id
int64
18
202k
inputs
stringlengths
13
4.34k
targets
stringlengths
4
112k
dataset_name
stringclasses
1 value
sub_dataset_name
stringclasses
1 value
task_type
stringclasses
1 value
template_id
int64
0
0
language
stringclasses
1 value
split
stringclasses
1 value
script
stringclasses
1 value
18
نوری سال کے بارے میں کوی شعر بتایں
نوری سال کے بارے میں اشتیاق احمد کا شعر ہے: ر و شنی سب سے تیز چلتی ہے اس کے جیسے نہیں کسی کی چال ایک برس میں جو سفر کرتی ہے اس کو کہتے ہے ایک نوری سال۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
314
چار دوست—ایلس، باب، کیرول اور ڈیو—ایک قطار میں بیٹھے ہیں۔ ایلس کہتی ہے، "باب بہت بائیں طرف نہیں ہے۔" باب کہتے ہیں، "ڈیو بہت دائیں طرف نہیں ہے۔" کیرول کا کہنا ہے، "ایلس بہت بائیں یا بہت دائیں طرف نہیں ہے." ڈیو کہتے ہیں، "باب بائیں سے دوسرے نمبر پر ہے۔" ہر شخص کہاں بیٹھا ہے؟
ایلس بہت بائیں طرف ہے، باب بائیں سے دوسرے، کیرول دائیں سے دوسرے، اور ڈیو بہت دائیں طرف ہے۔ اگر ایلس بائیں جانب نہ ہوتی تو باب کا بیان غلط ہوگا۔ اگر باب بہت بائیں طرف ہوتے تو ڈیو کا بیان غلط ہوگا۔ لہذا، ایلس بہت بائیں طرف ہے، اور ڈیو بہت دائیں طرف ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
881
صحیح جواب منتخب کریں کیڑے مار ادویات اور کھاد کسانوں کو زیادہ فصلیں پیدا کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ تاہم، ان کیمیکلز کے زیادہ استعمال کے نتیجے میں ہو سکتا ہے (ایک) ماحولیاتی جانشینی؛ (ب) مواد کی ری سائیکلنگ؛ (ج) ماحولیاتی آلودگی؛ (د) انتخابی افزائش
صحیح جواب ہے (ج): ماحولیاتی آلودگی؛
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
1,726
څلور ملګري — الیس، باب، کارول، او ډیو — په یوه قطار کې ناست دي. الیس وايي، "باب لرې کیڼ اړخ ته نه دی." باب وايي، "ډیو په ښي خوا کې نه دی." کارول وايي، "ایلس نه لیرې کیڼ لور ته نه ښي خوا ته." ډیو وايي، "باب له کیڼ اړخ څخه دوهم دی." هر سړی چیرته ناست دی؟
ایلیس په چپ اړخ کې دی، باب له کیڼ څخه دوهم دی، کارول له ښي اړخ څخه دوهم دی، او ډیو په ښي خوا کې دی. که الیس په لیرې کیڼ اړخ کې نه و، د باب بیان به غلط وي. که باب په لیرې کیڼ اړخ کې و، د ډیو بیان به غلط وي. له همدې امله، ایلیس په ښي خوا کې دی، او ډیو په ښي خوا کې دی.
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
1,737
بھارت میں آبادی کے دھماکے پر مضمون اردو میں | Article on Population Explosion in India In Urdu
جس طرح ایک چھوٹے خاندان کے بڑے خاندان سے زیادہ خوشحال ہونے کا امکان ہے، اسی طرح کم آبادی والا ملک بھی خوشحالی کے اپنے اہداف کو پورا کرنے کا زیادہ امکان رکھتا ہے۔ جب وسائل طے ہو جاتے ہیں لیکن صارفین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے، تو وسائل کا مکمل کریک ڈاؤن ہونا پڑتا ہے اور، ہندوستان میں ایسا ہی ہوتا رہتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ برا محسوس کرنے کے لیے وہ موقع ہے جب ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہمارے پاس اناج کی وافر مقدار ہے لیکن ہم بیک وقت بھوک کی وجہ سے ہونے والی اموات کے بارے میں سنتے ہیں۔ یہ بے ضابطگی کسی بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ یقیناً اس صورت حال کے پیدا ہونے کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں لیکن ہمارے تمام مسائل کی بنیادی جڑ صرف آبادی سے زیادہ ہے۔ دیگر تمام وجوہات اور مسائل ہندوستان میں آبادی کے دھماکے کے اس مسئلے کے لیے ثانوی ہیں۔ اب تک یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ ہماری اولین ترجیحی مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہماری بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہندوستان نے اپنی آزادی کے پچھلے پچاس سالوں میں ترقی نہیں کی ہے، پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واضح ترقی ہے تو پھر ہندوستان کو کم از کم تیسری دنیا کے ملک کے درجہ سے باہر آنے سے کیا چیز روکتی ہے؟ مجھے یقین ہے کہ مجرم ہماری آبادی ہے۔ اس کا تجزیہ کرنے کے لیے، ہم ترقی کے کسی بھی شعبے میں جا سکتے ہیں، اور ہمیں یہ احساس ہو گا کہ بلاشبہ، ہندوستان نے ترقی کی طرف بہت بڑی پیش رفت کی ہے، لیکن اسے اب بھی ایک غریب کمزور قوم قرار دیا جاتا ہے، کیوں؟ آئیے مثال کے طور پر تعلیم کے مسئلے کو لے لیں۔ ہمارے ہاں دیہات، شہروں، قصبوں میں ہر جگہ اسکول ہیں لیکن پھر بھی تعلیم دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب دس لاکھ بچوں کے لیے سکول تیار ہو کر کمیشن میں چلے جاتے ہیں، بچوں کی آبادی بیس لاکھ تک پہنچ جاتی ہے، اور ہم اسی پوزیشن پر رہتے ہیں، اور پھر سے مزید سکول شروع کر دیتے ہیں اور وہی کہانی دوبارہ دہرائی جاتی ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری رہتا ہے۔ . یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے تمام بچوں کو سکول بھی فراہم نہیں کر سکے۔ ترقی کے کسی بھی شعبے میں یہی پوزیشن اچھی ہوتی ہے۔ ایک کروڑ لوگوں کے لیے صحت کے منصوبے بنائے جاتے ہیں اور جب تک ان کے لیے ہسپتال تیار ہو کر کام شروع کر دیتے ہیں، آبادی دگنی ہو جاتی ہے، اور پھر ہمارے پاس صحت کی سہولیات کی کمی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو ہر شعبے میں پیدا ہوتا ہے چاہے وہ تعلیم ہو، صحت ہو، رہائش ہو، سڑکیں ہوں، روزگار وغیرہ۔ ہم بہت کچھ پیدا کرتے ہیں لیکن جب ہم اپنے پیداواری اہداف تک پہنچ جاتے ہیں تو آبادی کا دھماکہ ہمیں ایک مربع پر لے آتا ہے اور ہم ایک بار پھر انصاف پسند ہیں۔ وہیں جہاں سے ہم نے شروع کیا تھا۔ میں اس تمام معذوری کی وجہ ہماری ہمہ جہت ترقی میں محسوس کرتا ہوں آبادی سے زیادہ ہے۔ اس کی وجہ زیادہ آبادی کی پسماندگی اور ناخواندگی اور کئی قسم کے توہمات اور عقائد ہیں۔ اب بہت زیادہ آبادی ہے، ہم اس مسئلے سے کیسے نمٹیں؟ اس تعطل کی تمام وجوہات بھی معلوم ہیں لیکن ان تمام اسباب کو ایک دم منظر سے نہیں مٹایا جا سکتا۔ لہذا، اگر ہمیں اس مسئلے سے نمٹنا ہے تو ہمیں دو دھاری ہتھیار استعمال کرنا ہوں گے۔ ایک یہ کہ عوام کو چھوٹے خاندانوں کے فوائد سے روشناس کرایا جائے اور دوسرا اس آبادی کو ملک کے فائدے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ہمیں یہ فن چین سے سیکھنا چاہیے، ایک اور ملک جس کی آبادی بہت زیادہ ہے۔ چین کو اپنی زیادہ آبادی کے بارے میں کبھی گھبراتے ہوئے نہیں سنا جاتا ہے، کیونکہ وہ اسے طاقت کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ آبادی کو ملک کے لیے قدرتی وسائل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ افرادی قوت کو خوشحالی پیدا کرنے کے لیے وسائل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس آبادی کو سڑکوں کی تعمیر، عمارت کی تعمیر وغیرہ کے لیے مفید طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے ملک کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی نظر آئے گی۔ اس طرح پھٹتی ہوئی آبادی پر دو جہتی حملہ کم سے کم، زیادہ آبادی کے نقصان کو کم کر سکتا ہے۔ اس موقع پر یہ یاد رکھنا ضروری ہو گا کہ جب تک آبادی زیادہ ہے وہاں 'Haves' اور "Have Not's کے درمیان ایک جمائی کا فرق ضرور ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ کبھی بھی حقیقی صحت مند ترقی کی اجازت نہیں دے گا۔ ابھی تک اس مسئلے کی وجہ سے ہم ترقی میں ایک قدم آگے بڑھتے ہیں اور دو قدم پیچھے چلے جاتے ہیں اور اس طرح پیشرفت حقیقت میں محسوس نہیں ہوتی۔ جب تک ترقی کی طرف اور جانے کی یہ تحریک رک نہیں جاتی، تھوڑی سی پیش رفت ہو سکتی ہے۔ اتنی زیادہ آبادی کی وجہ سے ہندوستان ہر بحران میں پہلے نمبر پر آیا ہے۔ پولیو کے کیسز میں سب سے پہلے، ایڈز کے کیسز میں سب سے پہلے، بھوک اور موسم کی وجہ سے ہونے والی اموات، یہ سب یہاں دنیا میں کہیں بھی اور تیسری دنیا سے بھی زیادہ ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
1,761
دل کے امراض سے بچنے کے لیے کس قسم کا کھانا کھانا چاہیے؟
آپ کو یہ معلوم ہو گا کہ کچھ مخصوص غذائیں کھانے سے دل کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور اپنی ڈائٹ کو تبدیل کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ این ڈی ٹی وی کے مطابق دل کو بیماریوں سے بچانے والی سات غذائیں بھی ہیں جن کے کھانے سے آپ اپنے دل کو صحت مند رکھ سکتے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ دل کو صحت مند رکھنے والی سات غذائیں کون سی ہیں۔ کالا لوبیا کالا لوبیا وزن میں ہلکا، لچکدار اور معدنیات سے بھرپور ہوتا ہے۔ میگنیشیئم، فولیٹ اور اینٹی آکسیڈنٹ بلڈ پریشر کو کم رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ اُن کے فائبر سے بلڈ شوگر کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے اور کولیسٹرول ٹھیک رہتا ہے۔ آپ کالے لوبیے کو سوپ اور سلاد میں شامل کر کے معدنیات سے مزید سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ السی کا بیج اور تخم شربتی السی کے بیج اور تخم شربتی میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔ ان بیجوں میں فیٹی ایسڈ اور الفا لائینو لینک ایسڈ پودوں سے ملتا ہے۔ اومیگا تھری فیٹی ایسڈ سے صحت پر مثبت اثرات ہیں جس سے یہ ٹرائی گلائیسیرائڈ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ایل ڈی ایل اور کولیسٹرول کے لیول کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ ان بیجوں کے باعث بلڈ پریشر اور خون کی شریانوں میں جمی چکناہٹ اور چربی کم ہوتی ہے۔ اومیگا تھری فیٹی ایسڈ سے دل کا دورہ پڑنے کا چانس کم ہوتا ہے۔ سالمن مچھلی سالمن دل کی صحت کے لیے ایک بہترین غذا ہے کیونکہ اس میں اومیگا تھری بڑی تعداد میں موجود ہوتی ہے۔ اومیگا تھری صحت مند فیٹ ہیں جن سے بلڈ پریشر میں کمی ہوتی ہے اور دل کی بیماریاں ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔ اخروٹ روزانہ چند اخروٹ کھانے سے کولیسٹرول میں کمی ہوتی ہے۔ اس سے انسان کے دل میں شریانوں کی سوزش بھی نہ ہونے میں مدد ملتی ہے۔ اخروٹ میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ، مونو انسیچوریٹڈ فیٹس، پلانٹ سٹیورولز اور فائبر کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ دلیہ دلیے سے ذیابیطس میں کمی ہوتی ہے جبکہ اسے وقتاً فوقتاً کھانے سے بلڈ شوگر میں بھی کمی ہوتی ہے۔ دلیے سے آپ کا پیٹ کئی گھنٹوں تک بھرا رہتا ہے اور صحت کے لیے نقصان دہ سنیکس کھانے سے نجات ملتی ہے۔ دلیے میں موجود فائبر سے ایل ڈی ایل اور صحت کے لیے نقصان دہ کولیسٹرول کم ہوتا ہے جس سے آپ کے دل کو کی بیماریاں ہونے کی امکانات کم ہوتے ہیں۔ ہرے پتوں والی سبزیاں ہرے پتوں والی سبزیاں جیسا کہ پالک، بند گوبھی اور سبز پتے جیسے کے مولی کے پتے وغیرہ وٹامن، معدنیات اور اینٹی آکسیڈنٹ سے بھرپور ہوتے ہیں۔ یہ خاص طور پر وٹامن کے کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں جس سے دل کی شریانیں محفوظ رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں کافی مقدار میں غذائی نائٹریٹ ملتی ہے جس سے بلڈ پریشر کم ہوتا ہے، شریانیں ڈھیلی پڑتی ہیں اور خون کی رگوں میں خلیے ٹھیک طرح سے کام کرتے ہیں۔ بیریز سٹرابیریز، بلیو بیریز، بلیک بیریز اور راسپ بیریز میں اہم معدنیات کثرت سے پائی جاتی ہیں جو کہ دل کی صحت کو ٹھیک رکھنے کے لیے نہایت اہم ہیں۔ آکسیڈیٹو دباؤ اور سوزش جس سے دل کی بیماریاں ہوتی ہیں، وہ بیریز میں پائے جانے والے اینٹی آکسیڈنٹس جیسا کہ اینتھو سیاننز سے ختم ہوتے ہیں۔ بیریز کے کھانے سے دل کو لاحق کئی عارضے ٹھیک ہوتے ہیں۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
1,903
سقراط: "عاشق، پرندے کی طرح، اپنے محبوب سے گانے کے لیے متاثر ہوتا ہے۔ کیونکہ محبوب کی آواز عاشق کے کانوں میں ایک ناقابل بیان خوشی لاتی ہے۔" آپ کے خیال میں سقراط کیا بات کر رہا ہے؟
افلاطون کے "Phaedrus" کے اس مختصر مکالمے میں سقراط محبت کی نوعیت اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی طاقت کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ وہ مشورہ دے رہا ہے کہ جب کوئی پیار کرتا ہے تو محبوب شخص کی محض موجودگی یا آواز ہی بے پناہ خوشی اور ترغیب دے سکتی ہے۔ سقراط اکثر اپنے مکالموں میں محبت اور اس کی مختلف شکلوں کے بارے میں فلسفیانہ بحثیں کرتا ہے، اس بات پر زور دیتا ہے کہ اس کا کسی فرد کے جذبات اور اعمال پر کیا گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
2,465
میانوالی میں چھوٹے ڈیمز بنانے والے امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی کی کیا کہانی ہے؟
امریکہ میں مقیم پیر مقصود علی شاہ کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی کے ایک دور دراز گاؤں تبی سر سے ہے، جہاں انہوں نے پانی کے راستوں پر چھوٹے چھوٹے بند باندھ کر انقلاب بپا کر دیا ہے۔ نوے کی دہائی میں امریکہ منتقل ہونے والے پیر مقصود شاہ نے اپنے علاقے کے ایک بزرگ کے مشورے پر چھوٹے ڈیمز بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ابتدائی طور پر انہوں نے برساتی نالوں کے آگے بند باندھ کر ان کا پانی ضائع ہونے سے بچایا اور چھوٹے چھوٹے تالاب بنا کر پانی ذخیرہ کرنا شروع یا۔ بعدازاں جب اس کے ثمرات واضح ہونا شروع ہو گئے تو انہوں نے امریکہ سے مزید پیسے بھیج کر کام کو وسیع کیا اور قریبی آبادیوں کو پانی فراہم کرنے کے لیے ان کے گھروں کے ساتھ موجود برساتی نالوں اور بارش کا قدرتی پانی ذخیرہ کرنا شروع کیا۔ علاقہ مکینوں نے اپنی زمینیں وقف کرنا شروع کر دیں کیوں کہ یہاں کے لوگوں کا بنیادی مسئلہ پانی تھا۔ اس منصوبے کے سربراہ اور پیر مقصود علی شاہ کے بھائی پیر سید گل علی شاہ نے بتایا کہ ’ہم لوگ یہاں مفت کام کرتے ہیں اور یہ سب اللہ کی رضا اور زیر زمین پانی کی سطح بلند کرنے کے لیے کر رہے ہیں تاکہ یہاں مقیم آبادی، چرند پرند اور جانوروں کے لیے وافر مقدار میں پانی دستیاب ہو۔ ’اب تک ہم 65 منی ڈیمز بنا چکے ہیں، جب کہ 10 دوسرے سمال ڈیمز بھی بن چکے ہیں اور 11ویں سمال ڈیم پر کام جاری ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ ان ڈیمز کو آبی ذخیرہ بھی کہا جاتا ہے اور ان میں سے دو ڈیمز ایسے ہیں جو کنکریٹ سے بنائے گئے ہیں۔ ’ڈیمز بنانے کے لیے ہم نے مقامی آبادی،، حکومت یا کسی غیر سرکاری ادارے سے پیسے نہیں لیے بلکہ سارا پیسہ امریکہ میں مقیم پاکستانی پیر سید مقصود علی شاہ فراہم کرتے ہیں۔‘ انہوں نے بتایا کہ پیر مقصود علی شاہ کا مشن ڈیمز بنا کر ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ، زیر زمین پانی کی سطح بلند کرنا اور علاقہ مکینوں کو پانی کی فراہمی کا عمل جاری رکھنا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پیر مقصود علی شاہ یہاں کے سکولوں میں فرنیچر بھی فراہم کر چکے ہیں اور پورے علاقے میں درخت لگانے کا کام بھی کر رہے ہیں۔ ’اب ڈیمز میں کچھ مچھلیاں بھی چھوڑی ہیں تاکہ آبی حیات کو بھی فائدہ پہنچے۔‘
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
2,603
الجبرا کے بارے میں بتایں:
ریاضیات کی ایک شاخ الجبرا جس میں مطالعہ کیا جاتا ہے ریاضیاتی عالجوں کا اور وہ اشیاء جو ان سے بنائی جا سکتی ہیں، جس میں اصطلاحات، کثیر رقمی، مساوات اور الجبرائی ساختیں شامل ہیں۔ ہندسہ، تحلیل، وضعیت، تراکیب اور نظریہ عدد، کے ساتھ الجبرا خالص ریاضی کا بڑا حصہ ہے۔ ثانوی تعلیم میں ابتدائی الجبرا نصاب کا حصہ ہوتا ہے جس میں اعداد کی نمائندگی کرنے والے متغیر کا تعارف کرایا جاتا ہے۔ ان متغیر پر مبنی بیانات کو عالجی قواعد، جیسا کہ جمع، کے ذریعہ برتا جاتا ہے۔ یہ متنوع وجوہات کے لیے کیا جاتا ہے، جیسا کہ مساوات کے حل کرنے کے لیے۔ الجبرا کا شعبہ ابتدائی الجبرا سے بہت وسیع ہے اور اس میں مختلف عالجی قواعد کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا ہوتا ہے جب عالج اختراع کیے جائیں اور ان کا اعداد کے علاوہ اشیاء پر اطلاق کیا جاتا ہے۔ جمع اور ضرب کے عالجوں کو جامعاتی شکل دی جاتی ہے اور ان کی ٹھیک تعاریف الجبرائی ساختوں کی طرف لے جاتی ہیں، جیسا کہ گروہ، حلقۂ اور میدان۔ تاریخ الخوارزمی کی کتاب الكتاب المختصر في حساب الجبر والمقابلة کا ایک صفحہ لفظ الجبرا عربی الجبر سے اخذ ہے اور یہ الخوارزمی کی کتاب "الكتاب المختصر في حساب الجبر والمقابلة" سے لیا گیا ہے۔ یہ کتاب عرب ریاضیدان نے 820ء میں لکھی۔ الخوارزمی کو پدرِ الجبرا کہا جاتا ہے۔[1] اس تناظر میں لفظ الجبر کا مطلب "اتحاد مکرر" یا "بجالی" ہے۔ الخوارزمی نے گھٹاؤ اور ترازو متعارف کرایا (تفریق کی گئی اصطلاحات کو مساوات کی دوسری طرف لے جانا، یعنی، ہم مشابہ اصطلاحات کا مخالف اطراف میں کاٹنا ) جس کی طرف لفظ الجبر اصل طور پر اشارہ کرتا تھا۔[2] الخوارزمی نے چکوری مساوات کے حل کرنے کے طریقہ تفصیلی بھی بیان کیا،[3] جس کے ساتھ ہندساتی ثبوت دیے اور اس کے ساتھ ساتھ الجبرا کو آزاد شعبہ کے طور سلوک کرتے ہوئے بیان کیا۔[4] "اس کا الجبرا مسائل کا سلسلہ حل کرنے سے متعلق نہیں تھا، بلکہ ایک توضیح تھا جو اولیٰ اصطلاحات سے شروع کر کے اور جب ان اصطلاحات کے تولیفات ضرور مساوات کے لیے تمام ممکنہ نموزج دیں اور اس طرح شے کا سچا مطالعہ تشکیل دیں۔ " اس نے مساوات کو ان کے اپنے واسطے مطالعہ کیا، "جامع طور پر اور یہ سادہ طریقہ سے کسی مسئلہ کے حل کے دوران پیدا نہیں ہوتیں، بلکہ مسائل کی ایک لامتناہی جماعت کو تعریف کرنے کے لیے۔ "[5] فارسی ریاضیدان عمر خیام نے الجبرائی ہندسہ کی بنیاد استوار کی اور مکعب مساوات کا ہندساتی حل پیش کیا۔ ایک اور فارسی ریاضی دان شرف الدین الطوسی نے مکعب مساوات کے عددی اور الجبرائی حل مختلف ماجروں میں ڈھونڈے۔[6] اس نے دالہ کا تخیل بھی پیش کیا۔[7] جماعت بندی الجبرا کو ان زمرہ جات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے : ابتدائی الجبرا، جس میں حقیقی اعداد پر عالج کے خاصوں کو لکھا جاتا ہے، علامات کو دائم اور متغیر کے لیے "جگہ پکڑ" استعمال کرتے ہوئے اور ریاضیاتی اظہار اور مساوات پر لاگو قواعد کا مطالعہ کیا جاتا ہے جن میں یہ علامات استعمال ہوتی ہیں۔ عام طور پر یہ مدرسہ میں "الجبرا" کے نام سے پڑھایا جاتا ہے۔ تجریدی الجبرا، جسے مُتَاَخِّر الجبرا بھی کہتے ہیں، میں الجبرائی ساختیں جیسا کہ گروہ، حلقہ اور میدان کو مسلماتی تعریف اور تشویش کیا جاتا ہے۔ خطی الجبرا، میں لکیری فضاء اور میٹرکس کے خاصوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ کائناتی الجبرا، جس میں تمام الجبرائی ساختوں میں مشترک خاصوں کو پڑھا جاتا ہے۔ نظریہ الجبرائی عدد، جس میں اعداد کے خاصوں کو الجبرائی نظام کے ذریعہ پڑھا جاتا ہے۔ الجبرائی ہندسہ، ہندسہ اپنے الجبرائی پہلو سے ۔ الجبرائی تالیفیات، جس میں الجبرائی طریقوں سے تولیفیاتی سوالوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ حوالہ جات Carl B. Boyer, A History of Mathematics, Second Edition (Wiley, 1991), pages 178, 181 (Boyer 1991, "The Arabic Hegemony" p. 229) اگرچہ "الجبر" اور "مقابلہ" کے معنی میں ابہام ہے، مگر ان کی تفسیر وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔ "الجبر" کا مطلب غالباً "بجالی" یا "تکمیل" تھا، اس کا معنی تفریق شدہ اصطلاحات کو مساوات کی دوسری طرف پلٹنا تھا؛ اور "مقابلہ" کا مطلب "گھٹاؤ" اور "ترازو" - یعنی، مشابہ اصطلاحات کا مساوات کے مخالف اطراف میں کاٹنا۔ (Boyer 1991, "The Arabic Hegemony" p. 230)"چکوری اور لکیری مساوات کے حل میں ممکن چھ ماجروں جب جڑیں مثبت ہوں، تمام ممکنہ ماجروں کا احاطہ کرتے ہیں۔ الخوارزمی کا بیان اتنا تفصیلی تھا کہ قارئین کو تھوڑی مشکل ہوتی ہو گی ان سب کو سمجھنے میں" Gandz and Saloman (1936), The sources of al-Khwarizmi's algebra, Osiris i, p. 263–277: "الخوارزمی الجبرا کا باپ کہلانے کا ڈیوپھانٹس سے زیادہ حقدار ہے کیونکہ اس نے الجبرا کو سب سے پہلے ابتدائی صورت میں پڑھایا اور اپنے واسطے، ڈیوپھانٹس کا اولٰی تعلق نظریہ اعداد سے ہے۔ " لوا خطا ماڈیول:Citation/CS1/Utilities میں 38 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ لوا خطا ماڈیول:Citation/CS1/Utilities میں 38 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔. لوا خطا ماڈیول:Citation/CS1/Utilities میں 38 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
2,732
انسٹاگرام پر حوالے کیا ہوتے ہیں؟
انسٹاگرام پر "ریفرنسز" عموماً آپ کی پوسٹوں، کیپشنز یا تبصرے میں دوسرے صارفین کے ذکر یا ٹیگ کا مطلب ہوتا ہے۔ جب آپ اپنے مواد میں کسی دوسرے صارف کا یوزر نیم ذکر کرتے ہیں یا ٹیگ کرتے ہیں، تو ان کے پروفائل کا لنک بنتا ہے اور ان کو مطلع کیا جاتا ہے کہ ان کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ دوسرے صارفین سے رابطہ قائم کرنے، ان کو شناخت دینے، تعاون کرنے یا صرف آپ کی مشترکہ حوالے دینے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
2,860
پوښتنه: كه چرګ د يو ټيټ چت په سر هګۍ واچوي، په كومه لار به وګرځي؟
ځواب: مرغان هګۍ نه اچوي. یوازې چرګان، ښځینه مرغۍ، هګۍ اچوي. دا پوښتنه د منطقي موړ رامینځته کولو لپاره د کلمو په لوبې تکیه کوي.
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
3,021
کینوا کیا ہے؟
کینوا ایک آن لائن گرافک ڈیزائن پلیٹ فارم ہے جو صارفین کو ڈیزائنز، پریزنٹیشنز، پوسٹرز، دستاویزات، اور دیگر بصری مواد تخلیق کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اس میں آسانی سے استعمال ہونے والے ڈریگ اینڈ ڈراپ انٹرفیس اور ہزاروں ٹیمپلیٹس کا انتخاب ہوتا ہے، جو کاروباری اور ذاتی استعمال دونوں کے لیے موزوں ہیں۔ کینوا کا بنیادی ورژن مفت ہے، لیکن پریمیم خصوصیات تک رسائی کے لیے سبسکرپشن بھی پیش کرتا ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
3,084
کیا ہم واقعی کچھ بھی جان سکتے ہیں، یا تمام علم شکوک و شبہات کا شکار ہیں؟ یقین اور علم کی نوعیت کو دریافت کریں۔
یہ سوال علم کے مطالعہ سے متعلق علمی علم میں شامل ہے۔ فلسفیانہ شکوک و شبہات بعض علم کے امکان کو چیلنج کرتا ہے، اس بات پر زور دیتا ہے کہ تمام عقائد شک کے تابع ہیں۔ تاہم، بہت سے ماہر علمیات کا استدلال ہے کہ اگرچہ قطعی یقین مضحکہ خیز ہو سکتا ہے، پھر بھی ہم تجرباتی شواہد، دلیل اور قابل اعتماد ذرائع سے جائز عقائد حاصل کر سکتے ہیں۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
3,089
دیے گئے منفی جملوں کو مثبت جملوں میں تبدیل کریں: میں نے پہلے کبھی اکیلے سفر نہیں کیا۔
جی بلکل. یہ جملہ ہے جو مثبت میں تبدیل ہو گیا ہے: میں نے پہلے بھی اکیلے سفر کیا ہے
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
3,118
سرسید احمد خان کا دو قومی نظریہ وقت کے ساتھ کس طرح تیار ہوا، اور اس نے 20ویں صدی میں پاکستان کے قیام کی نظریاتی بنیادیں رکھنے میں کیا کردار ادا کیا؟
سر سید احمد خان کا دو قومی نظریہ، ابتدائی طور پر 19ویں صدی کے ہندوستان میں مسلمانوں کے سماجی و سیاسی حالات کے جواب کے طور پر وضع کیا گیا، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں نمایاں ارتقاء ہوا۔ جب کہ اس نے ابتدائی طور پر موجودہ فریم ورک کے اندر سماجی و اقتصادی ترقی اور سیاسی نمائندگی پر توجہ مرکوز کی، اس کے بعد علامہ اقبال اور محمد علی جناح جیسے رہنماؤں نے اپنے نظریات کو وسعت دی۔ دو قومی نظریہ، جیسا کہ 20 ویں صدی میں بیان کیا گیا تھا، نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہندو اور مسلمان مختلف تاریخی، ثقافتی اور مذہبی شناختوں کے ساتھ الگ الگ قومیں ہیں، جس کی وجہ سے ایک الگ مسلم ریاست کا مطالبہ شروع ہوا، جس کے نتیجے میں 1947 میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ .
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
3,256
ایسے کون کون سے کھانے ہیں جو وزن بڑھاتے ہیں؟
ہم جو چیز کھاتے ہیں اس کا ہمارے جسم پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ غذائیت سے بھرپور اشیا کھانے سے ہم تندرست رہتے ہیں تاہم کچھ کھانے کی چیزیں ایسی بھی ہیں جو ہمارا وزن بڑھاتی ہیں۔ ہم کچھ ایسے کھانے بھی کھا رہے ہوتے ہیں جن کا ہمیں علم نہیں ہوتا کہ وہ ہماری صحت کے لیے کتنا نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ کھانے کی وہ سات چیزیں کون سی ہیں جو ہمارا وزن بڑھا رہی ہیں۔ پھلوں کے جوس یہ بات عام طور پر رائج ہے کہ پھلوں کا جوس قدرتی طور پر پھلوں کے اجزاء کے باعث ہماری صحت کے لیے مفید ہوتا ہے تاہم وہ ہمارا وزن بھی بڑھانے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ دکانوں پر فروخت ہونے والے کمرشل جوس اضافی شوگر سے بھرپور ہوتے ہیں جن سے ہماری کیلوریز جلدی سے بڑھتی ہیں جبکہ جوس بنانے کے مرحلے میں پھلوں سے فائبر نکال لیا جاتا ہے جس سے ہماری کیلوریز میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ گرینولا بار گرینولا بار کو آسان اور صحت مند سنیک کے طور پر کھایا جاتا ہے تاہم گرینولا بار میں کبھی کھبار اضافی شوگر اور فیٹس بھی موجود ہوتی ہیں۔ دکانوں پر فروخت ہونے والی گرینولا بار میں چاکلیٹ چپس، شہد اور بقیہ میٹھا مواد ہوتا ہے جسے زیادہ مقدار میں کھانے سے وزن بڑھ سکتا ہے۔ ڈارئی فروٹ عام طور پر فروٹ کھانا صحت کے لیے مفید ہوتے ہیں تاہم انہیں ڈرائی کرنے کے عمل کے باعث ان میں موجود شوگر پک جاتی ہے جس کے باعث ڈرائی فروٹ کیلوریز سے بھرپور غذا بن جاتے ہیں۔ مٹھی بھر ڈرائی فروٹ کھانا کوئی بڑی بات نہیں لگتی تاہم اس سے ہمارے جسم کی کیلوریز تیزی سے بڑھتی ہیں۔ نٹ بٹر نٹ یعنی خشک میوے جسم کے لیے مفید چربی اور پروٹین کا ایک بہترین ذریعہ ہیں تاہم نٹ بٹر کے لیے ایسا نہیں کہا جا سکتا۔ نٹ بٹر کے کئی کمرشل برینڈز میں آئل، شوگر اور مصنوعی اجزاء اس کے ذائقہ اور معیار کو بڑھانے کے لیے ڈالے جاتے ہیں۔ یہ اضافی اجزاء نٹ بٹر میں کیلوریز کو تیزی سے بڑھا دیتے ہیں اور اگر اسے زیادہ مقدار میں کھایا جائے تو ہمارا وزن بڑھتا ہے۔ سموتھیز سموتھیز سے ہماری غذا میں پھلوں اور سبزیوں کو شامل کیا جا سکتا ہے تاہم ان میں کیلوریز اور شوگر کی بھرپور تعداد پائی جاتی ہے۔ ایسی سموتھیس جو کہ سٹور سے خریدی گئی ہوں یا گھر میں اضافی میٹھے اجزاء سے بنائی گئی ہوں، اُن میں کیلوریز کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔ سموتھیز ایک ایسا مشروب ہوتا ہے جو کہ فروٹ جوس اور خشک دہی سے بنایا جاتا ہے جس میں میٹھا کثرت سے پایا جاتا ہے جس کے باعث اگر اسے زیادہ پیا جائے تو وزن بڑھ سکتا ہے۔ اگر سموتھیز میں صرف پھل یا سبزیاں یا بغیر میٹھے کے دودھ شامل کیا جائے تو پھر یہ صحت کے لیے مفید ہو سکتے ہیں۔ سلاد ڈریسنگ سلاد کو عام طور پر وزن کم کرنے کے لیے ایک بہترین خوراک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن سلاد ڈریسنگ یعنی سلاد پر ساوس کا استعمال اسے کیلوریز سے بھرپور بنا دیتا ہے۔ بوتل میں دستیاب سلاد ڈریسنگ میں اضافی شوگر، نقصان دہ فیٹ اور مصنوعی اجزاء ہوتے ہیں جو کہ ہماری کیلوریز کو بڑھا دیتے ہیں۔ بازاری سلاد ڈریسنگ کی بجائے گھر میں موجود زیتون کے تیل، سِرکے، جڑی بوٹیوں اور مصالحوں کو سلاد کے فلیور کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وِیٹ بریڈ وِیٹ بریڈ کو وائٹ بریڈ کے مقابلے میں جسم کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے تاہم اس میں بھی کاربوہائیڈریٹس اور کیلوریز موجود ہوتی ہیں۔ اگر ہم بریڈ کا ایک بڑا حصہ کھاتے ہیں تو چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہو، اس سے ہمارا وزن بڑھتا ہے۔ اگر ہم وزن کم کرنے کے لیے بریڈ کو اپنی خوراک کا حصہ بناتے ہیں تو ہمیں اس کی مقدار کو دیکھنا ہو گا جبکہ دوسری جانب بریڈ خریدنے سے قبل اس کے اجزاء کو بھی دیکھنا چاہیے کیونکہ کچھ برینڈز میں اضافی شوگر اور مصنوعی اجزاء پائے جاتے ہیں۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
3,467
دیے گئے منفی جملے کو مثبت جملے میں تبدیل کریں۔ درختوں پر نئے پتے نہیں آئے۔
درختوں پر نئے پتے آچکے ہیں۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
3,498
سوال: زرعی معیشتوں سے صنعتی معیشتوں میں تبدیلی نے صنعتی دور میں سماجی ڈھانچے کو کیسے متاثر کیا؟
جواب: صنعتی دور میں زرعی سے صنعتی معیشتوں میں منتقلی کے گہرے سماجی اثرات مرتب ہوئے۔ جیسے جیسے کارخانے نمودار ہوئے، لوگوں کو شہری مراکز کی طرف کھینچتے ہوئے، ایک نیا محنت کش طبقہ تشکیل پایا۔ شہری کاری ایک متعین خصوصیت بن گئی، جس کے نتیجے میں شہروں کی ترقی اور روایتی زرعی بنیادوں پر سماجی ڈھانچے کا زوال ہوا۔ اس تبدیلی نے چیلنجز بھی لائے، جن میں کام کے خراب حالات، طویل اوقات، اور چائلڈ لیبر شامل ہیں۔ سماجی اور سیاسی تحریکیں اس کے ردعمل میں اٹھیں، مزدوروں کے حقوق، کام کے بہتر حالات، اور مزدور قوانین کے قیام کی وکالت کرتے ہوئے، سماجی اصلاحات کے دور اور نئے سماجی اصولوں کی تشکیل کی نشاندہی کی۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
3,918
کیا انسٹاگرام کام بگاڑ رہا ہے
اب تک بچے اور نوجوان طبقہ پب جی اور دوسرے موبائل گیمس کی وجہ سے اپنی زندگیاں تباہ کررہے تھے،ان ڈیجیٹل کھیلوں کی وجہ سے بچوں پر ذہنی اثر پڑرہاتھا،کئی بچے ذہنی توازن کھوچکے ہیں تو کئی بچوں اور نوجوانوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھوناپڑاہے۔اس طرح کے کھیلوں کو دیکھتے ہوئے بھارت سرکارنے ان کھیلوں پر پابندی لگا چکی ہے اور کئی بچوں کی صحیح رہنمائی اور کائونسلنگ ہونے کے بعد یہ بچے ان جان لیوا کھیلوں سے دورہوچکےہیں،لیکن پچھلے کچھ دنوں سے سوشیل کی ایک نئی وباء بچوں کی زندگیوں کو تباہ کررہی ہے،خصوصاًبچے اخلاقی گراوٹ کا شکارہورہے ہیں اور کم عمرمیں ہی ناجائز رشتے،جنسی حراسانی اور پیارومحبت کے جھوٹے جال میں پھنستے جارہے ہیں۔خاص طورپرسوشیل میڈیاپر مقبول ترین اپلیکیشن انسٹاگرام کی وجہ سے بچے اپنی حدود پارکررہے ہیں۔قریب ایک سال کے دوران سوشیل میڈیاکی اس انسٹاگرام اپلیکیشن پر بچے قبل از وقت جوان ہوچکے ہیں اور وہ پیار،عشق اور محبت کے چکرمیں پھنستے جارہے ہیں،کئی بچے سوشیل میڈیاکے اس خطرناک اپلیکیشن کی وجہ سے اپنی تعلیم متاثرکرچکے ہیں،ان حالات میں والدین کو اپنے بچوں پر نظررکھنا اس لئے مشکل ہورہاہے کہ والدین انسٹاگرام سے ناواقف ہیں اور وہاں ہونےوالی چاٹنگ،ویڈیوکال،آڈیوکال سے والدین ناواقف ہیں،جبکہ بچے اس اپلیکیشن میں خاص مہارت حاصل کرچکے ہیں۔کئی دنوں سے یہ باتیں سامنے آرہی ہیں کہ لڑکیاں مرتددہورہی ہیں اور وہ غیروں کے ساتھ تعلقات بنائی ہوئی ہیں۔ایک جائزے کے مطابق جو لڑکیاں اور عورتیں گھروں سے فرار ہوئی ہیں اُن میں بیشتر کی تعدادانسٹاگرام کے آیکٹیو یوزرس کے طورپر ہوئی ہے۔جس طرح سے سنگھ پریوارکا ایجنڈہ لوجہادکا نام دیکر مسلمانوں کو بدنام کرناہے،اُسی طرح سے لوٹراپ کے تحت مسلم لڑکیوں کو جال میں پھنسایاجارہاہے۔کم وبیش ہر بچے،جوان کے موبائل میں انسٹاگرام کا یہ اپلیکیشن موجودہے،جس میں بچے اور جوان اپنی سوچ وفکرکو سوشیل پلاٹ فارم پر بکھیرتے ہیں،اپنی تصویروں اور ویڈیوز کو عام کرتے ہیں،جس کی وجہ سے لوٹراپ گروپس کے نوجوان ان لڑکیوں اور عورتوں کو اپنے جال میں پھنسارہے ہیں۔انسٹاگرام کازیادہ تراستعمال14سے20سال تک کی لڑکیاں کررہی ہیں،جہاں پر انہیں آسانی کے ساتھ بہلایاپھسلایاجارہاہے اور وہ اپنی زندگیوں کودائو پر لگا رہی ہیں۔حالانکہ اس جال میں پھنسنےوالی کئی عورتیں غیروں کے ساتھ شادیاں رچاکر بعدمیں پچھتا رہی ہیں،حال ہی میں حیدرآباد کی ایک مسلم لڑکی نے انسٹاگرام پر ہونےوالی محبت کے ساتھ ایک نوجوان سے شادی رچائی تھی اور وہ ظلم وتشددکا شکارہوئی،بعدمیں اس نے تنگ آکر خودہی پھانسی لگا کر خودکشی کرلی ہے۔ایسے واقعات کسی کے گھرمیں بھی پیش آسکتے ہیں،اس کیلئے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے سوشیل میڈیا کے استعمال پر غورکریں،پہلے تو اُنہیں ایسے اپلیکیشن کے استعمال سے روکیں،اگر ان کے موبائل فون پر ایسے اپلیکیشن موجود ہوں تو اُسے ہٹائیں اور اُن کی ذہن سازی کیلئے معقول انتظامات کریں،انہیں دوسری سرگرمیوں میں مصروف رکھیں،مطالعہ یا کھیلوں میں مصروف کیاجائے اور اپنے بچوں کو اپنی موجودگی میں ہی موبائل کے استعمال کیلئے ماحول بنائیں،ورنہ مشکلات بڑھ سکتی ہیں اورانسٹاگرام کا استعمال کام تمام کرسکتاہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
4,079
کیا آپ ایڈم سمتھ کے "غیر مرئی ہاتھ" کے نظریہ اور معاشیات میں اس کے کردار کی وضاحت کر سکتے ہیں؟
ایڈم سمتھ کا نظریہ "غیر مرئی ہاتھ" معاشیات میں ایک بنیادی تصور ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب افراد آزاد منڈی میں اپنے مفادات کی پیروی کرتے ہیں، تو وہ غیر ارادی طور پر پورے معاشرے کی بھلائی کو فروغ دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مارکیٹ میں مقابلہ وسائل کی موثر تقسیم، اعلی پیداواری صلاحیت اور بالآخر معاشرے کی ضروریات کی تسکین کا باعث بنتا ہے۔ پوشیدہ ہاتھ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کس طرح انفرادی اعمال، جو خود غرضی سے متاثر ہوتے ہیں، اجتماعی طور پر معاشرے کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
4,095
19ویں صدی میں قوم پرستی نے قومی ریاستوں کی ترقی کو کیسے متاثر کیا؟
19ویں صدی میں قوم پرستی کے عروج نے قومی ریاستوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ قوم پرستی نے آزادی، اتحاد اور خود ارادیت کی تحریکوں کو ہوا دی۔ مثال کے طور پر، اطالوی اور جرمن اتحاد کی تحریکوں نے مشترکہ ثقافتی، لسانی یا تاریخی تعلقات کی بنیاد پر بکھرے ہوئے خطوں کو مربوط قومی ریاستوں میں متحد کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح، لاطینی امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں قوم پرست تحریکوں کا مقصد علاقوں کو نوآبادیاتی حکمرانی سے آزاد کرانا، آزاد قومی ریاستوں کی تشکیل میں کردار ادا کرنا تھا۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
4,156
ذہانت سے کیا مراد ہے؟ اس کو کیسے ناپا جاسکتا ہے اور اس کی کتنی اقسام ہیں؟
ذہانت (Intelligence) اصل میں عقل (Mind) کی وہ صلاحیت یا خاصیت ہوتی ہے جس کی مدد سے وہ کسی بات یا تجربے کا ادراک و فہم کر سکتی ہو یعنی اس کو سمجھ سکتی ہو۔ اس سمجھ بوجھ کے عمل میں بہت سی ذہنی خصوصیات شامل ہوتی ہیں جن میں سبب، منصوبہ، بصیرت اور تجرید (Abstraction) وغیرہ شامل ہیں۔ 1) ذہانت کا حصہ (IQ) 2) جذباتی مقدار (EQ) 3) سماجی حصہ (SQ) 4) مصیبت کی مقدار (AQ) 1. ذہانت کا حصہ (IQ): یہ آپ کے فہم کی سطح کا پیمانہ ہے۔ آپ کو ریاضی کو حل کرنے، چیزیں یاد کرنے اور سبق یاد کرنے کے لیے IQ کی ضرورت ہے۔ 2. جذباتی اقتباس (EQ): یہ آپ کی دوسروں کے ساتھ امن برقرار رکھنے، وقت کی پابندی، ذمہ دار، ایماندار، حدود کا احترام، عاجز، حقیقی اور خیال رکھنے کی آپ کی صلاحیت کا پیمانہ ہے۔ 3. سماجی اقتباس (SQ): یہ دوستوں کا نیٹ ورک بنانے اور اسے طویل عرصے تک برقرار رکھنے کی آپ کی صلاحیت کا پیمانہ ہے۔ جن لوگوں کا EQ اور SQ زیادہ ہوتا ہے وہ زندگی میں ان لوگوں کے مقابلے میں آگے بڑھتے ہیں جن کا IQ زیادہ ہوتا ہے لیکن EQ اور SQ کم ہوتا ہے۔ زیادہ تر اسکول IQ کی سطح کو بہتر بنانے کا فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ EQ اور SQ کو کم کیا جاتا ہے۔ ایک اعلی IQ والا آدمی اعلی EQ اور SQ والے آدمی کے ذریعہ ملازمت حاصل کر سکتا ہے حالانکہ اس کا IQ اوسط ہے۔ آپ کا EQ آپ کے کردار کی نمائندگی کرتا ہے، جبکہ آپ کا SQ آپ کے کرشمہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایسی عادات کو اپنائیں جو ان تینوں Qs کو بہتر بنائے گی، خاص طور پر آپ کے EQ اور SQ۔ 4. مصیبت کا حصّہ (AQ): زندگی میں کسی نہ کسی مشکل سے گزرنے، اور اپنا دماغ کھوئے بغیر اس سے باہر آنے کی آپ کی صلاحیت کا پیمانہ۔ مشکلات کا سامنا کرنے پر، AQ طے کرتا ہے کہ کون ہار مانے گا، کون اپنے خاندان کو چھوڑ دے گا، اور کون خودکشی پر غور کرے گا۔ والدین براہِ کرم اپنے بچوں کو صرف اکیڈمکس کے علاوہ زندگی کے دیگر شعبوں سے روشناس کرائیں۔ انہیں دستی مشقت کو پسند کرنا چاہیے (کبھی بھی کام کو سزا کے طور پر استعمال نہ کریں)، کھیل اور فنون۔ ان کا آئی کیو، نیز ان کا EQ، SQ اور AQ تیار کریں۔ انہیں کثیر جہتی انسان بننا چاہئے تاکہ وہ اپنے والدین سے آزادانہ طور پر کام کرسکیں۔ آخر میں، اپنے بچوں کے لیے سڑک تیار نہ کریں۔ اپنے بچوں کو سڑک کے لیے تیار کرو۔"
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
4,609
اس جملے میں کونسا لفظ بولڈ (bold) اور ایٹالک (italic) ہے؟ "There is no word in 𝑻𝒉𝒊𝒔 sentence that is in italic or is there any word in 𝘛𝘩𝘪𝘴 sentence"
اس جملے میں 𝘛𝘩𝘪𝘴 ایٹلاک (italic) میں ہے اور 𝑻𝒉𝒊𝒔 بولڈ اور ایٹلاک دونوں میں ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
4,903
سوال: وہ کیا ہے جو آپ کا ہے لیکن دوسروں کے ذریعہ زیادہ استعمال کیا جاتا ہے؟
جواب: آپ کا نام۔ جب کہ آپ کا نام آپ کا ہے، یہ اکثر دوسروں کے ذریعہ اس وقت زیادہ استعمال ہوتا ہے جب وہ آپ سے مخاطب ہوتے ہیں یا آپ کا حوالہ دیتے ہیں۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
4,923
مصر کے دار الحکومت قاہرہ کے بارے میں کچھ بتایں۔
قاہرہ مصر کا دار الحکومت اور افریقہ، عرب دنیا اور مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا شہری مجموعہ ہے۔ قاہرہ کبری میٹروپولیٹن علاقہ، جس کی آبادی 21.9 ملین ہے، آبادی کے لحاظ سے دنیا کا بارہواں بڑا میگا شہر ہے۔ قاہرہ کا تعلق قدیم مصر سے ہے، کیونکہ اہرامات جیزہ اور قدیم شہر ممفس اور عين شمس اس کے جغرافیائی علاقے میں واقع ہیں۔ نیل ڈیلٹا کے قریب واقع، شہر سب سے پہلے فسطاط کے طور پر آباد ہوا، ایک بستی جس کی بنیاد مسلمانوں کی فتح مصر کے بعد 640ء میں ایک موجودہ قدیم رومی قلعے، بابلیون کے ساتھ رکھی گئی تھی۔ دولت فاطمیہ کے تحت 969ء میں قریب ہی ایک نئے شہر القاہرہ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس نے بعد میں ایوبی سلطنت اور سلطنت مملوک (مصر) ادوار (بارہویں-سولہویں صدی) کے دوران میں فسطاط کو مرکزی شہری مرکز کے طور پر پیچھے چھوڑ دیا۔ قاہرہ طویل عرصے سے اس خطے کی سیاسی اور ثقافتی زندگی کا مرکز رہا ہے، اور اسلامی فن تعمیر کی پیش رفت کی وجہ سے اسے "ہزار میناروں کا شہر" کا عنوان دیا گیا ہے۔ قاہرہ کے تاریخی مرکز (قاہرہ المعز) کو 1979ء میں یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ دیا گیا۔ عالمگیریت اور عالمی شہر تحقیق نیٹ ورک کے مطابق قاہرہ کو "بیٹا +" درجہ بندی کے ساتھ عالمی شہر سمجھا جاتا ہے۔ آج، قاہرہ میں عرب دنیا کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی سنیما اور موسیقی کی صنعت ہے، نیز دنیا کا دوسرا قدیم ترین اعلیٰ تعلیم کا ادارہ، جامعہ الازہر بھی یہیں واقع ہے۔ بہت سے بین الاقوامی میڈیا، کاروباری اداروں اور تنظیموں کے علاقائی ہیڈ کوارٹر شہر میں ہیں۔ عرب لیگ کا صدر دفتر قاہرہ میں اپنے زیادہ تر وجود میں رہا ہے۔ 453 مربع کلومیٹر (175 مربع میل) پر پھیلا ہوا 10 ملین سے زیادہ آبادی کے ساتھ، قاہرہ مصر کا سب سے بڑا شہر ہے۔ مزید 9.5 ملین باشندے شہر کے قریب رہتے ہیں۔ قاہرہ، بہت سے دوسرے شہروں کی طرح، آلودگی اور ٹریفک کی اعلیٰ سطح کے مسائل کا شکار ہے۔ قاہرہ میٹرو، جو 1987ء میں کھولی گئی، افریقہ کا سب سے پرانا میٹرو نظام ہے اور اس کا شمار دنیا کے پندرہ مصروف ترین نظاموں میں ہوتا ہے، جس میں سالانہ 1 بلین مسافروں کی سواری ہوتی ہے۔ قاہرہ کی معیشت 2005ء میں مشرق وسطیٰ میں پہلے نمبر پر تھی اور فارن پالیسی (رسالہ) کے 2010ء گلوبل سٹیز انڈیکس میں عالمی سطح پر 43 ویں نمبر پر ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
5,209
سوال: کچھوے اور خرگوش کے درمیان ہونے والی دوڑ میں خرگوش زیادہ تیز لیکن بہت زیادہ پر اعتماد تھا۔ ریس کے دوران کیا ہوا، اور انہوں نے کیا سبق سیکھا؟
جواب: خرگوش نے سست لیکن مستحکم کچھوے کو کم سمجھ کر جھپکی لی۔ کچھوے نے اپنے عزم اور مستقل مزاجی کی وجہ سے ریس جیت لی۔ اخلاق: سست اور مستحکم ریس جیتتا ہے؛ تسلسل کامیابی کی کلید ہے
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
5,741
سوال: سرمایہ داری آمدنی کی عدم مساوات کو کیسے متاثر کرتی ہے؟
جواب: سرمایہ داری آمدنی میں عدم مساوات میں حصہ ڈال سکتی ہے، کیونکہ افراد اور کاروبار جو دولت جمع کرتے ہیں ان کے پاس سرمایہ کاری اور ترقی کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں۔ اگرچہ سرمایہ داری دولت اور معاشی ترقی پیدا کر سکتی ہے، لیکن اس دولت کی تقسیم غیر مساوی ہو سکتی ہے۔ آمدنی میں عدم مساوات کو دور کرنے اور وسائل کی زیادہ منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے حکومتیں اکثر ٹیکس لگانے، سماجی پروگراموں اور دیگر پالیسیوں کے ذریعے مداخلت کرتی ہیں۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
6,425
کیلے کے فوائد کون کون سے ہیں؟
کیلا ایک مزیدار اور نسبتاً سستا پھل تو ہے ہی اور یہ سب جانتے بھی ہیں مگر یہ باتیں ان خصوصیات کے مقابلے میں بہت کم ہیں جو یہ اپنے اندر کسی خزانے کی مانند چھپائے ہوئے ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر کیلے کو روزمرہ خوراک میں شامل کرنے پر زور دیتے ہیں۔ تاہم اس سوال کہ کیلے کھانے سے انسان کو کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں، کا جواب انڈین ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی کی رپورٹ میں دیا گیا ہے۔ کیلے میں پوٹاشیم، وٹامن سی، وٹامن بی سکس، فائبر کی اچھی خاصی مقدار پائی جاتی ہے جبکہ اس میں کیلوریز بہت کم ہوتی ہیں جبکہ یہ اینٹی آکسیڈنٹ بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ انہظام کے نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ دل کی صحت کے لیے مفید ہیں۔ وٹامن سی، وٹامن بی سکس اور پوٹاشیم بالوں اور جلد کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وٹامن سی جھریوں سے بچاتا ہے، اسی طرح وٹامن بی میلانن ذرات کو متحرک کرتا ہے جو بالوں اور جلد کی رنگت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پوٹاشیم جلد میں نمی برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے جبکہ یہی وہ چیز ہے جو بالوں کی نشوونما میں مدد دیتی ہے۔ اس سے بال ملائم ہو جاتے ہیں اور ٹوٹنے سے محفوظ رہتے ہیں۔ مجموعی طور پر کیلا صحت کے حوالے سے اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی ظاہری شخصیت کو بہتر بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ صحت بخش اجزا سے بھرپور کیلے میں پوٹاشیم، وٹامن سی، وٹامن بی سکس اور فائبر کے ساتھ ساتھ میگنیشم بھی پایا جاتا ہے اور یہ تمام اجزا پورے جسم کی صحت کے لیے بہت اہم ہیں۔ دل کے لیے مفید کیلے میں پوٹاشیم پایا جاتا ہے جس کو دل کی صحت بہتر رکھنے کے لیے اہم سجھاتا ہے اس کی بدولت بلڈ پریشر کنٹرول میں رہتا ہے اور دل کی کارکردگی بھی معمول پر رہتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کیلے کھانے سے دل کے امراض کے خطرات کم ہوتے ہیں اور دل کے دورے سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ نظام انہضام میں بہتری کیلے میں موجود اعلٰی فائبر کی بدولت نظام انہضام صحت مند رہتا ہے۔ اس سے قبض کو روکنے میں مدد ملتی ہے جبکہ غذا ہضم ہونے کے حوالے دوسرے چھوٹے موٹے مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں اور گیس کی شکایت بھی نہیں رہتی۔ تناؤ میں کمی کا ذریعہ چونکہ کیلے میں ٹریپٹوفان پایا جاتا ہے جسے جسم سیروٹوفن میں تبدیل کر دیتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جو انسان کے موڈ پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہے اور اس سے طبیعت میں خوشگواری محسوس ہوتی ہے اور تناؤ میں کمی آتی ہے۔ اس لیے ماہرین کہتے ہیں کہ جو لوگ کیلے کھاتے ہیں وہ خوشگوار موڈ میں رہتے ہیں۔ وزن کے معاملے میں بھی مددگا میٹھا ہونے کے باوجود کیلا دوسرے پھلوں کے مقابلے میں اپنے اندر بہت کم کیلوریز رکھتا ہے اس لیے وزن کے معاملے میں بھی اس کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح اس میں چونکہ فائبر پایا جاتا ہے جس سے آپ کو زیادہ دیر تک بھوک کا احساس نہیں ہوتا اور انسانی غیرضروری اشیا کھانے سے بچا رہتا ہے۔ تھکاوٹ سے بچائے کیلا جسم کو بھرپور توانائی دیتا ہے اس میں کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں۔ ورزش کرنے سے قبل کیلے کھانے سے نتائج میں بہتری آتی ہے اس طرح دن کے وقت کیلے کھانے سے تھکاوٹ کے خلاف مدافعت پیدا ہوتی ہے۔ ہڈیوں کی مضبوطی کیلے میں جہاں اہم جزا موجود ہوتے ہیں وہیں میگنیشم اور پوٹاشیم بھی پایا جاتا ہے جو کہ ہڈیوں کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کیلوں کا باعدہ استعمال ہڈیوں کی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے اور اوسٹیوپورسس کو روکتا ہے۔ قوت مدافعت کے لیے مددگار کیلے وٹامن سی سے بھرپور ہوتے ہیں جس کو قوت مدافعت میں اہم حیثیت حاصل ہے اور یہ قوت مدافعت ہی ہوتی ہے جو آپ کو بیماریوں سے لڑنے کی طاقت دیتی ہے۔ ماہرین ساتھ ہی مشورہ بھی دیتے ہیں کہ اگرچہ کیلا بہت سے فوائد رکھتا ہے تاہم یہ ضروری ہے اس کو توازن کے ساتھ استعمال کیا جائے اور اس کے ساتھ دوسرے پھلوں کا استعمال بھی کیا جائے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
6,608
اردو میں کہانی سنایے:
دوپہر کا وقت تھا۔بارش کے سبب خنکی خنکی ہوا چل رہی تھی۔امی نے سلمان کو بازار سے سبزی لینے کا کہا تو وہ کودتا ہوا اپنی سائیکل پر بازار کی طرف روانہ ہو گیا۔سلمان والدین کا فرمانبردار اور بہت مہذب بیٹا تھا۔امی یا ابو کے منہ سے نکلے ہر حکم کو من و عن پورا کرتا تھا۔بازار جاتے ہوئے راستے میں سلمان سائیکل چلاتے چلاتے تھک گیا تو کچھ دیر سستانے کے لئے وہ سائیکل کھڑی کر کے ایک درخت کے نیچے بینچ پر بیٹھ گیا۔ اچانک اس کی نظر اس پرانے پرس پر پڑی جو قدرے بہتر حالت میں پڑا تھا۔سلمان سوچنے لگا کہ یہ پرس اٹھا لیتا ہوں گھر جا کر چھوٹی بہن مریم کو دوں گا۔وہ کئی بار امی سے پرس لینے کا کہہ چکی تھی۔سلمان نے پرس کو اُٹھایا پھونک ماری اور گرد و غبار صاف کرتے ہوئے جب پرس کھولا تو ہکا بکا رہ گیا۔ اس پرس میں سونے کا ہار اور بہت ساری جیولری موجود تھی۔وہ بہت خوش ہو گیا مگر اس کے ذہن میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہوا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے پرس مالک تک پہنچانے کا تہیہ کر لیا۔ کچھ دیر سستانے کے بعد وہ پرس جیب میں ڈال کر بازار کی طرف روانہ ہو گیا۔ابھی تھوڑا سا آگے بڑھا ہی ہو گا کہ سلمان کو راستے میں ایک پریشان بوڑھیا نظر آئی جو راستے میں کچھ تلاش کرتے ہوئے روئے جا رہی تھی۔سلمان کو شک ہو گیا کہ شاید وہ پرس اسی بوڑھیا کا ہے۔سلمان نے اس کے قریب سائیکل روک کر احتراماً کھڑے ہو کر دریافت کیا۔ ”اماں کیوں رو رہی ہیں؟کیا گم ہو گیا ہے؟“ بوڑھیا نے آنسو پونچھتے ہوئے جواب دیا”ارے!ننھے بچے میرا بیٹا بیمار ہے۔ اس کے علاج کیلئے گھر کا سامان بیچنے جا رہی تھی کہ پریشانی کے سبب میرا پرس گم ہو گیا ہے بس اسی کو تلاش کر رہی ہوں۔“ اس نے باتوں باتوں میں بوڑھیا سے دریافت کرتے ہوئے کہا۔”اماں جی اس پرس میں کیا تھا؟“ یہ سن کر بوڑھیا کے چہرے پر آس و امید کے آثار نمایاں ہو گئے۔انہوں نے جلدی سے جواب دیا”بیٹا میرے جہیز میں جو سامان ملا وہ تو سارا ایک ایک کر کے بک گیا مگر ایک ہار بچا جسے بیچنے جا رہی تھی کہ گم ہو گیا“ سلمان کو جب پورا یقین ہو گیا کہ اسے ہار کا اصل مالک مل گیا ہے تو اس نے جیب سے پرس نکالتے ہوئے بوڑھیا سے کہا”اماں جی یہ دیکھیں یہی پرس تھا نا“ یہ سن کر بوڑھیا نے جھولی اٹھا کر نگاہیں بلند کیں اور سلمان کیلئے رو رو کر دعائیں مانگنے لگی۔ سلمان کو بھی دلی خوشی ہوئی کہ اب اس کے بیٹے کا علاج ہو جائے گا۔وہ بوڑھیا کے ساتھ بازار کی طرف چل دیئے۔بازار پہنچنے ہی والے تھے کہ سلمان کو کال کر کے ایک شخص نے بتایا کہ آپ ہسپتال پہنچیں۔آپ کے بابا جان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔یہ سن کر وہ رونے لگا اور بوڑھیا کو ساری بات بتا دی۔بوڑھیا بھی سلمان کے ساتھ ہسپتال چل دی کیونکہ ان کا بیٹا بھی وہیں زیر علاج تھا۔ ہسپتال پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ڈاکٹرز نے بتایا کہ سلمان کے ابو جان کی طبیعت کنٹرول سے باہر ہے اس کا آپریشن ہو گا۔جس کیلئے ایک لاکھ روپے لگیں گے۔سلمان پریشان تھا کہ اب وہ اتنے پیسے کہاں سے لائے؟ سلمان پریشانی کے عالم میں تھا۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔اتنے میں بوڑھیا بولی ”یہ لو بیٹا یہ ہار بیچ دو اور اپنے ابو کا علاج کراؤ۔ اب مزید دیر نہیں ہو سکتی۔میرے بیٹے سے بھی آپ کے بابا کی جان قیمتی ہے کیونکہ آپ نے مجھے میرا پرس دے کر اپنا فرض پورا کیا“ بوڑھیا کا ہار اور جیولری دو لاکھ میں بکے جس سے سلمان نے اپنے ابو جان کا علاج کروایا اور باقی پیسے اماں جی کو لٹا دیئے اور اس کے بیٹے کے علاج کا بھی بندوبست ہو گیا۔اس طرح دونوں کی جانیں بچ گئیں۔سلمان کو اپنی نیک نیت اور اچھائی کا بدلہ مل گیا۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
7,339
مسلم سلطنتوں کی وراثت نے ہم عصر جنوبی ایشیائی ثقافت اور معاشرے کو کیسے متاثر کیا؟
جنوبی ایشیا میں مسلم سلطنتوں کی وراثت نے خطے کی ثقافت اور معاشرت پر دیرپا نقوش چھوڑے ہیں۔ یہ تاج محل جیسے آرکیٹیکچرل عجائبات میں واضح ہے، جو ہندوستان کی مشہور علامت ہیں۔ فن، ادب اور موسیقی میں مغلوں کی شراکت جنوبی ایشیا کے فنکارانہ تاثرات کو تشکیل دیتی ہے۔ مزید برآں، مذہبی رواداری کی پالیسیوں اور کچھ مسلم حکمرانوں کی طرف سے فروغ پانے والے ثقافتی ہم آہنگی کے خیال نے جنوبی ایشیائی معاشروں کے کثیر الثقافتی تانے بانے کو متاثر کیا ہے۔ مزید برآں، مسلم سلطنتوں کے متعارف کرائے گئے انتظامی نظاموں نے جنوبی ایشیائی ممالک کے جدید طرز حکمرانی کے ڈھانچے کی بنیاد رکھی۔ اردو زبان، فارسی اور ہندوستانی زبانوں کے درمیان تعامل کا نتیجہ ہے، مسلم حکمرانی کے لسانی اثرات کا ثبوت ہے۔ عصری جنوبی ایشیا میں، مسلم سلطنتوں کی یاد ثقافتی فخر، تاریخی ورثے، اور خطے میں متنوع روایات کے درمیان بھرپور تعامل کی علامت کے طور پر برقرار ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
7,824
مجھے اردو میں کوئی کہانی سنائیں ۔
عنوان: گمشدہ طوطا دس سال کی زینب کو چڑیاں بہت اچھی لگتی تھیں۔اُڑتی،پھُدکتی،چہچہاتی چڑیاں دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتی۔آسٹریلین اور ہرے ہرے طوطے اسے خاص طور پر اچھے لگتے تھے۔ایک بار اس نے اپنی ممی سے کہا کہ وہ طوطا پالنا چاہتی ہے لیکن ممی نے کہا کہ طوطے قید میں رہنا پسند نہیں کرتے،انہیں اپنی آزادی بہت پیاری ہوتی ہے۔ گھر کے سامنے درختوں پر بہت سی چڑیاں رہتی ہیں۔خوب چوں چوں کرتی ہیں،انہیں دیکھا کرو۔زینب نے ممی کی بات مان لی اور طوطا خریدنے کی ضد چھوڑ دی۔اسکول سے آنے کے بعد بالکونی میں کھڑے ہو کر طرح طرح کی چڑیوں کو اور سامنے گھر والوں کے آسٹریلین طوطوں کو دیکھتی۔ ایک دن زینب شام کو کمرے میں آئی تو دیکھا ایک آسٹریلین طوطا اُس کے کمرے میں بیٹھا ہوا ہے۔ چھوٹا سا گرے رنگ کا،لال لال آنکھیں،پتلی سی دم تھی۔وہ دم لگاتار اوپر نیچے ہلا رہا تھا۔اس طوطے کو اُس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ زینب طوطے کو کمرے میں دیکھ کر بہت خوش ہوئی،بھاگ کر ممی کو بلا لائی۔انہوں نے بتایا کہ شاما ہے۔بڑا میٹھا بولتا ہے اور خوب سیٹیاں بجاتا ہے،یہاں شاید بھنک کر آ گیا ہے۔چلو اسے واپس بھیج دیں،انہوں نے طوطے کو ہشکایا،تاکہ وہ دروازے سے واپس چلا جائے۔ ”یہ طوطا ہے یا اس کا بچہ؟“زینب نے ممی سے پوچھا۔”یہ فادر طوطا ہے“”تب تو اسے ضرور بھیج دیجئے۔اس کے بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔“زینب نے کہا اور ممی کے ساتھ وہ بھی طوطے کو ہشکانے لگی۔وہ کبھی کمرے میں لگی ٹیوب لائٹ پر بیٹھتا تو کبھی پھدک کر دیوار کی گھڑی پر کبھی پنکھے کے پروں پر اور کبھی بڑی سی پینٹنگ کے فریم پر بیٹھ جاتا۔ زینب اور ان کی ممی نے لاکھ کوشش کی لیکن وہ دروازے کی طرف گیا ہی نہیں۔دروازہ بالکونی پر کھلتا تھا اور وہ ادھر ہی سے آیا تھا۔ ”ایسا کرتے ہیں فی الحال اسے یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔صبح اسے راستہ مل جائے گا۔“ممی یہ کہہ کر باورچی خانے میں چلی گئیں۔”ٹھیک ہے۔آج رات یہ ہمارا مہمان رہے گا۔“زینب خوش ہو گئی۔رات کو اُس کے پاپا گھر آئے تو اُنھوں نے کوشش کر کے طوطے کو پکڑا اور زینب کو چھت پر رکھا ہوا پنجرا لانے کو کہا،زینب خوش ہو کر چھت پر گئی اور بھاگ کر پنجرا لے کر آئی اُس کے پاپا نے طوطا پنجرے میں ڈال دیا۔ تھوڑی دیر گزری تو زینب بہت پریشان ہوئی۔اُس نے پاپا سے کہا،کہ یہ خاموش ہو کر بیٹھ گیا ہے،کیا یہ بیمار ہو گیا ہے۔تو اُس کے پاپا نے بتایا نہیں یہ اپنے جن دوستوں کو چھوڑ کر آیا ہے اُن کی وجہ سے اُداس ہے۔ایک دو دن تک ٹھیک ہو جائے گا۔مگر زینب کو چین نہ آیا۔آخر اُس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی کہ سامنے والے گھر والوں نے طوطے پال رکھے ہیں،کہیں یہ طوطاً اُن کا نہ ہو،وہ پتہ کرنے اُن کے گھر گئی کہ اُن کا کوئی طوطا تو نہیں اُڑ گیا۔ تو اُنھوں نے بتایا کہ صبح ایک طوطا اُڑ گیا تھا اور اب اُس کی طوطی بہت اُداس ہے تو زینب نے اُنھیں بتایا کہ اُن کا طوطا اُس کے گھر اُڑ کر آ گیا ہے،لہٰذا وہ اپنا طوطا اُن کے گھر سے لے آئیں تھوڑی دیر بعد وہ آئے اور طوطا اپنے گھر واپس چلا گیا۔اس طرح زینب کی کوشش سے طوطا اپنی فیملی سے مل گیا۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
7,983
مجھے اس گانے کے بول چاہیے "تو جانے نہ " جو عاطف اسلم کی آواز میں گائے گئے ہیں
کیسے بتائیں کیوں تجھ کو چاہیں، یارا بتا نہ پائیں باتیں دلوں کی، دیکھو جو باقی، آنکھیں تجھے سمجھائیں تو جانے نہ، تو جانے نہ مل کے بھی ہم نہ ملے تم سے نہ جانے کیوں میلوں کے ہیں فاصلے تم سے نہ جانے کیوں انجانے ہیں سلسلے تم سے نہ جانے کیوں سپنے ہیں پلکوں تلے تم سے نہ جانے کیوں کیسے بتائیں کیوں تجھ کو چاہیں، یارا بتا نہ پائیں باتیں دلوں کی، دیکھو جو باقی، آنکھیں تجھے سمجھائیں تو جانے نہ، تو جانے نہ نگاہوں میں دیکھے میری جو ہے بس گیا وہ ہے ملاتا تم سے ہو بہو وہ جانے تیری آنکھیں تھیں یا باتیں تھیں وجہ ہوئے تم جو دل کہ آرزو تم پاس ہو کے بھی، تم آس ہو کے بھی احساس ہو کے بھی اپنے نہیں ایسے ہیں ہم کو گلے تم سے نہ جانے کیوں میلوں کے ہیں فاصلے تم سے جانے کیوں
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
9,078
جملہ 1: رامچندران Punyakodi کے کردار کے لئے ابتدائی طور پر کے اے تھنگویلو سفارش کی ، لیکن ٹی آر رامچندران نے کہا کہ میں ان کے والد کردار میں Saravanan چاہتا تھا. جملہ 2: رامچندران نے ابتدائی طور پر پنیکودی کے کردار کے لئے کے اے تھنگویلو کی سفارش کی ، لیکن سراوینن نے کہا کہ اس کے والد ٹی آر رامچندران اس کردار میں چاہتے ہیں۔ سوال: کیا جملہ 1 اور جملہ 2 ایک ہی معنی کا اظہار کرتے ہیں؟ ہاں یا نہیں؟
نہیں
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
9,108
شراکت داری کے معاہدے میں، عام اور محدود شراکت داروں کے درمیان کلیدی فرق کیا ہے؟
عام شراکت داروں کے پاس انتظامی کنٹرول ہے لیکن لامحدود ذمہ داری ہے، جبکہ محدود شراکت داروں کے پاس انتظامی کنٹرول نہیں ہے اور ان کی ذمہ داری محدود ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
9,562
اپنے ریفریجریٹر کی صفائی کرتے وقت، کراس آلودگی کو روکنے کے لیے ایک اہم قدم کیا ہے؟
ریفریجریٹر کی صفائی کرتے وقت کراس آلودگی کو روکنا بہت ضروری ہے۔ فرج سے تمام اشیاء کو نکال کر شروع کریں، میعاد ختم یا خراب شدہ کھانے کو چھوڑ دیں۔ ہلکے صابن اور گرم پانی کے مکسچر سے ریفریجریٹر کے اندر کو صاف کریں۔ کراس آلودگی کو روکنے کے لیے، زیادہ خطرہ والے علاقوں جیسے شیلف، دراز اور دروازے کی مہروں پر خصوصی توجہ دیں۔ صفائی کے بعد، کھانے کے لیے محفوظ جراثیم کش کے ساتھ سطحوں کو جراثیم سے پاک کریں۔ ممکنہ آلودگی سے بچنے کے لیے چھلکوں کو فوری طور پر صاف کرنا اور خام گوشت کو لیک پروف کنٹینرز میں ذخیرہ کرنا ضروری ہے۔ صفای کے بعد فریج کو ایک یا دو گھنٹے کے لیے چھوڑ دیں تاکہ گیس لیک نہ ہو۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
10,089
عورتوں کی طاقت بخشش یا عورتوں کو مضبوط بنانے کی حمایت کے لئے خیراتی منصوبے کی تجویز کریں
1. "گرلز ان ٹیک مینٹرشپ پروگرام: ایک مینٹرشپ پروگرام تخلیق کریں جو تجربہ کار خواتین کو ٹیک انڈسٹری میں دلچسپ ہونے والی لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ جوڑے۔ ان کی تعلیمی اور پیشہ ورانہ سفر میں راہنمائی، حمایت، اور قیمتی بصائیق فراہم کرنے کے لئے اہم مشورے فراہم کریں۔" 2. "روایتی علاقوں میں STEM آگاہی ورکشاپس: روایتی علاقوں میں، خصوصاً KPK اور پنجاب کے علاقوں میں، خواتین کو STEM شعبوں میں موجود مواقع کی تعارف کے لئے ورکشاپس اور آگاہی سیشنز منظم کریں۔ ہاتھوں کی کارروائیوں کو آمنے سامنے لے کر انہیں STEM تعلیم اور کیریئر کی جانب متحرک کریں۔" 3. "خواتین کے لئے ٹیک مہارتوں کی تربیت: مقامی تنظیموں اور تعلیمی اداروں کے ساتھ مل کر خواتین کے لئے مفت یا کم قیمت ٹیک مہارتوں کے تربیتی پروگرامات فراہم کریں۔ انہیں کوڈنگ، ویب ڈویلپمنٹ، ڈیٹا تجزیہ، یا دوسرے موازنہ مہارتوں کے کورسز پیش کر کے انہیں مطلوبہ علم سے مستفید کریں۔" 4. "ٹیک میں خواتین کی اسپیکر سیریز: کامیاب ٹیک انڈسٹری میں کام کرنے والی خواتین کی اسپیکر سیریز منظم کریں۔ انہیں ان کی تجربات، مشکلات، اور کامیابیوں کا اشتراک کرنے کی دعوت دیں تاکہ نوجوان خواتین کو محنتی اور حوصلے افزائی ملے۔ ان سیشنز کو کالج، یونیورسٹیوں، اور کمیونٹی سنٹرز میں منظم کریں۔" 5. "ٹیک کیریئر کاؤنسلنگ کیمپین: ایک کیریئر راہنمائی اور کاؤنسلنگ کیمپین کا آغاز کریں جو خواتین کے لئے ٹیک کیریئر کی راہنمائی اور کاؤنسلنگ سیشنز پیش کرنے پر مرکوز ہو۔ اس کیمپین کو اسکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں کے ساتھ شراکت داری کر کے ورکشاپس، انفرادی کاؤنسلنگ، اور کیریئر منصوبے کی منصوبہ بندی کے لئے لانچ کریں۔" 6. "STEM انٹرنشپ اور شیڈوئنگ پروگرام: مقامی ٹیک کمپنیوں کے ساتھ تعاون کر کے نوجوان خواتین کے لئے انٹرنشپ اور شیڈوئنگ کے مواقع قائم کریں۔ انہیں ہاتھوں کی کارروائی کی مواقع، مینٹرشپ، اور حقیقی دنیا کے ٹیک پروجیکٹس کا اختیار فراہم کریں تاکہ ان کی پیشہ ورانہ مہارتوں اور عملی مہارتوں کو اضافی یقین حاصل ہو۔" 7. "اسکولوں میں ٹیک آوٹریچ پروگرام: اسکول طلباء کو STEM تصورات اور بنیادی کوڈنگ مہارتوں سے متعارف کرانے کے لئے ایک پروگرام تیار کریں۔ دلچسپ ورکشاپس، کوڈنگ کلب، اور ہاتھوں کی کارروائیوں کو منظم کر کے ان کے دلچسپی اور دلچسپی کو پیدا کرنے کے لئے فعالیتوں کو تشہیر دیں۔"
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
10,448
"تازہ واقعے" اصطلاح انسٹاگرام پر کیا معنی رکھتی ہے؟
انسٹاگرام پر "حالیہ واقعات" ایک ایسا سیکشن ہے جس میں موجودہ واقعات، رجحانات اور جاری مباحثوں سے متعلق پوسٹس، کہانیاں اور مواد شامل ہیں۔ یہ صارفین کو بروقت مواد جیسے خبروں، ٹرینڈنگ ہیش ٹیگز، لائیو ایونٹس، اور مباحثوں کا ایک کیوریٹڈ مجموعہ پیش کرتا ہے، جس سے وہ اپ ڈیٹ رہنے اور حقیقی وقت میں ہونے والے واقعات سے منسلک رہ سکتے ہیں۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
11,067
سوال: ایک لومڑی نے انگوروں کے گچھے تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔ مایوسی کے عالم میں لومڑی نے کہا کہ انگور شاید ویسے بھی کھٹے تھے۔ یہ کہانی لومڑی کے رویے کے بارے میں کیا ظاہر کرتی ہے، اور اس سے کیا سبق ملتا ہے؟
جواب: لومڑی نے انگور کے کھٹے رویے کا مظاہرہ کیا، جہاں اس نے تنقید کی جو اس کے پاس نہیں تھی۔ سبق مایوسی کا سامنا کرتے وقت منفی رویہ سے بچنے کے بارے میں ہے۔ اخلاقی: جو کچھ آپ کے پاس نہیں ہے اسے حقیر نہ سمجھو۔ آپ کے پاس جو کچھ ہے اسے قبول کرنا اور اس کی تعریف کرنا سیکھیں۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
11,632
پشتون کمیونٹی کی کچھ قابل ذکر تاریخی شخصیات کیا ہیں؟
پشتون برادری نے کئی قابل ذکر تاریخی شخصیات کو جنم دیا ہے جنہوں نے خطے اور اس سے آگے پر دیرپا اثر چھوڑا ہے۔ سب سے نمایاں شخصیات میں سے ایک احمد شاہ درانی ہیں جنہیں احمد شاہ بابا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جنہوں نے 18ویں صدی میں افغانستان کی جدید ریاست کی بنیاد رکھی اور درانی سلطنت قائم کی۔ ایک اور بااثر پشتون رہنما خان عبدالغفار خان ہیں جنہیں باچا خان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جو عدم تشدد کے علمبردار تھے اور انہوں نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
11,798
سرمایہ داری کیا ہے، اور یہ دوسرے معاشی نظاموں سے کیسے مختلف ہے؟
سرمایہ داری ایک معاشی نظام ہے جس کی خصوصیت ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت ہے، جہاں افراد یا کاروبار مسابقتی منڈیوں میں منافع کے لیے کام کرتے ہیں۔ سوشلزم یا کمیونزم کے برعکس، سرمایہ داری قیمتوں کا تعین کرنے، وسائل مختص کرنے اور معاشی ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے مارکیٹ کی قوتوں پر انحصار کرتی ہے۔ سرمایہ داری میں، منافع کا حصول اور انفرادی اقدام مرکزی حیثیت رکھتا ہے، اور حکومت کا کردار عام طور پر معاہدوں کو نافذ کرنے اور جائیداد کے حقوق کے تحفظ تک محدود ہوتا ہے۔ مختصراًسرمایہ دارانہ نظام یہ کہتا ہے کہ ذاتی منافع کے لیے اور ذاتی دولت و جائیداداور پیداواری وسائل رکھنے میں ہر شخص مکمل طور پر آزاد ہے، حکومت کی طرف سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم دنیا میں سو فیصد (%100)سرمایہ دارانہ نظام کسی بھی جگہ ممکن نہیں، کیونکہ حکومت کو کسی نہ کسی طرح لوگوں کے کاروبار میں مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، اٹلی وغیرہ میں سرمایہ دارانہ نظام ہیں۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
11,908
کیا ایمیزون نے اپنے پہلے سیٹلائٹس مدار میں بھیج دیئے
ایمیزون کے پہل2 سیٹلائٹ گزشتہ روزمدارمیں کامیابی سے داخل ہوگئے جوزمین کے نچلے مدار میں سیٹلائٹس کا نیٹ ورک بنانے کے کمپنی کے منصوبے کا آغاز ہے۔ ایمیزون کے سیٹلائٹ نیٹ ورک پروجیکٹ کوئپر کے پروٹو فلائٹ مشن کو یونائیٹڈ لانچ الائنس (یو ایل اے) اٹلس وی راکٹ کے ذریعے مشرقی وقت کے مطابق جمعہ کی دوپہر2بج کر6 منٹ پرفلوریڈا میں کیپ کیناورل اسپیس فورس اسٹیشن سے روانہ کیاگیا۔ایمیزون کے سیٹلائٹس کے سائز اور ڈیزائن کے بارے میں معلومات ظاہر نہیں کی گئیں۔ پروٹو فلائٹ لانچ یو ایل اے اور ایمیزون کے درمیان وسیع تجارتی شراکت داری کا پہلا مشن ہے جس کے تحت پروجیکٹ کوئپر کیزیادہ ترسیٹلائٹس کو لانچ کیا جائے گا۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
11,958
ووٹ امانت ہے اس کا صحیح استعمال اسلامی فریضہ بھی ہے
اس سال انشاء اللہ ملک میں جرنل الیکشن ہونے والے ہیں . پورے ملک میں 18 سال کے افراد جن کا شناختی کارڈ اور اپنے علاقہ میں ووٹر لسٹ میں اپنا نام اندراج کرایا ہوا ہو وہ ان الیکشن میں اپنا قیمتی ووٹ اپنے جو بھی ممبرز ہو اس کو خفیہ بیلٹ کے زریعے ڈال سکتا ہے . اور جن افراد کا جو 18 سال کے ہوگے مگر ابھی تک اپنا نام ووٹر لسٹ میں اندراج نہیں کرایا ہے وہ فورا اپنے علاقہ میں نامزد کردا الیکشن صوبائی الیکشن یا علاقائی آفس میں جاکر اپنا ووٹ اندراج کراسکتا ہے۔ ووٹ ایک امانت ہے اور اس کا صحیح استعمال اسلامی فریضہ ہے۔اس اسلامی ذمہ داری کو مفاد پرستی، سڑکوں، گلی کوچوں، کھمبوں، ٹرانسفارمروں اور آلوپیاز کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے انتخابات میں ووٹ استعمال کرتے وقت اس کو خالص دنیاوی معاملہ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ووٹ امانت ہے اور اس کا صحیح استعمال دینی فریضہ ہے۔ اگر اہلِ وطن اس دینی امانت اور اسلامی فریضہ کی ادائیگی میں ہمیشہ کی طرح سُستی اور کاہلی برتتے رہے تو نہ ملک کا کوئی طبقہ محفوظ رہے گا اور نہ ہی کوئی مقام الیکشن کمیشن سے زیادہ ذمہ داری عوام ووٹروں کی ہے کہ وہ ووٹ کو امانت اور اسلامی ذمہ داری کے طور پر استعمال کریں ووٹ استعمال کرنے کا مقصد ایسے باکردار لوگوں کو منتخب کرنا ہوتا ہے جو ملک کے خیر خواہ ہوں ، ملکی مفاد، ملک کی بقاء اور استحکام کا درد رکھنے والے ہوںاور نفاذِ شریعت ان کی اولین ترجیح ہو وطن پاکستان کو جسے لاکھوں مسلمانوں نے جان، مال اور عزتوں کی قربانی دے کر اسلامی نظامِ حکومت ، نظامِ معیشت، نظامِ عدالت کے لئے حاصل کیا تھا، اس کی مقننہ اور بااختیار اسمبلی میں غیر مسلم شریک نہ کیا جائے ے۔ ووٹ ایک شرعی شہادت ووٹ نمائندہ کے حق میں شہادت ہے۔ معارف القرآن جلد دوم آیت ’’أَنْ تُؤَدُّوْا الْأَمَانَاتِ إِلٰی أَھْلِھَا‘‘کے متعلق لکھا ہے: آیت کانزول اگرچہ ایک خاص واقعہ میں ہے، لیکن حکم عام جس کی پابندی پوری امت کے لئے ضروری ہے۔ ’’إِنَّ اﷲَ یَأْ مُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوْا الْأَمَانَاتِ إِلٰی أَھْلِھَا‘‘یعنی اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مستحقین کو پہنچایا کرو(اسی طرح ووٹ بھی ایک شہادت اور امانت ہے) جس کے ہاتھ میں کوئی امانت ہے، اس پر لازم ہے کہ یہ امانت اس کے اہل و مستحق کو پہنچادے۔حکومت کے مناصب (عہدے) جتنے بھی ہیں، وہ سب اللہ کی امانتیں ہیں،جس کے امین وہ حکام اور افسر ہیں جن کے ہاتھ عزل و نصب کے اختیارات ہیں. ایک حدیث میں ارشاد ہے: جب دیکھو کہ کاموں کی ذمہ داری ایسے لوگوںکے سپرد کر دی گئی جو اس کے اہل نہیں تو (اب فساد کا کوئی علاج نہیں) قیامت کا انتظار کرو قرآن کریم نے لفظ ’’أمانات‘‘ صیغۂ جمع لاکر اس کی طرف اشارہ کر دیا کہ امانت صرف اسی کانام نہیں کہ ایک شخص کا مال کسی دوسرے شخص کے پاس بطور امانت رکھا ہو، بلکہ امانت کی بہت سی اقسام ہیں، جن میں حکومتی عہدے بھی داخل ہیں۔انتخابات میں ووٹ، ووٹر اور امیدوار کی شرعی حیثیت صحیح بخاری شریف کی حدیث میں رسول کریم ا نے شہادت کاذبہ کو شرک کے ساتھ کبائر میں شمار فرمایا ہے ۔ جس حلقے میں چند امیدوار کھڑے ہوں اور ووٹر کو یہ معلوم ہے کہ قابلیت اور دیانت کے اعتبار سے فلاں آدمی قابل ترجیح ہے تو اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو ووٹ دینا اس اکبر کبائر میں اپنے آپ کو مبتلا کرنا ہے۔ اب ووٹ دینے والا اپنی آخرت اور انجام کو دیکھ کر ووٹ دے، مختصر یہ کہ انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے، جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور اس میں جھوٹ بولنا بھی حرام اور اس پر کوئی معاوضہ لینا بھی حرام، اس میں محض ایک سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل سمجھنا بڑی بھاری غلطی ہے۔ آپ جس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں، شرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے اور علم و عمل اور دیانتداری کی رو سے اس کام کا اہل اور دوسرے امیدواروں سے بہتر ہے۔جس مقصد کے لئے یہ انتخابات ہو رہے ہیں .
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
12,070
درج ذیل جملے کا اردو میں ترجمہ کریں: Most people think that health and fitness are the same thing but there is a difference
اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ صحت اور تندرستی ایک ہی چیز ہیں لیکن ان میں فرق ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
12,125
مجھے اردو زبان میں کچھ رینگنے والے جانوروں کے بارے میں بتائیں۔ اس کے لیے ایک میز بنائیں۔
یقینی طور پر، آپ کا ریپٹائل ٹیبل یہ ہے: | English | Urdu | Roman Urdu | |-----------|------------------|-----------| | Alligator | گھڑیال | Ghariyaal | Chameleon | گرگٹ | Girgit | Crocodile | مگرمچھ | Magarmach | Gecko | گھریلو چھپکلی | Ghareloo Chhipkali | Iguana | سنڈا | Sinda | Lizard | چھپکلی | Chhipkali | Snake | سانپ | Saanp | Tortoise | خشکی کا کچھوا | Khushki ka Kachhua | Turtle | پانی کا کچھوا | Paani ka Kachhua
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
12,412
میں اپنے یوٹیوب چینل پر ٹیک میں خواتین کو ایک موازنے کی دعوت دیتا ہوں جہاں وہ اپنے سفر کی باتیں کریں گی۔ میں ان کے لئے ایک سوال نامہ تیار کرنا چاہتا ہوں، کون سے سوالات میں ان سے پوچھوں تاکہ ان کے جوابات نوجوان لڑکیوں کو حوصلہ دیں کہ وہ ٹیک میں اپنا راستہ بنا سکتی ہیں۔
یہاں کچھ سوالات دیئے گئے ہیں جو آپ ٹیکنالوجی میں خواتین سے پوچھ سکتے ہیں تاکہ نوجوان لڑکیوں کو محو کریں اور انہیں ترغیب دیں کہ وہ ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں کیریئر بنائیں: 1. کیا آپ کو تکنالوجی کی صنعت میں آپ کا سفر مختصر طریقے سے بیان کر سکتی ہیں، جس میں آپ نے کسی مشکل کا سامنا کیا اور انہیں کیسے پار کیا؟ 2. تکنالوجی کے شعبے میں ابتدائی طور پر آپ کو کیا کشش کرتا تھا، اور آپ نے اس کے لئے اپنے جذبے کیسے دریافت کیا؟ 3. کیا آپ کے کیریئر کے سفر میں کوئی مخصوص مثالیں یا مینٹرز رہے ہیں جنہوں نے آپ کو اپنے تکنالوجی کے سفر میں رہبری دی، اگر ہاں تو وہ کس طرح آپ کے کیریئر کے انتخابات پر اثرانداز ہوئے؟ 4. کیا آپ کوئی اہم کام یا منصوبہ شیئر کر سکتی ہیں جس پر آپ فخر محسوس کرتی ہیں؟ اس نے آپ کی ترقی اور تربیت میں کیسے کردار ادا کیا؟ 5. کیا آپ نے کبھی اپنے کیریئر میں جنسی تعرض یا تفرقے کے راستے سے کٹر مواقع کا سامنا کیا ہے؟ اگر ہاں تو آپ نے ان کا کس طرح مقابلہ کیا، اور نوجوان لڑکیوں کو جو اسی طرح کی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہیں ان کو کیسے مشورہ دیا؟ 6. تکنالوجی میں کیریئر بنانے کی دلچسپی رکھنے والی نوجوان لڑکیوں کو جو کہیں نہ کہی ہمت ہار جاتی ہو، آپ ان کو کیا مشورہ دینا چاہیں گی؟ 7. آپ کی تجربات کے حساب سے، تکنالوجی کی صنعت میں کام کرنے کے کتنے دلچسپ اور انعام دینے والے پہلو ہیں؟ 8. آپ کے شعبے میں تازہ ترین تکنالوجی روایات کو جانتے رہنے اور مستقبل کے خوفوں سے کتنی اہمیت ہے؟ آپ کس طرح اپنے آپ کو مطلع رکھنے کے لئے استعمال کرتی ہیں؟ 9. کیا آپ تکنالوجی کی صنعت میں مختلف نظریات کی اہمیت پر بات کر سکتی ہیں، اور یہ کیسے نئے انوویشن اور ترقی کے لئے کام آتی ہے؟ 10. کیا آپ کوئی خصوصی پیغام یا مقولہ ایسا ہے جو آپ کے تکنالوجی کے سفر کو راہ دکھاتا ہے، جو آپ نوجوان لڑکیوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہیں گی؟ امید ہے اس سے آپکی مدد ہوی ہوگی۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
13,628
شیروں پر کچھ جملے لکھیں۔
جی، یقینی طور پر، شیروں پر 10 جملے یہ ہیں۔ 1-شیر جنگل کا بادشاہ کہلاتا ہے۔ 2-یہ فیلیڈی خاندان کا رکن ہے۔ 3-شیر کی چھاتی گہری ہوتی ہے۔ 4-اس کے سر گول شکل کا ہوتا ہے۔ 5-شیر کے کان گول ہوتے ہیں۔ 6-شیر کی دُم کے آخر میں بالیں ہوتی ہیں۔ 7-نر شیر کے گردن کے گرد بالیں ہوتی ہیں۔ 8-شیر کا خوراک گوشت ہوتا ہے۔ 9-یہ ایک سماجی جانور ہے۔ 10-شیر کی طاقت، بہادری اور قوت کا پرچم ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
13,768
سوال: ایک طاقتور شیر کو ایک بار چھوٹے چوہے نے بچایا تھا۔ بعد میں شیر نے احسان واپس کر دیا۔ چوہے نے شیر کے لیے کیا کیا اور شیر نے چوہے کا بدلہ کیسے دیا؟
جواب: چوہے نے شیر کو جکڑی ہوئی رسیوں کو چبا کر آزاد کر دیا۔ بعد میں، جب شیر کو شکاریوں نے پھنسایا تو چوہے نے جال میں گھس کر شیر کو دوبارہ آزاد کر دیا۔ اخلاق: احسان کا کوئی بھی عمل، خواہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، ضائع نہیں ہوتا۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
13,935
ذیابیطس سے بچاؤ کے لیے کیا احتیاط کریں؟
ذیابیطس کو خاموش قاتل کہا جاتا ہے، پچیس فی صد افراد کو علم نہیں ہوتا کہ وہ اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں، پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد 3 لاکھ 3 کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے، ہر چوتھا پاکستانی نوجوان ذیابیطس کا شکار ہے۔ بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ جب ان میں ذیابیطس کی تشخیص ہوتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ پرہیز کے حوالے سے یہ صرف ریفائن شدہ سفید چینی کا معاملہ ہے، چناں چہ وہ چینی کم کر کے اس کا متبادل لینے لگتے ہیں جیسا کہ براؤن شوگر اورگڑھ وغیرہ، ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ نقصان دہ نہیں ہے۔ جن لوگوں کی فیملی ہسٹری ہے وہ تو ذیابیطس کے شدید خطرے سے دوچار ہیں ہی، لیکن شہروں میں ہمارا جو لائف اسٹائل بن گیا ہے، حتیٰ کہ گاؤں میں رہ کر بھی ہم لوگ اب واک نہیں کرتے، مرغن غذائیں کھاتے ہیں اور کاربوہائیڈریٹس کا استعمال زیادہ ہے، اس کی وجہ سے بھی مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ شوگر سے بچاؤ اور کنٹرول کے حوالے سے آسان حل بتایا کہ سب سے پہلے لائف اسٹائل تبدیل کرنے پر توجہ دینی چاہیے، جیسا کہ ہفتے میں تین سے پانچ دن باقاعدگی سے واک کرنا، اتنی واک کریں کہ اس میں آپ کو پسینہ آ جائے، اس کے بعد کھانے میں کاربوہائیڈریٹ یعنی نشاستہ کا استعمال کم سے کم کر دیں۔ انھوں نے کہا اگر ہم عام زبان میں کہیں کہ ایک پلیٹ جو 9 انچ کی ہوتی ہے اسے ہم دو برابر حصوں میں تقسیم کریں، تو اس کا ایک حصہ سبز پتوں والی سبزیاں ہونی چاہیئں، باقی حصے کا آدھا پروٹین اور آدھا نشاستے والی خوراک پر مبنی ہونا چاہیے۔ یہ جاننے کے لیے کہ کیا آپ کو ذیابیطس کا خطرہ لاحق ہے یا نہیں، ماہر کنسلٹنٹ نے بتایا کہ اس کا ایک آسان طریقہ ہے، ریپڈ اسکور کہہ لیں، اس میں بغیر کسی ٹیسٹ کے آپ آسانی سے معلوم کر سکتے ہیں کہ آپ رسک پر ہیں یا نہیں۔ یہ پاکستانی آبادی کے لیے خصوصی طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس میں عمر، کمر اور فیملی ہسٹری شامل ہیں۔ اگر آپ کی عمر 40 سال سے کم ہے تو آپ کا اسکور زیرو ہو گیا، چالیس سے پچاس کے درمیان اسکور 1 ہوگا، پچاس سے زیادہ عمر پر اسکور 2 ہوگا۔ اگر کمر مردوں میں 35.5 انچ سے زیادہ ہے تو اسکور 1 ہوگا اور اس سے نیچے زیرو ہوگا، جب کہ خواتین میں 31.5 سے نیچے ہے تو اسکور زیرو، اور اس سے اوپر ہے تو اسکور 1 ہوگا۔ فیملی ہسٹری اگر مثبت ہے تو اسکور 1 ہوگا اور نہیں ہے اسکور زیرو ہوگا۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
14,748
ایڈم سمتھ کے کام نے کلاسیکی معاشیات کی ترقی اور بعد کے ماہرین معاشیات کے نظریات پر کیا اثر ڈالا؟
ایڈم سمتھ کے کام نے کلاسیکی معاشیات کی بنیاد رکھی، ایک ایسا مکتبہ فکر جس نے بعد کے معاشی مفکرین کو بہت متاثر کیا۔ آزاد منڈیوں، غیر مرئی ہاتھ، اور محنت کی تقسیم کے اس کے تصورات کلاسیکی معاشیات کے بنیادی اصول بن گئے۔ بعد میں ماہرین معاشیات، جیسے ڈیوڈ ریکارڈو اور جان سٹورٹ مل، نے اسمتھ کے نظریات پر استوار اور توسیع کی، جس سے کلاسیکی اقتصادی نظریہ کی بنیاد بنی۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
14,887
مضمون کا خلاصہ: مشہور بھوری نشانیاں سیاحوں کو دکھانے کے لئے قائم کی گئی ہیں جہاں علاقے کے بہترین پرکشش مقامات تلاش کرنے کے لئے. لہذا Dornoch کی گولف کورس یا سدرلینڈ شہر کے تاریخی کیتیڈرل کے زائرین کے بجائے کچھ بیت الخلا کی سمت میں اشارہ کیا جا کرنے کے لئے حیران تھے، مقامی GP. اور ایک ذبح. اور یہاں تک کہ اگر حیران سیاحوں نے اچانک ذبح خانے کا دورہ کرنے کی خواہش کی تو وہ دریافت کریں گے کہ اسے مسمار کرنے کا عمل جاری ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے شہر ڈورنوک کے دورے پر ، سیاحوں کو مقامی ذبح خانے کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ ڈورنوک کے زائرین ، تصویر میں ، اگر وہ ذبح خانے کا دورہ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں جلدی سے حرکت کرنا ہوگی - کیونکہ اسے مسمار کیا جارہا ہے۔ اس عجیب و غریب نشان نے ٹویٹر پر پوسٹ ہونے اور اسکاٹ لینڈ کے جرائم پیشہ مصنف ایان رینکن کی طرف سے ری ٹویٹ کیے جانے کے بعد آن لائن ہنگامہ برپا کردیا۔ یہ تصویر اصل میں آن لائن دی چیز ہاؤس، کرومارٹی کے جان پالمر نے پوسٹ کی تھی، جنہوں نے ٹویٹ کیا تھا: اس کے بعد اس ٹویٹ نے فوری طور پر آن لائن مزاحیہ تبصروں کی ایک سیریز کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اسٹیفن فوسٹر نے پوچھا: سوینی ٹوڈ کہیں قریب رہتا ہے؟ میلکم ریمسی نے کہا: ڈورنوک کا سفر؟ یہ مارنے یا علاج. گیون سٹرلینڈ نے گیون کے روایتی قصابوں سے ، جو ڈورنوچ میں قریبی خوردہ پارک میں مقیم ہیں ، نے کل اس ذبح خانے کے بارے میں کہا: "اسے زمین پر مارا گیا ہے۔" وہ اسے تباہ کر رہے ہیں جیسا کہ ہم بات کرتے ہیں. یہ چار یا پانچ سال کے لئے ترک کر دیا گیا ہے. براؤن اشارے عام طور پر صرف تاریخی اہمیت کے پرکشش مقامات یا مقامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ہائلینڈ کونسل کے ایک ترجمان نے کہا: "ہم اس نشان کی موجودہ حیثیت اور درستگی کی جانچ کر رہے ہیں۔"
اسکاٹ لینڈ میں ڈورنوک سیاحوں کو مقامی ذبح خانے کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ کشش ٹوائلٹ، ڈاکٹر اور شہر کے میوزیم کے نیچے درج کیا جاتا ہے. زائرین کو ذبح خانے کا تجربہ کرنے کی امید ہے مایوسی کا سامنا. اس کلہاڑی کو کئی سالوں سے بند کیا گیا ہے اور اسے مسمار کیا جارہا ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
14,935
سیاروں کے چاندوں کی تلاش، جیسے اینسیلاڈس (زحل کا چاند) اور یوروپا (مشتری کا چاند)، ہمارے نظام شمسی میں برفیلی دنیا کے ممکنہ رہائش کے بارے میں ہماری سمجھ میں کس طرح معاون ہے، اور مستقبل کے مشنوں کی منصوبہ بندی میں کون سے تکنیکی چیلنجز اور پیشرفت شامل ہیں۔ ان دور دراز آسمانی اجسام کا مطالعہ کرنے کے لیے؟
سیاروں کے چاندوں کی تلاش، خاص طور پر برفیلی دنیا جیسے اینسیلاڈس اور یوروپا، زمین سے باہر کے ماحول کے ممکنہ رہائش کے بارے میں منفرد بصیرت پیش کرتی ہے۔ دونوں چاندوں کی اپنی برفیلی کرسٹوں کے نیچے زیر زمین سمندر ہیں، جو زندگی کے وجود کے لیے دلچسپ امکانات پیدا کرتے ہیں۔ مستقبل کے مشن، جیسے کہ NASA کے Europa Clipper، کا مقصد ان چاندوں کا قریب سے مطالعہ کرنا، ان کی ساخت، سطح کی خصوصیات اور زیر زمین سمندروں کی چھان بین کرنا ہے۔ تکنیکی چیلنجوں میں سطح اور زیر زمین مواد کا تجزیہ کرنے کے قابل آلات تیار کرنا، برفیلی خطوں کی پیچیدگیوں کو نیویگیٹ کرنا، اور انتہائی ماحول میں خلائی جہاز کی لچک کو یقینی بنانا شامل ہیں۔ روبوٹکس، ریموٹ سینسنگ، اور نمونے کی واپسی کی ٹیکنالوجیز میں ترقی ان دور دراز آسمانی اجسام کے رازوں کو کھولنے اور ہمارے نظام شمسی اور اس سے باہر زندگی کے لیے ضروری حالات کے بارے میں ہماری سمجھ کو بڑھانے کے لیے اہم ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
15,415
ایڈم سمتھ کا "اخلاقی جذبات کا نظریہ" ان کے معاشی نظریات کی تکمیل کیسے کرتا ہے، اور انسانی فطرت اور اخلاقیات کے بارے میں ان کے خیالات کیا تھے؟
"اخلاقی جذبات کا نظریہ" میں ایڈم اسمتھ نے انسانی رویے اور اخلاقی فلسفے کی نوعیت کی کھوج کی۔ اس نے دلیل دی کہ انسانوں میں ہمدردی کا ایک فطری احساس ہوتا ہے، جو انہیں دوسروں کے جذبات کو سمجھنے اور ان کا خیال رکھنے کے قابل بناتا ہے۔ یہ اخلاقی جذبہ، خودی کے ساتھ مل کر، انسانی رویے پر اثر انداز ہوتا ہے اور سماجی ہم آہنگی میں حصہ ڈالتا ہے۔ اسمتھ کا خیال تھا کہ ذاتی مفاد کا حصول، جب اخلاقی جذبات سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے، انفرادی اور معاشرتی دونوں طرح کی بھلائی کا باعث بن سکتی ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
15,893
مجھے ایک مذاق سنائیں
ایک امیر آدمی نے شاپنگ سینٹر کے سامنے گاڑی کھڑی کی اور بے پرواہی کے ساتھ گاڑی کی چابی گاڑی میں چھوڑ کر شاپنگ سینٹر کے اندر جانے لگا۔ شاپنگ سینٹر کے گارڈ نے ان کے قریب آ کر کہا۔ ”جناب! آپ کو ملک کے حالات تو معلوم ہوں گے‘ آئے دن گاڑی چوری کی وار داتیں ہوتی رہتی ہیں اور آپ نے گاڑی کی چابی گاڑی میں چھوڑ دی ہے؟“ ان صاحب نے بے نیازی سے کہا۔ ”کوئی بات نہیں گاڑی انشورڈ ہے؟“ گارڈ نے گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”اور وہ محترمہ گاڑی میں بیٹھی ہوئی ہیں ان کی بھی انشورنس کروائی ہوئی ہے۔“
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
16,041
اخلاقیات موضوعی ہے یا معروضی؟ کیا ہمارے پاس ایسے اخلاقی اصول ہیں جو تمام ثقافتوں اور معاشروں کے لیے عالمی طور پر درست ہیں؟
اخلاقی موضوع پرستی اور معروضیت کے درمیان بحث اخلاقیات کا مرکز ہے۔ سبجیکٹیوسٹ دلیل دیتے ہیں کہ اخلاقیات ذاتی احساسات اور ثقافتی عقائد پر مبنی ہے، جو شخص سے فرد اور ثقافت سے ثقافت میں مختلف ہوتی ہے۔ مقصدیت پسندوں کا خیال ہے کہ کچھ اخلاقی اصول عالمی طور پر درست ہیں، انفرادی یا ثقافتی نقطہ نظر سے آزاد ہیں۔ چیلنج مختلف معاشروں میں اخلاقی عقائد کے تنوع پر غور کرتے ہوئے ان آفاقی اصولوں کی نشاندہی کرنا ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
16,194
سوشل میڈیا کے لئے مفت میں مواد تخلیق کرنے کا طریقہ
1. **مواد کی منظمی**: اپنے مواد کو منظم طریقے سے پیش کرنا اہم ہے۔ یہ آپ کی پوسٹس کو موزوں ترتیب دینے اور دیکھنے میں آسانی پیدا کرتا ہے۔ 2. **مواد کا تخلیقی کام**: اپنی تصویریں اور ویڈیوز کو خود بنائیں۔ آپ اپنے ذاتی تجربات، تخیلات، اور دلچسپیوں پر مبنی مواد تخلیق کر سکتے ہیں۔ 3. **مواد کا موضوع**: اپنے مواد کو ایک خاص موضوع کے گرد جمع کریں تاکہ وہ مخاطبین کو دلچسپی دینے میں مدد فراہم کرے۔ 4. **مواد کا تجدید**: پرانے مواد کو نئی زندگی دینے کے لئے ان میں تجدید لائیں۔ مثلاً، پرانی پوسٹ کو ایک نئے نظریے سے دیکھنے کی کوشش کریں یا اُسے تازہ معلومات کے ساتھ اپ ڈیٹ کریں۔ 5. **کوئی قیمتی معلومات**: مواد میں ایسی معلومات شامل کریں جو آپ کے مخاطبین کے لئے مفید ہو۔ یہ مواد کو مخاطبین کے لئے اہم بناتی ہیں اور آپ کی قدرتی اختصاص کو ظاہر کرتی ہیں۔ 6. **تشہیر اور اشتراک**: اپنے مواد کو دوستوں، خاندان اور فالوئرز کے ساتھ شیئر کریں۔ ان میں کہیں تک اسے وائرل بھی کرنے کی کوشش کریں۔ 7. **ہیش ٹیگز اور تگ کریں**: اپنے مواد میں موضوع سے متعلق ہیش ٹیگز اور دوسرے مواد کے موضوعات سے متعلق تگز شامل کریں۔ 8. **مواد کی ترجمہ و تبدیلی**: اگر آپ کے پاس دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنے کی صلاحیت ہے، تو اپنے مواد کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کرکے نئے حوالے کی مدد سے نئے حاشیے پیدا کر سکتے ہیں۔ 9. **قدرتی مناظریں اور خود کی تصویریں**: اپنی جگہ کی خوبصورتی کو کیمرے میں پکڑیں اور دوستوں کے ساتھ شیئر کریں۔ 10. **اختصاصی مواد کا استعمال**: اگر آپ کا کوئی خصوصی مواد ہے جیسے کہ اپنی اشتہاری مواد یا پروڈکٹس، تو ان کو بھی شیئر کریں۔ یہ تمام طرائق آپ کو مفت مواد تخلیق کرنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
16,996
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد عظیم کی عدالت نے کراچی بار ایسو سی ایشن کے سیکریٹری جنرل نعیم قریشی کی دائر درخواست پر سندھ حکومت، متحدہ قومی موومنٹ کے ذمے داران اور پولیس افسران کے بارے میں دائر ایف آئی آر کو بحال کردیا ہے اور مقدمہ تحقیقات کے لیے تحقیقاتی ٹیم کے حوالے کیے جانے کا حکم جاری کیا ہے۔ بارہ مئی کو جب کراچی بار سے وکلاء نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے استقبال کے لیے جلوس نکالا تھا تو اس پر نامعلوم افراد نے حملہ اور فائرنگ کی تھی۔ کراچی بار ایسو سی ایشن کے سیکریٹری جنرل نعیم قریشی نے بیس مئی کو اس واقعے کے خلاف سٹی کورٹ تھانے میں مقدمہ درج کرایا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ بارہ مئی کو وکلاء حبس بے جا میں رکھے گئے، انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں اور قاتلانہ حملے کے لیے ان پر فائرنگ کی گئی۔ اس کارروائی میں متحدہ قومی موومنٹ کے ذمے داران، سندھ حکومت اور پولیس حکام ملوث ہیں۔ پولیس حکام نے کچھ گھنٹوں کے بعد یہ ایف آئی آر بغیر کسی تحقیقات کے خارج کر دی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف نعیم قریشی نے عدالت سے رجوع کیا تھا اور موقف اختیار کیا تھا کہ ایس ایچ او کو ایف آئی آر خارج کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ بعد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے نعیم قریشی نے سٹی کورٹ پولیس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ سٹی پولیس ایف آئی آر میں فریق ہے اس لیے ان سے غیر جانبدرانہ تحقیقات کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔
کراچی کی ایک عدالت نے 12 مئی کے حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ، سندھ حکومت اور پولیس کے خلاف مقدمے کی ایف آئی آر بحال کردی ہے۔ "کراچی بار ایسو سی ایشن کے حملے: فیصلے کا اثر اور تحقیقات کی مواصلہ"
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
17,074
مسلم سلطنتوں نے جنوبی ایشیا کے متنوع مذہبی اور ثقافتی منظر نامے کے ساتھ کیسے تعامل کیا؟
جنوبی ایشیا میں مسلم سلطنتوں نے خطے کے متنوع مذہبی اور ثقافتی منظر نامے کے ساتھ مختلف طریقوں سے بات چیت کی۔ جب کہ حکمران مسلمان تھے، انہوں نے اکثریتی ہندو اور کثیر العقیدہ آبادی پر حکومت کی۔ سلطنتوں نے اکثر مذہبی رواداری کی پالیسی اپنائی جس سے رعایا کو اپنے مذہب اور رسم و رواج پر عمل کرنے کی اجازت دی گئی۔ اکبر نے مثال کے طور پر ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں سمیت مختلف مذہبی برادریوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے والی پالیسیوں کو نافذ کیا۔ ثقافت کے لحاظ سے، اسلامی اور مقامی جنوبی ایشیائی روایات کے درمیان فنکارانہ اور تعمیراتی طرزوں کا اہم تبادلہ ہوا۔ اثرات کا یہ امتزاج ہند اسلامی فن اور فن تعمیر کی ترقی کا باعث بنا، جس کی خصوصیت مقامی مواد، ڈیزائن اور اسلامی آرائشی عناصر کے استعمال سے ہوتی ہے۔ اس ثقافتی ترکیب نے جنوبی ایشیائی ورثے کو تقویت بخشی اور ایک مخصوص تعمیراتی اور فنکارانہ روایت کو جنم دیا جو آج بھی منائی جارہی ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
17,685
کیا آپ مجھے اردو میں ایک لطیفہ سنا سکتے ہیں؟
ایک امیر آدمی نے شاپنگ سینٹر کے سامنے گاڑی کھڑی کی اور بے پرواہی کے ساتھ گاڑی کی چابی گاڑی میں چھوڑ کر شاپنگ سینٹر کے اندر جانے لگا۔ شاپنگ سینٹر کے گارڈ نے ان کے قریب آ کر کہا۔ ”جناب! آپ کو ملک کے حالات تو معلوم ہوں گے‘ آئے دن گاڑی چوری کی وار داتیں ہوتی رہتی ہیں اور آپ نے گاڑی کی چابی گاڑی میں چھوڑ دی ہے؟“ ان صاحب نے بے نیازی سے کہا۔ ”کوئی بات نہیں گاڑی انشورڈ ہے؟“ گارڈ نے گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”اور وہ محترمہ گاڑی میں بیٹھی ہوئی ہیں ان کی بھی انشورنس کروائی ہوئی ہے۔“
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
17,913
دیے گئے منفی جملے کو مثبت جملے میں تبدیل کریں۔ بچوں نے اسکول کا کام مکمل نہیں کیا ہو گا۔
ٹھیک ہے، میں نے دیے گئے جملے کو مثبت جملے میں تبدیل کر دیا ہے۔ بچوں نے اسکول کا کام مکمل کر لیا ہو گا
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
17,991
کیا سعودی کلب جانے سے نیمار کا فٹبال کریئر داؤ پر لگ گیا ہے؟
یہ ایک ایسا اقدام تھا جس نے فٹبال کی دنیا میں ہلچل مچا دی۔ چھ سال قبل برازیل کے لیجنڈ فٹبالر نیمار نے بارسیلونا چھوڑ کر فرانسیسی کلب پیرس سینٹ جرمین (پی ایس جی) میں شمولیت کے لیے ریکارڈ 200 ملین پاؤنڈز کا معاہدہ کیا تھا۔ مگر اب 31 سالہ نیمار نے یورپی فٹبال کو الوداع کہہ دیا ہے، کم از کم ابھی کے لیے۔ وہ سعودی عرب میں کھیلنے والے بڑے کھلاڑیوں میں سے ایک بن گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق انھیں الہلال فٹبال کلب میں کھیلنے کے لیے سالانہ 150 ملین یوروز ملیں گے۔ انھوں نے دو سال کا معاہدہ کیا ہے لہٰذا یہ پی ایس جی کے مقابلے چھ گنا بڑی رقم ہے۔ نیمار نے پی ایس جی کے لیے 173 میچز کھیلے اور انھوں نے 13 ٹرافیاں جیتنے میں نمایاں کردار ادا کیا جس میں پانچ لیگ ون ٹائٹل شامل ہیں۔ مگر یہ کلب نیمار کو یورپ کا سب سے بڑا ٹائٹل ’چیمپئنز لیگ‘ جیتنے کے لیے لایا تھا۔ مگر وہ اس میں کامیابی نہ دلا سکے۔ پی ایس جی 2020 میں ان کی موجودگی میں فائنل تک پہنچ سکا تھا۔ جنوبی امریکہ میں فٹبال کے ماہر ٹِم وِکری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ بہت سے ہم وطنوں کی نظر میں یہ کام نہیں کرسکے۔ وہ اعلیٰ درجے کا یورپی فٹبال چھوڑ کر میدان جنگ سے بھاگ گئے ہیں۔‘ ’نیمار شاید اسے عارضی الوداع کہیں اور ضروری نہیں کہ وہ دوبارہ پی ایس جی میں شمولیت اختیار کریں۔ وہ شاید دو سال بعد دوبارہ یورپ آئیں کیونکہ اس وقت یہ جاننا مشکل ہے کہ ان کے پاس کیا آپشنز تھے۔‘ یہ نیمار کے کریئر کے اتار چڑتاؤ کا نیا باب ہے۔ اس تحریر میں ہم نے ان کے سینٹوس سے سعودی عرب تک کے سفر پر نظر دوڑائی ہے۔ 2009 میں سینٹوس کے لیے سینیئر ڈیبیو نیمار نے اپنے کریئر کا آغاز اپنے آبائی ملک برازیل میں کیا۔ انھوں نے 17 سال کی عمر میں سینٹوس کے ساتھ اپنا پہلا پیشہ ورانہ معاہدہ کیا۔ انھوں نے سینیئر ڈیبیو بھی مارچ 2009 میں کیا۔ ایک ہفتے بعد انھوں نے پہلا گول کیا اور ابتدائی طور پر 48 میچوں میں 14 گول کیے۔ 2010 میں برازیل کے لیے پہلا میچ کھیلے ایک سال بعد نیمار کو برازیل نے بلا لیا۔ یہ 10 اگست کو امریکہ کے ساتھ ایک دوستانہ میچ تھا۔ انھوں نے 28 منٹ کے اندر گول کر کے اپنے ڈیبیو کو شاندار بنایا۔ نیمار نے برازیل کے لیے 124 میچوں میں 77 گول کیے لیکن ان کا پہلا گول ان کے کریئر کے پسندیدہ ترین گولز میں سے ایک ہے۔ 2013 میں بارسیلونا اور برازیل کے لیے کامیابیاں لوئس سواریز، لیونل میسی اور نیمار بارسیلونا میں ایک زبردست جوڑی ثابت ہوئی۔ سنہ 2011 میں سانتوس کے لیے کوپا لیبرٹادورس جیتنے کے بعد نیمار نے بارسیلونا میں شمولیت اختیار کی۔ انھیں کئی یورپی کلبز نے پیشکش کی تھی۔ وہ لیونل میسی اور لوئس سواریز کے ساتھ فرنٹ تھری میں کھیلتے تھے اور اس جوڑی کو ’ایم ایس این‘ کا نام دیا گیا تھا۔ نیمار نے بارسیلونا کو لا لیگا، کوپا ڈیل رے اور چیمپئنز لیگ جیتنے میں مدد دی۔ بارسیلونا میں شمولیت کے فوراً بعد انھوں نے برازیل کو فیفا کنفیڈریشن کپ جیتنے میں بھی مدد کی اور ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔ 2014 میں ورلڈ کپ کا خواب ٹوٹ گیا اب تک نیمار کا ستارہ چمک رہا تھا اور برازیل کے 2014 میں ورلڈ کپ کی میزبانی کے ساتھ بہت سے لوگوں نے ان سے امیدیں وابستہ کر لی تھیں۔ ٹورنامنٹ سے پہلے اور اس کے دوران ان کی تصاویر ہر جگہ تھیں۔ لیکن لوگوں کو کافی مایوسی ہوئی جب کوارٹر فائنل میں وہ انجرڈ ہوگئے۔ کولمبیا کے جوآن زونیگا کی ٹکر نے انھیں کمر درد میں مبتلا کر دیا۔ اس میچ میں تو برازیل نے 2-1 سے کامیابی حاصل کی لیکن اس کی بڑی قیمت ادا کرنا پڑی: نیمار انجری کے ساتھ ورلڈ کپ سے باہر ہوگئے۔ سیمی فائنل میں جرمنی کے خلاف برازیل کو ایک سات کی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 2016 میں اولمپک ریکارڈ اور گولڈ سیزن نیمار، میسی اور سواریز کلب فٹ بال میں سب سے خطرناک جوڑیوں میں سے ایک ہے۔ سال 2015-16 میں انھوں نے مل کر 131 گولز کیے، جو ہسپانوی فٹبال تاریخ میں ایک سیزن میں سب سے زیادہ گولز ہیں۔ ان گولز نے بارسیلونا کو لا لیگا اور کوپا ڈیل رے کے ڈومیسٹک ڈبل کو مکمل کرنے میں مدد کی۔ اس سے قبل نیمار ریو میں سنہ 2016 کے اولمپک مقابلوں کے لیے دوبارہ برازیل کی ٹیم کا حصہ بنے۔ ورلڈ کپ میں چوٹ سے دل ٹوٹنے کے دو سال بعد نیمار نے فیصلہ کن پنالٹی سکور کی۔ انھوں نے برازیل کو پہلا اولمپک گولڈ جتایا۔ 2017 میں فرانس منتقلی بارسیلونا کے لیے 186 میچوں میں 105 گولز کرنے کے بعد نیمار نے اس ٹیم کو چھوڑ کر پی ایس جی میں شمولیت کا اعلان کیا تو عالمی فٹبال میں ہلچل مچ گئی۔ انھیں 2017 میں اس کے بدلے 200 ملین پاونڈز کی بڑی ڈیل آفر کی گئی تھی۔ 2017 میں اپنے ڈیبیو پر انھوں نے ایک گول کیا اور دوسرے گول میں اسسٹ کیا۔ وہ کلیان ماپے اور ایڈنسن کوانی کے ساتھ جارحانہ کھیل پیش کرتے تھے۔ نیمار نے لیگ ون، فرنچ کپ اور لیگ کپ میں پی ایس جی کی فتوحات کے دوران 30 میچوں میں 28 گول کیے۔ مگر انھیں سیزن چھوڑنا پڑا جب وہ دوبارہ انجری کا شکار ہوئے۔ یہ ان کئی انجریوں میں سے ایک ہے جنھوں نے پیرس میں انھیں خوفزدہ کیے رکھا۔ 2019 سے 2020: چیمپیئنز لیگ فائنل کے بعد مستقبل غیر یقینی پی ایس جی کے ساتھ دو سال گزارنے کے بعد نیمار کو بارے میں یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں کہ وہ دوبارہ بارسیلونا میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔ جولائی میں وہ سیزن سے قبل ٹریننگ کا حصہ نہ بن سکے جس پر پی ایس جی نے ناراضی ظاہر کی۔ پھر وہ پیرس میں ہی رہے۔ یہ سیزن بھی ان کی انجریوں کی وجہ سے متاثر ہوا۔ تاہم انھوں نے ٹیم کو لیگ ون میں فتح دلائی اور چیمپیئنز لیگ کے فائنل تک لے گئے جہاں ٹیم کو بائرن میونخ کے ہاتھوں شکست جھیلنی پڑی۔ 2012 سے 2023 کے اتار چڑھاؤ اگست 2021 کے دوران بارسیلونا میں نیمار کے سابق ساتھی میسی نے بھی پی ایس جی میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم نیمار کے لیے یہ مایوس کن سال رہا، وہ تمام مقابلوں میں صرف 13 گول کر سکے۔ یہ یورپ آنے کے بعد سے ان کا سب سے بُرا سیزن رہا۔ 2022 سے 2023 کے سیزن میں میسی اور ماپے کے ساتھ نیمار فارم میں واپس آئے۔ انھوں نے پہلے پانچ لیگ میچوں میں 13 گول اور اسسٹ کیے۔ مگر ماچ میں ٹخنے کی سرجری کے باعث وہ سیزن سے باہر ہوگئے۔ فروری کے میچ میں انھوں نے پی ایس جی کے لیے اپنا آخری میچ کھیلا۔ کیا نیمار کے کیریئر میں مزید اچھے لمحات آئیں گے؟ آج بھی برازیل میں شائقین نیمار کے ساتھ امیدیں جوڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اب تک ورلڈ کپ میں برازیل کو کامیابی نہیں دلائی ہے۔ تو کیا پی ایس جی چھوڑ کر سعودی لیگ کا حصہ بننے سے ان کی کامیابیاں محدود ہوجائیں گی؟ وکری کا کہنا ہے کہ ’ان سے بہت سے لوگ مایوس ہیں۔ یہ کوئی اچھا نتیجہ نہیں کیونکہ وہ کافی دیر سے انجرڈ رہے ہیں۔‘
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
18,344
نیدرلینڈز کے بارے میں بتایے:
نیدرلینڈز یا ولندیز ((ولندیزی: Nederland)‏)، غیر رسمی طور پر ہالینڈ، ایک بین البراعظمی ملک ہے جو کیریبین میں سمندر پار علاقوں کے ساتھ شمال مغربی یورپ میں واقع ہے۔ یہ نیدرلینڈزز کی بادشاہی کے چار جزوی ممالک میں سب سے بڑا ہے (باقی اروبا، کوراؤ اور سنٹ مارٹن ہیں)۔ یورپ میں، نیدرلینڈزز بارہ صوبوں پر مشتمل ہے اور اس کی سرحدیں مشرق میں جرمنی، جنوب میں بیلجیم، شمال اور مغرب میں شمالی سمندری ساحلی پٹی کے ساتھ ملتی ہیں۔ اس کی سمندری سرحدیں دونوں ممالک کے ساتھ اور شمالی سمندر میں برطانیہ کے ساتھ بھی ملتی ہیں۔ اس کا دار الحکومت شہر ایمسٹرڈیم ہے۔ مملکت نیدرلینڈزز کے جزو ممالک مملکت نیدرلینڈزز کے جزو ممالک ملک آبادی (1 جنوری 2012)[nb 1] مملکت کی آبادی کا تناسب رقبہ (مربع کلومیٹر) مملکت علاقے کا فی صد کثافت آبادی (فی مربع کلومیٹر) ماخذ اروبا 103,504 0.61% 193 0.45% 555 [lower-roman 1] کیوراساؤ 145,406 0.85% 444 1.04% 320 [lower-roman 2] سانچہ:Country data نیدرلینڈزز[nb 2] 16,748,205 98.32% 41,854 98.42% 396 – سانچہ:Country data نیدرلینڈزز یورپی نیدرلینڈزز 16,725,902 98.19% 41,526 97.65% 399 [lower-roman 3] – بونایر 16,541 0.10% 294 0.69% 46 [lower-roman 4] – سابا 1,971 0.01% 13 0.03% 134 [lower-roman 4] – سینٹ ایوسٹائیس 3,791 0.02% 21 0.05% 137 [lower-roman 4] سانچہ:Country data سنٹ مارٹن (نیدرلینڈزز) 37,429 0.22% 34 0.08% 1,101 [lower-roman 5] سانچہ:Country data مملکت نیدرلینڈزز مملکت نیدرلینڈزز 17,034,544 100.00% 42,525 100.00% 397 Central Bureau of Statistics (Aruba) Central Bureau of Statistics (Curaçao) Central Bureau of Statistics (Netherlands) ^ ا ب پ Central Bureau of Statistics (Caribbean Netherlands) Department of Statistics (Sint Maarten) ملاحظات The population statistics for the Netherlands proper and the Caribbean Netherlands are for 1 January 2012. However, the statistics for Aruba are for 31 December 2011, for Curaçao for 1 January 2011, and for Sint Maarten for 1 January 2010.
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
18,394
مجھے اس گانے کے بول چاہیے "پیار مجھسے جو کیا تھمنے" جو جگجیت سنگھ کی آواز میں گائے گئے ہیں
بالکل، یہ رہا آپ کا گانا: پیار مجھ سے جو کیا تھمنے تو کیا پاوگی میرے حالات کی آندھی میں بکھر جوگی رنج اور درد کی باسٹھ کا میں باشندہ ہوں یہ تو بس میں ہوں کے اس حال میں بھی زندہ ہوں خواب کیوں دکھوں وو کل جسپے میں سہرمندہ ہوں میںجو شرمندہ ہوں تو اور تم بھی شرماوگی کیوں میرے ساتھ کوئی اور پریشان رہے میری دنیا ہے جو ویران تو ویران رہے زندگی کا یہ سفر تم پی تو آسان رہے ہمسفر مجھکو بناوگی تو پچتاوگی ایک میں کیا ابھی ااینگے دیوانے کتنے ابھی گنجینگے موحبّت کے ترانے کتنے زندگی تمکو سنےگی فسانے کتنے کیوں سمجھتی ہو مجھے بھول نہیں پاوگی
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
18,976
مغلیہ سلطنت کے زوال میں بنیادی داخلی عوامل کیا تھے؟
مغلیہ سلطنت کی داخلی حرکیات نے اس کے بتدریج زوال میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک اہم عنصر جانشینی کا پیچیدہ مسئلہ تھا۔ اقتدار کی منتقلی کے لیے ایک اچھی طرح سے متعین موروثی نظام کی عدم موجودگی شہزادوں اور تخت کے دعویداروں کے درمیان مسلسل اقتدار کی جدوجہد کا باعث بنی۔ اس اندرونی کشمکش نے نہ صرف مرکزی اتھارٹی کو کمزور کیا بلکہ اس کے نتیجے میں طویل عرصے تک سیاسی عدم استحکام بھی ہوا۔ قیادت میں متواتر تبدیلیوں نے موثر حکمرانی میں رکاوٹ ڈالی، جس سے طاقت کا خلا پیدا ہوا جس کا علاقائی طاقتوں نے فائدہ اٹھایا۔ مزید برآں، سلطنت کے اندر طاقت اور انتظامیہ کی حد سے زیادہ مرکزیت نے نوکر شاہی کی نااہلی اور بدعنوانی کو جنم دیا۔ انتظامیہ تیزی سے کمزور ہوتی گئی، اور حکمرانوں کو اپنے زیر کنٹرول وسیع علاقوں کو مؤثر طریقے سے سنبھالنے میں چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک مضبوط انتظامی ڈھانچے کی کمی نے اندرونی چیلنجوں کو مزید بڑھا دیا، جس سے سلطنت بیرونی دباؤ کا شکار ہو گئی۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
19,255
فرانسیسی زبان کے بارے میں بتایے
فرانسیسی ((فرانسیسی: français)‏ - فغان٘سے) ہند یورپی زبانوں کے خاندان کی ایک زبان ہے جس کا تعلق رومنی زبانوں سے ہے۔ یہ رومنی سلطنت کی عامیانہ لاطینی زبان سے بنی ہے جیسا کہ تمام رومنی زبانوں کے ساتھ ہوا ہے۔ فرانسیسی زبان گولو رومنی زبان سے ترقی کرتی ہوئی اپنی نئی شکل میں وجود پزیر ہوئی ہے۔ گول رومنی گول علاقہ کی لاطینی زبان ہے۔ بالخصوص شمالی گول میں یہ رائج ہے۔ فرانسیسی ایک سے زیادہ براعظموں میں 29 ممالک میں ایک سرکاری زبان ہے،[4] جن میں سے اکثرفرانسیسی بین الاقوامی تنظیم (او آئی ایف) کے ارکان ہیں، 84 ممالک کی کمیونٹی جو فرانسیسی کے سرکاری استعمال یا تدریس کا حصہ ہے. فرانسیسی اقوام متحدہ میں استعمال ہونے والے چھ سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے.[5] یہ فرانس میں، پہلی زبان (اسپیکر کی تعداد میں کمی کے تحت)، کیوبیک صوبوں، اونٹاریو اور نیو برنوک کے ساتھ ساتھ دیگر فرانکوفون کے علاقوں، بیلجیم (والونیا اور برسلز - دارالحکومت خطے)، مغربی سوئٹزرلینڈ (برن، کینبرٹ، جیووا، جرا، نیوچنٹ، وڈ، وایلس)، موناکو، جزوی طور پر لیگزیانہ، لوئیسیا، ریاست، نیویارک، نیو ہاسپھائر اور ورمونٹ میں ریاستہائے متحدہ امریکہ میں، اور آستین وادی کے علاقے میں، اور آستین وادی کے علاقے میں، اور آستین وادی میں.[6] 2015 میں، فرانسسکون آبادی کا تقریبا 40 فیصد (ایل 2 اور جزوی اسپیکرز سمیت) یورپ میں، 35 فیصد ذیلی سہارا افریقہ میں، شمالی افریقہ میں مشرق وسطی اور مشرق وسطی میں 15 فیصد، اور ایشیا اور اوقیانوسیہ میں 1٪.[7] فرانسیسییورپی اتحاد میں دوسری سب سے بڑی بات چیت کی زبان کی زبان ہے۔[8] یورپ کے جو لوگ مقامی زبانوں سے بولتے ہیں، تقریبا ایک پانچویں فرانسیسی زبان کو دوسری زبان کے طور پر بولنے میں کامیاب ہیں.[9] یورپی اتحاد میں فرانسیسی سب سے زیادہ تعلیم دی گئی ہے. یورپی یونین کے تمام اداروں کو انگریزی اور جرمن کے ساتھ ساتھ ایک کام کی زبان کے طور پر فرانسیسی استعمال کے طور پر؛ بعض اداروں میں، فرانسیسی یورپی یونین کے عدالت کے عدالت میں واحد کام کرنے والی زبان ہے.[10] فرانسیسی دنیا میں 18th سب سے زیادہ طاقتور زبان بولی ہے، 6 ویں کل متکلمین کے اعتبار سے بولی جانے والی اور دوسری یا تیسرے سب سے زیادہ مطالعہ شدہ زبان (تقریبا 120 ملین موجودہ سیکھنے والے) کے ساتھ. [11] 16 ویں صدی کے بعد فرانسیسی اور بیلجیم کالونیوں کے نتیجے میں، فرانسیسی امریکا، افریقہ اور ایشیا میں نئے علاقوں میں متعارف کرایا گیا تھا. زیادہ تر دوسری زبان کے بولنے والے عالم فرانسیسی افریقہ میں رہتے ہیں، خاص طور پر گبون، الجزائر، مراکش،تونس، ماریشس،سینیگال اور آئیوری کوسٹ۔[12] تاریخ تفصیلی مضمون کے لیے فرانسیسی کی تاریخ ملاحظہ کریں۔ فرانسیسی ایک رومنی زبان ہے(مطلب یہ کہ بنیادی طور پر عامیانہ لاطینی سے اخذشدہ ہے) جس کی ارتقا مشرقی فرانس کے گالورومانی لہجات سے ہوئی ہے۔اس زبان کی ابتدائی اشکال میں قدیم فرانسیسی اور وسطیٰ فرانسیسی شامل ہیں۔ گالیا میں عامیانہ لاطینی مزید دیکھیں: گالو رومنی رومی اقتدار کی وجہ سے، گالیا کے لوگوں نے رفتہ رفتہ لاطینی کو اپنا لیا، اور جیسا کہ عام لوگ اسے بولتے تھے اس لیے اس نے اپنی ایک الگ عوامی خصوصیت بنا لی، جوکہ دوسری جگہوں پر بولی جانے والی لاطینی سے صرف‌ونحوی طور پر مختلف تھی، ان میں سے کچھ گرافیتی(graffiti) پر کنندہ ملتی ہیں۔[13] یہ عوامی تنوع گالو رومنی لسانوں میں ارتقا کر گئی، جس میں فرانسیسی اور اس کے اقربا مثلاً آرپیتانی وغیرہ شامل ہیں۔ گالیا میں مقامی کیلتی گالی زبان (جوکہ مغربی رومی سلطنت کے انحطاط کے بعد، 16ویں صدی تک معدوم نہیں ہوئی تھی) کے علاوہ لاطینی کی ارتقا اس کی نصف ہزار سالہ ہم آہنگی کی وجہ سے تھی۔[14]آبادی اصل میں 90 فی‌صد سودیشی رہی، [15][16] اور رومی آبادکاروں کی بجائے، رومی سازی جماعت وہاں کی مقامی سودیشی اشرافیہ تھے، جن کے بچے سلطنت کے زوال کے وقت رومی اسکولوں میں لاطینی سیکھتے تھے۔یہ مقامی اشرافیہ آہستہ آہستہ مکمل طور پر گالی زبان کو ترک کررہے تھے، لیکن قریائی اور نچلا درجہ گالی متکلم رہا جوکہ بعض اوقات لاطینی یا یونان بھی بولتا۔[17] آخری لسانی تغیر قریائی اور نچلے درجے کا گالی سے عامیانہ لاطینی کو بعد میں ہوا جب اِن دونوں اور فرانکیسی حکمران\فوجی درجے نے شہری دانشورانہ اشرافیہ کی گالو رومنی عامیانہ لاطینی اپنایا۔[17] واضح رومی سازی کے باوجود، گالی زبان 6ویں صدی عیسوی تک فرانس میں بچ گئی۔[14] لاطینی سے بقائے باہمی کرتے ہوئے، گالی زبان نے عامیانہ لاطینی کے لہجات کو فرانسیسی میں بدلنے کےلیے مدد کی، [17][14] جن میں فرضی الفاظ اور فرضی ترجمات (جن میں "ہاں" کے لیے، [18][19] لفظ oui شامل ہے۔)[19]، گالی اثر و رسوخ کی وجہ سے آواز کی تبدیلیاں، [20][21] اور اجتماع اور الفاظ کی ترتیب میں اثرات شامل ہیں۔[18][19][13]حالیہ محاسباتی مطالعات تجویز کرتے ہے کہ شاید ابتدائی تغیرِ صنف گالی میں اسی لفظ کی صنف سے متاثر ہوا ہے۔[22] قدیم فرانسیسی تفصیلی مضمون کے لیے قدیم فرانسیسی ملاحظہ کریں۔ گالیا میں فرانسیسی زبان کی ابتدا کو ملک میں جرمانی حملات کا بہت اثرورسوخ ہے۔اِن حملات کے ملک کے شمالی حصے اور وہاں کی زبان پر بھاری اثرات مرتب ہوئے تھے۔[23] ایک زبان ملک کے طول و عرض میں پیدا ہونا شروع کردیا۔مشرقی آبادی میں اَول زبان بولی جاتی جب کہ جنوبی آبادی اوک زبان بولتی تھی۔[23] اَول زبان اس میں ارتقا کرگئی جسے اب قدیم فرانسیسی کہتے ہیں۔قدیم فرانسیسی کا دورانیہ 8ویں سے 14ویں صدیوں تک ہے۔قدیم فرانسیسی کی لاطینی سے کئی خصوصیات مشترکہ ہیں۔مثلاً، قدیم فرانسیسی نے کئی مختلف مُمکنی ترتیبِ کلمات کا بالکل لاطینی کی استعمال کیا کیوں کہ اس کا ایسا نظام حالہ تھا جس نے نامزد افعال اور مستحکم غیر افعال کے درمیان میں فرق کو برقرار رکھا۔[24] یہ دور جرمانی فرانکیسی زبان کے اعلیٰ اثرات کے لیے نشان ہے، جس میں غیر جامعاً اعلیٰ طبقے میں تقریری استعمال اور وی2 ترتیبِ کلمات کا اعلیٰ استعمال، [25] ذخیرہ الفاظ کی بڑی فی‌صد(جدید فرانسیسی ذخیرہ الفاظ کا قریباً 15 فی‌صد[26]) جس میں غیر شخصی واحدی اسم ضمیر on شامل ہے(جو جرمانی man کا قرضی ترجمہ ہے اور خود زبان کا نام) وسطیٰ‌فرانسیسی تفصیلی مضمون کے لیے وسطی فرانسیسی ملاحظہ کریں۔ قدیم فرانسیسی کی اپنے اندر کئی لہجات نکل آئے تھے لیکن فرانسوی لہجہ نہ صرف جاری رہا بلکہ ترقی کرتا ہوا وسطیٰ فرانسیسی (14ویں-17ویں صدی) میں ارتقا کرگیا۔[23] جدید فرانسیسی اسی فرانسوی لہجے سے اخذ ہوئی ہے۔[23]صرف ونحوئی طور پی، وسطیٰ فرانسیسی کے دورانیے میں، تصریفِ اسما ضائع ہو گئے اور فرانسیسی زبان کی معیار سازی شروع ہوگئی۔رابرت استین نے پہلی لاطینی-فرانسیسی لغت شائع کی، جس میں صوتیات، اشتاقیات اور صرف و نحو کے متعلق معلومات درج تھی۔[27] سیاستاً، فرمان ویلرز-کوتریتز(1539) نے فرانسیسی کو زبان قانون بنا دیا۔ جدید‌فرانسیسی 17ویں صدی کے دوران، فرانسیسی نے سفارت کاری اور عالمی تعلقات (زبان عامہ) کی سب سے اہم زبان کے طور پر لاطینی کی جگہ لے لی۔اس کی اہمیت 20ویں صدی کے وسط تک برقرار رہی، جب انگریزی نے اس کی جگہ لے لی کیوں کہ جنگ عظیم دوم کے بعد ریاست ہائے متحدہ غالب عالمی قوت بن گئی تھی۔[28][29] لوس آنجلیز ٹائم ک کے استانلے میسلر کہتا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ معاہدہ ورسائلز جوکہ انگریزی اور فرانسیسی میں اِرقام کیا گیا تھا اس کے خلاف "پہلا سفارتی دھچکا" تھا۔[30] جغرافیائی تقسیم فرنگستان یورپی اتحاد اور امیدوار ممالک میں فرانسیسی زبان کے بولنے والے کی تعداد کی معلومات[31] یورپی اتحاد میں فرانسیسی زبان انگریزی اور جرمن کے زبان بطور مادردی زبان تیسری بڑی زبان ہے جس کے بولنے والے کل 19.71% ہیں۔[8][32] آئین فرانس کے تحت ، فرانسیسی 1992 سے جمہوریہ کی سرکاری زبان رہی ہے ،[33]حالاں کہ فرمان ویلرز-کوتریتز نے اسے 1539 میں قانونی دستاویزات کے لئے لازمی قرار دے دیا تھا۔ سوائے مخصوص معاملات ، اور قانونی معاہدوں ۔ اشتہارات میں غیر ملکی الفاظ کا ترجمہ ہونا ضروری ہے۔ بیلجیم میں ، ولندیزی کے ساتھ ساتھ وفاقی سطح پر فرانسیسی سرکاری زبان ہے۔ علاقائی سطح پر ، فرانسیسی والونیا کی واحد سرکاری زبان ہے (مشرقی کینٹن کے ایک حصے کو چھوڑ کر ، جو جرمن بولنے والے ہیں) اور برسلز دارلحکومتی علاقے کی دو سرکاری زبانیں - ولندیزی کے ساتھ ساتھ ، جہاں یہ ہے اکثریتی آبادی (تقریبا 80 80٪) اکثر ذفعہ اپنی مادری زبان کی حیثیت سے بولی جاتی ہے۔[34] فرانسیسی جرمن ، اطالوی ، اور رومانش کے ساتھ سوئٹزرلینڈ کی چار سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے ، اور یہ سوئٹزرلینڈ کے مغربی حصے میں بولی جاتی ہے ، جسے رومانڈی کہتے ہیں ، جن میں سے سب سے بڑا شہر جنیوا ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں زبان کی تقسیم سیاسی ذیلی تقسیم کے ساتھ مماثلت نہیں رکھتی ہے ، اور کچھ توپوں کو دو لسانی حیثیت حاصل ہے: مثال کے طور پر ، شہر جیسے بائیل / بیین اور کینٹس جیسے والیس ، فریبرگ اور برن۔ فرانسیسی سوئس آبادی کے تقریبا 23 فیصد کی مادری زبان ہے ، اور اس کی آبادی کا 50٪[35] بولی جاتی ہے۔ فرانسیسی ،موناکو اور لکسمبرگ کی بھی سرکاری زبان ہے ، نیز اطالیہ کے علاقے آوستہ وادی میں بھی ، جب کہ رودبارجزیرہ پر اقلیتوں کے ذریعہ فرانسیسی بولی بولی جاتی ہے۔ یہ انڈورا میں بھی بولی جاتی ہے اور ایل پاس دی لا کاسا میں کاتالان کے بعد اس کی بنیادی زبان ہے۔ جرمن سارلینڈ کی سرزمین میں اس زبان کو بنیادی دوسری زبان کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ، اس کے ساتھ ہی فرانسیسی کو پری اسکول سے پڑھایا جاتا ہے اور 43٪ سے زیادہ شہری فرانسیسی زبان بولنے میں اہل ہیں۔[36][37]
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
19,300
الخوارزمی کے بارے میں بتایں:
محمد بن موسیٰ خوارزمی عبد اللہ بن محمد بن موسیٰ خوارزمی نے عالمگیر شہرت پائی۔ نام ان کا نام ’’عبد اللہ بن محمد بن موسیٰ خوارزمی‘‘ ہے، خوارزم سے تعلق رکھتے تھے، کچھ مورخین نے ان کی پیدائش کاسن 780ء لکھا ہے۔، تاہم وہ المامون کے زمانے میں تھے، بغداد میں رہے۔ وجہ شہرت خوارزمی کی وجہ شہرت ان سے زیادہ ان کے آثار ہیں اور ریاضی اور فلکیات میں شہرت پاکر ابھرے، خلیفہ المامون سے منسلک ہوئے جنھوں نے ان کا خوب اکرام کیا، “بیت الحکمہ” سے بھی منسلک ہوئے اور معتبر سائنسدانوں اور علما میں شمار ہوئے، انھوں نے ریاضی ایجاد کی وفات ان کی وفات 232ھ کے بعد کے کسی سال میں ہوئی۔ آپ کی وفات 850ء میں ہوئی۔ تصنیفات انہوں نے بہت ساری اہم تصانیف چھوڑیں جن میں کچھ اہم یہ ہیں : الزیج الاول، الزیج الثانی جو ”السند ہند“ کے نام سے مشہور ہے، کتاب الرخامہ، کتاب العمل بالاسطرلاب، اور مشہورِ زمانہ ”کتاب الجبر والمقابلہ“ جسے انہوں نے لوگوں کے روز مرہ ضروریات اور معاملات کے حل کے لیے تصنیف کیا جیسے میراث، وصیت، تقسیم، تجارت، خرید وفروخت، کرنسی کا تبادلہ (ایکسچینج)، کرایہ، عملی طور پر زمین کا قیاس (ناپ)، دائرہ اور دائرہ کے قُطر(diameter) کا قیاس، بعض دیگر اجسام کا حساب جیسے ثلاثی، رباعی اور مخروط ہرم وغیرہ۔ ۔ اس میں سے ایک کارنامہ (صورۃ الارض) نامی کتاب کی تصنیف بھی ہے جس میں انہوں نے مختلف قدرتی اور آدم ساز (انسانوں کے بنائے ہوئے) خطے مثلاً پہاڑوں سمندروں، جزیروں، دریاؤں، نہروں اور شہروں کو ان کے ناموں کی ترتیب کے اعتبار سے ارضیاتی نقشہ جات میں وقت اور تصحیح کے ساتھ ذکر کیا ہے وہ پہلے سائنسدان تھے جنھوں نے علمِ حساب اور علمِ جبر کو الگ الگ کیا اور جبر کو علمی اور منطقی انداز میں پیش کیا۔ وہ نہ صرف عرب کے نمایاں سائنسدانوں میں شامل ہیں بلکہ دنیا میں سائنس کا ایک اہم نام ہیں، انہوں نے نہ صرف جدید جبر کی بنیاد رکھی، بلکہ علمِ فلک میں بھی اہم دریافتیں کیں، ان کا زیچ علمِ فلک کے طالبین کے لیے ایک طویل عرصہ تک ریفرنس رہا، خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ریاضیاتی علوم میں یورپ کبھی بھی ترقی نہ کرپاتا اگر اس کے ریاضی دان خوارزمی سے نقل نہ کرتے، ان کے بغیر آج کے زمانے کی تہذیب، تمدن اور ترقی بہت زیادہ تاخیر کا شکار ہوجاتی۔ الخوارزم (لاطینی میں جو "الگورتہم" بنا) ان کے نام سے ماخوذ ہے۔[3] مزید دیکھیے خطیب خوارزمی حوالہ جات ربط : https://d-nb.info/gnd/118676180 — اخذ شدہ بتاریخ: 30 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0 http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb122220627 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ Knuth, Donald (1979). Algorithms in Modern Mathematics and Computer Science. Springer-Verlag. ISBN 0-387-11157-3. 24 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2010.
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
19,627
ارسطو کون تھا، اور فلسفے میں اس کی اہم شراکتیں کیا تھیں؟
ارسطو ایک یونانی فلسفی تھا جو چوتھی صدی قبل مسیح میں رہتا تھا۔ اس نے اخلاقیات، مابعدالطبیعیات، سیاست اور فطری فلسفہ سمیت مختلف شعبوں میں اہم شراکت کی۔ ارسطو کے کام نے مغربی فلسفے کی بنیاد رکھی، اور اسے اکثر تاریخ کے سب سے زیادہ بااثر فلسفیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
19,949
انسٹاگرام پر آڈیو ریلز کیا ہیں؟
انسٹاگرام پر آڈیو ریلز وہ مختصر، لوپ کئے گئے آڈیو کلپس ہیں جو صارفین تخلیق کرتے ہیں اور انہیں ٹک ٹاک کی طرح بانٹ سکتے ہیں۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
20,021
"چین کی تاثیر اور افغانستان کے سیاسی مناظر: کیا اس سلسلے میں پاکستان کا کردار بھی محسوس ہو رہا ہے؟"
افغانستان میں تانبے اور لوہے کی کانوں میں سرمایہ کاری کرتا رہا ہے۔ وہ ون بیلٹ ون روڈ اسکیم کے تحت بہت سارے ممالک پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ چین-پاکستان اور طالبان-پاکستان کی قربت بھی واضح ہے۔ ایسی صورتحال میں چین پاکستان کی مدد سے طالبان کے ساتھ قربت بڑھا سکتا ہے جو انڈیا کے لیے بڑا چیلنج بن ہوگا۔ اشوک سججنہار بھی اس سے کسی حد تک متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'چین یقینی طور پر افغانستان میں ایک کھلاڑی ہوگا۔ نئے نظام میں وہ بھی افغانستان میں اپنا اثروروسخ بڑھانے کی کوشش کرے گا۔ چین نے ماضی میں وہاں سرمایہ کاری کی ہے لیکن وہاں زیادہ کام نہیں کر سکا ہے۔ جبکہ انڈیا نے زمینی سطح پر کام کیا ہے۔ انڈیا دوسرے ملک کی فکر کیے بغیر اپنی طاقت پر کام کرے گا۔' پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے اشوک سججنہار کا کہنا ہے کہ اگر طالبان بالکل پاکستان کی خواہش کے مطابق کام کرتا ہے تو انڈیا کے لیے پریشانی پیدا ہوسکتی ہے۔ لیکن میرا خيال ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کچھ رواداری برتے گا اور وہ اپنے مطابق حکومت چلائیں گے۔ کسی بھی حکومت کی طرح وہ بھی دوسرے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہے گا۔ ان سب کے درمیان کچھ ماہرین یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ ان مذاکرات سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ امریکی انتخابات سے قبل یہ محض ایک مشق ہے۔ کیونکہ نائن الیون کا سامنا کرنے کے بعد امریکہ افغانستان کو کبھی بھی طالبان کے حوالے نہیں کرے گا۔ اگر افغانستان میں سخت گیر طاقتیں مضبوط ہوتی ہیں تو انڈیا کے ساتھ باقی جنوبی ایشیاء کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یہ ممالک پہلے بھی انتہا پسندی کا سامنا کرتے رہے ہیں۔' انڈیا اور طالبان کا بدلتا موقف انڈیا یہ کہتا رہا ہے کہ وہ افغانستان میں ایک پرامن، مستحکم، محفوظ اور جمہوری حکومت چاہتا ہے اور دہلی نے ان مذاکرات کا خیرمقدم بھی کیا ہے۔ لیکن انڈیا نے یہ بھی کہا کہ یہ مذاکرات افغان حکومت کی قیادت اور کنٹرول میں ہونے چاہییں۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
20,160
ببر شیر پر مضمون لکھیں
ببر شیر (Panthera Leo، پینتھرا لیو) جنس پینتھرا میں موجود پانچ بڑی بلیوں میں شامل خاندان گربہ کا رکن ہے۔ افریقی شیروں کی عام مستعمل اصطلاح سے مراد افریقہ کی ذیلی ببرشیروں کی انواع (species) ہیں۔ بعض شیروں کا وزن ڈھائی سو کلو گرام سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے[8] اور اس لحاظ سے یہ شیرکے بعد دوسری بڑی بلی ہے۔ جنگلی ببر شیر افریقا کے نیم صحارا علاقوں اور ایشیا (جو بھارتی گیر فورسٹ نیشنل پارک میں پائی جاتی ہے اور اس علاقے میں یہ معدومی کے خطرے سے دوچار ہے) جبکہ ببر شیروں کی دیگر انواع شمالی افریقہ اور جنوب مغربی ایشیا سے بہت پہلے غائب ہوچکی ہیں۔ آج سے دس ہزار سال قبل پیلسٹوسین ادوار کے اواخر میں ببر شیر ہی انسان کے بعد سب سے زیادہ خشکی کے رقبے پر پھیلا ہوا ممالیہ تھا۔ اس زمانے میں یہ تقریباً تمام افریقا، تمام یوریشیا مغربی یورپ سے ہندوستان اور امریکا میں يوكون سے پیرو تک پایا جاتا تھا[9]۔ببر شیر معدومی کے خطرے سے دوچار جانور ہے، اور افریقی خطے میں بیسویں صدی کے دوسرے حصے میں اس کی آبادی میں 30 سے 50 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی[4]۔شیروں کی آبادی قومی پارکوں اور غیر محفوظ علاقوں میں غیر مستحکم ثابت ہوتی ہے۔اگرچہ اس کے معدوم ہونے کی وجوہات مکمل طور پرسمجھی نہیں جاسکیں لیکن مسکن سے محروم ہونا اور انسان سے سامنا ہونا جیسے امور عہد حاضر میں خطرے کی اہم وجوہات میں سے ہیں۔ افریقہ میں مغربی افریقی ببر شیروں کی آبادی معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔ جنگلوں میں نر ببر شیر اکثر اوقات صرف دس تا چودہ سال جی سکتے ہیں کیونکہ حریف نر شیروں سے ان کا مقابلہ ہوتا رہتا ہے لہذا چوٹ لگنے سے ان کی طول عمری کی گنجائش کم ہی رہتی ہے[10]۔جبکہ انسانی تحویل میں یہ 20 سال کی زندگی پا سکتے ہیں۔ عام طور پر یہ سوانا اور گھاس کے میدانوں میں رہتے ہیں جبکہ بعض اوقات یہ جنگل اور جھاڑیوں کو بھی مسکن بنا لیتے ہیں۔ عام حالات کے برعکس دوسری بلیوں کے مقابلے میں ببر شیر زیادہ سماجی رویہ دکھاتے ہیں۔ ایک ببر شیر کا خاندان (حرم) عام طور سے متعلقہ ببر شیرنیوں، اولادوں اور بچوں کی مختصر سی تعداد پر مشتمل ہوتا ہے۔ زیادہ تر ببر شیرنیوں کا گروہ ہی شکار میں حصہ لیتا ہے جن کے شکار میں کھروں والے جانور ہی زیادہ شامل ہوتے ہیں۔ ببر شیر سب سے اعلیٰ شکاری اور ماحول پر اثر کرنے والے شکاریوں میں سے ہے نیز وہ ایک ماہر مردار خور بھی ہے جو اپنی خوراک کا پچاس فیصد حصہ مردار گوشت کھا کر پورا کرتا ہے۔ عام حالات میں ببر شیر انسانوں پر حملہ نہیں کرتا لیکن کبھی کبھار وہ ایسا بھی کرتا ہے۔ ببر شیر دن بھر نیند لینے میں مشغول رہتا ہے اور اکثر رات کو شکار کیا کرتا ہے اگرچہ وہ دھند لکے میں بھی حملہ کیا کرتا ہے۔ [11][12] اسے ممتاز کرنا نہایت آسان ہے، نر ببر شیر کو اس کے سر اور گردن کے گرد موجود بالوں(ایال) سے پہچانا جاسکتا ہے اور اس کا چہرہ دنیا بھر کے انسانی ثقافتوں میں سب سے معروف نشان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کی شبیہ بالائی پیلیو لیتھک (50 ہزار تا 1لاکھ سال قبل) دور سے موجود ہے۔ غاروں میں موجود انسان بھی اپنی قیام گاہ کی دیواروں پر ان کے نقش بناتے تھے۔ تمام قدیم اور قرون وسطیٰ کی ثقافتوں میں اس جانور کی مختلف حوالوں سے موجودگی ایک مسلم بات ہے۔ اس کے مجسمے، تصاویر، قومی جھنڈوں میں موجودگی، فلموں میں اور ادب میں موجودگی ایک عام بات ہے۔ رومی دور میں بھی اسے نمائش وکھیل کے لیے بادشاہان پالتے تھے اور اٹھارویں صدی سے اسے پوری دنیا میں چڑیا گھروں کی زینت بنایا جا رہا ہے۔ پوری دنیا میں چڑیا گھر ایشیائی شیروں کے ملاپ کے ذریعے اسے معدومی سے بچانے کے لیے مشترکہ کاوشیں کر رہے ہیں۔ وجہ تسمیہ ببر شیر کا انگریزی نام ببر شیر دیگر کئی رومی زبانوں میں مستعمل ہے جو لاطینی زبان کے لیو[13] اور قدیم یونانی کے لیون سے نکلا ہے[14]۔عبرانی زبان کے لفظ لاوی کو بھی اسی سے مشترک کیا جاتا ہے[15]۔جبکہ اردو میں مستعمل ببر شیر فارسی الاصل ہے۔ نیز ببر کی اصلاح عربی میں بھی موجود ہے۔ یہ ان انوع میں سے تھی جسے اٹھارویں صدی میں کارلس لینیوس نے اپنی کتاب Systema Naturae میں نام دیا تھا انھوں نے اسے فیلس لیو کا نام دیا۔ [7] سائنسی درجہ بندی اور ارتقا ببر شیروں کے دیگر قریبی رشتہ داروں میں جنس پینتھرا کے انواع جیسے شیر، جیگوار اور تیندوے شامل ہیں۔ ہولارکٹک خطوں میں پھیلنے سے قبل پی لیو افریقہ میں دس لاکھ سے آٹھ لاکھ سال قبل نمودار ہوا[16]۔یورپ میں اس کے رکازیات سات لاکھ سال پرانے دریافت ہوئے ہیں جو اس کے ذیلی نوع پینتھرا لیو فوسیلیس کے ہیں اور یہ اطالیہ سے دریافت ہوئے ہیں [17]۔اسی نوع سے پھر غاروں والے زمانے کے ببر شیروں (پینتھرا لیو سپیلائی) کا ارتقا ہوا۔ یہ عمل تین لاکھ سال قبل ظہور میں آیا۔ شمالی یوریشیائی علاقوں میں دس ہزار سال پہلے برفانی میدان بننے کے آخری ادوار میں وہاں سے ببر شیروں کا خاتمہ ہوا اور شاید یہی پیلسٹوسین دور میں بڑے جانوروں کے ناپید ہونے کا دوسرا دور تھا۔ [18][19] ذیلی نوع 20 ویں صدی کے اواخر میں عام طور سے قبول کئے جانے والے ذیلی انواع کا جغرافیائی پھیلاؤ نر اور مادہ ببر شیر ایتوشا نیشنل پارک، نمیبیاء روایتی طور پر موجودہ دور میں ببر شیروں کی بارہ انواع پہچانی گئی ہیں اور اس پہچان کی بنیاد ببر شیروں کے سر اور گردن کے بالوں کی ظاہریت، جسامت اور ان کے جغرافیائی پھیلاؤ کو دیکھ کر کی گئی ہے۔ اصلاََ یہ تمام خصوصیات نہایت غیر اہم ہیں اور انفرادی طور پر اس میں کافی تبدیلی بھی نظر آتی ہے لہذا ان میں سے اکثریت کا مختلف نوع ہونا درست نہیں[20]۔آج صرف ان کی آٹھ انواع کو ہی قبول کیا جاتا ہے[19][21]، اگرچہ ان میں سے بھی ایک کیپ ببر شیر جسے پہلے پینتھرا لیو میلنکیاٹا کہا جاتا تھا غالبا غیر حتمی ہے[21]۔حتیٰ کہ باقی سات انواع بھی غیر یقینی ہوسکتے ہیں۔جبکہ ایشائی ببر شیروں کو بطور نوع قبول کیا جاسکتا ہے، افریقی ببرشیروں کے انتظامی تعلق کو اب بھی مکمل طور پر حل نہیں کیا جا سکا ہے۔ مائیٹو کونڈریائی فرق کی بنیاد کچھ جدید مطالعوں میں افریقی شیروں کے فرق کے لیے سب سے مستند حوالہ ہے، اس کے مطابق تما م ذیلی صحارا کے شیر بعض اوقات ایک ہی نوع تصور کئے جاتے ہیں، بہرحال ایک جدید تحقیق کے مطابق مغربی اور وسطی افریقہ کے شیر جنوبی اور مشرقی افریقی ببر شیروں سے جینیاتی طور پر مختلف ہیں۔اس مطالعہ کے مطابق مغربی افریقہ کے ببر شیر جنوبی اور مشرقی ببر شیروں کے مقابل ایشائی ببر شیروں کے زیادہ قریب ہیں۔امکان ہے کہ پیلسٹوسین کے آخری ادوار میں مغربی اور وسطی افریقہ میں افریقی ببر شیر ناپید ہوگئے ہوں اور ان کی جگہ بعد میں ایشیائی ببر شیروں نے لے لی ہو۔[22] پچھلے مطالعات جن میں زیادہ توجہ جنوبی اور مشرقی افریقی ببر شیروں کو دی گئی تھی کے بنیاد پر انھیں دو اہم قبیلوں میں بانٹا جاسکتا ہے : ایک کو گریٹ رفٹ ویلی اور دوسرے کو مشرقی علاقوں میں رکھا گیا ہے۔ مشرقی کینیا کے علاقے تساو میں موجود ببر شیر ٹرانسوال (جنوبی افریقہ) کے کے ببر شیروں سے جینیاتی طور پر قریب ہیں اور یہ قربت مغربی کینیا کے علاقے ایبرڈیر خطے کے ببر شیروں کے مقابلے میں بھی زیادہ ہے[23]۔ایک اور تحقیق کے مطابق شیروں کی تیں اہم اقسام ہیں ایک شمال افریقی و ایشیائی، دوسری جنوبی افریقی اور تیسری وسطی افریقی۔ [24] پر کرسچئینسن کہتے ہیں کہ انھوں نے ببر شیروں کی کھوپڑی کی ظاہریت کے مطابق ببر شیروں کے کئی انواع کا پتہ لگایا جن میں کروگری، نیوبیکا، پرسیکا اور سینیگالینیسس شامل تھے جبکہ بلیینبرگی کی سینیگالینیسس اور کروگری سے مماثلت تھی۔ ایشیائی ببر شیر سب سے زیادہ قابل امتیاز ہیں، اور کیپ ببر شیر کی خصوصیات پی۔ایل۔ پرسیکا کے قریب ہیں بنسبت دیگر ذیلی صحارائی شیروں کے۔ انھوں نے ببر شیروں کے 58 کھوپڑیوں کا تین یورپی عجائب گھروں میں مطالعہ کیا۔ [25] موجودہ جینیاتی مطالعات کی بنیاد پر آئی یو سی این ایس ایس کی کیٹ کلاسیفیکیشن ٹاسک فورس نے اپنی ماہرین کی مدد سے تمام ایشیائی ببر شیروں اور وسطی، شمالی افریقی ببر شیروں کو ذیلی نوع لیو لیو اور جنوبی مشرقی افریقہ میں پائے جانے والے ببر شیروں کو پینتھرا لیو میلنچیاٹا میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ [26] امریکی کی آبی حیات اور جنگلی حیات کے سرکاری ادارے نے اس نئی درجہ بندی کو " سائنسی اور اقتصادی طور پر بہترین" کہہ کر ان دو ذیلی نوع کو معدومی کے خطرے سے دوچار جانوروں کی فہرست میں ڈالا ہے۔ [27] چڑیا گھروں میں رکھے جانے والے ببر شیروں کی اکثریت دوغلی نوع کی ہیں۔ تقریباً ستتر فیصد انسانی تحویل میں موجود شیروں کی انواع عالمی نظام معلومات نوع کے مطابق نا معلوم ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کے مطابق ان میں سے بعض انواع جنگلی طور پر ناپید بھی ہوچکے ہیں اس لیے ان کے جینیاتی معلومات کو محفوظ رکھنا ببر شیروں کی جینیاتی اختلافات کو جاننے کے لیے اہم ہے[21]۔اس بات پر غالبا یقین کیا جاتا ہے کہ 19 ویں صدی کے وسط سے قبل یورپ میں لائے گئے ببر شیر بربر کے ببر شیر تھے جو شمالی افریقہ سے تعلق رکھتے تھے یا کیپ کے علاقے کے تھے۔[28] جدید اس وقت ان آٹھ جدید(ہولوسین) ذیلی انواع کو تسلیم کیا جاتا ہے : ببر شیروں کی ذیلی انواع ذیلی انواع معلومات تصویر بربری ببر شیر کو اٹلس ببر شیر یا شمالی افریقی ببر شیر بھی کہا جاتا ہے بربری ببر شیر کو اٹلس ببر شیر یا شمالی افریقی ببر شیر بھی کہا جاتا ہے یہ الجزائر، مراکش، تونس اور مصر میں پایا جاتا ہے یہ شمالی افریقہ سے ببر شیروں کی نامزد ذیلی نوع ہے۔ کثرت شکار سے شمالی افریقہ کے ویرانوں سے اسے ختم کیا جاچکا ہے جیسا کہ اس کا آخری شکار 1920ءمیں مراکش میں منظر عام پر آیا۔ [29][30] یہ ببر شیروں کی سب سے بڑی نوع تھی، [31] اس کے نر ببر شیروں کی لمبائی 3٫0–3٫3 میٹر (9٫8–10٫8 فٹ) اور وزن 200 kg (440 lb) ہوتا ہے۔ یہ نوع ذیلی صحارائی ببر شیروں کی نسبت ایشیائی ببر شیروں کے قریب نظر آتی ہے۔ بہت سے انسانی تحویل میں موجود ببر شیر اسی قسم سے ہیں۔، [32] رباط کے چڑیا گھر میں کم و بیش اس کی تعداد 90 ہے۔[33] شمالی افریقہ: (الجزائر، مصر، لیبیاء، مراکش اور تونس) ایشیائی ببر شیر، جسے ہندوستانی ببر شیر یا ایرانی ببر شیر بھی کہا جاتا ہے بھارتی گجرات کے گیر جنگلات میں پایا جاتا ہے۔ کبھی یہ تمام ترکی، جنوب مغربی ایشیا سے پاک و ہند تک پھیلے ہوئے تھے۔، [34] گجرات کے گیر جنگلات میں اس کی تعداد 523 ہے۔[35] جینیاتی ثبوت بتاتے ہیں کہ اس کے اجداد ستر ہزار سے دو لاکھ سال قبل الگ ہوئے تھے۔ [19] جنوبی یورپ: (البانیا، بلغاریہ، یونان، کوسوو، شمالی مقدونیہ، مونٹینیگرو اور سربیا) مغربی ایشیاء: (آرمینیا، بلوچستان، جارجیا، ایران، عراق، اسرائیل، اردن، کویت، لبنان، بین النہرین، عمان، روس، سعودی عرب، شام، ترکی، متحدہ عرب امارات اور یمن) جنوبی ایشیاء: (افغانستان، بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان) مغربی افریقی ببر شیر جسے سینیگالی ببر شیر بھی کہتے ہیں مغربی افریقہ میں سینیگال سے وسطی افریقی جمہوریہ تک ملتا ہے۔[36][37]۔ اسے 2015 میں شدید معدومی کے خطرے سے دوچار فہرست میں رکھا گیا ہے۔ یہ ذیلی صحارا کی ببر شیروں میں سب سے چھوٹی نوع ہے۔ مغربی افریقہ: (بینن، برکینا فاسو، گھانا، مالی، موریتانیہ، نائجیریا اور سینیگال) وسطی افریقہ: (کیمیرون، چاڈ، وسطی افریقی جمہوریہ، نائجیریا اور نائیجر) ماسائی ببر شیر (یا مشرقی افریقی ببر شیر یہ مشرقی افریقہ میں ایتھوپیا اور موزمبیق سے کینیا اور تنزانیہ تک پایا جاتا ہے اس کی ایک مقامی قسم تساوو ببر شیر کے نام سے بھی معروف ہے۔ [37] مشرقی افریقہ: (جبوتی، ایتھوپیا، ارتریا، کینیا، صومالیہ، جنوبی سوڈان، سوڈان، تنزانیہ اور یوگینڈا) کانگو ببر شیر (پی۔ایل۔ azاورica)، یا شمال مشرقی کانگو ببر شیر یہ کانگو کے شمال مشرقی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔[36] یہ فی الحال روانڈا وسطی افریقہ(وسطی افریقی جمہوریہ، جنوبی سوڈان ٌ) سے ناپید ہوچکا ہے۔ جنوب مغربی افریقی ببر شیر یا کٹالنگا ببر شیر یہ جنوب مغربی افریقہ اور جمہوریہ کانگو میں ملتا ہے۔یہ افریقی ذیلی ببرشیروں کے سب سے بڑی انواع میں سے ہے۔ جنوبی افریقا: (انگولا، بوٹسوانا، کانانگا (کانگو)، نمیبیا، زیمبیا، زمبابوے)[37] ٹرانسوال ببر شیر یا جنوب مشرقی افریقی ببر شیر یہ ٹرانسوال جو جنوب مشرقی افریقہ کا خطہ ہے میں پایا جاتا ہے، نیز یہ کروگر قومی پارک میں بھی ملتا ہے۔[37] جنوبی افریقا: (بوٹسوانا، موزمبیق، جنوبی افریقا، سوازی لینڈ، اورزمبابوے) ایتھوپیائی ببر شیر یا ادیس ابابا ببر شیر ایک نئی بمشکل امتیاز کی جانے والی ایک ذیلی نوع ہے جو ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا میں انسانی تحویل میں موجود ہے۔[38] ماہرین نے تحویل میں موجود پندرہ ببر شیروں کے خرد سیارچوںکا موازنہ دیگر جنگلی ببر شیروں کے انواع سے کیا۔ انھوں نے انجام میں پایا کہ جینیاتی طور پر یہ ببر شیر نایاب ہیں "یقینا جن ویرانوں سے ان کے اجداد کا تعلق ہے وہ بھی نایاب ہے "ان ببر شیروں کے نروں کی جلد الگ طور سے گہری رنگت اور خوبصورت قسم کی ہے جو ایک نئی ذیلی نوع جو ایتھوپیا تک محدود ہے کا پتہ دیتی ہے۔ [39] یہ ببر شیر ایتھوپیا کے بادشاہ ہیل سیلاسک اول کے پاس موجود تھے۔ شمال مشرقی افریقہ: (ایتھوپیا) پلسٹوسین ببر شیر کی چند وہ انواع جو ما قبل تاریخ وجود رکھتی تھیں۔ پی۔ایل۔فوسیلیس جسے وسطی پلسٹوسین یورپی غاروں والا ببر شیر کہتے ہیں پانچ لاکھ سال قبل وجود رکھتا تھا اس کے باقیات اٹلی میں دریافت ہوئے ہیں۔ اس کی جسامت موجودہ افریقی ببر شیروں سے بڑی تھی اور یہ ببر شیر جسامت میں امریکی غاروں کے دور کے ببر شیروں کے برابر تھے جبکہ بالائی پیلسٹوسین یورپی غاروں والے ببر شیروں سے تھوڑے بڑے تھے۔ [19][40] غاروں کے دور کا ببر شیرکیوٹ غار، فرانس پی۔ایل۔سپیلائی جسے یورپی غار کا ببر شیر کہتے ہیں یا یوریشین غار کا ببر شیر یا بالائی پیلیسٹوسین غار کا ببر شیر تین لاکھ سے دس ہزار سال قبل یوریشیائی علاقوں میں ملا کرتا تھا۔ [19] اس نوع کی نشانیاں غاروں سے ملنے والے مٹی کے مجسموں اور ان کی دیواروں پر موجود تصویروں کے طور پر ملی ہیں جس سے پتا لگتا ہے کہ ان کے کان آگے کو نکلے ہوئے تھے[41]، دم کے سرے پر گچھا، غالبا بنگالی شیر کی طرح ہلکی دھار اور شاید بعض کے پاس گردن کے گرد ہلکے سے بال ہوتے تھے جو نر کی نشانی تھی۔ [42] پی۔ایل۔اٹروکس جو امریکی ببر شیر یا امریکی غاروں والا ببر شیر کے نام سے معروف ہے، پیلسٹوسین ادوار میں کینیڈا سے جنوب میں پیرو تک پایا جاتا تھا اور یہ دس ہزار سال پہلے تک وہاں موجود تھا۔ یہ قسم پی۔ایل۔سپیلائی کے نہایت قریب رشتہ داروں میں سے تھے، یہ شاید اس وقت ان سے الگ ہوئے تھے جب دس لاکھ سال قبل شمالی امریکا کے پی۔ایل۔سپیلائی دس لاکھ سال قبل ان سے الگ ہوئے۔[43] ببر شیروں کی سب سے بڑی ذیلی نوع میں سے تھی، اندازہً اس کے جسم کی لمبائی 1.6–2.5 میٹر (5.2–8.2 فٹ)۔ تک تھی۔ [44] مشکوک پیتھرا یونگیپی۔ ایل۔ یونگی ساڑھے تین لاکھ سال قبل وجود رکھتا تھا۔ [9] اس کا موجودہ ببر شیروں سے تعلق نامعلوم ہے اور شاید یہ الگ نوع تھی۔ پی۔ ایل۔ sinhaleyus سری لنکنی ببر شیر 39000 سال قبل ناپید ہوا۔ کرویٹا کے علاقے سے ملنے والے دو دانتوں سے ہی اس کا اشارہ ملا ہے۔ اس بنیاد پر پی۔ دیرانییاگلا نے 1949ء میں اسے ایک الگ نوع قرار دیا۔ [45] پی۔ایل۔ ورشچاگینی بریگینین غاروں والا ببر شیر روس الاس کا اور کینیڈا کے علاقوں میں ملتا تھا اسے پی۔ ایل۔ سپیلائی سے الگ ذیلی نوع سمجھی جاتی ہے جس کی وجہ اس کے ظاہری خصوصیات ہیں۔ اگرچہ یورپ اور الاس کا سے ملنے والے مائٹو کونڈیائی ڈی این اے سے اس کی الگ پہچان کرنا ممکن نہ ہو سکی۔ [43] 800 ق م کا ایک ایرانی سیل جس میں ببر شیر کے شکار کو دکھایاگیا ہے۔ان ببر شیروں کے شکم تلے بال نظر آرہے ہیں۔ بین النہرینی ببر شیر نیو اسارین دور (600 سے 1000 ق م) میں پایا جاتا تھا۔[46] یہ بین النہرین کے میدانوں میں ملتا تھا اور شاید یہ ایک الگ ذیلی نوع تھی۔ تقریباً تمام نر ببر شیروں کے پیٹ کے نیچے بال ہوتے تھے اور یہ اب صرف بربری شیروں اور ایشیائی ٹھنڈے خطوں میں رکھے جانے والے تحویلی ببر شیروں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ قدیم ثبوتوں سے یہ بات واضح ہے کہ ان خطوں کے آس پاس ایسی کوئی ذیلی نوع نہ تھی لہذا اس بنیاد پر اسے ایک الگ معدوم نوع خیال کیا گیا ہے۔ اس بات کے ثبوت اس دور کے مجسموں اور تصاویر سے ملے ہیں جو اس کے شکار سے متعلق ہیں نیز یہ بات بھی واضح ہے کہ قدیم دنیا میں اس کے زیادہ شکار ہونے کے سبب اس نوع نے اپنا وجود کھویا۔ یورپی ببر شیر پینتھرا لیو پرسیکا سے مشابہ تھی۔ یہ 100 قبل از میلاد میں ناپید ہوئی جس کی وجہ بہت زیادہ شکار ہونا تھی۔ یہ بلقان، اطالیہ، جنوبی فرانس اور جزیرہ نما آئبیریا میں ملتا تھا۔ یہ قدیم یونان اور روم میں شکار کے لیے بہترین سمجھا جاتا تھا۔ پی ایل مکولیٹس یا ماروزی یا داغدار ببر شیر کو بعض اوقات ایک الگ نوع کہا جاتا ہے یا ہو سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا بالغ ببر شیر ہو جس نے اپنی دھبہ دار جلد برقرار رکھی ہو۔ اگر اسے اس خیال کی بجائے ایک الگ نوع تسلیم کیا جائے تو ببر شیر کی یہ نوع 1931ء میں ناپید ہوچکی تھی۔ لیکن بعض اوقات اسے تیندوے اور ببر شیر کے جنسی اختلاط سے پیدا ہونے والا لیوپیون ہی سمجھا جاتا ہے۔ [47] دوغلی نسل ایک ببر شیرنی اپنے بچوں کے ہمراہ، جنوبی افریقہ ببر شیروں کا شیروں کے ساتھ ملاپ کروایا جاتا ہے (بالخصوص بنگالی اور سائبیریائی شیروں سے ) اس سے ایک دوغلی نسل کا شیر لائگر اور ٹگلیون پیدا ہوتا ہے۔ [48] اسے تیندوے سے بھی ملاپ کروایا جاتا ہے جس سے لیوپون پیدا ہوتے ہیں [49] اور جیگوار سے ان کی ملاپ جیگلیون پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ مارزوی مشہور کیا گیا دھبہ دار ببر شیر ہے یا ایک قدرتی طور پر لیوپون ہے، جبکہ کونگولیس دھبہ والا ببر شیر ایک پیچیدہ طور پر ببر شیر-جیگوار اور تیندوے کا باہمی ملاپ ہے جسے لیجیگولیپ کہتے ہیں۔ کبھی چڑیا گھروں میں ایسی دوغلی نسلیں پیدا کرنے کا رواج عام تھا لیکن اب اس بات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے تاکہ نوع اور ذیلی انواع کا تحفظ کیا جاسکے۔ آج بھی پرائیوٹ طور پر اور چین کے چڑیا گھروں میں ایسا کیا جاتا ہے۔ لائگر ببر شیر اور شیرنی کے ملاپ کا نتیجہ ہے۔ [50] چونکہ اس کی ماں میں نشونما کو روکنے والی جین نہیں ہوتی اور اس پر نر ببر شیر اپنے جین کے نشونما کو بڑھانے والی خصوصیات بچے میں منتقل کرتا ہے لہذا لائگر اپنے والدین کے نسبت کافی بڑا جسامت والا ہوتا ہے۔ وہ اپنے والدین کے طبعی اور ظاہری برتاؤ کے دونوں خصوصیات کا مالک ہوتا ہے۔ (اس کی جلد بھوری ہوتی ہے جس پر شیر کی مانند دھاریں ہوتی ہیں)۔نر لائگر اکثر نسل بڑھانے سے قاصر ہوتے ہیں جبکہ مادہ اکثر ایسا کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ نر کے سر اور داڑھی کے بال آنے کے 50 فیصد امکان ہوتے ہیں لیکن ایسا ہونے کی صورت میں ان کی داڑھی اصل ببر شیر کے مقابلے میں 50 فیصد چھوٹی ہوتی ہے۔ لائگر عام ببر شیروں کے مقابلے میں کافی بڑے ہوتے ہیں اور ان کی جسامت 12 فٹ تک ہوتی ہے جبکہ وزن 500 کلو تک کے ہوتا ہے۔ [51] کم طور پر معروف دوغلی ملاپ کا ایک طریقہ شیر اور ببر شیرنی کے ملاپ کا ہے۔[52] لائگر کے بنسبت ٹگلیون اپنے والدین کے مقابلے میں چھوٹی جسامت کے ہوتے ہیں جس کی وجہ جینیاتی خصوصیات لائگر والی صورت سے الٹ ہونا ہے۔ [51] خصوصیات خاندان گربہ میں شیر کے بعد ببر شیر جسامت اور وزن کے لحاظ سے سب سے بڑے ہیں۔ اس کی کھوپڑی شیر کی کھوپڑی سے حد درجہ مماثلت رکھتی ہے، اگرچہ سامنے کا حصہ قدرے پچکا اور ہموار ہوتا ہے اور نتھنے بمقابل شیر کے تھوڑے چوڑے ہوتے ہیں۔ چونکہ ان میں مماثلت زیادہ ہوتی ہے لیکن نچلے جبڑوں کے ذریعہ ہی ان میں مستند طور پر فرق کیا جاسکتا ہے۔ [53] ببر شیروں کے رنگ پیلے، ہلکے سرخ یا گہرے بھورے رنگ کے ہوتے ہیں۔ پورے جسم کا رنگ عام طور سے ہلکا جبکہ دم کا رنگ کالا ہوتا ہے۔ ببر شیروں کے بچے بھورے دھبوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں یہ مشابہت تیندوے سے ملتی ہے۔ یہ دھبے اگرچہ بالغ ہونے پر مٹ جاتے ہیں لیکن ہلکے دھبے ٹانگوں کے نچلے حصوں پر دیکھے جاسکتے ہیں بالخصوص ببر شیرنی کے جسم پر۔ [54] ببر شیر بلیوں کے خاندان کے واحد فرد ہیں جو جنسی فرق نمایاں طور پر رکھتے ہیں (یعنی نر اور مادہ کی پہچان باآسانی ممکن ہے)۔نیز ان کے خاندانی ارکان میں ہر رکن کا ایک خاص کردار ہوتا ہے۔ مثلا ببر شیرنی کی داڑھی نہیں ہوتی۔ نر ببر شیر کی داڑھی کا رنگ سنہرے سے کالا ہوتا ہے اور بوڑھے ہونے کے ساتھ ساتھ رنگ گہرا ہوتا جاتا ہے۔ سب خاص نر اور مادہ میں مشترک چیز دم کے آخر میں بالوں کے گھچے کا ہونا ہے۔ بعض نر ببر شیروں میں اس گھچے کی بجائے سخت قسم کی پانچ ملی میٹر لمبی ہڈی جیسی چیز ہوتی ہے۔ نیز یہ واحد فیلیڈ ہے جس کی دم گھچا نما ہوتی ہے اس گھچے والی دم کے افعال نا معلوم ہیں۔ یہ بالوں کا گھچا پیدائش کے وقت نہیں ہوتا جبکہ 5 ماہ کے قریب یہ ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے اور 7 ماہ تک اسے باآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ زمبابوے کے بالغ ببر شیروں کی جسامت اپنے علاقوں کے نسبت مختلف ہواکرتی ہے، کالاہاری اور کروگر پارک کے ببر شیروں کا وزن اوسطا 189 کلو سے 126 کلو تک ہوتا ہے جبکہ ببر شیرنیوں کا وزن اوسطا 174 کلو سے 119 کلو تک ہوا کرتا ہے۔ [55] ببر شیروں کی لمبائی میں سر اور جسم کی لمبائی شامل ہوتی ہے جو 170 تا 250 سینٹی میٹر ہوتی ہے، دم کی لمبائی 90 تا 105 سینٹی میٹر ہوا کرتی ہے۔ ببر شیرنیوں کی سر دھڑ کی لمبائی 140 تا 175 تک ہوتی ہے جبکہ دم کی لمبائی 70-100 سینٹی میٹر ہوتی ہے، [8] 250 سینٹی میٹر لمبائی بالعموم جو کہی جاتی وہ اصلا امریکی ناپید ہونے والی ببر شیروں کی ہے آج بھی بہت بڑے ببر شیروں کی لمبائی 250 سینٹی میٹر کی لمبائی سے کئی سینٹی میٹر کم ہوتی ہے۔[56] اب تک سامنے آنے والی سب سے بڑی لمبائی 6۔ 3 میٹر (12 فٹ) ہے جو انگولا میں اکتوبر 1973ء میں ایک شکار سے معلوم ہوئی ایک اور ببر شیر کا وزن جس کا وزن 313 کلو تھا جسے 1936ء میں ٹرانسوال، جنوبی افریقا میں شکار سے ماراگیا۔ [57] ایک اور زیادہ وزن والا ببر شیر جس کا وزن 272 کلو تھا کو کوہ کینیا میں مارا گیا۔ [29] ايال دیگر ببر شیروں سے جارحانہ سامنا ہونے پر ببر شیر اپنے یال بڑے دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بڑی بلیوں میں ببر شیر کی داڑھی اور گردن کے بال سب سے نمایاں خصوصیت ہیں۔بہت کم حالات میں ببر شیرنی کے بھی ایسے بال آسکتے ہیں۔[58][59] ان بالوں کا ہونا یا نا ہونا، رنگت اور اس کا سائز سب جینیاتی خصوصیات، جنسی بالیدگی، آب وہوا، نر ہارمونز پر منحصر ہوتے ہیں جتنی بڑی داڑھی اور سر کے بال ہوں گے اتنا ہی ببر شیر صحت مند ہوگا۔ ببر شیرنیاں بھی جنسی تعلقات میں انھیں ببر شیروں کو ترجیح دیتی ہیں جن کے بال گھنے اور گہرے ہوتے ہیں۔ [60] تنزانیہ میں ہونے والے تحقیق سے پتا چلا کہ ان بالوں کی لمبائی ہی نر ببر شیروں کی آپس میں لڑائی کا سبب بنتا ہے۔ جتنے گہرے یہ بال ہوں گے اتنے ہی ان کی تولیدی نظام زیادہ عرصے کار آمد رہتا ہے نیز ان کے بچوں کے بچنے کے بھی امکان زیادہ رہتے ہیں لیکن ان بالوں کی وجہ سے انھیں گرمیوں کے ایام بڑے سخت گزارنے پڑتے ہیں۔ [61] بنا یال ایک ببر شیر۔ سائنسدان کبھی اس بات پر یقین کرتے تھے کے گردن کے گرد بالوں کے سائز اور ظاہری صورت کی بنیاد پر ذیلی انواع کی درجہ بندی کی جاسکتی ہے۔ ظاہری صورت کی بنیاد پر بربری ببر شیروں اور کیپ ببر شیروں کے ذیلی انواع کو بھی پہچانا گیا۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ درجہ حرارت کا فرق ان بالوں کی جسامت اور رنگت میں فرق کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ [61] مثلا یورپی اور امریکی چڑیا گھروں میں بالوں کے گھنے ہونے کی وجہ وہاں کا ٹھنڈا موسم ہو سکتا ہے لہذا ان بالوں کی بنیاد پر کی گئی انواع کی درجہ بندی غلط اور غیر مستند قرار دی جاتی ہے۔[21][62] بہرحال ایشیائی شیروں کی انواع کے بالوں کا بکھرے ہوئے ہونا انھیں افریقی شیروں سے ممتاز کرتا ہے۔ [63] پند جاری نیشنل پارک میں موجود ببر شیر گردن کے گرد بالوں سے محروم ہیں یا یہ بال بہت کم ہیں۔ [64] بنا بالوں کے ببر شیروں کی موجودگی کی اطلاع کینیا، سوڈان اور سینیگال کے علاقوں سے بھی ملتی ہیں اور فطری طور پر سفید ببر شیر جو تمباواتی سے تھے ان کے گردن کے گرد بال بھی نہ تھے۔ ٹسیٹیرون نامی نروں کے ہارمونز کو ان بالوں کی جسامت سے جوڑا جاتا ہے، اسی لیے خصی کیے گئے ببر شیروں کی گردن کے گرد بال کم ہی ہوتے ہیں کیونکہ خصیتین کے نکالنے سے ان کے ہارمونز کی پیداوار رک جاتی ہے۔ [65] یورپ میں موجود غاروں میں بنائی گئی قدیم تصویروں میں ببر شیروں کی گردن کے بال نہیں بنائے گئے ہیں، اس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ ان ببر شیروں کے یہ بال نہیں ہوتے تھے، [42] یا یہ تصاویر ان ببر شیرنیوں کی ہے جو شکار میں نظر آتی تھیں۔ سفید ببر شیر سفید ببر شیر سفید ببر شیرکسی قسم کی نوع نہیں ہیں بلکہ یہ ایک خاص جینیاتی صورت ہوتی ہے جسے لیوسیزم کہتے ہیں [20]، جو ببر شیروں کی بالوں اور جلد کی رنگت سفید کر دیتی ہے جیسا کہ یہ سفید ببر شیروں میں ہوتا ہے یہ صورت میلنزم سے میل کھاتی ہے جو کالے تیندوں میں ظاہر ہوتی ہے۔یہ البائنو نہیں ہوتے ( یعنی ان کی آنکھوں اور جلد میں عام رنگت موجودہوتے ہیں) سفید ٹرانسوال ببر شیر سے کبھی کبھی کروگر نیشنل پارک اور ملحقہ تمبواتی پرایویٹ گیم ریسرو، مشرقی جنوبی افریقہ میں سامنا ہوجاتا ہے، لیکن عموما یہ انسانی تحویل میں ہی ملتے ہیں، اور ملاپ کروانے والے انھیں جان بوجھ کر منتخب کرتے ہیں۔ان کی جلد کی کریمی رنگت، رسیو الیلی کی وجہ سے ہے۔[66] ایسی خبریں ہیں کہ جنوبی افریقہ میں ان کی کیمپوں میں افزائش نسل کی جاتی ہے پھر انھیں کینڈ ہنٹ ( ایک قسم کا شکار) میں شکار کیا جاتا ہے۔ [67] برتاؤ ببر شیر اکڑ نکالتے ہوئے ببر شیر دن بھر آرام کرتے ہیں اور دن میں تقریباً 20 گھنٹے غیر فعال رہتے ہیں۔ [68] اگرچہ ببر شیر کسی بھی وقت فعال ہوسکتے ہیں لیکن ان کی فعالیت شام کے بعد سے اپنے جوبن پر ہوتی ہے شامیں یہ ا پنے سماجی تعلقات، رفع حاجت اور سماجی افعال انجام دینے میں بتاتے ہیں۔ بہت زیادہ طور پر مشغول رہنا پوری رات تک چلتا رہنا ہوتا ہے جبکہ علی الصبح اکثر شکار ہوا کرتا ہے۔ وہ دن میں اوسطا دو گھنٹے چلتے ہیں اور 50 منٹ تک اپنی خوراک کھاتے ہیں۔ [69] گروہی تنظیم دو ببر شیرنیاں اور ایک ببر شیر۔ دو ببر شیر اور ایک ببر شیرنی۔ تمام فیلڈ فطری طور پر غیر سماجی ہوتے ہیں لیکن ان سب کے برعکس ببر شیر سب سے زیادہ سماجی رویہ دیکھاتے ہیں۔ ببر شیر ایک شکاری گوشت خور ہے جو دو طرح کے سماجی گروہ میں رہتا ہے۔ کچھ ببر شیر مکین ہوتے ہیں جو اپنے متعلقہ ببر شیرنیوں اور چند بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ انھیں حرم(pride) کہتے ہیں۔ [70] مادائیں اس حرم میں سماجی اکائی کی حیثیت سے مستقل رہتی ہیں اور کسی غیر مادہ کو اس میں پسند نہیں کرتی۔ [71] اراکین صرف ماداؤں کی وفات اور پیدائش کی صورت میں ہی بدلتے ہیں، [72] اگرچہ بعض اوقات مادائیں حرم کو چھوڑ کر علیحدگی اختیار کرتی ہیں اور اکیلے ہی جیتی ہیں۔ اب ایک ایسے بھی حرم مشاہدے میں آئی ہیں جن میں ارکان کی تعداد تیس کے قریب دیکھی گئی ہیں، [73] اوسطا ایک حرم میں پانچ یا چھ مادائیں ہوا کرتی ہیں، اس میں دونوں جنس کے بچے اور دو ببر شیر ہوا کرتے ہیں(ایک ببر شیر سے زائد ہونے کی صورت میں اسے اشتراک کہتے ہیں) جو بالغ ببر شیرنیوں سے مباشرت کرتے ہیں۔ اشتراک کی صورت میں نر کی تعداد دو ہی ہوا کرتی ہے لیکن یہ تعداد چار تک بھی جاسکتی جس کے بعد تعداد پھر سے کم ہونا شروع ہوتی ہیں۔ [73] تنہا فرق صرف تساوو ببر شیروں میں ہے جس کے حرم میں صرف ایک ہی ببر شیر ہوتا ہے۔[74] نر بچے اپنے نگہبان خاندان سے 2یا 3 سال میں الگ ہو جاتا ہے جب وہ بالیدگی حاصل کر لیتا ہے۔ [73] اس گروہ کی دوسری صورت یہ ہے کہ جوڑے کی شکل میں یا اکیلے ہی زندگی گزاری جاتی ہے یہ لوگ ایک بڑے رقبے میں گھومتے رہتے ہیں۔[70] جوڑے دار اکثر ان نر ببر شیروں کی ہوتی ہے جو نئے نئے بلوغت کے سبب اپنے خاندان سے نکال دئے جاتے ہیں۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک تنہا زندگی گزارنے والا ببر شیر سماجی زندگی اپنا لے یا اس کے برعکس کا انتخاب کرے۔نر ببر شیر قواعد کے مطابق اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ تنہا گزارتا ہے اور پھر یہ کسی خاندان میں جاگھستا ہے جبکہ بعض شیر زندگی بھر ایسا کرنے سے محروم ہی رہتے ہیں۔ایک تنہا رہنے والی ببر شیرنی کو دوسرے حرم میں داخل ہونے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ حرم کے دیگر ببر شیرنیاں اس نئے غیر مادہ کی سخت مخالفت کیا کرتی ہیں۔ سرنگیٹی میں ایک درخت پر بیٹھا ببر شیروں کا جھنڈ وہ علاقہ جس پر ایک حرم کا قبضہ ہو علاقہ حرم کہلاتا ہے [70] جبکہ تنہا رہنے والے علاقے کو بدووں(nomad) کا خطہ کہتے ہیں۔حرم کے نر ببر شیر اپنے علاقوں کی سرحدوں پر گشت لگا کر اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ببر شیرنیوں میں دیگر بلیوں کے انواع کے مقابل اس قدر سماجی برتاؤ کیونکر پیدا ہوا بحث کا ایک اہم موضوع ہے۔اس کی وجوہات یہ ہوسکتی ہیں کہ گروہ میں رہنے سے شکار کی کامیابی کا زیادہ امکان رہتا ہے، لیکن مشاہدات یہ بھی بتاتے ہیں وہ ارکان جو شکار میں حصہ نہیں لیتے، خوراک میں برابر حصہ دار ہوتے ہیں، اگرچہ بعض ان بچوں کے پاس ہی رہتی ہیں جنھوں نے بالغ ہونے پر اسے چھوڑ دینا ہوتا ہے۔حرم کے اراکین شکار کا کھیل باقاعدگی سے کھیل کر اپنے ہنر کو بہتر کرتے رہتے ہیں۔حرم کے بچاو کی یہی تدبیر ہے کہ اس کے شکاری اراکین کی صحت بہتر ہو لہذا یہی شکاری شکار میں سب سے پہلے حصہ لیتے ہیں۔دوسرا مفید پہلو یہ بھی ہے کہ بجائے غیروں سے کھانا بانٹنے کے اپنے متعلقہ اراکین سے ہی اشتراک کرنے میں بچوں کے حفاظت، علاقے کی برقراری اور انفرادی طور پر چوٹ اور بھوک سے نجات کی ضمانت ہوتی ہے۔[29] جنگلی ببر شیرنیوں کی ایک ویڈیو حرم میں زیادہ تر ببر شیرنیاں ہی شکار میں حصہ لیتی ہیں۔اس لیے کہ وہ پھرتیلی، ہلکی اور چاک و چوبند ہوتی ہیں جبکہ ببر شیروں کو وزن زیادہ ہوتا ہے اور ان کے گردن کے بالوں کے سبب دوڑتے ہوئے وہ گرمی سے نڈھال ہوجاتے ہیں۔وہ بہر حال شکار کے دوران میں اشتراک کرتے ہیں اور شکار کے عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے صحیح جگہ پر گھیر گھار کر نشانہ بناتے ہیں۔اکثر چھوٹے شکار اسی مقام پر ان شکاریوں کا نوالہ بنتے ہیں جبکہ بڑے شکار کو گھسیٹ کر حرم کے مقام پر لا کر سب کھاتے ہیں۔[75] اگرچہ تمام ارکان کھاتے ہوئے ایک دوسرے سے جارحانہ برتاو دکھاتے ہیں کیونکہ ہر ایک زیادہ سے زیادہ خوراک لینے کی کوشش کرتا ہے۔ ببر شیرنیوں کے شکار کے اختتام پر ببر شیر اس شکار پر تسلط جماتے ہوئے نظر آتا ہے۔ وہ اسے شیرنیوں کی بجائے بچوں کے ساتھ مل بانٹ کر کھانے کو ترجیح دیتا ہے لیکن خود سے کیے شکار میں وہ کم ہی دوسروں کو شریک کرتا ہے۔ ببر شیر اور ببر شیرنیاں دونوں ہی کسی غیر کی جارحیت کے خلاف اپنی حرم کی حفاظت کرتے ہیں لیکن یہ کام زیادہ ببر شیر کو مناسب لگتا ہے کیونکہ وہ زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ [76] کچھ ارکان مستقل جارحین کے خلاف دفاع کرتے ہیں جبکہ کچھ پیچھے رہتے ہیں۔ ببر شیر حرم میں ایک خاص کردار ادا کرتا ہے۔ [77] وہ جو پیچھے رہتے ہیں حرم کے لیے قابل قدر خدمات بھی بہم پہنچا سکتے ہیں۔ [78] ایک مفروضہ ہے کہ جو جارحیت کے خلاف سامنے آتے ہیں ان کا حرم میں ایک خاص مقام ہوتا ہے اور ببر شیرنیوں کے مقام کا اسی دفاع سے کردار بڑھتا ہے۔ [79] نر ببر شیر جو حرم سے منسلک ہوتا ہے اپنے اور ماداؤوں کے تعلقات برقرار رکھنے کے لیے بیرونی حملہ آور سے ضرور مقابلہ کرتا ہے۔ شکار اور خوراک ببر شیر کے دانت گوشت خوری کے لیے بنے ہوتے ہیں۔ ببر شیر ہیرون پرندہ شکار کرتے ہوئے موقع کی مناسبت سے ببر شیر مردارخوری کو بھی ترجیح دیتے ہیں، جو اس کی خوراک کا 50 فیصد پورا کرتا ہے۔ [80][81] مردار جانور یا تو قدرتی طور پر مرے ہوتے ہیں یا وہ کسی دوسرے جانور کا شکار ہوئے ہوتے ہیں نیز ان پر منڈلانے والے گدھ بھی ان کی موت کا پتہ دیتے ہیں۔ [80] مزید بر آں اکثر مردار جانور جن سے ببر شیر اور لگڑ بگھڑ دونوں ہی حصہ لیتے ہیں، لگڑبگھوں کے شکار ہوئے ہوتے ہیں۔ [8] حرم کے لیے شکار زیادہ تر ببر شیرنیاں ہی کرتی ہیں۔ببر شیر اس دوران میں بچوں کی نگرانی کرتا ہے۔بالعموم یہ جانور شکار کے جھنڈ کو گھیر لیتے ہیں اور جب یہ شکار کے نہایت قریب پہنچتے ہیں تب حملہ آور ہوجاتے ہیں۔یہ حملہ زوردار اور مختصر سا ہوتا ہے اور وہ شکار جلد دبوچنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ عموما شکار کے گردان کو دبوچ کر اس کا دم گھوٹ دیتے ہیں جن سے اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔[82] نیز وہ جانور کے نتھنے جبڑے اور منہ کے دھانے کو بھی بند کر دیتے جس سے اس کی موت واقع ہوتی ہے۔ [8] ببر شیر شکار میں اشتراک کرتے ہیں اور شکار کو چنتے ہیں۔لیکن انھیں ان کی قوت کے لیے نہیں جانا جاتا جیسے ببر شیرنی کا دل اس کے کل وزن کا 0.57% فیصد ہوتا جبکہ ببر شیر کا دل اس کے مجموعی وزن کا 0.45% حالانکہ لگڑ بگھڑ کا دل اس کے مجموعی وزن کا ایک فیصد ہوا کرتا ہے۔[83] پس وہ مختصر وقت کے لیے ہی زبردست رفتار پکڑ سکتے ہیں [84] اور شکار پر حملہ کرنے کے لیے انھیں اس کے بے حد نزدیک ہونا پڑتا ہے۔ وہ اپنے ماحول میں گھل مل کر نظر کم آتے ہیں اور اس بات فائدہ اٹھا کر وہ اکثر شکار کر لیتے ہیں بالخصوص رات کو۔ [85] وہ شکار پر اس وقت تک حملہ نہیں کرتے جب تک وہ ان کے تقریباً 30 میٹر کے قریب نہ ہوں۔ ببر شیرنی شکار کی جانب اپنی مکمل رفتار میں۔ افریقہ میں ان کے شکار میں ہرن، جنگلی درندے، زیبرا، بھینس اور جنگلی سور ہوا کرتے ہیں۔ جبکہ بھارت میں یہ شکار نیل گائے، جنگلی سور اور ہرنوں پر مشتمل ہے۔ ان کے شکار ہونے والے جانور موقع محل کی مناسبت سے مختلف ہیں جن میں زیادہ تر سموں والے کالے جانور ہیں جن کا وزن 50 سے 300 کلو تک ہوتا ہے۔ [8] کبھی کبھار وہ چھوٹے جانور جیسے تھامسن غزال وغیرہ پر بھی گزارا کر لیتے ہیں۔ببر شیر اپنے علاقوں میں گروہ کی صورت میں کئے گئے شکار میں زیادہ کامیابی سمیٹتے ہیں اور وہ بہت بڑے جانور جیسے زرافہ پر کم ہی حملہ کرتے ہیں کیونکہ اس میں زخمی ہونے کا زیادہ ہی خطرہ رہتا ہے۔زرافہ اور بھینسیں شکار کے لیے بہت مشکل ثابت ہوا کرتی ہیں۔ببر شیر بھارت میں گھریلو مویشیوں پر بھی حملہ کرتے ہیں اور اس طرح اپنی خوراک کا ایک اہم حصہ پورا کرتے ہیں۔ببر شیر دیگر شکاریوں جیسے تیندوے، چیتے، لگڑ بگھڑ اور جنگلی کتوں کو بھی مار دیتے ہیں لیکن وہ حریفوں کو قتل کے بعد کم ہی کھاتے ہیں۔ببر شیر ایک وقت میں تیس کلو تک گوشت کھا سکتا ہے۔[86] وہ اگر اپنی تمام خوراک نہ کھاسکے تو مزید کھانے سے قبل تھوڑا آرام کر لیتا ہے۔ گرم دنوں میں حرم کے ارکان ببر شیر کو سایہ دینے کی خاطر اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک بالغ ببر شیرنی کو دن میں اوسطا 5 کلو جبکہ ببر شیر کو 7 کلو گوشت خوراک کے لیے درکار ہوتی ہے۔ [87] مطالعات بتاتے ہیں کہ ببر شیر ان ممالیہ جانوروں کا بالعموم شکار کر دیتے ہے جن کا وزن 126 کلو تک ہوتا ہے اور ان کے شکار کا اوسطا وزن 300 کلو تک ہوتا ہے۔ [88] افریقہ میں ببر شیر جنگلی مادہ بھینسوں کو شکار کے لیے سب سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں (اور سرنگیٹی کے علاقوں میں ببر شیر کے شکار کا تقریباً نصف یہی جانور ہے) اس کے بعدشکار ہونے والا جانور زیبرا ہے۔ [89] ببر شیر مکمل بالغ ہاتھی، دریائی گھوڑے، گینڈے اور چھٹے غزال، امپالا اور دیگر اس نوع کی پھرتیلے جانوروں پر حملہ نہیں کرتے۔ لیکن بعض خطوں میں بھینسوں اور زرافوں پر بھی مستقل حملے ہوتے ہیں۔ جیسے کروگور نیشنل پارک میں زارفوں پر مستقل حملے ہوتے رہتے ہیں۔ [90] منیارا پارک میں تو بھنسیں ببر شیروں کی شکار کا 62 فیصد ہیں، کیونکہ وہاں بھینسوں کی بہت بڑی تعداد رہتی ہے۔ [91] کبھی کبھی دریائی گھوڑے بھی ان کے شکار میں آجاتے ہے لیکن گینڈوں سے وہ دور ہی رہتے ہیں۔ جنگلی سور کو وہ موقع کی مناسبت سے شکار کرتے ہیں۔ [92] سواتی کے ببر شیروں میں خشک گرمیوں کے موسم میں نابالغ ہاتھی کے شکار کرنے کی لت دیکھی گئی ہے اور اس کام میں 30 ببر شیرنیوں کو مشغول دیکھا گیا ہے۔ [93] کالاہاری صحرا، جنوبی افریقہ میں کالے یال والے ببر شیروں کو ببون کا شکار کرتے بھی دیکھا جاتا ہے وہ درختوں پر چڑھے ببون کا انتظار کرتے ہیں اور جب وہ فرار ہونا چاہیں تو ان پر حملہ کردیتے ہیں۔ ببر شیروں نے ببون کو درخت پر پھانس رکھا ہے ببر شیرنیوں کے جانب سے بھینس کا شکار۔ چونکہ ببر شیرنیاں کھلے جگہوں میں شکار کرتی ہیں لہذا انھیں شکار کی جانب سے دیکھ لینے کا امکان ہوتا ہے ؛اس لیے وہ اس معاملے میں اشتراک سے کام لیتی ہیں جس سے کامیابی کا زیادہ امکان رہتا ہے خاص کر بڑے شکار کے معاملے میں یہ زیادہ درست ثابت ہوتا ہے۔ ان کے کیے گئے شکار پر کئی میل دور گدھوں کی توجہ مرکوز ہوجاتی ہے اور وہ اپنے باہمی اشتراک کے بدولت اپنے شکار کا زیادہ بہتر دفاع کر تے ہیں۔ ببر شیر عموما شکارمیں حصہ نہیں لیتے لیکن بڑے شکار جیسے بھینسے یا زرافے کی صورت میں وہ اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ببر شیر اپنی ماداؤوں کی طرح شکار میں کامیاب رہتے ہیں وہ اپنے شکار کو جھاڑیوں میں چھپ کر پھانس لیتے ہیں۔ جوان ببر شیریں تین ماہ میں شکار کرنے کا برتاو دکھاتے ہیں لیکن وہ شکار میں حصہ نہیں لیتے جب ان کی عمر 1 سال ہوتی ہے تو وہ اس میں حصہ لینا شروع کردیتے ہیں لیکن 2 سال کی عمر میں وہ نمایاں طورسے اس میں حصہ لینا شروع کردیتے ہیں۔ شکار پر مقابلہ ایک نیم بالغ ببر شیر اور لگڑ بگڑ ببر شیر اور لگڑ بگڑ ایک ہی ماحولیاتی نچ میں رہتے ہیں یعنی وہ ایک یہی علاقے میں رہنے کے سبب ایک ہی شکار حاصل کرنے کے لیے مقابلہ کرتے ہیں۔ تحقیق کرنے سے پتا چلا کہ 58 فیصد شکار میں ان دونوں کا آمنا سامنا ہوتا ہے۔ [94] ببر شیر بالعموم لگڑ بگڑ کو اس وقت تک نظر انداز کرتے ہیں جب تک وہ انھیں جانی نقصان یا تنگ نہ کریں جبکہ لگڑبگڑ شیروں کی موجودگی پر رد عمل دکھاتے ہیں بھلے ہی خوراک کا جھگڑا ہو یا نہ ہو۔ نگورنگورو گڑھے کے علاقے میں ببر شیر اکثر لگڑ بگھوں سے ان کا شکار ہتھیا لیتے ہیں اس طرح لگڑبگھوں کو اپنے شکار کرنے کی تعداد بڑھانی پڑتی ہے۔ [95] اس کے برعکس بوٹسوانا کوبی قومی پارک میں لگڑ بگڑ شیروں کی طاقت کو چیلنج کرتے ہیں وہاں لگڑ بگڑ اپنی خوراک کا 63 فیصد ببر شیروں کی خوراک سے چراتے ہیں۔ [96] ایسے مواقع پر لگڑ بگڑ ببر شیروں سے 30 تا 100 میٹر کے فاصلے پر ببرشیر کو شکار کے ختم کرنے تک دیکھتے ہوئے کھڑے رہتے ہیں، [97] لیکن وہ ہوشیاری اس دعوت میں بھی حصہ نکال لیتے ہیں اور بعض اوقات وہ شیروں کو بھی شکار سے بھگا دیتے ہیں۔ یہ دونوں نوع ایک دوسرے پر بھی بنا کسی ظاہری وجہ کے حملہ کر سکتے ہیں۔ [98][99] ایٹوشا میں لگڑبگڑ کی موت کا 71 فیصد کا سبب ببر شیر ہیں۔ لگڑ بگڑ نے اپنے علاقوں میں ببر شیروں کی موجودگی کی وجہ سے خود میں تبدیلیاں قبول کر لی ہیں اور جب ببر شیر نمودار ہوتے ہیں تو یہ گروہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ [100] ایک تجربے میں پہلے تحویل میں موجود دھبہ دار لگڑ بگڑ کا سامنا ببر شیر سے پہلی بار کروایا تو اس نے خاص رد عمل نہیں دکھایا لیکن بعد میں وہ ببر شیر کی بو سے ہی بے چین نظر آنے لگا۔ [95] ببر شیر کے بڑے یال کو دیکھ کے ہی لگڑ بگڑ ان کا سامنا کم ہی کرتے ہیں نیز ببر شیر کے بڑے پنجوں کے سبب ببر شیر کا پلڑا بھاری رہتا ہے۔ ببر شیر اپنے سے چھوٹی بلیوں جیسے چیتا، تیندوں پر تسلط جماتا ہے اور ان کے بچوں حتیٰ کے بالغوں کو بھی موقع ملنے پر مار دیتا ہے نیز وہ ان کے شکار بھی ہتھیا لیتا ہے۔چیتا بالعموم اپنے شکار کو دوسرے جانوروں کے سبب کھونے کا امکان 50 فیصد رکھتا ہے۔[101] چیتا مقابلے بازی سے کتراتا ہے اور دن کے مختلف اوقات میں شکار کرتا ہے وہ اپنے بچوں کو گھنی جھاڑیوں میں چھپا دیتا ہے۔ تیندوا بھی ایسے حربے استعمال کرتا ہے لیکن وہ ببر شیروں اور چیتوں کے بنسبت چھوٹے شکار پر گزارا کر کے فائدے میں رہتا ہے۔ تیندوا چیتے کے مقابلے میں درخت پر چڑھ لیتا ہے اور اپنے بچوں اور شکار کو ببر شیر کی پہنچ سے دور رکھتا ہے[102] اگرچہ بعض اوقات ببر شیرنیاں بھی درخت پر چڑھ کر اس کے شکار کو ہتھیا لیتے ہیں۔ اسی طرح ببر شیر افریقہ کے جنگلی کتوں پر بھی تسلط رکھتا ہے اور وہ ا س کا شکار ہتھیا لیتے ہیں نیز وہ ان کے جوان اور چھوٹے بچوں کو بھی مار دیتا ہے۔ جہاں ببر شیر ہوں وہاں جنگلی کتوں کی آبادی کم دیکھی جاتی ہے۔ [103] اگرچہ ایک آدھ موقع پر ایسی خبریں سامنے آئی ہیں جس میں جنگلی کتوں نے بوڑھے اور زخمی ببر شیر کو مار دیا۔ [90][104] نیل مگرمچھ انسان کے بعد واحد جانور ہیں جو ببرشیروں کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ ببر شیر اور مگرمچھ کے وزن کو جسامت کے مطابق یہ دونوں ہی اپنے شکار کو ایک دوسرے سے مقابلے میں گنوا سکتے ہیں۔ یہ ایک معلوم بات ہے کہ ببر شیروں نے مگرمچھ کو خشکی پر مارا ہو [105] جبکہ دوسری صورت یعنی پانی میں ببر شیر ہی مار کھا سکتا ہے اور مگر مچھ کے پیٹ سے کئی دفعہ ببر شیر کے جبڑے ملے ہیں۔ [106] آدم خوری تفصیلی مضمون کے لیے آدم خور ملاحظہ کریں۔ اگرچہ ببر شیر عام حالات میں انسانوں کا شکار کرتے ہیں لیکن بعض بالخصوص نروں کو کبھی اس کی لت پڑ جاتی ہے۔ اس متعلق مشہور شائع ہونے والا ایک واقعہ 1898ء میں ظہور پزیر ہوا جس میں دو ببر شیروں نے کینیا یوگینڈا ریلوئے لائن پر کام کرنے والے مزدوروں پر حملے کیے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ببر شیر نے 28 افراد نو ماہ کے تعمیراتی دور میں ہلاک کیے۔ [107] جس شکاری نے ان کا شکار کیا اس نے ان آدم خور ببر شیروں کی خصوصیات بڑی تفصیل سے لکھی ہیں وہ لکھتا ہے کہ ان کے بال نہ تھے اور وہ عام ببر شیروں سے جسامت میں کافی بڑے تھے اور بعض دانت بھی ٹوٹے ہوئے تھی کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹوٹے دانت ببر شیر کو آدم خوری پر مجبور کرتے ہیں لیکن یہ بات ماہرین کے نزدیک درست نہیں ان کے نزدیک انسانی آبادی کا شیروں کے علاقوں میں آباد ہونا ہی اس کی صحیح وجہ ہے۔ [108] تساو اور عام آدم خور ببر شیروں کے مطالعہ کرنے والے ماہر لکھتے ہیں کہ بیمار یا زخمی ببر شیروں کے آدم خوری کی جانب مائل ہونے کے زیادہ امکانات رہتے ہیں۔ لیکن یہ رویہ کوئی غیر معمولی یا حقائق سے ہٹ کر نہیں ہے جہاں ببر شیر کو پالتو مویشی یا انسانی آبادی پر حملے کا موقع ملتا ہے وہ ایسا کرتا ہے اس کے ثبوت پرائمیٹ اور پینتھرائن خاندان کے رکازیاتی علوم سے ملتے ہیں۔ [109] تساوو کے آدم خوروں کی تصویر، شکاگو ببر شیروں کی آدم خوری کی عادت کے بارے میں کافی سائنسی تحقیقات ہوچکی ہیں۔ امریکی اور تنزانیائی سائنسدانوں کے اعدادوشمار کے مطابق تنزانیہ کے دیہی علاقوں میں 1990ء سے 2005ء تک کے عرصے میں آدم خوری کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اب تک کم ازکم 563 دیہاتی ببر شیروں کا لقمہ بن چکے ہیں۔ آدم خوری کا سب سے مشہور واقعی تقریباً ایک صدی قبل رونما ہوا۔ یہ واقعات سیلوس نیشنل پارک موزمبیق کے سرحد کے پاس پیش آئے۔ اگرچہ دیہاتیوں کا ان جنگلی علاقوں میں رہنا آدم خوری کا بنیادی سبب ہیں لیکن مصنف کے نزدیک ببر شیروں کی بقاء سے متعلق بنائے گئے اقدامات بھی انسانی جانی نقصان میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ لینڈی ایسے واقعات بھی منظر عام پر لائے ہیں جن میں ببر شیر مرکزی دیہاتوں پر حملہ کر کے انسانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔۔[110] ایک اور مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کے جنوبی تنزانیہ میں 1988ء سے 2009ء تک ایک ہزار لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے یہ واقعات زیادہ تر چاند کی راتوں کے علاوہ راتوں میں یعنی جب اندھیرا زیادہ ہوتا ہے تب پیش آتے تھے۔ [111] مصنف رابرٹ آر فرمپ لکھتے ہیں کہ موزمبیقی مہاجرین جو رات کو کروگر پارک کو جنوبی افریقہ جانے کی خاطر پار کرتے ہیں زیادہ تر ببر شیروں کا شکار بنتے ہیں اس پارک کے حکام نے بھی ان واقعات کے بارے میں کہا کہ پارک کے مسائل میں ایک مسئلہ آدم خوری کا بھی ہے۔ فرمپ کا کہنا ہے کہ اپارتھائیڈ کی جانب پارک بند کیے جانے اور مہاجرین کو اسے رات کے اوقات میں پار کرنے پر مجبور کرنے سے اب تک تقریباً ہزاروں لوگ مر چکے ہیں تقریباً سو سال قبل جب یہ پارک سیل نا ہوا تھا تب موزمبیقی لوگ دن کے اوقات میں اسے پار کرتے تھے اور انھیں کم خطرہ لاحق ہوتا تھا۔ [112] پیکر نے اندازہ لگایا کہ ہر سال تنزانیہ میں ببر شیر، مگر مچھ، ہاتھی، دریائی گھوڑے اور سانپ دو سو لوگوں کو موت کی نیند سلاتے ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ ببر شیر ہوتے ہیں جو اوسطا سالانہ 70 لوگوں کو مار ڈالتے ہیں۔ پیکر نے کہا کہ 1990ء سے 2004ء تک تنزانیہ میں 815 لوگوں پر حملے ہوئے جن میں 563 لوگ ہلاک ہوئے۔ پیکر اور اکنڈا ان لوگوں میں سے ہیں جو چاہتے ہیں کہ مغربی ادارے ببر شیروں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی جان کی حفاظت کو بھی یقینی بنائے۔ [110] ایک آدم خور ببر شیر کو جنوبی تنزانیہ کی ساحلی پٹی پر سکاوٹ والوں نے مار ڈالا تھا کہا جاتا تھا کہ یہ آدم خور اس علاقے میں مختلف واقعات کے دوران میں 35 کے قریب لوگوں کے موت کا سبب بنا تھا۔[113] ڈاکٹر رولف ڈی بالڈس جو جٰی ٹی زیٹ جنگلی حیات کے منصوبے کے منتظم ہیں کہتے ہیں کہ مذکورہ شیر کے دانت میں شگاف پڑا تھا اور اس کے منہ میں پیپ سے بھرے دانے تھے۔ انھوں نے مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ یقینا اس ببر شیر کو خوراک چبانے میں سخت تکلیف ہوتی ہوگی۔ [114] جی ٹی زیٹ منصوبہ جرمن حکومت کی جانب سے تنزانیہ میں ببر شیروں کی بقاء میں دو عشروں سے معاون ہے۔ اور پچھلے آدم خور ببر شیروں کی طرح مذکورہ ببر شیر کے بھی خراب دانت، یہ بنا یال کے تھا نیز یہ ان کی طرح بڑے جسامت کا بھی تھا۔ تمام افریقی آدم خور ببر شیر تساوو خیال نہیں کیے جاتے لیکن 1930ء تا 1940ء تک ٹینگانیکا (اب تنزانیہ) میں ایسے واقعات پیش آتے رہے۔ جارج رشبی نے ایک دفعہ ایسے حرم کا پتہ لگایا جو تین عشروں سے آدم خوری کی لت میں مبتلا تھا اور اس نے 1500 سے 2000 لوگوں کو ہلاک کیا تھا اور یہ واقعات نجومبے علاقہ میں پیش آئے تھے۔ [115] تولید اور زندگی ویکی ذخائر پر ببر شیر سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ اکثر ببر شیرنیاں چار سال کی عمر میں تولید کے لیے تیار ہوجاتی ہیں۔ [116] اور یہ سال میں کسی مخصوص وقت میں مباشرت نہیں کرتے۔ [117] دوسرے بلیوں کے عضو تناسل کی طرح ان کے آلہ تولید میں بھی سخت کانٹے سے ہوتے ہیں جو پیچھے کی جانب مڑے ہوتے ہیں۔ مباشرت کے دوران میں آلہ تولید واپس نکلتے ہوئے یہ کانٹے سے مادہ کے رحم کی دیواروں کے رگڑ کھاتے ہیں اور یہ حمل کا باعث بن سکتے ہیں۔ [118] ایک ببر شیرنی اپنے بیضے بننے کے ایام میں ایک سے زائد شیروں سے ملاپ کرسکتی ہے۔ [119] ان میں حمل کا دورانیہ 110 دن تک کا ہوتا ہے، [117] اور ببر شیرنی ایک سے چار بچے دیتی ہے وہ یہ بچے کسی غار، کھو، یا جھاڑیوں میں اپنے حرم سے باہر دیتی ہے[120] اور یہ ببر شیرنی اپنے بچوں کو تنہا چھوڑ کر شکار میں بھی برابر حصہ لیتی ہیں۔ نومولود بچہ پیدائش کے وقت بے یارومددگار ہوتا یہ یہ اس وقت نابینا ہوتا ہے اور پیدائش کے ایک ہفتے تک اس کی آنکھیں نہیں کھلتی۔ اس کا وزن اس وقت ایک یا دو کلو کا ہوتا ہے اور ایک دو دن میں یہ رینگنا سیکھ لیتا ہے جبکہ تین ہفتوں میں یہ چلنا پھرنا شروع کردیتا ہے۔ [121] ببر شیرنیاں اپنے بچوں کو پیدائش کے ایک مہینے تک مختلف مقامات میں منتقل کرتی رہتی ہیں تاکہ انھیں دوسرے شکاریوں سے بچایا جاسکے۔ [120] عموما ایک ماں یا اس کا بچہ چھ سے آٹھ ہفتوں تک حرم میں نہیں آتا۔[120] لیکن بعض اوقات اس سے بھی قبل یہ حرم میں داخل ہوجاتے ہیں اس وقت جب دوسری ببر شیرنیاں بھی بچے دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر حرم کی ببر شیرنیاں اپنی تولیدی چکر کو ایک وقت میں شروع کیا کرتی ہیں تاکہ وہ ملکر ان بچوں کی پرورش کر سکیں ( جب بچہ اپنے ماں سے جڑے ابتدائی تعلق کو گزار لیتا ہے)، پھر یہ بچے حرم کی تمام شیرنیوں کا دودھ پی سکتے ہیں۔ تولیدی ایام کو ایک ہی وقت میں شروع کرنے سے تمام بچے ایک ساتھ ہی بڑے ہوتے ہیں یوں ان کے بچنے کا زیادہ امکان رہتا ہے جو اس کی دوسری افادیت ہے۔ اگر کسی ببر شیرنی کے بچے جنم دینے کے کچھ ماہ بعد ایک اور ببر شیرنی بچے جنم دے دیتی ہے تو پہلی ببر شیرنی کے بچے زیادہ جلدی بڑے ہوجاتے ہیں اس طرح وہ بعد میں پیدا ہونے والے چھوٹے بچوں کی نسبت زیادہ خوراک کسب کرتے ہیں یوں بعد والے بہت چھوٹے بچے بھوک سے مرجاتے ہیں۔ بھوک کے علاوہ ان چھوٹے بچوں کی زندگی کو لگربگڑ، لومڑیوں، سانپوں، تیندوں اور عقابوں سے بھی خطرہ رہتا ہے۔ حتی کہ اگر جنگلی بھینسوں کو بھی ان نوزائیدہ بچوں کی بو کسی جھاڑی سے آئے تو وہ وہاں ببر شیرنی کے آنے سے قبل زبرست بھگدڑ مچا کر ان بچوں کو کچلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نیز اگر کوئی غیر ببر شیر حرم میں داخل ہوکر پہلے سے موجود ببر شیر کوہلاک کر کے اس حرم پر قبضہ جماتا ہے تو وہ بھی ان بچوں کو ہلاک کردیتا ہے[122] کیونکہ بچوں کو ہلاک کیے بنا مادائیں اپنی زرخیزی دوبارہ نہیں لاسکتیں اور نا ہی وہ نئے ببر شیر کی جانب رغبت دکھاتی ہیں۔ بہر حال تمام نومولود بچوں میں سے محض 20 فیصد ہی دوسال کی عمر تک پہنچ پاتے ہیں۔ [123] ملاپ ملاپ ایک حاملہ ببر شیرنی (دائیں) ایک حاملہ ببر شیرنی (دائیں) ایک حلیم مزاج با یال ببر شیر ایک حلیم مزاج با یال ببر شیر جب ان بچوں کو نئے نئے طور پر حرم میں لایا جاتا ہے تو وہ اوائل میں اپنی ماں کے سوا کسی ببر شیر کا سامنا کرتے ہوئے گبھراتے ہیں۔ لیکن وہ جلد ہی حرم میں گھل مل جاتے ہیں اور وہ کھیل کود میں بالغوں سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جن ببر شیرنیوں کی اولاد ہوتی ہیں وہ بے اولاد ببر شیرنیوں کی نسبت دیگر ببر شیرنیوں کے بچوں کو زیادہ برداشت کرتی ہیں۔ ببر شیر کس حد تک بچوں کو برداشت کرتے ہیں یہ بات مختلف ہوتی ہیں بعض ان بچوں کو اپنے یال اور دم سے کھیلنے دیتے ہیں جبکہ بعض انھیں دور کر دیتے ہیں۔ [124] نر غالبا دوسروں کے کئے شکار میں اپنے ماداوں کے بجائے بچوں کا شامل کرنا پسند کرتے ہیں جبکہ اپنے شکار میں وہ کسی کو شامل کرنے کے قائل نہیں ہوتے۔ بچے چھ سے سات ماہ میں دودھ پینا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور یہ بچے 3 تا 4 سال میں دوسرے کسی حرم کے ببر شیروں کو وہاں سے نکالنے کی صلاحیت پا لیتے ہیں۔ وہ اگر اپنے حرم کا دفاع کرتے ہوئے سخت زخمی نا ہوں تو دس سے 15 سال کی عمر میں بوڑھے ہونے لگتے ہیں۔ [125] ایک دفعہ اگر حرم کوئی ہتھیا لے تو وہ پھر نئے حرم کو حاصل نہیں کر پاتا۔ اس صورت میں ان کے بچوں کی جانب سے حرم پر قبضہ کرنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر وہ نئے بچے پیدا کرنے میں میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو انھیں یہاں سے بے دخل ہونے سے پہلے بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے جو بلوغت تک پہنچتی ہے۔ مادائیں نئے ببر شیروں کے سامنے اپنے بچوں کا دفاع کرتی ہیں لیکن وہ اس میں کم ہی کامیاب ہوتی ہیں۔ وہ عام طور پر دو سال سے چھوٹے تمام بچوں کو مارڈالتا ہے۔ چونکہ مادائیں نروں کے مقابلے میں ہلکی اور کمزور ہوتی ہیں لہذا تین مادائیں مل کر ہی ببر شیر کے مقابلے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔ [122] عام خیالات کے برعکس صرف ببر شیروں کو ہی حرم سے بے دخل نہیں کیا جاتا بلکہ مادہ بچوں کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے لیکن اکثر مادائیں پیدائش والے حرم میں ہی رہتی ہیں۔جب کبھی نیا ببر شیر کسی حرم پر قبضہ کرتا ہے تو نیم بالغ مادائیں یا نر بھی اس سے بے دخل کئے جاسکتے ہیں[126] تنہا زندگی گزارنا ماداوں کے لیے سخت ترین ہوتا ہے۔ تنہا مادائیں اپنے بچوں کو بلوغت تک پہنچانے میں اکثر ناکام ہوتی ہیں کیونکہ انھیں حرم کا تحفظ میسر نہیں ہوتا۔ کینیڈا کے محقق بروس بیگ مہیل نے یہ بات دیکھی ہے کہ دونوں نر اور مادہ ببر شیرنیاں ہم جنسی میں بھی مبتلا ہوسکتی ہیں۔ ببر شیر اجتماعی طور پر بھی ہم جنسی اور اس طرح کے افعال کرتے دیکھے گئے ہیں۔ نر ببر شیر آپس میں ملاپ سے قبل ایک دوسرے کے سر رگڑتے اور ایک دوسرے کے گرد گھومتے ہیں۔ [127] صحت اگرچہ قدرتی طور پر ببرشیروں کا کوئی شکاری وجود نہیں رکھتا لیکن انسان اور دیگر ببر شیر اس کے موت کا زیادہ سبب بنتے ہیں۔ [128] ببر شیر اپنے ہی نوع سے کی گئی لڑائی میں زبردست زخم کھاتے ہیں اور یہ لڑائی علاقوں پر یا حرم کے اپنے ارکان کے مابین بھی ہوتی ہے۔ [129] ببر شیر کے رینگنے والے بچے ہاتھیوں، لگڑبگڑ اور بھینسوں کا شکار بنتے ہیں۔ [130] مکھیوں سے پناہ کی تلاش میں درختوں پر بیٹھے ببر شیر بہت سے ببر شیروں کے کان اور گردن پر خون چوسنے والے کیڑے چپکے رہتے ہیں۔ [131][132] ٹیم ورم کے کیڑے اکثر اوقات ببر شیر کی آنتوں میں ملتے ہیں جو ببر شیر کے جسم میں اینٹی لوپ کا گوشت کھانے سے داخل ہوتے ہیں۔ [133] نگورنگورو پارک میں موجود ببر شیر 1962ء میں ایک قسم کی مکھیوں سے بے حد پریشان رہے یہ مکھیاں ان کی جلد پر بیٹھ کر خون چوستی ہیں جس سے ان کی کھال کمزور سی ہوجاتی ہے اور خون کے دھبے سے بن جاتے ہیں۔ اس وقت کے ببر شیر ان سے بچنے کے لیے درختوں پر چڑھتے تھے یا لگڑ بگڑ کے بلوں میں گھس بیٹھتے تھے اس طرح بہت سے ببر شیر یا ہلاک ہوئے یا انھوں نے ہجرت کر لی اور وہاں کی آبادی 70 سے 15 تک رہ گئی۔ [134] 2001 میں اس طرح کے مکھیوں کے نمودار ہونے کی وجہ سے چھ ببر شیروں کی اموات ہوئی۔ [135] تحویل میں موجود ببر شیروں کو کینین ڈسٹمپر وائرس، ایف آئی وی اور ایف آئی پی جیسے وائرسوں سے زیادہ خطرات ہوتے ہیں۔ سی ڈی وائرس کتوں اور دیگر گوشت خوروں سے پھیلتی ہے۔ اس بیماری سے عصبیاتی بیماریاں ظاہر ہوتی ہیں 1994ء میں ایسی وبا سرینگیٹی نیشنل پارک میں سامنے آئی جس سے کئی ببر شیر نمونیا کی ایک خاص بیماری سے مر گئے۔ [136] ایف آئی وی اور ایڈز ایک جیسے ہیں لیکن یہ ببر شیروں پر سخت اثر نہیں کرتے لیکن یہ بیماری ان سے پالتو بلیوں میں منتقل ہوسکتی ہیں۔ یہ بیماری خاص علاقے کے ببر شیروں کو ہی متاثر کرتی ہے جبکہ یہ ایشیائی اور نمیبیائی نوع میں نہیں ملتی۔ [20] روابط آرام کے وقت ببر شیروں کے سماجی افعال زیادہ دیکھے جاتے ہیں اور وہ مختلف حرکتوں سے اس کا اظہار کرتے ہیں۔[137][138][139] سب سے پر امن طریقہ سر سے سر ملانے کا ہے یا وہ دوسروں کو زبان سے چاٹتے ہیں۔ زبان سے سر گردن اور چہروں کو چاٹنا ایک طرح کی تسلیمات میں سے ہے یہ اس وقت دیکھا جاتا ہے جب بچھڑا جانور یا لڑائی پر آنے والے جانور کا سامنا ہوتاہے۔ [140] نر ببر شیر ایک دوسرے سے جبکہ ببر شیرنیا ں اور بچے ایک دوسرے سے سر رگڑتے ہیں۔ سر اور گردن جیسی جگہوں کو چاٹنا شاید ایک بہت خوشگوار اثر چھوڑتا ہے کیونکہ ببر شیر انفرادی طور سے ایسا نہیں کرسکتے۔ [141] سروں کو رگڑنا یا چاٹنا ایک عام سماجی برتاؤہے۔ ببر شیر کے چہروں اور جسمانی اعضاء پر ہلکے احساسات ظاہری اشاروں کے طور پر نظر آتے ہیں۔ [142] ببر شیر کی دھاڑ بھی رابطوں میں اہمیت رکھتی ہے اور اس آواز کی اونچائی اور ہلکی آواز کے خاص اشارے ہوتے ہیں۔ ببر شیروں کی آوازوں میں دھاڑ، کھانسنا، غرانا سرسراہٹ شامل ہیں۔ ببر شیر کی دھاڑ خاص تناسب میں ہوتی ہیں وہ لمبے دھاڑ سے مختصر دھاڑ کی طرف جاتے ہیں۔ [143][144] وہ زیادہ تر رات کو دھاڑتے ہیں اور ان کی آواز 8 کلومیٹر تک سنائی دیتی ہے جو جانور کی موجودگی کی خبر دیتے ہیں۔ [145] ببر شیر کی دھاڑ تمام بڑے بلیوں میں سب سے بلند ہوتی ہے۔ lion roar 0:10 تحویل میں موجود ایک ببر شیر کی دھاڑ چلنے میں مسئلہ ہو رہا ہے؟ دیکھیے میڈیا معاونت۔ پھیلاؤ اور مسکن دو ایشیائی ببر شیر، یہ معدومی کے خطرے سے دوچار نوع ہے جو صرف بھارت کے گیر جنگلات تک رہ گئی ہے۔ [146] [147] افریقہ میں ببر شیر سوانا اور گھاس کے میدانوں میں رہتے ہیں جہاں کہیں کہیں اکیشیا کے درخت سائے کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔ بھارت میں وہ خشک سوانا کے جنگلات اور بہت خشک جنگلات کو مسکن بناتے ہیں۔ [148] ببر شیروں کا اصل مسکن یوریشیا کے جنوبی علاقے جو یونان سے بھارت تک پھیلے ہوئے تھے اور تمام افریقی علاقے بشمول صحارا کے علاقے سوائے وسطی بارانی جنگلات کے پر مشتمل تھا۔ ہیرودوت نے یونان میں 480 ق م میں ان کی موجودگی کا لکھا ہے۔ ایرانی شہنشاہ خشایارشا اول کے سامان بردار اونٹوں پر ایک دفعہ انھوں نے دھاوا بول دیا تھا جب وہ فارس کے کسی علاقے سے گزر رہے تھے۔ ارسطو نے 300 ق م میں انھیں نایاب لکھا ہے [149] اور 100ء تک یہ ناپید ہو گئے تھے۔ ایشیائی ببر شیر قفقاز کے علاقوں میں دسویں صدی تک باقی رہے۔ [150] فلسطین کے علاقوں میں ببر شیروں کی موجودگی قرون وسطی میں ختم ہو گئی اور باقی ایشیا میں اٹھارویں صدی میں آتشی اسلحہ نے ان کے خاتمے کے لیے ایک اہم کردار ادا کیا۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں انھیں شمالی افریقہ اور جنوب مغربی ایشیا سے ختم کر دیا گیا۔ انیسویں صدی کے شروع ہوتے ہی ببر شیر ترکی سے اپنا وجود کھو بیٹھے اور اسی دوران میں شمالی ہندوستان سے بھی وہ غائب ہو گئے، [20][151] جبکہ ایرانی ایشیائی ببر شیر 1941ء میں(شیراز اور جہرم کے درمیان) دیکھا گیا، اگرچہ ببر شیرنی کا مردہ جسم کارون دریا کے کنارے 1944ء میں دیکھا گیا۔ اس کے بعد سے ایران میں موجودگی کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ [86] اب یہ ذیلی نوع شمال مغربی بھارت میں گیر جنگلات تک محدود ہیں۔[34] تقریباً 500 ببر شیر 1412 مربع کلومیٹر کے علاقے میں رہتے ہیں اور یہی جنگلات کا زیادہ تر رقبہ ہے۔ان کی تعداد 180 سے 523 تک بڑھی ہے جس کی وجہ ان کے قدرتی شکار کو دوبارہ منظر پر لانے میں کامیابی ہے۔[35][152] آبادی اور حفاظتی حالت تفصیلی مضمون کے لیے ببر شیر کا شکار ملاحظہ کریں۔ ایشیائی ببر شیر، جو کبھی بحیرہ روم سے برصغیر تک پھیلے ہوئے تھے آج صرف 500 سے کچھ زائد تعداد میں بھارتی گجرات کے گیر جنگلات تک محدود ہیں۔ [153] آج افریقا کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں پائے جانے ببر شیروں کی آبادی بیسویں صدی کے وسط سے 50 فیصد کم ہوچکی ہے۔[4][154][155] 2002–2004 کے کیے گئے سروے میں وہاں ان کی تعداد 16500 سے 47000 کے قریب تھی جبکہ 1950ء میں ان کی آبادی ایک لاکھ سے چار لاکھ ہوا کرتی تھی۔ اس کمی کی بنیادی وجہ انسانی مداخلت اور بیماریاں ہیں۔ [4][156][157] مسکن سے علیحدگی اور انسان سے سامنا ہونا ان کی کمی کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ہیں۔ باقی ماندہ انواع جغرافیائی طور سے الگ تھلگ ہیں جس کے سبب اختلاط نا ہونے سے جینیاتی تنوع کم ہوتی ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت نے اسے خطرے سے دوچار فہرست میں ڈالا ہے جبکہ ایشیائی ببر شیروں کو انھوں نے اس سے زیادہ خطرے والے زمرے میں رکھا ہے۔ [158] مغربی افریقی ببر شیر اور وسطی افریقی نوع جغرافیائی طور پر الگ الگ ہیں جس کی وجہ سے ان میں انفرادی طور پر اختلاط کا امکان کم ہی رہتا ہے۔ مغربی افریقہ میں 2002ء-2004ء والے سروے میں ببر شیروں کی تعداد 850-1160 بتائی گئی۔ مغربی افریقی ببر شیروں کی الگ الگ سب سے بڑی آبادی کے معاملے پر اختلاف ہے ؛ برکینا فاسو ارلئ سنگو کے ماحولیاتی نظام میں ان کی تعداد 100 سے 400 بتائی جاتی ہے۔ [4] ایک سروے شمالی مغربی افریقہ کے وازا نیشنل پارک کے بارے میں ان کی تعداد 14 تا 21 بتاتا ہے۔[159] شکار شدہ کالے یال والا ببر شیر، سوٹک پلین، مئی 1910 کینیا دونوں افریقی اور ایشیائی ببر شیروں کی تحفظ کے لیے مزید بہتر اقدامات کی ضرورت ہے جن میں نیشنل پارکوں میں بہتری جیسی چیزیں شامل ہیں۔ ان بہترین محفوظ پناہ گاہوں میں نمیبیا کا ایٹوشا نیشنل پارک، تنزانیہ کا سرنگیٹی نیشنل پارک اور جنوبی افریقا کا کروگر نیشنل پارک مشہور ہیں۔ اسی طرح ایساو ببر شیروں کی بقا کے لیے سمبرو نیشنل ریسرو، بفیلو نیشنل ریسرو اور سہبا نیشنل ریسرو شمالی کینیا میں فعال ہیں۔ [160] ان علاقوں کے علاوہ دیگر مقامات میں ببر شیروں اور انسانی آبادیوں میں سامنا ہونے کی اطلاعات ہیں جس سے ببر شیروں کی آبادی کو خطرات ہیں۔ [161] بھارت میں ایشیائی ببر شیروں کی آخری پناہ گاہ گیر فارسٹ نیشنل پارک ہے جہاں 1974ء میں محض 180 ببر شیر تھے لیکن 2010ء میں یہ تعداد بڑھ کر 400 تک جا پہنچی۔ [35] افریقا میں انسانی آبادی ببر شیروں کے علاقوں کے آس پاس ہی رہی ہیں لہذا انھیں جان و مال کا خطرہ ضرور رہتا ہے۔[162] ایشیائی ببر شیروں کو مدھیا پردیش کے کونو سینکیوری میں دوبارہ متعارف کروانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ اس منصوبہ کے لیے ضروری ہے کہ ان ببر شیروں کو دیگر انواع سے اختلاط نا دیا جائے تاکہ کہ ان کی الگ نسلی پہچان قائم رہے۔ [163] بربری ببر شیروں کو ایام رفتہ میں چڑیا گھر والا جانور کہا جاتا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ چڑیا گھروں کے اکثر ببر شیر ان کی نسل میں سے تھے۔ کینٹ کے علاقے میں موجود برطانوی چڑیا گھر کے ببر شیر کبھی مراکشی سلطان کی تحویل میں ہوتے تھے۔ [164] ادیس ابابا کی چڑیا گھر کے گیارہ ببر شیر بھی اسی نسل کے ہیں جو وہاں کے بادشاہ کی تحویل سے لیے گئے تھے۔ جامعہ آکسفورڈ ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہی ہے جس سے ان بربری ببر شیروں کی نسل بڑھا کر وہ دوبارہ ان کے قدرتی ماحول میں چھوڑ دئیے جائیں گے یہ انھیں مراکش کی اٹلس پہاڑیوں میں چھوڑیں گے۔ [62] ببر شیروں کی تعداد میں کمی کی دریافت کے بعد بہت ساری تنظیمیں انھیں بچانے کے لیے مشترکہ اور مربوط کام کر رہی ہیں۔ یہ نوع ان انواع میں شامل ہیں جنھیں سپیشیس سروائیول اینڈ ایکویریم کے منصوبہ بقاء کے لیے چنا گیا ہے۔ یہ منصوبہ 1982ء میں ایشیائی ببر شیروں کے لیے شروع کیا تھا لیکن اس میں اس وقت رکاوٹ آئی جب انھیں معلوم ہوا کہ امریکی چڑیا گھروں کے ببر شیر حقیقتا خالص ایشیائی ببر شیر نہیں ہیں بلکہ ان کی افریقی ببر شیروں سے اختلاط ہوچکی ہے۔افریقی ببر شیروں کے لیے یہ منصوبہ 1993ء میں شروع ہوا لیکن اس میں کئی مشکلات حائل ہیں جیسا کہ بہت سے ببر شیروں کی نسل میں خالصیت نہ ہونا ہے۔[20] تحویل میں کلفٹن زولوجیکل گارڈن، انگلینڈ میں ببر شیر کے بچے، 1854 ببر شیر چڑیا گھروں میں ایک خاص مقام رکھنے والے جانوروں میں شامل ہیں جن میں ہاتھی، گینڈے اور دیگر گربہ کبری شامل ہیں لہذا چڑیا گھروں کی انتظامیاں انھیں اپنی چڑیا گھر میں رکھنے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔[165] ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر کے چڑیا گھروں میں 1000 کے قریب افریقی اور 100 کے قریب ایشیائی ببر شیر موجود ہیں [166]۔ انھیں ایک سفارتی نوع کے طور پر تعلیم، سیاحت اور حفاظت کے لیے رکھا جاتا ہے۔ تحویل میں موجود ببر شیر 20 سال تک جی لیتے ہیں ہوئی کے چڑیا گھر میں ایک ببر شیر نے 22 سال کی عمر میں 2007ء میں وفات پائی۔ [167][168][169] 1986 میں پیدا ہونے والی اس کی بہنیں بھی 2007ء تک زندہ رہی ں۔ ملاپ کرواتے وقت دیگر نوع کی جانوروں سے اجتناب برتنا چاہیے تاکہ انھیں ان کی اصل حالت میں برقرار رکھا جاسکے۔ بہرحال ایشیائی اور افریقی ببر شیروں کا ملاپ کیا جانا ایک مشاہدے کی بات ہے۔ قدیم مصر میں لیونٹوپولس اور تل بستہ شہر کے مندروں میں سے ایک مندر سخمت ببر شیرنی دیوتا اور باستت مندر کے بیٹے کے نام سے منسوب تھا، ماحس جو ببر شیر کا شہزادہ تھا کے مندر میں زندہ شیررکھے جاتے تھے جنھیں وہاں گھومنے کی آزادی تھی۔ یونانیوں نے بھی اس شہر کا تاریخی طور پر ذکر کیا ہے اور اسے دیار ببر شیر لکھا ہے۔ اشوریہ 850ق م میں بھی انھیں پالتے تھے [149] اور سکندر اعظم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انھیں شمالی ہندستان کے راجہ نے سدھائے ہوئے ببر شیر تحفے میں دئے تھے۔[170] اور رومی دور میں باشاہان انھیں پہلوانوں سے لڑائی یا لوگوں کو سزا دینے کے لیے رکھتے تھے۔ روم کے نامور بادشاہ جیسے پومپی اور جولیس سیزر نے ببر شیروں کے قتل عام کا حکم بھی صادر کیا تھا۔ [171] مشرق میں ہندوستان کے لوگ ببر شیروں کو سدھاتے تھے جبکہ مارکو پولو کے مطابق قبلائی خان اپنے پاس انھیں رکھتا تھا۔ [172] 13 سترہویں صدی میں یورپیوں کے ہاں سب سے پہلے نوابوں اور حکمرانوں کے لیے چڑیا گھر ہوتے تھے جنھیں سترہویں صدی میں سراگلیوس کہا جانے لگا۔ نشاۃ ثانیہ کے دور میں یہ چیز فرانس، اطالیہ اور پھر سارے یورپ میں پھیل گئی۔ [173] اگرچہ انگلستان میں ایسی روایت سامنے نہیں آئی لیکن باداشاہ کنگ جوہن نے تیرہویں صدی میں اسے ٹاور آف لندن میں پال رکھا تھا، [174][175] غالبا انگلستان میں ببر شیر رکھنا 1125ء میں ہنری اول نے شروع کیا تھا اور اس کے لیے جگہ آکسفرڈ کے مقام پر تھی۔ [176] سرگیلو اس دور میں وہاں طاقت اور دولت کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔ [177] اسی دور میں ان تماشوں میں بڑی بلیوں کو دیگر بڑے جانور جیسے ہاتھی اور گھریلو پالتو جانوروں وغیرہ سے جنگ کروائی جاتی تھی۔ ان نمائشوں کو انسان کا قدرت پر فتح کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ سن 1682ء میں ایک دفعہ "قدرت" کو ایک گائے کے ہاتھوں شکست ہوئی جس نے تماشائیوں کو حیران کر دیا۔ یہ رسم انیسویں صدی تک جاری رہی پھر اس کو برا سمجھا جانے لگا۔ البرت دورر 1520ء کی بنائی ایک تصویر ٹور آف لندن میں موجود ببر شیر وہاں کے بادشاہ پالتے تھے یا انھیں یہ کسی کی جانب سے ہدیہ کیے جاتے تھے۔ [178] ریکارڈ بتاتے ہیں کہ سترہویں صدی میں انھیں وہاں بری حالت میں رکھا جاتا تھا جبکہ فلورنس میں ان دنوں ان کے لیے زیادہ بہتری تھی۔ اٹھارویں صدی میں چڑیا گھر کی یہ ابتدائی قسم عام لوگوں کے لیے بھی کھول دی گئی اور اس میں داخل ہونے کا کرایہ 3 پینس رکھا گیا یا لوگ اس کے بدلے کتے یا بلی دیتے تھے جو چڑیا گھر والے ببر شیر کو کھلاتے۔[179] اسے اس وقت مینگری کہتے تھے اور انیسویں صدی میں اس کے مقابل ایک اور نمائش ایکشٹر اکسچین شروع ہوئی۔ [180]ٹاور مینگری ولیم چہارم، مملکت متحدہ نے بند کردی [179] اور اسکے ببر شیروں کو انھوں نے 27 اپریل 1828ء میں چڑیا گھر منتقل کر دیا۔[181] انیسویں صدی کے نوآبادیاتی دور میں جانوروں کی تجارت بھی شروع ہوئی۔ اس دور میں ببر شیر عام اور سستے شمار ہوتے تھے۔ البتہ شیروں کے مقابلے میں انھیں زیادہ بہتر چیز سے بدلا جاسکتا تھا اور بڑے ہونے کے باوجود سستے تھے اور دیگر بڑے جانور جیسے زرافے اور گینڈوں کے مقابلے انھیں سفر میں لے جانا آسان کام تھا۔ [182] دوسرے جانوروں کی طرح انھیں بھی سامان تجارت سمجھ کر استعمال کیاجاتا رہا اور سفر میں ان سے بے رحمانہ سلوک کیا جاتا جن سے انھیں سخت نقصان پہنچتا۔ [183] اس دور میں ان ببر شکاریوں کو بڑے بہادر کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ [184] سیاح اور شکاری اس دور میں ایک فلسفہ مانویت کا پرچار کیا کرتے جس سے وہ جانوروں کو اچھے اور برے زمرے میں بانٹا کرتے اور اپنی مہم کی کہانیوں میں خود کو ایک ہیرو کی طرح پیش کرتے۔ اس طرح بڑی بلیاں آدم خور ہونے کے ناطے زیادہ نفرت کے نتائج کو بھگتی تھیں۔ [185] میلبورن کے ایک چڑیا گھر میں موجود ببر شیر ببر شیروں کو لندن کے چڑیا گھر میں 1870ء تک انتہائی بری حالت میں رکھا جاتا تھا لیکن اس کے بعد ان کے لیے الگ کمرے بنائے جانے لگے۔ پھر اس میں بہتری بیسویں صدی میں آنے لگی جب کارل ہجن بک نے پنجروں کی بجائے چڑیا گھروں میں قدرتی ماحول سے مماثلت رکھنے والے مسکن بنائے۔ نیز انھوں نے سڈنی اور میلبورن چڑیا گھروں میں بھی بیسویں صدی کے اوائل میں اسی طرح کی تبدیلی کی۔ ان کی پیش کی گئی تبدیلی 1960ی تک بہت سارے چڑیا گھروں میں موجود رہی۔[186] بعد کے عشروں میں چڑیا گھروں کی صورتیں بالکل بدل گئی اب یہ چڑیا گھر اصل قدرتی ماحول کے نہایت قریب ہو گئے ہیں نیز تماشائی بھی بنا کسی خطرے کے بڑے جانوروں کے بہت پاس جاسکتے ہیں جو پہلے کبھی ممکن نا ہو سکا تھا۔[20]۔اب ببر شیروں کے تحویلی جگہوں کو قدرتی رنگ دیا گیا ہے جہاں دھوپ ہوا، آرام اور سہولت اور ان کی ضروریات کا حد درجہ خیال رکھا جاتا ہے جہاں گھومنے کے لیے ایک وسیع جگہ مختص ہوتی ہے۔ اب ان ببر شیروں کو ذاتی طور پر رکھنا بھی ایک عام بات ہوچکی ہے اس حوالے سے ایک جوڑا جارج ایڈم سن اور ان کی اہلیہ جوئے ایڈمسن جن کی پالتو شیرنی ایلسا نے ان کے خاندانی فرد کی حیثیت لے لی تھی کافی مشہور ہوا۔ ان کی اہلیہ نے اس بارے میں کافی کتابیں اور فلمیں بنائی ہیں۔ کھیل(سرکس) اور سدھانا 19ویں صدی کا ایک شعبدہ باز ببر شیروں کے ساتھ کرتب دکھاتا ہوا ببر شیر کا دیگر جانور مثلاً کتا وغیرہ کے ساتھ مقابلہ کروایا جاتا تھا۔ یہ خونی کھیل زمانہ قدیم سے ہی چلے آئے ہیں۔اس پر 1800ء میں ویانا اور 1835ء میں انگلستان میں مکمل قدغن لگائی گئی۔[187][188] ببر شیروں کو سدھانے سے مراد انھیں لطف طبع کے لیے سرکس یا انفرادی طور پر چیزیں سکھانا ہیں یورپ میں اس حوالے سے سیگفرائڈ اور روئے مشہور تھے۔ دیگر بڑی بلیوں جیسے چیتے، تیندوئے وغیرہ کے ساتھ بھی ایسا کیا جاتا ہے۔ یورپ میں اس کی ابتدا انیسویں صدی میں فرانسیسی شخص ہنری مارٹن اور امریکی آئزک وان امبرگ کے ہاتھوں ہوئی جو اس کام کے لیے کئی جگہوں کا دورہ کیا کرتے تھے۔ وان ایمبرگ نے انگلستان میں اپنے دورے پر 1838ء میں ملکہ برطانیہ کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ مارٹن نے اپنے سرکس کا نام لیس لائن ڈی میسور رکھا (شیر میسور) اسی سے امبرگ نے بھی اسی سے آئیڈیا لیا۔ ان سرکسوں میں سب سے خاص بات ان درندوں کی سواری تھی جو انسان کی حیوان پر فوقیت کو ظاہر کرتی تھی[189] لیکن اس نے بیسویں صدی کے ابتدا میں سینیما کے ذریعے حقیقتا لوگوں کی توجہ کھینچ لی۔ سدھانے والے شخص کے کمال کی معراج یہ تھی کہ وہ اپنا سرببر شیر کے منہ میں ڈال دیتا تھا۔ [190] جنگلی جانوروں کو پکڑ کر سرکس کے لیے استعمال کیا جانا تقریباً ہر ملک میں ممنوع ہے اس کے باوجود آج بھی ایسے واقعات سامنے آمنے آتے ہیں جیسے جنوبی امریکی ممالک کولمبیا میں سنہ 2013ء اور پیرو میں سنہ 2011ء میں جنگلی جانوروں کے استعمال پر عائد پابندیوں کے نتیجے میں اپریل 2016ء میں سرکسوں سے بازیاب کروائے گئے ان میں ایک سرکس نے ببرشیر خود فراہم کیے تھے جبکہ دیگر چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران میں تحویل میں لیے گئے۔ جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی امریکی تنظیم اینیمل ڈیفنڈرز انٹرنیشنل (اے ڈی آئی) نے یہ اقدام اٹھایا تھا۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ تقریباً تمام شیر دانت اور پنجوں کے ناخن سے محروم ہیں۔ یہ شیر جنگل میں زیادہ عرصہ زندہ نہیں سکتے۔ 9 ببرشیروں کو کارگو طیارے کے ذریعے کولمبیا کے دار الحکومت بوگوٹا سے پیرو کے دار الحکومت لیما پہنچایا گیا جہاں سے مزید 24 شیروں کو لے کر جوہانسبرگ پہنچایا گیا ہے۔ یہ 31 ببرشیر جنوبی افریقا پہنچ گئے ہیں جہاں انہیں ایمویا بگ کیٹ سینچوری میں منتقل کیا جائے گا۔ جو 5000 ہیکٹر پر پھیلی ہوئی نجی زمین پر واقع ایک محفوظ پناہ گاہ ہے اور وہاں پہلے سے بازیاب کروائے گئے چھ دیگر ببرشیر اور دو چیتے رہ رہے ہیں، جہاں انھیں سہولیات میسر ہوں گی۔ [191] انسانوں سے تعلق اگرچہ اب تک انسان سے تعلق کے صلے میں ببر شیر نے اپنے علاقے سے منتقلی یا فقظ اکثر اپنی جان ہی گنوائی ہے۔ لیکن ایک واقعہ جو 9 جون، 2005ء کو پیش آیا ذرا مختلف زاویہ رکھتا ہے ہوا یوں کہ ایتھوپیامیں ایک 12 سالہ بچی کو تین ببر شیروں نے بنا کوئی نقصان پہنچائے اس کی مدد اور حفاظت کی۔ یہ واقعہ جو مقامی پولیس افسر نے بتایا اسے بعد میں وہاں کے اعلیٰ سرکاری اہلکار نے بھی بیان کیا۔ اس خبر کے مطابق اس بچی (جس کا نام معلوم نہ ہوا) کو تین لڑکے اغوا کر کے جنگل لے گئے تھے جس کی وجہ اس بچی کو شادی پر رضامند کرنا تھا (ایسی رسم ایتھوپیا میں موجود ہے) لیکن بچی اس پر رضامند نہ تھی پھر کہا جاتا ہے کہ تین ببر شیروں نے ان اغواکاروں کو وہاں سے بھگا دیا اور حکام کے اس بچی تک پہنچنے تک اس بچی کی حفاظت کی۔ اہلکاروں نے اس بچی کو ادیس ابابا سے 350 کلومیٹر دور بیٹا گینٹ کے علاقے میں پایا۔یہ بات نامعلوم ہے کہ کیوں ببر شیروں نے ایسا کیا کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ شاید بچی کی چیخیں ببر شیروں کے بچوں کی آواز سے مماثلت رکھتی تھیں جس کے سبب انھوں نے مدد کی۔ [192] بہرحال یہ واقعی جنگلی حیات کے ماہرین کے نزدیک ایک متنازع فیہ ہے۔ [193] ثقافتی اہمیت ہزاروں سال سے یورپ، ایشیا اور افریقا میں مستعمل انسانی ثقافتوں میں ببر شیر ایک معروف ترین نشان کے طور پر ابھرا ہے۔ باوجود ببر شیر کی آدم خوری کے چرچے عام ہونے کے اس کے متعلق انسانوں میں مثبت تاثر بھی اس کی طاقت اور بہادری کے حوالے سے موجود ہے۔ [194] اسے عام طور پر "جنگل کا بادشاہ" یا "درندوں کا سردار" کہا جاتا ہے پس اس کی وجہ شہرت بہادری، وقار اور شاہانہ انداز کے حوالے سے قائم و دائم ہے۔ قدیم یونانی لکھاری ایسپ نے چھٹی صدی ق م میں بھی اس سے متعلق کہانیاں لکھی ہیں۔ [195] ببر شیر کی تصاویر بالائی پیلیولیتھک دور سے نظر آ رہی ہیں۔ انسانی دھڑ کے ساتھ ببر شیر کے سر کی ایک نہایت قدیم تصویر جرمنی کے ایک غار میں ملی ہے جو ملک کے جنوب مغربی علاقے سوبین الب میں موجود ہے۔ اوریگناشئین ثقافتوں سے ملنے والے مجسمے 32 ہزار سال قدیمی ہیں [196] لیکن اس کے متعلق امکان ہے کہ یہ 40 ہزار سال پرانے ہوسکتے ہیں۔ [19] یہ مجسمہ انسانی خصوصیات کو اس نوع کے ساتھ مشترک دیکھاتا ہے جو کسی دیوتا کی بھی ہوسکتی ہے۔ 15 ہزار سال قبل دور کے ایک غار کی دیواروں پر ببر شیروں کو جنسی اختلاط کرتے دیکھا یا گیا ہے۔ 1994ء میں ایک غار کاویٹ سے ایسی 32 ہزار سال پرانی دیوار پر کندہ تصاویر دیکھی گئی ہیں۔[41]۔[197] دارا اول (550–330 ق م) کے محل میں موجود تصویر افریقا میں مختلف خطوں کے لوگوں میں ببر شیر کے متعلق خیالات مختلف ہیں۔ کچھ ثقافتوں میں ببر شیروں کو طاقت اور بادشاہت کی نشانی سمجھا جاتا ہے اور وہاں کے حکمرانوں کے عرفیت میں ببر شیر کا نام داخل ہوتا ہے۔ مثلاً سلطنت مالی کے ایک حکمران کو شیر مالی کانام دیا گیا۔ نجے جس نے مملکت وآلو (1287–1855) کی بنیاد رکھی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انھیں ببرشیروں نے تعلیم دی تھی اور وہ جب اپنے لوگوں میں لوٹے تو اس تعلیم سے انھوں نے لوگوں کو متحد کیا۔ مغربی افریقی سماج میں ببر شیر کو بڑی اہمیت حاصل ہے وہاں کے لوگ اپنا شجرہ نسب جانوروں سے جوڑتے ہیں جن میں سب سے اوپر ببر شیر کو رکھا جاتا ہے۔ مغربی و مشرقی افریقی علاقوں کے بعض حصوں میں ببر شیر کو ایک روحانی طاقت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس سے صحت یاب ہونے کا عمل جوڑا جاتا ہے۔ جبکہ مشرقی حصوں کے بعض ثقافتوں میں ببر شیر کو سُستی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ [198] اور بہت سی لوک کہانیوں میں اسے ایک ایسے جانور کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جسے دیگر جانور چکمہ دے جاتے ہیں۔ [199] قدیم مصر میں ببر شیرنی ان کی جنگی دیوی شمار ہوتی تھی اور ان دیویوں میں باستت، مافدت، منهیت، پکهت، سخمت، تفنوت اور ابوالہول شامل تھیں۔ [194] نیمیائی ببر شیر قدیم روم و یونان میں علوم فلکیات کی علامت تھی زوڈیک (آسمان کا ایک خطہ) کی علامت بھی ببر شیر تھی اور دیومالائی داستانوں میں ہرو ہیراکلیس اس کی کھال اٹھائے رکھتا تھا۔[200] قدیم بین النہرین میں (نیز سمیری اور بابل تک) ببر کو بادشاہت کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ [201] قدیم بابلی ببر شیر موٹف کو بابل کے گلی کوچے کی دیواروں پر بنایا جاتا تھا اسے وہاں کا چالاک چال ڈھال والا ببر شیرکہا جاتا ہے۔ اسی میں ہی دانیال علیہ السلام کو ببر شیروں کے زندان میں ڈالا گیا تھا۔ [202] نادہ بھارت میں موجود کھنڈر میں ایک ببر شیر کا مجسمہ یہ کھنڈر عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہیں حضرت دانیال کو ببر شیروں کے زندان میں ڈالے جانے والاقصہ انجیل کا ایک باب ہے عرب علاقوں میں بھی ببر شیر کو ثقافتی طور پر بہادری کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور پرانے زمانوں میں اس کے شکاری کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا نیز وہ اپنے بہادر پہلوانوں کو شیر کے ناموں کے القاب دیا کرتے جیسے خلیفہ چہارم علی بن ابی طالب کو اسد اللہ یعنی شیرِِ خدا کے نام کی وجہ سے جانا جاتا جس کی وجہ جنگوں میں ان کی بہادری تھی۔ علامہ دمیری جو اپنے دور کے ایک عرب ماہر حیوانات تھے نے ایک کتاب حیاۃ الحیوان لکھی جس میں کئی جانوروں کے عادات خصائل اور ان کے طبی فوائد لکھے ہیں اس میں انھوں نے ببر شیر کے متعلق لکھا ہے کہ عربی میں ببر شیر کے لیے 6 سو کے قریب نام ہیں نیز انھوں نے ایک غلط لیکن عجیب بات لکھی ہے کہ ببر شیر اپنی نسل منہ سے گوشت کا لوتھڑا باہر زمین پر پھینکتا ہے جس سے وہ لوتھڑا ایک نئے ببر شیر کے بچے میں بدل جاتا ہے اس کے ساتھ ہی انھوں نے ببر شیر کے گوشت و خون کے طبی فوائد بتائے ہیں۔ تلمود کی کتاب کولین میں ایک پادری جیشوا بن ہانیا کا لکھا ہے جس نے شہنشاہ ہڈرین کو ایک ایسے دیوہیکل ببر شیر کا بتا یا جس کے دونوں کانوں کے درمیان میں موجود فاصلہ 9 کیوبٹ (تقریباً 18 فٹ) تھا۔ کہتے ہیں کہ بادشاہ نے پادری سے اسے بلانے کا کہا۔ پادری نے کئی حیلوں کے بعد رضامندی ظاہر کی۔ روم سے 400 گز کے فاصلے پر جب یہ ببر شیر دھاڑا تو کہتے ہیں کہ وہاں کی تمام حاملہ خواتین اپنے حمل گرا بیٹھیں نیز روم کی دیواریں گر گئیں۔ جب یہ 300 گز کے فاصلے سے دھاڑا تو رومی مردوں کے اگلے دانت گر گئے اور بادشاہ سلامت بھی اپنے تخت سے گر گئے۔ اب اس نے پادری سے التجا کی کہ وہ اسے دوبارہ لوٹا دے پادری نے دعا کی اور وہ واپس لوٹ گیا۔ ہندو مت کی کتاب پُران میں ایک مخلوق ناراسمہا کا ذکر ہے جو آدھا انسان اور آدھا ببر شیر ہے[203] جو وشنو کے اوتار میں سے ہے اسے ان کے مرید لائق عبادت خیال کرتے ہیں [204] اور کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے ایک مرید پراہلا ڈا کو ان کے جابر والد سے بچایا تھا جو ایک شیطانی بادشاہ ہرنیاکشیہو تھا۔ لفظ سنگھ ایک قدیم مستعمل ویدک سنسکرت نام ہے جس کے معانی ببرشیر کے ہیں اس کا استعمال 2000 سال پرانا ہے۔ یہ لفظ ہندو راجپوت عسکری قبیلے استعمال کیا کرتے تھے۔ 1699ء میں جب سکھ مت کا آغاز ہوا تو سکھوں نے اپنے روحانی پیشوا گرو گوبند سنگھ کی فرمائش پر اسے اپنا لیا۔ بہت سارے ہندو راجپوتوں کے ساتھ ساتھ آج دنیا بھر میں دو کروڑ سکھ لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔ [205] دنیا بھر کے کئی ممالک بشمول ایشیا یورپی ممالک کے قومی نشان میں ببر شیر شامل ہیں۔ بھارت کا قومی نشان بھی ببر شیر ہے۔ [206] ہندوستان کے مزید جنوب میں جانے پر وہاں کی اکثریتی سنہالی آبادی جو سری لنکا میں غالب اکثریت میں ہیں کا نشان بھی ببر شیر ہے۔ لفظ سنہالی کے معنی ہی ببر شیر والے لوگ ہیں "یا وہ لوگ جن کی رگوں میں ببر شیر کا خون ہے "[207] نیز سری لنکا کے جھنڈے میں ایک تلوار ہاتھوں میں اٹھائے ببر شیر کی تصویر موجود ہے۔، [208] ایشیائی ببر شیر کا نشان چینی فنون میں ایک عام چیز ہے۔ وہاں فنوں میں یہ علامت پانچویں یا چھٹی صدی ق م میں استعمال ہونا شروع ہوئی لیکن اس نے شہرت اس وقت حاصل کی جب ہان حکمرانوں نے اپنے محلات کے دروازوں پر ببر شیروں کے مجسموں کو حفاظت کے لیے نصب کرنا شروع کیا۔ چونکہ چین میں ببر شیر قدرتی طور پر کبھی نہیں پائے گئے اس لیے اس دور میں بنائے جانے والے ببر شیر کسی حد تک غیر حقیقی تھے[209] لیکن بعد میں جب بدھ مت کے فنون نے چین کا رخ کیا تو تقریباً چھٹی صدی میں ان روایات میں تبدیلی آئی۔ ببر شیر والا رقص چینی ثقافت کا ایک اہم جز ہے جس میں ناچنے والا ببر شیر کا بھیس بدلتا ہے اور ڈھول شور پر رقص کیا کرتا ہے۔ یہ رقص خاص کر نئے چینی سال پر کیے جاتے ہیں۔ [210] ایک چینی محافظ ببر شیر مندر کے دروازے پر، بیجنگ جزیرہ ملک سنگا پور کا نام دو مالے زبان کے حروف سنگا (ببر شیر) اور پورا (شہر یا قلعہ) سے نکلا ہے جو تمل -سنسکرت சிங்க سنگا पुर புர پورا سے بنے ہیں نیز اس لفظ کے یونانی لفظ πόλις، پولیس کی ابتدا ایک ہی ہے۔ [211]مالے کے مورخین کے مطابق یہ نام چودہویں صدی کے سماٹرا کے شہزادے نے اس جزیرے کو دیے تھے جنھوں نے طوفان کے بعد اس علاقے میں ساحل پر ایک مخلوق کو دیکھا تھا جو شاید ببر شیر تھا۔ [212] مصر، سوڈان اور ارتریا میں بسنے والے بدو قبیلے ہڈنڈوا لوگوں کے نام میں بھی ببر شیر کا نام ضرور شامل ہوتا ہے۔ ایک میوزیم کے باہر ببر شیر کا مجسمہ ببر شیر بہت سارے قرون وسطی کے جنگجوں کی عرفیت میں شامل تھی جیسے رچرڈ اول شیر دل، ہنری دا لائن، ولیم دی لائین اور ہندوستان کے میسور کے حکمران سلطان ٹیپو جنہیں شیر میسور کہتے ہیں۔ ببر شیروں کو قومی علامات میں بے حد شامل کیا جاتا ہے جبکہ ببر شیرنی کی علامتوں کا استعال مختلف نظر آتا ہے۔ [213] ببر شیروں کے نشان کو کھیلوں کی ٹیموں کو سپورٹ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، ان ٹیموں میں انگلستان، اسکاٹ لینڈ اور سنگاپور کی مشہور کلبیں شامل ہیں ان میں انگلش پریمیر لیگ کی چیلسی اور اسٹون ویلا معروف ہیں۔ [214] of [215] ببر شیر آج کے ادب میں بھی موجود ہے ان میں مشہور کتابیں اسلان ان دی لائن، دی وچ اینڈ دی وارڈروب اور یہ سلسلہ وار کتابیں جیسے دی کرونیکل آد نارنیا[216] جو سی ایس نارنیا نے لکھی ہیں شامل ہیں، نیز مزاحیہ ادب میں کورڈلی لائن ان دی ونڈر فل وزرڈ آف اوز جیسی کتابیں مشہور ہیں۔ [217] متحرک فلموں میں بھی ببر شیر نے اپنی حیثیت منوائی ہے ان میں سب سے مشہور لیو دی لائن ہیں جس نے ایم جی ایم میں 1920ء سے اپنی موجود گی برقرار رکھی ہوئی ہے۔ [218] 1960 میں کینیائی ببر شیرنی نیلسا، بورن فری [219] نامی فلم میں نمودار ہوئی غالبا وہ اب تک ہونے والی سب سے مشہور ببر شیر نی ہے یہ فلم ایک حقیقی زندگی کے گرد گھومتی ہے اور یہ کہانی جس کتاب سے لی گئی اس کا عنوان بھی اسی فلم کا نام ہے۔ [220] کارٹونوں میں ببر شیر کو بطور درندوں کے سردار کے طور پر پیش کیا جانا پرانی بات ہے، جاپان کی سب سے پہلا کارٹون ٹی وی پروگرام جو 1950ء میں شروع ہوا کا نام کمبا ویتھ دی وائٹ لائین ہے دیگر مشہور کارٹون میں کنگ لینارڈو اینڈ ہز شورٹ سبجیکٹ (1960ء) اور ڈزنی کی 1994ء میں بننے والی دا لائن کنگ جس میں مشہور گیت دی لائن سلیپ ٹو نائٹ بھی شامل ہے پر مشتمل ہے۔ [221][222] جنوبی افریقی رانڈ کے 50 والے نوٹ پر ببر شیر کی تصویر موجود ہے۔ والی میسور ٹیپو سلطان اپنے ببر شیر والے تخت پر اہم علامات میں بھارت کی قومی علامات قومی نشان ناروے انگلستانی قومی نشان مزید دیکھیے شیر بمقابلہ ببر شیر حوالہ جات بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت ٹیکسن شناخت: https://apiv3.iucnredlist.org/api/v3/taxonredirect/15951 — اخذ شدہ بتاریخ: 2 جنوری 2023 — عنوان : The IUCN Red List of Threatened Species 2022.2 ^ ا ب پ ت ٹ ث ربط : http://www.departments.bucknell.edu/biology/resources/msw3/browse.asp?s=y&id=14000228 — اخذ شدہ بتاریخ: 19 ستمبر 2015 — عنوان : Mammal Species of the World — اشاعت سوم — ISBN 978-0-8018-8221-0 ویکی ڈیٹا پر (P830) کی خاصیت میں تبدیلی کریں"معرف Panthera leo دائراۃ المعارف لائف سے ماخوذ". eol.org. اخذ شدہ بتاریخ 15 اکتوبر 2023ء. ^ ا ب پ ت ٹ Bauer, H.؛ Packer, C.؛ Funston, P. F.؛ Henschel, P.؛ Nowell, K. (2016). "Panthera leo". لال فہرست. بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت. 2016. doi:10.2305/IUCN.UK.2016-3.RLTS.T15951A107265605.enFreely accessible.{{cite iucn}}: error: |doi= / |url= mismatch (help) ویکی ڈیٹا پر (P830) کی خاصیت میں تبدیلی کریں"معرف Panthera leo دائراۃ المعارف لائف سے ماخوذ". eol.org. اخذ شدہ بتاریخ 15 اکتوبر 2023ء. Wozencraft، W.C. (2005). "Panthera leo". In Wilson، D.E.؛ Reeder، D.M. Mammal Species of the World: A Taxonomic and Geographic Reference (ایڈیشن 3rd). Johns Hopkins University Press. صفحہ 546. ISBN 978-0-8018-8221-0. OCLC 62265494. ^ ا ب Linnaeus، Carolus (1758). Systema naturae per regna tria naturae :secundum classes, ordines, genera, species, cum characteribus, differentiis, synonymis, locis. (بزبان اللاتينية). 1 (ایڈیشن 10th). Holmiae (Laurentii Salvii). صفحہ 41. 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 8 ستمبر 2008. ^ ا ب پ ت ٹ Nowak، Ronald M. (1999). Walker's Mammals of the World. Baltimore: Johns Hopkins University Press. ISBN 0-8018-5789-9. ^ ا ب Harington، C. R. "Dick" (1969). "Pleistocene remains of the ببر شیر-like cat (Panthera atrox) from the Yukon Territory and northern Alaska". Canadian Journal of Earth Sciences. 6 (5): 1277–88. doi:10.1139/e69-127. Smuts، G. L. (1982). ببر شیر. Johannesburg: Macmillan South Africa. صفحہ 231. ISBN 0-86954-122-6. شیرs-nocturnal-chorus ببر شیرs' nocturnal chorus۔ Earth-touch.com. Retrieved on 31 جولائی 2013. African ببر شیر Panthera leo۔ Phoenix Zoo Fact Sheet. Liddell، Henry George؛ Scott، Robert (1980). A Greek-English Lexicon (Abridged Edition). United Kingdom: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس. صفحہ 411. ISBN 0-19-910207-4. Simpson، D. P. (1979). Cassell's Latin Dictionary (ایڈیشن 5th). London: Cassell Ltd. صفحہ 342. ISBN 0-304-52257-0. Simpson, John; Weiner, Edmund، ویکی نویس (1989). "ببر شیر". Oxford English Dictionary (ایڈیشن 2nd). Oxford: Clarendon Press. ISBN 0-19-861186-2. Yamaguchi، Nobuyuki؛ Cooper، Alan؛ Werdelin، Lars؛ MacDonald، David W. (اگست 2004). "Evolution of the mane and group-living in the ببر شیر (Panthera leo): a review". Journal of Zoology. 263 (4): 329–42. doi:10.1017/S0952836904005242. Turner، Allen (1997). The big cats and their fossil relatives: an illustrated guide to their evolution and natural history. New York: Columbia University Press. ISBN 0-231-10229-1. Harington، C. R. (Dick) (1996). "American ببر شیر". Yukon Beringia Interpretive Centre website. Yukon Beringia Interpretive Centre. 25 دسمبر 2018 میں شیر۔html اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 25 جنوری 2011. ^ ا ب پ ت ٹ ث Burger، Joachim؛ Rosendahl، Wilfried؛ Loreille، Odile؛ Hemmer، Helmut؛ Eriksson، Torsten؛ Götherström، Anders؛ Hiller، Jennifer؛ Collins، Matthew J.؛ Wess، Timothy؛ Alt، Kurt W. (2004). "Molecular phylogeny of the extinct cave ببر شیر Panthera leo spelaea" (PDF). Molecular Phylogenetics and Evolution (fulltext). 30 (3): 841–49. PMID 15012963. doi:10.1016/j.ympev.2003.07.020. 09 اگست 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 20 ستمبر 2007. ^ ا ب پ ت ٹ ث Grisham، Jack (2001). "ببر شیر". In Bell، Catherine E. Encyclopedia of the World's Zoos. 2: G–P. Chofago: Fitzroy Dearborn. صفحات 733–39. ISBN 1-57958-174-9. ^ ا ب پ ت Barnett، Ross؛ Yamaguchi, Nobuyuki؛ Barnes, Ian؛ Cooper, Alan (اگست 2006). "Lost populations and preserving genetic diversity in the ببر شیر Panthera leo: Implications for its ex situ conservation". Conservation Genetics. 7 (4): 507–14. doi:10.1007/s10592-005-9062-0. Bertola، L. D.؛ Van Hooft، W. F.؛ Vrieling، K.؛ Uit De Weerd، D. R.؛ York، D. S.؛ Bauer، H.؛ Prins، H. H. T.؛ Funston، P. J.؛ Udo De Haes، H. A.؛ Leirs، H.؛ Van Haeringen، W. A.؛ Sogbohossou، E.؛ Tumenta، P. N.؛ De Iongh، H. H. (2011). "Genetic diversity, evolutionary history and implications for conservation of the ببر شیر (Panthera leo) in West and Central Africa". Journal of Biogeography. 38 (7): 1356–67. doi:10.1111/j.1365-2699.2011.02500.x. Dubach، Jean؛ وغیرہ (جنوری 2005). "Molecular genetic variation across the southern and eastern geographic ranges of the African ببر شیر، Panthera leo". Conservation Genetics. 6 (1): 15–24. doi:10.1007/s10592-004-7729-6. Barnett، Ross؛ Yamaguchi، Nobuyuki؛ Barnes، Ian؛ Cooper، Alan (2006). "The origin, current diversity and future conservation of the modern ببر شیر (Panthera leo)". Proceedings of the Royal Society B: Biological Sciences. 273 (1598): 2119–25. PMC 1635511Freely accessible. PMID 16901830. doi:10.1098/rspb.2006.3555. 08 اگست 2007 میں شیرs.pdf اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) (PDF) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 4 ستمبر 2007. Christiansen، Per (2008). "On the distinctiveness of the Cape ببر شیر (Panthera leo melanochaita Smith, 1842)، and a possible new specimen from the Zoological Museum, Copenhagen". Mammalian Biology. 73 (1): 58–65. doi:10.1016/j.mambio.2007.06.003. "IUCN Cat Specialist Group". "Endangered and Threatened Wildlife and Plants; Listing Two ببر شیر Subspecies" (PDF). Federal Register. وفاقی حکومت، ریاستہائے متحدہ امریکا. دسمبر 23, 2015. 80 FR 79999. اخذ شدہ بتاریخ دسمبر 26, 2015. Barnett، Ross؛ Yamaguchi، Nobuyuki؛ Shapiro، Beth؛ Nijman، Vincent (2007). "Using ancient DNA techniques to identify the origin of unprovenanced museum specimens, as illustrated by the identification of a 19th century ببر شیر from Amsterdam". Contributions to Zoology. 76 (2): 87–94. 22 مئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2016. ^ ا ب پ Nowell، Kristin؛ Jackson، Peter (1996). "Panthera Leo". Wild Cats: Status Survey اور Conservation Action Plan (PDF). Glاور، Switzerlاور: IUCN/SSC Cat Specialist Group. صفحات 17–21, 37–41. ISBN 2-8317-0045-0. 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 25 جنوری 2016. Black، S. A.؛ Fellous، A.؛ Yamaguchi، N.؛ Roberts، D. L. (2013). "Examining the Extinction of the Barbary ببر شیر اور Its Implications for Felid Conservation". PLoS ONE. 8 (4): e60174. Bibcode:2013PLoSO.۔۔860174B تأكد من صحة قيمة |bibcode= length (معاونت). doi:10.1371/journal.pone.0060174. Yadav، P. R. (2004). Vanishing اور Endangered Species. Discovery Publishing House. صفحات 176–78. ISBN 81-7141-776-0. اخذ شدہ بتاریخ 14 دسمبر 2010. Burger، Joachim؛ Hemmer، Helmut (2006). "Urgent call for further breeding of the relic zoo population of the critically endangered Barbary ببر شیر (Panthera leo leo Linnaeus 1758)" (PDF). European Journal of Wildlife Research. 52: 54. doi:10.1007/s10344-005-0009-z. 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 25 جنوری 2016. "آرکائیو کاپی" (PDF). 03 جولا‎ئی 2007 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 25 جنوری 2016. Black، Simon؛ Yamaguchi، Nobuyuki؛ Harlاور، Adrian؛ Groombridge، Jim (2010). "Maintaining the genetic health of putative Barbary ببر شیرs in captivity: an analysis of Moroccan Royal ببر شیرs". European Journal of Wildlife Research. 56: 21–31. doi:10.1007/s10344-009-0280-5. ^ ا ب شیر۔org/asiatic-ببر شیر-history.htm "Asiatic ببر شیر—History" تحقق من قيمة |url= (معاونت). Asiatic ببر شیر Information Centre. Wildlife Conservation Trust of India. 2006. اخذ شدہ بتاریخ 15 ستمبر 2007. [مردہ ربط] ^ ا ب پ Singh, H. S.؛ Gibson, L. (2011). "A conservation success story in the otherwise dire megafauna extinction crisis: The Asiatic ببر شیر (Panthera leo persica) of Gir forest". Biological Conservation. 144 (5): 1753–1757. doi:10.1016/j.biocon.2011.02.009. ^ ا ب Sunquist, M. E. اور Sunquist, F. C. (2009)۔ Family Felidae (Cats)۔ In: Don E. Wilson, Russell A. Mittermeier (eds.): Hاورbook of the Mammals of the World. Volume 1: Carnivores. Lynx Edicions, 2009, ISBN 978-84-96553-49-1, pp. 137 ff. ^ ا ب پ ت Macdonald، David Wayne (2006). The Encyclopedia of Mammals. صفحات 628–635. ISBN 0-87196-871-1. "A New, Genetically Distinct ببر شیر Population is Found". News Watch. National Geographic Society. 30 نومبر 2012. 25 دسمبر 2018 میں شیر-population-is-found/ اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 23 جنوری 2013. The Addis Ababa zoo ببر شیرs have dark manes اور small bodies, unlike other African ببر شیرs. But life in captivity can sometimes influence appearance. A team of researchers, led by the Max Planck Institute for Evolutionary Anthropology in Germany اور the University of York in the UK, checked to see if the ببر شیرs really are different by comparing DNA samples of 15 ببر شیرs from the zoo to six populations of wild ببر شیرs. Their genetic analysis revealed that the gene sequence of all fifteen ببر شیرs were unique اور showed little sign of inbreeding. The study was recently published in the European Journal of Wildlife Research. Bruche، Susann؛ Gusset, Markus؛ Lippold, Sebastian؛ Barnett, Ross؛ Eulenberger, Klaus؛ Junhold, Jörg؛ Driscoll, Carlos A.؛ Hofreiter, Michael (2012). "A genetically distinct ببر شیر (Panthera leo) population from Ethiopia". European Journal of Wildlife Research. 59 (2): 215–225. doi:10.1007/s10344-012-0668-5. Probst، Ernst (1999). Deutschland in der Urzeit (بزبان الألمانية). Orbis. ISBN 3-572-01057-8. ^ ا ب Packer، Craig؛ Jean Clottes (نومبر 2000). "When ببر شیرs Ruled France". Natural History: 52–57. ^ ا ب Koenigswald، Wighart von (2002). Lebendige Eiszeit: Klima und Tierwelt im Wandel (بزبان جرمن). Stuttgart: Theiss. ISBN 3-8062-1734-3. ^ ا ب Barnett، Ross؛ Shapiro، Beth؛ Barnes، Ian؛ Ho، Simon Y.W.؛ Burger، Joachim؛ Yamaguchi، Nobuyuki؛ Higham، Thomas FG؛ Wheeler، H Todd؛ Rosendahl، Wilfried؛ Sher، Andrei V.؛ Sotnikova، Marina؛ Kuznetsova، Tatiana؛ Baryshnikov، Gennady F.؛ Martin، Larry D.؛ Harington، C. Richard؛ Burns، James A.؛ Cooper، Alan (اپریل 2009). "Phylogeography of ببر شیرs (Panthera leo ssp.) reveals three distinct taxa and a late Pleistocene reduction in genetic diversity" (PDF). Molecular Ecology. 18 (8): 1668–77. PMID 19302360. doi:10.1111/j.1365-294X.2009.04134.x. 21 جنوری 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2011. Martin، Paul S. (1984). Quaternary Extinctions. Tucson, AZ: University of Arizona Press. ISBN 0-8165-1100-4. Manamendra-Arachchi، Kelum؛ Pethiyagoda، Rohan؛ Dissanayake، Rajith؛ Meegaskumbura، Madhava (2005). "A second extinct big cat from the late Quaternary of Sri Lanka" (PDF). The Raffles Bulletin of Zoology. National University of Singapore. Supplement 12: 423–34. 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 31 جولائی 2007. Ashrafian، Hutan (2011). "An Extinct Mesopotamian ببر شیر Subspecies". Veterinary Heritage. 34 (2): 47–49. Shuker، Karl P. N. (1989). Mystery Cats of the World. Robert Hale. ISBN 0-7090-3706-6. Guggisberg، Charles Albert Walter (1975). Wild Cats of the World. New York: Taplinger Publishing. ISBN 0-8008-8324-1. Doi، H؛ Reynolds، B (1967). The Story of Leopons. New York: Putnam. OCLC 469041. Rafferty، John P. (2011). Carnivores. The Rosen Publishing Group. صفحہ 120. ISBN 978-1-61530-340-3. 25 دسمبر 2018 میں شیر+tigress&hl=en&sa=X&ei=56G2U6vSHou3yATBr4DoCw&ved=0CCIQ6AEwAQ#v=onepage&q=liger%20ببر شیر%20tigress&f=false اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 4 جولائی 2014. ^ ا ب Shi، Wei (2005). Growth and Behviour: Epigenetic and Genetic Factors Involved in Hybrid Dysgenesis. Digital Comprehensive Summaries of Uppsala Dissertations from the Faculty of Science and Technology. 11. Uppsala: Acta Universitatis Upsaliensis. صفحہ 9. ISBN 91-554-6147-6. "Tigon—Encyclopædia Britannica Article". 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 25 جنوری 2011. Heptner، V. G.؛ Sludskii، A. A. (1992). Mammals of the Soviet Union, Volume II, Part 2. Leiden u.a.: Brill. ISBN 90-04-08876-8. Schaller، p. 28. Smuts، G. L.؛ Robinson, G.A.؛ Whyte, I.J. (1980). "Comparative growth of wild male and female ببر شیرs (Panthera leo)". Journal of Zoology. 190 (3): 365–373. doi:10.1111/j.1469-7998.1980.tb01433.x. Mazák, Vratislav (اپریل 2004) Der Tiger، Westarp Wissenschaften, 5th ed.، pp. 178 ff.، ISBN 3-89432-759-6. Wood, The Guinness Book of Animal Facts and Feats. Sterling Pub Co Inc (1983)، ISBN 978-0-85112-235-9 Readhead, Harry (23 دسمبر 2015). "Scientists discover 'genderfluid' ببر شیرess who looks, acts and roars like a male". Metro. 25 دسمبر 2018 میں شیرess-who-looks-acts-and-roars-like-a-male-5582846/ اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 25 دسمبر 2015. Trivedi، Bijal P. (2005). "Are Maneless Tsavo ببر شیرs Prone to Male Pattern Baldness?". National Geographic. 25 دسمبر 2018 میں شیرs.html اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 7 جولائی 2007. Trivedi، Bijal P. (22 اگست 2002). "Female ببر شیرs Prefer Dark-Maned Males, Study Finds". National Geographic News. National Geographic. 25 دسمبر 2018 میں شیر۔html اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 1 ستمبر 2007. ^ ا ب West، Peyton M.؛ Packer, Craig (اگست 2002). "Sexual Selection, Temperature, and the ببر شیر's Mane". Science. 297 (5585): 1339–43. PMID 12193785. doi:10.1126/science.1073257. ^ ا ب Yamaguchi، Nobuyuki؛ Haddane, B. (2002). "The North African Barbary ببر شیر and the Atlas ببر شیر Project". International Zoo News. 49: 465–81. Menon، Vivek (2003). A Field Guide to Indian Mammals. Delhi: Dorling Kindersley India. ISBN 0-14-302998-3. Schoe, Marjolein; Sogbohossou, Etotépé A.; Kaandorp, Jacques and de Iongh, Hans (2010) Progress Report – collaring operation Pendjari ببر شیر Project, Benin. Funded by the Dutch Zoo Conservation Fund. Munson، Linda (3 مارچ 2006). "Contraception in felids". Theriogenology. 66 (1): 126–34. PMID 16626799. doi:10.1016/j.theriogenology.2006.03.06. McBride، Chris (1977). The White ببر شیرs of Timbavati. Johannesburg: E. Stanton. ISBN 0-949997-32-3. Tucker، Linda (2003). Mystery of the White ببر شیرs—Children of the Sun God. Mapumulanga: Npenvu Press. ISBN 0-620-31409-5. Schaller، p. 122. Schaller، pp. 120–21. ^ ا ب پ Schaller، p. 33. Schaller، p. 37. Schaller، p. 39. ^ ا ب پ Schaller، p. 44. Milius، Susan (اپریل 2002). "Biology: Maneless ببر شیرs live one guy per pride". Society for Science & the Public. 161 (16): 253. doi:10.1002/scin.5591611614. Schaller، p. 133. شیرconservationfund.org/ببر شیر_adopt.html Join the Pride[مردہ ربط]۔ ببر شیر Conservation Fund. Retrieved on 31 جولائی 2013. Heinsohn، R.؛ C. Packer (1995). "Complex cooperative strategies in group-territorial African ببر شیرs". Science. 269 (5228): 1260–62. PMID 7652573. doi:10.1126/science.7652573. Morell، V. (1995). "Cowardly ببر شیرs confound cooperation theory". Science. 269 (5228): 1216–17. PMID 7652566. doi:10.1126/science.7652566. Jahn، Gary C. (1996). "ببر شیرess Leadership". Science. 271 (5253): 1215. PMID 17820922. doi:10.1126/science.271.5253.1215a. ^ ا ب Schaller، p. 213. >"Behavior and Diet". African Wildlife Foundation website. African Wildlife Foundation. 1996. 25 دسمبر 2018 میں شیر اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 6 جون 2014. Mills، Gus. شیر۔org/ببر شیرs_e.htm "About ببر شیرs—Ecology and behaviour" تحقق من قيمة |url= (معاونت). African ببر شیر Working Group. اخذ شدہ بتاریخ 20 جولائی 2007. [مردہ ربط] Schaller، p. 248. Schaller، pp. 247–48. Schaller، p. 237. ^ ا ب Guggisberg، Charles Albert Walter (1961). Simba: the life of the lion. Cape Town: Howard Timmins. Schaller، p. 259. Radloff, Frans G. T.؛ Du Toit, Johan T. (2004). "Large predators and their prey in a southern African savanna: a predator's size determines its prey size range". Journal of Animal Ecology. 73: 410–423. doi:10.1111/j.0021-8790.2004.00817.x. Denis-Huot، Christine؛ Denis-Huot، Michel (2002). The Art of Being a ببر شیر. Friedman/Fairfax. صفحہ 186. ISBN 88-8095-752-X. ^ ا ب Pienaar، U. de V. (1969). "Predator-prey relationships among the larger mammals of the Kruger National Park". Koedoe. 12 (1). doi:10.4102/koedoe.v12i1.753. Douglas-Hamilton، Iain؛ Douglas-Hamilton، Oria (1975). "Among the Elephants". Hayward، Matt W.؛ Kerley، Graham (2005). "Prey preferences of the ببر شیر (Panthera leo)". Journal of Zoology. 267 (3): 309–22. doi:10.1017/S0952836905007508. Power، R. J.؛ Shem Compion، R. X. (2009). "ببر شیر predation on elephants in the Savuti, Chobe National Park, Botswana". African Zoology. 44 (1): 36–44. doi:10.3377/004.044.0104. Hayward، Matt W. (2006). "Prey preferences of the spotted hyaena (Crocuta crocuta) and degree of dietary overlap with the ببر شیر (Panthera leo)" (PDF). Journal of Zoology. 270: 606–14. doi:10.1111/j.1469-7998.2006.00183. 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 30 جنوری 2016. ^ ا ب Kruuk، Hans (1972). "Interactions between Hyenas and other Carnivorous Animals". The Spotted Hyena: A Study of Predation and Social Behaviour. Chicago: The University of Chicago Press. ISBN 0-226-45508-4. Gittleman، John L.؛ Funk، Stephan M.؛ Macdonald، David W.؛ Wayne، Robert K.، ویکی نویس (2001). Carnivore Conservation (ایڈیشن 1). Cambridge University Press. ISBN 978-0-521-66232-1. Schaller، p. 272. Schaller، pp. 273–274. Joubert, Dereck and Joubert, Beverley. Eternal Enemies: ببر شیرs and Hyenas. [ڈی وی ڈی]. National Geographic. Trinkel، Martina؛ Kastberger، Gerald (2005). "Competitive interactions between spotted hyenas and ببر شیرs in the Etosha National Park, Namibia". African Journal of Ecology. 43 (3): 220–24. doi:10.1111/j.1365-2028.2005.00574.x. O'Brien، Stephen J؛ Wildt، David E؛ Bush، Mitchell (1986). "The Cheetah in Genetic Peril" (PDF). Scientific American (254): 68–76. Schaller، p. 293. Woodroffe، Rosie؛ Ginsberg، Joshua R (1999). "Conserving the African wild dog Lycaon pictus۔ I. Diagnosing and treating causes of decline". Oryx. 33 (2): 132–42. doi:10.1046/j.1365-3008.1999.00052.x. Schaller، p. 188. "Crocodiles!". Nova (transcript). PBS. 28 اپریل 1998. 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2010. Guggisberg، Charles Albert Walter (1972). Crocodiles: Their Natural History, Folklore, and Conservation. Newton Abbot: David & Charles. صفحہ 195. ISBN 0-7153-5272-5. Patterson، Bruce D. (2004). The ببر شیرs of Tsavo: Exploring the Legacy of Africa's Notorious Man-Eaters. McGraw-Hill. ISBN 0-07-136333-5. Patterson، Bruce D.؛ Neiburger, Ellis J.؛ Kasiki, Samuel M. (فروری 2003). "Tooth Breakage and Dental Disease as Causes of Carnivore–Human Conflicts". Journal of Mammalogy. 84 (1): 190–96. doi:10.1644/1545-1542(2003)084<0190:TBADDA>2.0.CO;2. Peterhans، Julian C. Kerbis؛ Thomas Patrick Gnoske (2001). "The Science of Man-eating". Journal of East African Natural History. 90 (1&2): 1–40. doi:10.2982/0012-8317(2001)90[1:TSOMAL]2.0.CO;2. 30 اکتوبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 7 جولائی 2007. "آرکائیو کاپی". 30 اکتوبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 30 جنوری 2016. ^ ا ب Packer، C.؛ Ikanda, D.؛ Kissui, B.؛ Kushnir, H. (اگست 2005). "Conservation biology: ببر شیر attacks on humans in Tanzania". Nature. 436 (7053): 927–28. PMID 16107828. doi:10.1038/436927a. Packer، C؛ Swanson A؛ Ikanda D؛ Kushnir H (جولائی 2011). ویکی نویس: Rands، Sean A. "Fear of Darkness, the Full Moon and the Nocturnal Ecology of African ببر شیرs". PLoS ONE. 6 (7): e22285. doi:10.1371/journal.pone.0022285. Frump، RR (2006). The Man-Eaters of Eden: Life and Death in Kruger National Park. The Lyons Press. ISBN 1-59228-892-8. Dickinson، Daniel (19 اکتوبر 2004). "Toothache 'made ببر شیر eat humans'". BBC News. 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 25 جنوری 2011. Baldus، R (مارچ 2006). "A man-eating ببر شیر (Panthera leo) from Tanzania with a toothache". European Journal of Wildlife Research. 52 (1): 59–62. doi:10.1007/s10344-005-0008-0. Rushby، George G. (1965). No More the Tusker. London: W. H. Allen. Schaller، p. 29. ^ ا ب Schaller، p. 174. Asdell، Sydney A. (1993) [1964]. Patterns of mammalian reproduction. Ithaca: Cornell University Press. ISBN 978-0-8014-1753-5. Schaller، p. 142. ^ ا ب پ Scott، p. 45. Schaller، p. 143. ^ ا ب Packer، C.؛ Pusey، A. E. (May 1983). "Adaptations of female ببر شیرs to infanticide by incoming males". American Naturalist. 121 (5): 716–28. doi:10.1086/284097. Macdonald، David (1984). The Encyclopedia of Mammals. New York: Facts on File. صفحہ 31. ISBN 0-87196-871-1. Scott، p. 46. Crandall، Lee S. (1964). The management of wild animals in captivity. Chicago: University of Chicago Press. OCLC 557916. Scott، p. 68. Bagemihl، Bruce (1999). Biological Exuberance: Animal Homosexuality and Natural Diversity. New York: St. Martin's Press. صفحات 302–05. ISBN 0-312-19239-8. Schaller، p. 183. Schaller، pp. 188–89. Schaller، pp. 189–90. Schaller، p. 184. Yeoman، Guy Henry؛ Walker, Jane Brotherton (1967). The ixodid ticks of Tanzania. London: Commonwealth Institute of Entomology. OCLC 955970. Sachs، R (1969). "Untersuchungen zur Artbestimmung und Differenzierung der Muskelfinnen ostafrikanischer Wildtiere [Differentiation and species determination of muscle-cysticerci in East African game animals]". Zeitschrift für tropenmedizin und Parasitologie (بزبان جرمن). 20 (1): 39–50. PMID 5393325. Fosbrooke، Henry (1963). "The stomoxys plague in Ngorongoro". East African Wildlife Journal. 1 (6): 124–26. doi:10.1111/j.1365-2028.1963.tb00190.x. Nkwame، Valentine M (9 ستمبر 2006). "King of the jungle in jeopardy". The Arusha Times. 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 4 ستمبر 2007. Roelke-Parker، M. E.؛ Munson، Linda؛ Packer، Craig؛ Kock، Richard؛ Cleaveland، Sarah؛ Carpenter، Margaret؛ O'Brien، Stephen J.؛ Pospischil، Andreas؛ Hofmann-Lehmann، Regina؛ وغیرہ (فروری 1996). "A canine distemper epidemic in Serengeti ببر شیرs (Panthera leo)". Nature. 379 (6564): 441–45. PMID 8559247. doi:10.1038/379441a0. Schaller، p. 85. Sparks، J (1967). "Allogrooming in primates:a review". In Desmond Morris. Primate Ethology. Chicago: Aldine. ISBN 0-297-74828-9. (2007 edition: 0-202-30826-X) Leyhausen، Paul (1960). Verhaltensstudien an Katzen (بزبان جرمن) (ایڈیشن 2nd). Berlin: Paul Parey. ISBN 3-489-71836-4. Schaller، pp. 85–88. Schaller، pp. 88–91. Schaller، pp. 92–102. Ananthakrishnan، G.؛ Eklund، Robert؛ Peters، Gustav؛ Mabiza، Evans (2011). "An acoustic analysis of ببر شیر roars. II: Vocal tract characteristics" (PDF). Speech, Music and Hearing Quarterly Progress and Status Report TMH-QPSR. 51: 5. 25 دسمبر 2018 میں شیرRoars.pdf اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) (PDF) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 25 دسمبر 2018. Eklund، Robert؛ Peters، Gustav;؛ Ananthakrishnan، G؛ Mabiza، Evans (2011). "An acoustic analysis of ببر شیر roars. I: Data collection and spectrogram and waveform analyses" (PDF). Speech, Music and Hearing Quarterly Progress and Status Report TMH-QPSR. 51: 1. 25 دسمبر 2018 میں شیرRoars.pdf اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) (PDF) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 25 دسمبر 2018. Schaller، pp. 103–113. Miller، Brian (2000). Endangered animals: a reference guide to conflicting issues. Greenwood Publishing Group. ISBN 0-313-30816-0. Rudnai، Judith A. (1973). The social life of the ببر شیر. Wallingford: s.n. ISBN 0-85200-053-7. شیر۔org/gir-floristic.htm "The Gir—Floristic" تحقق من قيمة |url= (معاونت). Asiatic ببر شیر Information Centre. Wildlife Conservation Trust of India. 2006. اخذ شدہ بتاریخ 14 ستمبر 2007. [مردہ ربط] ^ ا ب Schaller، p. 5. Heptner، V. G.؛ A. A. Sludskii (1989). Mammals of the Soviet Union: Volume 1, Part 2: Carnivora (Hyaenas and Cats). New York: Amerind. ISBN 90-04-08876-8. "Past and present distribution of the ببر شیر in North Africa and Southwest Asia.". Asiatic ببر شیر Information Centre. 2001. 10 مئی 2008 میں شیر۔org/distrib.html اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 1 جون 2006. شیر۔org/population-gir-forests.htm "Asiatic ببر شیر—Population" تحقق من قيمة |url= (معاونت). Asiatic ببر شیر Information Centre. Wildlife Conservation Trust of India. 2006. اخذ شدہ بتاریخ 15 ستمبر 2007. [مردہ ربط] Desai، Darshan (23 جون 2003). "The Mane Don't Fit". Outlook India Magazine. Outlookindia.com. 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2010. Bauer، H.؛ Van Der Merwe، S. (2002). "The African ببر شیر database". Cat news. 36: 41–53. Chardonnet، P. (2002). Conservation of African ببر شیر (PDF). Paris, France: International Foundation for the Conservation of Wildlife. 25 دسمبر 2018 میں شیر۔pdf اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2020. "AWF Wildlife: ببر شیر". African Wildlife Foundation. 25 دسمبر 2018 میں شیر اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2007. "NATURE. The Vanishing ببر شیرs". PBS. 25 دسمبر 2018 میں شیرs/introduction/545/ اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 25 جنوری 2011. "Panthera leo ssp. persica". لال فہرست برائے خطرہ زدہ جاندار نسخہ 2010.4. بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت. 2008. Tumenta، P. N.؛ Kok، J. S.؛ van Rijssel، J. C.؛ Buij، R.؛ Croes، B. M.؛ Funston، P. J.؛ de Iongh، H. H.؛ de Haes، H. A. Udo (2009). "Threat of rapid extermination of the ببر شیر (Panthera leo leo) in Waza National Park, Northern Cameroon". African Journal of Ecology. 48 (4): 1–7. doi:10.1111/j.1365-2028.2009.01181.x. "Winning with ببر شیرs". The East African Magazine. 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 30 جنوری 2016. Roach، John (16 جولائی 2003). "ببر شیرs Vs. Farmers: Peace Possible?". National Geographic News. National Geographic. 25 دسمبر 2018 میں شیرs.html اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 1 ستمبر 2007. Saberwal، Vasant K.؛ Gibbs، James P.؛ Chellam، Ravi؛ Johnsingh، A. J. T. (1 جون 1994). "ببر شیر‐Human Conflict in the Gir Forest, India". Conservation Biology. Blackwell Science Inc. 8 (2): 501–7. ISSN 1523-1739. doi:10.1046/j.1523-1739.1994.08020501.x. اخذ شدہ بتاریخ 1 مئی 2014. Johnsingh، A. J. T. (2004). "WII in the Field: Is Kuno Wildlife Sanctuary ready to play second home to Asiatic ببر شیرs?". Wildlife Institute of India Newsletter. 11 (4). 27 ستمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 6 نومبر 2010. "آرکائیو کاپی". 17 جولا‎ئی 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 30 جنوری 2016. "Barbary ببر شیر News". 17 دسمبر 2005 میں شیر_news.htm اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2007. de Courcy، p. 81 Dollinger، P؛ Geser، S. "ببر شیر: In the Zoo (subpage)". Visit the Zoo. WAZA (World Association of Zoos and Aquariums). 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2011. Aguiar، Eloise (اگست 2007). "Honolulu zoo's old ببر شیر roars no more". Honolulu Advertiser. 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 4 ستمبر 2007. Frankham، Richard؛ Ballou، Jonathan؛ Briscoe، David (2009). Introduction to Conservation Genetics. Cambridge, England: Cambridge University Press. صفحہ 437. ISBN 0-521-70271-2. اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2010. Avise، J. C.؛ Hamrick، J. L. (31 جنوری 1996). Conservation Genetics. Springer Science & Business Media. صفحہ 67. ISBN 978-0-412-05581-2. Furthermore, when Asiatic ببر شیرs were inadvertently bred to African ببر شیر subspecies in North America, the fecundity, reproductive success, and spermatozoal development improved dramatically (Box 3.3; O'Brien et al.، 1987b)۔ Smith، Vincent Arthur (1924). The Early History of India. Oxford: Clarendon Press. صفحہ 97. Wiedemann، Thomas (1995). Emperors and Gladiators. Routledge. صفحہ 60. ISBN 0-415-12164-7. Baratay & Hardouin-Fugier، p.۔ Baratay & Hardouin-Fugier، pp. 19–21, 42. Baratay & Hardouin-Fugier، p. 20. Owen، James (3 نومبر 2005). "Medieval ببر شیر Skulls Reveal Secrets of Tower of London "Zoo"". National Geographic Magazine. National Geographic. 25 دسمبر 2018 میں شیرs.html اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 5 ستمبر 2007. Blunt، p. 15. Baratay & Hardouin-Fugier، pp. 24–28. Blunt، p. 16. ^ ا ب Blunt، p. 17. de Courcy، pp. 8–9. Blunt، p. 32. Baratay & Hardouin-Fugier، p. 122. Baratay & Hardouin-Fugier، pp. 114, 117. Baratay & Hardouin-Fugier، p. 113. Baratay & Hardouin-Fugier، pp. 173, 180–83. de Courcy، p. 69. Hone، William (2004) [1825–1826]. "جولائی". In Kyle Grimes. The Every-Day Book. University of Alabama at Birmingham. صفحہ 26. 24 جون 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 25 جنوری 2011. Blaisdell، Warren H. (نومبر 1997). "How A ببر شیر Fight Caused England To Stop The Breeding Of Both Ring And Pit Bulldogs". American Bulldog Review. 3 (4). 24 اپریل 2008 میں شیر۔htm اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 5 ستمبر 2007. Baratay & Hardouin-Fugier، p. 187. Feldman، David (1993). How Does Aspirin Find a Headache?. HarperCollins. ISBN 0-06-016923-0. بی بی سی اردو 1/ مئی 2016ء شیرs-save-african-girl-from-abductors.html ببر شیرs Save African Girl From Abductors | Fox News BBC NEWS | Africa | Kidnapped girl 'rescued' by ببر شیرs ^ ا ب Garai، Jana (1973). The Book of Symbols. New York: Simon & Schuster. ISBN 0-671-21773-9. Aesop (2002). ویکی نویس: Gibbs، L. Fables. Oxford World's Classics. Oxford: Oxford University Press. ISBN 0-19-284050-9. Martin Bailey شیر-Mani-is-worlds-earliest-figurative-sculpture/28595 Ice Age ببر شیر Man is world’s earliest figurative sculptureThe Art Newspaper, 31 جنوری 2013, accessed 1 فروری 2013. آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ theartnewspaper.com (Error: unknown archive URL) لوا خطا ماڈیول:Citation/CS1/Utilities میں 38 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ Hogarth, C.; Butler, N. (2004). "Animal Symbolism (Africa)". In Walter, M. N. Shamanism: An Encyclopedia of World Beliefs, Practices, and Culture, Volume 1. صفحات 3–6. ISBN 1-57607-645-8. Lynch, P. A. (2004). African Mythology A to Z. Infobase Publishing. صفحہ 63. ISBN 0-8160-4892-4. Graves، R (1955). "The First Labour: The Nemean ببر شیر". Greek Myths. London: Penguin. صفحات 465–69. ISBN 0-14-001026-2. Cassin، Elena (1981). "Le roi et le ببر شیر" [The king & the ببر شیر] (PDF). Revue de l'histoire des religions (بزبان الفرنسية). 298 (198–4): 355–401. doi:10.3406/rhr.1981.4828. اخذ شدہ بتاریخ 3 دسمبر 2009. Daniel 6 "Bhag-P". Srimadbhagavatam. 7.8.19–22. 29 دسمبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2010. "Bhag-P". Srimadbhagavatam. 1.3.18. 26 ستمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 30 جنوری 2016. In the fourteenth incarnation, the Lord appeared as Nrisimha and bifurcated the strong body of the atheist Hiranyakasipu with His nails, just as a carpenter pierces cane. Singh، Khushwant (2004). A History of the Sikhs: 1469–1838. I. Oxford University Press. ISBN 0-19-567308-5. "Know India: State Emblem". National Portal of India. National Informatics Centre. 2005. 22 اگست 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2007. "Article 6: The National Flag". Constitution. Government of Sri Lanka. 1978. 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 6 اگست 2007. "National Flag". Government of Sri Lanka. 27 مارچ 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 6 اگست 2007. Ling، Li (مئی 2002). "The Two-Way Process in the Age of Globalization". Ex/Change (newsletter) (4). Egan, Ronald transl. City University of Hong Kong. 06 اپریل 2005 میں شیر/ببر شیر۔htm اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 26 ستمبر 2007. "ببر شیر Dance Club". MIT. 25 دسمبر 2018 میں شیر-dance/about.php اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 09 اگست 2021. "Singapore". The American Heritage Dictionary of the English Language (ایڈیشن 4th). Bartleby. 2000. 29 جون 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 14 اپریل 2006. "Early History". Singapore: Ministry of Information, Communications and the Arts. 12 اپریل 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 6 نومبر 2010. "Arms of Margaret Norrie McCain". The Public Register of Arms, Flags and Badges. CA. 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 30 جون 2010. شیرs.com/index.cfm?homelink=y "Detroit ببر شیرs" تحقق من قيمة |url= (معاونت) (official Website). 2001. اخذ شدہ بتاریخ 8 جولائی 2007. [مردہ ربط] "Chelsea centenary crest unveiled". BBC. 12 نومبر 2004. 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 2 جنوری 2007. Lewis، Clive Staples (1950). The ببر شیر، the Witch and the Wardrobe. HarperCollins. ISBN 0-06-023481-4. Baum، L. Frank؛ Hearn، Michael Patrick (1973). The Annotated Wizard of Oz. New York, NY: Clarkson N. Potter. صفحہ 148. ISBN 0-517-50086-8. شیر۔htm "Advertising Mascots—Animals—Leo the MGM ببر شیر (MGM Studios)" تحقق من قيمة |url= (معاونت). TV Acres.[مردہ ربط] Adamson، George (1969). Bwana Game: the life story of George Adamson. Fontana. ISBN 0-00-612145-4. Adamson، Joy (2000) [1960]. Born Free: A ببر شیرess of Two Worlds. Pantheon. ISBN 0-375-71438-3. Schweizer، Peter (1998). Disney: The Mouse Betrayed. Washington D.C.: Regnery. صفحات 164–69. ISBN 0-89526-387-4. "King Leonardo and His Short Subjects (1960– )". Internet Movie Database. 2007. 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 14 ستمبر 2007.
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
20,177
کیا اے آئی انسانی خیالات کو تصویری شکل بھی دے سکے گی؟
آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) آنے والے وقت میں انسانیت کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اے آئی بہت جلد انسانوں کے خیالات کو پڑھنے اور ان مکی تصاویر بنانے کی صلاحیت بھی حاصل کرلے گی۔ سنگاپور کی ایک یونیورسٹی میں ایسی نیورو ٹیکنالوجی پر کام کیا جارہا ہے جو مصنوعی ذہانت کی مدد سے لوگوں کے خیالات جان کر ان کو تصویری شکل دے سکے گی۔ نیورو ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت انسانی سوچ کے لیے بہت بڑا خطرہ ہوسکتا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ نیوروٹیکنالوجی کو مصنوعی ذہانت کے الگورتھم کے ذریعے سپرچارج کیا گیا ہے جو ڈیٹا کو اس طرح سے پروسیس کرسکتا ہے جیسا پہلے کبھی ممکن نہیں تھا۔ دوسری جانب عوامی رائے ہے کہ یہ بات ناممکن ہے کیونکہ جب تک آپ بولیں گے نہیں یا اپنے خیالات کو اسکرین پر ٹائپ نہیں کریں گے آپ کے سسٹم کو پیٹرن کا علم نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ہمیں آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کے حوالے سے اتنا خوف پھیلانے کی ضرورت نہیں کہ وہ ہمارے دماغ پڑھ لے گا۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
20,190
پہلا جملہ: لیکس ڈیوسن نے اپنی دوسری اے جی پی میں فتح حاصل کی ، جسے انہوں نے بل پیٹرسن کو ریلیف ڈرائیور کے طور پر استعمال کرنے کے بعد شیئر کیا۔ دوسرا جملہ: لیکس ڈیوسن نے اپنی دوسری AGP جیت لی ایک فتح جو انہوں نے بل پیٹرسن کو ریلیف ڈرائیور کے طور پر استعمال کرنے کے بعد شیئر کی۔ سوال: کیا جملہ 1 اور جملہ 2 ایک ہی معنی کا اظہار کرتے ہیں؟ ہاں یا نہیں؟
جی ہاں پہلا اور دوسرا جملا ایک ہی معنی کا اظہار کرتے ہیں
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
20,455
ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدنے سے قبل کن چیزوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے، چند مشورے دیں۔
اندرون یا بیرون ملک سفر کرنے والوں کو سب سے مشکل صورت حال کا سامنا اس وقت کرنا پڑتا ہے جب وہ فلائٹ بُکنگ کے مرحلے سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ بیشتر افراد کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ مناسب نرخوں پر ٹکٹ حاصل کرسکیں تاکہ اضافی مالی بوجھ کا سامنا نہ کیا جاسکے۔ سستا ٹکٹ کیسے حاصل کریں؟ سستی فلائٹ کیسے اور کہاں سے حاصل کی جائے؟ یہ وہ سوال ہے جو اکثر وبیشتر سننے کو ملتا ہے اس کے لیے کوئی ایک طریقہ نہیں جس پر عمل کرتے ہوئے آپ سستے ایئر ٹکٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ بعض اوقات آپ کو کسی حد تک ذہن کو استعمال کرنا ہوتا ہے یا یوں کہیں کہ کچھ محنت کرنا پڑتی ہے۔ اس حوالے سے عربی میگزین ’سیدتی‘ میں بعض نکات بیان کیے گئے ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے سیاحتی ٹور کے لیے ارزاں فضائی ٹکٹ کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔ ٹُور بکنگ کے لیے بہترین سائٹس؟ ایسی آن لائن مارکیٹنگ سائٹس موجود ہیں جو فضائی کمپنیوں کے ٹکٹوں کا موازنہ بھی پیش کرتی ہیں جن میں پروازوں کے اوقات بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح آپ انفرادی طور پر ہر ایئرلائن کی ویب سائٹ پر جانے اور قیمتوں کا جائزہ لینے کی کوفت سے بچ جاتے ہیں اور آپ کو ایک ہی پیچ پر تمام معلومات حاصل ہوجاتی ہیں۔ فلائٹ ٹرکس، بکنگ ایپس انٹرنیٹ پر بے شمار ٹریول ویب سائٹس موجود ہیں جن کی اپنی ایپس بھی ہیں اس لیے آپ کسی بھی ایپ کو انسٹال کرنے سے قبل اس کی ویب سائٹ پر وزٹ کرنے کے بعد اس کے فیچرز کو دیکھیں اور دیگر ویب سائٹ سے اس کا موازنہ کریں، بعدازاں جو پسند آئے اسے انسٹال کرلیں۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ سستی پروازوں کو تلاش کرنے کے لیے ایسی ایپس بہتر ہوتی ہیں جو ٹکٹ کے کرایوں کو دنوں کے حساب سے واضح کرتی ہیں جس سے آپ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ کب ٹکٹیں سستی ہیں اور کب ان کے نرخوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اپنے پروگرام کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کو ٹکٹ حاصل کرنے میں کافی سہولت ہو جاتی ہے۔ فضائی کمپنی سے براہ راست بکنگ کرائیں: اگرچہ سستی پروازوں کی تلاش کے لیے موجود ویب سائٹس کے ذریعے آپ کو ٹکٹوں کے نرخ معلوم ہو جاتے ہیں تاہم بہتر یہ ہے کہ براہ راست اسی کمپنی کی ویب سائٹ سے ٹکٹ حاصل کیا جائے جس کا ٹکٹ آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ فضائی کمپنی کے نمائندے سے رابطہ: ماہرین کے نزدیک سستے ٹکٹ حاصل کرنے کی ایک اور ٹِپ یہ ہوسکتی ہے کہ آپ براہ راست فضائی کمپنی کے نمائندے سے رابطہ کریں اور اسے یہ باور کرائیں کہ آپ اپنے ٹور کے لیے سستی ٹکٹ حاصل کرنے کے تلاش کی مہم پر ہیں۔ ون وے ٹکٹ خریدیں: سستی پروازوں کے حصول کے لیے بعض اوقات آپ کو اہم معلومات سے بھی باخبر رہنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ آپ فضائی کمپنیوں کے بارے میں یعنی ان کے شیڈول اور نرخوں میں کمی بیشی کے بارے میں بھی درست معلومات حاصل کرسکیں۔ بہتر یہ ہے کہ براہ راست اسی کمپنی کی ویب سائٹ سے ٹکٹ حاصل کیا جائے جس کا ٹکٹ آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں ٹکٹ بکنگ کے لیے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ آپ ایک راؤنڈ ٹرپ ٹکٹ کے بجائے دو راؤنڈ ٹرپ ٹکٹوں کی قیمتوں کا جائزہ لیں۔ اس میں محض آپ کا ایک یا زیادہ سے دو منٹ کا وقت لگ سکتا ہے اور آپ اچھی طرح قیمتوں کا تعین کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ آپ کسی ایک منزل کے لیے راؤنڈ ٹرپ بُک کرانے کے بجائے ون وے بکنگ حاصل کریں۔ بعدازاں واپسی کے لیے کسی دوسرے آپشن کو بھی بعد میں دیکھا جا سکتا ہے، اس سے آپ کو کافی بچت بھی ہوسکتی ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
21,145
اس مضمون کو مختصرا لکھیں۔ مضمون: قاہرہ (انگریزی: القاہرہ) مصر کا دار الحکومت، افریقہ، عرب دنیا اور مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا شہری مجموعہ ہے۔ قاہرہ کبری میٹروپولیٹن علاقہ، جس کی آبادی 21.9 ملین ہے، آبادی کے لحاظ سے دنیا کا بارہواں بڑا میگا شہر ہے۔ قاہرہ کا تعلق قدیم مصر سے ہے، کیونکہ اہرامات جیزہ اور قدیم شہر ممفس اور عين شمس اس کے جغرافیائی علاقے میں واقع ہیں۔ نیل ڈیلٹا کے قریب واقع، شہر سب سے پہلے فسطاط کے طور پر آباد ہوا، ایک بستی جس کی بنیاد مسلمانوں کی فتح مصر کے بعد 640ء میں ایک موجودہ قدیم رومی قلعے، بابلیون کے ساتھ رکھی گئی تھی۔ دولت فاطمیہ کے تحت 969ء میں قریب ہی ایک نئے شہر القاہرہ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس نے بعد میں ایوبی سلطنت اور سلطنت مملوک (مصر) ادوار (بارہویں-سولہویں صدی) کے دوران میں فسطاط کو مرکزی شہری مرکز کے طور پر پیچھے چھوڑ دیا۔ قاہرہ طویل عرصے سے اس خطے کی سیاسی اور ثقافتی زندگی کا مرکز رہا ہے، اور اسلامی فن تعمیر کی پیش رفت کی وجہ سے اسے "ہزار میناروں کا شہر" کا عنوان دیا گیا ہے۔ قاہرہ کے تاریخی مرکز (قاہرہ المعز) کو 1979ء میں یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ دیا گیا۔ آج، قاہرہ میں عرب دنیا کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی سنیما اور موسیقی کی صنعت ہے، نیز دنیا کا دوسرا قدیم ترین اعلیٰ تعلیم کا ادارہ، جامعہ الازہر بھی یہیں واقع ہے۔ بہت سے بین الاقوامی میڈیا، کاروباری اداروں اور تنظیموں کے علاقائی ہیڈ کوارٹر شہر میں ہیں۔ عرب لیگ کا صدر دفتر قاہرہ میں اپنے زیادہ تر وجود میں رہا ہے۔ 453 مربع کلومیٹر (175 مربع میل) پر پھیلا ہوا 10 ملین سے زیادہ آبادی کے ساتھ، قاہرہ مصر کا سب سے بڑا شہر ہے۔ مزید 9.5 ملین باشندے شہر کے قریب رہتے ہیں۔ قاہرہ، بہت سے دوسرے شہروں کی طرح، آلودگی اور ٹریفک کی اعلیٰ سطح کے مسائل کا شکار ہے۔ قاہرہ میٹرو، جو 1987ء میں کھولی گئی، افریقہ کا سب سے پرانا میٹرو نظام ہے، اور اس کا شمار دنیا کے پندرہ مصروف ترین نظاموں میں ہوتا ہے، جس میں سالانہ 1 بلین مسافروں کی سواری ہوتی ہے۔ قاہرہ کی معیشت 2005ء میں مشرق وسطیٰ میں پہلے نمبر پر تھی، اور فارن پالیسی (رسالہ) کے 2010ء گلوبل سٹیز انڈیکس میں عالمی سطح پر 43 ویں نمبر پر ہے۔
قاہرہ مصر کا دارالحکومت اور افریقہ، عرب دنیا، اور مشرق وسطیٰ میں بڑا شہر ہے۔ اس کا تعلق قدیم مصر سے ہے اور اہرامات جیزہ اور دیگر تاریخی مقامات کا مرکز ہے۔ قاہرہ کا تاریخی مرکز 1979ء میں یونیسکو کی ثقافتی ورثہ فہرست میں شامل ہوا۔ آج کے دور میں، قاہرہ عرب دنیا کی سب سے قدیم اور بڑی فلم اور موسیقی صنعتوں میں مشغول ہے۔ جامعہ الازہر دنیا کا دوسرا قدیم ترین اعلیٰ تعلیمی ادارہ ہے۔ شہر کا رقبہ 453 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی میٹروپولیٹن علاقہ میں 21.9 ملین ہے، جو دنیا کے بڑے میگا شہروں میں شامل ہوتا ہے۔ قاہرہ میں زیادہ تر بین الاقوامی میڈیا، کاروباری ادارے، اور علاقائی ہیڈ کوارٹر واقع ہیں۔ شہر میں عرب لیگ کا صدر دفتر بھی ہے۔ معیشتی حوالے سے 2005ء میں مشرق وسطیٰ میں پہلے نمبر پر تھا اور 2010ء میں فارن پالیسی گلوبل سٹیز انڈیکس میں دنیا بھر میں 43 ویں نمبر پر رہا۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
21,728
کیا Tandrusti Hazar Naimat Hai | تندرستی ہزار نعمت ہے
تندرستی ہزار نعمت ہے انسانی جسم اللہ تعالیٰ کی قدرت اور کاریگری کا بہترین شاہکار ہے۔اربوں خلیوں پر مشتمل یہ جسم اپنے پیچیدہ نظام کیساتھ معاملات کی انجام دہی کرتاہے۔یہ جسم مشین کی مانند ہے۔مشین جب تک درست حالت میں ہوچلتی رہتی ہے،جونہی کسی پرزے میں کوئی نقص یا خرابی پیدا ہوئی تو مشین کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔جب تک اس پرزے کی خرابی دور نہ کرلی جائے،مشین بے کار پڑی رہتی ہے۔انسانی جسم کی بھی یہی کیفیت ہے۔اگر خدانخواستہ جسم کے کسی حصے میں کچھ خرابی واقع ہو جائے تو جسم کے اعضاء بری طرح متاثر ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں پورا جسم کام کرنا چھوڑ دیتاہے۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کوئی شمار ممکن نہیں۔جیسے ارشاد ربانی ہے کہ و ان تعدو نعمۃ اللہ لا تحصوھا۔ "اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمارکرنا چاہو تو ہرکز شمار نہ کرسکو گے” اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ: فبای آلاء ربکما اتکذبٰن۔ "اے گرو ہ ِ جن و انس!تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے” مزید فرمایا اس نے ہمیں حق کے راستے پر چلایا،ہدایت کی روشنی بخشی،اپنے پیارے نبی ﷺ کا امتی بنایا۔ہمیں سمجھ،فہم اور ادراک سے نوازا۔ہمیں اچھے برے کا شعور کا بخشا۔ہمیں رزق کی فراوانی عطاکی،سر چھپانے کو چھت دی۔اپنی پہچان کا درس دیا لیکن سب سے بڑھ کر نعمت ہے کہ اس نے ہمیں بہترین جسم عطا کیا اور اس جسم کو صحت اور تندرستی بخشی۔تندرستی ایک بیش بہا نعمت ہے۔وہ لوگ دنیا میں بہت خوش قسمت ہیں جو صحت اور تندرستی جیسی بیش قیمت سے سرفراز ہیں۔شاہانہ جلا،دولت کے خزانے،نشاط و کیف اور دوست و احباب کی قربت دل کو تب ہی خوبصورت لگتی ہے جب انسان تندرست ہو،اس کی صحت اچھی ہو۔صحت کی قدر اس وقت معلوم ہوتی ہے جب انسان بیمار ہوجاتاہے۔بیمار اور تندرست میں زمین آسمان کا فرق ہوتاہے۔ قدر صحت مریض سے پوچھو تندرستی ہزار نعمت ہے ذراصحت بگڑی تو زندگی کا سارا مزہ کرکرا ہو گیا۔جینے کا لطف جاتا رہا،طبیعت کی بشاشت غائب ہو گئی۔اچھے کھانے بھی بدمزہ معلوم ہونے لگے،دوستوں کا ہنسی مذاق زہر لگنے لگا،مزاج چڑچڑا ہو گیا۔زندگی بوجھ لگنے لگی۔آخر اعزہ و اقارب کب تک برداشت کرتے؟اور یوں انسان تندرستی جیسی نعمت سے محروم ہو کر خاندان بھر کے لیے آزمائش بن جاتاہے۔ انگریزوں کے ایک مقولے کا ترجمہ ہے کہ”صحت دولت ہے“،لیکن حقیقت یہ ہے کہ دولت سے کہیں زیادہ قیمتی چیز صحت ہے بلکہ انمول ہے،بھلا صحت کا دولت کے ساتھ کیا مقابلہ؟اگر کسی کی دولت جاتی رہے لیکن صحت قائم ہو تو وہ محنت کرکے تھوڑے ہی عرصے میں دوبارہ دولت حاصل کرسکتاہے،لیکن اگر کسی کی صحت خراب ہو جائے اور اس کے پاس دولت کے انبار بھی ہوں تو اس کے کس کام کے؟دولت سے تو قیمتی دوائیں خریدی جاسکتی ہیں لیکن صحت تو نہیں خریدی جاسکتی۔ کسی دانا کا قول ہے کہ ”دولت سے عینک تو خرید سکتے ہیں بینائی نہیں،بستر تو خرید سکتے ہیں میٹھی نیند نہیں،دوا تو خرید سکتے ہیں صحت نہیں“۔ انسان کی صحت ٹھیک ہو تو وہ روکھی سوکھی کھا کر بھی تندرست اور توانا رہتاہے۔اس کے صحت مند خون کی سرخی اس کے چہر ے پر جھلکتی ہے۔اس کے بازو کی قوت اس میں خوداعتمادی پیدا کرتی ہے،اس کی دماغی قوت اس میں مومنانہ فراست پیدا کرتی ہے اور اس کی جسمانی قوت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں اس کی مددگار ہوتی ہے۔اس کے لبوں پر کھیلنے والا ہمہ وقتی تبسم اس کے نفسیاتی توازن کی عکاسی کرتاہے،وہ جہاں جاتا ہے عزت پاتاہے،جو اس کے پاس آتا ہے نہال ہوجاتاہے۔اس کے گرد ہر وقت ایسے دوستوں کا ہجوم لگارہتاہے جو اس کی خوش گفتاری اور بلند کرداری کے باعث اس پر جان چھڑکتے ہیں۔غرض انسان دنیا میں جو کچھ چاہتاہے وہ سب کچھ ایک صحت مند انسان کو میسر ہوتاہے۔ ”جس کے پاس صحت ہے اس کے پاس امید ہے اور جس کے پا س امید،اس کے پاس سب کچھ ہے“۔ یہ تندرستی یارو بڑی بادشاہی ہے سچ پوچھیے تو یہ عین فضل الٰہی ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ہم آئے دن ہر جگہ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں،لیکن بہت ہی کم لوگ ہیں جو صحت کی حالت میں اس کی قدر کرتے ہیں اور اپنی تندرستی قائم رکھنے کی فکر کرتے ہیں۔بس ہر طرف پیسے کی دوڑ لگی ہے معیار زندگی بلند کرنے کا جنو ن ہے،بینک بیلنس بڑھانے کی دھن میں تندرستی جائے بھاڑ میں،بس پیسہ آنا چاہیے لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ جب صحت ہی نہ رہی تو پیسہ کس کام کا؟بس ہر ایک یہی سوچتا ہے کہ ”چمڑی جائے،دمڑی نہ جائے“۔ جسمانی صحت بہت ضروری ہے اور ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ صحت کے اصولوں کی طرف توجہ دے۔اگر صحت ٹھیک نہ ہو تو دماغی کام بھی صحیح طریقے سے سرانجام نہیں دئیے جاسکتے،”صحت مند دماغ اور ذہن کے لیے صحت مند جسم ضروری ہے“۔ کچھ کاموں کے لیے روح کی تندرستی اور بالیدگی ضرور ہوتی ہے۔بیماری کی حالت میں جسم ہی بیکار نہیں ہوتا روح بھی مضمحل ہوجاتی ہے۔بیمار آدمی کے لیے نہ اپنی زندگی کی تعمیر ممکن ہے نہ اپنی بھلائی اور فلاح کا کوئی اقدام ہو سکتا ہے۔جو اپنے لئے کچھ نہیں کرسکتا،وہ کل کو ملک اور قوم اور بنی نوع انسان کے لیے کوئی مضبوط اور نمایاں کام کیسے کرسکتاہے؟ فلاح دین و دنیا منحصر ہے تندرستی پر غرض سو نعمتوں کی ایک نعمت تندرستی ہے اسلام اپنے پیروکاروں کی تندرستی کا خاص خیال رکھتا ہے۔ارشاد نبوی ﷺ ہے”تمہارے جسم کا تم پر حق ہے“۔ نماز سے پہلے وضو ضروری ہے تاکہ جسم گردوغبار سے پاک صاف ہو جائے۔نماز سے بھی اچھی خاصی ورزش ہوجاتی ہے۔اس کے لیے جسم اور لباس کی صفائی ضرور ی ہے۔روزہ معدہ کی اصلاح کرکے تندرستی کو بحا ل کردیتاہے۔ابن قرۃ کا قول ہے”جسم کی راحت تھوڑا کھانے میں ہے“۔ اس طرح حج کے ارکان اچھی خاصی محنت و مشقت کا تقاضا کرتے ہیں۔اسلام نے ایسی غذاؤں کا حرام قرار دیا ہے جو ہماری تندرستی کو خراب کرتی ہیں۔جن جانوروں کا گوشت ہمارے جسم کو تقصا ن پہنچاتاہے وہ حرام کر دئیے گئے ہیں۔ تندرستی کا سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ ہماری خوراک بالکل سادہ ہونی چاہیے۔زیادہ چٹ پٹے اور مرغن کھانے نظام انہضام پر بے جا بوجھ بن جاتے ہیں اور وہ انہیں صحیح طور ہضم نہیں کرپاتا اور جو کھانا ہضم ہو کر جزو بدن ہی نہیں بنے گا وہ جسم کے باقی نظاموں کو ان کی مطلوبہ خوراک کیسے مہیا کر سکے گا؟یوں زبان کا معمولی سا چٹخارا تمام داخلی نظاموں کی کمزوری اور بالآخر تباہی کا باعث بنتا ہے۔کسی دانا کا قول ہے کہ”بعض لوگ دانتوں سے اپنی قبر کھودتے ہیں“۔ تاریخی واقعہ ہے کہ ایک طبیب مدینہ منورہ میں مسلمان بھائیوں کی طبی خدمات کے لیے آیا۔لیکن کافی دن گزرجانے کے باوجود اس کے پاس علاج معالجے کے لیے کوئی مریض ہی نہ آیا۔طبیب نے نبی کریم ﷺکی خدمت میں صورتحال کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ”یہ لوگ جب خوب بھوک لگے تو کھانا کھاتے ہیں اور ابھی کچھ بھوک باقی ہوتو کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔اس لیے یہ بیمار ہوتے ہی نہیں تو علاج کس بات کا کرائیں“۔ گویا تندرستی کو بحال رکھنے کا ایک گُر یہ ہے کہ ہم بھی خوب بھوک لگے تو کھانا کھائیں اور ابھی کچھ بھوک باقی ہو تو کھانا چھوڑد یں۔حدیث پاکؐ کے الفاظ ہیں۔کہتے ہیں کہ ایک طبیب ایک چودھری کو سمجھا رہے تھے کہ پیٹ کے تین حصے ہیں،ایک حصے میں کھانا ڈالو،ایک حصے میں پانی اورتیسرا حصہ سانس لینے کے لیے چھوڑو۔چودھری صاحب یہ سن کر بڑے حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ میں پیٹ کے تینوں حصے کھانے سے بھر لیتاہوں۔پانی اپنی جگہ خودبنالیتا ہے اور سانس ہے،وہ آئے یا نہ آئے؟اس انداز سے کھانا تو خود بیماری کو دعوت دینا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے کہ”کھاؤ پیو مگر اسراف نہ کرو“۔ تندرستی قائم رکھنے کا ایک اور سنہری اصول وہ ہے کہ جسے پنجابی میں ”رج کے کھا،تے دب کے واہ“کہتے ہیں۔یعنی سیر ہو کر کھاؤ اور خوب مشقت کرو تاکہ یہ کھانا ہضم ہو جائے۔کسانوں اور دیہات میں رہنے والوں کی صحت اسی لیے اچھی ہوتی ہے کہ وہ روکھی سوکھی کھاتے ہیں لیکن دن بھر محنت مشقت اورکام کاج میں جتے رہتے ہیں۔ حفظ صحت کے لیے ورزش بھی ضروری ہے۔اس سے جسم مضبو ط ہوتاہے۔غفلت دور ہوتی ہے۔جسم میں صحت و توانائی اور چستی و چالاکی آتی ہے۔دوران خون تیز ہوتاہے۔جسم کی غلاظتیں پسینے کے راستے نکل جاتی ہیں۔ورزش میں بھی اعتدال کو مدنظر رکھنا چاہیے۔اتنی ورزش مفید نہیں ہوتی جس سے تکان پیدا ہو۔ورزش باقاعدگی سے ضروری ہے۔یہ درست نہیں کہ کبھی ورزش کی اور کبھی نہیں کی۔ارسطو کا خیال ہے کہ”ورزش ایک ایسا ستون ہے جو زندگی کی مضبوطی اور پائیداری کا ذمہ دار ہے“۔ دواکوئی ورزش سے بہتر نہیں یہ نسخہ ہے کم خرچ بالا نشین جن لوگوں کو کھانا کھانے کے بعد دن بھر کرسی پر بیٹھ کرکام کرنا ہوتاہے،ان کے معدے کو پھیل کر کھانا ہضم کرنے کا موقع نہیں ملتا۔انہیں ہر روز صبح سویرے کھلی اور تازہ ہوا میں سیر کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے اورہر کھانا کھانے کے بعد چہل قدمی ضرور کرنی چاہیے۔نیز ثقیل اور دیر سے ہضم ہونے والے کھانوں سے پرہیز کریں۔ کھانے میں سبزیاں اور پھل زیادہ استعمال کریں۔ ایک انگریزی کہاوت کا ترجمہ ہے کہ”دن میں ایک سیب لیں اورطبیب سے دور رہیں“۔ نبی کریم ﷺ رات کو عشاء کے بعد جلد سوجاتے تھے اور نماز تہجد کے لیے رات پچھلے حصے میں بیدار ہو جایا کرتے تھے اور یہی تندرستی کے لیے نسخہ کیمیا ہے۔آج کل لوگ رات کو دیر تک ٹی۔وی دیکھتے رہتے ہیں اور رات جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے آرام،نیند اور سکون کے لیے بنائی ہے اسے فحش گانے اور نیم عریاں تصاویر اور ڈرامے دیکھنے میں ضائع کردیتے ہیں۔اسی لیے صبح دیر سے آنکھ کھلتی ہے۔یہ فطرت انسانی کے خلاف کھلی جنگ ہے۔اس سے تندرستی برقرار نہیں رہ سکتی۔ رات کو سونا جلد سویرے صبح کو اٹھنا شتاب صحت و دولت بڑھائے،عقل کو دے آب و تاب تندرستی جیسی گراں قدر نعمت کو بحال رکھنے کی خاطر ہمیں حفظان صحت کے اصولوں پر سختی سے عمل کرنا چاہیے۔صاف ہوا میں ناک کے ذریعے سانس لیں۔ناک کے اندر باریک بال ہوا کی اکثر کثافتوں کو اندر جانے سے روکتے ہیں اور ناک پھیپھڑوں تک پہنچنے کا نسبتاًکا لمبا راستہ سردہواؤں کو معتدل بنادیتا ہے۔سانس منہ کے راتے باہر نکالیں۔ صاف اور تازہ پانی پئیں۔گندا پانی پینے سے پیچش،اسہال،ہیضہ اور کئی دوسری متعدی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔برسات اور وبائی امراض کے دوران پانی کو جوش دے کر اور ٹھنڈ اکرکے پئیں۔ بہت زیادہ ٹھنڈی اور بہت زیادہ گرم چیزیں کھانے سے پرہیز کریں۔کھانا خوب چبا کر کھائیں۔کھانے کے دوران پانی کم پئیں۔البتہ کھانے کے ایک آدھ گھنٹہ بعد خوب پیٹ بھر کر پانی پی سکتے ہیں۔کھانے کے فوراً بعد نہانا مناسب نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ”اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ یہ بات میری امت کو مشکل ہو گی تو میں انہیں ہر نماز کے وضو کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا“۔ مسواک یا منجن سے روزانہ کم از کم رات کو سوتے وقت اور صبح اٹھتے ہی دانتوں کو صاف کرنا بے حد ضروری ہے۔ورنہ دانتوں کے درمیان پھنسے ہوئے غذا کے ریزے گل سڑ کر جب معدے میں جائیں گے تو وہ معدے کو بھی خراب کر دیں گے۔ بُری عادات سے بچنا بھی صحت کے لیے مفید ہے،بری عادات سے برے جذبات پید اہوتے ہیں،برے جذبات سے برے اعمال جنم لیتے ہیں اور برے اعمال صحت برباد کردیتے ہیں۔بری صحبت اور برے کاموں سے بچنا چاہیے۔بدعادت سے جسم اور خوبصورتی کا ستیاناس ہو جاتاہے۔خون کی سرخی کم ہو جاتی ہے،چہر ہ بدنما ہوجاتاہے اور انسان پر ایک قسم کی لعنت مسلط ہوجاتی ہے۔اس لیے بری صحبت سے احتیاط لازمی ہے۔ہر وقت خوش رہنا سیکھو۔خوشی اور مسرت آدھی صحت ہے۔غم وغصہ،بغض،کینہ،حسد صحے کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔جہاں تک ہو سکے ان سے بچنا چاہیے اور اپنے خیالات کو شگفتہ اور نیک رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسلام سلامتی کا دین ہے۔اس لیے اس نے اپنے اخلاقی نظام کے ذریعے ان تمام ذرائع کا سدباب کر دیا ہے جو انسان کی ذہنی یا جسمانی صلاحیتوں پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔لہٰذا اپنی تندرستی کو ایک واقعی نعمت بنانے کے لیے ہمیں اسلام کے تمام اصولوں پر سختی سے عمل کرنا چاہیے۔ ارشادِ خداوندی ہے کہ”اگر میری نعمتوں کا شکر ادا کرو گے تو مزید نعمتیں عطاکروں گا۔اگر کفران نعمت کرو گے تو جان لو یہ بات یقینی ہے کہ میرا عذات سخت ہے“۔ اس لیے ہمیں تندرستی کی قدر کرنی چاہیے اورتندرستی برقرار رکھنے کی طرف بھی غفلت نہیں برتنی چاہیے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
21,956
تہذیبوں نے تاریخی طور پر دریاؤں کی طاقت کو کن طریقوں سے منظم اور استعمال کیا ہے؟
پوری تاریخ میں، تہذیبوں نے مختلف مقاصد کے لیے دریاؤں کی طاقت کو استعمال کرنے کے لیے جدید ترین نظام تیار کیے ہیں۔ ابتدائی زرعی معاشروں نے فصلوں کی کاشت کے لیے دریا کے پانی کو موڑنے کے لیے آبپاشی کے نظام بنائے۔ ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر زیادہ ترقی یافتہ تہذیبوں میں عام ہو گئی، جس سے سیلاب پر قابو پانے، پانی کو ذخیرہ کرنے اور پن بجلی پیدا کرنے کی اجازت دی گئی۔ دریا کی دھاروں سے چلنے والی پانی کی چکیوں نے ابتدائی صنعت کاری میں اہم کردار ادا کیا، اناج کی گھسائی اور ٹیکسٹائل کی پیداوار جیسی سرگرمیوں میں سہولت فراہم کی۔ دریا کے نظم و نسق میں مہارت انسانی ذہانت کا خاصہ رہی ہے، جس نے دریاؤں کو توانائی، نقل و حمل اور رزق کے ذرائع کے طور پر استعمال کرکے تہذیبوں کو ترقی کی منازل طے کیں۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
22,012
سوال: دو مینڈک کریم کی بالٹی میں گر گئے۔ ایک مینڈک نے ہار مان لی اور ڈوب گیا، لیکن دوسرا لات مارتا رہا۔ ثابت قدم مینڈک کے ساتھ کیا ہوا، اور یہ کہانی ہمیں کیا سکھاتی ہے؟
جواب: ثابت قدم مینڈک اس وقت تک لات مارتا رہا جب تک کہ کریم مکھن میں تبدیل نہ ہو جائے اور وہ بالٹی سے باہر کود جائے۔ کہانی ہمیں مشکل حالات میں بھی عزم اور ہمت نہ ہارنے کی اہمیت سکھاتی ہے۔ سبق: ثابت قدمی مصیبت کو موقع میں بدل سکتی ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
22,283
لبرلزم کا سیاسی فلسفہ کیا ہے؟
لبرل ازم ایک سیاسی فلسفہ ہے جس کی جڑیں انفرادی حقوق اور ذاتی آزادیوں پر یقین رکھتی ہیں۔ یہ روشن خیالی کے دوران ابھرا اور وقت کے ساتھ ساتھ مختلف شکلوں میں تیار ہوا۔ کلاسیکی لبرل ازم، مثال کے طور پر، آزاد منڈیوں پر مضبوط زور کے ساتھ، اقتصادی اور ذاتی معاملات میں محدود حکومتی مداخلت کو ترجیح دیتا ہے۔ دوسری طرف، جدید لبرل ازم اکثر حکومتی ضابطوں اور سماجی پروگراموں کے ذریعے انفرادی آزادی اور سماجی مساوات کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لبرل ازم کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ افراد کو اپنے مقاصد اور خوشی کے حصول کی آزادی ہونی چاہیے، بشرطیکہ وہ دوسروں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ یہ ایک ایسا فلسفہ ہے جس نے جمہوری معاشروں اور انسانی حقوق کی ترقی پر نمایاں اثر ڈالا ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
23,188
اس سوال کا جواب لکھیں: اس گلوکار کا نام بتائیں جس کا گانا "Confessions" البم کا پہلا سنگل تھا، اور یہ گانا مسلسل آٹھ ہفتوں تک مقبول رہا۔
آشر (Usher) گلوکار ہے جس کا پہلا گانا Confessions تھا۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
23,441
Write a classical ghazal in Urdu Language.
Sure here is a ghazal in Urdu Language: کہیں ہوش ہے کہیں بے خودی کہیں تشنگی کہیں جام ہے مرے ساقیا یہ عجیب تر ترے میکدے کا نظام ہے کوئی رازِ دل ہے نہ رہنما کوئی مدعی نہ ہے مدعا مجھے منزلوں کی خبر نہیں مرا عشق میرا امام ہے مرے شہرِ دل کی فصیل پر یہ جو روشنی کے ہیں قافیے مرے لوحِ دل پہ لکھا ہوا مرے ہم نفس ترا نام ہے جو ہو نابلد ترے ذکر سے نہ ہو آشنا تری فکر سے وہ رکوع کوئی رکوع ہے وہ قیام کوئی قیام ہے مری بے خودی بھی عجیب تر مری میکشی بھی عجیب تر میں نظر سے پیتا ہوں شیخ جی یہ حلال ہے کہ حرام ہے مری خلوتوں میں سرور ہے مری جلوتوں کا پتہ نہیں کوئی ہر گھڑی مرے ساتھ ہے کوئی مجھ سے محو کلام ہے مرے ہمسفر ہے جو کہکشاں میں سناؤں کس کو یہ داستاں بڑی معتبر ہے یہ رہگذر کہ نظر میں ماہ تمام ہے کبھی افضل اپنے خلوص کا کوئی دائرہ نہ سمٹ سکا میں تو روشنی کا سفیر ہوں مجھے اپنے کام سے کام ہے
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
24,130
چیپس کا رنگ کیا ہے؟
چیپس کا رنگ عموماً سونے کی طرح زرد ہوتا ہے، لیکن مختلف برانڈز اور مزیداریوں کے لئے مختلف رنگوں کی چیپس موجود ہوتی ہیں۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
24,469
عبدالصمد خان اچکزئی کے فلسفے کے کلیدی اصول کیا تھے؟
عبدالصمد خان اچکزئی کے فلسفے کی جڑیں پشتون قوم پرستی، سماجی انصاف اور جمہوریت کے اصولوں پر تھیں۔ انہوں نے پشتون عوام کے حقوق کی وکالت کی اور ان کی ثقافتی شناخت، معاشی ترقی اور سیاسی نمائندگی سے متعلق مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی۔ ان کے فلسفے نے ایک متحدہ پشتون قوم کے نظریے پر زور دیا اور پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کے اندر پشتونوں کے لیے زیادہ خود مختاری کا مطالبہ کیا۔ مزید برآں، انہوں نے سیاسی منظر نامے میں جمہوریت، مساوات اور سماجی انصاف کی اقدار کو فروغ دیا۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
25,088
کس وجہ سے آی فون 15 پرومیکس کی فروخت پچھلے ریکارڈ توڑ دے گی؟
تجزیہ کار منگ چو کیو کا کہنا ہے کہ آئی فون 15 پرو میکس اپنے پری اسکوپ زوم کیمرے کے باعث آئی فون 14 سے کا ریکارڈ توڑ دے گا اور اس سے زیادہ تعداد میں فروخت ہوگا۔ انھوں نے اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا کہ 15 پرو میکس کی فروخت 14 پرو میکس کی فروخت سے بھی 10 سے 20 فیصد زائد رہے گی، آئی فون 15 بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 35 سے 40 فیصد مزید آرڈرز حاصل کرنے میں کامیاب رہے گا۔ ان کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آئی فون 15 پرو میکس میں اپنے پری اسکوپ زوم کیمرے کے نمایاں فیچر کے باعث بہت زیادہ بکے گا، رپورٹ می یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئی فون 16 میں بھی پری اسکوپ کیمرہ موجود ہوگا جس سے اس کی فروخت میں نمایاں پیش رفت سامنے آئے گی۔ لارگن نامی کمپنی آئی فون 15 کے پری اسکوپ ماڈل کی سپلائر ہے، یہ وہی سپلائر ہے جس نے ہواوے کے پری اسکوپ لینسز کو 60 فیصد زیادہ سپلائی کرتے ہوئی بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔ ایک خبر یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ماجن بو نامی تجزیہ کار نے سابقہ ٹوئٹر موجودہ ایکس پر بتایا ہے کہ آئی فون کی 15 سیریز (نان-پرو ماڈل) میں پھر سے سبز رنگ کو شامل کیا جاسکتا ہے، اسی حوالے سے انھوں نے یو ایس بی سی-پورٹس کی تصاویر بھی شائع کیں۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
25,351
tell me about some reptiles in the Urdu Language. Make a Table for it.
| English | Urdu | Roman Urdu | |-----------|----------------|--------------------| | Alligator | گھڑیال | Ghdiyaal | | Chameleon | گرگٹ | Gir`git | | Crocodile | مگرمچھ | Magar machh | | Gecko | گھریلو چھپکلی | Ghareloo chhip`kalee | | Iguana | سنڈا | Sandaa | | Lizard | چھپکلی | Chhipkalee | | Snake | سانپ | Saanp | | Tortoise | خشکی کا کچھوا | Khushki ka kachwaa | | Turtle | پانی کا کچھوا | Pani ka kachwaa |
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
25,961
کیا آپ سر سید احمد خان کی ابتدائی زندگی، تعلیم، اور سماجی و سیاسی تناظر کا ایک جامع جائزہ فراہم کر سکتے ہیں جس نے 19ویں صدی کے برطانوی ہندوستان میں ان کی فکری ترقی کو متاثر کیا؟
سر سید احمد خان، جو 1817 میں دہلی میں پیدا ہوئے، ایک ایسے تبدیلی کے دور میں رہتے تھے جو برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی اور ہندوستان میں سماجی و مذہبی تبدیلیوں کی وجہ سے نشان زد تھا۔ فارسی اور عربی میں ان کی ابتدائی تعلیم، جو کہ اس وقت کی مخصوص تھی، پرائیویٹ ٹیوٹرز کے ذریعے مغربی علم کی تفہیم کے ذریعے حاصل کی گئی۔ مغلیہ سلطنت کے زوال اور مسلمانوں کو درپیش سماجی و اقتصادی چیلنجوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے، سرسید جدید تعلیم کے حامی بن گئے۔ 1857 کی بغاوت اور اس کے نتیجے میں کمیونٹی کی بہتری کے بارے میں ان کے خیالات کو مزید شکل دی گئی، جس کے نتیجے میں 1875 میں علی گڑھ میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کا قیام عمل میں آیا، جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا پیش خیمہ تھا۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
25,980
فیکٹری ایکٹ 1948 کے تحت صحت کے حوالے سے آجروں کے لیے آٹھ اہم ذمہ داریاں اردو میں | Eight Important responsibilities for the employers with regard to health under the factories act, 1948 In Urdu
1. صفائی فیکٹری کو صاف ستھرا اور کسی بھی نالے وغیرہ سے نکلنے والے بہاؤ سے پاک رکھنے کے لیے خاص طور پر درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں: (a) روزانہ جھاڑو لگا کر گندگی کو دور کیا جائے، (b) ہر کام کے کمرے کے فرش کو ہفتے میں کم از کم ایک بار دھو کر، جہاں ضروری ہو، جراثیم کش کا استعمال کرکے صاف کیا جائے۔ (c) نکاسی آب کا موثر نظام ہونا چاہیے، (d) سفید دھلائی اور پینٹنگ مخصوص وقفوں پر کی جانی چاہیے۔ 2. فضلہ اور فضلے کو ٹھکانے لگانا: فضلے اور فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں۔ 3. وینٹیلیشن اور درجہ حرارت: ہر کام کے کمرے میں تازہ ہوا کی گردش کے ذریعہ مناسب وینٹیلیشن ہونا چاہئے اور کام کے کمرے میں مناسب درجہ حرارت برقرار رکھا جانا چاہئے۔ 4. زیادہ بھیڑ: ایکٹ کے مطابق، کسی بھی کارخانے میں کسی بھی کمرے میں زیادہ بھیڑ نہیں ہو گی تاکہ مزدور کی جان کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ 5. لائٹنگ: ایکٹ یہ بھی فراہم کرتا ہے کہ فیکٹری کے ہر حصے میں، جہاں مزدور کام کر رہے ہیں یا گزر رہے ہیں، مناسب روشنی - قدرتی، مصنوعی یا دونوں کو برقرار رکھا جانا چاہیے۔ 6. پینے کا پانی: ہر فیکٹری کو چاہیے کہ وہ مزدوروں کو پینے کے صاف پانی کی وافر مقدار میں دستیابی کے لیے موثر انتظامات کرے۔ پینے کے پانی کی فراہمی کارکنوں کے لیے موزوں مقامات پر برقرار رکھی جائے۔ 7. لیٹرین اور پیشاب خانے: کافی تعداد میں لیٹرین اور پیشاب خانے مہیا کیے جائیں۔ یہ ایسی جگہوں پر واقع ہونے چاہئیں جہاں کارکنوں کی آسانی سے رسائی ہو۔ مرد اور خواتین ورکرز کے لیے علیحدہ انتظام ہونا چاہیے۔ یہ مناسب طریقے سے روشنی اور ہوادار ہونا چاہئے. ان کو ہر وقت صاف اور سینیٹری حالت میں رکھنا چاہیے۔ 8. تھوکنے والے: ہر کارخانے میں مناسب جگہوں پر تھوک کی کافی تعداد ہونی چاہیے۔ ان تھوکوں کو صاف رکھنا چاہیے۔ مزدوروں کو فیکٹری کے احاطے میں نہیں بلکہ اس مقصد کے لیے فراہم کردہ تھوک میں تھوکنا چاہیے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
26,083
سوال: اگر "رات" "دن" کا مخالف ہے اور "اندھیرا" "روشنی" کا مخالف ہے تو "لفظ" کا مخالف کیا ہے؟
جواب: "لفظ" کا مخالف "خاموشی" ہے۔ یہ جوڑا مواصلات کی موجودگی کے ساتھ مواصلات کی عدم موجودگی کا مقابلہ کرتا ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
26,104
ممالیہ / mammals پر مضمون لکھیں
ممالیہ یا پستانیہ (انگریزی: mammals) ایسے جانداروں کو کہا جاتا ہے کہ جو فقاریہ ہوتے ہیں اور ان کے مادہ شریک میں پستان پائے جاتے ہیں جس سے وہ اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں نیز ان میں اور پرندوں اور رینگنے والے جانوروں میں بالوں اور چار خانوں والے دل اور کان کی درمیانی ہڈی کا بھی فرق ہوتا ہے اس گروہ سے تعلق رکھنے والے جاندار کے دماغ کا ایک خاص حصہ ہوتا ہے جو جسم کے درجہ حرارت کو قابو رکھتا ہے۔ اسی پستان کے رکھنے کی خصوصیت کی وجہ سے ان کو پستانیہ بھی کہا جاتا ہے جبکہ اس کی جمع پستانیے کی جاتی ہے۔ انگریزی میں mammalia کے لیے مناسب اردو متبادل، پستانیان آتا ہے۔ ان میں زیادہ تر حیوانات سبزی خور Herbivorus ہوتےہیں،کچھ گوشت خور Carnivores اورکچھ ہمہ خور Omnivores ہوتےہیں۔ یہ گرم خون کے حیوانHomoethermic ہیں۔ حوالہ جات ^ ا ب پ مکمل کام یہاں دستیاب ہے: http://www.mapress.com/zootaxa/2011/f/zt03148p060.pdf — عنوان : Class Mammalia Linnaeus, 1758 — صفحہ: 56–60 ^ ا ب پ مکمل کام یہاں دستیاب ہے: http://www.mapress.com/zootaxa/2011/f/zt03148p060.pdf — اخذ شدہ بتاریخ: 18 ستمبر 2015 — عنوان : Mammal Species of the World — اشاعت سوم — ISBN 978-0-8018-8221-0 ^ ا ب BHL page ID: https://biodiversitylibrary.org/page/726901 — مصنف: لنی اس — عنوان : Systema Naturae — جلد: 1 — صفحہ: 12 — شائع شدہ از: 1758 ویکی ڈیٹا پر (P830) کی خاصیت میں تبدیلی کریں"معرف Mammalia دائراۃ المعارف لائف سے ماخوذ". eol.org. اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2023ء.
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
26,176
چار دوست — ہننا، جیک، کیلی، اور لیام — ایک دائرے میں بیٹھے ہیں۔ ہننا کہتی ہے، "جیک میرے بائیں طرف ہے۔" جیک کہتے ہیں، "کیلی میرے دائیں طرف ہے۔" کیلی کا کہنا ہے کہ "لیام میرے بائیں طرف ہے۔" لیام کا کہنا ہے کہ "حنا میرے دائیں طرف ہے۔" ہر شخص کہاں بیٹھا ہے؟
ہننا جیک کے بائیں، جیک کیلی کے دائیں طرف، کیلی لیام کے بائیں، اور لیام ہننا کے دائیں طرف ہے۔ اگر ہننا جیک کے دائیں طرف ہوتی، تو یہ جیک کے بیان سے متصادم ہوتی۔ لہذا، وہ گھڑی کی ترتیب میں بیٹھے ہیں.
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
26,709
ہاسٹل میں پڑنا کے اوپر ایک مضمون لکھیں؛
جی ضرور، یہ رہا ایک مضمون جو ہاسٹل میں رہنے کے اوپر ہے۔ ہم نے کالج میں تعلیم تو ضرور پائی اور رفتہ رفتہ بی،اے بھی پاس کر لیا، لیکن اس نصف صدی کے دوران جو کالج میں گزارنی پڑی، ہاسٹل میں داخل ہونے کی اجازت ہمیں صرف ایک ہی دفعہ ملی۔ خدا کا یہ فضل ہم پر کب اور کس طرح ہوا، یہ سوال ایک داستان کا محتاج ہے۔ جب ہم نے انٹرنس پاس کیا تو مقامی اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب خاص طور سے مبارک بعد دینے کے لئے آئے۔ قریبی رشتے داروں نے دعوتیں دیں۔ محلے والوں میں مٹھائی بانٹی گئی اور ہمارے گھر والوں پر یک لخت اس بات کا انکشاف ہوا کہ وہ لڑکا جسے آج تک اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے ایک بیکار اور نالائق فرزند سمجھ رہے تھے۔ در اصل لامحدود قابلیتوں کا مالک ہے، جس کی نشونما پر بے شمار آنے والی نسلوں کی بہبودی کا انحصار ہے۔ چنانچے ہماری آئندہ زندگی کہ متلق طرح طرح کی تجویجوں پر غور کیا جانے لگا۔ تھرڈ ڈویزن میں پاس ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی نے ہم کو وظیفہ دینا مناسب نہ سمجھا۔ چونکہ ہمارے خاندان نے خدا کے فضل سے آج تک کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا، اس لئے وظیفے کا نہ ملنا بھی خصوصاً ان رشتے داروں کے لئے جو رشتے کے لحاظ سے خاندان کے مضافات میں بستے تھے، فخرو مباہات کا باعث بن گیا اور ’’مرکزی رشتے داروں’’نے تو اس کو پاس وضع اور حفظ مراتب سمجھ کر ممتحنوں کی شرافت ونجات کو بے انتہا سراہا۔ بہر حال ہمارے خاندان میں فالتو روپیے کی بہتات تھی، اس لئے بلاتکلف یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ نہ صرف ہماری بلکہ ملک و قوم اور شاید بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے یہ ضروری ہے کہ ایسے ہونہار طالب علم کی تعلیم جاری رکھی جائے۔ اس بارے میں ہم سے بھی مشورا لیا گیا۔ عمر بھر میں اس سے پہلے ہمارے کسی معاملے میں ہم سے رائے طلب نہ کی گئی تھی، لیکن اب توحالات بہت مختلف تھے۔ اب تو ایک غیر جانب دار اور ایمان دار مصنف یعنی یونیورسٹی ہماری بے دار مغزی کی تصدیق کر چکی تھی۔ اب بھلا ہمیں کیوں نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔ ہمارا مشورہ یہ تھا کہ فوراً ولایت بھیج دیا جائے۔ ہم نے مختلف لیڈروں کی تقریروں کے حوالے سے یہ ثابت کیا کہ ہندستان کا طریق تعلیم بہت ناقص ہے۔ اخبارات میں سے اشتہار دکھا دکھا کر یہ واضح کیا کہ ولایت میں کالج کی تعلیم کے ساتھ ساتھ فرصت کے اوقات میں بہت تھوڑی تھوڑی فیس دے کر بیک وقت جرنلزم، فوٹو گرافی، تصنیف و تالیف، دندان سازی، عینک سازی، ایجنٹوں کا کام، غرض یہ کہ بے شمار مفید اور کم خرچ میں بالا نشیں پیشے سیکھے جا سکتے ہیں اور تھوڑے عرصے کے اندر انسان ہر فن مولا بن سکتا ہے۔ لیکن ہماری تجویز کو فوراً رد کر دیا گیا، کیوں کہ ولایت بھیجنے کے لئے ہمارے شہر میں کوئی روایات موجود نہ تھیں۔ ہمارے گرد ونواح میں سے کسی کا لڑکا ابھی تک ولایت نہ گیا تھا اس لئے ہمارے شہر کی پبلک وہاں کے حالات سے قتعاً ناواقف تھی۔اس کے بعد پھر ہم سے رائے طلب نہ کی گئی اور ہمارے والد، ہیڈ ماسٹر صاحب، تحصیل دار صاحب ان تینوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں لاہور بھیج دیا جائے۔ جب ہم نے یہ خبر سنی تو شروع شروع میں ہمیں سخت مایوسی ہوئی، لیکن ادھر ادھر کے لوگوں سے لاہور کے حالات سنے تو معلوم ہوا کہ لندن اور لاہور میں چنداں فرق نہیں۔ بعض واقف کار دوستوں نے سینما کے حالات پر روشنی ڈالی۔ بعض نے تھیٹروں کے مقاصد سے آگاہ کیا۔ بعض نے ٹھنڈی سڑک وغیرہ کے مشاغل کو سلجھا کر سمجھایا۔ بعض نے شاہد رے اور شالا مار کی ارمان انگیز فضا کا نقشہ کھینچا چنانچے جب لاہور کا جغرافیہ پوری طرح ہمارے ذہن نشین ہو گیا تو ثابت یہ ہوا کہ خوش گوار مقام ہے اور اعلا درجے کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بے حد موزوں۔ اس پر ہم نے اپنی زندگی کا پروگرام وضع کرنا شروع کر دیا۔ جس میں لکھنے پڑھنے کو جگہ تو ضرور دی گئی لیکن ایک مناسب حد تک، تاکہ طبیعت پر کوئی ناجائز بوجھ نہ پڑے اور فطرت اپنا کام حسن و خوبی کے ساتھ کر سکے۔لیکن تحصیل دار صاحب اور ہیڈ ماسٹر صاحب کی نیک نیتی یہیں تک محدود نہ رہی۔ اگر وہ صرف ایک عام اور مجمل سا مشورہ دے دیتے کہ لڑکے کو لاہور بھیج دیا جائے تو بہت خوب تھا، لیکن انہوں نے تو تفصیلات میں دخل دینا شروع کر دیا اور ہاسٹل کی زندگی اور گھر کی زندگی کا مقابلہ کر کے ہمارے والد پر یہ ثابت کر دیا کہ گھر پاکیزگی اور طہارت کا ایک کعبہ اور ہاسٹل گناہ ومعصیت کا ایک دوزخ ہے۔ ایک تو تھے وہ چرب زبان، اس پر انھوں نے بے شمار غلط بیانیوں سے کام لیا۔ چنانچے گھر والوں کو یقین سا ہو گیا کہ کالج کا ہوسٹل جرائم پیشہ اقوام کی ایک بستی ہے اور جو طلبہ باہر کے شہروں سے لاہور جاتے ہیں، اگر ان کی پوری نگہداشت نہ کی جائے تو وہ اکثر یا تو شراب کے نشے میں چور سڑک کے کنارے، کسی نالی میں گرے ہوئے پائے جاتے ہیں یا کسی جوئے خانے میں، ہزار ہا روپے ہار کر خود کشی کر لیتے ہیں یا پھر فرسٹ ایر کا امتحان پاس کرنے سے پہلے دس بارہ شادیاں کر بیٹھتے ہیں۔ چنانچے گھر والوں کو یہ سوچنے کی عادت پڑ گئی کہ لڑکے کو کالج میں داخل کرایا جایا لیکن ہاسٹل میں نہ رکھا جائے۔ کالج ضرور، مگر ہاسٹل میں ہر گز نہیں۔ کالج مفید، مگر ہاسٹل مضر۔ وہ بہت ٹھیک، مگر یہ ناممکن۔ جب انہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین ہی بنا لیا کہ کوئی ایسی ترکیب ہی سوچی جائے، جس سے لڑکا ہوسٹل کی زد سے محفوظ رہے تو کوئی ایسی ترکیب کا سوجھ جانا کیا مشکل تھا۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ چنانچے از ہد غور و خوض کے بعد لاہور میں ہمارے ایک ماموں دریافت کیے گئے اور ان کو ہمارا سر پرست بنا دیا گیا۔ میرے دل میں ان کی عزت پیدا کرنے کے لئے بہت سے شجروں کی ورق گردانی سے مجھ پر یہ ثابت کیا گیا کہ وہ واقعی میرے ماموں ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ جب میں شیرخوار بچہ تھا تو وہ مجھ سے بے انتہا محبت کیا کرتے تھے، چنانچہ فیصلہ یہ ہوا کہ ہم پڑھیں کالج میں اور رہیں ماموں کے گھر۔ اس سے تحصیل علم کا جو ایک ولولہ سا ہمارے دل میں اٹھ رہا تھا، وہ کچھ بیٹھ سا گیا۔ ہم نے سوچا یہ ماموں لوگ اپنی سر پرستی کے زعم میں والدین سے بھی زیادہ احتیاط برتیں گے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارے دماغی اور روحانی قویٰ کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ ملے گا اور تعلیم کا اصلی مقصد فوت ہو جائے گا، چنانچے وہی ہوا جس کا ہمیں خوف تھا۔ ہم روز بروز مرجھاتے چلے گئے اور ہمارے دماغ پر پھپھوند سی جمنے لگی۔ سنیما جانے کہ اجازت کبھی کبھار مل جاتی تھی لیکن اس شرط پر کہ بچوں کو بھی ساتھ لیتا جاؤں۔ اس صحبت میں بھلا میں سینماسے کیا اخذ کر سکتا تھا۔ تھیٹر کے معاملے میں ہماری معلومات اندر سبھا سے آگے بڑھنے نہ پائیں۔ تیرنا ہمیں نہ آیا کیوں کہ ہمارے ماموں کا ایک مشہور قول ہے کہ ’’ڈوبتا وہی ہے جو تیراک ہو’’جسے تیرنا نہ آتا ہو وہ پانی میں گھستا ہی نہیں۔ گھر آنے جانے والے دوستوں کا انتخاب ماموں کے ہاتھ میں تھا۔ کوٹ کتنا لمبا پہنا جائے اور بال کتنے لمبے رکھے جائیں، ان کے متلق ہدایات بہت کڑی تھیں۔ ہفتے میں دو بار گھر خط لکھنا ضروری تھا۔ سگریٹ غسل خانے میں چھپ کر پیتے تھے۔ گانے بجانے کی سخت ممانعت تھی۔ یہ سپاہیانا زندگی ہمیں راس نہ آئی۔ یوں تو دوستوں سے ملاقات بھی ہو جاتی تھی، سیر کو بھی چلے جاتے تھے، ہنس بول بھی لیتے تھے لیکن وہ جو زندگی میں ایک آزادی، ایک فراخی، ایک وارفتگی ہونی چاہئیے وہ ہمیں نصیب نہ ہوئی۔ رفتہ رفتہ ہم نے اپنے ماحول پہ غور کرنا شروع کیا کہ ماموں جان عموماً کس وقت گھر میں ہوتے ہیں، کس وقت باہر جاتے ہیں، کس کمرے میں سے کس کمرے تک گانے کی آواز نہیں پہنچ سکتی، کس دروازے سے کمرے کے کس کونے میں جھانکنا ناممکن ہے، گھر کا کون سا دروازہ رات کے وقت باہر کھولا جا سکتا ہے، کون سا ملازم موافق ہے، کون سا نمک حلال ہے۔ جب تجربے اور مطالعے سے ان باتوں کا اچھی طرح اندازہ ہو گیا تو ہم نے اس زندگی میں بھی نشو و نما کے لئے چند گنجایشیں پیدا کر لیں لیکن پھر بھی ہم روز دیکھتے تھے کہ ہاسٹل میں رہنے والے طلبہ کس طرح اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر زندگی کی شاہراہ پر چل رہے ہیں۔ ہم ان کی زندگی پر رشک کرنے لگے۔ اپنی زندگی کو سدھارنے کی خواہش ہمارے دل میں روز بروز بڑھتی گئی۔ ہم نے دل سے کہا، والدین کی نہ فرمانی کسی مذہب میں جائز نہیں لیکن ان کی خدمت میں درخواست کرنا، ان کے سامنے اپنی ناقص رائے کا اظہار کرنا، ان کو صحیح واقعات سے آگاہ کرنا میرا فرض ہے اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے اپنی ادائیگی سے باز نہیں رکھ سکتی۔ چنانچہ جب گرمیوں کی تعطیلات میں، میں وطن کو واپس گیا، چند مختصرمگر جامع اور مؤثر تقریریں اپنے دماغ میں تیار رکھیں۔ گھر والوں کو ہوسٹل پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہاں کی آزادی نو جوانوں کے لئے از حد مضر ہوتی ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے ہزار ہا واقا ت ایسے تصنیف کئے جن سے ہاسٹل کے قوائد کی سختی ان پر اچھی طرح روشن ہو جائے۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب کے ظلم تشدد کی چند مثالیں، رقت انگیز پیرایے میں سنائیں۔ آکھیں بند کر کے ایک آہ بھری اوربے چارے اشفاق کا واقعہ بیان کیا کہ ایک دن شام کے وقت بے چارہ ہاسٹل کو واپس آرہا تھا۔ چلتے چلتے پاؤں میں موچ آ گئی۔ دو منٹ دیر سے پہنچا۔ صرف دو منٹ۔ بس صاحب اس پر سپرنٹنڈنٹ صاحب نےفوراً تار دے کر اس کے والد کو بلوا لیا۔ پولیس سے تحقیقات کرنے کو کہا اور مہینے بھر کے لئے اس کا جیب خرچ بند کر دیا۔ توبہ ہےالٰہی! لیکن یہ واقعہ سن کر گھر کے لوگ سپرنٹنڈنٹ صاحب کے مخالف ہو گئے۔ ہوسٹل کی خوبی ان پر واضح نہ ہوئی۔ پھر ایک دن موقع پا کر بے چارے محمود کا واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ شامت اعمال بے چارہ سنیما دیکھنے چلا گیا۔ قصور اس سے یہ ہوا کہ ایک روپے والے درجے میں جانے کے بجائے وہ دو روپیے والے درجے میں چلا گیا۔ بس اتنی سی فضول خرچی پر اسے عمر بھر سنیما جانے کی ممانعت ہو گئی ہے۔ لیکن اس سے بھی گھر والے متاثر نہ ہوئے۔ ان کے رویے سے مجھے فوراً احساس ہوا کہ ایک روپیے اور دو روپے کے بجائے آٹھ آنےاور ایک روپیے کہنا چاہئے تھا۔انھیں نا کام کوششوں میں تعطیلات گزر گئیں اور ہم نے پھر ماموں کی چوکھٹ پر آ کر سجدہ کیا۔ اگلی گرمیوں کی چھٹیوں میں جب ہم پھر گئے تو ہم نے ایک ڈھنگ اختیار کیا۔ دو سال تعلیم پانے کے بعد ہمارے خیالات میں پختگی سی آ گئی تھی۔ پچھلے سال ہوسٹل کی حمایت میں جو دلائل ہم نے پیش کی تھیں وہ اب ہمیں نہایت بودی معلوم ہونے لگی تھیں۔ اب کے ہم نے اس موضوع پر ایک لیکچر دیا کہ جو شخص ہوسٹل کی زندگی سے محروم ہو، اس کی شخصیت نا مکمل رہ جاتی ہے۔ ہاسٹل سے باہر شخصیت پنپنے نہیں پاتی۔ چند دن تو ہم اس پر فلسفیانہ گفتگو کرتے رہے، اور نفسیات کے نقطۂ نظر سے اس پر بہت کچھ روشنی ڈالی لیکن ہمیں محسوس ہوا کہ بغیر مثالوں کے کام نہ چلے گا اور جب مثالیں دینے کی نوبت آئی تو ذرا دقت محسوس ہوئی۔ کالج کے جن طلبہ کے متعلق میرا ایمان تھا کہ وہ زبردست شخصیتو ں کے مالک ہیں، ان کی زندگی کچھ ایسی نہ تھی کہ والدین کے سامنے بطور نمونے کے پیش کی جا سکے۔ ہر وہ شخص جسے کالج میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ہے جانتا ہے کہ ’’والدینی اغراض’’کے لئے واقعات کو ایک نئے اور اچھوتے پیرائے میں بیان کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے، لیکن اس نئے پیرائے کا سوجھ جانا الہام اور اتفائی پر منحصر ہے۔ بعض روشن خیال بیٹے والدین کو اپنے حیرت انگیز اوصاف کا قائل نہیں کر سکتے اور بعض نالائق طالب علم والدین کو اس طرح مطمئن کر دیتے ہیں کہ ہر ہفتے ان کے نام منی آرڈر پہ منی آرڈر چلا آتا ہے۔ بناداں آں چناں روزی رساند کہ دانا اندراں حیراں بماند جب ہم ڈیڑھ مہینے تک شخصیت اور ہاسٹل کی زندگی پر اس کا انحصا ر، ان دومضمونوں پر وقتاً فوقتاً اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے، تو ایک دن والد نے پوچھا، ’’تمہارا شخصیت سے آخر مطلب کیا ہے؟‘‘ میں تو خدا سے یہی چاہتا تھا کہ وہ مجھے عرض و معروض کا موقع دیں۔ میں نے کہا، ’’دیکھیئے نہ! مثلاً ایک طالب علم ہے۔ وہ کالج میں پڑھتا ہے۔ اب ایک تو اس کا دماغ ہے۔ ایک اس کا جسم ہے۔ جسم کی صحت بھی ضروری ہے اور دماغ کی صحت تو ضروری ہے ہی، لیکن ان کے علاوہ وہ ایک اور بات بھی ہوتی ہے جس سے آدمی گویا پہچانا جاتا ہے۔ میں اس کو شخصیت کہتا ہوں۔ اس کا تعلق نہ جسم سے ہوتا ہے نہ دماغ سے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی کی جسمانی صحت بالکل خراب ہوااور اس کا دماغ بھی بالکل بیکار ہو لیکن پھر بھی اس کی شخصیت۔۔۔ نہ خیر دماغ تو بے کار نہیں ہونا چاہئے، ورنہ انسان خبطی ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی اگر ہو بھی، تو بھی۔۔۔ گویا شخصیت ایک ایسی چیز ہے۔۔۔ ٹھہرئے، میں ابھی ایک منٹ میں آپ کو بتاتا ہوں۔‘‘ ایک منٹ کے بجائے والد نے مجھے آدھے گھنٹے کی مہلت دی جس کے دوران میں وہ خاموشی کے ساتھ میرے جواب کا انتظار کرتے رہے۔ اس کے بعد وہاں سے اٹھ کر چلا آیا۔تین چار دن بعد مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ مجھے شخصیت نہیں سیرت کہنا چاہئے۔ شخصیت ایک بے رنگ سا لفظ ہے۔ سیرت کے لفظ سے نیکی ٹپکتی ہے۔ چنانچہ میں سیرت کو اپنا تکیئہ کلام بنا لیا لیکن یہ بھی مفید ثابت نہ ہوا۔ والد کہنے لگے،’’کیا سیرت سے تمہارا مطلب چال چلن ہے یا کچھ اور؟‘‘ میں نے کہا، ’’کہ چال چلن ہی کہہ لیجیے۔‘‘ ’’تو گویا دماغی اور جسمانی صحت کے علاوہ چال چلن بھی اچھا ہونا چاہئے؟‘‘ میں نے کہا، ’’بس یہی تو میرا مطلب ہے۔‘‘ ’’اور یہ چال چلن ہاسٹل میں رہنے سے بہت اچھا ہو جاتا ہے؟۔‘‘ میں نے نسبتاً نحیف آواز سے کہا،’’جی ہاں۔‘‘ ’’یعنی ہاسٹل میں رہنے والے طالب علم نماز روزے کے زیادہ پابند ہوتے ہیں۔ ملک کی زیادہ خدمت کرتے ہیں۔ سچ زیادہ بولتے ہیں۔ نیک زیادہ ہوتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا،’’جی ہاں۔‘‘ کہنے لگے، ’’وہ کیوں؟‘‘ اس سوال کا جواب ایک بار پرنسپل صاحب نے تقسیم انعامات کے جلسے میں نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا تھا۔ اے کاش میں نے اس وقت توجہ سے سنا ہوتا۔اس کے بعد پھر سال بھر میں ماموں کے گھر میں ’’زندگی ہے تو خزاں کے بھی گزر جائیں گے دن‘‘ گاتا رہا۔ ہر سال میری درخواست کا یہی حشر ہوتا رہا۔ لیکن میں نے ہمت نہ ہاری۔ ہر سال ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا لیکن اگلے سال گرمیوں کی چھٹی میں پہلے سے بھی زیادہ شد ومد کے ساتھ تبلیغ کا کام جاری رکھتا۔ ہر دفعہ نئی نئی دلیلیں پیش کرتا، نئی نئی مثالیں کام میں لاتا۔ جب شخصیت اور سیرت والے مضمون سے کام نہ چلا تو اگلے سال یہ دلیل پیش کی کہ ہاسٹل میں رہنے سے پروفیسروں کے ساتھ ملنے جلنے کے موقعے زیادہ ملتے رہتے ہیں اور ان ’’بیرون ازکالج’’ملاقاتوں سے انسان پارس ہو جاتا ہے۔ اس سے اگلے سال یہ مطلب یوں ادا کیا کہ ہاسٹل کی آب وہوا بڑی اچھی ہوتی ہے، صفائی کا خاص طور سے خیال رکھا جاتا ہے۔ مکھیاں اور مچھر مارنے کے لئے کئی کئی افسر مقرر ہیں۔ اس سے اگلے سال یوں سخن پیرا ہوا کہ جب بڑے بڑے حکام کالج کا معائنہ کرنے آتے ہیں تو ہاسٹل میں رہنے والے طلبہ سے فرداً فرداً ہاتھ ملاتے ہیں۔ اس سے رسوخ بڑھتا ہے، لیکن جوں جوں زمانہ گزرتا گیا میری تقریروں میں جوش بڑھتا گیا۔ معقولیت کم ہوتی گئی۔ شروع شروع میں ہاسٹل کے مسئلے پر والد مجھ سے باقائدہ بحث کیا کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے یک لفظی انکار کا رویہ اختیار کیا۔ پھر ایک آدھ سال مجھے ہنس کے ٹالتے رہے اور آخر میں یہ نوبت آن پہنچی کہ وہ ہاسٹل کا نام سنتے ہی ایک طنز آمیز قہقہے کے ساتھ مجھے تشریف لے جانے کا حکم دے دیا کرتے تھے۔ ان کے اس سلوک سے آپ یہ اندازہ نہ لگائیے کہ ان کی شفقت کچھ کم ہو گئی تھی۔ ہر گز نہیں۔ حقیقت صرف اتنی ہے کہ بعض نا گوار حادثات کی وجہ سے گھر میں میرا اقتدار کچھ کم ہو گیا تھا۔ اتفاق یہ ہوا کہ میں نے جب پہلی مرتبہ بی،اے کا امتحان دیا تو فیل ہو گیا۔ اگلے سال ایک مرتبہ پھر یہی واقعہ پیش آیا۔ اس کے بعد بھی جب تین چار دفعہ یہی قصہ ہوا تو گھر والوں نے میری امنگوں میں دل چسپی لینی چھوڑ دی۔ بی،اے میں پے در پے فیل ہونے کی وجہ سے میری گفتگو میں ایک سوز تو ضرور آ گیا تھا لیکن کلام میں وہ پہلے جیسی شوکت اور میری رائے کی وہ پہلے جیسی وقعت اب نہ رہی تھی۔میں زمانۂ طالب علمی کے اس دور کا حال ذرا تفصیل سے بیان کرنا چاہتا ہوں، کیوں کہ اس سے ایک تو آپ میری زندگی کے نشیب وفراز سے اچھی طرح واقف ہو جائیں گے اور اس کے علاوہ اس سے یونیورسٹی کی بعض بےقاعدگیوں کا راز بھی آپ پر آشکار ہو جائے گا۔ میں پہلے سال بی،اے میں کیوں فیل ہوا، اس کا سمجھنا بہت آسان ہے۔ بات یہ ہوئی کہ جب ہم نے ایف،اے کا امتحان دیا، تو چونکہ ہم نے کام خوب دل لگا کر کیا تھا اس لئے اس میں ’’کچھ‘‘ پاس ہی ہو گئے۔ بہر حال فیل نہ ہوئے۔ یونیورسٹی نے یوں تو ہمارا ذکر بڑے اچھے الفاظ میں کیا لیکن ریاضی کے متعلق یہ ارشاد ہوا کہ صرف اس مضمون کا امتحان ایک آدھ دفعہ پھر دے ڈالو۔ (ایسے امتحان کو اصطلاحاً کمپارٹمینٹ کہا جاتا ہے۔ شاید اس لئے کہ بغیر رضا مندی اپنے ہم راہی مسافروں کے اگر کوئی اس میں سفر کر رہے ہوں مگر نقل نویسی کی سخت ممانعت ہے۔) اب جب ہم بی، اے میں داخل ہونے لگے تو ہم نے یہ سوچا کہ بی،اے میں ریاضی لیں گے۔ اس طرح سے کمپارٹمینٹ کے امتحان کے لئے فالتو کام نہ کرنا پڑے گا۔ لیکن ہمیں سب لوگوں نے یہی مشورہ دیا کہ تم ریاضی مت لو۔ جب ہم نے اس کی وجہ پوچھی تو کسی نے ہمیں کوئی معقول جواب نہ دیا لیکن جب پرنسپل صاحب نے بھی یہی مشورہ دیا تو ہم رضا مند ہو گئے، چنانچہ بی، اے میں ہمارے مضامین انگریزی، تاریخ اور فارسی قرار پائے۔ ساتھ ساتھ ہم ریاضی کے امتحان کی بھی تیاری کرتے رہے۔ گویا ہم تین کے بجائے چار مضمون پڑھ رہے تھے۔ اس طرح سے جو صورت حالات پیدا ہوئی اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے تھے جنہیں یونیورسٹی کے امتحان کا کافی تجربہ ہے۔ ہماری قوت مطالعہ منتشر ہو گئی اور خیالات میں پراگندگی پیدا ہوئی۔ اگر مجھے چار کے بجائے صرف تین مضامین پڑھنے ہوتے تو جو وقت میں فی الحال چوتھے مضمون کو دے رہا تھا وہ بانٹ کر میں ان تین مضامین کو دیتا، آپ یقین مانئے اس سے بڑا فرق پڑ جاتا اور فرض کیا اگر میں وہ وقت تینوں کو بانٹ کر نہ دیتا بلکہ سب کا سب ان تینوں میں سے کسی ایک مضمون کے لئے وقف کر دیتا تو کم از کم اس مضمون میں ضرور پاس ہو جاتا، لیکن موجودہ حالات میں تو وہی ہونا لازم تھا جو ہوا، یعنی یہ کہ میں کسی مضمون پر کماحقہ تو جہ نہ کر سکا۔ کمپارٹمینٹ کے امتحان میں تو پاس ہو گیا، لیکن بی،اے میں ایک تو انگریزی میں فیل ہوا۔ وہ تو ہونا ہی تھا، کیوں کہ انگریزی ہماری مادری زبان نہیں۔ اس کے علاوہ تاریخ اور فارسی میں بھی فیل ہو گیا۔ اب آپ سوچیے نا کہ جو وقت مجھے کمپارٹمنٹ کے امتحان پر صرف کرنا پڑا وہ اگر میں وہاں صرف نہ کرتا بلکہ اس کے بجائے۔۔۔ مگر خیر یہ بات میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔ فارسی میں کسی ایسے شخص کا فیل ہونا جو ایک علم دوست خاندان سے تعلق رکھتا ہو لوگوں کے لئے از حد حیرت کا موجب ہوا، اور سچ پوچھئے تو ہمیں بھی اس پر سخت ندامت ہوئی، لیکن خیر اگلے سال یہ ندامت دھل گئی اور ہم فارسی میں پاس ہو گئے۔ اس سے اگلے سال تاریخ میں پاس ہو گئے اور اس سے اگلے سال انگریزی میں۔ اب باقاعدے کی رو سے ہمیں بی، اے کا سرٹفکیٹ مل جانا چاہئیے تھا، لیکن یونیورسٹی کی اس طفلانہ ضد کا کیا علاج کہ تینوں مضمو نوں میں بیک وقت پاس ہونا ضروری ہے۔ بعض طبائع ایسی ہیں کہ جب تک یکسوئی نہ ہو، مطالعہ نہیں کر سکتیں۔ کیا ضروری ہے کہ ان کے دماغ کو زبردستی ایک کھچڑی سا بنا دیا جائے۔ ہم نے ہر سال صرف ایک مضمون پر اپنا تمام تر تو جہ دی اور اس میں وہ کامیابی حاصل کی کہ باید و شاید۔ باقی دو مضمون ہم نے نہیں دیکھے لیکن ہم نے یہ تو ثابت کر دیا کہ جس مضمون میں چاہیں پاس ہو سکتے ہیں۔ اب تک دو دومضمونوں میں فیل ہوتے رہے تھے، لیکن اس کے بعد ہم نے تہیہ کر لیا کہ جہاں تک ہو سکے گا اپنے مطالعے کو وسیع کریں گے۔ یونیورسٹی کے بےہودہ اور بے معنی قواعد کو ہم اپنی مرضی کے مطابق نہیں بنا سکتے تو اپنی طبیعت پر ہی کچھ زور ڈالے لیکن جتنا غور کیا، اسی نتیجے پر پہنچے کے تین مضمو نوں میں بیک وقت پاس ہونا فی الحال مشکل ہے۔ پہلے دو میں پاس ہونے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ چنانچہ ہم پہلے سال انگریزی اور فارسی میں پاس ہو گئے اور دوسرے سال فارسی اور تاریخ میں۔ جن جن مضامین میں ہم جیسے جیسے فیل ہوئے وہ اس نقشے سے ظاہر ہیں، (1) انگریزی، تاریخ، فارسی (2) انگریزی، تاریخ (3) انگریزی، فارسی (4) تاریخ، فارسی گویا جن جن طریقوں سے ہم دو دو مضامین میں فیل ہو سکتے تھے وہ ہم نے پورے کر دیئے۔ اس کے بعد ہمارے لئے دو مضامین میں فیل ہونا نہ ممکن ہو گیا اور ایک ایک مضمون میں فیل ہونے کی باری آئی۔ چنانچے اب ہم نے مندرجہ ذیل نقشے کے مطابق فیل ہونا شروع کر دیا، (5) تاریخ میں فیل (6) انگریزی میں فیل اتنی دفعہ امتحان دے چکنے کے بعد جب ہم نے اپنے نتیجوں کو یوں اپنے سامنے رکھ کر غور کیا تو ثابت ہوا کہ غم کی رات ختم ہونے والی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ اب ہمارے فیل ہونے کا صرف ایک ہی طریقہ باقی رہ گیا ہے وہ یہ کہ فارسی میں فیل ہو جائیں لیکن اس کے بعد تو پاس ہونا لازم ہے۔ ہر چند کہ یہ سانحہ از حد جانکاہ ہو گا۔ لیکن اس میں مصلحت تو ضرور مضمر ہے کہ اس میں ہمیں ایک قسم کا ٹیکا لگ جائے گا۔ بس یہی ایک کسر باقی رہ گئی ہے۔ اس سال فارسی میں فیل ہوں گے اور پھر اگلے سال قطعی پاس ہو جائیں گے۔چنانچے ساتویں دفعہ امتحان دینے کے بعد ہم بیتابی سے فیل ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ یہ انتظار در اصل فیل ہونے کا نہ تھا بلکہ اس بات کا انتظار تھا کہ اس فیل ہونے کے بعد اگلے سال ہمیشہ کے لئے بی،اے ہو جائیں گے۔ ہر سال امتحان کے بعد گھر آتا تو والدین کو نتیجے کے لئے پہلے ہی سے تیار کر دیتا۔ رفتہ رفتہ نہیں بلکہ یکلخت اور فوراً۔ رفتہ رفتہ تیار کرنے سے خواہ مخواہ وقت ضائع ہوتا ہے اور پریشانی مفت میں طول کھینچتی ہے۔ ہمارا قاعدہ یہ تھا کہ جاتے ہی کہہ دیا کرتے تھے کہ اس سال تو کم از کم پاس نہیں ہو سکتے۔ والدین کو اکثر یقین نہ آتا۔ ایسے موقعوں پر طبیعت کو بڑی الجھن ہوتی ہے۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ میں پرچوں میں کیا لکھ کر آیا ہوں۔ اچھی طرح جانتا ہوں کہ ممتحن لوگ اکثر نشے کی حالت میں پرچے نہ دیکھیں تو میرا پاس ہونا قطعاً نا ممکن ہے۔ چاہتا ہوں کہ میرے تمام بہی خواہوں کو بھی اس بات کا یقین ہو جائے تاکہ وقت پر انہیں صدمہ نہ ہو، لیکن بہی خواہ ہیں کہ میری تمام تشریحات کو محض کسر نفسی سمجھتے ہیں۔ آخری سالوں میں والد کو فوراً یقین آجایا کرتا تھا کیوں کہ تجربے سے ان پر ثابت ہو چکا تھا کہ میرا اندازہ غلط نہیں ہوتا لیکن ادھر ادھر کے لوگ ’’اجی نہیں صاحب‘‘، ’’اجی کیا کہہ رہے ہو؟‘‘، ’’اجی یہ بھی کوئی بات ہے‘‘ ایسے فقر وں سے ناک میں دم کر دیتے۔ بہر حال اب کے پھر گھر پہنچتے ہی ہم نے حسب دستور اپنے فیل ہونے کی پیشین گوئی کر دی۔ دل کو یہ تسلی تھی کہ بس یہ آخری دفعہ ہے۔ اگلے سال ایسی پیشین گوئی کر نے کی کوئی ضرورت نہ ہو گی۔ ساتھ ہی خیال آیا کہ وہ ہاسٹل کا قصہ پھر شروع کرنا چاہئیے۔ اب تو کالج میں صرف ایک ہی سال باقی رہ گیا ہے۔ اب بھی ہاسٹل میں رہنا نصیب نہ ہوا تو عمر بھر گویا آزادی سے محروم رہے۔ گھر سے نکلے تو ماموں کے دڑبے میں اور جب ماموں کے دڑبے سے نکلے تو شائد اپنا ایک دڑبا بنانا پڑے گا۔ آزادی کا ایک سال، صرف ایک سال اور یہ آخری موقع ہے۔ آخری درخواست کرنے سے پہلے میں نے تمام ضروری مصا لحہ بڑی احتیاط سے جمع کیا۔ جن پروفیسروں سے مجھے اب ہم عمری کا فخر حاصل تھا ان کے سامنے نہایت بے تکلفی سےاپنی آرزؤں کا اظہار کیا اور ان سے والد کو خطوط لکھوائے کہ اگلے سال لڑکے کو ضرور آپ ہاسٹل میں بھیج دیں۔ بعض کامیاب طلبہ کے والدین سے بھی اسی طرح کی عرض داشتیں بھیجوائیں۔ خود اعداد وشمار سے ثابت کیا کہ یونیورسٹی سے جتنے لڑکے پاس ہوتے ہیں ان میں اکثر ہاسٹل میں رہتے ہیں اور یونیورسٹی کا کوئی وظیفہ یا تمغہ یا انعام تو کبھی ہاسٹل سے باہر گیا ہی نہیں۔ میں حیران ہوں کہ یہ دلیل مجھے اس سے بیش تر کبھی کیوں نہ سوجھی تھی، کیوں کہ یہ بہت ہی کارگر ثابت ہوئی۔ والد کا انکار نرم ہوتے ہوتے غور و خوض میں تبدیل ہو گیا، لیکن پھر بھی ان کے دل سے شک رفع نہ ہوا، کہنے لگے کہ ’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جس لڑکے کو پڑھنے کا شوق ہو وہ ہاسٹل کے بجائے گھر پر کیوں نہیں پڑھ سکتا۔‘‘ میں نے جواب دیا، ’’ہاسٹل میں ایک علمی فضا ہوتی ہے جو ارسطو اور افلاطون کے گھر کے سوا اور کسی گھر میں دستیاب نہیں ہو سکتی۔ ہاسٹل میں جسے دیکھو بحر علوم میں غوطہ زن نظر آتا ہے۔ باوجود اس کے ہر ہاسٹل میں دو دو سو تین تین سو لڑکے رہتے ہیں۔ پھر بھی وہ خاموشی طاری رہتی ہے کہ قبرستان معلوم ہوتا ہے۔وجہ یہ کہ ہر ایک اپنے اپنے کام میں لگا رہتا ہے۔ شام کے وقت ہوسٹل کے صحن میں جا بجا طلبہ علمی مباحثوں میں مشغول نظر آتے ہیں۔ علی الصباح ہر ایک طالب علم کتاب ہاتھ میں لیے ہاسٹل کے چمن میں ٹہلتا نظر آتا ہے۔ کھانے کے کمرے میں، کامن روم میں، غسل خانوں میں، برآمدوں میں، ہر جگہ لوگ فلسفے اور ریاضی اور تاریخ کی باتیں کرتے ہیں۔ جن کو ادب انگریزی کا شوق ہے وہ دن رات آپس میں شیکسپیئر کی طرح گفتگو کرنے کی مشق کرتے ہیں۔ ریاضی کے طلبہ اپنے ہر ایک خیال کو الجبرے میں ادا کرنے کی عادت ڈال لیتے ہیں۔ فارسی کے طلبہ رباعیوں میں تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ تاریخ کےدلدادہ۔۔۔‘‘ والد نے اجازت دے دی۔ اب ہمیں یہ انتظار کہ کب فیل ہوں اور کب اگلے سال کے لئے عرضی بھیجیں۔ اس دوران ہم نے ان تمام دوستوں سے خط وکتابت کی، جن کے متعلق یقین تھا کہ اگلے سال پھر ان کی رفاقت نصیب ہوگی اور انہیں یہ مژدہ سنایا کہ آیندہ سال ہمیشہ کے لیے کالج کی تاریخ میں یادگار رہے گا، کیوں کہ ہم تعلیمی زندگی کا ایک وسیع تجربہ اپنے ساتھ لئے ہاسٹل میں آ رہے ہیں جس سے ہم طلبہ کی نئی پود کو مفت مستفید فرمائیں گیں۔ اپنے ذہن میں ہم نے ہوسٹل میں اپنی حیثیت ایک مادر مہربان کی سی سوچ لی، جس کے ارد گرد نا تجربہ کار طلبہ مرغی کے بچوں کی طرح بھاگتے پھریں گیں۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب کو جو کسی زمانے میں ہمارے ہم جماعت رہ چکے تھے، لکھ بھیجا کہ جب ہم ہاسٹل میں آئیں گے تو فلاں فلاں مراعات کی توقع آپ سے رکھیں گے اور فلاں فلاں قواعد سے اپنے آپ کو مستشنی سمجھیں گیں۔ اطلا عاً عرض ہے۔ اور یہ سب کچھ کر چکنے کے بعد ہماری بدنصیبی دیکھیئے کہ جب نتیجہ نکلا تو ہم پاس ہو گئے۔ہم پہ تو جو ظلم ہوا سو ہوا، یونیورسٹی والوں کی حماقت ملاحظہ فرمائیے کہ ہمیں پاس کرکے اپنی آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
27,379
Write some sad poetry in Urdu
Sure, here is some sad poetry in Urdu Language: جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا یہ دل، یہ آسیب کی نگری، مسکن سوچوں، وہموں کا سوچ رہا ہوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ہوا صحرا کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ہوئیں مفت میں ہم آوارہ ٹھہرے مفت میں گھر ویران ہوا میرے حال پہ حیرت کیسی درد کے تنہا موسم میں پتھر بھی رو پڑتے ہیں انسان تو پھر انسان ہوا اتنی دیر میں اجڑے دل پر کتنے محشر بیت گئے جتنی دیر میں تجھ کو پا کر کھونے کا امکان ہوا کل تک جس کے گرد تھا رقصاں اک انبوہ ستاروں کا آج اسی کو تنہا پا کر میں تو بہت حیران ہوا اس کے زخم چھپا کر رکھیے خود اس شخص کی نظروں سے اس سے کیسا شکوہ کیجے وہ تو ابھی نادان ہوا جن اشکوں کی پھیکی لَو کو ہم بے کار سمجھتے تھے اُن اشکوں سے کتنا روشن اک تاریک مکان ہوا یوں بھی کم آمیز تھا محسن وہ اس شہر کے لوگوں میں لیکن میرے سامنے آ کر اور بھی کچھ انجان ہوا
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
27,386
میرے لئے ایک گانا لکھیں زندگی میں محنت کے بارے میں
زندگی کی راہوں میں، کوشیشوں کی بوندیں محنت سے روشن ہو، کامیابی کی روشنی محنت کرو، جیو زندگی کو چلتی رہے ہار نہ، تمناؤں کی پر ویںگ ہار نہ منو، ہمیشہ بلند رہو کشیشوں کے پھولوں کو، اکٹھا کرو محنت کرو، جیو زندگی کو چلتی رہے ہار نہ، تمناؤں کی پر ویںگ ہنر سے سجیو، خوابوں کو پانی دو نہ ہٹو پیچھے، آگے بڑھو، کامیابی کو روشنی کی راہوں میں، ہمیشہ قدم رکھو ہار نہ مانو، خود کو یقین دلاتے چلو محنت کرو، جیو زندگی کو چلتی رہے ہار نہ، تمناؤں کی پر ویںگ کامیابی کی اس راہ میں، ہمیشہ روشنی ہو محنت اور جذبے سے، زندگی بنائو
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
27,958
مغلیہ سلطنت کے زوال میں معاشی عوامل نے کیسے کردار ادا کیا؟
معاشی بدانتظامی مغلیہ سلطنت کے زوال کا ایک اہم عنصر ہے۔ اسراف فوجی اخراجات، بڑھتی ہوئی بیوروکریسی اور رجعت پسند ریونیو سسٹم کی وجہ سے سلطنت کو اپنے مالی وسائل پر مسلسل دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ زمینداری نظام پر انحصار، جو کہ زمینی محصولات کی وصولی کی ایک شکل ہے، کسانوں کے بڑے پیمانے پر استحصال اور معاشی تفاوت کو تیز کرنے کا باعث بنا۔ مزید برآں، مغل حکمران بدلتے ہوئے معاشی منظر نامے کے ساتھ موافقت کرنے میں ناکام رہے جس کی نشاندہی یورپی سمندری تجارت کی آمد سے ہوئی۔ معاشی جمود نے سلطنت کو مالی طور پر تناؤ کا شکار کر دیا، فوج اور انتظامیہ کے بڑھتے ہوئے مطالبات کو پورا کرنے میں ناکام رہا۔ اس معاشی کمزوری نے مغلیہ سلطنت کو بیرونی حملوں کا شکار بنا دیا اور اس کی خودمختاری کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
28,179
نشاۃ ثانیہ نے یورپ میں ریاضیاتی دلچسپی اور اختراع کے احیاء میں کس طرح تعاون کیا؟
14 ویں سے 17 ویں صدی پر محیط نشاۃ ثانیہ نے ریاضی سمیت مختلف فکری سرگرمیوں کے احیاء کے دور کو نشان زد کیا۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے ساتھ قدیم یونانی اور رومی متن کی دوبارہ دریافت نے ریاضی کے علم کو پھیلانے میں سہولت فراہم کی۔ لیونارڈو ڈا ونچی، نکولس کوپرنیکس، اور جوہانس کیپلر جیسے ریاضی دانوں نے جیومیٹری، فلکیات، اور سیاروں کی حرکت کی تفہیم میں اہم کردار ادا کیا۔ نشاۃ ثانیہ نے سائنسی انقلاب کی بنیاد رکھی، جس میں ریاضی کے طریقے سائنسی تحقیقات کا لازمی جزو بن گئے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
28,258
اردو میں مضحکہ خیز شعر لکھیں۔
اردو میں ایک مزاحیہ بند درج ذیل ہے۔ شوقِ سنگھار بجا ہے میرا لیکن تیری تنخواہ میرے صدقات میں اڑ جائیگی س عہد کم ظرف میں بس یہ ہی اک رونا ہے کے تم کھانسو تو کھانسی ہم کھانسیں تو کرونا ہے زندگی میں ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا غالب .پانی سے نہاؤ گے تو گیلے ہو جاؤ گے
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
28,331
1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی میں کون سے اہم عوامل تھے؟
1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی مختلف پیچیدہ عوامل کی انتہا تھی۔ آزادی کی تحریک کی جڑیں 1947 میں برٹش انڈیا کی تقسیم سے ملتی ہیں جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان وجود میں آیا۔ مغربی پاکستان سے جغرافیائی طور پر الگ ہونے کے باوجود مشرقی پاکستان کو معاشی اور سیاسی پسماندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ لسانی، ثقافتی اور معاشی تفاوت کی وجہ سے بنگالی بولنے والی آبادی میں بے اطمینانی میں اضافہ ہوا ہے۔ صورتحال اس وقت بڑھ گئی جب پاکستانی فوج نے 25 مارچ 1971 کو بنگالی قوم پرستوں کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن شروع کیا، جس سے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ شروع ہوئی۔ یہ تنازعہ نو ماہ تک جاری رہا، جس کے دوران مکتی باہنی، بنگالی فوجی اہلکاروں اور عام شہریوں پر مشتمل تھی، نے پاکستانی افواج کے خلاف مزاحمت میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ جنگ 16 دسمبر 1971 کو بنگلہ دیشی افواج کی فتح اور ایک آزاد بنگلہ دیش کے باضابطہ قیام کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
28,622
دیے گئے منفی جملے کو مثبت جملے میں تبدیل کریں۔ آج بارش کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
یہ رہا "آج بارش کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔" کا منفی جملہ: آج بارش کا امکان نظر آتا ہے
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
28,738
باغبانی میں کھاد بنانے کے کیا فوائد ہیں، اور باغبان ایک کامیاب کھاد کا ڈھیر کیسے بنا سکتے ہیں؟
کھاد بنانا باغبانی میں ایک قابل قدر عمل ہے۔ یہ مٹی کی ساخت کو بہتر بناتا ہے، مٹی کو غذائی اجزاء سے مالا مال کرتا ہے، اور مائکروبیل سرگرمی کو فروغ دیتا ہے۔ ایک کامیاب کمپوسٹ کا ڈھیر بنانے کے لیے، "سبز" مواد (نائٹروجن سے بھرپور، جیسے کچن کے سکریپ) کو "بھورے" مواد (کاربن سے بھرپور، جیسے خشک پتے) کے ساتھ متوازن رکھیں۔ کھاد کو باقاعدگی سے پھیریں تاکہ اس میں ہوا پیدا ہو اور گلنے کی رفتار تیز ہو۔ نمی کا مناسب توازن برقرار رکھیں، اس بات کو یقینی بنائیں کہ ڈھیر گیلا ہے لیکن پانی بھرا نہیں ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، کھاد غذائیت سے بھرپور humus میں تبدیل ہو جائے گی، جو باغ کی مٹی کو بڑھانے کے لیے تیار ہے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
29,301
درج ذیل جملے کا اردو میں ترجمہ کریں: Being healthy must be your main goal to achieve a better lifestyle
بہتر طرز زندگی کے حصول کے لیے صحت مند ہونا آپ کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
29,675
ٹسلا بلئرڈ کے علاوہ اپنا وقت کس طرح گزارتا تھا؟ اس سوال کو دیکھتے ہوئے ، ایک ایسا سیاق و سباق لکھیں جس میں جواب موجود ہو۔ یہ 1 - 20 جملے ہو سکتے ہیں.
گراز میں تعلیم حاصل کرنے کے دوسرے سال کے دوران ، ٹیسلا نے بلئرڈ ، شطرنج اور کارڈ کھیلنے کا شوق پیدا کیا (اور اس میں بہت ماہر بن گیا) ، کبھی کبھی گیمنگ ٹیبل پر لگاتار 48 گھنٹوں سے زیادہ وقت گزارتا تھا۔ ایک موقع پر اپنی لیبارٹری میں ، ٹیسلا نے بغیر نیند یا آرام کے 84 گھنٹوں تک کام کیا۔: کینتھ سویزی ، ایک صحافی جس سے ٹیسلا نے دوستی کی تھی ، نے تصدیق کی کہ ٹیسلا شاذ و نادر ہی سوتا تھا۔ سویزی نے ایک صبح کو یاد کیا جب ٹیسلا نے اسے تین بجے فون کیا: "میں اپنے کمرے میں ایک مردہ کی طرح سو رہا تھا... اچانک، فون کی گھنٹی نے مجھے بیدار کر دیا... [ٹیسلا] متحرک طور پر بولتا تھا، وقفے وقفے سے، [جب وہ]... ایک مسئلے پر کام کرتا تھا، ایک نظریہ کو دوسرے سے موازنہ کرتا تھا، تبصرہ کرتا تھا؛ اور جب اسے لگا کہ وہ حل پر پہنچ گیا ہے، تو اس نے اچانک فون بند کر دیا".
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab
29,981
ایس ایم ظفر کون ہے
سید محمد ظفر (6 دسمبر 1930ء - 19 اکتوبر 2023ء)، پاکستان کے انسانی حقوق کے کارکنوں میں سے ایک تھے وہ ایک مشہور وکیل (سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ) اور ایک سیاست دان اور سینیٹ آف پاکستان کے رکن تھے۔ وہ کچھ عرصہ تک پاکستان مسلم لیگ (ق) سے وابستہ رہے۔[3] ابتدائی زندگی اور تعلیم ان کا مکمل نام سید محمد ظفر تھا اور 6 دسمبر 1930ء کو رنگون، برما میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم رنگون میں حاصل کی۔[4] وہاں کے حالات کشیدہ ہوئے تو پنجاب آ گئے، شکر گڑھ کے نزدیک چک قاضیاں ان کا آبائی علاقہ تھا، شکر گڑھ سے 1945ء میں میٹرک کیا ، بعد ازاں انٹر اور قانون کی تعلیم لاہور سے حاصل کی، گورنمنٹ کالج لاہور میں قیام پاکستان سے دو سال پہلے داخلہ لیا اور قیام کے دو سال بعد گریجویشن مکمل کی اور 2002ء میں اولڈ رارین ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے۔ سیاسی زندگی 1950ء میں وکالت شروع کی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستان کے وزیر قانون تھے۔ 19؍ستمبر 1965ء کو اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں اُنہوں نے جنگ بندی کی قرارداد کو مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط کرایا۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن سے بھی خطاب کیا۔[5] وہ 35 برس کی عمر میں ایوب کابینہ میں قانون و پارلیمانی امور کے مرکزی وزیر بنے۔ کئی اہم ملکی اور بین الاقوامی مقدموں میں کامیابی حاصل کی۔ 2003ء سے 2012ء تک سینٹ کے ممبر رہے۔ 2004ء سے 2012ء تک ہمدرد یونیورسٹی کے چانسلر کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں۔ [6] اعزازات 2011ء میں انہیں صدارتی ایوارڈ نشان امتیاز سے نوازا گیا۔[7] وفات ایس ایم ظفر 19 اکتوبر 2023ء کو 92 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔[8] تصانیف میرے مشہور مقدمے عدالت میں سیاست عوام، پارلیمنٹ اور اسلام’[9] سینیٹر ایس ایم ظفرکی کہانی ڈکٹیٹر کون؟ تذکرے اور جائزے پاکستان بنام کرپشن عوام کی عدالت میں غیب سے مضامین “Be a Competent Lawyer” ‘ “Through the Crisis (1971) ”‘ “Haj- AJourney in Obedience” ‘ “Understanding Statues(1997) ” “Dialouge on the political chess Board”
Aya-Dataset
-
-
0
urd
train
Arab