Poet
stringclasses 30
values | Poem_name
stringlengths 19
107
| Poetry
stringlengths 68
2.22k
|
---|---|---|
Gulzar | گلوں کو سننا ذرا تم صدائیں بھیجی ہیں گلزار غزلیں | گلوں کو سننا ذرا تم صدائیں بھیجی ہیں
گلوں کے ہاتھ بہت سی دعائیں بھیجی ہیں
جو آفتاب کبھی بھی غروب ہوتا نہیں
ہمارا دل ہے اسی کی شعاعیں بھیجی ہیں
اگر جلائے تمہیں بھی شفا ملے شاید
اک ایسے درد کی تم کو شعاعیں بھیجی ہیں
تمہاری خشک سی آنکھیں بھلی نہیں لگتیں
وہ ساری چیزیں جو تم کو رلائیں، بھیجی ہیں
سیاہ رنگ چمکتی ہوئی کناری ہے
پہن لو اچھی لگیں گی گھٹائیں بھیجی ہیں
تمہارے خواب سے ہر شب لپٹ کے سوتے ہیں
سزائیں بھیج دو ہم نے خطائیں بھیجی ہیں
اکیلا پتا ہوا میں بہت بلند اڑا
زمیں سے پاؤں اٹھاؤ ہوائیں بھیجی ہیں |
Nida Fazli | ہر ایک بات کو چپ چاپ کیوں سنا جائے، ندا فضلی غزلیں | ہر ایک بات کو چپ چاپ کیوں سنا جائے
کبھی تو حوصلہ کر کے نہیں کہا جائے
تمہارا گھر بھی اسی شہر کے حصار میں ہے
لگی ہے آگ کہاں کیوں پتہ کیا جائے
جدا ہے ہیر سے رانجھا کئی زمانوں سے
نئے سرے سے کہانی کو پھر لکھا جائے
کہا گیا ہے ستاروں کو چھونا مشکل ہے
یہ کتنا سچ ہے کبھی تجربہ کیا جائے
کتابیں یوں تو بہت سی ہیں میرے بارے میں
کبھی اکیلے میں خود کو بھی پڑھ لیا جائے |
Jigar Moradabadi | بے کیف دل ہے اور جیے جا رہا ہوں میں، جگر مرادآبادی غزلیں | بے کیف دل ہے اور جیے جا رہا ہوں میں
خالی ہے شیشہ اور پیے جا رہا ہوں میں
پیہم جو آہ آہ کیے جا رہا ہوں میں
دولت ہے غم زکوٰۃ دئیے جا رہا ہوں میں
مجبوری کمال محبت تو دیکھنا
جینا نہیں قبول جیے جا رہا ہوں میں
وہ دل کہاں ہے اب کہ جسے پیار کیجیے
مجبوریاں ہیں ساتھ دئیے جا رہا ہوں میں
رخصت ہوئی شباب کے ہم راہ زندگی
کہنے کی بات ہے کہ جیے جا رہا ہوں میں
پہلے شراب زیست تھی اب زیست ہے شراب
کوئی پلا رہا ہے پیے جا رہا ہوں میں |
Kaifi Azmi | کیا جانے کس کی پیاس بجھانے کدھر گئیں کیفی اعظمی غزلیں | کیا جانے کس کی پیاس بجھانے کدھر گئیں
اس سر پہ جھوم کے جو گھٹائیں گزر گئیں
دیوانہ پوچھتا ہے یہ لہروں سے بار بار
کچھ بستیاں یہاں تھیں بتاؤ کدھر گئیں
اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں
ویرانیاں تو سب مرے دل میں اتر گئیں
پیمانہ ٹوٹنے کا کوئی غم نہیں مجھے
غم ہے تو یہ کہ چاندنی راتیں بکھر گئیں
پایا بھی ان کو کھو بھی دیا چپ بھی ہو رہے
اک مختصر سی رات میں صدیاں گزر گئیں |
Mirza Ghalib | حضور شاہ میں اہل سخن کی آزمائش ہے، مرزا غالب غزلیں | حضور شاہ میں اہل سخن کی آزمائش ہے
چمن میں خوش نوایان چمن کی آزمائش ہے
قد و گیسو میں قیس و کوہ کن کی آزمائش ہے
جہاں ہم ہیں وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے
کریں گے کوہ کن کے حوصلے کا امتحان آخر
ابھی اس خستہ کے نیروے تن کی آزمائش ہے
نسیم مصر کو کیا پیر کنعاں کی ہوا خواہی
اسے یوسف کی بوئے پیرہن کی آزمائش ہے
وہ آیا بزم میں دیکھو نہ کہیو پھر کہ غافل تھے
شکیب و صبر اہل انجمن کی آزمائش ہے
رہے دل ہی میں تیر اچھا جگر کے پار ہو بہتر
غرض شست بت ناوک فگن کی آزمائش ہے
نہیں کچھ سبحہ و زنار کے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
پڑا رہ اے دل وابستہ بیتابی سے کیا حاصل
مگر پھر تاب زلف پرشکن کی آزمائش ہے
رگ و پے میں جب اترے زہر غم تب دیکھیے کیا ہو
ابھی تو تلخیٔ کام و دہن کی آزمائش ہے
وہ آویں گے مرے گھر وعدہ کیسا دیکھنا غالبؔ
نئے فتنوں میں اب چرخ کہن کی آزمائش ہے |
Jaun Eliya | سارے رشتے تباہ کر آیا جون ایلیا غزلیں | سارے رشتے تباہ کر آیا
دل برباد اپنے گھر آیا
آخرش خون تھوکنے سے میاں
بات میں تیری کیا اثر آیا
تھا خبر میں زیاں دل و جاں کا
ہر طرف سے میں بے خبر آیا
اب یہاں ہوش میں کبھی اپنے
نہیں آؤں گا میں اگر آیا
میں رہا عمر بھر جدا خود سے
یاد میں خود کو عمر بھر آیا
وہ جو دل نام کا تھا ایک نفر
آج میں اس سے بھی مکر آیا
مدتوں بعد گھر گیا تھا میں
جاتے ہی میں وہاں سے ڈر آیا |
Firaq GorakhPuri | بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں فراق گورکھپوری غزلیں | بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
مری نظریں بھی ایسے قاتلوں کا جان و ایماں ہیں
نگاہیں ملتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں
جسے کہتی ہے دنیا کامیابی وائے نادانی
اسے کن قیمتوں پر کامیاب انسان لیتے ہیں
نگاہ بادہ گوں یوں تو تری باتوں کا کیا کہنا
تری ہر بات لیکن احتیاطاً چھان لیتے ہیں
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا
اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں
حیات عشق کا اک اک نفس جام شہادت ہے
وہ جان ناز برداراں کوئی آسان لیتے ہیں
ہم آہنگی میں بھی اک چاشنی ہے اختلافوں کی
مری باتیں بعنوان دگر وہ مان لیتے ہیں
تری مقبولیت کی وجہ واحد تیری رمزیت
کہ اس کو مانتے ہی کب ہیں جس کو جان لیتے ہیں
اب اس کو کفر مانیں یا بلندیٔ نظر جانیں
خدائے دو جہاں کو دے کے ہم انسان لیتے ہیں
جسے صورت بتاتے ہیں پتہ دیتی ہے سیرت کا
عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں
تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبار الفت میں
ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر احسان لیتے ہیں
ہماری ہر نظر تجھ سے نئی سوگندھ کھاتی ہے
تو تیری ہر نظر سے ہم نیا پیمان لیتے ہیں
رفیق زندگی تھی اب انیس وقت آخر ہے
ترا اے موت ہم یہ دوسرا احسان لیتے ہیں
زمانہ واردات قلب سننے کو ترستا ہے
اسی سے تو سر آنکھوں پر مرا دیوان لیتے ہیں
فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر
کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں |
Mirza Ghalib | ستم کش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پہ عاشق ہیں مرزا غالب غزلیں | ستم کش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پہ عاشق ہیں
تکلف بر طرف مل جائے گا تجھ سا رقیب آخر |
Meer Taqi Meer | میر تقی میر غزلیں ۱۹۰ | ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
جن کی خاطر کی استخواں شکنی
سو ہم ان کے نشان تیر ہوئے
نہیں آتے کسو کی آنکھوں میں
ہو کے عاشق بہت حقیر ہوئے
آگے یہ بے ادائیاں کب تھیں
ان دنوں تم بہت شریر ہوئے
اپنے روتے ہی روتے صحرا کے
گوشے گوشے میں آب گیر ہوئے
ایسی ہستی عدم میں داخل ہے
نے جواں ہم نہ طفل شیر ہوئے
ایک دم تھی نمود بود اپنی
یا سفیدی کی یا اخیر ہوئے
یعنی مانند صبح دنیا میں
ہم جو پیدا ہوئے سو پیر ہوئے
مت مل اہل دول کے لڑکوں سے
میرؔ جی ان سے مل فقیر ہوئے |
Mirza Ghalib | یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں، مرزا غالب غزلیں | یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں
ترے جواہر طرف کلہ کو کیا دیکھیں
ہم اوج طالع لعل و گہر کو دیکھتے ہیں |
Mirza Ghalib | پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موج شراب مرزا غالب غزلیں | پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موج شراب
دے بط مے کو دل و دست شنا موج شراب
پوچھ مت وجہ سیہ مستیٔ ارباب چمن
سایۂ تاک میں ہوتی ہے ہوا موج شراب
جو ہوا غرقۂ مے بخت رسا رکھتا ہے
سر سے گزرے پہ بھی ہے بال ہما موج شراب
ہے یہ برسات وہ موسم کہ عجب کیا ہے اگر
موج ہستی کو کرے فیض ہوا موج شراب
چار موج اٹھتی ہے طوفان طرب سے ہر سو
موج گل موج شفق موج صبا موج شراب
جس قدر روح نباتی ہے جگر تشنۂ ناز
دے ہے تسکیں بہ دم آب بقا موج شراب
بسکہ دوڑے ہے رگ تاک میں خوں ہو ہو کر
شہپر رنگ سے ہے بال کشا موج شراب
موجۂ گل سے چراغاں ہے گزر گاہ خیال
ہے تصور میں ز بس جلوہ نما موج شراب
نشہ کے پردے میں ہے محو تماشائے دماغ
بسکہ رکھتی ہے سر نشو و نما موج شراب
ایک عالم پہ ہیں طوفانی کیفیت فصل
موجۂ سبزۂ نو خیز سے تا موج شراب
شرح ہنگامۂ ہستی ہے زہے موسم گل
رہبر قطرہ بہ دریا ہے خوشا موج شراب
ہوش اڑتے ہیں مرے جلوۂ گل دیکھ اسدؔ
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موج شراب |
Mirza Ghalib | ز بس کی مشقِ تماشا جنون علامت ہے مرزا غالیب غزلیں | ز بسکہ مشق تماشا جنوں علامت ہے
کشاد و بست مژہ سیلی ندامت ہے
نہ جانوں کیونکہ مٹے طعن بد عہدی
تجھے کہ آئنہ بھی ورطۂ ملامت ہے
بہ پیچ و تاب ہوس سلک عافیت مت توڑ
نگاہ عجز سر رشتۂ سلامت ہے
وفا مقابل و دعواۓ عشق بے بنیاد
جنون ساختہ و فصل گل قیامت ہے |
Firaq GorakhPuri | کوئی پیغامِ محبت لبِ اعجاز تو دے، فراق گورکھپوری غزلیں | کوئی پیغام محبت لب اعجاز تو دے
موت کی آنکھ بھی کھل جائے گی آواز تو دے
مقصد عشق ہم آہنگیٔ جزو و کل ہے
درد ہی درد سہی دل بوئے دم ساز تو دے
چشم مخمور کے عنوان نظر کچھ تو کھلیں
دل رنجور دھڑکنے کا کچھ انداز تو دے
اک ذرا ہو نشۂ حسن میں انداز خمار
اک جھلک عشق کے انجام کی آغاز تو دے
جو چھپائے نہ چھپے اور بتائے نہ بنے
دل عاشق کو ان آنکھوں سے کوئی راز تو دے
منتظر اتنی کبھی تھی نہ فضائے آفاق
چھیڑنے ہی کو ہوں پر درد غزل ساز تو دے
ہم اسیران قفس آگ لگا سکتے ہیں
فرصت نغمہ کبھی حسرت پرواز تو دے
عشق اک بار مشیت کو بدل سکتا ہے
عندیہ اپنا مگر کچھ نگہ ناز تو دے
قرب و دیدار تو معلوم کسی کا پھر بھی
کچھ پتہ سا فلک تفرقہ پرداز تو دے
منزلیں گرد کی مانند اڑی جاتی ہیں
ابلق دہر کچھ انداز تگ و تاز تو دے
کان سے ہم تو فراقؔ آنکھ کا لیتے ہیں کام
آج چھپ کر کوئی آواز پر آواز تو دے |
Bahadur Shah Zafar | جب کہ پہلو میں ہمارے بتِ خود کام نہ ہو، بہادر شاہ ظفر غزلیں | جب کہ پہلو میں ہمارے بت خود کام نہ ہو
گریے سے شام و سحر کیوں کہ ہمیں کام نہ ہو
لے گیا دل کا جو آرام ہمارے یا رب
اس دل آرام کو مطلق کبھی آرام نہ ہو
جس کو سمجھے لب پاں خوردہ وہ مالیدہ مسی
مردماں دیکھیو پھولی وہ کہیں شام نہ ہو
آج تشریف گلستاں میں وہ مے کش لایا
کف نرگس پہ دھرا کیونکہ بھلا جام نہ ہو
کر مجھے قتل وہاں اب کہ نہ ہو کوئی جہاں
تا مری جاں تو کہیں خلق میں بدنام نہ ہو
دیکھ کر کھولیو تو کاکل پیچاں کی گرہ
کہ مرا طائر دل اس کے تہ دام نہ ہو
بن ترے اے بت خود کام یہ دل کو ہے خطر
تیرے عاشق کا تمام آہ کہیں کام نہ ہو
آج ہر ایک جو یارو نظر آتا ہے نڈھال
اپنی ابرو کی وہ کھینچے ہوئے صمصام نہ ہو
ہے مرے شوخ کی بالیدہ وہ کافر آنکھیں
جس کے ہم چشم ذرا نرگس بادام نہ ہو
صبح ہوتی ہی نہیں اور نہیں کٹتی رات
رخ پہ کھولے وہ کہیں زلف سیاہ فام نہ ہو
اے ظفرؔ چرخ پہ خورشید جو یوں کانپے ہے
جلوہ گر آج کہیں یار لب بام نہ ہو |
Meer Taqi Meer | منہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا میر تقی میر غزلیں | منہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا
حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
تھے برے مغبچوں کے تیور لیک
شیخ مے خانے سے بھلا کھسکا
داغ آنکھوں سے کھل رہے ہیں سب
ہاتھ دستہ ہوا ہے نرگس کا
بحر کم ظرف ہے بسان حباب
کاسہ لیس اب ہوا ہے تو جس کا
فیض اے ابر چشم تر سے اٹھا
آج دامن وسیع ہے اس کا
تاب کس کو جو حال میرؔ سنے
حال ہی اور کچھ ہے مجلس کا |
Dagh Dehlvi | سبق ایسا پڑھا دیا تو نے داغ دہلوی غزلوں کی | سبق ایسا پڑھا دیا تو نے
دل سے سب کچھ بھلا دیا تو نے
ہم نکمے ہوئے زمانے کے
کام ایسا سکھا دیا تو نے
کچھ تعلق رہا نہ دنیا سے
شغل ایسا بتا دیا تو نے
کس خوشی کی خبر سنا کے مجھے
غم کا پتلا بنا دیا تو نے
کیا بتاؤں کہ کیا لیا میں نے
کیا کہوں میں کی کیا دیا تو نے
بے طلب جو ملا ملا مجھ کو
بے غرض جو دیا دیا تو نے
عمر جاوید خضر کو بخشی
آب حیواں پلا دیا تو نے
نار نمرود کو کیا گلزار
دوست کو یوں بچا دیا تو نے
دست موسیٰ میں فیض بخشش ہے
نور و لوح و عصا دیا تو نے
صبح موج نسیم گلشن کو
نفس جاں فزا دیا تو نے
شب تیرہ میں شمع روشن کو
نور خورشید کا دیا تو نے
نغمہ بلبل کو رنگ و بو گل کو
دلکش و خوش نما دیا تو نے
کہیں مشتاق سے حجاب ہوا
کہیں پردہ اٹھا دیا تو نے
تھا مرا منہ نہ قابل لبیک
کعبہ مجھ کو دکھا دیا تو نے
جس قدر میں نے تجھ سے خواہش کی
اس سے مجھ کو سوا دیا تو نے
رہبر خضر و ہادی الیاس
مجھ کو وہ رہنما دیا تو نے
مٹ گئے دل سے نقش باطل سب
نقشہ اپنا جما دیا تو نے
ہے یہی راہ منزل مقصود
خوب رستے لگا دیا تو نے
مجھ گنہ گار کو جو بخش دیا
تو جہنم کو کیا دیا تو نے
داغؔ کو کون دینے والا تھا
جو دیا اے خدا دیا تو نے |
Wali Mohammad Wali | تیرا لب دیکھ حیوان یاد آوے، ولی محمد ولی کی غزلیں | ترا لب دیکھ حیواں یاد آوے
ترا مکھ دیکھ کنعاں یاد آوے
ترے دو نین جب دیکھوں نظر بھر
مجھے تب نرگسستاں یاد آوے
تری زلفاں کی طولانی کوں دیکھے
مجھے لیل زمستاں یاد آوے
ترے خط کا زمرد رنگ دیکھے
بہار سنبلستاں یاد آوے
ترے مکھ کے چمن کے دیکھنے سوں
مجھے فردوس رضواں یاد آوے
تری زلفاں میں یو مکھ جو کہ دیکھے
اسے شمع شبستاں یاد آوے
جو کوئی دیکھے مری انکھیاں کو روتے
اسے ابر بہاراں یاد آوے
جو میرے حال کی گردش کوں دیکھے
اسے گرداب گرداں یاد آوے
ولیؔ میرا جنوں جو کوئی کہ دیکھے
اسے کوہ و بیاباں یاد آوے |
Mirza Ghalib | ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں مرزا غالب غزلیں | ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں
کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں
کب سے ہوں کیا بتاؤں جہان خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
جو منکر وفا ہو فریب اس پہ کیا چلے
کیوں بد گماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں
میں مضطرب ہوں وصل میں خوف رقیب سے
ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں
میں اور حظ وصل خدا ساز بات ہے
جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں
ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
ہے اک شکن پڑی ہوئی طرف نقاب میں
لاکھوں لگاؤ ایک چرانا نگاہ کا
لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں
وہ نالہ دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے
جس نالہ سے شگاف پڑے آفتاب میں
وہ سحر مدعا طلبی میں نہ کام آئے
جس سحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں
غالبؔ چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روز ابر و شب ماہتاب میں |
Meer Taqi Meer | جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا میر تقی میر غزلیں | جیتے جی کوچۂ دل دار سے جایا نہ گیا
اس کی دیوار کا سر سے مرے سایہ نہ گیا
کاو کاو مژۂ یار و دل زار و نزار
گتھ گئے ایسے شتابی کہ چھڑایا نہ گیا
وہ تو کل دیر تلک دیکھتا ایدھر کو رہا
ہم سے ہی حال تباہ اپنا دکھایا نہ گیا
گرم رو راہ فنا کا نہیں ہو سکتا پتنگ
اس سے تو شمع نمط سر بھی کٹایا نہ گیا
پاس ناموس محبت تھا کہ فرہاد کے پاس
بے ستوں سامنے سے اپنے اٹھایا نہ گیا
خاک تک کوچۂ دل دار کی چھانی ہم نے
جستجو کی پہ دل گم شدہ پایا نہ گیا
آتش تیز جدائی میں یکایک اس بن
دل جلا یوں کہ تنک جی بھی جلایا نہ گیا
مہ نے آ سامنے شب یاد دلایا تھا اسے
پھر وہ تا صبح مرے جی سے بھلایا نہ گیا
زیر شمشیر ستم میرؔ تڑپنا کیسا
سر بھی تسلیم محبت میں ہلایا نہ گیا
جی میں آتا ہے کہ کچھ اور بھی موزوں کیجے
درد دل ایک غزل میں تو سنایا نہ گیا |
Habib Jalib | ہم نے دل سے تجھے صدا مانا حبیب جلیب غزلیں | ہم نے دل سے تجھے سدا مانا
تو بڑا تھا تجھے بڑا مانا
میرؔ و غالبؔ کے بعد انیسؔ کے بعد
تجھ کو مانا بڑا بجا مانا
تو کہ دیوانۂ صداقت تھا
تو نے بندے کو کب خدا مانا
تجھ کو پروا نہ تھی زمانے کی
تو نے دل ہی کا ہر کہا مانا
تجھ کو خود پہ تھا اعتماد اتنا
خود ہی کو تو نہ رہنما مانا
کی نہ شب کی کبھی پذیرائی
صبح کو لائق ثنا مانا
ہنس دیا سطح ذہن عالم پر
جب کسی بات کا برا مانا
یوں تو شاعر تھے اور بھی اے جوشؔ
ہم نے تجھ سا نہ دوسرا مانا |
Mirza Ghalib | کرے ہے بادہ تیرے لب سے کسبِ رنگِ فروغ مرزا غالب غزلیں | کرے ہے بادہ ترے لب سے کسب رنگ فروغ
خط پیالہ سراسر نگاہ گل چیں ہے
کبھی تو اس دل شوریدہ کی بھی داد ملے
کہ ایک عمر سے حسرت پرست بالیں ہے
بجا ہے گر نہ سنے نالہ ہائے بلبل زار
کہ گوش گل نم شبنم سے پنبہ آگیں ہے
اسدؔ ہے نزع میں چل بے وفا برائے خدا
مقام ترک حجاب و وداع تمکیں ہے |
Faiz Ahmad Faiz | دل میں اب یوں تیرے بھولے ہوئے غم آتے ہیں، فیض احمد فیض غزلیں | دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں
جیسے بچھڑے ہوئے کعبہ میں صنم آتے ہیں
ایک اک کر کے ہوئے جاتے ہیں تارے روشن
میری منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیں
رقص مے تیز کرو ساز کی لے تیز کرو
سوئے مے خانہ سفیران حرم آتے ہیں
کچھ ہمیں کو نہیں احسان اٹھانے کا دماغ
وہ تو جب آتے ہیں مائل بہ کرم آتے ہیں
اور کچھ دیر نہ گزرے شب فرقت سے کہو
دل بھی کم دکھتا ہے وہ یاد بھی کم آتے ہیں |
Wali Mohammad Wali | فداۓ دلبر رنگین ادا ہوں، ولی محمد ولی کی غزلیں | فدائے دلبر رنگیں ادا ہوں
شہید شاہد گل گوں قبا ہوں
ہر اک مہ رو کے ملنے کا نہیں ذوق
سخن کے آشنا کا آشنا ہوں
کیا ہوں ترک نرگس کا تماشا
طلب گار نگاہ با حیا ہوں
نہ کر شمشاد کی تعریف مجھ پاس
کہ میں اس سرو قد کا مبتلا ہوں
کیا میں عرض اس خورشید رو سوں
تو شاہ حسن میں تیرا گدا ہوں
سدا رکھتا ہوں شوق اس کے سخن کا
ہمیشہ تشنۂ آب بقا ہوں
قدم پر اس کے رکھتا ہوں سدا سر
ولیؔ ہم مشرب رنگ حنا ہوں |
Bahadur Shah Zafar | یا مجھے افسر شاہانہ بنایا ہوتا بہادر شاہ ظفر غزلیں | یا مجھے افسر شاہانہ بنایا ہوتا
یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا
اپنا دیوانہ بنایا مجھے ہوتا تو نے
کیوں خرد مند بنایا نہ بنایا ہوتا
خاکساری کے لیے گرچہ بنایا تھا مجھے
کاش خاک در جانانہ بنایا ہوتا
نشۂ عشق کا گر ظرف دیا تھا مجھ کو
عمر کا تنگ نہ پیمانہ بنایا ہوتا
دل صد چاک بنایا تو بلا سے لیکن
زلف مشکیں کا ترے شانہ بنایا ہوتا
صوفیوں کے جو نہ تھا لائق صحبت تو مجھے
قابل جلسۂ رندانہ بنایا ہوتا
تھا جلانا ہی اگر دورئ ساقی سے مجھے
تو چراغ در مے خانہ بنایا ہوتا
شعلۂ حسن چمن میں نہ دکھایا اس نے
ورنہ بلبل کو بھی پروانہ بنایا ہوتا
روز معمورۂ دنیا میں خرابی ہے ظفرؔ
ایسی بستی کو تو ویرانہ بنایا ہوتا |
Habib Jalib | فیض اور فیض کا غم بھولنے والا ہے کہیں حبیب جالب غزلیں | فیضؔ اور فیضؔ کا غم بھولنے والا ہے کہیں
موت یہ تیرا ستم بھولنے والا ہے کہیں
ہم سے جس وقت نے وہ شاہ سخن چھین لیا
ہم کو وہ وقت الم بھولنے والا ہے کہیں
ترے اشک اور بھی چمکائیں گی یادیں اس کی
ہم کو وہ دیدۂ نم بھولنے والا ہے کہیں
کبھی زنداں میں کبھی دور وطن سے اے دوست
جو کیا اس نے رقم بھولنے والا ہے کہیں
آخری بار اسے دیکھ نہ پائے جالبؔ
یہ مقدر کا ستم بھولنے والا ہے کہیں |
Mirza Ghalib | میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں، مرزا غالب غزلیں۔ | میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
چل نکلتے جو مے پیے ہوتے
قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو
کاش کے تم مرے لیے ہوتے
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یارب کئی دیے ہوتے
آ ہی جاتا وہ راہ پر غالبؔ
کوئی دن اور بھی جیے ہوتے |
Habib Jalib | وہ دیکھنے مجھے آنا تو چاہتا ہوگا حبیب جالب غزلیں | وہ دیکھنے مجھے آنا تو چاہتا ہوگا
مگر زمانے کی باتوں سے ڈر گیا ہوگا
اسے تھا شوق بہت مجھ کو اچھا رکھنے کا
یہ شوق اوروں کو شاید برا لگا ہوگا
کبھی نہ حد ادب سے بڑھے تھے دیدہ و دل
وہ مجھ سے کس لیے کسی بات پر خفا ہوگا
مجھے گمان ہے یہ بھی یقین کی حد تک
کسی سے بھی نہ وہ میری طرح ملا ہوگا
کبھی کبھی تو ستاروں کی چھاؤں میں وہ بھی
مرے خیال میں کچھ دیر جاگتا ہوگا
وہ اس کا سادہ و معصوم والہانہ پن
کسی بھی جگ میں کوئی دیوتا بھی کیا ہوگا
نہیں وہ آیا تو جالبؔ گلہ نہ کر اس کا
نہ جانے کیا اسے درپیش مسئلہ ہوگا |
Sahir Ludhianvi | بجھا دیے ہیں خود اپنے ہاتھوں محبتوں کے دیے جلا کے ساحر لدھیانوی غزلیں | بجھا دیے ہیں خود اپنے ہاتھوں محبتوں کے دیے جلا کے
مری وفا نے اجاڑ دی ہیں امید کی بستیاں بسا کے
تجھے بھلا دیں گے اپنے دل سے یہ فیصلہ تو کیا ہے لیکن
نہ دل کو معلوم ہے نہ ہم کو جئیں گے کیسے تجھے بھلا کے
کبھی ملیں گے جو راستے میں تو منہ پھرا کر پلٹ پڑیں گے
کہیں سنیں گے جو نام تیرا تو چپ رہیں گے نظر جھکا کے
نہ سوچنے پر بھی سوچتی ہوں کہ زندگانی میں کیا رہے گا
تری تمنا کو دفن کر کے ترے خیالوں سے دور جا کے |
Habib Jalib | ہجوم دیکھ کر راستہ نہیں بدلتے ہم، حبیب جالب کی غزلیں۔ | ہجوم دیکھ کے رستہ نہیں بدلتے ہم
کسی کے ڈر سے تقاضا نہیں بدلتے ہم
ہزار زیر قدم راستہ ہو خاروں کا
جو چل پڑیں تو ارادہ نہیں بدلتے ہم
اسی لیے تو نہیں معتبر زمانے میں
کہ رنگ صورت دنیا نہیں بدلتے ہم
ہوا کو دیکھ کے جالبؔ مثال ہم عصراں
بجا یہ زعم ہمارا نہیں بدلتے ہم |
Firaq GorakhPuri | وہ چپ چاپ آنسو بہانے کی راتیں فراق گورکھپوری غزلیں | وہ چپ چاپ آنسو بہانے کی راتیں
وہ اک شخص کے یاد آنے کی راتیں
شب مہ کی وہ ٹھنڈی آنچیں وہ شبنم
ترے حسن کے رسمسانے کی راتیں
جوانی کی دوشیزگی کا تبسم
گل زار کے وہ کھلانے کی راتیں
پھواریں سی نغموں کی پڑتی ہوں جیسے
کچھ اس لب کے سننے سنانے کی راتیں
مجھے یاد ہے تیری ہر صبح رخصت
مجھے یاد ہیں تیرے آنے کی راتیں
پر اسرار سی میری عرض تمنا
وہ کچھ زیر لب مسکرانے کی راتیں
سر شام سے رتجگا کے وہ ساماں
وہ پچھلے پہر نیند آنے کی راتیں
سر شام سے تا سحر قرب جاناں
نہ جانے وہ تھیں کس زمانے کی راتیں
سر میکدہ تشنگی کی وہ قسمیں
وہ ساقی سے باتیں بنانے کی راتیں
ہم آغوشیاں شاہد مہرباں کی
زمانے کے غم بھول جانے کی راتیں
فراقؔ اپنی قسمت میں شاید نہیں تھے
ٹھکانے کے دن یا ٹھکانے کی راتیں |
Mirza Ghalib | مزے جہاں کے اپنی نظر میں خاک نہیں، مرزا غالب غزلیں | مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
سواے خون جگر سو جگر میں خاک نہیں
مگر غبار ہوے پر ہوا اڑا لے جاے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں
یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے
کہ غیر جلوۂ گل رہ گزر میں خاک نہیں
بھلا اسے نہ سہی کچھ مجھی کو رحم آتا
اثر مرے نفس بے اثر میں خاک نہیں
خیال جلوۂ گل سے خراب ہیں میکش
شراب خانہ کے دیوار و در میں خاک نہیں
ہوا ہوں عشق کی غارتگری سے شرمندہ
سواے حسرت تعمیر گھر میں خاک نہیں
ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ
کھلا کہ فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں |
Dagh Dehlvi | کعبے کی ہے حوس کبھی کوئے بتان کی ہے، داغ دہلوی غزلیں۔ | کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے
سن کے مرا فسانہ انہیں لطف آ گیا
سنتا ہوں اب کہ روز طلب قصہ خواں کی ہے
پیغام بر کی بات پر آپس میں رنج کیا
میری زبان کی ہے نہ تمہاری زباں کی ہے
کچھ تازگی ہو لذت آزار کے لیے
ہر دم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے
جاں بر بھی ہو گئے ہیں بہت مجھ سے نیم جاں
کیا غم ہے اے طبیب جو پوری وہاں کی ہے
حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار پر
کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے
وقت خرام ناز دکھا دو جدا جدا
یہ چال حشر کی یہ روش آسماں کی ہے
فرصت کہاں کہ ہم سے کسی وقت تو ملے
دن غیر کا ہے رات ترے پاسباں کی ہے
قاصد کی گفتگو سے تسلی ہو کس طرح
چھپتی نہیں وہ بات جو تیری زباں کی ہے
جور رقیب و ظلم فلک کا نہیں خیال
تشویش ایک خاطر نامہرباں کی ہے
سن کر مرا فسانۂ غم اس نے یہ کہا
ہو جائے جھوٹ سچ یہی خوبی بیاں کی ہے
دامن سنبھال باندھ کمر آستیں چڑھا
خنجر نکال دل میں اگر امتحاں کی ہے
ہر ہر نفس میں دل سے نکلنے لگا غبار
کیا جانے گرد راہ یہ کس کارواں کی ہے
کیونکہ نہ آتے خلد سے آدم زمین پر
موزوں وہیں وہ خوب ہے جو سنتے جہاں کی ہے
تقدیر سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ عشق میں
تدبیر کوئی بھی ستم ناگہاں کی ہے
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے |
Altaf Hussain Hali | حقیقت محرم اسرار سے پوچھ، الطاف حسین حالی غزلیں | حقیقت محرم اسرار سے پوچھ
مزا انگور کا مے خوار سے پوچھ
وفا اغیار کی اغیار سے سن
مری الفت در و دیوار سے پوچھ
ہماری آہ بے تاثیر کا حال
کچھ اپنے دل سے کچھ اغیار سے پوچھ
دلوں میں ڈالنا ذوق اسیری
کمند گیسوئے خم دار سے پوچھ
دل مہجور سے سن لذت وصل
نشاط عافیت بیمار سے پوچھ
نہیں جز گریۂ غم حاصل عشق
ہماری چشم دریا بار سے پوچھ
نہیں آب بقا جز جلوۂ دوست
کسی لب تشنۂ دیدار سے پوچھ
فریب وعدۂ دل دار کی قدر
شہید خنجر انکار سے پوچھ
فغان شوق کو مانع نہیں وصل
یہ نکتہ عندلیب زار سے پوچھ
تصور میں کیا کرتے ہیں جو ہم
وہ تصویر خیال یار سے پوچھ
متاع بے بہا ہے شعر حالیؔ
مری قیمت مری گفتار سے پوچھ |
Jaun Eliya | بے قراری سی بے قراری ہے جون ایلیا غزلیں | بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
نگھرے کیا ہوئے کہ لوگوں پر
اپنا سایہ بھی اب تو بھاری ہے
بن تمہارے کبھی نہیں آئی
کیا مری نیند بھی تمہاری ہے
آپ میں کیسے آؤں میں تجھ بن
سانس جو چل رہی ہے آری ہے
اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں
رات دن تیری انتظاری ہے
ہجر ہو یا وصال ہو کچھ ہو
ہم ہیں اور اس کی یادگاری ہے
اک مہک سمت دل سے آئی تھی
میں یہ سمجھا تری سواری ہے
حادثوں کا حساب ہے اپنا
ورنہ ہر آن سب کی باری ہے
خوش رہے تو کہ زندگی اپنی
عمر بھر کی امیدواری ہے |
Dagh Dehlvi | دیکھ کر جوبن تیرا کس کس کو حیرانی ہوئی داغ دہلوی غزلیں | دیکھ کر جوبن ترا کس کس کو حیرانی ہوئی
اس جوانی پر جوانی آپ دیوانی ہوئی
پردے پردے میں محبت دشمن جانی ہوئی
یہ خدا کی مار کیا اے شوق پنہانی ہوئی
دل کا سودا کر کے ان سے کیا پشیمانی ہوئی
قدر اس کی پھر کہاں جس شے کی ارزانی ہوئی
میرے گھر اس شوخ کی دو دن سے مہمانی ہوئی
بیکسی کی آج کل کیا خانہ ویرانی ہوئی
ترک رسم و راہ پر افسوس ہے دونوں طرف
ہم سے نادانی ہوئی یا تم سے نادانی ہوئی
ابتدا سے انتہا تک حال ان سے کہہ تو دوں
فکر یہ ہے اور جو کہہ کر پشیمانی ہوئی
غم قیامت کا نہیں واعظ مجھے یہ فکر ہے
دین کب باقی رہا دنیا اگر فانی ہوئی
تم نہ شب کو آؤ گے یہ ہے یقیں آیا ہوا
تم نہ مانو گے مری یہ بات ہے مانی ہوئی
مجھ میں دم جب تک رہا مشکل میں تھے تیماردار
میری آسانی سے سب یاروں کی آسانی ہوئی
اس کو کیا کہتے ہیں اتنا ہی بڑھا شوق وصال
جس قدر مشہور ان کی پاک دامانی ہوئی
بزم سے اٹھنے کی غیرت بیٹھنے سے دل کو رشک
دیکھ کر غیروں کا مجمع کیا پریشانی ہوئی
دعویٰ تسخیر پر یہ اس پری وش نے کہا
آپ کا دل کیا ہوا مہر سلیمانی ہوئی
کھل گئیں زلفیں مگر اس شوخ مست ناز کی
جھومتی باد صبا پھرتی ہے مستانی ہوئی
میں سراپا سجدے کرتا اس کے در پر شوق سے
سر سے پا تک کیوں نہ پیشانی ہی پیشانی ہوئی
دل کی قلب ماہیت کا ہو اسے کیونکر یقیں
کب ہوا مٹی ہوئی ہے آگ کب پانی ہوئی
آتے ہی کہتے ہو اب گھر جائیں گے اچھی کہی
یہ مثل پوری یہاں من مانی گھر جانی ہوئی
عرصۂ محشر میں تجھ کو ڈھونڈ لاؤں تو سہی
کوئی چھپ سکتی ہے جو صورت ہو پہچانی ہوئی
دیکھ کر قاتل کا خالی ہاتھ بھی جی ڈر گیا
اس کی چین آستیں بھی چین پیشانی ہوئی
کھا کے دھوکا اس بت کمسن نے دامن میں لیے
اشک افشانی بھی میری گوہر افشانی ہوئی
بیکسی پر میری اپنی تیغ کی حسرت تو دیکھ
چشم جوہر بھی بشکل چشم حیرانی ہوئی
بیکسی پر داغؔ کی افسوس آتا ہے ہمیں
کس جگہ کس وقت اس کی خانہ ویرانی ہوئی |
Mirza Ghalib | پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا، مرزا غالب غزلیں | پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل جگر تشنۂ فریاد آیا
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقت سفر یاد آیا
سادگی ہائے تمنا یعنی
پھر وہ نیرنگ نظر یاد آیا
عذر واماندگی اے حسرت دل
نالہ کرتا تھا جگر یاد آیا
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا
کیا ہی رضواں سے لڑائی ہوگی
گھر ترا خلد میں گر یاد آیا
آہ وہ جرأت فریاد کہاں
دل سے تنگ آ کے جگر یاد آیا
پھر ترے کوچہ کو جاتا ہے خیال
دل گم گشتہ مگر یاد آیا
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
وصل میں ہجر کا ڈر یاد آیا
عین جنت میں سقر یاد آیا |
Wali Mohammad Wali | آج سرسبز کوہ و صحرا ہے ولی محمد ولی کی غزلیں | آج سر سبز کوہ و صحرا ہے
ہر طرف سیر ہے تماشا ہے
چہرۂ یار و قامت زیبا
گل رنگین و سرو رعنا ہے
معنی حسن و معنی خوبی
صورت یار سوں ہویدا ہے
دم جاں بخش نو خطاں مج کوں
چشمۂ خضر ہے مسیحا ہے
کمر نازک و دہان صنم
فکر باریک ہے معما ہے
مو بہ مو اس کوں ہے پریشانی
زلف مشکیں کا جس کوں سودا ہے
کیا حقیقت ہے تجھ تواضع کی
یو تلطف ہے یا مداوا ہے
سبب دل ربائی عاشق
مہر ہے لطف ہے دلاسا ہے
جوں ولیؔ رات دن ہے محو خیال
جس کوں تجھ وصل کی تمنا ہے |
Habib Jalib | جاگنے والو تا بہ سحر خاموش رہو حبیب جلیب غزلیں | جاگنے والو تا بہ سحر خاموش رہو
کل کیا ہوگا کس کو خبر خاموش رہو
کس نے سحر کے پاؤں میں زنجیریں ڈالیں
ہو جائے گی رات بسر خاموش رہو
شاید چپ رہنے میں عزت رہ جائے
چپ ہی بھلی اے اہل نظر خاموش رہو
قدم قدم پر پہرے ہیں ان راہوں میں
دار و رسن کا ہے یہ نگر خاموش رہو
یوں بھی کہاں بے تابئ دل کم ہوتی ہے
یوں بھی کہاں آرام مگر خاموش رہو
شعر کی باتیں ختم ہوئیں اس عالم میں
کیسا جوشؔ اور کس کا جگرؔ خاموش رہو |
Nida Fazli | ایک ہی دھرتی ہم سب کا گھر، جتنا تیرا اتنا میرا، ندا فاضلی غزلیں | ایک ہی دھرتی ہم سب کا گھر جتنا تیرا اتنا میرا
دکھ سکھ کا یہ جنتر منتر جتنا تیرا اتنا میرا
گیہوں چاول بانٹنے والے جھوٹا تولیں تو کیا بولیں
یوں تو سب کچھ اندر باہر جتنا تیرا اتنا میرا
ہر جیون کی وہی وراثت آنسو سپنا چاہت محنت
سانسوں کا ہر بوجھ برابر جتنا تیرا اتنا میرا
سانسیں جتنی موجیں اتنی سب کی اپنی اپنی گنتی
صدیوں کا اتہاس سمندر جتنا تیرا اتنا میرا
خوشیوں کے بٹوارے تک ہی اونچے نیچے آگے پیچھے
دنیا کے مٹ جانے کا ڈر جتنا تیرا اتنا میرا |
Mirza Ghalib | معنی دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں مرزا غالب غزلیں | مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
ایک چکر ہے مرے پانو میں زنجیر نہیں
شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو کہ جہاں
جادہ غیر از نگہ دیدۂ تصویر نہیں
حسرت لذت آزار رہی جاتی ہے
جادۂ راہ وفا جز دم شمشیر نہیں
رنج نومیدی جاوید گوارا رہیو
خوش ہوں گر نالہ زبونی کش تاثیر نہیں
سر کھجاتا ہے جہاں زخم سر اچھا ہو جائے
لذت سنگ بہ اندازۂ تقریر نہیں
جب کرم رخصت بیباکی و گستاخی دے
کوئی تقصیر بجز خجلت تقصیر نہیں
غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخؔ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں
میرؔ کے شعر کا احوال کہوں کیا غالبؔ
جس کا دیوان کم از گلشن کشمیر نہیں
آئینہ دام کو پردے میں چھپاتا ہے عبث
کہ پری زاد نظر قابل تسخیر نہیں
مثل گل زخم ہے میرا بھی سناں سے توام
تیرا ترکش ہی کچھ آبستنیٔ تیر نہیں |
Bahadur Shah Zafar | پان کھا کر سرمہ کی تحریر پھر کھینچی تو کیا بہادر شاہ ظفر غزلیں | پان کھا کر سرمہ کی تحریر پھر کھینچی تو کیا
جب مرا خوں ہو چکا شمشیر پھر کھینچی تو کیا
اے مہوس جب کہ زر تیرے نصیبوں میں نہیں
تو نے محنت بھی پئے اکسیر پھر کھینچی تو کیا
گر کھنچے سینہ سے ناوک روح تو قالب سے کھینچ
اے اجل جب کھنچ گیا وہ تیر پھر کھینچی تو کیا
کھینچتا تھا پاؤں میرا پہلے ہی زنجیر سے
اے جنوں تو نے مری زنجیر پھر کھینچی تو کیا
دار ہی پر اس نے کھینچا جب سر بازار عشق
لاش بھی میری پئے تشہیر پھر کھینچی تو کیا
کھینچ اب نالہ کوئی ایسا کہ ہو اس کو اثر
تو نے اے دل آہ پر تاثیر پھر کھینچی تو کیا
چاہیئے اس کا تصور ہی سے نقشہ کھینچنا
دیکھ کر تصویر کو تصویر پھر کھینچی تو کیا
کھینچ لے اول ہی سے دل کی عنان اختیار
تو نے گر اے عاشق دلگیر پھر کھینچی تو کیا
کیا ہوا آگے اٹھائے گر ظفرؔ احسان عقل
اور اگر اب منت تدبیر پھر کھینچی تو کیا |
Allama Iqbal | اگر کج رو ہیں انجم آسمان تیرا ہے یا میرا، علامہ اقبال غزلیں | اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لا مکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب لا مکاں تیرا ہے یا میرا
اسے صبح ازل انکار کی جرأت ہوئی کیوں کر
مجھے معلوم کیا وہ رازداں تیرا ہے یا میرا
محمد بھی ترا جبریل بھی قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا
اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا |
Faiz Ahmad Faiz | وفا عہد نہیں، عہد دیگر بھی نہیں، فیض احمد فیض غزلیں | وفائے وعدہ نہیں وعدۂ دگر بھی نہیں
وہ مجھ سے روٹھے تو تھے لیکن اس قدر بھی نہیں
برس رہی ہے حریم ہوس میں دولت حسن
گدائے عشق کے کاسے میں اک نظر بھی نہیں
نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں
نگاہ شوق سر بزم بے حجاب نہ ہو
وہ بے خبر ہی سہی اتنے بے خبر بھی نہیں
یہ عہد ترک محبت ہے کس لیے آخر
سکون قلب ادھر بھی نہیں ادھر بھی نہیں |
Firaq GorakhPuri | جور و بے مہری کے اغماض پر کیا روتا ہے فراق گورکھپوری غزلیں | جور و بے مہری اغماض پہ کیا روتا ہے
مہرباں بھی کوئی ہو جائے گا جلدی کیا ہے
کھو دیا تم کو تو ہم پوچھتے پھرتے ہیں یہی
جس کی تقدیر بگڑ جائے وہ کرتا کیا ہے
دل کا اک کام جو ہوتا نہیں اک مدت سے
تم ذرا ہاتھ لگا دو تو ہوا رکھا ہے
نگۂ شوخ میں اور دل میں ہیں چوٹیں کیا کیا
آج تک ہم نہ سمجھ پائے کہ جھگڑا کیا ہے
عشق سے توبہ بھی ہے حسن سے شکوے بھی ہزار
کہیے تو حضرت دل آپ کا منشا کیا ہے
زینت دوش ترا نامۂ اعمال نہ ہو
تیری دستار سے واعظ یہ لٹکتا کیا ہے
ہاں ابھی وقت کا آئینہ دکھائے کیا کیا
دیکھتے جاؤ زمانہ ابھی دیکھا کیا ہے
نہ یگانے ہیں نہ بیگانے تری محفل میں
نہ کوئی غیر یہاں ہے نہ کوئی اپنا ہے
نگہ مست کو جنبش نہ ہوئی گو سر بزم
کچھ تو اس جام لبا لب سے ابھی چھلکا ہے
رات دن پھرتی ہے پلکوں کے جو سائے سائے
دل مرا اس نگۂ ناز کا دیوانا ہے
ہم جدائی سے بھی کچھ کام تو لے ہی لیں گے
بے نیازانہ تعلق ہی چھٹا اچھا ہے
ان سے بڑھ چڑھ کے تو اے دوست ہیں یادیں ان کی
ناز و انداز و ادا میں تری رکھا کیا ہے
ایسی باتوں سے بدلتی ہے کہیں فطرت حسن
جان بھی دے دے اگر کوئی تو کیا ہوتا ہے
تری آنکھوں کو بھی انکار تری زلف کو بھی
کس نے یہ عشق کو دیوانہ بنا رکھا ہے
دل ترا جان تری آہ تری اشک ترے
جو ہے اے دوست وہ تیرا ہے ہمارا کیا ہے
در دولت پہ دعائیں سی سنی ہیں میں نے
دیکھیے آج فقیروں کا کدھر پھیرا ہے
تجھ کو ہو جائیں گے شیطان کے درشن واعظ
ڈال کر منہ کو گریباں میں کبھی دیکھا ہے
ہم کہے دیتے ہیں چالوں میں نہ آؤ ان کی
ثروت و جاہ کے عشووں سے بچو دھوکا ہے
یہی گر آنکھ میں رہ جائے تو ہے چنگاری
قطرۂ اشک جو بہہ جائے تو اک دریا ہے
زلف شب گوں کے سوا نرگس جادو کے سوا
دل کو کچھ اور بلاؤں نے بھی آ گھیرا ہے
لب اعجاز کی سوگند یہ جھنکار تھی کیا
تیری خاموشی کے مانند ابھی کچھ ٹوٹا ہے
دار پر گاہ نظر گاہ سوئے شہر نگار
کچھ سنیں ہم بھی تو اے عشق ارادہ کیا ہے
آ کہ غربت کدۂ دہر میں جی بہلائیں
اے دل اس جلوہ گہہ ناز میں کیا رکھا ہے
زخم ہی زخم ہوں میں صبح کی مانند فراقؔ
رات بھر ہجر کی لذت سے مزا لوٹا ہے |
Firaq GorakhPuri | کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی فراق گورکھپوری غزلیں | کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی
یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی
ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے
نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہ گزر پھر بھی
کہوں یہ کیسے ادھر دیکھ یا نہ دیکھ ادھر
کہ درد درد ہے پھر بھی نظر نظر پھر بھی
خوشا اشارۂ پیہم زہے سکوت نظر
دراز ہو کے فسانہ ہے مختصر پھر بھی
جھپک رہی ہیں زمان و مکاں کی بھی آنکھیں
مگر ہے قافلہ آمادۂ سفر پھر بھی
شب فراق سے آگے ہے آج میری نظر
کہ کٹ ہی جائے گی یہ شام بے سحر پھر بھی
کہیں یہی تو نہیں کاشف حیات و ممات
یہ حسن و عشق بظاہر ہیں بے خبر پھر بھی
پلٹ رہے ہیں غریب الوطن پلٹنا تھا
وہ کوچہ روکش جنت ہو گھر ہے گھر پھر بھی
لٹا ہوا چمن عشق ہے نگاہوں کو
دکھا گیا وہی کیا کیا گل و ثمر پھر بھی
خراب ہو کے بھی سوچا کیے ترے مہجور
یہی کہ تیری نظر ہے تری نظر پھر بھی
ہو بے نیاز اثر بھی کبھی تری مٹی
وہ کیمیا ہی سہی رہ گئی کسر پھر بھی
لپٹ گیا ترا دیوانہ گرچہ منزل سے
اڑی اڑی سی ہے یہ خاک رہ گزر پھر بھی
تری نگاہ سے بچنے میں عمر گزری ہے
اتر گیا رگ جاں میں یہ نیشتر پھر بھی
غم فراق کے کشتوں کا حشر کیا ہوگا
یہ شام ہجر تو ہو جائے گی سحر پھر بھی
فنا بھی ہو کے گراں باریٔ حیات نہ پوچھ
اٹھائے اٹھ نہیں سکتا یہ درد سر پھر بھی
ستم کے رنگ ہیں ہر التفات پنہاں میں
کرم نما ہیں ترے جور سر بسر پھر بھی
خطا معاف ترا عفو بھی ہے مثل سزا
تری سزا میں ہے اک شان در گزر پھر بھی
اگرچہ بے خودیٔ عشق کو زمانہ ہوا
فراقؔ کرتی رہی کام وہ نظر پھر بھی |
Faiz Ahmad Faiz | ہمتِ التجا نہیں باقی، فیض احمد فیض غزلیں | ہمت التجا نہیں باقی
ضبط کا حوصلہ نہیں باقی
اک تری دید چھن گئی مجھ سے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
اپنی مشق ستم سے ہاتھ نہ کھینچ
میں نہیں یا وفا نہیں باقی
تیری چشم الم نواز کی خیر
دل میں کوئی گلا نہیں باقی
ہو چکا ختم عہد ہجر و وصال
زندگی میں مزا نہیں باقی |
Sahir Ludhianvi | کیا جانیں تیری امت کس حال کو پہنچے گی، ساحر لدھیانوی غزلیں | کیا جانیں تری امت کس حال کو پہنچے گی
بڑھتی چلی جاتی ہے تعداد اماموں کی
ہر گوشۂ مغرب میں ہر خطۂ مشرق میں
تشریح دگرگوں ہے اب تیرے پیاموں کی
وہ لوگ جنہیں کل تک دعویٰ تھا رفاقت کا
تذلیل پہ اترے ہیں اپنوں ہی کے ناموں کی
بگڑے ہوئے تیور ہیں نو عمر سیاست کے
بپھری ہوئی سانسیں ہیں نو مشق نظاموں کی
طبقوں سے نکل کر ہم فرقوں میں نہ بٹ جائیں
بن کر نہ بگڑ جائے تقدیر غلاموں کی |
Jigar Moradabadi | کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا جگر مرادآبادی غزلیں | کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا
جس رنگ میں دیکھا تجھے یکتا نظر آیا
جب اس رخ پر نور کا جلوہ نظر آیا
کعبہ نظر آیا نہ کلیسا نظر آیا
یہ حسن یہ شوخی یہ کرشمہ یہ ادائیں
دنیا نظر آئی مجھے تو کیا نظر آیا
اک سرخوشی عشق ہے اک بے خودیٔ شوق
آنکھوں کو خدا جانے مری کیا نظر آیا
جب دیکھ نہ سکتے تھے تو دریا بھی تھا قطرہ
جب آنکھ کھلی قطرہ بھی دریا نظر آیا
قربان تری شان عنایت کے دل و جاں
اس کم نگہی پر مجھے کیا کیا نظر آیا
ہر رنگ ترے رنگ میں ڈوبا ہوا نکلا
ہر نقش ترا نقش کف پا نظر آیا
آنکھوں نے دکھا دی جو ترے غم کی حقیقت
عالم مجھے سارا تہ و بالا نظر آیا
ہر جلوے کو دیکھا ترے جلووں سے منور
ہر بزم میں تو انجمن آرا نظر آیا |
Ahmad Faraz | یہ کیا کہ سب سے بیان دل کی حالتیں کرنی احمد فراز غزلیں | یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی
فرازؔ تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی
یہ قرب کیا ہے کہ تو سامنے ہے اور ہمیں
شمار ابھی سے جدائی کی ساعتیں کرنی
کوئی خدا ہو کہ پتھر جسے بھی ہم چاہیں
تمام عمر اسی کی عبادتیں کرنی
سب اپنے اپنے قرینے سے منتظر اس کے
کسی کو شکر کسی کو شکایتیں کرنی
ہم اپنے دل سے ہی مجبور اور لوگوں کو
ذرا سی بات پہ برپا قیامتیں کرنی
ملیں جب ان سے تو مبہم سی گفتگو کرنا
پھر اپنے آپ سے سو سو وضاحتیں کرنی
یہ لوگ کیسے مگر دشمنی نباہتے ہیں
ہمیں تو راس نہ آئیں محبتیں کرنی
کبھی فرازؔ نئے موسموں میں رو دینا
کبھی تلاش پرانی رفاقتیں کرنی |
Faiz Ahmad Faiz | نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی، فیض احمد فیض غزلیں | نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
نہ تن میں خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نماز شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی
کسی طرح تو جمے بزم مے کدے والو
نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہو ہی سہی
گر انتظار کٹھن ہے تو جب تلک اے دل
کسی کے وعدۂ فردا کی گفتگو ہی سہی
دیار غیر میں محرم اگر نہیں کوئی
تو فیضؔ ذکر وطن اپنے روبرو ہی سہی |
Mirza Ghalib | تغافل دوست ہوں میرا دماغ عجز عالی ہے، مرزا غالب غزلیں | تغافل دوست ہوں میرا دماغ عجز عالی ہے
اگر پہلو تہی کیجے تو جا میری بھی خالی ہے
رہا آباد عالم اہل ہمت کے نہ ہونے سے
بھرے ہیں جس قدر جام و سبو مے خانہ خالی ہے |
Habib Jalib | دل والو، کیوں دل سی دولت یوں بے کار لٹاتے ہو، حبیب جالب غزلیں | دل والو کیوں دل سی دولت یوں بیکار لٹاتے ہو
کیوں اس اندھیاری بستی میں پیار کی جوت جگاتے ہو
تم ایسا نادان جہاں میں کوئی نہیں ہے کوئی نہیں
پھر ان گلیوں میں جاتے ہو پگ پگ ٹھوکر کھاتے ہو
سندر کلیو کومل پھولو یہ تو بتاؤ یہ تو کہو
آخر تم میں کیا جادو ہے کیوں من میں بس جاتے ہو
یہ موسم رم جھم کا موسم یہ برکھا یہ مست فضا
ایسے میں آؤ تو جانیں ایسے میں کب آتے ہو
ہم سے روٹھ کے جانے والو اتنا بھید بتا جاؤ
کیوں نت راتو کو سپنوں میں آتے ہو من جاتے ہو
چاند ستاروں کے جھرمٹ میں پھولوں کی مسکاہٹ میں
تم چھپ چھپ کر ہنستے ہو تم روپ کا مان بڑھاتے ہو
چلتے پھرتے روشن رستے تاریکی میں ڈوب گئے
سو جاؤ اب جالبؔ تم بھی کیوں آنکھیں سلگاتے ہو |
Wali Mohammad Wali | تیرا مجنون ہوں صحرا کی قسم ہے ولی محمد ولی غزلیں | ترا مجنوں ہوں صحرا کی قسم ہے
طلب میں ہوں تمنا کی قسم ہے
سراپا ناز ہے تو اے پری رو
مجھے تیرے سراپا کی قسم ہے
دیا حق حسن بالا دست تجکوں
مجھے تجھ سرو بالا کی قسم ہے
کیا تجھ زلف نے جگ کوں دوانا
تری زلفاں کے سودا کی قسم ہے
دو رنگی ترک کر ہر اک سے مت مل
تجھے تجھ قد رعنا کی قسم ہے
کیا تجھ عشق نے عالم کوں مجنوں
مجھے تجھ رشک لیلیٰ کی قسم ہے
ولیؔ مشتاق ہے تیری نگہ کا
مجھے تجھ چشم شہلا کی قسم ہے |
Jaun Eliya | ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا جون ایلیا غزلیں | ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا
میں تو اس زخم ہی کو بھول گیا
ذات در ذات ہم سفر رہ کر
اجنبی اجنبی کو بھول گیا
صبح تک وجہ جاں کنی تھی جو بات
میں اسے شام ہی کو بھول گیا
عہد وابستگی گزار کے میں
وجہ وابستگی کو بھول گیا
سب دلیلیں تو مجھ کو یاد رہیں
بحث کیا تھی اسی کو بھول گیا
کیوں نہ ہو ناز اس ذہانت پر
ایک میں ہر کسی کو بھول گیا
سب سے پر امن واقعہ یہ ہے
آدمی آدمی کو بھول گیا
قہقہہ مارتے ہی دیوانہ
ہر غم زندگی کو بھول گیا
خواب ہا خواب جس کو چاہا تھا
رنگ ہا رنگ اسی کو بھول گیا
کیا قیامت ہوئی اگر اک شخص
اپنی خوش قسمتی کو بھول گیا
سوچ کر اس کی خلوت انجمنی
واں میں اپنی کمی کو بھول گیا
سب برے مجھ کو یاد رہتے ہیں
جو بھلا تھا اسی کو بھول گیا
ان سے وعدہ تو کر لیا لیکن
اپنی کم فرصتی کو بھول گیا
بستیو اب تو راستہ دے دو
اب تو میں اس گلی کو بھول گیا
اس نے گویا مجھی کو یاد رکھا
میں بھی گویا اسی کو بھول گیا
یعنی تم وہ ہو واقعی؟ حد ہے
میں تو سچ مچ سبھی کو بھول گیا
آخری بت خدا نہ کیوں ٹھہرے
بت شکن بت گری کو بھول گیا
اب تو ہر بات یاد رہتی ہے
غالباً میں کسی کو بھول گیا
اس کی خوشیوں سے جلنے والا جونؔ
اپنی ایذا دہی کو بھول گیا |
Altaf Hussain Hali | دل کو درد آشنا کیا تو نے الطاف حسین حالی غزلیں | دل کو درد آشنا کیا تو نے
درد دل کو دوا کیا تو نے
طبع انساں کو دی سرشت وفا
خاک کو کیمیا کیا تو نے
وصل جاناں محال ٹھہرایا
قتل عاشق روا کیا تو نے
تھا نہ جز غم بساط عاشق میں
غم کو راحت فزا کیا تو نے
جان تھی اک وبال فرقت میں
شوق کو جاں گزا کیا تو نے
تھی محبت میں ننگ منت غیر
جذب دل کو رسا کیا تو نے
راہ زاہد کو جب کہیں نہ ملی
در مے خانہ وا کیا تو نے
قطع ہونے ہی جب لگا پیوند
غیر کو آشنا کیا تو نے
تھی جہاں کارواں کو دینی راہ
عشق کو رہنما کیا تو نے
ناؤ بھر کر جہاں ڈبونی تھی
عقل کو ناخدا کیا تو نے
بڑھ گئی جب پدر کو مہر پسر
اس کو اس سے جدا کیا تو نے
جب ہوا ملک و مال رہزن ہوش
بادشہ کو گدا کیا تو نے
جب ملی کام جاں کو لذت درد
درد کو بے دوا کیا تو نے
جب دیا راہرو کو ذوق طلب
سعی کو نارسا کیا تو نے
پردۂ چشم تھے حجاب بہت
حسن کو خود نما کیا تو نے
عشق کو تاب انتظار نہ تھی
غرفہ اک دل میں وا کیا تو نے
حرم آباد اور دیر خراب
جو کیا سب بجا کیا تو نے
سخت افسردہ طبع تھی احباب
ہم کو جادو نوا کیا تو نے
پھر جو دیکھا تو کچھ نہ تھا یا رب
کون پوچھے کہ کیا کیا تو نے
حالیؔ اٹھا ہلا کے محفل کو
آخر اپنا کہا کیا تو نے |
Mirza Ghalib | سعد جلوہ روبرو ہے جو مژگاں اٹھائیے مرزا غالب غزلیں | صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے
طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائیے
ہے سنگ پر برات معاش جنون عشق
یعنی ہنوز منت طفلاں اٹھائیے
دیوار بار منت مزدر سے ہے خم
اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے
یا میرے زخم رشک کو رسوا نہ کیجیے
یا پردۂ تبسم پنہاں اٹھائیے
ہستی فریب نامۂ موج سراب ہے
یک عمر ناز شوخی عنواں اٹھائیے |
Gulzar | اس پڑی تھی رات بہت اور کہر تھا، گرمائش پر گلزار کی غزلیں۔ | اوس پڑی تھی رات بہت اور کہرہ تھا گرمائش پر
سیلی سی خاموشی میں آواز سنی فرمائش پر
فاصلے ہیں بھی اور نہیں بھی ناپا تولا کچھ بھی نہیں
لوگ بضد رہتے ہیں پھر بھی رشتوں کی پیمائش پر
منہ موڑا اور دیکھا کتنی دور کھڑے تھے ہم دونوں
آپ لڑے تھے ہم سے بس اک کروٹ کی گنجائش پر
کاغذ کا اک چاند لگا کر رات اندھیری کھڑکی پر
دل میں کتنے خوش تھے اپنی فرقت کی آرائش پر
دل کا حجرہ کتنی بار اجڑا بھی اور بسایا بھی
ساری عمر کہاں ٹھہرا ہے کوئی ایک رہائش پر
دھوپ اور چھاؤں بانٹ کے تم نے آنگن میں دیوار چنی
کیا اتنا آسان ہے زندہ رہنا اس آسائش پر
شاید تین نجومی میری موت پہ آ کر پہنچیں گے
ایسا ہی اک بار ہوا تھا عیسیٰ کی پیدائش پر |
Bahadur Shah Zafar | ہم نے تیری خاطر سے دلِ زار بھی چھوڑا، بہادر شاہ ظفر غزلیں | ہم نے تری خاطر سے دل زار بھی چھوڑا
تو بھی نہ ہوا یار اور اک یار بھی چھوڑا
کیا ہوگا رفوگر سے رفو میرا گریبان
اے دست جنوں تو نے نہیں تار بھی چھوڑا
دیں دے کے گیا کفر کے بھی کام سے عاشق
تسبیح کے ساتھ اس نے تو زنار بھی چھوڑا
گوشہ میں تری چشم سیہ مست کے دل نے
کی جب سے جگہ خانۂ خمار بھی چھوڑا
اس سے ہے غریبوں کو تسلی کہ اجل نے
مفلس کو جو مارا تو نہ زردار بھی چھوڑا
ٹیڑھے نہ ہو ہم سے رکھو اخلاص تو سیدھا
تم پیار سے رکتے ہو تو لو پیار بھی چھوڑا
کیا چھوڑیں اسیران محبت کو وہ جس نے
صدقے میں نہ اک مرغ گرفتار بھی چھوڑا
پہنچی مری رسوائی کی کیونکر خبر اس کو
اس شوخ نے تو دیکھنا اخبار بھی چھوڑا
کرتا تھا جو یاں آنے کا جھوٹا کبھی اقرار
مدت سے ظفرؔ اس نے وہ اقرار بھی چھوڑا |
Sahir Ludhianvi | دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنا قریب سے، ساحر لدھیانوی غزلیں | دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنا قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے
کہنے کو دل کی بات جنہیں ڈھونڈتے تھے ہم
محفل میں آ گئے ہیں وہ اپنے نصیب سے
نیلام ہو رہا تھا کسی نازنیں کا پیار
قیمت نہیں چکائی گئی اک غریب سے
تیری وفا کی لاش پہ لا میں ہی ڈال دوں
ریشم کا یہ کفن جو ملا ہے رقیب سے |
Jigar Moradabadi | کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشین رہے، جگر مرادآبادی غزلیں | کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے ہم نہیں رہے
ایمان و کفر اور نہ دنیا و دیں رہے
اے عشق شاد باش کہ تنہا ہمیں رہے
عالم جب ایک حال پہ قائم نہیں رہے
کیا خاک اعتبار نگاہ یقیں رہے
میری زباں پہ شکوہ درد آفریں رہے
شاید مرے حواس ٹھکانے نہیں رہے
جب تک الٰہی جسم میں جان حزیں رہے
نظریں مری جوان رہیں دل حسیں رہے
یارب کسی کے راز محبت کی خیر ہو
دست جنوں رہے نہ رہے آستیں رہے
تا چند جوش عشق میں دل کی حفاظتیں
میری بلا سے اب وہ جنونی کہیں رہے
جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کر
اے عشق ہم تو اب ترے قابل نہیں رہے
مجھ کو نہیں قبول دو عالم کی وسعتیں
قسمت میں کوئے یار کی دو گز زمیں رہے
اے عشق نالہ کش تری غیرت کو کیا ہوا
ہے ہے عرق عرق وہ تن نازنیں رہے
درد و غم فراق کے یہ سخت مرحلے
حیراں ہوں میں کہ پھر بھی تم اتنے حسیں رہے
اللہ رے چشم یار کی معجز بیانیاں
ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے
ظالم اٹھا تو پردۂ وہم و گمان و فکر
کیا سامنے وہ مرحلہ ہائے یقیں رہے
ذات و صفات حسن کا عالم نظر میں ہے
محدود سجدہ کیا مرا ذوق جبیں رہے
کس درد سے کسی نے کہا آج بزم میں
اچھا یہ ہے وہ ننگ محبت یہیں رہے
سر دادگان عشق و محبت کی کیا کمی
قاتل کی تیغ تیز خدا کی زمیں رہے
اس عشق کی تلافئ مافات دیکھنا
رونے کی حسرتیں ہیں جب آنسو نہیں رہے |
Ahmad Faraz | راگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں احمد فراز غزلیں | روگ ایسے بھی غم یار سے لگ جاتے ہیں
در سے اٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں
عشق آغاز میں ہلکی سی خلش رکھتا ہے
بعد میں سیکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں
پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی ہے
پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں
بے بسی بھی کبھی قربت کا سبب بنتی ہے
رو نہ پائیں تو گلے یار سے لگ جاتے ہیں
کترنیں غم کی جو گلیوں میں اڑی پھرتی ہیں
گھر میں لے آؤ تو انبار سے لگ جاتے ہیں
داغ دامن کے ہوں دل کے ہوں کہ چہرے کے فرازؔ
کچھ نشاں عمر کی رفتار سے لگ جاتے ہیں |
Mirza Ghalib | وسعتِ سائے کرم دیکھ کہ سر تا سرِ خاک مرزا غالب غزلیں | وسعت سعی کرم دیکھ کہ سر تا سر خاک
گزرے ہے آبلہ پا ابر گہربار ہنوز
یک قلم کاغذ آتش زدہ ہے صفحۂ دشت
نقش پا میں ہے تب گرمی رفتار ہنوز
داغ اطفال ہے دیوانہ بہ کہسار ہنوز
خلوت سنگ میں ہے نالہ طلبگار ہنوز
خانہ ہے سیل سے خو کردۂ دیدار ہنوز
دوربیں در زدہ ہے رخنۂ دیوار ہنوز
آئی یک عمر سے معذور تماشہ نرگس
چشم شبنم میں نہ ٹوٹا مژۂ خار ہنوز
کیوں ہوا تھا طرف آبلۂ پا یارب
جادہ ہے وا شدن پیچش طومار ہنوز
ہوں خموشیٔ چمن حسرت دیدار اسدؔ
مژہ ہے شانہ کش طرۂ گفتار ہنوز |
Jigar Moradabadi | کام آخر جذبہ بے اختیار آ ہی گیا جگر مراد آبادی غزلیں | کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
دل کچھ اس صورت سے تڑپا ان کو پیار آ ہی گیا
جب نگاہیں اٹھ گئیں اللہ ری معراج شوق
دیکھتا کیا ہوں وہ جان انتظار آ ہی گیا
ہائے یہ حسن تصور کا فریب رنگ و بو
میں یہ سمجھا جیسے وہ جان بہار آ ہی گیا
ہاں سزا دے اے خدائے عشق اے توفیق غم
پھر زبان بے ادب پر ذکر یار آ ہی گیا
اس طرح خوش ہوں کسی کے وعدۂ فردا پہ میں
در حقیقت جیسے مجھ کو اعتبار آ ہی گیا
ہائے کافر دل کی یہ کافر جنوں انگیزیاں
تم کو پیار آئے نہ آئے مجھ کو پیار آ ہی گیا
درد نے کروٹ ہی بدلی تھی کہ دل کی آڑ سے
دفعتاً پردہ اٹھا اور پردہ دار آ ہی گیا
دل نے اک نالہ کیا آج اس طرح دیوانہ وار
بال بکھرائے کوئی مستانہ وار آ ہی گیا
جان ہی دے دی جگرؔ نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا |
Mirza Ghalib | آبرو کیا خاک اس گل کی کہ گلشن میں نہیں مرزا غالب غزلیں | آبرو کیا خاک اس گل کی کہ گلشن میں نہیں
ہے گریباں ننگ پیراہن جو دامن میں نہیں
ضعف سے اے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں
رنگ ہو کر اڑ گیا جو خوں کہ دامن میں نہیں
ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہ آفتاب
ذرے اس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں
کیا کہوں تاریکی زندان غم اندھیر ہے
پنبہ نور صبح سے کم جس کے روزن میں نہیں
رونق ہستی ہے عشق خانہ ویراں ساز سے
انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں
زخم سلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن
غیر سمجھا ہے کہ لذت زخم سوزن میں نہیں
بسکہ ہیں ہم اک بہار ناز کے مارے ہوئے
جلوۂ گل کے سوا گرد اپنے مدفن میں نہیں
قطرہ قطرہ اک ہیولیٰ ہے نئے ناسور کا
خوں بھی ذوق درد سے فارغ مرے تن میں نہیں
لے گئی ساقی کی نخوت قلزم آشامی مری
موج مے کی آج رگ مینا کی گردن میں نہیں
ہو فشار ضعف میں کیا ناتوانی کی نمود
قد کے جھکنے کی بھی گنجائش مرے تن میں نہیں
تھی وطن میں شان کیا غالبؔ کہ ہو غربت میں قدر
بے تکلف ہوں وہ مشت خس کہ گلخن میں نہیں |
Mirza Ghalib | کہوں جو حال تو کہتے ہو مدعا کہیے مرزا غالب غزلیں | کہوں جو حال تو کہتے ہو مدعا کہیے
تمہیں کہو کہ جو تم یوں کہو تو کیا کہیے
نہ کہیو طعن سے پھر تم کہ ہم ستم گر ہیں
مجھے تو خو ہے کہ جو کچھ کہو بجا کہیے
وہ نیشتر سہی پر دل میں جب اتر جاوے
نگاہ ناز کو پھر کیوں نہ آشنا کہیے
نہیں ذریعۂ راحت جراحت پیکاں
وہ زخم تیغ ہے جس کو کہ دل کشا کہیے
جو مدعی بنے اس کے نہ مدعی بنیے
جو ناسزا کہے اس کو نہ ناسزا کہیے
کہیں حقیقت جاں کاہیٔ مرض لکھیے
کہیں مصیبت ناسازیٔ دوا کہیے
کبھی شکایت رنج گراں نشیں کیجے
کبھی حکایت صبر گریز پا کہیے
رہے نہ جان تو قاتل کو خوں بہا دیجے
کٹے زبان تو خنجر کو مرحبا کہیے
نہیں نگار کو الفت نہ ہو نگار تو ہے
روانیٔ روش و مستیٔ ادا کہیے
نہیں بہار کو فرصت نہ ہو بہار تو ہے
طراوت چمن و خوبیٔ ہوا کہیے
سفینہ جب کہ کنارے پہ آ لگا غالبؔ
خدا سے کیا ستم و جور ناخدا کہیے |
Ahmad Faraz | عاشقی میں میر جیسے خواب مت دیکھا کرو احمد فراز غزلیں | عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو
باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو
جستہ جستہ پڑھ لیا کرنا مضامین وفا
پر کتاب عشق کا ہر باب مت دیکھا کرو
اس تماشے میں الٹ جاتی ہیں اکثر کشتیاں
ڈوبنے والوں کو زیر آب مت دیکھا کرو
مے کدے میں کیا تکلف مے کشی میں کیا حجاب
بزم ساقی میں ادب آداب مت دیکھا کرو
ہم سے درویشوں کے گھر آؤ تو یاروں کی طرح
ہر جگہ خس خانہ و برفاب مت دیکھا کرو
مانگے تانگے کی قبائیں دیر تک رہتی نہیں
یار لوگوں کے لقب القاب مت دیکھا کرو
تشنگی میں لب بھگو لینا بھی کافی ہے فرازؔ
جام میں صہبا ہے یا زہراب مت دیکھا کرو |
Allama Iqbal | میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں علامہ اقبال غزلیں ۳ | میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقشہ بند
میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں
گاہ مری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود
گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں |
Wali Mohammad Wali | آج دستا ہے حال کچھ کا کچھ والی محمد والی غزلیں | آج دستا ہے حال کچھ کا کچھ
کیوں نہ گزرے خیال کچھ کا کچھ
دل بے دل کوں آج کرتی ہے
شوخ چنچل کی چال کچھ کا کچھ
مجکو لگتا ہے اے پری پیکر
آج تیرا جمال کچھ کا کچھ
اثر بادۂ جوانی ہے
کر گیا ہوں سوال کچھ کا کچھ
اے ولیؔ دل کوں آج کرتی ہے
بوئے باغ وصال کچھ کا کچھ |
Wali Mohammad Wali | کوچۂ یار ایں کا سی ہے ولی محمد ولی غزلیں | کوچۂ یار عین کاسی ہے
جوگئی دل وہاں کا باسی ہے
پی کے بیراگ کی اداسی سوں
دل پہ میرے سدا اداسی ہے
اے صنم تجھ جبیں اپر یہ خال
ہندوی ہر دوار باسی ہے
زلف تیری ہے موج جمنا کی
تل نزک اس کے جیوں سناسی ہے
گھر ترا ہے یہ رشک دیول چیں
اس میں مدت سوں دل اپاسی ہے
یہ سیہ زلف تجھ زنخداں پر
ناگنی جیوں کنوے پہ پیاسی ہے
طاس خورشید غرق ہے جب سوں
بر میں تیرے لباس تاسی ہے
جس کی گفتار میں نہیں ہے مزا
سخن اس کا طعام باسی ہے
اے ولیؔ جو لباس تن پہ رکھا
عاشقاں کے نزک لباسی ہے |
Mirza Ghalib | جنون کی دست گیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی مرزا غالب غزلیں | جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی
گریباں چاک کا حق ہو گیا ہے میری گردن پر
بہ رنگ کاغذ آتش زدہ نیرنگ بیتابی
ہزار آئینہ دل باندھے ہے بال یک تپیدن پر
فلک سے ہم کو عیش رفتہ کا کیا کیا تقاضا ہے
متاع بردہ کو سمجھے ہوئے ہیں قرض رہزن پر
ہم اور وہ بے سبب رنج آشنا دشمن کہ رکھتا ہے
شعاع مہر سے تہمت نگہ کی چشم روزن پر
فنا کو سونپ گر مشتاق ہے اپنی حقیقت کا
فروغ طالع خاشاک ہے موقوف گلخن پر
اسدؔ بسمل ہے کس انداز کا قاتل سے کہتا ہے
کہ مشق ناز کر خون دو عالم میری گردن پر
فسون یک دلی ہے لذت بیداد دشمن پر
کہ وجد برق جوں پروانہ بال افشاں ہے خرمن پر
تکلف خار خار التماس بے قراری ہے
کہ رشتہ باندھتا ہے پیرہن انگشت سوزن پر
یہ کیا وحشت ہے اے دیوانہ پیش از مرگ واویلا
رکھی بیجا بنائے خانۂ زنجیر شیون پر |
Jaan Nisar Akhtar | زندگی یہ تو نہیں تجھ کو سنوارا ہی نہ ہو، جاں نثار اختر غزلیں | زندگی یہ تو نہیں تجھ کو سنوارا ہی نہ ہو
کچھ نہ کچھ ہم نے ترا قرض اتارا ہی نہ ہو
دل کو چھو جاتی ہے یوں رات کی آواز کبھی
چونک اٹھتا ہوں کہیں تو نے پکارا ہی نہ ہو
کبھی پلکوں پہ چمکتی ہے جو اشکوں کی لکیر
سوچتا ہوں ترے آنچل کا کنارا ہی نہ ہو
زندگی ایک خلش دے کے نہ رہ جا مجھ کو
درد وہ دے جو کسی طرح گوارا ہی نہ ہو
شرم آتی ہے کہ اس شہر میں ہم ہیں کہ جہاں
نہ ملے بھیک تو لاکھوں کا گزارا ہی نہ ہو |
Sahir Ludhianvi | ہم ہر ایک شے سے رشتہ توڑ دینے کی نوبت تو آئے، ساحر لدھیانوی غزلیں | توڑ لیں گے ہر اک شے سے رشتہ توڑ دینے کی نوبت تو آئے
ہم قیامت کے خود منتظر ہیں پر کسی دن قیامت تو آئے
ہم بھی سقراط ہیں عہد نو کے تشنہ لب ہی نہ مر جائیں یارو
زہر ہو یا مئے آتشیں ہو کوئی جام شہادت تو آئے
ایک تہذیب ہے دوستی کی ایک معیار ہے دشمنی کا
دوستوں نے مروت نہ سیکھی دشمنوں کو عداوت تو آئے
رند رستے میں آنکھیں بچھائیں جو کہے بن سنے مان جائیں
ناصح نیک طینت کسی شب سوئے کوئے ملامت تو آئے
علم و تہذیب تاریخ و منطق لوگ سوچیں گے ان مسئلوں پر
زندگی کے مشقت کدے میں کوئی عہد فراغت تو آئے
کانپ اٹھیں قصر شاہی کے گنبد تھرتھرائے زمیں معبدوں کی
کوچہ گردوں کی وحشت تو جاگے غم زدوں کو بغاوت تو آئے |
Javed Akhtar | مجھ کو یقین ہے سچ کہتی تھیں جو بھی امی کہتی تھیں، جاوید اختر غزلیں | مجھ کو یقیں ہے سچ کہتی تھیں جو بھی امی کہتی تھیں
جب میرے بچپن کے دن تھے چاند میں پریاں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا
ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں
ایک یہ دن جب ساری سڑکیں روٹھی روٹھی لگتی ہیں
ایک وہ دن جب آؤ کھیلیں ساری گلیاں کہتی تھیں
ایک یہ دن جب جاگی راتیں دیواروں کو تکتی ہیں
ایک وہ دن جب شاموں کی بھی پلکیں بوجھل رہتی تھیں
ایک یہ دن جب ذہن میں ساری عیاری کی باتیں ہیں
ایک وہ دن جب دل میں بھولی بھالی باتیں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب لاکھوں غم اور کال پڑا ہے آنسو کا
ایک وہ دن جب ایک ذرا سی بات پہ ندیاں بہتی تھیں
ایک یہ گھر جس گھر میں میرا ساز و ساماں رہتا ہے
ایک وہ گھر جس گھر میں میری بوڑھی نانی رہتی تھیں |
Jigar Moradabadi | ایک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے، جگر مرادآبادی غزلیں | اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے
سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانا ہے
یہ کس کا تصور ہے یہ کس کا فسانا ہے
جو اشک ہے آنکھوں میں تسبیح کا دانا ہے
دل سنگ ملامت کا ہر چند نشانا ہے
دل پھر بھی مرا دل ہے دل ہی تو زمانا ہے
ہم عشق کے ماروں کا اتنا ہی فسانا ہے
رونے کو نہیں کوئی ہنسنے کو زمانا ہے
وہ اور وفا دشمن مانیں گے نہ مانا ہے
سب دل کی شرارت ہے آنکھوں کا بہانا ہے
شاعر ہوں میں شاعر ہوں میرا ہی زمانا ہے
فطرت مرا آئینا قدرت مرا شانا ہے
جو ان پہ گزرتی ہے کس نے اسے جانا ہے
اپنی ہی مصیبت ہے اپنا ہی فسانا ہے
کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانا ہے
آغاز محبت ہے آنا ہے نہ جانا ہے
اشکوں کی حکومت ہے آہوں کا زمانا ہے
آنکھوں میں نمی سی ہے چپ چپ سے وہ بیٹھے ہیں
نازک سی نگاہوں میں نازک سا فسانا ہے
ہم درد بہ دل نالاں وہ دست بہ دل حیراں
اے عشق تو کیا ظالم تیرا ہی زمانا ہے
یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے
کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے
اے عشق جنوں پیشہ ہاں عشق جنوں پیشہ
آج ایک ستم گر کو ہنس ہنس کے رلانا ہے
تھوڑی سی اجازت بھی اے بزم گہ ہستی
آ نکلے ہیں دم بھر کو رونا ہے رلانا ہے
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
خود حسن و شباب ان کا کیا کم ہے رقیب اپنا
جب دیکھیے اب وہ ہیں آئینہ ہے شانا ہے
تصویر کے دو رخ ہیں جاں اور غم جاناں
اک نقش چھپانا ہے اک نقش دکھانا ہے
یہ حسن و جمال ان کا یہ عشق و شباب اپنا
جینے کی تمنا ہے مرنے کا زمانا ہے
مجھ کو اسی دھن میں ہے ہر لحظہ بسر کرنا
اب آئے وہ اب آئے لازم انہیں آنا ہے
خودداری و محرومی محرومی و خودداری
اب دل کو خدا رکھے اب دل کا زمانا ہے
اشکوں کے تبسم میں آہوں کے ترنم میں
معصوم محبت کا معصوم فسانا ہے
آنسو تو بہت سے ہیں آنکھوں میں جگرؔ لیکن
بندھ جائے سو موتی ہے رہ جائے سو دانا ہے |
Dagh Dehlvi | آپ کا اعتبار کون کرے، داغ دہلوی غزلیں | آپ کا اعتبار کون کرے
روز کا انتظار کون کرے
ذکر مہر و وفا تو ہم کرتے
پر تمہیں شرمسار کون کرے
ہو جو اس چشم مست سے بے خود
پھر اسے ہوشیار کون کرے
تم تو ہو جان اک زمانے کی
جان تم پر نثار کون کرے
آفت روزگار جب تم ہو
شکوۂ روزگار کون کرے
اپنی تسبیح رہنے دے زاہد
دانہ دانہ شمار کون کرے
ہجر میں زہر کھا کے مر جاؤں
موت کا انتظار کون کرے
آنکھ ہے ترک زلف ہے صیاد
دیکھیں دل کا شکار کون کرے
وعدہ کرتے نہیں یہ کہتے ہیں
تجھ کو امیدوار کون کرے
داغؔ کی شکل دیکھ کر بولے
ایسی صورت کو پیار کون کرے |
Mirza Ghalib | زلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے، مرزا غالب غزلیں | ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیل سحر سو خموش ہے
نے مژدۂ وصال نہ نظارہ جمال
مدت ہوئی کہ آشتی چشم و گوش ہے
مے نے کیا ہے حسن خود آرا کو بے حجاب
اے شوق! ہاں اجازت تسلیم ہوش ہے
گوہر کو عقد گردن خوباں میں دیکھنا
کیا اوج پر ستارۂ گوہر فروش ہے
دیدار بادہ حوصلہ ساقی نگاہ مست
بزم خیال مے کدۂ بے خروش ہے
اے تازہ واردان بساط ہوائے دل
زنہار اگر تمہیں ہوس نائے و نوش ہے
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے
ساقی بہ جلوہ دشمن ایمان و آگہی
مطرب بہ نغمہ رہزن تمکین و ہوش ہے
یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط
دامان باغبان و کف گل فروش ہے
لطف خرام ساقی و ذوق صدائے چنگ
یہ جنت نگاہ وہ فردوس گوش ہے
یا صبح دم جو دیکھیے آ کر تو بزم میں
نے وہ سرور و سوز نہ جوش و خروش ہے
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے |
Mirza Ghalib | ہے بس کہ ہر ایک اُن کے اشارے میں نشان اور مرزا غالب غزلیں | ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
ابرو سے ہے کیا اس نگہ ناز کو پیوند
ہے تیر مقرر مگر اس کی ہے کماں اور
تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم جب اٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور
ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور
ہے خون جگر جوش میں دل کھول کے روتا
ہوتے جو کئی دیدۂ خوں نابہ فشاں اور
مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اڑ جائے
جلاد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ ہاں اور
لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکا
ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغ نہاں اور
لیتا نہ اگر دل تمہیں دیتا کوئی دم چین
کرتا جو نہ مرتا کوئی دن آہ و فغاں اور
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور |
Gulzar | پھولوں کی طرح لب کھول کبھی گلزار غزلیں | پھولوں کی طرح لب کھول کبھی
خوشبو کی زباں میں بول کبھی
الفاظ پرکھتا رہتا ہے
آواز ہماری تول کبھی
انمول نہیں لیکن پھر بھی
پوچھ تو مفت کا مول کبھی
کھڑکی میں کٹی ہیں سب راتیں
کچھ چورس تھیں کچھ گول کبھی
یہ دل بھی دوست زمیں کی طرح
ہو جاتا ہے ڈانوا ڈول کبھی |
Naji Shakir | تیرے بھائی کو چاہا اب تیری کرتا ہوں پا بوسی نجی شاکر غزلیں | تیرے بھائی کو چاہا اب تیری کرتا ہوں پا بوسی
مجھے سرتاج کر رکھ جان میں عاشق ہوں موروثی
رفو کر دے ہیں ایسا پیار جو عاشق ہیں یکسو سیں
پھڑا کر اور سیں شال اپنی کہتا ہے مجھے تو سی
ہوا مخفی مزا اب شاہدی سیں شہد کی ظاہر
مگر زنبور نے شیرینی ان ہونٹوں کی جا چوسی
کسے یہ تاب جو اس کی تجلی میں رہے ٹھہرا
رموز طور لاتی ہے سجن تیری کمر مو سی
سماتا نئیں ازار اپنے میں ابتر دیکھ رنگ اس کا
کرے کمخواب سو جانے کی یوں پاتے ہیں جاسوسی
برنگ شمع کیوں یعقوب کی آنکھیں نہیں روشن
زمانے میں سنا یوسف کا پیراہن تھا فانوسی
نہ چھوڑوں اس لب عرفاں کو ناجیؔ اور لٹا دوں سب
ملے گر مجھ کو ملک خسروی اور تاج کاؤسی |
Waseem Barelvi | ذرا سا قطرہ کہیں آج اگر ابھرتا ہے وسیم بریلوی غزلیں | ذرا سا قطرہ کہیں آج اگر ابھرتا ہے
سمندروں ہی کے لہجے میں بات کرتا ہے
کھلی چھتوں کے دیئے کب کے بجھ گئے ہوتے
کوئی تو ہے جو ہواؤں کے پر کترتا ہے
شرافتوں کی یہاں کوئی اہمیت ہی نہیں
کسی کا کچھ نہ بگاڑو تو کون ڈرتا ہے
یہ دیکھنا ہے کہ صحرا بھی ہے سمندر بھی
وہ میری تشنہ لبی کس کے نام کرتا ہے
تم آ گئے ہو، تو کچھ چاندنی سی باتیں ہوں
زمیں پہ چاند کہاں روز روز اترتا ہے
زمیں کی کیسی وکالت ہو پھر نہیں چلتی
جب آسماں سے کوئی فیصلہ اترتا ہے |
Wali Mohammad Wali | مشتاق ہیں عشاق تیری بانکی ادا کے ولی محمد ولی غزلیں | مشتاق ہیں عشاق تری بانکی ادا کے
زخمی ہیں محباں تری شمشیر جفا کے
ہر پیچ میں چیرے کے ترے لپٹے ہیں عاشق
عالم کے دلاں بند ہیں تجھ بند قبا کے
لرزاں ہے ترے دست اگے پنجۂ خورشید
تجھ حسن اگے مات ملائک ہیں سما کے
تجھ زلف کے حلقے میں ہے دل بے سر و بے پا
ٹک مہر کرو حال اپر بے سر و پا کے
تنہا نہ ولیؔ جگ منیں لکھتا ہے ترے وصف
دفتر لکھے عالم نے تری مدح و ثنا کے |
Faiz Ahmad Faiz | کب ٹھہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہوگی؟ فیض احمد فیض غزلیں | کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی
سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی
کب جان لہو ہوگی کب اشک گہر ہوگا
کس دن تری شنوائی اے دیدۂ تر ہوگی
کب مہکے گی فصل گل کب بہکے گا مے خانہ
کب صبح سخن ہوگی کب شام نظر ہوگی
واعظ ہے نہ زاہد ہے ناصح ہے نہ قاتل ہے
اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہوگی
کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامت جانانہ
کب حشر معین ہے تجھ کو تو خبر ہوگی |
Mirza Ghalib | کب وہ سنتا ہے کہانی میری مرزا غالب غزلیں | کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری
خلش غمزۂ خوں ریز نہ پوچھ
دیکھ خونابہ فشانی میری
کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار
مگر آشفتہ بیانی میری
ہوں زخود رفتۂ بیدائے خیال
بھول جانا ہے نشانی میری
متقابل ہے مقابل میرا
رک گیا دیکھ روانی میری
قدر سنگ سر رہ رکھتا ہوں
سخت ارزاں ہے گرانی میری
گرد باد رہ بیتابی ہوں
صرصر شوق ہے بانی میری
دہن اس کا جو نہ معلوم ہوا
کھل گئی ہیچ مدانی میری
کر دیا ضعف نے عاجز غالبؔ
ننگ پیری ہے جوانی میری |
Jaan Nisar Akhtar | خود بہ خود میں ہے کہ شیشے میں بھری آوے ہے، جاں نثار اختر غزلیں | خود بہ خود مے ہے کہ شیشے میں بھری آوے ہے
کس بلا کی تمہیں جادو نظری آوے ہے
دل میں در آوے ہے ہر صبح کوئی یاد ایسے
جوں دبے پاؤں نسیم سحری آوے ہے
اور بھی زخم ہوئے جاتے ہیں گہرے دل کے
ہم تو سمجھے تھے تمہیں چارہ گری آوے ہے
ایک قطرہ بھی لہو جب نہ رہے سینے میں
تب کہیں عشق میں کچھ بے جگری آوے ہے
چاک داماں و گریباں کے بھی آداب ہیں کچھ
ہر دوانے کو کہاں جامہ دری آوے ہے
شجر عشق تو مانگے ہے لہو کے آنسو
تب کہیں جا کے کوئی شاخ ہری آوے ہے
تو کبھی راگ کبھی رنگ کبھی خوشبو ہے
کیسی کیسی نہ تجھے عشوہ گری آوے ہے
آپ اپنے کو بھلانا کوئی آسان نہیں
بڑی مشکل سے میاں بے خبری آوے ہے
اے مرے شہر نگاراں ترا کیا حال ہوا
چپے چپے پہ مرے آنکھ بھری آوے ہے
صاحبو حسن کی پہچان کوئی کھیل نہیں
دل لہو ہو تو کہیں دیدہ وری آوے ہے |
Jaun Eliya | ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے جون ایلیا غزلیں | ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے
کہ ہٹ جاؤں میں اپنے درمیاں سے
یہاں جو ہے تنفس ہی میں گم ہے
پرندے اڑ رہے ہیں شاخ جاں سے
دریچہ باز ہے یادوں کا اور میں
ہوا سنتا ہوں پیڑوں کی زباں سے
زمانہ تھا وہ دل کی زندگی کا
تری فرقت کے دن لاؤں کہاں سے
تھا اب تک معرکہ باہر کا درپیش
ابھی تو گھر بھی جانا ہے یہاں سے
فلاں سے تھی غزل بہتر فلاں کی
فلاں کے زخم اچھے تھے فلاں سے
خبر کیا دوں میں شہر رفتگاں کی
کوئی لوٹے بھی شہر رفتگاں سے
یہی انجام کیا تجھ کو ہوس تھا
کوئی پوچھے تو میر داستاں سے |
Mohsin Naqvi | فضا کا حبس شگوفوں کو بس کیا دے گا، محسن نقوی غزلیں | فضا کا حبس شگوفوں کو باس کیا دے گا
بدن دریدہ کسی کو لباس کیا دے گا
یہ دل کہ قحط انا سے غریب ٹھہرا ہے
مری زباں کو زر التماس کیا دے گا
جو دے سکا نہ پہاڑوں کو برف کی چادر
وہ میری بانجھ زمیں کو کپاس کیا دے گا
یہ شہر یوں بھی تو دہشت بھرا نگر ہے یہاں
دلوں کا شور ہوا کو ہراس کیا دے گا
وہ زخم دے کے مجھے حوصلہ بھی دیتا ہے
اب اس سے بڑھ کے طبیعت شناس کیا دے گا
جو اپنی ذات سے باہر نہ آ سکا اب تک
وہ پتھروں کو متاع حواس کیا دے گا
وہ میرے اشک بجھائے گا کس طرح محسنؔ
سمندروں کو وہ صحرا کی پیاس کیا دے گا |
Sahir Ludhianvi | دیکھا تو تھا یوں ہی کسی غفلت شعار نے ساحر لدھیانوی غزلیں | دیکھا تو تھا یوں ہی کسی غفلت شعار نے
دیوانہ کر دیا دل بے اختیار نے
اے آرزو کے دھندلے خرابو جواب دو
پھر کس کی یاد آئی تھی مجھ کو پکارنے
تجھ کو خبر نہیں مگر اک سادہ لوح کو
برباد کر دیا ترے دو دن کے پیار نے
میں اور تم سے ترک محبت کی آرزو
دیوانہ کر دیا ہے غم روزگار نے
اب اے دل تباہ ترا کیا خیال ہے
ہم تو چلے تھے کاکل گیتی سنوارنے |
Faiz Ahmad Faiz | یہ جفا ئے غم کا چارہ وہ نجات دل کا عالم، فیض احمد فیض غزلیں | یہ جفائے غم کا چارہ وہ نجات دل کا عالم
ترا حسن دست عیسیٰ تری یاد روئے مریم
دل و جاں فدائے راہے کبھی آ کے دیکھ ہمدم
سر کوئے دل فگاراں شب آرزو کا عالم
تری دید سے سوا ہے ترے شوق میں بہاراں
وہ چمن جہاں گری ہے ترے گیسوؤں کی شبنم
یہ عجب قیامتیں ہیں ترے رہ گزر میں گزراں
نہ ہوا کہ مر مٹیں ہم نہ ہوا کہ جی اٹھیں ہم
لو سنی گئی ہماری یوں پھرے ہیں دن کہ پھر سے
وہی گوشۂ قفس ہے وہی فصل گل کا ماتم |
Dagh Dehlvi | اس نہیں کا کوئی علاج نہیں، داغ دہلوی غزلیں | اس نہیں کا کوئی علاج نہیں
روز کہتے ہیں آپ آج نہیں
کل جو تھا آج وہ مزاج نہیں
اس تلون کا کچھ علاج نہیں
آئنہ دیکھتے ہی اترائے
پھر یہ کیا ہے اگر مزاج نہیں
لے کے دل رکھ لو کام آئے گا
گو ابھی تم کو احتیاج نہیں
ہو سکیں ہم مزاج داں کیونکر
ہم کو ملتا ترا مزاج نہیں
چپ لگی لعل جاں فزا کو ترے
اس مسیحا کا کچھ علاج نہیں
دل بے مدعا خدا نے دیا
اب کسی شے کی احتیاج نہیں
کھوٹے داموں میں یہ بھی کیا ٹھہرا
درہم داغ کا رواج نہیں
بے نیازی کی شان کہتی ہے
بندگی کی کچھ احتیاج نہیں
دل لگی کیجئے رقیبوں سے
اس طرح کا مرا مزاج نہیں
عشق ہے پادشاہ عالم گیر
گرچہ ظاہر میں تخت و تاج نہیں
درد فرقت کی گو دوا ہے وصال
اس کے قابل بھی ہر مزاج نہیں
یاس نے کیا بجھا دیا دل کو
کہ تڑپ کیسی اختلاج نہیں
ہم تو سیرت پسند عاشق ہیں
خوب رو کیا جو خوش مزاج نہیں
حور سے پوچھتا ہوں جنت میں
اس جگہ کیا بتوں کا راج نہیں
صبر بھی دل کو داغؔ دے لیں گے
ابھی کچھ اس کی احتیاج نہیں |
Javed Akhtar | کس لئے کیجئے بزم آرائی جاوید اختر غزلیں | کس لئے کیجے بزم آرائی
پر سکوں ہو گئی ہے تنہائی
پھر خموشی نے ساز چھیڑا ہے
پھر خیالات نے لی انگڑائی
یوں سکوں آشنا ہوئے لمحے
بوند میں جیسے آئے گہرائی
اک سے اک واقعہ ہوا لیکن
نہ گئی تیرے غم کی یکتائی
کوئی شکوہ نہ غم نہ کوئی یاد
بیٹھے بیٹھے بس آنکھ بھر آئی
ڈھلکی شانوں سے ہر یقیں کی قبا
زندگی لے رہی ہے انگڑائی |
Jaun Eliya | میں تنگ آغوش میں آباد کروں گا تجھ کو، جون ایلیا غزلیں | تنگ آغوش میں آباد کروں گا تجھ کو
ہوں بہت شاد کہ ناشاد کروں گا تجھ کو
فکر ایجاد میں گم ہوں مجھے غافل نہ سمجھ
اپنے انداز پر ایجاد کروں گا تجھ کو
نشہ ہے راہ کی دوری کا کہ ہم راہ ہے تو
جانے کس شہر میں آباد کروں گا تجھ کو
میری بانہوں میں بہکنے کی سزا بھی سن لے
اب بہت دیر میں آزاد کروں گا تجھ کو
میں کہ رہتا ہوں بصد ناز گریزاں تجھ سے
تو نہ ہوگا تو بہت یاد کروں گا تجھ کو |
Javed Akhtar | یہ دنیا تم کو راس آئے تو کہنا جاوید اختر غزلیں | یہ دنیا تم کو راس آئے تو کہنا
نہ سر پتھر سے ٹکرائے تو کہنا
یہ گل کاغذ ہیں یہ زیور ہیں پیتل
سمجھ میں جب یہ آ جائے تو کہنا
بہت خوش ہو کہ اس نے کچھ کہا ہے
نہ کہہ کر وہ مکر جائے تو کہنا
بدل جاؤ گے تم غم سن کے میرے
کبھی دل غم سے گھبرائے تو کہنا
دھواں جو کچھ گھروں سے اٹھ رہا ہے
نہ پورے شہر پر چھائے تو کہنا |
Sahir Ludhianvi | بھولے سے محبت کر بیٹھا نادان تھا بیچارا دل ہی تو ہے، ساحر لدھیانوی غزلیں۔ | بھولے سے محبت کر بیٹھا، ناداں تھا بچارا، دل ہی تو ہے
ہر دل سے خطا ہو جاتی ہے، بگڑو نہ خدارا، دل ہی تو ہے
اس طرح نگاہیں مت پھیرو، ایسا نہ ہو دھڑکن رک جائے
سینے میں کوئی پتھر تو نہیں احساس کا مارا، دل ہی تو ہے
جذبات بھی ہندو ہوتے ہیں چاہت بھی مسلماں ہوتی ہے
دنیا کا اشارہ تھا لیکن سمجھا نہ اشارا، دل ہی تو ہے
بیداد گروں کی ٹھوکر سے سب خواب سہانے چور ہوئے
اب دل کا سہارا غم ہی تو ہے اب غم کا سہارا دل ہی تو ہے |
Sahir Ludhianvi | ہر طرح کے جذبات کا اعلان ہیں آنکھیں، ساحر لدھیانوی غزلیں | ہر طرح کے جذبات کا اعلان ہیں آنکھیں
شبنم کبھی شعلہ کبھی طوفان ہیں آنکھیں
آنکھوں سے بڑی کوئی ترازو نہیں ہوتی
تلتا ہے بشر جس میں وہ میزان ہیں آنکھیں
آنکھیں ہی ملاتی ہیں زمانے میں دلوں کو
انجان ہیں ہم تم اگر انجان ہیں آنکھیں
لب کچھ بھی کہیں اس سے حقیقت نہیں کھلتی
انسان کے سچ جھوٹ کی پہچان ہیں آنکھیں
آنکھیں نہ جھکیں تیری کسی غیر کے آگے
دنیا میں بڑی چیز مری جان! ہیں آنکھیں |
Altaf Hussain Hali | جیتے جی موت کے تم منہ میں نہ جانا ہرگز، الطاف حسین حالی غزلیں | جیتے جی موت کے تم منہ میں نہ جانا ہرگز
دوستو دل نہ لگانا نہ لگانا ہرگز
عشق بھی تاک میں بیٹھا ہے نظر بازوں کی
دیکھنا شیر سے آنکھیں نہ لڑانا ہرگز
ہاتھ ملنے نہ ہوں پیری میں اگر حسرت سے
تو جوانی میں نہ یہ روگ بسانا ہرگز
جتنے رستے تھے ترے ہو گئے ویراں اے عشق
آ کے ویرانوں میں اب گھر نہ بسانا ہرگز
کوچ سب کر گئے دلی سے ترے قدر شناس
قدر یاں رہ کے اب اپنی نہ گنوانا ہرگز
تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز
ڈھونڈتا ہے دل شوریدہ بہانے مطرب
دردانگیز غزل کوئی نہ گانا ہرگز
صحبتیں اگلی مصور ہمیں یاد آئیں گی
کوئی دلچسپ مرقع نہ دکھانا ہرگز
لے کے داغ آئے گا سینے پہ بہت اے سیاح
دیکھ اس شہر کے کھنڈروں میں نہ جانا ہرگز
چپے چپے پہ ہیں یاں گوہر یکتا تہ خاک
دفن ہوگا کہیں اتنا نہ خزانہ ہرگز
مٹ گئے تیرے مٹانے کے نشاں بھی اب تو
اے فلک اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز
وہ تو بھولے تھے ہمیں ہم بھی انہیں بھول گئے
ایسا بدلا ہے نہ بدلے گا زمانہ ہرگز
ہم کو گر تو نے رلایا تو رلایا اے چرخ
ہم پہ غیروں کو تو ظالم نہ ہنسانا ہرگز
آخری دور میں بھی تجھ کو قسم ہے ساقی
بھر کے اک جام نہ پیاسوں کو پلانا ہرگز
بخت سوئے ہیں بہت جاگ کے اے دور زماں
نہ ابھی نیند کے ماتوں کو جگانا ہرگز
کبھی اے علم و ہنر گھر تھا تمہارا دلی
ہم کو بھولے ہو تو گھر بھول نہ جانا ہرگز
شاعری مر چکی اب زندہ نہ ہوگی یارو
یاد کر کر کے اسے جی نہ کڑھانا ہرگز
غالبؔ و شیفتہؔ و نیرؔ و آزردہؔ و ذوقؔ
اب دکھائے گا یہ شکلیں نہ زمانا ہرگز
مومنؔ و علویؔ و صہبائیؔ و ممنوںؔ کے بعد
شعر کا نام نہ لے گا کوئی دانا ہرگز
کر دیا مر کے یگانوں نے یگانہ ہم کو
ورنہ یاں کوئی نہ تھا ہم میں یگانہ ہرگز
داغؔ و مجروحؔ کو سن لو کہ پھر اس گلشن میں
نہ سنے گا کوئی بلبل کا ترانہ ہرگز
رات آخر ہوئی اور بزم ہوئی زیر و زبر
اب نہ دیکھو گے کبھی لطف شبانہ ہرگز
بزم ماتم تو نہیں بزم سخن ہے حالیؔ
یاں مناسب نہیں رو رو کے رلانا ہرگز |
Mirza Ghalib | اُگ رہا ہے دَر و دیوار پہ سبزہ، غالبؔ مرزا غالبؔ غزلیں | اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالبؔ
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے |
Mirza Ghalib | ذکر اس پری وش کا اور پھر بیان اپنا مرزا غالب غزلیں | ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا
مے وہ کیوں بہت پیتے بزم غیر میں یا رب
آج ہی ہوا منظور ان کو امتحاں اپنا
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے ادھر ہوتا کاش کے مکاں اپنا
دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے
بارے آشنا نکلا ان کا پاسباں اپنا
درد دل لکھوں کب تک جاؤں ان کو دکھلا دوں
انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا
گھستے گھستے مٹ جاتا آپ نے عبث بدلا
ننگ سجدہ سے میرے سنگ آستاں اپنا
تا کرے نہ غمازی کر لیا ہے دشمن کو
دوست کی شکایت میں ہم نے ہم زباں اپنا
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا |
Dagh Dehlvi | عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا۔ داغ دہلوی غزلیں | عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا
کبھی جان صدقے ہوتی کبھی دل نثار ہوتا
کوئی فتنہ تا قیامت نہ پھر آشکار ہوتا
ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا
جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تمہیں منصفی سے کہہ دو تمہیں اعتبار ہوتا
غم عشق میں مزا تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے
یہ وہ زہر ہے کہ آخر مے خوش گوار ہوتا
یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا
نہ مزا ہے دشمنی میں نہ ہے لطف دوستی میں
کوئی غیر غیر ہوتا کوئی یار یار ہوتا
ترے وعدے پر ستم گر ابھی اور صبر کرتے
اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا
یہ وہ درد دل نہیں ہے کہ ہو چارہ ساز کوئی
اگر ایک بار مٹتا تو ہزار بار ہوتا
گئے ہوش تیرے زاہد جو وہ چشم مست دیکھی
مجھے کیا الٹ نہ دیتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
مجھے مانتے سب ایسا کہ عدو بھی سجدے کرتے
در یار کعبہ بنتا جو مرا مزار ہوتا
تمہیں ناز ہو نہ کیونکر کہ لیا ہے داغؔ کا دل
یہ رقم نہ ہاتھ لگتی نہ یہ افتخار ہوتا |
Wali Mohammad Wali | دل کیوں تجھ بجھ بے قراری ہے ولی محمد ولی غزلیں | دل کوں تجھ باج بے قراری ہے
چشم کا کام اشک باری ہے
شب فرقت میں مونس و ہم دم
بے قراروں کوں آہ و زاری ہے
اے عزیزاں مجھے نہیں برداشت
سنگ دل کا فراق بھاری ہے
فیض سوں تجھ فراق کے ساجن
چشم گریاں کا کام جاری ہے
فوقیت لے گیا ہوں بلبل سوں
گرچہ منصب میں دو ہزاری ہے
عشق بازوں کے حق میں قاتل کی
ہر نگہ خنجر و کٹاری ہے
آتش ہجر لالہ رو سوں ولیؔ
داغ سینے میں یادگاری ہے |
Mohsin Naqvi | میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا، محسن نقوی غزلیں | میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا
مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا
یہ تیرگی مرے گھر کا ہی کیوں مقدر ہو
میں تیرے شہر کے سارے دیئے بجھا دوں گا
ہوا کا ہاتھ بٹاؤں گا ہر تباہی میں
ہرے شجر سے پرندے میں خود اڑا دوں گا
وفا کروں گا کسی سوگوار چہرے سے
پرانی قبر پہ کتبہ نیا سجا دوں گا
اسی خیال میں گزری ہے شام درد اکثر
کہ درد حد سے بڑھے گا تو مسکرا دوں گا
تو آسمان کی صورت ہے گر پڑے گا کبھی
زمیں ہوں میں بھی مگر تجھ کو آسرا دوں گا
بڑھا رہی ہیں مرے دکھ نشانیاں تیری
میں تیرے خط تری تصویر تک جلا دوں گا
بہت دنوں سے مرا دل اداس ہے محسنؔ
اس آئنے کو کوئی عکس اب نیا دوں گا |
End of preview. Expand
in Data Studio
README.md exists but content is empty.
- Downloads last month
- 63