id
int64 18
202k
| inputs
stringlengths 13
4.34k
| targets
stringlengths 4
112k
| dataset_name
stringclasses 1
value | sub_dataset_name
stringclasses 1
value | task_type
stringclasses 1
value | template_id
int64 0
0
| language
stringclasses 1
value | split
stringclasses 1
value | script
stringclasses 1
value |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
184,270 | Python میں موسمی ڈیٹا سیٹ میں کون کون سے ممالک گرم تاثر کا شعاع حاصل کرتے ہیں، انہیں دیکھنے کے لئے پائی چارٹ کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے |
پہلے، موسمی ڈیٹا سیٹ کو Python میں پڑھیں اور معلوم کریں کہ ہر مملک کا موسمی رینج کی معلومات دستیاب ہے۔ اگر آپ کا ڈیٹا فرمیٹ ٹیکسٹ یا CSV ہوتا ہے تو، pandas کتابخانے کا استعمال کر کے ڈیٹا کو چھوٹی سی ڈیٹا فریم میں لوڈ کر سکتے ہیں.
اگلا کام ہے کہ آپکو موسمی رینج کی معلومات کو تجمیع کرنا ہوتا ہے۔ آپ ہر مملک کے موسمی رینج کو حساب کر سکتے ہیں اور پھر یہ معلومات ایک لسٹ میں ذخیرہ کریں۔
اگر آپ نے ایک بار معلومات کو تجمیع کر لی ہوتی ہے، تو اب آپ matplotlib یا seaborn جیسی Python کی چارٹنگ کتابخانے کا استعمال کر کے ایک پائی چارٹ بنا سکتے ہیں۔ پائی چارٹ میں ہر مملک کو ایک پائی کی حصص میں ظاہر کیا جاتا ہے، جہاں ہر حصہ کی سائیز اس مملک کے موسمی رینج کو ظاہر کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، agar آپکے پاس 3 ممالک ہیں اور ان کے موسمی رینج 50C، 40C، اور 30C ہیں تو پائی چارٹ میں تین حصے ہوں گے، اور ہر حصے کی سائیز 50، 40، اور 30 ہوگی۔
آخر میں، آپ پائی چارٹ کو دیکھ کر آپ کریں گے کہ کون کون سے ممالک گرم تاثر کے تحت آتے ہیں، اور آپ کی تجزیے کو معلوم کرنے میں مددگار ہوں گے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
184,399 | چندریان 3 نے کتنے اہداف حاصل کر لیے؟ | بھارتی خلائی مشن چندریان 3 نے چاند پر دو اہداف کامیابی سے حاصل کر لیے ہیں جب کہ تیسرے پر کام جاری ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق جس نے چاند کے جنوبی حصے پر 23 اگست کو لینڈنگ کی تھی وہ جنوبی قطب کی تصاویر بھیج رہا ہے، خلائی مشن نے تین میں سے دو اہداف کامیابی سے مکمل کر لیے ہیں جب کہ تیسرے پر کام جاری ہے۔
بھارتی خلائی تحقیقاتی ادارے اسرو کے آفیشل ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر اس حوالے سے اطلاعات شیئر کی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ چندریان نے مشن کے تین اہداف میں سے دو حاصل کر لیے ہیں جن میں پہلا ہدف چاند کی سطح پر محفوظ اور سافٹ لینڈنگ تھا اور دوسرا روور کو چاند کی سطح پر اتارنا جس میں وہ کامیاب رہا۔
اسرو کے مطابق اب تیسرے ہدف یعنی سائنسی تجربے پر کام جاری ہے اور تمام پے لوڈ معمول کے مطابق کام کر رہے ہیں۔
بھارت میں کئی ’’چندریان‘‘ پیدا ہو گئے!
لینڈر اور روور چاند کی ساخت کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے اندرونی مشاہدات اور تجربات کریں گے۔ چندریان 3 چاند پر 14 دن تک کام کرے گا۔ چاند کا ایک دن زمین کے 14 دنوں کے برابر ہوتا ہے۔ یعنی یہاں 14 دن کا دن ہوتا ہے اور 14 دن کی رات ہوتی ہے۔ ایسی صورت حال میں پرگیان صرف ایک قمری دن تک فعال رہے گا۔ اس دوران روور پرگیان پانی، معدنی معلومات کی تلاش کرے گا اور وہاں زلزلے، گرمی اور مٹی کا مطالعہ کرے گا۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
184,783 | "تخریب کے پردے میں تعمیر کا ساماں ہوتا ہے" کے عنوان سے کہانی لکھیں | آپ نے بھی شاید دیکھا ہوگا، میں چند روز سے برابر دیکھ رہی ہوں کہ میرے بگیا کے پھولوں کا رنگ کچھ زیادہ نکھرآیاہے
کلیاں بھی خوب لگیں ہیں اور پھولی پھولی گویا من ہی من مسکرا رہی ہیں۔اورکھلنے کو بے تاب۔
پتّوں کا رنگ بھی کچھ زیادہ ہی سبز اور چمک لیے ہوئے ہے۔فضا بھی دُھلی دُھلی سی۔
کہیں ایسا تو نہیں، پھولوں نے، کلیوں نے، پتّوں نے، شاخوں نے، چرند نے، پرند نے، مُرغ وماہی نے خالق ِ کائنات کے حضور ایک عرضی بھیجی ہو، التجا کی ہو کہ ربّا ! تیری اِس اَشرفُ المخلوقات سے تو ہم بہت تنگ آگئے ہیں۔ تیرا یہ خاکی کچھ زیادہ ہی سرکش ہو گیا ہے زمین و آسمان سب جگہ حاوی ہو گیا ہے۔ سمندر کے سینے پر بڑے بڑے جہاز اس تیز رفتار سے لے جاتا ہے کہ سمندر کی تہہ میں بھی مچھلیاں خوفزدہ ہو جاتی ہیں۔ کبھی کچھ گندگی ڈال جاتا ہے، کبھی کچھ۔ زمین و آسماں میں دھواں اِس قدر پھیلاتا ہے کہ بعض وقت سانس لینادشوار ہو جاتا ہے۔ کچھ روز کے لیے ہی سہی اسے کسی طرح سے مقیّد کر کہ ہم ذرا آزاد ہوں، تازہ ہوا میں سانس لیں، کچھ موج مزہ ہم بھی تو کریں آخر ہم بھی تو تیری کائنات کا حصّہ ہیں۔
لگتا ہےاِان کی عرضی قبول کر لی گئی ۔ایک چھوٹے سے وائرس(virus)کے ذریعہ انسان مقیّد کر دیا گیا۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہاں کہاں سے مرغ و ماہی نکل نکل کر آرہے ہیں۔ دریا میں، سمندر میں بے خوف و خطر اُچھل کود کر رہے ہیں۔ چرند پرند گوشئہ تنہائی سے نکل، اپنی اپنی پرواز آزما رہے ہیں جس جگہ کبھی گزر نہیں ہوا تھا اُس مقام پر پہنچ رہے ہیں۔ اللہ اللہ سبحان اللہ۔
انسان کے لیے غور و فکر کا مقام ہے۔ اب ہمیں اپنا اور کائنات کا رشتہ سمجھنا ہوگا اُس رشتے کی قدر کرنی ہوگی اور اُس میں اپنا صحیح مقام متعیّن کرنا ہوگا۔ اورانشا اللہ ہم یہ کر سکیں گے۔ انسان آخر انسان ہے۔ کائنات کے ماتھے کا سندور اُس کے سینے کا راز جیسا کہ ہمارے شاعر نے کہا ہے۔
تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینہ ء کائنات میں
علّامہ اقبالؔ
پروردگار نے انسان کوعقل کے نور سےنوازہ ہے۔ صحیح راستہ دیکھ ہی لےگا۔ حالات دل شکن ضرور ہیں مگر مایوس کُن نہیں۔ انسان یہ بھی سمجھتا ہے کہ ’’تخریب کے پردے میں تعمیر کا ساماں ہوتا ہے‘‘۔ مولانا ابو الکلام آزادؔ نے ’ترجما نُ القران‘ کی پہلی جلد میں’’کائنات کی تخریب بھی تعمیر کے لیے ہے‘‘ اِس عنوان کے تحت لکھتے ہیں
’’ البتّہ یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا عالم ِ کون و فساد ہے۔ یہاں ہر بننے کے ساتھ بگڑنا ہے اور سمٹنے کے ساتھ بکھرنا۔ لیکن جس طرح ایک سنگ تراش کا توڑنا پھوڑنا بھی اِس لیے ہوتا ہے کہ خوبی و دل آویزی کا ایک پیکر تیّار کر دے اِسی طرح کائنات ِ عالم کا تمام بگاڑ بھی اِس لیے ہے کہ بناؤ اور خوبی کا فیضان ظہور میں آئے۔‘‘
انشا اللہ ایسا ہی ہوگا اِس وباcovid-19 کے بعد بناؤ اور خوبی کا فیضان ظہور میں آئے گا۔ لیکن اُس کے لیے بہت ممکن ہے کہ ہمیں اپنے جینے کے, رہن سہن کے طور طریقے بدلنے ہوں گے۔ اُس سے بھی ضروری یہ ہے کہ اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔ انسان کو انسان سمجھنا ہوگا۔ مذہب، رنگ و نسل قوم و وطن کے تفرقے مٹانے ہوں گے اُن سے اوپر اُٹھنا ہوگا۔ پہلے بھی ہم جانتے ہی تھے کہ انسان سب برابر ہیں مگر اب اِس چھوٹے سے وائرس نے علیٰ الاعلان بتا دیا،اب کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہی کہ یہاں نہ کوئی راجا ہے نہ رنگ، نہ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا نہ کوئی super power ہے نہ کوئی اور طاقت۔ سب برابر ہیں، بہتر ہے کہ اب ہم اس پر عمل کرنا شروع کردیں۔ نفرت کی دیواریں کھڑی نہ کریں بلکہ محبت کی پینگیں بڑھائیں۔ ظلم سے ہاتھ کھینچ لیں۔ دوستی اور صلح کا ہاتھ بڑھائیں۔
اس تصورہی سے کہ’’انسان سب برابر ہیں‘‘ دل کوکس قدر مسرّت حاصل ہوتی ہے۔ پروردگار ہم سب کو نیک توفیق عطا کرے۔ خاص طور سے سیاسی لیڈروں اور مذہبی رہنماؤں کو۔ ویسے تجربہ یہ کہتا ہے کہ اِن سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں رکھنی چاہیں۔ بلکہ عوام خود منزل کی طرف قدم بڑھائیں۔ انسانیت کا پرچم لہرائیں۔ مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں۔
امید کا دامن تھامے رہیے۔
’’ امید ہی پہ قائم ہے دنیا ہے جس کا نام ‘‘ برج ناراین چکبست اجازت دیجیے
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
185,233 | کیا مصنوعی ذہانت خطرناک ہو سکتی ہے؟
| 17مئی کو چیٹ جی پی ٹی کی مالک کمپنی ’اوپن اے آئی‘ کے چیف ایگزیٹو سیم آلٹمین نے امریکی سینٹ کی کمیٹی کے سامنے یہ بیان دیا کہ مصنوعی ذہانت کو ریگولرائز کیا جانا چاہیے۔
وہ یہ بیان مصنوعی ذہانت کے ممکنہ خطرات کے حوالے سے بحث میں ریکارڈ کروا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کے نتیجے میں سامنے آنے والے امکانات کو پرنٹنگ پریس کی ایجاد کی طرح دنیا کو مؤثر طریقے سے تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس بات پر انہوں نے بہرحال اتفاق کیا کہ اس کے ممکنہ خطرات سے نمٹنا بھی ضروری ہے۔ ایک امریکی سینیٹر نے بھی بالکل اسی طرح کے خطرے کی نشان دہی کی۔ ان کے خیال میں اس بات سے انکار نہیں کہ مصنوعی ذہانت کے کافی انقلابی اثرات ہو سکتے ہیں لیکن یہ بالکل ایٹم بم کی طرح خطرناک بھی ہے۔
’چیٹ جی پی ٹی‘ کی ایجاد نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک طوفان برپا کیا ہے۔ 30 نومبر 2022ء کو آغاز کرنے والے اس پلیٹ فارم نے ہر شعبہ ہائے زندگی پر اپنا اثر ڈالا ہے اور مختصر عرصے کے دوران ٹیکنالوجی، صحت، تعلیم، تجارت، کاروبار اور بینکنگ سے تعلق رکھنے والے صارفین کی تعداد 10کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔
’چیٹ جی پی ٹی‘ ایک طاقت ور اے آئی ٹول اور کمپیوٹر لینگوئج ماڈل ہے جو کہ انسانوں کی طرح گفتگو کر سکتا ہے اور سوالوں کے جواب دے سکتا ہے۔ اب یہ پروگرام تصاویر اور ویڈیوز کو بھی پراسیس کر سکتا ہے، سادہ کاغذ پر دیے گئے ڈیزائن کے مطابق ویب سائٹ ڈیزائن کر سکتا ہے۔ اس کو تین ارب لفظوں کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔
اس میں فیڈ کیے گئے ڈیٹا کی یہ مقدار ظاہر کرتی ہے کہ یہ کام کتنے بڑے پیمانے پر کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ انسانوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بھی یہ مسلسل سیکھ رہا ہے اور خود کو اپ گریڈ کر رہا ہے۔ روزمرہ کے معمولی مسائل جیسا کہ ای میلز یا پیغامات لکھنے کے ساتھ ساتھ یہ پیچیدہ کام جیسا کہ آڈٹ وغیرہ کرنا بھی سر انجام دے رہا ہے۔
اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے کافی کمپنیز نے ’چیٹ جی پی ٹی‘ کو اپنے پروگرامز کا حصہ بنایا جیسا کہ مائیکروسافٹ کے ’بنگ‘ سرچ انجن کو اس کے ساتھ لنک کر دیا گیا ہے۔ سنیپ چیٹ نے جب اس کو اپنی ایپ میں شامل کیا تو اس کی شہرت مزید پھیل گئی۔
جہاں پہلے اس کو صرف پڑھے لکھے لوگ استعمال کر رہے تھے، اس ایپ میں آنے کے بعد عام لوگوں نے بھی اسے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس میں ایک بڑا عنصر اس کی مقامی زبانوں کو سمجھنے کی صلاحیت اور مزاح سے بھر پور جواب دینے کی اہلیت تھی۔ یہ رومن اردو میں بہت اچھے سے بات کر سکتا ہے۔
پاکستان میں کچھ دن تو سوشل میڈیا پر اس کا خوب چرچا رہا۔ ہر کوئی ’چیٹ جی پی ٹی‘ کے ساتھ بات کر کے اس کے اسکرین شاٹس شئیر کر رہا تھا۔ کافی لوگوں کے لیے یہ نا قابل یقین اور حیران کن تھا۔
میرے ایک دوست کے نزدیک اس سب کے پیچھے کوئی انسان بیٹھے تھے جو اس کو چلا رہے تھے۔ کافی تگ ودو کے بعد میں اس کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہو ا کہ ایسا کچھ نہیں ہے اور یہ خودکار طریقے سے کام کرنے والا سوفٹ وئیر ہے۔
اگرچہ ایجادات کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کا امتیاز ہوتی ہیں، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ان کو کنٹرول کیا جائے۔ اس وقت یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے جب اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ ’اے آئی‘ مشین، اپنے اور انسان کے تعلق کو آقا اور غلام کے تعلق میں بدل سکتی ہے۔
یہ تصویر اس وقت کچھ واضح ہوتی ہے جب ہم انسان اور موبائل کے تعلق کو دیکھتے ہیں۔ صبح بستر سے اٹھنے سے لے کر رات سونے تک ہم اپنا زیادہ تر وقت فون پر گزار رہے ہوتے ہیں۔ اپنی چھوٹی سے کے کر بڑی ضروریات تک کے لیے ہم بہت حد تک اس پر انحصار کر تے ہیں۔
یہ ہماری زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو بھی متاثر کرتا ہے کیونکہ موبائل فون کے استعمال میں کوئی اصول و ضوابط یا ریگولیشنز نہیں ہیں۔ بالکل اسی طرح اگر مصنوعی ذہانت کے لیے بروقت قوانین نہ بنائے گئے تو یہ بڑی حد تک ہم پر بہت جلد غالب آ جائے گی۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ مصنوعی ذہانت کے بہت سے فوائد ہیں لیکن دوسری طرف اگر اس کو ریگولرائز نہیں کیا جاتا تو اس کے سیاسی، معاشرتی، معاشی اور عسکری میدانوں میں نقصانات بھی ہیں۔ سیاسی میدان میں یہ چیٹ بوٹس مختلف امیدواروں کی عوامی مقبولیت کا اندازہ لگانے میں مدد دے سکتے ہیں۔
اے آئی مختلف سیاسی رہنماؤں کو باخبر کمپین چلانے، ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس چلانے، لوگوں سے بات چیت کرنے، ان کے سوالات کے جواب دینے، اور مطلوبہ مواد تیار کرنے میں مدد کرسکتی ہے۔ جنریٹو اے آئی عوامی حمایت کا اندازہ لگا سکتی ہے اور انتخابات کے نتائج سے قبل از وقت آگاہ کر سکتی ہے۔
یہ مصنوعی ذہانت کے میدان سیاست میں کچھ مثبت استعمالات ہیں ، تاہم ان ریگولیٹد اے آئی (بغیر ضابطے کے) سیاسی رہنماؤں کی کردار کشی، عوامی رائے کو متاثر کرنے، اور حقائق کو مسخ کر کے کسی کی حمایت اور کسی کی مخالفت میں استعمال ہو سکتی ہے۔
جب چیٹ جی پی ٹی سے سیاسی کمیونیکیشن اور جمہوریت پر مصنوعی ذہانت کے اثرات کے بارے پوچھا گیا تو اس کے خیال میں اے آئی میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ تزویراتی اور سیاسی کمیونیکیشن پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ نتیجتاً یہ بات ضروری ہو جاتی ہے کہ اے آئی کو استعمال کرتے وقت اخلاقیات کو مدنظر رکھا جائے اور پالیسی ساز ان خطرات کو مدنظر رکھیں۔ ’چیٹ جی پی ٹی‘ کے یہ جواب دینے کی وجہ یہ تھی کہ ڈیٹا کی مدد سے اسے تشکیل دیا گیا ہے۔
جوں جوں ہر روز زیادہ سے زیادہ ڈیٹا تخلیق ہو رہا ہے ، یہ پروگرامز اور زیادہ ذہین ہوتے جائیں گے۔ یہ سیاسی رہنماؤں کی جھوٹی، جعلی یا مسخ شدہ تصاویر بنا سکتا ہے جیسا کہ کچھ روز قبل یوکرینی صدر ولادی میر زیلنسکی کی روس کے سامنے سرنڈر کرنے کی ویڈیو بنائی گئی تھی۔
اے آئی اور چیٹ بوٹس کو غلط معلومات اور جعلی خبروں کو پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور اسے عوام میں پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کے الگورتھم میں ہیرا پھیری کی جا سکتی ہے۔ یہ عوامی تحفظ کے حوالے سے ناقابل یقین حد تک تشویشناک بات ہے۔
مزید یہ کہ اے آئی معاشی میدان میں پیداواری صلاحیت اور کارکردگی بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آئندہ دس سالوں کے دوران جنریٹو اے آئی سے سالانہ عالمی جی ڈی پی میں 7.0 فیصد اضافہ متوقع ہے۔
جنریٹو اے آئی ماڈلز جیسا کہ گوگل کابارڈ اور چیٹ جی پی ٹی کے پاس اعلیٰ درجے کی ذہانت ہے جو کہ زیادہ تر انسانوں کے پاس نہیں ہوتی۔ یہ چیز ایک اور خطرے کو جنم دیتی ہے۔ کیا اے آئی انسانی ملازمتوں پر قبضہ کر سکتی ہے؟ اگرچہ اے آئی بہت سے شعبوں میں انسانوں کی مدد کر رہی ہے لیکن یہ خطرہ مسلسل موجود ہے کہ یہ انسانوں کا متبادل ثابت ہو گی۔
جب عام ڈرائیورز نے ایک وقت میں اوبر اور کریم کی وجہ سے ملازمتوں سے ہاتھ دھوئے تھے، اس بات کا امکان ہے کہ خودکار کاروں کی آمد سے اوبر اور کریم کے ڈرائیور ملازمت سے محروم ہو جائیں گے۔
مصنوعی ذہانت مکمل طور پر انسانوں کی جگہ نہ بھی لے لیکن یہ نئی تکنیکی اور غیر تکنیکی ملازمتیں تخلیق کرتے ہوئے کچھ ملازمتوں کو بے کار بنا سکتی ہے۔ جو لوگ ان تبدیلیوں کو اپنانے یا سیکھنے کے لیے تیار نہیں وہ خسارے میں رہیں گے۔
اسی طرح چیٹ جی پی ٹی مختلف سماجی شعبوں میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ سب سے نمایاں تعلیمی شعبے میں اس کا استعمال ہے۔ طلباء بڑے پیمانے پر اسے اپنی اسائنمنٹس بنانے یا مضامین کا خلاصہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اس سے جہاں طلباء پر بوجھ کم ہوا ہے وہیں پروفیسرز پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔ اے آئی سے تیار کردہ مواد کو انسانوں کی لکھی ہوئے تحریر سے فرق کرنا مشکل ہے۔ یونیورسٹی آف کیمبرج کی تحقیق کے مطابق اے آئی پر مکمل انحصار تعلیمی شعبے کو متنازع بنا دے گا اور مصنوعی ذہانت اس کی سالمیت کے لیے خطرہ ہوگی۔
ان کے خیال میں محض آئیڈیاز تخلیق کرنے کے لیے اس کا استعمال تو مددگار ہو سکتا ہے لیکن کلی طور پر اس پر منحصر ہونا غلط ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ درسگاہوں میں ایمانداری اور میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے ان ٹولز کو ریگولرائز کیا جائے۔
اگرچہ سویلین معاملات میں تو اے آئی کا استعمال بہت حد تک ہے، یہ عسکری شعبے میں بھی بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے ایک اہلکار کے مطابق اے آئی ملٹری سوفٹ وئیرز کو تیار کرنے میں بہت مدد کر سکتی ہے۔
ان کے مطابق اس سے قبل ڈویلپرز اور کوڈرز کو اس کے لیے قائل کرنا کافی مشکل ہوتا تھا۔ فیصلہ سازی، تدابیر اختیار کرنے، دفاعی حکمت عملی بنانے اور مختلف سینسرز سے حاصل شدہ ڈیٹا کا تجزیہ کرنے میں اے آئی مددگار ہو سکتی ہے۔ اسے ابھرتی ہوئی عسکری ٹیکنالوجیز جیسے کہ ڈرون، میزائل، جیٹ، ٹینک وغیرہ میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مہلک خود کار ہتھیاروں کے نظام میں جنریٹیو اے آئی کا استعمال سب سے زیادہ خطرناک ہوگا کیونکہ یہ ہتھیار ایک بار فعال ہونے کے بعد خودکار طور پر لوگوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
اس سے احتساب، ذمہ داری اور شفافیت کے بارے میں خوف پیدا ہوتا ہے کہ کون ذمہ دار ہو گا اور کس کا احتساب ہو گا۔ اس لیے اس کو ریگولیٹ کرنا بہت ضروری ہو جاتا ہے، کیونکہ وقت کے ساتھ اے آئی زیادہ ذہین ہو سکتی ہے اور انسانوں کو نظرانداز کرتے ہوئے آزادانہ اقدامات کر سکتی ہے۔
اگرچہ اٹلی نے چیٹ جی پی ٹی پر پابندی لگا ئی تھی جو کہ اب ہٹا لی ہے، لیکن بہت سے ممالک جنریٹو اے آئی کو ریگولیٹ کرنے والے قوانین متعارف کرانے سے گریزاں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح کے قوانین انہیں ٹیکنالوجی کی دوڑ میں پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔ تیز رفتار ترقی کے دور میں، ٹیکنالوجی پر پابندی لگانے کی بات چیت غیر متعلقہ اور غیر منطقی ہے اور تکنیکی طور پر ترقی یافتہ ریاستوں کے مفاد میں نہیں ہے۔
لہذا، پابندی کے بجائے ضوابط اور قوانین پر زور دینا ضروری ہے، جیسا کہ اوپن اے آئی کے سی ای او اور سیلیکون ویلی کے دوسرے ممبران نے کیا ہے۔ سینڈفورڈ یونیورسٹی کے 2023ء کے انڈیکس کے مطابق، عالمی سطح پر تقریباً 37 بل قانون کی شکل میں پاس کیے گئے، لیکن یہ قوانین قومی سطح پر مصنوعی ذہانت کے محدود پہلوؤں کو ریگولیٹ کرتے ہیں۔
عالمی سطح پر اے آئی میں مقابلہ بڑھ رہا ہے اور اس کو ریگولرائز کرنے والی آوازیں پست ہو رہی ہیں یا بہت کم ہیں جس کا مستقبل میں نا قابل تلافی نقصان اٹھانا پڑھ سکتا ہے۔ باقاعدہ قوانین اور ریگولیشنز ہی اس بات کو یقینی بنا سکتی ہیں کہ اے آئی کا استعمال مثبت اور انسانیت کے لیے فائدہ مند ہو، ناں کہ ایٹم بم کی طرح تباہ کن۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
188,027 | Tell me something interesting you know in Urdu | کیا آپ جانتے ہیں:
• …کہ دنیا کا سب سے لمبا پہاڑی سلسلہ کوہ انڈیز ہے جو جنوبی امریکہ میں واقع ہے۔
• …کہ ایڈا لولیس کو دنیا کی سب سے پہلی کمپیوٹر پروگرامر کے طور پر جانا جاتا ہے۔
• …کہ دنیا کا بدترین زلزلہ 1556ء کو چین میں آیا جس کے نتیجے میں 8 لاکھ 30 ہزار افراد ہلاک ہو ئے۔
• …کہ آرمینیا 301 عیسوی میں عیسائیت کو مذہب کے طور پر قبول کرنے والا پہلا ملک تھا۔
• …کہ اسنوکر کی ابتدا 1875ء میں ہندوستان سے شروع ہوئی۔
• … کہ فرڈیننڈ میگلان نے پہلی بار کرہ ارض کا بحری چکر مکمل کرنے کی کوشش کی، مگر وہ فلپائن کے قریب مر گیا تو اس کے جہاز پر موجود ایک دوسرے مہم جو خوان سباسٹین ایلکانو نے اس بیڑے کی قیادت کی اور اس طرح وہ پہلا شخص بن گیا جس کی سرکردگی میں انسان نے زمین کے گرد پہلا بحری سفر مکمل کیا۔
• … کہ ارشمیدس کی ایجاد کردہ توپیں اس قدر مضبوط تھیں کہ سیراکیوز کامحاصرہ کرنے والے جنرل کلاڈیس کو شہر پر قبضہ کرنے میں پورے تین سال لگے۔ سیراکیوز پر قبضہ کرنے کے بعد کلاڈیس نے ارشمیدس کومعاف کرنے کا حکم جاری کیا۔ لیکن ایک سپاہی نے اُسے غلطی سے قتل کر دیا۔
• … کہ تاریخ کی سو انتہائی متاثر کن شخصیات نامی کتاب میں مائیکل ایچ ہارٹ نے عمر بن خطاب کو آج تک کی 100 متاثر کن شخصیات کی فہرست میں باون درجہ پر رکھا ہے۔
• …کہ سندھ میں واقع قلعہ رانی کوٹ دنیا کا سب سے بڑا قلعہ ہے اور اس کی لمبائی تقریباً 32 کلومیٹر (20 میل) ہے۔
• …کہ برطانوی پرچم 1707ء میں اسکاٹ لینڈ ، انگلینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے پرچم کو ملا کر بنایا گیا تھا۔
• …کہ صبیحہ گوکچن دنیا کی پہلی خاتون ہوا باز تھیں اور وہ ترکیہ کے پہلے صدر مصطفٰی کمال اتاترک کی سوتیلی بیٹی تھیں۔
• …کہ مراکش میں واقع مسجد حسن ثانی کا مینار دنیا کا سب سے بلند مینار ہے جس کی بلندی 210 میٹر(689 فٹ) ہے۔
• …کہ ترکیہ کا شہر استنبول دنیا کا واحد شہر ہے جو دو براعظموں میں واقع ہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
189,585 | کھجلہ بنانے کی ترکیب | آدھی پیالی گھی میں کارن فلاراور ایک کھانے کا چمچہ میدہ ڈال کر پھینٹ کر رکھ لیں میدے میں نمک ڈال کر سادے پانی سے نرم گوندھ لیں اور ململ کے گیلے کپڑے میں لپیٹ کر آدھے گھنٹے کیلئے رکھ دیں پھر گندھے ہوئے میدے کو لمبائی میں بیل لیں اور بناسپتی کے مکسچر کو اس پر پھیلا کر لگادیں4اسے ایک طرف سے باریک رول یاپائپ کی شکل میں لپیٹنا شروع کریں اور ٹائٹ رول کرتے ہوئے دوسرے سرے تک لے آئیں. اس رول کو پندرہ سے بیس منٹ کیلئے رکھ دیں. پھر چھری سے اس کے پیڑے کاٹ لیں7پیڑے کے کھلے ہوئے سرے کو اُٹھا کر نیچے کی طرف لے جائیں اور رول کرکے دبا کر بند کردیں تاکہ فرائی ہوتے ہوئے کھنے نہ پائے. ان پیڑوں کو بھی دس سے پندرہ منٹ رکھیں. پھر کڑاہی میں گھی کو درمیانی آنچ پر چار سے پانچ منٹ گرم کریں. پیڑوں کو ہلکے ہاتھ سے بیلیں کہ اس کے پرت زیادہ نہ دب جائیں اور اسے احتیاط سے اٹھا کر کڑاہی میں ڈال دیں11فرائی کرتے ہوئے گہرے چمچے سے گرم گھی کو اوپر سے ڈالتے جائیں تاکہ پرت کھل کر کھجلہ پھولنے لگے اور سنہرا ہونے پر نکال لیں | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
189,594 | باتھ روم میں برش رکھنے کے نقصانات کیا ہیں؟ | ہر گھر میں اٹیچ باتھ عام ہوگیا ہے جہاں ٹوتھ برش بھی رکھے ہوتے ہیں باتھ روم میں ٹوتھ برش رکھنا کتنا نقصان دہ ہے۔
ہمارے گھروں میں عموماً چھوٹے باتھ روم اور اٹیچ باتھ ہوتے ہیں اور اکثر میں ٹوائلٹ سیٹ کے ساتھ ہی واش بیسن لگے ہوتے ہیں جب ہم فلیش کرتے ہیں تو اس سے فیکل فاؤنٹین نامی جراثیم پھیلتا ہے جو ساڑھے چار سے چھ فٹ تک اڑ کر برش اور دیواروں پر پھیلتا ہے۔ یہ جراثیم کے چھوٹے ذرات ہوتے ہیں جو ڈھکن لگے برش تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔
صحت کے لیے ضروری ہے کہ برش کو باتھ روم بالخصوص جہاں ٹوائلٹ اور واش بیسن ساتھ لگے ہوں وہاں ہرگز نہ رکھیں بلکہ کمرے مٰں رکھیں کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں بظاہر ہم ٹوتھ برش کرکے دانت تو صاف کر رہے ہوتے ہیں لیکن منہ جو ہمارے جسم کا گیٹ وے ہے اس کے ذریعے کئی وائرل بیکٹریا اور فنگس اپنے جسم میں داخل کر رہے ہوتے ہیں جو کئی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔
ٹوتھ برش کو استعمال کے بعد درست طریقے سے کھڑا کرکے رکھا جائے تاکہ وہ جلد خشک ہوجائے کیونکہ گیلا پن جراثیم کے پنپنے کے لیے بہترین ماحول ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹوتھ برش استعمال کرنے سے پہلے گرم پانی سے دھو لیں یا پھر ہائیڈروجن پر آکسائیڈ اور پانی کے محلول سے صاف کرلیں اس کے علاوہ اینٹی بیکٹریل ماؤتھ واش کے محلول میں بھی کچھ دیر رکھنے سے ٹوتھ برش کے جراثیم مر جاتے ہیں۔
ہم نے خود اپنی زندگی کو مشکل بنا لیا ہے اگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل کریں۔ دانتوں کی صفائی پابندی کے ساتھ معمول بنا لیں تو تو ہم ایک صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔
صرف ٹوتھ برش ہی نہیں بلکہ باتھ روم میں لٹکائے گئے پہننے والے کپڑے اور تولیہ بھی انسان کو کئی بیماریوں میں مبتلا کرسکتے ہیں۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
190,012 | 25 ملین افراد کی اندراج کیوں اتنی بڑی بات ہے؟ جواب دیجیے! | بی ایس کیو بی کی براہ راست گھر سیٹلائٹ سروس 2010 میں 10 ملین گھروں میں دستیاب ہوگئی ، جو اس سنگ میل کو حاصل کرنے کے لئے یورپ کا پہلا پے ٹی وی پلیٹ فارم ہے۔ اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہ اس نے اپنا ہدف حاصل کرلیا ہے ، براڈکاسٹر نے کہا کہ برطانیہ میں 36٪ گھریلو افراد تک اس کی رسائی 25 ملین سے زیادہ افراد کے سامعین کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ ہدف پہلی بار اگست 2004 میں اعلان کیا گیا تھا، اس کے بعد سے اضافی 2.4m گاہکوں نے BSkyB کی براہ راست گھر کی خدمت کو سبسکرائب کیا تھا. میڈیا کے مبصرین نے بحث کی تھی کہ آیا یہ تعداد اس وقت تک پہنچائی جا سکتی ہے جب یورپ کے دیگر حصوں میں صارفین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
190,355 | لارج لینگویج ماڈلز کے بارے میں کچھ بتایں۔ | لارج لینگویج ماڈلز سے مراد وہ لینگویج ماڈلز ہیں جو اپنے سائز میں بہت بڑے ماڈلز ہوتے ہیں اور عموماً ان میں بلینز کے حساب سے پیرامیٹرز ہوتے ہیں۔ چند مشہور ماڈلز میں جی پی ٹی 3 جو اوپن آے آی کا ہے، پالم اور لمبڈا جو گوگل کے ہیں، للاما جو میٹا کا ہے۔ یہ ماڈلز بہت زیادہ طاقت کے حامل ہوتے ہیں اور لینگویج جینریشن کے لیے بہت طاقتور ہیں۔ یہ سوال جواب، ترجمہ، کوڈ لکھنے، وغیرہ جیسی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں۔ ان ماڈلز نے سرچینگ کو ایک نیا معنی دیا ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
190,483 | Tell me about some common measurements in Urdu Language. Make a table for it. | | English | Urdu | Roman Urdu |
|--------------|-------------|-------------|
| Centimeter | سینٹی میٹر | Senti meter |
| Foot | فٹ | Fut |
| Gallon | گیلن | Gailan |
| Gram | گرام | Garaam |
| Inch | انچ | Inch |
| Kilogram | کلو گرام | Kilo garaam |
| Kilometer | کلومیٹر | Kilo meter |
| Liter | لیٹر | Litar |
| Meter | میٹر | Meter |
| Mile | میل | Meel |
| Millimeter | ملی میٹر | Mili meter |
| Ounce | اونس | Aaons |
| Pint | پنٹ | Pint |
| Pound | پاؤنڈ | Paaond |
| Quart | کوارٹ | Kowart |
| Ton | ٹن | Tan |
| Yard | قدم | Qadam | | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
190,534 | کیلے کے فوائد کون کون سے ہیں؟ |
کیلے میں پوٹاشیم، وٹامن سی، وٹامن بی سکس، فائبر کی اچھی خاصی مقدار پائی جاتی ہے جبکہ اس میں کیلوریز بہت کم ہوتی ہیں جبکہ یہ اینٹی آکسیڈنٹ بھی ہوتے ہیں۔
اسی طرح یہ انہظام کے نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ دل کی صحت کے لیے مفید ہیں۔
وٹامن سی، وٹامن بی سکس اور پوٹاشیم بالوں اور جلد کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وٹامن سی جھریوں سے بچاتا ہے، اسی طرح وٹامن بی میلانن ذرات کو متحرک کرتا ہے جو بالوں اور جلد کی رنگت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پوٹاشیم جلد میں نمی برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے جبکہ یہی وہ چیز ہے جو بالوں کی نشوونما میں مدد دیتی ہے۔ اس سے بال ملائم ہو جاتے ہیں اور ٹوٹنے سے محفوظ رہتے ہیں۔
مجموعی طور پر کیلا صحت کے حوالے سے اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی ظاہری شخصیت کو بہتر بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
صحت بخش اجزا سے بھرپور
کیلے میں پوٹاشیم، وٹامن سی، وٹامن بی سکس اور فائبر کے ساتھ ساتھ میگنیشم بھی پایا جاتا ہے اور یہ تمام اجزا پورے جسم کی صحت کے لیے بہت اہم ہیں۔
دل کے لیے مفید
کیلے میں پوٹاشیم پایا جاتا ہے جس کو دل کی صحت بہتر رکھنے کے لیے اہم سجھاتا ہے اس کی بدولت بلڈ پریشر کنٹرول میں رہتا ہے اور دل کی کارکردگی بھی معمول پر رہتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کیلے کھانے سے دل کے امراض کے خطرات کم ہوتے ہیں اور دل کے دورے سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
نظام انہضام میں بہتری
کیلے میں موجود اعلٰی فائبر کی بدولت نظام انہضام صحت مند رہتا ہے۔ اس سے قبض کو روکنے میں مدد ملتی ہے جبکہ غذا ہضم ہونے کے حوالے دوسرے چھوٹے موٹے مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں اور گیس کی شکایت بھی نہیں رہتی۔
تناؤ میں کمی کا ذریعہ
چونکہ کیلے میں ٹریپٹوفان پایا جاتا ہے جسے جسم سیروٹوفن میں تبدیل کر دیتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جو انسان کے موڈ پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہے اور اس سے طبیعت میں خوشگواری محسوس ہوتی ہے اور تناؤ میں کمی آتی ہے۔ اس لیے ماہرین کہتے ہیں کہ جو لوگ کیلے کھاتے ہیں وہ خوشگوار موڈ میں رہتے ہیں۔
وزن کے معاملے میں بھی مددگا
میٹھا ہونے کے باوجود کیلا دوسرے پھلوں کے مقابلے میں اپنے اندر بہت کم کیلوریز رکھتا ہے اس لیے وزن کے معاملے میں بھی اس کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح اس میں چونکہ فائبر پایا جاتا ہے جس سے آپ کو زیادہ دیر تک بھوک کا احساس نہیں ہوتا اور انسانی غیرضروری اشیا کھانے سے بچا رہتا ہے۔
تھکاوٹ سے بچائے
کیلا جسم کو بھرپور توانائی دیتا ہے اس میں کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں۔ ورزش کرنے سے قبل کیلے کھانے سے نتائج میں بہتری آتی ہے اس طرح دن کے وقت کیلے کھانے سے تھکاوٹ کے خلاف مدافعت پیدا ہوتی ہے۔
ہڈیوں کی مضبوطی
کیلے میں جہاں اہم جزا موجود ہوتے ہیں وہیں میگنیشم اور پوٹاشیم بھی پایا جاتا ہے جو کہ ہڈیوں کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کیلوں کا باعدہ استعمال ہڈیوں کی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے اور اوسٹیوپورسس کو روکتا ہے۔
قوت مدافعت کے لیے مددگار
کیلے وٹامن سی سے بھرپور ہوتے ہیں جس کو قوت مدافعت میں اہم حیثیت حاصل ہے اور یہ قوت مدافعت ہی ہوتی ہے جو آپ کو بیماریوں سے لڑنے کی طاقت دیتی ہے۔
ماہرین ساتھ ہی مشورہ بھی دیتے ہیں کہ اگرچہ کیلا بہت سے فوائد رکھتا ہے تاہم یہ ضروری ہے اس کو توازن کے ساتھ استعمال کیا جائے اور اس کے ساتھ دوسرے پھلوں کا استعمال بھی کیا جائے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
191,036 | مختصر کہانی اور اخلاقی کہانی ”بیوہ اور اس کی چھوٹی لونڈیاں“ مکمل کہانی
| بیوہ اور اس کی چھوٹی لڑکیاں
ایک خوبصورت چھوٹے گھر میں، ایک بار ایک صاف ستھری بوڑھی بیوہ رہتی تھی جس نے سب سے صاف ٹوپیاں اور بہترین رومال پہنا تھا جو آپ نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے دھونے اور جھاڑنا اور بیکنگ اور سلائی کا بہت شوق تھا! ہر کوئی جو اسے جانتا تھا کہتا تھا کہ وہ سب سے زیادہ محنتی خاتون تھی جسے انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا اور پورے گاؤں کے لیے ایک مثال تھی۔
اس نیک عورت کے ساتھ دو چھوٹی بچیاں رہتی تھیں جنہیں وہ ہمیشہ اپنے جیسا صاف ستھرا بنانے کی کوشش کرتی تھی۔ اس نے انہیں روٹی گوندھنا، چاول اور کھانا پکانا سکھایا۔ اس نے انہیں اپنے چرخی پر باریک دھاگہ گھمانا بھی سکھایا۔ ہر صبح، جس لمحے صحن میں بڑے بھورے کاکریل نے اپنا پہلا کوا دیا، وہ بستر سے اٹھ کر اس کمرے میں چلی جاتی جہاں چھوٹی بچیاں سوتی تھیں اور انہیں ہلاتی رہیں یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائیں۔
"اٹھو! اٹھو!" وہ کہے گی. "کیا تمہیں باہر کاکریل کی آواز سنائی نہیں دے رہی؟ سورج ایک لمحے میں پہاڑی پر چمکے گا۔ اس گھر میں کسی کو بھی بستر پر نہیں رہنا چاہئے جب ایک بار کاکرل بانگ دے دے!
چھوٹی لڑکیوں کو ہمیشہ خوفناک نیند آتی تھی اور وہ اٹھنا نہیں چاہتی تھیں۔ لیکن ہلچل مچانے والی بوڑھی عورت ان کے اوپر کھڑی رہتی، یہاں تک کہ وہ بستر سے اٹھتے، جمائی لیتے اور آنکھیں جھپکتے۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر کے کام شروع کرتی، ان سے کہتی کہ وہ نہا دھو کر کپڑے پہنیں اور جتنی جلدی ہوسکے کچن میں اس کے پیچھے چلیں۔
اب چھوٹی لڑکیوں کو جو کام کرنا تھا ان میں سے ایک پولٹری کو کھانا کھلانا تھا – دوسروں کے درمیان بڑا بھورا کاکریل۔ وہ بجائے خود ایک لالچی پرندہ تھا اور ہمیشہ زمین پر پھینکے گئے بہت سے ٹکڑوں اور مکئی کو کھاتا تھا۔ بوڑھی عورت کھانا کھلانے کے لیے باورچی خانے کے دروازے پر کھڑی رہتی اور جتنا زیادہ کاکرل کھاتا، وہ اتنا ہی خوش ہوتا۔
"کیا وہ اچھا پرندہ نہیں ہے؟" وہ چھوٹی لڑکیوں سے کہتی۔ "یقین رکھو اور اسے کھانے کے بہترین ٹکڑے دو۔ اگر وہ بانگ نہیں دیتا تو ہم ہمیشہ زیادہ سوتے رہتے، کیونکہ صبح ہمیں جگانے والا کوئی نہیں ہوتا!
پھر چھوٹی لڑکیاں پلکوں کے نیچے ایک دوسرے کو دیکھتی اور پوٹ کرتی۔ کیونکہ وہ دونوں بھورے پرندے سے نفرت کرتے تھے جو طلوع آفتاب کے وقت سب کو جگانے کی کوشش کرتا تھا جب اسے آٹھ یا نو بجے تک سونا بہت اچھا لگتا تھا۔
آخر کار، ایک دن، جب کاکرل معمول سے پہلے بانگ دینے لگا، تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اسے مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ اس وقت تک انتظار کرتے رہے جب تک کہ ان کی ماں بازار نہیں جاتی؟ پھر انہوں نے بیچارے بھورے کوکرل کو پکڑا اور اس کی گردن مروڑ دی! اس کے بعد انہوں نے اسے باڑ کے دوسری طرف کے کھیت میں جتنی جلدی ہو سکا دفن کر دیا۔ پھر، جو کچھ انہوں نے کیا تھا اس سے خوفزدہ ہو کر، وہ دوپہر کا کھانا پکانے کے لیے کام کرنے لگے۔
عورت گھر آئی اور دیکھا کہ اس کا پیارا پرندہ غائب ہے۔ اس نے کوکرل کو ہر جگہ تلاش کیا جب کہ لڑکیوں نے بھی ڈرامہ کیا تاکہ ان کی ماں کو ان پر شک نہ ہو۔
خاتون کو کاکریل بہت یاد آیا۔ لیکن جب وہ بستر پر گئے، تاہم، لڑکیوں نے ایک دوسرے کو بتایا کہ وہ کتنی خوش ہیں کہ انہوں نے آخر کار اس خوفناک پرندے کو مار ڈالا۔
"اب" انہوں نے ایک دوسرے سے کہا، "ہمیں تھوڑا سا سکون ملے گا۔ جب تک ہم صبح سویرے اپنی ماں کو جگانے کے لیے بغیر بانگ کے سونا چاہتے ہیں تو کتنا پیارا ہوگا!
وہ اپنے تکیے میں لپکے اور سو گئے۔ لیکن آدھی رات کو ایسا لگتا تھا کہ بوڑھی عورت اپنی نائٹ ٹوپی میں ان کے پلنگ کے پاس آئی، ایک روشن موم بتی لیے!
'اٹھو! اٹھو!" اس نے ہلچل میں ان سب سے کہا۔ ہمارے پاس اب ہمیں جگانے کے لیے کوئی کاکریل نہیں ہے اور یہ کبھی بھی زیادہ سونے کے لیے نہیں کرے گا! ابھی سحر نہیں ٹوٹی؟میں جانتا ہوں! ابھی ٹوٹ جائے گا اور صحن میں بانگ کے بغیر ہمیں پتہ بھی نہیں چلے گا کہ وہ دن آ گیا ہے۔ اٹھو! اٹھو! جتنی جلدی ہو سکے کچن میں میرے ساتھ چلو!"
وہ چھوٹی لڑکیاں کتنی اداس اور مایوس تھیں! لیکن وہ ایسا کرنے کے پابند تھے جیسا کہ ان کی ماں نے انہیں بتایا تھا۔ چنانچہ وہ اٹھے اور موم بتی کی روشنی سے جھاڑنا اور دھونا اور گھومنا بند کر دیا، اس سے زیادہ نیند ان کی زندگی میں کبھی نہیں آئی تھی۔
اور چونکہ بوڑھی عورت کو اس کاکریل کا اتنا شوق تھا کہ وہ اس کی جگہ کسی اور کو خریدنا چاہتی ہے، اس لیے وہ آدھی رات کو چھوٹی لڑکیوں کو جگاتی رہی۔ وہ انہیں کام پر لانے پر اصرار کر رہی تھی کیونکہ آنے والے دن کی روشنی کا ایک بھی منٹ ضائع نہیں ہونا چاہیے۔
اوہ، وہ دو پلک جھپکتے، جمائی لینے والی چھوٹی لڑکیوں نے کیسے خواہش کی کہ کاش انہوں نے بڑے بھورے کاکریل کو کبھی نہ مارا ہو!
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
191,439 | علامہ اقبال کے کوی مشہور اشعار لکھیں۔ | علامہ اقبال ایک معروف شاعر، مصنف، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ انکی چند مشہور اشعار یہ ہیں:
1۔ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
2۔ ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
3۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
191,718 | "کس طرح اپنے سوشل میڈیا کے لئے مفت مواد تخلیق کریں" ویڈیو کے لئے ممکنہ نتائج کیا ہوسکتی ہیں |
1. **مفہوم کی وضاحت**: یہ سیشن آپ کو مفہوم کی وضاحت فراہم کرتا ہے کہ کس طرح آپ مفت مواد کو تخلیق کرنے کے مختلف طریقے استعمال کر سکتے ہیں۔
2. **ترتیب و تنظیم کا اہمیت**: آپ کو یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ مواد کو کس طرح منظم اور دلچسپی سے پیش کیا جا سکتا ہے تاکہ دیگر لوگ اسے دیکھ کر متاثر ہوں۔
3. **تشہیر اور مواد کی تبلیغ**: آپ کو یہ سیشن سوشل میڈیا پر مواد کو کس طرح شیئر کر کے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں، اور مخاطبین کی توجہ حاصل کرنے کے طریقوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
191,766 | میتھی صحت کے لیے کتنی مفید ہے؟ | قصوری میتھی کا استعمال تقریباً ہر میں عام ہے، اکثر گھروں میں مختلف قسم کے کھانوں میں اسے استعمال ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہوگا، مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر آپ قصوری میتھی کے فوائد جان جائیں تو اسے سونے کے دام بھی خریدنے پر تیار ہو جائیں گے۔
صوری میتھی میں فائبر کی اتنی مقدار موجود ہے جس کی ہمارے جسم کو لازمی ضرورت ہوتی ہے ، یہ جسم کے لئے فیول کا کام کرتی ہے، نظام ہاضمہ کو بہتر بنا کر جسم کے سارے مسائل کو کنٹرول کرلیتی ہے۔
میتھی کے پتوں سے شوگر اور بلڈ پریشر پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے میتھی کے پتے ٹائپ 1 اور ٹائپ 2 ذیابیطس دونوں میں بہت فائدہ مند ہیں میتھی جسم میں انسولین کی مقدار بڑھاتی ہے جو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بہت ضروری ہے۔
میتھی کے پتوں میں فائبر کے ساتھ اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات بھی ہوتی ہیں جو ہاضمہ کو بہتر کرتی ہیں جن لوگوں کو پیٹ کے مسائل درپیش ہوتے ہیں وہ اپنی خوراک میں میتھی کا ساگ ضرور شامل کریں۔
اس کے علاوہ ایک مٹھی میتھی کے پتے اور ایک مٹھی پودینہ لے کر ایک گلاس پانی کے ساتھ بلینڈ کرلیں اور دن میں ایک گلاس کھانے سے پہلے پی لیں۔ اس سے امراض قلب اور بلڈ پریشر کے مریضوں کو بہت فائدہ ہوگا۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
191,848 | کیا کینیا میں شجرکاری کے لیے عام تعطیل کا اعلان ہوتا ہے؟ | کینیا کی حکومت نے 2032 تک 15 ارب درخت لگانے کے منصوبے کے تحت ملک بھر میں شجرکاری کے دن کے عام تعطیل کا اعلان کیا ہے۔
وزیر داخلہ کیتھورے کنڈیکی نے یہ اعلان صدر ولیم روٹو کی زیر صدارت کابینہ کے اجلاس کے بعد کیا۔
انہوں نے کہا، ’حکومت نے پیر 13 نومبر 2023 کو خصوصی تعطیل کا اعلان کیا ہے جس کے دوران ملک بھر کے عوام سے توقع کی جائے گی کہ وہ ہمارے ملک کو موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے بچانے کی قومی کوششوں میں حب الوطنی کے طور پر پودے لگائیں گے۔‘
کینیا میں جنگلات کا موجودہ رقبہ اس وقت تقریباً سات فیصد ہے لیکن حکومت نے رواں مالی سال آٹھ کروڑ ڈالر سے زیادہ مختص کیے ہیں کیونکہ وہ ملک کے 10 فیصد سے زیادہ حصے پر درخت لگانا چاہتی ہے۔
درخت کاربن ذخیرہ کرتے ہیں، جو گلوبل وارمنگ کے اہم محرکات میں سے ایک ہے۔ اس کے برعکس، جنگلات کی کٹائی آب و ہوا کے بحران میں اضافہ تیز کرتی ہے: یہ پودوں کی فوٹو سینتھیسس کو روک دیتی ہے۔
آب و ہوا کی تبدیلی کینیا سمیت ہارن آف افریقہ میں خشک سالی کو بدتر بنا رہی ہے، جہاں مسلسل پانچ موسموں سے بارشیں نہیں ہوئیں۔
کینیا کی وزارت ماحولیات، آب و ہوا کی تبدیلی اور جنگلات نے کہا ہے کہ وہ درختوں کی پنیری فراہم کرے گی جو اس کے بقول، ’حکومت کی جانب سے آب و ہوا سے متعلق اقدامات کی ذمہ داریوں کے عزم کا ایک بے مثال مظاہرہ ہے۔‘
کینیا کے وزیر ماحولیات سویپن ٹویا نے کہا، ’یہ کینیا کے لوگوں کے لیے اپنے ماحول کے دفاع میں یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہونے کا لمحہ ہے، یہ ایک ’ہمنگ برڈ‘ شراکت کا دن ہے، ہم سب موسمیاتی تبدیلی کے بحران سے لڑنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔‘
ستمبر 2022 میں صدارت سنبھالنے کے بعد سے مسٹر روٹو نے قومی لینڈ سکیپ اور ماحولیاتی نظام کی بحالی کے پروگرام کو ترجیح دی ہے۔
ان کے منصوبوں کو شاہ چارلس سوم کی جانب سے سراہا گیا ہے، جو گذشتہ سال تخت نشین ہونے کے بعد کسی افریقی ملک کے اپنے پہلے دورے پر کینیا میں تھے۔
شاہ چارلس نے ایک سرکاری ضیافت کے موقع پر کہا تھا، ’اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ درخت لگانے کے بعد، میں نے سوچا کہ میں بہت اچھا کام کر رہا ہوں، لیکن 15 ارب درخت لگانے کے لیے آپ کے عزائم نے مجھے آپ کی کوششوں کا معترف بنا دیا ہے۔‘
شاہ چارلس نے دارالحکومت نیروبی کے سٹیٹ ہاؤس اور کرورا فاریسٹ میں ایک درخت لگایا جو آنجہانی ماہر ماحولیات اور نوبل انعام یافتہ وانگاری متھائی سے وابستہ ہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
192,097 | "نسل تعصب یا نسل پرستی" پر مضمون مکمل مضمون اردو میں | Essay on “Race Prejudice or Apartheid” Complete Essay In Urdu
| نسلی تعصب یا نسل پرستی
سفید نسلوں پر غور کریں کہ وہ فطرت کے لحاظ سے دوسری نسلوں سے برتر ہیں اور صرف وہی ہیں۔ تہذیب کے معمار۔ بنی نوع انسان کے عظیم اساتذہ کی جلد سفید نہیں تھی۔ نسلی تعصب ہمیشہ سے موجود ہے لیکن اب یہ زیادہ خطرناک ہے۔ رہوڈیشیا (زمبابوے) اور جنوبی افریقہ میں سفید فاموں نے وحشیوں جیسا سلوک کیا۔ نسلی تعصب بہت نقصان کا باعث بنے گا جیسا کہ ماضی میں ہوا ہے۔ ہندوستان میں، مہاتما گاندھی کی بہترین کوششوں کے باوجود، نسلی منافرت عروج پر ہے۔، یہ خوش قسمتی ہے کہ پوری دنیا میں لوگ آواز اٹھا رہے ہیں۔ نسلی تعصب کے خلاف ان کی آواز۔ اسے دنیا کے تمام ممالک کی اجتماعی کوششوں سے دور کیا جا سکتا ہے۔
یہ عقیدہ کہ انسانیت فطرتاً، ایسوں اور ذیلی نسلوں میں بٹی ہوئی ہے۔ بعض نسلیں فطری طور پر نفسیاتی وقف میں دوسروں سے برتر ہیں، رنگین تعصب کے مفروضے کی بنیاد بنتی ہیں۔ نسلی برتری کو متعدد وجوہات سے منسوب کیا گیا ہے، لیکن کسی بھی صورت میں نسلی فرق کا مفروضہ اسے بنیادی مقامی اختلافات پر منحصر کرتے ہوئے، زیور نوعیت کا تصور کرتا ہے۔ ایک مخالف نظریہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ نفسیاتی خصوصیات میں ظاہری اختلافات حیاتیاتی نہیں ہیں بلکہ ثقافت اور سماجی ماحول کی وجہ سے ہیں۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ نسلی برتری کا عقیدہ بہت پرانا اور اچھی رات کا عالمگیر ہے: حالیہ برسوں میں، اس نے بہت سے نسلی گروہوں کے لیے ایسی زبردست حقیقت اور متعصبانہ اہمیت اختیار کر لی ہے کہ وہ اپنے دفاع میں مر جائیں گے۔ اس کے علاوہ،
سفید فام نسلوں کو برتر سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کے پاس اپنے نظریات کا احترام کرنے کی وجہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ تہذیب کے حقیقی معمار ہیں اور ان خیالات نے سفید فام آدمی کے بوجھ کے تصور کو جنم دیا ہے۔ یہ تصور بے شرمی کے ساتھ اعلان کرتا ہے کہ سفید فام تہذیب کو ایشیائی اور افریقیوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے قانونی رکاوٹوں کی ضرورت ہے۔ اصل گورے کا بوجھ رنگین یا کالے لوگوں پر گستاخی کے ساتھ غلبہ حاصل کرنا نہیں بلکہ منافقت سے باز آنا ہے۔ یہ سچ ہے کہ سفید فام آدمی کو ہر انسان کو اپنے برابر سمجھنا سیکھنا چاہیے۔
جلد کی سفیدی کے بارے میں کوئی راز نہیں ہے۔ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مساوی مواقع ملنے پر آدمی، چاہے وہ کسی بھی رنگ یا ملک کا ہو، دوسرے جیسا ہی اچھا ہے۔
بنی نوع انسان کے سب سے بڑے اساتذہ تمام ایشیائی تھے اور ان کی جلد سفید نہیں تھی۔ لیکن یہ افسوسناک ہے کہ زمبابوے اور جنوبی افریقہ میں گوروں نے وحشیوں جیسا سلوک کیا اور نیگروز، ہندوستانیوں اور دیگر ایشیائی باشندوں کو خوفناک یہودی بستیوں میں رہنے پر مجبور کرنے کے لیے قوانین بنائے۔ یہ امریکہ کے بارے میں بھی سچ ہے جو دنیا کی سب سے مہذب قوم ہونے کا اعلان کرتا ہے جہاں جنوبی علاقوں میں شہری حقوق کے بل کو اب بھی کاغذ کے ٹکڑے کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ زمبابوے نے اپریل 1980 میں سفید فام اقلیتی حکومت کے خلاف ایک تلخ جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی۔
عدم تشدد عقلمندوں کا خواب ہے جب کہ تشدد انسان کی تاریخ ہے۔ بیسویں صدی میں، انسانی نسلوں کے گروہوں کی طرف سے تشدد کیا جاتا رہا ہے جو سفید ہونے پر فخر کرتے ہیں، گویا محض رنگ ہی کسی نسل کی برتری کی علامت ہے۔ یہ انسانی معاشرے میں ایک بہت بڑا بدنما داغ ہے کیونکہ؛ انسان اور انسان کے درمیان امتیاز کی کوئی معقول بنیاد نہیں ہو سکتی۔
عالمی تاریخ کا مطالعہ ہمیں رنگوں کے تعصب کی مختلف وجوہات بتاتا ہے۔ یاد رہے کہ مختلف یورپی طاقتوں نے افریقہ میں اپنی کالونیاں قائم کیں۔ استعمار کی اس پالیسی کا نتیجہ نسلی امتیاز برائی ہے۔ پرتگالی فخر کرتے ہیں کہ پرتگالی املاک میں کوئی نسلی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ سراسر غلط ہے۔ پرتگالی کالونیاں سختی سے پولیس کے تحت ہیں۔ مقامی باشندوں کی زندگی مکمل طور پر کنٹرول میں ہے۔ پولیس کے پاس ہر اس شخص تک پہنچنے کا ایک طریقہ ہے جسے پاس لے جانا ہوتا ہے۔ اسے فرمانبردار ہونا چاہیے اور فساد سے بچنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتا ہے یا بغاوت کا رجحان ظاہر کرتا ہے تو اسے بے دردی سے سزا دی جاتی ہے اور یہاں تک کہ جلاوطن کر دیا جاتا ہے۔ زمبابوے اور جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کو بے رحمی سے رواج دیا گیا۔ معاشی، بڑے اجارہ دار کاروباری خدشات کا کنٹرول، جو کبھی افریقہ پر حکومت کرتا تھا، عملی طور پر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی. مقامی لوگ پیداواری زمینوں سے محروم تھے۔ انہیں ایسی شرائط پر انتہائی کم اجرت پر جبری مشقت کا نشانہ بنایا گیا جو غلامی کی یاد دلاتے ہیں۔
سائنسی طور پر ترقی یافتہ نسلیں سوچتی ہیں کہ انہیں پسماندہ ممالک کے لوگوں پر غلبہ حاصل کرنے، حکومت کرنے اور ان کا استحصال کرنے کا حق ہے۔ نسلی تعصب ظاہر کرتا ہے کہ انسان میں جانور اب بھی برقرار ہے۔ جانور خوشبو سے اپنے ریوڑ کے ارکان کو پہچانتے ہیں۔ یا نظر سے لیکن وہ ایک عجیب جانور کے قریب جانے پر شک کے ساتھ رد عمل کا اظہار کرتے ہیں یہاں تک کہ اگر ان کی اپنی نسل میں سے کسی کو معلوم ہو۔ انسانوں میں اب بھی حیوانی رویے کی بہت سی خصلتیں پائی جاتی ہیں۔
نسلی تعصب بے مثال انسانی مصائب کا باعث بنے گا جیسا کہ ماضی میں ہوا ہے۔ یہ نسلی تعصب کی وجہ سے تھا کہ ہٹلر کے ماتحت نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا۔ جرمنوں کا خیال تھا کہ وہ ایک اعلیٰ نسل ہیں۔ جب یہودیوں نے اپنی ریاست اسرائیل قائم کی تو ان کے خلاف جو تعصب اب بھی رائج ہے، اب عربوں کی طرف سے ہے۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان اس نسلی تعصب کا نتیجہ تین جنگوں کی صورت میں نکلا جب پہلی بار 1948 میں عربوں نے اسرائیل پر حملہ کیا لیکن انہیں شکست ہوئی، دوسری 1956 میں جب اسرائیل نے مصر پر حملہ کیا اور تیسری جون 1967 کے مغربی ایشیائی بحران میں۔
نیگرو کہلانے والی آبادی کے ایک بڑے حصے کے ساتھ ذیلی انسانوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، ان کے بچوں کو نام نہاد سفید فام اسکولوں، کالجوں، عوامی مقامات، ریستورانوں اور پارکوں میں داخلہ دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ تمام جمہوری ادارے شیطانی افسانے لگتے ہیں۔ جب حبشی اپنے انسانی حقوق کو جھانکتے ہیں تو انہیں نام نہاد اعلیٰ نسل کے پولیس والوں سے گولیاں لگتی ہیں۔ یہ سب سے ترقی یافتہ اور نام نہاد انتہائی مہذب ملک امریکہ میں تھا جہاں عظیم رہنما مارٹن لوتھر کنگ کو قتل کر دیا گیا تھا، یہ جدید تہذیب پر سب سے بڑا دھبہ تھا۔ اس انتہائی ترقی یافتہ ملک میں بھی تعاون اور رہائش کا جذبہ نہیں ہے۔ جنوبی افریقہ میں نسلی تعصب کی بدترین قسم رائج تھی۔ دنیا کے سرکردہ ممالک نے اس ملک کا معاشی بائیکاٹ کیا تاکہ اسے اپنی غلطیوں کا احساس ہو سکے۔ اس مسئلے نے دولت مشترکہ کے ممالک کی توجہ بہت قریب سے مبذول کرائی ہے۔ نیو گنی، موزمبیق اور اعلیٰ طاقتوں کی بہت سی دوسری جیبیں نسلی تعصب کی لپیٹ میں ہیں۔ یہاں تک کہ انگلینڈ میں نسلی تشدد کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔
یہاں تک کہ ہندوستان میں، جو کہ لارڈ بدھ، سنت رویداس اور مہاتما گاندھی کے طور پر نسلی ہم آہنگی کے علمبرداروں کا مادر وطن رہا ہے، نسلی تعصبات عروج پر ہیں۔ گاندھی جی کو ایک فرقہ پرست جنونی نے قتل کر دیا تھا۔ گاندھی جی نے اپنی ساری زندگی پسے ہوئے طبقات اور درج فہرست ذات کے لوگوں کی ترقی کے لیے جدوجہد کی۔ اس نے انہیں خدا کے لوگ - ہرجن کہا۔ لیکن آج بھی راسخ العقیدہ معاشرہ ان ہریجنوں کو جگہ نہیں دے سکا ہے۔ ان کے ساتھ اب بھی غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں معاشرے کے نام نہاد اعلیٰ طبقے سے دور رکھا جاتا ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر لوگ نسلی تعصب کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک نے نسل پرستانہ پالیسیوں کی مذمت کی ہے۔ اس کے خلاف مختلف قسم کی پابندیاں تجویز کی گئی ہیں۔ امریکہ میں لوگوں کے روشن خیال طبقے نے اپنے ہی ملک میں ریاستوں کے بونے کے نسلی تعصبات کی شدید مذمت کی ہے۔ یہ 15 دسمبر 1989 کو نیویارک میں پہلی برے کے لیے تھا، جب سے بھارت نے جنوبی افریقہ میں رنگ برداری کے خلاف آواز اٹھائی، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے نسلی علیحدگی پر قائم پریٹوریا حکومت کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے پر اتفاق کیا۔
ایک تاریخی ووٹنگ میں جنوبی افریقہ کی پارلیمنٹ نے 17 جون کو ووٹ دیا۔ 199.1 ریاستی قانون کے طور پر نسل پرستی کو ختم کرنا۔ جنوبی افریقہ کے صدر نے جلد کے رنگ کی بنیاد پر معاشرے میں تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کا عہد کیا ہے۔ اس تاریخی فیصلے کے بعد صدر نے اقوام متحدہ اور امریکہ سے جنوبی افریقہ کے خلاف پابندیاں ہٹانے کی اپیل کی۔
ساتویں ناوابستہ سربراہی اجلاس نے ایک قابل ذکر کامیابی حاصل کی۔ فلسطینی عوام کی اپنے وطن کے لیے جدوجہد کو تقویت دینے کے لیے ہندوستان کی سربراہی میں آٹھ رکنی کمیٹی قائم کی گئی۔ کانفرنس کو نمیبیا کی لومڑی کی آزادی کا نام دیا گیا۔ آٹھویں ناوابستہ سربراہی اجلاس ایک قدم آگے بڑھا۔ سمٹ نے دنیا بھر میں توجہ مبذول کروائی، خاص طور پر اس لیے کہ یہ ایک "فرنٹ لائن" افریقہ اسٹیٹ (زمبابوے) کے دارالحکومت (ہرارے) میں منعقد ہوئی، جو کہ سفید فام نسل پرست جنوبی افریقہ کی سرحدوں کے قریب ہے، سمٹ کے دوران نو رکنی "افریقہ" (Action for Resisting Invasion, Colonialism and Apartheid) فنڈ قائم کیا گیا۔ اس فنڈ کا مقصد جنوبی افریقہ میں فرنٹ لائن ریاستوں اور تحریک آزادی کی مدد کرنا تھا۔ اس فنڈ کے دیگر اہم کام سپلائی کو برقرار رکھنا، امدادی اقدامات کی منصوبہ بندی کرنا اور ہموار نقل و حمل کو یقینی بنانا تھا۔
نمیبیا کے باشندے بھی گوروں کی نسل پرستانہ حکومت سے لڑ رہے تھے اور ان کی آزادی کی جدوجہد جاری تھی۔ زیادہ تر یورپی اور مغربی ممالک نمیبیا میں تیزی سے کاروبار کر رہے تھے اور اقوام متحدہ کی عائد کردہ پابندیوں کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کی قدرتی دولت کا استحصال کر رہے تھے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1973 میں جنوب مغرب کہا۔ افریقی عوامی تنظیم (SWAPO) نمیبیا کے لوگوں کے حقیقی نمائندوں کے طور پر۔ تین سال بعد عالمی ادارے نے نامیبیا کو یہ اعزاز دیا۔ آزادی حاصل کرنے کا حق۔
NAM .کوآرڈینیٹنگ بیورو نے اپریل 1985 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت مناسب کارروائی شروع کرے۔ جنوبی افریقی اپنی سابقہ قراردادوں کی تعمیل کرتے ہیں۔ ستمبر 1986 میں جنرل اسمبلی نے ناوابستہ قرار داد منظور کی جس میں نمیبیا کی آزادی سے متعلق اپنی 1978 کی قرارداد پر فوری عمل درآمد کا مطالبہ کیا گیا۔
74 سال کی طویل جدوجہد کے بعد، نمیبیا نے بالآخر آزادی حاصل کی: 20-21 مارچ 1990 کی درمیانی رات کو جنوبی افریقیوں کی حکومت تھی۔ ہندوستان، نمیبیا کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والے پہلے ممالک میں شامل تھا۔
مسٹر نیلسن منڈیلا اور ان کی افریقن نیشنل کانگریس نے بھی نسل پرستی اور ظلم کے خلاف جدوجہد شروع کی۔ 27 سال تک جیل میں رہنے کے بعد مسٹر منڈیلا کو 11 فروری 1990 کو رہا کیا گیا۔ ان کی رہائی نے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ آئینی بات چیت دسمبر 1991 میں شروع ہوئی اور جنوبی افریقہ میں پہلے عام انتخابات 1994 میں ایمل میں ہوئے۔ ANC کو 62.25% ووٹ ملے: نیلسن منڈیلا نے 10 مئی کو (پہلے سیاہ فام) صدر کا حلف اٹھایا۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
192,339 | پاک فوج کا ڈھانچہ اور تنظیم کیا ہے؟ | پاکستان آرمی ایک اچھی طرح سے طے شدہ درجہ بندی کے ڈھانچے کے اندر کام کرتی ہے، جو اپنی متنوع صلاحیتوں کو موثر طریقے سے کمانڈ اور کنٹرول کرنے کے لیے منظم ہے۔ درجہ بندی کے سب سے اوپر چیف آف آرمی سٹاف (COAS) ہے، جو فوج میں اعلیٰ ترین فوجی افسر ہے۔ سی او اے ایس کو براہ راست رپورٹ کرنے والے مختلف پرنسپل اسٹاف آفیسرز ہیں، ہر ایک مخصوص کاموں جیسے آپریشنز، انٹیلی جنس، لاجسٹکس اور اہلکار کی نگرانی کرتا ہے۔
فوج کو کور اور ڈویژنوں میں منظم کیا گیا ہے، ہر ایک نامزد جغرافیائی علاقے کے لیے ذمہ دار ہے۔ کور آپریشنل اور انتظامی ہیڈکوارٹر کے طور پر کام کرتے ہیں، جبکہ ڈویژن فوجی کارروائیوں کے لیے ذمہ دار حکمت عملی کی تشکیل ہیں۔ فوج کی مختلف شاخیں، بشمول پیادہ، توپ خانہ، آرمر، ہوابازی اور انجینئرز، ایک جامع اور موثر دفاعی حکمت عملی کو یقینی بنانے کے لیے باہمی تعاون سے کام کرتے ہیں۔
فوج کے تنظیمی ڈھانچے کو اس کی مختلف اکائیوں اور فارمیشنوں کے درمیان واضح مواصلات، موثر فیصلہ سازی، اور ہموار ہم آہنگی کی سہولت فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، جس سے وہ سیکیورٹی چیلنجوں کی ایک حد کا مؤثر طریقے سے جواب دینے کے قابل بناتا ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
192,579 | صفائی کے کچھ ضروری سامان کیا ہیں جو ہر گھر کے مالک کے پاس ہونا چاہیے؟ | گھر کے مالکان کو مختلف کاموں سے نمٹنے کے لیے اپنے آپ کو صفائی کے متعدد ضروری سامان سے آراستہ کرنا چاہیے۔ تمام مقصدی کلینر ورسٹائل ہے اور اسے مختلف سطحوں پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جراثیم کش وائپس اونچی چھونے والی سطحوں کو صاف کرنے اور جراثیموں کو ختم کرنے کے لیے اہم ہیں۔ مائیکرو فائبر کپڑے دھول اور صاف کرنے کے لیے موثر ہیں، کیونکہ وہ ذرات اور بیکٹیریا کو پھنساتے ہیں۔ جھاڑو فرش کو صاف کرنے کے لیے ضروری ہے، جبکہ ایم او پی صاف اور جراثیم سے پاک سخت سطحوں کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ ایک ویکیوم کلینر قالینوں اور قالینوں کے لیے ضروری ہے، جو دھول اور ملبے کو مکمل طور پر ہٹانے کو یقینی بناتا ہے۔ آخر میں، کچرے کے تھیلے کچرے کو موثر طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لیے ضروری ہیں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
192,691 | write some sentences on LION | شیر جنگل کا بادشاہ کہلاتا ہے۔
یہ فیلیڈی خاندان کا رکن ہے۔
شیر کی چھاتی گہری ہوتی ہے۔
اس کے سر گول شکل کا ہوتا ہے۔
شیر کے کان گول ہوتے ہیں۔
شیر کی دُم کے آخر میں بالیں ہوتی ہیں۔
نر شیر کے گردن کے گرد بالیں ہوتی ہیں۔
شیر کا خوراک گوشت ہوتا ہے۔
یہ ایک سماجی جانور ہے۔
شیر کی طاقت، بہادری اور قوت کا پرچم ہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
192,770 | علمی اختلاف کا تصور کیا ہے، اور یہ فیصلہ سازی اور رویے کو کیسے متاثر کرتا ہے؟ | علمی اختلاف ایک نفسیاتی نظریہ ہے جو لیون فیسٹنگر نے تیار کیا ہے، جو متضاد عقائد، رویوں یا اقدار کے حامل افراد کو محسوس ہونے والی تکلیف کو بیان کرتا ہے۔ نظریہ یہ بتاتا ہے کہ لوگ مستقل مزاجی کو بحال کرنے کے لیے اپنے عقائد یا طرز عمل کو تبدیل کرکے اس اختلاف کو کم کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی صحت کی قدر کرتا ہے لیکن تمباکو نوشی جیسے غیر صحت بخش رویوں میں ملوث ہے، تو وہ علمی اختلاف کا تجربہ کر سکتا ہے۔ اس تکلیف کو دور کرنے کے لیے، وہ یا تو سگریٹ نوشی چھوڑ سکتے ہیں یا صحت کے خطرات کو کم کر سکتے ہیں۔
علمی اختلاف فیصلہ سازی اور رویے میں تبدیلی کے لیے گہرے مضمرات رکھتا ہے۔ اس رجحان کو سمجھنا ماہرین نفسیات اور مشیران کو متضاد عقائد پر تشریف لے جانے اور صحت مندانہ انتخاب کرنے میں افراد کی مدد کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ مارکیٹنگ میں، کاروبار صارفین کے موجودہ عقائد کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے کسی پروڈکٹ کے مثبت پہلوؤں پر زور دے کر، تکلیف کے امکانات کو کم کر کے اور خریداری کے امکانات کو بڑھا کر علمی اختلاف کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
193,095 | فکسڈ ایکسچینج ریٹ کے تحت BOP ایڈجسٹمنٹ کے فائدے اور نقصانات
| خوبیاں:
میں. ایک مقررہ شرح مبادلہ کے نظام کے تحت، سرمائے کی قیاس آرائی پر مبنی نقل و حرکت - اقتصادی بحرانوں اور عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ کو کم و بیش مسترد کر دیا جاتا ہے۔
ii شرح مبادلہ کی تبدیلی بین الاقوامی تجارت سے وابستہ غیر یقینی صورتحال کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ زر مبادلہ کی ایک مقررہ شرح غیر یقینی صورتحال کے اس ذریعہ کو ختم کرتی ہے۔
نقصانات:
میں. جن حالات میں گولڈ اسٹینڈرڈ کا خودکار ایڈجسٹمنٹ میکانزم کام کرتا ہے ان کو پورا کرنا بہت مشکل ہے۔
خاص طور پر، تجارتی معیشتوں کے انتہائی مسابقتی ڈھانچے سے متعلق نظریاتی مفروضے، رقم کی مقدار کے نظریے کا مکمل اطلاق، حکام کی طرف سے عدم مداخلت، اور طلب اور رسد دونوں کی اعلیٰ قیمت کی لچک حقیقی زندگی کے حالات میں نہیں ملتی۔
ii ایڈجسٹمنٹ کا بنیادی زور گھریلو قیمتوں، آمدنی اور روزگار وغیرہ سے ہوتا ہے۔ شرح مبادلہ کے استحکام کو آمدنی اور ملازمت کے گھریلو استحکام پر ترجیح دی جاتی ہے۔
iii اپنی کمزور اقتصادی طاقت کی وجہ سے، زیادہ تر ترقی پذیر ممالک کو مقررہ شرح مبادلہ کی پالیسی پر عمل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ وہ اکثر بین الاقوامی تجارت اور سرمائے کے بہاؤ میں اپنے محدود کردار کی وجہ سے اپنی معیشتوں کی تشکیل نو پر مجبور ہوتے ہیں۔
ان میں سے اکثر معاشی کمزوریوں کی دیگر اقسام کا بھی شکار ہیں جن میں مثال کے طور پر ادارہ جاتی سختی، غیر ملکی زرمبادلہ کے ناکافی ذخائر وغیرہ شامل ہیں۔
iv معاشی استحکام کو یقینی بنانے اور بیرونی ممالک میں پیدا ہونے والی رکاوٹوں سے معقول تحفظ کے لیے، مقررہ شرح مبادلہ کے نظام کے لیے حکام کی جانب سے اضافی اقدامات کی ضرورت ہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
193,504 | نیند خراب کرنے والی غذایں کون کون سی ہیں جن سے پرہیز کیا جاے: | کھانے کی کچھ ایسی اشیا ہوتی ہیں جو ہم شوق سے کھاتے ہیں اور انہیں فائدہ مند اور غذائیت بخش بھی سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر انہیں سونے سے قبل کھایا جائے تو ان سے صحت پر مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ہیلتھ لائن ویب سائٹ کے مطابق کئی غذائیں ایسی ہیں اگر انہیں دن میں کھایا جائے تو وہ ہمارے جسم کے لیے فائدہ مند ہوتی ہیں جبکہ رات میں خصوصاً سونے سے قبل انہیں کھایا جائے تو ان کا منفی رد عمل ہو سکتا ہے۔
سونے کے وقت کے قریب کچھ غذائیں کھانے سے ہمارے لیے سونے میں دشواری ہو سکتی ہے کیونکہ ان کی وجہ سے رات کو پیٹ میں جلن یا بدہضمی ہو سکتی ہے اور اس طرح ہم بے خوابی کا شکار ہو سکتے ہیں۔
عام طور پر ڈاکٹر اور ماہرین غذا مشورہ دیتے ہیں کہ رات کے کھانے کے دوران چربی والے کھانوں سے پرہیز کریں اور شام میں ہلکے کھانے پر اکتفا کریں، یعنی سونے سے تین سے چار گھنٹے قبل کھانا کھا لیں۔
کھانے کی وہ چیزیں جن سے سونے سے پہلے گریز کرنا چاہیے
1: جن میں پانی زیادہ مقدار میں ہوتا ہے
جن چیزوں میں پانی زیادہ مقدار میں ہوتا ہے جیسے اجوائن، تربوز اور کھیرے وغیرہ ان سے پرہیز کی کوشش کریں۔ ان کو کھا کر سونے کا مطلب ہے کہ آپ مثانے کو بھر کر سو رہے ہیں جو آپ کو نیند کے دوران جگائے گا اور یوں آپ بہتر نیند نہیں لے سکیں گے۔
2: مصالحے دار کھانے
سونے سے قبل مصالحے دار کھانے کھانا پیٹ میں جلن اور بدہضمی کا سبب بن سکتے ہیں۔ مصالحے دار کھانوں میں پایا جانے والا مرکب کیپساسن آپ کے جسم کا درجہ حرارت بڑھا سکتا ہے اور آپ کی نیند میں مداخلت کر سکتا ہے۔
3: کیلے
رات کو کیلے کھانے سے پرہیز کریں کیونکہ کیلے میں پوٹاشیم کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو ویسے تو جسم کے مدافعتی نظام اور جلد کی صحت کے لیے اچھا ہے لیکن رات کے کھانے میں یا رات کے کھانے کے بعد اسے کھانے سے بلغم اور بدہضمی ہو سکتی ہے۔
4: سیب
سیب میں پایا جانے والا ایک قسم کا ریشہ بلڈ شوگر اور کولیسٹرول کی سطح کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے لیکن رات کو اسے ہضم کرنا مشکل ہوتا ہے اور اس طرح دل کی تکلیف ہو سکتی ہے۔ ماہرین غذا رات کے کھانے میں بھی پھل کھانے سے پرہیز کرنے کی تجویز دیتے ہیں۔
5: بروکولی اور گوبھی
بروکولی اور گوبھی ایسی سبزیاں ہیں جو وٹامنز سے بھرپور ہوتی ہیں لیکن ان میں ریشے کی ایک بڑی مقدار بھی ہوتی ہے جو ہضم ہونے میں زیادہ وقت لیتی ہے۔ ان سبزیوں کو سونےسے پہلے کھانے کا مطلب ہے کہ آپ کے معدے کو انہیں ہضم کرنے کے لیے کام کرنا پڑے گا اور یہ آپ کو رات میں اچھی نیند سے روکیں گی۔
6: گری دار میوے
بادام، پستا اور اخروٹ جیسے گری دار میوے بلڈ پریشر کو برقرار رکھنے اور دل کی صحت کو بہترکرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ ان میں چربی اور کیلوریز زیادہ ہوتی ہے اس لیے اگر انہیں رات کے کھانے کے بعد کھایا جائے تو یہ وزن میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔
7: ڈارک چاکلیٹ
ڈارک چاکلیٹ میں اینٹی آکسڈینٹس زیادہ ہوتے ہیں۔ ڈارک چاکلیٹ عمر بڑھنے کی علامات کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ دل کی بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے کے لیے جانا جاتا ہے، لیکن اس میں کیفین اور امینو ایسڈ بھی ہوتا ہے جو چست بناتا ہے۔ سونے سے قبل ڈارک چاکلیٹ کھانے سے آپ پوری رات بیدار رہ سکتے ہیں۔
چند دن کھانے کی اشیاء کو سونے سے قبل خوراک کرنے کی مشورے سے بچنا بہتر ہوتا ہے:
8. **چائے اور کافیین**: چائے اور کافیین والی مشروبات جیسے کہ چائے، کافی، اور انرجائزر میں کافیین پایا جاتا ہے جو جگائی رہنے کا باعث بنتا ہے۔ ان کی مصرف کو سونے سے کم از کم چار سے پانچ گھنٹے قبل روکنا بہتر ہوتا ہے تاکہ آپ کی نیند پر کوئی برا اثر نہ پڑے۔
9. **میٹھائیں اور کھیر**: شیرنیوں کی مصرف کو سونے سے پہلے مخصوصاً روکنا چاہئے۔ میٹھائیں اور کھیر جیسی شیرنیاں پیٹ میں بھاری ہوتی ہیں اور رات کو ان کی خوراک سونے کی نیند کو متاثر کر سکتی ہے۔
10. **چھالیاں اور نمکین چیزیں**: سپائسی چھالیاں اور نمکین چیزوں کو سونے سے پہلے کھانا بھی نیند کو متاثر کر سکتا ہے۔ یہ معدے کو تناول کرنے میں مشکلیں پیدا کرتے ہیں جو نیند پر برا اثر ڈالتی ہیں۔
11. **پیٹ میں زیادہ کھانے سے بچیں**: رات کے کھانے کو سب سے آخری خوراک میں گچھکر کر لیں تاکہ آپ کی نیند اچھی ہو۔ زیادہ کھانا پیٹ میں بھاری پیٹی بناتا ہے، جس سے نیند کو متاثر کیا جا سکتا ہے۔
12. **تنقیدی شراب**: الکوہول سونے سے پہلے نہیں پینی چاہئے کیونکہ یہ نیند کی معیار کو خراب کر سکتی ہے اور رات کو بیدار رہنے کا باعث بنتی ہے۔
ان تجویزات کی پیروی کر کے آپ اچھی نیند حاصل کر سکتے ہیں اور صحت کے لحاظ سے بہتر محفوظ رہ سکتے ہیں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
193,614 | سارہ، ایما اور میا بہنیں ہیں۔ ان میں سے ایک ہمیشہ سچ بولتا ہے، ایک ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے، اور تیسرا کبھی سچ بولتا ہے اور کبھی جھوٹ۔ سارہ کہتی ہیں، "ایما سچی ہے۔" ایما کہتی ہے، "میا جھوٹا ہے۔" میا کہتی ہیں، "میں ایما ہوں۔" سچی بہن کون ہے؟ | ایما سچی بہن ہے۔ اگر سارہ سچی تھی، تو ایما بھی سچی ہوتی، ایک تضاد پیدا کرتی۔ اگر میا سچے ہوتے تو ایما کا بیان جھوٹا ہوتا۔ اس لیے ایما کو سچی بہن ہونا چاہیے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
193,748 | خشک میوہ جات کے فوائد بتائیں۔ | اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے قسم قسم کی نعمتیں اتاری ہیں جن میں ایک کشمش بھی ہے جس میں صحت کا پورا خزانہ چھپا ہوا ہے۔
انسان کے لیے اللہ تعالیٰ نے کرہ ارض پر بے شمار نعمتیں اتاری ہیں جن سے وہ مستفید ہوتا ہے۔ ان ہی میں ایک خشک میوہ جات میں شامل کشمش ہے جو دیکھنے تو بہت چھوٹا سا میوہ ہے لیکن اس میں صحت کا انمول خزانہ چھپا ہوا ہے۔
انگور کو خشک کرکے بنایا جانے والا یہ خشک میوہ ہر موسم میں انسان کو فائدہ پہنچاتا ہے جو دیگر میوہ جات کی نسبت کم قیمت اور ہر ایک کی دسترس میں ہے۔ ماہرین طب کہتے ہیں کہ روزانہ ایک کپ کشمش پانی میں بھگو کر پینے سے انسانی قوت مدافعت مضبوط اور کئی بیماریوں سے تحفظ ملتا ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق کشمش میں آئرن کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ یہ خشک میوہ وٹامن سی اور دیگر اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور امرت کا درجہ رکھتا ہے۔ فائبر اور پولی فینول کی بھی اچھی مقدار ہوتی ہے۔ کئی معدنیات اور پروٹین بھی پائے جاتے ہیں جس کے باعث اس کو صحت کا چھپا ہوا خزانہ بھی کہا جاتا ہے۔
اگر روزانہ ایک کپ کشمش کے پانی میں بھگو کر پی لیں تو قوت مدافعت مضبوط ہوتی ہے اور نزلہ و زکام جیسی بیماریاں دور ہوجاتی ہیں۔
ماہرین صحت کے مطابق کشمش کو رات کو پانی میں بھگو کر اگلی صبح خالی پیٹ کھانے سے حیرت انگیز فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس کا پانی بھی جسم کے لیے معجزانہ طور پر فائدہ مند ہے۔ جس سے نہ صرف قوت مدافعت بڑھتی ہے اور نزلہ زکام جیسی بیماریاں دور ہوتی ہیں بلکہ خون میں آئرن کی کمی دور ہوتی ہے اور اینیمیا (خون کی کمی) کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔
صبح نہار منہ کشمش کا پانی پینا جسم سے خراب چربی اور کولیسٹرول کو دور کرکے آپ کے دل کو فٹ اور زندگی کو چست رکھتا ہے۔
کشمش کا پانی معدنیات اور پروٹین کے باعث بالوں کے لیے بہترین ٹانک سمجھا جاتا ہے جس سے بال مضبوط ہوتے ہیں اور جھڑنا ختم ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خوبصورت اور چمکتی جلد کے لیے بھی کشمش اکسیر ہے کہ اس کا پانی پینے سے جلد کی خشکی دور، خارش اور داغ دھبوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔
صبح سویرے کشمش کا پانی پینے سے جسم کو امائنو ایسڈ ملتے ہیں۔ جس سے حمل کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ صحت مند حمل کے لیے بھی بہت فائدہ مند ہے۔ جب خواتین حاملہ ہوتی ہیں تو انہیں قبض اور ہاضمے کے مسائل ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں صبح سویرے کشمش کا پانی پینے سے نظام ہاضمہ درست رہتا ہے اور حاملہ خواتین کو خون کی کمی کے خطرے سے بچایا جا سکتا ہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
193,838 | سعودی عرب اربوں ڈالر خرچ کر کے فٹبال کی بڑی طاقت کیوں بننا چاہتا ہے؟
| الہلال کلب سعودی عرب کی اول درجے کی فٹبال ٹیم ہے جس نے 66 ٹرافیاں جیت رکھی ہیں۔ اس کلب نے چار بار اے ایف سی چیمپیئنز لیگ بھی جیتی ہے اور یہ ایشیا میں فٹبال کی سب سے کامیاب ٹیم سمجھی جاتی ہے۔
اتنی متاثر کُن تاریخ کے باوجود 19 اگست 2023 کے دن کلب کی تاریخ میں ایک نئے باب کی شروعات ہوئیں جب نیمار جونیئر 65 ہزار شائقین کے سامنے اس کلب میں شامل ہوئے۔
برازیلی فٹ بال کھلاڑی الہلال کلب کی روایتی نیلی رنگ کی کٹ پہنے گراؤنڈ میں اترے تو پہلے آتش بازی ہوئی جس کے بعد ایک ڈرون شو ہوا جس میں نیمار کا چہرہ ریاض کے آسمان پر نمایاں تھا۔
الہلال کلب کے چاہنے والے عبداللہ بھی اس تقریب میں موجود تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ہمارے لیے بہت خاص دن ہے۔ نیمار بہت بڑا سٹار ہے۔ وہ اپنے ساتھ بہت سے فین بھی الہلال لائے گا۔ میں سمجھتا ہوں اب پورا برازیل ہماری حمایت کرے گا اور کلب ہر جگہ جانا جائے گا۔‘
سعودی عرب کو بین الاقوامی فٹ بال کا مرکز بنانے کی کوششوں کا آغاز کرسچیانو رونالڈو کی سعودی کلب النصر میں شمولیت سے ہوا تھا۔ رونالڈو نے جنوری میں سعودی کلب سے ڈھائی سال کا معاہدہ کیا تھا جس کے تحت رونالڈو کو 400 ملین ڈالر سے زیادہ کا معاوضہ ملے گا۔
رونالڈو کی آمد نے سعودی عرب میں فٹ بال لیگ کو نہایت تیزی سے بدلا اور کھیل کی دنیا کے بڑے نام مختلف کلبز میں شامل ہونے لگے۔ جون میں کریم بنزیما ریال میڈرڈ سے جدہ کے ال اتحاد کلب آ گئے۔
ان کے علاوہ سادیو مین، ریاد ماہریز، جارڈن ہینڈرسن، این گولو کانٹے بھی یورپی لیگ چھوڑ کر سعودی پرو لیگ میں شامل ہو چکے ہیں۔
رواں سال سعودی پرو لیگ نے بین الاقوامی کھلاڑیوں کی ٹرانسفر فیسوں کی مد میں 850 ملین ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کی ہے جس میں وہ ماہانہ معاوضہ شامل نہیں جو ان کھلاڑیوں کو دیا جائے گا۔
لیگ کے چیف فنانشل افسر کارلو نوہرا کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں پیسہ صرف ایک بار کے لیے ہی نہیں لٹایا گیا۔ سعودی حکومت نے فٹ بال لیگ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ اس وقت تک مالی معاونت جاری رکھے گی جب تک منافع اور معیار کے اعتبار سے یہ دنیا کی سب سے اعلیٰ پائے کی لیگ نہیں بن جاتی۔
سعودی پرو لیگ انگلش پریمیئر لیگ اور لا لیگا سے مقابلہ کرنا چاہتی ہے۔
کارلو نوہرا کا کہنا ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول تک بین الاقوامی کھلاڑیوں کو سعودی عرب لانے کے لیے پیسہ خرچ کرتے رہیں گے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی مالیاتی قدر بہتر بنانے پر بھی کام کر رہے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ بات اہم ہے کہ ہم خود کو مالیاتی اعتبار سے منافع بخش بنائیں تاکہ ہم اپنی معاشی ترقی خود سے کر سکیں اور صرف حکومتی پیسے پر انحصار نہ کریں۔‘
’سافٹ پاور‘
دنیا میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک کھیلوں کی دنیا میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس میں سعودی پرو لیگ کا چہرہ بدلنے کے علاوہ فارمولا ون اور ایل آئی وی گولف شامل ہیں۔
چند ناقدین سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی وجہ سے اس عمل کو ’سپورٹس واشنگ‘ کا نام دے رہے ہیں تاکہ دنیا کی توجہ ہٹائی جا سکے۔
تاہم چند ماہرین کا ماننا ہے کہ شہرت ہی اس حکمت عملی کی واحد وجہ نہیں۔ سائمن چیڈوک پیرس کے سکیما بزنس سکول میں کھیل اور جیو پولیٹیکل اکانومی کے پروفیسر ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’دنیا بھر میں ملک کھیلوں اور تفریح کو ایک ایسی حکمت عملی کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس سے وہ اپنی سافٹ پاور کا اظہار کر سکیں۔‘
’یہ اسی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے جسے سعودی عرب استعمال کر رہا ہے۔ یہ قوموں کے درمیان عالمی سطح پر لوگوں کے دل اور دماغ جیتنے کا مقابلہ ہے۔ برطانیہ، امریکہ، فرانس، انڈیا اور بہت سے ممالک اس حکمت عملی کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ اور اب سعودی بھی یہی کر رہے ہیں۔‘
سعودی عرب کی اس حکمت عملی کے پیچھے دوسرا اہم مقصد اپنی معیشت کو تیل کی دولت ختم ہونے سے پہلے ازسرنو تشکیل دینا ہے۔ تیل سعودی عرب کی معیشت کا 40 فیصد حصہ فراہم کرتا ہے۔
سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان جس ’وژن 2030‘ کو پروان دے رہے ہیں اس میں کھیل ایک اہم ستون ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ معاشی طور پر تنوع کو فروغ دیا جائے اور تیل پر انحصار کو کم کرتے ہوئے نئے شعبہ جات کو ترقی دی جائے اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔
کارلو نوہرا کا کہنا ہے کہ ’ایک جانب ہمارا مقصد سعودی عوام کو تفریح فراہم کرنا ہے اور دوسری جانب ہم مقامی ٹیلنٹ تیار کرنا چاہتے ہیں تاکہ طول المدتی اعتبار سے پرو لیگ فروغ پا سکے۔‘
سعودی عرب میں فٹ بال مقبول کھیل ہے اور ملک کی 80 فیصد آبادی کسی نہ کسی شکل میں اس کھیل سے جڑی ہوئی ہے۔
تاہم کیا ملک کی حالیہ کثیر سرمایہ کاری فائدہ مند ثابت ہو گی یا نہیں، یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ حکمت عملی سعودی عرب کی اس خواہش کا اظہار کر رہی ہے کہ یہ فٹ بال کی دنیا کی ایک بڑی طاقت بننا چاہتا ہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
193,858 | شور کے مضر اثرات کیا ہیں؟ - جواب دیا! اردو میں | What Are The Adverse Effects Of Noise? – Answered! In Urdu
| شدید اثرات:
یہ اثرات دباؤ اور تعدد پر منحصر ہیں۔
بہت زیادہ سطحوں پر، مثلاً 150 dB، فوری طور پر سماعت کو مستقل نقصان پہنچا سکتا ہے۔
نچلی سطح پر 100+ dB، متلی، جسمانی کنٹرول میں کمی اور تناؤ کی وجہ سے جسمانی تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ یہ اثرات شور کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں، حالانکہ، بعض صورتوں میں، وقت کی تاخیر کے بعد۔
دائمی اثرات:
بنیادی دائمی اثر شور کی وجہ سے سماعت کے نقصان کا ہے۔ اس کے لیے، ایک قاعدہ ہے: 'ایک شخص، جو زیادہ شور کی سطح کا سامنا کرتا ہے، اس سے زیادہ تیزی سے بہرا ہو جاتا ہے جتنا کہ وہ نہیں کرتا'۔
یہ اثر دباؤ، تعدد، اور نمائش کے وقت پر منحصر ہے، جیسے جیسے دباؤ بڑھتا ہے، زیادہ تیزی سے ہوتا جاتا ہے، اور، عام طور پر، اعلی تعدد کے ساتھ زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ نقصان شروع ہوتا ہے، فریکوئنسی رینج میں، 4000 ہرٹز کے ارد گرد، ماخذ کی فریکوئنسی سے قطع نظر، نقصان کا سبب بنتا ہے، اور اس پر زور دار آوازیں آتی ہیں۔
سماعت کے نقصان کے دو اجزاء ہیں:
عارضی اور مستقل حد dBA اور نمائش کے سالوں میں کام پر مسلسل آواز کی سطح کے کام کے طور پر متوقع فیصد خطرے کو تبدیل کرتی ہے۔
دماغی صحت:
شور کی وجہ سے دماغی یا اعصابی بیماری کے شروع ہونے کے بہت کم مخصوص ثبوت موجود ہیں۔ کچھ عارضی اثرات ہیں جیسے کہ ارتکاز کی کمی اور، اعلیٰ سطح پر، ذہنی انتشار۔ موجودہ حالت کے بڑھنے کا ایک حقیقی خطرہ بھی ہے۔
مواصلات:
شور آواز کی بنیاد پر مواصلات میں مداخلت کرتا ہے جب مداخلت کرنے والے شور کی فریکوئنسی، تقریباً، مطلوبہ آواز کے ساتھ ملتی ہے۔
کام کرنے کی کارکردگی:
مسلسل بلند آواز کام کرنے کی کارکردگی میں مداخلت کرتی ہے اور غلطیوں کے واقعات میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔
صنعتی حادثات:
جہاں تک شور صوتی مواصلات میں مداخلت کرتا ہے، یہ انتباہی سگنلز کو چھپا سکتا ہے، اور، اس طرح، ایک ہی وقت میں، غلطیوں کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے جس سے حادثات کا امکان زیادہ ہو سکتا ہے۔
ذاتی راحت:
اثر دباؤ اور تعدد اور نمائش کے وقت پر منحصر ہے۔ اس سے نیچے کی سطح پر جو تیزی سے سماعت کو نقصان پہنچاتے ہیں، شور دخل اندازی کا باعث بن جاتا ہے، تقریری مواصلات اور تفریح کے پرامن لطف کے ساتھ۔
آخری تین اثرات بنیادی طور پر ایک پریشانی ہیں۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، انفرادی طور پر بہت مختلف ہوتا ہے اور مسلسل نمائش کے ساتھ قابل برداشت ہو جاتا ہے۔ مکمل اور متاثر کن خصوصیات اور وقفے وقفے سے انفرادی رد عمل میں تبدیلی آتی ہے۔
نیشنل انوائرمنٹ پالیسی ایکٹ 1969 کے مطابق، 1 جنوری 1970 سے، وفاقی ایجنسیاں شور کو ماحول کے معیار پر اثر سمجھتی ہیں۔ یہ ماحولیاتی اثرات کے بیانات کی شکل میں لاگو کیا گیا ہے جو انسانی ماحول کو نمایاں طور پر متاثر کرنے والے تمام وفاقی اقدامات پر درکار ہیں۔
اپریل 1972 میں، فیڈرل ہائی وے ایڈمنسٹریشن (FHWA) نے پالیسی اینڈ پروسیجر میمورنڈم (PPM) 00.5 جاری کیا جو زمین کے مختلف استعمال سے مطابقت رکھتا ہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
194,468 | کیا آپ فضیلت اخلاقیات کے ارسطو کے تصور کی وضاحت کر سکتے ہیں اور یہ کہ یہ دوسرے اخلاقی نظریات سے کیسے مختلف ہے؟ | ارسطو کی فضیلت اخلاقیات اخلاقی طور پر اچھی زندگی گزارنے کی کلید کے طور پر نیک کردار کی خصوصیات کی نشوونما پر زور دیتی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ہمت، حکمت اور انصاف جیسی خوبیاں مشق اور عادت کے ذریعے پیدا کی جانی چاہئیں۔ دیگر اخلاقی نظریات کے برعکس، جیسا کہ افادیت پسندی یا ڈیونٹولوجی، فضیلت کی اخلاقیات مخصوص اصولوں یا نتائج کی بجائے کسی فرد کے اخلاقی کردار پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
195,115 | "رویے کا عروج" پر مضمون اردو میں | Essay on the “Rise of Behaviorism” In Urdu
| طرز عمل 1912-14 میں ظاہر ہوا، کچھ 'پیش گوئی اور دلچسپ وجوہات' کی وجہ سے۔ نفسیات کے مطالعہ میں، موجودہ صدی کے آغاز تک معروضی طریقوں کو ترجیح دی گئی۔ لیکن انٹر اسپیکوونسٹوں نے معروضی طریقوں کی مذمت شروع کر دی تھی۔
نتیجتاً، نفسیات ایک مبہم پوزیشن میں نمودار ہوئی۔ اس طرح کی صورتحال رویوں کے عروج کا سبب بنی۔
لاڈ، ہال اور جیمز ایک طویل عرصے تک امریکی ماہرین نفسیات کے لیے ذہن کے کام کا مطالعہ فرد کے تجربات سے کہیں زیادہ اہم تھا۔ انہوں نے کبھی بھی نفسیات کو 'شعور کی سائنس' نہیں سمجھا۔
ذہنی زندگی کے نفسیاتی میکانزم میں لاڈ کے لیے خصوصی دلچسپی تھی، ہال نے دکھایا کہ کس طرح بچے اور دوڑ میں جسمانی میکانزم تیار ہوتے ہیں، اور جیمز اپنی نئی 'فنکشنل سائیکالوجی' کے ساتھ آگے آئے۔
'فنکشنل اور سٹرکچرل سائیکالوجی کے پیروکار ایک دوسرے سے متفق نہیں تھے۔ شعور کا تجزیہ ساختی نفسیات کا ڈومین تھا، جب کہ فنکشنل سائیکالوجی کا تعلق اس حصے سے ہے جو 'شعور' فرد کی زندگی میں ادا کرتا ہے۔
واٹسن نے غور کیا کہ فنکشنل اور سٹرکچرل سائیکالوجی کے پیروکار صرف آدھے راستے پر چلے گئے۔ اس کے نزدیک خود شناسی کرنے والے اپنا وقت اس چیز کا مشاہدہ کرنے میں ضائع کر رہے تھے جو موجود نہیں تھا۔ وہ اپنے آپ کو فطری مظاہر کے دائرہ سے باہر کے غیر مادّی سے سروکار رکھتے تھے۔
واٹسن نے 'شعور' کو نفسیاتی لحاظ سے نہیں پہچانا۔ اس کے نزدیک احساس، احساس اور تصویر شعوری تجربے کے عناصر نہیں تھے۔ یادداشت، تصاویر اور احساسات بھی کوئی حقیقت نہیں تھے۔
سابقہ ماہر نفسیات نے دماغ پر غیر ضروری توجہ دی، لیکن رویے کے ماہرین نے زور دیا کہ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے اسے باقی جسم سے الگ کر دیا اور اسے روح کا ایک اور متبادل بنا دیا۔ واٹسن کا خیال تھا کہ رویہ ظاہری طور پر یا واضح طور پر فطری یا غیر سیکھے ہوئے ردعمل پر مشتمل ہو سکتا ہے۔
اس طرح وہ ہمیشہ خارجی نہیں بلکہ اندرونی بھی تھا۔ اس کا خیال تھا کہ نفسیات کا کام فرد کی واضح اور مضمر عادات کی نشوونما کا سراغ لگانا ہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
195,322 | ذیابیطس سے بچاؤ کے لیے کیا احتیاط کریں؟ | ذیابیطس کو خاموش قاتل کہا جاتا ہے، پچیس فی صد افراد کو علم نہیں ہوتا کہ وہ اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں، پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد 3 لاکھ 3 کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے، ہر چوتھا پاکستانی نوجوان ذیابیطس کا شکار ہے۔
بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ جب ان میں ذیابیطس کی تشخیص ہوتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ پرہیز کے حوالے سے یہ صرف ریفائن شدہ سفید چینی کا معاملہ ہے، چناں چہ وہ چینی کم کر کے اس کا متبادل لینے لگتے ہیں جیسا کہ براؤن شوگر اورگڑھ وغیرہ، ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ نقصان دہ نہیں ہے۔
جن لوگوں کی فیملی ہسٹری ہے وہ تو ذیابیطس کے شدید خطرے سے دوچار ہیں ہی، لیکن شہروں میں ہمارا جو لائف اسٹائل بن گیا ہے، حتیٰ کہ گاؤں میں رہ کر بھی ہم لوگ اب واک نہیں کرتے، مرغن غذائیں کھاتے ہیں اور کاربوہائیڈریٹس کا استعمال زیادہ ہے، اس کی وجہ سے بھی مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
ماہر امراض ذیابیطس نے بتایا کہ گڑھ میں اگرچہ ریفائن شوگر نہیں ہے لیکن اس سے بھی خون میں گلائسیمک انڈس بڑھتا ہے، اس لیے خوراک کے سلسلے میں بے حد احتیاط لازمی ہے۔
شوگر سے بچاؤ اور کنٹرول کے حوالے سے آسان حل بتایا کہ سب سے پہلے لائف اسٹائل تبدیل کرنے پر توجہ دینی چاہیے، جیسا کہ ہفتے میں تین سے پانچ دن باقاعدگی سے واک کرنا، اتنی واک کریں کہ اس میں آپ کو پسینہ آ جائے، اس کے بعد کھانے میں کاربوہائیڈریٹ یعنی نشاستہ کا استعمال کم سے کم کر دیں۔
انھوں نے کہا اگر ہم عام زبان میں کہیں کہ ایک پلیٹ جو 9 انچ کی ہوتی ہے اسے ہم دو برابر حصوں میں تقسیم کریں، تو اس کا ایک حصہ سبز پتوں والی سبزیاں ہونی چاہیئں، باقی حصے کا آدھا پروٹین اور آدھا نشاستے والی خوراک پر مبنی ہونا چاہیے۔
یہ جاننے کے لیے کہ کیا آپ کو ذیابیطس کا خطرہ لاحق ہے یا نہیں، ماہر کنسلٹنٹ نے بتایا کہ اس کا ایک آسان طریقہ ہے، ریپڈ اسکور کہہ لیں، اس میں بغیر کسی ٹیسٹ کے آپ آسانی سے معلوم کر سکتے ہیں کہ آپ رسک پر ہیں یا نہیں۔ یہ پاکستانی آبادی کے لیے خصوصی طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس میں عمر، کمر اور فیملی ہسٹری شامل ہیں۔
اگر آپ کی عمر 40 سال سے کم ہے تو آپ کا اسکور زیرو ہو گیا، چالیس سے پچاس کے درمیان اسکور 1 ہوگا، پچاس سے زیادہ عمر پر اسکور 2 ہوگا۔ اگر کمر مردوں میں 35.5 انچ سے زیادہ ہے تو اسکور 1 ہوگا اور اس سے نیچے زیرو ہوگا، جب کہ خواتین میں 31.5 سے نیچے ہے تو اسکور زیرو، اور اس سے اوپر ہے تو اسکور 1 ہوگا۔ فیملی ہسٹری اگر مثبت ہے تو اسکور 1 ہوگا اور نہیں ہے اسکور زیرو ہوگا۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
195,681 | کیا آپ پشتونوں کے اپنے خطے میں بیرونی حملوں اور قبضوں کے خلاف مزاحمت میں کردار کے بارے میں بصیرت فراہم کر سکتے ہیں؟ | پشتونوں کی غیر ملکی حملوں اور قبضوں کے خلاف مزاحمت کرنے کی تاریخی تاریخ ہے۔ ان کی آزادی اور قبائلی اتحاد کا مضبوط احساس غیر ملکی طاقتوں کے خلاف مختلف تحریکوں میں ان کی فعال شرکت کا باعث بنا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ انگریزوں نے 19ویں صدی میں اینگلو افغان جنگوں کے دوران پشتون مزاحمت کا تجربہ کیا۔ ابھی حال ہی میں، پشتون غیر ملکی مداخلتوں، جیسے کہ سوویت حملے اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں سرگرم عمل رہے ہیں، جو خطے کی پیچیدہ جغرافیائی سیاسی تاریخ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
196,004 | Give Daily use English sentences with Urdu translation
روزانہ استعمال ہونے والے انگریزی جملے اردو ترجمے کے ساتھ دیں۔
| Here are some of the examples in English and there Urdu Translation
یہاں کچھ مثالیں انگریزی میں ہیں اور اردو ترجمہ.
تم یہاں کیسے آئے؟ What brings you here?
تم یہاں کیوں ہو؟ Why are you here?
میں آپ کا انتظار کر رہا تھا۔ I was expecting you.
آپ کیا کر رھے ھیں؟ What are you up to?
سب ٹھیک تو ہے نا؟ Is everything alright?
تم کہاں تھے؟ Where have you been?
زندگی کیسی گزررہی ہے؟ How is life?
کیا میں آپ کے لیے کچھ کر سکتا ہوں؟ Can I do something for you?
مجھے آپ کو یہاں دیکھ کر خوشی ہوئی ہے۔ I am glad to see you here.
تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ What is wrong with you?
Learn daily use English sentences with Urdu translation
میں سیدھا یہاں آیا ہوں۔ I came straight here.
میرے پاس بات کرنے کو بہت کچھ ہے۔ I have so much to talk about.
میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ I didn’t mean it.
اتنی جلدی کیوں؟ Why such a hurry?
کیا جلدی ہے؟ What’s the rush?
مجھے اتنی عقل تو ہے۔ I have this much sense.
اس میں کیا حرج ہے؟ What’s wrong with it?
دوبارہ کہنا۔ Say it again.
زیادہ چالاک نہ بنو۔ Don’t be over-smart.
کیا میں آپ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں؟ Can I ask you something?
کیا ہو رہا ہے؟ What is going on?
آپ سے بعد میں بات ہو گی۔ Talk to you later.
بہت خوب۔ اسے جاری رکھیں۔ Well done. Keep it up.
سب کچھ ٹھیک ہے۔ Everything is fine.
میں آپ کو بعد میں فون کروں گا۔ I will call you back.
آپ کا کیا مطلب ہے؟ What do you mean?
میں سمجھا نہیں۔ I did not understand.
آپ سے مل کر اچھا لگا۔ It was nice meeting you.
میں آپکے لیے کیا کرسکتا ہوں؟ What can I do for you?
میں وعدہ کرتا ہوں۔ I promise.
Learn daily use English sentences with Urdu translation
آپ سے مل کر اچھا لگا ۔ Nice to meet you.
مذاق کرنا بند کرو۔ Stop kidding.
یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ This is not a joke.
براہ کرم بیٹھ جائیں۔ Please be seated.
میں راستے میں ہوں۔ I’m on my way.
کیا آپ انگلش بولتے ہیں؟ Do you speak English?
کیا آپ اردو بولتے ہیں؟ Do you speak Urdu?
یہ میری خوشی ہے۔ It’s my pleasure.
امید ہے کہ جلد ہی آپ سے دوبارہ ملاقات ہوگی۔ Hope to see you again soon.
کیا آپ کو میری بات سمجھ آئی؟ Did you get my point?
Learn daily use English sentences with Urdu translation
میں اپنی پوری کوشش کروں گا۔ I will try my level best.
معاف کیجئیے گا۔ Excuse me.
میں آج تھکا ہوا محسوس کر رہا ہوں۔ I am feeling tired today.
یہ آپ کا کوئی کام نہیں ہے۔ It’s none of your business.
جلدی آو۔ Come quickly.
کیا ہو رہا ہے؟ What is going on?
جوتے پہن لو۔ Put on the shoes.
اپنی قمیض پہن لو۔ Put on your shirt.
اپنی بنیان پہن لو۔ Put on your vest.
کوڑا کرکٹ کچرے کے ڈبے میں ڈالیں۔ Put the garbage in the dust bin.
Learn daily use English sentences with Urdu translation
جلدی نہ کرو۔ Don’t hurry.
ایک طرف ہو جاؤ۔ Move aside.
کھڑے ہو جاؤ۔ Stand up.
یہاں بیٹھو۔ Sit here.
اسے جانے دو۔ Let him go.
طعنے دینے کی ضرورت نہیں۔ No need to taunt.
عقل کی بات کرو۔ Talk sense.
کیا حماقت ہے؟ What nonsense?
میرے ساتھ پنگا مت لو۔ Do not mess with me.
ہرگز نہیں! Absolutely not!
اپنے کام پر دھیان دو۔ Attend your work.
گھبراؤ نہیں. Don’t panic.
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ It doesn’t matter.
اس کی ناک سے خون بہہ رہا ہے۔ Her nose is bleeding.
آؤ، گپ شپ کرتے ہیں۔ Let’s have a chat.
مجھے نیند آرہی ہے۔ I’m feeling sleepy.
تم اتنے غصے میں کیوں ہو؟ Why are you so furious?
یہ کتنے کا ہے؟ How much is it?
معمولی باتوں پر جھگڑا نہ کرو۔ Don’t quarrel over trifle matters.
نہیں، ابھی تک نہیں۔ No, not yet.
مجھے تیار ہونے دو۔ Let me get ready.
مجھے گمراہ نہ کرو۔ Don’t mislead me.
قطار میں کھڑے ہو جاؤ۔ Stand in the queue.
میری ناک کل شام سے بہہ رہی ہے۔ My nose is running since last evening.
میرا بستر یہاں لگا دو۔ Make my bed over here.
تم کسی کام کے نہیں۔ You are of no use.
یہ کس کی کرتوت ہے؟ Whose act is this?
میں مزید انتظار نہیں کر سکتا۔ I can’t wait any longer.
میں اس پر یقین نہیں کرتا۔ I don’t believe it.
اللہ تم پر اپنا کرم کرے۔ May God bless you.
مجھے بیوقوف نہ بناؤ۔ Don’t fool me.
براۓ مہربانی خاموش رہیں۔ Please keep quiet.
یہ کافی عجیب ہے. It’s quite strange.
یہ سراسر بکواس ہے۔ That is utter nonsense.
تمہیں یہ کہنے کی ہمت کیسے ہوئی؟ How dare you say that?
کیا (عمدہ) خیال ہے؟ What an idea?
کیا آپ اسے دُہرا سکتے ہیں؟ Can you repeat that?
اس کا گلا سوجا ہوا ہے۔ His throat is swollen.
اس کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ He is not in good health.
کچھ گڑبڑ ہے۔ Something is fishy. | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
196,351 | لارج لینگویج ماڈلز کے بارے میں کچھ بتایں۔ | لارج لینگویج ماڈلز سے مراد وہ لینگویج ماڈلز ہیں جو سائز میں بڑے ماڈلز ہوتے ہیں اور عموماً ان میں اربوں کے حساب سے پیرامیٹرز ہوتے ہیں۔ چند مشہور ماڈلز میں جی پی ٹی 4 جو اوپن آے آی کا ہے، پالم اور لیمڈا جو گوگل اور للاما جو میٹا کا ہے۔ یہ ماڈلز بہت زیادہ طاقت کے حامل ہوتے ہیں اور لینگویج جینریشن کے لیے بہت طاقتور ہیں۔ یہ سوال جواب، ترجمہ، کوڈ لکھنے جیسی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں۔ ان ماڈلز نے سرچینگ کو ایک نیا معنی دے دیا ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
196,920 | کسی تنظیم کے وکندریقرت کے فائدے اور نقصانات اردو میں | Advantages and Disadvantages of Decentralisation of an Organisation In Urdu
| کسی تنظیم کے وکندریقرت کے فائدے اور نقصانات اردو میں | Advantages and Disadvantages of Decentralisation of an Organisation In Urdu - 300 الفاظ میں
وکندریقرت کے کچھ بڑے فوائد درج ذیل ہیں:
(1) یہ اعلیٰ منتظمین کے بوجھ کو کم کرتا ہے خاص طور پر جب ادارہ بڑا ہو یا پھیل رہا ہو۔ اس کے بعد اعلیٰ مینیجر مستقبل کے لیے منصوبہ بندی پر توجہ مرکوز کر سکتا ہے جبکہ خود مختار محکموں/سیکشنز کے بارے میں آپریٹنگ فیصلے کو مجاز مینیجرز کی سربراہی میں سونپ سکتے ہیں۔
(2) یہ ماتحتوں کو اعلیٰ کارکردگی کے لیے ترغیب دیتا ہے۔ یہ انتظامی کام کے مستقل اور مناسب وفد کے ذریعے ماتحتوں کی پہل، ذمہ داری اور حوصلے کو فروغ دیتا ہے۔
(3) یہ آزادی اور انہیں پیش کردہ چیلنجوں کی وجہ سے ملازمین کی شرکت اور جوش و خروش کو فروغ دیتا ہے۔
(4) یہ بہتر فیصلوں کی راہ ہموار کرتا ہے۔ چونکہ زیادہ تر فیصلے کارروائیوں میں براہ راست ملوث لوگ کرتے ہیں، اس لیے اس طرح کے فیصلے زیادہ حقیقت پسندانہ ہوتے ہیں۔
(5) یہ انتظامی ترقی میں سہولت فراہم کرتا ہے۔ یہ جنرل مینیجرز کی پوزیشن میں جانشینی کی سہولت فراہم کرتے ہوئے جنرلسٹس کی ترقی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ مرکزی ڈھانچے میں، محکمانہ مینیجرز (HODs یا نائب پرنسپل) اپنے انفرادی کام کے شعبے میں تنگ ماہر بن جاتے ہیں۔
(6) یہ نصاب (SSC/ISCE/CBSE)، فیکلٹی (آرٹس/سائنس/کامرس)، تعلیم کی سطح (جونیئر اور سینئر کالج، پرائمری اور سیکنڈری اسکول) وغیرہ کی بنیاد پر ادارے کے تنوع کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
(7) یہ خود ساختہ یونٹ/محکمہ/سیکشن کے اندر تمام سرگرمیوں کے بہتر ہم آہنگی کو محفوظ بناتا ہے۔
(8) یہ انتظام کے چھوٹے دور کی وجہ سے کنٹرول کی سہولت فراہم کرتا ہے جہاں کارکردگی کو ایک مخصوص معیار کے خلاف ماپا جا سکتا ہے۔
وکندریقرت کے چند نقصانات:
(I) یہ آپریشن کی لاگت کو بڑھاتا ہے کیونکہ ہر یونٹ کو بنیادی ڈھانچے کی سہولیات کے لحاظ سے خود کفیل ہونے کی ضرورت ہے۔
(2) پالیسی کنٹرول کا مسئلہ ہو سکتا ہے کہ ہر یونٹ کی اپنی پالیسی دوسرے یونٹوں سے مختلف ہو سکتی ہے۔
(3) اعلیٰ انتظامیہ زمینی حقائق سے الگ تھلگ ہو سکتی ہے۔
(4) اگر انفرادی اکائیوں کے سربراہوں کو بہت زیادہ عرض البلد دیا جائے تو ٹوٹ پھوٹ کا رجحان ہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
196,954 | شادی کے بارے میں ایک گانا لکھیں | جی ضرور، یہ رہا ایک گانا شادی کے بارے میں:
شادی کی بستیوں میں، رنگیں سجیں ہر طرف،
دلوں کی داستانیں، خوشیوں سے بھریں ہر جگہ۔
محبت کی نئی کہانی، نیک بندھنوں کی کہانی،
یہ رشتہ پیار کا، ہماری زندگی کی کہانی۔
شادی کی میثاق ہے پیار کی ایک نئی شروعات،
دو جسمانیں ایک دل کی دھڑکن کے ساتھ۔
ہم ایک ہوتے ہیں ایک دوسرے کی ساتھی،
شادی کی راہوں میں، خوشیوں کی چھاؤں برساتی۔
ملنے کی ایک خواہش، پوری ہوتی ہے آج،
رشتوں کی ایک نئی کہانی، بنتی ہے پیار کی بات۔
سجنے لگتی ہیں دل کی ڈوریاں، پل پل کے ساتھ،
دو جسمانیں، ایک دل کی دھڑکن کے ساتھ۔
شادی کی میثاق ہے پیار کی ایک نئی شروعات،
دو جسمانیں ایک دل کی دھڑکن کے ساتھ۔
ہم ایک ہوتے ہیں ایک دوسرے کی ساتھی،
شادی کی راہوں میں، خوشیوں کی چھاؤں برساتی۔
محبت کی پیروی، جیو پلوں کو خوشیوں کے ساتھ،
ہماری دل کی روشنی، ہر دن بڑھتی رہے برساتی۔
شادی کی میثاق ہے پیار کی ایک نئی شروعات،
دو جسمانیں ایک دل کی دھڑکن کے ساتھ۔
ہم ایک ہوتے ہیں ایک دوسرے کی ساتھی،
شادی کی راہوں میں، خوشیوں کی چھاؤں برساتی۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
197,692 | کیا موسمیاتی تبدیلیاں زریعہ معاش اور انسانی صحت پر شدید منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں؟ | موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے لئے کطرے کی گھنٹی ہے ۔ اس کے نقصانات کو کنترول کرنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے ۔ حکومت، عوام اور باوثوق افراد کو مل کر ان حالت کا سامنا کرنا پرے گا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ۔ عوام کو آگاہی دی جائے اور درخت لگائے جائیں اور ماحول کو آلودگی سے پاک رکھنے کے لئے پلاننگ کی جائے۔
کراچی اپنی پر رونق دلفریب شاموں اور سمندری ہواؤں کی وجہ سے مشہور ہے۔ شام کو کراچی والوں کا گھروں سے نکل کر سڑکوں پر رونق لگانا ہی کراچی کو روشنیوں کا شہر بناتا ہے ، اس جیسی شامیں اور تفریح آپکو شاید ہی ملک کے دوسرے شہروں میں مل سکے !!! کراچی کی شام کا با رونق منظر اب آہستہ آہستہ ماند ہوتاجا رہا ہے، حالات اب بدلتے جا رہے ہیں۔
ایک طرف کراچی والے قتل ڈکیتی اور لوٹ مار کی زد میں ہیں تو دوسری طرف اب گرمی کی لہر کراچی کامعمول بنتی جارہی ہے اور لگتا ہے ہر سال اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ اس شہر کو پوچھنے والا کوئی ہے ہی نہیں ۔۔شدید گرمی میں بھی کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ نے یہاں کی عوام کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ہر بندہ یہاں کسی نہ کسی ڈپریشن کا شکار ہے ۔۔۔۔مسائل تو یہاں بہت ہیں لیکن ہم یہاں اپنا موضوع موسمیاتی تبدیلی کو بنانا چاہیں گے کیونکہ یہ اب ہمارے لئے ایک الارمنگ صورتحال پیداکر رہی ہے۔
گلوبل وارمنگ پاکستانی عوام کی خوشحالی کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ ملک تیزی سے اپنی جغرافیائی آب و ہوا (گرم گرمیاں اور سرد سردیوں) کی تبدیلی کا شکار ہے اورمستقبل میں حالات مزید شدت اختیار کرنے کی پیشن گوئی ہے کے نتیجے میں قدرتی آفات کا اندیشہ ہے۔ پاکستان پہلے ہی بار بار آنے والی گرمی کی لہروں کی وجہ سے خشک سالی، سیلابوں، لینڈ سلائیڈنگ، اور طوفانی بارشوں کا سامنا کررہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلاں مستقبل میں ان واقعات کی شدت میں مزید اضافہ کی نشاندہی کر رہی ہیں ۔ ملک بھر کے درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ کی صورت میں شمال میں برف سے ڈھکے پہاڑوں سےبرفانی تودے تیزی سے پگھل رہے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دریائے سندھ کے بہاؤ میں واضح تبدیلی آ رہی ہے۔
موسم شدت اختیار کررہے ہیں تو بارشوں کے معمول میں بھی تبدیلیاں آ رہی ہیں، جیسے گرمی کی بارش اگست میں منتقل ہو رہی ہے اور موسم سرما کی بارش مارچ میں منتقل ہو رہی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ موسمیاتی تبدیلیاں ہماری ذندگیوں کو کس طرح متاثر کر رہی ہیں ؟
سخت موسم ہمارے زریعہ معاش اور انسانی صحت پر شدید منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں ۔ ہم سنتے آئے ہیں کہ پاکستان کی بنیادی آمدنی زراعت پر انحصار کرتی ہے۔حالانکہ اب دنیا میں جدید ٹیکنالوجی کو اپنایا جا رہا ہے اور زراعت کو بھی جدید طریقوں کے زریعے کم وقت میں مؤثر کام لے کر،بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان ابھی تک اپنے گھسے پٹے پرانے طریقوں میں پھنسا ہوا ہے جاگیردار اپنے علاقوں کو ماڈرن کرنا نہیں چاہتے کام ہاتھوں کے زریعے لیا جاتا ہے اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہماری فصلیں ضائع ہو جاتی ہیں ۔دنیا بھر میں ذیادہ سے ذیادہ صنعتیں لگ رہی ہیں لیکن ہمارے ملک میں یہ رفتار تھوڑی سست ہے۔
لوگ معاش کی تلاش میں شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے اب ایک تہائی سے زیادہ آبادی قصبوں اور شہروں میں مقیم ہے۔ پاکستان اپنی آب و ہوا کے حوالے سے حساس زمین رکھتا ہے ، ہم جانتے ہیں فصلوں کا بہت زیادہ انحصار صاف پانی پر ہوتا ہے۔
ہمارے یہاں زراعت اب بھی 42 فیصد آبادی کے لیے روزگار کا ایک اہم ذریعہ ہےاور تقریباً 90 فیصد زراعت کا انحصار گلیشیئر سے چلنے والے دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں سے ہونے والی آبپاشی نظام پر ہے۔ دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں نے گلیشیئر پگھلنے کی رفتار کو تیز کر دیا ہے، جس کی وجہ سے گلیشیر لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOF) اور نیچے کی طرف آنے والے سیلاب کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اب یہ بات توجہ طلب ہے کہ گلیشیر کا تیزی سے پگھلنا، زیادہ درجہ حرارت، بدلتے موسم اور بارش کی بے ترتیبی یہ سارے عوامل دریائے سندھ کے بہاؤ کو تبدیل کر رہے ہیں اور اس سے زراعت سے متعلقہ سرگرمیاں، خوراک کی پیداوار اور زریعہ معاش پر تیزی سے اثر پڑ رہا ہے ۔ ہم تیسری دنیا کے باشندے ہیں مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی ویسے ہی کمر توڑ رکھی ہے اور ظاہر ہےان حالات کا لوگوں کی صحت پر بہت زیادہ برا ا ثر پڑ رہا ہے۔
لوگوں کی صحت پر اثرات :
گرم ٹمپریچر کی وجہ سے تھکاوٹ، خشک سالی کی وجہ سے غذائیت کی کمی، وائرس سے پیدا ہونے والی بیماریاں جیسے ڈینگی بخار ، ملیریا، کونگو وائرس ،ٹائیفائیڈ، ہیزہ اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا بڑھنا لوگوں کے کام کرنے اور روزی کمانے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
گلوبل وارمنگ پاکستان کو کیسے متاثر کر رہی ہے؟
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے وسیع پیمانے پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں جیسے: زرعی پیداوار میں کمی، ساحلی کٹاؤ اور سمندری پانی کی دراندازی میں اضافہ جس کی وجہ سے زیر آب آنے والی بستیوں کے رہائشی نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں۔
گزشتہ کچھ سالوں سے جیکب آبادصوبہ سندھ پاکستان میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جو کہ انسانی برداشت کے لیے بہت زیادہ ہے۔ یہاں ٹمپریچر 52 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی اوپر تک چلا جاتا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں ان حالات سے نمٹنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ہیں اور عموما اس درجہ گرمی کا سامنا کرنا ترقی یافتہ ملکوں کے لئے بھی مشکل ہی ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ درجہ حرارت چند گھنٹوں سے زیادہ برقرار رہے تو اس کے نتیجے میں اعضاء کی خرابی یا موت بھی واقع ہو سکتی ہے ۔ جیکب آباد ، موہنجو دڑو ، لاڑکانہ اور تر بت اس حد کو عبور کر چکے ہیں۔ سندھ کا یہ خطہ خاص طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے خطرناک سمجھا جاتا ہےاور مستقبل قریب میں یہاں کا درجہ حرارت مزید بڑھنے کا امکان ہے۔
اس سال گزشتہ سال کی بنسبت مجموعی طور پرملک کے بیشتر حصوں میں معمول سے کم بارش ہوئی ہے جس کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان کے زیادہ تر قحط زدہ علاقوں کوشدید دشواریوں کا سامنا ہے ۔
خشک موسم فصلوں کے لیے پانی کی قلت کا بحران پیدا کر رہاہے۔ زیادہ اونچائی پر معمول سے زیادہ درجہ حرارت شمالی علاقوں میں برف پگھلنے کی شرح میں اضافے کا باعث بن رہا ہے جو دریا میں پانی کے دباؤ کو بڑھا رہاہے جس کے نتیجے میں فصلیں ذیر آب آنے کا خطرہ ہے۔
Climate Action Network- South Asia (CANSA) کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یہ توقع کی جارہی ہے کہ گلیشئرز پگھلنے کی وجہ سے سمندری سطح بلند ہونے کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے اثرات کی صورت میں لوگ اپنےذریعہ معاش سے محروم ہو جائیں گے اور مہاجرین کی ذندگی گذارنے پر مجبور ہوجائیں گے ملک پہلے ہی غربت کی خطرناک حد کو چھو رہا ہے۔ فصلوں کی پیداوار میں کمی، ماحولیاتی نظام کا نقصان، اور خشک سالی پاکستان میں 2030 تک 600,000 سے زیادہ لوگوں کو بے گھر کر دے گی۔ کسی اقدام کے بغیر، یہ تعداد 1,200,000 کے قریب ہونے کی توقع ہے۔
پاکستان کا ہر خطہ اپنے اپنے اندازسے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹ رہا ہے۔ بلوچستان میں کلین گرین پاکستان پروگرام کے طور پر خشک سالی کے بدترین اثرات کو روکنے کے لیے ڈیموں اور بڑے پیمانے پر درخت لگانے کی مہم پلان کی گئی ہے جو کہ ایک قابل ستائش عمل ہے ۔ (سندھ میں بھی ایسے کچھ منصوبوں کی اشد ضرورت ہے)۔ بلوچستان کے باشندوں کی اکثریت زراعت اور ماہی گیری پر انحصار کرتے ہیں ۔ خشک سالی اور دیہی علاقوں میں پانی کی شدید قلت کسانوں، ماہی گیروں اور پانی پر انحصار کرنے والے دیگر افراد کو شہروں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ یہ آب و ہوا کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہے۔
انسانی سرگرمیاں جیسے ایندھن کو جلانا، فیکٹریوں سے زیادہ دھوئیں کا اخراج اور جنگلات کی کٹائی نے زمین میں گرین ہاؤس گیسوں (GHGs) خاص طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ کے ارتکاز میں کافی زیادہ اضافہ کیا ہے جو ماحولیاتی آلودگی کا بنیادی سبب ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سر فہرست ہے ۔ کراچی میں بھی آلودگی اس سے ذیادہ ہی ہو لیکن سمندر ہونے کی وجہ سے آلودہ ہوا سمندر کی طرف چلی جاتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کم آلودہ ہوا میں سانس لے رہے ہیں۔
دنیا کی آب و ہوا پر گلوبل وارمنگ کے اثرات:
گلوبل وارمنگ اس صدی میں ہمارے سیارے کے لیے سب سے بڑے خطرے کے طور پر ابھری ہے۔ ماحولیا تی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری بیرونی فضا میں GHG کے بڑھنے کی وجہ سےگذشتہ 100 سال میں زمین کے درجہ حرارت میں 1.19 ڈگری سیلسیس کا اضافہ ہوا ہے۔ جس کے نتیجے میں زمین کو بدلتے موسم کے تباہ کن اثرات کا سامنا ہے جیسے سیلاب، قحط، قدرتی آفات ،خشک سالی ، سمندر کی سطح کا بڑھنا اور طوفان وغیرہ۔
پاکستان میں حالیہ موسمی آفات:
موسمیاتی تبدیلی کے خطرے کے انڈیکس (CCVI) میں پاکستان ایک سال میں 13 پوزیشنوں کو کراس کر کہ16 ویں نمبر پر ہے اور 1990-2010 میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ٹاپ 10 ملکوں میں ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی سے معیشت پر سالانہ 14 بلین ڈالر لاگت آ رہی ہے جو کہ جی ڈی پی کا تقریباً 5 فیصد ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق اب تک ایک کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی بے شک ایک چیلنج ہے لیکن ہر مسلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور موجود ہوتا ہے۔ تو آ ئیے دیکھتے ہیں کہ ہم اس سلسلے میں کیا کر سکتے ہیں؛
• عوام کو آگاہی دی جانی چاہئے کہ ماحولیاتی آلودگی کے کیا نقصانات ہیں اور اس کو حل کرنے کے لئے کیا کیا جانا چاہئے۔ پو دوں کے بجائے درخت لگائے جائیں ۔پودے کاٹنے پر سزا مختص کی جائے۔
• ترقی یافتہ ممالک میں پرائیویٹ گاڑی میں اکیلے آدمی کے سفر کو discourage کیا جاتاہے تاکہ پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کو بڑھاوا دیاجائے ۔ پارکنگ مہنگی کی گئی ہے اور بہترین زرائع نقل و حمل کا انتظام کیا گیا ہے۔ پیدل چلنے کے لئے بہتریں فٹ پاتھ بنائے گئےہیں ۔ یہ حکومت کی زمہ درای ہے کہ ٹریفک سے ہونے والی ہوا کی آلودگی کو کم کرنے کیلئے شہروں میں عوامی ٹرانسپورٹ کو بڑھا ئیں اور پیدل چلنے کے لئے فٹ پاتھ بنائیں۔
ہمارے یہاں پیدل چلنے کے لئے جگہ ہی نہیں چھوڑی گئی ہے، سڑکوں پر بھی لوگ گاڑیاں پارک کر دیتے ہیں ۔زیبرا کراسنگ تو بنانے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی۔سڑک کراس کرنا کسی جہاد سے کم نہیں لگتا۔
• پینے کےصاف پانی کی فراہمی کے منصوبے بنائے جا ئیں ۔ زرعی زمینوں میں کیمیائی دواؤں کی مقدار کو کم کر کہ بہتر زراعتی تدابیر کو اپنایا جائے۔ مختلف مہم چلائی جائیں کیونکہ حکومت، عوام، اور صنعت کے درمیان ہم آہنگی کو بڑھانا بہت اہم ہے تاکہ ماحولیاتی مسائل کا حل ممکن ہو۔
حالات بہت ہی تاریک مستقبل کی پیشن گوئی کر رہے ہیں ۔ بہتر ہے ہم حالات کو سنجیدگی سے سوچیں یہ لانگ مارچ اور سیاسی گہما گہمی سے ہمیں کیا حاصل ہے کیا کبھی کسی سیاسی لیڈر کی تقریر میں ان الارمنگ حالات سے آگا ہی دی گئی ہے؟ ۔۔۔ بالکل بھی نہیں ۔۔کوئی سیاسی پارٹی ایسی نہیں جو ان حالات سے نمٹنے کے لئے کو ئی پلان تیار کرے ۔ عوام کو اب سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی سیاسی پارٹیوں سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ پاکستان کی بہتری کے لئے کس لائحہ عمل کے ساتھ حکومت بنانا چاہتے ہیں ۔ووٹ اسی بنیاد پر ڈالے جائیں۔
عوام یہ کر سکتی ہے کہ ذیادہ سے ذیادہ درخت لگائیں ، ذمین کے وسائل کو ضائع نہ کریں ، ماحولیاتی آلود گی سے متعلق سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر زمہ داری کا مظاہرہ کریں اور اپنے ملک کے استحکام کے لئے آواذ اٹھا ئیں ۔ سر سبزوشادا ب پاکستان ۔۔۔۔۔ مستحکم و خوشحال پاکستان !!!!!!
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
197,858 | remove all citations [number] from this article
اُردُو[8] برصغیر کی معیاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ پاکستان کی قومی اور رابطہ عامہ کی زبان ہے، جبکہ بھارت کی چھ ریاستوں کی دفتری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ آئین ہند کے مطابق اسے 22 دفتری شناخت شدہ زبانوں میں شامل کیا جا چکا ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق اردو کو بطور مادری زبان بھارت میں 5.01% فیصد لوگ بولتے ہیں اور اس لحاظ سے ہی بھارت کی چھٹی بڑی زبان ہے جبکہ پاکستان میں اسے بطور مادری زبان 7.59% فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں، یہ پاکستان کی پانچویں بڑی زبان ہے۔ اردو تاریخی طور پر ہندوستان کی مسلم آبادی سے جڑی ہے۔ [9] زبانِ اردو کو پہچان و ترقی اس وقت ملی جب برطانوی دور میں انگریز حکمرانوں نے اسے فارسی کی بجائے انگریزی کے ساتھ شمالی ہندوستان کے علاقوں اور جموں و کشمیر میں اسے 1846ء اور پنجاب میں 1849ء میں بطور دفتری زبان نافذ کیا۔ اس کے علاوہ خلیجی، یورپی، ایشیائی اور امریکی علاقوں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو بنیادی طور پر جنوبی ایشیاء سے کوچ کرنے والے اہلِ اردو ہیں۔ 1999ء کے اعداد و شمار کے مطابق اردو زبان کے مجموعی متکلمین کی تعداد دس کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کی نویں بڑی زبان ہے۔ اردو زبان کو کئی ہندوستانی ریاستوں میں سرکاری حیثیت بھی حاصل ہے۔ [11] نیپال میں، اردو ایک رجسٹرڈ علاقائی بولی ہے [12] اور جنوبی افریقہ میں یہ آئین میں ایک محفوظ زبان ہے۔ یہ افغانستان اور بنگلہ دیش میں اقلیتی زبان کے طور پر بھی بولی جاتی ہے، جس کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے۔
1837ء میں، اردو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرکاری زبان بن گئی، کمپنی کے دور میں پورے شمالی ہندوستان میں فارسی کی جگہ لی گئی۔ فارسی اس وقت تک مختلف ہند-اسلامی سلطنتوں کی درباری زبان کے طور پر کام کرتی تھی۔ [13] یورپی نوآبادیاتی دور میں مذہبی، سماجی اور سیاسی عوامل پیدا ہوئے جنہوں نے اردو اور ہندی کے درمیان فرق کیا، جس کی وجہ سے ہندی-اردو تنازعہ شروع ہوا ۔
اردو 18ویں صدی میں ایک ادبی زبان بن گئی اور اسی طرح کی دو معیاری شکلیں دہلی اور لکھنؤ میں وجود میں آئیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد سے پاکستانی شہر کراچی میں ایک تیسرا معیار پیدا ہوا ہے۔ [14] [15] دکنی ، ایک پرانی شکل جو دکن میں استعمال ہوتی تھی، سولہویں صدی تک دکن سلاطین کی درباری زبان بن گئی۔ [16] [15]
اُردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔ اُردو اور ہندی میں بُنیادی فرق یہ ہے کہ اُردو نستعلیق رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور عربی و فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے۔ جبکہ ہندی زبان دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت الفاظ زیادہ استعمال کرتی ہے۔ کچھ ماہرینِ لسانیات اُردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندی، اُردو زبان سے نکلی ہے۔ اسی طرح اگر اردو اور ہندی زبان کو ایک سمجھا جائے تو یہ دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔ اردو زبان دنیا کی نئی زبانوں میں سے ہونے کے باوجود اپنے پاس معیاری اور وسیع ذخیرہ ادب رکھتی ہے۔ خاص کر جنوبی ایشیائی زبانوں میں اردو اپنی شاعری کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔
تسمیہ
اردو کا نام سب سے پہلے شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے 1780ء کے آس پاس ہندوستانی زبان کے لیے استعمال کیا تھا [17] حالانکہ اس نے خود بھی اپنی شاعری میں زبان کی تعریف کے لیے ہندوی اصطلاح استعمال کی تھی۔ [18] اردو کا مطلب ترک زبان میں فوج ہے۔ 18ویں صدی کے آخر میں، اسے زبانِ اُرْدُوئے مُعَلّٰی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کا مطلب بلند کیمپ کی زبان ہے ۔ [19] [20] [21] پہلے اسے ہندوی، ہندی اور ہندوستانی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ [17] [22]
اردو ہندی زبان کی طرح فارسی، عربی، ترک زبان کی ایک قسم ہے۔ [23] [24]یہ شوراسنی زبان (یہ زبان وسطی ہند آریائی زبان تھی جو موجودہ کئی زبانوں کی بنیاد سمجھی جاتی ہے، ان میں پنجابی زبان بھی شامل ہے) کی ذیلی قسم کے طور پر اپ بھرنش سے قرون وسطٰی (چھٹی سے تیرہویں صدی) کے درمیان میں وجود میں آئی۔[25] [26]
13ویں صدی سے 19ویں صدی کے آخر تک اردو زبان کو بیک وقت ہندی، [27] ہندوستانی اور ہندوی[28] کہا جاتا تھا۔
اگرچہ لفظ اردو بذات خود ترک زبان کے لفظ اوردو (لشکر، فوج) یا اوردا سے نکلا ہے، اسی سے انگریزی لفظ horde کا ظہور ہوا، تاہم ترک زبان سے اردو میں کم ہی الفاظ آئے ہیں۔ عرب اور ترک الفاظ اردو میں پہنچ کر فارسی قسم کے بن گئے ہیں، جیسے ة کو اکثر اوقات ہ میں بدل دیا جاتا ہے۔ مثلاً عربی تائے مربوطہ (ة) کو (ہ) یا (ت) میں بدل دیا جاتا ہے۔
بھلے ہی آج اردو کو ایک الگ زبان کی پہچان حاصل ہے لیکن عظیم اردو لیکھک اور کاتبین نے اُنیس وی صدی کی پہلی کچ دہائیوں تک اپنی زبان کو ہندی یا ہندوی کے شکل پر اعلان کرتے رہے ہے۔[29]
| Sure, here is the history of Urdu Language in Urdu:
اُردُو برصغیر کی معیاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ پاکستان کی قومی اور رابطہ عامہ کی زبان ہے، جبکہ بھارت کی چھ ریاستوں کی دفتری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ آئین ہند کے مطابق اسے 22 دفتری شناخت شدہ زبانوں میں شامل کیا جا چکا ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق اردو کو بطور مادری زبان بھارت میں 5.01% فیصد لوگ بولتے ہیں اور اس لحاظ سے ہی بھارت کی چھٹی بڑی زبان ہے جبکہ پاکستان میں اسے بطور مادری زبان 7.59% فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں، یہ پاکستان کی پانچویں بڑی زبان ہے۔ اردو تاریخی طور پر ہندوستان کی مسلم آبادی سے جڑی ہے۔ زبانِ اردو کو پہچان و ترقی اس وقت ملی جب برطانوی دور میں انگریز حکمرانوں نے اسے فارسی کی بجائے انگریزی کے ساتھ شمالی ہندوستان کے علاقوں اور جموں و کشمیر میں اسے 1846ء اور پنجاب میں 1849ء میں بطور دفتری زبان نافذ کیا۔ اس کے علاوہ خلیجی، یورپی، ایشیائی اور امریکی علاقوں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو بنیادی طور پر جنوبی ایشیاء سے کوچ کرنے والے اہلِ اردو ہیں۔ 1999ء کے اعداد و شمار کے مطابق اردو زبان کے مجموعی متکلمین کی تعداد دس کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کی نویں بڑی زبان ہے۔ اردو زبان کو کئی ہندوستانی ریاستوں میں سرکاری حیثیت بھی حاصل ہے۔ نیپال میں، اردو ایک رجسٹرڈ علاقائی بولی ہے اور جنوبی افریقہ میں یہ آئین میں ایک محفوظ زبان ہے۔ یہ افغانستان اور بنگلہ دیش میں اقلیتی زبان کے طور پر بھی بولی جاتی ہے، جس کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے۔
1837ء میں، اردو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرکاری زبان بن گئی، کمپنی کے دور میں پورے شمالی ہندوستان میں فارسی کی جگہ لی گئی۔ فارسی اس وقت تک مختلف ہند-اسلامی سلطنتوں کی درباری زبان کے طور پر کام کرتی تھی۔ یورپی نوآبادیاتی دور میں مذہبی، سماجی اور سیاسی عوامل پیدا ہوئے جنہوں نے اردو اور ہندی کے درمیان فرق کیا، جس کی وجہ سے ہندی-اردو تنازعہ شروع ہوا ۔
اردو 18ویں صدی میں ایک ادبی زبان بن گئی اور اسی طرح کی دو معیاری شکلیں دہلی اور لکھنؤ میں وجود می
ں آئیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد سے پاکستانی شہر کراچی میں ایک تیسرا معیار پیدا ہوا ہے۔ دکنی ، ایک پرانی شکل جو دکن میں استعمال ہوتی تھی، سولہویں صدی تک دکن سلاطین کی درباری زبان بن گئی۔
اُردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔ اُردو اور ہندی میں بُنیادی فرق یہ ہے کہ اُردو نستعلیق رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور عربی و فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے۔ جبکہ ہندی زبان دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت الفاظ زیادہ استعمال کرتی ہے۔ کچھ ماہرینِ لسانیات اُردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندی، اُردو زبان سے نکلی ہے۔ اسی طرح اگر اردو اور ہندی زبان کو ایک سمجھا جائے تو یہ دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔ اردو زبان دنیا کی نئی زبانوں میں سے ہونے کے باوجود اپنے پاس معیاری اور وسیع ذخیرہ ادب رکھتی ہے۔ خاص کر جنوبی ایشیائی زبانوں میں اردو اپنی شاعری کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔
تسمیہ
اردو کا نام سب سے پہلے شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے 1780ء کے آس پاس ہندوستانی زبان کے لیے استعمال کیا تھا حالانکہ اس نے خود بھی اپنی شاعری میں زبان کی تعریف کے لیے ہندوی اصطلاح استعمال کی تھی۔ اردو کا مطلب ترک زبان میں فوج ہے۔ 18ویں صدی کے آخر میں، اسے زبانِ اُرْدُوئے مُعَلّٰی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کا مطلب بلند کیمپ کی زبان ہے ۔ پہلے اسے ہندوی، ہندی اور ہندوستانی کے نام سے جانا جاتا تھا۔
اردو ہندی زبان کی طرح فارسی، عربی، ترک زبان کی ایک قسم ہے۔ یہ شوراسنی زبان کی ذیلی قسم کے طور پر اپ بھرنش سے قرون وسطٰی کے درمیان میں وجود میں آئی۔
13ویں صدی سے 19ویں صدی کے آخر تک اردو زبان کو بیک وقت ہندی کے شکل پر اعلان کرتے رہے ہیں۔
اگرچہ لفظ اردو بذات خود ترک زبان کے لفظ اوردو (لشکر، فوج) یا اوردا سے نکلا ہے، اسی سے انگریزی لفظ horde کا ظہور ہوا، تاہم ترک زبان سے اردو میں کم ہی الفاظ آئے ہیں۔ عرب اور ترک الفاظ اردو میں پہنچ کر فارسی قسم کے بن گئے ہیں، جیسے ة کو اکثر اوقات ہ میں بدل دیا ج
اتا ہے۔ مثلاً عربی تائے مربوطہ (ة) کو (ہ) یا (ت) میں بدل دیا جاتا ہے۔
بھلے ہی آج اردو کو ایک الگ زبان کی پہچان حاصل ہے لیکن عظیم اردو لیکھک اور کاتبین نے اُنیس وی صدی کی پہلی کچ دہائیوں تک اپنی زبان کو ہندی یا ہندوی کے شکل پر اعلان کرتے رہے ہیں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
198,044 | انارکیزم کے عقائد کیا ہیں؟ | انارکیزم روایتی سیاسی فلسفوں سے ایک بنیاد پرست رخصتی کی نمائندگی کرتا ہے۔ انتشار پسند مرکزی حکومت اور اختیار کی تمام اقسام کو مسترد کرتے ہیں۔ وہ رضاکارانہ تعاون، براہ راست جمہوریت، اور جبر کی عدم موجودگی پر مبنی معاشرے کی وکالت کرتے ہیں۔ انتشار پسندی کی مختلف قسمیں ہیں، بشمول انارکو-کمیونزم اور انارکو-سنڈیکلزم۔ انارکسٹوں کا خیال ہے کہ افراد اور کمیونٹیز ریاست کی ضرورت کے بغیر خود کو منظم اور اجتماعی فیصلے کر سکتے ہیں۔ ناقدین اکثر افراتفری اور سلامتی کے مسائل کے امکانات کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہیں، جبکہ حامیوں کا کہنا ہے کہ انارکیزم حقیقی آزادی اور خود مختاری کو فروغ دیتا ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
198,258 | اس مضمون سے تمام حوالے [عدد] کو ہٹا دیں
اُردُو[8] برصغیر کی معیاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ پاکستان کی قومی اور رابطہ عامہ کی زبان ہے، جبکہ بھارت کی چھ ریاستوں کی دفتری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ آئین ہند کے مطابق اسے 22 دفتری شناخت شدہ زبانوں میں شامل کیا جا چکا ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق اردو کو بطور مادری زبان بھارت میں 5.01% فیصد لوگ بولتے ہیں اور اس لحاظ سے ہی بھارت کی چھٹی بڑی زبان ہے جبکہ پاکستان میں اسے بطور مادری زبان 7.59% فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں، یہ پاکستان کی پانچویں بڑی زبان ہے۔ اردو تاریخی طور پر ہندوستان کی مسلم آبادی سے جڑی ہے۔ [9] زبانِ اردو کو پہچان و ترقی اس وقت ملی جب برطانوی دور میں انگریز حکمرانوں نے اسے فارسی کی بجائے انگریزی کے ساتھ شمالی ہندوستان کے علاقوں اور جموں و کشمیر میں اسے 1846ء اور پنجاب میں 1849ء میں بطور دفتری زبان نافذ کیا۔ اس کے علاوہ خلیجی، یورپی، ایشیائی اور امریکی علاقوں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو بنیادی طور پر جنوبی ایشیاء سے کوچ کرنے والے اہلِ اردو ہیں۔ 1999ء کے اعداد و شمار کے مطابق اردو زبان کے مجموعی متکلمین کی تعداد دس کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کی نویں بڑی زبان ہے۔ اردو زبان کو کئی ہندوستانی ریاستوں میں سرکاری حیثیت بھی حاصل ہے۔ [11] نیپال میں، اردو ایک رجسٹرڈ علاقائی بولی ہے [12] اور جنوبی افریقہ میں یہ آئین میں ایک محفوظ زبان ہے۔ یہ افغانستان اور بنگلہ دیش میں اقلیتی زبان کے طور پر بھی بولی جاتی ہے، جس کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے۔
1837ء میں، اردو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرکاری زبان بن گئی، کمپنی کے دور میں پورے شمالی ہندوستان میں فارسی کی جگہ لی گئی۔ فارسی اس وقت تک مختلف ہند-اسلامی سلطنتوں کی درباری زبان کے طور پر کام کرتی تھی۔ [13] یورپی نوآبادیاتی دور میں مذہبی، سماجی اور سیاسی عوامل پیدا ہوئے جنہوں نے اردو اور ہندی کے درمیان فرق کیا، جس کی وجہ سے ہندی-اردو تنازعہ شروع ہوا ۔
اردو 18ویں صدی میں ایک ادبی زبان بن گئی اور اسی طرح کی دو معیاری شکلیں دہلی اور لکھنؤ میں وجود میں آئیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد سے پاکستانی شہر کراچی میں ایک تیسرا معیار پیدا ہوا ہے۔ [14] [15] دکنی ، ایک پرانی شکل جو دکن میں استعمال ہوتی تھی، سولہویں صدی تک دکن سلاطین کی درباری زبان بن گئی۔ [16] [15]
اُردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔ اُردو اور ہندی میں بُنیادی فرق یہ ہے کہ اُردو نستعلیق رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور عربی و فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے۔ جبکہ ہندی زبان دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت الفاظ زیادہ استعمال کرتی ہے۔ کچھ ماہرینِ لسانیات اُردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندی، اُردو زبان سے نکلی ہے۔ اسی طرح اگر اردو اور ہندی زبان کو ایک سمجھا جائے تو یہ دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔ اردو زبان دنیا کی نئی زبانوں میں سے ہونے کے باوجود اپنے پاس معیاری اور وسیع ذخیرہ ادب رکھتی ہے۔ خاص کر جنوبی ایشیائی زبانوں میں اردو اپنی شاعری کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔
تسمیہ
اردو کا نام سب سے پہلے شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے 1780ء کے آس پاس ہندوستانی زبان کے لیے استعمال کیا تھا [17] حالانکہ اس نے خود بھی اپنی شاعری میں زبان کی تعریف کے لیے ہندوی اصطلاح استعمال کی تھی۔ [18] اردو کا مطلب ترک زبان میں فوج ہے۔ 18ویں صدی کے آخر میں، اسے زبانِ اُرْدُوئے مُعَلّٰی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کا مطلب بلند کیمپ کی زبان ہے ۔ [19] [20] [21] پہلے اسے ہندوی، ہندی اور ہندوستانی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ [17] [22]
اردو ہندی زبان کی طرح فارسی، عربی، ترک زبان کی ایک قسم ہے۔ [23] [24]یہ شوراسنی زبان (یہ زبان وسطی ہند آریائی زبان تھی جو موجودہ کئی زبانوں کی بنیاد سمجھی جاتی ہے، ان میں پنجابی زبان بھی شامل ہے) کی ذیلی قسم کے طور پر اپ بھرنش سے قرون وسطٰی (چھٹی سے تیرہویں صدی) کے درمیان میں وجود میں آئی۔[25] [26]
13ویں صدی سے 19ویں صدی کے آخر تک اردو زبان کو بیک وقت ہندی، [27] ہندوستانی اور ہندوی[28] کہا جاتا تھا۔
اگرچہ لفظ اردو بذات خود ترک زبان کے لفظ اوردو (لشکر، فوج) یا اوردا سے نکلا ہے، اسی سے انگریزی لفظ horde کا ظہور ہوا، تاہم ترک زبان سے اردو میں کم ہی الفاظ آئے ہیں۔ عرب اور ترک الفاظ اردو میں پہنچ کر فارسی قسم کے بن گئے ہیں، جیسے ة کو اکثر اوقات ہ میں بدل دیا جاتا ہے۔ مثلاً عربی تائے مربوطہ (ة) کو (ہ) یا (ت) میں بدل دیا جاتا ہے۔
بھلے ہی آج اردو کو ایک الگ زبان کی پہچان حاصل ہے لیکن عظیم اردو لیکھک اور کاتبین نے اُنیس وی صدی کی پہلی کچ دہائیوں تک اپنی زبان کو ہندی یا ہندوی کے شکل پر اعلان کرتے رہے ہے۔[29]
|
اُردُو برصغیر کی معیاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ پاکستان کی قومی اور رابطہ عامہ کی زبان ہے، جبکہ بھارت کی چھ ریاستوں کی دفتری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ آئین ہند کے مطابق اسے 22 دفتری شناخت شدہ زبانوں میں شامل کیا جا چکا ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق اردو کو بطور مادری زبان بھارت میں 5.01% فیصد لوگ بولتے ہیں اور اس لحاظ سے ہی بھارت کی چھٹی بڑی زبان ہے جبکہ پاکستان میں اسے بطور مادری زبان 7.59% فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں، یہ پاکستان کی پانچویں بڑی زبان ہے۔ اردو تاریخی طور پر ہندوستان کی مسلم آبادی سے جڑی ہے۔ زبانِ اردو کو پہچان و ترقی اس وقت ملی جب برطانوی دور میں انگریز حکمرانوں نے اسے فارسی کی بجائے انگریزی کے ساتھ شمالی ہندوستان کے علاقوں اور جموں و کشمیر میں اسے 1846ء اور پنجاب میں 1849ء میں بطور دفتری زبان نافذ کیا۔ اس کے علاوہ خلیجی، یورپی، ایشیائی اور امریکی علاقوں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو بنیادی طور پر جنوبی ایشیاء سے کوچ کرنے والے اہلِ اردو ہیں۔ 1999ء کے اعداد و شمار کے مطابق اردو زبان کے مجموعی متکلمین کی تعداد دس کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کی نویں بڑی زبان ہے۔ اردو زبان کو کئی ہندوستانی ریاستوں میں سرکاری حیثیت بھی حاصل ہے۔ نیپال میں، اردو ایک رجسٹرڈ علاقائی بولی ہے اور جنوبی افریقہ میں یہ آئین میں ایک محفوظ زبان ہے۔ یہ افغانستان اور بنگلہ دیش میں اقلیتی زبان کے طور پر بھی بولی جاتی ہے، جس کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے۔
1837ء میں، اردو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرکاری زبان بن گئی، کمپنی کے دور میں پورے شمالی ہندوستان میں فارسی کی جگہ لی گئی۔ فارسی اس وقت تک مختلف ہند-اسلامی سلطنتوں کی درباری زبان کے طور پر کام کرتی تھی۔ یورپی نوآبادیاتی دور میں مذہبی، سماجی اور سیاسی عوامل پیدا ہوئے جنہوں نے اردو اور ہندی کے درمیان فرق کیا، جس کی وجہ سے ہندی-اردو تنازعہ شروع ہوا ۔
اردو 18ویں صدی میں ایک ادبی زبان بن گئی اور اسی طرح کی دو معیاری شکلیں دہلی اور لکھنؤ میں وجود می
ں آئیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد سے پاکستانی شہر کراچی میں ایک تیسرا معیار پیدا ہوا ہے۔ دکنی ، ایک پرانی شکل جو دکن میں استعمال ہوتی تھی، سولہویں صدی تک دکن سلاطین کی درباری زبان بن گئی۔
اُردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔ اُردو اور ہندی میں بُنیادی فرق یہ ہے کہ اُردو نستعلیق رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور عربی و فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے۔ جبکہ ہندی زبان دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت الفاظ زیادہ استعمال کرتی ہے۔ کچھ ماہرینِ لسانیات اُردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندی، اُردو زبان سے نکلی ہے۔ اسی طرح اگر اردو اور ہندی زبان کو ایک سمجھا جائے تو یہ دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔ اردو زبان دنیا کی نئی زبانوں میں سے ہونے کے باوجود اپنے پاس معیاری اور وسیع ذخیرہ ادب رکھتی ہے۔ خاص کر جنوبی ایشیائی زبانوں میں اردو اپنی شاعری کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔
تسمیہ
اردو کا نام سب سے پہلے شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے 1780ء کے آس پاس ہندوستانی زبان کے لیے استعمال کیا تھا حالانکہ اس نے خود بھی اپنی شاعری میں زبان کی تعریف کے لیے ہندوی اصطلاح استعمال کی تھی۔ اردو کا مطلب ترک زبان میں فوج ہے۔ 18ویں صدی کے آخر میں، اسے زبانِ اُرْدُوئے مُعَلّٰی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کا مطلب بلند کیمپ کی زبان ہے ۔ پہلے اسے ہندوی، ہندی اور ہندوستانی کے نام سے جانا جاتا تھا۔
اردو ہندی زبان کی طرح فارسی، عربی، ترک زبان کی ایک قسم ہے۔ یہ شوراسنی زبان کی ذیلی قسم کے طور پر اپ بھرنش سے قرون وسطٰی کے درمیان میں وجود میں آئی۔
13ویں صدی سے 19ویں صدی کے آخر تک اردو زبان کو بیک وقت ہندی کے شکل پر اعلان کرتے رہے ہیں۔
اگرچہ لفظ اردو بذات خود ترک زبان کے لفظ اوردو (لشکر، فوج) یا اوردا سے نکلا ہے، اسی سے انگریزی لفظ horde کا ظہور ہوا، تاہم ترک زبان سے اردو میں کم ہی الفاظ آئے ہیں۔ عرب اور ترک الفاظ اردو میں پہنچ کر فارسی قسم کے بن گئے ہیں، جیسے ة کو اکثر اوقات ہ میں بدل دیا ج
اتا ہے۔ مثلاً عربی تائے مربوطہ (ة) کو (ہ) یا (ت) میں بدل دیا جاتا ہے۔
بھلے ہی آج اردو کو ایک الگ زبان کی پہچان حاصل ہے لیکن عظیم اردو لیکھک اور کاتبین نے اُنیس وی صدی کی پہلی کچ دہائیوں تک اپنی زبان کو ہندی یا ہندوی کے شکل پر اعلان کرتے رہے ہیں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
198,409 | Shorten and Summarize the following Urdu Essay in Urdu Language:
Essay:
قاہرہ (انگریزی: Cairo) (تلفظ: /ˈkaɪroʊ/ KY-roh; عربی: القاهرة، تلفظ [ælqɑ(ː)ˈheɾɑ]) مصر کا دار الحکومت ، افریقہ، عرب دنیا اور مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا شہری مجموعہ ہے۔ قاہرہ کبری میٹروپولیٹن علاقہ، جس کی آبادی 21.9 ملین ہے، [3] آبادی کے لحاظ سے دنیا کا بارہواں بڑا میگا شہر ہے۔ قاہرہ کا تعلق قدیم مصر سے ہے، کیونکہ اہرامات جیزہ اور قدیم شہر ممفس اور عين شمس اس کے جغرافیائی علاقے میں واقع ہیں۔ نیل ڈیلٹا کے قریب واقع، [4][5] شہر سب سے پہلے فسطاط کے طور پر آباد ہوا، ایک بستی جس کی بنیاد مسلمانوں کی فتح مصر کے بعد 640ء میں ایک موجودہ قدیم رومی قلعے، بابلیون کے ساتھ رکھی گئی تھی۔ دولت فاطمیہ کے تحت 969ء میں قریب ہی ایک نئے شہر القاہرہ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس نے بعد میں ایوبی سلطنت اور سلطنت مملوک (مصر) ادوار (بارہویں-سولہویں صدی) کے دوران میں فسطاط کو مرکزی شہری مرکز کے طور پر پیچھے چھوڑ دیا۔[6] قاہرہ طویل عرصے سے اس خطے کی سیاسی اور ثقافتی زندگی کا مرکز رہا ہے، اور اسلامی فن تعمیر کی پیش رفت کی وجہ سے اسے "ہزار میناروں کا شہر" کا عنوان دیا گیا ہے۔ قاہرہ کے تاریخی مرکز (قاہرہ المعز) کو 1979ء میں یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ دیا گیا۔ [7] عالمگیریت اور عالمی شہر تحقیق نیٹ ورک کے مطابق قاہرہ کو "بیٹا +" درجہ بندی کے ساتھ عالمی شہر سمجھا جاتا ہے۔ [8]
آج، قاہرہ میں عرب دنیا کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی سنیما اور موسیقی کی صنعت ہے، نیز دنیا کا دوسرا قدیم ترین اعلیٰ تعلیم کا ادارہ، جامعہ الازہر بھی یہیں واقع ہے۔ بہت سے بین الاقوامی میڈیا، کاروباری اداروں اور تنظیموں کے علاقائی ہیڈ کوارٹر شہر میں ہیں۔ عرب لیگ کا صدر دفتر قاہرہ میں اپنے زیادہ تر وجود میں رہا ہے۔
453 مربع کلومیٹر (175 مربع میل) پر پھیلا ہوا 10 ملین[9] سے زیادہ آبادی کے ساتھ، قاہرہ مصر کا سب سے بڑا شہر ہے۔ مزید 9.5 ملین باشندے شہر کے قریب رہتے ہیں۔ قاہرہ، بہت سے دوسرے شہروں کی طرح، آلودگی اور ٹریفک کی اعلیٰ سطح کے مسائل کا شکار ہے۔ قاہرہ میٹرو، جو 1987ء میں کھولی گئی، افریقہ کا سب سے پرانا میٹرو نظام ہے، [10][11] اور اس کا شمار دنیا کے پندرہ مصروف ترین نظاموں میں ہوتا ہے، جس میں سالانہ 1 بلین[12] مسافروں کی سواری ہوتی ہے۔ قاہرہ کی معیشت 2005ء میں مشرق وسطیٰ میں پہلے نمبر پر تھی، [13] اور فارن پالیسی (رسالہ) کے 2010ء گلوبل سٹیز انڈیکس میں عالمی سطح پر 43 ویں نمبر پر ہے۔[14]
اشتقاقیات
خلیفہ معز لدین اللہ کے دور کا ایک سکہ
مصری اکثر قاہرہ کو مصری عربی، یں مصر (کلمہ نویسی Maṣr (بین الاقوامی اصواتی ابجدیہ: [mɑsˤɾ]; مَصر) کہتے ہیں، جو ملک کے لیے شہر کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ [15][16] اس کا رسمی نام القاہرہ (القاهرة) کا مطلب ہے 'فتح کرنے والا' یا 'قاتح، اس حقیقت کی وجہ سے کہ سیارہ مریخ، نجم القاہر (النجم القاہر، 'فتح کرنے والا ستارہ')، اس وقت عروج پر تھا جب شہر کی بنیاد رکھی گئی تھی۔[17] ممکنہ طور پر دولت فاطمیہ کے خلیفہ معز لدین اللہ کی آمد کے حوالے سے بھی جو 973ء میں فاطمیوں کے پرانے دار الحکومت مہدیہ (شہر) سے قاہرہ پہنچے تھے۔ قدیم شہر عين شمس کا مقام عين شمس (قاہرہ) (عربی زبان: عين شمس، 'سورج کی آنکھ') قاہرہ کا مضافاتی علاقہ ہے۔
شہر کے چند قبطی نام ہیں۔ Tikešrōmi (قبطی: Ϯⲕⲉϣⲣⲱⲙⲓ موخر قبطی: [di.kɑʃˈɾoːmi]) 1211 کی عبارت (The Martyrdom of John of Phanijoit) میں تصدیق شدہ ہے اور یا تو ایک کالک ہے جس کا مطلب ہے 'مرد توڑنے والا' (Ϯ-، 'the'، ⲕⲁϣ-، 'to break'، and ⲣⲱⲙⲓ، 'man')، عربی القاہرہ کے مشابہ۔ | یہ رہا shorten مضمون:
قاہرہ مصر کا دارالحکومت اور افریقہ، عرب دنیا اور مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا شہری علاقہ ہے۔ یہ قدیم مصر کے ساتھ اپنی وابستگی کے لئے جانا جاتا ہے اور مشہور نشانیوں کا گھر ہے جیسے اہرام گیزا۔ اس شہر کی آبادی 21.9 ملین ہے اور اسے عالمی شہر سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ایک بھرپور تاریخ ہے اور یہ صدیوں سے خطے میں سیاسی اور ثقافتی زندگی کا مرکز رہا ہے۔ قاہرہ کے تاریخی مرکز کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔
قاہرہ عرب دنیا کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی فلم اور موسیقی کی صنعت کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ الازہر یونیورسٹی کا گھر بھی ہے، جو دنیا کی دوسری قدیم ترین یونیورسٹی ہے۔ مزید برآں، بہت سے بین الاقوامی میڈیا، کاروبار، اور تنظیموں کے قاہرہ میں اپنے علاقائی دفاتر ہیں۔ عرب لیگ کافی عرصے سے شہر میں مقیم ہے۔
قاہرہ مصر کا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی 10 ملین سے زیادہ ہے اور اس کے آس پاس مزید 9.5 ملین رہتے ہیں۔ اسے آلودگی اور ٹریفک کے مسائل کا سامنا ہے۔ قاہرہ میٹرو، جو 1987 میں قائم کی گئی تھی، افریقہ کا سب سے پرانا میٹرو سسٹم ہے اور دنیا کے مصروف ترین نظاموں میں سے ایک ہے، جو سالانہ 1 بلین سے زیادہ مسافروں کی خدمت کرتا ہے۔ 2005 میں، قاہرہ کی معیشت مشرق وسطیٰ میں سرفہرست تھی، اور 2010 کے گلوبل سٹیز انڈیکس میں اسے عالمی سطح پر 43 ویں نمبر پر رکھا گیا تھا۔
مشتقات مالیاتی آلات ہیں جو اپنی قیمت کسی بنیادی اثاثہ یا بینچ مارک سے اخذ کرتے ہیں۔ وہ عام طور پر مالیاتی منڈیوں میں ہیجنگ یا قیاس آرائی کے مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
مصر کے دارالحکومت قاہرہ کو اکثر مصری عربی میں مصر کہا جاتا ہے، ملک کے لیے اس کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے۔ اس کا سرکاری نام، القاہرہ، کا مطلب ہے 'فاتح' اور اس کا تعلق سیارہ مریخ سے ہے۔ اس نام کا تعلق 973 میں فاطمی خلیفہ معیز الدین اللہ کی آمد سے بھی ہو سکتا ہے۔ قاہرہ کا نواحی علاقہ عین شمس قدیم شہر عین شمس کے مقام پر واقع ہے۔
شہر کے متعدد قبطی نام ہیں، جن میں سے ایک Tikešrōmi ہے۔ اس نام کا تذکرہ 1211 کے ایک متن میں کیا گیا ہے جسے The Martyrdom of John of Phanijoit کہا جاتا ہے۔ Tikešrōmi کی تشریح عربی اصطلاح القائرہ کی طرح 'مرد توڑنے والا' کے طور پر کی جا سکتی ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
199,032 | جنوبی ایشیا میں مغلیہ سلطنت کی اہم شراکتیں کیا تھیں؟ | مغل سلطنت نے جنوبی ایشیا میں مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ سلطنت کا سب سے بڑا اثر آرٹ اور فن تعمیر میں تھا۔ مغل تاج محل، لال قلعہ، اور ہمایوں کے مقبرے جیسی قابل ذکر یادگاروں کی تعمیر کے ذمہ دار تھے، جس میں پیچیدہ ڈیزائن، پیچیدہ خطاطی، اور سنگ مرمر کے وسیع استعمال کی نمائش کی گئی تھی۔ انہوں نے فارسی اور اردو شاعری کی ترقی کے ساتھ ادب میں بھی اپنا حصہ ڈالا۔
حکمرانی میں، مغلوں نے ایک مرکزی انتظامیہ قائم کی جس میں ایک موثر محصولاتی نظام اور ایک متحد قانونی ضابطہ شامل تھا۔ انہوں نے مذہبی رواداری کو فروغ دیا، اور اکبر نے خاص طور پر "سُلحِ کل" یا عالمگیر امن کا تصور متعارف کرایا۔ سلطنت نے سائنس اور ریاضی میں بھی ترقی کی، اکبر کے درباری ریاضی دان، ابو الفتح جلال الدین محمد اکبر جیسی قابل ذکر شخصیات کے ساتھ۔ مجموعی طور پر، جنوبی ایشیا میں مغلیہ سلطنت کی وراثت ثقافتی، تعمیراتی اور انتظامی کامیابیوں کی ایک بھرپور ٹیپسٹری ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
199,108 | کیا پروگرامنگ سیکھنا آسان ہے؟ | سیکھنے کے پروگرامنگ کی آسانی انفرادی اہلیت کی بنیاد پر مختلف ہوتی ہے۔ تحقیق میں پس منظر منطقی سوچ میں مدد کرتا ہے، کوڈنگ کی سمجھ کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ "Python" جیسی صارف دوست زبانوں کے ساتھ شروع کرنا سیکھنے کے عمل کو آسان بنا سکتا ہے:
1. ہمت نہ ہاریں: اگر آپ کچھوے کی رفتار سے چلتے رہیں تو آپ بہت اچھے پروگرامر بن سکتے ہیں۔
2. محنت: کسی بھی شعبے میں ماہر بننے کے لیے 10000 گھنٹے کا اصول یاد رکھیں، یعنی اس میں 10000 گھنٹے کام کرکے آپ ماہر بن سکتے ہیں۔
3. دوست: ایسے دوستوں کو تلاش کریں جو مل کر ایسا کر رہے ہیں، ان کے ساتھ سیکھیں۔
4. منصوبے بنائیں، یہ سیکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
199,759 | کیگل پر دستیاب "ورلڈ ویذر ریپوزیٹری (ڈیلی)" ڈیٹا سیٹ کے بارے میں مجھے بتائیں۔ | ایک وسیع ڈیٹا سیٹ کی طاقت کو قابو میں کرتے ہیں جو مزید 40+ مختلف خصوصیات کی ایک خزانہ فراہم کرتا ہے۔ ان میں دمی دماپر اور ہواؤ کی رفتار سے لے کر ہوائی دباؤ، بارش، نمی، دیکھائی دینے والائیت، اور حتی کہ ہوائی کوالٹی کی پیمائشیں شامل ہیں، اور دیگر خصوصیات۔ یہ ڈیٹا سیٹ دنیا بھر کے موسمی پدوں کے پیچیدے بناوٹ کو سمجھنے کے لئے ایک بے مثال مواد فراہم کرتا ہے۔ اس کی وسیعیت کا نیچر ہمیں بڑی پیمائش پر موسم کے پیٹرنز کی موسمی تبدیلی کی گہری تجزیہ کرنے کی اجازت دیتی ہے، تاریخی موسم کے روایتی نمونوں کی تلاش کو آسانی دیتی ہے، اور ہمیں مختلف موسمی پیرامیٹرز کے درمیان موجود تفصیلی تعلقات کو اکسانے کی صلاحیت دیتی ہے۔ جب ہم اس ڈیٹا سیٹ کی طرف جاتے ہیں، تو ہم اپنے پلانٹ کے موسمی نظام کی پیچیدے بناوٹ کے پیچیدے اثرات کو کھولنے کی سفر پر نکلتے ہیں جو ہمارے ماحول اور روزمرہ کاموں پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
200,061 | سوال: آپ جتنا زیادہ لیں گے، اتنا ہی پیچھے چھوڑ دیں گے۔ میں کیا ہوں؟
| جواب: قدم قدم۔ آپ جتنے زیادہ قدم اٹھائیں گے، اتنے ہی زیادہ قدموں کے نشان آپ پیچھے چھوڑ جائیں گے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
200,069 | مجھے اس گانے کے بول چاہیے "تو جانے نہ " جو عاطف اسلم کی آواز میں گائے گئے ہیں | یقیناً، آپ کے گانے کے بول یہ ہیں:
کیسے بتائیں کیوں تجھ کو چاہیں، یارا بتا نہ پائیں
باتیں دلوں کی، دیکھو جو باقی، آنکھیں تجھے سمجھائیں
تو جانے نہ، تو جانے نہ
مل کے بھی ہم نہ ملے تم سے نہ جانے کیوں
میلوں کے ہیں فاصلے تم سے نہ جانے کیوں
انجانے ہیں سلسلے تم سے نہ جانے کیوں
سپنے ہیں پلکوں تلے تم سے نہ جانے کیوں
کیسے بتائیں کیوں تجھ کو چاہیں، یارا بتا نہ پائیں
باتیں دلوں کی، دیکھو جو باقی، آنکھیں تجھے سمجھائیں
تو جانے نہ، تو جانے نہ
نگاہوں میں دیکھے میری جو ہے بس گیا
وہ ہے ملاتا تم سے ہو بہو
وہ جانے تیری آنکھیں تھیں یا باتیں تھیں وجہ
ہوئے تم جو دل کہ آرزو
تم پاس ہو کے بھی، تم آس ہو کے بھی
احساس ہو کے بھی اپنے نہیں
ایسے ہیں
ہم کو گلے تم سے نہ جانے کیوں
میلوں کے ہیں فاصلے تم سے جانے کیوں
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
200,219 | مغلیہ سلطنت کے زوال میں مذہبی اور سماجی عوامل نے کس حد تک کردار ادا کیا؟ | مذہبی اور سماجی عوامل نے مغلیہ سلطنت کے زوال کی رفتار کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ ابتدائی مغل حکمران مذہبی رواداری کی پالیسی کے لیے مشہور تھے، اورنگ زیب کے دور میں اس روایت سے علیحدگی دیکھنے میں آئی۔ اس کے غیر مسلموں پر جزیہ ٹیکس کے نفاذ اور ہندو مندروں کی تباہی نے آبادی کا ایک بڑا حصہ بیگانگی کا باعث بنا۔ مذہبی عدم برداشت نے سماجی تناؤ اور اندرونی کشمکش کو ہوا دی، سلطنت کے سماجی تانے بانے کو کمزور کیا۔
سلطنت کا زوال مذہبی اور ثقافتی انتشار کے نتیجے میں سماجی بندھنوں کے کمزور ہونے سے مزید بڑھ گیا۔ کبھی متحرک ثقافتی اور سماجی ماحول کے ٹوٹ پھوٹ نے ایک بکھرے ہوئے معاشرے میں حصہ ڈالا، جس سے سلطنت کے لیے بحران کے وقت متحد حمایت حاصل کرنا مشکل ہو گیا۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
200,475 | نئی دہلی کے بارے میں بتایے: | نئی دہلی حکومت بھارت کا دار الحکومت اور قدیم شہر ہے۔ یہ پہلے بھی بادشاہوں کی دار الحکومت ہو کرتا تھا اور آج بھی یہ اس ملک کا دار الحکومت ہے مغلوں کے زمانے میں تعمیر شدہ عمارتین آپ کو اس شہر میں بھی کافی تعداد میں ملتی ہیں جنمیں دہلی کا لال قلعہ، جامع مسجد اور قطب الدین کی تعمیر کردہ قطب مینار سر فہرست ہے۔
ملک بھارت
ریاست/عملداری دہلی
قائم شدہ 1911
افتتاح 1931
رقبہ[1]
• شہر و دارالحکومت 1,484 کلومیٹر2 (573 میل مربع)
بلندی 216 میل (709 فٹ)
آبادی (2011)[2]
• شہر و دارالحکومت 249,998
• کثافت 5,854.7/کلومیٹر2 (15,164/میل مربع)
• میٹرو 21,753,486
زبانیں
• دفتری ہندی، انگریزی
• دوسری سرکاری زبانیں اردو، پنجابی[3]
منطقۂ وقت بھارتی معیاری وقت (UTC+5:30)
ڈاک اشاریہ رمز 110xxx
ٹیلی فون کوڈ +91-11
گاڑی کی نمبر پلیٹ DL-1x-x-xxxx to DL-13x-x-xxxx
ویب سائٹ www.ndmc.gov.in | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
200,872 | سکندر کی آمد نے جنوبی ایشیائی خطے اور اس کے لوگوں پر کیا اثر ڈالا؟ | سکندر کی آمد کا جنوبی ایشیائی خطے پر خاصا اثر پڑا۔ اس کی فوجی مہم کے نتیجے میں مقامی حکمرانوں کے ساتھ کئی بڑی لڑائیاں ہوئیں، جن میں بادشاہ پورس بھی شامل تھا، جس نے دریائے ہائڈاسپس (جدید دور کا دریائے جہلم) کے کنارے ایک ریاست پر حکومت کی۔ ان لڑائیوں میں سکندر کی فتوحات نے اس خطے میں ایک مختصر مدت کے لیے یونانی موجودگی قائم کی۔ تاہم، اس کی فتح کا مقصد ایک پائیدار سلطنت قائم کرنا نہیں تھا بلکہ اس کی ساکھ اور عزائم کو محفوظ بنانا تھا۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
200,942 | if len(response)==2:
message, data = response
kv = {}
else:
message, data, kv = response
return (message, data, **kv)
اس کوڈ کو مزید کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟ | یہ پایتھون کا کوڈ ہے، اس کو بہتر بنانے کے لیے یہ یہ قدم لیے جا سکتے ہیں:
1۔ اسے فنکشن بنائیں.
2۔ اس کوڈ کو 1 لاین میں کردیا جاے۔ اس کو one-liner بھی کہتے ہیں۔
```python
def process_response(response):
message, data, *kv = response
return message, data, **dict(kv)
``` | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
200,956 | کیا آپ ہمیں نیدرلینڈز کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟ | نیدرلینڈ، جسے اکثر ہالینڈ کہا جاتا ہے، ایک دلکش یورپی ملک ہے جو اپنے شاندار فلیٹ مناظر، دلکش نہروں اور ہوا کی چکیوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ اپنے ٹیولپ کے کھیتوں، دلکش شہروں اور ایک بھرپور ثقافتی ورثے کے لیے مشہور ہے۔ ایمسٹرڈیم، دارالحکومت، آرٹ، تاریخ اور تجارت کا ایک متحرک مرکز ہے، جس کے عالمی معیار کے عجائب گھر ہیں، جیسے کہ "Rijksmuseum" اور "Van Gogh Museum"، دنیا بھر سے آنے والے زائرین کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ نیدرلینڈز اپنے سائیکل دوست شہروں اور سائیکلنگ راستوں کے وسیع نیٹ ورک کے لیے مشہور ہے، جو اسے سائیکل سواروں کے لیے ایک پناہ گاہ بناتا ہے۔
ڈچ سماجی بہبود، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال پر مضبوط زور دینے کے ساتھ اپنے ترقی پسند اور جامع معاشرے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ یہ ملک اپنے ماحولیاتی اقدامات کے لیے بھی پہچانا جاتا ہے، جیسے قابل تجدید توانائی کے ذرائع کا استعمال اور پانی کے انتظام کے جدید نظام۔ ڈچ زبان، جسے نیدرلینڈز کے نام سے جانا جاتا ہے، سرکاری زبان ہے، لیکن انگریزی وسیع پیمانے پر بولی جاتی ہے، جو اسے بین الاقوامی مسافروں کے لیے قابل رسائی منزل بناتی ہے۔
ایک بھرپور سمندری تاریخ کے ساتھ، نیدرلینڈز ایکسپلوریشن کے دور میں ایک نوآبادیاتی پاور ہاؤس تھا۔ آج، یہ یورپی یونین اور یوروزون کا رکن ہے، اور یورپ میں اس کا اسٹریٹجک مقام اسے ایک بڑا تجارتی اور نقل و حمل کا مرکز بناتا ہے۔ نیدرلینڈ تضادات کی سرزمین ہے، جو جدید اور روایتی عناصر کا امتزاج پیش کرتا ہے، جو اسے متنوع تجربات کے خواہاں مسافروں کے لیے ایک منفرد اور مدعو کرنے والی منزل بناتا ہے۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
201,613 | لندن، انگلینڈ میں دیکھنے کے لیے بہترین مقامات کون سے ہیں؟ | لندن، انگلینڈ میں دیکھنے کے لیے یہاں پانچ مقامات ہیں:
1. برٹش میوزیم-برٹش میوزیم ایک عوامی میوزیم ہے جو انسانی تاریخ، فن اور ثقافت کے لیے وقف ہے جو لندن کے بلومسبری علاقے میں واقع ہے۔ اس کا
آٹھ ملین کاموں کا مستقل مجموعہ دنیا میں سب سے بڑا ہے۔ یہ انسانی ثقافت کی اس کے آغاز سے لے کر آج تک کی کہانی کو دستاویز کرتا ہے۔
2. لندن ٹاور-ٹاور آف لندن وسطی لندن، انگلینڈ میں دریائے ٹیمز کے شمالی کنارے پر واقع ایک تاریخی قلعہ ہے جس نے انگریزی تاریخ میں ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس کا کئی بار محاصرہ کیا گیا، اور اسے کنٹرول کرنا ملک کو کنٹرول کرنے کے لیے اہم رہا ہے۔ ٹاور نے مختلف طریقوں سے آرموری، ٹریژری، مینیجری، رائل منٹ کے گھر، ایک پبلک ریکارڈ آفس، اور انگلینڈ کے کراؤن جیولز کے گھر کے طور پر کام کیا ہے۔
3. بکنگھم پیلس-بکنگھم پیلس لندن میں ایک شاہی رہائش گاہ ہے اور برطانیہ کے بادشاہ کا انتظامی ہیڈکوارٹر ہے۔ ویسٹ منسٹر شہر میں واقع یہ محل اکثر
ریاستی مواقع اور شاہی مہمان نوازی کا مرکز ہوتا ہے۔ یہ برطانوی عوام کے لیے قومی خوشی اور سوگ کے اوقات میں ایک مرکزی نقطہ رہا ہے۔
4. بورو مارکیٹ-بورو مارکیٹ ساؤتھ وارک، لندن، انگلینڈ میں ایک ہول سیل اور ریٹیل مارکیٹ ہال ہے۔ یہ لندن کی سب سے بڑی اور قدیم ترین فوڈ
مارکیٹوں میں سے ایک ہے، جس کی سائٹ پر ایک مارکیٹ کم از کم 12ویں صدی کی ہے۔
5.لندن آئی-لندن آئی لندن میں دریائے ٹیمز کے جنوبی کنارے پر ایک کنٹیلیورڈ مشاہداتی پہیہ ہے۔ یہ یورپ کا سب سے اونچا کینٹیلیورڈ آبزرویشن وہیل ہے، اور یونائیٹڈ کنگڈم میں سالانہ تین ملین سے زیادہ زائرین کے ساتھ سب سے زیادہ ادا شدہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ اس نے مقبول ثقافت میں بہت سی نمائشیں کی ہیں۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
201,726 | "ایمانداری بہترین پالیسی ہے" پر مختصر مضمون اردو میں | Short Article on “Honesty is the Best Policy” In Urdu
| ایمانداری کے بغیر ہمیں بے کردار کہا جائے گا۔ ایمانداری اچھے کردار کی تعمیر کے بلاکس میں سے ایک ہے اور کردار ہی یہ ثابت کرتا ہے کہ ہم کون ہیں اور ہم کیا حاصل کرنے جا رہے ہیں۔ ایمانداری کردار کی بنیاد ہے۔ اگر کوئی ایمانداری میں کمی محسوس کرے گا تو وہ کردار میں بھی کمی پائے گا۔
ایمانداری ہمیشہ کسی صورت حال سے نکلنے کا سب سے آسان طریقہ نہیں ہوتا ہے۔ تاہم بہادر دل والے جو حالات سے نکلنے کا راستہ نہیں ڈھونڈتے ان کے لیے حالات یا بحران سے نمٹنے کا واحد راستہ ہے۔ اکثر ایماندار ہونے کا مطلب دوسروں کے غضب میں آنا بھی ہو سکتا ہے۔ ردعمل کا خدشہ ہو سکتا ہے لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آخر میں سچ کی ہی فتح ہوتی ہے اور ایمانداری ہی بہترین پالیسی ہے۔ یہ سب سے آسان چیز نہیں ہوسکتی ہے: ایماندار ہونا، لیکن یہ صرف ایک ہی چیز ہے۔
بعض اوقات جب سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انسان بے ایمان ہونے کی طرف مائل ہوتا ہے کیونکہ ایماندار ہونے کے لیے ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ بے ایمانی ایک چپچپا صورتحال سے آسانی سے باہر نکل سکتی ہے، لیکن جھوٹ پکڑنے سے پہلے یہ وقت کی بات ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے، تو آپ اپنی ساکھ کھو دیتے ہیں اور لوگ آپ پر ہمیشہ کے لیے عدم اعتماد کرتے ہیں۔
ایک سیاستدان جو انتخابی مہم کے دوران عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے وہ عوام کا اعتماد کھو دیتا ہے اور اگلی بار الیکشن ہار جاتا ہے۔ کسی ایسے شخص پر بھروسہ کرنا مشکل ہے جس پر آپ نے اعتماد کھو دیا ہو۔
جھوٹ ہوتے ہیں اور پھر سفید جھوٹ ہوتے ہیں۔ سفید جھوٹ کو جھوٹ کے طور پر سمجھا جاتا ہے جو بے ضرر ہیں لہذا لوگ اکثر ان کے استعمال کا شکار ہوتے ہیں۔ ایماندار ہونا مشکل ہوتا ہے خاص طور پر جب آپ کے پاس کھونے کے لیے کچھ ہو جیسے نوکری، ترقی، کسی عزیز کی محبت اور احترام۔
سفید جھوٹ کا سہارا لینا آسان طریقہ لگتا ہے۔ تاہم ایک جھوٹ دوسرے کی طرف لے جاتا ہے اور بہت پہلے آپ جھوٹ کے جال میں پھنس جاتے ہیں جس سے نکلنا آپ کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ایمانداری کو برقرار رکھنا ایک مشکل فضیلت ہو سکتا ہے لیکن یہ صرف صحیح چیز ہے۔
تاہم حالات ہمیشہ سفاکانہ ایمانداری کا مطالبہ نہیں کرتے۔ اگر کسی دوست کی سانس میں بدبو آتی ہے تو اسے یہ کہہ کر سچائی سے شرمندہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اسے سانس کی بو ہے۔ اس طرح کے حالات، جب سچائی کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچا سکتی ہے تو سمجھداری کی ضرورت ہے۔
دوستوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے بچنے کے لیے اس مقام پر ایک سفید جھوٹ بولنا دوست کے بہترین مفاد میں نہیں ہوگا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سچائی کی بربریت کو کم کیا جائے۔ "ارے آپ کی سانسوں سے خوفناک بدبو آ رہی ہے" کہنے کے بجائے کوئی کہہ سکتا ہے "ارے کچھ بھی نہیں تھوڑا سا پودینہ ٹھیک نہیں کرے گا"۔
سچ کہنا چاہے مشکل ہو، ہمیشہ اس پر قائم رہنا چاہیے۔ طویل مدت میں یہ بہترین پالیسی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایک ایماندار ہونے کی شہرت حاصل کرے گا۔ اور یہی کامیابی کا بنیادی ستون ثابت ہوگا۔ اس کی رائے کے لیے ایک دیانتدار شخص سے رجوع کیا جائے گا۔ ایک ایماندار آدمی کو گھر اور کام پر ہمیشہ زیادہ ذمہ داری ملے گی۔
انسان کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ’’غلطی کرنا انسان ہے اور معاف کرنا الہی ہے‘‘۔ لہذا جب آپ نے غلطی کی ہے تو صفائی ہی واحد آپشن ہے۔ آپ کو اس کی سزا مل سکتی ہے، آپ کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے، لیکن اگر آپ ایماندار ہیں تو آپ اپنے اردگرد کے لوگوں کی معافی اور عزت حاصل کریں گے۔ ایمانداری بلاشبہ بہترین پالیسی ہے۔
| Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
202,245 | اس پر مبنی ایک مضمون لکھیں "مطالبہ کے قانون کو سمجھیں. فراہمی کے قانون کو سمجھیں۔ سمجھیں کہ کس طرح کی فراہمی اور مانگ گرافک طور پر نمائندگی کر رہے ہیں. مارجنل افادیت کو سمجھیں. صارفین کے منافع کو سمجھیں"۔ مضمون: | زیادہ تر لوگوں نے مارکیٹ کی معیشتوں پر حکمرانی کرنے والی پراسرار قوتوں کے حوالے سے استعمال ہونے والی "سپلائی اور ڈیمانڈ" کی اصطلاح سنی ہے ، لیکن بہت سے لوگ ان تصورات کے مکمل مضمرات کو نہیں سمجھتے ہیں۔ "مطالبہ" سے مراد مارکیٹ میں کسی چیز یا خدمت کی خواہش ہے۔ عام طور پر، اگر دیگر تمام عوامل برابر ہوں تو، کسی مصنوع کی مانگ اس کی قیمت میں اضافے کے ساتھ کم ہو جائے گی۔ مثال کے طور پر، فرض کریں کہ ایک کمپنی ٹیلی ویژن کے ایک نئے ماڈل کو جاری کرنے والی ہے۔ وہ اس نئے ماڈل کے لئے جتنا زیادہ چارج کریں گے، مجموعی طور پر اتنا ہی کم ٹیلی ویژن فروخت کرنے کی توقع کر سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صارفین کے پاس خرچ کرنے کے لئے محدود رقم ہے اور ، زیادہ مہنگے ٹیلی ویژن کی ادائیگی کرکے ، انہیں دوسری چیزوں پر پیسہ خرچ کرنے سے انکار کرنا پڑ سکتا ہے جو انہیں کچھ زیادہ فائدہ پہنچا سکتا ہے (خریداری ، پٹرول ، رہن ، وغیرہ) ۔ اس کے برعکس، فراہمی کے قانون کا تقاضا ہے کہ مصنوعات اور خدمات جو ایک اعلی قیمت کی طلب کرتے ہیں وہ ایک اعلی شرح پر فراہم کی جائیں گی. بنیادی طور پر، جو لوگ چیزیں فروخت کرتے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ آمدنی حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ مہنگی مصنوعات کی فروخت کرتے ہیں، لہذا، اگر کسی خاص قسم کی مصنوعات یا سروس بہت منافع بخش ہے، تو پروڈیوسر اس کی مصنوعات یا سروس کو تیار کرنے کے لئے جلدی کریں گے. مثال کے طور پر، چلو کہ ماں کے دن سے پہلے، ٹولپس بہت مہنگی ہو جاتے ہیں. اس کے جواب میں ، جو کسان ٹولپس کی پیداوار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اس سرگرمی میں وسائل ڈالیں گے ، زیادہ سے زیادہ ٹولپس پیدا کریں گے تاکہ اعلی قیمت کی صورتحال سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ ایک بہت ہی عام طریقہ ہے کہ معاشیات کی فراہمی اور مانگ کے درمیان تعلقات کا اظہار ہے کے ذریعے 2 جہتی ایکس / Y گراف. عام طور پر، اس معاملے میں، ایکس محور Q کے طور پر مقرر کیا جاتا ہے، مارکیٹ میں سامان کی مقدار، اور وائی محور P کے طور پر مقرر کیا جاتا ہے، سامان کی قیمت. طلب کا اظہار ایک منحنی خطوط کے طور پر کیا گیا ہے جو گراف کے اوپر بائیں سے نیچے دائیں طرف ہے اور فراہمی کا اظہار ایک منحنی خطوط کے طور پر کیا گیا ہے جو نیچے بائیں سے اوپر دائیں طرف ہے۔ طلب اور رسد کے منحنی خطوط کا تقاطع وہ نقطہ ہے جس پر مارکیٹ توازن میں ہے - دوسرے الفاظ میں ، وہ نقطہ جس پر پروڈیوسر صارفین کی طلب کے مطابق بالکل اتنی ہی اشیاء اور خدمات تیار کررہے ہیں۔ مارجنل یوٹیلیٹی ایک صارف کو کسی چیز یا سروس کی ایک اضافی یونٹ استعمال کرنے سے ملنے والے اطمینان میں اضافہ ہے۔ بہت عام الفاظ میں، سامان اور خدمات کی مارجنل افادیت کم ہونے والی واپسی کے تابع ہے - دوسرے الفاظ میں، ہر اضافی یونٹ خریدا صارفین کو کم اور کم فائدہ فراہم کرتا ہے. بالآخر، اچھی یا سروس کی مارجنل افادیت اس حد تک کم ہوجاتی ہے کہ یہ صارف کے لئے اضافی یونٹ خریدنے کے لئے "اس کے قابل" نہیں ہے. مثال کے طور پر، ہم کہتے ہیں کہ ایک صارف بہت بھوکا ہے. وہ ایک ریسٹورنٹ میں جاتی ہے اور پانچ ڈالر میں ہیمبرگر کا آرڈر دیتی ہے۔ اس ہیمبرگر کے بعد، وہ اب بھی تھوڑی بھوک لگی ہے، اس لیے اس نے ایک اور ہیمبرگر 5 ڈالر میں آرڈر کیا۔ اس دوسرے ہیمبرگر کی مارجنل افادیت پہلے کے مقابلے میں قدرے کم ہے کیونکہ یہ پہلے ہیمبرگر کے مقابلے میں اپنی قیمت کے لئے بھوک سے نجات کے لحاظ سے کم اطمینان فراہم کرتا ہے۔ صارف تیسرا ہیمبرگر نہ خریدنے کا فیصلہ کرتا ہے کیونکہ وہ بھرا ہوا ہے، اور اس طرح، تیسرا ہیمبرگر اس کے لئے عملی طور پر کوئی معمولی افادیت نہیں ہے. صارفین کا اضافی مجموعی طور پر ایک شے کی "کل قیمت" یا "کل قیمت وصول" کے درمیان صارفین اور اصل قیمت کے درمیان فرق کے طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اس کے لئے ادا کرتے ہیں. دوسرے لفظوں میں، اگر صارفین کسی مصنوع کے لیے اس کی قیمت سے کم ادا کرتے ہیں تو، صارفین کا اضافی ان کی بچت کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایک آسان مثال کے طور پر، چلو کہ ایک صارف ایک استعمال شدہ کار کے لئے مارکیٹ میں ہے کہتے ہیں. اس نے اپنے آپ کو خرچ کرنے کے لیے دس ہزار ڈالر دیے ہیں۔ اگر وہ ہر چیز کے ساتھ ایک گاڑی خریدتا ہے جو وہ چاہتا ہے $6,000، ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے پاس $4,000 کا صارفین کا اضافی ہے. دوسرے لفظوں میں، گاڑی اس کے لیے $10,000 کی تھی، لیکن آخر کار اس کے پاس گاڑی اور $4,000 کی اضافی رقم رہ گئی جسے وہ دوسری چیزوں پر اپنی مرضی کے مطابق خرچ کر سکتا تھا۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |
202,355 | لیبر کی تقسیم پر ایڈم سمتھ کے نظریات نے معاشی فکر میں کیسے انقلاب برپا کیا؟ | لیبر کی تقسیم کے بارے میں ایڈم سمتھ کے خیالات، "دی ویلتھ آف نیشنز" میں متعارف کرائے گئے، پیداواری عمل کے اندر کاموں کی تخصص پر زور دیتے ہیں۔ انہوں نے استدلال کیا کہ کاموں کو چھوٹے، خصوصی اجزاء میں تقسیم کرنے سے، پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوگا، جس سے اقتصادی ترقی ہوگی۔ اس تصور نے صنعت کاری کی ترقی اور معاشی نظام کے کام کرنے کے طریقے کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ | Aya-Dataset | - | - | 0 | urd | train | Arab |