھ کے علاقوں میں سکونت پذیر ہوگئے تھے۔
اب چونکہ ہم نے ڈاکٹر خان اور پائلو بیگی سے ان کی تحقیق پر اور پاکستان کے بہت سارے انتہائی قدیم مقامات پر انہوں نے جو سائنسی بنیادوں پر انتہائی شاندار تحقیقی کام کیا ہے، اُن سے ہمارے اس سمندری کنارے اور اُن کی قدامت کے متعلق ایک تفصیلی گفتگو کرنی ہے تو ہم جلد ہی ملتے ہیں اگلے پڑاؤ میں منگھو پیر کی اسی پہاڑی پر۔ ہم نے شاید یہ بہت اچھا کام کیا ہے کہ ملنے کے لیے ہم نے اس پہاڑی کو چُنا ہے کیونکہ ہم ملتے یہاں ہیں مگر ہمارے پڑاؤ تاریخ کی گزرگاہوں پر چلتے ہیں۔ یہ یقیناً انتہائی قدیم اور خوبصورت جگہ ہے اور ساتھ ہی پُراسرار بھی جبکہ اس کی پُراسراریت کا بھید بھی کسی نہ کسی آنے والی قسط میں ضرور کُھلے گا۔ تو جلد ہی ملتے ہیں اسی جگہ پر اگلی قسط میں۔
حوالہ جات |
کراچی: صدیوں کی کتھا (پہلی قسط) | اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
اگر آپ کبھی کراچی کے انتہائی شمال میں واقع علاقے منگھو پیر گئے ہیں اور وہاں مگرمچھوں والے تالاب کے اوپر اُس مقبرے تک گئے ہیں جہاں مقبرے کے شمال میں قدیم قبرستان ہے اور اُس سے بھی شمال مغرب میں پانی کی لاکھوں بلکہ کروڑوں برس قدیم گزرگاہیں ہیں تو اس وقت شاید آپ کو یہ اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ آپ کہاں کھڑے تھے؟
یہ وہ پہاڑی ہے جس کے جنوب، مشرق اور مغرب میں انسانی ارتقا کی کہانی ایسے بکھری ہوئی ہے جیسے ہماری زندگی کے غم اور خوشیاں کئی مقامات پر یادوں کی صورت میں بکھری پڑی ہوتی ہیں، کوئی یہاں کوئی وہاں، یہاں بھی ارتقا کے حقائق ایسے بکھرے پڑے ہیں، کوئی یہاں کوئی وہاں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ لوہے سیمنٹ کے جنگل نے ان پہاڑیوں اور برساتی بہاؤں سے ان کی قدامت اور شاندار پُرسکون خاموشی، رنگ اور خوبصورتی چھین لی ہے اور ان میں سے کئی عمارتوں کے نیچے بستیوں کی لاکھوں سال پرانی ارتقائی نشانیاں اور اُن زمانوں کے جانداروں کی ہڈیاں مدفون ہیں جنہوں نے ارتقائی عمل میں وہ اہم کردار ادا کیا تھا جو فطرت نے انہیں سونپا تھا۔
انگریز 19ویں صدی میں منگھوپیر کے مگرمچھوں کو گوشت کھلاتے ہوئے
وقت کا کام چلنا جبکہ فطرت کا کام تغیر میں رہنا ہے اور یہ لاکھوں کروڑوں برسوں کے تغیر کا نتیجہ ہے کہ وقت اپنی باریک چھننی سے منفی گردوغبار کو گراتا رہتا ہے اور مثبت سے اس دنیا کی تعمیر ہوتی رہتی ہے۔ گزرا وقت تاریخ کا وہ تاریک جنگل ہے جہاں پُراسراریت کی کتھاؤں کی کئی جھاڑیاں اُگتی ہیں۔
اگر آپ اپنے گرد پھیلے ہوئے منظرنامے کو تھوڑی توجہ اور گہرائی سے دیکھیں تو اس پہاڑی کے ہر پتھر اور گھاٹی میں گزرے زمانوں کی کئی ٹھنڈی اور پُراسرار کہانیاں ہیں جو آنے والوں کا انتظار کرتی ہیں کہ کوئی آئے اور اُن سے گزرے زمانے کی کتھائیں سُنے اور آپ جب اُن سے کچھ پوچھیں گے تب وہ اپنے گزرے زمانے کے قصے کپڑوں کے رنگین تھانوں کی طرح کھول کر آپ کے سامنے رکھ دیں گی۔
ان کہانیوں کے ہر رنگ میں پُراسراریت کا ایک ننھا منا دِیا ضرور روشن ہوگا۔ ایسے بھی کئی پُراسرار راز ہیں جنہیں جاننے کے متعلق آپ اس لیے نہیں سوچ سکتے کیونکہ شاید اُن کے متعلق آپ جانتے نہیں ہیں یا اگر جانتے بھی ہیں تو اتنا کم کہ اس متعلق سوال کرنے کی کوئی تمنا آپ کے اندر نہیں اُگتی۔
مگر ان کہانیوں اور وقت کی گُتھیوں کو پرکھنے سے پہلے میں آپ کو بتادوں کہ آپ جس جگہ پر کھڑے ہیں یہ جگہ آپ کے لیے جان بوجھ کر چُنی گئی ہے۔ اس مقام سے مشرق، جنوب اور مغرب کے وسیع علاقوں کو آپ اچھی طرح دیکھ اور پرکھ سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی شاندار جگہ ہے جہاں آپ لاکھوں صدیوں کے گزرے زمانے کو اچھی طرح محسوس کرسکتے ہیں اور بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔
آپ اگر یہاں ابتدائی ادوار کے انسانوں کی کچھ باقیات ڈھونڈنا چاہیں تو شاید آپ کو تاریخ و تحقیق کے صفحات مایوس نہیں کریں گے کیونکہ کھیرتھر کے وسیع پہاڑی سلسلے کی پہاڑیوں پر ارتقا پانے والے انسانوں کی باقیات بکھری ہوئی ہیں۔ ذرا سوچیں کہ سُننے میں یہ کتنا جادوئی اور سحر انگیز ہے۔ یعنیٰ انسانوں کی وہ دنیا جہاں اُن کے لیے سب کچھ نیا اور خوفناک تھا۔
وہ کیسا دور ہوتا ہوگا؟ ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی بھرپور کوشش کریں گے کہ جہاں ہم کھڑے ہیں اُس سے شمال، مشرق، جنوب اور مغرب میں لاکھوں سال پہلے کا منظرنامہ کیسا ہوتا ہوگا۔
مگر یہ تو اس سفر کا ابتدائی پڑاؤ ہے جہاں ابھی نہ کلاچی کا کوئی نشان ہے اور نہ کراچی کا دُور دُور تک کوئی پتا ہے۔ مگر یہ ضرور یاد رہے کہ ہمارا یہ سفر جس کی ابتدا ہم تاریخ سے پہلے (Prehistoric) کے زمانوں سے کررہے ہیں، اُس کی کھوج اُس کلاچی سے کراچی تک پہنچنے کے لیے ہے۔ مگر وہاں تک پہنچنے کے لیے ہم سمجھتے ہیں کہ یہی بہتر طریقہ ہے کیونکہ یہاں جتنے ادوار گزرے ہیں ہم کوشش کریں گے کہ اُن کو سلسلہ وار بیان کریں تاکہ اس تسلسل میں کوئی ابہام نہ رہے۔
کراچی کے ماضی اور حال کو سمجھنے کے لیے اس پہاڑی سے زیادہ موزوں اور کوئی جگہ ہو ہی نہیں سکتی۔ آپ کی بائیں طرف سے ملیر ندی (’نئے‘ یا ’نے‘ بھی کہتے ہیں جوکہ فقط بارشوں کے موسم میں پہاڑیوں سے آئے ہوئے پانیوں سے بہتی ہیں) ہے۔ ملیر کے مغرب میں لیاری ندی (نئے) ہے اور آپ کی دائیں طرف سے حب ندی کے بہاؤ ہیں۔ اگر آپ گوگل سے دیکھیں تو شمال سے جنوب کی طرف آپ کو بارش کے پانی کے کئی بہاؤ ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے نظر آئیں گے۔
ارتقا پانے والے انسانوں کی بستیاں
بناوٹ کے حساب سے شمال کی سطح بلند جبکہ جنوب کی سطح نشیبی ہے اس لیے پانی کے راستے شمال سے جنوب کی طرف آتے ہیں۔ چونکہ کراچی کی زمین پر دریائے سندھ کا کوئی بہاؤ نہیں ہے اس لیے بارش کے پانی کی ان ندیوں نے یہاں قدیم زمانے سے حیات کو تخلیق کیا ہے۔ یہ ایک فطری منظرنامہ ہے، ندیوں کے اس پانی نے زمین کو سرسبز اور بستیوں کو آباد کیا ہے۔ کراچی کو کراچی بنانے میں سمندر، ملیر، لیاری اور حب ندیوں کا اہم کردار ہے بلکہ یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ کراچی شہر ان آبی وسائل کا شاندار تحفہ ہے۔
گل حسن کلمتی نے کیا خوب لکھا ہے کہ ’ کراچی کے تاریخی علاقے ملیر، لیاری، منگھو پیر، اورنگی، امیلانو بازار، کھدیجی، باکران، گڈاپ، مھیر، گسری، ریڑھی میان اور حب قدیم تہذیبوں کے مرکز رہے ہیں’۔
بلکہ جہاں آپ اس وقت کھڑے ہیں یہاں بھی آثارِ قدیمہ والوں کو ایسی قدیم انسانی بستی کے آثار ملے ہیں جس کا زمانہ پتھر اور دھات کے درمیان یعنی کانسی (Bronze age) کا زمانہ (3300 قبل مسیح سے 1200 قبل مسیح تک) ہے۔ محققین کے مطابق کسی زمانے میں یہاں ایک بڑی جھیل یا تالاب ہوگا جس میں بہت سے مگرمچھ ہوں گے۔ اس کے کنارے بسنے والی لوگ ان مگرمچھوں کی پوجا کیا کرتے تھے۔
آپ اسی قدیم پہاڑی سے اگر تھوڑا مشرق کی طرف دیکھیں گے تو ملیر وادی میں بھی آپ کو قدیم بستیوں اور گھنے جنگلوں کی تاریخی شہادتیں مل جائیں گی۔ یہاں سے اگر آپ سیدھے سیدھے 30، 32 کلومیٹرز جنوب کی جانب دوڑ لگائیں تو آپ سمندر کے کنارے ابراہیم حیدری کے نزدیک شمال میں اس سلسلے کی آخری پہاڑیوں تک پہنچ جائیں گے جہاں آپ کو ارتقائی انسان کی ایک اور قدیم بستی ملے گی اور ایسا ہی گندھک ملا پانی کا چشمہ بھی ملے گا جیسا منگھو پیر پر ہے۔ سندھ کی ارضیات پر تحقیق کرنے والے ایچ-ٹی-لیمبرک کو یہاں موجود قلعے کے قدیم آثار ملے تھے۔ لیمبرک اسے ’واگھو ڈر‘ (مگرمچھوں کی غار) کہتے ہیں۔
کچھ لوگ آج بھی منگھوپیر کے مگرمچھوں کے ساتھ عقیدت کا اظہار کرتے ہیں—تصویر: اے ایف پی
گل حسن کلمتی اس حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ اس مقام پر مگرمچھوں کی قبریں بھی ملی ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ سُن کر ہم حیران ہوں مگر گزرے زمانوں میں طاقتور اور اُن چیزوں کی پوجا ہوتی تھی جن کو انسان اپنے بس میں نہیں کرسکتا تھا۔ سندھو گھاٹی کے قدیم مذہب میں مگرمچھوں کو دیوتا مان کر پوجا کی جاتی تھی۔ وہاں کی گئی کُھدائی سے ایک مہر بھی ملی جس پر مگرمچھ کو مچھلی کھاتے دکھایا گیا ہے۔
اس سے قبل ہم کراچی کے حوالے سے تین تفصیلی سفر کرچکے ہیں۔ کراچی دو وادیوں میں بسا ہوا شہر ہے۔ مشرق کی طرف ملیر وادی اور مغرب کی طرف لیاری وادی۔ چونکہ ملیر وادی پر اس سے پہلے ہم بات کرچکے ہیں تو اب اگر لیاری بہاؤ پر بسی بستی کی قدامت اور ساتھ میں کراچی کی ارضیاتی کیفیت پر تفصیلی بات کرلیں تو شاید ہم سب کو اچھا لگے گا۔
شہر کراچی اب جہاں بستا ہے، ارضیاتی لحاظ سے وہ سطح پست انداز مرتفع ہے جس کی سطح سمندر سے اوسط بلندی تقریباً 25 فٹ ہے۔ یہ میدان کوہ کھیرتھر سے بہہ کر آنے والی مٹی اور پتھریلے ملبے سے بنا ہے جس کی عمر کا تعین تاریخ ارضی کے دور ثلاثہ کی بالائی عمر (Upper Tertiary Age) سے کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایک اندازے کے مطابق اس دور کے اولیگو سین (Oligocene) زمانے یعنی تقریباً ساڑھے 4 کروڑ سال قبل یہ تمام علاقہ اُتھلا سمندر تھا جس میں کوہ کھیرتھر سے آنے والے نالوں کا ملبہ رفتہ رفتہ جمع ہوتا گیا۔
دور ثلاثہ کی بالائی عمر —تصویر: بریٹینیکا انسائیکلوپیڈیا
اولیگو سین کا دور—تصویر: ایکس
ان تہہ دار چٹانوں میں ہمیں جگہ جگہ ایسی سیپوں اور گھونگوں کے سنگوارے (Fossils) ملتے ہیں جو اپنی اقسام کے لحاظ سے کم گہرائی کے سمندروں اور گرم آب و ہوا میں پروان چڑھتے تھے۔ یہ قدیم آبی حیاتیاتی آثار اب سطح سمندر سے بہت بلند اور ساحل سمندر سے دور دور کے علاقوں میں نظر آتے ہیں۔ اس دور میں جمع ہونے والے ملبے سے جو مختلف قسم کے پتھر وجود میں آئے انہیں ناڑی طبقہ عصر (Nari Formation) کہتے ہیں۔
سیپوں اور گھونگوں کے سنگوارے
سمندر میں ملبہ جمع ہونے کا عمل مایو سین اور پلایو سین دور تک یعنی آج سے تقریباً 20 لاکھ سال قبل تک جاری رہا۔ ان دو ادوار میں ملبے سے جنم لینے والی چٹانوں کے مثالی نمونوں کو گاج طبقہ عصر (Gaj Formation) کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ ان چٹانوں کے مثالی نمونے شمالی سندھ میں گاج نامی گھاٹی میں موجود ہیں۔ اس طویل عرصے میں سمندر اُبھر کر خشک زمین بن گیا اور اس پر چھوٹی چھوٹی جھیلیں اور ندی نالے وجود میں آگئے۔ اس خشک زمین کی ناہموار سطح پر بہنے والے پانی سے جو کٹاؤ پیدا ہوا اس کا ملبہ بھی تہہ دار چٹانوں کی شکل اختیار کرگیا لیکن اس پر ملنے والے جانداروں کی قسم نمکین پانی میں پرورش پانے والے جانداروں سے مختلف تھی۔
اس ملبے کے پتھروں کو منچھر طبقہ عصر (Mancher Formation) کا نام دیا گیا کیونکہ ان کے مثالی نمونے منچھر جھیل کے اطراف میں ملے۔ قدامت کے لحاظ سے گاج اور منچھر ہم عصر ہیں کیونکہ یہ ایک ہی عہد یعنی مایوسین (Miocene Era) اور پلایوسین (Pliocene Era) دور کی پیداوار ہیں۔ البتہ فرق فقط یہ ہے کہ جہاں سمندر میں ملبہ جمع ہوا وہ گاج اور جہاں تازہ پانی میں جمع ہوا اسے منچھر طبقہ عصر کے نام سے موسوم کیا گیا۔
مایوسین دور—تصویر: ایکس
پلایوسین دور— تصویر: وکی پیڈیا
آج سے 20 لاکھ برس قبل کھیرتھر پہاڑ کے مشرقی اور جنوبی نواح کا پورا علاقہ پلائس ٹوسین (Pleistocene Era) زمانے کے اوائل میں سمندر سے اُبھر کر خشک میدان بن گیا تھا اور اس خشکی پر ملیر، لیاری، حب، سفوراں اور دوسرے ندی نالے وجود میں آئے۔
پلائس ٹوسین کے دور میں انسان میمتھ کا شکار کرتے ہوئے—تصویر: وکی پیڈیا
کھیرتھر کا پہاڑی سلسلہ دراصل کوہ سلیمان کا جنوبی حصہ ہے جو طاس سندھ اور سطح مرتفع میں حد فاصل ہے۔ ہمارے ملک کی ارضیاتی تاریخ میں کوہ سلیمان اور کھیرتھر پہاڑی سلسلے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جن کو محوری خطہ (Axial Belt) کہا جاتا ہے۔ دکنی ہندوستان کی ماقبل کیم بریائی چٹانیں جو سندھ طاس میں زمین سے اوپر اُبھری ہوئی نظر آتی ہیں ان میں سانگلہ ہل، شاہ کوٹ کی پہاڑیاں اور چینوٹ کے قریب کیرانہ کی چٹانیں شامل ہیں۔ کراچی سے قریب ترین علاقہ جہاں یہ چٹانیں ملتی ہیں وہ ننگرپارکر (تھرپارکر) پہاڑیوں کا ہے جہاں گلابی سنگ سیال (Pink Granite) ملتا ہے۔
کراچی اور اس کے اطراف میں کئی چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں یا ہموار سطح کے ٹیلے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے ملیر وادی میں کورنگی، ابراہیم حیدری اور سی-او-ڈی کی پہاڑیاں، وادی لیاری میں کوہ سار (ہل پارک)، گلستان جوہر اور کراچی یونیورسٹی کی پہاڑیاں۔ ان پہاڑیوں کی ڈھلوانوں میں منچھر طبقہ عصر کی چٹانیں موجود ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں جن میں پتھروں کی پرت عموماً افقی سطح میں پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں دراصل ابھری ہوئی سطح مرتفع (Hoarst) ہیں جنہیں چھوٹے پیمانے پر رونما ہونے والے پشتہ دار پہاڑ (Block Mountains) کہا جاتا ہے۔ ان کا وجود اس بات کی علامت ہے کہ پلائس ٹوسین دور سے ہی اس علاقے میں زمین کی شکست و ریخت شروع ہوچکی تھی۔
مُلری ہلز کے پتھروں کی مختلف اقسام
منچھر اور گاج دور میں تعمیر ہونے والی کراچی کی سطح مرتفع میں ترتیب تہہ داری (Stratigraphy) کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ملبے کے اجتماع میں ماحولیاتی یکسانیت نہیں ہے، یعنی کچھ تہیں تو سنگ ریزوں سے بنی ہوئی سنگ متفرقات (Conglomerates) ہیں، کچھ باریک ذرات کی مٹی اور کچھ ریت کی چٹانوں پر منحصر ہیں۔ ابتدا میں ذکر کی گئیں تہوں سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ ملبے کا آبائی علاقہ بڑی تیزی سے بلندی کی طرف مائل تھا اور اس زمانے میں بہنے والے ندی اور نالوں میں پانی کا اخراج بھی زوروں پر تھا جس کا سبب زیادہ بارشوں کا نظر آتا ہے جس سے پانی کی فراوانی اور علاقے کی ناہمواری کی وجہ سے پانی کی تیز رفتاری میں تخریبی قوت زیادہ تھی۔
اس کے بعد ان سنگریزوں پر موٹے ذرات کی مٹی جمع ہوتی نظر آتی ہے جس سے اندازہ لگایا گیا کہ آبائی علاقے میں چٹانوں کا اُبھرنا تقریباً ختم ہوچکا تھا اور سطح زمین کی ناہمواری معتدل میدانی شکل (Peneplain) بنتی جارہی تھی۔ اس مٹی کے اوپر بہت باریک مٹی کی چادریں ہیں جو اس بات کا اشارہ کرتی ہیں کہ ندی، نالوں کی رفتار میں ٹھہراؤ پیدا ہوچکا تھا اور جہاں کہیں نشیبی علاقے ملتے تھے وہاں پانی ساکت حالت میں جمع ہوجاتا تھا۔
انسان غاروں میں زندگیاں گزارتے تھے
ان باریک ذرات والی چکنی مٹی میں بھی کاغذی موٹائی کی تہیں نظر آتی ہیں جو سالانہ موسمی حالات کو ظاہر کرتی ہیں، پھر اس چکنی تہہ پر ریتیلے پتھر یا سنگ ریگ کی چادر بچھ جاتی ہے جو آب و ہوا کے خشک دور کی نشاندہی کرتا ہے۔ جب تیز ہوا سے ریت پورے علاقے کو ڈھانپ لیتی ہے تو اس کی موٹائی کہیں کم اور کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ان ریت کے ٹیلوں پر اُگنے والے نباتات کی جڑیں اور ان میں رہنے والے کیڑوں مکوڑوں کے بل پتھر میں جم کر محفوظ ہوچکے ہیں جو اس زمانے کے حیاتیاتی اقسام کا پتا دیتے ہیں۔ اس میں بعض جگہ مرنے والے بڑے جانوروں کی ہڈیوں کے نشانات یا حنوط شدہ باقیات بھی موجود ہیں جن سے حیاتیاتی آثار کے ماہرین اس دور کی طرز زندگی اور قدیم معاشی حالات (Palaeoecology) کا مطالعہ کرتے ہیں۔
میسولتھک دور کی قدیم انسانی بستی
کراچی کے میدانی علاقے پر بچھا ہوا ملبہ اس شدید دباؤ سے نہیں گزرا جس میں مربوط آب و ہوا اور دیگر عوامل خلفشار پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ چکر دوبارہ، سہ بارہ چلتا رہتا ہے جس کی وجہ سے اس کی تہیں انتہائی سختی اختیار کرلیتی ہیں اور ان کے معدنی ذرات تک اپنی ہئیت تبدیل کرلیتے ہیں۔ مثال کے طور پر چکنی مٹی کی تہیں شکن دار پہاڑی علاقوں میں صلصالی (Shale Rock) چٹانوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں مگر منچھر اور گاج طبقے کی چٹانیں جو کراچی کے علاقے میں پھیلی ہوئی ہیں، وہ بھی آج سے کروڑوں برس بعد اس عمل سے گزریں گی۔
کراچی سمیت سندھ کے بقیہ علاقوں میں پائی جانے والی چٹانوں کا رنگ عموماً بھورا اور گہرا زرد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ریت میں ایلومینیم، فاسفیٹ اور لوہے کے مُرکبات کی آمیزش زیادہ ہے۔ یہ ریت فصل دوم کی ریت (Second Generation Sand) ہے جس میں ابرق کی مقدار بہت کم اور ریت کے دانے چھوٹے، کم نوکیلے (Sub-engular) یا گولائی میں ہوتے ہیں۔ دریائے سندھ سے بہہ کر آنے والی ریت جو کوہِ ہمالیہ کے سلسلے سے بہہ کر آتی ہے، اس ریت کے مقابلے میں سفید رنگت کی ہے جبکہ اس میں ابرق کے ذرات نسبتاً زیادہ ہیں۔
دورِ قدیم کے انسان مچھلیوں کا شکار کررہے ہیں
اب اگر وادی لیاری کی بات کریں تو یہ ایک کاسی لف (Syncline) وادی ہے۔ چٹانوں کے درمیان سے اگر ایک عمود (Axis) گرایا جائے تو عمود کے مخالف سمت میں جھکاؤ رکھنے والی چٹانوں کو کوہانی لف (Anticline) جبکہ عمود کی جانب جھکاؤ رکھنے والی چٹانوں کو کاسی لف کہا جاتا ہے۔ کراچی سے لسبیلہ تک کوہانی لف پہاڑوں اور کاسی لف وادیوں کا ایک ایسا متوازی سلسلہ ہے جوکہ ایسی ارضی حرکات کی وجہ سے رونما ہوا ہے جن کو ماقبل ہمالین کوہ سازی (Pre-Himalayan Orogeny) کہا جاتا ہے۔
وادی لیاری کا چٹانی سلسلہ
لیاری وادی کھیرتھر پہاڑی سلسلے کے انتہائی جنوب میں کوہانی لف اور کاسی لف سلسلے میں واقع ہے۔ اس وادی کا مرکزی بہاؤ کراچی کے شمال میں کھبڑی (Khabadi) کی پہاڑیوں سے نکل کر شمال مغرب میں چورن واری (Choran Wari) گھوڑا لکی (Ghorra Luki) اور اورنگی کی پہاڑیوں اور جنوب مشرق میں مُلری ہلز کے درمیان سے گزرتا ہوا سینڈس پٹ کے قریب سمندر میں گرتا ہے۔
1970ء کے دہائی میں کراچی کے 40 کلومیٹرز کے دائرے میں پروفیسر عبدالرؤف خان نے انسان کی قدیم آبادیوں پر تحقیق کی جس کے بعد تمام تحقیقات کی بنیاد وہی تحقیق رہی۔ اس تحقیق سے ڈاکٹر صاحب کو ’میسولتھک‘ (12000 اور 8000 قبلِ مسیح) یعنیٰ درمیانی سنگی زمانے کی بستیوں کے نشان ملے تھے۔ یہ ’پیلیولتھک‘ اور ’نیولتھک‘ کے درمیان کا زمانہ ہے۔
غار میں کندہ میسولیتھگ دور کا آرٹ
پیلیولتھک اور نیولتھک ادوار
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ’شمال سے جنوب کی طرف بہنے والے بارش کے پانی کی گزرگاہوں کے کناروں پر ایسی کئی بستیوں کے نشان ملے ہیں جن میں سے کچھ وقتی پڑاؤ ہیں جبکہ کچھ مستقل بستیاں بھی ہیں۔ ان اوائلی بستیوں سے آخری پیلیولتھک زمانے کے کئی اوزار بھی ملے ہیں۔ یہاں مائیکرو بلیڈ اور درانتی شکل جیسے کئی اوزار موجود ہیں۔‘
اب تک آپ نے جو کچھ پڑھا یہ اس قدیمی اور سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کیا ہوا اس سلسلے کا پہلا پڑاؤ ہے۔ ہمارے اس سفر میں ہمارے ساتھ آرکیالوجی اور اینتھروپولوجی کے ماہرین بھی سفر کررہے ہیں جن سے ضرورت پڑنے پر ہم معلومات حاصل کرتے رہیں گے۔ ہمارے ساتھ پروفیسر عبدالرؤف خان کے ساتھ ایچ-ٹی-لئمبرک، پائلو بیگی، علی احمد بروہی، ذوالفقار علی کلہوڑو کے ساتھ جیولوجی کے اُستاد بھی ہیں جو یقیناً وقت پڑنے پر ہماری مدد کریں گے۔ تو بہت جلد ملتے ہیں کراچی کی کتھا کے اس سفر کے اگلے پڑاؤ میں!
حوالہ جات |
کراچی: صدیوں کی کتھا! (تیسری قسط) | اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کا مُستقبل ماضی کے بغیر ہو؟ کیونکہ دن دن سے اور پل پل سے جُڑا ہوتا ہے۔ جس طرح ہم گزرے دن کو بھی کل کہتے ہیں اور آنے والے دن کو بھی کل کہتے ہیں، اس لیے کیونکہ کل اور کل میں جو آج ہے وہ ایک کڑی ہے جو دونوں کو آپس میں جوڑ کر رکھتی ہے۔ تو ہم اگر کبھی تنہائی میں کچھ پل نکال کر سوچیں کہ ہماری جتنی بھی زندگی گزری خواہ وہ 24 برس ہو، 64 کی یا 84 برس ہو، ہم یہ حیات اسی صورت میں گزار پاتے ہیں جب ہم اپنے گزرے برسوں اور شب و روز سے جُڑے رہتے ہیں۔
اگر لوگوں، قوموں اور تہذیبوں سے اُن کا ماضی چھین لیا جائے تو وہ شاید زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ پائیں گی۔ اُن میں آگے بڑھنے کی چاہت ختم ہوجائے گی، تگ و دو کا جوہر ان سے چھن جائے گا بالکل ایسے جیسے کسی وجود کو الزائمر کی بیماری لگتی ہے اور اُس کی یادداشت کے خلیے بے جان ہونے لگتے ہیں۔ آپ یہ سمجھیں کہ یہ بیماری اُس سے اُس کا ماضی چھین لیتی ہے۔ اور وہ اِسی کیفیت میں زیادہ زندگی نہیں جی سکے گا اور اگر جیے گا بھی تو حیات کے اُن رنگوں، ذائقوں اور کیفیتوں کے ریگستان میں جہاں موت کی ویرانی کے سوا کچھ نہیں بچتا۔ نہ رنگوں کے پھول کھلتے ہیں، نہ ذائقوں کی خوشبو کا کوئی جھونکا آتا ہے اور نہ غم و خوشی کی کوئی فاختہ اُڑتی ہے اور نہ آسمان کی نیلاہٹ کے گہرے رنگ میں کشش کی کوئی ناؤ چلتی ہے۔ بس ایک بے رنگ اور بے ذائقہ حیات۔
ہمارا آج کا سفر بھی سمندر کنارے اور ان پہاڑیوں کے جنگلات، آبشاروں، غاروں اور قدامت کی ان پگڈنڈیوں پر ہی ہے مگر آج ہمیں ڈاکٹر عبدالرؤف کی کراچی ریجن پر کی گئی تحقیق اور اُس تحقیق پر پاؤلو بیگی کی تازہ تحقیق پر تفصیلی بات کرنی تھی، لیکن جیسے ہی ہم سفر کرنے کی تیاری میں تھے تو ہمارے ساتھیوں میں سے کسی نے دو تین سوال کر ڈالے کہ کھیرتھر کے اس پہاڑی سلسلے پر ارتقا کا عمل کتنا قدیم ہوسکتا ہے اور ڈاکٹر عبدالرؤف سے پہلے بھی کراچی پر اس حوالے سے تحقیق ہوئی ہے یا نہیں؟
مختلف زمانوں کے نام اور ان کی عمریں—تصویر: ایکس
یہ سوالات اپنی جگہ پر اہم ہیں اور ان سوالات کا جواب ڈاکٹر صاحب کی رپورٹ ’اینشیئنٹ سیٹلمنٹس ان کراچی ریجن‘ (Ancient Settlements in Karachi Region) میں ضرور موجود ہوگا۔ مگر میں یہاں ہربرٹ جارج ویلز (Herbert George Wells) کی مشہور تحقیقی کتاب ’دی آؤٹ لائن آف ہسٹری‘ سے دو نقشے آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں جو آج سے 25 اور 50 ہزار سال پہلے کے جغرافیائی حالات کو ظاہر کرتے ہیں۔
50 ہزار سال پہلے کا نقشہ
50 ہزار برس پہلے والے نقشے کو دیکھیں گے تو آپ کو میدانی اور ریگستانی سندھ، پورا پنجاب، گنگا گھاٹی پانی کے نیچے نظر آئیں گے جبکہ سندھ کے مغربی اونچائی والے پہاڑی سلسلے اور بلوچستان آپ کو پانی سے آزاد نظر آئیں گے۔ جبکہ 35 سے 25 ہزار برس پہلے والے نقشے میں آپ کو سندھ کے میدانی اور ریگستانی حصے چولستان اور کَچھ پانی کے نیچے نظر آئیں گے اور باقی بہت سارے علاقوں سے پانی زمین کو چھوڑ چکا ہے۔ ایسے منظرنامے کو ذہن میں رکھ کر مانیک بی پٹھاوالا (Maneck B Pithawala) تحقیق پر مبنی اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ یہ ماحول انسان کی خوراک اور ترقی کے لیے انتہائی شاندار تھا۔
35 سے 25 ہزار برس پہلے والے نقشے
ڈاکٹر عبدالرؤف صاحب سے پہلے ہیو ٹریور لیمبرک (Hugh Trevor Lambric) نے انتہائی تفصیل سے سندھ کی ارضیات اور اُس کی تاریخ اور تاریخی مقامات پر تحقیق کی۔ نانی گوپال ماجمدر (Nani Gopal Majumdar) نے اس پہاڑی سلسلے کی تاریخ سے پہلے کے مقامات کی کھدائی اور سروے کیا تھا۔ 1976ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے پاکستان آرکیالوجی پر کام کرنے کے لیے آرکیالوجسٹ بریجٹ آلچن (Bridget Allchin) اپنے شوہر آلچن کے ہمراہ یہاں آئی اور اس نے تقریباً پورے پاکستان میں تحقیقی کام کیا۔
اس حوالے سے اس کی کتاب ’دی رائز آف سیویلائزیشن اِن انڈیا اینڈ پاکستان‘ شائع ہوئی جس میں اُنہوں نے پاکستان کی آرکیالوجی سائٹس کے حوالے سے انتہائی اہم تحقیق کی اور تحقیق کی بنیاد پر کہا کہ یہاں خاص طور پر سندھو گھاٹی کے جنوبی اور مغربی کنارے کے اطراف جن میں ملیر اور لیاری ندی کے بیچ اور اُس سے مغرب حب، لسبیلہ اور شمال بلوچستان میں، آخری پلائسیٹوسین پیلیولیتھک لوگوں کے رہنے کے لیے مناسب ماحول تھا کیونکہ یہاں کے جغرافیائی حالات جو دریائے سندھ کے بہاؤ کی وجہ سے تخلیق ہوئے تھے اُن میں جنوب مغرب میں میسولیتھک اور پیلیولیتھک صنعتیں موجود تھیں۔
ہولوسینو زمانے میں انسانی بستی
دریائے سندھ کے بہاؤ کے مغرب میں سلیمان اور کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے ہیں جبکہ اُس کے مشرق میں ریگستان کا ایک وسیع بیلٹ ہے۔ دریا نے ان دونوں کے بیچ میں اپنے بہاؤ کے ساتھ لائی ہوئی مٹی کی ایک زرخیز تہہ جمائی جو دونوں طرف رہنے والوں کے لیے ایک پُرکشش علاقہ بنا ہوگا کیونکہ میٹھے پانی کے ساتھ گھنے جنگلات، جنگلی حیات اور نباتات کی ایک وسیع کائنات اُس میں سمائی ہوئی تھی۔
اس محقق جوڑے نے جنوبی بلوچستان میں بالاکوٹ، سندھ میں کراچی، گُجو، اونگر، حیدرآباد، عمرکوٹ، کوٹڈیجی، روہڑی، موہن جو دڑو، آمری، شمالی بلوچستان میں جھڈیر، مہرگڑھ، پیرک (سبی)، پنجاب میں ملتان سے دیرہ جات، گومل، لاہور، ٹیکسلا، پشاور تک تحقیقی کام کیا تھا اس لیے اُس کی رائے کی خاص اہمیت ہے۔
اس سفر میں ہم جب سندھو گھاٹی تہذیب اور زرعی بستیوں کی بات کریں گے تو ہمیں اُمید ہے کہ بریجٹ اور آلچن ہماری ضرور مدد کریں گے۔ اب ہم پروفیسر عبدالرؤف خان کی تحقیقی رپورٹ کی بات کرتے ہیں جو جنوبی سندھ کے سمندری کنارے اور برساتی ندیوں، یہاں قدیم انسان اور ماحول کے حوالے سے انتہائی اہم تحقیق ہے۔ چونکہ یہ ایک طویل رپورٹ ہے جس کو مکمل طور پر یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے تو کوشش کرتے ہیں کہ اس کا لُب لباب یہاں بیان کیا جا سکے۔ اس تحقیق سے یہ سمجھنے میں آسانی رہتی ہے کہ منگھو پیر، مول، ملیر، لیاری، کھدیجی اور کھیرتھر پہاڑی سلسلے پر وہ کیا معروضی حالات تھے جن کی وجہ سے یہاں ابتدائی انسان کے رہنے کے لیے سازگار ماحول بنا۔
کھدیجی اور مول کی وادیاں
مسلسل ارضیاتی تبدیلیوں جن کا ذکر ہم ابتدا میں کرچکے ہیں، ان کی وجہ سے یہاں کا لینڈ اسکیپ اس طرح کا تخلیق ہوگیا تھا جس کے ایک طرف سمندر تھا، پانی کے چشمے تھے، پہاڑوں سے سمندر تک برساتی پانی کی ندیاں بہتیں اور یہاں گھنے جنگلات موجود تھے۔ ان تمام عناصر کی وجہ سے یہاں ایک ایسے ماحول نے جنم لیا جہاں میٹھے پانی، درختوں اور خوراک کی کمی نہیں تھی بالخصوص مچھلی اور دوسرے جانوروں کی بڑی تعداد یہاں موجود تھی۔
عبدالرؤف خان کہتے ہیں کہ چونکہ آج کے دور میں ہزاروں برس کا لینڈ اسکیپ تبدیل ہوگیا ہے مگر پھر بھی اس پہاڑی سلسلے پر ہزاروں خاندان اپنی زندگی گزار سکتے ہیں اور گزار بھی رہے ہیں۔ کراچی کے اطراف میں اب تک جو قدیم بستیاں ریکارڈ ہوئی ہیں اُن میں امیلانو، اورنگی، منگھوپیر، گجرو، نل بازار (الھڈنو بستی)، لسبیلو اور گُجو شامل ہیں جنہیں ’نیولیتھک دور‘ (2200 سے 1000 قبل از مسیح) کی قدامت کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالرؤف کی تحقیقی رپورٹ میں موجود نقشہ
ڈاکٹر عبدالرؤف ایک بستی ’گزکل‘ کا بھی ذکر کرتے ہیں جو کراچی سے سیوہن جانے والے قدیم راستے پر امیلانو سے فقط 5 میل اور الھڈنو بستی سے 3 میل کے فاصلے پر ہے۔ اس بستی کے قریب ایک طویل گبر بند (گبربند اُس خاص پشتے کو کہا جاتا ہے جو ارتقائی انسان پتھروں سے اس لیے بناتے تھے تاکہ پہاڑیوں سے آنے والے برساتی پانی کو روک کر اُس پانی کو اپنی مرضی سے استعمال کیا جا سکے، خاص طور پر زراعت کے لیے اور پانی کو طویل عرصے محفوظ رکھنے کے لیے ایسا کیا جاتا تھا۔ اس طرح کے قدیم پشتے کراچی سے جیکب آباد تک دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ انہیں ایران کے زرتشتیوں سے جوڑا جاتا ہے کیونکہ انڈس ویلی اور ایران کے آپس میں انتہائی قدیم اور دلچسپ رابطے رہے ہیں بلکہ ایک زمانے میں سندھ ایران کا صوبہ بھی رہا ہے۔ گبربند (پشتہ) ایک دلچسپ ایجاد تھی جس سے متعلق ہم آنے والے دنوں میں ضرور تفصیل سے بات کریں گے) کا ذکر کیا ہے جو ’تڑ واری‘ برساتی بہاؤ پر بنایا گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کراچی کے قرب و جوار میں 6 ایسے پشتوں کی بات کرتے ہیں۔ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ ان کی تعداد 6 سے زائد ہے۔
ڈاکٹر عبدالرؤف کی تحقیق میں کھدائی کے دوران ملنے والے اوزار
کھدیجی آبشاروں کے اوپر ایک قدیم انسانی بستی ہے جہاں پتھروں کی ایک دیوار موجود ہے جس کو مقامی لوگ کوٹاری (کوٹ والی) مقام کے نام سے بلاتے ہیں۔ دوسری بستی کونکر میں تھدھو ندی کے قریب کارو جبل کے پاس ہے۔ مگر کوٹاری مقام کی اپنی ایک الگ اہمیت ہے۔ یہ چھوٹی سی بستی اُس پہاڑی پر تھی جہاں سے کھدیجی وادی پر دُور دُور تک نظر رکھی جا سکتی ہے جبکہ اس مقام کے نیچے ایک خوبصورت آبشار ہے جس کا پانی وادی سے بہتا آگے جا کر مول ندی میں مل جاتا ہے۔ یہ بات بھی ممکن ہے کہ پرانے زمانے میں اس آبشار میں کافی پانی بہتا ہو اور بہتا ہوا ڈملوٹی تک پہنچتا ہو کیونکہ ملیر میں ڈملوٹی سے نکلنے والے پانی کا مرکزی مقام کھدیجی ہی رہا ہے۔
کھدیجی کی پہاڑیاں اور وادیوں کو ہم ارتقائی انسان کی بستیوں میں شامل کرتے ہیں
کھدیجی کی پہاڑیاں اور وادیاں وادی سندھ کی تہذیب سے پہلے کے آثار ہیں جس کو ہم ارتقائی انسان کی بستیوں میں شامل کرتے ہیں اس لیے کیونکہ وہاں وہ سارے اسباب موجود تھے جن میں ارتقائی انسان پنپ سکتا تھا جیسے شب و روز گزارنے کے لیے غاریں جو زیادہ ٹھنڈ، بارش، شدید گرمی، جانوروں کے حملے سے تحفظ فراہم کرتی تھیں، پانی کی فراوانی مطلب خوراک اور تحفظ فطری طور پر وہاں موجود تھا اس لیے اس کو یقینی طور پر نیولیتھک زمانے کی قدیم بستی کا اعزاز دے سکتے ہیں۔
محترم عبدالرؤف خان سندھ اور بلوچستان کے جنوبی حصے پر اور بھی تفصیل سے باتیں کرتا ہے جو دلچسپی سے خالی نہیں ہیں وہ میگالتھک (اس سے مراد وہ بڑے پتھر ہیں جو مرنے والوں کی یاد میں گاڑے گئے یا پتھریلا اسٹرکچر تعمیر کیا یا بنایا گیا، یہ انسان کی ترقی کی ایک اور منزل تھی جس کا زمانہ 2500 قبل از مسیح سے 200ء تک مانا جاتا ہے) بھاری پتھروں کی قبروں کی بھی بات کرتا ہے جو کراچی کے آس پاس ہیں اور جنوبی ہندوستان کے تسلسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ مول وادی کی کچھ محفوظ قبروں کا ذکر کرتا ہے جنہیں بھاری لمبے پتھر سے ڈھانپا گیا ہے ان میں سے کچھ قبریں 8 فٹ تک لمبی ہیں۔
عبدالرؤف خان کے مطابق یہ ڈملوٹی والی پتھروں کے زمانے کی قبروں سے مختلف ہیں اور ساتھ میں وہ حب وادی میں بڑے بھاری پتھروں سے بنائے ہوئے دائروں کی بھی بات کرتا ہے۔ ہمارے نصیب شاید اچھے ہیں کہ میگالتھک زمانے کے سندھ اور بلوچستان کی ان یادگاروں پر تحقیقی کام کرنے والے محترم ذوالفقار کہلوڑو صاحب بھی اس سفر میں ہمارے ساتھ شامل ہیں۔ ڈاکٹر عبدالرؤف صاحب اور بیگی صاحب کی تحقیق کے بعد ہم کلہوڑو صاحب سے اس زمانے کے متعلق ضرور تفصیلی بات کریں گے کیونکہ جس تسلسل کے ساتھ ہم آگے بڑھ رہے ہیں اُس میں یہ انتہائی اہم ہے کہ ہم انسانی ترقی کے ہر زمانے کے متعلق جانتے ہوئے آگے بڑھیں۔
ڈاکٹر عبدالرؤف خان کی تحقیقی رپورٹ میں کراچی ریجن کے قبلِ تاریخ دور سے پہلے کے مقامات
سمندر کے ساحلی حصے اور قدیم پتھر کے زمانے پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب جغرافیائی تبدیلیوں کا ذکر کرنا انتہائی ضرور سمجھتے ہیں۔ اُس کی مطالعہ اور تحقیق کے مطابق دلچسپ اور اہم بات اس خطے میں مائیکرولیتھس کی موجودگی ہے جن کا تعلق پہاڑیوں کی وادیوں اور اُن میں پانی کی چھوٹی چھوٹی گہرائیوں میں سے اُڑتی ہوئی پُرانی ریت سے ہے۔ جھیلوں کی طرح چھوٹے چھوٹے بہاؤ کی یہ گہری نشانیاں آخری برفانی زمانے کی بھی ہوسکتی ہیں۔
میسولیتھک اور آخری پیلیولیتھک دور کی ہمیں جو بستیاں ملی ہیں وہ گڈانی سے دھابیجی اور جنگشاہی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ان میں پہاڑیوں سے بہنے والے بہاؤ، کَلو، رن پٹیانی، کھدیجی، مول، تھدھو اور دوسری بارشی ندیوں کے قریب بہت بستیاں ملتی ہیں۔ ایک بستی یونیورسٹی کیمپس کے قریب تھی اور ایسی بستیوں کا سلسلہ حب ڈیم سے منگھوپیر پہاڑیوں تک پھیلا ہوا ہے ان پہاڑیوں میں اب بھی 12 سے زائد پانی کے چشمے ہیں جن میں سے کچھ خشک ہوچکے ہیں۔
ان بستیوں سے جو اوزار ملے ہیں اُن کے متعلق سماجی ارتقا کی بنیادوں پر آرکیالوجی کے ماہرین یہ رائے دیتے ہیں کہ سندھ اور بلوچستان کے میسولیتھک یقینی طور پر مچھلی اور جانوروں کے شکاری تھے، سمندر کے کناروں پر انہیں بھوک مٹانے کے لیے بہت سی آبی خوراک باآسانی سے مل جاتی ہوں گی جیسے سیپیاں، کچھوے، کیکڑے وغیرہ۔ ممکن ہے کہ اور بھی دیگر آبی مخلوقات بھی انہیں باآسانی کناروں پر سے مل جاتی ہوں جو اُن کے لیے پروٹین سے بھری شاندار خوراک ثابت ہوتی ہوں گی اور کم پانی والی جھیلوں سے وہ اپنی خوراک کے لیے مچھلیاں پکڑ لیتے ہوں گے۔
سندھ اور بلوچستان کے میسولیتھک یقینی طور پر مچھلی اور جانوروں کے شکاری تھے
اس کے علاوہ کچھ بستیوں سے مختلف جانوروں کی ہڈیاں بھی دریافت ہوئی ہیں۔ اور ان حقائق کی وجہ سے یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ شکار کے بہت سے ہتھیار لکڑیوں سے بنائے گئے ہوں گے۔ چونکہ ان ہتھیاروں کا ملنا انتہائی مشکل ہے اور اگر یہ مل جاتے ہیں تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا۔
ارتقائی انسان کے زمانے پر تحقیق کرنے والے محقق تاج صحرائی کہتے ہیں کہ ’سندھو دریا اور بہت زیادہ بارشوں کی وجہ سے یہاں گھنے جنگل اور قدآور درخت تھے کیونکہ اُس وقت کے معروضی حالات میں ممکن تھا۔ جنگلی بھینسیں، چیتے، جنگلی ہرنوں کی مختلف اقسام تھیں جن کے فوسلز (فوسلز پودوں اور جانوروں کی محفوظ باقیات کو کہا جاتا ہے جو ریت اور کیچڑ، قدیم سمندروں، جھیلوں اور دریاؤں کے نیچے دب جانے اور مخصوص ماحول ملنے سے پتھر میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ان کی کم سے کم عمر بھی 10 ہزار قبل از مسیح مانی جاتی ہے) ملے ہیں۔
موجودہ دور میں ان ہتھیاروں کا ملنا انتہائی مشکل ہیں جوکہ شکار کے لیے استعمال ہوتے تھے
’بالکل ایسے دریاؤں میں ڈولفن اور گھڑیال بھی رہتے تھے۔ دریاؤں اور جھیلوں میں مچھلیاں بہت تھیں تو یہاں کناروں پر بسنے والوں کو فش ایٹرز کہا جاتا ہے۔ میرے پاس گندم کے خوشے کا فوسلز موجود ہے۔ بلکہ میرے پاس قدیم زمانے کی حیات کے فوسلز کی ایک وسیع کلیکشن موجود ہے‘۔
ڈاکٹر صاحب آخری پیلیولیتھک دور کے اوزاروں (آخری پیلیولیتھک دور، نیولیتھک دور کی ابتدا پر ختم ہوا) کے متعلق کہتے ہیں کہ دو انچ سے کم مگر ایک تیز دھار چُھری جیسا کاٹنے کا اوزار کھدیجی وادی سے ملا ہے اور حب کے قریب بھی ایسے اوزار دریافت ہوئے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیلیولیتھک بستیوں میں سے کچھ بستیوں پر میسولیتھک زمانے کے لوگ آباد رہے ہوں گے۔
سندھو دریا کی پرانی بستیوں میں فوسلز بھی ملے ہیں
کچھ بستیوں میں ان کے رہنے کی نشانیاں نہیں ملتیں۔ مگر کونکر، لانڈھی کے جنوب میں، واگھو ڈر (ریڑھی میان) کے قلعے کی دیوار سے جو نوکدار اور تیز دھار والے تیر کی طرح ہتھیار ملا ہے وہ میسولیتھک دور کے ہتھیاروں سے بالکل الگ ہے۔ جس سے لگتا ہے کہ یہ آخری پلائسٹوسین کے زمانے کا ہے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس جگہ پر انسانی سرگرمی اس سے بھی قدیم رہی ہوگی۔
ڈاکٹر صاحب کی طویل تحقیقی رپورٹ سے آپ نے اہم باتیں ملاحظہ کیں۔ یہ ایک انتہائی حیرت انگیز تحقیق تھی۔ اس اہم تحقیق پر پائلو بیگی نے مختلف ادوار پر ترقی یافتہ سائنسی بنیادوں پر تحقیق کی جو اب میں آپ کو بتانے جارہا ہوں۔ بیگی صاحب کی تحقیق کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ یقیناً حیران ہوں گے۔ مگر اس رپورٹ سے پہلے اپنے ذہن سے موجودہ کراچی کی تصویر کو بالکل مٹادیں کیونکہ اگر موجودہ منظرنامہ آپ کے ذہن میں رہا تو گزرے زمانوں کو سمجھنے میں ضرور مشکل ہوگی۔
گزشتہ حصوں میں ہم نے اُن زمانوں کے اسکیچ اس لیے شیئر کیے تھے تاکہ ہم اُن زمانوں کے لینڈ اسکیپ کے منظرنامے آپ کے ذہن میں بُن سکیں۔ یہ تو ہزاروں برسوں کی کتھا ہے آپ سوچیں جب آپ فقط 100 برس سے بھی کم وقت پرانی عبداللہ شاہ غازی کے مزار کی ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر دیکھتے ہیں جہاں ایک ٹیلے پر درگاہ بنی ہوئی ہے اور وہ دیکھ کر ہم سب حیران رہ جاتے ہیں کہ ایک سو برس میں اتنی تبدیلی کیسے آگئی؟
میسولتھک دور میں انسانی بستیاں
مگر چونکہ ماضی کے مقابلے میں حال میں انسان میں ہر حوالے سے تیزی آئی ہے۔ مگر اس تیزی کی بنیادیں کم سے کم بھی 25 ہزار برس قبل مسیح کے پُرخطر، پُراسرار، پُرآشوب اور اچانک آجانے والے خطرات اور خوف سے بھری پڑی تھیں۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایک زمانے میں کراچی کے ان ساحلوں پر Giant Mangrove کے گھنے جنگلات تھے یہ تمر کے جنگلات کی وہ نسل ہے جو دیو ہیکل کہلاتی ہے؟ آنے والے سفر میں ہم تمر کے اُن دیوہیکل درختوں کے جنگلات میں بھی جائیں گے۔
حوالہ جات |
کراچی: صدیوں کی کتھا! (چوتھی قسط) | اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
ہم نے کوشش کی ہے کہ گزرے وقت کے دریا کو کوزے میں بند کرسکیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی علاقے کے حوالے سے اس وقت سے بات کرنا جب جغرافیائی طور پر وہ بننے کی اُدھیڑ بن سے گزر رہا تھا اور پھر بالترتیب اس کے گزرے ادوار پر لکھنا جس پر سائنسی بنیادوں پر تحقیق کچھ زیادہ نہ ہوئی ہو انتہائی مُشکل کام ہے۔
مگر ہماری مشکل اس وقت آسان ہوجاتی ہے جب دنیا کے آرکیالوجسٹ اس بات پر متفق ہوتے ہیں کہ دنیا کے گرم یا ٹھنڈے خطے جو انسان کی جنم بھومی رہے یا ابتدائی ارتقائی عمل سے گزرے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں وہاں وہ کم و بیش ایک ہی طرح کے ارتقائی عمل سے گزرے ہیں۔ یہ ارتقائی سفر کہیں سُست، کہیں تیز تو کہیں مناسب رفتار سے آگے بڑھا اور اس تیز، سست اور معمول کی رفتار کے اسباب وہاں کے معروضی حالات تھے کیونکہ جب انسان ایشیا اور یورپ میں ارتقائی منازل طے کررہا تھا تو مشرقی افریقا میں بھی ارتقائی عمل جاری تھا۔
نوح ہراری تحریر کرتے ہیں کہ ’انسانیت کا گہوارہ کئی نئی اسپیشیز کی پرورش کرتا رہا جن میں سے ایک ہم بھی تھے، ہوموسیپیین یعنی ذہین آدمی۔ مطلب یہ کتنا زبردست ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو ہی یہ اعزاز دے دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تقریباً 20 لاکھ سال پہلے سے لےکر 10 ہزار برس قبل تک یہ زمین مختلف انسانی نوع کی بیک وقت میزبان تھی۔ 10 لاکھ سال پہلے زمین پر انسانوں کی کم از کم 6 نسلیں موجود تھیں۔ مگر اب ہم اکیلے رہ گئے ہیں جوکہ ایک حیرت انگیز بات ہے‘۔
فی الوقت ہم انسانی ارتقائی سفر سے متعلق نوح ہراری کی بات کو یہیں تک ہی بیان کرتے ہیں کیونکہ آج کا ہمارا سفر فقط اتنا ہی بتانے کی اجازت دیتا ہے۔ جیسے جیسے انسانی دماغ ترقی کرتا جائے گا اور جنگلوں اور غاروں سے بستیوں کی زندگی میں قدم رکھے گا وہاں سے ایک تہذیب کا باقاعدہ آغاز ہوگا اور یوں ہم انسان کی ترقی کی چھوڑی ہوئی کتھا کو دوبارہ یہیں سے منسلک کریں گے۔
قدیم دور کے انسانوں کے ہتھیار
گزشتہ تحریر میں ہم نے محترم ڈاکٹر عبدالرؤف خان کی تحقیق پر مختصراً بات کی تھی جبکہ آج کے اس سفر میں ہم کوشش کریں گے کہ پائلو بیگی کی تحقیقی رپورٹس کا ذکر کرسکیں جو اس نے ڈاکٹر خان کی تحقیق کی بنیاد پر تحریر کی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کوشش کریں گے آج کے اس سفر میں محترم ذوالفقار کلہوڑو صاحب سے یہاں کے اطراف میں پھیلے ہوئے میگالتھک (فنِ تعمیر کا پتھر کا دور) زمانے کے آثار پر بھی بات کرسکیں کیونکہ اس کے بعد ہمیں سندھو گھاٹی کے زمانے کی اُن بستیوں میں جانا ہے جو یہاں اس سمندر کنارے موجود تھیں۔
یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ سندھو گھاٹی میں جہاں جہاں ایسی بستیاں اپنے اپنے معروضی حالت میں پنپ رہی تھیں، درحقیقت انجانے میں وہ آنے والے دنوں کے لیے ایک تہذیب کی تخلیق کررہی تھیں جس کو آج کل ہم سندھو گھاٹی کی تہذیب یا انڈس ویلی سویلائزیشن کا نام دیتے ہیں۔ اس تہذیب کے بننے میں اس کھیرتھر پہاڑی سلسلے اور سمندر کے اس حصے کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ ابتدائی انسانی بستیوں نے یہیں پر شاندار مستقبل کی بنیاد رکھی تھی۔
میرے سامنے اطالوی محقق پائلو بیگی کی بہت سی تحقیقی رپورٹس موجود ہیں جو اُس نے سندھ کے قدیم مقامات کو کھوجنے اور سائنسی بنیادوں پر انتہائی باریک بینی سے تحقیق کرکے تحریر کی ہیں۔ کراچی کے حوالے سے اس کی تحقیق کو اس تحریر میں شامل کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ ہمارے سامنے کراچی کی قدیم سے جدید تک ایک مکمل تصویر بن سکے۔ ہم جب کراچی کے متعلق بات کریں تو تالپوروں یا برٹش راج سے کیوں کریں؟ ہمیں تو بات اُن ماہ و سال سے شروع کرنی چاہیے جس کے متعلق ابھی تک کام ہوا ہے یا تحقیق ہوئی ہے۔ اگرچہ ان رپورٹس میں سائنسی زبان کا استعمال زیادہ ہے مگر یہ اہم ہے کہ ہم اُن کو سمجھیں۔
پائلو بیگی کی پہلی رپورٹ یہاں کے ’میسولیتھک زمانے‘ (یعنی 10 ہزار سے 8 ہزار قبلِ مسیح) کے بارے میں ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’سندھ میں میسولیتھک آبادکاری کے موضوع پر تحقیق سب سے پہلے مرحوم پروفیسر اے آر خان نے 1970ء کی دہائی میں کی تھی۔ اس نے یہ تحقیق کراچی کے اردگرد 40 کلومیٹرز تک فعال بہاؤ کے درمیان ملیر کے مغرب میں اور حب ندیوں کے مشرق میں کی تھی۔ اس کے جیو آرکیالوجیکل پروجیکٹ آثار قدیمہ کی متاثر کن تعداد کی دریافت کا باعث بنے جن کا تعلق مختلف ادوار سے منسوب ہے جیسے اکیولین (Acheulian) پیلیولتھک (ابتدائی پیلیولتھک دور کے Acheulian مرحلے کے دوران جو 15 لاکھ سے 17 لاکھ سال پہلے شروع ہوا اور 2 لاکھ سے 2 لاکھ 50 ہزار سال پہلے تک جاری رہا) سے لےکر کلی کانسی (Kulli Bronze Ages) کے دور تک۔
اکیولن دور میں ہاتھ سے بنائے ہوئے پتھر کی کلہاڑیاں
بدقسمتی سے پروفیسر صاحب کے مجموعی کام کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ شائع ہوا ہے۔ پروفیسر اے آر خان کے سروے سے پہلے سندھ میں میسولیتھک دور کے بارے میں تقریباً کسی کو کُچھ معلوم نہیں تھا۔
کمانڈر کے آر یو ٹوڈ نے 1930ء کی دہائی میں زیریں سندھ کی پہلی میسولیتھک سائٹ دریافت کی۔ کراچی کنٹری گالف کلب کے اندر دریائے لیاری کے کنارے Trapezoidal Microliths (چکمک اور چیرٹ کے مخصوص پتھروں کو تراش کر ایک مخصوص شکل دے کر شکار اور دوسری چیزیں کاٹنے کے لیے ہتھیار کے طور پر بنایا گیا) پتھروں کی جو ایک بڑی مقدار ملی اس کے ملنے کا مطلب یہ تھا کہ یہاں ابتدائی انسان اپنے ماحول اور وسائل کو بروئےکار لارہا تھا۔ یعنی اُس ارتقائی انسان کی وہاں چھوٹی چھوٹی بستیاں تھیں اور وہ وسائل کے حوالے سے اُن کے ارتقائی سفر میں مدد کررہی تھیں۔ مگر بڑھتے ہوئے شہر نے کمانڈر ٹوڈ کی اس اہم کھدائی یعنی اس سائٹ کو تباہ و برباد کردیا۔
سندھ کی اپر پیلیولتھک سائٹس
یہ سائٹ اہم اس لیے تھی کیونکہ وہاں سے جو کچھ ملا تھا اُس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ آج سے تقریباً 11 ہزار 700 برس پہلے مختلف بہاؤ سے آنے والے میٹھے پانی اور سمندر کے کنارے کی وجہ سے ہولوسین زمانے کے لوگ یہاں آباد تھے اور دُور دُور تک ان کی چھوٹی چھوٹی بستیاں بسی ہوئی تھیں۔ یہ دریافت اُس زمانے کی ایک دھندلی تصویر ہمارے ذہنوں میں بناتی ہیں کہ ہولوسین جو شکار جمع کرنے والے تھے، شمالی بحیرہ عرب کے ساحل کی وجہ سے آبی گزرگاہ کے کنارے آباد تھے۔
پروفیسر اے آر خان کی دریافتوں نے بہت بعد میں دریاؤں اور ندیوں کے کنارے اور میٹھے پانی کے چشموں کے قریب یہاں پیلیولتھک اور میسولیتھک مقامات کی موجودگی کی تصدیق کی۔ انہوں نے مول، کھدیجی، ملیر اور دیگر دریائی وادیوں، مولری پہاڑیوں کے ساتھ، ریڑھی، کاڈیرو فورٹ کے کنارے کے ساتھ ان اہم قدیم مقامات کو دریافت کیا۔ یہاں ریڑھی اور کاڈیرو فورٹ دونوں ایسی سائٹس ہیں جو مولری پہاڑیوں سے جنوب مشرق میں تقریباً 15 کلومیٹرز دور ہیں اور یہ دونوں سمندر کے نزدیک دریائے سندھ کے بہاؤ پر تھیں۔
میسولتھک اور پیلیولتھک زمانے میں لیاری، مولری، ریڑھی، کاڈیرو کے مقامات
ہمارے ساتھ ڈاکٹر سید محمد اشفاق صاحب ہیں جو ایک زمانے میں محکمہ آثارِ قدیمہ و عجائب گھر کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ ان صاحب نے سمندری کناروں اور یہاں کے جزیروں کا انتہائی محنت اور گہرائی سے مطالعہ کیا تھا تو اگر ہم اُن جزیروں کے متعلق محمد اشفاق صاحب سے سن لیں تو یہ زیادہ مناسب رہے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں قدیم ڈیلٹا علاقے کے دھنسنے کی نمایاں علامتیں اس علاقے میں واقع ان بندرگاہوں سے ملتی ہیں جو غرق آب ہوچکی ہیں اور جن کی عمارتیں گہری دلدل میں گھری ہوئی اینٹوں کے ڈھیروں کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ ان میں کیٹی بندر، جونا بندر، لہاری (لاڑی) بندر، رتوکوٹ وغیرہ کے آثار ثبوت ہیں کہ گھارو اور کورنگی کی آبی گزرگاہیں جو کسی زمانے میں دریائے سندھ کے ڈیلٹا علاقے کی مخرج تھیں، اب موجودہ پورٹ قاسم کے مغرب میں ایک دوسرے میں ضم ہوگئی ہیں۔ ان دونوں مخارج کے درمیان واقع خشک پٹی یا کھپریاں والا جزیرہ بڑی حد تک زیرِ آب آچکا ہے اور اس جگہ اُگنے والی نباتات تمر سمندری جذر (Ebb-tide) کے وقت لہلہاتے کھیتوں کا منظر پیش کرتی ہے۔ اس خشک پٹی کا جنوبی حصہ جزیرہ بنڈال (بھنڈاڑ) کہلاتا ہے جو سفید ریت کے ٹیلوں سے ڈھکا ہوا ہے۔
بھنڈاڑ جزیرہ—تصویر: لکھاری
تقریباً ایک صدی پہلے اس جزیرے کے گرد ناریل کے درختوں کے جھنڈ ہوا کرتے تھے مگر اس صدی کی ابتدا میں آنے والے زلزلے کی وجہ سے اس جزیرے کی سطح کئی فٹ نیچے چلی گئی جس کی وجہ سے یہاں ناریل کے درختوں سے بھرا منظرنامہ اب ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔
شہرِ کراچی کے قریب ترین تاریخی آثار میں ایک ریڑھی میان سے کچھ کلومیٹر جنوب میں مُچک (Muchak Island) ہے جس پر رتو کوٹ کی پختہ اینٹوں کا ڈھیر ہے جو دور سے سمندر میں ایک پہاڑی کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ رتو کوٹ کا اصل نام تو معلوم نہیں البتہ سُرخ اینٹوں کی مناسبت سے سنسکرت زبان کے ان دو الفاظ کے معنیٰ لال قلعہ ہے۔ ان آثار کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عرب دور حکومت میں یہ ایک اہم تجارتی مرکز اور گھارو کی سمندری گزرگاہ پر حفاظتی چھاؤنی ہوا کرتی تھی۔
ریڑھی کے قریب قدیم قلعے کے آثار
برٹش راج میں جب ارضیاتی سروے شروع ہوا تو سندھ کے ساحل پر مستقل علامتیں نہ ہونے کی وجہ سے رتو کوٹ کے آثار کو تثلیثی نقطہ قرار دیا گیا اور اس طرح سروے میں یہ مددگار ثابت ہوا۔ پورٹ قاسم کی تعمیر سے پہلے جو سروے ہوا تھا اُس میں اسے ’کاڈیرو فورٹ‘ کے نام سے درج کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جام جونو (1352ء سے 1367ء) کے دور میں یہاں قلعہ تعمیر ہوا۔ قلعے کے کھنڈرات سے ماہی گیروں کو بنو اُمیہ اور عباسی دور کے سونے اور تانبے کے سکے اور دوسری نواردات بھی ملے۔
رتو کوٹ کے آثار—تصویر: لکھاری
اسی طرح کلفٹن کی پتھریلی پٹی، جزیرہ منوڑہ کے جنوب مغربی کنارے پر سنگ متفرقات (Conglomerate) کی دبیز تہ اور راس معاری (راس خشکی کا وہ قطعہ ہے جو دُور تک پانی میں چلا گیا ہو) سے شمال کی طرف گڈانی اور سونمیانی تک کا ساحلی علاقہ ابھرے ہوئے سمندری میدانوں اور لہروں سے تراشیدہ گھاٹوں (Wave cut Platforms) کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ اگر خلیج سونمیانی کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ کسی زمانے میں یہاں قدرے گہرا سمندر تھا لیکن زمین کے اوپر ابھرنے سے یہاں ایک خلیج برائے نام رہ گئی ہے جوکہ غالباً کچھ صدیوں کے بعد ایک ہموار میدان کی حیثیت اختیار کر لے گی۔
ڈاکٹر سید محمد اشفاق صاحب کی مختصر وضاحت سے یہاں کے اطراف میں پھیلے ہوئے کچھ قدیم جزیروں اور مقامات کا آپ کو پتا چل گیا ہوگا۔ چونکہ پائلو بیگی کی اہم تحقیق کا اگلا حصہ ان سے منسلک ہے تو اب آپ کو سمجھنے میں یقیناً آسان ہوگی۔
تمر کے دیوہیکل درخت کی ایک قسم
وہ اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ ’ڈاکٹر خان کے اس سروے نے ایک حوالے سے حیرت انگیز مقامات کو دریافت کیا اور مولری پہاڑیوں میں سے جو بستیوں کا ایک جمگھٹا ملا جہاں سے نپے تُلے سائز کے انسانی ہاتھوں کے بنائے ہوئے سنگی چاقو ملے جو ارتقائی انسان نے پتھروں کو توڑ کر الگ الگ کاموں کے لیے بنائے تھے اور وقت کے ساتھ ان کے تراشنے کے انداز میں بھی ترقی دیکھی گئی۔ سندھ میں میسولیتھک کی زرخیز وادی یہیں سے دریافت ہوئی تھیں۔ یہ اُن انسانوں کی بستیاں تھیں جنہوں نے شاید ترقی پا کر موئن جو دڑو اور ہڑاپا جیسے شہروں کی بنیادیں رکھیں۔
’ہمیں ایسی ہی دوسری بستی روہڑی کے قریب ملی ہے۔ مگر زیریں سندھ میں یہ سب سے بڑی بستی تھی۔ اور ساتھ میں ایسی نواردات بھی ملیں جنہوں نے ہمارے تصور میں ایک شاندار لینڈاسکیپ پینٹ کردیا۔ یہاں سے ایک Terebralia palustris mangrove shell ملا جس کا کاربن ٹیسٹ کرنے سے پتا چلا کہ یہ کم سے کم 7001 سے 8000 قبلِ حاضر قدیم ہے۔ یہ گھونگا سمندری پانی میں اور Giant Mangrove میں رہتا اور پنپتا تھا۔ مطلب تمر کے درختوں کی وہ نسل جو دیو ہیکل کہلاتی ہے۔ ایسی قدامت رکھنے والے گھونگے مولری پہاڑیوں سے 15 کلومیٹر جنوب مشرق میں ریڑھی کی بستی سے بھی ملے ہیں جو کاڈیرو کے قدیم بہاؤ کے کنارے پر ہے۔
یہ گھونگا سمندری پانی اور بڑے تمر کے درختوں میں رہتا اور پنپتا تھا
آپ اپنے تصور کی آنکھ سے اُن دنوں کے لینڈ اسکیپ کو بُننے کی کوشش کریں تو آپ کو منگھو پیر کی اس پہاڑی سے جنوب کی طرف یعنی ملیر اور لیاری بہاؤ کے بیچ میں بے تحاشا لمبے تمر کے جنگلات نظر آئیں گے ساتھ ہی دوسرے درختوں اور تمر کی دوسری نسلوں کے بھی گھنے جنگل نظر آئیں گے۔ بالکل ایسے جیسے اُن زمانوں کے بنے تصوراتی اسکیچ آپ کو دکھائے جاتے ہیں۔ ہم اگر فقط سندھ کی بات کریں تو فی الوقت اُس زمانے کے جتنی بھی قدیم بستیاں ملی ہیں اُن میں سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا یہی سمندری کنارے والا علاقہ ہے جس کو آپ اس پہاڑی سے دیکھ رہے ہیں۔
Terebralia palustris کے خول
ڈاکٹر خان اور پائلو بیگی کی تحقیقات کے مطابق، تھدھو، بازار، مول، لنگھیجی، کھڈیجی، لیاری اور دوسری ندیوں کے بہاؤ کے کناروں پر ابتدائی انسانی آبادیوں کی ایک دنیا بستی ہے۔ مولری پہاڑیوں اور ریڑھی سے پیلیولتھک (25 لاکھ سے 10 ہزار قبلِ مسیح) کے جو نوادرات ملے ہیں اس کی وجہ سے زیریں سندھ میں یہ مقام انتہائی اہمیت اختیار کرلیتا ہے۔ ان نوادرات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ بحرِ اوقیانوس کے آغاز سے پہلے ابتدائی ہولوسین شکاریوں کے گروہ اس خطے میں آباد ہوگئے تھے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بحیرہ عرب کے شمالی ساحل کے ساتھ ساتھ یہاں پہنچے ہوں گے۔ ان میں سے کچھ مقامات سے ہولوسین شکاریوں کے سمندری گولے بھی ملے ہیں جو اس بات کی تصدیق کرنے میں مدد دیتے ہیں کہ ہولوسین شکاریوں کے گروہوں نے اس سمندری کنارے والے علاقے کو بار بار آباد کیا۔
یہ مناسب رہے گا کہ آج ہم اس اہم سفر کو اِسی مقام پر روکیں کیونکہ اگر ہم نے ’میگالتھک دور‘ پر کلہوڑو صاحب سے بات کرنی شروع کی تو نہ اس اہم موضوع کی مناسب طریقے سے ابتدا کی جا سکے گی اور اختتام تو خیر ممکن ہی نہیں ہے۔ تو ہم اپنے اس طویل اور تاریخی سفر میں جلد ہی ملتے ہیں منگھوپیر کی انہی پہاڑیوں پر کیونکہ اب موسم بدلنے لگا ہے۔ دن بچپن کی عمر کی طرح چھوٹے ہونے لگے ہیں اور شمال سے جاڑوں کی ٹھنڈی ہوائیں آنے میں زیادہ دن نہیں رہے۔
حوالہ جات |
کراچی: صدیوں کی کتھا! (پانچویں قسط) | اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
موجودہ ادوار تک پہنچنے کے لیے ہم انتہائی تیزی سے یہ سفر طے کررہے ہیں۔ اس سفر میں شامل ہمارے تمام ساتھی اپنے ذہن کے وسیع لینڈاسکیپ پر ایک تصویر تخلیق کررہے ہیں جن کے نقوش دھیرے دھیرے واضح ہورہے ہیں۔ یہ کتنا شاندار ہوگا کہ جب ہم اپنے سفر کی آخری منزل پر پہنچیں گے تو اُن دنوں میں یہاں کی جو کیفیت ہوگی، گلیاں، بازار اور تعمیرات ہمارے لیے نئی نہیں ہوں گے کیونکہ ہم انہیں بنتے ہوئے دیکھتے آرہے ہوں گے۔
لاکھوں یا ہزاروں برس پہلے کے انسانوں کے ملنے والے فوسلز سے پتا چلتا ہے کہ قدیم انسان کبھی بھی قحط یا خوراک کی کمی کا شکار نہیں رہا کیونکہ اُس کے پاس خوراک کی تلاش کے سوا اور کوئی دوسرا کام نہیں تھا۔ ہاں کچھ ایسے مقامات بھی تھے جہاں خوراک کے لیے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑتی تھی اور خصوصاً ایسے مقامات پر جو سمندر کے کنارے موجود تھے اور وہاں موسموں کی سختی اور جانوروں سے تحفظ کے لیے معروضی حالات بھی شاندار تھے یعنی اوبڑ کھابڑ پہاڑی سلسلہ موجود تھا۔
ممکن ہے کہ ارتقائی انسان کے لیے ایسے سازگار حالات اس وقت کی دنیا میں دیگر مقامات پر بھی موجود ہوں اور شاید وہ ہمارے سمندری کناروں سے بھی زیادہ زبردست ہوں مگر ہم جس ساحلی کنارے پر یہ سفر اور گفتگو کررہے ہیں وہاں ایک اور اضافی سہولت موجود تھی اور وہ یہ تھی کہ اس پہاڑی سلسلے کے نزدیک مشرق میں لاکھوں برسوں سے میٹھے پانی کا بھاؤ بہتا تھا جس کی وسعت کا شاید ہم اندازہ بھی نہ لگا سکیں کہ وہ کتنا پانی لےکر شمال، جنوب، مشرق اور مغرب کی طرف سفر کرتا تھا۔ یہ بہاؤ ڈھائی ہزار کلومیٹر میں پھیلے ہوئے ہمالیہ پہاڑی سلسلے کی دین تھی جو تقریباً 9 کلومیٹر اونچا ہے اور 5 کروڑ برس پہلے طبعی تبدیلیوں کی وجہ سے زمین کی گہرائیوں سے کسی شاندار اور گھنے برگد کے پیڑ کی طرح اُگ پڑا تھا۔
ارتقائی انسان نے ایک ساتھ رہنا سیکھا
ہم گزشتہ کسی قسط میں یہ ذکر کرچکے ہیں کہ کراچی کا سمندری کنارا اور یہاں سے شمال کی طرف جاتا کھیرتھر کا پہاڑی سلسلہ انسانی تاریخ کی قدامت کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ آج کی نشست میں پتھر کے زمانے کی آخری سرحد پر ہمارا پڑاؤ ہوگا۔ ہم انسانی ذہن کی ترقی کے تسلسل میں وہاں پہنچیں گے جب اس نے حیات کی ڈور ٹوٹنے کی صورت میں اپنے پیاروں کو دفن کرنے کی ابتدا کی اور انہیں دفنانے کے لیے اس زمانے کے وسائل کو شاندار طریقوں سے استعمال کیا۔
’کیا ہمارے ارد گرد ایسے مقامات موجود ہیں کیا؟‘
اس سفر کے ساتھیوں میں سے کسی ایک نے یہ سوال اُس وقت کیا جب ہم تاریخ کی گزرگاہوں پر چلتے کچھ دیر پہاڑی کی اوٹ میں ایک چھوٹی سی جھیل کے کنارے زقوم کی گھنی جھاڑی کے پاس رُکے تھے جس پر تیز سُرخ رنگ کے پھول عَود کر آئے تھے۔ جاڑے کے دنوں میں جب آسمان کا رنگ صاف اور تیز نیلا ہوجاتا ہے تو زقوم کی تیز ہرے رنگ کی جھاڑی پر سُرخ پھول اتنے خوبصورت لگتے ہیں کہ اُن کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہوجاتا ہے۔
اس طرح کے سوالات اور بھی ہوسکتے ہیں، اس طرح کی معلومات کی تشنگی کے ریگستان ذہن میں تب اُگتے ہیں جب ان پر معلومات کی بارش نہیں ہوتی۔ کیا ہم اپنے ذہن کو زرخیز بنانے کے لیے ایسی بارشوں کی تمنائیں نہیں کرتے ورنہ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں وہ فطری طور پر ایسی زمین پر ہے جہاں ارتقائی انسان کی اوائلی بستیاں ہوا کرتی تھیں۔ قوموں کے سر پر غُرور کے تاج کی طرح سجنے والے قدامت کے اعزازات کی ہم نہ تعظیم کرتے ہیں نہ اُنہیں سر پر سجانے کی تمنا کرتے ہیں۔ کسی قوم یا ملک کے لیے یہ مثبت رویہ نہیں ہے۔ ہمیں اپنے گزرے دنوں کو جاننے کے لیے اگر زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت سنجیدہ ضرور ہونا چاہیے۔
آج ہم ساتھی کے اس سوال کے جواب کے لیے تاریخ سے پہلے کے ان اہم مقامات کو دیکھنے چل پڑے ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے دنیا بھر کے لوگ یہاں آتے ہیں۔ اس سفر کے لیے ہم نے مشہور انتھروپولوجسٹ اور کئی کتابوں کے مصنف محترم ڈاکٹر ذوالفقار کلہوڑو کو اپنے ساتھ چلنے کی تکلیف دی ہے۔
ہم نے کوہستانی سندھ کے حوالے سے بات کرنے کے لیے کلہوڑو صاحب کو اس لیے چنا کیونکہ کراچی ان تاریخی مقامات میں سے ایک ہے۔ تو جب تک اطراف میں پھیلے قدیم تاریخی مقامات سے متعلق ہمیں معلومات نہیں ہوگی تب تک گزرے زمانے کے منظرناموں کی صاف اور درست تصویر ہمارے ذہن میں نہیں بن پائے گی۔ اس سفر میں ہم سُست مسافر کی طرح فقط دو باتیں کرکے پورا دن گزارنے والے نہیں ہیں۔ ہم جب سفر پر نکلے تھے تو ہم سب نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم کوشش کریں گے کہ جتنا ممکن ہوسکے ہم اُتنا گزرے زمانوں کی گہرایوں میں جائیں اور اب تک جو تحقیقی کام ہوا ہے اس کی سائنسی بنیادوں پر معلومات حاصل کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جس وقت ہم آخری پڑاؤ تک پہنچے تب تک ہم سب یہ جان چکے ہوں کہ سندھ کے سمندری کناروں نے وقت کے کیسے کیسے رنگ دیکھے، کیسے کیسے سُکھ اور دُکھ دیکھے اور وہ کیا خوش قسمتی تھی جس نے انسان کی ارتقائی بستیوں والے سمندری کناروں اور پہاڑیوں کو دنیا میں ایک شاندار اور میگا سٹی کا اعزاز بخشا۔ مگر یہ ابھی بہت دور کی باتیں ہیں۔
آپ نے کبھی سوچا ہے کہ روشنیوں میں ڈوبے اس شہر کے گِرد تاریخ سے پہلے کے زمانے کی کچھ سائٹس ابھی بچی ہوئی ہیں اور خوش قسمتی سے ان پر ابھی لینڈ مافیا نے قبضہ نہیں کیا ہے۔ ہمارے یہاں قدیم سائٹس کو تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کا جو حال ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ اہم سائٹس جو بے یارومددگار پڑی ہیں اُن پر ضرور قبضہ ہوجائے گا اور پھر آپ یہ بھی نہیں دیکھ پائیں گے۔ اس لیے یہ مناسب ہے کہ کبھی کبھار ٹھنڈے اور گرم کمروں اور گھروں سے نکل کر ان مقامات کو ضرور وزٹ کریں کیونکہ یہ ہمارا اثاثہ ہیں۔ یہ آپ کو بار بار اپنے پاس بلائیں گی مگر پتا نہیں ان کی آواز آپ تک پہنچتی بھی ہیں یا نہیں۔ یا پھر وہ آوازیں آپ تک پہنچتی ہوں مگر آپ آج کل پر ٹال دیتے ہوں؟ اور یونہی پلک جھپکتے وقت گزر جاتا ہے۔
اب ہم اینتھروپولوجسٹ کلہوڑو صاحب سے کراچی کے میگالتھس (Megaliths) سے متعلق باتیں کریں گے۔ میرے سامنے ڈکشنری آف کیمبرج موجود ہے جس میں میگالتھک لفظ کی وضاحت کچھ اس طرح کی گئی ہے ’ایک بڑا سنگی ستون، کبھی اسے اکیلا اور کبھی چھوٹے سنگی ستونوں کے ساتھ زمین میں گاڑا جاتا ہے، پتھر کے زمانے کے لوگ اس کو مذہبی اور سماجی روایات کی بنا پر اہم اور مقدس سمجھتے تھے‘۔
کاٹھور کے قریب واقع پتھروں کا ٹیلہ—تصویر: ڈاکٹر ذوالفقار علی کلہوڑو
کراچی گڈاپ کے تاریخی مقامات پر میں طویل عرصے سے مسلسل تحقیق کے حوالے سے سفر کر رہا ہوں۔ میں نے یہاں تاریخ سے پہلے کے زمانے کی کئی آبادکاری کے مقامات دیکھے ہیں۔ ہم جب تاریخ سے پہلے کے مقامات کی بات کرتے ہیں تو ہم ان انسانی سرگرمیوں کی بات کررہے ہوتے ہیں جن کا ریکارڈ موجود نہیں ہے یا ریکارڈ جمع کرنے سے پہلے کی انسانی سرگرمیوں کے زمانہ تقریباً 25 لاکھ سال پہلے 1200 قبل مسیح تک کا ہے یعنی پتھر، کانسی اور لوہے کے زمانے تک۔ یہ تحصیل ایسی تاریخی یادگاروں سے بھری پڑی ہے۔
چونکہ ہم یہاں میگالتھک کے حوالے سے بات کریں گے تو یہاں یادگار پتھروں کے دائرے، قطاریں اور لمبے بڑے سنگی ستون اہم ہیں۔ یہ بڑے سنگی ستون اُن زمانوں کی عکاسی کرتے ہیں جب تحریر کے حوالے سے انسان بالکل بھی نابلد تھا۔ مگر ایک دوسرے سے جدا ہونے کی کیفیت انسان کے اندر پنپتی تھی اور وہ جدا ہونے والوں کو بھلانا نہیں چاہتا تھا۔ تو ابتدائی انسان نے اپنے قریبیوں کو یاد کرنے اور یاد رکھنے کے لیے بڑے وزنی سنگی ستون گاڑے جن کی عمریں یقیناً انتہائی بڑی ہیں۔ کراچی میں سنگی ستونوں (Menhirs) پر مخصوص گول دائروں (Cupules) کے نشان بنائے گئے ہیں جسے مرنے والے کی نسل یا شخصیت یا کسی کارنامے کی تعریف سمجھنا چاہیے۔
کپول اور گول دائرے
پاکستان کے دیگر حصوں جیسے ضلع غذر کی وادی یاسین، گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کی وادی سوات سے بھی میگالتھس سائٹس دریافت ہوئی ہیں۔ کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر علاقوں میں بھی میگالتھ سائٹس ملیں۔ خاص طور پر تھانہ بولا خان، مول، تونگ، مال ماڑی، جوہی، سہون، جبکہ تھرپارکر کے مٹھی کے علاقوں میں بھی ایسے قدیم مقامات ملتے ہیں۔ ٹھٹہ ضلع میں جنگ شاہی اور ننگرپارکر کے مقام پر بھی کندہ شدہ سنگی ستون دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ میں میگالتھس پر کپیول اور کندہ کاری ہوتی ہے۔ تھانہ بولا خان اور جوہی میں اس طرح کے کئی میگیلیتھک ڈھانچے ہیں جن میں پیٹروگلیفس (پتھروں پر کی گئی نقاشی، گراف اور تصاویر) کی گئی ہیں۔
کپولز اور پیٹروگلیفس
تھانہ بولا خان تحصیل کی زمین سے گزرنے والے اہم پہاڑی برساتی بہاؤ باران، ڈیسوئی، ڈرگ، لویاچھ، مورائی اور مول ہیں۔ مول ٹاؤن، جس کا نام مول نئے سے اخذ کیا گیا ہے، آثار قدیمہ کے مطابق یہ بہت مالا مال ہے۔ مول کا بہاؤ 2 ہزار فٹ کی بلندی سے شروع ہوتا ہے اور جنوب کی طرف بہتا رہتا ہے یہاں تک کہ خدیجی کے ساتھ مل جاتا ہے اور پھر یہ بہاؤ مرکزی ملیر نئے سے مل جاتا ہے۔ ایک زمانے میں یہ بہاؤ مشرق کی طرف تھوڑے سے فاصلہ پر گزری کریک کے راستے سمندر میں گرتا تھا۔
مول نئے کے دونوں کناروں پر بڑی تعداد میں قدیم آباد کاری کے مقامات، راک آرٹ سائٹس، میگیلتھک ڈھانچے اور قبل از اسلام اور اسلامی دور کے مقبرے واقع ہیں اور ساتھ ان بہاؤں میں بڑی تعداد میں گبربند (قدیم ڈیم) بھی ملتے ہیں۔ یہاں دو گول گڑھے والی قبریں ہیں جہاں مقامی لوگوں نے خزانہ ملنے کی امید میں غیر قانونی طور پر کھدائی کی تھی۔ دونوں قبریں مول ٹاؤن سے تقریباً 10 کلومیٹر شمال میں دو برساتی بہاؤں مول اور ڈرگ کے درمیان واقع ہیں۔ ’ڈرگ نئے‘ مول نئے کی ایک معاون ندی ہے۔ دونوں ندیوں کے قریب بہت سے لمبے سنگی ستون دیکھنے کو ملتے ہیں۔ میں یہاں کے کچھ اہم مقامات کے متعلق آپ کو بتاتا چلوں۔
بپرو ریک (بُٹھی) پہاڑی: اس کی اونچائی 15 میٹر ہے۔ پورے پہاڑی قبل از اسلام دور کی قبروں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ یہاں کی قبریں مشرق سے مغرب کی طرف ہیں۔ پہاڑی کے شمالی جانب پتھر کے گول دائرے میں بکھرے آثار ہیں لیکن مقامی لوگوں نے غیر قانونی طور پر کھود کر اُس کی اصل شکل بگاڑ دی ہے۔ قبر کا اندرونی اور بیرونی حصہ دونوں گول ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق، یہ پتھر کا گول ڈھانچہ تھا جو چھ فٹ اونچا تھا اور اس کا ایک دروازہ مشرق کی طرف کھلتا تھا۔ پتھروں کی گول قبروں کی اندرونی دیواروں میں سلیب ایک دوسرے کے اوپر رکھے گئے ہیں جن میں مرنے والے کی تدفین بالکل ایسی حالت میں کی گئی جس طرح بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ کنکال کے سر کے قریب مٹی کے چھوٹے برتن اور بیل کے پکی مٹی کے مجسمے (Terracotta) رکھے گئے تھے۔
غیرقانونی کھدائی نے اس مقام کی شکل بگاڑ دی گئی ہے—تصویر: ڈاکٹر ذوالفقار علی کلہوڑو
قبر اندر سے گول ہے—تصویر: ڈاکٹر ذوالفقار علی کلہوڑو
ٹیراکوٹا، بلوچستان سے ملے مٹی کے پکے چھوٹے مجسمے
گول قبروں کے جنوب میں تین کھڑے سنگی ستون واقع ہیں۔ مرکزی ستون جس کی لمبائی 10 فٹ کے قریب ہے اور وہ دیگر ستون سے لمبا ہے۔ دیگر ستون، مرکزی ستون سے چھوٹے ہوتے ہیں اور ان کی اونچائی بالترتیب چھ اور تین فٹ ہوتی جاتی ہے۔ ان ستونوں کے قریب چند گول ڈھانچے بھی واقع ہیں جن میں سے ایک کی کھدائی کی گئی ہے۔ ان گول ڈھانچوں میں سے مٹی کے برتنوں کے نمونے ملے ہیں جن کا تعلق کوٹ ڈیجی ثقافت سے ہے۔
مرکزی ستون دیگر ستونوں سے لمبا ہوتا ہے—تصویر: ڈاکٹر ذوالفقار علی کلہوڑو
شیخانی پہاڑی: یہ بپروریک سے 500 میٹر مغرب میں واقع ہے۔ اس پہاڑی (بُٹھی) کی اونچائی تقریباً آٹھ میٹر ہے۔ اس کے دامن میں چند قبریں دیکھی جاسکتی ہیں جن کا رخ مشرق و مغرب کی طرف ہے۔ پہاڑی کی چوٹی پر ایک گول گڑھے والی قبر نظر آتی ہے جس کی صورت بھی خزانے کی تلاش کرنے والوں نے کھدائی کرکے بگاڑ دی ہے۔
ان قبروں میں مقامی لوگ غیرقانونی کھدائی کرتے ہیں—تصویر: ڈاکٹر ذوالفقار علی کلہوڑو
گول گڑھے والی قبر—تصویر: ڈاکٹر ذوالفقار علی کلہوڑو
گول قبر کی گہرائی تقریباً 1.5 میٹر ہے جبکہ قطر دو میٹر ہے۔ پتھر کی گول قبر 5 فٹ اونچی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پتھر کے سلیب کی بیرونی سطح پر ہتھوڑے کے نشانات نظر آتے ہیں۔ قبر کی اکھڑے ہوئی ایک سلیب پر تین Cupules کے نشان ملتے ہیں۔ کپیول جنازے کی رسومات سے وابستہ دکھائی دیتے ہیں۔ بیل کے چھوٹے مجسمے اور مٹی کے پکے برتن (Terracotta) بھی ملے ہیں۔ مجھے صرف مٹی کے برتن دکھائے گئے جوکہ کوٹ ڈیجی کے دور کے ہیں۔ اسی طرح ’چاکھری (Chakhari) نئے‘ جوکہ مول نئے کا ایک معاون برساتی بہاؤ ہے، اُس کے قریب بھی مجھے اس طرح کی قبروں کے نشانات ملے ہیں۔
شیخانی پہاڑی سے ملنے والے مٹی کے سلیب—تصویر: ڈاکٹر ذوالفقار علی کلہوڑو
گول قبروں میں مٹی کے پکے برتن ملے ہیں—تصویر: ڈاکٹر ذوالفقار علی کلہوڑو
یہ برتن کوٹ ڈیجی کے دور کے ہیں—تصویر: ڈاکٹر ذوالفقار علی کلہوڑو
میں نے مہر، ٹکو باران، بیلی تھاپ اور تونگ کی وادیوں میں بھی پتھر کے اس طرح کی کئی گول ڈھانچے والی قبریں دیکھی ہیں۔ تحصیل تھانہ بولا خان کی وادی ریک، گاج اور نالی کی وادیوں میں بھی پتھر کے کچھ گول ڈھانچے موجود ہیں۔ ان میں سے پتھر کی سب سے بڑی گول ساخت والی تعمیر وادی گاج کے روحیل جی کنڈ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
تونگ ویلی—تصویر: ڈاکٹر ذوالفقار علی کلہوڑو
روحیل جی کنڈ—تصویر: ڈاکٹر ذوالفقار علی کلہوڑو
ان قدیم تعمیرات پر ابھی تک کوئی بنیادی تحقیقی کام نہیں ہوا ہے۔ البتہ مسٹر فیئرسرویس (Fairservis) نے بلوچستان کے لسبیلو اور مکران میں اسی طرح کے گول ڈھانچوں کا مطالعہ کیا اور ان ڈھانچوں کا تعلق موت کی رسومات سے جوڑ دیا۔ قبروں کی شکل اور قبروں میں پائے جانے والے مٹی کے برتن اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ تمام گول اور گنبدی تعمیرات انتہائی قدیم ہیں کیونکہ کسی بھی پہاڑ کی سطح پر کوئی لتھک (Lithic) مواد یا مٹی کے برتن نہیں ملے ہیں۔ مٹی کے برتن صرف قبروں کے اندر پائے گئے تھے اور یہ مٹی کے برتن کوٹ ڈیجی زمانے (3200-2800 قبل مسیح) سے تعلق رکھتے ہیں۔
سندھ کوہستان میں کوٹ ڈیجی آبادکاری کے مقامات، کوہتراش اور پھنگ پر دیکھے جاسکتے ہیں جن پر سب سے پہلے مجمدار (1934ء) اور بعد میں فلیم لوئس (1981ء) نے تحقیق کی۔ اس کے علاوہ اور کئی دیگر قبل از تاریخ کے آثار ہیں جن میں سے گبربند بھی اہم ہیں جن کا فلیم لوئس اور ہاروے (1993ء) نے بھی مطالعہ کیا تھا۔ ان کی تحقیقات کے مطابق پتھر کے گول دائرے والی قبروں اور اُن میں سے ملنے والے مٹی کے پکے چھوٹے مجسموں کا تعلق کوٹ ڈیجی کے زمانے سے ہے۔
اگر ہم پتھروں پر نقاشی کی بات کریں تو یہ قدیم ترین پیٹروگلیفس تقریباً 12 ہزار سال پہلے پلیسٹوسین سے ہولوسین تک منتقلی کے دور کے اوائل میں تخلیق کیے گئے تھے اور ماضی قریب تک ہزاروں سالوں میں جن مقامی لوگوں کا ان پہاڑیوں اور ریگستان میں بسیرا ہے وہ ابھی تک اس طرح کی نقاشیاں پتھروں پر کرتے ہیں۔ ان ستونوں اور ان پر بنے نقش و نگاروں کے متعلق میں آپ کو ایک اور دلچسپ بات بتاتا ہوں۔ جامشورو کی تحصیل تھانہ بولا خان میں ان سنگی ستونوں کی باریجا قبیلے کے لوگ پوجا کرتے ہیں۔ جب بارش نہیں ہوتی تو بارش کو لانے کے لیے بکری ذبح کرتے ہیں اور اس کا خون ستون پر چھڑکتے ہیں اور ستون کی پوجا کی جاتی ہے اور بارش لانے کے لیے پکارا جاتا ہے۔ اسی طرح مول کے کنڑا قبیلے کے لوگ بھی ان میگالتھ کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ اُس قدیم زمانے کی شاخ زریں ہیں جو ہزاروں برسوں بعد بھی ابھی تک ہری ہے۔
قدیم دور میں کی جانے والی پوجا کا تصوراتی اسکیچ
اب ہم سندھ کے کوہستانی علاقے کے اس مختصر سفر کے بعد کراچی لوٹ آتے ہیں جہاں گڈاپ تحصیل قدیم انسان کے ابتدائی میگلتھس مقامات سے بھری پڑی ہے۔ تمام مقامات کا تو نہیں البتہ کچھ اہم مقامات کا میں آپ کو ضرور بتانا چاہوں گا۔
تھوہر کنارو گاؤں: کراچی سے 50 کلومیٹر شمال میں واقع ہے اور میگالیتھک یادگاروں کے لیے مشہور ہے۔ گاؤں کے جنوب، شمال اور مشرق میں تین میگالیتھک سائٹس موجود ہیں۔ مرکزی میگالیتھک کمپلیکس گاؤں کے جنوب میں واقع ہے۔ یہ پتھر کا دائرہ، ایک مربع ڈھانچہ، سنگی ستون، اور چھوٹے سنگی ستونوں کی دو قطاریں ہیں۔ پتھروں کے اس دائرے کو بنانے کے لیے تقریباً 19 سنگی ستون استعمال کیے گئے تھے۔
سنگی ستونوں کی قطاریں—تصویر: ڈاکٹر ذوالفقار علی کلہوڑو
تین بڑے ستون خستہ حالت میں زمین پر پڑے ہیں۔ اس کا قطر 68 فٹ ہے، جو سندھ میں اب تک دریافت ہونے والا سب سے بڑا پتھر کا دائرہ ہے۔ پتھر کے دائرے کے جنوب میں ایک مربع ڈھانچہ ہے جسے مقامی طور پر کوٹیرو کہتے ہیں۔ اس طرح کے مربع ڈھانچے صوبہ سندھ کے علاقے سندھ کوہستان میں باکثرت پائے جاتے ہیں۔ مربع ڈھانچے کا مرکزی دروازہ مشرق کی طرف کھلتا ہے۔ دیواروں کی اونچائی تین فٹ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس مربع ڈھانچے کے قریب کچھ قدیم مستطیل قبریں اور سنگی ستونوں کی دو قطاریں ہیں۔
پہلی کی قطار میں 6 یک سنگی ستون اور دوسری میں 5 یک سنگی ستون ہیں۔ دونوں قطاریں مشرق سے مغرب کی طرف ہیں۔ آپ کو یہاں تین چار ایسے سنگی ستون بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جن پر قدیم انسان کی کچھ تراشیدہ لکیریں ہیں جن میں کچھ کہنے کی کوشش کی گئی ہے ساتھ میں آپ کو ان پر گول دائرے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایسے سنگی ستون جن پر کچھ تراشا گیا ہو اور گول دائرے بھی ہوں، ہندوستان میں اُن مقامات سے ملے ہیں جوکہ محققین قدیم انسان کی بستیوں کے حوالے سے جانتے ہیں۔
تھوہر کناروں کے دو سنگی ستونوں پر انسانی تصویر بنانے کی ایک اچھی کوشش، ہندسوں کے نقش اور چار گولائی میں نظر آنے والے پیٹرن کے دلچسپ نقش و نگار بھی ہیں۔ نیچے سے اوپر تک پوری سطح ایسے چار نقطوں سے کندہ ہے۔ یہ بنائے ہوئے نقش اور کنندہ آڑی ترچھی لکیریں اس قدیم وادی میں رہنے والوں کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل تھیں جس نے آگے چل کر روحانی (Animistic) عقیدوں کی ایک نئی دنیا کو جنم دیا۔
ان ستونوں پر دلچسپ نقش و نگار کیا جاتا ہے—تصویر: ڈاکٹر ذوالفقار علی کلہوڑو
ابھی گڈاپ کے کچھ اور میگالیتھکس مقامات کا ذکر باقی ہے۔ آپ نے آج کے اس سفر میں Terracotta اور Proto-writing code یا Petroglyphs کے الفاظ پڑھے ہیں تو آپ سمجھ لیں کہ ارتقائی انسان کے ذہن کے یہ تین دروازے تھے جن کے کھلنے سے بہت سی نئی دنیاؤں کی تار و پود ہونے والی تھی اور انہیں دنیاؤں کی پگڈنڈیوں سے چل کر ہم نے ترقی کی نئی جہتوں کو ڈھونڈ نکالا۔ اور یہ سفر تھا ذہنی ترقی کا جس میں ان تین لفظوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔ جلد ہی ملتے ہیں تاریخ کی انہی پیچیدہ پگڈنڈیوں پر۔
حوالہ جات |
کراچی: صدیوں کی کتھا! (ساتویں قسط) | اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
یہ کتنی دکھ دینے والی بات ہے کہ آج سے 30، 40 برس پہلے آرکیالوجی کے ماہرین سے کراچی کے قدیم مقامات کی کھدائیاں کروائی تھیں جن پر بہت وقت اور رقم لگی لیکن ان میں سے کوئی ایک مقام بھی ایسا نہیں ہے جسے آج ہم جا کر دیکھ سکیں۔ دو برس پہلے جب میں اس تحریری سلسلے کی تیاری کررہا تھا اور کراچی کے قدیم مقامات کی خاک چھان رہا تھا تب میں جہاں جہاں بھی گیا وہاں اگر مجھے کچھ ملا بھی تو وہ پریشانی اور دکھ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ کسی بھی حوالے سے اچھی کیفیت نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک انتہائی منفی رویہ ہے۔ ہم شاید تہذیب یافتہ زمانوں اور قوموں سے کچھ بھی نہیں سیکھ رہے ہیں۔
وادی سندھ کی تاریخ اور تہذیب پر دنیا کے مانے ہوئے محققین نے جو کتابیں تحریر کی ہیں، آپ اگر ان کتابوں اور ان میں بنے ہوئے نقشوں کو دیکھیں تو وہاں وادی سندھ کے قدیم زمانے (وادی سندھ کے عروج والے زمانے سے پہلے) یا وادی سندھ کے عروج والے زمانے (2500 سے 1500 قبلِ مسیح) تک یا کچھ صدیوں بعد تک بھی اس سمندری کنارے پر آپ کو دو اہم مقامات نظر آئیں گے۔ اب ہمارے سفر میں وہ زمانے آرہے ہیں جنہیں دنیاIndus Valley Civilization ( اس تحریر میں ہم اس کے لیے ’سندھو گھاٹی تہذیب‘ کے الفاظ استعمال کریں گے) کے نام سے جانتی ہے۔ چلیے چل پڑتے ہیں سندھو گھاٹی کے سحرانگیز اور شاندار زمانے میں۔
اگر آپ منگھو پیر کی پہاڑیوں پر کھڑے ہیں تو آپ کو جنوب مشرق کی طرف ملیر میں نیل بازار کے قریب ایک قدیم بستی دکھائی دے گی جسے ’الھڈنو‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے اور دوسری بستی آپ کو کراچی سے مغرب میں وندر نئے کے قریب موجودہ سونمیانی سمندری کنارے سے شمال کی طرف نظر آئے گی جسے ’کوٹ بالا‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان دونوں بستیوں کی کھدائی اس حوالے سے ہوئی تھی کہ دیکھا جاسکے کہ ان دنوں کے سمندری کنارے کی بستیاں کیسی تھیں۔ ان دونوں بستیوں کی کھدائی آج سے تقریباً 45 برس پہلے ہوئی تھی۔ ان کھدائیوں کے نتیجے میں جو تحقیقاتی رپورٹس آرکیالوجی کے محققین نے تیار کیں وہ انتہائی حیرت انگیز ہیں۔
الھڈنو اور بالا کوٹ سندھو گھاٹی کے اہم مقامات
یہ دونوں بستیاں ان تینوں زمانوں کی بستیاں ہیں جنہیں ہم تحقیقی حوالے سے ان ناموں سے جانتے ہیں۔
1۔ Early Indus: موہن جو دڑو سے پہلے کا تاریخی زمانے جیسے کوٹڈیجی اور آمری۔
2۔ Mature Indus Culture: سندھو تہذیب کے عروج کا زمانہ۔
3۔ Post Indus: زوال پذیر سندھو گھاٹی۔
چونکہ ہم تاریخ سے پہلے کے زمانے میں سفر کرتے آئے ہیں اس لیے ہم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک تہذیب کو بننے کے لیے وقت کی کیسی کیسی مشکل ترین گھاٹیوں اور ریگستانوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ بالکل اس بچے کی طرح جو انتہائی سُست رفتاری سے اپنی بالیدگی کا سفر قدم بہ قدم سیکھتا آگے بڑھتا جاتا ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ زندگی کے ان مشکل اوبڑ کھابڑ پگڈنڈیوں پر سے چل کر یہ تہذیب جوان ہوئی ایک ایسی تہذیبی سلطنت جس کا دائرہ لاکھوں چورس میلوں میں پھیلا ہوا تھا۔ یہ کمال اور حیرت کی ایک کائنات تھی جس میں وہ ساری خوبیاں پنپ کر جوان ہوئیں جنہیں پوری دنیا حیرت سے دیکھتی ہے۔ اگر ہمارے مغرب اور جنوب مغرب میں عظیم تہذیبیں پنپ کر جوان ہوئیں تو ہمالیہ سے بہنے والے سندھو نے بھی اپنی جھولی میں ایک شان دار تہذیب کو پال کر جوان کیا۔ یہ کتنا زبردست ہے کہ اس سلطنت کی ابتدائی تار پود ہماری آنکھوں کے سامنے ہوئی ہے۔
سندھو گھاٹی کے عروج سے پہلے کی بستیاں
اس تہذیب کے ارتقا، وسعت، زبان اور ہنرمندی پر بہت سی کتابوں کے مصنف ایس-آر-راؤ لکھتے ہیں کہ ہزاروں بستیوں پر پھیلی سندھو سلطنت ترقی کے کمال تک پہنچی۔ اس نے دنیا سے رابطے کا جو تصور تخلیق کیا وہ کمال تھا۔ اس وسیع سلطنت کی تار پود چھوٹی چھوٹی بستیوں نے کی تھی جن کی آج کل ہم کھدائی کررہے ہیں اور ان بستیوں کا کمالِ ذہانت اور فن دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ یہ ان چھوٹی چھوٹی بستیوں میں پنپنے والی تہذیب تھی جس نے وہاں سے ترقی کرتے کرتے بڑے بڑے شہروں کو جنم دیا اور جنوبی مشرق کو ایک وسیع سلطنت بنایا۔
اتنے مقامات اور شہروں کے آثار ملنے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلطنت بیوپار کے بنیادوں پر کھڑی تھی جس میں بیوپار اور تجارت کا سلسلہ ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔ تیار کیے ہوئے مال میں معیار تھا اور نقل و حمل کے ذرائع زبردست تھے اس کے علاوہ صنعتی اور زرعی پیداوار انتہائی شاندار تھی۔ ویلر کے مطابق 2500 سے 1500 قبل مسیح سندھو تہذیب کی ترقی کے اوج والا زمانہ تھا جسے Mature Indus Period کہا جاتا ہے۔
سندھو گھاٹی کے شہر بستیاں اور پانی پر بیوپار کے راستے
ایک سلطنت کا درجہ دینے سے یہ مراد ہوتی ہے کہ ایسے مرکزی طاقتور سیاسی بااختیار ادارے کی موجودگی جو شہروں کی تعمیر میں منصوبہ بندی سے کام لے وہ جن جن ممالک یا شہروں سے بیوپار کررہا ہے، اُس بیوپار کے لیے بننے والی مصنوعات پر کوالٹی کنٹرول رکھے اور اُس سلطنت میں ناپ تول کا مضبوط نظام موجود ہو اور وہ یہاں تھا۔ اس سلطنت کو محققین چار وسیع ترین صوبوں میں دیکھتے ہیں۔
1۔ مرکزی صوبہ: جس میں سندھو، سرسوتی، ستلج اور راوی کے بہاؤ بہتے تھے۔ یہ صوبہ مکران کے سمندری کنارے کے بالا کوٹ سے ہڑپہ تک تھا۔
2۔ مشرقی صوبہ: اس میں ھاکڑو (سرسوتی)، ٹنگ (دریشدوتی) اور جمنا کے مغربی طرف کا علاقہ شامل تھا۔
3۔ مغربی صوبہ: جس میں بلوچستان کے پہاڑی علاقوں مکران، افغانستان اور ایران کے بیچ والا علاقہ شامل تھا۔
4۔ جنوبی صوبہ: اس میں کَچھ، کاٹھیاواڑ اور جنوبی گجرات کِم (Kim) دریا تک والا علاقہ شامل تھا۔
سندھو سلطنت کے صوبے
انڈس ایمپائر پانچ صدیوں تک 15 لاکھ مربع کلومیٹرز کی وسیع اراضی میں پھیلی وہ سلطنت تھی جس نے تجارتی اشیا کی تیاری اور معیار کو بلند رکھا اور ساتھ میں ثقافتی، سیاسی اور سماجی طور پر ایک مضبوط سلطنت کے اعزاز کو اپنے سر کا تاج بنایا۔
سندھو سلطنت کے مرکزی صوبے کے سمندری کناروں (کراچی) کی قدیم بستیوں سے ہمیں گندم کی دو اقسام Triticum compactum اور Triticum sphaerococcum ملی ہیں جنہیں Indian Dwarf Wheat بھی کہا جاتا ہے جو یہاں کی مقامی گندم کی جھاڑ ہے۔ گندم کی کھیتی کے متعلق ہمیں افغانستان کی طرف منڈیگک اور مغرب میں ایران کی طرف گندم کی قدیم کاشت نظر آتی ہے۔ ایس-آر-راؤ لکھتے ہیں کہ 4000 قبل مسیح والے زمانے میں یہاں سے گندم، جَو اور کپاس کے بیج ملے ہیں جبکہ انتہائی جنوبی سندھ میں چاول اُگائے جاتے تھے۔
ایم-ایچ-پنوھر صاحب کے مطابق ’3001 قبلِ مسیح میں نئے پتھر کا زمانہ آیا تو یہاں کی زندگی گاؤں کی زندگی کی طرف تیزی سے بڑھنے لگی جس کی وجہ سے اناج کا بونا، مویشیوں کو پالنا، معاشی زندگی کی طرف ایک اہم قدم تھا۔ موہن جو دڑو کے زمانے میں گندم، جَو اور باجرے کی کھیتی عام ہوتی تھی اور بھیڑ، بکری، سوئر اور گدھے جیسے جانور گھروں میں پالے جاتے تھے۔ لوگوں نے بستیاں بسائیں اور بڑے شہر آباد ہوئے اور آگے چل کر زیادہ بارشوں اور پانیوں سے تحفظ کے لیے شہروں اور بستیوں کو کوٹ دینے کا رواج بھی پڑا اور اونچے ٹیلے بنا کر ان پر گھر، گاؤں یا بڑی آبادی بسانے کے رواج کا بھی آغاز ہوا۔
جب بھی شہری ثقافت اور شہروں کی منصوبہ بندی اور تحفظ کے لیے شہر کے گرد قلعہ یا کوٹ کی تعمیر پر بحث ہوتی ہے تو ہمیشہ مثال کے طور پر جیریکو (Jericho) کی بستی پیش کی جاتی ہے جس کا تعلق 7000 قبل مسیح سے ہے۔ یہ ان زمانوں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی جہاں تعمیر کی کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ ایسی ہی سُمیر تہذیب کی ایک بستی جو فرات کے کنارے آباد تھی جسے ’حبیبہ کبیر‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے جس کا تعلق 3500 قبل مسیح سے ہے۔
فلسطین جارڈن ندی کے کنارے جیریکو کی سات ہزار قبل مسیح قدیم بستی کے آثار
آرکیالوجی کے ماہرین کے مطابق یہ بستی قلع بند تھی مگر نہ شہر میں کوئی منصوبہ بندی اور نہ ہی گھروں کی تعمیر میں کوئی ترتیب نظر آتی ہے۔ البتہ اس بستی کی مختصر سی اراضی میں گندہ پانی نکالنے کی نالیاں ملی ہیں۔ مگر کراچی کی الھڈنو کی پوری بستی میں گندے پانی کے نکاس کے لیے نالیاں ملی ہیں جن کی قدامت سے متعلق آثارِ قدیمہ کے ماہرین کا مؤقف ہے کہ یہ بستی مسلسل بستی اور اُجڑتی رہی ہے۔ مطلب تینوں زمانے یعنی سندھو تہذیب کے پروان چڑھنے سے پہلے (Early Indus) والے زمانے، سندھو تہذیب کے کمال کے زمانے (Mature Indus Culture) اور ممکن ہے کہ موہن جو دڑو پر موسمی تغیرات کے حوالے سے آئے ہوئے زوال کے بعد بھی (Post Indus) یہ بستی آباد رہی۔ اس بستی کے قائم رہنے کی بڑی وجہ پہاڑی علاقہ اور سمندری کنارہ ہی ہے۔
ہم بستی الھڈنو کو دیکھنے اور جانچنے کے لیے یہاں جلد آئیں گے۔ اس سے پہلے ہم اس بستی سے مغرب میں کچھ فاصلے پر سونمیانی کنارے پر بسی اُس بستی میں چلتے ہیں جس کا ذکر ہم اس تحریر کی ابتدا میں کرچکے ہیں۔ جنہیں ’بالا کوٹ‘ اور ’کوٹ بالا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ بستی سمندری کنارے کی وجہ سے وجود میں آئیں، اس لیے بستی کی روزی روٹی سمندر کی دین سے وابستہ تھی۔ بلکہ کچھ محققین نے ایک بندرگاہ سمجھ کر اس جگہ کی کھدائی کروائی تھی۔ دُور کی بستیوں سے بیوپار ہوتا تھا جیسے جنوب مشرق میں سوراشٹر کی طرف اور ممکن ہے شمال کی طرف مرکزی صوبے کے دیگر شہروں، بستیوں اور قریبی بستی الھڈنو سے بھی لین دین کا رشتہ رہا۔
کراچی سے وندر ندی اور بالاکوٹ کی سائٹ
ہم ذکر کررہے تھے شہروں اور بستیوں کو تحفظ دینے کے لیے بستیوں کے گرد دیواروں کا جو پانی سے تحفظ کے لیے دی جاتی تھیں۔ تمام بستیاں شیر دریا کے کنارے آباد تھیں کیونکہ دریا کے بہاؤ کے بغیر زندگی پنپ نہیں سکتی اور نہ ہی پنپ کر جوان ہوسکتی ہے۔ شیر دریا نے اپنے شیریں پانی سے یہاں کی زندگی کو سانسیں تو دیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا بہاؤ گلیشیئرز کے پگھلنے کے موسم میں ایک بدمست ہاتھی کی طرح ہوجاتا اور یہی وہ موسم ہوتا کہ بے تحاشا بارشیں بھی ہوتیں۔ تو ایسے میں جو ساون کی جھڑی لگتی تو سب جل تھل ہوجاتا اور بہاؤ بہت سی بستیاں اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا۔ بلکہ دریائے سندھ کی یہی کیفیت تو ہمیں 1843ء میں لندن سے شائع ہونے والی Thomas Postans کی کتاب میں بھی نظر آتی ہے کہ دریا کے کنارے جو بستیاں آباد ہوتی تھیں وہ دو تین برس کے بعد موسمی تغیرات کی وجہ سے دریا انہیں بہا لے جاتا حتیٰ کہ تالپور حکمرانوں کے دور میں بھی ان کے ایک دو تخت گاہ والے شہر بھی دریا کا پانی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا تھا۔
مگر اس سمندری کنارے پر حالات دریائی کناروں سے بہت مختلف ہوتے تھے۔ ایس-آر-راؤ صاحب لکھتے ہیں کہ دریائی بہاؤ سے ہونے والے نقصان کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا جاسکتا تھا مگر سمندری کناروں کو کوئی براہِ راست خطرہ نہیں تھا۔ ان دنوں میں جب سمندر میں پانی بڑھنے اور اس میں ہواؤں کی وجہ سے اُتھل پُتھل زیادہ ہوجاتی تھی تو سندھو گھاٹی کے سمندری کناروں جیسے مکران، سندھ اور کچھ سوراشٹر کے کنارے بسنے والے لوگ ان موسموں کی اُلٹ پھیر کو محسوس کر لیتے تھے۔
یہ ہر سال ہوتا تھا اور ایسے موسم میں سمندر میں جاکر شکار کرنا ناممکن تھا تو ایسے موسم میں سمندری کنارے بسے ہوئے ماہی گیر سنکھ کا شکار کرتے تھے۔ جو زیورات بنانے کی صنعت کو خام مال فراہم کرتا تھا، اس صنعت سے ملک کے محصولات میں اچھا اضافہ ہوجاتا تھا۔ اس قسم کے خام مال سے دیگر چیزیں بھی بنائی جاتی تھیں جیسے چھوٹے سے اوزار، راند کھیلنے کے لیے گوٹیاں، ناپ کے لیے چھوٹے فٹ اسکیل، سمت معلوم کرنے کے لیے کمپس اور دیگر چیزیں بناتے تھے جو کھدائی کرتے وقت ہاتھ لگی ہیں۔
اس کے علاوہ موتیوں (Genu stones) اور عاج سے بنی دوسری آرائشی چیزیں میسوپوٹیمیا (Mesopotamia)کے اُر(Ur)، کش(Kish)، براک (Brak) اور ایلم (Elam) کے سوس (Suse) شہر کو بھیجی جاتی تھیں اور یہ چیزیں یہاں کی کشتیوں پر اُن ممالک تک پہنچائی جاتی تھیں اور چیزوں کے بدلے میں تانبہ، دیگر دھاتوں، ادویات، خوشبوئیں اور اس طرح کی بہت سی دیگر چیزیں لےکر واپس لوٹتے۔ خام مال کے لیے یہ اپنے صوبوں میں لین دین کرتے تھے۔ بیوپاری ہنرمندوں کو کام کے بدلے وافر مقدار میں کھانے کی چیزیں دیتے تھے۔ کچھ کاریگر دھات کو پگھلا کر ان سے کچھ چیزیں بناتے تھے۔ کچھ ہنرمند چھوٹے بڑے موتیوں (Beads) سے آرائشی ہار وغیرہ بنانے میں مہارت رکھتے تھے اور سمندر کنارے رہنے والے ایسے بھی ہنرمند تھے جو بڑی بڑی کشتیوں کی صنعت سے منسلک تھے۔
ابراہیم حیدری میں سمندری کناروں پر اب بھی بڑی کشتیاں بنتی ہیں
مگر ہم جس سمندری کنارے کی بستی اور بندرگاہ سے گزر رہے ہیں، موجودہ وقت میں اس کے آثار سمندری کنارے سے 12 کلومیٹرز شمال کی طرف ہے مگر یہ جن دنوں کا ذکر کررہے ہیں تب سمندری کنارہ اتنا دور نہیں تھا بلکہ بالا کوٹ کے بہت نزدیک تھا۔ سندھو گھاٹی کی اس قدیم بستی کی کھدائی 1973ء سے 1975ء کے درمیان جارج فرینکلن ڈیلس (George Franklin Dales) نے کروائی تھی۔ میرے سامنے جارج فرینکلن کی تفصیلی رپورٹ کے علاوہ ایک اور رپورٹ اس قدیم بستی کے متعلق موجود ہے جسے William Raymond Belcher نے تحریر کیا ہے۔
یہ رپورٹ ماہی گیری کے حوالے سے ہے جس میں وہ ہمیں بتاتا ہے کہ ’یہاں سے جو مچھلیوں کی ہزاروں ہڈیاں اور ان کے کنکال ملے ہیں وہ مچھلیوں کی 19 نسلوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ رہائش والے ٹیلے پر سے جن مچھلیوں کے کانٹے ملے ہیں اُن میں دوتھر فش (Grunter)، سنگھاڑا (Marine Catfish)، مُسکے (Croaker) اور travel fish Jack کی کافی بہتات ہے۔ یہ مچھلیاں آج بھی سمندری کنارے رہنے والی بستیوں کی خوراک میں شامل ہیں۔ جبکہ آبادی سے کچھ پہلے کی مچھلیوں کے ساتھ جو دوسری مچھلیاں ملی ہیں ان میں Shark, Sea bream, Barracuda, Hair tail کے ساتھ، ساتھ Requiem Shark کے نوکیلے دانتوں والے جبڑے بھی شامل ہیں جنہیں مچھلی کاٹنے والے اوزاروں سے کاٹا گیا ہے۔ ساتھ میں Cuttlefish کی ہڈی کا ایک ٹکڑا اور Cephalopod کی ایک نسل کی نشانی ملی ہے‘۔
مچھلیاں آج بھی سمندری کنارے رہنے والی بستیوں کی خوراک میں شامل ہیں
دریا کنارے بسنے والی بستیوں کا ذریعہِ معاش ماہی گیری کی ہوتا ہے
اس مختصر سی رپورٹ میں اگر ہم ڈھونڈیں تو کئی حقائق پوشیدہ ہیں۔ روزانہ کے کام کاج، خوراک کے متعلق اور خاص طور پر ماہی گیری کے حوالے سے۔ کیونکہ اس رپورٹ میں دو قسم کی شارکس کا ذکر کیا گیا ہے اور شارک پکڑنا کوئی عام شکار نہیں۔ اس کے لیے سنجیدہ تجربے، سمندر کی مکمل سوجھ بوجھ، موسموں کے تغیرات، مدوجزر کے متعلق اچھی طرح معلوم ہونا انتہائی ضروری تھا۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ وہ اوشنوگرافی کا علم اچھی طرح جانتے تھے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔
بالاکوٹ کی یہ قدیم بستی 180x160 میٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ ایس-آر-راؤ لکھتے ہیں کہ یہ قدیم بندر اور بستی مکران کے سمندری کنارے پر ہے۔ اس کی کھدائی کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ سندھو گھاٹی اور سُمیر تہذیبوں کے آپس میں گہرے بیوپاری تعلقات تھے۔ بالا کوٹ سندھو تہذیب کے عروج کے زمانے میں بھی ایک متحرک بستی تھی۔ یعنی یہ دو قدیم زمانوں کی انتہائی اہم بستی ہے۔ ’پیرڈ A‘ کی کھدائی سے سندھو تہذیب والے عروج کے زمانے کی ثقافتی چیزیں جیسے پتھر کے چاقو، تولنے کے لیے پتھر کے باٹ، پکے ہوئے اور گلکاری کیے ہوئے برتن اور کچھ مہریں ملی ہیں۔ مگر تعمیر کے حوالے سے فقط دو دیواریں ملی ہیں۔ ایک بڑی بھٹی اور دوسری کئی تنوریاں ملی ہیں جو دیواروں سے باہر کی طرف ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں صنعتی ایریا تھا جہاں ایسی چیزیں تیار ہوتی تھیں جنہیں پکانے کی ضرورت پڑتی تھی جیسے مٹی کے برتن اور جانوروں کی مورتیاں وغیرہ۔ ’پیرڈ B‘ کی کھدائی سے انڈس ویلی کے اوائلی زمانے (Early Indus) کے آثار نمایاں ہوئے جن میں تعمیرات کچی اینٹوں سی کی گئی ہیں اور برتنوں پر جانوروں کے ریوڑوں اور جُھنڈوں کی لکیروں میں تصاویر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
بالا کوٹ کی کی گئی کھدائی کا پلان میپ
بالا کوٹ کی اس بستی کی دوسری رپورٹ میرے سامنے جارج فرینکلن ڈیلس کی ہے جس نے اس بستی کی کھدائی کروائی، یہ انتہائی اہم رپورٹ ہے۔ اس رپورٹ میں کچھ ایسے انکشافات ہیں جو یقیناً حیران کردینے والے ہیں۔ اس نے یہاں ایک ایسی صنعت کی بنیادیں ڈھونڈ نکالیں جو انڈس ویلی کی خوبصورتی میں ایک انتہائی اہم اضافے کا سبب بنی اور اس کی باقیات آج تک کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ اگر آپ نے موہن جو دڑو سے ڈانسنگ گرل کا کانسی کا بنا مجسمہ دیکھا ہے تو اس کا دایاں بازو آپ کو چوڑیوں سے بھرا نظر آئے گا اور بائیں کلائی میں بھی کچھ کنگن نظر آئیں گے۔ یہ وہ shell bangles ہیں جن کے پیداواری سمندر کنارے کی وہ بستیاں تھیں جو یہاں سے کَچھ اور گجرات تک پھیلی ہوئی تھیں۔ آپ اگر موہن جو دڑو یا ہڑاپا کے زیورات دیکھیں گے تو آپ کو سنکھ (Shell-fish) اور سمندر کنارے ملنے والے Bay scallop shell سے بنے بہت سے زیورات دیکھنے کو ملیں گے۔
ڈانسنگ گرل کا کانسی کا مجسمہ جس کے ہاتھ میں چوڑیاں ہیں
کَچھ کے جنوبی کنارے گولا ڈھورو سے سنکھ سے بنی چوڑیوں کی فیکٹری کا آثار
1980ء کی دہائی میں بالا کوٹ کی یہ بستی جو سنکھوں سے بننے والی چوڑیوں میں ایک اہم مرکز کی حیثیت رکھتی تھی اس کی کھدائی ہوئی۔ 1996ء میں کَچھ کے جنوبی کنارے پر ایسی ایک بستی ’گولا ڈھورو‘ کی کھدائی بڑودہ یونیورسٹی نے کی اور وہاں سے بھی سنکھ سے بنی چوڑیوں کے گدام ملے جس سے یہ بات سامنے آئی کہ موہن جو دڑو کے عروج کے زمانے میں یہ صنعت اپنے عروج پر تھی۔ آپ اگر آرکیالوجی کے قدیم سمندری راستے دیکھیں تو کراچی سے کَچھ بُھج، ڈھولا ویرا گجرات تک لین دین تھی کیونکہ سمندری کنارہ صرف ایک ہی تھا۔
بالا کوٹ کی سَنکھ سے بنی چیزوں کی فیکٹری اور ان چیزوں کے متعلق بہت ساری معلومات آپ تک پہنچانی ہے۔ یہاں بننے والی سنکھ کی ان چوڑیوں کے حوالے سے میں ایک بڑی اور شاندار بات آپ سے کرنے والا ہوں جس کے متعلق مجھے یقین ہے کہ نہ اس سے قبل آپ نے یہ بات کہیں پڑھی ہوگی اور نہ سُنی ہوگی۔ تو ہم جلد ہی ملتے ہیں وندر نئے کے کنارے بالاکوٹ کی اس قدیم بستی میں۔
حوالہ جات |
کراچی: صدیوں کی کتھا! (آٹھویں قسط) | "اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔\n\nمجھے نہیں پتا کہ ا(...TRUNCATED) |
کراچی: صدیوں کی کتھا! (نویں قسط) | "اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔\n\nوقت کی کوکھ میں پل(...TRUNCATED) |
End of preview. Expand
in Data Studio
README.md exists but content is empty.
- Downloads last month
- 16