id
int64 18
202k
| inputs
stringlengths 13
4.34k
| targets
stringlengths 4
112k
| dataset_name
stringclasses 1
value | sub_dataset_name
stringclasses 1
value | task_type
stringclasses 1
value | template_id
int64 0
0
| language
stringclasses 1
value | split
stringclasses 1
value | script
stringclasses 1
value |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
30,181 | کیا ورلڈکپ 2023 میں ٹیم کی ناقص کارکردگی پر سری لنکن کرکٹ بورڈ کو فارغ کردیاگیا
| کولمبو ورلڈکپ میں ٹیم کی ناقص کارکردگی پر سری لنکن کرکٹ بورڈ کو فارغ کردیاگیا۔رانا ٹنگا کو بورڈ کا عبوری چیئرمین مقرر کر دیاگیا۔
تفصیلات کے مطابق سری لنکا کے وزیر کھیل روشن رانا سنگھے نے کرکٹ بورڈ کو فارغ کیا،سری لنکن وزیر کھیل کے کرپشن کے الزامات پر بورڈ سے تعلقات کشیدہ تھے،سری لنکن وزیر کھیل نے پورے سری لنکن کرکٹ بورڈ سے استعفوں کا مطالبہ کیاتھا۔
دوسری جانب کرپشن الزامات کی تحقیقات کیلئے سری لنکن وزیر کھیل نے 7رکنی پینل تشکیل دیدیا گیا،1996ورلڈکپ فاتح ٹیم کے کپتان ارجنا رانا ٹنکا کو ذمے داری سونپ دی گئی ،رانا ٹنگا کو سری لنکن کرکٹ بورڈ کا عبوری چیئرمین مقرر کیاگیاہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
30,517 | اردو میں کہانی سنایے: | عنوان: بڑھیا کا ہار
دوپہر کا وقت تھا۔بارش کے سبب خنکی خنکی ہوا چل رہی تھی۔امی نے سلمان کو بازار سے سبزی لینے کا کہا تو وہ کودتا ہوا اپنی سائیکل پر بازار کی طرف روانہ ہو گیا۔سلمان والدین کا فرمانبردار اور بہت مہذب بیٹا تھا۔امی یا ابو کے منہ سے نکلے ہر حکم کو من و عن پورا کرتا تھا۔بازار جاتے ہوئے راستے میں سلمان سائیکل چلاتے چلاتے تھک گیا تو کچھ دیر سستانے کے لئے وہ سائیکل کھڑی کر کے ایک درخت کے نیچے بینچ پر بیٹھ گیا۔
اچانک اس کی نظر اس پرانے پرس پر پڑی جو قدرے بہتر حالت میں پڑا تھا۔سلمان سوچنے لگا کہ یہ پرس اٹھا لیتا ہوں گھر جا کر چھوٹی بہن مریم کو دوں گا۔وہ کئی بار امی سے پرس لینے کا کہہ چکی تھی۔سلمان نے پرس کو اُٹھایا پھونک ماری اور گرد و غبار صاف کرتے ہوئے جب پرس کھولا تو ہکا بکا رہ گیا۔
اس پرس میں سونے کا ہار اور بہت ساری جیولری موجود تھی۔وہ بہت خوش ہو گیا مگر اس کے ذہن میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہوا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے پرس مالک تک پہنچانے کا تہیہ کر لیا۔
کچھ دیر سستانے کے بعد وہ پرس جیب میں ڈال کر بازار کی طرف روانہ ہو گیا۔ابھی تھوڑا سا آگے بڑھا ہی ہو گا کہ سلمان کو راستے میں ایک پریشان بوڑھیا نظر آئی جو راستے میں کچھ تلاش کرتے ہوئے روئے جا رہی تھی۔سلمان کو شک ہو گیا کہ شاید وہ پرس اسی بوڑھیا کا ہے۔سلمان نے اس کے قریب سائیکل روک کر احتراماً کھڑے ہو کر دریافت کیا۔
”اماں کیوں رو رہی ہیں؟کیا گم ہو گیا ہے؟“
بوڑھیا نے آنسو پونچھتے ہوئے جواب دیا”ارے!ننھے بچے میرا بیٹا بیمار ہے۔
اس کے علاج کیلئے گھر کا سامان بیچنے جا رہی تھی کہ پریشانی کے سبب میرا پرس گم ہو گیا ہے بس اسی کو تلاش کر رہی ہوں۔“
اس نے باتوں باتوں میں بوڑھیا سے دریافت کرتے ہوئے کہا۔”اماں جی اس پرس میں کیا تھا؟“
یہ سن کر بوڑھیا کے چہرے پر آس و امید کے آثار نمایاں ہو گئے۔انہوں نے جلدی سے جواب دیا”بیٹا میرے جہیز میں جو سامان ملا وہ تو سارا ایک ایک کر کے بک گیا مگر ایک ہار بچا جسے بیچنے جا رہی تھی کہ گم ہو گیا“
سلمان کو جب پورا یقین ہو گیا کہ اسے ہار کا اصل مالک مل گیا ہے تو اس نے جیب سے پرس نکالتے ہوئے بوڑھیا سے کہا”اماں جی یہ دیکھیں یہی پرس تھا نا“
یہ سن کر بوڑھیا نے جھولی اٹھا کر نگاہیں بلند کیں اور سلمان کیلئے رو رو کر دعائیں مانگنے لگی۔
سلمان کو بھی دلی خوشی ہوئی کہ اب اس کے بیٹے کا علاج ہو جائے گا۔وہ بوڑھیا کے ساتھ بازار کی طرف چل دیئے۔بازار پہنچنے ہی والے تھے کہ سلمان کو کال کر کے ایک شخص نے بتایا کہ آپ ہسپتال پہنچیں۔آپ کے بابا جان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔یہ سن کر وہ رونے لگا اور بوڑھیا کو ساری بات بتا دی۔بوڑھیا بھی سلمان کے ساتھ ہسپتال چل دی کیونکہ ان کا بیٹا بھی وہیں زیر علاج تھا۔
ہسپتال پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ڈاکٹرز نے بتایا کہ سلمان کے ابو جان کی طبیعت کنٹرول سے باہر ہے اس کا آپریشن ہو گا۔جس کیلئے ایک لاکھ روپے لگیں گے۔سلمان پریشان تھا کہ اب وہ اتنے پیسے کہاں سے لائے؟
سلمان پریشانی کے عالم میں تھا۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔اتنے میں بوڑھیا بولی
”یہ لو بیٹا یہ ہار بیچ دو اور اپنے ابو کا علاج کراؤ۔
اب مزید دیر نہیں ہو سکتی۔میرے بیٹے سے بھی آپ کے بابا کی جان قیمتی ہے کیونکہ آپ نے مجھے میرا پرس دے کر اپنا فرض پورا کیا“
بوڑھیا کا ہار اور جیولری دو لاکھ میں بکے جس سے سلمان نے اپنے ابو جان کا علاج کروایا اور باقی پیسے اماں جی کو لٹا دیئے اور اس کے بیٹے کے علاج کا بھی بندوبست ہو گیا۔اس طرح دونوں کی جانیں بچ گئیں۔سلمان کو اپنی نیک نیت اور اچھائی کا بدلہ مل گیا۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
30,518 | آرچ ڈیوک فرانز فرڈینینڈ کے قتل نے پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں کس طرح کردار ادا کیا؟ | 28 جون 1914 کو سرائیوو میں آرچ ڈیوک فرانز فرڈینینڈ کا قتل، یورپ میں پہلے سے کشیدہ سیاسی ماحول کے لیے ایک اتپریرک کے طور پر کام کیا۔ فرڈینینڈ کے قتل نے آسٹریا-ہنگری اور سربیا کے درمیان کشیدگی کو بڑھا دیا، جس کی وجہ سے آسٹریا-ہنگری نے سربیا کو الٹی میٹم جاری کیا۔ سربیا کے ردعمل کو غیر تسلی بخش سمجھا گیا، جس نے آسٹریا-ہنگری کو جنگ کا اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ اتحادوں کا پیچیدہ نظام، خاص طور پر ٹرپل اینٹنٹ اور ٹرپل الائنس، اس وقت عمل میں آیا جب قومیں تنازعہ کی طرف کھینچی گئیں۔ روس، فرانس، جرمنی اور برطانیہ ان بڑی طاقتوں میں شامل تھے جنہوں نے اپنے آپ کو اس میں الجھایا جو ابتدائی طور پر ایک علاقائی تنازعہ تھا، اس طرح اسے عالمی تنازعہ میں تبدیل کر دیا۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
30,862 | علم کی نوعیت اور اسے کیسے حاصل کیا جاتا ہے کے بارے میں ارسطو کے خیالات کیا ہیں؟ | ارسطو کا خیال تھا کہ علم مشاہدے، تجربے اور استدلال سے حاصل ہوتا ہے۔ اس نے "Epistemology" (علم کا مطالعہ) کا تصور متعارف کرایا اور علم کے حصول میں تجرباتی مشاہدے اور منطقی استدلال کی اہمیت پر زور دیا۔ اس نے علم کو بھی مختلف اقسام میں تقسیم کیا، جیسے کہ عملی علم اور نظریاتی علم۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
31,064 | تہذیبوں کے ثقافتی اور سماجی پہلوؤں کی تشکیل میں ندیاں کیا کردار ادا کرتی ہیں؟ | تہذیبوں کے ثقافتی اور سماجی تانے بانے پر دریاؤں کا گہرا اثر ہے۔ پانی کی دستیابی گھنی آبادی کو سہارا دیتی ہے اور شہری مراکز کے قیام میں سہولت فراہم کرتی ہے، جس سے متنوع ثقافتوں کی ترقی ہوتی ہے۔ دریا اکثر سماجی سرگرمیوں کا مرکز بن جاتے ہیں، کمیونٹیز اپنے کناروں پر رسومات، تقریبات اور تہواروں کے لیے جمع ہوتی ہیں۔ مزید برآں، دریا کے ماحولیاتی نظام کی بھرپور حیاتیاتی تنوع معاشروں کی ثقافتی شناخت، فن، افسانہ اور مذہبی عقائد کو متاثر کرنے میں معاون ہے۔ دریا کے نظاموں کا باہمی ربط ثقافتی تبادلے اور مختلف خطوں کے درمیان رابطے کو فروغ دیتا ہے، تہذیبوں کی اجتماعی شناخت کو تشکیل دیتا ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
31,148 | پاکستان کی حکومت نے 28 سال قبل ایک ریکارڈک منصوبے کا آغاز کیا تھا تاکہ ملک میں ذخائر کی تلاش کی جا سکے۔ اس منصوبے کا مقصد مخفی ذخائر کو پیدا کرنا تھا لیکن اس سے ملک کو فائدے کے بجائے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس منصوبے نے نہ صرف چھ ارب ڈالر کا جرمانہ یاتا بلکہ سرمایہ کاری کے حوالے سے تنازعات کو نمٹانے کے لئے دو بین الاقوامی اداروں میں مقدمہ بازی کی ترتیب دی ہے جس کی وجہ سے خطیر اخراجات بھی ہوئے ہیں۔
یہ مسئلہ اب بھی بین الاقوامی فورمز پر موجود ہے جو ثالثی کے لئے ہیں۔ گذشتہ سال، بین الاقوامی ثالثی ٹریبیونل نے پاکستان کے بلوچستان صوبے میں ریکارڈک پراجیکٹ کے تقریباً چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا، جس میں سونے اور تانبے کے کروڑوں ڈالر کی مالیت شامل تھی۔
اس سال کے فیصلے کے بعد بھی پاکستان کی عالمی ثالثی ٹریبیونل میں سنہ 2019 کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست زیر سماعت ہے جو نے پاکستان کو ریکارڈک پراجیکٹ میں ٹی سی سی کو لیز دینے سے انکار کرنے پر قصور وار ثابت کیا تھا۔
برٹش ورجن آئی لائنڈ کی ایک عدالت نے بھی اس منصوبے کی شیئرز کو آسٹریلوی کمپنی کی درخواست پر رواں برس سات جنوری میں منجمد کر دیا تھا۔
پاکستان کی جانب سے اس منصوبے کی قانونی لڑائی میں اب تک اربوں روپے کے اخراجات کیے گئے ہیں۔
2013 میں کمپنی ٹھیتیان کاپر کمپنی کو مائننگ کا لائسنس نہیں دیا گیا تو انہوں نے دو بین الاقوامی فورمز سے رجوع کیا، جو کہ ان میں سے ایک انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپویٹس (ایکسڈ) تھا۔
حکومت بلوچستان کے معدنیاتی محکمہ کی معلومات کے مطابق، سات سال کے دوران ان فورمز پر مقدمہ بازی کیلئے مجموعی طور پر پانچ ارب، 33 کروڑ 80 لاکھ آٹھ ہزار دو سو دو روپے کے اخراجات کئے گئے ہیں۔ | پاکستان کی حکومت کے ریکارڈک منصوبے کا اثر: کیا ذخائر کی تلاش نے ملک کے لئے بہتری لے کر آئی یا مزید مسائل کا سبب بنا؟ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
31,222 | زبان کو قوم کی شناخت کا بنیادی عنصر کیوں سمجھا جاتا ہے؟ | زبان قومی شناخت کا سنگ بنیاد ہے، جو ثقافتی ورثے، تاریخ اور مشترکہ اقدار کے طاقتور اظہار کے طور پر کام کرتی ہے۔ یہ کمیونٹیز کو آپس میں جوڑتا ہے، مواصلات کا ایک مشترکہ ذریعہ فراہم کرتا ہے جو شہریوں کے درمیان تعلق کے احساس کو فروغ دیتا ہے۔ کسی قوم کی زبان میں شامل منفرد لسانی خصوصیات، محاورے اور تاثرات اس کی الگ ثقافتی شناخت میں حصہ ڈالتے ہیں، جس طرح سے لوگ خود کو اور ان کی مشترکہ تاریخ کو سمجھتے ہیں۔ اتحاد کی علامت کے طور پر، زبان اجتماعی قومی شعور اور فخر کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
31,297 | دوه کسان، لیلی او میکس، د اسرار څیز په اړه بیانونه کوي. لیلی وايي، "میکس دروغ وایي." میکس وايي، "اسرار اعتراض یو کتاب دی." څوک رښتیا وایي؟ | مکس ریښتیا وایی. که لیلی ریښتیا وایی، نو مکس باید د کتاب په اړه د اعتراض په اړه دروغ وایی. مګر دا به د لیلی بیان غلط کړي، چې د تضاد لامل کیږي. نو ځکه، مکس ریښتیا وایي. | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
31,671 | سوال: سرمایہ داری کی تنقیدیں کیا ہیں اور یہ وقت کے ساتھ کس طرح ڈھال رہا ہے؟
| جواب: سرمایہ داری کے ناقدین آمدنی میں عدم مساوات، ماحولیاتی انحطاط، اور محنت کے ممکنہ استحصال جیسے مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ، سرمایہ داری نے سماجی تحفظ کے جال، مزدور قوانین، اور ماحولیاتی ضوابط کی ترقی کے ذریعے ان میں سے کچھ خدشات کو حل کرنے کے لیے ڈھال لیا ہے۔ سرمایہ داری کی مختلف شکلیں، جیسے سماجی سرمایہ داری یا جامع سرمایہ داری، ابھر کر سامنے آئی ہیں، جو ایک زیادہ متوازن نقطہ نظر پر زور دیتے ہیں جو اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ سماجی اور ماحولیاتی اثرات کو بھی سمجھتا ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
32,034 | سرمایہ دارانہ معیشت میں مقابلہ کیا کردار ادا کرتا ہے؟
| مسابقت سرمایہ داری کا ایک بنیادی پہلو ہے۔ مسابقتی مارکیٹ میں، کاروبار گاہکوں کو راغب کرنے کے لیے کم قیمتوں پر بہتر مصنوعات یا خدمات پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ مقابلہ نہ صرف جدت اور کارکردگی کو فروغ دیتا ہے بلکہ مختلف قسم کے انتخاب فراہم کرکے صارفین کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ یہ کاروباروں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ صارفین کی ترجیحات کو تبدیل کرنے کے لیے اپنائیں، بہتر بنائیں اور جوابدہ رہیں، مجموعی اقتصادی حرکیات میں حصہ ڈالتے ہوئے | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
32,154 | سوال: جو شخص اسے بناتا ہے وہ بیچتا ہے۔ جو شخص اسے خریدتا ہے وہ کبھی استعمال نہیں کرتا۔ جو شخص اسے استعمال کرتا ہے وہ کبھی نہیں جانتا کہ وہ اسے استعمال کر رہا ہے۔ یہ کیا ہے؟
| جواب: ایک تابوت۔ یہ پہیلی تابوت کی زندگی کے چکر کو بیان کرتی ہے — صارف کی آگاہی کے بغیر بنایا، بیچا، خریدا اور استعمال کیا گیا۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
32,197 | درج ذیل جملے کا اردو میں ترجمہ کریں:
Feeling good about yourself and taking care of your health is important for your self-esteem | اپنے بارے میں اچھا محسوس کرنا اور اپنی صحت کا خیال رکھنا آپ کی عزت نفس کے لیے ضروری ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
32,242 | کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
| ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام کریں گے اور زیادہ تر کام محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔
1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔
کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔
رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ کے مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔ جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘
’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘
سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔
دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طرف جانا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔ مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔
تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔
مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے لیے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملادیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔
فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔
یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔
اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہوگی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔
اس سوال پر دنیا کا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔
اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔
مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بات کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔
اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔
تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت کی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘
لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہوگی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔
لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔
لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔
سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
32,295 | جب کسی مصنف نے تمام ماخذ کا مطالعہ اور تحقیقی مواد کو خود انجام دیا ہو تو اسے کو کیا کہتے ہیں جب تحقیقی رپورٹ تیار کی جاتی ہے؟ | جب کسی مصنف نے تمام ماخذ کا مطالعہ اور تحقیقی مواد کو خود انجام دیا ہوتا ہے، اور اس نے اس پر اپنی تجزیے اور نتیجے حاصل کیے ہیں، تو اس کو "تحقیقی رپورٹ" یا "تحقیقاتی رپورٹ" کہا جاتا ہے۔ یہ رپورٹ مصنف کی تحقیقاتی پروسیس اور حاصل کردہ معلومات کو شامل کرتی ہے، جس میں مواد کو منظم اور سسٹمائیک طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس رپورٹ میں عام طور پر تجزیات، نتائج، اور تجاویز بھی شامل ہوتی ہیں جو مصنف کی تحقیقاتی پروسیس کو مختصر اور واضح طور پر بیان کرتی ہیں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
32,469 | درې ملګري، الیکس، ټیلر او اردن، هر یو د مختلف رنګ خولۍ اغوستې - سور، نیلي یا شنه. د دوی څخه هیڅوک نشي کولی د خپلې خولۍ رنګ وګوري. الیکس وايي، "زه د خپلې خولۍ رنګ نه پوهیږم." ټیلر وايي، "زه هم زما د خولۍ رنګ نه پوهیږم." اردن وايي، زه د خپلې خولۍ رنګ پېژنم. د دوی د خولۍ رنګونه څه دي؟ | الیکس او ټیلر مختلف رنګه خولۍ لري، او د اردن خولۍ شنه ده. که الیکس او ټیلر ورته رنګ درلود، اردن به د هغه د خولۍ رنګ پیژني. څرنګه چې اردن پوهیږي، الیکس او ټیلر باید مختلف رنګونه ولري. | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
32,543 | دیے گئے منفی جملے کو مثبت جملے میں تبدیل کریں۔
آج بارش کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ | ٹھیک ہے، میں نےدیے گئے جملے کو مثبت جملے میں تبدیل دیا ہے۔
آج بارش کا امکان نظر آتا ہے | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
32,957 | گہری اور بھر پور نیند کے لیے آرام دہ طریقہ کیا ہے؟
| بیشتر لوگ گہری نیند کا مزہ لینے کے لیے اپنے انداز سے بستر پر لیٹتے ہیں۔ بعض کا طریقہ مثالی اور کئی کا مضر صحت ہوتا ہے۔
غلط طریقے سے لیٹنے پر جسم کے مختلف حصوں میں درد اٹھنے لگتا ہے اور غلط طریقے سے سونا صحت مسائل کا باعث بن جاتا ہے۔ کبھی کبھار اس کا نتیجہ دل کی تکلیف اور تنفس کے نظام میں خرابی کی صورت میں نکلتا ہے۔
الرجل میگزین نے مثالی طریقہ دریافت کرنے کے لیے ماہر ڈاکٹروں سے رجوع کیا اور اس حوالے سے خصوصی رپورٹ تیار کی ہے۔
ماہرین اعصاب کا مشورہ ہے کہ سوتے وقت دائیں پہلو کی طرف کروٹ لی جائے۔ دونوں ٹانگوں اور بازوؤں میں معمولی سا فاصلہ رکھا جائے۔
سونے کا یہ طریقہ آرام دہ بھی ہے اور مثالی بھی۔ اس طرح سونے سے دل اور پھیپھڑوں پر براہ راست دباؤ سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
روسی ڈاکٹر یوگینی سوکوف نے خبردار کیا ہے کہ پیٹ کے بل لیٹنا صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔ اس انداز سے لیٹنے سے گردن کی رگوں اور شریانوں پر برا اثر پڑتا ہے۔ نقصان اس وقت زیادہ بڑھ جاتا ہے جب سونے والا شخص ایک پہلو کی طرف مڑتا ہے۔
روسی ڈاکٹر کا مشورہ ہے کہ کمر کے بل لیٹنے سے بھی پرہیز کیا جائے جو لوگ اس انداز سے سوتے ہیں ان کی زبان گلے کے آخر تک پھیل جاتی ہے جس سے طبعی شکل میں سانس لینے میں زحمت ہوتی ہے۔ اس سے صحت کو نقصان ہوتا ہے جبکہ اس سے ٹانگوں اور بازوؤں میں درد ہونے لگتا ہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
33,255 | Fill in the Blanks:
1۔ سعودی عرب کا دار الحکومت ____ ہے؟
2۔ پاکستان کا دار الحکومت ____ ہے؟
3۔ امریکہ کا دار الحکومت ____ ہے؟ | 1۔ سعودی عرب کا دار الحکومت ریاض ہے۔
2۔ پاکستان کا دار الحکومت السلام آباد ہے۔
3۔ امریکہ کا دار الحکومت واشنگٹن ڈی سی ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
34,063 | خارجی سیارے کی دریافتیں، خاص طور پر وہ جو ان کے میزبان ستاروں کے رہنے کے قابل زون میں ہیں، زمین سے باہر زندگی کے وجود کے لیے ضروری حالات کے بارے میں ہماری سمجھ کو کس طرح متاثر کرتی ہیں، اور ان نتائج سے ہماری کہکشاں کے اندر اور اس سے باہر ماورائے زمین کی زندگی کی تلاش کے لیے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ?
| خارجی سیارے کی کھوج، خاص طور پر وہ لوگ جو قابل رہائش زون کے اندر واقع ہیں — جہاں حالات مائع پانی کے وجود کی اجازت دے سکتے ہیں — نے زمین سے باہر زندگی کے امکانات کے بارے میں ہماری سمجھ کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے۔ کیپلر اور ٹی ای ایس ایس جیسی خلائی دوربینوں کے مشاہدات نے ہزاروں ایکسپوپلینٹس کی نشاندہی کی ہے، جن میں سے کچھ زمین جیسی خصوصیات کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ معلومات ماہرین فلکیات اور ماہرین فلکیات کو سیاروں کے ماحول کے تنوع اور رہائش پذیر ہونے میں کردار ادا کرنے والے عوامل سے آگاہ کرتی ہے۔ جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ جیسے آنے والے مشنوں کے ذریعہ ایکوپلینیٹری ماحول میں بائیو دستخطوں کے لئے جاری تلاش، ممکنہ طور پر قابل رہائش جہانوں کی نشاندہی کرنے اور اس پرانے سوال کا جواب دینے کے لئے ہماری جستجو کو آگے بڑھانے کا وعدہ رکھتی ہے کہ آیا کائنات میں کہیں اور زندگی موجود ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
34,069 | خشک میوہ کے فایدے بتایں؟ | اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے قسم قسم کی نعمتیں اتاری ہیں جن میں ایک کشمش بھی ہے جس میں صحت کا پورا خزانہ چھپا ہوا ہے۔
انسان کے لیے اللہ تعالیٰ نے کرہ ارض پر بے شمار نعمتیں اتاری ہیں جن سے وہ مستفید ہوتا ہے۔ ان ہی میں ایک خشک میوہ جات میں شامل کشمش ہے جو دیکھنے تو بہت چھوٹا سا میوہ ہے لیکن اس میں صحت کا انمول خزانہ چھپا ہوا ہے۔
انگور کو خشک کرکے بنایا جانے والا یہ خشک میوہ ہر موسم میں انسان کو فائدہ پہنچاتا ہے جو دیگر میوہ جات کی نسبت کم قیمت اور ہر ایک کی دسترس میں ہے۔ ماہرین طب کہتے ہیں کہ روزانہ ایک کپ کشمش پانی میں بھگو کر پینے سے انسانی قوت مدافعت مضبوط اور کئی بیماریوں سے تحفظ ملتا ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق کشمش میں آئرن کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ یہ خشک میوہ وٹامن سی اور دیگر اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور امرت کا درجہ رکھتا ہے۔ فائبر اور پولی فینول کی بھی اچھی مقدار ہوتی ہے۔ کئی معدنیات اور پروٹین بھی پائے جاتے ہیں جس کے باعث اس کو صحت کا چھپا ہوا خزانہ بھی کہا جاتا ہے۔
اگر روزانہ ایک کپ کشمش کے پانی میں بھگو کر پی لیں تو قوت مدافعت مضبوط ہوتی ہے اور نزلہ و زکام جیسی بیماریاں دور ہوجاتی ہیں۔
ماہرین صحت کے مطابق کشمش کو رات کو پانی میں بھگو کر اگلی صبح خالی پیٹ کھانے سے حیرت انگیز فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس کا پانی بھی جسم کے لیے معجزانہ طور پر فائدہ مند ہے۔ جس سے نہ صرف قوت مدافعت بڑھتی ہے اور نزلہ زکام جیسی بیماریاں دور ہوتی ہیں بلکہ خون میں آئرن کی کمی دور ہوتی ہے اور اینیمیا (خون کی کمی) کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔
صبح نہار منہ کشمش کا پانی پینا جسم سے خراب چربی اور کولیسٹرول کو دور کرکے آپ کے دل کو فٹ اور زندگی کو چست رکھتا ہے۔
کشمش کا پانی معدنیات اور پروٹین کے باعث بالوں کے لیے بہترین ٹانک سمجھا جاتا ہے جس سے بال مضبوط ہوتے ہیں اور جھڑنا ختم ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خوبصورت اور چمکتی جلد کے لیے بھی کشمش اکسیر ہے کہ اس کا پانی پینے سے جلد کی خشکی دور، خارش اور داغ دھبوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔
صبح سویرے کشمش کا پانی پینے سے جسم کو امائنو ایسڈ ملتے ہیں۔ جس سے حمل کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ صحت مند حمل کے لیے بھی بہت فائدہ مند ہے۔ جب خواتین حاملہ ہوتی ہیں تو انہیں قبض اور ہاضمے کے مسائل ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں صبح سویرے کشمش کا پانی پینے سے نظام ہاضمہ درست رہتا ہے اور حاملہ خواتین کو خون کی کمی کے خطرے سے بچایا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے واقع میں کئی نعمتیں انسانوں کے لئے فراہم کی ہیں، اور کشمش ایک ایسی نعمت ہے جس میں صحت کے لئے بہت سارے فوائد پائے جاتے ہیں۔
کشمش، جو انگور کو خشک کر کے تیار کی جاتی ہے، ایک ممتاز غذائیں ہے جس میں عناصر غذائی کا انمول خزانہ ہوتا ہے۔ اس میں آئرن، وٹامن سی، اور اینٹی آکسیڈنٹس کی بھرمار پائی جاتی ہے، جو قوت مدافعتی نظام کو مضبوطی دیتے ہیں اور کئی بیماریوں سے بچاتے ہیں۔
کشمش کا پانی اینیمیا کو روکنے میں مدد فراہم کرتا ہے اور خون کی کمی کو دور کرتا ہے۔ اس میں موجود فولیک ایسڈ صحیح حمل کیلئے اہم ہوتا ہے۔
یہ مخصوصاً خواتین کے لئے بھی بہترین غذائیں ہے، کیونکہ کشمش کا پانی حمل کے دوران ماں اور بچے کی صحت کو بہتر بناتا ہے اور حمل کے دوران کمیونٹی کی پوری طرح مدد فراہم کرتا ہے۔
کشمش کے پانی کا استعمال جلد کی صحت کے لئے بھی مفید ہوتا ہے، جو اس کو خوبصورتی اور جوانی میں مدد فراہم کرتا ہے۔
یہ ثابت ہوتا ہے کہ کشمش کا پانی پینے سے موٹاپے کو کم کیا جا سکتا ہے، اور اس میں پائے جانے والے فائبر اور پولی فینول کمیونٹی کی خواہشوں کو پورا کرتے ہیں۔
اختتاماً، کشمش ایک انمول خزانہ ہے جو صحت کو بہتر بناتا ہے اور کئی بیماریوں سے محافظت فراہم کرتا ہے۔ اس کا پانی صبح کو نہار منہ پینے سے آپ کی صحت کو بہتری حاصل ہوتی ہے اور قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لذیذ میوے کو اپنی روزمرہ کی غذائیں میں شامل کرکے آپ اپنی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
34,486 | امریکی انقلاب کے دوران، تین شخصیات — واشنگٹن، جیفرسن اور فرینکلن — نے اہم کردار ادا کیا۔ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ "جیفرسن نے آزادی کے اعلان کا مسودہ تیار کیا۔" جیفرسن کہتے ہیں، "فرینکلن نے ریاستہائے متحدہ کے پہلے صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔" فرینکلن کا کہنا ہے کہ "واشنگٹن فیڈرلسٹ پیپرز کا ایک اہم مصنف تھا۔" امریکی انقلاب میں کس نے کیا حصہ ڈالا؟
| واشنگٹن فیڈرلسٹ پیپرز کا ایک اہم مصنف تھا، جیفرسن نے آزادی کے اعلان کا مسودہ تیار کیا، اور فرینکلن نے ریاستہائے متحدہ کے پہلے صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اگر فرینکلن پہلے صدر ہوتے تو یہ جیفرسن کے بیان سے متصادم ہوتا۔ لہذا، جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے واشنگٹن، جیفرسن، اور فرینکلن منسلک ہیں. | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
35,445 | کیا نیلی آنکھیں حقیقت میں نیلی نہیں ہوتیں؟ | جب یہ کہا جاتا ہے کہ کسی کی آنکھیں آسمان جیسی نیلی ہیں تو یہ سچ ہے کیوں کہ دونوں میں سے کسی کا بھی رنگ حقیقت میں نیلا نہیں ہوتا۔
فضا میں کسی بھی چیز کا رنگ نیلا نہیں اور نا ہی دنیا کی آبادی میں تقریبا آٹھ فیصد ان لوگوں کی آنکھ کا رنگ نیلا ہوتا ہے۔
حقیقت میں یہ نظر کا دھوکہ ہے جو کسی چیز کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
لیکن اس پہیلی کو سمجھنے کے لیے آپ کو آنکھ کی سائنس سے آشنا ہونا پڑے گا خصوصاً آنکھ کے رنگ کی سائنس سے۔
آنکھ کا آئرس دو تہوں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں سامنے کی طرف ’سٹروما‘ جبکہ اس کے درپردہ ’اپیتھیلیئم‘ کی تہہ ہوتی ہے۔
اپیتھیلیئم کی موٹائی صرف دو خلیوں پر محیط ہوتی ہے جو گہرے بھورے رنگ کے پگمنٹس پر مشتمل ہوتے ہیں، نیلی رنگ کی آنکھوں میں بھی۔
جب آپ کو کسی کی آنکھ میں کوئی نقطہ نظر آتا ہے تو یہ دراصل اپیتھیلیئم ہوتا ہے۔ اس گہری بھوری سطح کے سامنے سٹروما موجود ہوتا ہے جس میں موجود فائبر کا کوئی رنگ نہیں ہوتا۔
اکثر سٹروما میں ’میلانین‘ موجود ہوتا ہے جو ہماری جلد اور بالوں کے رنگ کا تعین کرتا ہے۔
میلانین کی کثرت یا کمی اس بات کو طے کرتی ہے کہ ہماری آنکھوں کا رنگ کیا ہو گا۔
لیکن یہ واحد چیز نہیں۔
جینیاتی تبدیلی
آنکھ کا رنگ کسی بھی فرد کی شخصیت کا اہم جزو ہوتا ہے کیوں کہ یہ منفرد ہو سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں کسی بھی فرد کی آنکھ کا رنگ کسی دوسرے فرد جیسا نہیں ہوتا۔
تاہم ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک رنگ ایسا ہے جو باقی سب پر حاوی ہے۔ دنیا میں تقریبا 80 فیصد افراد کی آنکھوں میں بھورے رنگ کا کوئی نہ کوئی اثر موجود ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ آئرس میں موجود سٹروما میں میلانین بکثرت موجود ہوتا ہے جو روشنی کو جذب کرتا ہے اور بھورے رنگ کا تاثر دیتا ہے جو چاکلیٹی بھی ہو سکتا ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا، مشرقی ایشیا اور افریقہ کے باسیوں میں زیادہ گہرا رنگ نظر آتا ہے جبکہ مغربی ایشیا، یورپ اور امریکہ میں اس کا ہلکا رنگ زیادہ ہوتا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق لاکھوں سال تک تمام انسانوں کی آنکھ کا رنگ بھورا تھا۔
کوپن ہیگن یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ہانس ایبرگ کہتے ہیں کہ چھ ہزار سے دس ہزار سال قبل جینیات میں ایک ایسی تبدیلی رونما ہوئی جس نے ایک مخصوص جین کو متاثر کیا جو میلانین بناتا ہے۔
اس تبدیلی کی وجہ سے میلانین غائب ہوا اور نیلی آنکھوں والے پہلے انسان کا جنم ہوا۔ یعنی تمام نیلی آنکھوں والے انسان شاید اسی فرد سے تعلق رکھتے ہیں۔
لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ نیلا رنگ اگر موجود نہیں ہے تو کیسے نظر آتا ہے؟
اس کی وضاحت وہی ہے جو آسمان کے رنگ کی ہے یعنی ’ٹنڈال افیکٹ‘ نامی سائنسی نظریہ۔
اس نظریے کے مطابق روشنی کو فضا یا کسی مائع میں موجود چھوٹے چھوٹے ذرات بکھیر دیتے ہیں۔
آنکھ میں موجود سٹروما کی تہہ بھی روشنی کو ایسے ہی بکھیر دیتی ہے تاہم جب سفید رنگ کی روشنی سٹروما کی تہہ سے ٹکراتی ہے تو نیلا رنگ زیادہ تیزی سے بکھر جاتا ہے اور یوں آنکھ کا رنگ نیلا محسوس ہوتا ہے۔
اسی لیے نیلے رنگ کی آنکھیں مخصوص اوقات میں زیادہ متحرک دکھائی دیتی ہیں کیوں کہ اس رنگ کا دارومدار مخصوص مقام پر موجود روشنی کے میعار سے جڑا ہوا ہے۔
بنیادی طور پر سائنس دان اسے ’سٹرکچرل رنگ‘ کہتے ہیں جو قدرتی طور پر بھی نظر آتا ہے۔
ایک اور دلچسپ معاملہ ’ہیاسنتھ ماکاؤ‘ نامی طوطے کا بھی ہے جس کے پر نیلے رنگ کے نہیں ہوتے لیکن نیلے نظر آتے ہیں کیوں کہ ان کے پروں میں چھپے ’نینو چینل‘ روشنی کو بکھیرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تو یوں اگرچہ بھورا رنگ ارتقا کا معجزہ ہے کیوں کہ میلانین ہمیں سورج کی حدت سے محفوظ رکھتا ہے، نیلا رنگ ایک قدیم جینیاتی تبدیلی اور قدرتی عوامل کی وجہ سے جنم لیتا ہے۔
اور سبز بھی۔
جی ہاں۔ سٹروما میں میلانین کی کچھ مقدار ایسی بھی ہوتی ہے جو اسے بھورا رنگ دیتی ہے لیکن روشنی کے بکھرنے کے عمل میں ہی سبز رنگ بھی پیدا ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ آنکھوں کا سبز رنگ کافی نایاب ہے اور آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ میں پائے جانے کے باوجود دنیا بھر میں صرف دو فیصد لوگوں کی آنکھوں کا رنگ ہی سبز ہوتا ہے۔
تقریبا تین فیصد کی آنکھوں کا رنگ سرمئی ہوتا ہے جو بذات خود ایک پہیلی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سرمئی رنگ کی آنکھوں میں بھی میلانین موجود نہیں ہوتا۔ تاہم نیلے کے بجائے سرمئی رنگ کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان مخصوص آنکھوں میں سٹروما میں کولاجین کی بہتات ہوتی ہے جو ٹنڈال افیکٹ کو روک دیتی ہے۔
یوں آنکھ میں داخل ہونے والی روشنی بکھر کر بھی متوازن رہتی ہے اور سرمئی رنگ کا گمان پیدا کرتی ہے۔
یعنی اگر نیلا رنگ نظر کا دھوکہ ہے تو سرمئی رنگ بھی حقیقی نہیں۔
یعنی ہمیشہ ہم جو دیکھتے ہیں وہی حقیقت نہیں ہوتی۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
35,882 | مجھے اس گانے کے بول چاہیے "میری تیری پریم کہانی"
| جی، ضرور،اس گانے کے بول یہ ہیں:
تیری میری، میری تیری پریم کہانی ہے مشکل
دو لفظوں میں یہ بیاں نہ ہو پائے
ایک لڑکا اور ایک لڑکی کی یہ کہانی ہے نئی
دو لفظوں میں یہ بیاں نہ ہو پائے
تیری میری، میری تیری پریم کہانی ہے مشکل
دو لفظوں میں یہ بیاں نہ ہو پائے
اک دوجے سے ہوئے جدا
جب اک دوجے کے لئے بنے
تیری میری، میری تیری پریم کہانی ہے مشکل
دو لفظوں میں یہ بیاں نہ ہو پائے
تم سے دل جو لگایا تو جہاں میں نے پایا
کبھی سوچا نہ تھا یہ، میلوں دور ہو گا سایہ
کیوں خدا تُو نے مجھے ایسا خواب دکھایا
جب حقیقت میں اسے توڑنا تھا؟ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
36,036 | دریا ماحولیاتی استحکام اور حیاتیاتی تنوع میں کیسے حصہ ڈالتے ہیں؟ | دریا ماحولیاتی نظام کے اہم اجزاء ہیں، جو ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے اور حیاتیاتی تنوع کی حمایت میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ دریا کے کناروں کے ساتھ ریپرین زون متنوع پودوں اور جانوروں کی انواع کے لیے رہائش گاہیں فراہم کرتے ہیں، جس سے ماحولیاتی نظام کی مجموعی صحت میں مدد ملتی ہے۔ صحت مند دریا کے ماحولیاتی نظام پانی کو صاف کرنے، پانی کے معیار کو منظم کرنے اور آبی حیات کی حمایت میں بھی حصہ ڈالتے ہیں۔ مزید برآں، موسمی سیلاب اور دریا کے کنارے پر تلچھٹ کا جمع ہونا اردگرد کی مٹی کی زرخیزی میں معاون ہے، جس سے پودوں کی نشوونما کے لیے ماحولیاتی حالات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ماحولیاتی پائیداری میں دریاؤں کی اہمیت کو تسلیم کرنا تحفظ کی کوششوں کو فروغ دینے اور ماحولیاتی نظام کی بہبود کو یقینی بنانے کے لیے بہت ضروری ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
36,465 | پوښتنه: هغه زړه څه شی دی چې نه ماتیږي؟
| ځواب: آرټیچوک. دا پوښتنه د "آرټیچوک" او "زړه چې نه وهل کیږي" تر مینځ په تلفظ کې ورته والی لوبوي. | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
36,917 | نیچے دیے گئے خالی جگہوں کو پر کریں۔
1۔ سعودی عرب کا دار الحکومت ____ ہے؟
2۔ پاکستان کا دار الحکومت ____ ہے؟
3۔ امریکہ کا دار الحکومت ____ ہے؟ |
1-ریاض سعودی عرب کا دارالحکومت ہے۔
2-پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد ہے۔
3-امریکہ کا دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
37,657 | بیلے کا سالن بنانے کی ترکیب | بیسن کو تسلے میں چھان لیں پھر اس میں ایک باریک چوپ کی ہوئی پیاز،ہری مرچیں اور پودینہ ڈالیں اور ساتھ ہی نمک،آدھا چائے کا چمچ ہلدی اور زیرہ شامل کر لیں۔ دو کھانے کے چمچ کوکنگ آئل ڈال کر ملائیں پھر تھوڑا تھوڑا پانی ڈالتے ہوئے سخت گوندھ لیں۔اس بیسن کے پتلے رول بنا لیں۔ پھیلے ہوئے پین میں اُبلتے ہوئے پانی کو ان رولز کو دس سے بارہ منٹ اُبالیں اور پانی سے نکال کر ٹھنڈے کرکے اس کے ٹکڑے کاٹ لیں۔ کڑاہی میں کوکنگ آئل کو گرم کرکے ان ٹکڑوں کو سنہری فرائی کرکے نکال لیں۔ پین میں دو کھانے کے چمچ کوکنگ آئل میں باریک کٹی ہوئی پیاز کو سنہری فرائی کریں۔ پھر اس میں لال مرچ،ہلدی،دھنیا اور دہی ڈال کر اچھی طرح بھونیں۔ گھی علیحدہ ہونے پر اس میں بیلے ڈال کر ہلکا سا بھونیں اور دو پیالی پانی شامل کر دیں۔پانچ سے سات منٹ ہلکی آنچ پر دم پر رکھ کر چولہے سے اُتار لیں۔ گرم گرم ڈش میں نکال کر اُبلے ہوئے چاولوں کے ساتھ شروع کریں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
38,032 | چندریان 3 کا بجٹ کئی ہالی ووڈ فلموں سے بھی کم ہے؟ | بھارت کے خلائی مشن چندریان 3 نے دو روز قبل چاند پر اتر کر تاریخ رقم کر دی جس کے بعد اس کے بجٹ کے حوالے سے خبریں گردش کر رہی ہیں۔
پڑوسی ملک بھارت نے دو روز قبل چاند پر قدم رکھ دیا اور اس کے بھیجے گئے خلائی مشن چندریان 3 نے کامیابی سے چاند کے جنوبی قطب میں لینڈنگ کر کے تاریخ رقم کر دی تاہم اس تاریخ ساز موقع کے ساتھ ہی چندریان سے جڑی کئی خبریں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں، جیسا کہ سوشل میڈیا پر یہ خبر وائرل ہو رہی ہے کہ چندریان کا بجٹ ہالی ووڈ کی خلا سے متعلق بنائی گئی کئی فلموں سے بھی کم ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابق ٹوئٹر) ) پر ’نیوز تھنک‘ نامی پیج نے پوسٹ کرتے ہوئے اس جانب توجہ دلائی کہ بھارت کا یہ مشن ہالی ووڈ کی کئی فلموں کے مقابلے میں بہت سستا ہے، بلکہ اس پروجیکٹ پر کام کرنے والے سائنسدانوں کی تنخواہیں فلمی ستاروں سے کئی گنا کم ہیں۔
انہوں نے پوسٹ کرتے ہوئے مزید لکھا کہ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ بھارتی ’چندریان 3‘ کا 75 ملین ڈالرز کا بجٹ ہالی ووڈ فلم ’انٹر اسٹیلر‘ کے 165 ملین ڈالرز سے کئی گنا کم ہے۔
ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے مالک ایلون مسک بھی میدان میں کوڈ پڑے اور کہا یہ بھارت کے لئے اچھا ہے اس کے ساتھ ہی انہوں نے بھارت کے جھنڈے والا ایموجی بھی استعمال کیا۔
چندریان کو کامیابی سے ہمکنارے کرنے والے سائنسدانوں میں کوئی کروڑ پتی نہیں!
تاہم اس وائرل پوسٹ پر کچھ صارفین نے دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ فلم انٹر اسٹیلر دوسری کہکشاں پر گیا اور بھارت صرف چاند پر ہی گیا ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
38,414 | کے حصے کا حوالہ دیں اور پھر اس کے بعد اسی سوال کا جواب اسی زبان میں دیں جس میں یہ حصہ ہے: گزرنے: فوجی پالیسی (جسے دفاعی پالیسی یا دفاعی پالیسی بھی کہا جاتا ہے) بین الاقوامی سلامتی اور فوج سے متعلق عوامی پالیسی ہے۔ اس میں وہ اقدامات اور اقدامات شامل ہیں جو حکومتیں فیصلہ سازی اور اسٹریٹجک اہداف کے سلسلے میں کرتی ہیں یا نہیں کرتی ہیں ، جیسے کہ قومی مسلح افواج کو کب اور کیسے کام میں لایا جائے۔ سوال: فوجی پالیسی کو کس طرح سے جانا جاتا ہے؟ | یہ حصہ "فوجی پالیسی" کے بارے میں ہے۔ فوجی پالیسی کے متعلق معلومات مندرجہ ذیل ہیں:
فوجی پالیسی (جسے دفاعی پالیسی یا دفاعی پالیسی بھی کہا جاتا ہے) بین الاقوامی سلامتی اور فوج سے متعلق عوامی پالیسی ہے۔ اس میں وہ اقدامات اور اقدامات شامل ہیں جو حکومتیں فیصلہ سازی اور اسٹریٹجک اہداف کے سلسلے میں کرتی ہیں یا نہیں کرتی ہیں ، جیسے کہ قومی مسلح افواج کو کب اور کیسے کام میں لایا جائے۔ فوجی پالیسی کے تعیناتی، استریٹجک، اور تکتیکی مسائل شامل ہوتے ہیں جو امن و امان کی حفاظت، ملکی دفاع، اور بین الاقوامی تعلقات کے پیشے کے تاثرات پر مبنی ہوتے ہیں۔
فوجی پالیسی کو جاننے کے لئے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں:
1. **حکومتی قراردادیں اور سرکاری دستاویزات کی تلاش**: ملک کے حکومتی ادارے، وزارتوں اور فوج کے اداروں کی ویب سائٹس پر فوجی پالیسی سے متعلق قراردادیں، دستاویزات اور رپورٹس کی تلاش کریں۔
2. **رسمی کتبچہ اور کتب**: ملک کی کتب خانوں، کتابوں، اور رسمی کتبچوں میں فوجی پالیسی کے بارے میں مواد جمع کریں۔
3. **اخبارات اور میڈیا رپورٹس**: روزنامہ اور دیگر میڈیا کے ذریعے بھی فوجی پالیسی کے بارے میں تازہ ترین رپورٹس اور تجزیے حاصل کریں۔
4. **تحقیقاتی مواد اور کمیونٹی آئیسٹنگ**: انٹرنیٹ پر تحقیقات کریں اور فوجی پالیسی کے موضوع پر موجود تحقیقاتی مواد پڑھیں۔ علماء اور کمیونٹی آئیسٹنگ کی مشاورت سے بھی معلومات حاصل کریں۔
فوجی پالیسی کو جاننے کے لئے یہ اہم ہے کہ مختلف منابع سے معلومات جمع کریں تاکہ آپ ایک موزوں اور مکمل تصور حاصل کر سکیں۔
اس سوال کا جواب دینے کے لئے: فوجی پالیسی کو جاننے کے لئے اوپر ذکر کی گئی سورسز کا استعمال کریں، جیسے کہ حکومتی اداروں کی ویب سائٹس، رسمی کتبچہ، اخبارات، میڈیا رپورٹس، تحقیقاتی مواد اور کمیونٹی آئیسٹنگ۔ ان مختلف منابع سے معلومات حاصل کرکے آپ فوجی پالیسی کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں گے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
38,948 | حضرت بلال حبشی کے بارے میں ہمیں مزید بتائیں | نام بلالؓ بن رباح، والدہ کا نام حمامہ تھا۔حبشی نژاد غلام تھے۔ مکہ میں ہی پیدا ہوئے تھے۔ ان کے آقاکا نام جمح تھا۔حضرت بلال ؒ صورت میں تو سیاہ تھے، مگر اسلام نے ان کو عربوں کا سردار بن دیا تھا۔ ان کا دل شروع سے شفاف تھا۔ ان کو ایمان اس وقت نصیب ہوا، جب وادی بطحہ کی اکثر گوری مخلوق غرور اور حسن کے زعم کی گمراہیوں ٹھوکریں کھا رہی تھی۔ شروع میں جن بزرگوں نے داعی حق حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو لبیک کہا تھا ان سات میں سے ایک حبشی غلام حضرت بلالؒ تھے۔ حضرت بلالؒ نے اسلام کے لیے بہت ہی مصیبتیں برداشت کیں۔ تپتی ریت پر لیٹا دیا جاتا۔ دہکتے انگاروں پر لٹائے جاتے۔ مشرکین کے شرارتی لڑکے حضرت بلالؒ کے گلے میں رسی ڈال کر بازاروں میں پھراتے۔ ابو جہل ان کو سنگریزوں پر لٹا کر اوپر سے چکی کاپاٹ رکھ دیاتھا۔ کہتا، لات و منات کو خدا مانو۔ طرح طرح کی اذیتیں دیتا، مگر حضرت بلالؒ کے منہ سے احد احد کی ہی آواز نکلتی۔ مشرکین مکہ میں سے امیہ بن خلف سب سے زیادہ اذیتیں دیتا۔ کبھی گائے کی کھال میں لپیٹ دیتا۔ لوہے کی زرہ پہنا کر جلتی دھوپ میں بٹھا دیتا۔ کہتا کہو، خدا لات اور عزی ہے۔ لیکن حضرت بلالؒ کی زبان سے احد احد کے سوا کچھ بھی نہیں نکلتا۔اسی طرح حضرت بلالؒ کو اذیتیں دی جارہیں تھیں کہ اُدھر سے حضرت ابوبکر صدیق ؒ کا گزر ہوا۔عبرت ناک منظر دیکھ کر حضرت ابو بکر صدیقؒ کا دل بھر آیا۔ ایک گرانقدر رقم معاوضہ میں دے کر اس عاشق رسول اﷲؐ کو آزاد کرایا۔ اس کے بعد حضرت بلالؒ پر تکلیفوں میں کمی آئی۔حضرت بلالؒ دوسرے صحابیوںؓ کے ساتھ جب مدینہ ہجرت کر گئے توحضرت ابوردیحہؒ بن عبداﷲ بن عندالرحمان انصاری سے مواخات ہوئی۔ رسوال اﷲ ؐ نے حضرت بلال ؒ کی شادی ایک عرب کے ابو بکر نامی (ابوبکر صدیق نہیں)کی بیٹی سے کرائی تھی۔ اس طرح رسول اﷲؐ نے ایک حبشی اور عرب کے درمیان تفریق مٹا دی۔صحابیؓ جب مدینہ پہنچے تو سب سے پہلے مسجد تعمیر کرائی گئی۔اس میں پانچ وقت کی نمازیں شروع ہوئیں۔ حضرت بلال پہلے شخص تھے کہ جن کو رسول اﷲؐ نے آذان دینے پر لگایا۔ اس طرح حضرت بلالؒ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے نمازیوں کو مسجد بلانے کے لیے آذان دی۔حضرت بلالؒ سفر و حضر میں رسول اﷲؐ کے ساتھ رہتے تھے اور رسول ا ﷲؐ کے موذن خاص تھے۔ حضرت بلالؒ رسول اﷲؐ کے ساتھ مشہور غزات میں شریک ہوتے تھے۔ غزوہ بدر میں انہوں نے امیہ بن خلف جو اسلام کا بڑا دشمن تھا اور ان پر مکہ میں ظلم و ستم بھی کرتا تھا کو جہم واصل کیا۔ غزوہ فتح مکہ کے بعد رسول اﷲؐ نے بلال ؒ کو حکم دیا کہ خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر آذان دے۔ آپ نے خانہ کعبہ کی چھت پر پہلی آذان بلالی دی۔حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دور حکومت میں ان کے ساتھ رہے اور انہیں جنگوں میں شریک ہونے سے روکے رکھا۔حضرت عمر ؓ کا دور آیا تو حضرت بلانے ان سے جنگوں میں شریک ہونے کی درخواست کی جو منظور ہوئی۔ پھر حضرت بلالؒ شام کی جنگوں میں شریک ہوئے۔حضرت بلالؒ نے رسول اﷲ ؐ کے بعد آذان دینا بند کر دیا تھا۔ جب حضرت عمرؓ نے درخواست کی تو آذان پھر سے دی۔ آذان سن کو حضرت عمر اتنے روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔ اسی طرح حضرت ابو عبیدہ اور حضرت معاذ بن جبل بھی بہت روئے۔ اصل میں ان حضرات کو رسول اﷲؐ کا دور اور آذانِ بلالی یاد آگئی تھی۔حضرت عمرؓ کے دور خلافت تھا۔حضرت عمرؓ کی محفل میں عرب کے سرداسر تشریف فرما تھے۔ اتنے میں حضرت بلالؒ تشریف لے آئے۔ حضرت عمرؓ نے عرب کے سرداروں سے کہا کہ ہمارے سردار آئے ہیں ان کے لیے جگہ خالی کرو۔ عرب کے سرداروں نے حضرت بلالؒ کے لیے جگہ خالی کی اور خود سب سے پیچھے جا کر بیٹھ گئے۔ آپس میں چہ مہ گویاں کرنے لگے کہ ایسا وقت آ گیا ہے۔پھر ان کی سمجھ میں آیا کہ جس وقت اسلام مشکل میں تھا تو حضرت بلال ؓنے اسلام کا ساتھ دیا تھا۔ اب تم ،تب ہی عزت پا سکتے ہوکہ اسلام کا جھنڈا بلند کرنے کے لیے جنگوں میں شریک ہو۔ اسلام کی خدمت کروتو تب اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتے ہو۔ حضرت بلالؒ بہت اچھے اخلاق کے مالک تھے۔جب شام میں مقیم تھے تو ایک دفعہ خواب میں رسول اﷲؐ آئے ۔فرمایا ہمارے سے ملاقات کرو۔ فوراً مدینہ پہنچے۔ روضہ اقدس پر حاضری دی۔ حسنؓ اور حسینؓ کو گلے سے لگایا۔ ان دونوں کی فرمائش پر فجر کی آذان دی۔ بلالی آذان سن کر سارا مدنیہ مسجد کی طرف اُمنڈھ آیا۔ رسول اﷲ ؐ کا زمانہ لوگوں کو یاد آگیا۔بیان کیا جاتا کہ ایسا سماں اس سے قبل مدینہ میں کبھی بھی دیکھنے کو نہیں ملا۔حضرت بلالؒ شام میں مقیم ہو گئے تھے۔ دمشق میں ہی20 ہجری میں وفات پائی ۔ ساٹھ سال عمر پانے کے بعد دمشق میں باب الصغیر میں مدفون ہوئے | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
39,175 | سارا، یما او میا خویندې دي. یو یې تل رښتیا وایي، یو یې تل درواغ وایي، دریم یې کله رښتیا وایي او کله درواغ وایي. سارا وايي، "ایما ریښتیا ده." یما وايي، "میا دروغ دی." میا وايي، "زه یما یم." رښتیا خور څوک دی؟ | یما رښتیا خور ده. که سارا ریښتیا وي، نو ایما به هم ریښتیا وي، یو تناقض رامینځته کوي. که میا رښتیا وای، نو د یما وینا به دروغ وي. نو ځکه، ایما باید ریښتینې خور وي. | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
39,563 | میٹھے مشروبات پینے سے صحت کے کیا مسائل ہو سکتے ہیں؟ | بار بار چینی والے میٹھے مشروبات پینے کا تعلق وزن میں اضافہ، موٹاپا، ٹائپ 2 ذیابیطس، دل کی بیماری، گردے کی بیماریاں، غیر الکوحل جگر کی بیماری، دانتوں کی خرابی اور گٹھیا اور گاؤٹ، گٹھیا کی ایک قسم سے ہے۔ 1-4 میٹھے مشروبات کے استعمال کو محدود کرنا افراد کو صحت مند وزن برقرار رکھنے اور صحت مند غذائی پیٹرن رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
40,173 | نوری سال کے بارے میں کوئی شعر بتائیں | جی ضرور، ایک نوری سال وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے۔ اسے انگریزی میں light-year کہا جاتا ہے جس کے مخفف ly کو اس کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کے بارے میں اشتیاق احمد کا شعر ہے:
روشنی سب سے تیز چلتی ہے
اس کے جیسے نہیں کسی کی چال
ایک برس میں جو سفر کرتی ہے
اس کو کہتے ہے ایک نوری سال | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
40,252 | کیا ایلون مسک انسانی دماغ میں چپ لگانے کے لیے کام کر رہا ہے؟ | دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کی کمپنی ’نیورا لنک‘ نے انسانی دماغ میں کمپیوٹر چِپ(Chip) نصب کرنے کی منظوری ملنے کے بعد ریکروٹمنٹ شروع کر دی۔ بلومبرگ کے مطابق نیورا لنک کو ایسے انسانوں کی ضرورت ہے، جن پر ’برین امپلانٹ‘ کا تجربہ کیا جا سکے۔ ان انسانوں کے دماغ میں ’چِپ‘ امپلانٹ کرکے اس کے ذریعے ان کے دماغوں کو کمپیوٹرزاور دیگر ڈیوائسز سے منسلک کیا جائے گا۔
برین امپلانٹ کے بعد یہ لوگ ممکنہ طور پر ڈیوائسز کو اپنے دماغ کے ذریعے کنٹرول کر سکیں گے۔اگر یہ تجربات کامیاب ہو گئے تو اب تک ہالی ووڈ کی فلموں میں دکھائی جانے والی یہ ٹیکنالوجی حقیقت کا روپ دھار لے گی اور انسانوں کی دسترس میں آ جائے گی۔
ان تجربات کے لیے ماہرین کو ایسے مریضوں کی ضرورت ہے، جو ریڑھ کی ہڈی کی انجری یا پٹھوں کی سنگین بیماری ایمیوٹروفک کی وجہ سے بازوﺅں اور ٹانگوں سے مکمل طور پر مفلوج ہو چکے ہیں۔ اس طرح کے جو مریض خود کو رضاکارانہ طور پر ان تجربات کے لیے پیش کریں گے ان کے دماغ میں نیورالنک کے ماہرین اپنی چِپ نصب کریں گے۔
رپورٹ کے مطابق نیورالنک کے ماہرین اس کمپیوٹرچِپ کی تیاری پر 6سال سے کام کر رہے ہیں اور بندر پر اس کا کامیاب تجربہ کیا جا چکا ہے۔ گزشتہ سال امریکہ کے ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے نیورالنک کو انسانوں پر تجربات کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم رواں سال مئی میں کمپنی کو اجازت دے دی گئی۔
رپورٹ کے مطابق یہ کمپیوٹر چِپ سرجری کے ذریعے مریضوں کے دماغ کے اس حصے میں نصب کی جائے گی جو جسمانی حرکت کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس چِپ کے ذریعے مریض ممکنہ طور پر کمپیوٹر اور موبائل فون وغیرہ کو اپنے دماغ کے ذریعے آپریٹ کر سکیں گے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
40,704 | ایڈم سمتھ کون تھا، اور معاشیات اور فلسفے میں ان کی اہم شراکتیں کیا تھیں؟ | ایڈم اسمتھ، 18 ویں صدی کے سکاٹش فلسفی اور ماہر اقتصادیات، دونوں شعبوں میں اپنی گہرا شراکت کے لیے جانا جاتا ہے۔ معاشیات میں، انہیں "دی ویلتھ آف نیشنز" میں اپنے اہم کام کی وجہ سے اکثر جدید معاشیات کا باپ سمجھا جاتا ہے، جہاں اس نے آزاد منڈی کی سرمایہ داری اور غیر مرئی ہاتھ کے تصورات متعارف کرائے تھے۔ فلسفہ میں، اخلاقی فلسفہ اور انسانی رویے کی نوعیت کے بارے میں ان کے خیالات، جیسا کہ "اخلاقی جذبات کا نظریہ" میں پیش کیا گیا ہے، اخلاقیات اور انسانی فطرت پر بحث کو متاثر کرتے رہتے ہیں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
40,921 | آسٹریلیا کا دارالحکومت کیا ہے؟ | آسٹریلیا کے دارالحکومت کے بارے میں اکثر ابہام پیدا ہوتا ہے کیونکہ سڈنی اور میلبورن ملک کے دو مشہور اور آبادی والے شہر ہیں۔ تاہم، نہ تو سڈنی اور نہ ہی میلبورن آسٹریلیا کا دارالحکومت ہے۔
کینبرا کو خاص طور پر 1913 میں آسٹریلیا کے دارالحکومت کے طور پر منتخب کیا گیا تھا کیونکہ یہ سڈنی اور میلبورن کے درمیان واقع تھا، اس طرح یہ دو ممتاز شہروں کے درمیان ایک سمجھوتے کے طور پر کام کر رہا تھا۔ یہ فیصلہ دارالحکومت کی حیثیت کے لیے بڑے شہروں کے درمیان کسی قسم کی دشمنی کو روکنے اور ایک غیر جانبدار اور مقصد کے مطابق دارالحکومت کے قیام کے لیے کیا گیا تھا۔
جبکہ سڈنی اور میلبورن بڑے ثقافتی اور اقتصادی مراکز ہیں، کینبرا ملک کے انتظامی اور سیاسی دارالحکومت کے طور پر کام کرتا ہے، جہاں اہم سرکاری اداروں جیسے کہ آسٹریلوی پارلیمنٹ ہاؤس رہائش پذیر ہے۔ یہ انوکھا انتظام ان لوگوں کے لیے کچھ الجھنوں کا باعث بن سکتا ہے جو آسٹریلیا کے دارالحکومت کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
40,981 | آپ نیچے دیے گئے جملوں سے کیا تجزیہ کر سکتے ہیں؟
1- تمام انسان آخرکار مر جاتے ہیں۔
2-ارسطو ایک انسان ہے۔
3-ارسطو مر جائے گا۔ | ان میں منطقی بیانات اور تصورات شامل ہیں۔ بیانات منطقی استدلال پر مبنی عمومی سچائیوں، درجہ بندیوں اور پیشین گوئیوں سے نمٹتے ہیں۔
اس آفاقی سچائی کو دیکھتے ہوئے کہ تمام انسان فانی ہیں (1)، یہ منطقی طور پر اس بات کی پیروی کرتا ہے کہ ارسطو، انسان ہونے کے ناطے (2)، لامحالہ موت کا تجربہ کرے گا (3)۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
41,239 | ڈیٹا سائنس کیا ہے؟ | ڈیٹا سائنس ایک شماریاتی علم ہے جو کمپیوٹر سائنس، مشین لرننگ، اور دیگر تخصصات کا مجموعہ ہے تاکہ عددی اور موادی معلومات کو تجزیہ کیا جاسکے اور ان سے فہم حاصل کی جا سکے۔ ڈیٹا سائنس کا استعمال مختلف شعبوں میں جیسے کہ بزنس، صحت، تجارت، سوشل میڈیا، اور بہت سارے دیگر شعبوں میں کیا جاتا ہے تاکہ تصمیمات کو بہتر بنایا جا سکے اور نئی معلومات کا اکٹھا کیا جا سکے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
41,594 | افریقہ کے بارے میں بتایں | افریقا (africa) رقبے کے لحاظ سے کرہ ارض کا دوسرا بڑا بر اعظم، جس کے شمال میں بحیرہ روم، مشرق میں بحر ہند اور مغرب میں بحر اوقیانوس واقع ہے۔
دلکش نظاروں، گھنے جنگلات، وسیع صحراؤں اور گہری وادیوں کی سرزمین، جہاں آج 53 ممالک آباد ہیں اور ان کے باسی کئی زبانیں بولتے ہیں۔
محل وقوع
افریقا کے شمالی اور جنوبی حصے نہایت خشک اور گرم ہیں جن کا بیشتر حصہ صحراؤں پر پھیلا ہوا ہے۔ خط استوا کے ارد گرد گھنے جنگلات ہیں۔ مشرقی افریقہ میں عظیم وادی الشق کے نتیجے میں گہری وادیاں تشکیل پائیں جن میں کئی بڑی جھیلیں بھی واقع ہیں۔
براعظم کے مغرب میں دریائے نائجر بہتا ہے جو وسیع دلدلی ڈیلٹا بناتا ہوا بحر اوقیانوس میں جا گرتا ہے۔ اس کے مشرق میں دریائے کانگو افریقا کے گھنے استوائی جنگلات سے گزرتا ہے۔ براعظم کے مشرقی حصے میں عظیم وادی الشق اور ایتھوپیا کے بالائی میدان ہیں۔ قرن افریقا براعظم کا مشرق کی جانب آخری مقام ہے۔
مصنوعی سیارے سے لی گئی افریقا کی خلائی تصویر
صحرائے اعظم شمالی افریقا کے بیشتر حصے پر پھیلا ہوا دنیا کا سب سے بڑا صحرا ہے۔ اس عظیم صحرا کا ایک چوتھائی حصہ ریتیلے ٹیلوں پر مشتمل ہے جبکہ بقیہ پتھریلے خشک میدان ہیں۔ براعظم کے دیگر بڑے صحراؤں میں نمیب اور کالاہاری شامل ہیں۔
صحرائے اعظم کے جنوب میں صحرائی اور جنگلی علاقوں کو چھوڑ کر پورے براعظم میں گھاس کے وسیع میدان ہیں جو سوانا کہلاتے ہیں۔ یہی میدان ہاتھی سمیت افریقا کے دیگر مشہور جانوروں کے مسکن ہیں۔
مشرق میں عظیم وادی الشق ہے، جو دراصل زمین میں ایک عظیم دراڑ کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ یہ عظیم دراڑ جھیل نیاسا سے بحیرہ احمر تک پھیلی ہوئی ہے۔ اگر یہ دراڑ مزید پھیلتی گئی تو ایک دن قرن افریقا براعظم سے الگ ہو جائے گا۔
موسم
خط استوا کے ساتھ ساتھ بارشوں کے باعث گھنے جنگلات واقع ہیں یہاں کا موسم گرم اور نمی سے بھرپور ہے۔
آزادی
نوآبادیاتی دور میں افریقا کے مختلف ممالک کا نقشہ، مختلف رنگ مختلف قابض قوتوں کو ظاہر کر رہے ہیں جن کی نشاندہی کی گئی ہے
1960ء کی دہائی تک افریقا کا بیشتر حصہ یورپی ممالک کے قبضے میں تھا اور طویل غلامی کے بعد 1980ء کی دہائی تک تقریباً تمام ممالک کو آزادی مل گئی لیکن ان کے وسائل نو آبادیاتی دور میں غصب کر لیے گئے تھے اس لیے اقتصادی و معاشی طور پر وہ آج تک نہ سنبھل سکے اور غربت کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ بڑے پیمانے پر جہالت کے باعث نسلی و قومی تعصب نے بھی افریقی عوام کے دلوں میں جڑیں پکڑیں جس کے نتیجے میں خوفناک جنگیں اور خانہ جنگیاں ہوئیں جن میں لاکھوں انسان اجل کا نشانہ بن گئے۔
افریقا کے 15 ممالک ایسے ہیں جن کی سرحدیں سمندر سے نہیں ملتیں جس کے باعث تجارت اور مواصلات کے رابطے محدود ہیں۔
آبادی
افریقا کی بیشتر آبادی دیہات میں رہتی ہے لیکن چند بڑے شہر بھی ہیں جن میں قاہرہ قابل ذکر ہے، کی آبادی 65 لاکھ ہے اور یہ براعظم کا سب سے بڑا شہر ہے۔ شمالی اور مشرق کے بیشتر ممالک کا مذہب اسلام ہے اور وہ دنیا کے دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ عالمی اسلامی اخوت کے گہرے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔
رقبہ
رقبے کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا براعظم ہونے کے باوجود افریقا کی آبادی زیادہ نہیں خصوصاً صحرائی علاقوں میں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ زیادہ تر آبادی پانی کے ذخائر اور زرخیز علاقوں میں ہے۔ افریقا میں شرح پیدائش بہت زیادہ ہے اس لیے آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
افریقا کی بیشتر عوام کا طرز زندگی انتہائی سادہ ہے لیکن مغربی اشیاء کے استعمال کے رحجان میں اب اضافہ ہو رہا ہے۔ کئی ممالک میں تعلیم عام کرنے کے منصوبہ جات کے تحت خواندگی اور صحت کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
نباتات و معدنیات
افریقا معدنیات سے مالا مال ہے اور نو آبادیاتی دور میں اسی دولت نے اسے غلامی کے طویل دور میں دھکیل دیا۔ یہاں پائی جانے والی معدنیات میں تیل، سونا، تانبا اور ہیرا خصوصاً قابل ذکر ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ یہیں سے نکالا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں مالی میں دنیا میں پیدا ہونے والے نصف سے زائد سونا نکالا جاتا تھا۔ کئی ممالک میں کان کنی اہم ترین صنعت ہے۔
براعظم کے جنوبی علاقوں خصوصاً جنوبی افریقا میں سب سے زیادہ کانیں ہیں جہاں سے ہیرے، سونا، یورینیم اور تانبا نکالا جاتا ہے۔ تانبے کے سب سے زیادہ ذخائر جمہوریہ کانگو اور زیمبیا میں پائے جاتے ہیں۔ تیل الجزائر، انگولا، مصر، لیبیا اور نائجیریا میں نکلتا ہے۔
افریقا میں مختلف اقسام کے ماحول میں مختلف فصلیں بھی ہوتی ہیں۔ منطقہ حارہ کے علاقوں میں ربڑ اور کیلا اہم کاشت ہے جبکہ مشرقی افریقا چائے اور کافی کی کاشت کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے جن میں کینیا قابل ذکر ہے۔
افریقا کی بیشتر صنعتیں خام مال پر عمل پر انحصار کرتی ہیں۔ چند افریقی ممالک کی صنعت ایک ہی فصل یا معدنی وسیلے پر منحصر ہے لیکن کئی شہروں میں مختلف صنعتیں قائم کی جا رہی ہیں۔ شمالی افریقا کے ممالک، نائجیریا اور جنوبی افریقا میں سب سے زیادہ صنعتیں ہیں۔ براعظم میں سب سے زیادہ تیل شمالی افریقا کے مسلم ممالک اور مغرب میں بحر اوقیانوس کے ساتھ ساتھ واقع زیریں ممالک میں نکالا جاتا ہے۔
افریقا دنیا کا گرم ترین براعظم ہے جہاں صحرائے اعظم میں 122 ڈگری فارن ہائٹ تک درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا ہے۔ شمالی ساحلی علاقے انتہائی گرم اور خشک ہیں اور بارش بہت کم ہوتی ہے۔ ساحلی علاقوں سے جنوب کی طرف صحرائے اعظم بیابان اور تیز خشک ہواؤں کا علاقہ ہے۔ اس کے جنوب میں ساحل کا علاقہ واقع ہے جہاں درختوں کی کٹائی صحرائے اعظم کو جنوب کی طرف مزید پھیلنے کا موقع دے رہی ہے۔ خط استوا کے قریب بہت زیادہ بارش ہوتی ہے اور اسی لیے مغربی اور وسطی علاقوں میں گھنے جنگلات ہیں۔ مزید جنوب میں موسم بہت خشک ہے اور قحط سالی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
زمین کے معیار کے مطابق افریقا میں مختلف اقسام کی زراعت ہوتی ہے۔ پہاڑی علاقوں جیسے روانڈا، یوگینڈا اور کینیا میں چائے کاشت کی جاتی ہے۔ شمالی میں جہاں پانی وافر مقدار میں موجود نہیں غذائی اجناس مقامی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کاشت کی جاتی ہے جبکہ نقد فصلیں جیسے پھل، کھجور اور زیتون برآمد کیے جاتے ہیں۔ مغربی افریقا میں مونگ پھلیاں، کوکوا اور کافی کاشت ہوتی ہے۔ جنوبی حصے میں جنوبی افریقا میں مختلف اقسام کی کاشت ہوئی ہے جن میں پھل برآمد کیے جاتے ہیں اور انگوروں سے شراب کشید کی جاتی ہے۔
خطے اور ملک
کا نام
مع پرچم رقبہ
(مربع کلو میٹر) آبادی
(بمطابق یکم جولائی 2002ء) کثافتِ آبادی
(فی مربع کلو میٹر) دار الحکومت
مشرقی افریقا:
برونڈی 27,830 6,373,002 229.0 بجمبورا
جزائر قمر 2,170 614,382 283.1 مورونی
جبوتی 23,000 472,810 20.6 جبوتی
اریٹریا 121,320 4,465,651 36.8 اسمارا
ایتھوپیا 1,127,127 67,673,031 60.0 عدیس ابابا
کینیا 582,650 31,138,735 53.4 نیروبی
مڈغاسکر 587,040 16,473,477 28.1 انتاناناریوو
ملاوی 118,480 10,701,824 90.3 لیلونگوے
موریشیس 2,040 1,200,206 588.3 پورٹ لوئس
مایوٹ (فرانس) 374 170,879 456.9 ماموزو
موزمبیق 801,590 19,607,519 24.5 ماپوٹو
ری یونین (فرانس) 2,512 743,981 296.2 سینٹ ڈینس
روانڈا 26,338 7,398,074 280.9 کیگالی
455 80,098 176.0 وکٹوریا
صومالیہ 637,657 7,753,310 12.2 موغادیشو
تنزانیہ 945,087 37,187,939 39.3 ڈوڈوما
یوگینڈا 236,040 24,699,073 104.6 کمپالا
زیمبیا 752,614 9,959,037 13.2 لوساکا
زمبابوے 390,580 11,376,676 29.1 ہرارے
وسطی افریقا:
انگولا 1,246,700 10,593,171 8.5 لوانڈا
کیمرون 475,440 16,184,748 34.0 یاؤنڈے
وسطی افریقی جمہوریہ 622,984 3,642,739 5.8 بانگوئی
چاڈ 1,284,000 8,997,237 7.0 این جامینا
جمہوریہ کانگو 342,000 2,958,448 8.7 برازاویل
ڈیموکریٹک جمہوریہ کانگو 2,345,410 55,225,478 23.5 کنشاسا
استوائی گنی 28,051 498,144 17.8 مالابو
گیبون 267,667 1,233,353 4.6 لبریول
ساؤ ٹوم و پرنسپ 1,001 170,372 170.2 ساؤ ٹوم
شمالی افریقا:
الجزائر 2,381,740 32,277,942 13.6 الجزیرہ
مصر 1,001,450 70,712,345 70.6 قاہرہ
لیبیا 1,759,540 5,368,585 3.1 طرابلس
مراکش 446,550 31,167,783 69.8 رباط
سوڈان 2,505,810 37,090,298 14.8 خرطوم
تیونس 163,610 9,815,644 60.0 تیونس
جنوبی افریقا:
بوٹسوانا 600,370 1,591,232 2.7 گیبرون
لیسوتھو 30,355 2,207,954 72.7 ماسیرو
نمیبیا 825,418 1,820,916 2.2 ونڈہوئیک
جنوبی افریقا 1,219,912 43,647,658 35.8 بلوم فاؤنٹین، کیپ ٹاؤن، پریٹوریا[2]
سوازی لینڈ 17,363 1,123,605 64.7 ایم بابانے
مغربی افریقا:
بینن 112,620 6,787,625 60.3 پورٹو نووو
برکینا فاسو 274,200 12,603,185 46.0 اوگادوگو
کیپ ورڈی 4,033 408,760 101.4 پرائیا
آئیوری کوسٹ 322,460 16,804,784 52.1 یاماسوکرو
گیمبیا 11,300 1,455,842 128.8 بانجل
گھانا 239,460 20,244,154 84.5 عکرہ
گنی 245,857 7,775,065 31.6 کوناکری
گنی بساؤ 36,120 1,345,479 37.3 بساؤ
لائبیریا 111,370 3,288,198 29.5 مونروویا
مالی 1,240,000 11,340,480 9.1 بماکو
ماریطانیا 1,030,700 2,828,858 2.7 نواکشوت
نائجر 1,267,000 10,639,744 8.4 نیامی
نائجیریا 923,768 129,934,911 140.7 ابوجا
سینٹ ہلینا (برطانیہ) 410 7,317 17.8 جیمز ٹاؤن
سینی گال 196,190 10,589,571 54.0 ڈاکر
سیرالیون 71,740 5,614,743 78.3 فری ٹاؤن
ٹوگو 56,785 5,285,501 93.1 لوم
کل 30,368,609 843,705,143 27.8
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
41,712 | میمز کیا ہیں؟ | میمز انٹرنیٹ پر وسیع مقامات پر ہنسی مزاق کی یا مزاق سے تعلق رکھنے والی تصویری مواد ہوتی ہیں | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
41,854 | گوہر نایاب عبدالستار ایدھی.اس کے بارے میں ہمیں مزید بتائیں | جب پتھر کو بہترین انداز میں تراشا جائے تو وہ گوہر نایاب بنتا ہے، اور جب کسی بچے کی اعلیٰ پائے کی تربیت کی جائے تو وہ دکھی انسانیت کا مسیحا بنتا ہے۔ خدمت انسانیت کی روشن مثال، عبدالستار ایدھی بھی عظیم ماں سے اعلیٰ تربیت لے کر عملی زندگی میں داخل ہوئے، کہ ان کی والدہ عبدالستار ایدھی کو روز انہ ایک پیسہ کھانا کھانے کے لیے دیتیں اور ایک پیسہ کسی دوسرے شخص کی مدد کے لیے۔ یہی وجہ ہے کہ عبدالستار ایدھی نے ساری زندگی رنگینیوں سے کنارہ کش ہو کر خود کو خدمت انسانیت کے عظیم مشن کی تکمیل کے لیے وقف کئے رکھا ۔ ایدھی نے رسمی تعلیم تو ہائی سکول تک بھی حاصل نہیں کی تھی تاہم وہ کہتے تھے کہ دنیا کے غم میرے استاد اور دانائی و حکمت کا ذریعہ رہے ہیں۔1951ء میں انہوں نے ذاتی دکان میں ایک ڈاکٹر کی مدد سے مختصر شفاخانہ کھولا۔ ان کے ایک دوست نے اس کام میں ان کی مدد کی، اس دوست سے ملنے والے پیسوں سے انہوں نے دو ہزار روپے کی ایک گاڑی لی، ایک ڈسپنسری بنائی اور ایک خیمے کے اندر چار بستروں کا ہسپتال قائم کیا۔ ایدھی اپنی ایمبولینس میں دن بھر شہر کا چکر لگاتے اور جب بھی کسی ضرورت مند یا زخمی شخص کو دیکھتے، اسے فوراً امدادی مرکز لے جاتے۔ باقاعدہ ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز 1957ء میں اس وقت ہوا جب کراچی میں بڑے پیمانے پر زکام (فلو) کی وبا پھیلی اور اس موقع پرایدھی صاحب نے مخیر حضرات کی مدد سے کراچی کے قرب و جوار میں مفت طبّی کیمپ لگوائے۔ ان کے کام سے متاثر ہوکر مخیر حضرات نے انہیں خطیر رقم کا عطیہ کیا، جسے دیانتداری سے استعمال کرتے ہوئے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری قائم تھی۔ اسی عمارت میں انہوں نے ایک زچہ خانہ اور نرسوں کے لئے ایک تربیتی ادارہ قائم کیا۔ وہیں ان کی ملاقات نرس بلقیس سے ہوئی جن سے انہوں نے 1965 ء میں شادی کر لی، اور ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئے۔ اپنے فلاحی کاموں کا آغاز اس چھوٹے سے مکان سے کرنے والا ان کا ادارہ آج جنوبی ایشیاء کے سب سے بڑے غیر ریاستی فلاحی اداروں میں سے ایک ہے۔جس کے لیے انہوں نے کسی بھی لسانی اور مذہبی تفریق سے بالاتر ہو کر اپنے ہم وطنوں کی بے لوث خدمت کی اور اپنی پوری زندگی اس کام کے لیے وقف کردی ۔
ایدھی بذات خود ایک ایسا ادارہ تھے جو کہ ملک کے پس ماندہ طبقے کے لیے کام کرتا تھا، انہوں نے مشکل وقت بھی دیکھا ، ان کو سیاسی معاملات میں بھی استعمال کرنے کی کوشش کی گئی اور ناکام ہونے پر ان کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا، جس پر ان کو کچھ عرصے پاکستان سے باہر بھی رہنا پڑا لیکن انہوں نے اپنے مشن خدمت انسانیت کو جاری رکھا۔ اس عظیم فلاحی کارکن نے ایدھی فاؤنڈیشن چھ دہائیوں تک کچھ ایسے چلائی کہ حکومت بھی وہ کام نہ کر سکی جو اس تنظیم نے کیا۔ بلا شبہ ایدھی فاؤنڈیشن نے نہ صرف پاکستان بلکہ بر صغیر میں فلاحی کام کو ایک انقلابی شکل دی۔ ایدھی فاؤنڈیشن اس وقت بھی وسیع پیمانے پر ایمبولنس سروس، مفت ہسپتال، اور لاوارث بچوں، خواتین اور بوڑھوں کے لیے دارالامان چلا رہی ہے۔ اس ٹرسٹ نے بیس ہزار سے زیادہ لاوارت نومولود بچوں کی زندگی بچائی، پچاس ہزار سے زیادہ یتیموں کی کفالت کی اور چالیس ہزار سے زیادہ نرسوں کو ٹریننگ دی۔ ملک کے چپے چپے میں ایدھی ٹرسٹ کے کلینک، پناہ گاہیں، بزرگوں اور عورتوں کے لیے گھر اور ایسے ہی بے شمار منصوبے ملیں گے۔ کوئی حادثہ ہو، قدرتی آفات یا دھماکہ، چند منٹ بعد سائرن بجاتی، اور تیزی سے موڑ مڑتی سفید سوزوکی گاڑیاں جائے وقوع پر پہنچتی ہیں، جیسے کہ وہ اگلی گلی میں اسی واردات کا انتظار کر رہی تھیں۔ تربیت یافتہ عملہ پھرتی سے اتر کر زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کو اس مہارت سے سٹریچروں پر ڈال کر ایمبولینسوں میں منتقل کرتا ہے جیسے وہ سالہاسال سے سے بس یہی کام کرتا چلا آیا ہو۔
بلاشبہ ایدھی کی ذات پر جو اعتبار تھا، وہ قوم نے کسی دوسرے کو نہ بخشا۔ کیونکہ انسانیت کے اس عظیم محسن نے ان گلی سڑی لاوارث لاشوں کو بھی اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر دفن کیا جن کو ان کے وارثان بھی چھونے کو تیار نہ تھے۔ ان بچوں کو اس نے نئی زندگی دی جن کو کوڑے کے ڈھیر پر مرنے کے لیے پھینک دیا گیا تھا۔ بے شمار یتیم اور بے سہارا ان کے صدقے ایک نئی زندگی پا گئے۔ انسانیت کی بے لوث خدمت میں عالمی شہرت حاصل کرنے کے باوجود ، پاکستان کے اکثر سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے برعکس ایدھی نے سادگی سے زندگی گزاری اور یہی وجہ ہے کہ عوام نے ان پر محبت اور چندوں کی بارش کی، وہ انتہائی معمولی قمیص شلوار پہنتے، ان کے پاس ملیشیا کے سستے ترین کپڑے کے صرف دو جوڑے تھے، ایک میلا ہو جاتا تو دوسرا پہن لیتے جبکہ جوتوں کا ایک ہی جوڑا گزشتہ 20 سال سے ان کے استعمال میں رہا۔ عبدالستار ایدھی نے اپنی زندگی میں اس بات کو یقینی بنا دیا تھا کہ وہ اپنے پیچھے ایک ادارہ چھوڑ جائیں جو ان کے بعد بھی انسانیت کی فلاح کے لیے کام کرتا رہے، آج ایدھی ہم میں نہیں ہیں مگر ان کے اہل خانہ اور ایدھی فاؤنڈیشن کے کارکنان ان کا مشن آگے بڑھا رہے ہیں، یہ موت کے بعد امر ہو جانے کی ایک علامت ہے۔ آج ایدھی صاحب تو ہم میں نہیں مگر ان کی عظیم خدمات کی بدولت ان کا نام پاکستان میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ سڑک پر چلتی ہوئی ہر ایدھی ایمبولینس ہمیں ان کی یاد دلاتی رہے گی، اور ہمارے دلوں سے ان کے لیے دعائیں نکلتی رہیں گی۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
42,010 | UTS ٹایم زون کے بارے میں کچھ بتایں۔ | متناسق عالمی وقت[حوالہ درکار] یا UTC، بنیادی وقت کا عالمی معیار ہے جس کے ذریعے دنیا بھر میں گھڑیوں اور ان پہ موجود وقت کو کنٹرول کیا جاتا ۔ یہ اوسط شمسی وقت کے تقریباً ایک سیکنڈ کے اندر اندر ہوتا ہے (جیسے UT1 ) 0° طول البلد پر ( IERS حوالہ میریڈیئن میں اس وقت استعمال شدہ پرائم میریڈیئن کے طور پر) اور اسے دن کی روشنی کی بچت کے وقت کے لیے ایڈجسٹ نہیں کیا گیا ہے۔ یہ مؤثر طریقے سے گرین وچ مین ٹائم (GMT) کا جانشین ہے۔
دنیا بھر میں وقت اور فریکوئنسی ٹرانسمیشن کے ہم آہنگیت 1 جنوری 1960 کو شروع کیا گیا ۔ UTC کو پہلی بار باضابطہ طور پر CCIR Recommendation 374، Standard-frequency and Time-Signal Emissions کے طور پر 1963 میں اپنایا گیا تھا، لیکن UTC کا سرکاری مخفف اور Coordinated Universal Time (فرانسیسی مساوی کے ساتھ) کا سرکاری انگریزی نام 1967 تک نہیں اپنایا گیا تھا۔ [1]
سسٹم کو کئی بار ایڈجسٹ کیا گیا ہے، جس میں ایک مختصر مدت بھی شامل ہے جس کے دوران ٹائم کوآرڈینیشن ریڈیو سگنلز UTC اور "اسٹیپڈ اٹامک ٹائم (SAT)" دونوں کو نشر کرتے ہیں اس سے پہلے کہ ایک نیا UTC 1970 میں اپنایا گیا اور 1972 میں نافذ کیا گیا۔ اس تبدیلی نے مستقبل کی ایڈجسٹمنٹ کو آسان بنانے کے لیے لیپ سیکنڈز کو بھی اپنایا۔ اس CCIR کی سفارش 460 "میں کہا گیا ہے کہ ؛
(a) کیریئر فریکوئنسی اور وقت کے وقفوں کو مستقل برقرار رکھا جانا چاہئے اور SI سیکنڈ کی تعریف کے مطابق ہونا چاہئے؛
(b) مرحلہ وار ایڈجسٹمنٹ، جب ضروری ہو، یونیورسل کے ساتھ تخمینی معاہدے کو برقرار رکھنے کے لئے بالکل 1 s ہونا چاہئے۔ وقت (UT)؛
اور
(c) معیاری سگنلز میں UTC اور UT کے درمیان فرق کی معلومات ہونی چاہیے۔" [2]
وزن اور پیمائش پر جنرل کانفرنس نے UTC کو ایک نئے نظام کے ساتھ تبدیل کرنے کی قرارداد منظور کی جو 2035 تک لیپ سیکنڈز کو ختم کر دے گی [3] ۔
UTC کے موجودہ ورژن کی تعریف بین الاقوامی ٹیلی کمیونیکیشن یونین کی سفارش (ITU-R TF.460-6)، معیاری فریکوئنسی اور ٹائم سگنل کے اخراج ، [4] کے ذریعے کی گئی ہے اور یہ بین الاقوامی ایٹمی وقت (TAI) پر مبنی ہے جس میں لیپ سیکنڈز شامل کیے گئے ہیں۔ TAI اور زمین کی گردش سے ماپے گئے وقت کے درمیان جمع فرق کی تلافی کے لیے فاسد وقفے [5] UTC کو 0.9 کے اندر رکھنے کے لیے ضروری طور پر لیپ سیکنڈز ڈالے جاتے ہیں۔ یونیورسل ٹائم کے UT1 ویرینٹ کے سیکنڈز۔ آج تک داخل کیے گئے لیپ سیکنڈز کی تعداد کے لیے " لیپ سیکنڈز کی موجودہ تعداد " سیکشن دیکھیں۔
متناسق عالمی وقت[حوالہ درکار] یا UTC، بنیادی وقت کا عالمی معیار ہے جس کے ذریعے دنیا بھر میں گھڑیوں اور ان پہ موجود وقت کو کنٹرول کیا جاتا ۔ یہ اوسط شمسی وقت کے تقریباً ایک سیکنڈ کے اندر اندر ہوتا ہے (جیسے UT1 ) 0° طول البلد پر ( IERS حوالہ میریڈیئن میں اس وقت استعمال شدہ پرائم میریڈیئن کے طور پر) اور اسے دن کی روشنی کی بچت کے وقت کے لیے ایڈجسٹ نہیں کیا گیا ہے۔ یہ مؤثر طریقے سے گرین وچ مین ٹائم (GMT) کا جانشین ہے۔
دنیا بھر میں وقت اور فریکوئنسی ٹرانسمیشن کے ہم آہنگیت 1 جنوری 1960 کو شروع کیا گیا ۔ UTC کو پہلی بار باضابطہ طور پر CCIR Recommendation 374، Standard-frequency and Time-Signal Emissions کے طور پر 1963 میں اپنایا گیا تھا، لیکن UTC کا سرکاری مخفف اور Coordinated Universal Time (فرانسیسی مساوی کے ساتھ) کا سرکاری انگریزی نام 1967 تک نہیں اپنایا گیا تھا۔ [1]
سسٹم کو کئی بار ایڈجسٹ کیا گیا ہے، جس میں ایک مختصر مدت بھی شامل ہے جس کے دوران ٹائم کوآرڈینیشن ریڈیو سگنلز UTC اور "اسٹیپڈ اٹامک ٹائم (SAT)" دونوں کو نشر کرتے ہیں اس سے پہلے کہ ایک نیا UTC 1970 میں اپنایا گیا اور 1972 میں نافذ کیا گیا۔ اس تبدیلی نے مستقبل کی ایڈجسٹمنٹ کو آسان بنانے کے لیے لیپ سیکنڈز کو بھی اپنایا۔ اس CCIR کی سفارش 460 "میں کہا گیا ہے کہ ؛
(a) کیریئر فریکوئنسی اور وقت کے وقفوں کو مستقل برقرار رکھا جانا چاہئے اور SI سیکنڈ کی تعریف کے مطابق ہونا چاہئے؛
(b) مرحلہ وار ایڈجسٹمنٹ، جب ضروری ہو، یونیورسل کے ساتھ تخمینی معاہدے کو برقرار رکھنے کے لئے بالکل 1 s ہونا چاہئے۔ وقت (UT)؛
اور
(c) معیاری سگنلز میں UTC اور UT کے درمیان فرق کی معلومات ہونی چاہیے۔" [2]
وزن اور پیمائش پر جنرل کانفرنس نے UTC کو ایک نئے نظام کے ساتھ تبدیل کرنے کی قرارداد منظور کی جو 2035 تک لیپ سیکنڈز کو ختم کر دے گی [3] ۔
UTC کے موجودہ ورژن کی تعریف بین الاقوامی ٹیلی کمیونیکیشن یونین کی سفارش (ITU-R TF.460-6)، معیاری فریکوئنسی اور ٹائم سگنل کے اخراج ، [4] کے ذریعے کی گئی ہے اور یہ بین الاقوامی ایٹمی وقت (TAI) پر مبنی ہے جس میں لیپ سیکنڈز شامل کیے گئے ہیں۔ TAI اور زمین کی گردش سے ماپے گئے وقت کے درمیان جمع فرق کی تلافی کے لیے فاسد وقفے [5] UTC کو 0.9 کے اندر رکھنے کے لیے ضروری طور پر لیپ سیکنڈز ڈالے جاتے ہیں۔ یونیورسل ٹائم کے UT1 ویرینٹ کے سیکنڈز۔ آج تک داخل کیے گئے لیپ سیکنڈز کی تعداد کے لیے " لیپ سیکنڈز کی موجودہ تعداد " سیکشن دیکھیں۔
ٹائم زونز کو عام طور پر گھنٹوں کی عددی تعداد کے حساب سے UTC سے مختلف قرار دیا جاتا ہے، [19] حالانکہ اگر ذیلی سیکنڈ کی درستگی کی ضرورت ہو تو ہر دائرہ اختیار کے قوانین سے مشورہ کرنا پڑے گا۔ کئی دائرہ اختیار نے ٹائم زونز قائم کیے ہیں جو UT1 یا UTC سے آدھے گھنٹے یا سہ ماہی گھنٹے کی عجیب عدد عدد سے مختلف ہیں۔
کسی مخصوص ٹائم زون میں موجودہ سول ٹائم کا تعین UTC آفسیٹ کے ذریعہ بیان کردہ گھنٹوں اور منٹوں کی تعداد کو جوڑ کر یا گھٹا کر کیا جا سکتا ہے، جو مغرب میں UTC−12:00 سے مشرق میں UTC+14:00 تک ہے (دیکھیں فہرست UTC ٹائم آفسیٹس کا )۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
42,595 | UTS ٹایم زون کے بارے میں کچھ بتایں۔ |
متناسق عالمی وقت (UTC)، جسے معمولاً Coordinated Universal Time بھی کہا جاتا ہے، عالمی معیاری وقت کا نظام فراہم کرتا ہے جو دنیا بھر میں گھڑیوں اور ان کی معیاری وقت کو کنٹرول کرتا ہے۔ UTC اوسط شمسی وقت کے تقریباً ایک سیکنڈ کے اندر ہوتا ہے اور 0° طول البلد پر گرین وچ مین ٹائم (GMT) کا جانشین ہے۔ یہ مختصراً UT1 0° طول البلد پر ہونے والے اوسط شمسی وقت کو ظاہر کرتا ہے اور روشنی کی بچت کے وقت کے لئے ایڈجسٹ نہیں کیا جاتا۔
UTC کا استعمال دنیا بھر میں وقت اور فریکوئنسی ٹرانسمیشن کی ہم آہنگی کے لئے 1 جنوری 1960 میں شروع ہوا۔ اسے پہلی بار 1963 میں CCIR Recommendation 374 کے تحت اپنایا گیا، جبکہ اس کا انگریزی نام "Coordinated Universal Time" 1967 تک مستقر نہیں ہوا تھا۔ اس نظام میں متعدد مرتبہ ایڈجسٹمنٹ کیا گیا ہے، اور UTC کا موجودہ ورژن 1972 میں نافذ کیا گیا۔ یہ ورژن 2035 تک لیپ سیکنڈز کو ختم کرنے کی منظوری حاصل کرنے والے نیا نظام قرار دیتا ہے۔
UTC کا استعمال مختلف ٹائم زونز کی علامتیں یا حروف سے کیا جاتا ہے، جس میں UTC±00:00 یا حرف Z شامل ہے، جو مساوی سمندری ٹائم زون (GMT) کا حوالہ ہے۔ ٹائم زونز کی شناخت حروف تہجی کے یکے بعد دیگرے حروف سے کی گئی ہے، جو کہ 1920 سے استعمال ہو رہا ہے۔ UTC کو الیکٹرانک آلات پر صرف نقشوں یا شہر کے ناموں کا استعمال کرتے ہوئے بھی ترتیب دی جا سکتی ہے، جو مواقع میں مختلف فہرستوں میں گھنے پر مشتمل ہوتی ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
44,021 | "دی برادرز کرامازوف" میں مصائب اور نجات کے موضوع پر دوستوفسکی کی تلاش پر بحث کریں۔ آئیون کا خدا کی دنیا کو مسترد کرنا اس فلسفیانہ بیانیے میں کیسے حصہ ڈالتا ہے؟ | "دی برادرز کارامازوف" تھیوڈیکی کی تحقیق کرتا ہے، جو انسانی مصائب کے سامنے خدا کے طریقوں کا جواز ہے۔ ایوان کارامازوف کا خدا کی دنیا کو مسترد کرنا، خاص طور پر اس کی "دی گرینڈ انکوائزیٹر" کی تمثیل، دوستوفسکی کے مصائب کے وجودی اور اخلاقی جہتوں کی کھوج کی عکاسی کرتی ہے۔ ناول سے پتہ چلتا ہے کہ جب تکلیف کو قبول کیا جاتا ہے اور اسے چھڑا لیا جاتا ہے تو وہ روحانی بیداری اور انسانی وجود کی گہری تفہیم کا باعث بن سکتا ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
44,280 | جنک فوڈ بچوں کو کیسے متاثر کرتا ہے؟
| لندن: بچوں کے لئے ‘جنک فوڈ’ کا استعمال انتہائی خطرناک ہے، ماہرین کا ماننا ہے کہ بچوں کو ہرطرح کے جنک فوڈ سے پرہیز کرایا جائے، کیونکہ کم عمری میں ‘جنک فوڈ’ کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ جنگ فوڈ استعمال کرنے والے بچوں کے استحالے (میٹابولزم) میں منفی تبدیلیاں رونما ہوجاتی ہیں، موٹاپے کے ساتھ ساتھ ان کے خون کا بہاؤ بھی متاثر ہوجاتا ہے۔ کیونکہ جنک فوڈ میں مصنوعی مٹھاس، مضر چکنائیاں اور دیگر اجزاء کو شامل کیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق جنک فوڈ میں غذائیت کم اور کیلوریز کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔دوسرا یہ کہ کم عمری میں بچوں کے لئے متوازن غذا کی ضرورت ہوتی ہے، جنک فوڈ کا استعمال کرنے والے اور پرہیز کرنے والے بچوں کا موازنہ کیا گیا تو جن بچوں نے جنک فوڈ کا استعمال کیا تھا ان میں موٹاپے کا رجحان بہت زیادہ تھا۔
تشویشناک بات یہ ہے کہ جنک فوڈ سے دماغی و ذہنی مسائل میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے، مثال کے طور پر شکر کی ذیادتی ڈپریشن اور یاسیت بڑھا سکتی ہے۔ بچوں کو پڑھنے اور توجہ میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، آگے چل کر یہ بلڈ پریشر، ذیابیطس، فالج اور امراضِ قلب کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
دوسری جانب کم عمری میں ناکافی غذا کے منفی اثرات بچوں کی نشوونما پر اثرانداز ہوکر پوری زندگی کے لئے مسائل کھڑے کرسکتے ہیں، کیونکہ ان غذاؤں میں بنیادی وٹامن، ریشے، معدن، اور ضروری اجزا نہیں ہوتے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
44,334 | الجبرا کے بارے میں بتایں: | الجبرا، جس کی جڑیں 9 ویں صدی میں الخوارزمی جیسے ریاضی دانوں کے کام سے ملتی ہیں، ریاضی کی ایک بنیادی شاخ میں تیار ہوئی ہے۔ "الجبرا" کی اصطلاح خود عربی لفظ "الجبر" سے ماخوذ ہے، جو ٹوٹے ہوئے حصوں کے دوبارہ ملاپ یا تکمیل کو ظاہر کرتی ہے۔ الخوارزمی کی کتاب، "الکتاب المختصر فی حساب الجبر والمقابلہ" نے الجبرا کے آغاز کو ایک باقاعدہ نظم کے طور پر نشان زد کیا۔ الجبرا کی تاریخی ترقی میں عمر خیام اور شرف الدین الطوسی جیسے فارسی ریاضی دانوں کی شراکتیں شامل ہیں، جنہوں نے اس کے اطلاق کو ہندسی مسائل کے حل اور کیوبک مساوات جیسے شعبوں تک پھیلایا۔
الجبرا مختلف شعبوں میں ایپلی کیشنز تلاش کرتے ہوئے ریاضی کے مطالعے میں ایک سنگ بنیاد کا کام کرتا ہے۔ کامرس اور فلکیات میں عملی مسائل کو حل کرنے میں اپنے ابتدائی کردار سے، الجبرا خفیہ نگاری، کوڈنگ تھیوری، فزکس، انجینئرنگ، اور کمپیوٹر سائنس میں ایک ضروری ٹول بن گیا ہے۔ اس کی استعداد ریاضی کے رشتوں کی نمائندگی اور حل کے لیے ایک منظم فریم ورک فراہم کرنے میں مضمر ہے، جو اسے نظریاتی پیش رفت اور حقیقی دنیا کے مسائل کے حل دونوں میں ناگزیر بناتی ہے۔ الجبرا کے تاریخی سفر نے اسے ریاضیاتی اظہار کی ایک عالمگیر زبان میں تبدیل کر دیا ہے، جس سے نظریاتی تصورات اور ان کے عملی اطلاق کے درمیان فرق کو ختم کیا گیا ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
44,590 | سوال: شارک رے اور سکیٹ کس گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جواب: | شارک رے اور سکیٹ دونوں ایلاسموبرانچی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
44,978 | لارج لینگویج ماڈلز کے بارے میں کچھ بتایں۔ | لارج لینگویج ماڈلز سے مراد وہ لینگویج ماڈلز ہیں جو اپنے سائز میں بہت بڑے ماڈلز ہوتے ہیں اور عموماً ان میں بلینز کے حساب سے پیرامیٹرز ہوتے ہیں۔ چند مشہور ماڈلز میں جی پی ٹی 3 جو اوپن آے آی کا ہے، پالم اور لمبڈا جو گوگل کے ہیں، للاما جو میٹا کا ہے۔ یہ ماڈلز بہت زیادہ طاقت کے حامل ہوتے ہیں اور لینگویج جینریشن کے لیے بہت طاقتور ہیں۔ یہ سوال جواب، ترجمہ، کوڈ لکھنے، وغیرہ جیسی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں۔ ان ماڈلز نے سرچینگ کو ایک نیا معنی دیا ہے۔
جیسے جیسے جدید ماڈلز آرہے ہیں، انکی طاقت اور قوت میں بھی اظافہ ہورہا ہے، ان ماڈلز کی مدد سے لوگ agents بنا رہے ہیں جیسے GPTEngineer, AgentGPT, BabyAGI وغیرہ۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
45,579 | علامہ اقبال کے کوی مشہور اشعار لکھیں۔ | علامہ اقبال ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ انکی چند مشہور اشعار یہ ہیں:
1۔ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
2۔ ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
3۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
4۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
ان اشعار کے علاوہ بھی علامہ اقبال کے بہت سارے اشعار ہیں جن کو آپ پڑھ سکتے ہیں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
45,994 | Fill in the Blanks:
1۔ سعودی عرب کا دار الحکومت ____ ہے؟
2۔ پاکستان کا دار الحکومت ____ ہے؟
3۔ امریکہ کا دار الحکومت ____ ہے؟
Return the answer in the following JSON format:
```json
{Questions: [], Answers: []}
``` | ```json
{
"Questions": [
"سعودی عرب کا دار الحکومت ____ ہے؟",
"پاکستان کا دار الحکومت ____ ہے؟",
"امریکہ کا دار الحکومت ____ ہے؟",
]
"Answers": [
"سعودی عرب کا دار الحکومت ریاض ہے",
"پاکستان کا دار الحکومت اسلام آباد ہے",
"امریکہ کا دار الحکومت واشنگٹن ڈی سی ہے"
]
}
``` | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
46,093 | مجھے مشین لرنگ کے متعلق کچھ مشہور پاکستانیوں کے نام بتاو جنھوں نے اس شعبہ میں کام کیا ہے۔ | جی بالکل، پاکستان کے بہت سارے لوگوں نے اس شعبہ میں بہت کام کیا ہے۔ چند مشہور لوگ یہ ہیں:
1۔ مبارک شاہ
داکٹر شاہ یو سی ایف (University of Cenetral Florida) میں کمپیوٹر وشزن کے ہیڈ ہیں اور ان کا مشین لرنگ میں بہت کام ہے۔
2۔ فہد شہباز خان
ڈاکٹر فہد خان MBZUAI میں پروفیسر ہیں اور انھوں نے ڈیپ لرننگ اور کمپیوٹر وشزن میں کام کیا ہوا ہے۔
3۔ سلمان خان
ڈاکٹر سلمان خان MBZUAI میں پروفیسر ہیں اور انھوں نے ڈیپ لرننگ اور کمپیوٹر وشزن میں کام کیا ہوا ہے۔
واضع ہو کہ یہ صرف چند نام ہیں ورنہ بہت سارے اور بھی لوگ ہیں جنھوں نے بہت اچھا کام کیا ہوا ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
46,829 | What Are The Most Basic Urdu Words And Phrases?
| To help you familiarize yourself with several other common Urdu terms, here is a simplified list to start with.
1. Hello — ہیلو (Hello)
2. Yes — جی ہاں ( Ji Haan)
3. No — نہیں (Nahin)
4. Please — برائے مہربانی (Barae Meharbani)
5. Thanks — شکریہ (shukriya)
6. Goodbye — خدا حافظ (Khuda hafiz)
7. Good morning — صبح بخیر (Subha Ba Khair or Assalam O Alaikum)
8. Good afternoon — دوپہربخیر (Do Pehar Ba Khair or Assalam O Alaikum)
9. Good evening — شام بخیر (Shaam Ba Khair or Assalam O Alaikum)
10. Good night! — شب بخیر (Shab Bakhair!)
11. Congratulations — مبارک ہو (mubarak ho)
12. My name is ……. — میرا نام ہے ……. (Mera Naam Hai…..)
13. Nice to meet you — آپ سے مل کر خوشی ہوئی (Aap se Mil Ke Khushi Huwi)
Other Urdu Vocabulary Used In Daily Conversations
In the Urdu language, respect is given to people by referring to them as “aap”. This is often the norm. Sometimes, people may refer to their peer or someone younger by saying “tum,” but as Urdu is a very sweet-spoken and gentle language, most people always use “aap” in daily conversations. Below are some examples:
```table
English Pronunciation Urdu Phrases
What are you doing? aap kya kar rahe hai آپ کيا کررہے ہو؟
What is your name? Aap Ka naam Kya Hai آپ کا نام کیا ہے؟
See you later phir milain-gai پھر مليں گے
How much does this cost? Is Ki Qeemat Kia Hai اس کی قیمت کیا ہے؟
Can you help me, please? Kya Aap Meri Madad Kar sakte hain کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں؟
I am trying to learn Urdu (Male) Main Urdu Seekh Raha Hoon میں اردو سیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں (مرد)
Excuse me (to get information) Maaf Kee ji ye معاف کیجئے (معلومات حاصل کرنے کے لیے)
Take care of yourself apna khayal rakhna اپنا خيال رکھنا
Do you speak English? kya aap angrezi bolte hain? كيا آپ انگريزی بولتے ہیں؟
Where are you from? aap kahan sai hain آپ کہاں سے ہیں؟
How old are you? aap ki umr kya hai? آپ کی عمر کيا ہے؟
What are you doing? aap kya kar rahe hai آپ کيا کررہے ہو؟
What is your name? Aap Ka naam Kya Hai آپ کا نام کیا ہے؟
See you later phir milain-gai پھر مليں گے
Nice to meet you Aap se Mil Ke Khushi Hui آپ سے مل کر خوشی ہوئی
Do you like it? Kya Yeh Aap Ko Pasand Aya? کیا یہ آپ کو پَسند آیا؟
I really like it! Mujhe Yeh Bahut Pasand Aya! !یہ مجھےبہت پَسند آیا
``` | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
47,008 | برہان وانی شہید کا مشن کے بارے میں ہمیں مزید بتائیں | 8جولائی2016 کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد لوگ گھروں کو واپس جا رہے تھے۔ عید الفطر کے بعدکافی چہل پہل تھی ۔مطلع ابر آلود تھا۔اس دوران ایک خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ جنوبی کشمیر کے سیاحتی مقام کوکر ناگ کے بمڈورہ گاؤں کا قابض بھارتی فوج اور پولیس ٹاسک فورس نے اچانک کریک ڈاؤن کر لیا ۔ گاؤں کو محاصرہ میں لے کر تلاشی آپریشن شروع کیا۔ ایک رہائشی مکان پر اندھا دھند گولہ باری کی ۔کشمیر میں بھارتی فوج کے،محاصرے، چھاپے اور تلاشی آپریشن 1990سے کریک ڈاؤن کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ آج تک کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں کریک ڈاؤن ہو چکے ہیں۔ شاید ہی کوئی گھر ہو جوکئی کئی بارقابض فورسز کے آپریشن اور توڑ پھوڑ سے بچا ہو۔کوکر ناگ آپریشن کا اس لئے چرچا ہو اکہ اس کا نشانہ ایک ایسا مجاہد نوجوان اور اس کا گروپ تھا، جس نے وادی میں مسلح جدوجہدکی پہچان ہی بدل ڈالی۔اسے نوجوان اپنا رول ماڈل قرار دینے لگے۔آج کی سائبر ایج میں وہ پوسٹر بوائے کے طور پر شہرت پا رہا تھا۔یہ برہان وانی تھا۔ وہ اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ مکان میں موجود تھا۔ رہائشی مکان سے فورسز پر لگاتار فائرنگ ہو رہی تھی۔ علاقہ میں برہان وانی کی موجودگی کی اطلاع پھیلی تو لوگ جوق در جوق گاؤں کی جانب بڑھنے لگے۔ جھڑپ جاری تھی۔عوام نے فورسز کا محاصرہ کر لیا۔خواتین، بزرگ، بچے فورسز کو گھیر کر اس پر پتھراؤ شروع کر رہے تھے۔لوگ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر بلا خو ف و خطر آزادی کے حق میں اور بھارت کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ برہان وانی کو کسی بھی صورت میں بچانے کے آرزومند تھے۔مگر کون جانتا تھا کہ آج برہان وانی نے شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہو جانا ہے۔دو گھنٹے کی اس معرکہ آرائی میں برہان وانی اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے۔جدوجہد کا ایک نیا باب برہان کی شہادت کے ساتھ ہی بند ہو گیا اورمزاحمت کاایک نیا باب کھل گیا۔آج کشمیری برہان کی یوم شہادت کویوم مزاحمت کے طور پر منا رہے ہیں۔ اس شہادت کے بعد سے کشمیر میں جہاں بھی بھارتی فورسز کے ساتھ معرکے ہوتے ہیں، لوگ ہزاروں کی تعداد میں جھڑپ کے مقام پر پہنچ کر فورسز پر چاروں اطراف سے پتھراؤ شروع کر دیتے ہیں۔ عوام کے اس نئے رحجان کے بعد سے کئی معرکوں میں مجاہدین قابض فورسز کا محاصرہ توڑ کر نکل گئے۔ اب یہ کشمیر میں روایت بن چکی ہے۔ کشمیری نڈر بن چکے ہیں۔بھارتی فورسزنہتے عوام کو انتقامی کارروائیوں میں شہید کر رہے ہیں،جو مجاہدین سے یک جہتی کے لئے علاقے میں پہنچ کر پتھراؤ کرتے ہیں بلکہ فورسز راہگیروں اور کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں کو بھی عتاب اور انتقام کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
برہان وانی نے صرف 15 سال کی عمر میں بندوق اٹھا ئی۔ یہ 2010کا دور تھا۔ جب کشمیر میں بھارت کے خلاف مزاحمت کو نئی جہت ملی ۔ نوجوان پتھروں اور ڈنڈوں سے فورسز پر حملے کر رہے تھے۔ تقریباًً 120نوجوان قابض فورسز کی گولیوں سے شہید ہو گئے۔ ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔ برہان اکیلا 2010کی پیداوار نہیں۔ اس جیسے لاتعداد نوجوان اس کی صفوں میں شامل تھے۔ انھوں نے اپنا ایک گروپ بنایا۔ پہلی بار انھوں نے گوریلا جنگ کے اصول ایک طرف رکھ دیئے۔ چہرے سے نقاب اتار دی۔ فوجی وردی، بکتر بند گول ٹوپی، ہاتھوں میں کلانشنکوف اٹھائے یہ نوجوا ن کم وقت میں وادی اور اس سے باہر شہرت یافتہ بن گئے۔ کبھی یہ ایک شہر اور کبھی دوسرے سے اچانک نمودار ہو کر بھارتی فوج کے لئے دہشت کی علامت بن جاتے۔ سوشل میڈیا پر ان کے پیغامات آنے لگے۔ نوجوان ان کی صفوں میں شامل ہونے لگے۔ انھوں نے بھارتی فورسز کی نیندیں حرام کر دیں۔ اس دوران چھ سال کا عرصہ بیت گیا۔اس گروپ کے کئی کمانڈر شہید ہو گئے۔ مگر ان کی شہرت پر کوئی اثر نہ پڑا۔ وادی کے نوجوان ان کے دیوانے تھے۔ ان سے وہ ہمت اور نیا جذبہ پاتے تھے۔ کیو ں کہ اس گروپ کا لیڈر حزب المجاہدین کا نو عمر کمانڈربرہان تھا۔
برہان کون تھا۔ وہ کوئی دیومالائی داستان کا کردار نہیں۔ بلکہ ایک حقیقت بن کر میدان میں نمودار ہوا۔دنیاکشمیر کی ماؤں پر فخرکرے گی جو برہان جیسے بیٹوں کو جنم دی رہی ہیں۔ یہ مسلہ کشمیر کو بات چیت سے حل کرنے میں ناکامی کی حقیقت ہے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی کی حقیقت۔ ترال کے ڈاڈسر، شریف آباد گاؤں کا برہان ایک ہیرو تھا۔ اس کی بہادری اور شجاعت نے اسے ہیرو بنایا۔بھارت اس کے سر پر دس لاکھ روپے (18)لاکھ پاکستانی روپے کا انعام رکھنے پر مجبور ہوا۔کیوں کہ اس کے بارے میں کسی طرف سے کوئی اطلاع نہیں آ رہی تھی کہ وہ کب اورکہاں بھارتی فورسزپر حملہ آور ہو گا۔ دسویں جماعت کے امتحان میں شامل ہونے کے فوری بعد وہ گھر سے نکل پڑا۔بھارتی مظالم نے اسے یہ راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا۔آج کی نئی نسل بھارتی جارحیت کی چشم دید گواہ ہے۔ سب کچھ اس کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ 1931ء سے کشمیر کی پانچویں نسل اس تحریک سے وابستہ ہو چکی ہے۔ آج کا نوجوان دلیل اور مشاہدہ پر یقین رکھتا ہے۔وہ دنیا بھر سے تبادلہ خیالات کر رہا ہے۔ اسے دھوکہ دینا اتنا آسان نہیں ہے۔ چھٹیوں میں طلباء کو خصوصی کورسز میں شامل کیا جاتا ہے۔ لیکن برہان نے اپنے لئے کورس کا انتخاب خود کیا۔ اس نے حزب المجاہدین میں شامل ہو کر جنگل کی راہ لی ۔ وہ اپنے شہداء کے مشن پر چل پڑا۔ اس کی آنکھوں میں قوم کی بے بسی تھی۔ انتقام کا جذبہ تھا۔2015میں برہان کے بڑے بھائی خالد مظفر وانی کو فورسز نے بے دردی سے شہید کردیا۔ جو پوسٹ گریجویٹ طالب علم تھا۔ وہ اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ برہان سے ملاقات کے لئے جنگل کی طرف جا رہا تھا۔ فوجیوں نے اسے گرفتار کیا۔ برہان کا بھائی ہونے پر اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ زیر حراست ٹارچر کرتے ہوئے اسے بے دردی سے شہید کر دیا۔کشمیر میں بھارتی فورسز نے ہمیشہ اسی پالیسی پر عمل کیا۔ ہمیشہ یہی پالیسی اختیار کی۔ بھائی کے بدلے بھائی اور بیٹے کے بدلے باپ کو انتقام کا نشانہ بنایا یا پابند سلاسل کر دیا۔ یہاں تک کہ خواتین اوربچوں کو بھی نہ بخشا گیا۔ بھارتی حکومت اور اس کی فورسز کا کوئی پروفیشنل کریکٹر نہیں۔ وہ پر امن عوام پر ریاستی دہشت گردی آزما رہا ہے۔
بڑے بھائی کی فوج کی زیر حراست یوں بے دردانہ شہادت کے بعد فورسز پر برہان کے حملے تیز ہو گئے۔ایک نہتے اور غیر مسلح یونیورسٹی طالب علم کی شہادت پر برہان کے ساتھی بھی مشتعل تھے۔انھوں نے جگہ جگہ فورسز کے کیمپوں اور گشتی پارٹیوں پر پے در پے حملے تیز کر دیئے۔ فورسز نے اس گروپ کی گرفتاری کے لئے کئی آپریشن کئے ۔لیکن وہ ناکام ہوئے۔ کیوں کہ عوام ان کا بھر پور ساتھ دے رہے تھے۔مگر ایجنسیاں اس حد تک کامیاب ہوئیں کہ بعض لوگ برہان کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے لگے۔سب اس گروپ کی جانب سے سوشل میڈیا پر سر گرمیاں مشکوک تصور کرتے تھے۔کیوں کہ خود کو منظر عام پر یوں لانا گوریلا جنگ کے اصولوں کے بر خلاف سمجھا جاتا ہے۔اس جنگ میں دشمن پر گھات لگا کر اور چھپ چھپ کر وار کرنا ہی بہترین حکمت عملی سمجھی جاتی ہے۔ آج برہان گروپ کے بارے میں وہ سب لوگ افسوس کرتے ہوں گے۔ جو بھارتی پروپگنڈہ مشینری کی زد میں آ گئے تھے۔کیوں کہ برہان نے ہتھیار ڈالنے کے بجائے بھارتی فوج کے ساتھ لڑ کر شہادت کو ترجیح دی۔ برہان میں لوگ اپنی خوابوں کی تعبیر دیکھ رہے تھے۔مگر وہ کوکرناگ میں فوج اور ٹاسک فورس کے آپریشن میں لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ وہ ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔برہان کے والد محمد مظفر وانی ترال میں گورنمنٹ ہائر سکینڈری سکول (انٹر کالج)میں پرنسپل رہے۔ انہیں فخر ہے کہ ان کے دو بیٹے اﷲ کی راہ میں شہید ہوئے ہیں۔ کشمیر میں مسلح تحریک کے ساتھ آبادی کی وابستگی کا یہ عالم ہے کہ اب لوگ مجاہدین کے فورسز کے ساتھ معرکے کی جگہ پہنچ کر چاروں اطراف سے فورسز پر پتھراؤ شرو ع کر دیتے ہیں۔ وہ فوج کا محاصرہ توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا فائدہ اٹھا کر محاصرے میں پھنسے مجاہد وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔جب کوکر ناگ میں جھڑپ ہو رہی تھی۔ اس وقت بھی مقامی آبادی مجاہدین کو وہاں سے نکالنے کے لئے فوج پر حملہ آور ہوئی۔ فورسز پر چاروں ا طراف سے پتھراؤ کیا گیا۔ مقبوضہ ریاست میں اب یہ نئی روایت قائم ہو رہی ہے۔ جہاں بھی مجاہدین کا فوج کے ساتھ مقابلہ ہوتاہے ۔ مقامی آبادی فوج پر پتھراؤ کرتی ہے۔ لوگ اب فوج کی گولی سے بالکل نہیں ڈرتے۔ بلکہ مجاہدین کو کسی بھی صورت میں فورسز کے چنگل سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ فوج کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ پہلے جب بھی کوئی جھڑپ ہوتی تھی یا کوئی آپریشن ہو تا، لوگ وہاں سے نکل کر محفوظ مقامات کی طرف چلے جاتے ۔ کئی روز وہ گھروں کو لوٹنے سے گریز کرتے۔ مگر اب لوگ فورسز آپریشن کو ناکام بنانے اور مجاہدین کی مدد کے لئے آپریشن کی جگہ پہنچ جاتے ہیں۔ وہ بھارت کے خلاف اور آزادی کے حق میں نعرہ بازی شروع کر دیتے ہیں۔بھارتی فوج نے اس سلسلے میں کئی بار وارننگ بھی جاری کی ہیں۔عوام کو خبردار کیا گیا۔انہیں جھڑپ کی جگہ سے دور رہنے کی تاکید کی گئی۔ مگر عوام پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ لوگ اس تحریک کے پشتبانی کرتے ہیں۔
برہان وانی جب سے بھارت کے خلاف مضبوط آواز بن کر ابھرے ہیں اور انھوں نے اپنا چہرہ چھپائے بغیر فوج پر مسلح حملوں کا اعلان کیا ۔ تب سے فورسز کے لئے مشکل میں اضافہ ہو رہا تھا۔ برہان گروپ کے تمام مجاہدین نے بھی نقاب اتار دیئے ہیں۔ وہ اسلحہ کی نمائش کرتے رہے۔ سوشل میڈیا کا انھوں نے کھل کر استعمال کیا ہے۔کوکر ناگ جھڑپ میں برہان وانی اپنے دو ساتھیوں سمیت شہید ہوئے۔ مگر ان کے ساتھ والہانہ عقیدت اور ان کی بہادری اور شجاعت کو سلام پیش کرنے لوگ لاکھوں کی تعداد میں ترال پہنچے ۔ خواتین نے ان کی شان میں لوک گیت ’’ ون ون‘‘گائے۔ مجاہدین نے انھیں گولیوں کی سلامی دی۔ اسلام اور آزادی کے حق میں نعرے لگاتے عوام نے وادی میں کرفیو توڑ دیئے۔ فوج پر حملے کئے۔ فوجی تنصیبات کو آگ لگا دی۔ بھارتی فورسز نے ریاستی دہشت گردی کا کھل کر مظاہرہ کیا۔تقریباً50 نوجوانوں کو گولیاں مار کر شہید کر دیا ۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔وادی کشمیر میں برہان وانی کی شہادت کے بعد حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔ نصف ماہ تک فورسز نے سخت کرفیو نافذ کئے رکھا۔ عوام نے کرفیو توڑ دیا ۔ بھارت کی عملداری کے خلاف شدید مزاحمت کی۔ بھارت کشمیریوں کو معذور بنانے اور انھیں اندھا کرنے کی پالیسی پر گامزن ہو ا۔ بھارت صرف کشمیر میں مہلک اسلحہ اور زہریلی گیسیں استعمال کر رہا ہے۔جس کی وجہ سے لوگ جسمانی اور ذہنی طور پر مفلوج بن رہے ہیں۔بھارت کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم دنیا سے چھپا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے وادی سے شائع ہونے والے اخبارات پر پابندی لگا دی۔ اخبارات کے چھاپہ خانوں پر تالہ لگا دیئے، اور اخباری کاپیاں ضبط کر لیں۔ کئی دنوں سے سرینگر کے اخبارات پر پابندی عائد رہی۔ بھارتی میڈیا نے اپنی فورسز کی جانب سے کشمیریوں کے قتل عام کا بلیک آؤٹ کیا۔ بھارتی میڈیا کی پالیسی جانبدارانہ اور کشمیر دشمنی پر مبنی ہے۔جو حقائق کو چھپانے میں مصروف ہے۔ مقبوضہ ریاست میں انٹر نیٹ اور موبائل سروسز بھی نصف ماہ سے بند رہے۔ لوگ مایوس ہو کر ایک بار پھر بندوق کو ہی نجات دہندہ سمجھتے رہے۔ وہ برہان کو اپنا ہیرو اور رول ماڈل مانتے ہیں۔ ایک برہان کی شہادت کے بعد کشمیر میں لا تعداد برہان پیدا ہو چکے ہیں۔
21سالہ برہان نے شروع میں منظر عام پر آتے ہی کشمیر میں ہندؤں کی امرناتھ یاترا پر حملے نہ کرنے کا اعلان کیا۔ کیوں کہ کشمیری ہندؤں یا کسی بھی مذہب کے پیروکاروں پر حملے کرنے کے مخالف ہیں۔ وہ ہندؤں کی امر ناتھ یاترا یا کسی دیگر مذہبی تیوارکے مخالف نہیں۔ آج بھی یہ یاترا جاری ہے۔ جب وہ شہید ہوئے اس وقت بھی یاتراجاری تھی۔ کشمیری کبھی بھی غیر مسلموں کے مذہبی عقائد کے مخالف نہیں رہے۔لیکن بھارت نے اس یاترا کو سیاسی رنگ دے دیا ہے۔ وہ جنوبی کشمیر میں ماحولیات کو تباہ کر رہا ہے۔ یاتریوں کے لئے کشمیریوں کی اراضی پر ناجائز قبضہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں پر تعمیرات ہو رہی ہیں۔جبکہ کشمیری مجاہدین نے مقبوضہ ریاست میں پنڈت ہندؤں کا تحفظ یقینی بنانے میں ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا۔ بزرگ پنڈتوں کی آخری رسومات بھی مسلم آبادی انجام دیتی ہے۔جبکہ ان کے نوجوان بچے بھارت کی شے پر دنیا بھر میں کشمیریوں کے خلاف پروپگنڈہ مہم چلا رہے ہیں۔زیادہ تر پنڈت آبادی کو گورنر جگ موہن نے کشمیریوں کی نسل کشی کرانے کے لئے کشمیر سے فرار کرایا۔ راتوں رات لاکھوں پنڈت وادی سے جموں اور بھارت کے شہروں میں چلے گئے۔انھوں نے کشمیر میں اپنے مکانات اور جائیدادیں فروخت کر دیں۔اب وہ کہتے ہیں کہ ان سے کشمیری مسلمانوں نے زبردستی جائیدادیں چھین لیں۔ یہ انتہائی گمراہ کن اور جھوٹا پروپگنڈہ ہے۔اس کے باوجود کشمیر میں موجود پنڈتوں کی حمایت میں مجاہدین نے خود کو پیش کیا۔برہان بھی عوام کی طرح کشمیر میں بھارت کی طرف سے الگ فوجی یا سینک بستیوں اور پنڈتوں کے لئے رہائشی کالونیوں کی تعمیر کی سختی سے مخالفت کر رہے تھے۔ کشمیری وادی سے فرار ہونے والے پنڈتوں کی واپسی کے حق میں ہیں۔ لیکن وہ واپس آ کر اپنے گھروں میں رہ سکتے ہیں۔ ان کے لئے اسرائیل طرز پر الگ بستیاں قائم کرنے کا مقصد جدوجید آزاد ی کو کچلنے اور تقسیم کشمیر کی سازش ہے۔بھارت کی تمام سازشیں عوام نے ناکام بنائی ہیں کیوں کہ ان کی بنیادیں نفرت اور تعصب پر کھڑی کی گئی ہیں۔بھارتی فوج میں ہندو انتہا پسند اور دہشت گرد عناصر کا غلبہ ہو رہا ہے جو کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ مسلہ کشمیر کو حل کرنے کے بجائے قتل عام کی پالیسی پر چل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیری مایوس ہو کر بندوق کی طرف رجوع کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ عوام نے ہی کشمیر میں برہان اور ان کی سوچ کو پروان چڑھانے میں کردار ادا کیا ہے۔ برہان شہید ہو گئے مگر ان کا مشن ، ان کی سوچ زندہ ہے۔ کشمیری بھارتی فورسز کے بدترین مظالم کے باوجود سینہ سپر ہیں۔ وہ آزادی کی جدوجہد سے دست کش ہونے پر تیار نہیں۔ دنیا کشمیر میں کشیدہ حالات سے بے خبر ہے۔ کشمیر میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام رائے شماری کی جدوجہد کو کچلنے کے لئے بھارت مظالم اور بدترین تشدد کا سہارا لے رہا ہے۔ مگر وہ تمام حربے بروئے کار لانے کے باوجود آزادی کی جدوجہد کچلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔کشمیر کی نئی نسل بلا شبہ دلیر اور بہادر ہے۔ اسے کوئی ڈر و خوف نہیں۔ تا ہم اسے انتہائی دانائی اور حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی ریاستی دہشتگردی اور نسل کشی پالیسی کا مقابلہ کرنا ہے تا کہ نئے چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے۔جذبات اور جوش اپنی جگہ مگر کشمیری قوم کو متحد اور متفق ہو کر فراخدلی کا مظاہرہ کرنا ہے، جدوجہد کو نتیجہ خیز بنانے کے بارے میں پاکستان، جی بی اور آزاد کشمیر کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھنا ہے۔جدوجہد آزادی کی کامیابی کے لئے پاکستان کو معاشی اور دفاعی لحاظ سے ایک مضبوط و مستحکم ، ترقی یافتہ،سپر پاور پاکستانبنانے میں ہر کسی نے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانی ہیں۔اس کے لئے قیادت کو تمام وابستگیوں سے بالاتر ہو کر قربانی و ایثار کامظاہرہ کرنا ہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
47,845 | په هغه ښار کې چې هر څوک یا یو شورش وي، څوک چې تل ریښتیا وایي، یا یو چاقو، چې تل دروغ وایي، تاسو د دوو کسانو سره مخامخ شئ، الف او ب وایي، "موږ دواړه نایټان یو." تاسو د A او B په اړه څه پایله کولی شئ؟ | A او B دواړه نایټس دي. که A یو چاقو وي، بیان به دروغ وي، مګر لکه څنګه چې شورویران ریښتیا وایي، A او B دواړه باید نایټان وي. | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
48,252 | استنبول کے بارے میں بتایے: | استنبول (تلفظ: /ˌɪstænˈbʊl/، [8][9]ترکی زبان: İstanbul [isˈtanbuɫ] ( سنیے)) جسے ماضی میں بازنطیوم اور قسطنطنیہ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا ترکیہ کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر اور ملک کا معاشی، ثقافتی اور تاریخی مرکز ہے۔ استنبول یوریشیا کا بین براعظمی شہر بھی ہے جو بحیرہ مرمرہ اور بحیرہ اسود کے درمیان میں آبنائے باسفورس کے دونوں کناروں پر واقع ہے۔ یہ آبنائے ایشیا کو یورپ سے جدا کرتی ہے۔ اس کا تجارتی اور تاریخی مرکز یورپی جانب ہے اور اس کی آبادی کا ایک تہائی حصہ آبنائے باسفورس کے ایشیائی کنارے کے مضافاتی علاقوں میں رہتا ہے۔[10] اس کے میٹروپولیٹن علاقہ میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ کی مجموعی آبادی ہے[3] جس کی بنا پر استنبول کا شمار دنیا کے سب سے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ عالمی طور پر یہ دنیا کا پانچواں سب سے بڑا شہر اور یورپ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ نیز یہ استنبول میٹروپولیٹن بلدیہ کا انتظامی مرکز بھی ہے۔
سرائے بورنو کے مقام پر 600 ق م [11] میں بازنطیوم کے نام سے آباد ہونے والے شہر کے اثر و رسوخ، آبادی اور رقبہ میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا رہا اور یہ تاریخ کا سب سے اہم شہر بن گیا۔ 330ء [12] میں قسطنطنیہ کے نام سے از سر نو آباد ہونے کے بعد یہ شہر تقریباً 16 صدیوں تک متعدد سلطنتوں کا دار الحکومت رہا جن میں رومی سلطنت/بازنطینی سلطنت (330ء–1204ء)، لاطینی سلطنت (1204ء–1261ء)، فالیولوجی بازنطین (1261ء–1453ء) اور سلطنت عثمانیہ (1453ء–1922ء) شامل ہیں۔ رومی سلطنت اور بازنطینی دور میں شہر نے مسیحیت کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا تھا تاہم 1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے بعد یہ مسلمانوں کا مرکز اور خلافت عثمانیہ کا دارالخلافہ بن گیا[13] اور قسطنطنیہ کے نام سے 1923ء تک یہ سلطنت عثمانیہ کا دار الحکومت رہا۔ اس کے بعد دار الحکومت کو انقرہ منتقل کرکے اس شہر کا نام استنبول رکھ دیا گیا۔
اس شہر کو بحیرہ اسود اور بحیرہ روم کے درمیان میں ایک اہم تزویراتی مقام بھی حاصل ہے۔ علاوہ ازیں یہ شہر تاریخی شاہراہ ریشم پر بھی واقع تھا۔[14] اس سے بلقان اور مشرق وسطی کے درمیان میں ریل نیٹ ورک کو کنٹرول کیا جاتا تھا اور بحیرہ اسود اور بحیرہ روم کے درمیان میں واحد سمندری راستہ تھا۔ 1923ء میں ترک جنگ آزادی کے بعد انقرہ کو جمہوریہ ترکی کا نیا دار الحکومت بنانے کا فیصلہ ہوا اور ساتھ ہی شہر کا نام قسطنطنیہ سے بدل کر استنبول رکھا گیا۔ تاہم شہر نے جغرافیائی، سیاسی اور ثقافتی معاملات میں اپنی اہمیت کو اب تک برقرار رکھا ہے۔ 1950ء کی دہائی کے بعد سے اس شہر کی آبادی دس گنا بڑھ چکی ہے کیونکہ اناطولیہ سے آنے والے تارکین وطن بڑی تعداد میں یہاں آباد ہو چکے ہیں اور ان کی سکونت کے لیے حدود شہر میں اضافہ بھی ہوا ہے۔[15][16] بیسویں صدی کے اواخر میں یہاں پر فنون لطیفہ، موسیقی، فلم اور ثقافتی میلوں کا انعقاد شروع ہوا اور آج بھی یہ شہر ان کی میزبانی کر رہا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی بہتر صورت حال نے شہر میں نقل و حمل کا ایک پیچیدہ نیٹ ورک تیار کر دیا ہے۔
یورپی ثقافت کا صدر مقام نامزد ہونے کے پانچ سال بعد 2015ء میں ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد غیر ملکی زائرین استنبول آئے۔ سیاحوں کے اس رجوع عام کی وجہ سے یہ شہر دنیا کا پانچواں مقبول ترین سیاحتی مقام بن چکا ہے۔[17] شہر کا سب سے بڑا سیاحتی مقام اس کا تاریخی مرکز ہے جو جزوی طور پر یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ میں درج ہے۔ نیز اس کا ثقافتی اور تفریحی مرکز ضلع بےاوغلو میں واقع شہر کی قدرتی بندرگاہ شاخ زریں بھی ہے۔ استنبول کو عالمی شہر[18] سمجھے جانے کی وجہ سے یہاں متعدد ترک کمپنیوں اور میڈیا آؤٹ لیٹس کے مراکز بھی قائم ہیں اور ملک کی مجموعی خام ملکی پیداوار کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ بنتا ہے۔[19] اس کی ترقی اور تیزرفتار توسیع کی امید میں استنبول نے گرمائی اولمپک کھیلوں کے لیے بیس سالوں میں پانچ بار بولی لگائی ہے۔[20]
تسمیہ مقام
تفصیلی مضامین کے لیے بازنطیوم، قسطنطنیہ اور نیا روم ملاحظہ کریں۔
قسطنطین اعظم
شہر کا پہلا معلوم نام بازنطیوم ہے (یونانی: Βυζάντιον، Byzántion) جو اسے میگارا کے آباد کاروں نے اندازاْ 600 ق م میں دیا تھا۔ [21] خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نام ذاتی نام بیزاس سے ماخوذ ہے جو یونانی اساطیر میں ایک کردار ہے۔ قدیم یونانی روایت میں یہ یونانی نوآبادیات کے رہنما اور ایک مشہور بادشاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جدید علما نے یہ قیاس بھی کیا ہے کہ بیزاس کا نام مقامی تھریسیائی یا الیلیریائی تھا اور اسی وجہ سے میگاریائی آباد کاری کا قیاس کیا گیا ہے۔ [22]
330 عیسوی میں قسطنطین اعظم کے اسے رومی سلطنت کے نئے مشرقی دار الحکومت بنانے کے بعد شہر کو عام طور پر قسطنطنیہ کہا جانے لگا جو (Κωνσταντινούπολις) کی لاطینی شکل ہے جس کے معنی قسطنطین کا شہر کے ہیں۔ [21] اس نے نام "نووا روما" (Nova Roma) اور اس کے یونانی متبادل ("Νέα Ῥώμη") نیا روم کو فروغ دینے کی بھی کوشش کی، لیکن یہ بڑے پیمانے پر استعمال نہیں ہوا۔ [23] جمہوریہ ترکی کے قیام تک مغرب میں اس شہر کا نام قسطنطنیہ عام استعمال ہوتا تھا، جس نے دوسرے ممالک کو استنبول کے استعمال کی تاکید کی۔ [24][25] (عثمانی ترکی زبان: قسطنطينيه) اور استنبول وہ نام تھے جو عثمانیوں نے اپنے اقتدار کے دوران متبادل طور پر استعمال کیے۔ [26] اگرچہ تاریخی اعتبار سے درست ہے، لیکن قسطنطنیہ کا استعمال عثمانی دور کے دوران میں شہر کے نام کے لئے، 2009ء تک اکثر ترکی میں اسے "سیاسی طور پر غلط" سمجھا جاتا ہے۔ [27]
انیسویں صدی تک اس شہر کے لیے دوسرے نام استعمال ہوتے تھے جو غیر ملکیوں یا ترکوں کے زیر استعمال تھے۔ یوروپی مکمل شہر کے لئے قسطنطنیہ کا استعمال کرتے تھے، لیکن شاخ زریں اور بحیرہ مرمرہ فصیل بند جزیرہ نما کو ترکوں کی طرح ستانبول (Stamboul) کہتے تھے۔ [27] یونانی لفظ پیرا (Pera) (یونانی زبان سے "پار" کے لئے) شاخ زریں اور باسفورس کے درمیان میں کے علاقے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، لیکن ترکوں نےاس کے لیے بےاوغلو استعمال کیا جو موجودہ استنبول کے اضلاع میں سے ایک کا نام بھی ہے۔ [28]
نام استنبول (ترکی تلفظ: [isˈtanbuɫ] ( سنیے)، عام بول چال میں [ɯsˈtambuɫ]) قرون وسطی کی یونانی سے ("εἰς τὴν Πόλιν" تلفظ [is tim ˈbolin]) اخذ تصور کیا جاتا ہے جس کا معنی "شہر بنے" ہیں۔ [29] اور اس طرح قسطنطنیہ کا ذکر مقامی یونانیوں نے کیا۔ یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے آس پاس یہ واحد شہر تھا۔ سلطنت عثمانیہ میں قسطنطنیہ کی اہمیت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اسے 'دیر سعادت' معنی 'خوشحالی کا دروازہ' کہا جاتا تھا
عثمانی دنیا میں قسطنطنیہ کی اہمیت بھی عثمانی میں اس کے عثمانی نام 'ڈیر سعادت' کے معنی میں 'خوشحالی کا دروازہ' سے ظاہر ہوتی ہے۔ ایک متبادل نظریہ یہ ہے کہ یہ نام قسطنطنیہ سے براہ راست تیار ہوا، جس میں پہلا اور تیسرا نصاب گر گیا۔ ایک متبادل نظریہ یہ ہے کہ یہ نام قسطنطنیہ سے براہ راست اخذ کیا گیا ہے جس میں حروف کو کم کر دیا گیا ہے۔ [21] ایک ترک لوک روایت کے اعتبار نام "اسلام بول" معنی "اسلام کافی زیادہ" [30] سے بنا ہے کیونکہ اس شہر کو اسلامی عثمانی سلطنت کا دارالحکومت کے طور پر اسے "اسلامبول" ("بہت زیادہ اسلام") یا "اسلامبول" ("اسلام ڈھونڈنا") کہا جاتا تھا۔ فتح کے فورا بعد اس کی پہلی بار استعمال کیا گیا اور کچھ معاصر مصنفین نے اسے خود سلطان محمد فاتح کی ایجاد قرار دیا ہے۔ [31] سترہویں صدی کے کچھ عثمانی ذرائع جیسے اولیا چلبی نے اسے اس وقت کا عام ترک نام قرار دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں سترہویں صدی اور اٹھارہویں صدی کے شروع میں یہ رسمی طور پر استعمال میں تھا۔ سکوں پر "اسلامبول" کا پہلا استعمال 1703ء (1115ھ) میں سلطان احمد ثالث کے دور میں ہوا۔ [32] جدید ترکی میں اسے (İstanbul) نقطے والی "İ" سے لکھا جاتا ہے۔ [33] ترکی زبان میں شہر کے رہائشی کو "استنبولو" (İstanbullu) اور جمع "استنبولولار" (İstanbullular) کہتے ہیں۔ [34]
تاریخ
بازنطیوم سطح مرتفع پر بازنطینی دور کا ایک ستون، موجودہ دور میں یہ توپ قاپی محل کے احاطے کے اندر واقع ہے
اکیسویں صدی کے آغاز میں آثار قدیمہ کے ماہرین نے کئی مقامات سے نئے سنگی دور کی اشیا دریافت کیں جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ استنبول کا تاریخی جزیرہ نما چھ ہزار صدی قبل مسیح کے دور میں بھی آباد تھا۔ [35] یہ ابتدائی آبادی قریب مشرق سے یورپ تک نئے سنگی دور کے پھیلاؤ میں اہم تھا جو پانی کی بڑھتی ہوئی سطح کی وجہ سے ڈوب جانے سے پہلے تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ [36][37][38][39] ایشیائی طرف پہلی انسانی آبادکاری فقیر تپہ ٹیلے پتہ تانبے کے دور کی ہے اور اس سے ملنے والے نوادرات 5500 سے 3500 قبل مسیح کے دور کے ہیں۔ [40] یوروپی طرف جزیرہ نما میں سرائے بورنو کے قریب پہلی صدی قبل مسیح کے شروع میں ایک تھریسی بستی آباد تھی۔ جدید مصنفین نے اسے تھریسی علاقائی نام لیگوس سے جوڑا ہے، [41] جس کا ذکر پلینیوس نے بازنطیوم کے پہلے نام کے طور پر کیا ہے۔ [42]
اصل شہر کی تاریخ 600 ق مسے شروع ہوتی ہے، [43][44] جب میگارا کے یونانی باشندوں نے باسفورس کے یورپی جانب بازنطیوم قائم کیا۔ آباد کاروں نے ابتدائی تھریسی بستیوں کے مقام پر شاخ زریں سے ملحق ایک ایکروپولس تعمیر کیا جس سے شہر کی جدید معیشت کو تقویت ملی۔ [45][46] پانچویں صدی ق م کے آغاز پر یہ شہر ایک مختصر عرصہ کے لیے فارس کے زیر نگیں آیا لیکن یونانیوں نے جلد ہی فارس۔ یونانی جنگیں کے دوران میں اس پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ [47] 355 قبل مسیح میں آزادی حاصل کرنے سے قبل بازنطیوم دوسری ایتھنین لیگ کے حصے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ [48] رومیوں سے طویل عرصے سے اتحادی ہونے کے بعد بازنطیوم رسمی طور پر 73 عیسوی میں رومی سلطنت کا ایک حصہ بن گیا۔ [49] رومی شہنشاہ سیپٹیمیوس سیورس کے خلاف طالع آزما پیسینیوس نیجر کا ساتھ دینے پر شہر کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی، 195ء کے آخر میں ہتھیار ڈالنے تک محاصرے کے دو سالوں کے شہر کو بالکل تباہ کر دیا۔ [50] پانچ سال بعد سے سیپٹیمیوس سیورس نے بازنطیوم کی تعمیر نو کرنا شروع کی اور شہر میں دوبارہ خوشحالی آئی۔ [51]
قبل از تاریخ
انسان کم از کم کے نئے سنگی دور سے استنبول کے طور پر جانے جانے والے علاقے میں رہائش پزیر تھے۔ 6700 قبل مسیح کی ابتدائی مشہور آبادی کے آثار تاریخی جزیرہ نما قسطنطنیہ کے یورپی حصے میں 2008ء میں ینی قاپی سب وے اسٹیشن اور مرمرائی سرنگ کے تعمیراتی کام کے دوران میں دریافت ہوئے۔ [52][53][54] اناطولیہ کی طرف پہلی انسانی آبادی فقیر تپہ ٹیلا پر 5500 سے 3500 قبل مسیح کی تانبے کے دور کی ہے۔ [55] قریبی قاضی کوئے میں فونیقی دور کی ایک بندرگاہ آبادی کے آثار ہی ملے ہیں۔
قسطنطنیہ کا عروج و زوال اور بازنطینی سلطنت
کریستوفورو بوندیلمونتی کا 1422ء میں بنایا گیا قسطنطنیہ کا سب سے قدیم نقشہ ہے
تفصیلی مضمون کے لیے قسطنطنیہ ملاحظہ کریں۔
قسطنطین اعظم مؤثر طور پر ستمبر 324ء میں پوری رومی سلطنت کا شہنشاہ بنا۔ [56] دو ماہ بعد اس نے بازنطیوم کو ایک نئے مسیحی شہر مِں تبدیل کرنے کا ایک منصوبے مرتب کیا۔ سلطنت کا مشرقی دار الحکومت ہونے کے ناطے اس شہر کا نام نیا روم (Nova Roma) رکھا گیا، لیکن زیادہ تر لوگ اسے قسطنطنیہ کہتے تھے جو نام بیسویں صدی تک برقرار رہا۔ [57] 11 مئی 330ء کو قسطنطنیہ رومی سلطنت کا دار الحکومت ہونے کا اعلان کیا گیا، جو بعد ازاں 17 جنوری 395ء کو تھیودوسیوس اول کی موت پر اس کے دونوں بیٹوں کے مابین مستقل طور پر تقسیم ہو گئی اور یہ شہر مشرقی رومی سلطنت (بازنطینی سلطنت) کا دار الحکومت بن گیا۔ [58]
قسطنطنیہ کا قیام قسطنطین اعظم کے سب سے پائیدار کارناموں میں سے ایک تھا، اس نے رومی طاقت کے مرکز کو مشرق کی طرف منتقل کیا جس سے یہ شہر یونانی ثقافت اور مسیحیت کا مرکز بن گیا۔ [58][59] ایاصوفیہ سمیت پورے شہر میں متعدد گرجا گھر تعمیر کیے گئے۔ ایاصوفیہ جو جسٹین اول کے دور میں تعمیر ہوا، ایک ہزار سال تک دنیا کا سب سے بڑا گرجا گھر رہا۔ [60] قسطنطین نے قسطنطنیہ کے گھڑ دوڑ کے میدان کی ایک بڑی تزئین و آرائش اور توسیع کا کام بھی کیا جس میں دسیوں ہزاروں شائقین کی گنجائش تھی۔ گھڑ دوڑ کے میدان شہری زندگی کا مرکز بن گیا اور پانچویں اور چھٹی صدی میں نیکا فسادات سمیت بدامنی کا مرکز بنا۔ [61][62] قسطنطنیہ کے محل وقوع نے اس کے وجود کو یقینی بنایا اور کئی صدیوں تک اس کی دیواروں اور سمندری حدود نے یورپ کو مشرقی اور مسلم حملہ آوروں کی پیش قدمی سے بچایا۔ [59] قرون وسطی کے بیشتر دور کے دوران میں جو بازنطینی عہد کا آخری حصہ تھا شہر براعظم یورپ کا سب سے بڑا اور دولت مند شہر تھا اور کئی اوقات میں یہ دنیا کا بھی سب سے بڑا شہر تھا۔ [63][64] 1025ء میں باسل دوم کے دور حکومت کے خاتمے کے بعد قسطنطنیہ کی تنزلی کا دور شروع ہوا۔ 1204ء میں چوتھی صلیبی جنگ اپنے مقصد سے ہٹا دی گئی، اور صلیبیوں نے اس شہر کو لوٹا کھسوٹا۔ [65] انہوں نے راسخ الاعتقاد بازنطینی سلطنت کی جگہ لاطینی سلطنت قائم کی۔ [66] ایاصوفیہ کو 1204ء میں کیتھولک چرچ میں تبدیل کر دیا گیا۔ 1261ء میں بازنطینی سلطنت بحال ہو گئی تاہم وہ کافی کمزور ہو چکی تھی۔ [67] قسطنطنیہ کے گرجا گھر، دفاع اور بنیادی خدمات ناکارہ ہو گئیں [68] اور آٹھویں صدی کے دوران میں اس کی آبادی نصف ملین سے کم ہو کر ایک لاکھ ہو گئی۔ [پ] تاہم 1261ء کی بحالی کے بعد اس شہر کی کچھ خدمات بحال ہو گئیں۔
آندرونیکوس دوم کی وضع کردہ متعدد معاشی اور فوجی حکمت عملیوں، جیسے فوج کی تعداد میں کمی نے سلطنت کو کمزور کیا اور اسے حملے کے خطرے سے دوچار کیا۔ [69] چودہویں صدی کے وسط میں عثمانی ترکوں نے آہستہ آہستہ چھوٹے قصبوں اور شہروں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور قسطنطنیہ کی رسد کے راستوں کو منقطع کرنے کی حکمت عملی کا آغاز کیا۔ [70] 29 مئی 1453ء کو آٹھ ہفتوں کے محاصرے کے بعد (جس کے دوران میں آخری رومی شہنشاہ قسطنطین یازدہم مارا گیا)، سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا اور اسے سلطنت عثمانیہ کا نیا دار الحکومت قرار دیا۔ شہر میں داخلے کے کئی گھنٹوں بعد سلطان ایاصوفیہ میں گیا اور ایک امام کو طلب کیا جس نے شہادت کے بعد اسے مسجد میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا کیونکہ شہر نے امن سے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا تھا۔ [71] سلطان محمد فاتح نے اپنے لیے نیا لقب "قیصرِ روم" اختیار جو رومی لقب قیصر کے برابر قرار دیا گیا، اور عثمانی ریاست کو عثمانی سلطنت میں تبدیل کر دیا گیا۔ [72]
سلطنت عثمانیہ اور ترک جمہوریہ کا دور
عثمانی دور میں شہر کی تین پینٹنگز
قسطنطنیہ کی فتح کے فوراً بعد سلطان محمد فاتح نے شہر کی بحالی کا کام شروع کیا۔ [ت] اس نے محاصرے کے دوران میں شہر سے فرار ہونے والے واپس آنے کا کہا اور اناطولیہ کے دیگر علاقوں سے مسلمانوں، یہودیوں اور مسیحیوں کو یہاں پر آباد کیا۔ اس نے حکم دیا کہ ستمبر تک پانچ ہزار گھرانوں کو قسطنطنیہ میں منتقل کیا جائے۔ [74] پوری اسلامی سلطنت سے جنگی قیدیوں اور ملک بدر لوگوں جنہیں سورگون (ترکی زبان: Sürgün; یونانی: σουργούνιδες) کہا جاتا تھا، کو شہر بھیج دیا گیا۔ [75] بہت سے لوگ شہر سے دوبارہ فرار ہو گئے اور کئی بار طاعون کی وبا پھیلی اس لیے 1459ء میں سلطان نے جلاوطن یونانیوں کو شہر میں واپس آنے کی اجازت دے دی۔ [76] اس نے پورے یورپ سے لوگوں کو دار الحکومت میں مدعو کیا جس سے ایک کثیر ثقافتی معاشرہ تشکیل پایا جو عثمانی دور کے بیشتر حصوں میں قائم رہا۔ [77]
قسطنطنیہ میں باقی صدی تک طاعون کی وبا برقرار رہی، کیونکہ یہ 1520ء کے سے بعد کچھ سالوں تک رہی، اور پھر یہ 1529ء اور 1533ء کے درمیان میں پھر سے آئی، اور پھر 1549ء اور 1552ء کے درمیان میں رہی اور اس کے بعد کچھ سال کا وقفہ ریا اور پھر سے 1567ء سے 1570ء تک یہ وبا رہی۔ وبائی امراض کا آغاز مغرب اور حجاز اور جنوبی روس میں ہوتا تھا۔ [78] اناطولیہ میں آبادی میں اضافے کی وجہ سے قسطنطنیہ کو اپنے نقصانات کی تلافی میں مدد ملی اور اس کی آبادی 1800ء تک 500،000 کے قریب برقرار رہی۔ محمد فاتح نے شہر کے تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی بحالی پر بھی کام کیا جس میں پانی کا پورا نظام والنس آبراہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ گرینڈ بازارکی تعمیر شروع کی، اور سلطان کی سرکاری رہائش گاہ توپ قاپی محل تعمیر کیا۔ [79] ادرنہ سے قسطنطنیہ میں دار الحکومت کی منتقلی کے بعد نئی ریاست کو رومی سلطنت کا جانشین اور تسلسل قرار دیا گیا۔ [80]
انیسویں صدی میں پہلا غلطہ پل
عثمانیوں نے جلد ہی اس شہر کو مسیحیت کے گڑھ سے بدل کر اسلامی ثقافت کی علامت بنا دیا۔ معماری کی شہکار شاہی مساجد کی تعمیر کے لئے مذہبی تنظیمیں قائم کی گئیں، اکثر مساجد اسکولوں، اسپتالوں اور عوامی حماموں کے ساتھ ملحق ہوتی تھیں۔ [79] 1517ء میں عثمانی خاندان خلافت کا دعوی بھی کر دیا اور قسطنطنیہ چار صدیوں تک اس آخری خلافت عثمانیہ کا دار الحکومت رہا۔ [13] سلیمان اول کا دور حکومت 1520ء سے لے کر 1566ء تک رہا اور خاص طور پر اس دور میں معمار سنان پاشا شہر میں متعدد عمارتیں تعمیر کی جو فن تعمیر اور اس کی عظیم فنکارانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جبکہ عثمانی فنوں برائےاور اسلامی خطاطی کو بھی بہت فروغ ملا۔ [81] اٹھارہویں صدی کے آخر تک قسطنطنیہ کی آبادی 570،000 نفوس پر مشتمل تھی۔ [82]
انیسویں صدی کے آغاز میں بغاوت کا ایک دور شروع ہوا اور ترقی پسند سلطان محمود ثانی کے عروج کا نتیجہ بھی بنا، اس کے نتیجے میں آخر کار دور تنظیمات کا آغاز ہوا۔ جس نے سیاسی اصلاحات کیں اور شہر میں نئی ٹکنالوجی متعارف کروانے کی اجازت دی۔ [83] اس دور میں شاخ زریں پر پل تعمیر کیے گئے، [84] اور 1880ء کی دہائی میں قسطنطنیہ باقی یورپی ریلوے نیٹ ورک سے منسلک ہو گیا۔ [85] جدید سہولیات جیسے پانی کی فراہمی کا نیٹ ورک، بجلی، ٹیلیفون اور ٹرام آہستہ آہستہ اگلے دہائیوں میں قسطنطنیہ میں متعارف کروائے گئے، گو کہ دوسرے یورپی شہروں کی نسبتاً تاخیر سے ہوئے۔ [86] تاہم جدید کاری کی کوششیں سلطنت عثمانیہ کے زوال کو ختم کرنے کے لئے کافی نہیں تھیں۔
شاخ زریں اور باسفورس کی دو فضائی تصاویر جو 19 مارچ 1918ء کو ایک جرمن زپیلین سے لی گئیں تھیں۔
سلطان عبدالحمید ثانی 1908ء کو نوجوان ترک انقلاب نے معزول کر دیا۔ مجلس عمومی (عثمانی پارلیمان) جو 14 فروری 1878ء سے بند تھی، 30 سال بعد 23 جولائی 1908ء کو دوبارہ کھول دی گئی جس نے آئینی آئین کے دوسرے دور کا آغاز کیا۔ اور عثمانی پارلیمنٹ (⎘ جنرل اسمبلی)، جو 14 فروری 1878 سے بند تھی، 30 سال بعد 23 جولائی 1908 کو دوبارہ کھول دی گئی، جس نے آئین کے دوسرے دور کا آغاز کیا۔۔[87] بیسویں صدی کے اوائل میں جنگوں کا ایک سلسلہ جیسے اطالیہ-ترک جنگ (1911ء-1912ء) ور بلقان کی جنگیں (1912ء–1913ء) جس کے نتیجے میں کمزور سلطنت کا دار الخلافہ مزید مشکلات کا شکار ہوا اور 1913ء میں عثمانی بغاوت ہوئی اور تین پاشا دور کا آغاز ہوا۔ [88]
1920ء کی دہائی کے آخر میں بینک اسٹریٹ کا ایک منظر جو 1892ء میں مکمل ہوئی، عثمانی سنٹرل بینک کا ہیڈ کوارٹر بائیں طرف دیکھا جا سکتا ہے۔ 1995ء میں استنبول اسٹاک ایکسچینج (بورسا استنبول) اسٹائن منتقل ہوگئی
سلطنت عثمانیہ نے مرکزی طاقتوں کی طرف سے پہلی جنگ عظیم (1914ء–1918ء) میں شمولیت اختیار کی اور بالآخر اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 24 اپریل 1915ء کو آرمینیائی لوگوں کی جلاوطنی ان اہم واقعات میں شامل تھی جس پہلی جنگ عظیم کے دوران میں آرمینی نسل کشی کا آغاز کا کیا تھا۔ [89] جنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے واقعات کے نتیجے میں شہر کی مسیحی آبادی 1914ء سے 1927ء کے درمیان میں 450،000 سے کم ہو کر 240،000 ہوگئی۔ [90] 30 اکتوبر 1918ء کو معاہدۂ مدروس پر دستخط ہوئے اور اتحادیوں نے 13 نومبر 1918ء کو قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا۔ عثمانی پارلیمنٹ (مجلس عمومی) 11 اپریل 1920ء کو اتحادیوں کے ذریعہ تحلیل ہو گئی اور عثمانی وفد کی سربراہی میں داماد فرید پاشا کو 10 اگست 1920ء کو معاہدہ سیورے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔
ترک جنگ آزادی (1919ء–1922ء) کے بعد انقرہ میں ترکی قومی اسمبلی نے 1 نومبر 1922ء کو سلطنت عثمانیہ کو ختم کردیا اور آخری عثمانی سلطان سلطان محمد وحید الدین کو ترکی کے لیے نا مناسب شخص قرار دے کر ملک بدر کر دیا۔ 17 نومبر 1922ء کو برطانوی بحریہ کے جنگی جہاز ملایا پر سوار ہو کر وہ جلاوطنی میں چلا گیا اور 16 مئی 1926ء کو سان ریمو، اطالیہ میں انتقال کر گیا۔ 24 جولائی 1923ء کو معاہدہ لوازن پر دستخط ہوئے اور قسطنطنیہ کا قبضہ 4 اکتوبر 1923ء کو شہر سے اتحادیوں کی آخری افواج کی روانگی کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔ [91] انقرہ حکومت کی ترک افواج 6 اکتوبر 1923ء کو ایک تقریب کے ساتھ شہر میں داخل ہوئی جس کی کمان شکرو نایلی گوکبرک کے رہے تھے۔ اس دن کو یوم آزادی استنبول (ترکی: İstanbul'un Kurtuluşu) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس کی سالگرہ پر سال منائی جاتی ہے۔ [91] 29 اکتوبر 1923ء کو ترکی قومی اسمبلی نے ترک جمہوریہ کے قیام کا اعلان کیا اور انقرہ کو اس کا دار الحکومت قرار دیا۔ مصطفٰی کمال اتاترک جمہوریہ کے پہلے صدر بنے۔ [92]
انقرہ کو 1923ء میں ترک جمہوریہ کے لئے دارالحکومت کے طور پر منتخب کیا گیا تا کہ سیکولر جمہوریہ کو عثمانی تاریخ سے دور رکھا جائے۔ [93] مؤرخ فلپ مانسل کے مطابق:
1925 میں شاہی خاندان کی رخصتی کے بعد یورپ کا سب سے بڑا بین الاقوامی شہر ہونے کے باوجود قسطنطنیہ ایک سب سے زیادہ قوم پرست بن گیا۔۔۔۔ ویانا کے برعکس قسطنطنیہ نے ماضی سے منہ موڑ لیا۔ یہاں تک کہ اس کا نام تبدیل کر دیا گیا تھا۔ قسطنطنیہ کو عثمانی اور بین الاقوامی تنظیموں کی وجہ سے خارج کردیا گیا تھا۔ 1926ء سے استنبول صرف پوسٹ آفس میں قابل قبول تھا اور یہ زیادہ تر ترک دکھائی دیتا تھا اور بیشتر ترک نے اسے استعمال کرتے تھے۔ [94]
1940ء کی دہائی کے اواخر اور 1950ء کی دہائی کے اوائل میں استنبول میں بڑی ساختی تبدیلیاں آئیں چونکہ پورے شہر میں بعض اوقات تاریخی عمارتوں کو گرا کر نئے عوامی چوکوں، بولیورڈز اور راستوں کی تعمیر کی گئی تھی۔۔[95] 1970ء کی دہائی میں استنبول کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوا، جب اناطولیہ کے لوگ شہر میں ہجرت کر کے آئے جو یہاں پر بہت ساری نئی فیکٹریوں میں ملازمت ڈھونڈ رہے تھے جو وسیع و عریض شہر کے مضافات میں تعمیر ہوئیں تھیں۔ شہر کی آبادی میں اس اچانک اور تیز اضافہ نے مکانات کی بڑی مانگ بہت زیادہ اضافہ کر دیا اور بہت سے مضافاتی دیہات اور جنگلات استنبول کے میٹروپولیٹن علاقے میں شامل ہوگئے۔ [96]
برج غلطہ سے عثمانی دور کے استنبول کا نظارہ، انیسویں صدی (نوٹس کے ساتھ تصویر)
جغرافیہ
A high concentration of fault lines in northwestern Turkey, where the Eurasian and African plates meet; a few faults and ridges also appear under the Mediterranean
مغربی ترکی میں استنبول کے بالکل جنوب مغرب میں مرکوز ایک دراڑ واقع ہے جو بحیرہ مرمرہ اور بحیرہ ایجیئن کے نیچے سے گزرتی ہے۔
Satellite image showing a thin piece of land, densely populated on the south, bisected by a waterway
استنبول کا مصنوعی سیارے سے نظارہ اور آبنائے باسفورس
استنبول شمال مغربی ترکی میں مرمرہ علاقہ میں واقع ہے جس کا کل رقبہ 5،343 مربع کلومیٹر (2،063 مربع میل) ہے۔ [ب] بحیرہ مرمرہ کو بحیرہ اسود سے جوڑنے والی آبنائے باسفورس اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے جس میں تاریخی اور معاشی مرکز پر مشتمل یورپی حصہ تھریس، اور ایک ایشیائی حصہ اناطولیہ شامل ہیں۔ اس شہر کو مزید شاخ زریں بھی تقسیم کرتا ہے، جو جزیرہ نما کے ساتھ منسلک ایک قدرتی بندرگاہ جہاں سابقہ بازنطیوم اور قسطنطنیہ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ بحیرہ مرمرہ، باسفورس اور شاخ زریں کا سنگم موجودہ استنبول کے مرکز میں ہزاروں سالوں سے افواج کو اس پر حملہ کرنے سے روکتا رہا اور اب یہ شہر کے مناظر کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ [59]
روم کے ماڈل کے طرز پر یہ تاریخی جزیرہ نما سات پہاڑیوں کی خصوصیات والا کہا جاتا ہے جس میں ہر ایک پر ایک شاہی مسجد موجود ہے۔ ان پہاڑیوں کے مشرقی ترین حصے سرائے بورنو پر توپ قاپی محل واقع ہے۔ [101] شاخ زریں کی مخالف سمت میں ایک اور مخروطی پہاڑی ہے جہاں جدید بےاوغلو ضلع واقع ہے۔ مقامی جغرافیہ کی مناسبت سے بےاوغلو پر عمارتیں سیڑھی دار طرز پر بنی ہیں اور سڑکیں بھی مرحلہ وار بنائی گئی ہیں۔ [102] ایشیائی طرف میں واقع اسکودار بھی اسی طرح کی پہاڑی خصوصیات رکھتا ہے۔ خطہ بتدریج بلندی کم کرتے ہوئے باسفورس کے ساحل کے ساتھ جا ملتا ہے، لیکن شمسی پاشا اور ایازما یک لخت اٹھے ہوئے ہیں اور ایک کوہی راس بناتے ہیں۔ استنبول کا سب سے اونچا نقطہ چاملیجا پہاڑی ہے، جس کی اونچائی 288 میٹر (945 فٹ) ہے۔ [102] استنبول کا شمالی نصف حصہ جنوبی ساحلی حصے کے مقابلے میں اسطً زیادہ بلندی ہے، جس میں کچھ مقامات 200 میٹر (660 فٹ) تک بلند ہیں، اور اس کی ڈھلوانی چٹٹانیں چٹانی کھاڑی کی مشابہت رکھتی ہیں، خاص طور پر باسفورس کے شمالی سرے کے آس پاس جہاں یہ بحیرہ اسود سے ملتی ہے۔
استنبول شمالی اناطولیائی دراڑ کے قریب واقع ہے جو افریقی اور یوریشائی ساختمانی تختیوں کے درمیان میں حدود کے قریب ہے۔ یہ رخنہ زون جو شمالی اناطولیہ سے بحیرہ مرمرہ تک جاتا ہے شہر کی تاریخ کے متعدد مہلک زلزلوں کا ذمہ دار رہا ہے۔ ان زلزلوں میں سب سے تباہ کن 1509ء کا زلزلہ تھا جس کی وجہ سے سونامی آیا جس نے شہر کی دیواریں توڑ دیں اور 10،000 سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا۔ ابھی حال ہی میں 1999ء میں قریبی شہر ازمیت کے قریب واقع مرکز زلزلہ سے آنے والے زلزلے کے نتیجے میں 18،000 افراد ہلاک ہوئے اس میں استنبول کے نواحی علاقوں کے ایک ہزار افراد بھی شامل ہیں۔ استنبول کے لوگوں کو یہ تشویش بھی لاحق ہے کہ مستقبل قریب میں شہر میں اس سے بھی زیادہ تباہ کن زلزلے ثابت سکتے ہیں۔ کیونکہ حال ہی میں استنبول کی تیزی سے بڑھتی آبادی کو ایڈجسٹ کرنے کے لئے تعمیر کیے گئے ہزاروں ڈھانچے درست معیار پر تعمیر نہیں ہو سکے ہیں۔ [103] ماہرین زلزلیات کہتے ہیں کہ استنبول کو 2030ء کے قریب ایک 7.6 شدت یا اس سے زیادہ کے زلزلے کے خطرے کا امکان 60 فیصد سے زیادہ ہے۔ [104][105]
آب و ہوا
Skyscrapers, both near and far, soar above a dense layer of fog that keeps the ground hidden from view.
لیوینٹ نے صبح کے وقت اکثر اس طرح کی دھند کا لبادہ اوڑھا ہوتا ہے۔
کوپن موسمی زمرہ بندی کے مطابق استنبول کی مائکرو آب و ہوا
کوپن موسمی زمرہ بندی کے مطابق استنبول کی آب و ہوا بحیرہ روم کی آب و ہوا کی سرحد پر ہے، ایک مرطوب آب و ہوا اور سمندری آب و ہوا، ایک عبوری موسمی زون میں اس کے مقام کی وجہ سے ہے۔ چونکہ گرمی کے مہینوں میں بارش 20 سے 65 ملی میٹر (1 سے 3 انچ) تک ہوتی ہے، اس لیے مقام کے لحاظ سے اس شہر کو صرف بحیرہ روم یا مرطوب آب و ہوا کے درجہ میں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ [106][107][108] اس کی جسامت کی وجہ سے متنوع ٹپوگرافی، سمندری مقام اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ شمال اور جنوب میں دو مختلف پانیوں کے ساحل کا خطہ ہونے کی وجہ سے استنبول خرد آب و ہوا کی نمائندگی کرتا ہے۔ شہر کے شمالی نصف حصے کے ساتھ ساتھ باسفورس کے ساحل، سمندری اور مرطوب نیم استوائی موسم کی خصوصیات کا اظہار ہے، کیونکہ بحیرہ اسود اور پودوں کی نسبتا زیادہ ارتکاز سے نمی کا تناسب زیادہ ہے۔ بحیرہ مرمرہ پر جنوب کی طرف شہر کے آبادی والے علاقوں میں آب و ہوا گرم، خشک اور نمی سے کم متاثر ہے۔ [109] شمالی نصف حصے میں سالانہ بارش دگنا ہوسکتی ہے (باہچےکوئے، 1166.6 ملی میٹر)، بمقابلہ مرمرہ ساحلی علاقہ (فلوریہ 635.0 ملی میٹر)۔ [110] شمالی اور جنوبی ساحلوں پر سالانہ اوسط درجہ حرارت میں بھی بہت زیادہ فرق ہے، باہچےکوئے 12.8 ° س (55.0 ° ف)، کرتال 15.03 ° س (59.05 ° ف) [111] صوبے کے وہ حصے جو دونوں سمندری علاقوں سے دور ہیں براعظم کے اثر و رسوخ کی نمائش کرتے ہیں، جہاں رات اور دن اور موسم گرما اور موسم سرما میں درجہ حرارت کا زیادہ فرق ہوتا ہے۔ سردیوں کے موسم میں صوبے کے کچھ حصے رات کے وقت اوسطا نقطۂ انجماد یا اس سے بھی نیچے رہتے ہیں۔
استنبول کی مستقل طور پر زیادہ نمی جو صبح 80 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ [112] اس کی وجہ سے دھند بہت عام ہے، حالانکہ شہر کے شمالی علاقوں اور شہر کے مرکز میں کم ہے۔ [109] گھنی دھند کے باعث باسفورس سمیت اس خطے میں آمدورفت میں خلل پڑتا ہے، یہ موسم خزاں اور سردیوں کے مہینوں میں عام ہے جب نمی دوپہر تک زیادہ رہتی ہے۔ [113][114][115] گرمی کے مہینوں میں مرطوب آب و ہوا اور دھند کی لہر دوپہر تک ختم ہوجاتی ہے، لیکن درجہ حرارت معمولی حد تک بڑھ جاتا ہے۔ [112][116] گرمی کے ان مہینوں میں اعلیٰ درجہ حرارت اوسطا 29 ° س (84 ° ف) اور بارش غیر معمولی بات ہے۔ جون اور اگست کے درمیان میں بارش والے دن صرف پندرہ تک ہوتے ہیں۔ [117] گرمیوں کے مہینوں میں گرج چمک سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ [118]
استنبول میں بحیرہ روم طاس کے آس پاس کے بیشتر دوسرے شہروں کی نسبت سردیوں کا موسم زیادہ سرد ہے، کم درجہ حرارت اوسطا 1–4 ° س (34–39 ° ف) تک رہتا ہے۔ [117] بحیرہ اسود سے جھیل کا اثر برف عام ہے، اگرچہ اس کی پیشن گوئی کرنا مشکل ہے، لیکن اس کے علاوہ شہر کے بنیادی ڈھانچے میں خلل اور دھند کی وجہ سے بھی درہم برہم ہوسکتی ہے۔ [119] موسم بہار اور خزاں درجہ حرارت کم ہوتا ہے، لیکن اکثر گیلے اور غیر متوقع ہیں۔ شمال مغرب سے چلنے والی سرد ہواؤں اور جنوب سے گرم مرغولوں سے — بعض اوقات ایک ہی دن میں، درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ کا سبب بنتا ہے۔ [116][120] مجموعی طور پر استنبول کی سالانہ اوسطا 130 دن بارش کے دنوں کی اوسط کے ساتھ ہے، جو سالانہ 810 ملی میٹر (31.9 انچ) تک ہوتی ہے۔ [117][121] مرمرہ ساحل پر واقع شہر کے وسط میں اب تک کا سب سے زیادہ اور کم درجہ حرارت 40.5 ° س (105 ° ف) اور۔116.1 ° س (3 ° ف) درج ہے۔ ایک دن میں ریکارڈ کی جانے والی سب سے زیادہ بارش 227 ملی میٹر (8.9 انچ) اور سب سے زیادہ برفباری کا 80 سینٹی میٹر ہے (31 انچ) ہے۔ [122][123]
آب ہوا معلومات برائے استنبول(سارییر)، 1929–2017
مہینا جنوری فروری مارچ اپریل مئی جون جولائی اگست ستمبر اکتوبر نومبر دسمبر سال
بلند ترین °س (°ف) 22.0
(71.6) 24.7
(76.5) 29.3
(84.7) 33.6
(92.5) 34.5
(94.1) 40.2
(104.4) 41.5
(106.7) 40.5
(104.9) 39.5
(103.1) 34.2
(93.6) 27.8
(82) 25.5
(77.9) 41.5
(106.7)
اوسط بلند °س (°ف) 8.4
(47.1) 9.0
(48.2) 10.9
(51.6) 15.4
(59.7) 20.0
(68) 24.6
(76.3) 26.6
(79.9) 26.8
(80.2) 23.7
(74.7) 19.1
(66.4) 14.8
(58.6) 10.8
(51.4) 17.5
(63.5)
یومیہ اوسط °س (°ف) 6.0
(42.8) 6.1
(43) 7.7
(45.9) 12.0
(53.6) 16.7
(62.1) 21.4
(70.5) 23.8
(74.8) 23.8
(74.8) 20.1
(68.2) 15.7
(60.3) 11.7
(53.1) 8.3
(46.9) 14.4
(57.9)
اوسط کم °س (°ف) 3.1
(37.6) 3.1
(37.6) 4.2
(39.6) 7.6
(45.7) 12.1
(53.8) 16.5
(61.7) 19.4
(66.9) 20.1
(68.2) 16.8
(62.2) 12.9
(55.2) 8.9
(48) 5.5
(41.9) 10.8
(51.4)
ریکارڈ کم °س (°ف) −13.9
(7) −16.1
(3) −11.1
(12) −2.0
(28.4) 1.4
(34.5) 7.1
(44.8) 10.5
(50.9) 10.2
(50.4) 6.0
(42.8) 0.6
(33.1) −7.2
(19) −11.5
(11.3) −16.1
(3)
اوسط عمل ترسیب مم (انچ) 106.0
(4.173) 77.7
(3.059) 71.4
(2.811) 45.9
(1.807) 34.4
(1.354) 36.0
(1.417) 33.3
(1.311) 39.9
(1.571) 61.7
(2.429) 88.0
(3.465) 100.9
(3.972) 122.2
(4.811) 817.4
(32.181)
اوسط عمل ترسیب ایام (≥ 0.1 mm) 17.3 15.2 13.8 10.3 8.0 6.2 4.3 5.0 7.6 11.2 13.0 17.1 129.0
ماہانہ اوسط دھوپ ساعات 89.9 101.7 142.6 195.0 272.8 318.0 356.5 328.6 246.0 176.7 120.0 83.7 2,431.5
اوسط روزانہ دھوپ ساعات 2.9 3.6 4.6 6.5 8.8 10.6 11.5 10.6 8.2 5.7 4.0 2.7 6.64
ماخذ: ترکی ریاستی موسمیاتی خدمت[124] and Weather Atlas[125]
آب ہوا معلومات برائے استنبول (کیریچبورنو، سارییر)، 1949–1999
آب ہوا معلومات برائے استنبول (باہچےکوئے، سارییر)، 1949–1999
استنبول کے آب و ہوا کے اعداد و شمار
مہینا Jan Feb Mar Apr May Jun Jul Aug Sep Oct Nov Dec Year
اوسط سمندری درجہ حرارت °س (°ف) 8.4
(47.1) 7.7
(45.9) 8.3
(46.9) 10.2
(50.4) 15.5
(59.9) 21.3
(70.3) 24.6
(76.3) 24.9
(76.8) 22.8
(73.0) 18.4
(65.1) 13.8
(56.8) 10.5
(50.9) 15.5
(60.0)
مطلب روزانہ کی روشنی کے اوقات 10.0 11.0 12.0 13.0 14.0 15.0 15.0 14.0 12.0 11.0 10.0 9.0 12.2
ماخذ: Weather Atlas [125]
موسمیاتی تبدیلی
ترکی میں عالمی حرارت گرمی کی لہر، [128] خشک سالی، [129] طوفان، [130] اور سیلاب [131][132] کا سبب بن سکتا ہے۔ سطح سمندر میں اضافے سے شہر کے ڈھانچے کو متاثر ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے، مثال کے طور پر قاضی کوئے میٹرو اسٹیشن کو سیلاب کا خطرہ ہے۔ [133] سبز خالی جگہوں پر زیرسکیپنگ کا مشورہ دیا گیا ہے، [134] اور استنبول کا ایک آب و ہوا میں تبدیلی کا ایکشن پلان بھی ہے۔ [135]
شہر کا نظارہ
شاخ زریں سے توپ قاپی محل کا نظارہ، پس منظر میں جزائر پرنس
تفصیلی مضامین کے لیے استنبول کے تاریخی علاقے اور استنبول کے شہری مراکز کی فہرست ملاحظہ کریں۔
ضلع فاتح جس کا نام سلطان محمد فاتح کے نام پر رکھا گیا تھا 1453ء میں عثمانی فتح کردہ علاقے سے مطابقت رکھتا تھا قسطنطنیہ (آج دار الحکومت ضلع ہے اور اسے استنبول کا تاریخی جزیرہ نما کہا جاتا ہے) کا پورا شہر شاخ زریں کے جنوبی کنارے پر قرون وسطی کے جینوا کے قلعہ کے شمالی ساحل تک تھا۔ شہر کے شمال کی طرف توسیع کے لیے برج غلطہ کو چھوڑ کر غلطہ میں جینوائی قلعے بڑے پیمانے پر انیسویں صدی میں مسمار کر دیئے گئے تھے۔ [136] موجودہ دور میں غلطہ (قرہ کوئے) ضلع بےاوغلو میں موجود ہے جو استنبول کا تجارتی اور تفریحی مرکز ہے اور اس میں استقلال ایونیو اور تقسیم چوک بھی شامل ہیں۔ [137]
آبنائے باسفورس کے کنارے ضلع بیشکتاش میں دولماباغچہ محل عثمانیہ دور میں حکومت کی نشست تھی۔ باب عالی جو عثمانی حکومت کے لئے ایک مجازی لفظ بن گیا تھا اصل میں توپ قاپی محل کے سب سے بیرونی صحن میں شاہی دروازہ (باب ہمایوں) کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن اٹھارہویں صدی کے بعد یہ توپ قاپی محل کے قریب قرہ اوغلو حصے میں صدر اعظم (وزیر اعظم) کمپاؤنڈ کے دروازہ تسلیم کیا جاتا تھا، جہاں صدر اعظم اور دیگر وزیروں کے دفاتر تھے، اور جہاں غیر ملکی سفارت کاروں کا استقبال کیا جاتا تھا۔ اورتاکوئے کا سابقہ گاؤں بیشکتاش کے اندر ہے اور آبنائے باسفورس پر باسفورس پل کے نردیک واقع اورتاکوئے مسجد اسی کے نام پر ہے باسفورس کے دونوں یورپی اور ایشیائی کناروں پر قطار در قطار کھڑی پرتعیش عمارتیں اور تاریخی حویلیاں عثمانی اشرافیہ نے گرمیوں کے گھروں کے طور پر تعمیر کیں تھیں۔ [138] اس شہر کی اندرونی رنگ روڈ سے باہر استنبول کے اہم کاروباری اضلاع لیوینٹ اور ماسلک ہیں۔ [139]
اصل میں شہر سے باہر، باسفورس کے ساتھ رہائش گاہیں اب استنبول کے کچھ اشرافیہ کے گھر ہیں۔
قرہ کوئے کے عمارتوں کا نظارہ، پس منظر میں برج غلطہ
عثمانی دور میں اسکودار اور قاضی کوئے شہری علاقے کے دائرہ کار سے باہر تھے جہاں سمندر کے کنارے حویلیاں، باغات اور حفاظتی چوکیاں موجود تھیں۔ لیکن بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں ایشیائی طرف کو بڑی شرح پر شہری ترقی کا سامنا تھا۔ قدیم رہائشی علاقوں کے مقابلے میں شہر کے اس حصے کی دیر سے ترقی اور بہتر انفراسٹرکچر اور صاف شہری منصوبہ بندی حاصل ہوئی۔ [10] باسفورس کے بیشتر ایشیائی حصے یورپی استنبول میں اقتصادی اور تجارتی مراکز کے مضافاتی علاقے ہیں، جہاں ان کے روزگار کا صرف ایک چوتھائی حصہ لیکن شہر کی آبادی کا ایک تہائی حصہ ہے۔ [10] بیسویں صدی میں استنبول کی نمایاں نمو کے نتیجے میں شہر کا ایک اہم حصہ گیچیکوندو (لفظی معنی "راتوں رات بنا ہوا") پر مشتمل ہے، غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ عمارتوں کا حوالہ دیتا ہے۔ [140] موجودہ دور میں کچھ گیچیکوندو علاقوں کو آہستہ آہستہ مسمار کیا جارہا ہے اور اس کی جگہ جدید بڑے رہائشی منصوبے تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ [141] مزید یہ کہ بڑے پیمانے پر نئے اور شہری تجدید منصوبے ہو رہے ہیں، [142] جیسا کہ تارلاباشی میں منصوبہ [143] اس طرح کے منصوبوں میں سے ایک ہے۔ جبکہ سولوکولے میں منصوبے کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ [144] شہر کے تیسرے ہوائی اڈے استنبول ہوائی اڈے کے منصوبے کے ساتھ ترکی حکومت شہر کے یورپی طرف مغرب اور شمال کی طرف وسعت کے متمنی منصوبے بنا رہی ہے۔ شہر کے نئے حصوں میں چار مختلف بستیاں شامل ہوں گی جن میں مخصوص شہری کام اور 1.5 ملین افراد کی رہائش ہو گی۔ [145]
تقسیم گیزی پارک
استنبول میں کوئی بنیادی شہری پارک نہیں، لیکن اس میں متعدد سبز علاقے موجود ہیں۔ گل خانہ پارک اور یلدز پارک اصل میں استنبول کے دو محلات توپ قاپی محل اور یلدز محل کے میدان میں شامل تھے لیکن انہیں جمہوریہ ترکی کے ابتدائی عشروں میں عوامی پارکوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ [146] ایک اور پارک فتحی پاشا کوروسو اناطولیہ میں باسفورس پل سے متصل ایک پہاڑی پر واقع ہے جو یورپی طرف یلدز محل کے بالمقابل ہے۔ یورپی طرف اور فاتح سلطان محمد پل کے قریب امیرگان پارک ہے جو بازنطینی دور کے دوران میں کیپرادیس (سائپرس جنگل) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ سولہویں صدی میں عثمانی دور میں اسے پہلی بار نشانجی فریدون احمد بے کو عطا کیا گیا، جبکہ بعد میں سترہویں صدی میں سلطان مراد رابع نے اسے صفوی امیر گونے خان کو عطا کیا اور تب سے اس کا نام امیرگان ہے۔ 47 ہیکٹر (120 ایکڑ) کا ایک پارک انیسویں صدی میں خديويت مصر کے خدیو اسماعیل پاشا کی ملکیت تھا۔ امیرگان پارک اپنے پودوں کی تنوع کے لئے جانا جاتا ہے اور یہاں 2005ء سے سالانہ گل لالہ کا میلہ بھی لگایا جاتا ہے۔ [147] جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی حکومت کا یہ فیصلہ کہ تقسیم گیزی پارک کی جگہ عثمانی دور کی تقسیم فوجی بیرکس کی نقل تیار کرنے کے منصوبے نے (جو 1921ء میں گیزی پارک کی تعمیر کے لئے منہدم ہونے سے پہلے، 1921ء میں تقمیم اسٹیڈیم میں تبدیل ہوگیا تھا) 2013ء میں ملک گیر مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع کیا جس میں مختلف امور کا احاطہ کیا گیا تھا۔ استنبول کے شہریوں کے لیے موسم گرما کے دوران مقبول بلغراد جنگل ہے، جو شہر کے شمالی کنارے پر 5،500 ہیکٹر (14،000 ایکڑ) پر پھیلا ہوا ہے۔ جنگل اصل میں اس شہر کو پانی فراہم کرتا تھا۔ بازنطینی اور عثمانی دور کے دوران میں استعمال ہونے والے ذخائر کی باقیات یہاں موجود ہیں۔ [148][149]
استنبول کی ایک وسیع تصویر جس میں آبنائے باسفورس، بحیرہ مرمرہ اور شہر کے کئی اہم مقامات جیسے سلطان احمد مسجد، آیا صوفیہ، توپ قاپی محل اور دولماباغچہ محل بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
مضافات شہر اور (دفاتر اور خوردہ اضلاع)
لیوینٹ کی عمارتوں کا آبنائے باسفورس سے نظارہ
مسلاک ضلع (2007ء)
لیوینٹ کی عمارتیں (2013ء) اور پس منظر میں استنبول سفیر
عطا شہر ضلع
شہر کے مضافات میں جدید شاپنگ مالز، گھنے رہائشی اور ہوٹلوں کے برج اور تفریحی، تعلیمی اور دیگر سہولیات تاریخی مرکز کے باہر پائی جاسکتی ہیں۔ [150]
تقسیم بے اوغلو:
تقسیم چوک بےاوغلو میں
شیشلی نشان تاشی میں [150]
مرکزی کاروباری ضلع
بارباروس بولیورڈ
بیوکدیر ایونیو
بیشکتاش ضلع میں:
بالمومجو
گائرے تپہ
اتیلار بشمول بوغازچی یونیورسٹی
شیشلی ضلع میں:
فولیا
استان تپہ بشمول زنجیرلی کویو اور زورلو سینٹر
لیوینٹ ضلع میں:
میٹرو سٹی
اوزدیلیک پارک
کانیون
استنبول سفیر
سارییر ضلع میں:
ماسلک بشمول استنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی
وادی استنبول
استنبول اتاترک ہوائی اڈا
ایشیائی طرف:
قاضی کوئے میں کوزیاتاغی
اسکودار میں التونی زادہ اور کیپیٹل شاپنگ سینٹر[150]
بیکوز میں کاویجک [150]
عمرانیہ ضلع[150]
عطا شہر ضلع[150]
فن تعمیر
A reddish building topped by a large dome and surrounded by smaller domes and four towers
اصل میں ایک چرچ، بعد میں ایک مسجد، اور 1935 کے بعد سے ایک میوزیم، چھٹی صدی کا آیا صوفیہ (532ء–537ء) بازنطینی شہنشاہ جسٹینین اول نے بنوایا تھا۔ یہ تقریباً ایک ہزار سال تک دنیا کا سب سے بڑا گرجا تھا، جب تک کہ ہسپانیہ میں اشبلیہ کتھیڈرل (1507ء) نہیں بنا تھا۔
عبد المجید اول اور عبد العزیز اول کے انیسویں صدی میں تیار کردہ دولماباغچہ محل، چراغاں محل اور بےلربیئی محل استنبول کے یورپی اور ایشیائی ساحلوں پر محلات آبنائے باسفورس کے کنارے پر واقع ہیں۔[151]
1616 میں مکمل ہونے والی سلطان احمد مسجد کو عام طور پر "نیلی مسجد" کہا جاتا یت۔[152]
استنبول بنیادی طور پر اپنے بازنطینی اور عثمانی فن تعمیر کے لئے جانا جاتا ہے لیکن اس کی عمارتیں مختلف اقوام اور سلطنتوں کی عکاسی کرتی ہیں جنہوں نے اس شہر پر حکمرانی کی ہے۔ جینوائی اور رومی فن تعمیر کی مثالیں استنبول میں اپنے عثمانی ہم منصبوں کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں۔ کلاسیکی یونانی دور کی کوئی تعمیر باقی نہیں بچی، لیکن رومی فن تعمیر زیادہ پائیدار ثابت ہوا ہے۔ قسطنطنیہ کا گھڑ دوڑ کے میدان میں تھیودوسیوس اول کا بنایا گیا ستون سلطان احمد چوک سے اب بھی نظر آتا ہے اور چوتھی صدی کے آخر میں تعمیر کی جانے والی والنس آبراہ کا ایک حصہ ضلع فاتح کے مغربی کنارے پر نسبتا برقرار کھڑا ہے۔ [153] قسطنطین کا ستون جو رومی شہنشاہ قسطنطین اعظم کے حکم پر 330ء میں تعمیر کیا گیا ایک رومی یادگار ستون ہے۔ یہ بازنطیوم کے رومی سلطنت کے نئے دار الحکومت کے طور پر (قسطنطین اعظم نے اس کا نام بدل کر نووا روما (نیا روم) کے اعلان کی یادگار ہے۔ یہ قسطنطنیہ کا گھڑ دوڑ کا میدان کے قریب ہی واقع ہے۔ [153]
ابتدائی بازنطینی تعمیرات میں گنبدوں اور محرابوں والے کلاسیکی رومی ماڈل کی پیروی کیم لیکن ان عناصر پر بہتری آئی، جیسا کہ ایا صوفیہ اصغر میں فرق صاف ظاہر ہے۔ استنبول کا سب سے قدیم بچ جانے والا بازنطینی گرجا گھر، کھنڈروں میں بنایا گیا استودیوس کی خانقاہ ہے جو 454ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ 1261ء میں قسطنطنیہ پر دابارہ قبضہ کرنے کے بعد، بازنطینیوں نے موجودہ دو اہم ترین گرجا گھروں خورا گرجا گھر اور پاماکاریستوس گرجا گھر کی توسیع کی۔ بازنطینی فن تعمیر کی سب سے عمارت اور استنبول کے سب سے نمایاں ڈھانچوں میں سے ایک آیا صوفیہ ہے۔ اس کے مرکزی گنبد کا قطر 31 میٹر (102 فٹ) کا ہے۔ [154] آیا صوفیہ صدیوں تک دنیا کے سب سے بڑے گرجا گھر کی حیثیت سے برقرار ریا اور بعد میں اسے ایک مسجد میں تبدیل کردیا گیا، تاہم اب یہ ایک عجائب گھر ہے۔ [60]
استنبول میں عثمانی فن تعمیر کی سب سے قدیم بچ جانے والی مثالوں میں انادولو حصاری اور قلعہ روملی حصار شامل ہیں جنہوں نے شہر کے محاصرے کے دوران میں عثمانیوں کی مدد کی۔ [155] اگلی چار صدیوں کے دوران میں عثمانیوں نے استنبول میں عثمانی فن تعمیر کے کئی انمٹ نقوش چھوڑے، بڑی مساجد اور دیدہ زیب محلات بنائے۔ سب سے بڑا محل توپ قاپی فن تعمیر کی ایک متنوع مثال ہے، حرم کے اندر باروکی سے لے کر اس کے جدید کلاسیکل طرز تعمیر کا اندرون مکتب۔ [156] شاہی مساجد میں فاتح مسجد، بایزید دوم مسجد، یاوز سلیم مسجد، جامع سلیمانیہ، سلطان احمد مسجد (نیلی مسجد) اور ینی مسجد شامل ہیں۔ یہ سب سولہویں صدی اور سترہویں صدی میں سلطنت عثمانیہ کے عروج کے دور میں تعمیر ہوئیں تھیں۔ اگلی صدیوں میں اور خاص طور پر دور تنظیمات کی اصلاحات کے بعد عثمانی فن تعمیر کو یورپی طرز کے ذریعہ سرانجام دیا گیا۔ [157] اس کی ایک مثال شاہی نورعثمانیہ مسجد ہے۔ استقلال ایونیو کے آس پاس کے علاقوں میں جدید کلاسیکل طرز کے عظیم الشان یورپی سفارت خانوں اور عمارتوں کی قطاریں بھری ہوئی تھیں اس کی ایک عمدہ مثال دولماباغچہ محل ہے۔ [158]
انتظامیہ
استنبول کے اضلاع
تفصیلی مضمون کے لیے استنبول کے اضلاع کی فہرست ملاحظہ کریں۔
2004ء کے بعد سے استنبول کی بلدیاتی حدود اس کے صوبے کی حدود کے موافق ہیں۔ [159] یہ شہر جو استنبول صوبہ کا دارالحکومت سمجھا جاتا ہے، کا انتظام استنبول میٹروپولیٹن بلدیہ (ایم ایم آئی) کے زیر انتظام ہے، جو شہر-صوبے کے 39 اضلاع کا انتظام کرتا ہے۔ [ب]
جزائر پرنس
ارناوتکوئے
عطا شہر
اوجیلار
باغجیلار
باغچہ لیولر
باقر کوئے
باشاک شہر
بیرم پاشا
بیشکتاش
بیکوز
بیلیک دوزو
بےاوغلو
بویوک چکمہجے
چاتالجا
چکمہ کوئے
اسنلر
اسنیورت
ضلع ایوب
ضلع فاتح
غازی عثمان پاشا
گونگورن
قاضی کوئے
کاغذ خانہ
کارتال
کوچک چکمہجے
مال تپہ
پندیک
سنجاق تپہ
سارییر
سیلیوری
سلطان بے لی
سلطان غازی
شیلے
شیشلی
توزلا
عمرانیہ
اسکودار
زیتین بورنو
موجودہ شہر کا ڈھانچہ انیسویں صدی میں تنظیمات کی اصلاحی دور سے ملتا ہے جس سے قبل قاضی اور امام صدر اعظم کی قیادت میں شہر کا انتظام سنبھالتے تھے۔ فرانسیسی شہروں کے نمونے پر اس مذہبی نظام کی جگہ ایک میئر اور شہر کے نمائندوں پر مشتمل (ملت) ایک شہر گیر کونسل شہر کا انتظام سنبھالتے تھے۔
آبادیات
تاریخی آبادی
قبل جمہوریہ
سال آبادی
100 36,000
361 300,000
500 400,000
7th c. 150–350,000
8th c. 125–500,000
9th c. 50–250,000
1000 150–300,000
1100 200,000
1200 150,000
1261 100,000
1350 80,000
1453 45,000
1500 200,000
1550 660,000
1700 700,000
1815 500,000
1860 715,000
1890 874,000
1900 942,900
جمہوریہ
سال آبادی ±% پی.اے.
1925 881,000 —
1927 691,000 −11.44%
1935 740,800 +0.87%
1940 793,900 +1.39%
1945 845,300 +1.26%
1950 983,000 +3.06%
1960 1,459,500 +4.03%
1965 1,743,000 +3.61%
1970 2,132,400 +4.12%
1975 2,547,400 +3.62%
1980 2,853,500 +2.30%
1985 5,494,900 +14.00%
1990 6,620,200 +3.80%
1994 7,615,500 +3.56%
1997 8,260,400 +2.75%
2000 8,831,800 +2.25%
2007 11,174,200 +3.42%
2015 14,657,434 +3.45%
مآخذ: Jan Lahmeyer 2004آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ populstat.info (Error: unknown archive URL)، Chandler 1987، Morris 2010، Turan 2010
جمہوریہ سے پہلے کے اعداد وشمار[پ]
1975 اور 2011 میں استنبول میں شہری علاقوں کی جسامت (سرمئی زون کے طور پر اشارہ کیا گیا ہے) موازنہ کیے گئے دو نقشے
1930ء کی دہائی میں استنبول میں قرہ کوئے میں مسافر فیری سے سفر کرتے لوگ
اپنی پوری تاریخ میں استنبول دنیا کے سب سے بڑے شہروں میں شامل رہا ہے۔ 500 عیسوی تک قسطنطنیہ میں 400،000 سے 500،000 افراد آباد تھے۔ اپنے پیشرو دنیا کے سب سے بڑے شہر روم سے بھی بڑھ کر۔ [161]
قسطنطنیہ دوسرے ہم عصر بڑے تاریخی شہروں مثلاً بغداد، چانگ آن، کائفینگ اور مرو کے مقابلے میں بارہویں صدی تک اپنی حیثیت برقرار رکھی۔ اس کے بعد یہ کبھی بھی دنیا کا سب سے بڑا شہر نہیں رہا، لیکن 1500ء سے 1750ء تک جب اسے لندن نے پیچھے چھوڑ دیا، یہ یورپ کا سب سے بڑا شہر رہا۔ [162]
ترک شماریاتی ادارے کے اندازے کے مطابق 2014ء کے آخر میں استنبول میٹروپولیٹن بلدیہ کی آبادی 14،377،019 تھی، جو ملک کی کل آبادی کا 19 فیصد ہے۔ [3] تب میٹروپولیٹن بلدیہ کے تقریباً 97–98٪ رہائشی شہر کی حدود میں تھے، 2007ء میں 89٪ تک، [163] اور 1980ء میں یہ صرف 61٪ رہ گئے۔ [164] 64.9% رہائشی یورپی طرف اور 35.1% ایشیائی طرف رہتے ہیں۔ [165] یہ شہر دنیا کا پانچواں سب سے بڑے اصل شہر ہے، یہ شہری علاقے کے طور پر چوبیسویں مقام پر آتا ہے اور اور میٹرو ایریا کے طور پر یہ اٹھارہویں مقام پر ہے کیونکہ شہر کی حدود تقریباً برابر ہیں۔ آج یہ یورپ کے سب سے بڑی شہری جمعیت میں ماسکو کے ساتھ شامل ہے۔ [ٹ] انجمن اقتصادی تعاون و ترقی کے بطابق یہ3.45 فیصد شہر کی سالانہ آبادی میں اضافہ سے دنیا میں اٹھترویں مقام پر ہے۔ اعلیٰ آبادی میں اضافے کے باعث یہ ملک بھر میں شہریت کے رجحان کا آئینہ دار ہے، کیونکہ دوسرے اور تیسرے تیزی سے ترقی کرنے والی او ای سی ڈی میٹروپولیٹن میں ازمیر اور انقرہ شامل ہیں۔ [19]
شارع استقلال ہفتے کے اختتام کے دنوں میں تقریباً تین ملین افراد آتے ہیں۔
بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے کے دوران میں استنبول نے خاص طور پر آبادی میں تیز رفتار ترقی سامنا کیا، اور اس کی آبادی 1950ء سے 2000ء کے درمیان میں اس کی آبادی دس گنا بڑھ گئی ہے۔ [15] آبادی میں یہ اضافہ جزوی طور پر شہر کی حدود میں توسیع سے ہوا، خاص طور پر 1980ء اور 1985ء کے درمیان میں جب استنبول کی آبادی تقریباً دگنی ہو گئی۔ [98] غیر معمولی نمو کے باوجود مشرقی ترکی سے آنے والے تارکین وطن کو روزگار کے حصول اور رہائشی حالات میں مزید بہتری آئی۔ سات شمالی اور مشرقی صوبوں سے آنے والے استنبول کے رہائشیوں کی تعداد ان کے پورے متعلقہ صوبوں کی آبادی سے زیادہ ہے، صوبہ سیواس اور صوبہ کاستامونو ہر ایک سے استنبول میں نصف ملین سے زیادہ باشندے موجود ہیں۔ [16] استنبول کی غیر ملکی آبادی نسبتاً بہت کم ہے، 2007ء میں یہ42،228 رہائشیوں پر مشتمل تھی۔ [168] شہر کے صرف 28 فیصد رہائشی اصل استنبول کے ہیں۔ [169] انتہائی گنجان آباد علاقوں میں یورپی طرف شمال مغرب، مغرب اور شہر کا مرکز ہے۔ ایشیائی طرف سب سے زیادہ گنجان آباد ضلع اسکودار ہے۔ [16]
مذہبی اور نسلی گروہ
استنبول اپنی پوری تاریخ میں ایک کثیر ثقافتی شہر رہا ہے لیکن سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سے یہ مزید یکجا ہو گیا ہے۔
اسلام
2019ء میں استنبول بننے والی چاملیجا مسجد ترکی کی سب سے بڑی مسجد ہے۔
ترکی اور استنبول میں لوگوں کی اکثریت مسلمان ہے اور خاص طور پر اہل سنت ہیں۔ بیشتر سنی ترک حنفی مکتب فکر کی پیروی کرتے ہیں جبکہ کرد سنی شافعی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ سب سے بڑا غیر سنی مسلم گروہ علوی شیعہ ہیں جو ترکی کی آبادی کا 10–20 فیصد ہیں۔ [170] ملک کے تمام علوی شیعہ میں سے ایک تہائی استنبول میں رہتے ہیں۔ [169] جمہوریہ ترکی کے قیام کے بعد صوفیانہ تحریکوں جیسے تصوف بھی سرکاری طور پر پابندی عائد کردی گئی تھی، لیکن وہ اب بھی متعدد پیروکاروں پر فخر کرتے ہیں۔ [171] 1950ء کی دہائی سے استنبول ایک مہاجر شہر ہے۔ استنبول کی آبادی 1 ملین سے بڑھ کر 10 ملین رہائشیوں تک پہنچ گئی ہے۔ تقریباً 200،000 نئے تارکین وطن جن میں سے زیادہ تر ترکی کے دیہاتوں سے ہوتے ہیں ہر سال یہاں آتے ہیں۔
مساجد
گرجا گھر مساجد
آیا صوفیہ جو تقریباً ایک ہزار سال تک دنیا کو سب سے بڑا گرجا گھر تھا فتح قسطنطنیہ کے بعد مسجد میں تبدیل کر دیا گیا تھا، ترک جمہوریہ کے آغاز میں عجائب گھر میں تبدیل اور سن 2020 میں دوبارہ مسجد میں بدل دیا گیا۔
فتح قسطنطنیہ کے بعد بہت سے گرجا گھروں کو مساجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ درج ذیل ایسی مساجد کی ایک فہرست ہے۔
عرب مسجد
عتیق مصطفٰی پاشا مسجد
بودروم مسجد
قدیم امارت مسجد
فیناری عیسی مسجد
خرامی احمد پاشا مسجد
گل مسجد
آیا صوفیہ، عجائب گھر اور پھر سے مسجد
قلندرخانہ مسجد
قاسم آغا مسجد
قافلی مسجد
خوجا مصطفٰی پاشا مسجد
ایاصوفیہ اصغر
سنجکتار خیرالدین مسجد
وفا کی چرچ مسجد
زیرک مسجد
عثمانی دور کی مساجد
1616ء میں بننے والی سلطان احمد مسجد استنبول کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔
مہر ماہ سلطان مسجد عثمانی طرز تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔
لالےلی مسجد معماری کا ایک اور شاہکار
التونی زادہ مسجد، 1865ء
عتیق والدہ مسجد، 1583ء
بایزید دوم مسجد، 1506ء
بیبیک مسجد، 1913ء
مرغولہ مینار والی مسجد، 1550ء
دفتردار مسجد، 1542ء
دولماباغچہ مسجد، 1855ء
امیرگان مسجد، 1781ء
ایوب سلطان مسجد، 1458ء
فاتح مسجد، استنبول، 1470ء
فیروز آغا مسجد، 1491ء
خادم ابرہیم پاشا مسجد، 1551ء
مجمع خاصکی سلطان، 1539ء
اسکندر پاشا مسجد، فاتح، پندرہویں یا سولہویں صدی
اسکندر پاشا مسجد، کانلیجا، 1560ء
قرہ احمد پاشا مسجد، 1572ء
قیلیچ علی پاشا مسجد، 1580ء
کوچک مجیدیہ مسجد، 1843ء
لالےلی مسجد، 1783ء
محمود پاشا مسجد، امین اونو، 1463ء
مسیح محمد پاشا مسجد، 1585ء
مہر ماہ سلطان مسجد (ادرنہ کاپی)، 1565ء
مہر ماہ سلطان مسجد (اسکودار)، 1548ء
مولا چلبی مسجد، 1584ء
مراد پاشا مسجد، آق سرائے، 1471ء
ینی مسجد (استنبول)، 1665ء
نورعثمانیہ مسجد، 1755ء
نصرتیہ مسجد، 1826ء
اورتاکوئے مسجد، 1856ء
پرتیونیال والدہ سلطان مسجد، 1872ء
پیری محمد پاشا مسجد، 1530–31ء
روم محمد پاشا مسجد، 1471ء
رستم پاشا مسجد، 1563ء
شہزادہ مسجد، 1548ء
شمسی پاشا مسجد، 1581ء
سنان پاشا مسجد (استنبول)، 1555ء
صوقلو محمد پاشا مسجد، 1572ء
جامع سلیمانیہ، 1558ء
سلطان احمد مسجد، 1616ء
تشویقیہ مسجد، 1794ء
یاوز سلیم مسجد، 1527/28ء
ینی والدہ مسجد، 1710ء
یلدز حمیدیہ مسجد، 1886ء
ضل محمود پاشا مسجد، 1577ء
زینب سلطان مسجد، 1769ء
جمہوریہ ترکی کے دور میں چند جدید مساجد میں شیشلی مسجد (1949ء)، شاکرین مسجد (2009ء) اور چاملیجا مسجد (2016ء) (موجودہ ترکی کی سب سے مسجد) شامل ہیں۔
مسیحیت
استنبول میں یونانی آبادی بطور شہر کی آبادی کا فیصد (1844ء–1997ء)
بطریق قسطنطنیہ کا چھٹی صدی کے بعد سے کل کلیسیا بطریق نامزد کیا گیا ہے اور یہ دنیا کے 300 ملین مشرقی راسخ الاعتقاد کلیسیا کا رہنما سمجھا جاتا ہے۔ [172] 1601ء کے بعد سے کل کلیسیا بطریق سینٹ جارج کیتھیڈرل، استنبول میں نشست پزیر ہے۔ [173] انیسویں صدی میں استنبول کے مسیحی یا تو یونانی راسخ الاعتقاد کلیسیا، یا آرمینیائی رسولی کلیسیا کے رکن یا شامی کیتھولک ہیں۔ [174] بیسویں صدی کے دوران میں ہونے والے واقعات کے سبب جس میں یونان اور ترکی کے مابین 1923ء کا تبادلہ آبادی، 1942 میں ثروت ٹیکس اور 1955ء کے استنبول فسادات بھی شامل ہیں، کی وجہ سے یونانی آبادی جو اصل میں فینار اور ساماتیا میں مرکوز تھی میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں استنبول کی یونانی آبادی 3،000 تھی۔ (1910ء کی مردم شماری کے مطابق کل 850،000 میں سے 260،000، اور 1919ء میں 350،000 کی سب سے زیادہ آبادی) [175][176] استنبول میں آج 50،000 سے 90،000 آرمینی باشندے موجود ہیں، جو 1913ء کی مردم شماری کے مطابق (جزوی طور پر آرمینی نسل کشی کی وجہ سے) تقریباً 164،000 سے کم ہوئے ہیں۔ [177] شامی، لاطینی مسیحی جو عثمانی دور کے دوران میں غلطہ میں آباد تھے، انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل میں استنبول کی ثقافت اور تعمیر کی تشکیل میں ایک مرکزی کردار ادا کیا تھا، ان کی آبادی کم ہو گئی ہے بلکہ وہ شہر میں بہت کم تعداد میں باقی ہیں۔ [178]
رومن کیتھولک گرجا گھر
پادووا کے سینٹ انتھونی کا چرچ
ایس ایس پیٹر اور پال کا چرچ، استنبول
روح القدس کا کیتھیڈرل
سینٹ بینوا کا چرچ، استنبول
سینٹ میری ڈریپرس کا چرچ، استنبول
پادووا کے سینٹ انتھونی کا چرچ، استنبول
یونانی راسخ الاعتقاد گرجا گھر
آئیا تریادا یونانی راسخ الاعتقاد گرجا گھر
آئیا تریادا یونانی راسخ الاعتقاد گرجا گھر، استنبول
بلاخیرنے کی سینٹ میری کا گرجا گھر، استنبول
بہار کی سینٹ میری کا گرجا گھر، استنبول
خانقاہ تجلی عیسی، کینالیادا
ساماتیا کا سینٹ میناس گرجا گھر
سینٹ جارج کیتھیڈرل، استنبول
منگولوں کی سینٹ میری کا گرجا گھر
آرمینیائی رسولی گرجا گھر
سینٹ گریگوری نورافگن گرجا گھر
تقسیم سرپ ہاروتیون گرجا گھر
سرپ آسدوادزادزن بطریقی گرجا گھر
سینٹ گریگوری نورافگن گرجا گھر غلطہ
کارتال سرپ نشان آرمینیائی راسخ الاعتقاد گرجا گھر
سینٹ جارج گرجا گھر ساماتیہ
کرد
استنبول میں سب سے بڑی نسلی اقلیت کرد برادری ہے جو مشرقی اور جنوب مشرقی ترکی سے ہیں۔ اگرچہ اس شہر میں کردوں کی موجودگی عثمانی دور کے ابتدائی دور کی ہے [179] تاہم شہر میں کردوں کی آمد کا عمل 1970ء کی دہائی کے آخر میں کرد-ترکی تنازعہ کے آغاز سے تیز ہوا ہے۔ [180] استنبول کے 20 سے 40 ملین باشندے کرد ہیں، اس کا مطلب ہے کہ دنیا کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں استنبول میں کرد زیادہ ہیں۔ [181][182][183][184][185][186]
بوسنیائی مسلم
شہر میں دیگر اہم نسلی اقلیتیں بھی موجود ہیں۔ پورے بیرم پاشا ضلع میں بوشنیاک (بوسنیائی مسلم) اکثریت میں ہیں۔ [187]
یہودیت
غلطہ کی شارع بینک پر کاموندو سیڑھیاں جنہیں عثمانی-یہودی بینکر ابراہم سالومن کاموندو نے 1870ء–1880ء میں تعمیر کروایا تھا۔
بالات محلے میں سفاردی یہودیوں ایک بڑی برادری آباد تھی، جو سب سے پہلے 1492ء میں ہسپانیہ سے بے دخل کے جانے بعد یہاں آباد ہوئے تھے۔ [188] رومانیوت اور اشکنازی یہود سفاردیوں سے پہلے استنبول میں مقیم تھے لیکن اب ان کا تناسب کم ہو گیا ہے۔ آج استنبول کے 1 فیصد یہودی اشکنازی ہیں۔ [189][190] بڑے پیمانے پر یہودی آبادی کی اسرائیل ہجرت کی وجہ سے ان کی آبادی 1950ء میں 100،000 سے کم ہوکر 2005ء میں 18،000 ہو گئی ہے، ان میں سے اکثریت استنبول یا ازمیر میں مقیم ہے۔ [191]
یہودی عبادت گاہیں
اشکنازی کنیسہ استنبول
نیو شالوم کنیسہ
اشکنازی کنیسہ استنبول
کنیسہ احریدا
کنیسہ باقر کوئے
بیت ایورام کنیسہ
بیت اسرائیل کنیسہ
بیت نویم کنیسہ
بیت یعقوب کنیسہ
کادے بستان کنیسہ
حمدت اسرائیل کنیسہ
اطالوی کنیسہ
کارایتے کنیسہ
مالم کنیسہ
میئر کنیسہ
یانبول کنیسہ
ینی کوئے کنیسہ
سیاست
اکرم امام اوغلو ریپبلکن پیپلز پارٹی سے تئیسویں اور حالیہ میئر استنبول ہیں جو جون 2019ء میں منتخب ہوئے
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی
(جمہوری اتحاد)
24 / 39
ریپبلکن پیپلز پارٹی
(قومی اتحاد)
14 / 39
نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی
(جمہوری اتحاد)
1 / 39
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی
(جمہوری اتحاد)
43 / 98
ریپبلکن پیپلز پارٹی
(قومی اتحاد)
27 / 98
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی
(بغیر اتحاد)
12 / 98
ایی پارٹی
(قومی اتحاد)
8 / 98
نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی
(جمہوری اتحاد)
8 / 98
سیاسی طور پر استنبول کو ترکی میں ایک اہم ترین انتظامی خطے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ صدر رجب طیب ایردوان سمیت بہت سے سیاست دانوں کا خیال ہے کہ استنبول میں سیاسی جماعت کی کارکردگی اس کی عام کارکردگی سے زیادہ اہم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ استنبول ترکی کا مالی مرکز ہے، اس کے انتخابی حلقے بڑے اور در حقیقت رجب طیب ایردوان خود 1994ء میں استنبول کا میئر منتخب ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ترکی کا مالی مرکز، اس کے بڑے انتخابی حلقے اور اس حقیقت کی وجہ یہ ہے کہ ایردوان خود 1994 میں استنبول کا میئر منتخب ہوا تھا۔ 2019ء کے ترکی بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے دوران، اردوان نے کہا تھا کہ 'اگر ہم استنبول میں ناکام ہوگئے تو ہم ترکی میں ناکام ہوجائیں گے'۔ [192]
تاریخی طور پر استنبول نے 1995ء سے عام انتخابات میں فاتح پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔ 2002ء کے بعد سے دائیں بازو کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) نے ہر عام انتخابات میں اکثریت حاصل کی ہے، 24 جون 2018ء کو ہونے والے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں اس کو 41.74 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ اے کے پی کے صدارتی امیدوار رجب طیب ایردوان کو اسی دن ہونے والے صدارتی انتخابات میں 50.0 فیصد ووٹ ملے تھے۔ 1994ء میں ایردوان کے ساتھ آغاز کرتے ہوئے، استنبول کے 2019ء تک 25 سالوں سے قدامت پسند میئر رہ چکے ہیں۔ استنبول کی دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت مرکز میں بائیں بازو کی ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) ہے جو ملک کی اصل حزب اختلاف جماعت بھی ہے۔ بائیں بازو کی کرد حمایت یافیہ جمہرری جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) اس شہر کی تیسری سب سے بڑی سیاسی قوت ہے جس کی اصل وجہ کافی تعداد میں کرد افراد جو جنوب مشرقی ترکی سے ہجرت کر یہاں آئے ہیں اس کے ووٹر ہیں۔
ضلع فاتح میں استنبول میٹرو پولیٹن بلدیہ کی عمارت
حال ہی میں استنبول اور ترکی کے بہت سے میٹروپولیٹن شہر حکومت اور ان کے دائیں بازو کے نظریہ سے دور رجحان کی پیروی کر رہے ہیں۔ 2013ء اور 2014ء میں بڑے پیمانے پر اے کے پی مخالف طاقتوں نے استنبول میں حکومت مخالف مظاہرے شروع کیے جو پورے ملک میں پھیل گئے۔ یہ رجحان سب سے پہلے 2014ء کے میئر انتخابات میں واضح ہوا جہاں مرکز کے بائیں بازو کے حزب اختلاف کے امیدوار نے کامیابی حاصل نہ کرنے کے باوجود 40 فیصد ووٹ حاصل کر لئے۔ استنبول میں حکومت کی پہلی شکست 2017ء کے آئینی ریفرنڈم میں ہوئی، جہاں استنبول نے 'نہیں' کو 51.4٪ سے 48.6٪ تک ووٹ دیا۔ اے کے پی کی حکومت نے 'ہاں' کے ووٹ کی حمایت کی تھی اور ملک کے دیہی علاقوں میں زیادہ حمایت کی وجہ سے یہ ووٹ قومی سطح پر جیت گیا تھا حکومت کو سب سے بڑی شکست ترکی بلدیاتی انتخابات، 2019ء میں ہوئی، جہاں میئر کے لئے ان کے سابق وزیر اعظم بن علی یلدرم امیدوار تھے جنہیں اپوزیشن کے امیدوار اکرم امام اوغلو نے ایک انتہائی کم فرق سے شکست دے دی۔ یلدرم کے 48.61٪ کے مقابلے میں امام اوغلو نے 48.77٪ ووٹ حاصل کیے۔ اسی طرح کے رجحانات اور اپوزیشن کو انتخابی کامیابیاں انقرہ، ازمیر، انطالیہ، مرسین، ادانا اور ترکی کے دیگر میٹروپولیٹن علاقوں میں بھی ملیں۔
انتظامی طور پر استنبول کو 39 اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے، جو ترکی کے کسی بھی دوسرے صوبے سے زیادہ ہے۔ ایک صوبے کی حیثیت سے استنبول 98 رکن پارلیمان کو ترکی قومی اسمبلی میں بھیجتا ہے جس میں کل 600 نشستیں ہیں۔ پارلیمانی انتخابات کے مقصد کے لئے استنبول کو تین انتخابی اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے، دو یوروپی طرف اور ایک ایشیائی طرف سے جس میں بالترتیب 28 ، 35 اور 35 ارکان پارلیمنٹ کا انتخاب کرتے ہیں۔
معیشت
لیوینٹ کے قریب کاروباری ضلع
مساوی قوت خرید کے ساتھ استنبول کی خام ملکی پیداوار 301.1 بلین امریکی ڈالر ہے جس کا 2011ء میں دنیا کے شہری علاقوں میں درجہ انتیسواں ہے۔ [193] 1990ء کی دہائی کے وسط سے استنبول کی معیشت او ای سی ڈی کے مطابق میٹرو علاقوں میں سب سے تیزی سے ترقی کرتی رہی ہے۔ [19] استنبول ترکی کی خام ملکی پیداوار کے 27 فیصد کا شراکت دار ہے جبکہ ملک کی 20 فیصد صنعتی افرادی قوت شہر میں مقیم ہے۔ [19][194] اس کی فی کس خام ملکی پیداوار اور پیداواری صلاحیت قومی اوسط سے بالترتیب 70 فیصد اور 50 فیصد زیادہ ہے، جس کی وجہ اعلیٰ قیمت والی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ اس کی آبادی اور ترکی کی معیشت میں نمایاں شراکت کے ساتھ، استنبول ملک کے ٹیکس محصول کا دوتہائی حصہ ادا کرتا ہے۔ [19] اس میں استنبول میں مقیم 37 امریکی ڈالر ارب پتیوں کے ٹیکس بھی شامل ہیں جو دنیا بھر کے شہروں میں پانچویں نمبر پر ہے۔ [195]
لیوینٹ کا ایک نظارہ، استنبول کا ایک اہم کاروباری ضلع اور شہر کی بلند عمارتوں کا گھر
اتے بڑے شہر کی توقع کے مطابق، استنبول کی متنوع صنعتی معیشت ہے وہ زیتون کے تیل، تمباکو، گاڑیاں اور الیکٹرانکس کی مختلف اشیا تیار کرتا ہے۔ [194] اعلیٰ ویلیو ایڈڈ کام پر توجہ دینے کے باوجود، اس کا کم ویلیو ایڈڈ مینوفیکچرنگ کا شعبہ خاطر خواہ ہے جو استنبول کی جی ڈی پی کے صرف 26 فیصد نمائندگی کرتا ہے لیکن شہر کی کل برآمدات کا پانچ چوتھائی حصہ ہے۔ [19] 2005ء میں استنبول میں قائم کمپنیوں نے 41.4 بلین ڈالر کی برآمدات کیں اور مجموعی طور پر 69.9 بلین ڈالر کی درآمدات موصول ہوئیں۔ یہ اعدادوشمار بالترتیب 57 فیصد اور 60 فیصد کے برابر تھے۔ [196]
استنبول ترکی کی واحد اسٹاک ایکسچینج بورسا استنبول کا گھر بھی ہے جو استنبول اسٹاک ایکسچینج، استنبول گولڈ ایکسچینج اور ترکی کی تبادلہ ایکسچینج کو ضم کرنے سے وجود میں آئی۔ [197][198] سابقہ استنبول اسٹاک ایکسچینج اصل میں 1866ء میں عثمانی اسٹاک ایکسچینج کے طور پر قائم کی گئی تھی۔ [199]بیسویں صدی کے اوائل کے دوران میں غلطہ میں بینک اسٹریٹ سلطنت عثمانیہ کا مالی مرکز تھا جہاں عثمانی اسٹاک ایکسچینج واقع تھی۔۔[200] بینک اسٹریٹ 1990ء کی دہائی تک استنبول کا اہم مالیاتی ضلع تھا تاہم اس کے بعد زیادہ تر ترک بینکوں نے اپنا مرکزی دفتر جدید مرکزی کاروباری اضلاع لیوینٹ) اور مسالک میں منتقل کرنا شروع کر دیے۔ 1995ء میں استنبول اسٹاک ایکسچینج (اب بورسا استنبول) ضلع ساریئر) میں اپنی موجودہ عمارت میں منتقل ہو گئی۔ [201] عطا شہر میں ایک نیا مرکزی کاروباری ضلع بھی زیر تعمیر ہے اور تکمیل کے بعد ترکی کے مختلف بینکوں اور مالیاتی اداروں کے صدر دفتر کی میزبانی کرے گا۔ [202]
بحیرہ اسود کو جانے والا واحد راستہ، آبنائے باسفورس دنیا کی مصروف ترین آبی گزرگاہوں میں سے ایک ہے
بحیرہ اسود اور بحیرہ روم کے درمیان میں واحد بحری راستے کے طور پر آبنائے باسفورس دنیا کی مصروف ترین آبی گزرگاہوں میں سے ایک ہے۔ ہر سال 200 ملین ٹن سے زیادہ تیل آبنائے سے گزرتا ہے اور باسفورس پر ٹریفک نہر سوئز سے تین گنا زیادہ ہے۔ [203] اس کے نتیجے میں شہر کے یورپی طرف آبنائے کے متوازی استنبول کنال کے نام سے جانی جانے والی ایک نہر تعمیر کرنے کی تجاویز پیش کی گئی ہے۔ [204] استنبول میں تین بڑی بندرگاہیں ہیں جو حیدر پاشا بندرگاہ، امبارلی بندرگاہ اور زیتون بورنو بندرگاہ ہیں۔ نیز باسفورس اور بحیرہ مرمرہ کے ساتھ کئی چھوٹی بندرگاہیں اور تیل کے ٹرمینلز موجود ہیں۔ [205][206] حیدر پاشا بندرگاہ باسفورس کے جنوب مشرقی سرے پر موجود 2000ء کی دہائی کے اوائل تک استنبول کی سب سے بڑی بندرگاہ تھی۔ اس کے بعد امبارلی بندرگاہ شروع ہونے کے بعد یہ کافی مصروف بندرگاہ ہے اور حیدر پاشا کم استعمال ہو رہی ہے اور اس بندرگاہ کو بتدریج ختم کرنے کا منصوبہ بھی ہے۔ [207] 2007ء میں شہری مرکز کے مغربی کنارے پر واقع امبارلی کی سالانہ گنجائش 15 لاکھ ٹی ای یو تھی (حیدرپاشا میں 354،000 ٹی ای یو کے مقابلے میں)، جو اسے بحیرہ روم کے طاس میں چوتھا بڑا کارگو ٹرمینل بناتا ہے۔ [208][209] زیتون برونو بندرگاہ کو موٹر ویز اور اتاترک بین الاقوامی ہوائی اڈے کی قربت کا بھی فائدہ ہے۔ [210] اور شہر کے لئے طویل مدتی منصوبوں میں تمام ٹرمینلز اور سڑک اور ریل نیٹ ورک کے مابین زیادہ سے زیادہ رابطے کی ضرورت ہے۔ [211]
استنبول ایک مقبول سیاحتی مقام ہے۔ 2000ء میں 2 لاکھ 40 ہزار غیر ملکی سیاحوں نے اس شہر کا دورہ کیا۔ اس نے 2015ء میں 12.56 ملین غیر ملکی سیاحوں کا خیر مقدم کیا اور یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ دورہ کیا جانے والا شہر بنا۔ [17][212] استنبول انطالیہ کے بعد ترکی کا دوسرا سب سے بڑا بین الاقوامی گیٹ وے ہے جو ملک میں غیر ملکی سیاحوں کا ایک چوتھائی حصہ وصول کرنا ہے۔ استنبول کی سیاحتی صنعت یورپی طرف مرکوز ہے، شہر کے 90 فیصد ہوٹل یہیں موجود ہیں۔ سرائے بورنو میں سستے اور اوسط کرائے کے ہوٹل ہیں، اعلیٰ درجے کے ہوٹل بنیادی طور پر شاخ زریں کے شمال میں تفریحی اور مالی مراکز میں ہیں۔ استنبول میں ستر عجائب گھر موجود ہیں، جن میں توپ قاپی محل اور آیا صوفیہ سب سے زیادہ دیکھیے جانے والے ہیں، یہ عجائب گھر ہر سال 30 ملین ڈالر کی آمدنی دیتے ہیں۔ شہر کے ماحولیاتی ماسٹر پلان میں یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ استنبول میں تاریخی اہمیت کے حامل 17 محل، 64 مساجد اور 49 گرجا گھر موجود ہیں۔ [213]
ثقافت
استنبول آثاریات عجائب گھر عثمان حمدی نے 1891ء میں قائم کیا تھا، یہ ترکی کا قدیم ترین جدید عجائب گھر ہے۔ [214]
استنبول تاریخی طور پر ایک ثقافتی مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا لیکن جمہوریہ ترکی کے قیام کے بعد دار الحکومت کی انقرہ منتقلی سے ثقافتی منظر نامہ کا رخ منتقل ہو گیا۔ [215] نئی قومی حکومت نے ایسے پروگرام قائم کیے جن سے ترکوں کو موسیقی کی روایات کی طرف راغب کیا گیا، خاص طور پر وہ جو یورپ میں شروع ہوئے، لیکن موسیقی کے ادارے اور غیر ملکی کلاسیکی فنکاروں کے دورے بنیادی طور پر نئے دار الحکومت میں مرکوز ہیں۔ [216] ترکی کے بیشتر ثقافتی منظر کی جڑیں استنبول میں ہی تھیں اور 1980ء اور 1990ء کی دہائی تک استنبول ایک ایسے شہر کی حیثیت برقرارنہ رکھ سکا جس کی ثقافتی اہمیت صرف اس کی ماضی کی عظمت پر مبنی ہے۔ [217]
بےاوغلو میں پرار عجائب گھر
انیسویں صدی کے آخر تک استنبول ایک علاقائی فنکارانہ مرکز کے طور پر اپنے آپ کو قائم رکھا، ترکی، یورپی اور مشرق وسطی کے فنکار شہر کی طرف آرہے تھے۔ انقرہ کو ترکی کا ثقافتی دل بنانے کی کوششوں کے باوجود استنبول 1970ء کی دہائی تک ملک کا بنیادی مرکز فن تھا۔ [218] جب 1980ء کی دہائی کے دوران میں استنبول میں اضافی جامعات اور آرٹ جرائد کی بنیاد رکھی گئی تھی تو پہلے سے انقرہ میں مقیم فنکار یہاں منتقل ہونا شروع ہو گئے۔ [219] بے واغلو شہر کے فنکارانہ مرکز میں تبدیل ہوچکا ہے، نوجوان فنکار اور بوڑھے ترک فنکار جو پہلے بیرون ملک مقیم تھے قدم جماتے نظر آتے ہیں۔ استنبول میں جدید عجائب گھر جن میں پیرا عجائب گھر، ثاقب سابانجی عجائب گھر اور استنبول ماڈرن شامل ہیں 2000ء کی دہائی میں نمائش گاہوں اور نیلام گھروں میں جدید اضافہ تھا جو شہر کی کثیر ثقافتی قدر کو بڑھانے کا موجب بنے۔ [220] ان عجائب گھروں کو ابھی تک تاریخی جزیرہ نما کے پرانے عجائب گھروں کی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی ہے، اس میں استنبول آثاریات عجائب گھر اور ترکی اور اسلامی فنون عجائب گھر بھی شامل ہیں جو ترکی میں جدید عجائب گھروں کے عہد کا آغاز تھا۔ [213][214]
استنبول فیسٹیول کا قیام ثقافتی بازگشت کے ساتھ مربوط ہونا تھا، جس نے 1973ء میں ترکی اور پوری دنیا سے مختلف قسم کے فن کی نمائش شروع کی۔ اسی مشعل بردار فیسٹیول سے 1980ء کی دہائی کے اوائل میں بین الاقوامی استنبول فلم فیسٹیول اور استنبول انٹرنیشنل جاز فیسٹیول آیا۔ اس کی توجہ اب صرف موسیقی اور رقص پر مرکوز ہے، استنبول فیسٹیول کو 1994ء سے استنبول بین الاقوامی میوزک فیسٹیول کے نام سے جانا جاتا ہے۔ [221] اصل استنبول فیسٹیول سے نکلے جانے والے دیگر تہواروں میں سب سے نمایاں استنبول بائینیئل ہے جو 1987ء کے بعد سے ہر دو سال بعد منعقد ہوتا ہے۔ اس کا ابتدائی مقصد ترکی کے بصری فن کی نمائش کرنا تھا، اس کے بعد یہ بین الاقوامی فنکاروں کے لئے کھلا اور وینس بینیال اور ساؤ پالو آرٹ بینیئل کے ساتھ ساتھ ایلیٹ بائناالس میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ [222]
عجائب گھر
استنبول آثاریات عجائب گھر
استنبول کھلونا عجائب گھر
استنبول صدیوں کے دنیا کی عظیم ترین سلطنتوں کا دار الحکومت رہا جس کی یہ ثقافت کا ایک بڑا مرکز بھی ہے۔ شہر میں جا بجا تاریخی عمارتیں ہیں جن میں کئی اب عجائب گھروں میں تبدیل ہو جکی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی یہاں متعدد عجائب گھر موجود ہیں جن میں اہم عجائب گھر کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔
آشیان عجائب گھر
اتا ترک عجائب گھر، شیشلی
احمد حمدی تانپینار ادبی عجائب گھر کتب خانہ
استنبول آثاریات عجائب گھر
استنبول بحریہ عجائب گھر
استنبول حیوانیات عجائب گھر
استنبول ریاستی فن اور مجسمہ عجائب گھر
استنبول ریلوے عجائب گھر
استنبول ڈاک عجائب گھر
استنبول کھلونا عجائب گھر
استنبول ہوابازی عجائب گھر
استنبول یو ایف او میوزیم
اشبانک عجائب گھر
انادولو حصاری
اورحان کمال ادبی عجائب گھر
آیا صوفیہ
بےلربیئی محل
ترکی کا یہودی عجائب گھر
توپ قاپی محل
حسین رحمی گورپینار عجائب گھر
دولماباغچہ محل
رحمی ایم کوچ عجائب گھر
رستم پاشا مدرسہ
ریزان خاص عجائب گھر
عصمت انونو منزل عجائب گھر
غلطہ سرائے عجائب گھر
قلعہ روملی حصار
کاندیلی زلزلہ عجائب گھر
فلم اور مقبول ثقافت
فرام رشیا ود لوو
ایک تھا ٹائیگر
ترکی میں پہلی فلم کی نمائش یلدز محل میں 1896ء میں ہوئی پیرس میں اس ٹیکنالوجی کے عوامی آغاز کے ایک سال بعد۔ [223] بےاوغلو میں سینما گھر اور تھیٹر تیزی پھیلنا شروع ہو گئے، سینما گھروں کی بڑی تعداد سڑک کے کنارے مرکوز تھی جسے اب شارع استقلال کہا جاتا ہے۔ [224] استنبول ترکی کی جدید فلم انڈسٹری کا دل بن گیا، حالانکہ 1950 کی دہائی تک ترک فلمیں مستقل طور پر تیار نہیں کی گئیں۔ [225] تب سے استنبول ترکی ڈراموں اور مزاح نگاروں کی فلم بنانے کا سب سے مقبول مقام رہا ہے۔ [226]
صدی کے دوسرے نصف حصے میں ترک فلمی صنعت میں تیزی آگئی، اور اوزاک (2002) اور میرے والد اور میرے بیٹے (2005) دونوں کی عکسبندی استنبول میں کی گئی۔ ملکی فلموں میں بین الاقوامی سطح پر کافی کامیابی نظر آتی ہے۔ [227] استنبول اور اس کی دلکش عمارتوں نے متعدد غیر ملکی فلموں کے پس منظر کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ چند مشہور بین الاقوامی فلموں میں فرام رشیا ود لوو، دا ورلڈ از ناٹ اینف، ٹیکن 2، عثمانی لیفٹیننٹ، مشن استنبول اور توپ قابی شامل ہیں۔ استنبول میں فلمائی گئی دیگر فلموں میں جوانی پھر نہیں آنی 2، دل دھڑکنے دو، ایک تھا ٹائیگر، بیبی، ریس 2، ہجرت اور وار شامل ہیں۔
اس ثقافتی بازگشت کے ساتھ مربوط استنبول فیسٹیول کا قیام تھا، جس نے 1973ء میں ترکی اور دنیا بھر سے مختلف فنون کی نمائش شروع کی۔ اسی فلیگ شپ فیسٹیول سے سن 1980 کی دہائی کے اوائل میں بین الاقوامی استنبول فلم فیسٹیول اور استنبول انٹرنیشنل جاز فیسٹیول شہر میں منعقد ہونا شروع ہوا۔ اپنی پوری توجہ صرف موسیقی اور رقص پر مرکوز ہونے کی وجہ سے استنبول فیسٹیول کو 1994ء سے استنبول انٹرنیشنل میوزک فیسٹیول کے نام سے جانا جاتا ہے۔ [228]
خریداری اور تفریح
بڑا بازار، استنبول
تاریخی سے جدید تک استنبول میں متعدد خریداری مراکز ہیں۔ بڑا بازار 1461ء کے بعد سے چل رہا ہے یہ دنیا کے قدیم ترین اور چھتے بازاروں میں سے ایک ہے۔ [229][230] محمود پاشا بازار ایک کھلا ہوا بازار ہے جو بڑا بازار اور مصری بازار کے مابین پھیلا ہوا ہے جو 1660ء سے استنبول کی مسالا کی بڑی منڈی ہے۔ 1987ء میں جب گیلریا اتاکوئے کا افتتاح ہوا تو ترکی میں جدید شاپنگ مالز کے زمانے کا آغاز ہوا۔ [231] اس کے بعد سے تاریخی جزیرہ نما کے باہر بڑے شاپنگ سینٹرز بن گئے ہیں۔
استنبول اپنے تاریخی سمندری غذا والے ریستورانوں کے لئے جانا جاتا ہے۔ شہر کے بہت سے مشہور اور اعلیٰ سمندری غذا والے ریستوراں باسفورسکے کنارے واقع ہیں خاص طور پر اورتاکوئے، بیبک، ارناوتکوئے، ینی کوئے، بےلربئی اور چنگال کوئے میں۔ بحیرہ مرمرہ کے ساحل کے ساتھ قوم قاپی پیدل چلنے والا زون ہے جس میں پچاس کے قریب مچھلی والے ریستوراں ہیں۔ [232] جزائر پرنس شہر کے مرکز سے 15 کلومیٹر (9 میل)، سمندری غذا والے ریستوراں کے لئے بھی مشہور ہیں۔ ان ریستوراںوں، موسم گرما کی تاریخی حویلیوں اور کار سے پاک سڑکوں کی وجہ سے جزائر پرنس استنبول اور غیر ملکی سیاحوں کے درمیان میں چھٹیوں کا ایک مقبول مقام ہے۔ [233]
نشان تاشی خریداری ضلع میں نئے سال کی شام کے موقع پر سجاوٹ
استنبول عثمانی کھانوں کی جدید ترین اور وسیع پیمانے پر پکے پکوان کے لئے بھی مشہور ہے۔ 1960ء کی دہائی میں شروع ہونے والے جنوب مشرقی اور مشرقی ترکی سے آنے والے تارکین وطن کی آمد کے بعد صدی کے آخر تک اس شہر کے کھانے کا نظارہ یکسر تبدیل ہوچکا ہے۔ مشرق وسطی کے کھانا جیسے کباب کھانے کے منظر میں ایک اہم جگہ لینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ غیر ملکی کھانوں والے ریستوراں بنیادی طور بےاوغلو، بیشکتاش، شیشلی اور قاضی کوئے اضلاع میں مرتکز ہیں۔
استنبول فعال رات کی زندگی اور تاریخی ٹیورنز کے لیے بھی مشہور ہے جو صدیوں سے شہر کی ایک خصوصیت ہے۔ شارع استقلال پر چیچک پاسجی اب شراب خانوں پب اور ریستوراںوں کا گھر ہے۔ [234] استقلال ایوینیو جو اصل میں اپنے طعام خانوں کے لئے جانا جاتا ہے، خریداری کی طرف بڑھ گیا ہے، لیکن قریب کی نیویزادے اسٹریٹ اب شراب خانوں اور پبوں سے بھری ہے۔ [235][236] استقلال ایونیو کے آس پاس کے کچھ دوسرے محلوں کو بےاوغلو کی رات کی زندگی کے لئے نئے سرے سے تشکیل دیا گیا ہے، اب تجارتی گلیوں میں پب، کیفے اور ریستوراں موجود ہیں جن میں لائیو موسیقی ایک خاص خصوصیت ہے۔ [237] استنبول کی رات کی زندگی کے دیگر فوکل پوائنٹ میں نشان تاشی، اورتاکوئے، بیبک، اور قاضی کوئے شامل ہیں۔ [238]
کھیل
1. اتاترک اولمپک اسٹیڈیم
2. ترک ٹیلی کام اسٹیڈیم
3. شکرو سراج اوغلو اسٹیڈیم
4. ووڈافون پارک
1. سنان ایردم ڈوم
2. اولکر اسپورٹس ایرینا
استنبول میں ترکی کے سب سے قدیم اسپورٹس کلبوں کا گھر ہے۔ "بیشکتاش جے کے" جو 1903ء میں قائم ہوا ان کھیلوں کے کلبوں میں سب سے قدیم سمجھا جاتا ہے۔ غلطہ سرائے اپورٹس کلب اور فنارباہچے اپورٹس کلب بین الاقوامی مقابلوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور بالترتیب 22 اور 19 مرتبہ سوپر لیگ ٹائٹل اپنے نام کیا ہے۔ [239][240][241] استنبول میں باسکٹ بال کی سات ٹیمیں ہیں جو ترک باسکٹ بال سپر لیگ میں کھیلنی ہیں۔ [242]
سنان ایردم ڈوم یورپ کے سب سے بڑے انڈور کھیلوں کے میدانوں میں سے ایک ہے۔ اس نے 2010ء فیبا ورلڈ چیمپینشپ کے فائنل کی میزبانی، 2012ء آئی اے اے ایف ورلڈ انڈور چیمپین شپ، اس کے ساتھ ساتھ 2011ء–12ء یورو لیگ اور 2016ء–17ء یورو لیگ فائنل فور کی بھی میزبانی کی۔ [243] اولکر اسپورٹس ارینا جو فنارباہچے باسکٹ بال ٹیم کا ہوم کورٹ ہے 2012ء میں کھلا۔ تعمیراتی عروج کے باوجود گرمائی اولمپکس کے لئے شہر نے پانچ بولیاں دیں جس میں 2000ء گرمائی اولمپکس، 2008ء گرمائی اولمپکس، 2012ء گرمائی اولمپکس، 2020ء گرمائی اولمپکس اور اس کے علاوہ یوئیفا یورو 2016ء شامل ہیں تاہم یہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ [244]
2005ء اور 2011ء کے درمیان میں استنبول پارک ریسنگ سرکٹ نے سالانہ فارمولا ون ترک گراں پری کی میزبانی کی۔ [245] 1952ء میں قائم ہونے والا استنبول کشتی رانی کلب ہر سال استنبول کے آس پاس کی آبی گزرگاہوں پر ریس اور دوسرے کشتی رانی کے پروگرام منعقد کرتا ہے۔ [246][247] ترکی کے ساحل سمندر ریسنگ کلب میں بڑی کشتیاں بھی شامل ہیں جیسے کہ سالانہ نیول فورس ٹرافی۔ [248]
اتاترک اولمپک اسٹیڈیم استنبول کے مغربی مضافات میں ترکی کا سب سے بڑا اسٹیڈیم ہے۔ اس کا نام جمہوریہ ترکی کے بانی اور پہلے صدر مصطفٰی کمال اتاترک کے نام پر ہے۔ اس کی تعمیر 1999ء میں شروع ہوئی اور 2002ء میں مکمل ہوئی۔ یہ 2008ء کے اولمپک کھیلوں کے لئے ترکی کی ناکام بولی کے لئے تعمیر کیا گیا تھا جو بالآخر بیجنگ کو دیا گیا تھا۔ اس پر تقریباً 140 ملین امریکی ڈالر لاگت آئی۔ [249]
ترک ٹیلی کام اسٹیڈیم استنبول، ترکی کے یورپی حصے کے ضلع سارییر میں ایک ایسوسی ایشن فٹ بال اسٹیڈیم ہے۔ [250] کل نشستی اسٹیڈیم میں 52،223 میزبانی کرنے کی گنجائش ہے۔ [251] ترک ٹیلی کام اسٹیڈیم ترکی کا پہلا اسٹیڈیم تھا جو یوئیفا یورپی چیمپئن شپ کی میزبانی کے لئے یوئیفا یورو 2016ء کے معیار پر پقرا اترا۔ [252]
شکرو سراج اوغلو اسٹیڈیم استنبول، ترکی کے ضلع قاضی کوئے میں ایک کثیر المقاصد اسٹیڈیم ہے۔ اس اسٹیڈیم کا افتتاح سن 1908ء میں ہوا اور 1929ء سے 1932ء، 1965ء سے 1982ء، اور 1999ء سے 2006ء کے درمیان میں اس کی تزئین و آرائش کی گئی۔ اسٹیڈیم کا انتخاب 2009ء کے یوئیفا کپ فائنل کی میزبانی کے لئے کیا گیا تھا۔ [253][254][255]
ووڈافون پارک استنبول، ترکی کے ضلع بیشکتاش میں ایک کل نشستی کثیر المقاصد اسٹیڈیم ہے۔ [256][257] یہ "بیشکتاش جے کے" سب سے قدیم کلب کا گھر ہے۔ اس میں تقریباْ 41،188 شائقین کی گنجائش ہے۔ اسٹیڈیم نے یوئفا سپر کپ 2019ء کی میزبانی کی تھی۔
میڈیا
ترک ریڈیو وٹیلی ویژن کارپوریشن کا صدر دفتر
1948ء سے شائع ہونے والا حریت (ترکی اخبار) سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار ہے۔
زیادہ تر سرکاری سطح پر چلنے والے ریڈیو اور ٹیلی ویژن اسٹیشن انقرہ میں قائم ہیں، لیکن استنبول ترک میڈیا کا بنیادی مرکز ہے۔ سابقہ دار الحکومت میں اس صنعت کی جڑیں یہاں موجود ہیں۔ باب عالی اسٹریٹ تیزی سے شاخ زریں ترکی بھر میں پرنٹ میڈیا کا مرکز بن گیا۔ [258] استنبول میں اب کئی طرح کے رسالے موجود ہیں۔ زیادہ تر ملک گیر اخبارات بیک وقت انقرہ، ازمیر اور استنبول سے شائع ہوتے ہیں۔ [259] حریت، صباح، پوستا اور سوزجو ملک کے اعلیٰ چار اخبارات ہیں، سب کا صدر دفتر استنبول میں ہے، جس میں ہر ایک میں 275،000 سے زیادہ ہفتہ وار فروخت ہوتے ہیں۔ [260] استنبول میں آرمینیائی زبان میں بھی اخبارات شائع ہوتے ہیں۔ حریت 1948ء میں قائم ہونے والا ایک ترکی اخبار ہے۔ جنوری 2018ء میں ترکی میں اس کی گردش کسی بھی اخبار سے زیادہ تھی جس کہ 3193،000 کے قریب تھی۔ [261]
ترک ریڈیو وٹیلی ویژن کارپوریشن ترکی میں "عوامی نشریات "کا ذکر کرنے پر جو اولین اور واحد ادارہ ذہن میں آتا ہے وہ ٹی آر ٹی ہے جس کا قیام یکم مئی 1964 میں عمل میں آیا۔ 5 مئی 1927 کو اپنی نشریات کا آغاز کرنے والا ریڈیو کا ادارہ بھی اسی تاریخ سے ٹی آر ٹی کے ساتھ منسلک ہو گیا۔ بٹن دبانے یا پھر چینل گھمانے پر ہمیں ایک نئی دنیا میں لے جانے والے ریڈیو کے ساتھ 1960 کی دہائی کے آخر میں ایک نیا دوست اس کے ساتھ شامل ہوا یعنی ٹیلی ویژن۔ ترکی میں ٹیلی ویژن پہلی دفعہ 31 جنوری 1968 میں ٹی آر ٹی کے وسیلے سے متعارف ہوا۔ 81 سالہ ریڈیو اور 40 سالہ ٹیلی ویژن نشریات کے ساتھ ٹی آر ٹی جمہوریت کی تاریخ کا حافظہ بننے کے ساتھ ساتھ مہارت، تعمیر اور ذمہ داری کے نقۡطہ نظر سے ایک بااعتماد اخوت اور اتحاد کا نشان بن گیا۔ اپنے کارکنوں کے عزم اور فداکاری کی وجہ سے ٹی آر ٹی نے ترک قوم کے دلوں مین کبھی نہ ختم ہونے والا مقام حاصل کیا ہے۔ ترکی کے نشرو اشاعت کی درس گاہ بننے کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ قابل اعتماد ادارے کی حیثیت سے آج کے دور تک پہنچنے والے ٹی آر ٹی نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے شعبہ نشریات ٰ٘ن کامیاب ترین پروگراموں کو بھی پروان چڑھایا۔ اس صورتِ حال میں قدرتی طور پر ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت اور رنگین پروگرام ترکی ٹیلی ویژن کی رونق بنا۔ ٹی آر ٹی نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے شعبے میں صرف ایک نشریاتی ادارے ہونے پر ہے انحصار نہیں کیا بلکہ ایک گہری بنیادوں کے حامل تعلیمی ادارے کا کردار بھی ادا کیا ہے۔ اور یہ زیر بحث کردار صرف نشریات سے وابستہ عملے کی ہی تعلیم و تربیت کے حوالے سے نہیں بلکہ فراہم کردہ خبروں اور معلومات کے ذریعے اپنے ناظرین کی تعلیم و تربیت کے نقطہ نظر سے بھی ایک ناقابلِ فراموش اہمیت کا حامل ہے۔ اس طرح کے با معنی اور اہم مشن کے حامل ٹی آر ٹی نے غیر جانبدار، قابلِ اعتماد خبر فراہم کرنے کے نقطہ نظر اور عوامی نشریات کے اصول کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے انمول معیار کے پروگراموں کے ذریعے دنیا کے گنے چنے نشریاتی اداروں میں جگہ حاصل کر لی ہے۔ اس کامیابی کا سبب بننے والی سرگرمیوں کو ان عنوانات کے تحت پیش کیا جا سکتا ہے۔
تعلیم
استنبول یونیورسٹی
استنبول یونیورسٹی ترکی کی ایک مشہور و معروف یونیورسٹی ہے جو استنبول میں واقع ہے۔ اس کا مرکزی کیمپس ضلع فاتح میں بایزید چوک سے ملحق ہے۔ 1453ء میں قائم یہ شہر کا سب سے قدیم کا تعلیمی ادارہ ہے۔ ابتدا میں یہ ایک اسلامی مدرسہ تھا۔ انیسویں صدی میں جمہوریہ ترکی کے قیام کے بعد اسے سیکولر کر دیا گیا اور قانون، طب اور سائنس کے شعبے قائم کیے گئے۔ [262] استنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی استنبول، ترکی میں واقع ایک بین الاقوامی تکنیکی یونیورسٹی ہے۔ یہ دنیا کی تیسری قدیم ترین ٹیکنیکل یونیورسٹی ہے جو انجینئری علوم کے لئے مختص ہے۔ [263][264][265] یہ دونوں عوامی جامعات شہر کی آٹھ جامعات میں سے دو ہیں۔ [266] دیگر ممتاز جامعات میں معمار سنان فائن آرٹس یونیورسٹی فنون لطیفہ کی اعلیٰ تعلیم کے لئے ترکی کی ایک ریاستی یونیورسٹی ہے۔ یہ ترکی کے شہر کے ضلع بےاوغلو میں واقع ہے۔ [267] یہ جامعہ سلطنت عثمانیہ کے مایہ ناز معمار معمار سنان پاشا کے نام پر ہے۔ یہ 1970ء کے عشرے تک ترکی کا بنیادی ادارہ فن تھا۔ [218] مرمرہ یونیورسٹی استنبول، ترکی کے ضلع فاتح میں ایک عوامی جامعہ ہے۔ یہ 124 برسوں سے ترکی میں اعلیٰ تعلیم کے بہترین اداروں میں سے ایک ہے۔ موجودہ صدر ترکی رجب طیب ایردوان نے اسی جامعہ سے معاشیات اور انتظامی علوم کی فیکلٹی سے گریجویشن کی ڈگری لی ہے۔ [268][269][270][271][ث]
استنبول میں قائم بہترین جامعات حکومت کے زیر انتطام ہیں تاہم اس شہر میں متعدد ممتاز نجی ادارے بھی ہیں۔ استنبول میں پہلی جدید نجی یونیورسٹی، جو ریاستہائے متحدہ سے باہر اس کا سب سے قدیم امریکی اسکول ہے رابرٹ کالج تھا جس کے بانی ایک امریکی سماجی کارکن کرسٹوفر رابرٹ تھے۔ 1971ء میں یہ بوغازچی یونیورسٹی بن گیا۔ جبکہ اس کا باقی حصہ آج بھی رابرٹ کالج کے نام سے کام کر رہا ہے۔ [272][273] 1982ء کے آئین سے قبل نجی جامعات کو ترکی میں باضابطہ طور پر کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ لیکن 1970ء تک استنبول میں پہلے ہی پندرہ نجی "ہائی اسکول" موجود تھے، جو مؤثر طریقے سے یونیورسٹیاں تھیں۔ 1982ء کے بعد استنبول میں قائم پہلی نجی یونیورسٹی کوچ یونیورسٹی تھی جس کا قیام 1992ء میں عمل میں آیا اور اگلی دہائی کے میں ایک درجن جامعات بنیں۔ [272] آج شہر میں کم از کم 30 نجی جامعات ہیں۔ [274][275][276]
عوامی خدمات
فراہمی آب
والنس آبراہ
استنبول میں پانی کی فراہمی کا پہلا نظام شہر کی ابتدائی تاریخ سے ملتا ہے جب شہر کو آبراہوں سے پانی فراہم کیا جاتا تھا مثلاً والنس آبراہ ایک رومی آبراہ ہے جو مشرقی رومی سلطنت کے دار الحکومت قسطنطنیہ (جدید استنبول، ترکی) کو پانی فراہم کرنے والا سب سے بڑا نظام تھا۔ اسے چوتھی صدی عیسوی کے آخر میں رومی شہنشاہ والنس نے مکمل کیا۔ اس کا انتظام بازنطینیوں اور بعد میں عثمانیوں نے کیا اور اسے استعمال کیا گیا۔ اب یہ شہر کے سب سے اہم مقامات میں سے ایک ہے۔ ان آبراہوں سے پانی شہر کے متعدد تالابوں میں جمع کر دیا جاتا تھا۔ [277] سلیمان اول کے حکم پر کرک چشمہ (Kırkçeşme) پانی کی فراہمی کے نیٹ ورک تعمیر کیا گیا۔ 1563ء تک یہ نیٹ ورک 158 مقامات کو ہر روز 4،200 مکعب میٹر (150،000 مکعب فٹ) پانی فراہم کرتا تھا۔ [277] بعد کے برسوں میں عوامی طلب کے بڑھنے پر مختلف چشموں سے پانی کو عوامی سبیلوں جیسے سبیل احمد ثالث سپلائی لائنوں کے ذریعہ شہر کو پانی فراہم کرتے تھے۔ [278] آج استنبول میں ایک کلورینیٹڈ اور فلٹر پانی کی فراہمی اور نکاسی کا نظام کو استنبول واٹر اینڈ سیوریج انتظامیہ کے زیر انتطام ہے۔ [279]
بجلی
شاخ زریں کے ساتھ کوئلہ سے چلنے والا بجلی گھر، صلاحترآغا پاور اسٹیشن، 1914ء اور 1952ء درمیان میں استنبول کا واحد بجلی کا ذریعہ تھا۔ [280] جمہوریہ ترکی کی تشکیل کے بعد اس پلانٹ کو بہتر بنایا گیا تاکہ شہر کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کیا جا سکے۔ اس کی گنجائش 1923ء میں 23 میگا واٹ سے بڑھ کر 1956ء میں 120 میگا واٹ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی۔ [280][281] صلاحیت میں کمی ہوتی رہی یہاں تک کہ پاور اسٹیشن اپنی معاشی زندگی کے اختتام کو پہنچا اور 1983ء میں بند ہو گیا۔ [280] سرکاری طور پر چلنے والی ترک الیکٹریکل اتھارٹی (ٹی ای کے) 1970ء سے 1984ء کے دوران میں اپنی بجلی کی پیداوار اور تقسیم پر اجارہ داری تھی۔ لیکن اب اتھارٹی دو حصوں "ترکی بجلی کی پیداوار ٹرانسمیشن کمپنی" (TEAŞ) اور "ترک بجلی تقسیم کار کمپنی" (TEDAŞ) کے درمیان میں تقسیم ہوگئی ہے۔ [281]
ڈاک اور مواصلات
استنبول کا مرکزی پوسٹ آفس 1909 کا ہے
عثمانی وزارت ڈاک اور ٹیلی گراف 1840ء میں قائم کیا گیا اور پہلا ڈاکخانہ ینی مسجد کے صحن کے قریب کھلا۔ 1876ء تک استنبول اور سلطنت عثمانیہ سے باہر کے علاقوں کے مابین پہلا بین الاقوامی ڈاک نیٹ ورک قائم ہوچکا تھا۔ [282] عبد المجید اول نے 1847ء میں ٹیلی گراف کے لئے سموئیل مورس کے کوڈ استعمال کرتے ہوئے پہلا سرکاری ٹیلی گراف بھیجا۔ استنبول اور ادرنہ کے مابین پہلی ٹیلی گراف لائن کی تعمیر 1856ء میں ہوئی جس پر جنگ کریمیا کے خاتمے کا اعلان کیا گیا۔ [283]
استنبول میں 1881ء میں ٹیلیفون کا ایک نیا نظام ابھرنا شروع ہوا اور 1909ء میں استنبول میں پہلا دستی ٹیلیفون ایکسچینج چلنے کے بعد، ڈاک اور ٹیلی گراف کی "وزارت ڈاک، ٹیلی گراف اور ٹیلیفون" کی وزارت بن گئی۔ [282][284] جی ایس ایم سیلولر نیٹ ورک 1994ء میں ترکی پہنچا جہاں استنبول اس کی خدمت حاصل کرنے والے پہلے شہروں میں شامل ہے۔ [285] موجودہ دور میں نجی کمپنیوں کے ذریعہ موبائل اور لینڈ لائن سروس مہیا کی جاتی ہے کیونکہ "ترک ٹیلی کام" 1995ء میں "وزارت ڈاک، ٹیلی گراف اور ٹیلیفون" الگ ہو گئی اور 2005ء میں اس کی نجکاری کر دی گئی۔ [282][285] ڈاک سروسز اب بھی اسی دائرہ کار میں ہیں تاہم اس اس کا نام "پوسٹ اور ٹیلی گراف آرگنائزیشن" ہے۔ [282]
صحت
استنبول میں ایک ہسپتال
2000ء میں استنبول میں 137 اسپتال تھے جن میں سے 100 نجی تھے۔ [286] ترک شہری سرکاری سطح پر چلائے جانے والے اسپتالوں میں امدادی صحت کی دیکھ بھال کے حقدار ہیں۔ [259] چونکہ سرکاری اسپتالوں میں بھیڑ ہوتی ہے یا زیادہ وقت لگتا ہے اس لیے نجی اسپتال ان لوگوں کے لئے افضل ہیں جو ان کی استطاعت رکھتے ہیں۔ پچھلی دہائی کے دوران میں ان کے پھیلاؤ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، چونکہ 2005ء سے 2009ء کے درمیان میں نجی اسپتالوں میں علاج کروانے والے مریضوں کی شرح 6 فیصد سے بڑھ کر 23 فیصد ہو گئی ہے۔ [259][287] ان میں سے بہت سے نجی اسپتالوں کے ساتھ ساتھ کچھ سرکاری اسپتال ہائی ٹیک آلات سے لیس ہیں۔ [288] صحت کی دیکھ بھال کے اعلیٰ معیار خاص طور پر نجی اسپتالوں میں، ترکی میں طبی سیاحت میں حالیہ اضافے میں مدد ملی ہے (2007ء اور 2008ء کے درمیان میں 40 فیصد اضافے کے ساتھ)۔ [289] طبی سیاحوں میں لیزر سے آنکھوں سرجری خاص طور پر عام ہے، کیونکہ ترکی اس طریقہ کار میں مہارت کے لئے جانا جاتا ہے۔ [290]
نقل و حمل
بری
یورپی روٹ ای 80
استنبول ترکی کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی مرکز ہے۔ یہ ترکی کی شاہراہوں سے ملک کے دیگر علاقوں سے منسلک ہے۔ موٹر وے او-1 شہر کے گرد رنگ روڈ بناتی ہے۔ یورپی روٹ ای 80 ترکی کو یورپ کے دیگر ملکوں سے منسلک کرتی ہے۔ [291]
سڑکیں / شاہراہیں
استنبول کی بنیادی موٹر وے (اوتویول) او-1، او-2، او-3 اور او-4 ہیں۔ او-1 شہر کی اندرونی رنگ روڈ جبکہ او-2 فاتح سلطان محمد پل سے ہوتے ہوئے بیرونی رنگ روڈ بناتی ہے۔ او-2 مغرب میں ادرنہ سے ملتی ہے جبکہ او-4 مشرق میں شہر کو انقرہ سے ملاتی ہے۔ او-2، او-3 اور او-4 یورپی روٹ ای 80 کا حصہ بھی ہیں۔ [291][292]
پل
استنبول ایک بین براعظمی شہر ہے اور آبنائے باسفورس شہر کو ایشیائی اور پورپی حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ یہ بین الاقوامی جہاز رانی کے لیے استعمال ہونے والی دنیا کی سب سے تنگ آبنائے ہے جو بحیرہ اسود کو بحیرہ مرمرہ سے ملاتی ہے۔ بری نقل و حمل کے لیے آبنائے پر پل بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح شاخ زریں آبنائے باسفورس کی ایک قدرتی خلیج ہے جو شہر کے یورپی حصے کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ایک قدرتی بندرگاہ بناتی ہے۔ آبنائے باسفورس کی طرح شاخ زریں پر بھی بری نقل حمل کے لیے پل موجود ہیں۔ استنبول کی بری نقل و حمل میں یہ پل انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
باسفورس پل
باسفورس پل
تفصیلی مضمون کے لیے باسفورس پل ملاحظہ کریں۔
باسفورس پل استنبول، ترکی میں آبنائے باسفورس پر قائم ایک پل ہے۔ یہ شہر کے یورپی علاقے اورتاکوئے اور ایشیائی حصے بےلربئی کو ملاتا ہے اور باسفورس پر قائم ہونے والا پہلا پل ہے۔ یہ پل 1510 میٹر طویل ہے جبکہ اس کی عرصے کا عرض 39 میٹر ہے۔ اس کے دونوں برجوں کے درمیان میں فاصلہ 1074 میٹر ہے اور سڑک کی سطح سے بلندی 105 میٹر ہے۔ یہ سطح سمندر سے 64 میٹر بلند ہے اور 1973ء میں تکمیل کے بعد دنیا کا چوتھا سب سے بڑا سسپنشن پل بن گیا تاہم یہ ریاستہائے متحدہ امریکا سے باہر دنیا کا سب سے بڑا سسپنشن پل ہے۔
آبنائے باسفورس پر پل کی تعمیر کا فیصلہ پہلی بار 1957ء میں عدنان میندریس کے دور حکومت میں کیا گیا۔ اس کے نقشے کے لیے برطانیہ کے ادارے فری مین فاکس اینڈ پارٹنرز کے ساتھ 1968ء میں معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ پل کا نقشہ معروف برطانوی ماہر تعمیرات سر گلبرٹ رابرٹس نے تیار کیا۔ تعمیر کا آغاز فروری 1970ء میں ہوا جس میں اُس وقت کے صدر جودت سونے اور وزیر اعظم سلیمان ڈیمرل نے بھی شرکت کی۔ تعمیراتی کام ترک ادارے انکا انسات و صناعی نے انجام دیا۔ اس کام میں برطانیہ اور جرمنی کے دو ادارے میں شامل تھے۔ منصوبے پر 35 مہندسین اور 400 افراد نے کام کیا۔ پل کی تعمیر جمہوریہ ترکی کے قیام کی 50 ویں سالگرہ کے صرف ایک روز بعد 30 اکتوبر 1973ء کو مکمل ہوئی۔ اس کا افتتاح صدر فہری کوروترک اور وزیر اعظم نعیم تولو نے کیا۔ باسفورس پل کی تعمیر پر 200 ملین امریکی ڈالر کی لاگت آئی۔
فاتح سلطان محمد پل
فاتح سلطان محمد پل
تفصیلی مضمون کے لیے فاتح سلطان محمد پل ملاحظہ کریں۔
فاتح سلطان محمد پل استنبول، ترکی میں آبنائے باسفورس پر واقع ایک پل ہے۔ یہ پل پندرہویں صدی کے عثمانی سلطان محمد ثانی المعروف محمد فاتح سے موسوم ہے جنہوں نے 1453ء میں استنبول فتح کیا تھا۔ یہ پل استنبول کے یورپی علاقے حصارشتو اور ایشیائی علاقے کاواجک کے درمیان میں واقع ہے۔ یہ پل 1510 میٹر طویل ہے اور اس کے عرشے کا عرض 39 میٹر ہے۔ برجوں کے درمیان میں فاصلہ 1090 میٹر ہے اور سڑک کی سطح سے اس کی بلندی 105 میٹر ہے۔ یہ پل سطح سمندر سے 64 میٹر بلند ہے۔ فاتح پل کو 1988ء میں اپنی تکمیل کے بعد دنیا کے چھٹے طویل ترین سسپنشن پل کا اعزاز ملا۔
تین جاپانی، ایک اطالوی اور ایک ترک ادارے کے مشترکہ بین الاقوامی منصوبے سے اس پل کی تعمیرات کا کام انجام دیا۔ اس کا نقشہ فری مین فاکس اینڈ پارٹنرز نے بنایا۔ پل 3 جولائی 1988ء کو مکمل ہوا اور اس کا افتتاح اس وقت کے ترک وزیر اعظم ترغت اوزال نے کیا جو اپنی گاڑی کے ذریعے اس پل کو پار کرنے والے پہلے شخص بھی تھے۔ پل پر 130 ملین امریکی ڈالر کی لآگت آئی۔
یاووز سلطان سلیم پل
یاووز سلطان سلیم پل
تفصیلی مضمون کے لیے یاووز سلطان سلیم پل ملاحظہ کریں۔
یاووز سلطان سلیم پل آبنائے باسفورس پر ریل اور گاڑیوں کی نقل و حمل کے لیے استنبول، ترکی میں ایک پل ہے جو پہلے سے موجود دو پلوں کے شمال میں واقع ہے۔ ابتدا میں اس کا نام تیسرا باسفورس پل تھا، پہلا پل باسفورس پل اور دوسرا فاتح سلطان محمد پل تھا تاہم بعد میں اس کا نام تبدیل کر دیا گیا۔ یہ آبنائے باسفورس کے بحیرہ اسود میں داخلے کے قریب ہے۔ یورپی طرف یہ سارییر میں غریبچے اور ایشیائی طرف میں یہ بیکوز میں پویرازکوئے کے مقام پر ہے۔ [293]
یوریشیا سرنگ
یوریشیا سرنگ
تفصیلی مضمون کے لیے یوریشیا سرنگ ملاحظہ کریں۔
یوریشیا سرنگ استنبول، ترکی میں ایک زمین دوز سرنگ ہے جو آبنائے باسفورس کے نیچے بنائی گئی ہے۔ سرنگ کا باضابطہ افتتاح 20 دسمبر 2016ء کو ہوا [294][295][296] اور 22 دسمبر 2016ء کو اسے ٹریفک کے لئے کھولا گیا۔ 5.4 کلومیٹر (3.4 ملی میٹر) دو منزلہ سرنگ استنبول کے یورپی حصے قوم قاپی کو ایشیائی حصے قاضی کوئے سے جوڑتی ہے [297] کل راستہ 14.6 کلومیٹر (9.1 میل) ہے جس میں سرنگ تک جانے والی سڑکیں بھی شامل ہیں۔ [298] یہ سمندری فرش کے نیچے باسفورس کو 106 میٹر کی زیادہ سے زیادہ گہرائی میں پار کرتا ہے۔ [299][300][301] دونوں براعظموں کے مابین سفر میں 5 منٹ لگتے ہیں۔ [296][298][300][302]
غلطہ پل
غلطہ پل
تفصیلی مضمون کے لیے غلطہ پل ملاحظہ کریں۔
غلطہ پل شاخ زریں، استنبول، ترکی میں واقع ایک پُل ہے۔ جو زمانۂ قدیم سے مختلف صورتوں میں اس کھاڑی پر مختلف صورتوں میں موجود رہا ہے اور آج جو پل اس مقام پر قائم ہے وہ پانچواں پل ہے۔ غلطہ پل خصوصاً انیسویں صدی کے اواخر سے ترک ادب، تھیٹر، شاعری اور ناولوں کا حصہ بنتا رہا ہے۔ شاخ زریں پر قائم قدیم ترین پل کے شواہد چھٹی صدی عیسوی میں ملتے ہیں جب جسٹینین اعظم نے شہر کے مغربی کنارے پر تھیوڈیسیائی دیواروں کے قریب ایک پل تعمیر کیا تھا۔ 1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے موقع پر ترکوں نے کشتیوں سے ایک متحرک پل قائم کیا تاکہ افواج کو شاخ زریں کے دوسرے کنارے پر پہنچایا جا سکے۔
سلطان بایزید ثانی کے عہد میں 1502ء میں موجودہ مقام پر ایک پل کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا اور اس امر کے لیے معروف اطالوی مصور لیونارڈو ڈا ونچی نے 240 میٹر طویل اور 24 میٹر عریض پل کا نقشہ پیش کیا۔ جو تعمیر کی صورت میں اپنے وقت کا دنیا کا سب سے طویل پل ہوتا۔ اور ایک اطالوی مصور مائیکل اینجلو کو بھی پل کی تعمیر کے لیے نقشہ بنانے کے لیے مدعو کیا گیا تھا لیکن انہوں نے یہ پیشکش ٹھکرادی اور اس طرح انیسویں صدی تک شاخ زریں پر پل کی تعمیر کا خیال شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
اتاترک پل
اتاترک پل
تفصیلی مضمون کے لیے اتاترک پل ملاحظہ کریں۔
اتاترک پل جسے آنکاپانی پل بھی کہا جاتا ہے استنبول، ترکی میں شاخ زریں پر ایک ہائی وے پل ہے۔ یہ جمہوریہ ترکی کے بانی اور پہلے صدر مصطفٰی کمال اتاترک کے نام پر ہے۔
شاخ زریں میٹرو پل
شاخ زریں میٹرو پل
تفصیلی مضمون کے لیے شاخ زریں میٹرو پل ملاحظہ کریں۔
شاخ زریں میٹرو پل استنبول، ترکی میں استنبول میٹرو کی ایم2 لائن کے لیے شاخ زریں پر ایک پل ہے۔ یہ استنبول کے یورپی حصے میں اضلاع بےاوغلو اور فاتح کو آپس میں ملاتا ہے۔ یہ غلطہ پل اور اتاترک پل کے درمیان میں اتاترک پل سے تقریباْ 200 میٹر (660 فٹ) مشرق میں واقع ہے۔ [300][303][304] یہ شاخ زریں پر چوتھا پل ہے۔ [304][305] اس کا افتتاح 15 فروری 2014ء کو ہوا۔ [298]
خلیج پل
خلیج پل
تفصیلی مضمون کے لیے خلیج پل ملاحظہ کریں۔
خلیج پل شاخ زریں (ترکی زبان: Haliç خلیج) پر استنبول، ترکی میں ہائی وے پل ہے۔ یہ جنوب مغرب میں ایوان سرائے کو شمال مغرب میں ہاسکوئے سے ملاتا ہے۔ یہ 1971ء اور 1974ء کے درمیان میں تعمیر کیا گیا۔ پل کی لمبائی 995 میٹر (3،264 فٹ)، چوڑائی 32 میٹر (105 فٹ)اور سطح سمندر سے بلندی 22 میٹر (72 فٹ) ہے۔
بحری
استنبول میں بحری کے کیے دو بندرگاہیں موجود ہیں۔ حیدر پاشا بندرگاہ ایک عمومی کارگو بندرگاہ ہے جو حیدر پاشا، استنبول، ترکی میں واقع ہے جبکہ دوسری استنبول بندرگاہ استنبول، ترکی کے ضلع بےاوغلو کے محلے قرہ کوئے میں واقع یک مسافر بندرگاہ ہے۔
فیری بوٹ
آبنائے باسفورس پر ایک فیری بوٹ
فیری بوٹس کی 15 لائنیں استنبول میں خدمت فراہم کر رہی ہیں جو آبنائے باسفورس اور بحیرہ مرمرہ کی 27 بندرگاہوں پر خدمات فراہم کرتی ہیں۔
بحری بس
16 اپریل 1987ء کو بلدیہ استنبول نے تیزرفتار سمندری نقل و حمل کی فراہمی کے لئے ایک کمپنی قائم کی۔ پہلی دس بحری بسیں ناروے سے خریدی گئیں جس سے استنبول کی سمندری نقل و حمل کو جدید بنا دیا گیا۔ آج کمپنی آئی ڈی او کے 29 ٹرمینلز میں 28 بحری بسوں کا بیڑا خدمات انجام دے رہا ہے، جس میں چھ تیز کار فیری بھی شامل ہیں۔
فضائی
استنبول ساری دنیا کے سیاحوں کے لیے ایک مقبول مقام ہے اور زیادہ تر سیاح فضائی راستے سے استنبول آتے ہیں۔ اس کے علاوہ سامان اور تجارت کے لیے بھی فضائی راستہ مقبول ہے خاص طور پر جب وقتی طور پر شہر ریل کے نظام سے منسلک نہیں۔
استنبول ہوائی اڈا
استنبول ہوائی اڈا
تفصیلی مضمون کے لیے استنبول ہوائی اڈا ملاحظہ کریں۔
استنبول ہوائی اڈا [306] استنبول، ترکی کا بنیادی بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے۔ یہ ضلع ارناوتکوئے شہر کے یورپی حصے میں واقع ہے۔ تمام شیڈول تجارتی مسافر پروازیں 6 اپریل، 2019ء کو استنبول اتاترک ہوائی اڈا سے استنبول ہوائی اڈے پر منتقل کردی گئیں۔ [307]
استنبول اتاترک ہوائی اڈا
اتاترک ہوائی اڈا
تفصیلی مضمون کے لیے استنبول اتاترک ہوائی اڈا ملاحظہ کریں۔
استنبول اتاترک ہوائی اڈا استنبول، ترکی کا اہم بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے۔ یہ ترکی کا سب سے بڑا ہوائی اڈا اور ترکش ایئر لائنز کا صدر دفتر بھی ہے۔
استنبول صبیحہ گوکچن بین الاقوامی ہوائی اڈا
صبیحہ گوکچن ہوائی اڈا
تفصیلی مضمون کے لیے استنبول صبیحہ گوکچن بین الاقوامی ہوائی اڈا ملاحظہ کریں۔
استنبول صبیحہ گوکچن بین الاقوامی ہوائی اڈا ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول کے دو بین الاقوامی ہوائی اڈوں میں سے ایک ہے۔ یہ شہر کے وسط سے 32 کلومیٹر (20 میل) جنوب مشرق میں واقع ہے۔ صبیحہ گوکچن ترکی کی پہلی خاتون ہوا باز تھیں۔ وہ دنیا کی پہلی خاتون ہوا باز تھیں جنہوں نے کسی جنگ میں حصہ لیا۔ وہ ترکی کے پہلے صدر مصطفٰی کمال اتاترک کے گود لیے گئے آٹھ بچوں میں سے ایک تھیں۔
استنبول ہزارفن ایئرفیلڈ
تفصیلی مضمون کے لیے استنبول ہزارفن ایئرفیلڈ ملاحظہ کریں۔
استنبول ہزارفن ایئرفیلڈ استنبول، ترکی کے ضلع چاتالجا میں ایک نجی ملکیت کا ہوائی اڈا ہے۔
استنبول سماندرا فوجی ایئر بیس
تفصیلی مضمون کے لیے استنبول سماندرا فوجی ایئر بیس ملاحظہ کریں۔
استنبول سماندرا فوجی ایئر بیس استنبول، ترکی کے ضلع کارتال میں ایک فوجی ہوائی اڈا ہے۔
ریل
حیدر پاشا ریلوے اسٹیشن
سلطنت عثمانیہ کے دور سے ہی ترکی میں ریل کا اعلیٰ نظام موجود تھا۔ بغداد ریلوے برلن کو اس وقت کے سلطنت عثمانیہ کے شہر بغداد سے مربوط کرنے کے لئے 1903ء سے 1940ء کے درمیان میں تعمیر کی گئی۔ اس کے راستے جرمن خلیج فارس میں ایک بندرگاہ قائم کرنا چاہتے تھے۔ یہ جدید دور کے ممالک ترکی، سوریہ اور عراق سے گزرتی تھی اور اس کی لمبائی 1،600 کلومیٹر (1000 میل) تھی۔ حیدر پاشا ریلوے اسٹیشن استنبول میں ایک ریلوے اسٹیشن ہے۔ یہ بغداد ریلوے اور حجاز ریلوے کا ایک اسٹیشن تھا۔ حجاز ریلوے دمشق سے مدینہ تک جاتی تھی۔ اصل منصوبہ میں لائن کو مکہ تک جانا تھا لیکن پہلی جنگ عظیم کے شروع ہونے کی وجہ سے یہ مدینہ منورہ سے آگے نہ جا سکی۔ یہ عثمانی ریلوے نیٹ ورک کا ایک حصہ تھی جس کا مقصد استنبول سے دمشق کی لائن کو آگے تک پھیلانا تھا۔ منصوبہ کا مقصد سلطنت عثمانیہ سے حجاج کرام کو سفری سہولت فراہم کرنا تھا۔ تاہم بغداد ریلوے اور حجاز ریلوے دونوں اب غیر فعال ہیں۔ [308][309][310] استنبول سے بین الاقوامی ریل سروس کا آغاز 1889ء میں ہوا جب بخارسٹ اور استنبول کے سیرکیجی ریلوے اسٹیشن مابین ایک ریلوے لائن بچھائی گئی۔ جو بالآخر پیرس سے اورینٹ ایکسپریس کا مشرقی ٹرمنس کے نام سے مشہور ہوا۔ [85] نئے اسٹیشنوں نے دونوں حیدر پاشا ریلوے اسٹیشن اور سیرکیجی ریلوے اسٹیشن کی جگہ لی ہے اور شہر کے غیر مربعط ریلوے نیٹ ورک کو ملایا ہے امید کی جارہی ہے مرمرائی منصوبے کی تکمیل کے بعد ریلوے خدمات بحال ہوں گی تاہم ابھی استنبول بین شہر ریل سروس کے بغیر ہے۔ [311]
ترک ریاستی ریلوے
ترک ریاستی ریلوے
تفصیلی مضمون کے لیے ترک ریاستی ریلوے ملاحظہ کریں۔
ترک ریاستی ریلوے مخفف ٹی سی ڈی ڈی حکومتی ملکیت کی قومی ریلوے کمپنی ہے جو ترکی میں ریلوے کے بنیادی ڈھانچے کی ملکیت اور دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ نئی لائنوں کی منصوبہ بندی اور تعمیر کی بھی ذمہ دار ہے۔ ترکی میں ریلوے کو قومیائے کے عمل کے طور پر 4 جون 1929ء کو ٹی سی ڈی ڈی تشکیل دی گئی۔ [312] ترکی کی ریاستی ریلوے ترکی میں تمام عوامی ریلوے کی مالک اور ان کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ اس میں ریلوے اسٹیشن، بندرگاہیں، پل اور سرنگیں، یارڈ اور دیکھ بحال کی سہولیات شامل ہیں۔ 2016ء میںء ٹی سی ڈی ڈی کے زیر انتظام 12،532 کلومیٹر (7،787 میل) ریلوے کا ایک فعال نیٹ ورک تھا جو اسے دنیا کا بائیسواں سب سے بڑا ریلوے نظام بناتا ہے۔ انقرہ اور ترکی کے دیگر مقامات کو خدمت عام طور پر ترک ریاستی ریلوے کے ذریعہ پیش کی جاتی ہے لیکن مرمرائی اور انقرہ-استنبول تیز رفتار لائن کی تعمیر نے اس اسٹیشن کو 2012ء میں بند کرنے پر مجبور کر دیا۔ [311]
مرمرائی
مرمرائی
تفصیلی مضمون کے لیے مرمرائی ملاحظہ کریں۔
مرمرائی استنبول، ترکی میں 76.6 کلومیٹر (47.6 میل) لمبی بین براعظمی مسافر ریل ہے۔
استنبول میٹرو
استنبول میٹرو
تفصیلی مضمون کے لیے استنبول میٹرو ملاحظہ کریں۔
استنبول میٹرو استنبول، ترکی میں عاجلانہ نقل و حمل ایک ریلوے نیٹ ورک ہے۔ یہ میٹرو استنبول کے زیر انتظام ہے۔ میٹرو کا سب سے قدیم سیکشن ایم ون لائن ہے جو 1989 میں کھولی تھی، اب اس میں 89 اسٹیشن شامل ہیں اور 64 مزید زیر تعمیر ہیں۔ [313][314]
لائن روٹ افتتاح لمبائی اسٹیشن نوٹس[315]
ینی قاپی ↔ اتاترک ایرپورٹ / کیرازلی 1989[316] 26.1 کلومیٹر[316] 23[316] 0.7 کلومیٹر ینی قاپی کو توسیع افتتاح 9 نومبر 2014.[317] اوقات 06:00 صبح تا 00.00 آدھی رات
ینی قاپی ↔ حاجی عثمان 2000[318] 23.5 کلومیٹر[318] 16[318] جنوبی توسیع (3.5 کلومیٹر ینی قاپی تک بڑھاو، مع 3 اسٹیشن) تکمیل فروری 2014. اوقات 06:15 صبح تا 00.00 آدھی رات
کیرازلی ↔ میٹروکینٹ–اولیمپیات 2013[319] 15.9 کلومیٹر[319] 11[319] ایک جنوبی توسیع (9.0 کلومیٹر باقر کوئے کو، مع 7 اسٹیشن) زیر تعمیر۔ اوقات 06:00 صبح تا 00.00 آدھی رات
قاضی کوئے ↔ تاوشان تپہ 2012[320] 26.5 کلومیٹر[320] 19[320] ایک توسیع 7.4 کلومیٹر استنبول صبیحہ گوکچن بین الاقوامی ہوائی اڈا کو مع 4 مزید اسٹیشن زیر تعمیر ہیں۔ اوقات 06:00 صبح تا 00.00 آدھی رات
اسکودار ↔ چکمہ کوئے 2017[321] 20 کلومیٹر[321] 16[321] افتتاح 15 دسمبر 2017. اوقات 06:00 صبح تا 00.00 آدھی رات وقت از اسکودار تا چکمہ کوئے 27 منٹ ہے۔
لیوینٹ↔ بوغازچی یونیورسٹی/حصار اوستو 2015[322] 3.3 کلومیٹر[322] 4[322] منی میٹرو دراصل ایک ہلکی میٹرو لائن ہے۔
کل: 115.3 کلومیٹر[313] 89[313]
ٹرام
استنبول یاد ماضی ٹراموے
جدید استنبول ٹرام
استنبول یاد ماضی ٹراموے استنبول، ترکی میں دو ثقافتی ورثہ ٹرام کے راستے ہیں، اس کا بنیادی مقصد شہر کے قدیم ثقافتی ورثے کو اجاگر کرنا ہے۔ جدید استنبول ٹرام استنبول کے یورپی حصے ٹرام کا ایک جدید نظام ہے۔ پہلا سیکشن "ٹی 1" 1992ء میں کھولا گیا اس کے بعد "ٹی 2" کا افتتاح 2006ء میں ہوا۔ "ٹی 4" 2007ء میں کھولا گیا۔ [323][324]
بس نظام
میٹروبس (استنبول)
بس کے بیڑے میں کل 4،012 مختلف انوع کی بسیں موجود ہیں۔ [325][326] 2012ء میں روزانہ سواریوں کی تعداد 3،621،908 تھی، جو شہر کی کل یومیہ نقل و حمل کا 30٪ کی نمائندگی کرتی ہے۔ [327][328]
میٹروبس
تفصیلی مضمون کے لیے میٹروبس (استنبول) ملاحظہ کریں۔
میٹروبس استنبول، ترکی میں 50 کلومیٹر (31.1 میل) کا بس ریپڈ ٹرانزٹ راستہ ہے جس کے 45 اسٹیشن ہیں۔ اوجیلار کو استنبول یونیورسٹی سے ملانے والے پہلے حصے کی تعمیر کا آغاز 2005ء میں ہوا۔ بس وے کا افتتاح 17 ستمبر 2007ء کو ہوا۔
ٹریفک سے فضائی آلودگی
ترکی میں فضائی آلودگی استنبول میں کاروں، بسوں اور ٹیکسیوں کی وجہ سے شدید ہے جس کی وجہ سے اکثر شہر کو اسموگ [329] کا سامنا ہوتا ہے، یہ کم اخراج زون والے یوروپی شہروں میں سے ایک ہے۔ 2019ء میں شہر کی فضائی کوالٹی ایک سطح پر رہی ہے اور ٹریفک کے اوقات کے دوران میں صحتمند لوگوں کے دل اور پھیپھڑوں کو متاثر کیا۔ [330]
جڑواں شہر
تفصیلی مضمون کے لیے ترکی کے جڑواں شہروں کی فہرست ملاحظہ کریں۔
استنبول[331] کے جڑواں شہر مندرجہ ذیل ہیں۔
قازقستان کا پرچم الماتی، قازقستان
اردن کا پرچم عمان، اردن
تھائی لینڈ کا پرچم بینکاک، تھائی لینڈ
ہسپانیہ کا پرچم برشلونہ، ہسپانیہ
لبنان کا پرچم بیروت، لبنان
لیبیا کا پرچم بنغازی، لیبیا
جرمنی کا پرچم برلن، جرمنی
جنوبی کوریا کا پرچم بوسان، جنوبی کوریا
مصر کا پرچم قاہرہ، مصر
جرمنی کا پرچم کولون (علاقہ)، جرمنی
رومانیہ کا پرچم کونستانتسا، رومانیہ
سوریہ کا پرچم دمشق، سوریہ
متحدہ عرب امارات کا پرچم دبئی، متحدہ عرب امارات
البانیا کا پرچم دراج، البانیہ
چین کا پرچم گوانگژو، چین
ریاستہائے متحدہ کا پرچم ہیوسٹن، ریاستہائے متحدہ
انڈونیشیا کا پرچم جکارتا، انڈونیشیا
سعودی عرب کا پرچم جدہ، سعودی عرب
ملائیشیا کا پرچم جوھر بھرو، ملائیشیا
روس کا پرچم قازان، روس
سوڈان کا پرچم خرطوم، سوڈان
پاکستان کا پرچم لاہور، پاکستان
ترکمانستان کا پرچم ماری، ترکمانستان
میکسیکو کا پرچم میکسیکو شہر، میکسیکو
چاڈ کا پرچم نجامینا، چاڈ
یوکرین کا پرچم اودیسا، یوکرین
کرغیزستان کا پرچم اوش، کرغیزستان
بلغاریہ کا پرچم پلوودیف، بلغاریہ
مراکش کا پرچم رباط، مراکش
برازیل کا پرچم ریو دے جینیرو، برازیل
روس کا پرچم سینٹ پیٹرز برگ، روس
بوسنیا و ہرزیگووینا کا پرچم سرائیوو، بوسنیا و ہرزیگووینا
چین کا پرچم شنگھائی، چین
جاپان کا پرچم شیمونوسیکی، یاماگوچی، جاپان
جمہوریہ مقدونیہ کا پرچم اسکوپیہ، شمالی مقدونیہ
ایران کا پرچم تبریز، ایران
جارجیا کا پرچم تبلیسی، جارجیا
تونس کا پرچم تونس شہر، تونس
اطالیہ کا پرچم وینس، اطالیہ
مشاہیر
رجب طیب ایردوان
عقیلہ خاتون – سلطنت عثمانیہ کی ملکہ اور عثمان ثانی کی بیوی
فوزی چکماق - ترک فیلڈ مارشل اور سیاست دان
کاتب چلبی حاجی خلیفہ - ترک مورخ
شہزادہ جہانگیر – سلیمان اعظم اور خرم سلطان کا چھوٹا بیٹا
اسماعیل انور پاشا - ترک سیاست دان
رجب طیب ایردوان - صدر ترکی
حسین ابن علی - شریف مکہ
موسیٰ کاظم قرہ بکر - ترک جرنیل اور سیاست دان
فخری کوروترک - ترک سیاست دان، بحری افسر اور سفارت کار
محمود ثانی - عثمانی سلطان
شہزادہ محمد – سلیمان اعظم اور خرم سلطان کا سب سے بڑا بیٹا
میخائیل کارولاریوس - مسیحی عالم اور قسطنطنیہ کے بطریق
مدحت پاشا - عثمانی سیاست دان اور مصلح
مراد خامس - عثمانی سلطان
مصطفٰی رابع - عثمانی سلطان
عزیز نیسن - ترکی کا مشہور ادیب، شاعر
رؤف اوربے - عثمانی بحریہ افسر اور سیاست دان
عثمان ثانی - عثمانی سلطان
ارطغرل عثمان - عثمانی خلفاء کے آخری جانشین
اورخان پاموک - ادب کا نوبل انعام
رابعہ بالا خاتون - عثمانی سلطان عثمان اول کی بیوی
شہزادہ بایزید - عثمانی شہزادہ
سلیم ثانی - عثمانی سلطان
سلیمان ثانی - عثمانی سلطان
فاطمہ عالیہ ٹوپوز - ترک ناول نگار، کالم نگار
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
48,459 | تجربات کو نقل کرنے کا عمل حیاتیاتی تحقیق کے نتائج کی وشوسنییتا میں کس طرح حصہ ڈالتا ہے؟ | حیاتیات میں تجربات کو نقل کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ نتائج کی مستقل مزاجی اور درستگی کو قائم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ ایک جیسے حالات میں ایک ہی تجربے کو متعدد بار کرنے سے، محققین اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ آیا نتائج دوبارہ پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ یہ نتائج پر اثر انداز ہونے والے موقع یا تجرباتی غلطی کے امکان کو کم کرتا ہے، نتائج کو زیادہ قابل اعتماد اور عام کرنے کے قابل بناتا ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
48,547 | آپ کو دو دروازے ملتے ہیں، جن میں سے ایک "سچ" کا لیبل لگا ہوا ہے اور دوسرا "جھوٹ" کا لیبل لگا ہوا ہے۔ ایک دروازے کے پیچھے وہ شخص ہوتا ہے جو ہمیشہ سچ بولتا ہے اور دوسرے کے پیچھے وہ شخص ہوتا ہے جو ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے۔ آپ اس بات کا تعین کرنے کے لیے ایک سوال پوچھ سکتے ہیں کہ کون سا دروازہ سچ بولنے والے کی طرف جاتا ہے۔ آپ کیا سوال پوچھتے ہیں؟ | پوچھو، "اگر میں دوسرے شخص سے پوچھوں کہ کون سا دروازہ سچ بولنے والے کی طرف جاتا ہے، تو وہ کیا کہیں گے؟" پھر، آپ کو موصول ہونے والے جواب کے برعکس کا انتخاب کریں۔ سچ بولنے والا سچائی سے جھوٹے کے جواب کی نشاندہی کرے گا، اور جھوٹا سچ بولنے والے کے جواب کی جھوٹی نشاندہی کرے گا۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
48,651 | صحت : جسمانی درجہ حرارت کم کرنے کے کیا چیزیں اہم ہیں؟
| جسم کی گرمی ایک عام صورتحال ہے، پوری دنیا کے لوگوں کو اس مسلئے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسے عام طور گرمی کا بھی دباؤ کہا جاتا ہے۔
کچھ لوگوں میں جسم کی گرمی کی وجہ سے دل کی شرح متاثر ہوتی ہے اس میں دل کی دھڑکن کا تیز ہوجانا شامل ہے۔
جسم کی گرمی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، جس میں پانی کی کمی کے علاوہ، انتہائی درجہ حرارت والی جگہ پر رہائش اختیار کرنا بھی شامل ہے۔
اس صورتحال پر قابو پانے کیلیے کچھ اشیاء ایسی ہیں کہ جن کے استعمال سے جسم کے درجہ حرارت کو قدرتی طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔
گرم اور مرطوب دن اکثر جسم سے توانائی خارج کرتے ہیں اور اس سے انسان کو پیاس اور پانی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق درج ذیل قدرتی اشیاء میں سے کسی کو استعمال کرنے یا کھاتے سے قدرتی طور پر جسم کے درجہ حرارت کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے اور اس طرح دن بھر جسم کو متحرک رکھنا بھی ممکن ہو جاتا ہے۔
1۔ ناریل کا پانی
یہ ایک قدرتی الیکٹرو لائٹ ڈرنک ہے جو پوٹاشیم سے بھی بھرپور ہے۔ یہ جسم کی نمی کو برقرار رکھنے اور جسم کے درجہ حرارت کو منظم کرنے میں مدد کرتا ہے۔
2. پودینہ
اسے چٹنی یا مشروبات میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس میں ٹھنڈک کی خصوصیات ہیں جو شدید گرمی کے دوران جسم کے درجہ حرارت کو ٹھنڈا کرتی ہیں۔
3. تربوز
اس میں تقریباً 92 فیصد پانی ہوتا ہے اور یہ اینٹی آکسیڈنٹس سے بھی بھرپور ہوتا ہے جو جسم کو ہائیڈریٹ کرنے اور ٹھنڈک کا اثر فراہم کرنے میں مدد کرتا ہے۔
4. دہی
اس میں اینٹی مائیکروبیل اور اینٹی آکسیڈنٹس خصوصیات ہیں ۔ یہ اپنی ٹھنڈک کی خصوصیات کے لیے بھی جانا جاتا ہے جو آنتوں کی صحت کو سکون بخشتی ہے۔
5. دودھ
دودھ آنتوں کی صحت کو برقرار رکھتا ہے اور جسم کے درجہ حرارت کو کم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ پروبائیوٹکس سے بھرپور مشروب ہے۔
6. کیلا
یہ غذائی اجزاء کا بھرپور ذریعہ ہے جو فوری توانائی حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اسے ٹھنڈے پھلوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے جو جسم کو ٹھنڈا کرنے میں مدد کرتا ہے۔ کیلا کھانے سے ٹشوز سکڑ جاتے ہیں جو زیادہ پانی جذب کرنے میں مدد کرتا ہے۔
7. ایوکاڈو
ایوکاڈو میں مونو سیچوریٹڈ فیٹی ایسڈز کی اعلیٰ سطح موجود ہوتی ہے جو خون سے زہریلے مادوں اور اضافی گرمی کو دور کرنے میں مدد کرتی ہے۔
8. پیاز
پیاز کھانا انسان کو ٹھنڈک کی خصوصیات فراہم کرتا ہے۔ پیاز ہیٹ سٹروک سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق سرخ پیاز میں کوئیرسیٹن موجود ہوتا ہے جو قدرتی اینٹی الرجک ہے اور جلد کو الرجی کا شکار ہونے سے بچاتا ہے۔
9. ترش پھل
ترش پھل وٹامن سی سے بھرپور ہوتے ہیں جو چکنائی والی غذاؤں کو توڑنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ ہاضمے میں بھی مدد کرتے ہیں۔ ان میں اینٹی آکسیڈنٹس بھی ہوتے ہیں جو ٹھنڈک کا اثر دیتے ہیں۔
10. کھیرا
کھیرے میں پانی اور فائبر ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے پانی کی مقدار جسم کو ہائیڈریٹ رکھتی ہے۔ اس میں موجود فائبر کی مقدار آنتوں کو صحت مند رکھتی ہے۔
11. اجوائن
اجوائن میں پانی کی مقدار تقریباً 95 فیصد ہوتی ہے اور یہ جسم کو ضروری غذائی اجزاء فراہم کرتی ہے۔ یہ انسانی جسم کو گرم دن کے دوران توانائی بخش اور ٹھنڈا رکھنے میں مدد کرتی ہے۔
12. ایلو ویرا
ایلو ویرا میں سوزش کی خصوصیات ہوتی ہیں جو گرمی کے دنوں میں جسم کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتی ہیں۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
48,935 | سوال: اگر کوئی طیارہ امریکہ اور کینیڈا کی سرحد پر گر کر تباہ ہو جائے تو بچ جانے والوں کو کہاں دفنایا جائے؟
| جواب: کہیں نہیں۔ اگر زندہ بچ گئے ہیں تو انہیں دفنانے کی ضرورت نہیں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
49,382 | سوال: آپ جتنا زیادہ لیں گے، اتنا ہی پیچھے چھوڑ دیں گے۔ میں کیا ہوں؟
| جواب: قدم قدم۔ آپ جتنے زیادہ قدم اٹھائیں گے، اتنے ہی زیادہ قدموں کے نشان آپ پیچھے چھوڑ جائیں گے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
49,472 | عوام کیا کرسکتی ہے موسمیاتی تبدیلی کے مقابلے میں | عوام یہ کر سکتی ہے کہ ذیادہ سے ذیادہ درخت لگائیں ، ذمین کے وسائل کو ضائع نہ کریں ، ماحولیاتی آلود گی سے متعلق سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر زمہ داری کا مظاہرہ کریں اور اپنے ملک کے استحکام کے لئے آواذ اٹھا ئیں ۔ سر سبزوشادا ب پاکستان ۔۔۔۔۔ مستحکم و خوشحال پاکستان !!!!!!
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
49,596 | write a funny stanze/شعر in urdu. | Sure, here is a funny stanza/شعر in the Urdu Language:
1. میں بھی گریجویٹ ہوں تم بھی گریجویٹ
علمی مباحثے ہوں ذرا پاس آ کے لیٹ
2. میں کیسے سناؤں تمہیں دل کی داستان
میرے پاس تو تمہارا نمبر ہی نہیں ہے | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
49,700 | کیا کافی پینا صحت کیلئے نقصان دہ ہے؟
| اکثر لوگ صبح کے اوقات میں چائے کے مقابلے میں کافی پینا پسند کرتے ہیں، لیکن کچھ لوگ کافی کا استعمال حد سے زیادہ کرتے ہیں مگر وہ اس کے منفی اور مثبت اثرات سے لاعلم ہوتے ہیں۔
کافی انرجی بوسٹر ہے کیونکہ لوگ کام کے دوران اضافی کپ بھی لیتے ہیں اور متعدد تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس کے فوائد میں کینسر کے خطرے میں کمی کے ساتھ دل کی بیماریوں اور ٹائپ 2 ذیابیطس سے بچاؤ بھی شامل ہے۔
تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اگر اس کا زیادہ استعمال کیا جائے تو اس کے نتیجے میں دل کی بیماری، فالج اور ڈیمنشیا کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جس میں امریکن سوسائٹی فار نیوٹریشن کی ایک رکن ٹریسیا پسوٹا کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کافی کا معمول کا استعمال صحت کے لیے برا نہیں ہے لیکن اسے صحت کے فوائد کے لیے نہیں پیا جانا چاہیے۔
فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے مطابق یہ روزانہ 400 ملی گرام یا تقریباً چار یا پانچ اونس کپ ہونا چاہئے لوگ کیفین کے اثرات کو محسوس نہیں کریں گے جیسے کہ دل کی بے ترتیب دھڑکن یا الٹی جب تک کہ وہ دن میں تقریباً 12 کپ نہ پی لیں کیونکہ ہر جسم میں برداشت کی سطح مختلف ہوتی ہے۔
کافی کا بہت زیادہ استعمال خون کے دھارے میں اسٹریس ہارمونز کی اعلیٰ سطح پیدا کرتا ہے، جو صرف خوف اور تناؤ کو جنم دیتا ہے، جب آپ بہت زیادہ کیفین پیتے ہیں تو پریشان ہونا آسان ہوسکتا ہے اور کافی کا زیادہ استعمال آپ کی نیند کے شیڈول کو بری طرح خراب کر دے گا۔
لہٰذا یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ اگر آپ اچھی رات کی نیند چاہتے ہیں تو آپ سونے سے چند گھنٹے پہلے کیفین کو چھوڑ دیں جو اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ زیادہ مقدار میں استعمال آپ کے معدے میں تیزابیت کا باعث بن سکتا ہے۔
آپ کو درد اور پیٹ میں اینٹھن ہو سکتی ہے، آپ کے سسٹم پر بہت زیادہ کیفین آپ کے جسم کے لیے آپ کی عام غذا سے غذائی اجزاء جیسے آئرن، کیلشیم اور زنک کو استعمال کرنا مشکل بنا دیتی ہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
50,144 | میں اپنے یوٹیوب چینل پر ٹیک میں خواتین کو ایک موازنے کی دعوت دیتا ہوں جہاں وہ اپنے سفر کی باتیں کریں گی۔ میں ان کے لئے ایک سوال نامہ تیار کرنا چاہتا ہوں، کون سے سوالات میں ان سے پوچھوں تاکہ ان کے جوابات نوجوان لڑکیوں کو حوصلہ دیں کہ وہ ٹیک میں اپنا راستہ بنا سکتی ہیں۔ | یہاں کچھ سوالات دیئے گئے ہیں جو آپ تکنالوجی میں خواتین سے پوچھ سکتے ہیں تاکہ نوجوان لڑکیوں کو محو کریں اور انہیں ترغیب دیں کہ وہ ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں کیریئر بنائیں:
1. کیا آپ کو تکنالوجی کی صنعت میں آپ کا سفر مختصر طریقے سے بیان کر سکتی ہیں، جس میں آپ نے کسی مشکل کا سامنا کیا اور انہیں کیسے پار کیا؟
2. تکنالوجی کے شعبے میں ابتدائی طور پر آپ کو کیا کشش کرتا تھا، اور آپ نے اس کے لئے اپنے جذبے کیسے دریافت کیا؟
3. کیا آپ کے کیریئر کے سفر میں کوئی مخصوص مثالیں یا مینٹرز رہے ہیں جنہوں نے آپ کو اپنے تکنالوجی کے سفر میں رہبری دی، اگر ہاں تو وہ کس طرح آپ کے کیریئر کے انتخابات پر اثرانداز ہوئے؟
4. کیا آپ کوئی اہم کام یا منصوبہ شیئر کر سکتی ہیں جس پر آپ فخر محسوس کرتی ہیں؟ اس نے آپ کی ترقی اور تربیت میں کیسے کردار ادا کیا؟
5. کیا آپ نے کبھی اپنے کیریئر میں جنسی تعرض یا تفرقے کے راستے سے کٹر مواقع کا سامنا کیا ہے؟ اگر ہاں تو آپ نے ان کا کس طرح مقابلہ کیا، اور نوجوان لڑکیوں کو جو اسی طرح کی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہیں ان کو کیسے مشورہ دیا؟
6. تکنالوجی میں کیریئر بنانے کی دلچسپی رکھنے والی نوجوان لڑکیوں کو جو کہیں نہ کہی ہمت ہار جاتی ہو، آپ ان کو کیا مشورہ دینا چاہیں گی؟
7. آپ کی تجربات کے حساب سے، تکنالوجی کی صنعت میں کام کرنے کے کتنے دلچسپ اور انعام دینے والے پہلو ہیں؟
8. آپ کے شعبے میں تازہ ترین تکنالوجی روایات کو جانتے رہنے اور مستقبل کے خوفوں سے کتنی اہمیت ہے؟ آپ کس طرح اپنے آپ کو مطلع رکھنے کے لئے استعمال کرتی ہیں؟
9. کیا آپ تکنالوجی کی صنعت میں مختلف نظریات کی اہمیت پر بات کر سکتی ہیں، اور یہ کیسے نئے انوویشن اور ترقی کے لئے کام آتی ہے؟
10. کیا آپ کوئی خصوصی پیغام یا مقولہ ایسا ہے جو آپ کے تکنالوجی کے سفر کو راہ دکھاتا ہے، جو آپ نوجوان لڑکیوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہیں گی؟
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
50,298 | مجھے اس گانے کے بول چاہیے "ضروری تھا" جو راحت فتح علی خان کی آواز میں گائے گئے ہیں | لفظ کتنے ہی تیرے پیروں سے لپٹے ہوں گے
تُو نے جب آخری خط میرا جلایا ہو گا
تُو نے جب پھول کتابوں سے نکالے ہوں گے
دینے والا بھی تجھے یاد تو آیا ہو گا
تیری آنکھوں کے دریا کا اُترنا بھی ضروری تھا
محبت بھی ضروری تھی، بچھڑنا بھی ضروری تھا
ضروری تھا کہ ہم دونوں طوافِ آرزو کرتے
مگر پھر آرزوؤں کا بکھرنا بھی ضروری تھا
تیری آنکھوں کے دریا کا اُترنا بھی ضروری تھا
بتاؤ یاد ہے تم کو وہ جب دل کو چرایا تھا
چرائی چیز کو تم نے خدا کا گھر بنایا تھا
وہ جب کہتے تھے میرا نام تم تسبیح میں پڑھتے ہو
محبت کی نمازوں کو قضا کرنے سے ڈرتے ہو
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
51,652 | پنجابی ملائی کوفتہ کڑی بنانے کی ترکیب | تیاری برائے ملائی کوفتے
ایک پیالے میں تمام اجزائے ترکیبی باہم یکجا کریں۔ انہیں بخوبی مکس کریں۔ مکسچر کو مساوی حصوں میں تقسیم کریں اور انہیں ہموار کوفتوں کی شکل دیں۔4ایک کڑاہی میں آئل گرم کریں۔ اس آئل میں کوفتے ڈیپ فرائی کریں۔ دھیمی آنچ پر ڈیپ فرائی کریں حتیٰ کہ وہ سنہری براوؤن رنگت اختیار کر جائیں۔ آئل جذب کرنے والے کاغذ پر نچوڑ لیں۔ انہیں ایک جانب رکھ دیں
تیاری برائے گریوی (شوربہ)
ایک پین میں تمام اجزائے ترکیبی باہم یکجا کریں۔ ان میں کپ پانی شامل کریں۔4انہیں دھیمی آنچ پر 5 تا 10 منٹ تک پکائیں۔5پکانے کے بعد مکمل طور پر ٹھندا کریں۔مکسچر کو ایک بلینڈر میں بینڈ کریں اور اس کا ایک ہموار شوربہ (Puree) بنا لیں۔ چھان لیں اور ایک جانب رکھ دیں۔
ایک پین میں مکھن گرم کریں۔3مکھن میں زیرہ شامل کریں۔ زیرہ جب چٹخنے لگے تب اس میں تیارکردہ ٹماٹر گریوی (شوربہ) پنجابی گرم مسالہ۔ قصوری میتھی (سوکھی میتھی)۔ چینی اور نمک شامل کریں اور ابالا دلائیں۔ کریم شامل کریں اور بخوبی مکس کریں۔ کوفتے شامل کریں اور ٢ تا 3 منٹ تک کے لیے آگ پر ابلنے کے قریب پڑا رہنے دیں۔ دھنیا اور مکھن کے ساتھ گارنش کریں۔ گرما گرم ہی کھانے کے لیے پیش کریں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
51,907 | جب آسٹریلوی فوج نے ’شُترمرغوں‘ سے ہار مانی۔ اس کہانی کے بارے میں تھوڑا بتایے: | جی ضرور۔
آسٹریلوی ویب سائٹ آسٹریلین جیوگرافک ڈاٹ کام پر ایک عجیب و غریب جنگ ’دی گریٹ ایمیوز وار‘ کے بارے میں بتایا گیا ہے جو 1932 میں ہوئی۔
یہ منظر ہے ضلع کیمپین کے ایک زرعی علاقے کا، پہلی عالمی جنگ میں حصہ لینے والے فوجیوں کو اس علاقے میں زمنییں الاٹ کی گئی ہیں کہ وہ وہاں اناج اگائیں۔ جس کے لیے وہ زمین تیار کر رہے ہیں۔ ہل چلائے جا رہے ہیں۔ بیج بوئے جا رہے ہیں۔ پانی لگایا جا رہا ہے۔ گندم کے پودے پھوٹنے کے بعد چند انچ ہی بلند ہوئے ہیں۔
ایک منظر اور بھی ہے جہاں آسٹریلوی شترمرغ (ایمیوز) کے غول موجود ہیں اور بدلتے موسم کے بعد خوراک اور افزائش نسل کے لیے نقل مکانی کی تیاری کر رہے ہیں اور پھر وہ اسی علاقے کا رخ کرتے ہیں جہاں آسٹریلوی فوجی فصلیں لگا چکے ہیں۔
اردگرد دیہات والے کسانوں نے فصلوں کو خرگوشوں سے بچانے کے لیے حفاظتی تار لگا رکھے ہیں جبکہ کسی حد تک انتظام فوجیوں نے بھی کر رکھا ہے جو ایمیوز کو روکنے کے لیے قطعی ناکافی ہے۔
’یہ کہاں سے آ گئے‘
نوماڈز ورلڈ اور سائنس اے بی سی پر دی گئی رپورٹس کے مطابق جب سستانے کے لیے بیٹھے فوجیوں کی نگاہ میں چند ایمیو آئے تو ایک نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’یہ کہاں سے آ گئے‘، اور پھر ڈنڈوں کے اشاروں اور ہاؤ ہُو کر کے بھگا دیا مگر اس کے بعد انہیں آرام سے بیٹھنے کا موقع نہیں ملا۔ پھر ایک غول دیکھا گیا جو حفاظتی تاروں کو پھلانگتا چلا گیا پنجوں میں پھنس کر تار بھی اکھڑتے گئے جس پر خرگوشوں کی یلغار کی راہ بھی ہموار ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے فصل کا اچھا خاصا حصہ تلپٹ ہو گیا بہرحال فوجیوں نے پھر سے کوشش بسیار کے بعد ایمیوز کو بھگا دیا۔
اگلے روز ان سے بھی زیادہ پرندے آ گئے اور ظاہر ہے ان کو روکنا مشکل ہی ناممکن بھی تھا اس لیے انہوں نے جی بھر کر فصل اجاڑی، اٹکھیلیاں کیں، فوجیوں کی طرف دیکھ کر عجیب سی آوازیں نکالیں جو انہیں ایسے محسوس ہوئیں جیسے وہ ان پر ہنس رہے ہوں۔
اس کے بعد فوجی سر جوڑ کر بیٹھے اور فیصلہ ہوا کہ حکومت کو آگاہ کیا جائے۔ اس وقت کے وزیر دفاع سے ملاقات کا پروگرام بنایا گیا اور یوں فوجیوں کے چند نمائندے سر جارج پیریئس سے ملے۔
ملاقات کا اختتام اس نکتے پر ہوا کہ حفاظتی جنگلوں کو مزید مضبوط بنایا اور اونچا کیا جائے۔ ایسا ہی کیا گیا مگر اونچی جست کی طاقت رکھنے والے ایمیوز کو نہیں روکا جا سکا۔
اب کیا کیا جائے؟
ایک اور وفد ترتیب دیا گیا جو ایک بار پھر وزیر فاع سر جارج پیریئس سے ملا، جس میں طے پایا کہ ایمیوز کی تعداد کم کر دی جائے تو ان کا زور ٹوٹ جائے گا اور وہ فرار ہو جائیں گے۔ اس کے لیے فوجیوں کو دو مشین گنز دی گئیں، چونکہ فوجی انہیں چلانے کا تجربہ رکھتے تھے اس لیے سب کا یہی خیال تھا کہ بس معاملہ حل ہو گیا۔
سر جارج پیریئس نے یہ ہدایت بھی کی کہ مارے جانے والے ایمیوز کی کھالیں جمع کی جائیں ان سے ہیٹ بنائے جائیں گے جبکہ اسے فوجیوں کے لیے ’نشانہ بازی‘ کی بہترین مشق بھی قرار دیا گیا۔ یہ بھی طے پایا کہ معاملے کی ہوا میڈیا کو نہ لگنے دی جائے۔
’جنگ‘ کا پہلا روز
دو نومبر 1932 کو جب ایمیوز نے فصلوں کا رخ کیا تو انہیں اندازا نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ انہیں موقع دیا گیا کہ وہ اچھی طرح بے خوف ہو جائیں اور پھر جھاڑیوں میں چھپے چند فوجیوں نے گولیاں چلا دیں جس پر ایمیوز بدک گئے اور ادھر ادھر بھاگنا شروع ہو گئے۔ دو چار ایمیوز کو گولیاں لگیں اور باقی اپنی تیز رفتار کے باعث گولیوں کی رینج سے بہت جلد نکل گئے اور پیچھے کی طرف بھاگ گئے۔
اس کے بعد فوجی مطمئن تھے کہ اب وہ نہیں آئیں گے مگر یہ خیال خام ثابت ہونے کو تھا۔
دوسرا معرکہ
اگلی کارروائی چار نومبر کو ہونا تھی تاہم اس روز وہ اپنے وقت سے قبل بہت بڑی تعداد میں نکل آئے۔ اور لگتا تھا کہ وہ پوری تیاری سے آئے ہیں کیونکہ وہ مشین گنز کے سامنے آنے سے گریز کرتے رہے۔ جس طرف بھی مشین گن اٹھتی وہ آناً فاناً چوکڑیاں بھرتے ہوئے غائب ہو جاتے۔ تھوڑی دیر بعد مشین گنیں جام ہو گئیں اور چند ہی ایمیوز نشانہ بن پائے جبکہ کچھ زخمی ہوئے جن کو ’حراست‘ میں لے لیا گیا۔
تاہم اس کے باوجود بھی فوجی اس حد تک زچ ہوئے کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایسے بات نہیں بنے گی۔ اس کے لیے بڑے پیمانے پر گولہ بارود بھی استعمال کرنا پڑے گا۔
وزیر داخلہ کو علم ہوا تو انہوں نے وفد کو ضروری سامان مہیا کرتے ہوئے صاف کہا کہ ’جَسٹ کِل دیم‘ اور باقاعدہ طور پر ’جنگ‘ کا اعلان کرتے ہوئے اس کی کمان میجر میریڈتھ کو سونپی گئی۔
تیسرا روز
ابھی اس معاملے کو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا تھا کہ میڈیا کو خبر ہو گئی اور جب مشین گنوں نے آگ اگلنا شروع کی اور کھیتوں میں دھماکے شروع ہوئے تو صحافی بمع کیمروں کے پہنچ چکے تھے۔ زبردست لڑائی ہوئی۔ اس روز ایمیوز نے صرف جان بچا کر بھاگنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ کچھ فوجیوں پر حملے بھی کیے۔
چوتھا روز
اب یہ فیصلہ ہوا کہ ایمیوز کے آنے کا انتظار کرنے کے بجائے اس جنگل میں جا کر نشانہ بنایا جائے جہاں وہ چھپ جاتے ہیں۔ گاڑیاں بھیجی گئیں تاہم زیادہ تر ایمیوز محفوظ رہے کیونکہ وہاں بے تحاشا درخت تھے اور اونچے نیچے راستے پر گاڑیاں دوڑانا بھی ممکن نہیں تھا اس لیے یہ معرکہ بھی ایک لحاظ سے ایمیوز نے ہی جیتا۔
اس کے بعد بھی کئی روز تک کارروائیاں ہوتی رہیں اور کئی ہزار گولیاں چلا کر بھی چند سو ایمیوز ہی مارے گئے جو ان کی 30 ہزار کے قریب آبادی کے مقابلے میں بہت کم تھیں۔
آٹھ نومبر تک تین ہزار سے زائد راؤند فائر کیے جا چکے تھے مگر دو سے پانچ سو تک ایمیوز ہی ہلاک ہوئے جس پر پرندوں کے ایک ماہر ڈومینک سر وینٹی نے تبصرہ کیا کہ ’فوجیوں کا خیال تھا کہ وہ بے شمار پرندے مار لیں گے تاہم ایمیوز نے گوریلا لڑائی شروع کر دی اور چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ گئے جس پر فوجی ہتھیار بے کار ہو گئے اور مہینہ بھر کی لڑائی کے بعد فوج کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔‘
میڈیا نے ایمیوز کا ساتھ دیا
اس وقت کے اخبارات کے لیے ’ایمیوز وار‘ ایک ہاٹ موضوع تھا۔ اس پر رپورٹس چھپتیں، کارٹون بنتے۔ لوگوں کی جانب سے آپریشن پر سخت تنقید شروع ہو گئی اور وزیر دفاع کو ’منسٹر فار ایمیوز وار‘ کہا جانے لگا۔
پھر آسٹریلیا کے ایوان نمائندگان میں اس معاملے پر بحث شروع ہوئی اور جنگ کی پوری رپورٹ پیش کی گئی۔
انہی دنوں معرکے کی کمان کرنے والے میجر میریڈتھ کا بیان سامنے آیا کہ ’وہ زولوز (سخت جان افریقی لوگ) کی طرح ہیں۔ مشین گن کا ان پر اتنا ہی اثر ہوتا ہے جتنا کسی ٹینک پر، ان کے لیے گولیاں بے کار تھیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایمیوز کئی گولیاں کھا کر بھی بے جگری سے لڑتے ہیں اور کسی سخت جان فوج سے کم نہیں۔‘
ہار ماننے کا اعلان
تقریباً سوا مہینے تک جاری رہنے کے بعد 10 دسمبر کو حکومت نے ہار مانتے ہوئے کارروائی ختم کرنے کا اعلان کیا اور بتایا گیا کہ لڑائی میں کُل 986 ایمیوز مارے گئے جبکہ 25 سو زخمی ہوئے جو بعدازاں دم توڑ گئے اور 10 ہزار سے زائد گولیاں چلائی گئیں۔
جیت پر ایمیوز کا ردعمل
اگرچہ حکومت کے اعلان کے ساتھ ہی واضح ہو گیا کہ ایمیوز جیت چکے ہیں تاہم اس فتح کے بعد ایمیوز نے کس قسم کے جذبات کا اظہار کیا، کوئی جشن منایا پارٹی کی یا نہیں، اس حوالے سے راوی خاموش ہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
52,014 | روزمرہ غذاؤں میں الائچی کا استعمال بڑھانا کیوں ضروری ہے؟
| الائچی ایک ایسی چیز ہے جس کا استعمال ہر قسم کے کھانوں میں ہوتا ہے کیونکہ اس کی خوشبو ہی ایسی ہوتی ہے جو میٹھے اور تیکھے دونوں قسم کے کھانوں میں چار چاند لگا دیتی ہے۔
این ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق الائچی صرف کھانوں میں خوشبو شامل کرنے کے ہی کام نہیں آتی بلکہ اس کے استعمال سے آپ کی ذہنی اور جسمانی کیفیت پر بھی خوشگوار اثر پڑتا ہے۔
نظام انہضام کو بہتر کرتی ہے
الائچی میں ایسے قدرتی اجزا شامل ہیں جو انسانی جسم میں ہاضمے کے مسائل سے نمٹنے میں مدد دیتے ہیں جیسا کہ پیٹ میں مروڑ، گیس یا معدے میں درد۔
سانسوں کو تازگی بخشتی ہے
الائچی میں موجود بیج چبانے سے آپ کی سانس میں تازگی آتی ہے، منہ سے آنے والی بُو میں کمی ہوتی ہے اور اس سے منہ کا ذائقہ بھی اچھا رہتا ہے۔
بیماریوں کے اثرات کم کرتی ہے
الائچی کے استعمال کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ دمے اور ہڈیوں کی بیماروں کے اثرات کو کم کرتی ہے۔
خون کی روانی میں بہتری لاتی ہے
الائچی قدرتی طور پر خون کو پتلا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس سے جسم میں خون کی روانی میں بہتری آتی ہے۔
الائچی کے استعمال سے جسم میں خون نہیں جمتا، یہ دل کا دورہ پڑنے کے امکانات کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ دل کی مزید بیماریوں سے بھی بچاتی ہے۔
جسم میں موجود زہریلے مادے کو کنٹرول میں رکھتی ہے
الائچی کا استعمال گُردوں کے لیے بھی مفید ہے۔ اس کے اثرات سے نہ صرف جسم میں موجودہ کیمیکلز کنٹرول میں رہتے ہیں بلکہ یہ جسم کو توانائی بھی بخشتی ہے۔
بلڈ پریشر قابو میں رکھتی ہے
الائچی کے روزانہ استعمال سے بلڈ پریشر بھی قابو میں رہتا ہے جس سے دل کے امراض کے خطرات بھی ٹل جاتے ہیں۔
جسم میں موجود خلیوں کو توانا کرتی ہے
الائچی کے اجزا آپ کے جسم میں موجود خلیوں کو توانائی بخشتے ہیں اور انہیں تباہ ہونے سے بچاتے ہیں۔
اس سے کینسر جیسی بیماریوں کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے اور ان بیماریوں سے بھی بچا جا سکتا ہے جو عمر بڑھنے کے ساتھ لاحق ہوسکتی ہیں۔
ذہنی سکون
الائچی کا استعمال برسوں سے ایک ایسی دوا کی صورت میں بھی کیا جاتا رہا ہے جو نہ صرف آپ کی ذہنی صحت کو بہتر بناتی ہے بلکہ ذہنی تھکاوٹ سے بھی بچاتی ہے۔
جراثم سے لڑنے میں مدد دیتی ہے
الائچی کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ آپ کو خطرناک جراثیم اور وائرس سے لڑنے میں مدد کرتی ہے اور آپ کی قوتِ مدافعت بڑھاتی ہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
52,337 | اس مضمون کو مختصرا لکھیں۔
مضمون:
قاہرہ (انگریزی: Cairo) (تلفظ: /ˈkaɪroʊ/ KY-roh; عربی: القاهرة، تلفظ [ælqɑ(ː)ˈheɾɑ]) مصر کا دار الحکومت ، افریقہ، عرب دنیا اور مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا شہری مجموعہ ہے۔ قاہرہ کبری میٹروپولیٹن علاقہ، جس کی آبادی 21.9 ملین ہے، [3] آبادی کے لحاظ سے دنیا کا بارہواں بڑا میگا شہر ہے۔ قاہرہ کا تعلق قدیم مصر سے ہے، کیونکہ اہرامات جیزہ اور قدیم شہر ممفس اور عين شمس اس کے جغرافیائی علاقے میں واقع ہیں۔ نیل ڈیلٹا کے قریب واقع، [4][5] شہر سب سے پہلے فسطاط کے طور پر آباد ہوا، ایک بستی جس کی بنیاد مسلمانوں کی فتح مصر کے بعد 640ء میں ایک موجودہ قدیم رومی قلعے، بابلیون کے ساتھ رکھی گئی تھی۔ دولت فاطمیہ کے تحت 969ء میں قریب ہی ایک نئے شہر القاہرہ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس نے بعد میں ایوبی سلطنت اور سلطنت مملوک (مصر) ادوار (بارہویں-سولہویں صدی) کے دوران میں فسطاط کو مرکزی شہری مرکز کے طور پر پیچھے چھوڑ دیا۔[6] قاہرہ طویل عرصے سے اس خطے کی سیاسی اور ثقافتی زندگی کا مرکز رہا ہے، اور اسلامی فن تعمیر کی پیش رفت کی وجہ سے اسے "ہزار میناروں کا شہر" کا عنوان دیا گیا ہے۔ قاہرہ کے تاریخی مرکز (قاہرہ المعز) کو 1979ء میں یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ دیا گیا۔ [7] عالمگیریت اور عالمی شہر تحقیق نیٹ ورک کے مطابق قاہرہ کو "بیٹا +" درجہ بندی کے ساتھ عالمی شہر سمجھا جاتا ہے۔ [8]
آج، قاہرہ میں عرب دنیا کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی سنیما اور موسیقی کی صنعت ہے، نیز دنیا کا دوسرا قدیم ترین اعلیٰ تعلیم کا ادارہ، جامعہ الازہر بھی یہیں واقع ہے۔ بہت سے بین الاقوامی میڈیا، کاروباری اداروں اور تنظیموں کے علاقائی ہیڈ کوارٹر شہر میں ہیں۔ عرب لیگ کا صدر دفتر قاہرہ میں اپنے زیادہ تر وجود میں رہا ہے۔
453 مربع کلومیٹر (175 مربع میل) پر پھیلا ہوا 10 ملین[9] سے زیادہ آبادی کے ساتھ، قاہرہ مصر کا سب سے بڑا شہر ہے۔ مزید 9.5 ملین باشندے شہر کے قریب رہتے ہیں۔ قاہرہ، بہت سے دوسرے شہروں کی طرح، آلودگی اور ٹریفک کی اعلیٰ سطح کے مسائل کا شکار ہے۔ قاہرہ میٹرو، جو 1987ء میں کھولی گئی، افریقہ کا سب سے پرانا میٹرو نظام ہے، [10][11] اور اس کا شمار دنیا کے پندرہ مصروف ترین نظاموں میں ہوتا ہے، جس میں سالانہ 1 بلین[12] مسافروں کی سواری ہوتی ہے۔ قاہرہ کی معیشت 2005ء میں مشرق وسطیٰ میں پہلے نمبر پر تھی، [13] اور فارن پالیسی (رسالہ) کے 2010ء گلوبل سٹیز انڈیکس میں عالمی سطح پر 43 ویں نمبر پر ہے۔[14]
مصری اکثر قاہرہ کو مصری عربی، یں مصر (کلمہ نویسی Maṣr (بین الاقوامی اصواتی ابجدیہ: [mɑsˤɾ]; مَصر) کہتے ہیں، جو ملک کے لیے شہر کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ [15][16] اس کا رسمی نام القاہرہ (القاهرة) کا مطلب ہے 'فتح کرنے والا' یا 'قاتح، اس حقیقت کی وجہ سے کہ سیارہ مریخ، نجم القاہر (النجم القاہر، 'فتح کرنے والا ستارہ')، اس وقت عروج پر تھا جب شہر کی بنیاد رکھی گئی تھی۔[17] ممکنہ طور پر دولت فاطمیہ کے خلیفہ معز لدین اللہ کی آمد کے حوالے سے بھی جو 973ء میں فاطمیوں کے پرانے دار الحکومت مہدیہ (شہر) سے قاہرہ پہنچے تھے۔ قدیم شہر عين شمس کا مقام عين شمس (قاہرہ) (عربی زبان: عين شمس، 'سورج کی آنکھ') قاہرہ کا مضافاتی علاقہ ہے۔
شہر کے چند قبطی نام ہیں۔ Tikešrōmi (قبطی: Ϯⲕⲉϣⲣⲱⲙⲓ موخر قبطی: [di.kɑʃˈɾoːmi]) 1211 کی عبارت (The Martyrdom of John of Phanijoit) میں تصدیق شدہ ہے اور یا تو ایک کالک ہے جس کا مطلب ہے 'مرد توڑنے والا' (Ϯ-، 'the'، ⲕⲁϣ-، 'to break'، and ⲣⲱⲙⲓ، 'man')، عربی القاہرہ کے مشابہ، یا عربی سے ماخوذ "قصر الروم" (رومی قلعہ)، قدیم قاہرہ میں قلعہ بابلیون کا ایک اور نام سے ہو سکتا ہے۔ قبطی زبان کی شکل خیرون (ⲭⲁⲓⲣⲟⲛ) جدید قبطی متن (Ⲡⲓⲫⲓⲣⲓ ⲛ̀ⲧⲉ ϯⲁⲅⲓⲁ ⲙ̀ⲙⲏⲓ Ⲃⲉⲣⲏⲛⲁ) میں تصدیق شدہ ہے۔ [18] لیوئی (Lioui) موخر قبطی: [lɪˈjuːj]) یا ایلیوئی Elioui (Ⲉⲗⲓⲟⲩⲓ قبطی: [ælˈjuːj]) ایک اور نام ہے جو یونانی نام ہیلیوپولیس (Ήλιούπολις) سے نکلا ہے۔ [19] کچھ لوگ استدلال کرتے ہیں کہ میسترم (Mistram) (Ⲙⲓⲥⲧⲣⲁⲙ موخر قبطی: [ˈmɪs.təɾɑm]) یا نسترم (Nistram) (Ⲛⲓⲥⲧⲣⲁⲙ موخر قبطی: [ˈnɪs.təɾɑm]) قاہرہ کا ایک اور قبطی نام ہے۔ اگرچہ دوسروں کا خیال ہے کہ یہ ایک عباسی کے دار الحکومت العسکر' کا نام، [20] قاہری (Ⲕⲁϩⲓⲣⲏ Kahi•ree) عربی نام کا ایک مقبول جدید ترجمہ ہے (دیگر Ⲕⲁⲓⲣⲟⲛ [Kairon] اور Ⲕⲁϩⲓⲣⲁ [Kahira]) جو جدید لوک اشعار ہے جس کا مطلب ہے 'سورج کی سرزمین' ہے۔ کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ یہ ایک مصری بستی کا نام تھا جس پر قاہرہ تعمیر کیا گیا تھا، لیکن یہ مشکوک ہے کیونکہ یہ نام کسی حیروغلیفی یا دیموطیقی ماخذ میں تصدیق شدہ نہیں ہے، اگرچہ کچھ محققین، جیسے پال کاسانووا، اسے ایک جائز نظریہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ [19] قاہرہ کو کیمی (Ⲭⲏⲙⲓ) (موخر قبطی: [ˈkɪ۔mi]) یا گیپدوس (Ⲅⲩⲡⲧⲟⲥ) (موخر قبطی: [ˈɡɪp.dos]) بھی کہا جاتا ہے، جس کا مطلب قبطی میں مصر ہے، اسی طرح مصری عربی میں اسے کہا جاتا ہے۔ [20] بعض اوقات اسکندریہ کے لوگ غیر رسمی طور پر اس شہر کو کایرو کہتے ہیں۔ (بین الاقوامی اصواتی ابجدیہ: [ˈkæjɾo]; (مصری عربی: كايرو))۔[21] | 453 مربع کلومیٹر (175 مربع میل) پر پھیلی 10 ملین سے زیادہ آبادی کے ساتھ، قاہرہ مصر کا سب سے بڑا شہر ہے۔ [8] آج، قاہرہ عرب دنیا کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی فلم اور موسیقی کی صنعت کے ساتھ ساتھ دنیا کا دوسرا قدیم ترین اعلیٰ تعلیم کا ادارہ، الازہر یونیورسٹی ہے۔ قاہرہ کبری میٹروپولیٹن علاقہ، جس کی آبادی 21.9 ملین ہے، [3] آبادی کے لحاظ سے دنیا کا بارہواں بڑا میگا سٹی ہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
52,852 | کوفتہ فلاورز بنانے کی ترکیب بتایں | قیمے کو صاف دھو کر چھلنی میں رکھ لیں،اچھی طرح خشک ہو جائے تو اس میں ادرک لہسن،نمک اور دہی ملا کر رکھ دیں۔ پین میں ایک سے دو کھانے کے چمچ کوکنگ آئل میں چوپ کی ہوئی پیاز کو ہلکا سا نرم ہونے تک فرائی کریں۔ پھر اس میں لال مرچ،بھنا کٹا دھنیا زیرہ اور کٹی ہوئی ہری مرچیں ڈال کر ہلکا سا فرائی کریں اور اس میں یخنی ڈال کر ابال آنے دیں۔ ابال آنے پر اس میں قیمہ ڈال کر ہلکی آنچ پر ڈھک دیں۔جب قیمے کا پانی خشک ہونے پر آجائے تو اس میں کارن فلار چھڑک لیں تاکہ قیمہ آپس میں چپکتا سا ہو جائے۔چولہے سے اتار کر اس میں اجوائن چھڑک کر ٹھنڈا کر لیں۔ سموسے کی چوکور پٹیاں لے لیں اور ہر پٹی میں قیمے کو ایک گول چمچ میں لے کر دوسرے چمچ کی مدد سے کوفتے کی شکل میں پٹی کے درمیان میں رکھ دیں۔ انڈے کی سفیدی کو قیمے کے کناروں پر لگائیں اور سموسے کی پٹی کو چاروں طرف سے اٹھا کر درمیان میں دبا دیں تاکہ اس کے کنارے پھول کی پتیوں کی طرح کھل جائیں۔ انڈے کی زردی کو ہلکا سا پھینٹ کر اس تیار کئے ہوئے پھول پر برش سے لگا دیں اور کچھ دیر کے لئے فریج میں رکھ دیں۔ پہلے سے گرم کئے ہوئے اوون میں چکنی کی ہوئی مفن ٹرے میں ان کوفتہ فلاورز کو رکھ کر بیس سے پچیس منٹ کے لئے بیک کر لیں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
52,993 | آشوب چشم کی وجوہات، بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
| آشوب چشم ”آنکھیں سرخ ہوجانا“ آنکھوں کی ایک عام بیماری ہے، دنیا بھر کے لاکھوں افراد اس بیماری سے متاثر ہوتے ہیں، آشوب چشم کے باعث آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں جبکہ اس کی عام علامات میں آنکھوں میں خارش ، آنکھوں کا سرخ ہوجانا اور ورم کی وجہ سے تکلیف کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
آنکھیں سرخ ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟
آشوب چشم، جس میں آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں، ایک پتلی، صاف ٹشو جو آنکھ کی اگلی سطح کو ڈھانپتی ہے اور پلکوں کے اندر کی لکیریں ہوتی ہیں۔ یہ آنکھ کی بیماری طبی توجہ حاصل کرنے کی ایک عام وجہ ہے، جس سے دنیا بھر کے لاکھوں افراد ہر سال متاثر ہوتے ہیں، آشوب چشم کی مختلف وجوہات کو سمجھنا مناسب تشخیص، علاج اور روک تھام کے لیے ضروری ہے، آشوب چشم کے مختلف عوامل ہوسکتے ہیں، جن میں وائرل، بیکٹیریل انفیکشن، الرجی اور جلن شامل ہیں۔
وائرل انفیکشن سے کیسے بچا جائے؟
وائرل انفیکشن جیسے کہ اڈینو وائرس اور انٹرو وائرس، ایک سے دوسرے میں آسانی میں منتقل ہوسکتا ہے، اس قسم کی آشوب چشم انتہائی متعدی ہوتی ہے اور اکثر اس کا تعلق اوپری سانس کی نالی کے انفیکشن سے ہوتا ہے، وائرل آشوب چشم ایک یا دونوں آنکھوں کو متاثر کر سکتا ہے اور دو ہفتوں تک اس کا اثر قائم رہ سکتا ہے، مناسب حفظان صحت، بشمول بار بار ہاتھ دھونا اور آنکھوں کو چھونے سے گریز، وائرل آشوب چشم کے پھیلاؤ کو روکنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
آشوب چشم کی نمایاں علامت آنکھوں کی سفیدی اور پلکوں کی اندرونی تہوں میں سرخی آجاتی ہے، جس سے آنکھیں گلابی نظر آتی ہیں ۔
جب آپ آشوب چشم کا شکار ہوں تو اس دوران آنکھوں کے معالج سے ضرور رابطہ کریں، آشوب چشم کی تشخیص میں عام طور پر درج ذیل اقدامات شامل ہوتے ہیں:
علاج کیسے کیا جائے؟
وائرل آشوب چشم عام طور پر خود کو محدود کرتا ہے اور اس میں مخصوص طبی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اوور دی کاؤنٹر چکنا کرنے والے آنکھوں کے قطرے تکلیف اور خشکی کو دور کرنے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔آنکھوں پر اگر کولڈ کمپریس لگا لیا جائے تو اس سے سوزش کو کم کرنے اور آنکھوں کو سکون دینے میں مدد مل سکتی ہے۔اس کے علاوہ کچھ گھریلو ٹوٹکے بھی اس سے نجات کا باعث بن سکتے ہیں۔
آنکھوں پر گرم کمپریس لگانے سے سوجن کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے جبکہ آنکھوں کو انتہائی سکون کا احساس ہوتا ہے، ایک صاف، نرم کپڑا گرم پانی میں بھگو کر استعمال کریں، اور اسے چند منٹوں کے لیے بند پلکوں پر آہستہ سے رکھیں۔
روک تھام کیسے ممکن ہے؟
آشوب چشم کے خطرے کو کم کرنے کے لیے کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں، اس میں حفظان صحت کے اچھے طریقوں کو اپنانا اور متعدی ایجنٹوں اور خارش سے بچنے کے لیے اقدامات کرنا شامل ہے۔
اپنی آنکھوں کو بار بار ہاتھ نہ لگائیں اور انہیں چھونے سے گریز کریں، خاص طور پر اگر آپ ان لوگوں سے رابطے میں رہے ہیں جن کی آنکھیں سرخ ہیں یا کوئی اور متعدی بیماری ہے۔کیونکہ اس سے آپ میں یہ بیماری منتقل ہوسکتی ہے، اپنے ہاتھوں کو صابن اور پانی سے باقاعدگی سے دھونا آشوب چشم کے پھیلاؤ کو روکنے کے سب سے مؤثر طریقوں میں سے ایک ہے۔ اس لئے ہاتھوں کی صفائی کا خاص خیال رکھیں۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
53,133 | مجھے اس گانے کے بول چاہیے "پیار مجھ سے جو کیا تم نے" جو جگجیت سنگھ کی آواز میں گائے گئے ہیں | یہ رہے جگجیت سنگھ کے گانے پیار مجھ سے جو کیا تم نے کے بول:
پیار مجھ سے جو کیا تم نے تو کیا پاوگی
میرے حالات کی آندھی میں بکھر جوگی
رنج اور درد کی باسٹھ کا میں باشندہ ہوں
یہ تو بس میں ہوں کے اس حال میں بھی زندہ ہوں
خواب کیوں دکھوں وو کل جسپے میں سہرمندہ ہوں
میںجو شرمندہ ہوں تو اور تم بھی شرماوگی
کیوں میرے ساتھ کوئی اور پریشان رہے
میری دنیا ہے جو ویران تو ویران رہے
زندگی کا یہ سفر تم پی تو آسان رہے
ہمسفر مجھکو بناوگی تو پچتاوگی
ایک میں کیا ابھی ااینگے دیوانے کتنے
ابھی گنجینگے موحبّت کے ترانے کتنے
زندگی تمکو سنےگی فسانے کتنے
کیوں سمجھتی ہو مجھے بھول نہیں پاوگی
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
53,192 | ڈیٹا سائنس کیا ہے؟ اس میں مزید معلومات شامل کریں | ڈیٹا سائنس کا شعبوں میں اہم کردار ہے۔ یہ شعبوں کو تقسیمیں بنانے، تحلیل کرنے، اور ترتیب دینے کی مدد فراہم کرتا ہے تاکہ اہم فیصلوں کی بنیاد رکھی جا سکے۔ ڈیٹا سائنس کے ذریعے کمپنیاں اپنے مشتریوں کی پسندیدگی کو بہتر بنانے کیلئے اشیاء کی خریداری کی منصوبوں کی تیاری کرتی ہیں اور مصنوعات کی پیداوار کی بھرپور منظمی کرتی ہیں۔
صحت کے شعبے میں، ڈیٹا سائنس مرض کی پیشگوئی اور علاج کے شعبے میں معلوماتی ساختار کے توسیع کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس کے ذریعے ہسپتال اور طبی ادارے بیماروں کے علاج کو بہتر بناتے ہیں اور جدید علمی تحقیقات کو ایک ساتھ جمع کرتے ہیں۔
تجارت میں، ڈیٹا سائنس کمپنیوں کو مشتریوں کے ساتھ بہتر تعامل کی فہم حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے اور مشتری کی توقعات کو پورا کرنے کے لئے مؤثر استراتیجیں بنانے کی مدد کرتا ہے۔
سوشل میڈیا میں بھی، ڈیٹا سائنس کمپنیوں کو صارفین کی پیشگوئیاں کرنے اور ان کی توقعات کو پورا کرنے کی مدد فراہم کرتا ہے۔ اس کے ذریعے اشیاء کو جمع کر کے پوسٹس اور تبلیغات کو بہتر بنایا جاتا ہے تاکہ وہ صارفین کو بہتر سمجھ سکیں۔
ڈیٹا سائنس ایک آئندہ میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے، اور اس کا استعمال نئی تکنولوجیوں، خود چلتے گاڑیوں، اور صنعتی آلات میں بھی کیا جا رہا ہے تاکہ عملیات کو بہتر اور مؤثر بنایا جا سکے۔ ڈیٹا سائنس کے توسیعی اور ترقیاتی کاموں کے ساتھ، یہ ایک اہم علم ہے جو معاشرتی اور تجارتی حیثیت میں بھی اہم کردار ادا کرتا رہے گا۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
53,465 | کیا حقیقت معروضی اور ہمارے ادراک سے آزاد ہے، یا اس کی تشکیل ہمارے شعور سے ہوتی ہے؟ ادراک اور حقیقت کے درمیان تعلق کو دریافت کریں۔ | یہ سوال ادراک اور مابعدالطبیعات کے فلسفے کی تحقیقات کرتا ہے۔ حقیقت پسندوں کا کہنا ہے کہ حقیقت ہمارے تصورات سے آزادانہ طور پر موجود ہے، جبکہ آئیڈیلسٹ کہتے ہیں کہ حقیقت شعور کی پیداوار ہے۔ ادراک اور حقیقت کے درمیان تعلق میں یہ جانچنا شامل ہے کہ ہمارے حواس، علمی عمل، اور ثقافتی فریم ورک کس طرح بیرونی دنیا کے بارے میں ہماری سمجھ کو تشکیل دیتے ہیں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
53,626 | "ویبینار "کس طرح اپنے سوشل میڈیا کے لئے مفت مواد تخلیق کریں" کی خلاصہ تیار کریں اور شامل کریں کہ ویبینار میں مواد تخلیق کرنے کے لئے آپ کو استعمال کرنے والی ایپلیکیشنز کا عملی استعمال شامل ہوگا جیسے کہ "کینوا"۔" | سیشن کا خاکہ: "سوشل میڈیا کے لئے مفت مواد تخلیق کرنے کا طریقہ"
I. مقدمہ
A. سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مشغول کنندہ مواد کی اہمیت
B. سیشن کے اہداف کا جائزہ
II. مواد تخلیق کو سمجھنا
A. مواد کی تخلیق کی تعریف اور اس کی اہمیت کا تشریح
B. مختلف قسم کے مواد (تصاویر، ویڈیوز، مواد)
C. تخلیقیت اور انوکھا پن کی کردار
III. مفت مواد تخلیق کے لئے استریٹیجیاں
A. اپنے ذاتی تجربات اور دلچسپیوں کا استعمال کرنا
B. موجودہ مواد کو نئے نظریے سے دوبارہ تخلیق کرنا
C. مخاطبین کے لئے قیمتی معلومات شامل کرنا
IV. آپ کے مواد کی منظمی اور منصوبہ بندی
A. ایک مواد کی تقویم تخلیق کرنا
B. مسلسل پوسٹ کرنے کا منظم گرداب ترتیب کرنا
C. مواد کو موجودہ موضوعات یا واقعات کے ساتھ موافقت دینا
V. مواد تخلیق کے اوزار کا عملی استعمال
A. مختلف مفت مواد تخلیق کے اوزار کی تعارف
B. "کینوا" ایپ کا تفصیلی پیش کش کرنا
C. مختلف مواد کے لئے خصوصیت اور ڈیزائن کی خصوصیات کی کوشش کرنا
VI. دلفریب دیداری مواد تخلیق کرنا
A. دیکھنے میں دلچسپ پوسٹ کے لئے ڈیزائن اصول
B. تصاویر، گرافکس، اور تشکیلیں مؤثر طریقے سے استعمال کرنا
C. کیپشنز، کوٹس، یا مختصر تشریحات شامل کرنا
VII. دلفریب ویڈیو مواد تخلیق کرنا
A. اسمارٹ فون کا استعمال کرکے معیاری ویڈیوز کی تخلیق کے لئے مشورے
B. ویڈیو مواد کو بہتر بنانے والے اوزار
C. کہانی سنانے اور موزوں تصاویر کا استعمال کرنا
VIII. دلفریب مواد کی تخلیق کرنے کے لئے مضامین
A. دھان انگیز عناوین اور ابتدائی مصدر بنانے کے مشورے
B. پیغام کو مختصر اور مؤثر طریقے سے پیش کرنا
C. موزوں ہیشٹیگز اور کلمات کا استعمال کرنا
IX. صارفین کے مواد کا فائدہ اٹھانا
A. پیروکاروں کو مواد میں شامل ہونے کی تشویق دینا
B. صارفین کے تاثرات اور جائزے کی تشہیر کرنا
C. مشترکہ مواد کے ذریعے ایک بنیادی جماعت کی تخلیق کرنا
X. مخاطبین کے ساتھ مشغول ہونا
A. تبصرے اور پیغامات کا جواب جلدی دینا
B. گفتگو اور مباحثوں کو بڑھانے کی تشویق دینا
C. رائے اور سفارشات کو مستقبل کے مواد میں شامل کرنا
XI. کامیابی کی پیمائش اور تجدید
A. سوشل میڈیا کے اندازے اور مواد کی میٹرکس کا تجزیہ کرنا
B. کامیاب مواد کی | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
53,683 | سرحدوں کی تنصیب، سفارتی مذاق: پاکستان-بھارت تعلقات کی پردہ اُٹھانے والی کہانی | پاکستان اپنے نظریے کی وضاحت دیتا ہے، اس کے مطابق جنگلوں کے مسائل کا پیچھا کرنے کی وجہ سے تار کی کٹرن کی تنصیب کی گئی ہے۔ انڈیا کی تنصیب میں وہ شامل ہے جسے وہ داخل ہونے کہ نام سے اشارہ کرتا ہے.انہوں نے بتایا کہ جب انڈیا نے خطرناک تاریں لگانے کا فیصلہ کیا، تو پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں تھا، لیکن اب انڈیا علاقے اور اس کی آبادی کی حفاظت کی ذمہ داری برداشت کرتا ہے کیونکہ تنصیب کی اثراتی تاثر ہوتے ہیں۔ انڈیا کسی بھی طرف سے سرحدی حملوں کے سوالات نہیں اٹھا سکتا کیونکہ اس نے تنصیب کی شروعات کی ہے. بھارتی ماہرین نے پاکستان کے روایتی پہلو کی پیغامی کارکردگی پر اشارہ کیا۔پرانے بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپین روات نے واضح کیا کہ پاکستان ایران اور افغانستان کی سرحدوں کے خطرات کو کم کرنے کی کوشش میں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سرحدوں پر درازی حرکت کی آسانی کی وجہ سے انفرادی تنظیموں کی حملوں میں اضافہ ہوتا رہا۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
53,881 | اس مضمون کو مختصرا لکھیں۔
مضمون:
قاہرہ (انگریزی: Cairo) (تلفظ: /ˈkaɪroʊ/ KY-roh; عربی: القاهرة، تلفظ [ælqɑ(ː)ˈheɾɑ]) مصر کا دار الحکومت ، افریقہ، عرب دنیا اور مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا شہری مجموعہ ہے۔ قاہرہ کبری میٹروپولیٹن علاقہ، جس کی آبادی 21.9 ملین ہے، [3] آبادی کے لحاظ سے دنیا کا بارہواں بڑا میگا شہر ہے۔ قاہرہ کا تعلق قدیم مصر سے ہے، کیونکہ اہرامات جیزہ اور قدیم شہر ممفس اور عين شمس اس کے جغرافیائی علاقے میں واقع ہیں۔ نیل ڈیلٹا کے قریب واقع، [4][5] شہر سب سے پہلے فسطاط کے طور پر آباد ہوا، ایک بستی جس کی بنیاد مسلمانوں کی فتح مصر کے بعد 640ء میں ایک موجودہ قدیم رومی قلعے، بابلیون کے ساتھ رکھی گئی تھی۔ دولت فاطمیہ کے تحت 969ء میں قریب ہی ایک نئے شہر القاہرہ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس نے بعد میں ایوبی سلطنت اور سلطنت مملوک (مصر) ادوار (بارہویں-سولہویں صدی) کے دوران میں فسطاط کو مرکزی شہری مرکز کے طور پر پیچھے چھوڑ دیا۔[6] قاہرہ طویل عرصے سے اس خطے کی سیاسی اور ثقافتی زندگی کا مرکز رہا ہے، اور اسلامی فن تعمیر کی پیش رفت کی وجہ سے اسے "ہزار میناروں کا شہر" کا عنوان دیا گیا ہے۔ قاہرہ کے تاریخی مرکز (قاہرہ المعز) کو 1979ء میں یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ دیا گیا۔ [7] عالمگیریت اور عالمی شہر تحقیق نیٹ ورک کے مطابق قاہرہ کو "بیٹا +" درجہ بندی کے ساتھ عالمی شہر سمجھا جاتا ہے۔ [8]
آج، قاہرہ میں عرب دنیا کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی سنیما اور موسیقی کی صنعت ہے، نیز دنیا کا دوسرا قدیم ترین اعلیٰ تعلیم کا ادارہ، جامعہ الازہر بھی یہیں واقع ہے۔ بہت سے بین الاقوامی میڈیا، کاروباری اداروں اور تنظیموں کے علاقائی ہیڈ کوارٹر شہر میں ہیں۔ عرب لیگ کا صدر دفتر قاہرہ میں اپنے زیادہ تر وجود میں رہا ہے۔
453 مربع کلومیٹر (175 مربع میل) پر پھیلا ہوا 10 ملین[9] سے زیادہ آبادی کے ساتھ، قاہرہ مصر کا سب سے بڑا شہر ہے۔ مزید 9.5 ملین باشندے شہر کے قریب رہتے ہیں۔ قاہرہ، بہت سے دوسرے شہروں کی طرح، آلودگی اور ٹریفک کی اعلیٰ سطح کے مسائل کا شکار ہے۔ قاہرہ میٹرو، جو 1987ء میں کھولی گئی، افریقہ کا سب سے پرانا میٹرو نظام ہے، [10][11] اور اس کا شمار دنیا کے پندرہ مصروف ترین نظاموں میں ہوتا ہے، جس میں سالانہ 1 بلین[12] مسافروں کی سواری ہوتی ہے۔ قاہرہ کی معیشت 2005ء میں مشرق وسطیٰ میں پہلے نمبر پر تھی، [13] اور فارن پالیسی (رسالہ) کے 2010ء گلوبل سٹیز انڈیکس میں عالمی سطح پر 43 ویں نمبر پر ہے۔[14]
اشتقاقیات
خلیفہ معز لدین اللہ کے دور کا ایک سکہ
مصری اکثر قاہرہ کو مصری عربی، یں مصر (کلمہ نویسی Maṣr (بین الاقوامی اصواتی ابجدیہ: [mɑsˤɾ]; مَصر) کہتے ہیں، جو ملک کے لیے شہر کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ [15][16] اس کا رسمی نام القاہرہ (القاهرة) کا مطلب ہے 'فتح کرنے والا' یا 'قاتح، اس حقیقت کی وجہ سے کہ سیارہ مریخ، نجم القاہر (النجم القاہر، 'فتح کرنے والا ستارہ')، اس وقت عروج پر تھا جب شہر کی بنیاد رکھی گئی تھی۔[17] ممکنہ طور پر دولت فاطمیہ کے خلیفہ معز لدین اللہ کی آمد کے حوالے سے بھی جو 973ء میں فاطمیوں کے پرانے دار الحکومت مہدیہ (شہر) سے قاہرہ پہنچے تھے۔ قدیم شہر عين شمس کا مقام عين شمس (قاہرہ) (عربی زبان: عين شمس، 'سورج کی آنکھ') قاہرہ کا مضافاتی علاقہ ہے۔
شہر کے چند قبطی نام ہیں۔ Tikešrōmi (قبطی: Ϯⲕⲉϣⲣⲱⲙⲓ موخر قبطی: [di.kɑʃˈɾoːmi]) 1211 کی عبارت (The Martyrdom of John of Phanijoit) میں تصدیق شدہ ہے اور یا تو ایک کالک ہے جس کا مطلب ہے 'مرد توڑنے والا' (Ϯ-، 'the'، ⲕⲁϣ-، 'to break'، and ⲣⲱⲙⲓ، 'man')، عربی القاہرہ کے مشابہ، یا عربی سے ماخوذ "قصر الروم" (رومی قلعہ)، قدیم قاہرہ میں قلعہ بابلیون کا ایک اور نام سے ہو سکتا ہے۔ قبطی زبان کی شکل خیرون (ⲭⲁⲓⲣⲟⲛ) جدید قبطی متن (Ⲡⲓⲫⲓⲣⲓ ⲛ̀ⲧⲉ ϯⲁⲅⲓⲁ ⲙ̀ⲙⲏⲓ Ⲃⲉⲣⲏⲛⲁ) میں تصدیق شدہ ہے۔ [18] لیوئی (Lioui) موخر قبطی: [lɪˈjuːj]) یا ایلیوئی Elioui (Ⲉⲗⲓⲟⲩⲓ قبطی: [ælˈjuːj]) ایک اور نام ہے جو یونانی نام ہیلیوپولیس (Ήλιούπολις) سے نکلا ہے۔ [19] کچھ لوگ استدلال کرتے ہیں کہ میسترم (Mistram) (Ⲙⲓⲥⲧⲣⲁⲙ موخر قبطی: [ˈmɪs.təɾɑm]) یا نسترم (Nistram) (Ⲛⲓⲥⲧⲣⲁⲙ موخر قبطی: [ˈnɪs.təɾɑm]) قاہرہ کا ایک اور قبطی نام ہے۔ اگرچہ دوسروں کا خیال ہے کہ یہ ایک عباسی کے دار الحکومت العسکر' کا نام، [20] قاہری (Ⲕⲁϩⲓⲣⲏ Kahi•ree) عربی نام کا ایک مقبول جدید ترجمہ ہے (دیگر Ⲕⲁⲓⲣⲟⲛ [Kairon] اور Ⲕⲁϩⲓⲣⲁ [Kahira]) جو جدید لوک اشعار ہے جس کا مطلب ہے 'سورج کی سرزمین' ہے۔ کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ یہ ایک مصری بستی کا نام تھا جس پر قاہرہ تعمیر کیا گیا تھا، لیکن یہ مشکوک ہے کیونکہ یہ نام کسی حیروغلیفی یا دیموطیقی ماخذ میں تصدیق شدہ نہیں ہے، اگرچہ کچھ محققین، جیسے پال کاسانووا، اسے ایک جائز نظریہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ [19] قاہرہ کو کیمی (Ⲭⲏⲙⲓ) (موخر قبطی: [ˈkɪ۔mi]) یا گیپدوس (Ⲅⲩⲡⲧⲟⲥ) (موخر قبطی: [ˈɡɪp.dos]) بھی کہا جاتا ہے، جس کا مطلب قبطی میں مصر ہے، اسی طرح مصری عربی میں اسے کہا جاتا ہے۔ [20] بعض اوقات اسکندریہ کے لوگ غیر رسمی طور پر اس شہر کو کایرو کہتے ہیں۔ (بین الاقوامی اصواتی ابجدیہ: [ˈkæjɾo]; (مصری عربی: كايرو))۔[21] | 453 مربع کلومیٹر (175 مربع میل) پر پھیلی 10 ملین سے زیادہ آبادی کے ساتھ، قاہرہ مصر کا سب سے بڑا شہر ہے۔ [8] آج، قاہرہ عرب دنیا کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی فلم اور موسیقی کی صنعت کے ساتھ ساتھ دنیا کا دوسرا قدیم ترین اعلیٰ تعلیم کا ادارہ، الازہر یونیورسٹی ہے۔ قاہرہ کبری میٹروپولیٹن علاقہ، جس کی آبادی 21.9 ملین ہے، [3] آبادی کے لحاظ سے دنیا کا بارہواں بڑا میگا سٹی ہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
53,998 | مختصر کہانی اور اخلاقی کہانی ”شیبا اور بندر“ مکمل کہانی اردو میں | Short Story and Moral Story ”Sheba and The Monkey” Complete Story In Urdu
| شیبا اور بندر
جنگل کی ملکہ شیبا کو بچوں کا بہت شوق تھا۔ ایک بار، اس نے اعلان کیا، "میں تمام جانوروں کو اپنے بچوں کے ساتھ میرے محل میں آنے کا حکم دیتی ہوں۔ جس جانور کا سب سے خوبصورت بچہ ہوگا اسے انعام سے نوازا جائے گا۔
تمام جانور اپنے بچوں کے ساتھ سبا کے محل میں آئے۔
شیبا ایک ایک کر کے بچوں کا معائنہ کرنے لگی۔ وہ ایک بندر کے پاس آئی اور کہنے لگی ’’کتنا بدصورت بچہ ہے! تمہیں انعام نہیں ملے گا"۔
بندر کا بچہ رونے لگا۔ بندر نے کہا، ''وہ کتنی بے وقوف ملکہ ہے! کون اس کا انعام چاہتا ہے! تم میرا زیور ہو، میرے پیارے بچے۔ تم آسمان کے نیچے کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہو۔"
اخلاق : ماں کی محبت کوئی برابر نہیں ہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
54,035 | درج ذیل جملے کا ترجمہ کریں:
Good health is not based only on physical fitness; it also means being
mentally and emotionally fit. | اچھی صحت صرف جسمانی تندرستی پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس کا مطابق ذہنی اور جذباتی طور پر تندرست ہونا ہے | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
54,793 | میتھی صحت کے لیے کتنی مفید ہے؟ | قصوری میتھی کا استعمال تقریباً ہر میں عام ہے، اکثر گھروں میں مختلف قسم کے کھانوں میں اسے استعمال ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہوگا، مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر آپ قصوری میتھی کے فوائد جان جائیں تو اسے سونے کے دام بھی خریدنے پر تیار ہو جائیں گے۔
صوری میتھی میں فائبر کی اتنی مقدار موجود ہے جس کی ہمارے جسم کو لازمی ضرورت ہوتی ہے ، یہ جسم کے لئے فیول کا کام کرتی ہے، نظام ہاضمہ کو بہتر بنا کر جسم کے سارے مسائل کو کنٹرول کرلیتی ہے۔
میتھی کے پتوں سے شوگر اور بلڈ پریشر پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے میتھی کے پتے ٹائپ 1 اور ٹائپ 2 ذیابیطس دونوں میں بہت فائدہ مند ہیں میتھی جسم میں انسولین کی مقدار بڑھاتی ہے جو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بہت ضروری ہے۔
میتھی کے پتوں میں فائبر کے ساتھ اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات بھی ہوتی ہیں جو ہاضمہ کو بہتر کرتی ہیں جن لوگوں کو پیٹ کے مسائل درپیش ہوتے ہیں وہ اپنی خوراک میں میتھی کا ساگ ضرور شامل کریں۔
اس کے علاوہ ایک مٹھی میتھی کے پتے اور ایک مٹھی پودینہ لے کر ایک گلاس پانی کے ساتھ بلینڈ کرلیں اور دن میں ایک گلاس کھانے سے پہلے پی لیں۔ اس سے امراض قلب اور بلڈ پریشر کے مریضوں کو بہت فائدہ ہوگا۔
قصوری میتھی یا میتھی دانا (فینوگریک) کا استعمال واقع میں ایک بہترین طریقہ ہے جس سے صحت کو بہت سارے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس کے چند اہم فوائد مندرجہ ذیل ہیں:
1. **فائبر کا مزیدار ذریعہ:** قصوری میتھی میں فائبر کی بھرمار پائی جاتی ہے، جو ہاضمہ کو بہتر بناتا ہے اور قبض کا علاج کرتا ہے۔ اس کے استعمال سے پیٹ کی پریشانیوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔
2. **شوگر کنٹرول:** میتھی کے پتوں میں موجود اجزاء شوگر کو کنٹرول کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور انسولین کی مقدار بڑھاتے ہیں۔ یہ دیابیٹیز کے مریضوں کے لئے مفید ہوتا ہے.
3. **صحت مند قلب:** قصوری میتھی میں پاؤلی فینولز اور اینٹی آکسیڈنٹس موجود ہوتے ہیں جو قلب کی صحت کو بہتر بناتے ہیں اور بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتے ہیں۔
4. **وزن کم کرنے میں مددگار:** قصوری میتھی میں فائبر کی بھرمار ہونے کی وجہ سے یہ وزن کم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
5. **چولیسٹرول کنٹرول:** میتھی میں موجود فائبر اور اینٹی آکسیڈنٹس کلیسٹرول کو کنٹرول کرتے ہیں اور دل کی صحت کو بہتر بناتے ہیں۔
6. **عوامل کیموتھراپی کے لئے مددگار:** میتھی کے متغیرات عوامل کیموتھراپی کے ذریعے کینسر کی صورت میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
7. **نظامی نظام کی بہتری:** قصوری میتھی انسان کی روزمرہ ضروریات کو پورا کرتی ہے اور جسم کو ایک صحتمند نظامی طریقہ سے بناتی ہے۔
8. **جلد کی صحت:** قصوری میتھی کو جلد کی صحت کو بہتر بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ جلد کو صحتمند اور جوان رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
9. **آنتوں کی صحت:** میتھی کے پتے آنتوں کی صحت کو بہتر بناتے ہیں اور آنتوں کی مسائل کو کم کرتے ہیں۔
10. **بالوں کی صحت:** قصوری میتھی کو بالوں کی صحت کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور یہ بالوں کو مضبوط بناتی ہے اور جھڑنے کو کم کرتی ہے۔
یہاں تک کہا جا سکتا ہے کہ قصوری میتھی ایک معجزہ غذائیں ہے جس سے جسم کی صحت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور بہت سارے مسائل کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
55,464 | بیرونی حملوں اور جغرافیائی سیاسی چیلنجوں نے مغل سلطنت کے زوال کو کیسے تیز کیا؟ | بیرونی حملوں اور جغرافیائی سیاسی چیلنجوں نے مغلیہ سلطنت کے زوال کا ایک اہم مرحلہ قرار دیا۔ 1739 میں نادر شاہ کا حملہ، جس کا اختتام دہلی کی بوری پر ہوا، ایک واٹرشیڈ لمحہ تھا۔ سلطنت اقتصادی طور پر تباہ ہو گئی تھی، اور اس کی سیاسی اتھارٹی بری طرح کمزور ہو گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی، علاقائی طاقتوں، جیسے مرہٹوں اور سکھوں کا عروج، اور یورپی استعماری مفادات کے تسلط نے اہم چیلنجز کا سامنا کیا۔
1757 میں پلاسی کی جنگ نے ایک اہم موڑ کا نشان لگایا، جس میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے عروج حاصل کیا۔ اس جغرافیائی سیاسی تبدیلی نے مغل اقتدار کے خاتمے کو تیز کر دیا۔ سلطنت نے خود کو بیرونی دباؤ کا سامنا کرنے سے قاصر پایا اور اپنے وسیع خطوں پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کی، جس سے اس کے حتمی زوال کا سبب بنے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
55,950 | دل کے امراض سے بچنے کے لیے کس قسم کا کھانا کھانا چاہیے؟ | آپ کو یہ معلوم ہو گا کہ کچھ مخصوص غذائیں کھانے سے دل کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور اپنی ڈائٹ کو تبدیل کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق دل کو بیماریوں سے بچانے والی سات غذائیں بھی ہیں جن کے کھانے سے آپ اپنے دل کو صحت مند رکھ سکتے ہیں۔
آئیے جانتے ہیں کہ دل کو صحت مند رکھنے والی سات غذائیں کون سی ہیں۔
کالا لوبیا
کالا لوبیا وزن میں ہلکا، لچکدار اور معدنیات سے بھرپور ہوتا ہے۔ میگنیشیئم، فولیٹ اور اینٹی آکسیڈنٹ بلڈ پریشر کو کم رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ اُن کے فائبر سے بلڈ شوگر کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے اور کولیسٹرول ٹھیک رہتا ہے۔ آپ کالے لوبیے کو سوپ اور سلاد میں شامل کر کے معدنیات سے مزید سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
السی کا بیج اور تخم شربتی
السی کے بیج اور تخم شربتی میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔ ان بیجوں میں فیٹی ایسڈ اور الفا لائینو لینک ایسڈ پودوں سے ملتا ہے۔ اومیگا تھری فیٹی ایسڈ سے صحت پر مثبت اثرات ہیں جس سے یہ ٹرائی گلائیسیرائڈ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ایل ڈی ایل اور کولیسٹرول کے لیول کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ ان بیجوں کے باعث بلڈ پریشر اور خون کی شریانوں میں جمی چکناہٹ اور چربی کم ہوتی ہے۔ اومیگا تھری فیٹی ایسڈ سے دل کا دورہ پڑنے کا چانس کم ہوتا ہے۔
سالمن مچھلی
سالمن دل کی صحت کے لیے ایک بہترین غذا ہے کیونکہ اس میں اومیگا تھری بڑی تعداد میں موجود ہوتی ہے۔ اومیگا تھری صحت مند فیٹ ہیں جن سے بلڈ پریشر میں کمی ہوتی ہے اور دل کی بیماریاں ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔
اخروٹ
روزانہ چند اخروٹ کھانے سے کولیسٹرول میں کمی ہوتی ہے۔ اس سے انسان کے دل میں شریانوں کی سوزش بھی نہ ہونے میں مدد ملتی ہے۔ اخروٹ میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ، مونو انسیچوریٹڈ فیٹس، پلانٹ سٹیورولز اور فائبر کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
دلیہ
دلیے سے ذیابیطس میں کمی ہوتی ہے جبکہ اسے وقتاً فوقتاً کھانے سے بلڈ شوگر میں بھی کمی ہوتی ہے۔ دلیے سے آپ کا پیٹ کئی گھنٹوں تک بھرا رہتا ہے اور صحت کے لیے نقصان دہ سنیکس کھانے سے نجات ملتی ہے۔ دلیے میں موجود فائبر سے ایل ڈی ایل اور صحت کے لیے نقصان دہ کولیسٹرول کم ہوتا ہے جس سے آپ کے دل کو کی بیماریاں ہونے کی امکانات کم ہوتے ہیں۔
ہرے پتوں والی سبزیاں
ہرے پتوں والی سبزیاں جیسا کہ پالک، بند گوبھی اور سبز پتے جیسے کے مولی کے پتے وغیرہ وٹامن، معدنیات اور اینٹی آکسیڈنٹ سے بھرپور ہوتے ہیں۔ یہ خاص طور پر وٹامن کے کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں جس سے دل کی شریانیں محفوظ رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں کافی مقدار میں غذائی نائٹریٹ ملتی ہے جس سے بلڈ پریشر کم ہوتا ہے، شریانیں ڈھیلی پڑتی ہیں اور خون کی رگوں میں خلیے ٹھیک طرح سے کام کرتے ہیں۔
بیریز
سٹرابیریز، بلیو بیریز، بلیک بیریز اور راسپ بیریز میں اہم معدنیات کثرت سے پائی جاتی ہیں جو کہ دل کی صحت کو ٹھیک رکھنے کے لیے نہایت اہم ہیں۔
آکسیڈیٹو دباؤ اور سوزش جس سے دل کی بیماریاں ہوتی ہیں، وہ بیریز میں پائے جانے والے اینٹی آکسیڈنٹس جیسا کہ اینتھو سیاننز سے ختم ہوتے ہیں۔ بیریز کے کھانے سے دل کو لاحق کئی عارضے ٹھیک ہوتے ہیں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
56,005 | کیا پروگرامنگ سیکھنا آسان ہے؟ | آسان مشکل ہر بندے کے اوپر ہے، کوی بھی چیز محنت کر کے حاصل کی جا سکتی ہے، اگر انسان محنت کرے تو کیا حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
یہی چیز پروگرامنگ کے ساتھ ہے، اس کے لیے کچھ چیزوں کا خیال رکھیں:
1۔ ہار نہیں ماننا: کچھوے کی سپیڈ سے اگر آپ ریگولر چلتے رہو تو آپ بہت اچھے پروگرامر بن سکتے ہو۔
2۔ محنت: کسی بھی فیلڈ میں ماہر بننے کے لیے 10000 گھنٹے کا اصول یاد رکھیں، یعنی 10000 گھنٹے اس میں کام کرکے آپ ماہر بن سکتے ہیں۔
3۔ دوست: ایسے دوست ڈھونڈین جو مل کر یہ کام کررہے ہوں، ان کے ساتھ مل کر سیکھیں۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
56,323 | مراکش کا سب سے بڑا زلزلہ کب آیا | 8 ستمبر 2023ء کو 23:11 مراکشی وقت(22:11 UTC) پر مراکش کے مراکش آسفی علاقے میں 6.9 شدت کا زلزلہ آیا۔ زلزلے کا مرکز مراکش کے جنوب مغرب میں 71.8 کلومیٹر (44.6 میل) دور اٹلس پہاڑوں میں واقع قصبے اغیل کے قریب تھا۔[1] یہ پہاڑی سلسلے کے نیچے اتھلی ترچھی تھرسٹ فالٹنگ کے نتیجے میں پیش آیا۔ اس زلزلے میں اب تک 2٫960 سے زائد اموات ہوئی ہیں۔ اس زلزلے میں بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ مراکش میں عمارتوں اور تاریخی مقامات کو نقصان پہنچا۔ اسپین، پرتگال اور الجزائر میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔[2][3]
زلزلہ
یہ زلزلہ مراکش کی جدید تاریخ میں ریکارڈ کیا جانے والا سب سے بڑا زلزلہ ہے، جو کہ 1755ء کے میکنس کے زلزلے کے اندازوں سے زیادہ ہے۔[4]
ریاستہائے متحدہ جیولوجیکل سروے (GCMT) نے 6.9 میگاواٹ کی شدت کی اطلاع دی۔ یہ 18.5 کلومیٹر (11.5 میل) گہرائی میں واقع ہوا، اور اس کی شدت 6.8 میگاواٹ تھی، ریاستہائے متحدہ کے جیولوجیکل سروے (USGS) کے مطابق،[5] جبکہ مراکش کی زلزلہ پیما ایجنسی نے 8 کلومیٹر (5.0 میل) کی فوکل گہرائی کی اطلاع دی اور 7.2 کی شدت۔[6][7]
زلزلے کے جھٹکے مانیٹرنگ اسٹیشنوں کے ذریعے مصر تک محسوس کیے گئے۔[8] عینی شاہدین نے بتایا کہ ہلچل تقریباً 20 سیکنڈ تک جاری رہی۔ مین شاک کے 19 منٹ بعد 4.9 شدت کا آفٹر شاک آیا۔[9]
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
56,447 | اس سوال کا کیا جواب ہے: "براد پٹ نے کس کو ڈیٹ کیا ہے؟" | " اداکارہ گوینتھ پالٹرو کے ساتھ ایک ہائی پروفائل رشتے کے بعد ، براد پِٹ نے اداکارہ جینیفر اینسٹن سے پانچ سال تک شادی کی۔" | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
56,797 | کولمبس کی امریکہ کی تلاش کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ | کرسٹوفر کولمبس کے امریکہ کی تلاش کے محرکات بنیادی طور پر معاشی تھے۔ اس نے ایشیا کے لیے مغرب کی طرف جانے والا راستہ تلاش کیا، جو کہ مسالوں کی منافع بخش تجارت تک رسائی حاصل کرنے اور مزید براہ راست تجارتی راستہ قائم کرنے کی خواہش کے تحت چلا۔ مزید برآں، اس کا مقصد سونا، چاندی اور قیمتی دھاتیں تلاش کرنا تھا۔ کولمبس کے سفر ایشیا کے لیے ایک مختصر مغربی راستے کے مروجہ عقیدے سے متاثر تھے، جو اگر کامیاب ہو جاتا ہے، تو اس کے اور ہسپانوی تاج دونوں کے لیے کافی دولت اور وقار لائے گا۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
56,916 | ورسائی کے معاہدے نے پہلی جنگ عظیم کے بعد کس طرح کردار ادا کیا؟ | 1919 میں ورسائی کا معاہدہ، پہلی جنگ عظیم کے بعد کی دنیا کی تشکیل میں ایک اہم دستاویز تھا۔ اس کی شرائط جرمنی کے لیے قابل تعزیر تھیں، انہیں جنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ جرمنی سے علاقوں کو چھین لیا گیا، فوجی حدود کا نشانہ بنایا گیا، اور بھاری معاوضوں کا بوجھ ڈالا گیا۔ اس معاہدے کا مقصد مستقبل کے تنازعات کو روکنا تھا، لیکن اس کی سخت شرائط نے جرمنی میں ناراضگی اور معاشی عدم استحکام پیدا کیا۔ بہت سے مورخین کا کہنا ہے کہ معاہدے کی شرائط نے ایڈولف ہٹلر کے عروج اور دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں کردار ادا کیا۔ ورسائی کے معاہدے کے جغرافیائی سیاسی اثرات اس کے فوری بعد کے نتائج سے بہت آگے بڑھے، جس نے 20ویں صدی کی تاریخ کی رفتار کو متاثر کیا۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
57,300 | سوال: صنعتی انقلاب نے بڑے پیمانے پر پیداوار اور معیاری مینوفیکچرنگ کی ترقی میں کیا کردار ادا کیا؟
| جواب: صنعتی انقلاب نے بڑے پیمانے پر پیداوار اور معیاری مینوفیکچرنگ کی ترقی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ 20ویں صدی کے اوائل میں ہینری فورڈ کی طرف سے متعارف کرائی گئی اسمبلی لائن جیسی اختراعات، اور قابل تبادلہ حصوں کے تصور نے، جس کا آغاز ایلی وٹنی نے کیا، مینوفیکچرنگ کے عمل کو تبدیل کر دیا۔ ان ترقیوں نے بڑے پیمانے پر سامان کی موثر اور لاگت سے موثر پیداوار کی اجازت دی۔ فنکارانہ کاریگری سے مشینی اور معیاری پیداوار میں تبدیلی نے سامان کی تیاری کے طریقے میں ایک بنیادی تبدیلی کی نشاندہی کی، جس سے پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوا اور لاگت میں کمی آئی۔ اس نے جدید صنعتی طریقوں کی بنیاد رکھی اور 20 ویں صدی کی صارف پر مبنی معیشتوں کے لیے مرحلہ طے کیا۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
57,573 | Python میں موسمی ڈیٹا سیٹ یعنی ٹایم سیریز میں دباؤ اور موسم کے درمیان تعلق کو مملکتوں کے لحاظ سے دیکھنے کے لئے بار چارٹس کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے |
پہلے، موسمی ڈیٹا سیٹ یعنی ٹایم سیریز کو Python میں پڑھیں اور معلوم کریں کہ ہر مملک کا دباؤ اور موسم کے درمیان تعلق کی معلومات دستیاب ہے۔ اگر آپ کا ڈیٹا فرمیٹ ٹیکسٹ یا CSV ہوتا ہے تو، pandas کا استعمال کر کے ڈیٹا کو چھوٹی سی ڈیٹا فریم میں لوڈ کر سکتے ہیں۔
اب، آپ کو معلوم کرنا ہوگا کہ کس مملک میں کتنا دباؤ اور موسم ہے۔ آپ ہر مملک کے لئے دباؤ اور موسم کی معلومات کو ایک لسٹ یا ڈیٹا فریم میں جمع کر سکتے ہیں۔
ایک بار جب آپ کے پاس معلومات تیار ہوتی ہے، تو آپ matplotlib یا seaborn جیسی Python کی چارٹنگ کتابخانے کا استعمال کر کے ایک بار چارٹ بنا سکتے ہیں۔ بار چارٹ میں ہر مملک کو ایک بار کے ساتھ ظاہر کیا جاتا ہے، جہاں ہر بار کی چوڑائی دباؤ کو ظاہر کرتی ہے اور بار کی لمبائی موسم کو ظاہر کرتی ہے۔ اس طرح، آپ بار چارٹ کی مدد سے ہر مملک کے درمیان دباؤ اور موسم کے تعلقات کو دیکھ کر معلوم کر سکتے ہیں، جو مملکوں کے درمیان موسمی تبدیلی کو سمجھنے کی مدد فراہم کرتا ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
57,843 | Give some examples of Singular and Plural in Urdu Language. | | English | Urdu Singular | Urdu Plural |
|---------|---------------|-------------|
| Book | کتاب | کتابیں |
| Car | کار | کاریں |
| Tree | درخت | درختوں |
| Flower | پھول | پھولوں | | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
57,880 | "ستاروں سے سرگوشی کرتے ہوئے، مجھے کائناتی شان و شوکت میں سکون ملا۔"
مندرجہ بالا بیان کس طرف اشارہ کر رہا ہے؟ | بیان کا مفہوم: بیان استعاراتی طور پر کائنات کی وسعت سے جڑ کر سکون تلاش کرنے کے ذاتی تجربے کو بیان کرتا ہے، جس کی علامت ستاروں سے سرگوشی کرتے ہیں۔
جواب: یہ غیر معمولی بیان خود شناسی اور کائنات کے ساتھ تعلق کا احساس دلاتا ہے۔ یہ ستاروں کے ساتھ بات چیت کرکے سکون حاصل کرنے کے اسپیکر کے عمل کی تصویر کشی کرتا ہے، جو انسانی جذبات اور کائناتی وسعت کے درمیان گہرا تعلق تجویز کرتا ہے۔ "ستاروں کی طرف سرگوشی" کا استعاراتی عمل کائنات کے ساتھ رابطے کی ایک شکل پر دلالت کرتا ہے، جہاں خلا کی وسعت اور اسرار غور و فکر اور خود عکاسی کے لیے ایک آرام دہ اور پرسکون پس منظر فراہم کرتا ہے۔ یہ بیان خلا کی حیرت انگیز نوعیت اور کائنات کی شان و شوکت میں سکون اور معنی تلاش کرنے کی صلاحیت کو حاصل کرتا ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
58,110 | پاکستانیوں نے ایک سال کے دوران کتنے کروڑ ڈالر کی چائے پی ؟ | ادارہ شماریات کے مطابق رواں سال پاکستانی 184 ملین ڈالرسے زائد کی چائے پی گئے ہیں۔ ادارہ شماریات اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری ہونیوالی رپورٹ کے مطابق روواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں چائے کی درآمدات پر184.061 ملین ڈالر کا زرمبادلہ صرف ہوا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں 32.30 فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں چائے کی درآمدات پر 139.11 ملین ڈالر کا زرمبادلہ صرف ہوا تھا۔ ستمبر میں چائے کی درآمدات کا حجم 58.11 ملین ڈالر ریکارڈ کیا گیا جو اگست میں 59.27 ملین ڈالر اور گزشتہ سال ستمبرمیں 55.96 ملین ڈالر تھا۔
واضح رہے کہ پہلی سہ ماہی میں اشیائے خوراک کی مجموعی درآمدات کا حجم 1.696ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا ہے جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 2.290 ارب ڈالر تھا۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
58,131 | جی 20 اہم معیشتیں کے بارے میں کچھ بتاو | بیس کا گروپ (Group of Twenty) (جسے جی 20 بھی کہا جاتا ہے) 20 اہم معیشتوں کی حکومتوں اور مرکزی بینک کے گورنروں کا ایک بین الاقوامی فورم ہے۔ اس کے ارکین میں 20 انفرادی ممالک ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، روس، ہسپانیہ,سعودی عرب، جنوبی افریقا، ترکی، مملکت متحدہ، ریاستہائے متحدہ امریکا اور یورپی یونین شامل ہیں۔ یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک انفرادی طور پر اس کے رکن نہیں ہیں۔
دیگر زبانوں میں نام
افریکانز: Groep van Twintig, Groep van 20
البانوی زبان: Grupi i njëzet, Grupi i 20
جدید معیاری عربی: مجموعة العشرين،، مجموعة من 20; Majmuat al-eshryn
بلغاری زبان: Група от двадесет، група от 20, Grupa ot dvadeset, grupa ot 20
معیاری چینی: 二十国集团,20国集团; Èrshí guó jítuán, 20 guó jítuán
کروشیائی زبان: Grupa dvadeset, grupa od 20
چیک زبان: Skupina dvacet, skupina 20
ڈینش زبان: Gruppe af 20, Gruppe på 20
ولندیزی زبان: Groep van Twintig, Groep van 20
انگریزی زبان: Group of Twenty, Group of 20
استونیائی زبان: Kahekümne rühm, 20. rühm
فنش زبان: Ryhmä 20, ryhmä 20
فرانسیسی زبان: Groupe des Vingt, Groupe de 20
جرمن زبان: Gruppe der Zwanzig, Gruppe der 20
یونانی زبان: Ομάδα των είκοσι، Ομάδα των 20, Omáda ton eíkosi, omáda ton 20
ہندی زبان: 20 का समूह; bees ka samooh
مجارستانی زبان: Húsz csoport, 20-as csoport
انڈونیشیائی زبان: Kelompok Dua Puluh, Kelompok 20
آئرش زبان: Grúpa na Fiche, Grúpa na 20
اطالوی زبان: Gruppo dei Venti
جاپانی زبان: G20, 主要20か国・地域; Shuyou nijikkakoku・Chiiki
کنڑا زبان: ೨೦ರ ಸಮೂಹ; ippatthara samooha
کوریائی زبان: G20, 주요 20개국; Ji isip, Juyo isipgaeguk
لیٹویائی زبان: Divdesmit grupa, 20. grupa
لیتھوانیائی زبان: G20, Dvidešimties finansų ministrų ir Centrinių bankų valdytojų grupė
لکسمبرگی زبان: Grupp vun zwanzeg, Grupp vun 20
مالٹی زبان: Grupp ta 'Għoxrin, Grupp ta' 20
پولش زبان: Grupa Dwadzieścia, grupa 20
پرتگیزی زبان: G20(/ʒevˈĩ۔ti/)، Grupo dos Vinte, Grupo dos 20
فارسی زبان: گروہ بیست
رومانیائی زبان: Grup de Douăzeci, un grup de 20
روسی زبان: Группа двадцати (Gruppa dvadtsati)، Группа 20 (Gruppa 20); widely (but unofficially) known as Большая двадцатка (Bolshaya dvadtsatka، literally The Big 20)
سربیائی زبان: Grupa dvadeset, grupa od 20
سلوواک زبان: Skupina dvadsiatich, skupina 20
سلووین زبان: Skupina Dvajset, skupina 20
ہسپانوی زبان: Grupo de Veinte, Grupo de los 20
سنہالی زبان: කණ්ඩායම් විසි; kaṇḍāyam visi
سونسکا: Grupp av Tjugo, Grupp av 20
تمل زبان: இருபதுகளின் குழு; irubathukalin kuzhu
تیلگو زبان: 20 రాష్ట్ర సమూహం، iravai raashtramula samooham
ترکی زبان: 20'ler grubu[3]
حوالہ جات
"FAQ #5: What are the criteria for G-20 membership?"۔ G20.org. Retrieved 21 فروری 2013.
"G20 Members"۔ G20.org. Retrieved 15 جنوری 2014.
BBC usage.
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
58,677 | Tell me a joke in urdu | ایک امیر آدمی نے شاپنگ سینٹر کے سامنے گاڑی کھڑی کی اور بے پرواہی کے ساتھ گاڑی کی چابی گاڑی میں چھوڑ کر شاپنگ سینٹر کے اندر جانے لگا۔ شاپنگ سینٹر کے گارڈ نے ان کے قریب آ کر کہا۔
”جناب! آپ کو ملک کے حالات تو معلوم ہوں گے‘ آئے دن گاڑی چوری کی وار داتیں ہوتی رہتی ہیں اور آپ نے گاڑی کی چابی گاڑی میں چھوڑ دی ہے؟“ ان صاحب نے بے نیازی سے کہا۔ ”کوئی بات نہیں گاڑی انشورڈ ہے؟“ گارڈ نے گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”اور وہ محترمہ گاڑی میں بیٹھی ہوئی ہیں ان کی بھی انشورنس کروائی ہوئی ہے۔“ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
58,914 | بھگت سنگھ کا فلسفہ کیا ہے؟ | ہندوستانی انقلابی اور آزادی پسند بھگت سنگھ کا ایک الگ فلسفہ تھا جس کی جڑیں آزادی اور سماجی انصاف کی جدوجہد میں تھیں۔ ان کے فلسفے کے چند اہم پہلوؤں میں شامل ہیں:
1-قوم کے لیے قربانی: بھگت سنگھ قوم کی آزادی کے لیے بے لوث قربانی کی اہمیت پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے مشہور کہا، "انقلاب زندہ باد" (انقلاب زندہ باد)، آزادی کے مقصد سے اپنی غیر متزلزل وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے، یہاں تک کہ اپنی جان کی قیمت پر۔
2-سیکولرازم اور شمولیت: بھگت سنگھ کا ہندوستان کے لیے وژن جامع اور سیکولر تھا۔ انہوں نے فرقہ پرستی کی مخالفت کی اور ایک متحد، سیکولر ہندوستان میں یقین رکھتے تھے جہاں تمام مذاہب اور پس منظر کے لوگ مل جل کر ہم آہنگی سے رہیں گے۔
3-سوشلزم اور اقتصادی مساوات: بھگت سنگھ سوشلسٹ نظریات سے متاثر تھے اور معاشی عدم مساوات کے بارے میں فکر مند تھے۔ انہوں نے سیاسی آزادی کی جدوجہد کو سماجی اور معاشی انصاف کی وسیع تر لڑائی سے قریب سے منسلک دیکھا۔ انہوں نے مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کی وکالت کی۔
4-سامراج مخالف: بھگت سنگھ نے ہندوستان میں برطانوی سامراج اور نوآبادیاتی حکمرانی کی شدید مخالفت کی۔ اس نے سامراج کو استحصال اور ناانصافی کا ایک بڑا ذریعہ سمجھا اور ہندوستانیوں کے اپنے ملک پر حکومت کرنے کے حق میں یقین کیا۔
5-عدم تشدد بمقابلہ تشدد: بھگت سنگھ عدم تشدد کے اصول پر یقین رکھتے تھے لیکن برطانوی استعماری جبر کے خلاف مسلح مزاحمت کی ضرورت کو بھی تسلیم کرتے تھے۔ اس نے تشدد کو آخری حربے کے طور پر دیکھا جب پرامن طریقے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
خلاصہ یہ کہ بھگت سنگھ کا فلسفہ ان کی گہری حب الوطنی، جدوجہد آزادی سے وابستگی، شمولیت، سوشلزم، اور ضرورت پڑنے پر عدم تشدد اور مسلح مزاحمت دونوں میں ان کا یقین تھا۔ ان کی وراثت ہندوستانیوں کی نسلوں کو متاثر کرتی ہے جو ایک منصفانہ اور آزاد معاشرے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
59,315 | پشتون ولی کوڈ نے پشتون عوام کے ثقافتی اور سماجی پہلوؤں کو کس طرح تشکیل دیا ہے؟ | پشتونوالی، پشتونوں کے روایتی اعزازی ضابطے نے ان کے ثقافتی اور سماجی پہلوؤں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ یہ ضابطہ مہمان نوازی (میلمستیا)، اپنے قبیلے (ننگ) سے وفاداری، اور سمجھی جانے والی ناانصافیوں کا بدلہ لینے کی ذمہ داری (بادل) جیسے اصولوں پر مشتمل ہے۔ پشتونوں نے تنازعات کو حل کرنے سے لے کر روایتی اقدار کو برقرار رکھنے تک پشتون معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ان کی تاریخ کا ایک اہم پہلو رہا ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
59,547 | پاکستان میں بجلی کے ماہانہ بل کو مؤثر طریقے سے کیسے کم کیا جائے؟
| پاکستان حال ہی میں توانائی کے نہ ختم ہونے والے بحران میں گھرا ہوا ہے۔ اگر کسی کو بھی بجٹ سے باہر بجلی کے بلوں، بجلی کی طویل بندش، ریکارڈ توڑ گرمی اور ان تمام مسائل کا ایک ہی وقت میں سامنا کرنا پڑے تو وہ افسردہ محسوس کرے گا۔ جب آپ سوچتے ہیں کہ چیزیں زیادہ خراب نہیں ہوسکتی ہیں تو ، آپ کا بجلی کا بل موسم گرما کی روح کو تباہ کرنے کے لئے ظاہر ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں اس وقت حالات اتنے خراب ہیں کہ میم گیم ناقابل اعتماد ہے۔ بجلی کے حالیہ بڑھتے ہوئے بلوں کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ہم یہاں آپ کے لئے اس خوفناک ماہانہ بل کو نمایاں طور پر کم کرنے کے لئے ہیں. یہاں ہم بجلی کے بلوں کو کم کرنے کے مختلف طریقوں پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔
ایک فعال ٹیکس دہندہ بنیں
کیا آپ جانتے ہیں کہ وقت پر ٹیکس ادا کرنے سے آپ کی بجلی کی لاگت کم ہوسکتی ہے؟ ٹیکس دہندگان کو اب 7.5 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس کی بدولت فائدہ ہوا ہے جو پہلے 25 ہزار روپے ماہانہ سے زائد بجلی کے بلوں پر لگایا جاتا تھا، جس کی بدولت فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو جاتا ہے۔
اپنی چھت کو رنگ دیں:
گرمیوں کے دوران بجلی کی قلت اور شدید گرمی عام بات ہے۔ تاہم ، ایک سیدھا سا حل ہے: اپنی چھت کو سفید رنگ کا ایک مخصوص سایہ پینٹ کریں۔ یہ پینٹ ایک اسکرین کے طور پر کام کرتا ہے ، سورج کی سخت شعاعوں کو ہٹاتا ہے اور آپ کے گھر کی ٹھنڈک کو محفوظ رکھتا ہے۔ یہ "چھت کو ٹھنڈا کرنے والی کوٹنگ" کے طور پر جانا جاتا ہے اور چھتوں کے تمام اسٹائل پر مؤثر ہے، بشمول فلیٹ اور ڈھلوان والی چھتیں. اس کا اطلاق کرنا آسان ہے۔ آپ اسے برش ، رولر ، موپ ، یا اسپرے کا استعمال کرکے کرسکتے ہیں۔
ایلاسٹومرک کوٹنگ، جو سورج کی روشنی کو منعکس کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے مشہور ہے، پاکستان میں ایک پسندیدہ آپشن ہے۔ اس کے نتیجے میں ، آپ کو پتہ چل سکتا ہے کہ آپ ایئر کنڈیشنر کو کم بار استعمال کرتے ہیں۔ دھوپ میں آنے والی چھت کو آرام دہ ہونے کے لئے اکثر بہت سارے ایئر کنڈیشننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم ، ایک سفید چھت تقریبا 90٪ سورج کی روشنی کی عکاسی کرے گی ، جس سے علاقے کو آرام دہ رکھا جائے گا۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
59,699 | قرون وسطی کے زمانے میں، چار شورویروں - آرتھر، لانسلوٹ، گالاہاد، اور گوین - اپنی تلاش کے لیے مشہور تھے۔ آرتھر کا کہنا ہے، "لانسلوٹ کو ہولی گریل مل گئی۔" لانسلوٹ کہتا ہے، "گالہاد بادشاہ آرتھر کا بھتیجا تھا۔" Galahad کہتے ہیں، "Gawain نے گرین نائٹ کو شکست دی۔" گوین کہتے ہیں، "آرتھر نے پتھر سے تلوار نکالی۔" کس نے اپنی جستجو میں کیا حاصل کیا؟ | لانسلوٹ کو ہولی گریل مل گئی، گالہاد کنگ آرتھر کا بھتیجا تھا، گاوین نے گرین نائٹ کو شکست دی، اور آرتھر نے پتھر سے تلوار نکالی۔ اگر گالہاد آرتھر کا بھتیجا ہوتا تو یہ لانسلوٹ کے بیان سے متصادم ہوتا۔ لہذا، آرتھر، لانسلوٹ، گالہاد، اور گاوین منسلک ہیں جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے. | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
59,811 | کیا نیلی آنکھیں حقیقت میں نیلی نہیں ہوتیں؟ اس میں مزید معلومات شامل کریں | جب یہ کہا جاتا ہے کہ کسی کی آنکھیں آسمان جیسی نیلی ہیں تو یہ سچ ہے کیوں کہ دونوں میں سے کسی کا بھی رنگ حقیقت میں نیلا نہیں ہوتا۔
فضا میں کسی بھی چیز کا رنگ نیلا نہیں اور نا ہی دنیا کی آبادی میں تقریبا آٹھ فیصد ان لوگوں کی آنکھ کا رنگ نیلا ہوتا ہے۔
حقیقت میں یہ نظر کا دھوکہ ہے جو کسی چیز کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
لیکن اس پہیلی کو سمجھنے کے لیے آپ کو آنکھ کی سائنس سے آشنا ہونا پڑے گا خصوصاً آنکھ کے رنگ کی سائنس سے۔
آنکھ کا آئرس دو تہوں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں سامنے کی طرف ’سٹروما‘ جبکہ اس کے درپردہ ’اپیتھیلیئم‘ کی تہہ ہوتی ہے۔
اپیتھیلیئم کی موٹائی صرف دو خلیوں پر محیط ہوتی ہے جو گہرے بھورے رنگ کے پگمنٹس پر مشتمل ہوتے ہیں، نیلی رنگ کی آنکھوں میں بھی۔
جب آپ کو کسی کی آنکھ میں کوئی نقطہ نظر آتا ہے تو یہ دراصل اپیتھیلیئم ہوتا ہے۔ اس گہری بھوری سطح کے سامنے سٹروما موجود ہوتا ہے جس میں موجود فائبر کا کوئی رنگ نہیں ہوتا۔
اکثر سٹروما میں ’میلانین‘ موجود ہوتا ہے جو ہماری جلد اور بالوں کے رنگ کا تعین کرتا ہے۔
میلانین کی کثرت یا کمی اس بات کو طے کرتی ہے کہ ہماری آنکھوں کا رنگ کیا ہو گا۔
لیکن یہ واحد چیز نہیں۔
جینیاتی تبدیلی
آنکھ کا رنگ کسی بھی فرد کی شخصیت کا اہم جزو ہوتا ہے کیوں کہ یہ منفرد ہو سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں کسی بھی فرد کی آنکھ کا رنگ کسی دوسرے فرد جیسا نہیں ہوتا۔
تاہم ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک رنگ ایسا ہے جو باقی سب پر حاوی ہے۔ دنیا میں تقریبا 80 فیصد افراد کی آنکھوں میں بھورے رنگ کا کوئی نہ کوئی اثر موجود ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ آئرس میں موجود سٹروما میں میلانین بکثرت موجود ہوتا ہے جو روشنی کو جذب کرتا ہے اور بھورے رنگ کا تاثر دیتا ہے جو چاکلیٹی بھی ہو سکتا ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا، مشرقی ایشیا اور افریقہ کے باسیوں میں زیادہ گہرا رنگ نظر آتا ہے جبکہ مغربی ایشیا، یورپ اور امریکہ میں اس کا ہلکا رنگ زیادہ ہوتا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق لاکھوں سال تک تمام انسانوں کی آنکھ کا رنگ بھورا تھا۔
کوپن ہیگن یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ہانس ایبرگ کہتے ہیں کہ چھ ہزار سے دس ہزار سال قبل جینیات میں ایک ایسی تبدیلی رونما ہوئی جس نے ایک مخصوص جین کو متاثر کیا جو میلانین بناتا ہے۔
اس تبدیلی کی وجہ سے میلانین غائب ہوا اور نیلی آنکھوں والے پہلے انسان کا جنم ہوا۔ یعنی تمام نیلی آنکھوں والے انسان شاید اسی فرد سے تعلق رکھتے ہیں۔
لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ نیلا رنگ اگر موجود نہیں ہے تو کیسے نظر آتا ہے؟
اس کی وضاحت وہی ہے جو آسمان کے رنگ کی ہے یعنی ’ٹنڈال افیکٹ‘ نامی سائنسی نظریہ۔
اس نظریے کے مطابق روشنی کو فضا یا کسی مائع میں موجود چھوٹے چھوٹے ذرات بکھیر دیتے ہیں۔
آنکھ میں موجود سٹروما کی تہہ بھی روشنی کو ایسے ہی بکھیر دیتی ہے تاہم جب سفید رنگ کی روشنی سٹروما کی تہہ سے ٹکراتی ہے تو نیلا رنگ زیادہ تیزی سے بکھر جاتا ہے اور یوں آنکھ کا رنگ نیلا محسوس ہوتا ہے۔
اسی لیے نیلے رنگ کی آنکھیں مخصوص اوقات میں زیادہ متحرک دکھائی دیتی ہیں کیوں کہ اس رنگ کا دارومدار مخصوص مقام پر موجود روشنی کے میعار سے جڑا ہوا ہے۔
بنیادی طور پر سائنس دان اسے ’سٹرکچرل رنگ‘ کہتے ہیں جو قدرتی طور پر بھی نظر آتا ہے۔
ایک اور دلچسپ معاملہ ’ہیاسنتھ ماکاؤ‘ نامی طوطے کا بھی ہے جس کے پر نیلے رنگ کے نہیں ہوتے لیکن نیلے نظر آتے ہیں کیوں کہ ان کے پروں میں چھپے ’نینو چینل‘ روشنی کو بکھیرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تو یوں اگرچہ بھورا رنگ ارتقا کا معجزہ ہے کیوں کہ میلانین ہمیں سورج کی حدت سے محفوظ رکھتا ہے، نیلا رنگ ایک قدیم جینیاتی تبدیلی اور قدرتی عوامل کی وجہ سے جنم لیتا ہے۔
اور سبز بھی۔
جی ہاں۔ سٹروما میں میلانین کی کچھ مقدار ایسی بھی ہوتی ہے جو اسے بھورا رنگ دیتی ہے لیکن روشنی کے بکھرنے کے عمل میں ہی سبز رنگ بھی پیدا ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ آنکھوں کا سبز رنگ کافی نایاب ہے اور آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ میں پائے جانے کے باوجود دنیا بھر میں صرف دو فیصد لوگوں کی آنکھوں کا رنگ ہی سبز ہوتا ہے۔
تقریبا تین فیصد کی آنکھوں کا رنگ سرمئی ہوتا ہے جو بذات خود ایک پہیلی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سرمئی رنگ کی آنکھوں میں بھی میلانین موجود نہیں ہوتا۔ تاہم نیلے کے بجائے سرمئی رنگ کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان مخصوص آنکھوں میں سٹروما میں کولاجین کی بہتات ہوتی ہے جو ٹنڈال افیکٹ کو روک دیتی ہے۔
یوں آنکھ میں داخل ہونے والی روشنی بکھر کر بھی متوازن رہتی ہے اور سرمئی رنگ کا گمان پیدا کرتی ہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
59,817 | بی بی سی اردو کے بارے میں کچھ بتایے: |
بی بی سی اردو سروِس کی انعام یافتہ ویب سائٹ bbcurdu.com خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے اردو زبان کی سب سے بڑی ویب سائٹ ہے۔
جولائی دو ہزار دو میں لانچ ہونے کے بعد بی بی سی اردو ڈاٹ کام نے نیوز ویب سائٹوں میں اپنا ایک منفرد مقام بنا لیا ہے۔
بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر آپ پل پل بدلتی خبروں کے علاوہ، فوٹو فیچر، تجزیے اور تازہ ترین ویڈیو بھی دیکھ سکتے ہیں۔
٭ ریڈیو سروس
بی بی سی کی عالمی سروس گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان، بھارت اور خلیجی ممالک میں مقیم اردو کے سامعین کے لیے پروگرام پیش کر رہا ہے۔
بی بی سی رادو ڈاٹ کام کے آنے کے بعد ہمارے اردو سامعین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور دنیا بھر میں مقیم اردو سمجھنے والے لوگ اب ہماری ویب سائٹ پر موجود لنکس کے ذریعے بی بی سی کی عالمی سروس کے اردو ریڈیو پروگرام سنتے ہیں۔
بی بی سی اردو سروس کے ریڈیو پروگرام:
سیربین
3.00 - 4.00 PM گرینچ
فریکوینسی: میڈیم ویو 1413 کلوہرٹز، اور شارٹ ویو 5965، 7205، 9510، 15160 کلو ہرٹز یا 19، 31، 41، 49، 212 میٹر بینڈ
بی بی سی اردو سروس ریڈیو کا طرہ امتیاز اور ہماری طویل ترین دورانیے کی مجلس جنوبی ایشیا میں شام ڈھلے سنی جا سکتی ہے۔
تازہ عالمی خبروں کا بلیٹن، پاکستان اور بھارت سے ہمارے نامہ نگاروں کی رپورٹیں، دنیا بھر سے بی بی سی کے صحافیوں کے مراسلے اور تبصرے، اہم شخصیات کے انٹرویو، آپ کے خطوط، عام دلچسپی کے موضوعات پر فیچر اور معیشت، کھیل اور حالات حاضرہ پر ہمارے ہفتہ وار سلسلے، یہ سب سیربین کا حصہ ہیں۔
ایف ایم نیوز بلیٹن
پاکستان میں ہمارے پارٹنر ایف ایم ریڈیو سٹیشنز پر آپ دن میں تین مرتبہ تفصیلی خبروں کا بلیٹن بھی سن سکتے ہیں۔
یہ بلیٹن دس منٹ دورانیے کے ہیں اور روزانہ شام پانچ، چھ اور سات بجے پیش کیے جاتے ہیں جبکہ پانچ بجے کا بلیٹن فیس بک پر بی بی سی اردو کے صفحے پر بھی براہِ راست نشر کیا جاتا ہے۔
گلوبل نیوز بیٹ بُلیٹن اُردو زبان میں رات 8 بجے سے صبح 1 بجے تک ہر گھنٹے کے بعد اپنا اور آواز ایف ایم ریڈیو سٹیشن کے علاوہ بی بی سی اردو کے ٹوئٹر ہینڈل، فیس بُک اور آڈیو بوم پر ضرور سنیے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |