title
stringlengths
21
72
text
stringlengths
1.72k
15.6k
کراچی: صدیوں کی کتھا! (آٹھویں قسط)
اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔ مجھے نہیں پتا کہ اب ایسا ہے یا نہیں مگر ماضی قریب میں سندھ و ہند میں ملتان کے زبردست زیورات بنانے والوں کی بنی ہوئی جھانجریں بہت مشہور ہوا کرتی تھیں جیسے آج کل حیدرآباد کی کانچ کی رنگین اور شاندار چوڑیاں پورے ملک میں مشہور ہیں۔ ہم جو سمندری کنارے بنی قدیم بستی بالا کوٹ کا ذکر کر رہے تھے تو وہ بھی آج سے پانچ ہزار برس پہلے شب و روز کی کوکھ میں شاندار، نازک اور خوبصورت چوڑیاں بنانے کا اہم اور مصروف مرکز تھا۔ یہ انسانی ارتقا کے ذہن کی وسعت اور ترقی کا زمانہ تھا۔ انسان کے دماغی خلیے شاید تیز رفتاری سے کُھلنے لگے تھے۔ دنیا میں جہاں جہاں انسان کو مُثبت ماحول ملا وہاں وہ فطرت کی دین کو نئی شکل دینے کے متعلق گہرائی سے سوچنے لگا تھا اور چیزوں کو نئی خوبصورت شکل دینے کے لیے وہ ہمیں اس بالا کوٹ کی بستی میں ایسے عمل کرتے نظر آتا ہے جس سے ہم جان جاتے ہیں کہ وہ بہت محنتی تھا اور ترقی کے راستے پر اپنا سفر انتہائی خوبصورتی سے شروع کر چکا تھا۔ مٹی سے بنی اور بھٹی میں پکی چوڑیوں کی نسبت سنکھ سے چوڑیاں بنانا نہ صرف انتہائی مشکل تھا بلکہ انہیں بنانے کے لیے زیادہ صبر، سکون اور ذہانت کی سخت ضرورت تھی۔ وہ اس بستی کے فنکاروں میں تھی کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید سنکھ سے نازک اور خوبصورت shell bangles کبھی نہ بنتے۔ بالا کوٹ کی کھدائی کرنے والے جارج ایف ڈیلس کی رپورٹ جو خاص کر ان چوڑیوں کے ہنر کے متعلق ہے وہ میرے سامنے ہے۔ ہم اس قدیم زمانے کے متعلق کچھ حقائق ڈیلس سے سُن لیتے ہیں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ’بالاکوٹ کی چھوٹی سی بستی کراچی سے 55 میل شمال میں سمندری کنارے پر واقع ہے۔ یہ سندھو گھاٹی کی ایسی بستی ہے جہاں آرٹ اپنے ایک معیار کے ساتھ پنپ کر جوان ہوا۔ یہاں Meretrix شیل سے جو چوڑیاں بنتی تھیں وہ کم سے کم دس محنت طلب مراحل سے گزر کر وہ آکار لیتی تھیں کی کلائیوں کی خوبصورتی بن سکیں۔ یہاں کے سمندری کنارے سے کیونکہ سنکھ زیادہ مقدار میں نہیں ملتا اس لیے یہاں زیادہ تر Meretrix شیل سے چوڑیاں بنائی جاتی تھیں۔ بالاکوٹ میں سیپوں سے چوڑیاں بنائی جاتی ہیں چونکہ سنکھ Meretrix سے زیادہ بڑا اور سخت ہوتا ہے اس لیے اُسے کاٹنے اور چوڑیوں یا کنگن جیسی شکل دینے کے لیے شاید کسی آری جیسے اوزار کا استعمال ہوتا ہوگا۔ چوڑی تیار ہونے کے بعد اُس پر چکمکی بلیڈ سے ہلکی معمولی سی گلکاری کی جاتی تھی اور پھر اُسے پالش کی جاتی تھی جس سے چوڑی کا کھردرا پن ختم ہو جاتا اور وہ کلائی میں پہننے کے لائق ہو جاتیں۔ یہ گمان غالب ہے کہ یہ چوڑیاں مرد اور عورت دونوں پہنتے ہوں گے۔ مگر اس کا مطلب یہ بالکل نہیں نکالنا چاہیے کہ دونوں ایک تعداد یا انداز میں یہ چوڑیاں پہنتے ہوں گے۔ ممکن ہے مرد ایک یا دو چوڑیاں پہنتے ہوں جبکہ عورتیں سنگھار کے لیے زیادہ پہنتی ہوں’۔ وانکھنڈ ملیر کی گور سے ملی سعپیوں سے بنی چوڑیاں—تصویر: ڈاکٹر ذوالفقار کلہوڑو Meretrix کی چوڑیوں کے علاوہ مختلف طرز کی ٹیراکوٹا چوڑیاں اور تانبے اور کانسی کی چوڑیوں کے ٹکڑے بھی بالاکوٹ میں بہت زیادہ ہیں۔ ہم اگر سندھو گھاٹی تہذیب کے دوسرے بڑے شہروں جیسے موہن جو دڑو، ہڑپہ، کالی بنگن، مہرگڑھ، ڈھولا ویرا میں دیکھیں تو وہاں بھی ہمیں Meretrix اور سنکھ کی چوڑیاں مختلف بناوٹوں میں ملی ہیں۔ ہمیں سمندری کناروں کی بستیوں سے مچھلی کی ہڈیاں دوسرے جانداروں سے زیادہ ملتی ہیں۔ یہاں بسنے والے لوگ خوراک میں مچھلیوں اور شیل رکھنے والی حیات کو استعمال کرتے تھے اور ذریعہ معاش کے لیے بالاکوٹ کے لوگ زیورات کی تیاری میں مصروف رہتے تھے۔ خاص طور پر چوڑیاں اور شیلوں سے بننے والی پہننے کی دوسری چیزیں۔ یہاں کام کرنے والے علاقوں کی تقسیم اور چوڑیوں اور خول کے ٹکڑوں کا ارتکاز یہ بتاتا ہے کہ Meretrix چوڑیوں کی تیاری ایک چھوٹی صنعت تھی جس پر خواتین زیادہ کام کرتی تھیں۔ ہم نے اس قسم کی چوڑیاں بنانے کے لیے مختلف تجربات کیے جس سے اندازہ ہوا کہ ایک چوڑی کے لیے بغیر کسی وقفے کے کام کیا جائے تو ڈیڑھ سے دو گھنٹے تک کا وقت لگ جاتا ہے اور اس دوران ٹوٹ پُھوٹ کی مقدار 30 سے 50 فیصد تک تھی۔ بالا کوٹ کی ان فیکٹریوں سے ٹوٹے ہوئے شیل کے ملے ہوئے تکڑوں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ہنرمند کاریگر دن کے اگر سات گھنٹے کام کرے تو چھے سے سات تک یہ چوڑیاں بنا سکتا ہے۔ یہاں سے ملے ہوئے ہزاروں ٹکڑوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بستی کی اہم سرگرمی چوڑیاں بنانا تھی۔ ہم اگر سندھو گھاٹی تہذیب کے، لوتھل، موہن جو دڑو، ہڑپہ، آمری کا مطالعہ کریں تو وہاں انسانی تدفین کے حوالے سے شائع شدہ رپورٹس میں شیل چوڑیوں کی موجودگی کا ذکر ملتا ہے۔ مگر اس حوالے سے بہت زیادہ تحقیق کی ضرورت ہے کہ یہاں جو چوڑیاں بنتی تھیں اُن کی مارکیٹ کی وسعت کتنی تھی؟ اب تک تو ایسا لگتا ہے کہ یہاں سمندری کنارے جو آبادیاں تھیں، بالا کوٹ سے مغرب اور مشرق جنوب میں یہ چوڑیاں ان ساحلی برادریوں کا مقامی زیور تھا کیونکہ یہاں انہیں بنانے کے لیے جو مواد درکار تھا وہ باآسانی دستیاب تھا۔’ انڈس ویلی سویلائزیشن اس قدیم ہنر کے متعلق جب میں نے سوچا تو میں حیران رہ گیا اور اس حیرانگی کی زمین پر ایک سوال کی کونپل پھُوٹی کہ ایک بستی کے لوگ وہ کتنے بھی ہوسکتے تھے، 50 یا اس سے بھی زیادہ تو کیا وہ اپنا سارا دن اس کام کو دیتے تھے؟ ظاہر ہے کہ سمندر سے Meretrix حاصل کرنے کے لیے وسائل اور لوگ چاہئیں۔ مقصد یہی کام ان بستی والوں کی روزی روٹی تھا اور روزی روٹی کے لیے انسان وہ کام کرتا ہے جس کی مارکیٹ ہو۔ اس فن کی نشانیاں ساحلی بستیوں سے سیدھا شمال کی طرف مہرگڑھ (سات ہزار قبل مسیح) سے بھی ملتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ یہ زیورات ایک عام مزدور کے لیے نہیں بنتے ہوں گے بلکہ معاشرے کے اعلیٰ طبقے کے لیے بنتے تھے۔ نچلا طبقہ مٹی سے بنی اور بعد میں آگ میں پکی چوڑیاں، کنگن اور منکوں سے سنگھار کا سامان پہنتا تھا۔ مہرگڑھ سے ملا سیپیوں سے بنا ہار میں نے اس ہنر کے متعلق چند محققین سے گفتگو بھی کی، مگر میرے سوالوں کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں آیا۔ کچھ لوگوں نے کتابیں اور رپورٹس اس طرح تجویز کیں جس طرح ڈاکٹر کے پاس جانے کے بعد ڈاکٹر آپ کی باتیں سن کر نسخہ تجویز کرتا ہے۔ مگر میں آپ کو بتانے کے لیے کچھ ایسا ڈھونڈ رہا تھا جو اس سے پہلے نہ آپ کی سماعتوں تک پہنچا ہو اور آپ کی بصیرت نے پڑھا ہو یا دیکھا ہو۔ پھر ایک اتفاق ہوا۔ یہ تین دسمبر کی ٹھنڈی شام کا ذکر ہے۔ میں نے ڈاکٹر ذوالفقار کلہوڑو صاحب سے کچھ بات کرنے کے لیے کال کی۔ باتوں باتوں میں سمندر کنارے ملنے والی سیپوں اور سنکھ سے بنی چوڑیوں کا ذکر نکل پڑا اور جو ذکر نکلا تو بہت دور تک گیا۔ بالا کوٹ میں سیپوں سے بننے والی چوڑیوں کے مختلف مراحل ’ڈاکٹر صاحب آپ بہت سارے ممالک کے تاریخی مقامات دیکھ چکے ہیں، پاکستان خاص کر بلوچستان اور سندھ کے پہاڑی سلسلوں پر نہ جانے کب سے تحقیق کے حوالے سے جاتے رہے ہیں۔ آپ کو کبھی کچھ ایسا نہیں ملا کہ جسے دیکھ کر آپ حیران ہوئے ہوں؟‘ میں نے ڈاکٹر سے سوال کیا۔ کچھ دیر کے لیے خاموشی رہی پھر جواب آیا ’بہت کچھ ایسا دیکھا ہے جو حیران کرنے والا ہوتا ہے۔ میں مسلسل اُن مقامات پر لکھ بھی رہا ہوں۔ مگر آپ کی دلچسپی کی ایک بات بتاتا ہوں۔ میں نے آپ سے ملیر کی ایک پہاڑی پر قدیم قبرستان کا ذکر کیا تھا جو کراچی سے 50 کلومیٹر شمال میں ہے اورMesolithic مڈل اسٹون ایج کی سائٹ ہے۔ یہاں پر عورت کی ایک قبر سے سمندری سیپوں سے بنی ہوئی چھ چوڑیاں ملیں جو عورت کی ایک کلائی میں تھیں۔ ظاہر ہے یہ اُس زمانے کی قبر ہے جب ساحلی کناروں کی بستیوں میں اعلیٰ طبقے کے لیے ان سنکھوں یا سیپوں سے زیورات بنتے تھے اور یہ کسی بڑے خاندان کی عورت کا کنکال تھا جس کا خاندان بستی کا بڑا ہوگا۔ وہ کوئی بڑا بیوپاری بھی ہوسکتا ہے یا بستی کا معزز بھی ہو سکتا ہے۔ سیپوں سے بنی چوڑیاں وانکھنڈ کی اس میگالتھک سائٹ سے اس طرح کی گور ملنے سے بات کرنے کے لیے اور بھی کئی دروازے کھل جاتے ہیں کہ کراچی کے اطراف میں ان زمانوں میں کئی ایسی بستیاں بستی تھیں جہاں ہنرمند لوگ تھے اور ان کے دوسری بستیوں کے ساتھ روابط تھے۔ ہمارے یہاں جو سب سے بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ ہم نے سیکڑوں ایسے قدیم مقامات کی سائنسی بنیادوں پر کھدائی نہیں کروائی ہے اور جن کی کروائی بھی اُن کو پھر سے لوگوں نے پاٹ دیا اور اب ان پر فصلیں اُگائی جا رہی ہیں یا سائٹس کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے وہ زمین برابر ہو گئی ہیں۔’ اور باتوں کے اختتام پر جب میں نے ڈاکٹر صاحب سے اُن چوڑیوں کی تصاویر مانگیں تو ڈاکٹر صاحب تصاویر دینے کے لیے اس لیے تیار نہیں تھے کہ یہاں دوسرے کی محنت پر اپنا نام چمکانے کی بیماری اتنی زیادہ ہے کہ وہ اپنی محنت کسی کے حوالے کرنے کو تیار نہیں تھے۔ آخر دو تصاویر دینے کے لیے اس شرط پر راضی ہوئے کہ تصویر پر ان کا نام موجود رہے۔ آپ یہ تصاویر دیکھیں اور تھوڑا تصور کریں کہ آپ سیپوں سے بنی شاید وہ چوڑیاں دیکھ رہے ہیں جو ہزاروں برس پہلے بالا کوٹ کی اُس ہنرمندوں کی بستی میں بنی ہوں گی جس بستی سے ہم ابھی آئے ہیں۔ سیپیوں سے بنی چوڑیوں کے نمونے—تصویر: ڈاکٹر ذوالفقار کلہوڑو ہمارے اس تاریخ سے پہلے زمانے کے سفر کا آخری پڑاؤ ’بستی الھڈنو‘ ہے جو کراچی کے مشرق ملیر میں ہے۔ اس سندھو گھاٹی تہذیب کی اہم بستی کی کھدائی 1973ء سے 1975ء کے دوران مسٹر والٹر اے فیئرسروس کی نگرانی میں ہوئی تھی۔ اُن دنوں یہ سائٹ اندازاً 34 ایکڑ پر پھیلی ہوئی تھی۔ میرے سامنے مسٹر فیئرسروس کی اس حوالے سے تفصیلی رپورٹس موجود ہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ طوالت سے بچنے کے لیے اُن رپورٹس کا لُب لباب آپ تک پہنچاؤں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ’برساتی ندیوں کے بہنے سے یہاں جو زرخیز زمین (Alluvium) بنی یہ بستی اس پر آباد تھی۔ چونکہ ہم نے اس سائٹ کی مکمل کھدائی نہیں کی اگر مکمل کھدائی کی ہوتی تو نچلے تہوں سے آمری کلچر کے ملنے کی امید کی جاسکتی تھی۔ ہم کو کھدائی سے جو مواد ملا ان میں 3 لاکھ برتنوں کے ٹکڑے، 24 ہزار Bicones (دو مخروطہ ) 2,600 ٹیرا کوٹا مثلث، 1500 چوڑیاں، 196 تانبے اور کانسی کے ٹکڑے اور دوسری اشیا ملی ہیں۔ بستی الھڈنو سے ملی موھن جو دڑو زمانے کی مہریں اور ٹیراکوٹا مہریں اور ٹیراکوٹا یہاں سے مچھلی کے 673 ٹکڑے بھی ملے ہیں، یہاں سے مچھلی کی جو باقیات ملی ہیں اُن میں میٹھے اور سمندری پانی کی مچھلیاں شامل ہیں۔ میٹھے پانی کی مچھلی شمال مشرق سے لائی گئی ہوگی کیونکہ یہ بستی ڈیلٹا کے قریب ہے تو میٹھے پانی کی مچھلی آسانی سے دستیاب ہوسکتی تھی جبکہ بالا کوٹ چونکہ بالکل سمندری کنارے کی بستی یا بندر تھا تو وہاں سے میٹھے پانی کی مچھلی کی باقیات نہیں ملیں۔ الھڈنو میں مچھلی سر سمیت پکائی یا اُبالی جاتی تھی اور آج تک بھی یہاں مچھلی سر سمیت ہی پکائی جاتی ہے۔ اس بستی میں مچھلی یقیناً خرید کر خوراک کے طور پر استعمال کی جاتی تھی کیونکہ یہاں مچھلی پکڑنے کی کوئی نشانی نہیں ملی ہے۔ البتہ مچھلی پکڑنے کے کانٹے ملے ہیں جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ کانٹے ڈوری سے شوقیہ مچھلی پکڑی جاتی ہوگی۔ بستی الھڈنو میں پتھروں سے تعمیر کی ہوئی پانی کی نالیاں یہ بستی ملیر میں اُس جگہ پر ہے جہاں ڈملوٹی کے کنویں موجود ہیں جہاں برٹش زمانے میں کراچی کو پینے کا پانی فراہم کیا جاتا تھا۔ یہ ملیر ندی کا Catch basin ہے جہاں 15 میٹر پر میٹھا پانی وافر مقدار میں مل جاتا ہے۔ چونکہ یہ برساتی ندیوں کے سنگم پر ہے اس لیے یہ کراچی کا انتہائی زرخیز علاقہ ہے۔ سائٹ کی کھدائی کے بعد سائٹ کے سب سے اونچے مقام پر ایک ہال ملا جو 20x8 میٹر کا تھا۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ جنوبی دیوار کے بیچ میں ایک کنواں تھا جس کے اندر کی گول دیوار کی پتھر سے چُنائی کی گئی تھی، اس کنویں سے پانی کے بہاؤ کے لیے 60x90 سینٹی میٹر کی نالی ہے۔ اس طرح یہاں اونچی سطح پر بنی تعمیرات پر تین کنویں ہیں جہاں سے پانی زرعی زمینوں تک نالیوں کے ذریعے پہنچایا جاتا تھا۔ قدیم زمانے میں کھیتی باڑی کے چند مناظر یہاں کنوؤں کی تعمیر ہمارے لیے کچھ سوالات چھوڑتی ہے جیسے یہاں کنوؤں کی گہرائی زیادہ نہیں ہے جس کا اہم سبب یہ ہے کہ ملیر کا وسیع Catch basin پانی کا وسیع زخیرہ پیدا کرتا ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کنوؤں کا پانی Hydrostatic Pressure کی وجہ سے ارد گرد کے واٹر ٹیبل سے زیادہ بڑھ جاتا ہے اور اس لیے کنویں کا قطر جتنا چھوٹا ہوگا پانی اتنا ہی بلند ہوگا۔ ڈملوٹی میں موڈیم کنویں پانی کی اونچائی میں دس میٹر یا اس سے بھی زیادہ تک اُتار چڑھاؤ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بڑے کنوؤں میں بھی پانی کی سطح زمین کی سطح سے چھ میٹر تک اوپر آسکتی ہے۔ انڈس ویلی کے کنوؤں کو جان بوجھ کر قطر میں چھوٹا رکھا گیا تھا تاکہ پانی کی سطح نہ صرف بلند ہو بلکہ بلاشبہ Artesian انداز میں بہہ جائے۔ اس بستی کے مرکزی کنویں سائٹ کے سب سے اونچے حصے پر ہیں اور آس پاس کا ڈھلوان ہونے کی وجہ سے وہ جس طرف چاہتے پانی کو اُس طرف بہا کر لے جا سکتے تھے جبکہ یہاں پانی کی پکی نالیاں ہیں جو پتھروں سے بنی ہوئی ہیں۔ وہ چاہے صاف پانی بہانے کی ہوں یا گندے پانی کی نکاس کے لیے ہوں۔ Artesian انداز کا کنواں یہاں سے کوئی زمین کے اندر سے پانی کھینچنے کے لیے کسی رہٹ کی نشانی نہیں ملی ہے جس سے یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہاں جو گندم یا دوسری فصلیں اُگائی جاتی تھیں اُن کی سنچائی ان کنوؤں کے پانی سے ہوتی تھے۔ یہاں جو مویشی تھے اُن میں بکری، بھیڑ، بھینس، ممکنہ طور پر گدھے اور اناج کھانے والے چوہوں کے ثبوت ملے ہیں اور جن پرندوں کی پہچان ہوئی ہے اُن میں مرغی، بٹیر، تیتر اور مور جیسے پرندے بھی تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ ابتدا میں اس بستی کو مویشی پالنے والوں نے آباد کیا جس کے بعد ان کی تعمیرات کا دور آیا۔ یہاں انسانوں کی آبادی کچھ زیادہ نہیں تھی مگر 80 سے کچھ زیادہ یا 100 کے قریب یہاں لوگ بستے ہوں گے۔ الھڈنو میں آبادکاری کا قدیم منصوبہ یہاں سے جو مٹی سے بنی چوڑیاں ملی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں جو عورتیں رہتی تھیں وہ دبلی پتلی تھیں اور قد اندازاً چار فٹ چار انچ تک رہا ہوگا۔ یہاں اونچی عمارت کے مغرب میں کچھ بھٹیاں ملی ہیں جہاں مٹی کے ہاروں کے منکے اور دوسری سنگھار کی چیزیں بنانے اور اس کے بعد ان کو پکانے کے لیے یہ بھٹیاں استعمال ہوتی تھیں۔ ان بھٹیوں کے قریب پکی ہوئی ایسی چیزوں کے ذخیرہ کرنے کے کمرے بھی ملے ہیں۔ یہاں سے ملی مہریں اور مذہبی نشانیوں سے اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے کہ سندھو گھاٹی کی رسم الخط یہاں کے باشندوں کے لیے معروف تھی۔ یہاں سے ایک سینگ والے (Unicorn) بیل کی مہریں ملی ہیں اور ساتھ میں گینڈے اور ہاتھی کی تصویر والی مہریں بھی ملی ہیں جو یہاں کے مذہبی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں اور یہ اس حقیقت کو واضع کرتی ہے کہ اس بستی کے موہن جو دڑو اور سندھو گھاٹی کے دوسرے شہروں سے مربوط روابط تھے۔ بالاکوٹ سے ملنے والی سندھو گھاٹی تہذیب کی مہریں کہا جا سکتا ہے کہ سائٹ پر پائے جانے والے تمام مواد کا 95 فیصد 50 کلومیٹر کے دائرے کے اندر حاصل کیا جاسکتا تھا۔ جیسے چکمک کے ذخائر الھڈنو سائٹ کے سات کلومیٹر کے اندر واقع ہیں۔ خول اور مچھلی ملیر بیسن اور سمندر کے ساحل پر دستیاب تھیں۔ تابنا، عقیق، جسپر اور کارنیلین (Carnelian) لیاری کی پہاڑیوں، پورالی طاس، کوہستان میں پائے جاتے ہیں۔ مقامی طور پر فقط چاندی اور سونا دستیاب نہیں تھا۔ یہاں سے تانبے کے Slag ملنے کی تصدیق ہوئی ہے جو بکھرے ملے ہیں مگر چونکہ ابھی تک اس کی کوئی بھٹی نہیں ملی ہے تو اس کو تجارتی حوالے سے ذہن میں رکھنا ہوگا کیونکہ تجارت کے حوالے سے یہ ایک اہم سائٹ تھی۔ الھڈنو بستی کے پرانے گھر یہاں سے ایک پتھر کی دیواروں والے کمرے میں چھپایا ہوا زیورات کا ایک برتن ملا جس میں مختلف قیمتی پتھروں اور چاندی کے پانچ ہار اور تانبے کی گیارہ انگوٹھیاں ملیں جو گول چھلوں کی شکل میں بنی ہوئی تھیں، ساتھ ہی ایک چھوٹی سونے کی بالی بھی ملی ہے۔ ہم اگر ملیر کی اس اہم بستی کے پھیلاؤ پر بات کریں تو یہ تین کلومیٹر سے زیادہ اراضی پر نہیں پھیلی ہوگی اور یہاں کے لوگوں کے پاس جو وسائل تھے وہ اس بستی کے رہنے والوں کے لیے مناسب تھے اور انہیں یقیناً اس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہوگی۔ ایک اور اہم بات جو بستی کے متعلق آپ کو بتانے سے رہ گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں سے کپڑے بنانے کی کھڈیوں کے نشان بھی ملے ہیں۔’ کپڑے بنانے کی کھڈی ایک شاندار بستی ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس بہت شواہد ہیں۔ میں جب یہ رپورٹس پڑھنے کے بعد اس بستی کو دیکھنے کے لیے نکلا تو میرے اندر سحر کے شگوفے پھوٹتے تھے۔ میں اُن کنوؤں کو دیکھ سکوں گا جن سے پانی بہتا ہوگا اور زرخیز زمین پر اس شیرین پانی سے ہریالی کی چادر اُگتی تھی۔ وہ گلیاں جن میں ہزاروں برس پہلے اس بستی میں بسنے والے ان گلیوں میں سے آتے جاتے ہوں گے۔ موسموں کی آمد کے دنوں میں اُن کی آجیاں کرنے کے لیے تہوار مناتے ہوں گے۔ بستی کے جنوبی کنارے سمندر کا نیلا اور مشرقی کنارے پر شیر دریا کا مٹیالا پانی بہتا ہوگا۔ اُن دنوں میں جب برساتی موسم آتا ہوگا تو اس بستی کے اونچے مقام سے جہاں کنویں بنے ہوئے تھے وہاں سے کتنا خوبصورت منظر دکھائی دیتا ہوگا۔ جب جاڑے کی یخ ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہوں گی تو کس طرح آگ کے گرد بیٹھ کر مرد، عورتیں اور بچے باتیں کرتے ہوں گے۔ اور شام کے وقت تیتروں کی آواز مغرب سے چلنے والی ہوا میں کیسے سحر کا رس گھولتی ہوگی۔ میں اس بستی کے آثار پر جا کر یہ سب اپنے اندر محسوس کرنا چاہتا تھا۔ الھڈنو بستی کی موجودہ حالت موہن جو ڈرو کے زمانے کی بستہ الھڈنو کی حالت انتہائی خراب ہے میں جب نیل بازار کی برساتی ندی کو پار کرکے ڈملوٹی کے کنویں دیکھ کر بستی الھڈنو پہنچا تو مارچ کی گرمی میں دِن تپتا تھا۔ راستے کے ایک طرف کھجور کے درخت تھے اور دوسری طرف فصلیں تھیں جن کی وجہ سے ہریالی اچھی لگتی تھی۔ پھر اس ہریالی کے بیچ میں گاڑی رُکی۔ میرے سامنے ایک ایکڑ پر پھیلا ٹیلہ تھا جس کے بیچ میں کچھ سولر پلیٹس لگی ہوئی تھیں اور زمین سے پانی کھینچنے کی مشین اس سولر پلیٹس کے پاور سے چلتی اور ٹیلے کے بیچ میں پانی اسٹور کرنے کے لیے سیمینٹ کی ٹنکی بنی ہوئی تھی اور ڈرپ ایریگیشن پر کسی پراجیکٹ کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ الھڈنو میں کسی ایریگیشن پراجیکٹ کا بورڈ لگا ہے یہ تھی موہن جو دڑو کے زمانے کی وہ قدیم ’الھڈنو بستی‘ جس کی قدامت اور کی کئی کھدائی کے تفصیل آپ ابھی پڑھ کر آئے ہیں۔ یہ سولر پلیٹیں اور پانی کی ٹنکی شاید بالکل اُسی جگہ بنی ہے جو اس بستی کی اونچی سطح والی جگہ تھی اور جہاں کنویں تھے۔ اس وقت میری کیا کیفیت تھی اب اس پر لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِن لمحوں میں اُس سنگدلی اور غیر ذمہ دارانہ روش پر آپ کے ذہن میں بھی کئی سولات ہوں گے۔ مگر شاید میرے پاس بلکہ ہم سب کے پاس اس بے حسی اور غیر ذمہ دارانہ رَوش کے متعلق کوئی جواب نہیں ہے۔ حوالہ جات
کراچی: صدیوں کی کتھا! (نویں قسط)
اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔ وقت کی کوکھ میں پلتی کچھ گُتھیاں ایسی ہوتی ہیں جو شاید کبھی نہیں سُلجھتیں۔ ہم سندھو گھاٹی کی لاکھوں میلوں میں پھیلی ہوئی تہذیب کی بات ضرور کرتے ہیں، ان کے بڑے بڑے شہروں کی تعمیرات دیکھ کر حیران بھی ہوتے ہیں، ان کے مغربی دنیا سے بیوپار کے وسائل اور ذرائع دیکھ کر ہم کو اچھا بھی محسوس ہوتا ہے۔ مگر جب ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہاں کونسی زبان بولی جاتی تھی تو ہمیں کوئی جواب مطمئن نہیں کرتا اور ایک دو جملوں سے اس زبان کی تحریر کے ہمیں ثبوت نہیں ملتے اور ملی ہوئی اُن مختصر سی تحریروں یا نشانیوں کو ابھی تک پڑھا بھی نہیں جا سکا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شمال مغرب، مغرب اور جنوب مغرب کے دریاؤں کے کناروں پر تخلیق ہونے والی تہذیبوں کے پاس تحریروں کے خزانے تھے، اکادی زبان میں گل گامش کی رزمیہ داستان مٹی کی تختیوں پر تحریر کی جا رہی تھی اور 18ویں صدی قبلِ مسیح میں حمورابی کے قوانین لکھے جا رہے تھے۔ مصر میں لاشوں کو حنوط کرنے والے یونٹ کی روزانہ حاضری لگتی تھی اور جو جس دن نہیں آتا تھا اُس کے نہ آنے کے اسباب بھی تحریر کیے جاتے تھے یہاں تک کہ مصر کے اہرام تحریروں سے بھرے پڑے ہیں۔ مگر ہمارے پاس کچھ مہروں کی تحریروں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اب تحریر کی عدم موجودگی کے بعد ایک اور پُراسرار حقیقت جس کی گٹھری صدیوں سے نہیں کُھلی، کم سے کم آج تک تو نہیں کھُلی، کہ دریائے سندھ کی بنی ہوئی اس گھاٹی کا زوال جو 1750 قبل مسیح سے شروع ہوا اور ایک ہزار قبل مسیح تک چلا، اس کی ٹھوس وجوہات کیا تھیں؟ یہ سوال بھی دیگر کئی سوالوں کی طرح تشنہ ہے۔ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ کوئی قدرتی آفت ہوسکتی ہے جیسے بارشوں کے سلسلے یا قحط وغیرہ۔ تاریخ پر کام کرنے والے اس بات پر آپس میں بھڑے ہوئے ہیں کہ آریاؤں کی آمد اور اُن کی وحشت نے تمام صنعتی اور بیوپاری ڈھانچے کو کسی گُھن کی طرح چاٹ لیا۔ کچھ کہتے ہیں کہ آریاؤں کے آنے کی بات ہی غلط ہے۔ وہ یہاں سے گئے تھے اور واپس اپنی زمین پر لوٹ آئے۔ سرکپ ٹیکسلا—تصویر: لکھاری ایسے بحث و مباحثوں میں باتوں کی دھول بہت اُڑتی ہے جس میں حقیقت کی نشانیاں ڈھونڈنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ ویسے بھی تحقیق میں جب آپ کی جذباتی کیفیتیں شامل ہوجائیں تو پھر کسی بہتر اور حقیقت کے قریب نتائج کی تمنا کرنا بےسود ہے۔ بہرحال جو بھی ہوا، گزرے زمانوں کے اس منظرنامے پر بالخصوص ہمارے موضوع کے حوالے سے خاموشی کی ایک لمبی چادر تنی ہوئی ہے۔ ویدوں (ہندو مت کے قدیم الہامی کتب کے مجموعے کا نام) میں چونکہ شمالی مشرقی حصے کا کچھ ذکر ملتا ہے یا دریائے سندھ کا، مگر سمندر کناروں یا یہ کہنا چاہیے کہ جنوبی سندھ کا ذکر نہ ہونے کے برابر ملتا ہے۔ انہیں اسباب کی بنا پر ہم کچھ کہنے کی کیفیت میں نہیں ہیں خاص طور پر کراچی کے حوالے سے۔ مگر ان حوالوں سے یہ بات اخذ نہیں کرنی چاہیے کہ سمندر کنارے سے ملتان یا ٹیکسلا تک ایک خاموشی چھا گئی تھی۔ ایسا بالکل بھی نہیں تھا۔ آریاؤں کی آمد کی وجہ سے شمالی علاقے آریاؤں اور مقامی قبائل کے آپس میں بھڑنے کی وجہ سے جنگ کے میدان بنے ہوئے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ نئے آنے والوں نے پرانے رہنے والوں کو جنوب کی طرف ضرور دھکیلا مگر یہ بھی افسانہ نہیں ہے کہ ایک زمانے کے بعد ہمیں پھر انہیں علاقوں میں مقامی لوگوں کی حکومتیں نظر آنے لگتی ہیں۔ جیسے ’مگدھ‘ کی طرف جس کے متعلق ہم بات کرنے والے ہیں، جبکہ ٹیکسلا سے جنوب مغرب تک کا منظرنامہ محتلف تھا، وہاں مقامی حاکموں کی چھوٹی بڑی حکومتیں تھیں جو اپنے قبیلوں کے بنیاد پر مستحکم تھیں۔ زیادہ آسانی سے سمجھنے کے لیے ہم شمال مشرق جنوب کو گنگا گھاٹی اور شمال جنوب مغرب کو سندھو گھاٹی کے ناموں سے یاد کریں گے۔ ٹیکسلا—تصویر: لکھاری قدیم تاریخ اور عہد وسطیٰ کے متعلق ہماری معلومات مایوس کُن حد تک غیر متغیر اور غیریقینی ہے۔ اگر ہم چھٹی صدی قبل مسیح قدیم زمانوں کے سیاسی حالات جاننا چاہیں تو ہمارا انحصار بدھ مت اور جین مذہب کی مقدس کتابوں پر ہے جو تاریخی حوالے سے انتہائی ناقص ہیں۔ بقول اے-ایل-باشم، ان کتابوں کے مصنفین نے سیاسی معاملات پر توجہ نہیں دی اور ویدوں کی طرح یہ کتابیں بھی صدیوں تک سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہیں۔ مگر ویدوں کے برعکس زمانے کے ساتھ حجم میں بڑھتی گئیں۔ بہرحال ہمارے پاس اُن زمانوں میں گنگا ویلی کی دو بڑی حکومتوں کوسل اور مُگدھ کے متعلق بہت ساری معلومات ہے۔ کیونکہ یہ دونوں ہی بدھ مت اور جین مذہب کے بانیوں مہاتما بدھ اور مہاویر کی سرگرمیوں کا مرکز رہیں۔ کوسل کی حکومت جو افسانوی شخصیت رام کا وطن تھی پہلے ہی زوال پذیر ہوچکی تھی، اس کا بادشاہ پرسن جیت (پالی میں: پسندی) ایک طاقتور حکمران تھا۔ مگر بدھ مت کی مقدس کتابوں میں اسے ایک ناکارہ بادشاہ کہا گیا ہے جبکہ مگدھ (مگدھ سلطنت جنوبی ہند کی ایک تہذیبی یافتہ سلطنت تھی۔ مہاویر (527-599) ق۔م میں جین مت اور سدھارتھ (483-563) ق۔م میں بدھ مت کی داغ بیل ڈال چکے تھے) کے بادشاہ بمبسار ایک زبردست بادشاہ تھا اور اپنی سلطنت میں گھوم پھر کرحالات کا مطالعہ کرتا اور مسائل کا حل ڈھونڈتا، وہ ایک پُرامن انسان تھا اور اپنے مغربی ہمسایوں سے اچھے تعلقات رکھتا تھا یہاں تک کہ اس کے بالائی سندھ میں واقع گندھارا جیسی دور دراز حکومت سے بھی خوشگوار تعلقات تھے۔ آریاؤں نے بعدازاں جو شہر بسائے ان میں سب سے بڑا مرکز ٹیکسلا تھا۔ سبط حسن لکھتے ہیں کہ ’مہابھارت کے ساتھ وادی سندھ میں آریائی تہذیب کا دور ختم ہوا جو رِگ وید سے شروع ہوا تھا لیکن یہ ضرور تھا کہ جو بھی نئے فاتح آئے اور جو روایتیں آریاؤں نے قائم کی تھیں، انہیں دوسرے مٹا نہ سکے، خاص طور پر آریاؤں کی مذہبی زبان سنسکرت اور ان کی پراکرتوں بالخصوص ’خروشٹی‘ اور ’شورسینی‘ کو حاصل ہے۔ آگے چل کر یہی پراکرتیں ہماری زبانوں کی اساس بنی‘۔ مگدھ کے بمبسار نے اپنی ابتدائی تعلیم ٹیکسلا میں حاصل کی تھی۔ آرتھر باشم لکھتے ہیں ’ہم جب مگدھ، کوسل، وتسہ اور ونتی سلطنتوں کی بات کرتے ہیں تو یہ وہ زمانہ تھا جب گنگا وادی میں تہذیب کا نقطہ ارتکاز مشرقی حصہ ہوگیا تھا اور برہمنی تمدن کے حدود کے باہر ان چار عظیم حکومتوں نے سیاسی و معاشی اہمیت میں کوروں کے پرانے وطن کی عظمت کو خاک میں ملادیا تھا۔ گنگا اور سندھو گھاٹی میں، چھ سو قبل مسیح کی حکومتیں مہاتما بدھ کی وفات سے سات سال قبل بمبسار کے بیٹے اجات شترو نے اپنے باپ کو تخت و تاج سے محروم کرکے قید کردیا اور 490 قبل مسیح میں اسے قتل کردیا۔ مہاتما بدھ نے 483 ق۔م میں یہ جہان چھوڑا۔ ان دونوں باپ بیٹوں نے اپنی سلطنت کی وسعتیں بڑھانے کے لیے بہت محنت کی اور یہ ممکن ہے کہ اجات شترو کا باپ بمبسار، فارس کے ’ہخامنشی‘ (Aehaemenid) کے بانی ’کوروش اعظم‘ (دوئم: 558-530 ق-م) سے متاثر ہوا ہو جو بمبسار سے 16 سال قبل تخت پر بیٹھا تھا۔ باشم لکھتے ہیں ’سائرس دوئم انتہائی تیز رفتاری سے دنیا کی عظیم سلطنت کو وجود میں لایا، اس وقت شمال مشرق میں ٹیکسلا کا شہر علم و تجارت کا مرکز تھا‘۔ 519 ق۔م کے بیستون کے کتبہ کے مطابق (اس کتبہ کی اونچائی 7 میٹر اور 80 سینٹی میٹر ہے اور اس کی لمبائی 22 میٹر ہے جس کے مرکز میں قدیم فارسی ’میخی‘ رسم الخط پر کا یہ قدیم فارسی متن مجموعی طور پر 525 سطروں پر مشتمل ہے۔ اس کتبہ میں تحریر کے علاوہ مختلف مناظر ہیں جو پھتروں پر نقش کیے گئے ہیں۔ ان میں داریوش کبیر کی شاندار کامیابیوں اور دشمنوں کے عجز و عزمیتوں کو دکھایا گیا ہے)۔ تیسرا ہخامنشی شہنشاہ دارا اول گندھارا پر قابض تھا۔ آپ اگر سائرس اعظم کی حکومت کی سرحدیں دیکھیں گے تو مغرب میں سارڈیس (قدیم یونان)، شمال میں آرمینیا، مشرق میں گندھارا شامل تھے۔ بیستون کا کتبہ ہیروڈوٹس کوروش اعظم کی مشرقی مہم جوئی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مشرقی لشکر کشی لیڈیا کی فتح کے بعد اور بابل کی فتح سے قبل پیش آئی۔ اس کے بعد مشرق کی طرف اس لیے متوجہ ہونا پڑا کیونکہ گیڈروسیا (مکران) اور بکٹریا (بلخ و ہرات) کے قبائل نے سرکشی کی۔ یہ مہم 540 اور 545 ق-م میں ہوئی، سلطنت کورش اپنے وقت کی سب سے بڑی سلطنت تھی، کورش کی حکومت کے خاتمے تک یہ سلطنت ایشائے کوچک اناطولیہ سے لےکر دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔ پھر دریائے سیحوں اور دریائے جیہوں کے درمیانی علاقہ صغدیہ کو فتح کیا۔ اس طرح اس کی سلطنت ماورالنہر اور ہندو کش تک پھیل گئی۔ سائرس دوئم کے وقت میں ہخامنشی سلطنت کی حدود اس مختصر سے قدیم تاریخی تعارف کو تحریر کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ انڈس ویلی کے اچانک پُراسرار طور پر گُم ہو جانے کے بعد ہمارے پاس ایسی کوئی پگڈنڈی نہیں تھی جس پر چل کر ہم اِس زمانے تک پہنچتے۔ اس لیے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے اور پڑھنے والے کو زیادہ پریشانی سے بچانے کے لیے ان زمانوں کے منظرنامے کو مختصراً بیان کرنا مجبوری تھی۔ اب ہم تقریباً سندھ بالخصوص اس کے جنوبی سمندری کنارے کے نزدیک آ پہنچتے ہیں جہاں سے ہم پھر اس حصے کی تاریخ کے تسلسل کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ 521 قبل مسیح میں دارا اول تخت پر بیٹھ چکا تھا۔ مگر کابل ندی سے نیچے جنوب مغرب کی طرف جو سندھ کا ملک تھا وہ ابھی اس ہخامنشی سلطنت کا حصہ نہیں تھا۔ مگر دارا اول یہ ضرور چاہتا تھا کہ زیادہ آبادی اور بستیوں والا ملک اس کی دسترس میں ہو۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے سائیلیکس کو ایک بڑی ٹیم کے ساتھ سندھ کے سروے کے لیے بھیجا، جس کا مختصر ذکر ہم پڑھنے والے ہیں۔ دارا اول اس بات کو حقیقت یا سکندراعظم کے اچھے نصیب کہیں کہ ہخامنشی سلطنت پر قبضہ کرنے کے بعد جب وہ ٹیکسلا سے ہوتا ہوا سندھ میں داخل ہوا تو اٹک، ملتان، سکھر، پٹالا اور کراچی تک وہی راستہ اختیار کیا جو سائیلیکس نے دریائی اور خشکی کے لیے استعمال کیے تھے۔ مختصراً یہ کہ غیر دانستہ ہی سہی سکندر کو یہاں لانے کے لیے فطرت نے کام شروع کردیا تھا۔ یہ بھی بڑی دلچسپ داستان ہے کہ سکندر ٹیکسلا سے سکون سے گزرتا ہوا آگے پورس سے لڑتا اور پھر دوستی کرتا آگے بڑھا اور جیسے ملتان کے قریب پہنچا تو اُسے مقامی حکومتوں سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا بلکہ سکندر کے پھیپھڑوں میں چھید کرتا ہوا مقامی لوگوں کا پہلا تیر اُسے ملتان کے آس پاس لگا۔ مگر سکندر کے یہاں آنے میں ابھی کچھ وقت ہے۔ اس سے پہلے ہم سائیلیکس کے اس سفر کے متعلق کچھ جان لیتے ہیں۔ سائیلیکس اور سکندر اعظم کا دریائے سندھ کا سفر ہیروڈوٹس کی تحریر کے مطابق ’ہندوستانیوں کو ’سائیلیکس‘ کے مشہور دریائی سفر کے بعد تسلط میں لایا گیا۔ یہ سفر اُس نے دریائے سندھ کے راستے سمندر تک کیا تھا اور پھر بحیرہ عرب سے ایران اور عربستان کے کناروں سے ہوتا ہوا مصر جا پہنچا تھا‘۔ ’دارا‘ نے اس مہم کے احکامات اس لیے دیے تھے کیونکہ دریائے سندھ اور ایران کے درمیان کشتی رانی کے امکانات پر کام کیا جاسکے۔ انہوں نے 522 ق-م میں ’سائیلیکس‘ کو یہ مہم سونپی تھی۔ اُسے پتا لگا تھا کہ جس طرح مصر کی نیل ندی میں مگرمچھ ہیں بالکل اسی طرح سندھو ندی میں بھی مگرمچھوں کی بہتات ہے اور دارا کے لیے یہ بھی راز پوشیدہ تھا کہ دریائے سندھ کہاں جا کر سمندر میں ملتا ہے۔ سائیلیکس نے اپنا سفر کیسپیٹائرس (دریائے کابل کی وادیوں میں کہیں تھا) کی طرف کیا جو کہ گندھارا صوبے میں تھا اور ہخامنشی سلطنت کے ساتویں صوبہ کے طور پر جانا جاتا تھا مگر سائیلیکس اور اس کی ٹیم نے کیسپیٹائرس میں زیادہ وقت نہیں گزارا اور کابل ندی کے بہاؤ میں تقریباً 200 میل کا سفر کیا اور اُس جگہ پر پہنچے جہاں دریائے کابل دریائے سندھ سے ملتا تھا۔ وہاں سائیلیکس نے آگے کے سفر کے لیے نئی کشتیاں بنوائیں۔ اس کے بعد وہ دریائے سندھ کے بہاؤ میں جنوب کی طرف بڑھا۔ اس کی ٹیم میں جو ساتھی تھے وہ اچھے جاسوس ہونے کا کام کررہے تھے۔ تو وہ زمینی حالات، جنگل، جانوروں اور فصلوں کا تفصیلی جائزہ لیتے اور تحریر کے دائرے میں لاتے رہے۔ 13 ماہ کے سفر کے بعد وہ سمندر کے ڈیلٹا کنارے تک پہنچے جہاں سندھو ندی کے سات دہانے سمندر میں پانی چھوڑتے تھے۔ ہیروڈوٹس کے مطابق ’وہ اپنی کشتیاں مغرب کی طرف بہاؤ میں لے گیا تھا اور ڈھائی برس کے بعد سائیلیکس مصر پہنچا تھا‘۔ کابل ندی کا ایک منظر سائیلیکس یونانی کے سفر کی داستان جو اس نے تحریر کی تھی وہ ہم تک نہیں پہنچ سکی مگر ہیروڈوٹس نے اپنی تحریر میں اس سے استفادہ ضرور کیا اور ساتھ ہی 500 ق۔م میں ایک اور یونانی جغرافیہ دان ’ھیکاٹیس‘(Hecataeus) کی کتاب ’Journey round the Earth‘ سے بھی مدد لی ہوگی کیونکہ ھیکاٹیس (550۔ 476 ق۔م) نے بھی سندھ کا بڑے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ کبھی ہم بھی ھیکاٹس کے ساتھ اس قدیم سفر پر اس کے ساتھ چلیں۔ اس لیے ہمارے پاس اس زمانے کی معلومات کا واحد ذریعہ ہیروڈوٹس ہی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یونانی سنی سنائی باتوں پر آنکھیں بند کرکے یقین کر لیتے تھے اور ساتھ ہی ان سنی ہوئی باتوں کو مزیدار بنانے کے لیے بڑھا چڑھا کر تحریر بھی کرلیتے تھے۔ ’ہیروڈوٹس‘ لکھتے ہیں کہ ’ہندوستان کے مشرق میں ریگستان ہے‘، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں گنگا گھاٹی کی معلومات نہیں تھیں۔ سندھ میں ہخامنشی سلطنت کی حدود ریگستان کے کنارے تک تھیں اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ دریائے سندھ کے مشرق میں واقع پنجاب کا بڑا علاقہ سلطنت کو خراج دیتا تھا اور یہ کہنے کا سبب یہ ہے کہ ہندوستان کی آمدنی اور آبادی، دیگر ماتحت علاقوں سے زیادہ تھی۔ اپادان محل میں انڈین صوبے سے آئے ہوئے لوکوں کا تراشیدہ منظر ’ڈوٹس‘ کے مطابق ہندوستان سونے کی صورت میں 360 ’ٹئلینٹ‘ خراج کے طور پر دیتے تھے جو تقریباً 10 لاکھ پاؤنڈ یعنی اُس زمانے کے ایک سے 2 کروڑ کے برابر ہوتے تھے۔ یہ رقم، ایشیائی صوبوں پر سلطنت کے لگائے گئے خراج کی مجموعی رقم کا تیسرا حصہ تھی۔ تو رقم سے اس ہندو علاقے میں پھیلی وسیع زراعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہیروڈوٹس لکھتے ہیں کہ، ’ان علاقوں کی آدم شماری، دیگر ممالک جن کا مجھے علم ہے، سے زیادہ ہے۔ ہندوستان سے خراج لینے والا شخص ’آپ اگر ہیروڈوٹس کا بنایا ہوا نقشہ دیکھیں تو وہ لفظوں کی ہیر پھیر کے سوا بالکل درست ہے، البتہ ’ہ‘ اور ’س‘ کے آپس میں تبادلہ پڑھنے والوں کو پریشانی میں ڈال دیتا ہے، اس لیے ہمیں تحریر پڑھتے وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جہاں بھی ’ہند‘ استعمال‘ ہو وہ ہمیں ’سندھ‘ سمجھنا چاہیے۔ ہیروڈوٹس کی تحریر میں ان وسیع ریاستوں کے نام اس طرح تحریر ہیں Sattagydia, Gandara, Hidus Indos, Indus’۔ سندھو گھاٹی کے تین صوبوں (استراپیز) کی شرکت انڈس، گندھارا اور ستاگی دیا ’لئمبرک‘ کے مطابق ’اس سفر کے نتیجے میں اور کچھ حاصل ہوا ہو یا نہ ہوا ہو مگر اتنا ضرور ہوا کہ ’ہندو‘ یعنی ’دریائے سندھ‘ کی ڈیلٹا ویلی، ہخامنشی حکومت کے ماتحت آگئی۔ سندھو گھاٹی کی تین اہم ساتراپیاں جو ٹیکسلا سے لے کر بحیرہ عرب تک پھیلی ہوئی تھیں، انہی ساتراپیوں (صوبوں) سے سب سے زیادہ رقم شاہی خزانے میں جمع ہوتی تھی‘، اور ان تمام حقائق کو ہم آج بھی پتھروں پر تراشی ہوئی تصویروں کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ دارا نے دارالحکومت پرساگریاپسر کے جنوب مغرب میں اندازاً 25 میل کے فاصلے پر ایک نیا شہر آباد کیا اور وہاں ایک محل تعمیر کروایا جو ’ظخر‘ کے نام سے مشہور تھا وہ آگے چل کر ’اصظخر‘ ہوگیا۔ یونانی زبان میں اسے ’پرسی پولس‘ (Persepolis) جبکہ پارسی میں ’تخت جمشید‘ پکارا جاتا ہے۔ اس کے مرکز میں وہ شاہی قیصر تھا جو ’طخر‘ کے نام سے مشہور تھا۔ اس قیصر سے متصل ایک دوسری عمارت بنی ہوئی ہے جس کو آج کل ’ٹرپی لون‘ کہتے ہیں۔ شاید یہی شاہی ایوان تھا۔ وہاں زینہ دار راستوں پر امرا کی شکلیں تراشی گئی ہیں۔ اس عمارت میں تصاویر کے نمونوں میں 28 شکلیں ملتی ہیں جو 28 ’ساتراپیوں‘ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ’پرسی پولس‘ ہخامنشی سلطنت کی فوج میں شامل مخلتف خطوں کے سپاہی کی شبیہات اس عمارت کے علاوہ ’اپادان‘ (Apadan) یا ’تالار خشیارشا ’(Hall of xerxs) کے نام سے مشہور ایک اور ایسی عمارت بھی موجود ہے جس کے زینوں کے ردیف پر بھی متعدد شکلیں کھدی ہوئی ہیں۔ ان میں 30 محکوم قوموں کے سفیر ہیں جو بادشاہ کو نوروز کا تحفہ پیش کرنے آئے ہیں۔ سائیلیکس کے سفرنامے میں ’تھتاگُش‘ نامی صوبے کا جو ذکر آیا ہے اور جس کا ذکر بیستون کتبے کی فہرست میں شامل ہے، وہ پنجاب کے شمال مغرب میں تھا کچھ محققین اس کو ’غلِزئی‘ یا ’ہزارہ‘ کا علاقہ کہتے ہیں۔ اپادان محل میں گندھارین لوکوں کا منظر دارا نے یہ جہان 486 قبل مسیح میں چھوڑا۔ ’نقش رستم‘ میں اس کی قبر پر لگے پتھر پر تین ہندوستانی قوموں کے نمائندے نظر آتے ہیں۔ دارا کے وارث ’خسرو‘ نے اپنے زمانے میں یونان پر حملے کے لیے ایک زبردست جنگی لشکر اکٹھا کررہا تھا تب اسے اس نئے صوبے ’ہندو‘ یعنی ’سندھو‘ سے، پیادوں اور گھڑ سواروں پر مشتمل ایک فوجی دستہ فراہم کیا گیا تھا۔ ہیروڈوٹس کے مطابق ’اس دستے میں موجود سپاہیوں نے جو کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ سوتی تھے۔ ان کے پاس بید کی کمانیں اور بید کے ہی تیر تھے جن کی انیاں لوہے کی تھیں۔ یہ تھے ہندوستان کے اوزار اور یہ دستہ ’ارتابیتس‘ کے بیٹے ’فارنازاتھریس‘ کی زیر قیادت تھا۔ گھڑسوار فوج کے علاوہ ان کے پاس رتھ بھی تھے جن کو گھوڑے اور جنگلی گدھے کھینچ رہے تھے۔‘ یہ ساری تیاریاں Plataea جنگ کے لیے تھیں جو 479 قبل مسیح میں لڑی گئی تھی۔ لئمبرک صاحب کے مطابق ’جب ہخامنشی سلطنت کے آخری برس تھے، تب بھی ہندوستان ان سے وفادار رہا۔ ’دارا کودومنیس‘ نے جب سکندرِاعظم سے مقابلہ کرنے کے لیے آخری مورچہ سنبھالا تب اس نے سندھو گھاٹی سے اپنی مدد کے لیے فوجوں کو بلوایا اور اُس کا حکم مانتے ہوئے یہاں سے لوگ اور ہاتھی بروقت جنگ کے میدان میں پہنچ گئے تھے اور تباہ کن ’اربیلا‘ جنگ میں بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ ہخامنشی سلطنت کی مشرقی ساتراپیاں یہ بھی ممکن نظر آتا ہے کہ اِسی زمانے میں ہندوستانی علاقے کی شمالی سرحد کم ہوکر دریائے سندھ کے کنارے تک آ پہنچی تھی کیونکہ اس موقع پر جنگ میں شہنشاہ کو جو ہاتھی بھیجے گئے تھے وہ دریائے سندھ کے دائیں طرف سے تعلق رکھنے والے ہندوستانیوں نے بھیجے تھے۔ یہاں یہ بھی ممکنات کے دائرے میں آتا ہے کہ سارا انتظام مقامی شہزادوں اور سرداروں کے ہاتھ میں آگیا ہو کیونکہ جب سکندرِاعظم یہاں پہنچا تھا تب اُس کا کسی بھی ایرانی حاکم یا کارندے سے نہ آمنا سامنا ہوا تھا اور نہ کوئی ملاقات ہوئی تھی۔ تاہم اتنا ضرور تھا کہ پورس کی ہاتھیوں والی جنگ کے بعد بحیرہ عرب تک سکندر کو ہر جگہ مقامی لوگوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور سکندر کے لیے یہ انتہائی سخت اور تھکادینے والا سفر تھا اور اس تھکا دینے والے سفر میں ہم جلد آکر سکندراعظم سے دریا کنارے اور اربیتی (Arabiti) کی زمین پر ملتے ہیں جہاں سکندر آگے اورئتی (Oreiti) کے لوگوں کو سزا دینے کے لیے تیاریاں کر رہا ہے۔ حوالہ جات
کراچی: صدیوں کی کتھا! (دسویں قسط)
اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔ جب ہم نے 4 ستمبر 2023ء پیر کے دن، اس سلسلے کی شروعات کی تھی تب موسمِ گرما کے آخری ایام تھے اور جاڑوں کی آمد نے راتوں کو طویل اور دنوں کو چھوٹا کرنا شروع کردیا تھا۔ اب جب ہم مشکل ترین سفر طے کرتے ہوئے مارچ میں پہنچے ہیں تب جاڑے کا موسم اس طرح جانے کی تیاری میں لگا ہوا ہے جس طرح کوئی مہمان آتا ہے، کچھ دن رہتا ہے اور پھر جانے کی تیاری کے لیے اپنا بیگ تیار کرنے لگتا ہے۔ اس عرصے میں ہم نے سال 2023ء کو بھی الوداع کہا۔ ظاہر ہے کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ جب اس سفر کا اختتام ہوگا اور ہم اور آپ ایک دوسرے سے جُدا ہوں گے۔ مگر ابھی اس جُدائی میں کچھ وقت ہے۔ یہ ساری تمہید میں نے اس لیے باندھی ہے کیونکہ آج کا ہمارا سفر بہت سے حوالوں کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے۔ ایک تو یہ کہ آج کے سفر میں ہم پہلے مختصراً سکندراعظم کے اُس حملے پر بات کریں گے جو اس نے دریائے سندھ کے قرب و جوار بالخصوص مغرب کی طرف بسنے والی مقامی حکومتوں پر کیا اور حملہ کرتے وہ جنوبی سندھ کے سمندری کنارے تک پہنچا۔ یہ ذکر کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اس وقت کے حالات اگر ہمارے سامنے نہیں ہوں گے تو سکندراعظم کا کراچی تک پہنچنا اور پھر کراچی سے مغرب کی جانب اس کے سفر کو سمجھنے میں مشکل پیش آئے گی۔ اس سفر کی ایک اور بھی خصوصیت ہے کہ ہم قبل مسیح زمانے کے کگار پر کھڑے ہیں۔ سکندر ملیر ندی سے گزر کر کچھ عرصہ یہاں گزارے گا اور پھر حب ندی پار کرکے لسبیلہ اور سونمیانی سے ہوتا ہوا پرشیا کی طرف نکل جائے گا تو ہم قبل مسیح زمانے کو الوداع کہیں گے اور پھر ہمارے سامنے عیسوی عہد پھیلا ہوگا جس میں ہمیں کراچی کے متعلق معلومات ڈھونڈنی ہوں گی۔ کام تھوڑا مشکل ہے مگر ہم مل کر کچھ نہ کچھ ڈھونڈ ہی لیں گے۔ سکندراعظم کا پرشیا سے آنے اور جانے کا راستہ مجھے نہیں معلوم کہ سکندر اعظم پر کام کرنے والی، قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی کی ڈاکٹر سلیمہ خان اور کارڈف یونیورسٹی کے پروفیسر لائیڈ لیولین جونز (Lloyd Llewellyn Jones) کی یہ باتیں کس حد تک درست ہیں کہ سکندراعظم تاریخ کے ایک روشن اور چمکتے زمانے کا نام ہے۔ وہ ایک شاعر، فلسفی، سائنسدان، ایک عظیم اور وسیع سلطنت قائم کرنے والا شاندار انسان تھا۔ مگر دوسری طرف وحشت بھی اس کے خون میں بہتی تھی کیونکہ اس کی ماں اولمپیا نے اس کے دماغ میں یہ خناس بھر دیا تھا کہ وہ زیوس کا بیٹا ہے۔ بہرحال جو بھی تھا، اس کی خاندانی پریشانیوں کو ایک طرف رکھ کر یہ ماننا پڑے گا کہ اس کے جنون نے بہت کچھ کر دکھایا۔ سکندر اعظم ایک شاندار انسان تھا تاریخ کے صفحات ہمیں بتاتے ہیں کہ جب پرشیا کے بادشاہ اردشیر کو زہر دے کر اس کی سانسوں کی ڈور کو وقت سے پہلے کاٹ دیا گیا تھا، تب کدومانس نے اپنے آپ کو دارا سوئم کا لقب دیا اور اپنے بڑے سیاہ گھنگریالے بالوں اور سرمے سے سجی آنکھوں سے 336 قبلِ مسیح (ق-م) میں تخت پر بیٹھا اور جولائی 330 ق-م میں سکندر اعظم سے جنگ میں ہار کی ذلت سے بھاگتا ہوا شمال مشرق میں اپنی حکومت کی آخری حدود تک آیا اور وہیں اپنے خاص آدمی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ سکندراعظم جب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس کا پیچھا کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچا تو پرشیا کے بادشاہ کی لاش بگھی (Horse chariot) میں پڑی تھی۔ اس وقت سکندر کا کہا یہ جملہ کہ ’ایک بادشاہ کو اس طرح نہیں مرنا چاہیے، بالکل نہیں‘۔ یہ الفاظ ابھی تک تاریخ کی گلیوں میں سانس لیتے ہیں۔ سکندراعظم نے دارا سوئم کی لاش کو ایک بادشاہ کی لاش کی طرح تکریم دی اور بابل لے آیا جہاں رسم و رواج کے مطابق اس کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ دارا سوئم کی لاش دیکھ کر سنکدر اعظم کہا ’ایک بادشاہ کو ایسے نہیں مرنا چاہیے‘ لیکن دارا کے اس طرح قتل ہونے سے قبل ہمیں یہ ضرور جان لینا چاہیے کہ دارا اول (522 سے 486 ق-م) میں ہونے والی جنگ تاریخ کے صفحات میں Battle of Plataea کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ جنگ 479 ق-م میں ہوئی تھی جس میں بڑی تعداد میں سندھو گھاٹی کے سپاہی شامل ہوئے تھے۔ اس جنگ کے اسکیچ کو اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو انڈین (سندھی) فوجی دستوں کا یونٹ نظر آجائے گا۔ یہ پرشین سلطنت کے کمال کا زمانہ تھا اور جس جنگ میں دارا سوئم قتل ہوا وہ پرشین سلطنت کے زوال کی آخری ہچکی تھی۔ پلیٹیا کی جنگ میں سندھ سے بھیجی گئی فوج کا یونٹ یہ جنگ گگمیلا (Gaugamela) کی جنگ تھی جوکہ اربیل کے مقام پر ہوئی، اسی لیے اسے Battle of Arbela بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ یکم اکتوبر 331 ق-م کو ہوئی۔ ان دنوں سندھو گھاٹی ایران کی سلطنت کے زیربار نہیں تھی لیکن اس جنگ میں ہاتھیوں اور سپاہیوں کی شرکت ہمیں بتاتی ہے کہ اس وقت ایران سے ہمارے اچھے اور دوستانہ تعلقات تھے۔ ’ایرین‘ ہمیں گگمیلا جنگ کے متعلق بتاتے ہیں کہ ’مصر سے بابل کی طرف لوٹتے ہوئے سکندر نے دجلہ کو پار کیا اور اپنی فوج کو کچھ دن آرام کرنے کو کہا۔ تین چار دنوں کے بعد مخبروں نے سکندر کو خبر دی کہ ایران کی مدد کے لیے دارا کے لشکر میں، سوگدیا (ازبیکستان)، باختریہ (افغانستان)،انڈین (سندھو گھاٹی)، ساکا (ستھین)، آرچوسیا (پارتھین) اور سندھ کے پہاڑی سلسلے آرابتائی کے فوجی دستے بھی شامل ہیں جبکہ کچھ ہاتھی اور جنگی جتھے سندھو دریا کے اُس طرف (دریا کے مشرق) کے بھی دارا کی مدد کے لیے آئے ہیں۔ ہاتھیوں کی تعداد پندرہ کے قریب ہے‘۔ اربیلا یا گگمیلا جنگ کا منظر اس کے بعد جب گگمیلا میں جنگ ہوئی تو جنگ کے متعلق ایرین ہمیں بتاتا ہے کہ ’ایرانی فوج میں سندھی، البانی، کاریا اور میرڈانی کو تیر اندازی کے حوالے سے خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ جنگ میں ایران اور سندھ سے آئے گھڑسوار دستوں نے میسڈونی لشکر کا بہت زیادہ نقصان کیا، سکندر کو ان سے اتنے نقصان کی اُمید نہیں تھی‘۔ بہرحال جو بھی تھا اتنی بڑی فوج کے بعد بھی دارا نے یہ جنگ نہیں جیتی اور جنگ کے میدان سے بھاگ نکلا۔ یوں ایران کی وسیع سلطنت کا مالک سکندراعظم بنا۔ گگمیلا جنگ میں سندھو گھاٹی سے گئے ہوئے ہاتھی سکندر شمال، مغرب اور جنوب میں نیل تک نیزوں اور تلواروں سے لوگوں کے گلے کاٹتا مشرق کی طرف بڑھا اور 326 ق-م میں 500 میل تک پھیلے ہوئے ہندوکش کے پہاڑی سلسلے کو عبور کیا۔ جب کوئی حملہ آور پہاڑوں کی ہزاروں میٹر اونچائی اور سختیوں کو جھیل کر چٹیل میدانوں میں پہنچتا ہے تو اسے یہ لینڈاسکیپ ایک سہل پولو کھیل کے میدان جیسا لگتا ہے۔ سکندر کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ وہ مشکلات سے عشق کرتا تھا اس لیے دریائے سندھ جیسے طاقتور بہاؤ رکھنے والے دریا کو پار کرنا اسے مشکل نہیں لگا۔ وہ ٹیکسلا پہنچا، ٹیکسلا کے بادشاہ امبھی نے کوئی جنگ نہیں کی البتہ جہلم پار کرنے کے بعد راجا پورس، سکندر سے لڑنے کے لیے میدان میں اُترا۔ تاریخ کے صفحات میں اس کو ہاتھیوں والی جنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جنگ میں سکندر کی جیت ہوئی مگر پھر طعام اور کلام کے سلسلے کے بعد ان کے درمیان نام نہاد دوستی کا رشتہ قائم ہوا اور سکندر نے پورس کو حکومت واپس کردی۔ اصل میں سکندر کی آخری منزل ’مُگدھ‘ کی بادشاہی اور اس سے آگے مشرقی سمندر تھا۔ مگر اس کی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے سکندر کو مجبوراً واپسی کا راستہ لینا پڑا۔ ٹیکسلا کا بادشاہ امبھی سکندراعظم کو تحائف دیتے ہوئے واپسی کے اس راستے میں اسے تقریباً ہر جگہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا مگر سب سے زیادہ سخت مزاحمت کا ملتان اور اُس کے بعد بہاؤ کے مغربی کنارے میں سامنا ہوا۔ وہ ملتان کا قلعہ ہی تھا جہاں قلعہ حاصل کرنے کی جنگ کے دوران سکندر پر تیر سے حملہ ہوا اور اس تیر نے نہ صرف سکندر کے پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ وہ مرتے مرتے بچا۔ کتاب جنرل شپ آف الگزینڈر د گریٹ سے لیا گیا سکندر کے سندھو گھاٹی آنے کے راستوں کا نقشہ ان دنوں جب سکندر نے سندھو گھاٹی کو فتح کیا تب ہمیں یہاں ہخامنشی سلطنت کا کوئی وجود نظر نہیں آتا جس کا ذکر ہم نے گزشتہ قسط میں کیا ہے۔ بلکہ اس کی جگہ ہمیں سندھ میں چھوٹی چھوٹی آزاد حکومتیں نظر آتی ہیں اور بودھی اور برہمنوں کے ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ اس زمانے کی جن مقامی حکومتوں کے نام ہم ابھی تک جان سکے ہیں ان میں آگزیکینس (ماہوٹا)، مُوسیکینس (الور-اروڑ)، سامبس (سیوہن)، موئیرس 1 (پٹالا)، موئیرس 2 (باربیریکان)، آرابتائی (کوہستان، کراچی) اور اوریئیتائی (لسبیلہ) شامل ہیں۔ اُن دنوں کے معروضی حالات کے متعلق ہمیں نیارکس (Nearchus) کی تحریر سے مدد حاصل کرنا پڑے گی کیونکہ نیارکس سکندری جنگی بیڑے کا مہندار تھا اور وہ اس پورے سفر میں سکندر کے ساتھ بھی رہا تھا۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ جنوبی سندھ اور مصر کے طبعی حالات تقریباً ایک جیسے ہی ہیں۔ نیارکس کے مطابق، ’جنوبی سندھ کی زمین سندھو دریا کے پانی کے ساتھ آئی ہوئی زرخیز مٹی سے بنی ہے جس کی نشانیاں ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہیں‘۔ اگر یہاں سندھو دریا بہہ کر نہیں آتا تو یہ خطہ رہنے کے قابل کبھی نہ ہوتا کیونکہ یہاں جنوب کی طرف بارشیں بالکل کم پڑتی ہیں۔ مگر جب شمال میں پڑی بارشوں کی وجہ سے یہاں دریا میں بے تحاشا پانی آتا ہے اور سیلاب جیسی کیفیت ہوتی ہے تو سانپ اور دوسرے جانور خشکی پر رہنے والے انسانوں کی بستیوں کا رُخ کرتے ہیں۔ اس لیے ان سے بچنے کے لیے یہاں کے لوگ چار لکڑیوں پر ڈالی ہوئی لکڑیوں کی چھت اور اس پر گھاس بچھا کر سوتے ہیں جو زمین سے تین چار فٹ اونچی ہوتی ہے (اسے مقامی زبان میں ’پیھو‘ کہا جاتا ہے، یہ اب بھی بنایا جاتا ہے۔ اکثر گاؤں کے گھروں کے آنگن میں گرمیوں کے موسم میں سونے کے لیے اور گھروں سے باہر جو فصلوں کی راکھی کے لیے بنایا جاتا ہے اس کی لکڑیاں اونچائی میں البتہ گھر والے پیھو سے بڑی رکھی جاتی ہیں تاکہ دُور دُور تک فصل پر نظر رکھی جا سکے اور پرندے یا جانوروں سے فصل کو بچایا جاسکے)۔ سکندر کا جنگی بیڑہ جس کا مہندار نیارکس تھا، سکندر کو زخمی حالت میں دیکھا جاسکتا ہے اس وقت جنوبی سندھ میں آکر دریا دو بڑے بہاؤ اختیار کرتا تھا۔ اس جگہ پر پاتال یا پٹیالا کا شہر اور بندرگاہ تھی (ابھی تک پٹیالا کی اصل مقام کی تحقیق نہیں ہوسکی ہے لیکن کچھ محققین کا خیال ہے کہ وہ مقام حیدرآباد تھا جبکہ کچھ محققین کا خیال ہے کہ پٹیالا حیدرآباد سے کم سے کم 25 سے 40 میل جنوب مشرق میں تھا)۔ سکندر نے بھی وہاں قبضہ کیا اور بندرگاہ کو وسعت دی۔ سکندر وہاں کافی وقت رہا اور دونوں بہاؤں کے آخر تک سفر کیا تاکہ وہ اندازہ لگا سکے کہ اس کے فوج کا جنگی بیڑہ محفوظ انداز میں کس بہاؤ سے سمندر میں داخل ہوسکتا ہے۔ پھر اس نے نیارکس کو مغربی بہاؤ سے سمندر میں داخل ہونے کی ہدایات دیں اور اپنی فوج کا ایک حصہ اپنے ساتھ لے کر ایران کی طرف چل پڑا۔ سکندر جب تک کراچی (آرابتائی) کے علاقے میں پہنچتا ہے تب تک ہم نیارکس کے جنگی بیڑے کے راستے کے متعلق کچھ معلومات لئمبرک اور کچھ نیارکس اور ایرین سے حاصل کر لیتے ہیں۔ لئمبرک کا بنایا ہوا نقشہ جس میں پٹیالا اور اورتائی کو دکھایا گیا ہے نیارکس پٹیالا سے جنگی بیڑہ لے کر نکلا۔ 18 میل جنوب کی طرف دریا میں سفر کرکے سمندر میں پہنچا اور پھر کھلے سمندر میں پہنچ کر مغرب کی طرف اپنا سفر شروع کیا۔ وہ انڈس ڈیلٹا کے سمندری کنارے سے ہوتا ہوا، شمال میں مکلی پہاڑیوں کے سلسلہ کو دیکھتا [یہ پہاڑی سلسلہ کراچی اور راس مانزی (Cape Monze) تک چلا جاتا ہے] اور گُجو کی پہاڑی جس کو وہ سکندری بندر کہتا ہے، وہاں موسم خراب ہونے کے باعث کچھ دن رُک کر پھر وہ آگے مغرب کی طرف سفر شروع کرتا ہے۔ ’سارنگ‘ اور ’ساکل‘ یعنی وٹیجی اور ابراہیم حیدری سے ہوتا ہوا، گزری کھاری( یہ ملیر نئیں کا پانی سمندر میں جانے کی Estuary بھی رہی ہے) سے گزر کر یہ بیڑہ ’مورنتوبار‘ پر لنگرانداز ہوتا ہے۔ لئمبرک کا بنایا ہوا نیارکس کے سفر کے متعلق نقشہ کراچی کے کنارے پر مورنتو بار ضرور کوئی جگہ ہوگی یا بندر ہوگا۔ یہاں جو راستہ بتایا گیا ہے یعنی گُجو پہاڑی (سکندری بندر) سے کراچی بندر تک اندازاً 50 میل ہوتا ہے جبکہ نیارکس کے اندازے کے مطابق سکندری بندر سے مورنتوبار تک کا فاصلہ 660 اسٹاڈیا یعنی 73 میل تھا جو اس نے تین مراحل میں طے کیا۔ ’مورنتوبار‘ کی کراچی بندر سے مشابہت ایک صدی پہلے ماہرِ جغرافیہ ہینری کئپرٹ (Henry Kierpert) نے ثابت کی تھی جو قدیم ہندوستان کے نقشے بنانے کا ماہر تھا۔ ہینری کئپرٹ کا بنایا ہوا نقشہ سکندر اعظم کے سندھ کے سفر پر ہمیں زیادہ اعتماد والی معلومات ایرین (Arrian) (جنم: 90ء-وفات: 140ء) اپنی کتاب میں دیتا ہے۔ اس نے پہلے ان تمام کتابوں کا مطالعہ کیا جو اس کی تحریر سے پہلے لکھی جاچکی تھیں اور پھر مطالعے اور مشاہدے کی بنیاد پر اس نے اپنی کتاب تحریر کی۔ ایرین کے مطابق نیارکس، مورنتوبار پر لنگرانداز ہونے سے پہلے اس جنگی بیڑے کو دو سمندری پہاڑیوں کے بیچ میں سے گزرنا پڑا تھا جو جہازوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا تھا۔ ان دنوں سمندر بھی پُرسکون نہیں تھا، بڑی بڑی لہریں تھیں جن کی وجہ سے کسی وقت بھی کشتیوں کا پہاڑوں سے ٹکراؤ ہوسکتا تھا۔ ان پہاڑیوں کو اب Oyster Rocks کہا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں یہ ایک پہاڑی سلسلہ تھا جو کلفٹن اور منوڑہ کو آپس میں جوڑنے کی ایک دیوار مانند تھا مگر پھر پانی کی لہروں نے اسے توڑ دیا۔ کراچی بندر کی پہلی بار 1836ء میں سائنسی بنیادوں پر لیفٹیننٹ کارلیس نے تحقیق کی تھی۔ اس کے بعد ابھی تک سمندری منظرنامے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان پہاڑیوں کے بیچ والی گزرگاہ کچھ زیادہ بڑی ضرور ہوچکی ہوگی۔ سکندری جنت جزیرہ جہاں نیارکس کچھ دن اپنی فوج کے .ساتھ رہا جب ان پہاڑیوں سے گزرتے ہوئے وہ آگے آئے تو انہیں بندر (ساحلی علاقہ جہاں جہاز، مسافر اترتے یا چڑھتے ہو) نظر آیا لیکن وہ کیسا تھا؟ آئیے نیارکس سے سنتے ہیں، ’بندر بڑا تھا، گولائی میں تھا، گہرا تھا اور بڑی تیز لہروں سے محفوظ تھا مگر اس میں داخل ہونے کے لیے جو راستہ تھا وہ تنگ تھا‘۔ وہ کچھ دن وہاں ضرور رُکے ہوں گے۔ البتہ جب وہاں سے جانے لگے تو ایرین کے مطابق ’انہیں بائیں طرف سمندر میں ایک جزیرہ نظر آیا جو بالکل کنارے کے نزدیک تھا۔ وہاں سے گزرنے کے لیے جو پانی میں راستہ تھا وہ اندازاً سات سے آٹھ اسٹاڈیہ (1.479 کلومیٹر) تھا۔ اس جزیرے کے کنارے گھنے پتوں والے درخت تھے اور پورا جزیرہ ہریالی سے بھرا ہوا تھا‘۔ ایرین کا یہ ذکر جو اس نے نیارکس کی تحریر سے اخذ کیا ہے وہ منوڑہ جزیرے کا ہے۔ اس اسکیچ کو بنانے میں نیرکوس کے بنائے ہوئے نقشے سے مدد لی گئی ہے لئمبرک کے مطابق جن درختوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ تمر کے درخت اور اُن کی نرسریز کا ہے۔ مورنتوبار کی جگہ کراچی بندر کی تھی۔ نیارکس مورنتوبار (کراچی) سے 190 اسٹاڈیہ مغرب کی طرف اربیس (Arabis) ندی کے موہانے پر لنگر انداز ہوا۔ یہاں ندی سے میٹھا پانی سمندر میں جارہا تھا اس لیے وہ پانی پینے جیسا نہیں تھا۔ اس لیے انہیں میٹھے پانی کی جستجو کرنا پڑی جو انہیں 40 اسٹاڈیہ شمال مشرق میں ایک تالاب سے ملا۔ نیارکس کے مطابق ’بندر کے نزدیک ایک جزیرہ ہے جس کے اطراف میں بے تحاشا سیپیاں اور مچھلیاں ہیں جہاں لوگ شکار کرتے ہیں۔ یہ لوگ آربتائی لوگ ہیں جن کی مغرب میں یہ آخری حدود ہیں‘۔ نیارکس مورنتوبار سے اربیس ندی کے مہانے کے فاصلے کا تخمینہ 14 میل بتایا ہے اور یہاں سے آگے ’اورئتی‘ (Oreiti) لوگوں کے علاقہ (لسبیلو) کا ذکر کرتا ہے جو اُس کی تحریر کے موجب، سرکش تھے۔ ’اربیس‘ ندی کے متعلق لئمبرک اور ایم-ایچ-پنوھر یہ کہتے ہیں کہ ’یہ ندی بغیر کسی شک کے حب ندی ہے‘ (الیگزینڈر کنگھام کے ساتھ ہم اتفاق کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ حب ندی نہیں بلکہ پورالی ندی ہے جو لسبیلو کے علاقے سے بہہ کر سون میانی کے قریب سمندر میں داخل ہوتی ہے۔ سون میانی پر ’بالا کوٹ‘ بندر کا ذکر ہم ساتویں قسط میں کرچکے ہیں۔ ہوسکتا ہے جس بندر کا ذکر کیا گیا ہے وہ اس قدیم بالاکوٹ بندر کا ہو یا اس کے آثاروں پر دوسرا بندر آباد کیا گیا ہو) جو راس مانزی کے اس طرف سمندر میں گر کر موجودہ سندھ کی سرحد بناتی ہے۔ بہرحال یہاں سمندری کنارے سے نیارکس کے جانے کے بعد یہاں موجود خشکی کے راستوں سے سکندر کو گزرنا ہے جو پٹالہ سے اپنی آدھی فوج کے ساتھ اس سفر کے لیے نکل پڑا ہے۔ یونانی خط میں بنایا ہوا نقشہ، ہری لکیر سکندر جبکہ سرخ نیارکس کے سمندری سفر کی نشاندہی کررہی ہے 325 قبل مسیح میں سکندر نے اپنے جنگی بیڑے کو پٹیالہ کے مقام پر نیارکس کے حوالے کیا اور اُسے ہدایات دے کر اپنی آدھی فوج کے ساتھ مغرب کی طرف سفر شروع کیا۔ یہ ستمبر کا مہینہ تھا۔ ہم لئمبرک اور کنگھام کے اس بہاؤ کے جھگڑے کو ایک طرف رکھ کر یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ وہ بہاؤ حب کا تھا یا پورالی کا مگر اس بہاؤ کے مشرق میں کراچی کے طرف جو آبادیاں تھیں انہیں یونانی تحریروں میں ’آرابی‘ یا ’آرابتائی‘ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ ان آبادیوں کے لوگ، سکندر کے آنے کا سُن کر جنگلات اور پہاڑیوں میں پناہ لینے کے لیے چھپ گئے۔ خود سکندر بھی انہیں زیربار نہیں کرنا چاہتا تھا۔ سکندر اور اس کی فوج کچھ عرصے حب یا پورالی کے مشرق میں رہا۔ اور وہاں رہ کر لسبیلو اور اس کے اطراف میں رہنے والے ’اوریئتائی‘ قبیلوں پر حملہ کرنے کے لیے فوج کو منظم کیا کیونکہ یہ قبائل سرکش تھے۔ وہ علاقے جو سکندر اعظم کی وجہ سے قیامِ عمل میں آئے اگر سکندر کے واپس جانے کے قدیم نقشوں کو دیکھا جائے تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ پٹیالہ کے بعد سمندری کنارے کے ساتھ ساتھ مغرب کی طرف بڑھا اور ہم یہ بھی یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ’آرابتائی‘ (کوہستان) سے جب وہ گزرا تو اس نے ملیر ندی کو بھی ضرور پار کیا ہوگا جس کے متعلق ایرین لکھتے ہیں کہ ’اس ندی میں کچھ انچوں سے زیادہ پانی نہیں تھا البتہ اس کا پاٹ وسیع تھا‘۔ یہ کتنا اچھا ہوتا کہ ’آرابتائی‘ کے اس ساحلی علاقے سے گزرتے ہوئے سکندر اپنی کوئی یادگار چھوڑتا تو یوں ہمیں تحقیق کرنے میں آسانی ہوجاتی۔ بہرحال سکندر ’اوریئتائی‘ کی طرف جاچکا ہے اور سکندر کے جانے کے بعد سندھ بالخصوص اس کے ساحلی علاقوں کے متعلق تاریخ پر خاموشی کی دُھند کی گہری چادر تنی ہوئی ہے۔ البتہ عیسوی سن کی ابتدا کے ساتھ ہمیں مورنتوبار کا نام اپنی صورت تبدیل کرتا ہوا نظر آتا ہے اور مورنتوبار پگھلتا ’کلاچی‘ کے نام کی شکل لینا شروع کرتا ہے۔ ہم جلد ہی ملتے ہیں کلاچی میں جہاں سمندر کا پانی ہے کیونکہ جب میٹھے اور کھارے پانی ملتے ہیں تو وہاں گہرے پانیوں میں بھنور پڑتے ہیں اور کناروں پر داستانیں تخلیق ہوتی ہیں۔ حوالہ جات
دفاتر کی میٹھی چھریاں اور انکاریے
جرم، سزا اور قتل کی تفتیش پر مبنی سیریز اور فلمیں دیکھنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ خود بھی اکثر ’چوکس‘ رہتا ہے اور خواہ مخواہ ہر ملنے والے کی پروفائل دماغ میں بننے لگتی ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی مشاہدہ تیز ہو جاتا ہے اور مجبوراً سوچنا پڑتا ہے کہ سامنے والا بندہ جیسا ہے ویسا کیوں ہے۔ اس کا ماضی کیا رہا ہوگا اور وہ مستقبل میں کیا کیا گُل کھلانے لائق کام کر سکتا ہے۔ اگر ذرا غور کیا جائے تو دفتری معاملات سے نمٹنے والے خواتین و حضرات کے سامنے ایسے لاتعداد کیسز آتے ہیں جن میں سے کچھ کیس درج ذیل ہیں۔ بتونگڑے خواتین خواہ مخواہ ہی بدنام ہیں کہ وہ زیادہ بولتی ہیں۔ اکثر مرد اتنا بولتے ہیں کہ اگلے کے کانوں سے دھواں نکل آتا ہے لیکن ان کی باتوں کا کنواں خالی نہیں ہوتا۔ بات شروع ہوتی ہے موٹر سائیکل کی چین اترنے سے اور ان کے پُھپا کی سالی کے بھانجے کے بچے سے ہوتی ہوئی سلمان خان کی نہ ہونے والی شادی کو ہاتھ لگاتی ہوئی ملک چھوڑ کر جانے پر ختم ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو بتونگڑے بہ وزن بلونگڑے اور بچونگڑے کی درجہ بندی میں رکھا جاتا ہے۔ خواتین بدنام ہیں، دفاتر میں اکثر اوقات مرد زیادہ بولتے ہیں—تصویر: میٹا اے آئی تساہل عارفانہ (روحانی) کاہلی اور سستی دکھانے میں اعلیٰ مقام حاصل کرنا دنیا میں وہ واحد مقام ہے جسے پانے کے لیے انسان کو کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا۔ بس آدمی کچھ نہ کرے تو یہ رتبہ اور مقام جادوئی طور پر خود اس کی طرف کھچا چلا آتا ہے۔ ایسے لوگ پیدائشی طور پر مجبور ہوتے ہیں۔ مجبوری میں نوکری کرتے ہیں، دفتر آتے ہیں اور کچھ گھنٹے جگہ گھیر کر واپس چلے جاتے ہیں۔ ان کی میز پر مکھیوں کے بچے اُڑنا اور مکڑیوں کے بچے اپنی امیوں سے جالے بُننا سیکھتے ہیں۔ اس مجبوری میں بھی لیکن وہ کسی جاندار کا فائدہ ضرور کر جاتے ہیں، بس وہ انسان نہ ہوں۔ یہ لوگ مجبوری میں دفتر آتے ہیں اور جگہ گھیر کر واپس چلے جاتے ہیں—تصویر: میٹا اے آئی تساہل عارفانہ (اختیاری) یہ ظالم قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ خود تو کچھ نہیں کرتے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی کام کرنے سے روکتے ہیں اور اگر کسی کا کام بننے لگے تو اس میں روڑے، بجری، سیمنٹ اور سریا سب کچھ اڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر کوئی کام پڑ جائے سوکھے منہ سے ایسا گیلا بہانہ بناتے ہیں کہ اگلے کا دنیا سے رہا سہا اعتبار بھی اٹھ جاتا ہے۔ درخواست گزار کا بس نہیں چلتا کہ سب کچھ تیاگ کر جنگلوں ویرانوں میں چلا جائے کہ دنیا تو فانی ہے۔ اگر ایسے لوگوں کے ماتحت بھی ہوں تو یہ ان کو بھی وقت پر دوسروں کا کام کرنے سے منع کر دیتے ہیں کہ فدوی مزید تین چار مرتبہ گزارش کرے گا تو پھر دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔ ایسے لوگ دوسروں کے بنتے کام بھی بگاڑ دیتے ہیں—تصویر: میٹا اے آئی کیسیا ایسے لوگ بذاتِ خود ایک کیس ہوتے ہیں اور ہر وقت کسی کیس میں پھنسے رہتے ہیں۔ ان کے ذمے اکثر کوئی کام نہیں ہوتا اور یہ بقلم خود ہر کسی کے ’ذمے‘ ہوتے ہیں۔ یہ کبھی کسی سے درخواست لکھوا رہے ہوتے ہیں اور کبھی ادارے کی طرف سے 72 گھنٹوں کے اندر اندر جواب دہی کے لیے ملنے والے پریم پتر کا جواب کسی کے دماغ کی دہی بناتے ہوئے لکھواتے پائے جاتے ہیں۔ ان کے افسران بھی ان سے کوئی کام نہیں لیتے کہ کہیں ان کے ذمے ہی کوئی کیس نہ پڑ جائے۔ ایسے لوگ ہر وقت کسی نہ کسی معاملے میں پھنسے رہتے ہیں—تصویر: میٹا اے آئی میٹھی چھری یہ دفاتر کے سب سے کامیاب لوگ ہوتے ہیں۔ دو لوگوں کے مابین کوئی مسئلہ ہو تو یہ دونوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور اکثر اپنی جادوئی شخصیت کی مدد سے مسئلہ حل بھی کروا دیتے ہیں۔ دوسرے شعبوں میں ان کے واقف ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں جو کام پڑنے پر ان کی پیٹھ کھجانے کو تیار رہتے ہیں۔ یہ اپنے ذمے کا کام بھلے نہ کریں لیکن دوسروں کو ناراض بھی ہونے نہیں دیتے۔ ان کے مخصوص تکیہ کلاموں میں ’آپ فکر ہی نہ کریں‘ کے ساتھ ساتھ ’میں حاضر بادشاہو‘ اور ’میں خادم بھائی جان‘ اکثر سنائی دیتا ہے۔ ایسے لوگ کسی کو ناراض نہیں ہونے دیتے—تصویر: میٹا اے آئی انکاریے جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ ایسے لوگ اس فلمی کردار کی طرح ہوتے ہیں جس کا پوری فلم میں ایک ہی ڈائیلاگ ہوتا ہے کہ ’یہ شادی نہیں ہو سکتی‘۔ ان کے پاس کوئی کام بھی لے جائیں یہ سب سے پہلے چٹے سفید انکار سے آپ کا سواگت کریں گے۔ اس کے بعد ’ہے تو مشکل لیکن دیکھتے ہیں‘ کا شوگر فری لالی پاپ آپ کو پکڑا کر چلتا کردیں گے۔ ایسے لوگوں کے پاس بار بار جانے کی بجائے اگر اوپر سے فون کروایا جائے تو ہی کام بنتا ہے۔ دفاتر میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو ہر عرضی کے جواب میں انکار کرتے ہیں—تصویر: میٹا اے آئی مجھے یقین ہے کہ آپ کے ذہن میں ان کے علاوہ بھی ایسے لوگوں کی فہرست موجود ہوگی۔ آپ بھی تحقیق جاری رکھیں تاکہ نئے آنے والے لوگوں کو دفاتر میں موجود ایسی ہستیوں کا بروقت ادراک ہو اور نوکریوں سے ان کا دل اچاٹ ہوجائے۔
چین میں جدید روبوٹ شارک پانی میں آگئی
چین نے کیمروں سے لیس 16 فٹ لمبی روبوٹک شارک مچھلی متعارف کرادی ہے، اس شارک کا مقصد مخصوص مشنز کو پورا کرنا ہوگا۔ اس حیرت انگیز روبوٹک شارک مچھلی میں آپٹیکل کیمرے، سینسرز، سونر ٹیکنالوجی (ساؤنڈ کی مدد سے سمندر میں راستہ تلاش کرنا) اور بلٹ ان نیوی گیشن سسٹم موجود ہے، جبکہ اسی روبوٹک شارک میں وائرلیس ریموٹ کنٹرول اور پروگرام شدہ تیراکی کا سسٹم بھی موجود ہے۔ ذرائع کے مطابق اس روبوٹک مچھلی کو خاص طور پر گہرے سمندر کے لیے بنایا گیا ہے، جو کہ سمندر میں 1 اعشاریہ 6 میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر طے کر سکتی ہے، جبکہ یہ مچھلی 65 فٹ کی گہرائی تک جا سکتی ہے۔ اس منفرد روبوٹوک مچھلی کے بنانے والے شمال مشرق سے تعلق رکھنے والے چینی ماہرین کو امید ہے کہ یہ مچھلی پانی کے معیار سمیت مخصوص مشنز میں بھی اہم کردار ادا سکے گی۔ جبکہ امریکی میڈیا کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہےکہ چین ان کیمرا لیس مچھلیوں کو فوجی آپریشنز کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ یہ مچھلی شینیانگ ایرواسپیس ژنگیانگ گروپ کی جانب سے بنائی گئی ہے، جبکہ اس کے بنانے والے ڈیزائنر گاؤ شاؤ کا کہنا ہے کہ یہ اب تک کی سب سے بڑی بائیونک مچھلی ہے، جس پر تحقیق کی گئی ہے۔اس مچھلی میں 7 جوائنٹس موجود ہیں اور ہر جوائنٹ میں مواصلات، کمپیوٹر اور سنسنگ ڈیوائسز موجود ہیں، جو کہ اس کی انفرادیت کو بڑھا دیتی ہے۔ زیر سمندر پروپلشن ٹیکنالوجی ریسرچ کے ڈائریکٹر فانگ ژولن کا کہنا ہے کہ روبوٹک مچھلی زیر سمندر اپنا ٹاسک پورا کرے گی، جبکہ یہ کامیابی کے ساتھ اپنے روٹ کے درمیان آنے والے خلل کو ہٹانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ فانگ نے ساتھ ہی روبوٹک شارک کے دماغ کا کمپیوٹر کے دماغ سے موازنہ کیا ہے۔ ژولین کی جانب سے کہنا تھا کہ لاتعداد ڈیٹا کو اسکریننگ اور ہمہ وقت سازی سے گزارا جاتا ہے، پھر باہمی طور پر درست کیا جاتا ہے اور تصدیق کی جاتی ہے، تاکہ یہ روبوٹک مچھلی آس پاس کے ماحول کو جانچ سکے۔ ماہرین کے مطابق یہ روبوٹک شارک مچھلی سمندری آپریشن کو سائنسی ریسرچ میں تبدیل کرنے کے قریب ہے۔
فوڈ پیکیجنگ میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کینسر کا سبب بن رہے ہیں، تحقیق
ایک طویل تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ تیار شدہ غذائوں کی پیکیجنگ میں استعمال ہونے والے درجنوں کیمیکلز ایسے ہیں جو خصوصی طور پر بریسٹ کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق فوڈ پیکیجنگ اینڈ کینزیومر کیئر کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق فوڈ پیکیجنگ اور یہاں تک کہ بعض غذائوں کو کئی ہفتوں تک تازہ رکھنے کے لیے ان میں شامل کیے جانے والے کم سے کم 200 کیمیکلز ایسے ہیں جو کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تیار شدہ کھانوں اور ایسی غذائوں کی پیکیجنگ کے لیے استعمال ہونے والے پلاسٹک اور ڈبوں میں استعمال ہونے والے کم سے کم 40 کیمیکلز کو پہلے ہی انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرہ قرار دیا جا چکا ہے لیکن اس باوجود مذکورہ کیمیکلز سالوں سے استعمال ہو رہے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پیکیجنگ اور تیار شدہ کھانوں میں ایسے کیمیکلز استعمال کیے جاتے ہیں جو (carcinogens) ’کارسنجینز‘ کا سبب بنتے ہیں جو ایسا خطرناک مادہ ہوتے ہیں جو کسی بھی انسان میں کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مذکورہ کیمیکل نہ صرف انسان کے ہارمونز کو تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں بلکہ یہ انسانی ڈی این اے کو بھی تباہ کر سکتے ہیں اور عام انسان ایسے کیمیکلز کے نقصانات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنوری 2024 میں بھی اس طرح کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ فوڈ پیکیجنگ اور تیار غذائوں میں استعمال ہونے والے 14 ہزار کیمیکلز میں سے 700 کے قریب کیمیکلز ایسے ہیں جو کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں کینسر کے بڑھنے کا سبب صرف انسانی جسم میں ہونے والی تبدیلیاں نہیں ہیں بلکہ اس میں ایسے کیمیکلز، ماحولیاتی تبدیلیوں، طرز زندگی کے تبدیل ہونے سمیت دوسرے عوامل بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ تیار غذائوں اور فوڈ پیکیجنگ میں استعمال ہونے والے 200 کیمیکلز ایسے ہیں جو خصوصی طور پر بریسٹ کینسر کا سبب بن سکتے ہیں، مذکورہ کیمیکل آنتوں کی کینسر کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔
الماری کس طرح منظم کی جائے
عام طور پر الماری فرنیچر کے ہمراہ ہی خریدی جاتی ہے، تاہم آپ فرنیچر کے اس اہم جزو کو اپنی ضروریات کے مطابق بھی بنواسکتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے پاس بڑی الماری ہو، جس میں سارے کپڑے، بیگ اور جوتے وغیرہ سب بآسانی آجائیں۔ سامان کے اضافے کے ساتھ نئے کپڑے وغیرہ رکھنے کے لیے اضافی جگہ بھی ہونی چاہیے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس میں آپ کپڑوں سے لے کر جوتے، جیولری، کھلونے، کتابیں وغیرہ سبھی کچھ رکھ سکتے ہیں۔ غرض یہ کہ ہر کوئی اپنی ضرورت کے مطابق الماری کو استعمال میں لاتا ہے لیکن بنیادی طور پر اسے کپڑے رکھنے کیلئے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ نئے اور پرانے کپڑوں کو محفوظ رکھنے کے لیے بہترین ہوتی ہے، تاہم اگر الماری غیرمنظم ہوئی ہوتو یہ بات کہیں زیادہ الجھن کا باعث بنتی ہے۔ ماہرین کے مطابق بکھری ہوئی الماری کامطلب ایک بکھرا اور پریشان دماغ ہے۔ الماری میں اوپر تک ٹھنسے ہوئے بے ترتیب کپڑوں سے زیادہ مایوس کن کچھ نہیں کیونکہ یہ آپ کے حسنِ سلیقہ پر ایک بدنما داغ سمجھا جاتا ہے۔ ایک غیر منظم الماری آپ کے کمرے کی وضع قطع بگاڑ سکتی ہے۔ اگر آپ اپنے کپڑوں یا ضرورت کی دیگر اشیاکو الماری میں ترتیب سے رکھنے کے فن سے روشناس نہیں تو آپ کی تمام شاپنگ بھی غیر مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔ الماری منظم کرنا بظاہر جتناآسان لگتا ہے، درحقیقت یہ اتنا ہی مشکل کام ہے۔ آئیے ان آسان تجاویز پر بات کرتے ہیں، جن کےذریعے آپ اپنی الماری کو منظم کرسکتے ہیں۔ صفائی کا منصوبہ سب سے اہم کام المار ی کو صاف کرنے کی منصوبہ بندی ہے کیونکہ جب الماری کھولتے ہی تمام کپڑے آپ پر یا زمین پر گر پڑتے ہیں تو ان کو دوبارہ ترتیب دینا خاصا تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ چیزوں کو ترتیب وار اور منظم رکھنے والے ماہرین کی رائے کےمطابق الماری کی مکمل صفائی کا منصوبہ سال میں کم ازکم دوبار لازمی بنانا چاہیے۔ اگر آپ نے ایک طویل عرصے سے الماری منظم نہیں کی ہے تو آ ج ہی اس کو منظم کرنے کا منصوبہ بنائیں۔ آپ دیکھیں گے کہ کچھ دیر کی محنت ایک منظم اور ترتیب و ار الماری فراہم کردے گی۔ غیر ضروری کپڑے الماری کو منظم دیکھنے کا ایک اصول یہ ہے کہ جن کپڑوں کا استعمال فوری نہ ہو یا جنھیں آپ نہیں پہنتے تو انہیں الماری سے نکال دیں۔ فالتو اشیا یا کپڑے آپ کی الماری کو غیرمنظم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ لہٰذا جو کپڑے، جوتے، سینڈلز یا بیگ وغیرہ آپ کے استعمال میں نہ ہوں، انہیں کسی کو دے دیں ۔ اس کے علاوہ غیر ضروری اور فالتو سامان رکھنے کے لیےڈبے بنانا ایک اچھا آئیڈیا ہے۔ ہر وہ چیز جو کام کی نہیں اور فی الحال غیرفعال ہے، ان کو الماری سے نکال کر ڈبوں میں بھر دیا جائے۔ اس طرح یہ اشیا خراب ہونے سے بھی محفوظ رہیں گی۔ دائیں سے شروعات میری کونڈو کا کہنا ہے کہ الماری کومنظم کرنے کے لیے ہمیشہ دائیں جانب سے شروع کریںاور روزانہ استعمال میں آنے والی چیزوں کو آنکھوں کے سامنے رکھیں تاکہ انھیں ڈھونڈنے میں زیادہ وقت نہ لگے اور نہ ہی الماری کی سیٹنگ خراب ہو۔ الماری کو صاف و شفاف دکھانے کے لیےکچھ کپڑے ٹانگ دیں کیونکہ ٹنگے ہوئے کپڑے کم جگہ گھیرتے ہیں اوربآسانی مل جاتے ہیں۔ کپڑوں کی تہہ کپڑوں کی بنائی گئی تہہ آپ کی الماری یا وارڈروب کومنظم کرنے میں اہم ہوتی ہے۔ کپڑوں کی تہہ جتنے سلیقے سے کی جائے گی آپ کی الماری اتنی ہی منظم اور کم بکھری محسوس ہوگی۔ چیزوں کو ترتیب سے رکھنے پر مشاورت فراہم کرنے والی جاپانی انسٹرکٹرمیری کونڈو کا کہنا ہے کہ کپڑوں کو منظم اور ترتیب سے رکھنے کے لیےان کو عمودی طریقے سے (ورٹیکل اسٹائل) تہہ کیا جائے، اس طرح کپڑے کم جگہ لیں گے اور الماری بھی منظم لگے گی۔ اسی طرح تولیے وغیرہ کی بھی عمودی تہہ بنائیں تاکہ یہ چیزیں بھی کم جگہ گھیریں۔ درازوں کا استعمال الماری میں موجود دراز بھی اہم ہوتی ہیں لیکن ان درازوں میں ضرورت سے زائد سامان جلد ہی آپس میں گڈ مڈ ہونے لگتا ہے جس کے باعث یہ بے ترتیب اور گندی ہوجاتی ہیں۔ اگر آپ الماری کو منظم دیکھنا چاہتے ہیں تو الماری کے لیے خانے والی درازوں کا انتخاب کیجیے، جس میں ٹائی، موزے اور دوسرا ضروری سامان ترتیب سے رکھا جاسکے۔ جوتوں کیلئے ریک جوتےآپ کی الماری کا ایک بڑا حصہ لے لیتے ہیں، لہٰذا ان پر نظر کرنا بہت ضروری ہے۔ الماری کے نیچے آرام دہ خانے بنانا ایک اچھا آئیڈیا ہے یا پھر آپ لٹکنے والے شیلف خریدلیں۔ اس کے علاوہ شوز ڈسپلے ریک آجکل خاصے مقبول ہیںجو شیشے ، پائپ یا لکڑی میںسے کسی بھی مٹیریل کے بنے ہوتے ہیں، اس میں آپ اپنے سینڈلز اور شوز وغیرہ بآسانی رکھ سکتے ہیں۔ کارنر الماری اگر آپ کے گھر میں ایسی جگہ ہے جہاں پر چھت تھوڑی سی ترچھی ہے تو اس میں شیلف اور درازیں بنا کر ایک چھوٹی الماری کی شکل دی جاسکتی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ الماری کا بیشتر سامان وہاں منتقل ہوجائے گا اور آپ کو اپنی الماری منظم کرنے میں زیادہ آسانی ہوگی۔
گھر میں ہریالی لانے کے مختلف طریقے
آج کے افراتفری اور تیز رفتاری والے زمانےمیں بہت ہی کم وقت مل پاتا ہےکہ ہم کسی باغ کی سیر کو جائیں یا ہرےبھرے پارک میں چہل قدمی کریں اور لمبی وگہری سانسیں لے کر تازہ ہوا کو اپنےا ندر اتاریں۔ اس کے علاوہ ہم میں سے اکثر افراد کے پاس گھر میں اتنی جگہ نہیں ہوتی جہاں ہم باغبانی کا شوق پورا کرسکیں۔ آج ہم آپ سے کچھ ایسے آئیڈیاز شیئر کرنے جارہے ہیں جن کے ذریعے اپارٹمنٹس یا مکان میں چھوٹی جگہ کو بھی باغیچے کے لیے کارآمد بنایا جاسکتا ہےاور آپ ان اچھوتے طرز کے باغیچوں سے بھرپور فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ عمودی باغ اگر گھرمیں جگہ کم ہو تو عمودی باغبانی (ورٹیکل گارڈن) بہترین انتخاب ہوسکتا ہے۔ اگر آپ کو ایک بڑے باغیچے کی ضرورت نہیں ہے توصرف ایک ہی قسم کے پودوں سے کام چل جائے گا اور ان کی دیکھ بھال کے حوالے سے بھی آپ کوزیادہ کاوشیں نہیں کرنی پڑیں گی۔ جیسے کسی بھی کونے میں لکڑی کی بینچ کے ساتھ چھوٹے گملو ں میں گلاب لگائے جاسکتے ہیں۔ کسی بھی پودے کاانتخاب کرنے سے پہلے اس کا سائز سمجھنا ضروری ہے۔ دیوار پر سجانےکے لیے مختلف پودے استعمال کیے جاسکتے ہیں اور اس دیوار کے ساتھ لکڑی کی بینچ اور چند آرائشی اشیا بھی رکھی جاسکتی ہیں۔ لمبی سبزخوردنی پھلیوں اورلمبے ڈنڈوں کی مدد سے پودوں کی بیلوں کو اوپر تک چڑھایا جا سکتا ہے، مناسب دیکھ بھال سے یہ پھلتی پھولتی رہیں گی۔ بالکنی میں گملے اگر اپارٹمنٹ میں جگہ کی کمی کا سامنا ہے تو پھر اس کی بالکنی کے ایک حصے کوجڑی بوٹیوں اور پودوں کے لئے وقف کیا جاسکتاہے۔ گملے میں لگے پودے بہت منفرد طرز کے ہوں تو قدرتی روشنی میں یہ مزید دلکش دکھائی دیتے ہیں۔ ان گملوں کے ڈھیر سے ایک طرف آپ کی بالکنی ہری بھری لگے گی تو دوسری طرف آپ کا باغبانی کا شوق بھی پورا ہوگا۔ یہی نہیں، اس مختصر جگہ کو منفرد دکھانے میں ہری بھری سجی ہوئی دیوار بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ کونے میں باغیچہ سادہ اور خوبصورت چیزوں کو استعمال کرنےکا بھی اپنا ہی منفرد انداز ہوتاہے، اسی طرح ٹرے میں مختلف پودے لگائے جاسکتے ہیں۔ اگر گھر کا کوئی کونا خالی ہے تو اس جگہ بازار میں دستیاب بڑی ٹرے رکھی جاسکتی ہے یا پھر اس مقصد کے لیے کوئی کونا خالی بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس ٹرے کو فرش اور لکڑی کے ڈیک کے ساتھ سجایا جاسکتا ہے اور لکڑی کی ایک بینچ یا کوئی کشن بھی ساتھ رکھا جاسکتاہے۔ آپ اگر اس ٹرے پر کوئی عمدہ سا رنگ بھی کرلیںتو یہ مزید دیدہ زیب معلوم ہوگی۔ ٹرالیوں میں کیاریاں آج کے زمانے میں ہر چیز کا حل موجود ہے،اسی لئے گھبرائیے مت کیونکہ چھوٹی جگہوں پر باغبانی کا شوق پورا کرنے کے لیے مارکیٹ میں ٹرے پر مبنی ٹرالیاں بھی دستیاب ہیں۔ یہ ٹرالیاں دو سے تین خانوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ سب سے اوپر پودے اور دوسرے پر باغبانی کا سامان بآسانی رکھا جاسکتا ہے۔ ان ٹرالیوں کے ذریعے ایک طرف آپ باغبانی کا شوق پورا کرسکیں گے تو دوسری طرف آپ اپنے گھر کو منفرد انداز دے پائیں گے۔ لٹکے ہوئے گملے چھوٹے گملوں کو چھت پر بھی لٹکایا جاسکتا ہے۔ کوشش کریں کہ ان گملوں میں ایسے پودے لگائیں جن میں زیادہ سےزیادہ خوشبودار اور رنگین پھول لگتے ہوں تاکہ آپ انہیں دیکھ کر خودبھی لطف اندوز ہوں اور باہر کی جانب سے بھی دیکھنے میں ایک خوبصورت تاثر ملے۔ گملوں کو مختلف رنگوںسے رنگ دیا جائے تو یہ اور بھی خوبصورت نظر آتے ہیں۔ راہداری میں پودے آپ کا یا مہمانوں کا استقبال کرنے کے لیے ’’ہربل ویلکم‘‘ ایک منفرد آئیڈیا ہے۔ پودینہ، روزمیری اورنیازبو جیسے پودوں کا استعمال گھر کےداخلی حصے اور راہداری کے لیے بہترین ہے۔ ان جگہوں پر ایسے پودوں کا انتخاب آپ کے گھر کو ہرا بھرا اور بڑا دکھانے میں معاون ثابت ہوگا۔ منی پلانٹ منی پلانٹ ایک آرائشی بیل ہے،جو پانی اور مٹی دونوں میں بآسانی اگائی جا سکتی ہے۔ اِس کی خاص بات یہ ہے کہ اِس پر نہ کوئی پھل لگتا ہے اور نہ پھول۔ لیکن اگر یہ جنگل میں اُگی ہو تو اس پر بہت دیر بعد پھول لگ ہی جاتے ہیں اور ایسا ہونا بہت نایاب ہے۔ لکڑی کے سانچے لکڑی کے صندوق نما سانچے بنا کر بھی ان میں پھول اور پودے لگائے جاسکتے ہیں اوراگر ان کے نیچے پہیے لگادیے جائیں تو انہیں ادھر سے ادھر حرکت دینے میں آسانی ہوگی اور انہیں دھوپ بھی لگائی جاسکے گی۔
باغیچہ کیسے خوبصورت بنایا جاسکتا ہے؟
گھر میں باغیچے کی موجودگی فارغ وقت گزارنے کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ آپ شام کے وقت ہریالی کے درمیان کرسی پر بیٹھ کر ایک کپ چائے کا لطف اٹھاسکتے ہیں یا پھر اپنے گھروالوں کے ساتھ خوش گپیوں میں فرصت کے لمحات کو خوشگوار بناسکتے ہیں۔ گرمیوں کی شاموں اور سردیوں کی راتوں میں باغیچے میں بیٹھنے کا اپنا ہی لطف ہے۔ باغیچے کو خوبصورت بنانے کے لیے وہاں باربی کیو ایریا، مصنوعی آبشار، حوض، باغ گھر اور بچوں کے کھیلنے کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی باغیچے کے لیے کئی چیزیں اہم ہوتی ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کےگھر کا باغیچہ چھوٹا ہے یا بڑا، آپ روشن خیال رنگوں او رمنفرد اشیا کا استعمال کرکے اس میں ایسی جدت لاسکتے ہیں، جو اسے دیگر تمام باغیچوں سے منفرد بنادے گا۔ درج ذیل اقدامات پر توجہ دینے سے آپ کا باغیچہ ایک نیا انداز پیش کرے گا۔ عمودی باغیچہ عمودی باغیچہ (ورٹیکل گارڈن) بنانے کا ٹرینڈ نیا نہیں بلکہ چند عشرے پرانا ہے۔ یہ ایک ایسی تکنیک ہے جس میںہائیڈروپونک ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے عمودی پینلزپر پودے لگتے ہیں۔ عمومی طور پر اس طرح کی باغبانی میں دیوار کے سہارے یا پھر عمودی پلانٹر نصب کرکے مختلف سہاروں کے ذریعہ پودے اگائے جاتے ہیں ، جوکہ نشوونما پا کر دیوار کو ڈھانپ لیتے ہیں۔ چھوٹے گملے باغیچے میں کسی بھی سائز کے گملے لگائے جاسکتے ہیں۔ یہ اتنے چھوٹے بھی ہو سکتے ہیں کہ پوری دیوار پر سجائے جاسکتے ہیں۔ ان پر خوبصورت پینٹ کر کے رنگین پھولوں سے سجائیں۔ آپ بازار سے مختلف اقسام کے ہک والے گملے بھی خرید سکتے ہیں۔ انہیں لکڑی کے تختوں پر لگانا بھی ایک اچھی تجویز ہے۔ گملوں کا متبادل ویسے تو پودے لگانے کے لیے کیاری اور گملوں کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پودے لگانے کے لیے مختلف چیزوں کا استعمال بھی کیا جانے لگا ہے۔ مثال کے طور پر گملے کی طرح کے برتن، کنٹینر یا کنستر جو بازار میں مختلف رنگوں میں دستیاب ہیں، ان میں طرح طرح کے رنگ برنگے پودے لگائے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ لکڑی کے صندوق نما سانچے بنا کر بھی ان میں پھول اور پودے لگائے جاسکتےہیں اوراگر ان کے نیچے پہیے لگادیے جائیں تو انہیں ادھر سے ادھر حرکت دینے میں آسانی ہوگی۔ ٹرالیوں میں کیاریاں موجودہ دور میں ہر چیز کا حل موجود ہے،اسی لئے گھبرائیے مت کیونکہ چھوٹی جگہوں پرباغبانی کا شوق پورا کرنے کے لیے مارکیٹ میں ٹرے پرمبنی ٹرالیاں بھی دستیاب ہیں۔ یہ ٹرالیاں دو سے تین خانوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ سب سے اوپرپودےاور دوسرے پر باغبانی کا سامان بآسانی رکھا جاسکتا ہے۔ ان ٹرالیوں کے ذریعے ایک طرف آپ باغبانی کا شوق پورا کرسکیں گے تو دوسری طرف آپ اپنے گھر کو منفرد انداز دے پائیں گے۔ دیوار کی سجاوٹ باغیچے کی دیواروں کو قوس و قزح کے رنگوں سے پینٹ کریں۔ اس سے آپ کی طبیعت، مزاج اور ماحول پر انتہائی خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے علاوہ اپنے گھر میں موجود پرانی یا استعمال شدہ بائیسکل کو شوخ رنگوں سے پینٹ کریں اور اس پر اپنی پسند کے پودے اور پھول گملے میں رکھیں۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ بائیسکل پلانٹس ہر آنے جانے والے کی توجہ کا مرکز بن جائیں گے۔ ماحول دوست آپ ماحول دوست باغیچہ بنانا چاہتے ہیں تو اس سے بہتر اور کیا آئیڈیا ہوسکتا ہے۔ یہ آئیڈیا سب سے پہلے ملائیشیا کے ایک باغبان نے پیش کیا تھا، جب اس نے پرانے استعمال شدہ پائپوں کا فریم بنا کر اس میں پودے اُگانے کا آغاز کیا۔ اس کے بعد اس آئیڈیا کو دبئی کی سسٹین ایبل سٹی(Sustainable City)میں بھی دُہرایا گیا۔ حوض بنائیں باغیچے میں واٹر فیچرز جیسے کہ حوض بنانے سے اس کی ظاہری شکل بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ حوض کو خوبصورت بنانے کے لیے آپ کو تھوڑی محنت کرنی ہوگی۔ اس میںمناسب سوئمنگ پول لائٹس، پودے اور پانی کی فاؤنٹین نصب کی جاسکتی ہیں۔ سجاوٹی آبشار پتھر کی دیوار اور اس سے گرتا پانی قدرت سے لگاؤ رکھنے والوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ مگر کیا آپ نے کبھی اس خوب صورتی کو اپنے باغیچے میں شامل کرنے کا سوچا ہے؟ آپ سجاوٹی آبشار کو دیوار پر سجا سکتے ہیں یا پھر کہیں کونے میں رکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیوار میں طاق بنائیں اور اس میں اس طرح پودے رکھیں کہ وہ آبشار کے قریب ہوں مگر خیال رہے کہ ان میں پانی نہ گرے۔ بیٹھنے کی جگہ کبھی کبھی ایک سادہ سی کافی ٹیبل اور چند کرسیاں بھی باغیچے کو دلکش بنانے کے لیے کام کر جاتی ہیں۔ ایک پختہ جگہ پر بنائی گئی یہ روایتی طرز کی نشست چائے پینے یا کوئی کتاب پڑھنے کے لیے موزوں ہوتی ہے۔ چلنے کیلئے لکڑی کا راستہ لکڑی کے تختوں کو صفائی سےباغیچے میں بچھا کر سادہ مگر شاندار پگڈنڈی (واک وے) بنایا جاسکتا ہے، جو بچوں کے پلے گراؤنڈ کے طور پر بہترین رہے گا۔ درخت کا تنا اور لکڑی کے تختے اس انداز میں فٹ کیے جائیں کہ یہ جگہ فن کا شاہکار نظر آئے۔ مختلف زمینی سطح گھر کے اندرونی حصے اور باغیچے کے درمیان آرائشی پتھروں اور دیگر اشیا سے ایک مختلف زمینی سطح ڈیزائن کی جاسکتی ہے۔ یہ منظر گھر میں ایک پُرکشش تاثر پیدا کرے گا۔ اس کے علاوہ، آپ رات کے وقت اس جگہ کو پُرونق اور ماحول کو خوبصورت بنانے کے لیے یہاں فرشی روشنیاں لگاسکتے ہیں۔
گندھارا تہذیب و فن اور تعمیرات
کلاسیکی یونانی ثقافت اور بدھ مت کے درمیان گندھارا آرٹ ایک ثقافتی اشتراک ہے، جس کا ارتقاء وسطی ایشیا میں تقریباً ہزار سال کی مدت میں انجام پذیر ہوا۔ یہ مدت سکندر اعظم (چار صدی قبل مسیح) سے اسلامی فتوحات (7ویں صدی عیسوی) کے درمیانی عرصے پر محیط تھی۔ سنگ تراشی، مجسمہ سازی، تصویرکشی اور مختلف نقوش پر مشتمل کندہ کاری کا جو فن وجود میں آیا، اُسے گندھارا آرٹ کا نام دیا گیا۔ گندھارا نہ صرف فن کا نام ہے بلکہ یہ ایک وسیع علاقے اور ایک مکمل تہذیب کا آئینہ دار ہے۔ یہاں گندھارا آرٹ پہلی صدی عیسوی سے لے کر ساتویں صدی عیسوی تک عروج پر رہا۔ گندھارا آرٹ دراصل یونانی، ساکا، پارتھی اور کشن تہذیبوں کا نچوڑ ہے۔ گندھارا آرٹ کا مرکز یوں تو ٹیکسلا تھا لیکن اس کی جڑیں پشاور، مردان، سوات، افغانستان حتیٰ کہ وسطی ایشیا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ سوات میں گندھارا آرٹ بُدھّا کے مختلف مجسمّوں، کندہ کاریوں اور مختلف نقش و نگار کی صورت فروزاں نظر آتا ہے۔ ادھر چینی سرحدی علاقوں میں بھی اس کے آثار ملتے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں دوہزار سال پرانا مانکیالہ اسٹوپا ہے۔ یہ اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ ڈبلیو ایف سیرو (W F Cero) کی کتاب ’’گندھاراکی عبادت گاہیں‘‘ میں شائع شدہ نقشوں کے مطابق افغانستان اور روس تک پھیلی ہوئی گندھارا تہذیب کی آخری سرحد مانکیالہ کا اسٹوپا تھی۔ موریاعہد سے گپتاخاندان کے عروج کے زمانے میں فن سنگ تراشی کے نئے دبستان وجود میں آئے۔ متھرا کے مجسموں کی یہ خصوصیت بتائی جاتی ہے کہ یہاں سب سے پہلے گوتم بدھ کو انسانی شکل (مجسمہ) میں پیش کیا گیا، جو مدتوں مقبول رہا۔ اس فن میں گندھارا اسکول نے سب سے زیادہ ترقی کی، چنانچہ بر صغیر کے اکثر علاقوں میں گندھارا آرٹ کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ اس کے نمونے پاکستان کے شمالی علاقوں اور افغانستان کے بعض مقامات پر بھی ملتے ہیں۔ اس سلسلے میں ٹیکسلا سب سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ یہ تمام نمونے گوتم بدھ کی زندگی یا بدھ مذہب کی روایات پر مشتمل ہیں۔ گندھارا فن کے سب سے قابل تعریف نمونے ہمیں گوتم بدھ یا بدہستوا کے مجسموں میں ملتے ہیں۔ گندھارا آرٹ نے کشن حکمرانوں کی سرپرستی میں ترقی کی۔ یہی سبب ہے کہ یہ آرٹ چین اور جاپان ہی نہیں بلکہ مشرقِ بعید تک پہنچ گیا تبھی ان علاقوں کی تہذیب پر ہمیں گندھارا آرٹ کے اثرات صاف نظر آتے ہیں۔ ٹیکسلا کے دھرم راجیکا کے اسٹوپے میں ایک مجسمے کی بلندی چالیس فٹ کے قریب تھی۔ اسٹوپے گوتم بدھ کی وفات کے بعد بدھوں میں زیارت کا رواج عام ہو گیا ۔یہ روایت مشہور ہو گئی کہ گوتم بدھ نے چار مقامات کی زیارت کرنے کی ہدایت کی تھی۔ ایک تو لمبینی باغ، جہاں بدھ پیدا ہوئےتھے۔ دوسرا گیا کے قریب درخت، جس کے نیچے اُنہیں گیان حاصل ہوا تھا۔ تیسرا بنارس کا ہرن باغ، جہاں اُنھوں نے مذہب کی پہلی دفعہ تعلیم دی تھی۔ چوتھا کشی نگر، جہاں اُنھوں نے وفات پائی۔ اشوک کے دور میں بدھ مت نے عروج پایا، اس نے اپنی سلطنت کے آٹھ مقامات پر اسٹوپے تعمیر کرائے تھے۔ ہر اسٹوپے میں گوتم بدھ کے تھوڑے تھوڑے تبرکات محفوظ کیے گئے، ٹیکسلا کا دھرم راجیکا ان میں سب سے بڑا تھا۔ شاہی اسٹوپوں کی دیکھ بھال کے لیے بدھ راہب مقرر تھے۔ ان کے رہنے کے لیے وہار (مندر) بنا دیے گئے اور آس پاس کی زمین اس مقصد کے لیے وقف کردی گئی۔ گوتم بدھ کی خاک آٹھ اسٹوپوں میں محفوظ کی گئی تھی، اشوک نے ان آثار کو نکال کر سلطنت کے تمام بڑے شہروں اور صوبوں میں بھجوا دیا اور حکم دیا کہ وہاں شاندار اسٹوپے تعمیر کروا کر انھیں دفن کیا جائے۔ یوں یہ خاک 84ہزار اسٹوپوں میں محفوظ ہوئی، چنانچہ ان اسٹوپوں کو بدھ کی قبر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اسٹوپے مہاتما بدھ کی زندگی کے بارے میںپتھریلی کتاب تھے۔ اسٹوپے کے گنبد پر ہمیشہ سات چھتریاں ہوتی تھیں، جو سات آسمانوں کو ظاہر کرتی تھیں۔ منظم شہری تہذیب صوابی، مردان روڈ سے ایک سڑک اسوٹا شریف اور شیوکلی کی طرف جاتی ہے، جہاں سے ایک سڑک نوگرام گائوں کی طرف جاتی ہے۔ نوگرام کے ملحقہ پہاڑوں پر رانی گٹ بدھ دور کی دنیا کی بڑی تہذیب ہے۔ یہ کھنڈرات بلند و بالا پہاڑ پر واقع ہیں جس پر پہنچنے کے لیے جاپان ،یونیسکو اور حکومت پاکستان کے مشترکہ تعاون سے سیڑھیاں اور ریلنگ تعمیر کر دی گئی تھی۔ رانی گٹ کھنڈرات 168کنال رقبہ پر پھیلے ہوئے ہیں جس تک پہنچنے کے لیے3540فٹ کا راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔ سطح زمین سے اس کی اونچائی 900فٹ ہے۔ بڑی بڑی سیاہ چٹانوں کا سلسلہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ رانی گٹ کے جنوبی حصہ میں سنگ تراشی ہواکرتی تھی۔ مورتیوں کے لیے پتھر اونٹوں کے ذریعے لائے جاتے تھے۔ پہاڑ کھود کر ایک کمرہ بھی بنایا گیا تھا جہاں سنگ تراشی کا ماہر بیٹھا کرتا تھا۔ گوتم بدھ کے پیروکار یہاں سے تعلیم حاصل کرکے دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے مذہب کی تعلیم دینے جاتے تھے۔ کھنڈرات کے داخلی راستے میں ایک بورڈ پر رانی گٹ کی مختصر تاریخ لکھی ہوئی ہے۔ سائوتھ سائیکلر بلڈنگ ایریامیں بدھ کے بڑے اسٹوپے کے ساتھ لاتعداد چھوٹے چھوٹے اسٹوپے ہیں۔ مشرق کی جانب چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں جن پر چھت نہیں ہے۔ شاگردوں کے بیٹھنے کے لیے دیواروں کے ساتھ نشست گاہیں بنائی گئیں۔ یہ کمرے ایک ساتھ تعمیر کیے گئے تھے۔ قریب ہی سات آسمانوں اور زمین کے فلسفہ کو فنِ سنگ تراشی میں پیش کیا گیا ہے۔ خار دار تار کے اندر رانی گٹ سے ملنے والے ٹوٹے ہوئے مجسّمے اور دیگر نوادرات محفوظ کئے گئے ہیں۔ ایک مجسّمے کی صفائی پر تقریباً دس ہزار روپے خرچ آتا ہے۔ زمانہ قدیم میں لوگ کاغذ اور سیاہی سے ناآشنا تھے، لہٰذا گوتم بدھ کی تعلیم تراشے پتھروں یعنی مجسموں کی صورت میں دور دور تک پہنچائی جاتی تھی۔ رانی گٹ کے زیادہ تر حصے میں تہذیب دفن ہے۔ ٹوٹے ہوئے شکستہ مخدوش کھنڈرات کی تعمیر نو کا کام مختلف ادوار میں کیا گیا۔ سنگ تراشی والے حصے کے ساتھ تراشے ہوئے پتھروں کے چند زینے ہیں۔ سامنے کھلا صحن ہے ،جہاں بدھ مت کے پیروکار مذہبی تعلیمات سے مستفید ہوتے تھے۔ مغرب کی جانب ایک زمین دوز چھوٹا سا کمرہ ہے، جس میں خزانہ محفوظ کیا جاتا تھا۔ ساتھ ہی گارڈ روم ہے، جہاں عملہ خزانے کی حفاظت کے لئے مامور تھا۔
اپنے بیڈروم کو متاثرکن انداز میں سجائیں
دن بھر کی تھکن کے بعد جب ہم آرام کی غرض سے اپنے بیڈروم کا رُخ کرتے ہیں تو وہاں خوبصورت انداز میں سجاوٹ اور سلیقے سے رکھی چیزیں آدھی تکان ختم کردیتی ہیں اور یوں ذہنی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ بیڈروم انسان کی شخصیت کا بھی عکاس ہوتا ہے، جس کی سجاوٹ اس کی ذاتی پسند و ناپسند، نفاست اور ذوق کا پتہ دیتی ہے۔ دوسری جانب انٹیریئر ماہرین ٹرینڈز کے مطابق بیڈروم کی سجاوٹ پر زور دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بات سے قطع نظر کہ بیڈ روم کا سائز کیا ہے، گھر کے اس حصے میں سجاوٹ کے دلکش اور متاثر کن انداز کے ذریعے ایک حیرت کدہ بنایا جاسکتا ہے۔ آئیےجانتے ہیں کہ بیڈروم کے لیے کن ٹرینڈز پر عمل کرنا سود مند ثابت ہوگا۔ لکڑی کی اشیا انٹیریئر ڈیزائننگ کے ماہرین کے مطابق بیڈروم کے ماحول کو صحت مند ماحول میں تبدیل کرنے کے لیے قدرتی مواد کا زیادہ سے زیادہ استعمال ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ماہرین آرائش و سجاوٹ کے لیے لکڑی کی اشیا استعمال کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بیڈروم کے فرنیچر کے لیے دوسرے مٹیریل کے بجائے لکڑی کو ہی بطور مواد منتخب کیا جائے۔ دوسری جانب بیڈ کے عقب والی دیوار پر بھی لکڑی کا بیک ڈراپ بنوانا خاصا مقبول ہوتا جارہاہے۔ ساتھ ہی چھت (سیلنگ) اور فرش کے لیے بھی لکڑی کا استعمال خواب گاہ میںتازگی اور شگفتگی کا احساس دوبالا کرسکتا ہے۔ منیملسٹ بیڈروم ڈیزائن ایک آئیڈیل بیڈروم وسیع اور کشادہ ہوتا ہے، تاہم جائیداد کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے چھوٹے مکانات یا فلیٹس میں رہائش اختیار کرنے سے اکثر افراد کے بیڈروم زیادہ کشادہ نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر گھروں میں بڑے بڑے بیڈرومز کے بجائے عام سائز کے بیڈروم زیادہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ اس کو دیکھتے ہوئے کچھ عرصے سے منیملسٹ بیڈروم ڈیزائن متعارف کروایا گیا ہے یعنی ایک ایسی خواب گاہ ، جو چھوٹی ہونے کے باوجود سجاوٹی ٹرینڈز کے مطابق کھلی کھلی اور کشادہ محسوس ہو۔ بیڈروم میں صرف ان چیزوں کا اضافہ کریں جو بے حد ضروری اور ٹرینڈ کے مطابق ہوں، مثلاًفرنیچر میں صرف بیڈ، ڈریسنگ ٹیبل اور الماری، اسی طرح بیڈروم کی سجاوٹ کے لیے سادہ اور ہلکے کپڑے کے پردے جبکہ بڑے بڑے فریم کے بجائے سادہ یا بغیر فریمنگ والی تصویریںلگائیں۔ کارپٹ لازمی نہیں اگر آپ کے بیڈروم میں کارپٹ بچھا ہوا ہے تو ٹرینڈ پر عمل کرنے کے لیےآپ کوبیڈروم سے کارپٹنگ ختم کرنا ہوگی۔ معروف انٹرنیشنل انٹیریئر ڈیکوریشن ویب سائٹ کے سی ای او لیسا ریکرٹ کے مطابق بیڈروم میں کی گئی مکمل کارپٹنگ نہ صرف مٹی اور دھول کا باعث بنتی ہے بلکہ اس سے بہت سی الرجیز بھی مکینوں پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ کمرے میں مکمل کارپٹنگ کے بجائے صرف درمیان میں رگس بچھانے پر غور کریں۔ اس ایریا میں آپ کافی ٹیبل کا اضافہ کرکے بیڈروم کی سجاوٹ کو ایک نیا انداز دے سکتے ہیں۔ سادہ اور روشن جب کمرہ چھوٹا ہو تو اس کا پورا ماحول ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اس مقصد کیلئے سفید رنگ مددگار ثابت ہو گا، جو کمرے کو کشادہ دکھاتا ہے۔ انٹیریئر ڈیزائنر جیس کونی کے مطابق گزشتہ برس بیڈروم کی انٹیریئر ڈیزائننگ میں نیلے اور سرمئی رنگ کا غلبہ رہا، تاہم رواں برس انٹیریئر ماہرین سرمئی رنگ کو خیرباد کہتے ہوئے نیلے کے ساتھ سفید اور ہرے رنگ کا اضافہ کرنے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب فرنیچر اور انٹیریئر ڈیزائنر ڈینیل ویل بیج رنگ کوبھی آؤٹ آف فیشن لسٹ میں شامل کرچکے ہیں ۔ ہینگنگ لائٹس لیسا ریکرٹ بیڈروم کی آرائش کے طور پر پنکھا نہ لگانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کمرے کے مرکز میں چھت پر نصب پنکھوں کے روایتی انداز کو ہینگنگ لائٹس میں تبدیل کردیا جائے۔ لیسا ریکرٹ کا کہنا ہے کہ کمرے کے مرکز میں لگے سیلنگ فین کی جگہ خوبصورت اور مہنگا فانوس یا پھر ہینگنگ لائٹس سجاوٹ کے ایک عام انداز کو بدل دے گا۔ ایسے افراد جو پنکھے کے بغیر اپنا گزارہ مشکل سمجھتے ہیں، انھیں اس کا متبادل تلاش کرنا ہوگا مثلا ًکارنر فین یا پھر انورٹر اے سی کی صورت میں۔ دوسری جانب لیسا کا کہنا ہے کہ نئے ٹرینڈ میں ایک کے بجائے دو پنکھے بھی لگائے جاسکتے ہیں لیکن یہ ٹرینڈ صرف ان بیڈروم کے لیے مناسب رہے گا جو خاصے کشادہ ہوں اور ان کی چھت پر کارنر سائیڈ دو پنکھے اور مرکز میں خوبصورت فانوس بھی لگایا جاسکے۔ لیمپ اپنی خوابگاہ میں مکمل طورسے رومانوی اور خوبصورت ماحول پیدا کرنے کیلئے روشنیوں کی تعداد کو بڑھائیں۔ دیدہ زیب لیمپ لگانے کے لیے ہلکی روشنیاں خرید کرلائیں، ایسا کرنے سے آپ کو سونے کی جگہ گرمائش اور آرام کا ایک چھوٹا سا نخلستان محسوس ہوگی۔ بہتر تو یہ ہے کہ LEDلائٹس لگالیں کیونکہ یہ ماحول دوست ہونے کے ساتھ خوابگاہ میں نرم اور ہلکی روشنی پیدا کرتی ہیں۔
باتھ روم کو کشادہ دکھانے کے طریقے
ایک کشادہ اور سہولیات سے آراستہ باتھ روم کسی بھی گھر میں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ مکینوں کی خواہش ہوتی ہے کہ باتھ روم میں کشادگی کا احساس ہوکیونکہ اگر وہاں جگہ کم ہے یا وہ چھوٹے سائز کا بنا ہوا ہے تو ممکن ہے کہ زیادہ گھٹن زدہ محسوس ہو۔ تاہم، چھوٹی جگہ پر باتھ روم کی تعمیر کے باوجود کئی طریقوں پر عمل کرکے اسے کشادہ دکھایا جاسکتا ہے۔ آرائش اور اسمارٹ اسٹوریج کے ذریعےجگہ کی کمی کےمسئلے سے بآسانی نمٹا جاسکتا ہے، بس ضرورت ہےتو بہتر انداز میں منصوبہ بندی کرنے کی۔ آئیے جانتے ہیں کہ باتھ روم میں کشادگی کے حوالے سے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ شیشے کی دیوار ہم سب جانتے ہیں کہ شیشہ چھوٹی جگہوں کو کشادہ دکھانے کے لیے بہترین ہوتا ہے، اس طرح جگہ کی تنگی کے احساس کو کم کیا جاسکتا ہے۔ آپ اپنے چھوٹے باتھ روم میں جتنا ہو سکے اتنا بڑا شیشہ لگائیں، یہ روشنی منعکس کر کے باتھ روم کو کشادہ دکھائے گا۔ تاہم ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ بجائے اس کے کہ آپ اپنے باتھ روم میں چھوٹے سائز کا شیشہ نصب کریں، آپ باتھ روم کی ایک دیوار کو مکمل طور پر شیشے کے لیے مختص کردیں۔ کسی بھی دیوار پر شیشے کی تنصیب سے چھوٹی جگہ خوبصورت دکھنے کے ساتھ ساتھ روشن اور کشادہ بھی محسوس ہونے لگتی ہے۔ کارنر باتھ روم سنک اس بات سے قطع نظر کہ باتھ روم چھوٹا ہے یابڑا ’سنک‘ کا ہونا ایک اشد ضرورت ہے۔ چھوٹے باتھ روم کے لیے سنک کا انتخاب کرتے وقت تھوڑی سی سمجھداری کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ پیڈسٹل سنک کے بجائے کارنر سنک کا انتخاب کیجیے کیونکہ یہ ایک رُخ ہونے کے سبب باتھ روم میں کم جگہ گھیرتا ہے۔ اس کے علاوہ کارنر سنک میں اسٹوریج کا مناسب حل بھی بآسانی ڈھونڈا جاسکتا ہے، ساتھ ہی اس بات کا خیال رکھیں کہ سنک ایسے مٹیریل کا بنا ہو، جو آسانی سے صاف ہونے کے ساتھ ساتھ دیر پا بھی ہو۔ ٹائلز کاانتخاب ٹائلز کے انتخاب کے ذریعے کسی بھی چھوٹے سے باتھ روم کو بڑا دکھا یا جاسکتا ہے۔انٹیریئر ڈیزائنر ایم سی گریتھ کے مطابق اپنے چھوٹے باتھ روم کے لیے سرامک کے چھوٹے سائز والے ٹائلز کا انتخاب کیجیے۔ فرش سے لے کر دیوار تک کے ٹائلز کے لیے ایک ہی پرنٹ کا انتخاب جگہ کو کشادہ محسوس کروانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ گہرے رنگ انٹرنیشنل انٹیریئر ڈیزائنر جینی وولف کا کہنا ہے، ’’میں ہمیشہ چھوٹے باتھ روم کو پینٹ کرنا پسندکرتاہوں جو بغیر کسی کھڑکی کے ہوں ،ایسے باتھ روم کے لیے رنگوں میں میری پہلی ترجیح سیاہ رنگ ہوتا ہے۔ کسی بھی محدود جگہ کو کشادہ دکھانے کے لیے یہ بہترین رنگ ہے، یہ جگہ کی گہرائی بڑھادیتا ہے‘‘۔ آپ بھی اپنے چھوٹے باتھ روم کے لیے گلوسی بلیک رنگ کی ٹائلز اور پینٹ کاانتخاب کیجیے۔ یہ رنگ سب سے زیادہ نفیس اور جدید وضع فراہم کرنے کے علاوہ آپ کے باتھ روم میں گندگی نمایاں ہونے سے بھی بچائے گا لیکن اس رنگ کے ساتھ روشنی کے انتخاب میں خاصی مہارت کی ضرورت محسوس ہوگی۔ شاور یا باتھ ٹب چھوٹے باتھ روم کے لیےباتھ ٹب کا انتخاب مشکل ہوجاتا ہے اور یہ درست بھی نہیں، اس کی جگہ شاور لگانا مثالی رہتا ہے۔ باتھ ٹب خاصی جگہ گھیرتا ہے اور اس کی روزانہ صفائی بھی کرنا پڑتی ہے، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو شاور کے لیے کم جگہ درکار ہوتی ہے اور باقی کی جگہ کو آپ تھوڑا بہت سامان رکھنے کے لیے کام میں لاسکتے ہیں۔ فلورل پرنٹ چھوٹے باتھ روم ڈیزائن کے لیے فلورل پرنٹ کا ڈیزائن بھی ایک شاندار انتخاب ثابت ہوسکتا ہے۔ اس ڈیزائن کے تحت فرش سے لے کر زمین تک فلورل پرنٹ کا انتخاب کیا جاتا ہے، جس میں ہرے رنگ کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ فلورل پرنٹ کے ساتھ ہلکے رنگ کا سینٹری سامان جگہ کی کشادگی میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ اسٹوریج کا آسان حل چھوٹے باتھ روم کے لیے اسٹوریج کا آسان حل ڈھونڈنا مشکل ہے ۔اس کے لیے درج ذیل تجاویز پر غور کیجیے۔ ٭ آپ کو کوشش کرنی چاہیے کہ زمین پر کچھ نہ رکھیں تا کہ چلنے پھرنے کی جگہ بچی رہے۔ ٭ باتھ روم کی دیواروں میں شیلف نصب کروائیں یا تعمیر کے دوران بلٹ اِن شیلف بنوائیں، جہاں آپ روز مرہ ضرورت کا سامان جیسا کہ تولیے وغیرہ ان میں رکھیں۔ ٭میک اَپ، ٹوتھ برش اور دیگر چھوٹی موٹی اشیا سمیٹنے کے لیے آرڈر پر بنوائی گئی درازیں بہترین ثابت ہوتی ہیں۔ سنک کے نیچے بھی درازیں لگوائی جاسکتی ہیں۔
پلمبنگ کے مسائل سے کیسے بچاجائے؟
گھر کی طویل مدت پائیداری، ڈھانچے کے استحکام اور اس کی مارکیٹ ویلیو کو برقرار رکھنے میں معیاری پلمبنگ کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کئی اہم ترین لوکیشنز پر بنے گھر اپنی مارکیٹ ویلیو صرف اس لیے کھودیتے ہیں کیونکہ تعمیر کے کچھ ہی عرصے بعد یا چند سال بعد غیرمعیاری پلمبنگ کے باعث، چھتوں اور دیواروں سے پانی کا رساؤ نہ صرف اس گھر کا حلیہ بگاڑ دیتا ہے بلکہ بسا اوقات ایسے گھر میں رہنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ پلمبنگ کے مسائل نہ صرف گھر کے مالکان کا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں بلکہ انھیں درست کروانے کے لیے بھاری رقم بھی درکار ہوتی ہے۔ ہم میں سے تقریباً سبھی لوگ پلمبنگ کے مسائل سے آگاہ ہیں اور ایسا شاید ہی ہوا ہو کہ کبھی آپ کا سامنا ایک بھرے ہوئے سِنک، ایک ٹپکتے ہوئے نلکے یا صحیح طریقے سے کام نہ کرتے ٹوائلٹ سے نہ ہوا ہو۔ ایسے معاملات میں ہم فوراً پلمبر کو بلاتے ہیں یا اسے فون کر کے مدد مانگتے ہیں۔ کئی مرتبہ ہم لوگ خود ہی پلمبنگ کے مسائل کی وجہ بن جاتے ہیں اور ہمیں اِس بات کا تب تک اندازہ نہیں ہوتا جب تک بہت دیر نہیں ہوجاتی (مثال کے طور پر جب تک پورا باورچی خانہ پانی سے نہ بھر جائے وغیرہ )۔ اگر آپ خود کو پلمبنگ کے عام مسائل سے بچائے رکھنا چاہتے ہیں تو درج ذیل غلطیوں سے اجتناب برتنا ہی بہتر رہے گا۔ پلمبنگ کی بھرمار ہم اپنی ناتجربہ کاری کے باعث اکثر ضرورت سے زیادہ پلمبنگ کی اشیا نصب کروالیتے ہیں، جو بعد میں ہمارے لیے ہی مسئلہ بن جاتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق گھر میں پلمبنگ کے مسائل کی ایک بڑی وجہ بہت زیادہ پلمبنگ کا سامان نصب کرنا ہے۔ اگر آپ کو اپنے گھر میں پانی کے کم پریشر کا سامنا ہے تو آپ کو کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کہیں اس کی وجہ بہت زیادہ پلمبنگ کے سامان کی تنصیب تو نہیں ہے۔ زیادہ تر پُر ہجوم رہائش گاہوں میں پانی کا پریشر کم ہوتا ہے۔ اگر آپ کو یہ یقین نہیں کہ آیا ٹنکی سے پانی کی فراہمی ان سب کو سنبھال سکتی ہے کہ نہیں تو پھر آپ کو اپنے گھر میں نصب کردہ پلمبنگ کے سامان میں کمی کرنے کی ضرورت ہے۔ پائپوں کیلئے جگہ کا انتخاب فرض کریں کہ آپ نےباورچی خانے میں مہنگے سِنک لگوادیے اور انتہائی اعلیٰ معیار کے پائپوں کا استعمال کرلیا لیکن اگر آپ نے ان کی تنصیب میں کسی ماہر کی رائے کو نظرانداز کیا ہے یا سِرے سے کسی ماہر پلمبر کی خدمات حاصل نہیں کی ہیں تو یہ بات آپ کے لیے چند سال بعد مسئلہ بن سکتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ بہت سے گھروں کے مالک سنک کے پائپوں کے گرد خالی جگہ نہیں چھوڑتے، جس کی وجہ سے بند پائپ صاف کرنا خاصا مشکل کام بن جاتا ہے۔ اگر صفائی کے پائپ نہ ہوں یا ان تک رسائی ممکن نہ ہو تو ایک بند پائپ کو ٹھیک کرنے کے لیے آپ کو سارا نظام اُکھاڑنا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے صفائی والے پائپوں کے گرد لازمی جگہ چھوڑنی چاہیے۔ جگہ کی تنگی اگر آپ چھوٹے گھر میں رہتے ہیں تو آپ کو اپنی خواہشات کو بھی اسی کے مطابق رکھنا چاہیے۔ مثلاً، ایک چھوٹے باتھ روم میں باتھ ٹب نصب کرنا غیر عملی اور غیر دانشمندانہ سوچ ہوگی کیونکہ ایسے میں باتھ ٹب اور ٹوائلٹ ایک دوسرے کے بہت نزدیک نصب کرنا پڑیں گے، جس سے آپ کو دونوں کے استعمال میں دقت کا سامنا رہے گا اور آپ ہر بار خود کو غیرآرام دہ محسوس کریں گے۔ نالیوں میں کچرا نہ پھینکیں بہت سے لوگ بلا سوچے سمجھے نکاسی کے راستے میں کچھ بھی پھینک دیتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ آسانی سے پانی میں جذب ہو جائے گا۔ مگر بعد میں سنک یا نالی بند ہونے کی وجہ سے وہ پلمبر کو بلا رہے ہوتے ہیں۔ دوران تعمیر یا تزئین نو کے وقت اکثر نالیوں یا سنک میں سخت سامان چلاجاتا ہے جو نکاسی کا راستہ بند کر دیتا ہے، بدقسمتی سے نکاسی کی صفائی کا نظام اِس کو نکال نہیں پاتا اور اس طرح نالی بند ہوجاتی ہے۔ فالتو اشیا کو باورچی خانے میں موجود نکاسی کے راستے بہانے کے بجائے اس سے نمٹنے کا کوئی بہتر طریقہ ڈھونڈیں۔ نلکوں کی مرمت ہم میں سے کون ایسا ہوگا جس نے کبھی اپنے گھر کے کچن یا باتھ روم میں نلکا ٹپکتا ہو انہ پایا ہو؟ آئے دن یہ مسئلہ ہر گھر میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ پلمبنگ کے ایسے مسائل کی ایک وجہ کسی حد تک بےصبری بھی ہے، جیسا کہ جلدی جلدی نلکا بند کرنے کی کوشش میں اس کا دستہ توڑ ڈالنا، یہ ایک بہت ہی عام غلطی ہے۔ اگر کوئی نلکا ٹپک رہا ہے تو نلکے پر زور لگانے سے وہ بند نہیں ہو جائے گا، اس کے لیے متعلقہ تکنیک اور ہنر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹپکتے ہوئے نلکے کو ٹھیک کرنے کے لیے بہتر ہے کہ آپ پلمبر کو بلائیں اور اس مسئلے کو مزید بڑھنے سے پہلے ہی ٹھیک کروالیں۔
جدید ٹرینڈز کے مطابق گھر کو نیا انداز دیں
اگر آپ اپنے پرانے طرز کے گھر اور یکسانیت سے بھرے لائف اسٹائل سےاُکتا چکے ہیں تو رواں سال کوشش کرکے کچھ تبدیلی لانے کا سوچیں اور ایسے ٹرینڈز اپنائیں جو 2020ء میں دنیا بھر میں رائج ہو رہے ہیں۔ ان ٹرینڈز پر عمل کرتے ہوئے آپ کچھ کچن میں بدلائو لائیں، بیڈروم کو ٹھیک کریں یا ڈرائنگ روم میں نئی جوت جگائیں۔ اگر آپ کے من میں اپنے گھر کو نیا پن دینے کا خیال سمایا ہے تو آپ کے لیے نئے سال کے کچھ ٹرینڈ ز حاضر ہیں۔ پرانی اشیا سے سجاوٹ کہتے ہیں گزرا وقت پلٹ کر نہیں آتا، لیکن کچھ ٹرینڈ زپلٹ کر واپس آ جاتے ہیں، خاص طور پر جب گھر کی سجاوٹ کے ٹرینڈز کی بات ہو۔اگر ونٹیج چیزوں کی بات کریں تو و ہ نئے انداز اور پرانی تفصیلات کے ساتھ ہی وارد ہوئی ہیں جیسے کہ 19ویں اور 20ویں صدی کے اوائل میں فرنیچر کے آٹئمز میں کرسیوں کے پائے پیچھے کی طرف نکلے ہوئے ہوتے تھے اور گھر میں چرخے (spindles) بھی نظر آتے تھے۔ تاہم، ضروری نہیں کہ گھر کے ہر حصے میں آپ ونٹیج اشیا رکھیں، البتہ آپ ایک آدھ چیز کو اپنے ڈرائنگ روم کا حصہ بنا سکتے ہیں۔ یہ آپ کی صوابدید پر ہے کہ کس چیز کا انتخاب کرتے ہیں۔ گہرا نیلا رنگ 2020ءکے لیے امریکی کمپنی پینٹون نے گہرے نیلے رنگ (کلاسک بلیو) کا انتخاب کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ پورا سال نیلے رنگ کے بہت زیادہ شیڈز دیکھنے کی توقع کرسکتے ہیں۔ اس رنگ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر ورسٹائل اور نفیس ہے۔ انٹیریئر ڈیزائنرز کے مطابق روایتی اور جدید گھریلو انداز میں کلاسک بلیو رنگ گھر کے اندرونی اور بیرونی حصوں میں عمدہ کنٹراسٹ فراہم کرتا ہے۔ چاہے آپ اپنے آئی لینڈ کچن کو اَپ گریڈ کرنا چاہتے ہوں یا اسے آئی لینڈ کچن میں اَپ گریڈ کرنا مقصود ہو یا پھر لکڑی کی تراش خراش کا کام ہو، کلاسک بلیو رنگ ڈرامائی انداز سے اس میں نیا روپ لے آتاہے۔ فلورل وال پیپر اگر آپ کو فلورل وال پیپرز پسند ہیں تو آپ کے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ 2020ء کو فلورل وال پیپرز کا سال کہا گیا ہے۔ آپ اس کے نت نئے ٹرینڈز دیکھ کر اپنے خیالات یقیناً بدل لیں گے۔ انٹیریئر ڈیزائنر ز کے مطابق، پھولوں کے وال پیپرز برسوں سے استعمال میں ہیں لیکن اب یہ پہلے سے کہیں زیادہ جدید، اَپ ڈیٹڈ اوربڑے پیمانے پر بولڈ رنگوں، یہاں تک کہ میٹل ورژن میں بھی دستیاب ہیں۔ فلورل وال پیپرز باتھ روم اور ڈیوڑھی وغیرہ کے لیے بھی عمدہ انتخاب ثابت ہوتے ہیں۔ فلورل وال پیپرز کے دراصل ہزاروں آپشنز ہیں، جس میں سے کچھ کا انتخاب کرنا بہت مشکل ہوتاہے۔ ہائی کنٹراسٹ ڈیکور ہائی کنٹراسٹ ڈیکور (High-Contrast Decor) بھی آجکل بہت اِن ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ ہمیشہ اپنے گھر میں سفید رنگ کرتے آئے ہیں تو اب وقت آگیا ہے کہ کنٹراسٹ رنگوں کے بارے میں غور کریں۔ ایک طویل عرصے سے سفید یا ہلکے رنگوں والا پینٹ کیا جاتا رہا ہے لیکن اب ہم سیاہ کشن کو سفید فریم والی ایک کرسی پر دیکھیں گے یاہلکے رنگ کے ہارڈویئر کے ساتھ گہرے رنگ کی لکڑی سے بنی کنسول ٹیبل نظر آئے گی۔ کچن اب سفید نہیں اگر2010ءکےبعد کسی ڈیزائن کا ٹرینڈ موجود تھا تو وہ سفید کچن کا تھا لیکن2020ءکے لیے ڈیزائنرز پیشگوئی کرتے ہیں کہ کچن کی آرائش اب سفید یا ہلکے رنگوں سے آگے بڑھ جائے گی۔ مثال کے طور پر قدرتی لکڑی سے بنی الماریاں، آئی لینڈ کچن اور شیلف اب نئے رنگوں میں دیکھنے کو ملیں گے۔ یعنی آپ کو گھر کی آرائش بغیر کسی پابندی کے اپنے روشن اور پُرجوش خیالات کے مطابق کرنے کی کھلی چھوٹ ہو گی۔ پاپ اَپ کیبنٹس اگر آپ واقعی سفید رنگ کےکچن کے ٹرینڈ کو پیچھے چھوڑنا چاہتے ہیں تورواں سال گھر کی آرائش کے لیے رنگین کیبنٹس کا انتخاب کریں۔ ماہرین کے مطابق2020ء کے ٹرینڈز میں ایک یا متعدد عناصر کا انتخاب کیا جائے گا۔ کینوپی بیڈز اب وقت آگیا ہے کہ آپ کینوپی بیڈز (Canopy Beds) کےخیالات کو حقیقت کا روپ دیں۔ چھتری والے بستر یعنی کینوپی بیڈزکو اب بھاری کپڑوں اور ہیڈ بورڈز میں رنگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایکریلک، دھات اور پتلے فریموں کے ساتھ بنے جدید ورژن ٹرینڈ میں واپس آرہے ہیں۔ پیٹینا اسٹائل انٹیریئر ڈیزائنرز کے مطابق ابھرتے ہوئے ڈیزائن ٹرینڈز میں سے ایک پیٹینا(Patina)بھی ہے، جس میں زیادہ پرانےفرنیچر کے علاوہ چکنی مٹی اور سرخی مائل بھورے رنگ والے مٹی کے برتن اور سرامکس سے بنی آرائشی اشیا دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔
سال رواں کچن کے نئے ٹرینڈز اپنائیں
اگر آپ کے ذہن میں کچن کی تزئین و آرائش کا خیال سمایا ہوا ہے یا آپ اپنے خوابوں کا گھر تعمیر کرنے جارہے ہیں تو یقیناً اپنے کچن کو ہر طرح سے کامل بنانے کیلئے بہت پُرجوش ہوںگے۔ حقیقت یہ ہے کہ کچن کو ڈیزائن کرنا اتنا آسان نہیں او ر سب سے اہم یہ کہ کچن عموماً ویسے بھی خاتون خانہ کی ملکیت سمجھا جاتا ہے اور بعض گھرانوں میں تو وہاں مرد حضرات کا داخلہ ممنوع ہوتاہے، لہٰذا کچن کی تزئین و آرائش کرتے ہوئے اسے خاتون خانہ کی صوابدید پر ڈیزائن کیا جائے، ایسا کرنے سے زندگی بھر کا چین و سکون آپ کے گھر کی زینت بنے گا۔ یہ بات کچھ حد تک ٹھیک ہے کہ الیکٹرانک اپلائنسز کی بھرمار نے کچن کے روایتی حسن کو بدل کر رکھ دیا ہے، تاہم نت نئے اپلائنسز کے ساتھ کچن کو دلکش اور رنگا رنگ بنایا جاسکتا ہے۔ آجکل ویسے بھی نت نئے ٹرینڈز متعارف کروائے جاچکے ہیں، آپ کو اپنی سہولت اور شخصیت کے مطابق جو ٹرینڈ پسند آئے، اس کا انتخاب کریں۔ ان ٹرینڈز میں زیادہ رنگ، ڈرامائی آئی لینڈ اور پیٹرنز کی نئے انداز میںواپسی ہوئی ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ آپ رواں سال اپنے کچن کیلئے کونسے ٹرینڈز کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ ملینیل پیسٹلز ملینیل پیسٹلز (Millennial Pastels) کے ڈیزائن میں کچن کیبنٹس پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے، خاص طور پر ان کے رنگوں کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتاہے۔ اگرچہ گزشتہ چند سال سے سفید ی مائل بھورا اور نیوی رنگ کچن کا حصہ رہے ہیں، تاہم اب مستقبل روشن رنگوں کاہے۔ اُبھرتے ہوئے انٹیریئر ڈیزائنرز کچن کیلئے ایک بٹرکریم فراسٹنگ پنک (Buttercream-frosting pink)رنگ کا انتخاب کرنے کے بارے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ وہ کچن کو فریش لُک دینے کیلئے اوپر والے شیلف میں پودینے کا پودا لگانے کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اس طرح خوبصورتی کے ساتھ گھر میں ہی پودینہ دستیاب ہوجاتا ہے۔ فاکس فارم ہاؤس دیہی اسٹائل کو جدید دور کا رنگ دیاجائےتو ایک دلکش ڈیزائن فاکس فارم ہائوس (Faux Farmhouse) سامنے آتاہے۔ اس میں فارم ہاؤس کی طرز پر لکڑی کے بیم اور دیہی انداز کا فرنیچر کچن کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیتے ہیں۔ کچن میں فرنیچر کے طور پر سنگل الماری یا آئی لینڈ طرز کا کائونٹر سہولت دینے کے ساتھ ساتھ اس کی دلکشی کو بھی بڑھاتا ہے۔ ٹیکسچرڈ گلاس کی واپسی دھاریوں والے دھندلے شیشے (Reeded Glass)کے ڈیزائن والی کیبنٹس کی واپسی ہوئی ہے ۔ ان دھندلے شیشوں میں سے برتن نظر بھی آتے ہیں اور نہیں بھی۔ ٹیکسچرڈ گلا س والی الماری یا کیبنٹس میں برتن گرد و غبار اور حشرات الارض سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ کم گہری رنگت والی لکڑی ہم نے گہرے زرد رنگوں والی لکڑی(Blond woods)سے مزین کچن تو دیکھے ہیں، لیکن کم گہری رنگت والی (Mid-Tone Woods)اخروٹی لکڑی ، جس کےساتھ ہلکے سیاہ شیڈ ز ہوں، سے بنا کچن کا فرش، کائونٹرز اور کیبنٹس ایک زبردست اسکینڈے نیوین لُک سامنے لاتے ہیں۔کچن کو فریش لُک دینے کیلئے فرش کی چمک اور ہارڈ ویئر کا استعمال کم سے کم رکھیں۔ ہائبرڈآئی لینڈز ہائبرڈآئی لینڈز (Hybrid Islands) والے کچن میں کھانا پینا عام سی بات ہے، توکیوںنہ کچن کو ہائبرڈ ڈائننگ ٹیبل سے مزین کردیا جائے؟ یہ کچن کی افادیت بڑھا دے گی یعنی کھانے کے برتنوں اور ڈشز کو ڈائننگ روم تک لے جانے کے بجائے اس ہائبر ڈائننگ ٹیبل کے پاس رکھے اسٹول پر بیٹھ کر کھانا کھایا جاسکتا ہے۔ اس آپشن کے ذریعے خاتون خانہ کو سہولت اور آرام دونوں مل جاتے ہیں۔ ٹائل رنرز دیوار کو مکمل طور پر ٹائلز سے مزین کرنا ایک مقبول رجحان رہا ہے، لیکن اس میں کوئی قاعدہ نہیں ہے کہ آپ دیگر چیزوں کو مکس نہیں کرسکتے۔ ٹائل رنرز(Tile Runners) میں رنگ برنگے پروکلین ٹائلز سے بنی دائروں والی دیوار کچن میں ٹیبل رنرزکی طرح انفرادیت لاسکتی ہے اور ہمیں ایک ایک صاف ستھرے ، جدید بیک ڈراپ کے ساتھ اپنا کچن مل سکتاہے ۔ قدرتی حسن صنعتی تنصیبات سے لے کر نازک اور دیدہ زیب ڈیزائن والی اشیا کی تنصیب نے کچن کی ہیئت ہی بدل کر رکھ دی ہےاور ہمیں حیرت انگیزڈیزائنز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ارتقاء کے اگلے مرحلے میں قدرتی مٹیریل سے بُنے ہوئے شیڈز (روشنیوں کے ) کا ٹرینڈ واپس آگیا ہے۔ آپ اپنے کچن میں قدرتی لکڑی یا چھاج سے بنی ٹوکری کچن کائونٹر یا آئی لینڈ کے اوپر لٹکا سکتے ہیں، جس سے چھن کر آنے والی روشنی کچن کے ماحول کو معنی خیز بنا دے گی۔ کنٹورنگ اپنے کچن کی خوبصورت انداز میں کنٹورنگ (Contouring) کریں۔ اس کے لیے دروازوں کے ساتھ کیبنٹس کے فریم کا کنٹراسٹ ایسے بنائیں جیسے خواتین اپنے چہرے کی کنٹورنگ کرتی ہیں، یعنی پنک آئی لینڈ کیبنٹس کے ساتھ سفید یا برائون الماریاں خوبصورت تاثر دیں گی۔ اس طرح ایک وضع دار اور اعلیٰ طرز کا کچن سامنے آئے گا۔
باغیچہ بنانے کے بنیادی عناصر
فطرت سے لگاؤ رکھنے والے افراد اپنے گھر کو ہرا بھرا رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ اقدامات کرتے رہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ گھر کے اندرونی حصوں، بالکنی، چھت، عقبی حصے اور باغیچے میں پودے اور دیگر آرائشی سامان لگاکر انھیں خوبصورت بنانے کے جتن کرتے ہیں۔ بہت کم لوگ باغیچہ بنانے کے حوالے سے وسیع معلومات رکھتے ہیں جبکہ کچھ کو معمولی معلومات ہی ہوتی ہیں۔ تاہم بعض افراد ایسے بھی ہیں جو اپنے گھر میں باغیچہ بنانا چاہتے ہیں لیکن علم نہ ہونے کی وجہ سے اپنے اس شوق کی تکمیل نہیں کرپاتے۔ باغیچہ بنانے کی خواہش رکھنا تو بہت اچھی بات ہے لیکن یہ ایک مشکل کام ہے کیونکہ اکثر سمجھ ہی نہیں آتا کہ اس کا ڈیزائن کیسا بنایا جائے یا تعمیرکا آغاز کیسے کیا جائے۔ تاہم اگر آپ نے اپنے گھر کے بیرونی یا عقبی حصے میں باغیچہ بنانے کی ٹھان لی ہے تو آپ کو چند بنیادی باتوں پر عمل کرنا پڑے گا۔ ہم اپنے مضمون میں باغیچہ بنانے کے بنیادی عناصر کا ذکر کریں گے، جن کو جاننے کے بعد آپ اپنے زیر تعمیر یا موجودہ گھر میں بآسانی باغیچہ بنانے کے قابل ہوجائیں گے۔ باغیچے کا ڈیزائن باغیچے کا ڈیزائن ا س کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے، جس میں بڑے بڑے درخت، جھاڑیاں اور زمین پر پھیلے کھِلے ہوئے پھولوں اور پودوں کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ باغیچے کے مختلف ڈیزائن موجود ہیں جبکہ آپ خود بھی اپنی منشا اور ذوق کے مطابق کچھ تبدیلیاں کرسکتے ہیں۔ آپ کا منتخب کردہ ڈیزائن قدرتی پیٹرنز بناتا ہے۔ آپ کے باغیچے کی شکل عموماً افقی ہوتی ہے، تاہم آپ اسے عمودی، گول اور اہرام کی شکل کا بھی بنواسکتے ہیں۔ اس کا انحصار آپ کے مزاج اور باغیچے کے لیے دستیاب جگہ پر ہے۔ بناوٹ باغیچہ کا ڈیزائن مرتب کرنے کے بعد اس کی بناوٹ (Texture) پر دھیان دیا جاتا ہے، جس سے اس کی وضع ظاہر ہوتی ہے۔ باغیچے کی بناوٹ پھول پودوں، پتھروں، اینٹوں اور فرش وغیرہ کے امتزاج کو ظاہر کرتی ہے۔ باغیچے کی بناوٹ تمام چیزوں میں ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔ اس ضمن میں آپ ان پودوں کو بھی شامل کرسکتے ہیں جو مختلف بناوٹ کے ہیں یعنی آپ بڑے پتوں والے پودوں کو چھوٹے پتوں والے پودوں کے ساتھ ملا کر ایک دلکش انداز دے سکتے ہیں۔ اس طرح آپ کا باغیچہ خوبصورت بھی لگے گا۔ سامان کا حجم باغیچے کے سائز اور اس میں موجود تمام چیزوں کا حجم دیکھنا بھی ضروری ہے، اسے انگریزی میں اسکیل کہا جاتا ہے۔ باغیچے کے سائز کے مطابق پودوں اور آرائشی اشیا کا امتزاج بنانا پڑتا ہےتاکہ ایک ہم آہنگی قائم ہوسکے۔ باغیچے کی تعمیر کا آغازکرتے وقت ہی تمام چیزوں کے تناسب (proportions) کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ مثال کے طور پر چھوٹے سے باغیچے میں ایک بڑا سا فوارہ نصب کریں تو یہ عجیب اور غیرمتناسب محسوس ہوگا۔ اسی طرح پھولوںکے بڑے سے احاطے میںچھوٹا سا فوارہ بھی اچھا نظارہ پیش نہیں کرے گا۔ لہٰذا اگر آپ اپنے باغیچے کو ہر تناسب سے بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ا س کی لمبائی اور چوڑائی کا تعین کرتے ہوئے سوچ بچار سے کام لینا ہوگا۔ اسی طرح پودوں کے سائز کو بھی مد نظررکھنا ہوگا۔ انہیں لگانے سے پہلے ان کی لمبائی کے بارے میں آپ کو لازمی علم ہونا چاہئے کہ وہ کتنی حد تک بڑھیں گے۔ قطاریں بنائیں ایسا نہیں ہوتا کہ آپ باغیچے میں کہیں بھی پھول پودے لگا دیں۔ اس حوالے سے بھرپور منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے تاکہ ترتیب سے لگے پھول اور پودے حسین نظارہ پیش کریں۔ آپ کیاریاں بنائیں یا زمین کی سطح سے اُوپر لکڑی کے اندر مٹی میں (Raised Bed Gardening) پھول پودے لگائیں، یہ کسی بھی باغیچے کا فوکل پوائنٹ بن کر لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالیں گے۔ تسلسل سے لگے ایک جیسے پھولوں کی ٹکڑیاں آپ کے باغیچے کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔ آپ پھول پودوں کی قطاروں کو سیدھا، گول، بیضوی، چاند، ستارہ یا کسی بھی شکل میں لگا سکتے ہیں۔ رنگوں کی اہمیت گھر کے کسی بھی حصے کی دلکشی میں رنگ بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں اوردیکھا جائے تو کسی بھی جگہ پر رنگوں کو دیکھ کر ہی آرائشی سامان کی سجاوٹ کی جاتی ہے۔ رنگ کسی بھی جگہ کو نیا پن دینے کے ساتھ ساتھ آپ کے موڈ پر بھی اچھا اثر ڈالتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ باغیچہ بناتے ہوئے اس بات کا لازمی دھیان رکھنا چاہیے کہ آپ کے باغیچے میں تمام رنگ کے پھول پودے موجود ہوں۔ بہتر تو یہ ہے کہ آپ ان تمام رنگوں کے پھولوں کو اپنے باغیچے کا حصہ بنائیں جو آپ کے گھر کی کلر اسکیم پر جچتے ہوں۔ سرخ، نارنگی اور زرد گرم رنگ کہلاتے ہیں، جو کہ جوش اور جنون کو اُبھارتے ہیں۔ آنکھوں کو لبھاتے ان رنگوں والے پودے باغیچے میں عمدہ اضافہ ثابت ہوتے ہیں۔ نیلا، عنابی اور ہرا ٹھنڈے رنگ ہیں جو مزاج میں بھی ٹھنڈ ک اور نرمی پیدا کرتے ہیں۔ گھر میں اس قسم کے پھول اور پودے ہوں تو باغیچے میں مراقبہ کرنے میں بہت لطف آتا ہے۔ ایک بات کا دھیان رکھیں کہ ارد گرد کی دیوارں پر اگر ہلکا رنگ ہوا ہے تو پودوں اور پھولوں کے لیے گہرے رنگوں کا انتخاب کریں، اس طرح باغیچے کی خوبصورتی مزید نمایاں ہوگی۔
ٹائلز سے اپنے گھر کو نیا روپ دیں!
آپ کا گھر آپ کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے اور گھر کی ہر ایک چیز آپ کی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ آجکل صرف خاتونِ خانہ ہی نہیں بلکہ گھر کے سبھی افراد اس کو قرینے و سلیقےسے رکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ تزئین و آرائش کیلئے نت نئے آئیڈیاز کی تلاش میں بھی سرگرداں نظر آتے ہیں۔ اگر آپ اپنے گھر میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے گھر میں لگے ٹائلز پر ایک نگاہ ڈالنی ہوگی۔ جی ہاں، ٹائلز واقعی آپ کے گھر کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ استحکام کے حوالے سے ٹائلز بہترین مٹیریل سمجھا جاتا ہے۔ ٹائلز کی بہت ساری اقسام موجود ہیں، جن کی مدد سے آپ گھر کا پورا منظر نامہ تبدیل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاہ ٹائلز کے پیٹرن، قدرتی یا مصنوعی رنگوں، سائز اور گھر کے مقامات کے لحاظ سے آپ کو لامحدود آپشنز دستیاب ہو جاتے ہیں۔ لاؤنج اپنے مہمانوں کو متاثر کرنے کے لیے آپ لائونج میں مختلف رنگوں کے امتزاج والے ٹائلز لگاسکتے ہیں۔ سیاہ اور سفید ٹائلز کا حسین امتزاج آپ کےلائونج کو منفرد بناسکتا ہے۔ کریمی رنگ کے ٹائلز پر مشتمل دلکش دیواریں اور فرش بھی عمدہ ذوق کی علامت ہیں۔ لاؤنج میں رکھی کافی ٹیبل کا جدید ڈیزائن اس جگہ کی خوبصورتی بڑھا سکتا ہے۔لائونج کے فرش کے لیے ماربلز کی ٹائلز استعمال کی جاسکتی ہیں۔ بچوں کا کمرہ بچوں کے کمروں میں شوخ و چنچل رنگوں کی تھیم یا بولڈ رنگ والے ٹائلز لگانے سے ایک نئی رونق آجاتی ہے۔ بچوں کے لیے بھی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کا یہ بہترین موقع ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے بیڈروم میں مزید لطف اٹھاتے ہیں۔ ٹائلز کے لیے انتہائی شوخ اور خوبصورت رنگ یا پیٹرنز تلاش کریں، ان سے آپ کے بچوں کے ذہن پر عمدہ اثر پڑے گا اور ا ن کے تخیل کو وسعت ملے گی۔ زینہ اگر اوپر کی منزل تک لے جانے والی سیڑھیاں عمدہ ٹائلز سے مزین ہوں تو پورے گھر کی دلکشی میں بے پناہ اضافہ ہوتاہے۔ اگر یہ سنگ مرمر اور شیشے سے بنی ہوں تو پورا گھر ایک بہت ہی پرتعیش اور خوبصورت احساس پیدا کرتا ہے۔ کچن اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کا کچن آپ کے گھر کا دل ہوتاہے۔ کچن میں لگے ٹائلز اس کی دلکشی اور خوبصورتی میں زبردست کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر کچن کے ٹائلز شوخ رنگ کے ہوں اور ان سے زندہ دلی جھلکے تو تمام تاثر خوشنما لگتا ہے۔ رنگا رنگ اور تخلیقی ٹائلز لگانے سے نہ صرف ایک دیدہ زیب کچن کا حصول آسان ہو جاتا ہے بلکہ یہ آپ کے بجٹ میں بھی آجاتے ہیں۔ مزید یہ کہ ٹائلزبہت پائیدار ہوتے ہیں انہیں بھاپ ، دھوئیں یا تیل کے چھینٹوںسے بھی نقصان نہیں پہنچتا۔ ٹائلز کو صاف کرنا بھی بہت آسان ہوتا ہے، عموماً اس میں زیادہ محنت نہیں لگتی۔ ان کی صفائی کے لیے تھوڑا سا صابن یا سرف استعمال کریں، یہ پھر سے چمکنے لگیں گے۔ فرش اس بات کو یقینی بنائیں کہ کچن کے فرش کیلئے استعمال کیے جانے والے ٹائلزا س کی شیلفس اور کیبنٹس کے رنگوں اور مٹیریل سے مطابقت رکھتے ہوں۔ دراصل کچن کی تزئین و آرائش کرتے وقت ہم فرش کو نظر انداز کردیتے ہیں حالانکہ چمکتے خوبصورت نمونوں سے مزین ٹائلز کچن کو ایک بھرپور انداز دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ صفائی میں آسانی کی وجہ سے آپ کو فرش پر پھیلنے والی کسی بھی چیز کی فکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ ہر کمرے کا منفرد فرش گھروں کو ڈیزائن کرنے کا ایک بہت ہی جدید طریقہ یہ ہے کہ اس کیلئے ’اوپن پلان ‘ کا انتخاب کریں۔ تاہم اپنے گھر کے ہر کمرے کے فرش میں الگ اور منفرد ٹائلز یا مٹیریل استعمال کریں، جیسے ڈائننگ روم یاکچن کیلئے ٹائلڈ فرش جبکہ دوسرے کمروں میں لکڑی کا فرش یا ماربل استعمال کریں۔ باتھ روم باتھ روم کا خوبصورت اور صاف ستھرا ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کی دیواریں عمدہ ٹائلز اور مختلف رنگوں کے دلکش امتزاج سے شاندار اسٹائل میں بنوائی جاسکتی ہیں۔ چمکدار اور جاذبِ نظر ٹائلز کے علاوہ گہرے رنگوں کے حسین ملاپ کی صورت موڈ کو بہتر کرنے والا ڈیزائن آجکل کافی مقبول ہے۔ باتھ روم میں خوبصورت سفید رنگ کے ٹائلز کے ساتھ فیروزی رنگ کمال دلکشی دکھاسکتاہے۔ ہوم آفس ہوم آفس کے بارے میں ہم کچھ منفرد نہیں سوچتے، جس کے باعث وہ بور نگ لگنے لگتاہے۔ اگر آپ اپنے ڈرائنگ روم یا لیونگ روم کو ’کارنر آفس‘ کار نگ دینے والے ہیں تو پھر اس جگہ کو دیدہ زیب اور فنکشنل بنا نا ہوگا۔ کارنر آفس میں استعمال ہونے والی کیبنٹس، درازوں اور مولڈنگ کو سفید رنگ کے ذریعے نفاست دی جاسکتی ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ رنگ ہماری توجہ اور تخلیقی صلاحیتوں پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ دیوار یا فرش کے لیے ٹائلز کے دیدہ زیب پیٹرنز ہوم آفس کو خوبصورت بناسکتے ہیں، اس طرح آپ کو ارتکاز توجہ میں مدد بھی ملے گی۔
رواں سال گھر کیلئے رنگوں کا انتخاب
رنگ کسے پسند نہیں ہوتے! رنگ ہیں تو زندگی ہے اور رنگ ہیں تو جمالیات ہے۔ جب بات گھروں کے رنگ و روغن کی ہو تو انٹیریئر ڈیزائنرز ہر سال کے لیے کچھ رنگوں کا انتخاب کرتے ہیں، جن کا نئے سال میں گھروں کی انٹیریئر ڈیزائننگ میں کلیدی کردار رہتا ہے۔ 2020ء کے لیے انٹیریئر ڈیزائننگ کے ماہرین نے فطر ت سے قریب، ہلکے، کِھلے کِھلے، پھیکے، زرد اورسدا بہار بنیادی رنگوں کے امتزاج کا انتخاب کیا ہے، جو رواں سال کے نئے رجحانات اورلوگوںکے بدلتے ذوق اور جمالیاتی حس پر پورا اُترسکتے ہیں۔ گہرا نیلا رنگ گہرے نیلے رنگ کو ’کلاسک بلیو‘ کہا جاتا ہے۔ انٹیریئر ڈیزائنرز کے مطابق، روایتی اور حقیقی نیلا رنگ، ’اپنی سادگی اور پر وقار احساس کے باعث سدابہار اور ہمیشہ پسند کیا جانے والا رنگ ہے‘۔ اس رنگ میں قابلِ بھروسہ اور پائیدار فاؤنڈیشن فراہم کرنے کی صلاحیت ہے۔ یہ رنگ اپنے اندر ٹھنڈک کا احساس لیے ہوتا ہے۔ صبح کے وقت آسمان کے رنگ کی نمائندگی کرتا ہے، جس کے باعث اسے دیکھ کر سکون اور طمانت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔آج کی تیزرفتار زندگی میں لوگوں کا ایسے رنگوں کی طرف جھکاؤ ہوتا ہے، جن سے دیانت جھلکتی اور تحفظ کا احساس ہوتا ہو اور اس کے لیے گہرے نیلے رنگ سے بہتر کوئی اور رنگ نہیں ہوسکتا۔ نامیاتی سبز انٹیریئر ڈیزائنرز نے سبز رنگ کے فطرت کے قریب تر شیڈ یعنی نامیاتی سبز (آرگینک گرین) کو 2020ء کا رنگ قرار دیا ہے۔ اس رنگ کو گھر میں دیکھ کر ’نئی تازگی کا احساس‘ ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اندر سے فطرت کے ساتھ وابستگی کی خواہش رکھتے ہیں۔ انٹیریئر ڈیزائنر ایریکا وولفیل کہتی ہیں، ’’جب ہم نئے عشرے کی طرف دیکھتے ہیں، توہماری فطرت سے وابستگی کی دائمی خواہش ہمیں اس کے ساتھ کسی نہ کسی طریقے سے سرگرم رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ جنگل سے گزر رہے ہوں، اپنی ناؤ میں ندی کی سیر پر ہوں یا ساحلِ سمندر پر چہل قدمی کررہے ہوں، ہر قدرتی نظارے میں آپ کو سبز رنگ غالب نظر آئے گا۔ ہم بآسانی کہہ سکتے ہیں کہ یہ فطرت کا پسندیدہ ترین رنگ ہے‘‘۔ انٹیریئر ڈیزائنر کے مطابق نامیاتی سبز رنگ کائناتی کشش رکھتا ہے اور اس میں دوسرے رنگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔ یہ رنگ ناصرف آپ کے باورچی خانہ کو نئی زندگی بخشتا ہے بلکہ یہ رنگ جہاں بھی استعمال کیا جائے تو وہ جگہ اچانک سے ہوادار اور کھُلی کھُلی محسوس ہونے لگتی ہے۔ نامیاتی سبزرنگ کو نئے سال کے رنگوں میں منتخب کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب لوگوں میں ’آؤٹ ڈور‘ کی خاصیت کو گھر کے اندر لانے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور فطرت کو گھر کے اندر سبز رنگ سے زیادہ بہتر کوئی اور رنگ نہیں لاسکتا۔ چینی پورسلین پنسلوانیا سے تعلق رکھنے والے ایک انٹیریئر ڈیزائننگ کے ادارے نے 2020ء کےرنگ کے طور پر چینی پورسلین کا انتخاب کیا ہے۔ یہ رنگ ’کوبالٹ‘ (ایک دھاتی عنصر) اور ’اِنک بلیو‘ کے امتزاج سے تخلیق کیا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رنگ ماحول کو سکون بخشتا اور نیند کو اچھا بناتا ہے جبکہ یہ ’امید کا رنگ‘ بھی مانا جاتا ہے۔ ’’ٹیکنالوجی جس تیزی سے ترقی کرے گی، انسان کو اتنی ہی سہولت میسر آئے گی لیکن ساتھ ہی وہ اپنی زندگیوں میں کچھ تبدیلی لانے کی کوشش بھی کرے گا۔ یہ تبدیلی ٹیکنالوجی سے فرار اور سادگی اپنانے میں ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ چینی پورسلین رنگ کا انتخاب کرتے ہیں، جو ہمیں فطرت کے عناصر جیسے سمندر اور آسمان کے قریب لاتا ہے‘‘۔ چینی پورسلین رنگ نے گاڑیوں، کنزیومر الیکٹرانکس اور فیشن انڈسٹری میں طوفان برپا کیا ہوا ہے۔ یہ ایک گہرے نیوی رنگ کی نمائندگی بھی کرتا ہے، جو رہائشی اور میزبانی کی صنعت میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ ہلکا گلابی ایک ہلکا گلابی مائل شیڈ جسے انگریزی کے عرف عام میں ’فرسٹ لائٹ‘ کہا جاتا ہے، اسے بھی 2020ء کے منتخب رنگوں میں شامل کیا گیا ہے۔ انٹیریئر ڈیزائنر اینڈریومیگنو کے مطابق ہلکا گلابی رنگ گھر کی نئی تعریف ہے، یہ انسانی ذہن میں ایک بڑی تبدیلی ہے، جو مادی چیزوں کے بجائے اپنے اندر کی زندگی کو مطمئن کرنا چاہتا ہے۔ ہلکا گلابی رنگ (فرسٹ لائٹ) کمیونٹی، آسودگی، سلامتی، خود اظہاری اور پُرامیدی کو ظاہر کرتا ہے۔ سنہری مائل پیلا سنہری مائل پیلا، اُمید اور خوشی کا رنگ ہے۔ اس رنگ کا متناسب استعمال، کمرے میں جان ڈال دیتا ہے، تاہم اگر پورے کمرے کو اس رنگ سے رنگ دیا جائے تو اس کا اُلٹا اثر بھی ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انٹیریئر ڈیزائنرز اس رنگ کا متناسب استعمال کرتے ہیں، یعنی وہ اس رنگ کو دیگر رنگوں کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔
گھر کے بیرونی حصے کیلئے’روشنیوں‘ کا انتخاب
دور جدید میں آؤٹ ڈور کچن، عقبی حصہ ، پورچ اور باغیچہ ہر گھر کی ضرورت بنتے جارہے ہیں۔ اور جب بات ہو گھر کے بیرونی حصے کی تو اس میں لائٹنگ خاص اہمیت کی حامل ہوجاتی ہے۔ گھر کے بیرونی حصوں میں سورج کی روشنی یا 14ویں کے چاند کی چاندنی بہترین ’’لائٹنگ‘‘ ثابت ہوتی ہے۔تاہم دن کے اوقات میںتو بیرونی حصے قدرتی روشنی سے روشن رہتے ہیں لیکن رات کے وقت ان حصوں کو روشن رکھنے کے لیے مصنوعی روشنی درکار ہوتی ہے۔ غروب آفتاب کے بعداس حصے کی چکا چوند میں اضافہ لائٹنگ کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ نہ صرف آؤٹ ڈور ایریا کی تعمیر وسجاوٹ پر بھرپور دھیان دیا جائے بلکہ یہاں روشنی کے منظم انتظام پر بھی توجہ مرکوز کی جائے تاکہ سردی ہو یا گرمی، دن ہو یا رات آپ گھر کے بیرونی حصے میں تمام کام بہتر طور پر سر انجام دے سکیں۔ گھر کے بیرونی حصے میں لائٹنگ کے حوالے سے انٹیریئر ڈیزائنرز کیا مشورے دیتے ہیں، آئیے جانتے ہیں۔ چھت میں تنصیب پورچ اور عقبی حصے کے لیے چھت میں روشنیاں نصب کرنا (Recessed light) ایک بہترین انتخاب سمجھا جاتا ہے۔ غور کیا جائے تو چھت میں نصب ایل ای ڈی لائٹس کا فیشن کافی پرانا ہے لیکن گھر کے بیرونی حصوں میں چھت پر ایل ای ڈی روشنیوں کا انتخاب عموماً کم ہی دیکھا جاتا ہے۔ ایملی اینڈرسن کے مطابق، بیرونی سائبان کی چھت اور ایل ای ڈی لائٹس کے لیے سفید رنگ کا انتخاب بہترین رہتا ہے۔ اگر آپ نے گھر کے بیرونی حصے میں سائبان بنایا ہوا ہے تو سائبان کی چھت ایل ای ڈی لائٹس فکس کرنے کے لیے بہترین ہے۔ لٹکنے والی روشنیاں بالکونی کی خوبصورتی میں اضافے کے لیے انٹیریئر ماہرین وہاں ڈیکوریشن لائٹس کا اضافہ ضروری سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں برٹش انٹیریئر ڈیزائنرکیمیون ڈیزائن کا کہنا ہے کہ بالکونی میں پینڈیٹ لائٹس کا انتخاب بیرونی حصوں کو گھر کے اندرونی حصوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ لہٰذا گھر کے بیرونی حصے کے لیے شوخ رنگ والی پینڈیٹ لائٹس کا انتخاب کیجیے لیکن اس حوالے سے ایک بات کا خاص خیال رکھیں کہ بالکونی کے لیے چھوٹے سائز اور شو خ رنگ کی لٹکنے والی لائٹس کا انتخاب زیادہ مناسب رہے گا۔ سیڑھیوں کی دیوار گھر کے بیرونی حصے میں لائٹنگ خوبصورتی کے ساتھ ساتھ گھر کی حفاظت کا کام بھی سرانجام دیتی ہے۔ سیڑھیوں والی دیوار پر لائٹس لگانے سے آپ یا آپ کے گھر والے کسی بھی حادثے سے محفوظ رہ سکتے ہیں، تاہم اگر اندھیرا ہوگا تو اوپر نیچے آنے جانے میں دقت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ گھر کے بیرونی حصے میں سیڑھیوں کیلئے لائٹنگ کا انتخاب کرنے کے حوالے سے کئی آپشنز دستیاب ہیں۔ مثلاً سولر ویج لائٹ، اسٹون پاتھ وے لائٹ، وال سرفیس لائٹ، اسٹیئروے اسٹیپ لائٹ وغیرہ۔ رواں برس اسٹیئر لائٹنگ کا سب سے مقبول ٹرینڈ وال سرفیس لائٹنگ ہے جو کہ بچوں والے گھروں کیلئے بہترین روشنی تصور کی جاتی ہے۔ اس کے تحت سیڑھیوں کے ساتھ والی دیوار پر ہر زینے کے نچلے حصے میں لائٹس نصب کی جاتی ہیں، تاکہ مکینوں کو زینہ اترتے یا چڑھتے ہوئے کسی قسم کی کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ فرش میں لائٹس باغیچے یا عقبی حصے کی خوبصورتی میں اضافے کیلئے فرشی روشنیوں کا بھی انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ انٹیریئر ڈیزائنر کے مطابق دیواروں میں لائٹس تو سب ہی لگواتے ہیں، مگر آپ اپنے باغیچے کی خوبصورتی بڑھانے کیلئے فرش پر روشنیوں کا انتخاب کرکے کچھ منفرد کرسکتے ہیں۔ فرشی روشنیوں کا استعمال عام طور پر عمودی باغ والی دیوار سے منسلک فرش کیلئے کیا جاتا ہے، جس کا مقصد اس دیوار کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرنا ہوتاہے۔ یہ لائٹس فرش پر اوپری رُخ نصب کی جاتی ہیں، جو ہر طرف روشنی بکھیرتی ہیں۔ ان روشنیوں کی موجودگی میں رات کے وقت یہاں چہل قدمی کرنا بڑا رومانوی لگتا ہے۔ اسٹرنگ لائٹس انٹیریئر ڈیزائنر جل شارپ باغیچے کیلئے اسٹرنگ لائٹس کے انتخاب کا مشورہ دیتے ہیں۔ اسٹرنگ لائٹس( جنھیں عام طور پر فیری لائٹس بھی کہا جاتا ہے) رواں برس کا ایک مقبول انٹیریئر ٹرینڈ ہے۔ اسٹرنگ لائٹس بنیادی طور پر ایک وائر میں ہر کچھ فاصلے سے جڑے بلب ہوتے ہیں، جن کا سائز آپ کی پسند پر منحصر ہے۔ ان لائٹس کو گھر کے بیرونی حصے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ لگاکر پورے باغیچے کو ایک وقت میں ہی روشن کیا جاسکتا ہے۔ خفیہ لائٹنگ دیواروں یا فرش میں نصب خفیہ لائٹنگ زیادہ تر باغیچے میںکیاریوں کی زینت بنائی جاتی ہے۔ ان لائٹس کو دیوار کے نچلے حصے میں چھپایا جاتا ہے، جس کے باعث کیاریاں یا باغیچے کے چاروں کونے غروب آفتاب کے بعد ایک خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔ روشنیوں کا یہ غیر معمولی انداز گھر کے بیرونی حصے کی خوبصورتی کو بڑھانے کاذریعہ بنتا ہے۔
موسم بہار میں اپنے گھر کو بنائیں پُر بہار
موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی نہ صرف موسم معتدل ہو جاتاہے بلکہ ا س موسم میں کِھلنے والے پھول ہمارے روز و شب کو خوشگوار بنادیتے ہیں۔ اسی لیے اس موسم میں کراچی ، لاہور، اسلام آباد ، فیصل آباد سمیت ملک کے دیگر شہروں میں جابجا پھولوں کی نمائشیں بھی منعقد کی جاتی ہیں۔ ساتھ ہی سڑکوں کے کنارے لگے پودوں میں کِھلتے پھول ایک عجب سماں باند ھ دیتےہیں۔ ہم بھی کوشش کرتے ہیں کہ اس موسم کے پھولوں کو اپنے گھر کی زینت بنائیں اور انھیں اپنی کیاریوں میں اُگائیں۔ موسم بہار کے پھولوں اور سبزیوں کا سلسلہ سردیوں کے آواخر سے ہی شروع ہوجاتاہے، یوں موسم بہار میں کی جانے والی باغبانی آپ کو موسم گرما میں پھل اورسبزیاں فراہم کرتی ہے۔ موسم ِ بہار کے پھول اگر آپ اپنے پائیں باغ، عمودی باغ یا گھر میں رکھی پورٹ ایبل کیاریوں میں پھول اور پودے اُگانا چاہتے ہیں تو ایسے پودوں کا انتخاب کریں جو سستے بھی ہوں اور بآسانی اُگ بھی جائیں۔ ایسے ہی چند پودوں کا ذکر ذیل میں کیا جارہا ہے۔ فلاکس : ا س کے چھوٹے چھوٹے خوبصورت پھول ہوتے ہیں۔ اپنی دلکشی کی وجہ سے یہ آپ کے گھر میں ایک نیا حُسن بکھیر دیں گے۔ پٹونیا(Patunia) : یہ بہت کفایتی پودا ہے اور گملے سمیت آ پ کو 100روپے میں مل سکتاہے۔ اس ننھے سے پودے میں دنیا کا ہر رنگ مل جاتاہے۔ اس کی دیکھ بھال کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی، بس مناسب پانی دیتے رہیں۔ یہ سارا سیزن پھول دیتاہے اور اس کے روزانہ کھلنے والے پھول دیکھ کر آپ خوشی سے پھولے نہ سمائیں گے۔ گلِ اشرفی(Calandula) :اس پھول کی انفرادیت اور دلکش رنگ یقیناً آپ کا دل موہ لے گا۔ آپ نرسری سے اس کی پنیری بآسانی حاصل کرسکتے ہیں اور اگر پنیر ی نہ ملے تو چند چھوٹے گملے خرید لیں ۔ ا س کے پھول بھی سار ا سیز ن کھِلے رہتے ہیں۔ وروینا: یہ پودا آپ کے گھر کی دلکشی میں خوب اضافہ کریگا اور کوئی خاص مہنگا بھی نہیں ملتا۔ نسٹرشیئم (Nasturtium): اس کے پتے گول ہوتے ہیں اور اس میں گول مٹول پیلے اور سرخ پھول کھِلتے ہیں، جنہیں آپ لٹکنے والی ٹوکریوں میں سجا کر نت نئے انداز سے گھر کی خوبصورتی میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ الیسم :اس کا دوسرا نام بجری ہے اور اس میں چھ سے سات انچ کے پودے ہوتے ہیں،جس پر بہت چھوٹے چھوٹے سفید پھول اُگتے ہیں۔ اسے آپ گملوں یا کیاریوں میں ایک ساتھ لگا سکتے ہیں۔ اس پودے کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتاہے کہ گویا کوئی سفید چاد ر بچھی ہوئی ہے۔ السی : اس کے بیج کسی پنساری کی دکان سے بھی مل جاتے ہیں، جنہیں آپ گملوں یا کیاریوں میں لگا سکتے ہیں۔ السی کا پودا آسانی سے اُگ جاتاہے اور سخت جان ہونے کی وجہ سے سارا موسم پھول دیتاہے۔ زمین کی تیاری زمین کا بالائی حصہ اہم ہوتا ہے کیونکہ اسی حصے سے پودا پانی اور خوراک حاصل کرتاہے۔ اس لیے تقریباً ایک فٹ گہرائی تک زمین کو نرم اور بھربھرا کرلیں۔ زمین سے پتھر، پلاسٹک اورکنکر وغیرہ نکال کر اچھی طرح صفائی کرلیں اور پھر اس میں کھاد ملا دیں۔ اہم مشورے ٭ کیاریوں کے گرد حفاظتی باڑ لگائیں تاکہ پرندے اور مرغیاں پودوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ ٭ ہمیشہ معیاری بیج یا پنیری استعمال کریں۔ ٭ پودے لگانے سے پہلے ان کے فاصلے کا خیال رکھیں۔ ٭ سبزی چنتے وقت ہاتھ کے بجائے انہیں قینچی سے کاٹیں تاکہ پودا خراب نہ ہو ۔ ٭ پودوں کو کیڑوں سے بچانے کے لیے اسپرے بوتل میں پانی لے کر اس میں ایک چمچ کوکنگ آئل اور ایک چمچ سرف ملالیں۔ پودوں پر اس کا چھڑکائو کرنے سے وہ کیڑے مکوڑوںسے محفوظ رہیں گے۔ موسم بہار کی سبزیاں اگر آپ موسم بہار کی سبزیوں کی کیاریاں لگائیں گے تو موسم گرما میں تازہ ترین سبزیاں پائیں گے اور تازہ سبزیوں کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ موسم بہار کی کچھ سبزیوں کا تذکرہ چارٹ کے ذریعے کیا گیا ہے۔
کچن کیبنٹ کا بالائی حصہ استعمال میں لائیں
دن بھر خواتین کا اچھا خاصا وقت کچن میں ہی گزرتا ہے تو کیوں نہ اسے زیادہ سے زیادہ وضع دار (اسٹائلش) بنانے پر غور کیا جائے؟ کچن کی تزئین وآرائش کے حوالے سے بات کریں تو اس میں کئی چیزوں کو اپنی پسند کے مطابق سجانے پر غور کیا جاسکتا ہے۔ لیکن زیر نظر عنوان میں ہم کچن کیبنٹس کے اوپر والے حصے کو استعمال میں لانے اور اس کی سجاوٹ کے منفرد ٹرینڈز سے متعلق بات کر رہے ہیں کیونکہ بہت کم گھروں میں اس پر دھیان دیا جاتا ہے۔ عام طور پر دیکھا جائے تو کچن کیبنٹس کی اوپری سطح زیادہ تر گھروں میں بیکار اور خالی خالی محسوس ہوتی ہےلیکن ا گر آپ کو کیبنٹس اور چھت کے درمیان کچھ جگہ مل گئی ہے تو اس کو خالی چھوڑنے کے بجائے اس کی سجاوٹ کے متعلق غور کریں۔ سجاوٹ کا یہ انداز منفرد ہے ، جو آپ کے کچن کا نقشہ بدل کر رکھ دے گا۔ معنی خیز سجاوٹ کچن کی تزئین و آرائش کے دوران آرائشی اشیا رکھنے کی جگہ بھی متاثر کن کردار ادا کرسکتی ہے۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ آرائشی اشیا رکھنے کے لیے کوئی جگہ مختص نہ کی گئی ہو کیونکہ عام طور پر گھروں میں خواتین ان چیزوں(مثلاً یادگار تصاویر، گلدان، روایتی آرائشی اشیا) کو کیبنٹ یا بیسمنٹ کی زینت بنادیتی ہیں یا انھیں محض ڈرائنگ روم کی سجاوٹ تک محدود کردیتی ہیں۔ کچن کیبنٹس کی اوپری سطح آرائشی اشیا کو نمایاں کرنے کے لیے بہترین انتخاب ثابت ہوسکتی ہے۔ آپ اس جگہ کو گلدان، کتابوں اور تصاویر کو نمایاں کرنے کےلیے استعمال کرسکتے ہیں۔ بالخصوص پھولوں سے بھرے گلدستے اور یادگاری فریم کو نمایاں کرنے کے لیے یہ جگہ مثالی ہے۔ اسٹوریج کیبنٹ کی اوپری سطح بطور اسٹوریج استعمال کرنے کے لیے بہترین تصور کی جاتی ہے۔ اسٹوریج کے طور پر استعمال کرنے کے لیے اوپر ی سطح پر کیبنٹ کی پیمائش کے مطابق اس سے ہی ہم رنگ لکڑی کا عمودی فریم تیار کروایا جاتا ہے۔ بعدازاںکچن میں آرائش کی خاطر ہر عمودی فریم میں ایک ٹوکری (باسکٹ) رکھ کر ان کو اشیائے ضروریہ ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔ واضح رہے کہ ان ٹوکریوں میں آپ کچن کا ضروری سامان رکھ کر اس جگہ کوبطور سجاوٹ بھی استعمال کرسکتے ہیں ۔ پرانے طرز کی آرائشی اشیا رواں برس سجاوٹ کے لیے پرانے طرز (ونٹیج لک) کی آرائشی اشیا کا انداز اپنایا جارہا ہے۔ آپ بھی کچن کیبنٹس کی اوپری سطح کو ونٹیج لک دینے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں، جس کے لیے وہاں پرانے طرز کی آرائشی اشیا مثلاًروایتی انداز والی ہینگنگ لائٹس اور ڈیکوریشن پیسز کا اضافہ بہترین رہے گا۔ دوسری جانب، اگر آپ کے پاس کچن میں بہت بڑی جگہ موجود ہے توہینگنگ آرٹ کے نام پر فیملی فوٹوز،شیشے،ونٹیج بیکنگ یا کوکنگ ٹولز کااضافہ آپ بلا جھجک کرسکتے ہیں۔ بڑا آرائشی سامان اگرآپ کے پاس کچن کیبنٹ اور چھت کے درمیان زیادہ جگہ موجود ہے تو وہاں عام یا پھر چھوٹے سائز کا آرائشی سامان رکھنا نامناسب رہے گا کیونکہ ایک اونچی چھت اور کیبنٹس کے درمیان چھوٹے سائز کی اشیا نظر نہیں آئیں گی اور جگہ بھی خالی خالی لگے گی۔ چنانچہ انٹیریئر ماہرین ایسے کچن کے لیےبڑے سائز کےآرائشی سامان کا انتخاب ضروری سمجھتے ہیں۔ سجاوٹ کا یہ انداز آپ کے کچن میں جدید لک فراہم کرنے کے لیے بہترین رہے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی جگہوں کے لیے بڑے سائزکے آرٹ والے سرامک گلدان کا انتخاب کیا جائے، ہر کیبنٹ کے لیے ایک ہی رنگ اور سائز کے خوبصورت گلدانوں کا انتخاب سود مند رہتا ہے۔ آرٹ گیلری آرٹ گیلری وال کسی بھی دیوار کو آرائشی اور کلاسیکل لک دینے کے لیے بہترین تصور کی جاتی ہے۔ آرٹ گیلر ی وال ایک ایساسجاوٹی انداز ہے جو برس ہا برس گزرنے کے باوجود بھی اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اپنی پسند کے فن پاروں کو آگے پیچھے رکھتے ہوئے کیبنٹس کی اوپری سطح پر ایک گیلری وال تخلیق کی جاسکتی ہے۔ اس حصے کے لیے سیاہ و سفید رنگ کی آئل پینٹنگز کا مجموعہ یکسانیت پیدا کرنے کے لیےمناسب رہتا ہے۔ پودے اگر آپ بھی باغبانی میں دلچسپی رکھتے ہیں اور پودوں کی دیکھ بھال کے لیے وقت کی کمی جیسے مسائل کا سامنا بھی نہیں ہے تو کیبنٹس کے اوپر والی جگہ کو استعمال میں لاتے ہوئے یہاں پودے بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ یہ ٹرینڈ مغرب میں کافی مقبول ہے، تاہم آپ کچن کیبنٹس کی اوپری سطح کے لیے ایسے پودوں کا انتخاب کیجیے جنہیں سورج کی کم روشنی اور پانی درکار ہوتا ہے ۔ دوسری جانب پودو ں کیلئے ایسے گملوں کا انتخاب کیجیے جو کچن سے جدا محسوس نہ ہوں بلکہ وہ اس کا ہی حصہ لگیں۔
’باغیچے کی تزئین‘ گھر کی قدر و قیمت بڑھائے
باغبانی یعنی گارڈننگ کا مطلب تو باغیچے کے لیے مختص کی گئی جگہ پر گھاس اُگانا اور پودے لگانا ہوتا ہے۔ تاہم اگر بات کریں باغیچے کی تزئین یعنی گارڈن لینڈ اسکیپنگ کی تو یہ صرف باغبانی کی حد تک محدود نہیں رہتی۔ اس عمل میں آپ گھر میں باغبانی کے لیے جگہ مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ راہداریوں اور چڑھائی (ایلیویشن) کی خوبصورتی بڑھانے کے لیے فواروں کی تنصیب، روشنی کا انتظام اور دیگر کئی طور طریقے اپناتے ہیں۔ باغیچے کی تزئین کا رجحان گھر میں باغیچے کی تزئین کا رجحان تیزی سے مقبولیت حاصل کررہا ہے۔ آپ ہر دوسرے گھر میں اس کی مثال دیکھ سکتے ہیں۔ مختلف وجوہات کی بنا پر لوگ اس رجحان کو اپنانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ زمین کی تزئین کے اپنے فوائد ہیں جس کی وجہ سے اس سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ جس قدر اپنے باغ کو سجائیں گے، دیکھنے والوں کو وہ اتنا ہی خوشگوار لگے گا۔ یہ نظارہ آپ کو سکون کا احساس دلائے گا اور آپ گھر میں گزارے جانے والے وقت سے لطف اندوز ہوں گے۔ ایک منفرد اور خوشگوار نظارہ فراہم کرنے کے علاوہ باغیچے کی تزئین کے بہت سے دیگر معاشرتی ، عملی اور مالی فوائد ہیں۔ اس کے ذریعے باغیچہ آپ کے گھر کے بہترین حصے میں تبدیل ہوسکتا ہے اور جتنی رقم آپ باغیچے کی تزئین پر خرچ کرتے ہیں، اس سے آپ کے گھر کی قدر و قیمت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ یہ آپ کے بچوں کی تفریحی سرگرمیوں کے لیے بھی ایک اچھی جگہ ثابت ہوسکتی ہے۔ سبزہ زار کو ترجیح دیں باغیچے کی تزئین میں سب سے پہلے سبزہ زار (Lawn) پر توجہ مرکوز کریں۔ جب آپ کا لان صاف ستھرا، سبز اور ہریالی لیے ہوگا تو یہ آپ کے گھر کے بیرونی حصے کو متاثرکن بنادے گا۔ گھاس کی کٹائی یا تراش خراش وقتاً فوقتاً کرتے رہیں لیکن ایک وقت میں ایک تہائی سے زیادہ گھاس مت کاٹیں کیونکہ اس سے گھاس کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ گھاس کاٹتے وقت کونوں کی کٹائی پر خصوصی توجہ دیا کریں۔ اس کے علاوہ سال میں ایک دو بار گھاس میں کھاد ڈالا کریں اور جب بھی ضرورت محسوس ہو، اسے پانی دیا کریں۔ افادیت گھر کے بیرونی حصوں میں کئی ایک ایسے پہلو ہوسکتے ہیں، جو آپ کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ ایسے میں اگر آپ گھر کو فروخت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ایسی چیزیں یقیناً خریدار کی دلچسپی کو بھی ماند کرسکتی ہیں۔ اگر صحن میں پرائیویسی کا خیال نہیں رکھا گیا اور آس پڑوس میں رہنے والوں کی آتے جاتے آپ کے صحن پر نظر پرتی ہے یا پھر سڑک کے قریب ہونے کے باعث آپ کے گھر میں ہر وقت گاڑیوں کا شور شرابہ سنائی دیتا ہے تو ان مسائل کا حل یہ ہے کہ آپ گھر میں زیادہ سے زیادہ پودے اور درخت اُگائیں، جو نہ صرف آپ کوپرائیویسی فراہم کرسکتے ہیں بلکہ گاڑیوں کے شور شرابے کو بھی گھر میں آنے سے روک سکتے ہیں۔ راہداری اور لائٹنگ ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ گھرمیں پیدل چلنے کا راستہ خوبصورت، آرام دہ، سہل اور آنکھوں کو بھانے والا ہو۔ گھر کی خریداری میں دلچسپی رکھنے والے لوگ خاص طور پر ان چیزوں کو مدنظر رکھتے ہیں۔ باغیچے کی تزئین کے ذریعے پیدل چلنے والے رستوں کو اس طرح ڈیزائن کریں کہ وہ نہ صرف صاف نظر آئیں بلکہ چلنے پھرنے میں بھی سہل ہوں۔ اس کے علاوہ لائٹنگ پر بھی خاص دھیان دیں کیونکہ رات کے وقت اندھیرے کے باعث کوئی چلتے پھرتے ٹھوکر کھاکر گِر سکتا ہے۔ باڑ لگائیں یا مرمت کریں باغیچے کی تزئین میں باڑ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ باڑ آپ کے گھر کی حدود کو پڑوسی کے گھر اور سڑک سے علیحدہ کرتی ہے۔ اس سے آپ کے گھر کی پرائیویسی بڑھ جاتی ہے۔ جس گھر میں چھوٹے بچے ہوں یا انھوں نے پالتو جانور رکھے ہوں، وہاں کے لیے بھی باڑ کی افادیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ باڑ کو خوبصورت بنانا اور اسے نئی حالت میں رکھنا آپ کے ذوق اور مزاج کی ترجمانی کرتا ہے، اس لیے جب کبھی باڑ کا رنگ خراب ہونے لگے یا دھوپ کی وجہ سے اُڑ جائے تو جلد ہی نیا رنگ کرلیا کریں یا ضرورت ہو تو اس کی جگہ نئی باڑ لگالیں۔ ماہرین کی خدمات ظاہر ہے ماہرین کی خدمات حاصل کرنا آپ کے بجٹ پر ایک اضافی دباؤ ہوگا لیکن اگر بجٹ اجازت دے تو آپ کسی پروفیشنل گارڈن لینڈ اسکیپر کی خدمات حاصل کریں، جو آپ کے گھر کے بیرونی حصے کی صورت تبدیل کرکے رکھ دے گا۔ یقیناً، یہ بات طویل مدت میں آپ کے حق میں جائے گی اور آپ کے گھر کی قدر و قیمت میں اضافے کا باعث بھی بنے گی۔ یہاں تک کہ خوبصورت گارڈن لینڈاسکیپنگ سے مزین گھر بہتر کرایہ حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہتے ہیں۔
گھر کی سجاوٹ کے بنیادی مراحل
گھر کی تعمیر یا کرائے پر گھر لینے کے بعد اس کی سجاوٹ کی فکر آپ کے ذہن پر سوار ہوجاتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ پہلے بیڈروم کی سیٹنگ کی جائے یا پھر لیونگ روم اور ڈرائنگ روم کی سجاوٹ پر دھیان دیا جائے۔ غرض یہ کہ گھر کی سجاوٹ کے دوران ایک ایک چیز سیٹ کرتے وقت آپ بڑے پُرجوش ہوتے ہیں۔ دیواروں پر ہوئے رنگ و روغن کے مطابق آپ کو نئے یا پرانے فرنیچر کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ تاہم میگزین یا انٹرنیٹ پر موجود تصاویر کے ذریعے گھر کی سجاوٹ کے حوالے سے آپ کو مدد مل سکتی ہے۔ اگرآپ پہلی بار اپنے گھر کی سجاوٹ کرنے جارہے ہیں تو آپ کو چار پانچ پہلوئوں پر بھرپور ریاضت کی ضرورت ہوگی۔ آئیں جانتے ہیں کہ وہ پہلو کونسے ہیں اور اس حوالے سے چند مشورے بھی پیش ہیں۔ فرنیچر فرنیچر کی خریداری کرتے وقت جگہ کے حساب سے اس کی سیٹنگ کو ذہن میں رکھنا ہوتا ہے۔ گھر میں فرنیچر سیٹ کرنے کے دوران بس یہی خیال ہوتا ہے کہ وہ ایک بھرپور تاثر پیش کرے۔ ڈرائنگ روم کی بات کریں تو اکثر لوگ ایک دیوار کے ساتھ صوفہ لگادیتے ہیں اور اس کے دونوں اطراف یا پھر اس کے سامنے دو سنگل صوفے یا دو کرسیاں رکھ دیتے ہیں۔ ڈرائنگ روم میں فرنیچر ایسے رکھا جانا چاہیے جیسے انگوٹھی میں نگینہ فٹ ہوتا ہے۔ دراصل فرنیچر کوسیٹ کرنے کے لیے تھوڑی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی سجاوٹ میں سب سے اہم نقطہ اس کا مرکز (فوکل پوائنٹ) ہوتاہے، اس کے بعد سٹنگ ایریا کا انتخاب اور فرنیچر کے درمیان آمدورفت کی جگہ چھوڑنا۔ اس کے علاوہ آپ لیونگ روم اور بیڈروم میں ہوئے رنگوں کی مناسبت سے اپنی ضرورت کا خوبصورت فرنیچر ڈالیں اور اگر یہ اسٹوریج کی اضافی سہولت مہیا کرے تو اور بھی اچھی بات ہے۔ قالین گھر کے مختلف کمروں میں قالین بچھانا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا، یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ قالین کی کہاں ضرورت ہے اور آیا اسے پورے کمرے میں بچھایا جائے یا محض قالین کا ایک ٹکڑا ڈال دیا جائے۔ آپ کو قالین کی خریداری کرتے وقت اس کے معیار اور ڈیزائن کے ساتھ پائیداری کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کمرے کا سائز اچھی طرح معلوم کرلیں تاکہ آپ اسی حساب سے قالین خرید سکیں۔ اگر کسی وجہ سے قالین کمرے کے سائز سے چھوٹا ہے تو پھر اسے ایسے معنی خیزانداز میں بچھائیں کہ کمرے کی دلکشی متاثر نہ ہو بلکہ وہ کمرے کی سجاوٹ کا حصہ بن جائے۔ قالین کو تمام فرنیچر کے نیچے ہونا چاہیے اور اگر وال ٹو وال قالین نہ بچھایا گیا ہو تو پھر قالین اور دیواروں کے درمیان تقریباً 10سے20انچ کا فرق رکھا جائے۔ آرٹ ورک خالی دیواریں گھر میں ادھورے پن کا احساس دلاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو دیواروں کا ہر انچ بھرنے کی ضرورت ہے، تاہم انہیں آرٹ ورک سے سجانا اچھا رہتاہے۔ دلکشی اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے مہنگی چیزیں خریدنےکی ضرورت نہیں کیونکہ آرٹ کے حوالے سے ہر شخص کا ذوق مختلف ہوتاہے۔ جب آپ کی پسند کی بات ہو تو پھر اپنی جبلت کی پیروی کرنا سب سے بہتر رہتا ہے۔گھر کی مختلف دیواروں کو ایسی پینٹنگز یا آرائشی اشیا سے سجائیں جو آپ کے ذوق کے مطابق ہوں۔ گھر کو آرٹ سے سجانے کے لیے اپنے دل کی سنیں۔ لائٹنگ لائٹنگ کسی بھی کمرے کا ایک پیچیدہ عنصر ہوتا ہے۔ لائٹنگ کے حوالے سے کچھ اہم عوامل ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ سب سے اہم بات یہ کہ گھر میں روشنی کا انتظام کرتے وقت آپ کو ماحول سے مطابقت رکھتی ہوئی لائٹس چاہیے ہوںگی، جن کی روشنی کو ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ کیا جاسکتا ہے۔ کمرے کو روشن کرنے والی اشیا جیسے فانوس، بلب، لیمپ اور ریسیسڈ لائٹنگ کو دیواروں پر کئے گئے رنگ کی مناسبت سے اس طرح لگانا چاہئے کہ ان سے حاصل ہونے والی روشنی آنکھوں کے لیے سکون کا باعث ہو اور ان کا پورے کمرے پر عمدہ تاثر پڑے۔ رنگ و روغن گھر کے رنگ و روغن کے لیے درست رنگوں کا انتخاب بہت سے لوگوں کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا۔ سب سے پہلی غلطی ان سے یہ ہوتی ہے کہ وہ پینٹ کا رنگ پہلے سے منتخب کرلیتے ہیں۔ اگر آپ گھر کے کسی حصے میں کوئی اعلیٰ پائے کی پینٹنگ لگانا چاہتے ہیں تو اس کی مناسبت سے وہاں کی دیواروں کا رنگ منتخب کریں تاکہ آرٹ ورک نمایاں ہو اور وہ دیکھنے والے کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلے۔ پیمائش آپ گھر کے کسی بھی حصے کی سجاوٹ کررہے ہوں، اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ قالین بچھاتے ہوئے، فرنیچر کی سیٹنگ یا پھر کھڑکیوں کی مرمت کرتے وقت ان چیزوں کی پیمائش اور جگہ کے سائزکو جانتے ہوں جہاں آپ نے یہ کام کرنے ہیں۔ اندازے پر چلنے کے بجائے ہر چیز کی باقاعدہ پیمائش کریں تاکہ آپ کی زندگی آسان ہوجائے۔
’اسٹوڈیو اپارٹمنٹ‘ ایک چھوٹی مگر متاثر کن رہائشگاہ
اسٹوڈیو اپارٹمنٹ کے لیےمختلف ملکوں میں مختلف اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں، مثلاًکینیڈا میں بیچلر اپارٹمنٹ، جاپان میں ون روم مینشن، ناروے میں ون روم اپارٹمنٹ وغیرہ وغیرہ ۔ اصطلاح چاہے جو بھی ہو لیکن دنیا بھر میںاسٹوڈیو اپارٹمنٹ کے بے شمار فوائد تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ایک بڑے سے کمرے پر مشتمل اسٹوڈیو اپارٹمنٹ بالخصوص ایک یا دو افراد کے رہنے کے لیے آئیڈیل ہے جوکہ کم خرچ بالا نشین ثابت ہوتا ہے۔ روزگار یا تعلیم کی غرض سے کسی نئے شہر یا ملک میں رہائش اختیارکرنی ہو تو اسٹوڈیو اپارٹمنٹ کا انتخاب ہی بہترین سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آجکل اسٹوڈیو اپارٹمنٹس کی طلب میں بھی اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ اگر آپ بھی اسٹوڈیو اپارٹمنٹ میں رہائش اختیار کرنے کا سوچ رہے ہیں تو درج ذیل مشوروں پر عمل کرکے اس کو بہترین انداز سے استعمال میں لاسکتے ہیں۔ کمرے کا حجم اسٹوڈیو اپارٹمنٹ کے لیے کمرے کاحجم (سائز) بے حد اہمیت کا حامل ہوتاہے۔ تعمیراتی ماہرین شہروں میں اسٹوڈیو اپارٹمنٹ کی تعمیر کے لیے معیاری سائز500سے 600اسکوائر فٹ مختص کرتے ہیں لیکن اس سےکم یا زیادہ رقبے پر بھی اسٹوڈیو اپارٹمنٹ تعمیر ہوسکتا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں کچھ اہم ہے تو وہ تخلیقی آئیڈیاز جن پر عمل کرتے ہوئے اسٹوڈیو اپارٹمنٹ کو کئی مقاصد کے لیے کام میں لایا جاسکتا ہے۔ ایک مکمل آشیانہ اگر آپ کے اسٹوڈیو اپارٹمنٹ کا حجم 600اسکوائر فٹ سے کم ہے تو اس کو بڑادِکھانے کے دو ہی طریقے ہیں، ایک تو یہ کہ برابر والا اسٹوڈیو اپارٹمنٹ لے کر بیچ کی دیوار گرا دی جائے یا پھر تخلیقی طریقوں پر عمل کرتے ہوئے اس میں کشادگی کا احساس پیدا کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ایک اور اسٹوڈیو اپارٹمنٹ کا حصول آسان کام نہیں، لہٰذا بہتر منصوبہ بندی اور سجاوٹ کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اسٹوڈیو اپارٹمنٹ کے ہر انچ کا بہترین استعمال کریں۔ جگہوں کی تقسیم چونکہ آپ کے پاس جگہ محدود ہے، لہٰذا آپ کو اپارٹمنٹ کا ہر کونا استعمال میں لانا ہوگا۔ اپارٹمنٹ کو کثیر المقاصد بنانے کے لیے سب سے پہلے درجہ بندی کریں۔ اس میں ان تمام چیزوں کا خیال رکھیں جو اسٹوڈیو اپارٹمنٹ میں آپ کی ضرورت ہوسکتی ہیں۔ اس حوالے سے ماہرین ’ایک تہائی اصول‘ اپنانے کا مشورہ دیتے ہیں مثلاً اپارٹمنٹ کاایک تہائی حصہ سونے کے لیے مختص کریں، ایک تہائی کھانے کے لیے اور ایک تہائی لیونگ ایریا کے طور پر۔ غیرمعمولی سجاوٹ اسٹوڈیو اپارٹمنٹ کو بھاری بھرکم فرنیچر اور بڑے سائز کی آرائشی اشیا سے سجانے سے گریز کریں۔ ماہرین عام فرنیچر کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ وہ اپنی بناوٹ کے باعث کم جگہ گھیرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسٹوڈیو اپارٹمنٹ کے لیے فرنیچر میں دو سے تین چیزیں ہی منتخب کی جائیں جو نہایت ضروری ہوں جیسے کہ بیڈ، صوفہ سیٹ، الماری اور چھوٹے سائز کی کافی ٹیبل۔ دوسری جانب فرنیچر اور کمرے کی دیواروں کے لیے ہلکے رنگوں کا انتخاب کریں۔ اپارٹمنٹ کی چاروں دیواروں پرایک ہی رنگ کروائیں، اگر کچھ مختلف چاہتے ہیں تو صرف ایک دیوار کے لیے مختلف رنگ منتخب کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ ان باتوں پر عمل کرنے سے آپ کی طبیعت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اورآپ کو گھر میں کشادگی محسوس ہوگی۔ دہرے مقاصد والا فرنیچر اسٹوڈیو اپارٹمنٹ کے لیے ایسے فرنیچر کا انتخاب کیجیے جو ایک کے بجائے دہرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ اس حوالے سے چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں۔ ٭ بیڈ کے نچلے حصے میں دراز موجود ہوں تاکہ اسٹوریج کے لیے اضافی جگہ دستیاب ہوسکے۔ آجکل مارکیٹ میں اس طرح کے بیڈ دستیاب ہیں جن کے نیچے اسٹوریج کی جگہ مہیا کی جارہی ہے۔ ٭ اگر آپ کے پاس پہلے سے بیڈ موجود ہے تو کسی بڑھئی کی خدمات حاصل کرکے اس میں دراز بنوالیں۔ ٭ اگر آپ کے اسٹوڈیو اپارٹمنٹ میںکھڑکیاں موجود ہیں تو ان کھڑکیوں کودہرے فوائد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کھڑکیوں کے نیچے بیٹھنے کے لیے سیٹ بنوائیں، یہ آپ کے اپارٹمنٹ کو خوبصورت انداز فراہم کرے گی ساتھ ہی آپ صوفہ سیٹ خریدنے اور اس کے لیے اضافی جگہ نکالنے کی پریشانی سے بچ جائیں گے۔ سٹنگ ارینجمنٹ کے نچلے حصے میں شیلف یا دراز بھی بنوائی جاسکتی ہیں۔ کم سے کم سامان اسٹوڈیواپارٹمنٹ میں کشادگی کے احساس کے لیے ضروری ہے کہ اس میں کم سے کم سامان رکھا جائے تاکہ سامان کی ترتیب اور صفائی وغیرہ میں آسانی ہو۔ زندگی کا احساس دلاتی اور طبیعت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی چیزوں کا انتخاب کریں مثلاً گلدان، کافی ٹیبل، میز پر نایاب اشیا اور بیٹھنے کے لیے دلکش بین بیگس، کائوچز یا روکنگ چیئرز۔ آئینے کی تنصیب کشادہ جگہوں کے مقابلے میں چھوٹی جگہوں کو زیادہ قدرتی روشنی درکار ہوتی ہے اور اگر یہ روشنی میسر نہ آئے تو آپ کا اپارٹمنٹ تنگ اور تاریک محسوس ہوتا ہے۔ اس کا ایک آسان حل آئینوں کی تنصیب ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئینوں کی تنصیب کہاں کی جائے؟ اسٹوڈیو اپارٹمنٹ کے داخلی حصے میں بڑے سائزکا آئینہ نصب کریں، اس کے عکس سے آپ کا اپارٹمنٹ کشادہ محسوس ہوگا۔ یا د رکھیںکہ کم روشنی منعکس ہونے کے بعد پھیل جاتی ہے، جس کے باعث کمرہ زیادہ روشن دکھا ئی دیتاہے۔
لیونگ روم کو سجانے کے منفرد انداز
گھر میں لیونگ روم کوبہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ آپ کا کھانا پینا، گھر والوں کے ساتھ ہنسی خوشی فرصت کے لمحات گزارنا، دوستوں یا رشتے داروں کو خوش آمدید کہنا اور ان سے گپ شپ کرنا، ان سب کاموں کے لیے عموماً لیونگ روم ہی آپ کا انتخاب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ہمیشہ اپنے اعلیٰ ذوق کے مطابق لیونگ روم کی آرائش و سجاوٹ کرتے اور اسے صاف ستھرا رکھتے ہیں۔ عمدگی سے آرائش کیے گئے لیونگ روم میں ہر کچھ عرصے بعد تھوڑا بہت ردوبدل یا مکمل طور پر نئے سرے سے تزئین و آرائش کی ضرورت پڑتی ہے۔ آج ہم آپ کی خدمت میں لیونگ روم کی تزئین و آرائش اور اسے صاف ستھرا رکھنے کے حوالے سے کچھ تجاویز پیش کررہے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ آپ کے لیے یہ انتہائی مؤثر ثابت ہوں گی۔ جدید اور کلاسیکی امتزاج اپنے لیونگ روم کو اس طرح ڈیزائن کریں کہ اس میں کلاسیکی نوعیت کا کام غالب نظر آئے۔ اس میں انڈسٹریل دور کی روشنی، تزئین و آرائش کے لیے لکڑی اور پینٹنگز کے ذریعے کلاسیکی چیزوں کو شامل کریں۔ دیواروں کے لیے جدت لیے ہوئے رنگوں (مثلاً زیتون اور گلابی) کا استعمال کریں اور اسی مناسبت سے پردوں کے رنگوں کا انتخاب کریں۔ لکڑی کا فرنیچر لکڑی جدید لیونگ روم کا ایک خاص عنصر بن چکی ہے۔ قدرتی لکڑی کے آرام دہ صوفے، فرش پر قالین، انڈسٹریل اور فطری روشنی کا ملاپ ایک بہترین منظر پیش کرتا ہے۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکڑی کا ایک فریم بھی بنوایا جاسکتا ہے، جس میں نفیس انداز میں مختلف کتابیں اور دیگر اشیا خوبصورتی سے سجائی جاسکتی ہیں۔ اگر آپ کے لیونگ روم میں کھڑکیاں ہیں تو وہاں سے قدرتی روشنی کو ضرور اندر آنے دیں۔ نمایاں اور شوخ رنگ اگر آپ بولڈ اسٹیٹمنٹ اور جدید انداز دینا چاہتے ہیں تو اپنے لیونگ روم کی سجاوٹ میں پیلے رنگ کو بنیادی کردار سونپ دیں۔ مثلاً، قالین یا ایک طرف کی دیوار پر شوخ پیلا رنگ کردیں۔ اس کے کنٹراسٹ میں گہرے گلابی یا سرمئی رنگ کے صوفے رکھیں۔ آپ کا لیونگ روم گھر کا مرکز بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیونگ روم کو شوخ رنگوں سے سجانے کے بعد کھڑکیوں اور دروازوں کے پردے کے لیے ہلکے ٹھنڈے رنگ کا انتخاب کریں۔ بُک شیلف اگر آپ اخبارات، جرائد اور کتابیں پڑھنے کا ذوق رکھتے ہیں تو یقیناً آپ کا لیونگ روم ایک بک شیلف کے بغیر نامکمل رہے گا۔ اس بک شیلف کے ایک خانے میں آپ کچھ نمائشی چیزیں اور ٹیبل لیمپ بھی رکھ سکتے ہیں۔ اگر جگہ کی کمی ہو تو آپ چائے کی ٹیبل کے نیچے والے حصے کو بھی کتابیں رکھنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ خوبصورت ڈبوں کا استعمال اگر آپ اپنے گھر اور لیونگ روم میں کسی چیز کا بہترین استعمال کرسکتے ہیں تو وہ خوبصورت ڈیزائن اور نفاست سے تیار کیے گئے ڈبے ہوسکتے ہیں۔ انہیں آپ مختلف چیزیں رکھنے کے لیے استعمال میں لاسکتے ہیں۔ دیواروں کی آرائش اپنے لیونگ روم کی دیواروں کی آرائش کے لیے انہیں نفاست کے ساتھ ایک خاص انداز میں سجائیں۔ کسی ایک طرف کی دیوار کو فیچر وال بنائیں اور وہاں اپنے خوشگوار لمحات کی کچھ تصاویر اور چند پینٹنگز آویزاں کریں۔ پودے اگر جگہ اجازت دے تو اپنے لیونگ روم میں پودے رکھیں، وہ اسے چار چاند لگادیں گے۔ پودوں کی موجودگی میں لیونگ روم کا ماحول بے حد صحت مند رہے گا۔ کئی ایک پودوں میں یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ نمی جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس طرح آپ اپنے لیونگ روم کو نمی سے پاک رکھ سکتے ہیں۔ اسکائی لائٹ اگر آپ اپارٹمنٹ میںرہتے ہیں تو یقیناً اپنے لیونگ روم میں اسکائی لائٹ کی خوبصورتی نہیں لاسکتے، تاہم جن لوگوں کی چھت اپنی ہوتی ہے وہ اپنے لیونگ روم کی چھت کو اسکائی لائٹ کے لیے بنوا سکتے ہیں۔ لیونگ روم کی چھت میں اسکائی لائٹ کے لیے آپ کو اسٹیل کے فریم اور شفاف شیشے کی ضرورت ہوگی، یہ آپ کے لیونگ روم کی خوبصورتی اور ماحول میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ اکثر کمروں میں اسکائی لائٹ کے لیے کمرے کے مرکز کا ہی انتخاب کیا جاتا ہے، تاہم آپ گھر کی تعمیر کے وقت سورج کی سمت کے مطابق اسکائی لائٹ کے لیے مناسب جگہ کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ لیونگ روم کی صفائی روزانہ کی بنیاد پر لیونگ روم کی تمام چیزوں کی سطحوں سے مٹی جھاڑنے کا بندوبست کریں۔ جب کسی جگہ مٹی کے تہہ جمنا شروع ہوجاتی ہے تو وہاں کئی بیماریاں پیدا ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ لیونگ روم کا مرکزی نقطہ کون نہیں چاہے گا کہ اس کے گھر کا لیونگ روم ایسا ہو جہاں دوستوں اور مہمانوں کے داخل ہوتے ہی ان کی توجہ کسی ایک مرکزی نقطہ کی جانب مبذول ہوجائے؟ اس سے مراد لیونگ روم کے مرکز میں کافی ٹیبل یا کنسول ٹیبل ہے۔ اس مرکزی ٹیبل کو سجانے کے لیے آپ تخلیقی انداز اپنا سکتے ہیں جیسے کہ مرکزی ٹیبل پر موم بتیاں رکھنا، گلدان رکھنا، مشروب کے گلاس اور فروٹ ٹرے رکھنا، پھول اور چند کتابیں رکھنا وغیرہ۔
بیرونی حصے کی سجاوٹ کے منفرد انداز
زندگی کی مصروفیات اور ایک جیسے معمولات سے کوئی بھی انسان جلد اُکتانے لگتا ہے، ایسے میں کچھ نیا اور منفرد کرنے کی لگن دل میں پیدا ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنے گھر کے حوالے سے کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے گھر کے بیرونی حصے کی سجاوٹ کرنے کی کوشش کریں کیونکہ یہ آپ کے گھر کا پہلا تاثر دیتا ہے۔ عموماً بیرونی حصے کو خوبصورت بنانے کے لیے اکثر لوگوں کے ذہن میں سب سے پہلا خیال باغبانی (گارڈننگ) کا ہی آتا ہے۔ تاہم آج کی تحریر میں ہم کچھ مختلف آئیڈیازکا ذکر کریں گے جن کے ذریعے گھر کے بیرونی حصے کی سجاوٹ منفرد اندازسے کی جاسکتی ہے۔ قدرتی انداز انٹیریئر ماہرین کے مطابق، جب بھی آپ گھر کے بیرونی حصے کی سجاوٹ و آرائش کی بات کریںتو سب سے پہلے قدرت کی نعمتوں سے فائدہ اٹھائیں۔ گھر کوقدرتی خوبصورتی سے ہم آہنگ کرنے کے لیے برٹش ڈیزائنر میٹروزی پیل کے تجویز کردہ مشورے پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ میٹروزی گھر کے بیرونی حصے (صحن یا باغیچے) کی سجاوٹ کو منفرد طرز دینے کے لیے اس کے مرکز میںکنکریٹ کی ایک سادہ سی دیوار تعمیر کروانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ دیوار پر ہلکے رنگ کا رنگ و روغن کرکے پوری دیوارپرتھوڑے تھوڑے فاصلے سے عمودی اور افقی لکڑی کے پینل نصب کروائیں اور ان میں گملے یا پھر جار میں پودے لگاکر اس جگہ کو ایک نیا انداز دیں۔ ساحل سمندر کا منظر اگر آپ چاہتے ہیں کہ گھر کا بیرونی حصہ کسی ساحل سمندر کا منظر پیش کرے تو دیواروں پر ہلکے رنگ اور فرنیچر کے خیال سے باہر نکل کر کچھ مختلف سوچیں۔ گھر کے بیرونی حصے میں لکڑی یا پتھر کا استعمال بھی منفرد ثابت ہوسکتا ہے اور آپ ان دونوں مواد کو استعمال کرتے ہوئے بیٹھنے کا سامان بھی کرسکتے ہیں جیسے کہ لکڑی یا پتھر کی بنچ۔ اس کے علاوہ سائبان (Shade)بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جسے بنانے کے لیے آپ کے پاس مختلف آپشنز دستیاب ہیں۔ ساحل سمندر کا منظر دینے کے لیے سائبان کو بھی لکڑی یا پتھر سےبنانے پر غور کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ کسی بھی حصے میں آرائشی اشیا ماحول پر اپنے گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں، لہٰذا لکڑی کی کرسیوں، ہلکے رنگ کے کشن اور فیچر وال کے لیے ووڈ آرٹ اچھا انتخاب ثابت ہوسکتا ہے۔ آرٹ کی دیوار گھر کے بیرونی حصے میں دیوار کی آرائش کے لیے واٹر فیچر کااضافہ بھی ایک بہترین خیال ثابت ہوسکتا ہے۔ پانی کے گڑھوں اور باغیچے میں نصب فواروں کا فیشن اب پرانا ہوگیا، رواں برس گھر کے بیرونی حصے کی آرائش و سجاوٹ کے لیے آپ آرٹ کی دیوار بنوانے کےبارے میں سوچیں۔ آپ جدید سجاوٹی پتھروں (بطور خاص گرینائٹ) سے بنی دیوار کے ذریعے پانی بہا سکتے ہیں، اس سے گرتا ہوا پانی کسی آبشار کا منظر پیش کرے گا۔ اس قسم کے ڈیزائن میں موٹر کی مدد سے اوپر سے پانی گرایا جاتا ہے۔ رات کے وقت روشنیوں کی موجودگی میں یہ جادوئی منظر پیش کرے گا۔ گہرے رنگوں کا استعمال گزشتہ چند برسوں کے دوران گھر کے بیرونی حصے میں لیونگ ایریا بنانے کا ٹرینڈ تیزی سے مقبول ہوا ہے۔ اگر آپ بھی آؤٹ ڈور ایریا میں لیونگ روم بنوانے کا سوچ رہے ہیں تو اسے گھر کے اندرونی حصے جیسا انداز دینے کے لیے آپ کو اس کی ڈیزائننگ کے دوران چند باتوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ اس حوالے سےکاف مین اسٹوڈیو کے تعمیراتی ماہرین کا کہنا ہے کہ گھر کے بیرونی حصے میں فیچر وال کی تعمیر کرواتے وقت وہی احساسات رکھیں جو گھر کے اندرونی حصوں میں فیچر وال کی تعمیر کے دوران رکھتے ہیں، مثلاً شوخ رنگوں والی دیواریں، جس کے لیے آپ کو گہرے رنگ کا پینٹ منتخب کرنا ہوگا۔ فرنیچر کا انتخاب بھی شوخ اور گہرے رنگوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیجیے۔ اشارے لگانا گھر کے بیرونی حصے کو مختلف دکھانے یا اسے حصوں میں تقسیم کرنے کا ایک منفرد آئیڈیا اشاروں (Signage)کی تنصیب ہے، جو اہل خانہ کے علاوہ گھر میں داخل ہونے والے ہر فرد کو آگاہی دیں گے کہ کون سی چیز ( پول ایریا، عقبی حصہ یا پھر باغیچہ) کس جگہ ہے۔ مثال کے طور پر سوئمنگ پول ایریا میں تخلیقی ڈیزائن مرتب کرنے کے لیے المونیم سے تیار کیے گئے الفاظ سوئمنگ ایریا کی دیوار پر نصب کروادیں، یہ چند لفظوں کا مجموعہ آپ کی دیوار کی ہیئت ہی تبدیل کردے گا۔ دھاتوں کی دوسری اقسام کے برعکس المونیم پر زنگ نہیں لگتا، اس کی وجہ المونیم کا آکسیڈائز ہو نا ہے۔ آپ نے بھی اکثر دیکھا ہوگا کہ بیرونی حصوں میں کمپنیوں کے نام لکھنے کے لیے المونیم ہی استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ طویل مدت تک کارآمد رہتا ہے۔
سرسبز چھتوں کی افادیت
سر سبز چھت( جسے روف ٹاپ گارڈن اور لیونگ روف بھی کہاجاتا ہے ) دراصل جزوی یا مکمل طور پرپھول، پودوں سے ڈھکی ایک تہہ ہوتی ہے۔ عام طور پر پودوں کو واٹر پروف مواد (برتنوں یا کنٹینرز) میں لگا کرچھتوں پر رکھا جاتاہے۔ اگر اپنے اردگرد نظر دوڑائی جائے تو عمارتوں کی چھتیں عموماً سادہ دِکھائی دیتی ہیں۔ تاہم سرسبز چھتوں سے حاصل ہونے والے فوائد کے پیش نظر چند سالوں کے دوران ہی دنیا بھر میں ان کی مقبولیت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سر سبز چھتیں نہ صرف حیرت انگیز طور پر گھر کی خوبصورتی میں اضافے کا سبب بنتی ہیں بلکہ ماحول دوست مکانات کی تعمیر کا خواب پورا کرتے ہوئے گھر کو فطرت سے ہم آہنگ کردیتی ہیں۔ سر سبز چھتیں بہترین انتخاب کیوں ؟ اگر آپ سر سبز چھت کی منصوبہ بندی درست طریقے سے کررہے ہیں تو یہ کئی فوائد کا باعث بن سکتی ہے، مثلاً ٭ سبز چھتیں آلودگی اور اسموگ کو کم کرنے میں معاون و مدگار ثابت ہوتی ہیں۔ ٭ پودوں سے ڈھکی چھتیں ہوا میں شامل ہونے والے دھول مٹی کے ذرات کو اپنی طرف کھینچتی ہیں یعنی یہ عمل ایک طرح سے ہو ا کو فلٹر کرنے کا کام انجام دیتا ہے۔ دوسری جانب پودوں کے فوٹو سنتھیسز کے عمل سے ہمیں معیاری آکسیجن بھی اپنے اندر اتارنے کو ملتی ہے۔ ٭ روایتی سیاہ اور ٹار کی چھتوں کے برعکس سرسبز چھتیں گرم ہوا کو جذب کرکے عمار ت کے لیے قدرتی موصلیت فراہم کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ نیشنل ریسرچ کاؤنسل آف کینیڈاکی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے نتائج کےمطابق چھ انچ چوڑی سر سبز چھت موسم گرما میںتوانائی کی طلب کو 75فیصد سے زیادہ کم کرسکتی ہے۔ اس سے ایئرکنڈیشنر کے استعمال میں کمی کے ساتھ فضائی آلودگی اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں بھی کمی آتی ہے ۔ ٭ ایک اندازے کے مطابق چھت پر فارمنگ کے ذریعے موسمی اثرات سے بچا جاسکتا ہے یعنی درجہ حرارت میں 3.6سے 6.11سینٹی گریڈ تک فرق لایا جاسکتا ہے اور جب پودوں کی وجہ سے چھتوں کا درجہ حرارت کم ہوگا تو ہمیں کم توانائی درکا ر ہوگی اور بجلی کا بل بھی کم آئے گا۔ ٭ سبز چھت بارش کے پانی کی بیشتر مقدار اپنی مختلف تہوں کی مدد سے روکے رکھتی ہے اور بارش کا پانی تیزی سے (سیلابی ریلے کی طرح) نہیں نکلتا، اس طرح سے نہ تو نکاسی کا نظام متاثر ہوتا ہے اور نہ ہی نکاسی کے راستے اوور فلو ہوتے ہیں۔ زیر غور نکات آب وہوا اور دستیاب پانی کی سہولت کو پیش نظر رکھتے ہوئےسر سبز چھت کے لیے ایسے پودوں کا انتخاب کیجیے جو برسات کے موسم میں بہت زیادہ پانی اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، ساتھ ہی پانی کی کمی کو بھی برداشت کرسکیں۔ اس کے علاوہ جن پودوں کی جڑیں نوکیلی اور سخت ہوں (مثال کے طور پر بیمبو)، انہیں لگانے سے بھی گریز کیا جائے کیونکہ نوکیلی جڑیں آپ کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہیں۔ سر سبز چھتوں کی اقسام سر سبز چھتیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک قسم میں چھتوں کے لیے ایسے پھول پودے لگائے جاتے ہیں جن کو زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت نہیں ہوتی، ان کی صفائی ستھرائی کے ساتھ ساتھ نگہداشت بھی آسان ہوتی ہے۔ اسے extensive گرین روف کہتے ہیں۔ دوسری قسم کوintensive گرین روف کہا جاتا ہے، جو کہ باغبانی کاقدرتی انداز ہے۔ اس میں چھت پردرخت، جھاڑیاں اور پودے لگائے جاتے ہیں۔ اس کی تیاری میں کافی وقت لگتا ہے جبکہ روزانہ کی بنیاد پر دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے۔ جدید طرز کے گھر جدید طرز کے گھروں میں ہموار چھت کے بجائے سر سبز چھت خوردنی جڑی بوٹیوں، سبزیوں اور پھلوں کو اُگانے کے ساتھ ساتھ پُربہار لمحات گزارنے کی غرض سے بھی بہترین ہوتی ہے۔ سر سبز چھت کے لیے آپ کو باقاعدہ طور پر حکمت عملی بنانی پڑتی ہے جس کے لیے کسی معمار یا آرکیٹیکٹ کی مدد حاصل کرلی جائے تو بہت اچھا ہے۔ پیشہ ور ماہرین آپ کو مشورہ دیتے ہیں کہ آیا آپ کے گھر کا بنیادی ڈھانچہ سرسبز چھت کے لیے موزوں ہے یا نہیں ؟ دوسری جانب ان پودوں کے صحت مند رہنے کے لیے آپ کی بھرپور توجہ اور دیکھ بھال کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ چھت رنگین بنائیں چھت میں چھوٹے موٹے اضافے سے آپ پوری عمارت کا نقشہ تبدیل کرسکتے ہیں۔ اس آئیڈیا کے تحت تعمیراتی ماہرین چھت کے لیے ایک ہی رنگ کے پودے لگانے کے بجائے مختلف اور خوبصورت رنگوں سے مزین پھول پودوں کے انتخاب کا مشورہ دیتے ہیں۔ لہٰذا منصوبہ شروع کرنے سے پہلے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کون سے پودے استعمال کریں گے۔ جگہ کے حساب سے پودوں کا سائز دیکھنا بھی اہم ہے۔ بہت ساری اقسام کے پودوں اور جھاڑیوں کو آپس میں نہ ملائیں کیونکہ اس سے توازن بگڑ جاتا ہے۔ چھت پر گھاس کی تہہ گھاس سے بھری سر سبز چھت بنانے کے لیے تعمیراتی ماہرین سنگاپور میںجی یو زیڈ آرکٹیکچر کا ڈیزائن کردہ اسکائی گارڈن ہاؤس بطور مثال پیش کرتے ہیں، جو کہ دو سطحی گھاس پر مشتمل ہے۔ گھر میں دو سطحی چھت بنانے کے لیے لمبائی والی جنگلی گھاس کا انتخاب ایک عام اور روایتی گھر کو انفرادیت بخشتا ہے۔ یہ گھاس 80فیصد بارش کے پانی کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
لیونگ روم کو خوبصورت بنانے کے طریقے
چھوٹے لیونگ روم کو بدلنے اور اس میں جدت لانےکے لیے آپ کو چنداں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی اچھوتا خیال ذہن میں نہ کوندے تو آپ اپنے لیونگ روم کو خوبصورت بنانے کے لئے جمالیاتی (Asthetic) فرنیچر استعمال کرنے کے بارے میں بھی سوچ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ آسان ڈیزائنز کا انتخاب کرکے کمرے میں مزید گنجائش بھی نکالی جاسکتی ہے۔ لیونگ روم کے لیے درست اشیا کا انتخاب کرنے کے بعد انھیں منظم کرکے یا ترتیب سے سجا کر آپ اپنے لیونگ روم کو متاثر کن بنا سکتے ہیں۔ عمدہ لائٹنگ، رنگوں کے انتخاب اور اچھوتے اسلوب سے آ پ اپنے مہمانوں کو دنگ کرسکتے ہیں۔ تاہم اکثر لوگ لیونگ روم کے انداز کے حوالے سے مخمصے کا شکار ہوتے ہیں اور وہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ اسے کیسا ہونا چاہئے۔ اس ضمن میں ایک انٹیریئر ڈیزائن کمپنی نے 9 لاکھ 16 ہزار 645لیونگ رومزکے ڈیزائن کا تجزیہ کیا اور اعداد شمار کے ذریعے لیونگ روم کے سب سے مشہور انداز جاننے میں کامیاب ہوگئے۔ مثال کے طور پر 21.72٪ فیصد لیونگ روم میں روایتی انداز پایا گیا، جو مقبولیت کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر تھا۔ لیونگ روم کے انداز کے حساب سے شرح کچھ یوں ہے۔ ہم عصر (29.09فیصد)، روایتی (21.72فیصد)، عبوری (13.49فیصد)، جدید (11.83فیصد)، الیکٹرک (5.45فیصد) دیہی (3.08فیصد)، بیچ اسٹائل (2.68فیصد)، میڈیٹیرین (1.93فیصد)، کرافٹس مین (1.92فیصد)، اسکینڈےنیوین (1.87فیصد) فارم ہاؤس (1.81فیصد)، مڈسنچری (1.60فیصد)، صنعتی (0.97فیصد)، ایشین (0.95فیصد)، ٹروپیکل (0.61فیصد) ،شیبی چِک اسٹائل( 0.3فیصد)، وکٹورین (0.35فیصد) اور جنوب مغربی (0.28فیصد)۔ آپ ان انداز کو انٹرنیٹ کے ذریعے سرچ کرکے اپنے لیونگ روم کو وہی روپ دے سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی لیونگ روم کو اچھوتا اور منفرد انداز دینے کے لیے چند مشورے حاضر ہیں۔ رنگوں پر زور لیونگ روم میں آپ فرنیچر کے اثر کو بڑھانے اور اشیا کے مابین امتزاج پیدا کرنے کے لیے کچھ خاص رنگوں کا استعمال کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر لیونگ روم میں گلابی رنگ کے صوفے اور کشن ہیں تو اس کی دیواروں پر بھی گلابی یا اس سے ملتا جلتا رنگ کروائیں یا پھر ایسے وال پیپرز کا استعمال کریں، جس سے کمرے کی خوبصورتی اُبھرے۔ فرنیچر جس طرح فرنیچر کی مناسبت سے دیواروں کا رنگ منتخب کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے، اسی طرح آپ لیونگ روم کے رنگ کے حساب سے فرنیچر کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ فرنیچر خوبصورت ہونے کے ساتھ کم جگہ گھیرنے والا ہونا چاہیے تاکہ آپ کا لیونگ روم کشادہ دکھائی دے۔ مختلف رنگوں کا امتزاج اور ان کا دانشمندانہ استعمال کمرے کی کشادگی کی وجہ بنتا ہے۔ روشنی کا عمدہ انتخاب رنگوں کی طرح عمدہ روشنی اور اس کے مختلف زاویے بھی کمرے کی دلکشی کو چار چاند لگاتے ہیں۔ کمرے کے مرکزی حصے میں لٹکتی ہوئی سادہ روشنی اچھا تاثر پیش کرتی ہے۔ لیونگ روم کو روشن کرنے کیلئے ایسی لائٹس کا انتخاب کریں جو آنکھوں کیلئے سکون کا باعث ہوں ۔ آرٹ ورک کسی ایک دیوار کو اگر آپ آرٹسٹک لُک دے دیںتو اس سے آپ کے لیونگ روم میں ایک نئی دلکشی پیدا ہوجائے گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کسی ایک آرٹ ورک کو دیوار پر لٹکا دیں بلکہ اس سے مراد ہے کہ آپ پوری دیوار کو استعمال کرتے ہوئے اسے مختلف قسم کے آرٹ ورک سے متاثر کن بنائیں۔ دلچسپ بیک ڈراپ کسی مخصوص دیوار کو پینٹ کرنے یا کسی دیوار پر دلچسپ بیک ڈراپ لگانے سے آپ کا لیونگ روم ایک ڈرامائی شکل اختیار کرجائے گا۔ کوشش کریں کہ بیک ڈراپ کسٹمائزڈ ہو یعنی آپ جب چاہیں اسے آپ تبدیل کرلیں، اس طرح آپ یکسانیت کی وجہ سے اکتائیں گے نہیں اور آپ کے مہمان بھی ہر کچھ عرصے بعد بیک ڈراپ کی تبدیلی دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔ تھیم بنائیں کلاسیکی لحاظ سے ڈیزائن کیا ہوا کمرہ کسی موضوع پر بھی مبنی ہوسکتا ہے۔ کچھ انوکھا کرنا ہو تو گہرے رنگ کی اسکیم اور روشنی کے مختلف ذرائع لیونگ روم کو اچھوتا بنا سکتے ہیں۔ آرائشی سامان کے مختلف انداز اور رنگوں کے امتزاج سے کسی بھی چھوٹی سی جگہ کو کشادہ محسوس کروایا جاسکتا ہے۔ آئینوں کا استعمال کمرے کو کشادہ دکھانے کا ایک بہترین طریقہ وہاں آئینے کی تنصیب ہے۔ لیکن لیونگ روم میں بڑے آئینے لگانے کے بجائے کیوں نہ ایسے آئینے لگائے جائیں جو نہ صرف حیرت انگیز نظر آئیں بلکہ جگہ کی توسیع کا بھی احساس پیدا کریں۔ میگزین ریکس اگر آپ میگزین پڑھنے کے شوقین ہیں تو یقیناً انھیں سنبھال کر رکھنے کے مسئلہ کا بھی سامنا ہوگا۔ میگزین کو ادھر ادھر بکھرنے سے بچانے کے لیے انھیں سائڈ ٹیبل یا کافی ٹیبل کے نچلے حصے میں رکھ دیں۔ آجکل دلکش ڈیزائن والے میگزین ریکس بھی دستیاب ہیں جو اسٹوریج کے ساتھ ساتھ آپ کے کمرے کی خوبصورتی بڑھاتے ہیں۔ کتابوں کی الماری اگر آپ کے پاس فرش سے چھت تک جانے والی کتابو ں کی الماری ہے تو یہ بہت زبردست انداز میں ڈھالی جاسکتی ہے اور آپ اسے عمدگی سے منظم کر سکتے ہیں۔ اگر ایسی الماری نہیں ہے تو آپ بنوا بھی سکتے ہیں اور اس کے مختلف خانوں میں کتابوں کے ساتھ ساتھ آرائشی اشیا بھی رکھ سکتے ہیں۔
محدود جگہ پر سجاوٹ کے طریقے
جس طرح گھر کی تعمیر میں گارے اور مٹی کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح اسے خوبصورت بنانے کے لیے مکین آرائشی اشیا کا استعمال کرتے ہیں۔ البتہ کم رقبے پر بنے گھر کو سجانا مشکل سمجھا جاتا ہے۔ درحقیقت چھوٹی جگہ کی سجاوٹ بھی اتنی ہی آسان ہوتی ہے جتنی کہ بڑی اور کشادہ جگہ کی سجاوٹ کیونکہ دونوں صورتوں میں آرائش و سجاوٹ کے قواعد وضوابط یکساں رہتے ہیں۔ ساتھ ہی آپ کی نگاہ ایسی ہونی چاہیے جو اس بات کا تعین کرسکے کہ کس جگہ پر کیا اچھا لگے گا اور کیا نہیں۔ محدود جگہ پر سجاوٹ ایسی ہونے چاہیے کہ آپ کا گھر خوبصورت لگنے کے ساتھ ساتھ کشادہ اور ہوادار بھی محسوس ہو۔ اضافی روشنی اگر کمرے میں بھرپور روشنی کا انتظام کیا جائے تو ایک چھوٹا سا کمرہ بھی جگمگا سکتا ہے۔ کھڑکی سے کمرے میں داخل ہوتی قدرتی روشنی کے علاوہ اضافی مصنوعی روشنیوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ دور جدید میں گھر میں خوبصورتی لانے کے لیے ہینگنگ لائٹس، اسکونس لائٹس، اسٹرنگ لائٹس اور پینڈنٹ لائٹس کا اضافہ زیادہ مناسب رہتا ہے۔ کونوں میں سامان رکھنا ایسی کوئی وجہ نہیں کہ کم رقبے والے گھروں کے مکین خوبصورت اور بڑے سامانِ سجاوٹ کی خریداری سے اجتناب کریں۔ آپ نے کمرے کی سیٹنگ کرتے وقت بس اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ تمام بڑے سازوسامان کو کمرے کے درمیانی حصے میں رکھنے کے بجائے اطراف میں (چاروں کونوں میں)سیٹ کریں۔ ایسا کرنے سے کمرے کا درمیانی حصہ کھلا کھلا محسوس ہوگا، ساتھ ہی کمرے کی کشادگی بھی برقرار رہے گی۔ دہرے استعمال والا فرنیچر ایک چھوٹے گھر میں فرنیچر سیٹ کرنا گویا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ اس سلسلے میں دُہرے یا کثیر المقاصد فرنیچر پیسے اور جگہ دونوں کی بچت کرسکتے ہیں۔ فولڈ ہونے والا فرنیچر استعما ل کے بعددیواروں یا فرش میں چُھپایا جاسکتا ہے۔ نہایت مختصر سی جگہ پر ضروریات زندگی کا تمام سامان جیسے بیڈ، صوفے، الماریاں اور شیلف بآسانی اس انوکھے ڈیزائن (فولڈنگ) کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کثیر المقاصد فرنیچر دیگر فوائد بھی مہیا کرتا ہے، مثلاً بیڈ کے نچلے حصے اور ٹیبل میں اسٹوریج کی اضافی جگہیں۔ آئینے کا استعمال کسی بھی چھوٹی جگہ کو کشادہ دکھانے کے لیے آئینے کا استعمال اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ گھر میں درج ذیل سجاوٹی انداز سے آئینوں کی تنصیب نہ صرف گھر کو جدید انداز فراہم کرے گی بلکہ اسے کشادہ بھی دکھائے گی۔ ٭ دیوار پر دیدہ زیب آئینوں کی تنصیب سے سامنے والی دیوار کا عکس بڑا اور دلکش دکھاتی ہے۔ ٭ الماری کے دروازے پر آئینہ لگانے سے کمرے کشادہ محسوس ہوتا ہے۔ ٭ باتھ روم میں گلاس ٹائلز کی تنصیب آجکل ٹرینڈ کا حصہ ہے، جو ایک چھوٹی سی جگہ کو بڑا دکھاتی ہے۔ بے ترتیبی سے بچیں ایک چھوٹے گھر کی تزئین وآرائش کے لیے"Less is more"کا تصور عام ہے۔ اگر آپ کے پاس جگہ کم ہے تو سجاوٹ کے لیے صرف ضروری سامان کا انتخاب کریں کیونکہ بعض اوقات سجاوٹ کے چکر میں سامان کی بھرمار کردی جاتی ہے جو گھر کو خوبصورت دکھانے کے بجائے ایک بُرا تاثر دیتی ہے۔ سجاوٹ کے دوران خیال رکھیں کہ فرش پر ڈالے گئے رگس سے لے کر فرنیچر کے انتخاب تک، گھر میں بآسانی چلنے پھرنے اور کشادگی کا احساس برقرار رہے۔ چھوٹے سےگھر میں کشادگی کے احساس کے لیے ضروری ہے کہ اس میں کم سے کم سامان رکھا جائے تاکہ آپ کو اسے ادھر سے ادھر حرکت دینے میں آسانی ہو۔ ساتھ ہی سامان کی تنظیم اور صفائی وغیرہ کے لیے بھی زیادہ جدوجہد نہ کرنی پڑے۔ اسٹوریج کے تخلیقی انداز اسٹوریج کے حوالے سے ایسے بہت سے آئیڈیاز موجود ہیں جن میں اشیا کو اسٹوریج کے ساتھ ساتھ آرائشی اشیا کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ فرنیچر کے لیے ایسی اشیا کا انتخاب کریں جو آپ کو اضافی اسٹوریج فراہم کریں، مثلاً سیڑھی نما شیلف، کافی ٹیبل کے نیچے درازیں اور الگ کیا جانے والا اوپری حصہ، صوفہ کم بیڈ، کچن کے لیے سلائڈ کرنے والے ریکس اور کثیر المقاصد درازیں وغیرہ۔ شوخ رنگ چھوٹے گھروں کو خوبصورت اور ورسٹائل لک دینے کے لیے کمرے کی دیواروں اور سجاوٹی سامان کے لیےشوخ رنگوں، پرنٹس اور ٹیکسچر کا انتخاب کیجیے۔ اگر آپ شوخ رنگوں کے انتخاب کے حوالے سے تھوڑا سا محتاط رویہ اپناتے ہیں تو پھر ہر چیز میں شوخ رنگ استعمال کرنے کے بجائے صرف کشن ، وال پیپر یاپکچر فریم وغیرہ کے لیے شوخ رنگ منتخب کریں۔ اس حوالے سے توازن کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے۔ بڑے قالین عام طور پر چھوٹے کمروں کے لیے قالین یا رگس کے چھوٹے سائز کا ہی انتخاب کیا جاتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ فرش پر بچھا قالین سائز میں جتنا بڑا اور وسیع ہوگا کمرے میں گہرائی اور کشادگی کا احساس اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ اس لیے چھوٹے کمروں کے لیے بڑے سائز کے قالین کا انتخاب کیجیے ۔
گھر کے داخلی راستے کے دلکش انداز
آپ کے گھر کا داخلی راستہ آپ کی رہائش گاہ کے اندرونی حصے تک پہنچنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ دراصل آپ کے گھرکا داخلی راستہ (اینٹرینس) آپ کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔ انٹیریئر ڈیزائننگ کے ماہرین داخلی راستے کے لیے ڈیزائن اور آرائش کی اہمیت پر زور دیتے ہیں کیونکہ یہ آپ کے گھر کا پہلا تاثر پیش کرتا ہے اور اس لحاظ سے اس کا متاثر کن ہونا ضروری ہے۔ آپ کے گھر کا داخلی راستہ ایسا ہونا چاہیے کہ جو بھی مہمان آئے وہ دنگ ر ہ جائے۔ اس کے لیے کون سے اندازاپنائے جاسکتے ہیں، آئیے جانتے ہیں۔ قدرتی تاثر گھر کے داخلی راستے کے لیے قدرتی عناصر کا امتزاج حیرت انگیز کام کرتا ہے۔ ا گر آپ لکڑی یا بانس سے بنا آرائشی سامان اور تازہ پھولوں سے مزین گملے داخلی راہداری کے دونوں طرف لگادیں تو یہ اس جگہ کو قدرتی خوبصورتی اور ماحول عطا کریں گے۔ لکڑی کے دروازےمیں اگر شیشے سے بنے جھروکے ہوں تو وہاں سے باغیچے کا منظر یا اس میں سےچھن چھن کرتی سورج کی روشنی داخلی راستے کو روشن اور دلکش بناسکتی ہے۔ جدید اور کلاسک کا امتزاج آپ اپنے گھر کے داخلی راستے کو جدید اور کلاسک رجحانات کے امتزاج سے بھی مزین کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر داخلی راستے پر آپ کسی جدید طرز کے فریم میں ایک پرانی تصویر لگا سکتے ہیں یا پھر موجودہ عہد کی باتوں اور اقوال پر مشتمل ایک وضع دار ٹیبل لگا سکتےہیں اور بیک ڈراپ میں کوئی تاریخی منظر یا وال پیپر لگا کر اسے منفرد بنا سکتے ہیں۔ بنیادی خیال یہ ہے کہ ایسے عناصر کو ملایا جائے جو بہترین امتزاج سامنے لائیں اور دیکھنے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکیں۔ ایک رنگ کا غلبہ غالب رنگ ہونا ایک اچھوتا خیال ہے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ داخلی دروازے کو سرخ، پیلے یا سبز رنگ میںنہلا دیں۔ مقصد یہ کہ ایک بنیادی رنگ لے کر اس کے مختلف شیڈز سے داخلی دروازے کو سجاناایک اچھا نقطہ آغاز ہو سکتاہے۔ مثال کے طور پر اگر نیلے رنگ کو بنیادی رنگ بنایا جائے تو اس رنگ کے وال پیپرز، آرائشی بیلوں اور قالین کو بھی داخلی راستے کا حصہ بنا دیا جائے۔ سجاوٹ کا یہ انداز ایک دلکش تھیم کو سامنے لاتاہے، جو دیکھنے والوں پر خوشگوار اثر چھوڑتا ہے۔ ریٹرو اسٹائل پرانے یا کلاسک ٹرینڈ یا پرانے زمانے کی یادگار وں کو ریٹرو بھی کہا جاتاہے، جیسے ٹیپ ریکارڈر یا گراموفون آج کے زمانے کے لیے ریٹرو ہیں۔ ریٹرو فرنیچر کا ایک ٹکڑا آپ کے گھر کے داخلی راستے میں نئی جان ڈال سکتاہے، جیسے کہ لالٹین یا لالٹین کی طرز کے لیمپ یا ایک وضع دار اور روشن سائیڈ بورڈ۔ یہ تمام چیزیں آپ کے گھر کے داخلی راستے کو منفرد بنانے کے لیے بہترین ثابت ہو سکتی ہیں۔ روشنیوں کا انتظام گھر کی ڈیزائننگ میں لائٹنگ بہت اہمیت اختیا ر کرجاتی ہے۔ بیرونی حصہ ہو یا اندرونی، ہر جگہ کو روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم گھر کے داخلی راستے کے لیے خصوصی روشنی درکار ہوتی ہے۔ تیز اور ڈیزائنر لائٹس داخلی راستے میں نمایاں نظر آتی ہیں جبکہ لٹکے ہوئے بلب یا فانوس سجے ہوئے دالان میںدلکشی پیدا کرتے ہیں اور خوب روشنی نچھاور کرتے ہیں۔ ایک اور حیرت انگیز خیال آئینے کے استعمال کا بھی ہے جو روشنیوں کو منعکس کرتے ہوئے پورے داخلی راستے کو منور کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ فلیوڈ اسٹائل ہائیڈرولک ٹائلیں ان کے امتزاجی نمونوں کے ساتھ اچھا لُک دے سکتی ہیں۔ اگر یہ داخلی دروازے اور دالان کے فرش کے ساتھ ساتھ دیوار پر بھی استعمال کی گئی ہوں تو اس سے داخلی راستے کو جمالیاتی حسن مل جاتاہے۔ کلاسیکل ٹیبل اگر آپ داخلی راستے میں ٹیبل لگانے کے لیے کچھ کلاسیکل انداز اپنانے کا سوچ رہے ہیں تو سیاہ رنگ کی لکڑی سے تیار کی گئی سادہ سی کونسول ٹیبل ایک دلچسپ انتخاب ثابت ہو گی۔ اس ٹیبل کو آپ داخلی راستے کی کسی بھی سائڈ پر رکھ سکتے ہیں اورٹیبل کی سجاوٹ کے لیےہلکے وزن کی لکڑی کے فریم میں نصب آئینہ، دو عدد چھوٹے مرر ٹیبل، ا ن پر رکھے گلدان اور ایک عدد پکچر فریم کا انتخاب آپ کے گھر کے داخلی راستے کی رونق میں اضافہ کرے گا۔ اینٹیک اشیا فرنیچر کا ایک پرانا یا دریافت شدہ پیس سجاوٹ کا نظریہ بدل سکتاہے یا پھر دوسرے لفظوں میں یہ داخلی راستے میں ایک نیا پن لاسکتا ہے۔ نیلے یا کتھئی رنگ کا صوفہ دلکش انداز میں داخلی راستے یا دالا ن کو نیا انداز دے سکتا ہے۔ آرٹ پیس کے ساتھ ملانے والی کرسیاں، تازہ پھول، چمکنے والی موم بتیاں اور دورِحاضر کے دیواری فریم خوبصورتی سے داخلی راستے کو پُرکشش بنادیں گے۔ بیم کی خوبصورت تھیم ایک بڑے داخلی ہال میں خوبصورت بیم والی چھت ہو تو یقین کریں یہ آپ کے گھر کے دالان اور داخلی راستے کو بھی چار چاند لگا دے گی۔ لکڑی کے بیم سے سجی چھت کی طرح اگر داخلی راستے میں اسی لکڑی یا رنگ کی سائڈ ٹیبل اور دو کرسیاں رکھی ہوں تو یہ ایک دوسرے کو کمپلیمنٹ کریں گی۔
بیڈ روم کی سجاوٹ .... آپ کے برج کے مطابق
ہر کسی کو اپنے برج کے مطابق اپنی شخصیت جاننے کا اشتیاق ہوتاہے۔ برج سے وابستہ اسرار صرف خوبیوں اور خامیوں کیلئے ہی نہیں بلکہ رہن سہن، کیریئر اور انسان سے متعلق دیگر چیزوں کیلئے بھی ہوتے ہیں۔ اسی لئے وہ قارئین جو اپنےبیڈ روم کی سجاوٹ اپنے برج کے مطابق کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے کچھ مشورے ہیں۔ اس سے قبل ہم آپ کو آٹھ بروج کے مطابق بیڈروم کی تزئین و آرائش کے حوالے سے آگاہ کرچکے ہیں۔ آج ہم مزید چار بروج کا ذکر کرنے جارہے ہیں۔ سنبلہ (Virgo) برج سنبلہ کے حامل افراد دوسروں کے ساتھ مستحکم، قابل انحصار اور مفاہمت کے ساتھ کام کرتے ہیں، لیکن اپنی ذات میں گم رہنے کے باعث اپنے جذبات کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ یہ لوگ سمجھدار، خوش طبع اور شائستہ ہوتے ہیں، اس لیے بیڈر وم کی آرائش میں بھی شائستگی اور نفاست جھلکتی ہے۔ کتابوں سے ان کی دوستی ہوتی ہے، اسی لیے ان کے بیڈروم میں کتابوں کا چھوٹا سار یک ہونا ضروری ہے۔ یہ معمولی کمی یا کوتاہی بھی برداشت نہیں کرتے۔ ان کا کمرہ آر ٹ کا عمدہ نمونہ ہوتاہے۔ ان کے کمرے کا لیمپ ، رنگ اور پورا ماحول اورگینک محسوس ہوتاہے۔ آپ کے رنگ: ہلکے نیلے ، سبز ، کریم اورسفید میزان (Libra) آپ ہمیشہ سوچ ، عمل اور ماحول کے مابین تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ جس سے بھی ملتے ہیں اسے اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں اور ہر ایک سے اچھے تعلقات قائم کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ یہ خوش مزاج لوگ ہوتے ہیں اس لئے ان کا بیڈ روم بھی دلکش اور دیدہ زیب دکھائی دیتا ہے۔ یہ جدید رحجانات اپنانے کے ساتھ ساتھ کلاسک کوبھی نہیں بھولتے اور کوشش کرتے ہیں کہ دونوں کا حسین امتزاج بنا دیں۔ ان کے کمرے میں لگے پردے سب سے زیاد ہ مرکز نگاہ ہوتے ہیں اور ان کا کمرہ ہر وقت مہک رہا ہوتاہے۔ آپ کے رنگ: پیسٹل ، ہلکا سبز اورنیلا عقرب (Scorpio) اس برج کے حامل افراد پراسرار شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور خاموش لائٹنگ میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ یہ خوش مزاج اور جذباتی بھی ہوتے ہیں، لیکن غیرسنجیدگی اور لاپروائی نہیں برتتے۔ عقرب چونکہ پرائیویسی کے دلدادہ ہوتے ہیں، اس لئے روشنی کو مدھم رکھتے ہیں، لیکن سورج کی کرنیں اندر آنے دیتےہیں اوریہی پراسراریت آپ کی شخصیت کا حصہ ہے۔ آپ کے کمرے میں ایک آدھ دیوار یا فرنیچر بہت گہرے رنگ یا دو آتشی رنگ کا ہوسکتاہے، لہٰذا گہرے رنگ کے مخملی کپڑے سے بنے پردے یا بیڈ شیٹ آپ کے کمرے کو آپ کیلئے پرکشش بنائیں گے۔ آپ کے رنگ: شوخ نارنجی ، سرخ ، برگنڈی اور سیاہ قوس (Sagittarius) یہ تفریح کرنے کے دلدادہ اورگھلنے ملنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ اس برج کے حامل افراد عموماً نت نئے تجربات، نئی معلومات کے حصول اور نئے مقامات کو کھوجنے کا شوق رکھتے ہیں۔ اپنی آزادی کی راہ میں کسی چیز پر سمجھوتہ نہیں کرتے ، یہ صاف گو اور اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ اسی لیے ان کا بیڈروم بھی راحت سے بھرپوراور رنگوں سے سجا ہوتاہے۔ یہ بڑے اور نرم وگداز تکیوں اور آرام دہ میٹرس پرخوب دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ آپ کے رنگ: قوس قزح کے رنگ یا ان میں سے کوئی ایک شیڈ ، خاص طورپر ہلکا جامنی یا اسی رنگ میں نیلا شیڈ
روایتی طرز کے مکان میں جدت کیسے لائی جائے
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جدید، دلکش اور تمام سہولیات سے آراستہ رہائش ضرورت بنتی جارہی ہے۔ جدید طرز رہائش مکینوں کو پُرسکون ماحول فراہم کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ آجکل مکانات اور اپارٹمنٹس کی تعمیر میں جدید سہولتوں کی فراہمی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے جبکہ خریدار بھی ایسے مکان یا اپارٹمنٹ کی خریداری میں زیادہ دلچسپی دکھاتے ہیں۔ یہ تو بات ہوگئی نئی تعمیرات کی مگر اس مکان کا کیاجس میں آپ برسوں سے رہائش پذیر ہیں یا پھر آپ نے کوئی ایسامکان خریدا ہے جو پرانے طرز پر بنا ہے؟ اگر آپ کے ساتھ ان دونوں میں سے کوئی بات ہے تو آپ روایتی طرز پر بنے مکان کو ذیل میں دیے گئے چند خاص اصولوں پر عمل کرتے ہوئے بآسانی جدید سہولتوں والے مکان میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ ڈی کلٹرنگ ایک روایتی مکان کو جدید بنانے کا سب سےآسان طریقہ ڈی کلٹرنگ ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے گھر کے تمام سامان مثلاً آرائشی اشیا، وال پینٹنگز اور مصنوعی پھول پودوں پر ایک نظر ڈالیں۔ اس سامان میں سے ان چیزوں کو علیحدہ کرلیں جن کا فیشن کسی دور میں بھی پرانا نہیں ہوتا مثلاً دھات کی بنی آرائشی اشیا۔ باقی رہ جانے والے سامان میں سے ہوریزونٹل (اُفقی ) سطح والا سامان نکال دیں کیونکہ جدید طرز کے گھر میں یہ آؤٹ آف فیشن تصور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح آپ کو کچن کیبنٹس میںآرائشی اشیا رکھنے کی ضرورت نہیں، لہٰذا وہاں موجود تمام آرائشی اشیا کو ایک بڑے سے کنٹینر میں رکھ کر محفوظ کرلیں۔ ڈی کلٹرنگ کے دوران ایک بات کا خاص خیال رکھیں کہ کسی ایک کمرے میں تمام فرنیچر سیٹ کرنے کے بجائےاس فرنیچر کو مختلف کمروںمیںسیٹ کریں۔ یہ عمل آپ کے گھر کو ایک نیا لک دینے میں مددگار ثابت ہوگا۔ شوخ رنگ ڈی کلٹرنگ کے بعد دوسرا مرحلے میں یہ دیکھیںکہ کمروں یا کچن کی دیواروںسے پلستر تو نہیں اتر رہا یا باتھ روم کے ٹائلز اتنے خراب تو نہیں ہو رہے کہ انہیں بدلنے کی ضرورت ہو۔ جن چیزوں کی مرمت کرنا مقصود ہو اسے کروالیں ۔ مرمت کے کام سے فراغت کے بعد گھر کےرنگ وروغن پر توجہ دیں۔ اگر آپ کا بجٹ اجازت دے تو پورے گھر میں رنگ و روغن کروالیں لیکن اگر ایسا نہ کرسکیں توہر کمرے کی ایک دیوار پر شوخ رنگ کروائیں۔ کمرے کی دیوار پر شوخ یا گہرے رنگ کے ذریعے آپ اپنے کمرے کو بہت زیادہ پیسے خرچ کیے بغیر خوبصورت اور منفرد بناسکتے ہیں۔ چھت کی آرائش ماضی میں دیواروں کی سجاوٹ ایک مقبول ٹرینڈ تھا لیکن عصر حاضر میں دیواروں کے لیے وال پیپر جبکہ کمرے کی چھتوں کے لیے مخصوص آرائشی ٹرینڈز پر عمل کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے فالس سیلنگ ٹرینڈ میں ہے لیکن اس کے لیے اچھا خاصا بجٹ ہونا ضروری ہے۔ تاہم برطانوی انٹیریر ڈیزائنر ایلیسا کے لیونگ روم کی سیلنگ ڈیکوریشن اس حوالے سے آپ کی رہنمائی کرسکتی ہے۔ ایلیسا نے اپنے لیونگ رو م کی چھت کو پینٹ کروانے کے بعد اس کی سجاوٹ کے لیے ایک خوبصورت دھاتی اسٹائل والا فانوس نصب کیا ہے، جو لیونگ روم میں داخل ہوتے ہی جدت کا احساس دلاتا ہے۔ فن پارے مہمانوں کو اپنے اعلیٰ ذوق سے متاثر کرنے کے لیے آپ گھر میں اپنے پسندیدہ فن پارے لگاکر ان سے داد وصول کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کا بجٹ اجازت دے تو آپ روایتی رنگین اور پُرتکلف فن پاروں کی جگہ لیونگ رو م اور بیڈروم کی دیواروں کے لیے جدید مگر سادہ فریمنگ پر مشتمل ٹرینڈی آرٹ ورک کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ آرٹ ور ک یا وال ہینگ کے لیے گولڈن کلر کا انتخاب کریں کیونکہ یہ رنگ گھر کے جس کسی بھی حصے میں ہو تو اسے شاہانہ انداز فراہم کرتا ہے۔ کیبنٹس پر رنگ وروغن کچن میں خواتین کا سب سے زیادہ وقت گزرتا ہے، لہٰذا اس کا جدید ہونابھی ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے کچن کی مکمل طور پر تزئینِ نو کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ پرانے کیبنٹس پر رنگ وروغن کے ذریعے بھی اپنے روایتی کچن کو ایک جدید کچن میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ کیبنٹس پر رنگ وروغن کے لیے کسی ایک کے بجائے مختلف رنگوں کا انتخاب کیجیے مثلاً لال، سیاہ اور سفید۔ ان تین رنگوں کا خوبصورت امتزاج کچن کو کچھ جدا اور دلکش دکھانے کے لیے بہترین ہے۔ کیبنٹس کو مزید خوبصورت بنانے کے لیے آپ ان کے پرانے ہینڈلز کو دیدہ زیب میٹل والے ہینڈلز سے تبدیل کرسکتے ہیں۔ باتھ روم میں جدت ایک جدید طرز کے باتھ روم میں اسٹائل اور ہم آہنگی پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ بیسن اور باتھ ٹب سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے لوازمات تک اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ہر چیز باتھ روم کو ایک جدید اندازدے۔ باتھ روم میں جدت لانے کے ایک نہیں کئی طریقے موجود ہیں، آپ نہانے کی جگہ کو علیحدہ کرنے کے لیے ایک خوبصورت دیوار کا اضافہ بھی کرسکتے ہیں، جس کے لیے ان دنوں گلاس ٹائلز ٹرینڈ کا حصہ ہیں۔ دوسری جانب ایک چھوٹی کیبنٹ (Vanity cabinet)بھی باتھ روم میں نصب کروائی جاسکتی ہے۔ باتھ روم کی کسی ایک دیوار پر مستطیل یا ڈائمنڈ شیپ کے ٹائلز لگاکر اسے جدید انداز دیا جاسکتا ہے۔ ایک آخری اور اہم بات یہ کہ گھر کی اندرونی سجاوٹ و تبدیلی کے دوران بیرونی حصے کی خوبصورتی پر توجہ دینا بھی بے حد ضروری ہے۔ اس مقصد کےلیے گھر کے بیرونی حصے کے لیے خوبصورت اور ٹرینڈی رنگوں کا انتخاب کریں۔
برج کے مطابق اپنا بیڈروم سجائیں
چند روز قبل ہم نے بیڈروم کی سجاوٹ کے حوالے سے چار بروج کے بارے میں آپ کو بتایا تھا کہ اپنے برج یا اپنی شخصیت کے مطابق بیڈروم کیسے سجایا جاسکتا ہے۔ آج ہم مزید چار برج کا ذکر کرنےجارہے ہیں۔ ان بروج سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے بیڈروم کی آرائش و سجاوٹ حتیٰ کہ کمرے کا رنگ و روغن بھی اپنے برج کے مطابق کرسکتے ہیں۔ آئیے ان اقدامات کے بارے میں جانتے ہیں جن کے تحت بیڈر وم کی موزوں ترین آرئش کی جاسکتی ہے۔ برج ثور (Taurus) آپ جانتے ہیں کہ آپ کیا پسند کرتے ہیں اور آپ اپنا خیال بدلنے والے نہیں۔ آپ کے بیڈ روم میںامارت اور زندگی سے بھرپور عمدہ چیزوں کی عکاسی ہونی چاہئے، یعنی آپ کا بیڈروم کسی محل جیسا ہونا چاہئے۔ آپ ہر چیز میں خوبصورتی کو مد نظر رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ باریک کام والے پردوں اور اپنی پسند کے مطابق بستر کے حصول کیلئے جیب کو بھی نہیں دیکھتے لیکن زیادہ اصراف سے بچنا ضروری ہے۔ ایک عمدہ لکڑی سے بنا بیڈ،اس پر ریشمی چادریں اور ڈھیر سارے نرم و گداز تکیے آ پ کے بیڈر وم کو چار چاند لگا دیں گے۔ آپ کے رنگ: گلابی اور زمین جیسا بھورا برج جوزا (Gemini) آپ خوبصورت اور ٹرینڈی چیزوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب تک لوگوں میں کسی خاص ٹرینڈ کا چرچا رہتا ہے، آپ اسے اپنائے رکھتے ہیں، اور پھر کوئی نیا ٹرینڈ اپنا لیتے ہیں۔ آپ کو اگر کوئی ڈیزائن پسند آ جائے توپھر اس کے خلاف جانا مشکل ہوجاتاہے۔ آپ کا انداز یقینی طور پر ’’آجکل کیا Hotہے‘‘ والا ہوتاہے اور خوش قسمتی سے آپ کاذوق بھی بہت عمدہ ہے۔ آپ اپنے بیڈ روم کی آرائش کے متعلق بہت سوچتے ہیں۔ آپ کا بیڈ روم زیادہ تر ماڈرن اور واضح جیومیٹرک لائنز پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ آپ کے بیڈ کی دونوں جانب جدید انداز کے اسٹینڈ رکھے ہوتے ہیں ۔ آپ کے رنگ: ہلکا پیلا ، سبز اور نیلا سرطان (Cancer) آپ اپنی موجودگی دوسروں پر غلبہ پائے بغیر ہی ظاہر کرتے ہیں، یعنی آپ زیادہ تر اپنے خول میں رہتے ہیں اور اپنی پرائیویسی میں کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتے ۔ حیرت انگیز طور پر آپ حساس ہوتے ہیں اور دوسروں کے احساسات کو بھی بخوبی سمجھ لیتے ہیں۔ آپ صرف وہی چیزیں چاہتے ہیں جو آپ کے بیڈروم میں زندگی بکھیر دیں۔ آپ چونکہ بہت حساس طبیعت کے مالک ہیں، لہٰذا سورج کی روشنی روکنے کیلئے اپنے کمرے کی کھڑکیوں پر پردے لٹکانا ہرگز نہ بھولیں۔ ساتھ ہی خاندانی تصویروں کے لئے ایک مخصوص جگہ مختص کریں۔ آپ کے رنگ: سفید ، موتیوں جیسا رنگ یا پیلا اور زرد ی مائل اسد (Leo) آپ کو اپنی رائے زنی پر بہت فخر ہے اور توجہ کا مرکز بننے میں بھی آپ برا نہیں مانتے۔ درحقیقت، آپ چاہتے ہیں کہ ہر کوئی آپ کی شخصیت کا اسیر بن جائے۔ شیر کی علامات والے برج کا حامل ہونے کےباعث آپ کو دبدبہ پسند ہے، اسی لیے آپ کے بیڈر وم کی دیواروں کے رنگ بہت گہرے اور غالب ہوتے ہیں۔ جامنی، گہرے سرخ یا سورج کی طرح گہرے زرد رنگ کو اپنے بیڈروم کی دیواروں پر پینٹ کروائیں، جس کےبعد ایسا لگے گا کہ آپ کی دیواریں سونے جیسی یا شیر کے رنگوں کی طرح چمک رہی ہیں۔ آپ کے رنگ: مالٹا، پیلا ، سرخ اور جامنی رنگ یا پھر سورج جیسا چمکیلا
عمدہ وارڈروب کیسے ترتیب دی جائے
وارڈروب کی بہتر انداز میں ترتیب منیملسٹ لائف اسٹائل کو عملی جامہ پہنانے والے بنیادی نکات میں سے ایک ہے۔ اس حوالے سے کئی عوامل زیر غور آتے ہیں مثلاً ڈی کلٹرنگ ،آرگنائزنگ،تعداد کے بجائے معیار پر توجہ، پسند کی چیزوں کا انتخاب اور استعمال، ضرورت سے زیادہ اور غیر ضروری اشیا کی خریداری میں کمی یا جو اشیا آپ کے پاس موجود ہیں ان کی قدر وقیمت کا اعتراف وغیرہ۔ انٹیریئر ماہرین وارڈروب کی تیاری اور ترتیب کو ملین ڈالر سوال تسلیم کرتے ہیں۔ تو آئیے آج کی تحریر میں جانتے ہیں کہ ایک عمدہ وارڈروب کی تشکیل کیسے کی جائے۔ وارڈروب کا فنکشنل ہونا: آپ کا لائف اسٹائل چاہے جو بھی ہو ایک بہترین وارڈروب وہی کہلاتی ہے جس میں موسم اور فیشن کی مناسبت سے وہ تمام چیزیں موجود ہوں جو آپ پہننا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر وارڈروب میں صرف ایک ہی اسٹائل کے کپڑے ہوں گے تو یقیناًیہ قطعی کارآمد نہیں کہلائے گی۔ اشیا کا ورسٹائل ہونا:آپ انفرادی اشیا کوایک سے زائد طریقوں سے استعمال کرتے ہوئے آؤٹ فٹ اسٹائل کا حصہ بنا سکتے ہیں کیونکہ تمام چیزیں ایک ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔ لہٰذا اپنی وارڈروب میں تمام ضروری اشیا کو ترتیب سے رکھیں۔ شخصیت کا آئینہ دار: کہتے ہیں کہ انسان کا لباس اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے اور لباس کو منظم طریقے سے رکھنے کے لیے وارڈروب ہی سب سے بہتر جگہ ہوتی ہے۔ آؤٹ فٹ کے لیے رنگوں کا انتخاب آپ کی شخصیت اور جمالیاتی ذوق کا مظہر ہوتا ہے۔ برٹش انٹیریئر ڈیزائنر کے مطابق آؤٹ فٹ کے لیے ان کا انتخاب سادہ (Simple)لیکن کچھ ٹوئسٹ کے ساتھ ہوتا ہے، اس ٹوئسٹ کے لیے ڈیزائنر چند ایک رنگوں (گرے، بلیک، ڈسٹ پنک اور نیوی بلیو) کا ہی انتخاب کرتے ہیں۔ معیاری: آؤٹ فٹ سلیکشن کےلیے کوالٹی پر کمپرومائز کبھی بھی نہ کریں کیونکہ یہی کوالٹی آپ کی وارڈروب کو آنے والے 3سے5سال کے لیےتیار کرتی ہے۔ ضروری مشورے وارڈروب کی ترتیب کے حوالے سے کچھ ضروری مشورے ذیل میں دیے جارہے ہیں۔ انتخاب:آپ کی وارڈروب ایسے کپڑوں اور ایسیسریز سے بھری ہونی چاہیے جنہیں آپ محض ایک یا دو نہیں بلکہ 100فیصد پسند کریں۔ مقصد یہ کہ کپڑوں یا فیشن ایسیسریز سے بھری الماری ایسی ہونی چاہیے جسے کھولتے ہی آپ پُرجوش ہوجائیں، جو آپ سمیت کسی کو بھی متاثر کرسکے۔یاد رکھیں آپ کی وارڈروب میں موجود ایک ایک چیز آپ کی پسند نا پسند کے اظہار کا ذریعہ ہوتی ہے، لہٰذا اسے اپنے معیار کے مطابق مرتب کریں ۔ تعداد کے بجائے معیار: زیادہ کپڑوں کی خریداری کے چکر میں کبھی بھی معیار پر سمجھوتا نہ کیجیے، ہمیشہ ایسے کپڑوں یا ایسیسریز کا انتخاب کیجیے جو معیاری ہوں، تاکہ ایک دو سیزن کے مقابلے میں وہ زیادہ عرصہ چل سکیں۔ اگر آپ غیر معیاری چیزوں کا انتخاب کرتے ہیں تو وہ آپ کی شخصیت پر نہیں جچیں گی اور تو اور کچھ عرصہ بعد ہی آپ اسے ترک کردینے کے حق میں ہوں گے۔ اس حوالے سے فیشن ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک برانڈڈ سویٹر پانچ غیر معیاری سویٹرز سے بہتر ہے ۔ چنانچہ وارڈروب میں کوئی بھی نیا اضافہ خاصا محتاط رہ کر کیجیے۔ اسٹائل کی وضاحت: وارڈروب کے حوالے سے بنیادی باتیں جان لینے کے بعد یہ بھی فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ آپ اپنے لیے کیسی وارڈروب چاہتے ہیں؟ اپنے لائف اسٹائل سے متعلق وہ خاص نکات مثلاًآپ کے پسندیدہ رنگ، تقریبات کے لیے مختلف آؤٹ فٹ اور وہ صفات لکھیں جنہیں آپ اپنے لباس کا حصہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن فیشن کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے وہ پہنیں جس میں آپ خود کو آرام دہ (Comfortable) محسوس کرسکیں۔ ڈی کلٹرنگ : وارڈروب ڈی کلٹرنگ کے لیے آپ کو کچھ سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ آغاز میں ہوسکتا ہے کہ آپ کو کچھ خریداری کرنی یا پھر اپنی خریدی ہوئی چیزوں میں تقسیم کرنی پڑجائے۔ لہٰذا ہرکچھ عرصے بعد کپڑوں کی جانچ کرتے رہیں اور وہ کپڑے جو غیرضروری ہیں یا پھر جنہیں آپ استعمال نہیں کرتے یا وہ رنگ، ساخت یا آؤٹ فٹ کی سلائی کے سبب آپ پر سوٹ نہ کرتے ہوں، ان سب کو اپنی وارڈروب سے نکال دیں کیونکہ اکثر الماریاں غیر استعمال شدہ کپڑوں کی بھرمار کی وجہ سے بکھری اور بےترتیب محسوس ہوتی ہیں۔ منظم کریں : ماہرین کے مطابق بکھری ہوئی وارڈروب کامطلب ہے ایک بکھرا اور پریشان دماغ۔ وارڈروب میں اوپر تک ٹھنسے ہوئے کپڑوں سے زیادہ مایوس کن کچھ نہیں ہوتا کیونکہ یہ آپ کے سلیقہ پر ایک بدنما داغ ثابت ہوسکتا ہے۔ ایک غیر منظم وارڈروب آپ کے کمرے کی وضع قطع بگاڑ سکتی ہے اور جو چیز کمرے کی سجاوٹ و آرائش پر اثر انداز ہو، وہ بھلا کسی کو کیسے پسند ہوسکتی ہے۔ چنانچہ ان آسان تجاویز پر بات کرتے ہیں جن کے ذریعے آپ اپنی وارڈروب کو نفیس اورمنظم کرسکتے ہیں۔ وارڈروب کی ترتیب کے لیےدفتر اور روزمرہ معمولات میں پہنے جانےوالے ملبوسات کا جائزہ لیں، ساتھ ہی ہر موقع پر پہنے جانے والے ملبوسات کی ایک فہرست ترتیب دیں، پھر تمام ملبوسات کو کیٹیگریزمیں تقسیم کریں، اس طرح آپ کم وقت میں ایک عمدہ وارڈروب بآسانی آرگنائز کرسکتے ہیں۔
سیپیج کے مسائل اور ان کاحل
سیپیج یعنی چھتوں اور دیواروں سے پانی کا رسنا ایک بہت ہی عام مسئلہ ہے جس کا سامنا عموماً پرانے مکانات میں کسی نہ کسی وقت کرنا پڑتا ہے۔ اس سے کمرے کی دیواروں اور چھت پر پانی کے نشانات پڑجاتے ہیں یا پھر پینٹ اُکھڑنے لگتا ہے۔ سیپیج دراصل دیواروں اور چھتوں میں موجود پائپوں سے پانی کے رسائو یا نکاسی آب کے نظام میں خرابی کی وجہ سے ہوتاہے۔ نمی اور گیلےپن کے نتیجے میں پھپھوندی اور بیکٹیریاز کی نشوونما ہوسکتی ہے، جس سے گھر کے مکینوں کو مختلف قسم کی الرجیز کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ سیپیج کی عمومی وجوہات گھر میں سیپیج ہونے کی پانچ عمومی وجوہات ہیں۔ 1-ناقص پلمبنگ ٭ گھر میں صاف پانی کی نکاسی کے پائپ یا سینیٹری کےسامان میں رسائو ٭ پانی کی فراہمی والے پائپوں سے اخراج ٭ پڑوسیوں کے مکان کی اندرونی پلمبنگ میں رسائو 2-چھت پر بارش کا پانی جمع ہونا 3-پانی کے ٹینک کا رسائو 4- مکان کی تعمیر کے وقت ناقص واٹر پروفنگ 5-زیر زمین پانی کی موجودگی (خاص طور پر شدید بارش کے بعد) اگر آپ کے گھر میں سیپیج کے مسائل ہیں تو درج بالا تمام ممکنہ وجوہات کی جانچ کریں۔ اگر آپ کو پتہ چلتا ہے کہ آپ کے گھر میں سیپیج غلط پلمبنگ کی وجہ سے ہے جیسے کہ رِستے ہوئے نل یا پانی کے ٹینک کا اوور فلو ہونا تو فوراً پلمبر سے رجوع کریں۔ لیکن اگر آپ کے گھر میں پانی آپ کے پڑوسی یا اوپر کی منزل میں بنے فلیٹ کی ناقص پلمبنگ کی وجہ سے آرہا ہے تو آپ کو ان سے بات کرکے مسئلے کا حل نکالنا ہوگا کیونکہ اگر بالائی منزل پر بنے فلیٹ کے کسی باتھ روم سے گندہ پانی رس رہا ہوگا تو اس سے نہ صرف گھر میں بدبو پیدا ہوگئی بلکہ ایسے ماحول میں رہنا تمام گھر والوں کے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔ پانی کے رسائو سے سیوریج / پلاستر / کنکریٹ کی سطحیں خراب ہوتی ہیں، پلاستر اُکھڑ جاتاہے۔ اکثر اس مسئلے کے حل کیلئے کیمیکل لگا کر پانی کے رساؤ کو بند کردیا جاتاہے لیکن یہ پائیدار نہیں ہوتا او رکچھ ہی دنوں بعد پھر سے رسائو شروع ہو جاتاہے ۔ اس کاواحد حل یہ ہے کہ رسائو کے اصل مقام کی نشاندہی کرکے وہاں معیار ی پائپ ڈال کر اور درست پلمبنگ کرکے واٹر پروفنگ کی جائے ۔ تاہم، اگر باہرہی سے اس کا علاج کیا جارہا ہے تو سطحوں اور دراڑوں کو اچھی طرح بند کرکے اس کو واٹر پروف کیا جائے، جس کیلئے عمدہ کیمیکل مارکیٹ میں دستیاب ہیں اورکامیابی سے ان مسائل کو حل کررہے ہیں۔ بہت سے گھروں کے مالک سنک کے پائپوں کے گرد خالی جگہ نہیں چھوڑتے، جس کی وجہ سے بند پائپ صاف کرنا خاصا مشکل کام بن جاتا ہے۔ اگر ان تک رسائی ممکن نہ ہو تو ایک بند پائپ کو ٹھیک کرنے کے لیے آپ کو سارا سسٹم اُکھاڑنا پڑے گا۔ اسی وجہ سے صفائی والے پائپوں کے گرد جگہ چھوڑنا لازمی ہوتا ہے۔ دراصل گھر کی تعمیر کے دوران ہی ہمیں انڈر گرائونڈ پلمبنگ کا خیال رکھنا چاہئے۔ بہت زیادہ ٹائٹ کئے گئے پائپس، ٹیوب، فٹنگز اور ٹوائلٹ بولٹس بھی آپ کو مشکلات میں ڈال سکتےہیں کیونکہ ان کو جوڑنے کے دوران یا کچھ عرصہ بعد ان کے ٹوٹنے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصہ تو حد سے زیادہ مڑی ہوئی یا ٹائٹ فٹنگز چل جائیں لیکن جب پانی یا ڈرینیج زیادہ پریشر سے آئے گا تو اس میں کریکس پڑسکتے ہیں۔ یہی حال کموڈ ز وغیرہ کا بھی ہوسکتاہے، جہاں کریکس پڑنے سے پانی کا رسائو ممکن ہے۔ اسی طرح اگر کچن میں سیپیج کا مسئلہ ہے تودیکھیں کہ اس کی نالیوں میں کچرا تو نہیں پھنسا ہوا، جسے باہر نکالنے کیلئے اسنیک یا باربڈ ڈرین کلیننگ ٹول (snake or barbed drain cleaning tool) استعمال کریں یا پھر P-trapکو ہٹائیں اور گندگی کو نکال کر اسے واپس لگادیں۔ بہت سے لوگ لیکویڈ ڈرین کلینزر استعمال کرتے ہیں جو بہتر نہیں ہوتا، حقیقت یہ ہے کہ لیکویڈ ڈرین کلینزر مسئلے کا حل نکالنے کے بجائے اسے زیادہ بڑھا دیتا ہے کیونکہ اگر لیکویڈ کلینزر سے گند صاف نہیں ہوتا ، تو آپ یا آپ کے پلمبر کو پورا ٹریپ آرم نکالنا پڑے گا،جو کہ اوپر تک بھر چکا ہوگا۔ ڈرین کلینزر کا زیادہ استعمال پائپ اور میٹل ٹریپ کو نقصان پہنچا کر لیکیج کا باعث بن سکتاہے۔ اگر آپ پانی کے رسائو والے پائپ کو واٹر پروف بنارہے ہیں تو ٹیفلون ٹیپ (PTFE thread tape)چوڑیوں کے گرد گھڑی کی سمت (Clockwise) گھمائیں تاکہ یہ صحیح کام کرے۔ لیکن بہت سے لوگ اس ٹیپ کو گھڑی کی مخالف سمت (anti-clockwise)لپیٹتے ہیں، جس سے فٹنگز ٹائٹ ہو جاتی ہیں۔ چونکہ پائپ یا ایلبو کی چوڑیاں گھڑ ی کی سمت میں بنی ہوتی ہیں اسی لئے اس سمت میں ٹیپ لپیٹنے سے وہ اچھی طرح سیل ہو جاتی ہیں۔ بصورت دیگر پائپ یا ایلبو کو ٹائٹ کرنے میں سخت مشقت کا سامنا کرنا پڑ تاہے۔
بیڈ روم کو اپنے ’برج‘ کے مطابق سجائیں
بیڈروم گھر کا سب سے خاص حصہ ہوتا ہے، جہاں ہم فرصت کے لمحات پاکر اپنی توانائی کو ازسر نو بحال کرتے ہیں۔ ہمیں جتنی اچھی نیند اپنےبستر پر اورجتنا زیادہ سکون اپنے بیڈروم میں ملتاہے، کہیں اور نہیں ملتا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ ایک طویل اور تھکا دینے والے دن کے بعد آرام کرتے ہیں یا اپنے کسی پیارے کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ا س کی تزئین و آرائش اور سیٹنگ تبدیل کرنے کے بارے میں اکثر سوچتے رہتے ہیں۔ اگر آپ کو برج کے حوالے سے کچھ دلچسپی ہےتو ہم آپ کے برج کے مطابق آپ کا بیڈ روم سیٹ کرنے میں آپ کی مدد کرسکتے ہیں، تاکہ آپ اپنی شخصیت کے ساتھ ساتھ اپنےبیڈر وم کو بھی ایسا روپ دے سکیں جو آپ کو اچھا لگے اور یہاں وقت گزارنا لطف کا باعث بن جائے۔ آج ہم چار بروج کا ذکر کر رہے ہیں۔ برج جدی (Capricorn) آپ دوسروں پر غلبہ حاصل کیے بغیر نہیں رہ سکتے ، پھر بھی اپنے پائوں زمین پر رکھتے ہیں۔ آپ ذمہ دارہیں اور نظم و ضبط سےمالا مال ہیں، اس لئے آرائش و سجاوٹ میں بھی سمجھداری سے کام لیتے ہیں۔ آپ ایک معنی خیز اور پُر مغز آرائش کو سراہتےہیں۔ آپ پکے اور ٹھوس رنگوں کو پسند کرتے ہیں، جیسے سرخ رنگ کی لکڑی سے بنی کرسیوں پر لیدر چڑھا ہوا، لیکن اس کا اسلوب کھلنڈرا ہو،جیسے اینٹرینس میں تیندوے کی کھال سے بنایا گیا یا اس طرح کے پرنٹ والا قالین۔ آپ کے رنگ: گہرےزمینی شیڈز جیسے کہ سلیٹ ، سرمئی ، بھورے اور فاریسٹ گرین۔ برج دلو (Aquarius) آپ اپنے منفرد اور دوراندیش نظریات دوسروں پر مسلط کرتے ہیں۔ آپ ان سے ایک قدم آگے ہوتے ہیں، خاص طور پر جب ٹیکنالوجی کی بات ہو۔ آپ کو اپنی دیوار پر جدید ترین HDTV اچھا لگتاہے۔ چاہے آپ جدید ٹیکنالوجی کےحامی ہوں یا فیشن کے، آپ کو مختلف دکھائی دینے کا شوق ہوتاہے۔ یہی حال آپ کے بیڈروم کا بھی ہے، چاہے آپ کا پرانا فوم ہو یا مٹیلک پینٹ سے بنا میٹریس ، آپ ایک منفرد قسم کا پرانے فیشن کا تکیہ اپنے بیڈ کیلئے ضرور خریدیں گے کیونکہ آپ مستقبل کے فرد ہونے کے ساتھ ساتھ ماضی میں بھی پلٹ جاتے ہیں۔آپ کے رنگ: چاندی ، نیلا، مٹیلک اور ڈینم برج حوت (Pisces) آپ وقت کے دھارے میں بہنے والی شخصیت ہیں۔ بعض اوقات آپ کے جذبات جلد بھڑک اٹھتے ہیں، لہٰذا آپ کے بیڈروم میںایسا بستر ہوناچاہئے جہاں آپ کو سکون مل سکے۔ آپ کے بستر کو نرم اور گداز ہونے کے ساتھ ساتھ دیدہ زیب بیڈ شیٹ سے مزین ہونا چاہئے۔ جبکہ اوڑھنے کے لیے بھی خوشگوار رنگوں والی چادر موجود ہو۔ اگر آپ کا بیڈ روم وان گو(Van Gogh) کی اسٹیری نائٹ والی تھیم سے سجا ہو تو پھر آپ کے لیے یہ ایک پرفیکٹ بیڈ روم ثابت ہوگا۔آپ کے رنگ: سبز، نیلا اور ہلکا پیلا برج حمل (Aries) آپ تیز رفتار ی اور سرعت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ آپ رجعت پسند ہیں ، آپ کو ڈیزائن میں تبدیلیاں کرنا پسند ہے، اسی لیے آپ کی خوابگاہ زندہ دلی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ آپ روشن اور پُرجوش رنگوں کو پسند کرتے ہیں، خاص طور پر سرخ رنگ کو کیونکہ یہ آپ کے حکمران سیارے’ مریخ‘ کا رنگ ہے۔ اس کے علاوہ آپ بچپن میں نوادرات یا ڈاک ٹکٹ جمع کرنے والے مشاغل کو استعمال میں لاتے ہوئے ان چیزوں کو اپنے بیڈ روم اسٹائل کا حصہ بنا سکتے ہیں۔ آپ کے رنگ: گہرا سرخ اور زرد مگر اعتدال پسندی کے ساتھ
بالکونی کو خوبصورت بنائیں
مکانات میں چھت، پیٹیو (patio)اور صحن موجود ہوتے ہیں اور مکین اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق انھیں مختلف مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ تمام آسائشات مکانوں میں رہنے والے افراد کو ہی میسر آتی ہیں، اس کے برعکس اپارٹمنٹس میں رہنے والوں کے لیے ’بالکونی‘ ہی آؤٹ ڈور ایریا ہوتا ہے۔ عام طور پر بالکونی اپارٹمنٹس کے بیرونی حصے میں موجود ایک چھوٹی سی جگہ ہوتی ہے جو بیک وقت مختلف فوائد کا باعث بنتی ہے۔ ایک مصروفیت بھرا دن گزارنے کے بعد کھلی فضا میں سانس لینے یا پھر شام کی چائے پیتے ہوئے باہر کے خوبصورت اور پر تکلف مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے بالکونی سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ لیکن فائدہ تب ہی ہوتا ہے جب بالکونی چند خاص اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کی جائے۔ آئیے آج کے مضمون میں ان اصولوں کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ آب وہوا کسی بھی ملک کی آب و ہوا کے اعتبار سے بالکونی کا استعمال بھی مختلف ہوسکتا ہے۔ سرد آب و ہوا والے علاقوں مثلاً شما ل مشرقی امریکا، یورپ، کینیڈا جبکہ پاکستان جیسے گرم اور مرطوب علاقے میں بالکونی سے مختلف فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ بالکونی کا ڈیزائن ،سائز حتیٰ کہ افعال بھی آب و ہوا کے لحاظ سے الگ ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر گرم آب و ہوا والے علاقوں میں یہ کمروں کو حرارت سے محفوظ رکھتے ہوئے ٹھنڈا رکھنے کا باعث بنتی ہے (لیکن اس بات کا انحصار بالکونی کی سمت پر ہے)۔ مشرق کی سمت تعمیر کی جانے والی بالکونی میں سردیوں کی صبح کافی خوشگوار محسوس ہوتی ہے جبکہ مغرب یا شمال کی سمت تعمیر کروائی گئی بالکونی موسم گرما کے دوران شام سے قبل آرام دہ نہیں ہوتی، اس کے علاوہ بارش یا مون سون کے دوران بھی ان بالکونیز میں پانی آجانے کا امکان ہوتا ہے، جس کی وجہ سے کافی احتیاط برتنی پڑتی ہے۔ ایسی صورت میں ان بالکونیز میں نکاسی آب کا بہتر انتظام ہونا ضروری ہے، بصورت دیگر پانی بالکونی سے کمرے کے اندر بھی داخل ہوسکتا ہے ۔ دستیاب جگہ پر غور کریں یہ آپ پر منحصر ہے کہ بالکونی کے لیے دستیاب جگہ پر غور کرتے ہوئے اسے کس طرح ڈیزائن کرنا چاہتے ہیں۔ ڈیزائننگ کرتے وقت اس بات کو یقینی بنائیں کہ بالکونی مکان کا حصہ ہی نظر آئے نہ کہ علیحدہ سے کوئی جگہ۔ گھروں اور کمروں کی اقسام کے پیش نظر بالکونی ایک ایسی جگہ ہے جہاں آپ اپنے دوستوں اور اہل خانہ کے ساتھ مل کر باربی کیو پارٹیز یا چائے کافی کا اہتمام کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کے گھر میں کوئی آؤٹ ڈور ایریا نہیں ہے تو آپ بالکونی کے سائز کو مد نظر رکھتے ہوئے اس جگہ کو استعمال میں لاسکتے ہیں لیکن یہاں بھی بالکونی کی ڈیزائننگ مکان کے سائز کے لحاظ سے مختلف ہوگی۔ مواد کون سا استعمال کیا جائے؟ گھر کے بیرونی حصوں میں موسم کے نقصان دہ اثرات پڑنے کا خدشہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ بالکونی کے لیے عموماً شیڈ ز کا استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اگر سائبان اسے مکمل طور پر نہیں ڈھکتا تو دھوپ یا بارش اس پر اثر انداز ہو گی۔ لہٰذا بالکونی ڈیزائننگ کے دوران ایسے مواد کا انتخاب کریں جو پانی اور دھوپ کا مقابلہ کر سکے۔ چھت کی تعمیر میں پولیمر کا استعمال اسے فنگس وغیرہ سے بچاتا ہے۔ فرش پر پکی ٹائلیں لگا کر بھی مصیبت سے بچا جا سکتا ہے۔اگر فرش کے انداز کی بات کی جائے تو آجکل بالکونی کے فرش کےلیے لکڑی کا استعمال بھی خاصا مقبول ہورہا ہے۔ آؤٹ ڈور فرنیچر بالکونی ڈیزائننگ کے دوران وہاں عمدہ قسم کا آؤٹ ڈور فرنیچر بھی رکھا جاسکتا ہے تاکہ موسم سے لطف اندوز ہونے، مطالعہ کرنے یا پھر فیملی گیٹ ٹو گیدر کے دوران یہاں بیٹھنے کا پہلے سے انتظام موجود ہو۔ آؤٹ ڈور فرنیچر کا انتخاب گھر کے اندرونی حصے میں موجود فرنیچر کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا جائے۔ خوبصورت بالکونی ڈیزائننگ کے لیے درمیانے سائز کا ہلکا فرنیچر منتخب کریں۔ بالکونی میں باغبانی بالکونی کی ڈیزائننگ کے دوران پودوں کا اضافہ کرتے ہوئے ایک خوبصورت، قدرتی اور خوشگوار احساس پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اپارٹمنٹس میں باغبانی کے شوقین افراد کے لیے بالکونی سے بہتر اور کوئی جگہ ہوہی نہیں سکتی۔ خوبصورت اور مناسب سائز کے گملے بالکونی کی خوبصورتی میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ ان گملوں میں مختلف طرح کے چھوٹے چھوٹے پودے اور پھول لگا لیں تو بالکونی کی خوبصورتی مزید بڑھ جائے گی۔ اس کے علاوہ چھت چھوٹے گملے لٹکا کر ان میں خوشنما چھوٹے پھول لگائے جاسکتے ہیں۔ مزید برآں، بالکونی میں باہر کی طرف لوہے یا اسٹیل کی جالی لگا کر وہاں رنگ برنگے گملے رکھ کر آپ چھوٹے پھول پودے لگاسکتے ہیں، جو آپ کی بالکونی کی خوبصورتی کو چار چاند لگادیں گے۔ ڈرپ ایریگیشن سسٹم بالکونی میں پودوں کا اضافہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں پانی کا انتظام وانصرام بھی یقینی بنایا جائے۔ اس حوالے سے پائپ کے ذریعے پانی کی فراہمی ممکن بنائی جاسکتی ہے ، تاہم ان دنوں ماڈرن ہاؤسنگ کنسٹرکشن میں بالکونی اور باغیچے کے لیے ڈرپ ایریگیشن سسٹم زیادہ مقبول ہے۔ ڈرپ ایریگیشن سسٹم ایک صاف ستھرا اور آسان نظام ہے۔ روایتی طریقے میں پانی ضائع ہونے کے علاوہ مناسب وقت پر پودوں کو پانی دستیاب نہیں ہوتا جبکہ ڈرپ ایریگیشن سسٹم کے تحت تمام پودوں کو ایک ہی وقت میں پانی کی درست فراہمی ہو جاتی ہے۔ لائٹنگ بالکونی ڈیزائننگ کے دوران لائٹنگ کی اہمیت کو نظر انداز نہ کریں کیونکہ رات کے وقت بالکونی میں اندھیرا بے حد بُرا محسوس ہوتا ہے۔ لہٰذا بالکونی کیلئے صحیح اور مناسب روشنی کا انتخاب کریں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ بالکونی بہت زیادہ روشن محسوس نہ ہو، چھوٹے یا درمیانے سائز کے بلب سے نکلنے والی دودھیا روشنی آپ کی بالکونی کو بہت خوبصورت ماحول فراہم کرے گی اور دور سے دیکھنے والے اس جدید وضع کی بالکونی کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔
گھر کو کیسے منظم اور صاف ستھرا رکھا جائے؟
گھر میں بے ترتیب اور بکھری ہوئی چیزیں گندگی کا احساس دِلاتی اور ہمارے مزاج میں چڑچڑاپن پیدا کرتی ہیں۔ اگر گھر میں یہ صورتِ حال زیادہ دیر یا کئی روز تک برقرار رہے تو اس سے ذہنی صحت اور تندرستی بھی متاثر ہونے لگتی ہے۔ گھر کو صاف ستھرا، منظم اور ترتیب میں رکھ کر ذہنی آسودگی اور تندرستی حاصل کرنے کی یہ سائنس دراصل ’کون میری‘ کہلاتی ہے اور اسے متعارف کروانے کا سہرا جاپان کے ایک تحقیقی ادارے کی کنسلٹنٹ میری کونڈو کے سر ہے۔ ان کا کہناہے کہ گھر صاف ستھرا رہے تو ذہن بھی صاف ستھرا اور پرسکون رہ سکتا ہے۔ منظم زندگی گزارنے سے آپ یقینی طور پر پُرسکون زندگی گزارنے کے قابل ہوجاتے ہیں مگر مکمل ذہنی سکون بڑی مشکل سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر آپ کے گھر میں چیزوں کی بے ترتیبی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور چیزوں کے انبار لگ چکے ہیں تو آپ انھیں صرف ترتیب میں لانے کا سوچ کر ہی گھبرا جائیں گے اور اس ’مشکل‘ کام میں ہاتھ ڈالتے ہوئے سوچیں گے کہ کہاں سے اور کیسے شروع کیا جائے اور چیزوں کے انبار کا کیا کریں۔ آپ کے لیے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ آپ ’روزانہ پانچ منٹ کی صفائی مہم‘ سے یہ کام شروع کریں۔ ابتدا میں پانچ منٹ کی صفائی سے بے ترتیبی کے انبارپر کوئی فرق نہیں پڑےگا لیکن دو چار دن یا ایک ہفتے بعد آپ گھر میں نمایاں تبدیلی دیکھیں گے۔ وہ لوگ جو گھر میں چیزوں کی بے ترتیبی سے پریشان ہیں، وہ روزانہ پانچ منٹ صفائی مہم کا آغاز ذیل میں بتائے گئے طریقوں سے کرسکتے ہیں۔ اخبارات کیلئے جگہ متعین کرنا گھر کی بے ترتیبی میں اخبارات اور کاغذات کا بڑا کردار ہوتا ہے کیونکہ پڑھنے یا استعمال کے بعد ہم انھیں گھر میں کہیں بھی چھوڑ دیتے ہیں جیسے کہ کاؤنٹر پر، ٹیبل پر، ڈیسک پر، دراز میں، ڈریسر پر یا پھر گاڑی میں۔ ایسے میں اس بات پر کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ ضرورت پڑنے پر ہمیں کوئی چیز نہیں ملتی۔ اس کا حل یہ ہے کہ آپ ان کے لیے ایک خاص جگہ متعین کردیں۔ اخبارات کو گھر کی لائبریری یا شیلف میں رکھیں، اسکول کاغذات کو فولڈر میں، رسیدوں اور دیگر کاغذات جیسے وارنٹی کارڈز اور مینوئلز وغیرہ کو باکس میں رکھیں۔ یہ ایک تبدیلی آپ کے پیپر ورک کی کایا پلٹ دے گی۔ کاؤنٹر پر کم سامان کاؤنٹر پر زیادہ سے زیادہ کیا رکھا جاسکتا ہے؟ شاید ایک ٹوسٹر اور آرائشی موم بتی۔ لیکن یہاں اضافی رکھی ہوئی ہر چیز غالباً ’بے ترتیب‘ اور ’غلط جگہ پر غلط چیز‘ ہونے کا پیغام دے گی۔ شیلف کی صفائی ایک دن کاؤنٹر کو ترتیب دینے کے بعد اگلے دن شیلف کی صفائی کریں۔ وہ شیلف الماری کی بھی ہوسکتی ہے اور کتابوں کی بھی۔ کسی ایک شیلف سے آغاز کرتے ہوئے اس کو تمام غیر ضروری چیزوں سے صاف کریں۔ کسی ایک کونے سے آغاز آپ گھر کے ایک کونے سے صفائی کا آغاز کریں اور یہ عہد کریں کہ اب کچھ بھی ہوجائے اس جگہ کو پھر کبھی بے ترتیب ہونے نہیں دینا۔ آغاز کاؤنٹر یا کچن ٹیبل وغیرہ سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ اب اس کے بعد روزانہ ایک نئی جگہ کی صفائی کریں اور ساتھ ہی یہ عہد کریں کہ آئندہ آپ وہاں ایسی کوئی چیز نہیں رکھیں گے، جو ابھی استعمال میں نہیں ہے یا سرے سے استعمال میں ہی نہیں آتی۔ 5چیزوں کی مناسب جگہ کوئی بھی ایسی پانچ چیزوں کا انتخاب کریں، جنھیں آپ واقعتاً استعمال کرتے ہیں اور آپ انہیں کہیں بھی رکھ دیتے ہیں کیونکہ ان کیلئے کوئی مخصوص جگہ نہیں ہے۔ ایک منٹ ذہن پر زور ڈالیں اور فیصلہ کریں کہ ان چیزوں کی کیا جگہ ہوسکتی ہے؟ وہ کہاں رکھی اچھی لگیں گی؟ جگہ کا انتخاب کرنے کے بعد ان چیزوں کو ہر بار استعمال کے بعد وہیں رکھا کریں۔ ذہن میں جگہ کا خاکہ بنائیں اگر آپ ایک کمرے کی صفائی کرنے جارہے ہیں تو کسی بھی چیز میں ہاتھ ڈالنے سے قبل چند منٹ کیلئے کمرے میں بیٹھیں اور اپنے ذہن میں تصور کریں کہ آپ اس کمرے کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں؟ فرنیچر کہاں ہونا چاہیے؟ کس چیز کیلئے کمرے میں جگہ نہیں لیکن وہ پھر بھی موجود ہے؟ جب آپ کمرے کا خاص تصور اپنے ذہن میں بنالیں تو اس کے بعد کمرے کو اسی کے مطابق ترتیب دے دیں۔ کیا یہ چیز استعمال میں آئے گی؟ جب آپ چیزوں کے انبار کو دیکھتے ہیں تو کچھ چیزوں کے بارے میں آپ کو یقین ہوتا ہے کہ ان کا کیا استعمال ہے اور کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے مفید ہونے سے متعلق آپ بے یقینی کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسی بے یقینی والی چیزوں کے لیے ایک علیحدہ ڈبہ بنائیں اور انھیں اس میں رکھ دیں۔ 6ماہ بعد وہ ڈبہ نکالیں اور دیکھیں کہ کیا گزشتہ چھ ماہ میں آپ کو ان میں سے کسی چیز کی ضرورت پڑی تھی۔ عموماً یہی ہوتا ہے کہ آپ کو سارا ڈبہ ہی پھینکنا پڑتا ہے کیونکہ اتنے مہینوں میں ان میں سے کوئی چیز بھی آپ کے استعمال میں نہیں آئی ہوتی اور نا ہی آپ کو ان کی ضرورت پڑتی ہے۔ 30دن کی فہرست ایک 30روزہ فہرست بنائیں اور اس میں ان چیزوں کا اندراج کریں، جو آپ خریدنا چاہتےہیں لیکن وہ انتہائی ضروری نہیں ہیں (جیسے کسی اسمارٹ فون کا نیا ماڈل وغیرہ)۔ اس کے سامنے اندراج کی تاریخ درج کریں، اس طرح کوئی بھی چیز خریدنے سے پہلے 30دن گزرنے کا انتظار کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ چند روز بعد آپ کو کئی چیزیں خریدنے کا تجسس باقی نہیں رہے گا۔ اس طرح آپ گھر میں نئی چیزوں کا انبار لگانے سے محفوظ رہیں گے۔ اس کے علاوہ، اپنے بچوں کو بھی سکھائیں کہ کس چیز کی کون سی جگہ ہے اور وہ استعمال کے بعد ان چیزوں کو وہیں رکھیں۔ ساتھ ہی میڈیسن باکس کی صفائی کریں، وہ کپڑے نکالیں جنھیں آپ اب استعمال نہیں کرتے۔ آخر میں ایک ’چیریٹی باکس‘ بنائیں، ساری اضافی چیزیں اس میں ڈالیں اور ان چیزوں کو ضرورت مند افراد میں بانٹ دیں۔
’عمودی باغبانی‘ ٹرینڈی کے ساتھ فائدے مند بھی
عمودی باغبانی (ورٹیکل گارڈننگ) کا ٹرینڈ نیا نہیں بلکہ یہ چند عشرے پرانا ہے۔ یہ ایک ایسی تکنیک ہے جس میں ہائیڈروپونک ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے عمودی پینلزپر پودے اُگائے جاتے ہیں۔ عمومی طور پر اس طرح کی باغبانی میں دیوار کے سہارے یا پھر عمودی پلانٹر کی تنصیب کرکے مختلف سہاروں کے ذریعہ پودے لگائے جاتے ہیں ، جوکہ نشوونما پا کر دیوار کو ڈھانپ لیتے ہیں۔ گزشتہ برسوں کے دوران باغبانی کا یہ ٹرینڈ ایک کامیاب بزنس کی شکل حاصل کرچکا ہے۔ انڈور گارڈننگ ہو یاآؤٹ ڈور فارمنگ، عمودی باغبانی کسی بھی جگہ کے لیے گملوں میں لگے پودوںیا کنٹینرگارڈننگ کا بہترین متبادل ہے۔ جگہ کی کمی، کم مینٹیننس اور کم دیکھ بھال والے پودوں کے لیے عمودی باغبانی ایک بہترین انتخاب ہے۔ اگر آپ بھی اپنے گھر، آفس یا باغیچے کے لیے باغبانی کے اس خوبصورت ٹرینڈ سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو باغبانی کے درج ذیل مشورے مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ عمودی باغبانی یا گرین وال ؟ عمودی باغبانی کو ایک کے بجائے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے، مثلاًلیونگ گرین وال(Living green wall)، لائیو وال(Live wall) وغیرہ وغیرہ۔ آپ عمودی باغبانی کے لیے چاہے کسی بھی نام کا انتخاب کریں، آپ کو اس انداز میں پودے اُگانے کے لیے کم ازکم 60فٹ چوڑی دیوار کی ضرورت ہوگی۔ یہ دیوار کسی ہوٹل لابی کی بھی ہوسکتی ہے، باغ کی یا پھر کسی رہائشی عمارت کے اندرونی، بیرونی یا عقبی حصے کی۔ عمودی باغبانی کا یہ تصور نہ صرف خوبصورت اور منفرد ٹرینڈ پیش کرتا ہے بلکہ صحت کے لیے فائدہ مند اور آلودگی سے بچاؤ کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ کسی بھی جگہ کے لیے عمودی باغبانی نہ صرف متاثر کن لگتی ہے بلکہ یہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور صحت مند ماحول کے قیام کی طرف پیش قدمی بھی ہوسکتی ہے۔ اندرونی حصے میں عمودی باغبانی عمودی باغبانی کے ذریعے آپ نہ صرف گھر کے اندرونی حصوں میں ایک حیرت انگیز تبدیلی لاتے ہیں بلکہ گھر میں ہوا کی آمدورفت بھی بہتر بناتے ہیں۔ باغبانی کا یہ ٹرینڈ مختلف قسم کے پودوں کے انتخاب کے ذریعےعمل میں لایا جاسکتا ہے، مثلاً فرن (بڑے پتوں والا بنا پھول کا پودا)، کلائمبنگ فگ، پائیلیا (کلغی) اور کیلاتھیا(Calathea) نامی پودے عمودی باغبانی کے لیے سب سے زیادہ منتخب کیے جاتے ہیں۔ عمودی باغبانی ایک ایسا خیال ہے، جس کے ذریعے ایک عام سی دیوار کو بھی خوبصورتی کے ساتھ سجایا جاسکتا ہے۔ گھر ہی نہیں بلکہ دفاتر میں بھی عمودی باغبانی یا گرین وال پر توجہ نقصان دہ کیمیکلز مثلاً فورمل ڈیہائیڈ (Formaldehyde)اور کاربن ڈائی آکسائیڈ سے محفوظ رہنے کے لیے دی جارہی ہے۔ باغبانی کے اس انداز کے ذریعے ملازمین کےلیے صحت مند اور صاف ستھری آب وہوا کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ بیرونی حصے میں عمودی باغبانی پاکستان سمیت دنیا بھر میں عمارتوں کی بیرونی دیواروں پر عمودی باغبانی کی جاتی ہے۔ بیرونی حصے میں عمودی باغبانی کے لیےکائی(Moss)اور انگور کی بیل کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس جگہ عمودی باغبانی کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ یہاں پودوں پر سورج کی براہ راست شعاعیں پڑتی ہیں، جس سے ان کی نشوونما تیز ی سے ہوتی ہے۔ گھر کے بیرونی حصے میں عمودی باغبانی کے ذریعے گھر کو سورج کی نقصان دہ شعاعوں اور تیز بارشوں سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے جبکہ اس سے گھر کا درجہ حرارت بھی کنٹرول میں رہتا ہے۔ موسم گرما میں گھر کے بیرونی حصے میں عمودی باغبانی Evapotranspiration (وہ عمل جس میں بخارات کی صورت میں مٹی، پودوں اور دوسری سطحوں سے پانی ماحول میںشامل ہوجاتا ہے) کے ذریعے گھر کے اردگرد کی ہوا کو ٹھنڈا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ امریکا کے شمال مشرقی علاقوں میں گرمی سے نمٹنے کے لیے وہاں کے مکین گھر کے بیرونی حصے میں عمودی باغبانی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ عمودی باغبانی کا نظام عام طور پر عمودی رُخ باغبانی کے لیے پودوں کی دیکھ بھال ٹرے یا پینل سسٹم کے تحت کی جاتی ہے۔ پینل سسٹم پودوں کو عمودی طور پر لمبے عرصے تک قائم رہنے میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ باغیچہ چھوٹا ہو یا بڑا اس میں عمودی باغبانی کے لیے بھی جگہیں ضرور ہونی چاہئیں۔ اگر آپ اوپر کی طرف پودے لگانا شروع کردیں تو پھر آپ کو وافر مقدار میں جگہ دستیاب ہوگی۔ لمبی سبزخوردنی پھلیوں اورلمبے عمودی ڈنڈوں کی مدد سے بیلوں کو اوپر تک چڑھاکر پیداوار کوکئی گُنا بڑھایاجاسکتا ہے۔ عمودی باغ آپ کو کھڑے ہوکر کام کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس طرح آپ اپنی سطح ِ نظرپرکام کرتے ہوئے کمردرد سے بھی بچیں رہیں گے۔
گھر کی آرائش کو دیں مخملیں انداز
مخمل اور مخملی کے صیغے ہمارے شعرا اور ادباء نے اپنی تحریوں میں بھرپور معنویت اور استعارے کے سہارے کےطورپر استعمال کیے ہیں، جیسے کہ ایک شاعر کا کہنا ہےکہ ؔچھالے تھے، انا تھی کہ وہ غیرت تھی، کیا تھا جب فرش تھا مخمل تو تلوئوں میں چبھا کیا عصر حاضر کو دیکھا جائے توہمارے ہاں مخمل یعنی ویلویٹ کے فرش، پردے اور دبیز و گداز صوفے نظر آنے لگے ہیں۔ سرد موسم میں تو ویسے بھی گھر میں مخملی اندازلئے کئی نئے آئیڈیاز پر عمل کیا جاتاہے۔ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند تو شاید ناگوار گزرے لیکن اگر صوفوں پر یااس کے کسی حصےکو مخمل سے ڈھانپ دیا جائے تو اس سے صوفے کی شان بڑھ جاتی ہے۔ مخمل ہے کیا؟ زیادہ تر مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ لوگوں نے تیرہویں صدی کے آس پاس مشرق بعید غالباً چین میں مخمل تیار کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد مخمل نے ایشیا میں شاہراہ ریشم کے ساتھ مغرب کا سفر کیا یہاں تک کہ وہ اٹلی پہنچا اور اطالوی نشاۃثانیہ کے دوران عروج پر پہنچا۔ سیدھے سادے بُنے ہوئے کپڑے (جیسے لیلن) کے برخلاف مخمل میں بہت زیادہ سوت کا استعمال ہوتا ہے اور بننے کے دوران یہ کئی مراحل سے گزرتا ہے۔کپڑے کی دو پرتیں (مخمل کسی بھی قسم کے سوت سے بنا ہوسکتا ہے) ڈبل ایکشن لوم پر جاتی ہیں اور اس کے دھاگے بالترتیب ایک دوسرے پر چڑھ کر سوت سے جُڑ جاتے ہیں۔ جب یہ لوم سےباہر آتاہے تو مختلف تہوں سے بنا کپڑا ہوتا ہے ،جس کا بالائی حصہ نرم و گداز ہوتاہے۔ سب سے مہنگی قسم کا مخمل ریشم سے تیار کیا جاتاہےاور یہ بہت بیش قیمت ہوتا ہے۔ ریشم کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر دیگر قدرتی ریشے مخمل بنانے میں زیادہ استعمال کیے جاتے ہیں ، جیسا کہ کپاس، لیلن، موہیر اور اون۔ ساتھ ہی مخمل بھی پولسٹر، ویسکوز، نائیلون اور ایسیٹیٹ سے بنے ہوئے ہو سکتے ہیں۔ آپ ہمیشہ وہ مخمل چنیں جو لچکدار اور قدرتی کپڑے کے مرکب سے تیار کیا گیا ہو۔ آئیں جانتے ہیںکہ مخمل کس طرح سے آپ کے گھر کی آرائش میں اضافہ کرسکتا ہے ۔ آرائش مخمل چونکہ ایک موٹا اور بھاری کپڑا ہے، اگر یہ زمین پر بچھے تو جھلمل کرتے تالاب کی طرح نظر آتاہے۔ صوفے پر لگا ہو تو جھلملاتی تہیں سامنے لاتاہے۔ ہاتھ پھیریں تو جس طرف آپ کا ہاتھ جائے گا، اس کاشیڈ تبدیل ہوتا چلاجائے گا۔ اس کا گدازپن اور ہموار پن اسے بہترین انتخاب بناتاہے ۔ کچھ منفرد سوچیں مخمل، حواس پر اچھا اثر ڈالتا اور زندگی میں بھرپور رنگت لاتا ہے۔ مخمل کے بارے میں سوچیں گے تواس کی کشش اور کثیرالجہت رنگت آپ کو اپنی جانب راغب کرے گی۔ مخمل شام کے وقت اور اندھیرے میں بھی بھلا لگتاہے۔ مخمل خود پر پڑنے والی روشنی کو90ڈگری کے ملٹی پل زاویوں پرگھما دیتا ہے اور عجیب سی نفاست یا شان پیدا کرتا ہے، اس قسم کے اسٹائل کے لیے شوخ مخمل (Bright Valvet) مشہور ہے۔ نیلا رنگ فنکارانہ یا نقاشی والے پھولوں سےبنا وال پیپر ایک گہرے نیلے رنگ کے خوبصورت مخملی صوفے کو ایک دل آویز پس منظر فراہم کرسکتا ہے۔ اس میں مزید دلکشی پیدا کرنےکے لیے متضاد رنگ کا مخملی کشن ساتھ رکھ دیں۔ آپ ا س ماحول سے خوب لطف اٹھا ئیں گے۔ گلیمرس ٹچ اگر آپ اپنے ڈرائنگ روم کی کرسیوں کی پشت یعنی بیک سیٹ کو امبرویلویٹ یعنی زرد رنگ کے مخملی کورز سے ڈھانپ دیں تو یہ ڈرائنگ روم کے اچھوتے اور دلکش انداز کو سامنے لائیں گے، ساتھ ہی سونے جیسے مخملی کشن سونے پر سہاگہ ثابت ہو ںگے۔ لگژری اسکیم لگژری لُک کے لیے دیواروں اور فرنیچر پر ایک ہی رنگ کا شیڈ استعمال کریں جو نیلا یا سرمئی ہوسکتاہے۔ مخملی کپڑوں سے سجی کرسیاں اور پالش شدہ پیتل کی اشیا ایک خوبصورت اسکیم سامنےلاتی ہیں، جنہیں دیکھ کر نہ صرف سب چونک جائیں گے بلکہ آپ کے ذوق کی بھی داد دیں گے۔ اس اسکیم کو بیلنس کرنے کے لیےاگر آپ درج بالا ڈائننگ روم کی تھیم شامل کرلیںتو آپ کے گھر کو چار چاند لگ سکتے ہیں۔ پُرکشش لیئرز آپ کے بیڈروم میں رکھے بیڈ پر اگر زردی مائل مخمل چڑھا دیا جائے تو اس سے آپ کو نرمی اور گرمی کا احساس ہوگا۔ ویسے بھی دو متضاد رنگ خود کو تو ایک دوسرے سے جُدا رکھتے ہیں، لیکن دلکش امتزا ج بناتے ہوئے گھر یا کمرے کی خوبصورتی کو یکجان کردیتے ہیں۔ کمرے میں بچھا قالین بھی اگر بیڈ کور جیسا ہو تو پھر آپ ایک پرفیکٹ بیڈ روم میں بھرپور لطف اٹھاسکتے ہیں۔ زردی مائل رنگ کے وال پیپرز اور کشنز اس تھیم میں اور بھی گرم جوشی پیدا کرسکتے ہیں۔
لینڈاسکیپنگ کیسے کی جائے؟
ہر کوئی اپنے گھر میں ایک خوبصورت باغیچے کی خواہش رکھتا ہےلیکن بہت سے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ لینڈ اسکیپنگ کیسے کی جائے۔اس حوالے سے ہم آج کے مضمون میں لینڈ اسکیپنگ آئیڈیاز سے متعلق اہم نکات اپنی تحریر کا حصہ بنارہے ہیں۔ لینڈاسکیپنگ( جسے عام طور پر زمین کی تزئین و آرائش کاعمل کہا جاتا ہے) فن تعمیر اور ہوم ڈیزائننگ کا ایک ایسا جزو ہے، جو کسی بھی گھر کے بیرونی حصہ کو ایک مختلف اور منفرد انداز بخشتا ہے۔ لینڈ اسکیپنگ کو ایک ایسی سائنس سمجھا جاتا ہے، جس کےذریعے زمین کی سادگی وخاصیت کو خوبصورتی اور دلکشی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، ساتھ ہی باہر کا شور اور ماحول کا درجہ حرارت کم کرتے ہوئےآسودگی وٹھنڈک بھی پیدا کی جاتی ہے۔ اہمیت کسی بھی گھر میں لینڈ اسکیپنگ کرنے کی کئی مثبت وجوہات ہوسکتی ہیں، پھر بھی ہم میں سے کئی لو گ اس کواہمیت نہیں دیتے۔ اس حوالے سے کئی مشکلات کا ذکر کیا جاتا ہے جیسےوقت کی کمی، سجاوٹ اور صفائی کے لیے دوہری محنت، محدود بجٹ وغیرہ وغیرہ۔ تاہم اس سب کے باوجود ماہرین ہر گھرکے لیے لینڈ اسکیپنگ یا تھوڑی بہت باغبانی کو اہم قرار دیتے ہیں، آئیے جانتے ہیں کیوں۔ ٭کوئی بھی شخص فطرت سے دور رہنا پسند نہیں کرتا۔ کنکریٹ کے فرش یا پتھریلی راہگزر کےبرعکس ہر شخص اپنے ارد گرد درخت اور پودوں کی موجودگی زیادہ پسند کرتا ہے۔ لہٰذا فطرت کے تحفظ اور توازن کو برقرار رکھنے کےلیے گھر میں لینڈ اسکیپنگ کرنا لازمی ہے۔ ٭ لینڈ اسکیپنگ کے ذریعے قدرتی وسائل مثلاًمٹی ، پانی اور ہوا کا بہتر استعمال بھی یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ ٭ لینڈ اسکیپنگ ایک طویل عرصے کی سرمایہ کاری ثابت ہوتی ہے اور یہ اس کا ایک اہم فائدہ ہے۔ اس کے ذریعے آپ کو نہ صرف خوشی، اطمینان اور راحت کا احساس ہوتا ہے بلکہ گھر بیٹھے تازہ پھل اور سبزیاں بھی کھانے کو مل جاتی ہیں۔ طریقہ اگر آپ کا گھر کسی ڈھلوان سطح پر بنا ہوا ہے تو مٹی، پھسلن اور چٹانوں سے محفوظ رہنے کے لیے حفاظتی دیواروں کی تعمیر ایک بہترین آپشن ہے اور اگر گھر کے اردگرد بچے ہیں تو آپ نے یہ کام لازمی کرنا ہے۔ اسی طرح اگر آپ ماحول میں بڑھتی فضائی اور زمینی آلودگی سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے صحن، آنگن یا گھر کے عقبی حصے میں لینڈ اسکیپنگ کرنا ہوگی کیونکہ کسی بھی ماحول میں رہائش پذیر ہونے سے قبل اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ آیا وہ ماحول آپ کے اور آپ کے اہل خانہ کیلئے محفوظ ہے یا نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جگہ چھوٹی ہو یا بڑی ،لینڈ اسکیپنگ کیسے کی جائے؟ گھر کے بیرونی حصے میں لینڈ اسکیپنگ کے حوالے سےماہرین مختلف مشورے دیتے۔ پھول، پودے ، جھاڑیاں ، واک وے اور روشنی جیسے عوامل لینڈ اسکیپنگ کیلئے ضروری ہیں۔ لیکن ان عوامل میں سے کسی ایک کا انتخاب کسی بھی انسان کیلئے مشکل ہوسکتا ہے، لہٰذا درج ذیل مشورے آپ کیلئے سود مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ ٭ لینڈ اسکیپنگ کا پہلا اصول یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں ایک واضح خاکہ موجود ہونا چاہیے۔ یہ خاکہ مختلف صورتوں میں ہوسکتا ہے جیسے گول، چوکور، بیضوی یا پھر لمبوترا۔ کسی دھاگے یا تار کی مدد سے خاکے کا تعین کرتے ہوئے فالتو گھاس کاٹ دیں۔ لازمی نہیں کہ مہنگی اور معیاری گھاس ہی آپ کے آنگن کو خوبصورت دکھا ئے، اس کے برعکس دکھنے میں خوبصورت، جلدی بڑھنے او ر سارا سال سبز رہنے والی گھاس کا انتخاب بہتر رہتا ہے۔ لیکن اگر آپ کو ایسا لگتا ہے کہ آپ گھا س کی دیکھ بھال نہیں کرسکتے تو آپ اپنے باغیچے کیلئے مصنوعی گھاس کا انتخاب کریں۔ ٭ انٹرنیشنل گارڈنر اور لینڈ اسکیپسٹ باغبانی کیلئے نیلا پتھر بہترین قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نیلا پتھر نہ صرف لان کے حسن میں اضافہ کرتا ہے بلکہ اس کی قدروقیمت بھی بڑھا دیتا ہے۔ تاہم نیلا رنگ پسند نہ کرنے والے افراد بھورے، سرمئی یا پھر سفید پتھروں کے ذریعے بھی لینڈ اسکیپنگ کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں۔ ٭ بارشوں کے موسم میں کیچڑ سے تحفظ یا چلنے پھرنے میں آسانی کیلئے واکنگ وے بنانا ضروری ہے۔ اس کیلئے پتھر، کنکریٹ، پتھر کنکریٹ مکس، اینٹیں اور گھر میں پڑا فالتو (Wasteمٹیریل استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ٭ صحن کے فرش کے لیےایسے مواد کا انتخاب کریں جو نہ صرف معیاری ہو بلکہ اس کی صفائی بھی آپ کے لیے آسان ہو۔ ٭ پودوں کی بات کی جائے تو باغیچے کیلئے ایسے پودوں (Perennial Plants) کا انتخاب کیجیے ، جنھیں وافر مقدار میں پانی درکار نہ ہو اور وہ زیادہ عرصہ زندہ رہنے والے ہوں۔ طویل عرصہ زندہ رہنے والے پودوں میں دن کا راجا، سَلوِيا، صعتر (خوشبودار پتیوں والا پودا) اور کوراوپسس (پیلے اور سُرخ پُھول والا پودا) شامل ہیں۔ ٭ لینڈ اسکیپنگ کے لیے پیچیدہ درختوں اور جھاڑیوں کا انتخاب کرنے سے گریز کیجیے۔ ان جھاڑیوں اور غیر منظم درختوں سے آپ ماحولیاتی فوائد حاصل نہیں کرپائیں گے۔ درختوں کے پتے متواتر جھڑنے سے آپ کو صفائی کے لیے بھی اضافی وقت درکار ہوگا۔
فینگ شوئی کے تحت رنگ و روغن کا انتخاب
مکان کی تعمیر، تزئینِ نو یا پھر آرائش میں رنگوں کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ رنگ انسان کو حیران کردینے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتے ہیں، کہیں یہ ذہنی یکسوئی کا باعث بنتے ہیں توکہیں مزاج کو تازگی بخشنے کا ذریعہ،کہیںپر سکون ماحول کا تاثر دیتے ہیں تو کہیں خوشی کی علامت بن جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص رنگوں کو پسند کرتا ہے۔ اگر بات کریں فینگ شوئی کی تو اس کے تحت رنگوں کا استعمال آپ کے گھر کا ماحول اور تاثر تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن یہ تبدیلی کسی بھی جگہ کے جمالیاتی اعتبار سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اکثر لوگوں کا ماننا ہے کہ فینگ شوئی محض ایک سجاوٹی انداز نہیں ہے کیونکہ اس میں آرٹ اور سائنس دونوں شامل ہیں۔ فینگ شوئی کا فلسفہ اِس بات پر یقین رکھتا ہے کہ تمام ٹوٹی ہوئی اشیا کو پھینک دینا چاہیے کیونکہ یہ منفی توانائی لاتی ہیں یا مثبت توانائی کا راستہ روکتی ہیں۔ اس کا مقصد توازن اور ہم آہنگی قائم کرنا ہے، جس کے ذریعے انسان کی توانائی کی سطح میں اضافہ کیا جاسکے۔ یوں سمجھ لیں کہ فینگ شوئی رنگوں کو ایک سطح اوپر لے جاتے ہوئے مقصدیت پیدا کرتا ہے۔ہم فینگ شوئی کے مطابق گھر اور دفتر میں تبدیلیاں لا کر مالی، جذباتی اور صحت کے مسائل کو حل کرکے ان میں بہتری لا سکتے ہیں۔ فینگ شوئی، آپ کے دماغ میں چلنے والی خواہشات کے پیش نظر نت نئے انداز کو آپ کے سامنے پیش کرتا ہے، چاہے یہ خواہش رقم، خوشی اور توازن کے حصول سے متعلق ہی کیوں نہ ہو، تمام حوالوں سے فینگ شوئی کے تحت رنگوں کا انتخاب آپ کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔ فینگ شوئی ماہرین کی رائے فینگ شوئی کی ماہر ایشلے کینٹلے کے مطابق رنگ انسان کے مزاج اور توانائی کی سطح پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں، ان کے ذریعے توانائی کی سطح میں اضافہ یا کمی دونوں ممکن ہے۔ آپ کا سکون ، اضطراب ،تھکاوٹ حتیٰ کہ بھوک بھی رنگوں پر منحصر ہے ۔ مرکزی دروازہ گھر میں داخلے کے وقت سب سے پہلے مرکزی دروازہ ہی انسان کے مزاج پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ایشلے کہتی ہیں کہ مرکزی دروازہ کسی بھی گھر میں خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ گھر آنے والا ہر شخص اس دروازے کے ذریعے ہی اندر داخل ہوتا ہے۔ لہٰذا مرکزی دروازے کے لیے ایسے رنگوں کا انتخاب کیجیے جس کے ذریعے توانائی کی سطح میں اضافہ کیا جاسکے۔ اس حوالے سے ایشلے سرخ، سبز اور سیاہ رنگوں کو مرکزی دروازے کے لیے بہترین قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لال رنگ انسان میں خوشی اور جذبہ پیدا کرتا ہے جبکہ فینگ شوئی میں سبز کو تجدید نو، توانائی اور تخلیق کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ کچن فینگ شوئی ماہرین کچن کے لیے سفید رنگ کو سب سے بہترین قرار دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ کھانا پکانے پر توجہ مرکوز کرنے اور تندرست وتوانا محسوس کرنے کے لیے سفید رنگ سے بہتر کوئی اور نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سفید رنگ تمام رنگوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، یہی وجہ ہے کہ خالص سفید رنگ والی جگہ جاکر ہم خود کو پرسکون اور مطمئن محسوس کرتے ہیں۔ اگر آپ کچن کی تعمیر یا تزئین نو کا ارادہ رکھتے ہیں تو کچن کیبنٹری سسٹم یا کچن کاؤنٹر کے لیے سفیدرنگ کے انتخاب پر غور کریں۔ گہرے رنگ کی لکڑی یا سیاہ گرینائٹ کا استعمال اب آؤٹ آف فیشن سمجھا جانے لگا ہے چنانچہ آپ سفید رنگ کو اپنائیں۔ ساتھ ہی کچن کراکری کے لیے بھی وائٹ ڈنر سیٹ خریدنا عمدہ رہے گا۔ بیڈروم خوابگاہ گھر کے اہم حصوں میں سے ایک ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی انسان کے بیڈروم کا مجموعی تاثر جسم اور ذہن دونوں کے لیے سکون کا باعث ہونا چاہیے۔ رنگ چونکہ انسان پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں، لہٰذا فینگ شوئی ماہرین بیڈروم کے لیے پیچ اور گلابی رنگ کا انتخاب بہترین تصور کرتے ہیں۔ فینگ شوئی میں گلابی رنگ (پنک ) کو محبت کا رنگ قرار دیاجاتا ہے،ساتھ ہی اس رنگ کو کسی جگہ کی توانائی کو اعتدال میں رکھنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ گلابی اور پیچ رنگ انسان پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ لیونگ روم لیونگ روم کے لیے بھی فینگ شوئی کے حساب سے صحیح رنگوں کا انتخاب ضروری ہے کیونکہ یہ ایسی جگہ ہے جہاں آپ کے گھر والے یا مہمان بیٹھتے ہیں۔ لیونگ روم میں موجود فرنیچر اور دیگر آرائشی اشیا کی طرح یہاں کارنگ وروغن بھی دلوں کو لبھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ فینگ شوئی میں لیونگ روم کے لیے نیلے اور ہرے رنگوں کے انتخاب کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ رنگ کسی بھی جگہ کو خوشگوار توانائی فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔ نیلے رنگ کو فینگ شوئی میں شاندار رنگ قرار دیا جاتا ہے۔ فینگ شوئی کے لحاظ سے نیلے رنگ کو مختلف سمتوں میں استعمال کرنا بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے جیسے کہ مشرق کی طرف صحت کے لیے، شمال مستقبل میں کامیابی کے لیے اور جنوب مشرق پیسے کے لیے۔ باتھ روم ایشلے کے مطابق فینگ شوئی میں باتھ روم کے رنگوں کے لیے متعدد نقطہ نظر موجود ہیں۔ تاہم، فینگ شوئی کے ماہر سبز، نیلے اور زمینی رنگوں کو باتھ روم اور اسپا کے لیے بہترین قرار دیتے ہیں۔ مزاج پر خوشگوار تاثر قائم کرنے یا پھر توانائی کی سطح میں اضافے کے لیے باتھ ٹب ،باتھ روم ٹائلزیا پھرواش بیسن کے لیے ان رنگوں کا انتخاب سود مندثابت ہوسکتا ہے۔
دلچسپ مشاغل، جو گھر کو بنائیں خوبصورت
اگر آپ کے گھر میں تھوڑی سی فالتو جگہ ہے (چاہے زمین پر یا چھت پر) اور یہ پانچ چھ فٹ جتنی چھوٹی بھی ہو تو آپ اس پر اپنی دلچسپی کی سرگرمی انجام دے کر اسے کارآمد بنا سکتے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کیسے۔ ٹری نرسری گھر کے چھوٹے سے قطعہ اراضی پر آپ10سے20پودوں کے ساتھ آغاز کرسکتے ہیں۔ زمین اورآب وہوا کے لحاظ سے آپ چیکو، کینو یا آم کے درخت لگاسکتےہیں۔ لیکن اگر آپ کا درخت لگانے کا ارادہ نہ ہو تو وہاں آپ بہت سی سبزیاں اُگاسکتے ہیں۔ گملوں کا استعمال کرکے بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک چھوٹا صحن یا برآمدہ سبزیوں کا ایک چھوٹا مگر مناسب باغیچہ بنانے کے لئے کافی ہے۔ اگر آپ کے گھر کے اندر بالکل بھی جگہ نہیں ہے تو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ،آپ گھر کے باہر بھی درخت یا پودے لگا سکتے ہیںکیونکہ جہاں روشنی اور ہوا کا مناسب بندوبست ہووہ جگہ پودوں کے لیے کافی ہوتی ہے ۔ فش فارمنگ چار سے چھ فٹ کا ٹینک تیار کرکے آ پ نہ صرف رنگ برنگی مچھلیوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں بلکہ مچھلیوں کی خریدو فروخت سے اپنی آمدنی میں اضافہ بھی کرسکتے ہیں۔ ایک بار جب آپ کو مچھلیوں کی افزائشِ نسل کا صحیح علم ہو جائے توپھر آپ مچھلی کی صحیح اقسام پالنے کا فیصلہ کرسکیں گے۔ مچھلی جیسے تلپیا، کوڈ، اور کیٹ فش بہت مشہور ہیں کیونکہ ان کا خیال رکھنا بہت آسان ہے اور عام طور پر اس کی زیادہ مانگ ہوتی ہے۔ مچھلیاں رکھیں تو ان کی دیکھ بھال ،صفائی اور خوراک کا لازماً خیال رکھیں تاکہ وہ بھی آپ سے اتنا ہی لطف اٹھائیں جتنا آپ ان سے اٹھاتے ہیں۔ دو فصل فارمنگ دوفصل فارمنگ کا مطلب ہے کہ آپ اپنی زمین پر دو فصلیں اُگائیں۔ دو فصل فارمنگ کاشتکاروں میں بہت مشہور ہے کیونکہ اس سے سامان ، مٹی اور پانی کے بہتر استعمال کے ساتھ پیداوار بھی عمدہ حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح سارا سال ایک چھوٹے سے فارم میںبھی زیادہ فصل ملتی ہے۔ دو فصلوں کی کچھ مثالوں میں اسٹرابیری اور تربوز، مکئی اور کینولا کے علاوہ گندم اور سویا بین ہیں۔ ہرب گارڈننگ اب شاید و ہ زمانہ نہیں رہا کہ لوگ جڑی بوٹیوں کو پہچانتے ہوں یا عام طور پر ان کا استعمال بھی کرتے ہوں۔ آپ جڑی بوٹیوں لگاتے وقت ان کی مختلف اقسام کو دھیان میں رکھیں اور جس چیز کی مانگ زیادہ ہو اسے منتخب کریں تاکہ ان کی فروخت میں آسانی ہو۔ آپ جڑی بوٹیوں، پودوں ، بیجوں یا پھر تینوں چیزوں کو فروخت کر سکتے ہیں۔ آپ پودے اور بیج آن لائن بھی فروخت کرسکتے ہیں۔ چھت پر چائے کا باغیچہ اگرچہ شہری علاقوں میں چھتوں پر بنے باغیچے پہلے ہی عام ہیں، لیکن آپ کچھ منفرد کرسکتے ہیں۔ آپ عام قسم کے پودوں کے بجائے چھت پر چائے کا باغیچہ بنائیں۔ اگر آپ چائے کے باغیچے کو صحیح طریقے سے لگانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے سورج کی روشنی اور ہوا کی فراہمی انتہائی ضروری ہے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے پودوں کو سورج کی کافی روشنی اور سایہ ملے اور وہ تیز ہوا کے جھونکوں سے محفوظ رہیں۔ باغیچہ بنانے سے پہلے اپنی چھت کے بوجھ اٹھانے کی صلاحیت کا تعین کرلیں۔ پولٹری فارمنگ پولٹری فارمنگ کے ذریعے آپ مرغی کی مصنوعات فراہم کرسکتے ہیں۔ چونکہ پولٹری مصنوعات کی مانگ مستقل ہوتی ہے، اس لئے ممکنہ فارم مالکان کے لئے ایک پرکشش سرمایہ کاری کا آپشن بن سکتا ہے۔ گولڈن مرغیاں سالانہ 170سے200تک انڈے دیتی ہیں اور ان کو پالنے میں معمولی سی محنت لگتی ہے۔ گھر میں اگر دوسو مربع فٹ یا دس گز کی جگہ ہوتو سو مرغیاں آسانی سے پالی جاسکتی ہیں۔ اگر آپ شوق میں مرغیاں پال رہے ہیں تو چھوٹی جگہ پر پانچ سے چھ مرغیاں اور ایک بطخ کا جوڑا بھی کافی ہوگا ۔ آپ کو صرف باجرہ، مکئی یا گھر میں بچ جانے والی روٹی کے ٹکڑے ان کو ڈالنے کی ضرورت ہوگی۔ پرندوں کی فارمنگ آپ نےاپنے چند ایک رشتہ داروں یا محلے میں کسی نہ کسی کے گھر پر طوطوں کے پنجرے ضرور دیکھے ہوں گے، جن کے اندر اڑتے چھوٹے طوطے یا آسٹریلین چڑیاں خوب رونق بکھیرتی ہیں، جنھیں دیکھ کر بچے اور بڑے سب محظوظ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بولنے والے طوطے، کنگ فشر، فنچز ، بٹیر اور مینا وغیرہ بھی لوگ شوق سے پالتے ہیں۔ کراچی کی آب و ہواپرندوں کی افزائش کیلئے موزوں ہے کیونکہ یہاں زیادہ سردی نہیں پڑتی، لہٰذا چھوٹے رنگ برنگے پرندوںکا خوبصورت پنجرہ آپ کے گھر میں ایک خوبصورت اضافہ ہوگا۔ پھولوں کا فارم اگر آپ گھر کے عقبی حصے یا صحن میں صرف پھولوں کا فارم بنالیتے ہیں تو اس سے نہ صرف آپ کا گھر خوشبوئوں سے معطر رہے گابلکہ آپ پھولوں کو مارکیٹ بھی فروخت کرسکتےہیں۔ پھولوں کی خوشبو سے ویسے بھی انواع اقسام کے پرفیومز اور عطر بنتے ہیں، جس سے خوبصورتی اور بھی بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جِلد کوصحت مند، موئسچرائزڈ اور جواں رکھنے والی بہت سی کریموں اور لوشنز میںبھی پھولوں کےفوائد شامل ہوتے ہیں۔ دستیاب جگہ اور موسم کی مناسبت سے آپ کئی انواع اقسام کے پھول اُگا سکتےہیں اور اس ضمن میں کسی ماہر کاشت کار یا مالی کی خدمات بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
گھر کی تزئین نو میں چند باتیں دھیان میں رکھیں
گھر کی تزئین نو (ری ماڈلنگ) ایک دلچسپ لیکن جان جوکھم میں ڈالنے والا کام ہے۔ چاہے آپ اپنے گھر کو قابل ذکر بنانا چاہتے ہوں یا پھر اس میں کوئی قابلِ ذکر ڈھانچہ جاتی تبدیلی لانا مقصود ہو، خواہش یہ ہوتی ہے کہ ہر کام زبردست انداز میں پایہ تکمیل کو پہنچے اور اس کے نتائج بھی اتنے ہی زبردست ہوں۔ مطلب، آپ کے گھر آنے والا کوئی بھی شخص ان تبدیلیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ منصوبہ بندی گھر کی تزئین نو کرنے کا پہلا مرحلہ ’پلان‘ یعنی منصوبہ بندی کرنا ہے۔ تزئین نو کے سارے عمل کو بروقت مکمل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ ان ساری مصنوعات یا اشیا کا پیشگی انتخاب کرلیں، جن کا آپ نے استعمال کرنا ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ آپ اپنے بجٹ سے تجاوز نہیں کریں گے۔ ساتھ ہی پیشگی منصوبہ بندی سے آپ کو فیصلے لینے میں آسانی ہوگی کیونکہ منصوبے کی لاگت کے حوالے سے ساری صورتِ حال آپ کے سامنے آجاتی ہے۔ تحقیق گھر کی تزئین و آرائش کرنے سے پہلے آپ مختلف ذرائع سے تحقیق کرسکتے ہیں، جن میں ویب سائٹس، جریدے اور ہمارے یہ صفحات شامل ہیں، جہاں گاہے بگاہے آپ کو اس حوالے سے دلچسپ معلومات دی جاتی رہتی ہیں۔تحقیق کے ذریعے آپ اس بات کا حتمی فیصلہ کرلیں کہ آپ اپنے گھر کے ہر کمرے کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ پہلے ایک سے زیادہ ڈیزائن شارٹ لسٹ کریں اور پھر ان میں سے کسی ایک ڈیزائن کو منتخب کرلیں جو آپ کے ذوق اور بجٹ کے مطابق ہو۔ اس کے علاوہ جس جگہ سے جو چیز اچھی لگے اسے کاٹ کر اپنے پاس محفوظ کرلیں۔ مزید برآں، آپ ایک تھیم کو لے کر چلیں اور پھر اس پر قائم رہیں۔ مثلاً، آپ کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آپ کو باورچی خانہ کے لیے روایتی (ٹریڈیشنل) چاہیے یا پھر جدید (ماڈرن) یا دیہی (رَسٹِک)۔ اگر آپ کو کوئی ایسی چیز پسند ہے جسے آپ نے اپنے دوست یا رشتے داروں کے گھر دیکھا تھا تو آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ انھوں نے وہ چیز کہاں سے خریدی۔ بجٹ مختص کرنا گھر کی تزئین و آرائش ایک مہنگا کام ہے۔ اگر آپ نے پیشگی بجٹ بنائے بغیر اس کام میں ہاتھ ڈالا تو پھر یہ سمجھ لیں کہ آپ کی توقعات سے زیادہ خرچہ ہوگا۔ منصوبہ بندی اور تحقیق کے نتیجے میں آپ ایک بجٹ کا تعین کرنے کے قابل ہوجائیں گے، لہٰذا اس میں دیر نہ کریں۔ ایک بار بجٹ بنالیں تو پھر اس کے مطابق چلیں۔ آپ کا بجٹ فرنیچر، آرائشی اشیا، لائٹنگ، فلورنگ، پلمبنگ اور انسٹالیشن وغیرہ کے اخراجات کا احاطہ کرے گا۔ ٹھیکیدار کا انتخاب ٹھیکیدار کا انتخاب کرنے سے پہلے ان جگہوں پر ضرور جائیں، جہاں جہاں اس کے کام چل رہے ہیں۔ ایک اچھے ٹھیکیدار کی نشانی یہ ہے کہ وہ جس جگہ بھی کام کرتا ہے وہاں صفائی، ستھرائی کا بہت خیال رکھتا ہے اور انتہائی منظم انداز میں اس کا کام خاص رفتار سے جاری رہتا ہے۔ آپ کو اس کے کام کی جگہ پر افراتفری نظر نہیں آئے گی۔ بہتر یہی رہتا ہے کہ آپ ایک ٹھیکیدار کا انتخاب کرنے سے پہلے دو، تین اور ٹھیکیداروں سے بھی ملاقاتیں کریں، جس کے بعد آپ کو درست اندازہ ہوگا کہ آپ کے کام کے لیے سب سے موزوں ٹھیکیدار کون رہے گا۔ اچھے ’باس‘ بنیں بروقت اور معاہدے کے عین مطابق ادائیگیاں کرنا تو آپ کا اخلاقی اور قانونی فرض ہے، اس لیے ادائیگیوں کے معاملے میں پس و پیش سے کام نہ لیں۔ مزید برآں، سائٹ پر کام کے دوران سب کام کرنے والوں کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھیں۔ سب کو عزت چاہیے ہوتی ہے، آپ انھیں عزت دیں گے تو وہ آپ کو آپ کی توقعات سے بڑھ کر نتائج دیں گے۔ توقعات ایک پروفیشنل ٹھیکیدار آپ کو بتائے گا کہ پروجیکٹ میں آپ کو کیا توقعات رکھنی چاہئیں۔ تمام تر پیشگی منصوبہ بندی کے باوجود آپ کو کچھ کاموں میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور کچھ پریشانیاں بھی دیکھنی پڑسکتی ہیں۔ جب آپ ان متوقع پریشانیوں اور ذہنی کوفت کے لیے پہلے سے ہی اپنے ذہن کو تیار کرلیں گے تو آپ کو زیادہ مشکل نہیں ہوگی۔ ضروری سامان محفوظ کرلیں جب آپ تزئین نو کے منصوبے پر کام کا آغاز کریں گے، تو یہ آپ کے گھر کے ہر حصے کو متاثر کرے گا۔ کام شروع کرنے سے پہلےآپ کو تمام تصاویر اور دیگر نازک سامان کو ہٹا لینا چاہیے۔ اس کے علاوہ، اگر آپ چاہتے ہیں کہ فرش صاف ستھرا اور محفوظ رہے تواسے کپڑے سے ڈھانپ لیں۔ کام کا آغاز باقاعدہ طور پر کام شروع کرنے سے قبل آپ ٹھیکیدار اور اس کی پوری ٹیم کے ساتھ ایک میٹنگ رکھیں۔ کام کرنے والی ٹیم کی سائٹ پر پہنچیں اور پیک-اَپ کے اوقاتِ کار طے کریں۔ ساتھی ہی مٹیریل کو رکھنےکے لیے جگہ پر اتفاق اور تزئین نو کے دوران پیدا ہونے والے فضلے کو بروقت ٹھکانے لگانے پر اتفاق کرلیں، تاکہ بعد میں پریشانی نہ ہو۔ اخذ نتیجہ گھر کی تزئین نو کرنے سے پہلے منصوبہ بندی اور بجٹ بنانے کے لیے خود کو مناسب وقت دیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ نے اس کام کے لیے درست ٹھیکیدار کا انتخاب کیا ہے۔ ایک بار جب کام کا باقاعدہ آغاز ہوجائے تو ٹھیکیدار کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھلے رکھیں اور جہاں کہیں آپ کو کام میں تبدیلی یا بہتری کی گنجائش نظر آئے، فوری طور پر اسے ٹھیکیدار کے علم میں لائیں اور دیکھیں کہ اس نئی صورتِ حال کا حل بجٹ میں رہتے ہوئے کس طرح نکالا جاسکتا ہے۔