text: ترقی پزیر ممالک کے افراد کے آئی قیو میں ذیادہ تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور سب سے ذیادہ اضافہ چین اور بھارت میں دیکھنے میں آیا ہے اکثر والدین کو کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ہمارے بچے ہم سے زیادہ ذہین ہیں اور لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ ایسا صرف اپنے بچے کی تعریف کے لیے کہا جا رہا ہے۔ لیکن حال ہی میں ایک میگزین ’انٹیلیجنس جرنل‘ میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق اس بات میں کافی حد تک صداقت ہے۔ کنگز کالج لندن کے محققین پیرا ونگوپراج، وینا کماری اور رابن مورس نے اس سلسلے میں کی گئی 405 گزشتہ تحقیقوں کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا۔ ان تحقیقوں میں 64 سال کے دوران 48 ممالک کے 2 لاکھ سے ذائد افراد کی ذہانت کے ٹیسٹ کے نتائج موجود تھے۔ اس تجـزیے سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اوسطًا 1950 سے ’آئی کیو‘ یعنی ذہانت میں 20 پوائنٹ کا اضافہ ہوا ہے۔ خیال رہے کہ آئی کیو ٹیسٹ کا اوسطًًا نتیجہ ہمیشہ 100 پوائنٹ ہی ہوتا ہے لحاظہ 20 پوائنٹس ایک خاطرخواح اضافہ ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں ذہانت میں اضافہ ایک جیسا نہیں ہے۔ ترقی پزیر ممالک کے افراد کے آئی کیو میں زیادہ تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور سب سے زیادہ اضافہ چین اور بھارت میں دیکھنے میں آیا ہے۔ نئی تحقیق اس رحجان کی مزید تصدیق کرتی ہے جس سے سائنسدان کافی عرصہ سے آگاہ ہیں۔ 1982 میں نیوزی لینڈ کی اوٹاگو یونیورسٹی سے منسلک ایک فلسفی اور ماہر نفسیات ’جیمز فلن‘ پرانے امریکن آئی کیو ٹیسٹ کا مشاہدہ کر رہے تھے۔انھوں نے دیکھا کہ ہر 25 سال بعد جب نظر ثانی شدہ ٹیسٹ لیا جا تا تو ٹیسٹ میں بیٹھنے والے افراد سے پرانا ٹیسٹ بھی لیا جاتا۔ جیمز فلن کا کہنا ہے کہ ’میں نے دیکھا کہ پرانے ٹیسٹ میں نئے ٹیسٹ کی نسبت ہمیشہ لوگوں کے نمبر زیادہ آتے ہیں۔‘ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وقت کے ساتھ یہ ٹیسٹ مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ جیمز اس بات کا پتہ چلانے والے پہلے شخص نہیں تھے مگر پھر بھی اس کو ’فلن افیکٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ فلن کا کہنا ہے کہ اگر آج کے امریکی شہری سو سال پہلے والا ٹیسٹ دیں تو اوسطًا ان کا آئی کیو 130 ہو گا اور اگر سو سال پہلے والے آج کا آئی کیو ٹیسٹ دیں تو ان کا اوسط آئی کیو 70 ہو گا۔ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر دہائی میں آئی کیو میں 3 پوائنٹ کا اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اضافے کی ایک وجہ نظامِ تعلیم میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔ ترقی پزیر ممالک میں لوگ اب سکولوں میں زیادہ وقت گزارتے ہیں اور پڑھانے کے طریقے میں بھی بہتری آئی ہے۔ یہ ایک معقول مفروضہ لگتا ہے کہ تعلیم لوگوں کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہی ہے۔ لیکن درحقیقت اس سے متعلق ثبوت واضع نہیں ہیں۔امریکی سکولوں کی کارکردگی اور بڑھتے ہوئے آئی کیو سکور میں کوئی واضع تعلق نظر نہیں آتا ہے۔ ماہرِ نفسیات ’آرتھر جنسن‘ کا کہنا ہے کہ اب سکول بچوں کو امتحانات میں بیٹھنے کے لیے بہتر طریقے سے تربیت دیتے ہیں اور طالبعلم امتحانات کے دباؤ کے عادی ہوگئے ہیں اس لیے وہ ہر قسم کے ٹیسٹ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر تے ہیں۔ خاندان اب چھوٹے ہوتے ہیں اس لیے ماں باپ کے ساتھ ذیادہ وقت گزارتے ہیں اور ان کی گفتگو سے بچوں کے علم میں اضافہ ہو تا ہے دوسری جانب جیمز فلن کا کہنا ہے کہ 20ویں صدی کے پہلے نصف میں لوگوں کے آئی کیو میں اضافے کی ایک وجہ امتحانات دینے میں مہارت ہو سکتی ہے مگر یہ واحد وجہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی کیو ٹیسٹ میں تبدیلیوں کے باوجود لوگوں کی ذہانت میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ان کے مطابق ذہانت میں اضافے کی وجہ نظامِ تعلیم کے ساتھ معاشرے کے بدلتے ہوئے رویے ہیں جن کی وجہ سے لوگ اب زیادہ تجریدی اور سائنسی انداز میں سوچتے ہیں اور اسی طرح کی ذہانت کا آئی کیو ٹیسٹ میں جائزہ لیا جا تا ہے۔ سکولوں کے علاوہ لو گ اب معاشرے میں بھی بہت سی ایسی چیزیں سکھتے ہیں جو ان کے آئی کیو میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ خاندان اب چھوٹے ہوتے ہیں اس لیے اب بچے ماں باپ کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں اور ان کی گفتگو سے بچوں کے علم میں اضافہ ہو تا ہے۔ اس کے ساتھ چھوٹی عمر سے ہی بچوں پر بہتر تعلیم حاصل کرنے اور زندگی میں اچھا مقام حاصل کرنے کے لیے زور ڈالنا بھی ایک عنصر ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ خوراک کے متعلق بھی کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بچے کی ذہانت کی نشونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ان اعداد وشمار کی روشنی میں آج ہمارے درمیان پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ذ ہین لوگ موجود ہیں مگر وہ ہمیں نظر کیوں نہیں آتے؟ اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ ذہین لوگ سائنس اور مخلتلف شعبہِ زندگی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور اکثر وہ عام لوگوں کی نظر سے اوجھل ہو تے ہیں۔ دنیا کے بیشتر حصوں میں لوگوں کی ذہانت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں اور کیا واقعی لوگ اپنے بزگوں سے ذیادہ ذہین ہیں؟ text: وسعت اللہ خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی اگر یہ کارکن کسی کوئلہ کان کےمزدور ہوتے تو بغیر حفاظتی آلات کے زیرِ زمین سیاہ دیواروں کا لقمہ بنتے۔ ویسے بھی پاکستان میں کوئلے کی کانوں میں اوسطاً سالانہ ایک سو افراد کا ہلاک ہونا قطعاً غیر معمولی خبرنہیں۔ گذشتہ برس کی ہی تو بات ہے جب بلوچستان میں کوئلے کی ایک کان میں پینتالیس اور دوسری کان میں پندرہ مزدور پھنس کے مرگئے۔ شاید ہی کوئی مہینہ ہو جو اپنے ساتھ ایک دو کان مزدور نہ لے جاتا ہو۔ زخمی تو کسی شمار قطار میں ہی نہیں۔ اگر یہ مزدور کسی بھی فیکٹری یا کان میں نہ ہوتے اور تلاشِ روزگار میں کسی مسافر ویگن میں جا رہے ہوتے تب بھی زندہ روسٹ ہوجاتے۔ جیسے گذشتہ برس وہاڑی میں ایک مسافر وین کا گیس سلنڈر پھٹنے سے اٹھارہ، خیرپور کے نزدیک سٹھارجہ میں تیرہ، گوجرانوالہ بائی پاس کے قریب چھ، اور شیخوپورہ میں اب سے تین ماہ پہلے سکول وین کا سلنڈر پھٹنے سے پانچ خواتین ٹیچرز اور ایک بچہ زندہ جل گیا۔ اور کسی ایک سال کے دوران گنجان رہائشی علاقوں میں قائم سینکٹروں غیرقانونی دوکانوں میں بکنے والے مائع گیس اور سی این جی سلنڈر پھٹنے کے حادثات سے ہونے والے املاکی و جانی نقصان کا تذکرہ اگر لے بیٹھوں تو یہ مضمون فہرست کی تپش سے ہی جل جائے گا۔ ایسے واقعات پر نگاہ رکھنے والی ایک این جی او سول سوسائٹی فرنٹ کی تازہ رپورٹ کے مطابق سال دو ہزار گیارہ میں صرف گیس سلنڈر پھٹنے سے پاکستان میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد گذشتہ برس ڈرون حملوں سے مرنے والوں کے مقابلے میں چار گنا زائد ہے۔ مگر ڈرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ آپ اگر سی این جی سے چلنے والی بسوں اور ویگنوں میں سفر نہ بھی کریں یا گنجان آبادی میں مائع گیس یا آتش بازی کا سامان فروخت کرنے والی موت کی دوکانوں سے بچ کر بھی گذر جائیں تب بھی شاید جہان سے گذر جائیں۔ زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ سڑک بھی پار نہ کریں، موٹر سائیکل بھی نہ چلائیں اور کار سے بھی اتر جائیں۔ اگر کسی بدمست مسافر ویگن، بس یا مال بردار ٹرک نے کچل دیا یا کسی ٹرالر کا کنٹینر آپ پر پھسل گیا تو قاتل ڈرائیور پر زیادہ سے زیادہ غفلت کا مقدمہ قائم ہو جائےگا۔ آپ نے ایسے کتنے ڈرائیوروں پر تین سو دو کا کیس بنتے دیکھا یا سنا ہے؟ آخر پاکستان کی سڑکوں پر ہر سال آٹھ سے دس ہزار آپ جیسے یونہی تو نہیں مرجاتے۔ لیکن آپ سڑک بھی پار نہ کریں، کسی سی این جی والی وین میں بھی نہ بیٹھیں اور صرف ایک عام سی بس میں سفر کریں تو بچنے کا کوئی امکان ہے؟ یاد کریں گذشتہ برس ستمبر میں کلر کہار موٹر وے پر فیصل آباد کے اسکولی بچوں کو پکنک سے واپس لانے والی بس کے ساتھ کیا ہوا۔ کیا ستر مسافروں کی گنجائش والے اس گردشی تابوت میں ایک سو دس بچے اور اساتذہ نہیں ٹھونسے گئے تھے؟ اور جب فٹنس سرٹیفکیٹ یافتہ اس تیس برس پرانی بس کے بریک جواب دے گئے اور وہ کھائی میں گرگئی تو اس کھائی سے سینتیس لاشیں اور ستر زخمی کیسے نکالے گئے؟ اس واقعے کو ایک برس ہو گیا۔ اس دوران اگر کسی کو سزا ملی ہو یا مقدمے میں کوئی پیش رفت ہوئی ہو تو مطلع فرما کے شکریے کا موقع دیں۔ اب آئیے نجی و سرکاری عمارات میں آتش زدگی سے بچاؤ کی سہولتوں کی طرف۔ پاکستان کے اقتصادی و افرادی انجن یعنی کراچی میں اس وقت جتنی بھی قانونی و غیرقانونی کمرشل یا رہائشی عمارات کھڑی ہیں، ان میں سے پینسٹھ فیصد عمارات میں نہ باہر نکلنے کے ہنگامی دروازے ہیں، نہ ہی آگ بجھانے کے آلات۔ جن عمارات میں آگ بجھانے کے سرخ سلنڈر نمائشی انداز میں لٹکے ہوئے ہیں، ان عمارات کے بھی سو میں سے ننانوے مکین نہیں بتا سکتے کہ بوقتِ ضرورت یہ آلات کیسے استعمال کیے جاتے ہیں یا ان آلات کو استعمال کرنے کے ذمہ دار کون کون ہیں یا فائر ڈرل کس جانور کا نام ہے۔ ذرا سوچئے اگر کراچی ایسا ہے تو باقی کیسا ہوگا؟ رہی بات صنعتی سیکٹر کی تو پاکستان میں اسوقت کم ازکم ستر لاکھ مزدور کارخانوں، ورکشاپوں اور اینٹوں کے بھٹوں میں ملازم ہیں۔ ان میں سے لگ بھگ بیس فیصد مزدور ہی ایسے ہوں گے جنہیں نافذ صنعتی قوانین کے تحت بنیادی مراعات اور حادثات سے تحفظ کے ازالے کی سہولت حاصل ہے۔باقی بندگانِ محنت پھوٹی قسمت کے رحم و کرم پر ہیں۔ بظاہر جس صنعتی یونٹ میں بھی دس سے زائد ورکر ہوں اس یونٹ کا محکمہ لیبر میں رجسٹریشن لازمی ہے تاکہ یہ صنعتی یونٹ مروجہ حفاظتی و مراعاتی قوانین پر عمل درآمد کا پابند ہوجائے۔ اس وقت پاکستان میں قائم کتنے صنعتی یونٹ رجسٹرڈ یا غیر رجسٹرڈ ہیں اس بارے میں جتنے محکمے اتنے اندازے۔ جو یونٹ رجسٹرڈ بھی ہیں ان کے اکثر مالکان اور اکثر لیبر انسپکٹرز کے درمیان بڑا پکا زبانی معاہدہ ہوتا ہے کہ ہم تمہارے اور تم ہمارے۔ کراچی میں جو صنعتی یونٹ تین سو کے لگ بھگ مزدوروں کا جہنم بن گیا وہ بھی تو ایک رجسٹرڈ یونٹ ہے۔ مگر اس میں ہنگامی طور پر باہر نکلنے کا ایک بھی دروازہ نہ تھا۔ شاید کسی بھی لیبر انسپکٹر کو سیٹھ کے کمرے میں کھلنے والے دروازے کے سوا کوئی اور دروازہ دیکھنے کی کیا پڑی۔ یہی حالت کم و بیش دیگر ہزاروں فیکٹریوں کی ہے۔ مگر وہ تب تک بالکل محفوظ ہیں جب تک آگ نہیں لگ جاتی۔ اور آگ بھی لگ جائے تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ وفاقی حکومت کے محنت و افرادی قوت ڈویژن کے اعداد و شمار کے مطابق فیکٹریز لاء مجریہ انیس سو چونتیس کے ترمیمی مسودے مجریہ انیس سو ستانوے کے تحت رجسٹرڈ صنعتی یونٹوں میں دو ہزار چار سے نو کے درمیان ڈھائی ہزار کے لگ بھگ چھوٹے بڑے صنعتی حادثات ہوئے۔ ان میں دو سو باون کارکن جاں بحق، پانچ سو ستر شدید زخمی اور ڈیڑھ ہزار سے زائد معمولی زخمی ہوئے۔گویا پاکستان میں رجسٹرڈ صنعتی یونٹوں میں ہر سال اوسطاً تقریباً پانچ سو صنعتی حادثات ہوتے ہیں۔ مگر ہزاروں غیر رجسٹرڈ صنعتی یونٹوں میں کتنے حادثات ہوتے اور کتنے کارکن مرتے ہیں۔ یہ واقعات و اموات و زخم کس کھاتے میں درج ہوتے ہیں۔ معاوضہ کون، کتنا طے کرتا اور کسے دیتا ہے۔ یہ راز خدا جانے ، فیکٹری مالک جانے یا زندہ درگور خاندان جانے۔ کیا روک تھام یا کمی ہوسکتی ہے، کیا لیبر کورٹس کے ذریعے کسی کی حقیقی گرفت کبھی ممکن ہے ؟ فیکٹریز ایکٹ کے تحت کارکنوں کے جانی و مالی تحفظ سے غفلت برتنے والے صنعتی یونٹ کے مالکان کے لئے سزا کیا ہے ؟ کیا آپ جانتے ہیں ؟ فی خلاف ورزی پانچ سو سے ساڑھے سات سو روپے جرمانہ ۔۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات بارہ ستمبر کو لاہور اور کراچی کی دو فیکٹریوں میں جل مرنے والے تین سو دس سے زائد محنت کش اگر ان فیکٹریوں میں نا بھی مرتے تو گیٹ سے باہر نکلتے ہی غفلت، بے حسی اور بدعنوانی کی رسیوں سے بٹے موت کے کسی اور جال میں پھنس کر مر جاتے۔ text: امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ اس نے سینکڑوں ایسی تصاویر اور ویڈیوز دیکھی ہیں جن میں ٹارچر کے ایسے نئے طریقے سامنے آئے ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ اپنے حلفیہ بیانات میں عراقی قیدیوں نے بتایا کہ انہیں مارا پیٹا گیا اور جنسی طور پر ذلیل کیا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں سور کا گوشت کھانے اور شراب پینے پر مجبور کیا گیا۔ تازہ ترین تصویروں میں جو دکھایا گیا ہے اس میں انسانی نجاست سے لتھڑے ہوئے ایک قیدی کو راہداری میں چلایا جا رہا ہے، ایک قیدی جس کے چہرے پر غلاف چڑھا ہوا ہے، تقریباً بے ہوش ہونے والا ہے اور ایک قیدی زمین پر گرا ہوا ہے اور اسے ایک امریکی فوجی مار رہا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں ایک ویڈیو کے حصے بھی بیان کئے گئے ہیں جس میں ایک قیدی کو جیل کے دروازے کی سلاخوں سے باندھا گیا ہے۔ وہ بار بار اپنا سر سلاخوں میں مارتا ہے اور بالآخر بے ہوش ہوکر کیمرہ مین کے پیروں پر گر جاتا ہے۔ واشنگٹن میں بی بی سی کے نمائندے کے مطابق یہ تصاویر اور ویڈیوز پینٹاگون نے صرف کانگریس کے ارکان کو دکھائی تھیں اور واشنگٹن پوسٹ نے ان تک رسائی حال ہی میں حاصل کی ہے۔ ہمارے نمائندے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان تصاویر اور ویڈیوز سے ان تمام جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے بارے میں تو کوئی مدد حاصل نہیں کی جا سکے گی تاہم یہ واشنگٹن میں عراق کی جنگ اور اس کے نتائج کے بارے میں پہلے سے پائے جانے والے خدشات میں اضافے کا سبب ضرور بنیں گی۔ ان تصاویر کے ساتھ چھاپی جانی والی رپورٹ میں امین سعید الشیخ نامی ایک قیدی نے بتایا ہے کہ ایک امریکی سپاہی نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کس چیز پر یقین ہے؟ اس کے اس جواب پر کہ اسے اللہ پر یقین ہے، امریکی فوجی نے کہا لیکن مجھے تو ٹارچر پر یقین ہے اور میں تمہیں ٹارچر کروں گا۔ اس پر ایک اور سپاہی نے اس کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ پر ضربیں لگائیں اور اسے اسلام کو گالیاں دینے کو کہا۔ اس پر اس نے اپنے مذہب کو گالیاں دیں اور اخبار کے مطابق اس سے یسوح مسیح کا شکریہ ادا کروایا گیا کہ وہ زندہ ہے۔ دوسرے قیدیوں نے بتایا ہے کہ جیل پہنچنے پر انہیں ننگا کیا جاتا تھا اور عورتوں کے انڈرویئر پہننے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق آٹھ قیدیوں نے ایک سپاہی سپیشلسٹ چارلس گرانر کا نام لیا جس پر اب برا سلوک کرنے، نازیبا حرکات کرنے اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ ایک قیدی نے چارلس گرانر پر الزام لگایا ہے کہ وہ قیدیوں کا کھانا ٹوائیلٹ میں پھینک کر انہیں اسے کھانے کا حکم دیتا تھا۔ چارلس گارنر نے اس سے قبل کہا تھا کہ وہ صرف ملٹری انٹیلیجنس کی طرف سے دی گئی ہدایات کی تعمیل کر رہا تھا۔ اخبار نے اس کے وکیل سے رابطہ کرنے کی بارہا کوششیں کیں مگر اس کے کسی فون کا جواب نہیں دیا گیا۔ دریں اثنا جمعہ کے روز سینکڑوں عراقیوں کو بغداد کے قریب واقع ابوغریب جیل سے رہا کر دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق پہلے مرحلے میں عراق قیدیوں سے بھری چھ بسیں علی الصبح جیل سے روانہ ہوئیں۔ جمعہ کے روز پانچ سو عراقی قیدیوں کی رہائی کی توقع ہے۔ ابو غریب جیل میں کل ساڑھے تین ہزار قیدیوں کو حراست میں رکھا جا رہا ہے۔ امریکہ میں عراقی قیدیوں پر ٹارچر کی نئی تصاویر شائع ہوئیں ہیں جس میں کئی قیدیوں کی روداد بھی شامل ہے۔ text: دونوں ٹیموں کے درمیان یہ میچ منگل کو آسٹریلیا کے شہر ہوبارٹ میں کھیلا گیا۔ سری لنکا نے ٹاس جیت کرپہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور مقررہ پچاس اوورز میں دو سو ستاون رنز بنائے اور اس کے نو کھلاڑی آؤٹ ہوئے۔ سری لنکن کھلاڑی اتاپتو کے اسی رنز نے میچ کی جیت میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اتاپتو اور کمارا سنگاکارا نےتیسری وکٹ کی شراکت میں سکور میں ایک سو پچھتر رنز کا اضافہ کیا اور سنگاکارا نے باسٹھ رنز بنائے۔ دونوں کھلاڑی جنوبی افریقی بالروں کے لیے چیلنج بنے رہے۔ اتاپتو اورسنگاکارا دونوں کو جے وینڈر واتھ نے آوٹ کیا۔ اس وقت ایسا لگتا تھا کہ اب میچ شاید سری لنکا کے ہاتھوں سے نکل گیا ہو کیونکہ مبارک اور جے وردھنے سکور میں کوئی قابل ذکر اضافہ کیے بغیر آوٹ ہو کر یوپلین میں واپس جا چکے تھے ایسے میں دلشان نے تیس رنز بنائے تاہم ان کے بعد آنے والے کھلاڑی بھی قابل ذکر بلے بازی کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔ فرنانڈو اور پریرا ناٹ آؤٹ رہے۔ جنوبی افریقہ کے بالروں میں اینڈریو ہال نے پچاس رنز دے کر تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ جے وینڈر واتھ نے دو کھلاڑیوں کو اپنی بالنگ کا نشانہ بنایا۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم اپنے اوررز پورے نہ کرسکی اور پوری ٹیم تینتالیس اعشاریہ چار اوورز میں 181 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ جنوبی افریقہ کے کھلاڑی گراہم ِاسمتھ نے 67 رنز بنائے۔ باؤچر اس مرتبہ کامیاب بلے بازی نہیں دیکھا سکے اور چوبیس رنز بنا کر واس کی گیند پر آؤٹ ہو گئے جبکہ گبسن کوئی رن نہیں بنا سکے۔ شان پولاک کا کیچ بندرا کی گیند پر سنگاکارا نے لیا۔ وہ صرف پندرہ رنز ہی بنا سکے۔ اس سیریز میں آسٹریلیا ستائیس پوائنٹس کے ساتھ سر فہرست ہے جبکہ سری لنکا کے چودہ پوائنٹس ہیں۔ آسٹریلیا اور سری لنکا کے درمیان بیسٹ آف تھری فائنلز کا پہلا میچ دس فروری کو ایڈیلیڈ میں کھیلا جائے گا۔ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم وی بی سیریز کے بارہویں میچ میں جنوبی افریقہ کو76 رنزسے ہرا کر بیسٹ آف تھری فائنلز میں پہنچ گئی ہے۔ text: پاکستانی کرکٹ ٹیم کی مایوس کارکردگی کے نتیجے میں وہ جنوبی افریقہ سے دونوں ٹی ٹوئنٹی میچ ہار گئي ہے یہ کرکٹرز دو کوڑی کی کارکردگی کے بدلے کیا واقعی لاکھوں کے سینٹرل کنٹریکٹ کے مستحق ہیں؟ کیا انہیں دیے جانے والے پرکشش معاوضوں اور مراعات کا تعین ان کی کارکردگی کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے؟ دبئی کے دوسرے ٹی ٹوئنٹی نے پاکستانی ٹیم کو ون ڈے سیریز اور پھر پہلے ٹی ٹوئنٹی کی ہزیمت کے آنسو پونچھنے کا آخری موقع فراہم کیا تھا لیکن اس دورے کا اختتام شکست پر کرکے وہ ٹی ٹوئنٹی کی عالمی نمبر دو کی پوزیشن سے محروم ہوگئی۔ شائقین کی محبت تو پہلے ہی وہ گنواچکی ہے۔ ایک سو اکیاون کا ہدف مشکل ضرور تھا لیکن ایک موقع پر ہاتھ میں آتا ہوا دکھائی دے رہا تھا تاہم تین گیندوں نے روشنیوں سے چمکنے والے دبئی اسٹیڈیم کے پاکستانی ڈریسنگ روم میں اندھیرا کردیا۔ عمران طاہر نے لگاتار دو گیندوں پر شعیب ملک اور عبدالرزاق کو بولڈ کردیا تو دوسری جانب سے پارنل کی گیند پر وکٹ کیپر ڈی کوک کے انتہائی خوبصورت کیچ نے صہیب مقصود کی 37 رنز کی عمدہ اننگز کا خاتمہ کردیا جو ٹیم کو جیت تک لے جانے کی آخری امید تھے۔ شعیب ملک اور عبدالرزاق کے بارے میں اب سلیکٹرز اور منیجمنٹ کیا کہے گی کہ انہیں بیٹنگ لائن کو مضبوط کرنے کے لیے بیٹنگ آل راؤنڈرز کے طور پر ٹیم میں شامل کیا گیا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ چلے ہوئے کارتوس بھی کبھی فائر ہوئے ہیں کیا؟ ستم بالائے ستم ناصر جمشید کچھ نہ کرکے بھی دوبارہ ٹیم میں آگئے اور ایک بار پھر غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرکے ٹیم کی مشکلات بڑھاگئے۔ احمد شہزاد کا جوش انہیں پھر لے ڈوبا۔ کپتان محمد حفیظ بدقسمتی سے امپائر ضمیر حیدر کے غلط ایل بی ڈبلیو فیصلے کی بھینٹ چڑھ گئے۔ عمراکمل اور شاہد آفریدی اس دورے میں اپنے آپ میں ہی گم ہوچکے ہیں شائقین کو کیسے نظرآئیں گے؟ اس سے قبل جنوبی افریقی بیٹسمینوں نے ٹی ٹوئنٹی کی بہترین سمجھی جانے والی بولنگ کے خلاف کھل کر اسٹروکس کھیلے۔ ڈی کوک کے چھ چوکوں کی مدد سے بنائے گئے تیس رنز نے اسکورنگ کی رفتار متعین کی۔ ہاشم آملا ڈی کوک کے جانے کے بعد اپنے خول سے باہر آئے۔ انہوں نے دو چھکوں اور تین چوکوں کی مدد سے 48 رنز اسکور کیے۔ کپتان فاف ڈوپلیسی کی ناقابل شکست نصف سنچری نے ٹیم کا سکور 150 تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سعید اجمل نے آخری میچ میں تین وکٹ لے کر ٹی ٹوئنٹی میں سب سے زیادہ وکٹ لینے کا ا‏عزاز حاصل کیا جنوبی افریقہ کے سو رنز تیرہویں اوورز میں مکمل ہوئے تھے جبکہ آخری پانچ اوورز میں تین وکٹیں گرنے کے سبب رنز بنانے کی اوسط سات رنز رہی۔ سعید اجمل ایک بار پھر تین وکٹوں کے ساتھ سب سے کامیاب بولر رہے اس کے ساتھ ہی وہ ٹی ٹوئنٹی میں چھہتر وکٹوں کے ساتھ سرفہرست ہوگئے۔عمرگل چوہتر وکٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔ سہیل تنویر کو اپنے آخری دو اوورز میں دو وکٹیں مل گئیں لیکن شاہد آفریدی چار اوورز میں تنتالیس رنز کی بھاری قیمت چکاکر بھی وکٹ سے محروم رہے انہوں نے اپنی ہی گیند پر ہاشم آملا کو آؤٹ کرنے کا موقع بھی ضائع کیا۔ عرفان بالآخر دورے کے آخری میچ میں آکر ان فٹ ہوگئے۔ ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ میں شامل کیے گئے دو’ مہمان‘ شعیب ملک اور عبدالرزاق ایک ایک اوور کے بولر ثابت ہوئے۔ رزاق نے اس اوور میں چودہ رنز دے ڈالے جبکہ شعیب ملک بارہ رنز دینے کے خطاوار ٹھہرے جس کے بعد محمد حفیظ نے انہیں بولنگ سے دور رکھنا ہی مناسب سمجھا۔ پاکستانی کرکٹرز کی ایک کے بعد ایک شرمناک کارکردگی دیکھ کر یہ عبارت یاد آرہی ہے ’ یہاں کام کرنے والوں کو یومیہ اجرت دی جاتی ہے۔‘ text: اس دوران جنگ بندی کی ایک مجوزہ قرار داد سلامتی کونسل میں پیش ہو چکی ہے جس کے بعد لبنان پر اسرائیلی حملوں میں مزید شدت ریکارڈ کی گئی ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق کفار گیلادی پر حزب اللہ کی راکٹ باری 15 منٹ تک جاری رہی۔ اسرائیل کے تیسرے بڑے شہر حیفہ پر پر حزب اللہ کا راکٹ حملہ غروب آفتاب سے تھوڑی دیر بعد ہوا۔ اس حملے میں تین اسرائیلی ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ حزب اللہ نے اسرائیل پر اتوار کو 160 سے زائد راکٹ حملے کیے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان میں امن فوج کے تین چینی رکن حزب اللہ کے راکٹ حملوں سے زخمی ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ میں لبنان کے سفیر نے سکیورٹی کونسل سے کہا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کے بحران سے متعلق قرارداد کے مسودے میں ترمیم کرے۔ اقوام متحدہ میں لبنان کے سفیر نوہاد محمود نے کہا ہے کہ انہوں نے قرارداد کے مسودے میں ترمیم سکیورٹی کونسل میں داخل کر دی ہے جس میں اسرائیلی فوج کے لبنان سے انخلاء کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے جنوبی بیروت پر دو فضائی حملے کیے ہیں۔ اسرائیلی طیاروں نے طائر جانے والے اقوام متحدہ کے ایک امدادی قافلے کے قریب حملہ کیا ہے جس میں دو شہری ہلاک ہوئے ہیں جبکہ طائر میں حملے کے دوران ایک لبنانی فوجی اور ایک شہری مارا گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی مجوزہ امن قرار داد سے لبنان اور اسرائیل کے درمیان تنازعے سے بڑے پیمانے پر ہونے والے تشدد کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ اتوار کی صبح حزب اللہ نے شمالی اسرائیل پر متعدد راکٹ داغے۔ کفار جیلعادی نامی گاؤں پرگرنے والے راکٹوں سے کم سے کم دس افراد مارے گئے جبکہ پندرہ کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ اسرائیلی شہر کرات شمعونہ پر بھی چھ راکٹ گرے جس سے نو لوگ زخمی ہوگئے۔ نقورہ کے علاقے میں اسرائیلی فضائی حملے میں تین لبنانی مارے گئے ہیں جبکہ جنوبی لبنان کے سرحدی دیہات راس البیدہ، طیبہ، مسقفاف اور اودیشہ میں بھی شدید لڑائی جاری ہے اور وہاں سے ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ اتوار کو جنوبی لبنان میں نبادیہ کے قریب انصار نامی گاؤں پر اسرائیلی فضائی حملے میں پانچ عام شہری ہلاک اور چھ زخمی ہوئے ہیں اور وادی بقا میں شام نواز فلسطینی تنظیم پاپولر فرنٹ جنرل کمانڈ کے دو ٹھکانوں پر حملے کیئے گئے جن کے نتیجے میں کم از کم دو فلسطینی مارے گئے ہیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں وادی بقا کا باقی ملک سے رابطہ منقطع ہے۔ اسرائیلی فوجی ذرائع کے مطابق جنوبی لبنان میں اسرائیلی سرحد کے نزدیک لڑائی میں مزید دو اسرائیلی فوجی ہلاک ہوگئے ہیں۔ ادھر اسرائیل نےسلامتی کونسل میں پیش کردہ امریکہ۔فرانس مسودے کا غیر سرکاری طور پر خیر مقدم کیا ہے۔ اسرائیلی وزیرِ انصاف حائم رامون نے کہا ہے کہ انہیں امید نہیں کہ حزب اللہ اس مسودے کو تسلیم کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ’ اسرائیل حزب اللہ پر حملے جاری رکھے گا اور ہماری فوج اس علاقے میں تب تک رہے گی جب تک وہاں بین الاقوامی امن فوج کے دستے نہیں آ جاتے‘۔ ایک اور اسرائیلی وزیر آئزک ہرزوو نے کہا ہے کہ’ فوجی اہداف حاصل کرنے کے لیئے وقت درکار ہے لیکن وقت بہت کم ہے‘۔ لبنان کے وزیرِاعظم فواد سینیورا نے سلامتی کونسل میں پیش کردہ قرارداد کو ناکافی قرار دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں لبنان کے مندوب نوہاد محمود نے کہا ہے کہ قراردداد کے مسودے میں لبنان سے اسرائیلی فوجوں کے انخلاء کا کوئی ذکر نہیں ہے لہٰذا تصادم کی فضا ختم ہونا مشکل ہے جبکہ لبنانی حکومت میں شامل حزب اللہ کے محمد فنیش وزیر کا کہنا ہے کہ حزب اللہ صرف اس وقت اپنی کارروائیاںروکے گی جب اسرائیل اپنے حملے بند کرے گا اور لبنان سے اپنی فوجیں نکال لے گا۔ واضح رہے کہ اس وقت لبنان میں دس ہزار کے قریب اسرائیلی فوجی برسرِ پیکار ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ دریائے لیطانی تک تیس کلومیٹر چوڑے علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا جائے۔ حزب اللہ کے راکٹ حملوں میں ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں کی تعداد اب 15 ہو چکی ہے۔ text: پیر کی رات پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چودھری نثار علی نے کہا کہ کسی معاملے کا حل فوج کشی نہیں بلکہ مذاکرات ہیں۔ ان کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی نے اس آپریشن کے بارے میں ان کو اعتماد میں نہیں لیا ہے، تاہم مسلم لیگ نون نے فیصلہ کیا ہے کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کرے گی۔ ان کے بقول ’پاکستان میں امن کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے اپنے لوگوں کو کسی قسم کے تشدد کرنے سے حالات بہتر نہیں ہونگے‘۔ ان کا کہنا ہے اگر کسی قسم کی کارروائی کرنا چاہتے تھے تو یہ فیصلہ کسی ایک شخص، ایک جماعت اور صورت میں بھی پاکستانی فوج نہ کرتی بلکہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جاتا۔ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ کے عام اجلاس میں پالیسی کی تشہیر نہیں جاسکتی تو بند اجلاس میں اس معاملے پر بحث ہوسکتی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ ان کی ذاتی رائے میں اس معاملے پر بند اجلاس کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ پاکستانی عوام کو بھی اس بارے میں معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ امریکی نائب وزیر خارجہ رچرڈ پاوچر منگل کو لاہور میں مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف سے ملاقات کریں گے اور اس ملاقات میں اس آپریشن کے بارے میں بھی بات کی جائے گی۔ ادھر لاہور میں پیپلز پارٹی نے قبائلی علاقے میں فوجی آپریشن کے حق میں ایک پرامن ریلی نکالی جس کی قیادت پنجاب کابینہ میں پیپلز پارٹی کے سینئر وزیر راجہ ریاض نے کی۔ یہ ریلی لاہور پریس کلب سے شروع ہوئی اور پنجاب اسمبلی کے سامنے ختم ہوئی۔ ریلی میں شامل افراد نے پیپلز پارٹی کے جھنڈوں کے علاوہ سفید پرچم بھی اٹھا رکھے تھے اور امن کے قیام اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ مسلم لیگ نون کے سینئر رہنما چودھری نثار علی خان نے قبائلی علاقے خبیر ایجنسی میں فوجی آپریشن کی مخالفت کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ آپریشن شروع کرنے سے پہلے اس معاملے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ text: پاکستان کے سابق کپتان عمران خان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کو اس میچ کو جیتنے کی کوشش کرنی ہے تو پھر اسے تیزی سے رنز بنانے ہوں گے۔ عمران کے خیال میں وکٹ کے سلو ہو جانے سے کھلاڑیوں کا آؤٹ ہونا قدرے مشکل ہو سکتا ہے۔ بھارت کے 287 رنز کے جواب میں پاکستان نے دوسرے ٹیسٹ کے دوسرے دن کا اختتام355 رنز3 کھلاڑی آؤٹ کے اسکور پر کرکے 68 رنز کی برتری حاصل کرلی تھی۔ پہلا دن اگر عمرگل کی عمدہ بولنگ اور یوراج سنگھ کی سنچری کے نام رہا تھا تو دوسرے دن کے کھیل کو انضمام الحق اور عمران فرحت نے شاندار سنچریوں سے یادگار بنادیا۔ پاکستانی کپتان نے بھارت کے خلاف پہلی ٹیسٹ سنچری اسکور کی جبکہ عمران فرحت جو نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز اور ملتان ٹیسٹ میں ناکام رہنے کے سبب ٹیم سے ڈراپ کئے جانے کے خطرے سے دوچار تھے تین ہندسوں کی خوبصورت اننگز کھیل کر اس دباؤ سے چھٹکارہ پانے میں کامیاب ہوگئے۔ ٹیسٹ سے قبل عام خیال تھا کہ ان کی جگہ عمران نذیر کو موقع دیا جائے گا لیکن سلیکٹرز نے عمران فرحت کو ایک اور چانس دیا اور اس نوجوان بیٹسمین نے اسے ضائع نہیں ہونے دیا اور دسویں ٹیسٹ میں دوسری سنچری اسکور کی۔ انضمام الحق اور عمران فرحت کے درمیان دوسری وکٹ کی شراکت میں بننے والے 110 رنز نے پاکستان کے لئے ایک بڑے اسکور تک پہنچنے کی سمت متعین کردی تھی۔ ملتان ٹیسٹ کے سنچری بنانے والے یوسف یوحنا جن کا یہ 50 واں ٹیسٹ ہے خود کو ایک بڑی اننگز کے لئے تیار کرچکے ہیں۔کھیل کے اختتام پر وہ 62 رنز پر اپنے کپتان کا ساتھ دے رہے تھے جو 118 رنز پر ناٹ آّؤٹ تھے۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے ان دونوں تجربہ کار بیٹسمینوں کا کریز پر موجود رہنا خوش آئند ہے کہ یہ دونوں چوتھی وکٹ کی شراکت میں 150 رنز کا اضافہ کرچکے ہیں اور تیسرے دن ان کی موجودگی سے پاکستان کے لئے بھاری بھرکم برتری حاصل کرنا آسان رہے گا جو اسوقت 68 رنز کی ہوچکی ہے۔ پہلے دن کے مقابلے میں وکٹ سے بولرز کو کوئی مدد نہ مل سکی ان کی فریسٹریشن میں اسوقت اضافہ ہوگیا جب انضمام الحق اور یوسف یوحنا کے خلاف عرفان پٹھان کی ایل بی ڈبلیو کی پرزور اپیلیں امپائر اسٹیو بکنر نے مسترد کردیں اور امپائر سائمن ٹافل نےیوسف یوحنا کو انیل کمبلے کی گیند پر پارتھی پٹیل کے ہاتھوں آؤٹ نہیں دیا۔ ایکشن ری پلے میں یہ تینوں فیصلے بولرز کے حق میں دکھائی دیتے تھے۔ بھارتی کھلاڑی ضرورت سے زیادہ اپیلیں کرنے کے نتیجے میں میچ ریفری کی زد میں آسکتے ہیں۔ بدھ کے روز پاکستان کے کھلاڑی انضمام الحق اور یوسف یوحنا لاہور میں بھارت کے خلاف دوسرے ٹیسٹ کے تیسرے دن کا کھیل شروع کریں گے۔ پاکستان کو بھارت پر خلاف اڑسٹھ رنز کی سبقت حاصل ہے اور اس کی سات وکٹیں باقی ہیں۔ text: وزیر اعلی پنجاب نے لاہورمیں ایک تقریب کے اختتام پر اخبارنویسوں کے مختلف سوالات کے جواب میں کہا کہ کسی بھی موقع پر امنِ عامہ کا مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب صورتحال خراب ہو جبکہ ان کے بقول شہباز شریف کی واپسی کے حوالے سے امنِ عامہ کی صورتحال ٹھیک ٹھاک ہے اور لاہور میں دفعہ ایک سو چوالیس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ اگر شہباز شریف آگئے توکیا ہوگا ؟جس پر وزیر اعلی نے کہا کہ ان کے خیال میں خود وہ (شہباز ) بھی کنفیوژن کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں سرکاری طور پر شہباز شریف کی واپسی کی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ساڑھے تین سال سے سن رہے ہیں کہ شہباز شریف آرہےہیں لیکن اب تک تو نہیں آۓ۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ان کے بیانات میں کوئی حقیقت نظر نہیں آرہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کی طرف سے شہباز شریف کو فری ہینڈ ہے لیکن وہ آئیں تو سہی ۔ پرویز الہی نے کہا کہ ’ہم کسی کو کچھ نہیں کہ رہے اور پھر کچھ ہو بھی نہیں رہا ہے اس لیے ان کی (حکومت) کی طرف سے کسی کو چھیڑنے یا پکڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ شہباز شریف کی آمد کے سلسلہ میں ان کے استقبال کی تیاریوں کو ضلعی ناظم لاہورنے امنِ عامہ میں خلل قرار دیکر منگل سے لاہورمیں سات یوم کے لیے دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کر دی تھی۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور مقامی کارکنوں کے گھروں پر چھاپے اور گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ شہباز شریف نے گیارہ مئی کو لاہور پہنچنے کا اعلان کر رکھا ہے۔اس روز لاہورمیں آنے والی بین الاقوامی پروازوں کے شیڈول کے مطابق دو کے سوا تمام پروازیں ملکی ائر لائنوں کی ہیں۔ ایک پرواز السعودیہ ائرلائن کی ہےجو جدہ سے لاہور آۓگی جبکہ دوسری گلف ایئر کی ہے جو ابوظہبی سے روانہ ہوکر سواچھ بجے لاہور پہنچے گی۔ مسلم لیگ کے ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے گلف ائر کی پرواز سے لاہور آنے کا فیصلہ کررکھا ہے تاہم انہوں نے پی آئی اے سمیت دیگر ائر لائنوں کی بکنگ بھی کرا رکھی ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلی چودھری پرویز الٰہی نے لاہور میں ضلعی ناظم کے دفعہ ایک سو چوالیس لگانے کے فیصلے پر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں وہ ضلعی ناظم سے بات کریں گے۔ text: امریکہ کے دفتر خارجہ کے ترجمان شان میکارمک نے کہا ہے کہ’ہم یہ نہیں دیکھنا چاہیں گے کہ سمجھوتے کی آڑ میں شدت پسندوں کو دہشت گردی کی منصوبہ کی آزادی مل جائے‘۔ واشنٹگن سے بی بی سی کے نامہ نگار برجیش اپادھیائے کے مطابق دفترِخارجہ کے ترجمان شان میکارمک نے کہا کہ وہ یہ دیکھنا چاہیں گے کہ جو لوگ پہلے سیاسی عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے کیا وہ اب اس میں شامل ہوں گے اور خون خرابہ چھوڑ دیں گے۔ دوسری طرف برطانیہ نے حکومت پاکستان کی قبائلی علاقوں میں امن بات چیت کی حمایت کی ہے۔ برطانیہ کے وزیرخارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے بدھ کو اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ برطانیہ پاکستانی حکومت اور قبائلی رہنماؤں کے مابین سمجھوتے کے حق میں ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں شدت پسندی روکنے کا فوجی حل نہیں ہو سکتا لیکن سمجھوتہ یا بات چیت انہی لوگوں سے ہونی چاہیے جو خون خرابہ چھوڑنے کو تیار ہو۔ یاد رہے کہ بدھ کو صوبہ سرحد کی حکومت اور سوات کے مقامی طالبان کے مابین پندرہ نکاتی امن معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت سوات کے مقامی طالبان پاکستانی ریاست، صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی عملداری تسلیم کرتے ہوئے ان کے دائرہ کار کے اندر رہیں گے جبکہ معاہدے کے مطابق حکومت مالاکنڈ ڈویژن میں بہت جلد شریعت محمدی کا نفاذ عمل میں لائے گی۔ بی بی سی اردو کے رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق صوبہ سرحد کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور نے بدھ کو اس معاہدے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ معاہدے کے تحت عسکریت پسند حکومتی اہلکاروں، فوج، پولیس اہلکاروں اور سرکاری املاک پر حملے نہیں کریں گے، پرائیویٹ ملیشاء پر پابندی ہوگی، عسکریت پسند خود کش حملوں سے دست بردار ہونگے اور اس کی مذمت کی جائیگی، ذاتی اور سرکاری دوکانوں پر حملے نہیں ہونگے۔ اس کے علاوہ ریموٹ کنٹرول بم دھماکوں بھی نہیں ہونگے اور فوج کو حالات کے مطابق بتدریج واپس بیرکوں میں بھیجا جائے گا۔ سوات میں قیدیوں کے مقدمات کا جائزہ لے کر ان کو رہا کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ فریقین نے اس امر پر بھی اتفاق کیا ہے کہ حکومت کی طرف سے مختلف کارروائیوں کے دوران ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیکر مستحق افراد کو معاوضہ ادا کیا جائے گا، پولیو اور دیگر بیماریوں کے ویکسین دینے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی، خواتین کی تعلیم میں بھی کوئی روکاوٹ نہیں ڈالی جائیگی جبکہ اسلحہ کی نمائش پر بھی مکمل پابندی ہوگی اور ایسے تمام ٹریننگ مراکز کا خاتمہ ہوگا جہاں خود کش حملوں اور ریموٹ کنٹرول بم بنانے کی تربیت دی جاتی تھی۔ بشیر بلور نے کہا کہ مجاز ادارے کے لائسنس اور قواعد کے مطابق ایف ایم ریڈیو پر بات چیت ہوگی جبکہ مولانا فضل اللہ کے مرکز امام ڈھیری کو اسلامی یونیورسٹی میں تبدیل کیا جائے گا۔ مرکز کے انتظام کےلیے ایک کمیٹی بنائی جائیگی جس میں حکومت اور طالبان کے نمائندے شامل ہونگے۔ سنئیر وزیر نے کہا کہ امن معاہدے پر عمل درآمد کےلیے ایک کمیٹی بھی بنائی گئی ہے جس میں صوبائی وزیرِ ماحولیات واجد علی خان، ایم پی اے ڈاکٹر شمیر علی خان، ڈی آئی جی مالاکنڈ ، ڈی پی آو اور ڈی سی او سوات جبکہ طالبان کی جانب سے حاجی مسلم خان، مولانا محمد امین، علی بخت خان، محمود خان اور نثار خان شامل ہیں۔ مذاکرات میں شامل سوات کے مقامی طالبان کے ترجمان حاجی مسلم خان نے بی سی سی کو بتایا کہ امن معاہدہ توطے پا گیا ہے تاہم سوات میں حالات معمول پر آنے میں کچھ وقت لگے گا۔ انہوں نے سوات میں گزشتہ روز پولیس اہلکار اور لڑکیوں کے سکولوں پر حملوں تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملے ان کے حامیوں نہیں کیے بلکہ ان میں بعض بیرونی اور اندرونی قوتیں ملوث ہیں جو ان کے بقول نہیں چاہتی کہ سوات میں امن قائم ہو۔ تاہم انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مولانا فضل اللہ کے حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے البتہ وہ بہت جلد آزاد ہوجائیں گے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے صوبہ سرحد کے ضلع سوات میں حکومت اور مقامی عسکریت پسندوں کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کو دہشتگردی کی منصوبہ بندی کی آڑ کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ text: پیر کے دن لاہور کی عدالت عالیہ میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ایک باشندے رؤف خان عرف رؤف کشمیری کی بیوی تسنیم اختر نے درخواست دائر کی کہ وہ پندرہ سال بھارت میں قید رہنے کے بعد تین ماہ پہلے لاہور پہنچے تو انہیں سکیورٹی ایجنسیوں نے حراست میں لے لیا اور اب تک حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے۔ وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل ظفر اقبال عدالت عالیہ میں پیش ہوئے۔ انہوں نے جج سے کہا کہ انہیں جواب دینے کے لیے مہلت دی جائے تاکہ وہ مرکزی حکومت سے ہدایات لے سکیں۔ جج میاں نجم الزماں نے انہیں تیس جون تک کی مہلت دی ہے۔ تسنیم اختر نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ ان کے شوہر رؤف خان کو چوبیس جون سنہ انیس سو اکیانوے کو مقبوضہ کشمیر میں حراست میں لیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ رؤف خان کو بھارت کے قانون ٹاڈا کے تحت دہشت گردی کے الزام میں دس سال کی سزا دی گئی جو گیارہ نومبر سنہ دو ہزار کو پوری ہوگئی۔ اس عرصہ میں وہ جودھ پور جیل میں قید رہے۔ تسنیم اختر کا کہنا ہے کہ سزا مکمل ہوجانے کے باوجود ان کے شوہر کو رہا نہیں کیا گیا اور سیفٹی ایکٹ کے تحت قید میں رکھا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے رؤف خان کی قید کا معاملہ بھارت کی سپریم کورٹ میں اٹھایا جس نے انہیں رہا کرنے اور بھارت سے نکال دینے کا حکم دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سال سترہ مارچ کو بھارت اور پاکستان کے درمیان واہگہ کے ذریعے قیدیوں کا تبادلہ ہوا تو ان کے شوہر کو واہگہ پولیس نے حراست میں لے لیا اور انہیں بتایا کہ اس نے انہیں رینجرز کے حوالہ کردیا ہے۔ تسنیم اختر کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کو کسی الزام کے بغیر سکیورٹی ایجنسیوں نے حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے اور انہیں رہا کیا جائے۔ کشمیر کی رہنے والی تسنیم اختر ان دنوں لاہور کے شاہ عالمی دروازہ میں مقیم ہیں۔ عدالت عالیہ تیس جون کو اس درخواست کی دوبارہ سماعت کرے گی۔ بھارت سے رہا ہوکر آنےوالے بیشتر پاکستانی قیدیوں کو پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیاں فوری طور پر اپنی تحویل میں لے لیتی ہیں۔ پندرہ سال بھارت میں قید کاٹ کر آنےوالے ایک کشمیری شخص پاکستان تو واپس پہنچ گئے ہیں لیکن ان کے بیوی بچوں کے بقول وہ ان کی بجائے سکیورٹی ایجنسیوں کے پاس ہیں۔ text: اب انہیں’ایکسٹرا‘ نہیں کہا جاتا بلکہ ہالی وڈ والے انہیں’پس منظر اداکار‘ کہہ کر بلاتے ہیں۔ تاہم فیچر فلموں اور ٹی وی پروگراموں میں بطور انسانی ’وال پیپر‘ کام کرنے والے ان اداکاروں کا بس نام ہی بدلا ہے۔ وہ آج بھی ہالی وڈ کی سیڑھی کے نچلے ترین پائے پر ہیں۔ نہ ہی انہیں کوئی یاد رکھتا ہے اور وہ تاعمرگمنام رہتے ہیں۔ لیکن پھر بھی میرے جیسے ان افراد کے لیئے جن کے پاس جوش وافر اور تجربہ کم ہے یہ کردار وہ واحد راستہ ہیں جن کی مدد سے ہالی وڈ کی دنیا میں قدم رکھا جا سکتا ہے۔ شاہد یہی وجہ تھی کہ میں نےگزشتہ ہفتے اپنے آپ کو دنیا کی مشہور ٹیلنٹ ایجنسی’سینٹرل کاسٹنگ‘ کے دفاتر کے باہر اس لمبی قطار میں پایا جس میں کام کے لیئے خود کو رجسٹر کروانے والے افراد موجود تھے۔ جب میں وہاں پہنچا تو گو کہ دفاتر کھلے ہی تھے لیکن پھر بھی وہاں بہت رش اور گرمی تھی۔ وہاں پر بھانت بھانت کے لوگ جمع تھے جن میں پنشنر، بزنس مین، باڈی بلڈر، گینگسٹر، ماڈل اور آوارہ سبھی شامل تھے۔ یہ نوع انسانی کی ایک بہت بڑی تصویر کی مانند لگ رہا تھا۔ انگریزوں کے برعکس پُر امیدی امریکیوں کے ڈی این اے میں پائی جاتی ہے۔ رون ڈی سنزو اس پُرامیدی کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ چالیس کے پیٹے میں ہونے کے باوجود رون کا جسم ایک ایسے شخص کا سا ہے جو اپنے فارغ وقت کا ہر لمحہ ورزش گاہ میں گزارتا ہے۔ رون کی مسکراہٹ بہترین ہے اور اس کی نیلی آنکھوں سے جوش و جذبہ پھوٹتا ہے۔ مارٹن سارسس کی فلم ’کیسینو‘ میں رابرٹ ڈی نیرو اور شیرون سٹون کے ساتھ کام کرنے کے بعد رون لاس اینجلس میں رہنے لگا ہے اور اب وہ اپنی روزی ایک بطور پس منظر اداکار کماتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک ایسی زندگی ہے جس میں فلم سیٹ پر بہت انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن رون کا کہنا ہے کہ وہ خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین شخص سمجھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے اب بہتری کی گنجائش صرف یہ ہے کہ وہ فلم میں مکالمے ادا کرے، اپنا ایک ٹریلر خریدے اور ایک سو چھبیس ڈالر روزانہ سے کچھ زیادہ کمائے۔ ہماری بات چیت کے دوران کمرے میں موجود افراد میں اضافہ ہونے لگا۔’سینٹرل کاسٹنگ‘ کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہاں سے کسی کو لوٹایا نہیں جاتا۔ یہ آپ سے نہ تو ریفرنس مانگتے ہیں اور نہ ہی آپ کے تعلیمی کیرئر کے متعلق پوچھتے ہیں۔ نہ کوئی اس بارے میں فکر مند ہوتا ہے کہ آپ کیسے دکھائی دیتے ہیں یا آپ کی آواز کیسی ہے کیونکہ پس منظر فنکاروں کی اس گمنام دنیا میں سب کے لیئے کام موجود ہے۔ ’سینٹرل کاسٹنگ‘ اپنے طریقے سے ہزاروں افراد کا وہ’امریکن ڈریم‘ پورا کرنے میں مدد دیتی ہے جسے پلکوں پر سجائے وہ ہالی وڈ آتے ہیں۔ اب جیسے رون اگلے چند ہفتوں تک ’جارجیا رولز‘ کے سیٹ پر کام کرے گا میں اپنےگھر میں فون کی گھنٹی بجنے کا منتطر رہوں گا۔ بی بی سی کے صحافی ڈیوڈ ولس ہالی وڈ میں قسمت آزمائی کے لیئے بی بی سی سے چھ ماہ کی چھٹی پر ہیں۔ انہوں نے اپنی تازہ ترین ڈائری فلمی’ایکسٹراز‘ کی دنیا پر لکھی ہے۔ text: ٹریور بیلیس نے الیسٹر کک کی بیٹنگ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی صبرواستقامت اور توجہ کانتیجہ ہے یاد رہے کہ انگلینڈ کو پہلا ٹیسٹ جیتنے کے لیے انیس اوورز میں ننانوے رنز کا ہدف ملا تھا اور جب کھیل کم روشنی کے سبب ختم کیا گیا تو اسے جیتنے کے لیے آٹھ اوورز میں صرف پچیس رنز درکار تھے۔ انھوں نے کہا کہ انگلینڈ کی ٹیم کو کم روشنی سے متعلق قوانین کا علم تھا اور ہر ایک کو ان قوانین پر عمل کرنا ہے۔ وہ ان قوانین سے خوش ہیں۔ ٹریور بیلیس نے کہا کہ دوسرے دن کھانے کے وقفے پر اگر یہ کہا جاتا کہ یہ ٹیسٹ کونسی ٹیم جیتے گی تو وہ انگلینڈ کی ٹیم نہیں تھی۔ انھوں نے کہا کہ عادل رشید نے وہی پرفارمنس دی جس کے بارے میں ہم سوچ رہے تھے۔ پہلی اننگز میں اس وکٹ پر سپن بولنگ آسان نہ تھی اور یہ صرف عادل رشید کے ساتھ ہی نہیں دوسرے سپنرز کے ساتھ بھی ہوا لیکن دوسری اننگز میں عادل نے انتہائی متاثرکن بولنگ کی۔ ٹریور بیلیس نے الیسٹر کک کی بیٹنگ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی صبرو استقامت اور توجہ کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ٹیموں میں بہت ہی اچھے بیٹسمین موجود ہیں لیکن کک نے میدان میں چار دن رہ کر اپنی توجہ اور انہماک کا بھرپور مظاہرہ کیا اور یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ انھوں نے اس طرح کی بیٹنگ کی ہے۔ ابوظہبی کی وکٹ کے بارے میں ٹریور بیلیس کا کہنا ہے کہ اس میں مزید پیس ہونا چاہیے تھا۔ پاکستانی ٹیم میں لیگ سپنر یاسر شاہ کی واپسی کے بارے میں انگلینڈ کے کوچ کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹسمین یاسر شاہ کو اعتماد سے کھیلنے کے لیے تیار ہیں۔ انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے کوچ ٹریور بیلیس نے ابوظہبی ٹیسٹ نہ جیتنے کو بدقسمتی قرار دیا ہے لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی ٹیم بہت اچھا کھیلی۔ text: ’آج یا کل آئین ساز کمشن کے سُنی ارکان کے ناموں کا اعلان کر دیا جائے گا جس کے بعد اس کمشن کو نمائندہ حیثیت حاصل ہو جائے گی۔‘ بی بی سی اردو سروس کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ یہ عراق میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کے لیے ایک بڑی کامیابی ہو گی جس سے ملک کی سیاسی اور سکیورٹی صورت حال پر بھی اچھا اثر پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کا مسودہ مکمل ہونے کے بعد اس پر ریفرنڈم کرایا جائے گا اور اگر عراقی عوام اس کو منظور کر دیتے ہیں تو اس کے تحت نئے انتخابات کرائے جائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگرچہ عراق میں اقوام متحدہ کی امدادی مشن تمام عراقی سیاسی جماعتوں اور گروپوں کے ساتھ مذاکرات کرتا رہتا ہے لیکن مزاحمت کاروں کے کسی گروپ کے ساتھ اس کا براہ راست رابطہ نہیں ہوا ہے۔ اشرف جہانگیر قاضی نے عراق میں سکیورٹی کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ بغداد سمیت عراق کے وسطی علاقوں اور صوبہ انبار میں امن و امان کی صورت حال بہت تشویش ناک ہے۔ انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے اقوام متحدہ اور امریکی فوج کے درمیان اختلافات کے حوالے سے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ عراق میں انسانی حقوق کی موجودہ حالت کی اصل وجہ امن و امان کی صورت حال ہے۔ ’تاہم ہماری کوشش ہے کہ جہاں بھی سکیورٹی آپریشن کی ضرورت ہو وہاں طاقت کا ضرورت سے زیادہہ استعمال نہ کیا جائے اور سویلین کا خاص طور پر خیال رکھا جائے۔ آپریشن میں زخمی ہونے والوں کو طبی امداد پہنچائی جائے اور گرفتار ہونے والوں کے انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے۔‘ مسٹر جہانگیر اشرف قاضی نے کہا کہ ہم عراق وزارت انصاف اور وزارت داخلہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں اور عراق کے مختلف حصوں میں ہونے والے سکیورٹی آپریشنوں کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔ عراق میں اقوام متحدہ کے نمائندے اشرف جہانگیر قاضی نے امید ظاہر کی ہے کہ سُنی عرب جلد ہی پارلیمنٹ کی طرف سے قائم کیے جانے والے آئین سازکمشن میں شمولیت کا اعلان کر دیں گے۔ text: اس سے قبل اسلامی گروپ کے مسلح بازو نے کہا تھا کہ پیر کو اسرائیل میں ہونے والے خود کش بم حملے کا وہ ذمہ دار ہے۔ حماس کے سات ارکان جنوبی غزہ میں ایک فضائی حملے میں مارے گئے جبکہ دو افراد غزہ اور مصر کی سرحد پر گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ حماس کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اس کے سات افراد اس وقت میزائل سے ہلاک ہوئے جب وہ ایک سکیورٹی احاطے میں نماز ادا کر رہے تھے۔ پیر کو ڈیمونا میں خود کش حملہ ہوا تھا جس میں ایک خاتون اور دو بمبار مارے گئے تھے۔ حماس کی طرف سے دو ہزار چار کے بعد یہ اس طرح کا پہلا حملہ تصور کیا جا رہا ہے۔ تاہم بمباروں کی شناخت کافی الجھاؤ کا باعث ہے کیونکہ مخالف گروپوں نے اس حملے کی ذمہ داری کا دعویٰ کیا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ حملہ آور غربِ اردن کے شہر ہیبرون سے داخل ہوئے تھے۔ تاہم العقصیٰ مارٹر برگیڈ کا کہنا ہے کہ حملہ آور غزہ سے آئے تھے جہاں تئیس جنوری کو غزہ کا بارڈر رفاہ کے قریب سے پار کیا گیا تھا اور اسرائیلیوں کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ فلسطینی شدت پسند مصر کے راستے دراندازی کریں گے۔ اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان کے مطابق منگل کا فضائی حملہ جو رفاہ کے قریب عمل میں آیا ان راکٹ حملوں کا جواب تھا جو اسرائیلی شہر سدیروٹ پر داغے گئے تھے۔ اسرائیلی حملے کے بعد اسرائیلی علاقوں میں مزید راکٹ گرے اور حماس نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ مزید کارروائی کرے گی۔ حماس جس کی غزہ پر حکومت ہے، فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے اسرائیل سے مذاکرات کے مخالف ہے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ میں ایک حملے میں حماس کے نو ارکان کو ہلاک کر دیا ہے۔ text: حراست میں لیے گئے دونوں بھائیوں پر یہ الزام ہیں انہوں نے ہاتھ سے لکھے ہوئے ایسے پملٹ تقسیم کروائے ہیں جن پر توہین آمیز عبارتیں درج تھیں۔ گرفتار ہونے والوں میں بتیس سالہ راشد ایمونل اور ان کا چوبیس سالہ چھوٹا بھائی ساجد ایمونل شامل ہیں۔ فیصل آباد کے پولیس اسٹیشن سول لائن میں درج کیے گئے مقدمہ کے مدعی خرم کا کہنا ہے کہ فیصل آباد لاری اڈے پر ایسے پمفلٹ تقسیم کیے جارہے تھے جن پر توہین آمیز عبارت لکھی ہوئی اور ہاتھ سے لکھے گئے ان پمفلٹوں پر دو افراد کے نام ان کے موبائیل نمبر بھی درج تھے۔ مدعی کے مطابق پملٹ پر لکھے نمبروں پر اس نے فون کیا اور ان سے یہ کہا کہ وہ ان کو عطیات دینا چاہتا ہے جس پر وہ دونوں بھائی سرکلر روڈ پہنچ گئے جہاں پر سادہ لباس میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے انہیں حراست میں لیا۔ بی بی سی اردو کے نامہ نگار عبادالحق کا کہنا ہے کہ پولیس دونوں بھائیوں کا عدالت سے جسمانی ریمانڈ لینے کے بعد اب ان سے تفتیش کررہی ہے۔ انسانی حقوق کی ایک غیر سرکاری تنظیم ہارمنی فاؤنڈیشن کے عہدیدار عاطف جمیل کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کے جواب میں مسلمانوں کے ایک ہجوم نے مقامی چرچ کے باہر مظاہرہ کیا اور چرچ کے دروازے پر پتھراؤ بھی کیا ۔ان کےبقول چرچ کے دروازے پر پتھراؤ کرنے پر پولیس کو کارروائی کے لیے درخواست دے دی گئی ہے۔ عاطف جمیل کا کہنا ہے کہ پولیس نے توہین رسالت کے الزام میں دو عیسائی بھائیوں کے خلاف جو مقدمہ درج کیا ہے وہ بے بیناد ہے اور یہ مقدمہ دونوں بھائیوں کے خلاف ایک سازش ہے کیونکہ بقول ان کے کسی نے جان بوجھ کر دونوں بھائیوں کے نام اور موبائل فون نمبر ان توہین آمیز پملٹوں پر لکھے ہیں۔ فیصل آباد کے صحافی محمد سلیم نے بی بی سی کو بتایا کہ اس مقدمے کے اندراج کے بعد وارث پورہ کے علاقے میں مسلم اور عیسائی آباد کی درمیان کشیدگی کا ماحول رہا۔ مسلمانوں نے عیسائی آبادی کے قریب احتجاج کرتے ہوئے ٹائر جلائے اور مظاہرین نے ملزموں کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ پولیس کی نفری کی وجہ سے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ خیال رہے کہ تعزیرات پاکستان کے تحت دوسو پچانوے سی کی سزا موت ہے۔ پاکستان میں توہین رسالت کا یہ قانون فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں بنایا گیا تھا اور تب سے انسانی حقوق کی تنظیمیں اسے تنقید کا نشانہ بناتی ہیں اور اسے ختم کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال کیا جاتا ہے جس کا نقصان پاکستان کی اقلیتوں کو پہنچتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر مقدمات ذاتی انتقام کی بنیاد پر درج کیے جاتے ہیں۔ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں پولیس نے دوعیسائی بھائیوں کے خلاف توہین رسالت کے الزام میں مقدمہ درج کرنے کے بعد انہیں گرفتار کرلیا ہے۔ text: پولیس کے تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ شفیلہ احمد کی لاش کوسیج وک میں چھپایا گیا تھا ۔ شفیلیہ پچھلے سال ستمبر سے لاپتہ تھیں۔ جاسوسبں نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ شفیلہ کی شناخت کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کئے گئے۔کچھ دیر کے بعد شفیلہ کے والدین نے اپنے وکیل کے ذریعے ایک بیان میں کہا کہ اپنی بیٹی کے قتل میں انکا کوئی ہاتھ نہیں۔اور اگر ان پر یہ الزام لگایا گیا تو وہ عدالت میں اپنا دفاع کریں گے۔ شفیلہ کے والدین افتخار احمد اور فرزانہ بھی اپنے وکیل کے ساتھ موجود تھے۔ چیف انسپیکٹر گیرینٹ جونز نے اس سے قبل اس بات پر زور دیا کہ وہ اس قتل کی تحقیقات میں کھلے ذہن کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور ہر پہلو کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ شفیلہ پاکستان سے واپس آنے کے بعد سے لاپتہ تھی جہاں اسکے لئے لڑکا پسند کیا گیا تھا۔چیف انسپیکٹر کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اسکی لاش کو جان بوجھ کر چھپایا گیا تھا۔ جس علاقے سے شفیلہ کی لاش برآمد ہوئی وہ سیاحوں کے لئے مشہور ہے۔ انہوں نے اس بات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ شفیلہ عزت کے نام پر ہونے والے قتل کا شکار ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس کی تحقیقات ایک عام قتل کے مقدمے کی طرح کر رہے ہیں۔ شفیلہ کے والدین کو دسمبر میں اپنی بیٹی کو اغوا کرنے کے شبہ میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔ سترہ سال کی شفیلہ کے والدین نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اسکی موت میں انکا ہاتھ ہے۔ شفیلہ کی لاش دریائے کیمبرین سے برامد ہوئی ہے۔ text: پہلی اطلاعات رپورٹ یا ایف آئی آر اسلام آباد میں ایف آئی اے میں قائم خصوصی تحقیقاتی یونٹ کے پاس درج کی گئی ہے۔ اس ایف آئی آر میں اس سازش کے مبینہ سرغنہ حماد امین سمیت ذکی الرحمان لکھوی اور ضرار شاہ کے نام شامل ہیں تاہم اس میں اجمل قصاب کا نام نہیں ہے۔ نامزد آٹھ میں سے چھ افراد حکومت کی تحویل میں ہیں۔ وزارت داخلہ میں ہونے والی ایک اخباری کانفرنس میں مشیر داخلہ رحمان ملک نے اب تک کی تحقیقات کی تفصیل بتاتے ہوئے تسلیم کیا کہ ان ملزمان میں سے چند کا تعلق کالعدم لشکر طیبہ سے ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ اس سازش میں ملوث کتنے افراد کا تعلق پاکستان سے ہے۔ دلی سے بی بی سی کے خصوصی نامہ نگار شکیل اختر نے بتایا ہے ہندوستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان وشنو پرکاش نے پاکستان کے جواب پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے ’ہم نے رحمان ملک کا بیان میڈیا کے ذریعے دیکھا ہے۔ اسلام اباد میں ہمارے ہائی کمشنر پاکستان کے دفتر خارجہ جائیں گے۔‘ انہوں نے کہا ’ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ وہاں ہمیں پاکستان سے باضابطہ طور پر جواب ملے گا۔ وہ جب ہمیں مل جائے گا تو اس کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس پر اپنا رد عمل دیں گے۔‘ رحمٰن ملک نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ اڑتیس سالہ حماد امین ولد محمد امین کا تعلق جنوبی پنجاب سے بتایا گیا ہے تاہم وہ گرفتاری سے قبل کراچی میں ایک کرائے کے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ ان افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی، سائبر کرائمز ایکٹ اور تعزیرات پاکستان کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے بھارت کو تحقیقات کو آگے بڑھانے اور ان افراد کے خلاف مقدمہ مضبوط کرنے کے لیے بھارت سے تیس سوالات کے جواب مانگے ہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ اس مقدمے میں ملوث افراد کو سزا دلانے کے لیے بھارت کا تعاون ضروری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ممبئی حملے میں استعمال ہونے والی کشتی کا انجمن پاکستان میں جس دکان سے خریدا گیا تھا اس کی تصدیق ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جس بینک سے رقم کی ادائیگی یا موبائل فون سمز استعمال ہوئی وہ بھی تلاش کر لیے گئے ہیں۔ تفتیش کاروں کو شک ہے کہ ان ملزمان میں سے ایک جو سمجھوتہ ایکسپریس میں ملوث تھا وہ اس حملے میں بھی ملوث ہوسکتا ہے۔ تاہم انہوں نے اس ملزم کی شناخت نہیں کروائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ممبئی سازش کے تانے بانے سپین، اٹلی اور امریکہ سے بھی ملتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سپین میں بارسلونا سے بھی انٹرنٹ ڈومین خریدا گیا جس کی دو سو ڈالر سے زائد کی ادائیگی ایک شحض جاوید اقبال نے کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اس شحض کو کسی بہانے پاکستان طلب کرکے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مشیر داخلہ نے کہا کہ ’دکن مجاہدین‘ کی جانب سے ای میل جس میں ممبئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی مبینہ طور پر ضرار شاہ کی تھی جو کہ اس سازش کے موصلااتی رابطہ کار تھے۔ انہوں نے اس سازش میں مبینہ طور پر ملوث دیگر افراد میں حماد کے علاوہ خان نامی ایک اور شخص ریاض کے بھی نام لیا ہے۔ ’ان تین افراد نے اجمل قصاب اور دیگر افراد کو سمندر کے ذریعے ممبئی پہنچنے میں مدد فراہم کی‘۔ رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ حملے میں استعمال ہونے والی تین کشتیاں اور ان کے عملے کی شناخت بھی کر لی گئی ہے۔ بھارت کے پاکستان میں مقیم ہائی کمشنر برتا ستیاپال کو اخباری کانفرنس سے قبل تحقیقات کے اب تک کے نتائج سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ تاہم وزارت خارجہ آج یہ باضابطہ طور پر بھارتی حکومت کے حوالے بھی کر دے گی۔ بھارت سے مزید تعاون کی اپیل کرتے ہوئے رحمان ملک نے کہا کہ ان کی تفتیش میں اب بھی کچھ کمی ہے۔ اسے پورا کرنے کے لیئے بھارت سے اضافی معلومات بھی طلب کی ہیں۔ جو معلومات طلب کی گئی ہیں ان میں اجمل قصاب کا عدالتی بیان، اس کا ڈی این اے نمونہ، اس اور دیگر نو حملہ آوروں کی انگلیوں کے نشانات، حملہ آوروں کے بیرون ملک اور آپس میں گفتگو کا ریکارڈ، بھارت سے خریدی گئی موبائل سمز کی تفصیل اور بڑی تعداد میں اسلحے سے لیس حملہ آور کیسے ایک ربڑ بوٹ کے ذریعے ساحل تک پہنچ سکے شامل ہیں۔ ہلاک ہونے والے حملہ آوروں کی تصاویر اور معلومات پاکستان کو مہیا کی گئی ہیں وہ بھی مشیر داخلہ کے مطابق ان کی شناخت کے لیئے ناکافی ہیں۔ حکومت پاکستان نے ممبئی حملوں کی سازش کے کچھ حصے کی پاکستان میں تیاری کا پہلی مرتبہ اعتراف کرتے ہوئے اس میں مبینہ طور پر ملوث آٹھ افراد کے خلاف آج اسلام آباد میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔ text: سرکاری طور پر تامل ٹائیگرز کے نظریاتی رہنما اور مشیر کہلانے والے انٹن بالا سنگھم نے گزشتہ پچیس سالوں میں سری لنکا کی تامل اقلیت کے لیے بے مثال سیاسی جدوجہد کی۔ نرم گو طبیعت کے مالک بالا سنگھم سالوں تک تامل ٹائیگرز کا ’عوامی چہرہ‘ بن کر رہے۔ نومبر میں اڑسٹھ سالہ انٹن بالاسنگھم کو پتے کے کینسر کا پتہ چلا تھا اور یہ کینسر ان کے جگر، پھیپھڑوں، پیٹ اور ہڈیوں میں پھیل چکا تھا۔ وہ تامل ٹائیگرز کی سری لنکا کی فوج کے خلاف جنگ میں سینئر مذاکرات کار کا کردار ادا کرتے تھے اور تامل باغیوں کے اعتدال پسند رہنما سمجھے جاتے تھے۔ اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں بالاسنگھم کولمبو کے ایک اخبار میں صحافی کے طور پر کام کرتے تھے۔ بعد میں انہوں نے مترجم کی حیثیت سے برطانوی سفارتخانے میں نوکری کی۔ بالا سنگھم کے پاس برطانوی شہریت تھی اور وہ لندن میں مقیم تھے۔ حالانکہ برطانیہ تامل ٹائیگرز کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ بالا سنگھم تامل علیحدگی پسند تحریک کے پرامن حل کے لیے ناروے اور دیگر بین الاقوامی طاقتوں کا اولین رابطہ تھے۔ تامل ٹائیگرز کے فوجی ترجمان رسایا ایلنتھریا کے بقول تامل لیڈر شپ انٹن بالاسنگھم کی اعزازی تدفین کے انتظامات کرنے میں مصروف ہو گئی ہے۔ تامل ترجمان نے بالاسنگھم کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ایک گرو کی طرح ان کی عزت کرتے تھے۔ ہم سب ان کی تصانیف پڑھتے تھے اور انہوں نے ہمیں اس جدوجہد کے لیے متحرک کیا‘۔ علالت کے دوران بالاسنگھم نے تامل باغیوں کی حامی ایک ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنی بیماری کو ایک ذاتی سانحہ قرار دیا تھا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اگر میری تکلیف کا میرے لوگوں کی تکالیف کے وسیع سمندر سے موازنہ کیا جائے تو میری تکلیف سمندر میں ایک کنکری کی مانند ہے‘۔ سری لنکا میں تامل علیحدگی پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان اس سال پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ سری لنکا کے باغی تامل ٹائیگرز کے سینئر مذاکرات کار انٹن بالاسنگھم لندن میں انتقال کر گئے ہیں۔ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ text: ابھی تک کچھ بھی واضح نہیں ہے: جواد ظریف انھوں نے کہا کہ دونوں فریق بہت سے مشکل امور پر اُس مقام پر نہیں پہنچے ہیں جہاں انھیں ہونا چاہیے تھا۔ ادھر ویانا میں جاری مذاکرات میں شریک اُن کے ایرانی ہم منصب جواد ظریف کا کہنا تھا کہ ابھی تک کچھ بھی واضح نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین اور جرمنی جوہری پروگرام پر ایران کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں جن میں گذشتہ منگل کی ڈیڈلائن تک اتفاق رائے نہ ہونے پر ایک ہفتے کی توسیع کر دی گئی تھی۔ گذشتہ روز ویانا میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے جان کیری کا یہ بھی کہنا تھا کہ سمجھوتہ اب بھی ممکن ہے۔ انھوں نے کہا: ’اگر آئندہ دو روز میں تیزی کے ساتھ سخت فیصلے کر لیے جائیں تو اسی ہفتے سمجھوتہ ہو سکتا ہے کیونکہ پچھلے کچھ روز میں بہت پیش رفت ہو چکی ہے۔‘ لیکن ساتھ ہی اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر اہم ترین امور پر کسی سمجھوتے کی خواہش بالکل ہی دکھائی نہیں دیتی اور رویہ غیرلچکدار رہتا ہے تو امریکہ بغیر کسی سمجھوتے کے ہی اٹھ جانے پر تیار ہے۔ اس کے مقابل ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ اختلافات ابھی موجود ہیں لیکن فریقین سخت محنت کر رہے ہیں اور سمجھوتے کے بہت قریب ہیں۔ مذاکرات میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین امریکہ ، روس ، چین ، فرانس، اور برطانیہ کے ساتھ جرمنی ایرانی جوہری پروگرام کو اِس حد محدود کرنے کے کسی سمجھوتے تک پہنچنے کے مذاکرات کر رہے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں کا حصول روکنا یقینی بنایا جا سکے۔ ایران صرف اُسی صورت میں جوہری پروگرام ختم کرے گا جب اُس پر عائد پابندیاں اٹھا لی جائیں گی: آیت اللہ خامنہ ای ایران ہمیشہ سے یہ اصرار کرتا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن اور توانائی کے حصول کے لیے ہے۔ وہ کسی بھی سمجھوتے کے عوض خود پر عائد اُن پابندیوں کا خاتمہ چاہتا ہے جن کی وجہ سے اُس کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ابھی تک دونوں فریق اِس پر متفق نہیں ہو سکے ہیں کہ ایران کو کتنی جوہری سرگرمیوں کی اجازت دی جائے اور اُس پر عائد پابندیاں کب اٹھائی جائیں۔ جمعے کے روز جواد ظریف نے کہا تھا کہ اُن کا ملک کسی سمجھوتے کے لیے تیار ہے اور مذاکرات کار کسی پائیدار حل کے اتنا قریب کبھی نہیں پہنچے۔ لیکن ساتھ ہی ایک ویڈیو پیغام میں انھوں نے مذاکرات میں دھونس اور دباؤ کے ہتھکنڈے ختم کرنے پر بھی زور دیا تھا۔ ایران کے تمام ریاستی امور میں رہبرِ اعلٰی آیت اللہ خامنہ ای کو حتمی فیصلے کا اختیار حاصل ہے۔ انھوں نے گذشتہ ہفتے مغربی ملکوں کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا ایران صرف اُسی صورت میں اپنے جوہری پروگرام کو ختم کرے گا جب اُس پر عائد پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔ ایران پر عائد امریکی پابندیوں کے خاتمے سے پہلے ویانا میں ہونے والے کسی بھی ممکنہ سمجھوتے کو امریکی کانگریس کی منظوری کے لیے بھی پیش کیا جائے گا۔ امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران کے ساتھ منگل کی ڈیڈ لائن تک حتمی جوہری سمجھوتے پر پہنچنا ہے تو مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے۔ text: ہلاک ہونے والوں میں بعض عرب باشندوں کے علاوہ زیادہ تر عام شہری بتائے جاتے ہیں جس میں پانچ روز قبل جنوبی وزیرستان کے انگور اڈہ میں امریکی فوج کی مبینہ ’زمینی کاروائی‘ میں بیس عام لوگوں کی ہلاکت بھی شامل ہے۔ سرحد پار سے امریکی میزائل حملے ویسے توگزشتہ کئی سالوں سے تواتر کے ساتھ ہوتے رہے ہیں مگر نئی حکومت کے قیام اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بحری بیڑے پر امریکی فوج کے سربراہ سے ملاقات اور کابل میں ہونے والے سہ فریقی کمیشن کے اجلاس میں خصوصی شرکت کے بعد ان حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اگرچہ انگور اڈہ میں ہونے والی زمینی کارروائی پر پاکستانی فوج، وزارت خارجہ، گورنر ہاؤسں پشاور، قومی اسمبلی، پنجاب اور صوبہ سرحد کی اسمبلیوں نے مذمتی قراردادیں منظور کر کے سخت احتجاج کیا مگر اس احتجاجی آواز کی گونج فضاء میں ہی تھی کہ چوبیس گھنٹے بعد شمالی وزیرستان میں ایک اور میزائل حملہ کیا گیا جس سے باآسانی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوج، وزارت خارجہ اورمنتخب اسمبلیوں کے احتجاج کو کتنی وقعت دیتا ہے۔ اپنی احتجاجی آواز کو صدا بہ صحرا ثابت ہوتے دیکھ کر پاکستانی فوج نے ایسے کسی بھی واقعہ کے متعلق اب میڈیا سے بظاہر’ جان چھڑانے‘ کے لیے محض تین جملوں کے ایک ’سدا بہار‘ بیان کا سہارا لینا شروع کر دیا ہے کہ’ہمیں دھماکے کے بارے میں اطلاعات ملی ہیں مگر اس کی نوعیت معلوم کرنے کے لیے تحقیقات جاری ہیں اور اس بارے میں بہت جلد تفصیلات جاری کر دی جائیں گی‘۔ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران زیادہ حملے شمالی وزیرستا ن میں ہوئے ہیں جن کی تعداد پانچ بنتی ہے اور تازہ حملے میں طالبان کے کمانڈر جلال الدین حقانی کے مدرسے کو نشانہ بنایا گیا ہے جسے اب تک کا سب سے ’اہم ٹارگٹ‘سمجھا جا سکتا ہے۔ مولانا جلال الدین حقانی کا شمار امریکہ کو مطلوب سب سے اہم افراد میں کیا جاتا ہے۔ افغانستان میں انیس سو اناسی میں روسی فوج کے داخل ہونے کے بعد جن ’جہادی کمانڈروں‘ نے امریکہ، پاکستان اور بعض دیگر یورپی اور اسلامی ممالک کی مدد سے جہاد شروع کیا تھا ان میں مولانا جلال الدین حقانی سب سے اہم کمانڈر کے طور پر ابھر کے سامنے آئے تھے۔ انہوں نے افغانستان سے ہجرت کر کے شمالی وزیرستان میں سکونت اختیار کر لی تھی اور یہاں سے’مجاہدین کو تربیت اور اسلحہ‘ دے کر انہیں افغانستان بھیجا جانے لگا۔ قبائل میں انہیں انتہائی عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور سنہ انیس سو چھیانوے میں افغانستان پر طالبان کے دورِ حکومت میں انہیں قبائلی علاقوں اور سرحدوں کا وزیر مقرر کیا گیا۔ جلال الدین حقانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے پاکستان کے ساتھ انتہائی قریبی دوستانہ تعلقات ہیں۔ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد وہ شمالی وزیرستان میں ہی مقیم رہے جہاں پر ان کے کئی مدرسے ہیں۔ جب پاکستانی فوج غیر ملکیوں کے تعاقب میں قبائلی علاقوں میں داخل ہوئی تب سے مولانا جلال الدین حقانی اپنے خاندان کے ہمراہ روپوش ہیں۔ پاکستانی فوج نے میرانشاہ میں قائم ان کے دو خالی مدرسوں کو بھی بم دھماکوں سے اڑا کر تباہ کر دیا تھا۔ مولانا جلال الدین حقانی ضعیف العمری کی وجہ سے گوشہ نشین ہوچکے ہیں اور ان کی جگہ ان کے تنتیس سالہ بیٹے خلیفہ سراج الدین حقانی نے لے لی ہے۔ سوال یہ ہے کہ تازہ حملہ میں مولانا جلال الدین حقانی کے مدرسے کو کیوں نشانہ بنایا گیا ہے اور جواب ڈھونڈھنے کے لیے افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی مزاحمت پر ایک طائرانہ نظر دوڑانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان سے متصل افغانستان کے جنوب اور جنوب مشرق میں اتحادی افواج کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے اتحادی افواج نے افغانستان کو پانچ مختلف زونز میں تقسیم کیا ہے۔افغانستان کے جن علاقوں میں قدرے امن ہے وہاں پر جرمنی اور کینیڈا کے فوجیوں کو تعینات کیا گیا ہے جبکہ پاکستان کی سرحد کے ساتھ جنوب اور جنوب مشرق میں اسّی فیصد امریکی فوج طالبان جنگجوؤں سے برسرِ پیکار ہے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں شمالی اور جنوبی وزیرستان میں سراج الدین حقانی ہی افغانستان میں موجود طالبان کو تربیت، اسلحہ اور خودکش حملہ آور مہیا کر رہے ہیں۔ پست قامت سراج الدین حقانی کا سرحد کے آرپار سرگرم طالبان میں اثرورسوخ بہت زیادہ ہے اور انہوں نے ہمیشہ طالبان گروپوں کے اندرونی اختلافاتات کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے کئی مواقع پر قبائلی علاقوں میں طالبان جنگجوؤں اور پاکستانی فوج کے درمیان ہونے والی بات چیت میں بذاتِ خود شرکت کر کے مصالحت کرائی ہے۔ سرکاری اور قبائلی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سال کے اوائل میں جب پاکستانی فوج نے جنوبی وزیرستان میں طالبان کے خلاف کارروائی شروع کی تو سراج الدین حقانی نے رزمک فوجی چھاؤنی میں بیٹھ کر فریقین کے درمیان مصالحت کرائی تھی۔ امریکی اور اتحادی افواج کا کہنا ہے افغانستان کے صوبہ خوست، پکتیا، پکتیکا اور غزنی میں انہیں جس مزاحمت کا سامنا ہے اس میں بقول ان کےپاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود سراج الدین حقانی کے نیٹ ورک کا ایک اہم کردار ہے۔ چند ماہ قبل کابل میں بھارتی سفارت خانہ پر جو خودکش حملہ ہوا تھا،اس وقت بھی امریکہ اور بھارت نے الزام لگایا تھا کہ مولانا جلال الدین حقانی کی مدد سے ہی پاکستان کی خفیہ ایجنسی’ آئی ایس آئی’ نے اس حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ تاہم پاکستان نے بارہا اس الزام کی تردید کی تھی۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں شمالی اور جنوبی وزیرستان میں سرحد پار سے مبینہ’امریکی میزائل حملوں‘ میں گزشتہ ڈھائی ہفتوں سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اس دوران ہونے والے آٹھ حملوں میں پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ text: علی لاریجانی نے یہ بیان ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مغربی ممالک کی تجویز کا مسودہ وصول کرنے کے بعد دیا ہے۔ یہ مجوزہ منصوبہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل اراکین اور جرمنی نے پیش کیا ہے۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ حاویے سولانا نے تہران کے دورے کے دوران یہ مشودہ ایرانی حکومت کے حوالے کیا ہے۔ ابھی ان تجاویز کی تفصیل تو جاری نہیں کی گئی تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں سے ایک یہ ہوسکتی ہے کہ ایران کو ایک جوہری ری ایکٹر فراہم کیا جائے گا اور یہ یقینی بنایا جائے گا کہ ایران کو محدود مقدار میں یورینیم فراہم کیا جائے۔ تہران نے کہا ہے کہ اگرچہ وہ اس منصوبے پر عور کرے گا تاہم یورینیم کی افزودگی معطل نہیں کی جائے گی۔ علی لری جانی سے دو گھنٹہ طویل ملاقات کے بعد توقع ہے کہ حاویے سولانا ایران کے وزیر خارجہ منوچہر متقی سے بھی ملاقات کریں گے۔ ایرانی مذاکرات کار نے کہا ہے کہ ان کے مذاکرات تعمیری رہے اور تہران اس منصوبے کے بغور مطالعے کے بعد اس پر اپنا رد عمل ظاہر کرے گا۔ سولانا کا کہنا ہے کہ مغرب باہمی احترام اور اعتبار پر مبنی تعلقات کا نئے سرے سے آغاز کرنا چاہتا ہے۔ سولانا کا آمد سے قبل منوچہر متقی نے کہا تھا کہ اگر مغرب کا مقصد اس معاملے کو سیاسی رنگ دینا نہیں ہے تو پھر کسی معاہدے تک پہنچا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین اور ایران کے مابین ’شٹل ڈپلومیسی‘ شروع کی جائے گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی یورپی یونین گزشتہ سال والی اپنی غلطی نہیں دہرائے گی جب جوہری معاملے پر پیش کی گئی تجویز میں ایران کے نکتہ نظر کو نظر انداز کردیا گیا تھا۔ تہران میں بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ یہ بیانیورپی یونین کے منصوبے پر ایران کے مثبت رویے کو ظاہر کرتا ہے۔ واشنگٹن کا خیال ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ رکھتا ہے تاہم ایران کا اصرار ہےکہ اس کا جوہری پروگرام محض پر امن مقاصد کے لیئے ہے۔ ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے کہا ہے کہ ایران مغربی دباؤ کے تحت جوہری ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوگا۔ جوہری معاملات سے متعلق ایران کے مذاکرات کار اعلٰی علی لاریجانی نے کہا ہے کہ ایران کو حساس جوہری تحقیق روکنے کے بدلے میں جو مراعات پیش کی جارہی ہیں ان میں کچھ ابہامات کے ساتھ ’مثبت اقدامات‘ بھی ہیں۔ text: اس وقت سنجے دت بھی ایک سو تیئس ملزمان کے ہمراہ عدالت میں موجود تھے۔ سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی ) ممبئی بم دھماکوں کی تفتیش کر رہا ہے۔ سالم نے سی بی آئی تحویل میں جو بیان دیا تھا اس کے مطابق جنوری میں وہ ریاض صدیقی کے ساتھ گجرات گئے تھے اور وہاں سے ہتھیاروں کی کھیپ لائی گئی تھی۔ بیان کے مطابق انہیں یہ علم نہیں تھا کہ ان بند ڈبوں میں ہتھیار ہیں۔ انہیں لگا کہ چاندی سمگل کر کے لائی گئی ہے ہتھیاروں کی بابت انہیں سنجے دت کے گھر جا کر پتہ چلا۔ بیان کے ہی مطابق سنجے دت، بابا موسی چوان اور سمیر ہنگورا ہاتھ میں اے کے 56 رائفل اور ہتھ گولے لے کر دیکھ رہے تھے جس میں سے کچھ سنجے دت اور کچھ بابا چوان نے لئیے تھے۔ عدالت میں ابوسالم اور اس کے ساتھی ریاض صدیقی کے خلاف اضافی فرد جرم بھی داخل کی گئی۔اس معاملہ کی سماعت اب چودہ مارچ کو ہو گی۔ سنجے دت کے خلاف ابو سالم کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے سرکاری وکیل اجول نکم نے کہا کہ پولس کے پاس سنجے دت کے خلاف کافی ثبوت پہلے بھی تھے اور اب اس بیان سے سنجے دت کی مشکلیں بڑھ سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ مقدمہ برسوں سے چل رہا ہے اس لئے وہ عدالت میں اپیل داخل کریں گے کہ سالم اور ریاض کا مقدمہ علیحدہ چلایا جائے اور بقیہ تمام ملزمین کے بارے میں فیصلہ سنایا جائے ۔ بھارت کے قانون کے مطابق پولیس حراست میں دیئے گئے بیان کی عدالت میں کوئی اہمیت نہیں رہتی اور اکثر ملزمان اپنے اقبالیہ بیان سے عدالت میں یہ کہتے ہوئے انحراف کر جاتے ہیں کہ یہ بیان انہوں نے پولس کے دباؤ اور تشدد میں دیا تھا۔ سی بی آئی کو دیئے گئے اس بیان کے بارے میں سالم کے وکلاء اویس صدیقی اور اشوک سروگی نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ سالم سے بیان پولس دباؤ میں لیا گیا ہے۔ مافیا سرغنہ ابو سالم نے ممبئی سلسلہ وار بم دھماکوں کے بارے میں سی بی آئی کی تحویل میں جو بیان دیا تھا، ٹاڈا کی خصوصی عدالت میں اس بیان کی کاپی کو کھولا گیا۔ text: خفیہ کیمروں کی تلاش کے لیے خصوصی ٹیمیں مقرر ہیں جنوبی کوریا میں بیت الخلا اور لباس تبدیل کرنے کے کمروں میں خفیہ کیمروں کا نصب کیا جانا ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جہاں گذشتہ برس جاسوس کیمروں سے بننے والی پورن ویڈیو کے 6000 واقعات سامنے آئے۔ یہ ویڈیو عموماً آن لائن اپ لوڈ کر دی جاتی ہیں جن کے بارے میں متاثرہ خواتین کو علم بھی نہیں ہوتا۔ اسی بارے میں ٹرائل روم میں خفیہ کیمرہ: ’کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے‘ رواں برس کے آغاز میں دسیوں ہزار خواتین نے ان خفیہ کیمروں کے خلاف احتجاج کیا جس کے دوران ایسے پیغامات اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا ’میری زندگی تمہارے لیے پورن نہیں ہے۔‘ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ خواتین مسلسل اس خوف میں جی رہی ہیں کہ کہیں کسی خفیہ کیمرے اس ان کی عکس بندی کا فلم بندی نہ کی جا رہی ہوں۔ ان خفیہ کیمروں کے خلاف خواتین کے احتجاج بھی کیا ان خفیہ کیمروں کا نشانہ بننے والے افراد میں 80 فیصد خواتین ہیں۔ خبررساں اداے ژنہوپ کے مطابق سیول میں موجود عوامی ٹوائلٹ کا اب تک مہینے میں ایک بار معائنہ کیا جاتا تھا۔ تاہم اب ان ٹوئلٹس کی صفائی کرنے والے عملے کو بھی روزانہ ان کیمروں کے لیے جانچ کرنا ہوگی۔ اس سے پہلے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس کام میں ملوث افراد کو پکڑنا مشکل ہے کیونکہ وہ کیمرہ نصب کرنے کے پندہ منٹ بعد اسے ہٹا بھی سکتے ہیں۔ گذشتہ برس خفیہ کیمروں سے منسلک جرائم کے لیے 5400 افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ان میں سے بھی محض دو فیصد کو جیل ہوئی۔ ژنہوپ کے مطابق 50 حکومتی اہلکاروں کو خاص طور پر خفیہ کیمروں کی تلاش کے لیے مختص کیا گیا لیکن دو سال میں انہیں کوئی کیمرہ نہیں ملا۔ جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں حکام کا کہنا ہے کہ شہر کے عوامی ٹوائلٹس میں خفیہ کیمروں کے لیے روزانہ جانچ کی جائے گی۔ text: پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشمیر کی سیلف گورننس اور علاقے کو غیر فوجی قرار دینے کے معاملات کے بارے میں دونوں ممالک کے حکام کے درمیان گذشتہ کچھ عرصے سے بات چیت ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی دفتر خارجہ کا یہ کہنا کہ اس بارے میں پاکستان سے کوئی تجویز نہیں آئی ہے سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان کے مطابق اس بات چیت کے بارے میں اگر بھارتی دفتر خارجہ بے خبر ہے تو یقینا یہ ایک حیرانگی کی بات ہے۔ واضح رہے کہ بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کیے گیے ایک بیان میں کل کہا گیا تھا کہ چونکہ اس سلسلے میں کوئی تجویز نہیں آئی ہے اس لیے رد عمل کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھارت سیلف گورننس اور کشمیر کو غیر فوجی علاقہ بنانے پر بات چیت سے بچنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ امر باعث افسوس ہو گا۔ دفتر خارجہ کے مطابق کشمیر کے تناظر میں سیلف گورننس اور اس کو غیر فوجی علاقہ بنانے کی پاکستانی تجاویز کو کشمیری رہنماؤوں بشمول آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق کی حمایت حاصل ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک کو مسئلہ کشمیر کو خلوص، لچک اور جرات کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کوششیں کر رہا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان کے اس بیان کو غیر ضروری قرار دیا جس میں انھوں نے گلگت اور بلتستان کو بار بار کشمیر کے تناظر میں بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔ پاکستانی ترجمان کے مطابق کشمیر کے تناظر میں بھارتی قابض افواج کی طرف سے بڑے پیمانے پر کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اس تناظر میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھارت کے اس بیان پر حیرانگی کا اظہار کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اس مہینے کے اوائل میں ڈھاکہ میں پاکستان کے وزیر اعظم شوکت عزیز اور ہندوستان کے وزیراعظم منموہن سنگھ کی ملاقات میں کشمیر کے حوالے سے ’سیلف گورنینس‘ کا ذکر ضرور آیا تھا لیکن اس سلسلے میں کوئی تجویز نہیں پیش کی گئی تھی۔ text: اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی بکتر بند دستوں نے زبردست گولا باری کی آڑ میں لبنانی سرحد کو عبور کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسرائیلی وزارت دفع کا کہنا ہے کہ لبنان میں داخل ہونے والے اضافی دستے اسی علاقے میں کارروائیاں کریں گے جہاں وہ پہلے ہی برسرپیکار ہیں۔ اس سے پہلے اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے لبنان میں اپنی زمینی کارروائیوں کو لیطانی نہر تک توسیع دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ لبنان میں مزید پیش قدمی کے فیصلے کی منظوری اسرائیلی کابینہ کے بارہ میں سے نو موجود وزراء نے دی جبکہ تین نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ ایک اسرائیلی وزیر کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی تیس روز تک جاری رہ سکتی ہے جس سے کسی فوری جنگ بندی کے امکانات کم دکھائی دینے لگے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پندرہ اسرائیلی فوجی ایک سرحدی قصبے میں حزب اللہ جنگجوؤں کے ساتھ لڑائی میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ کسی ایک دن کے دوران اسرائیلی فوج کو پہنچنے والا سب سے بڑا جانی نقصان ہے۔ اسرائیلی فوج کو اس علاقے میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جسے ایک روز پہلے اس نے کی کنٹرول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اسرائیلی جنگی طیاروں نے جنوبی بیروت میں مزید اہداف کو نشانہ بنایا ہے جبکہ حزب اللہ نے اسرائیل میں سو سے زائد راکٹ فائر کئے۔ لبنان میں جاری جھڑپوں کے نتیجے میں اب تک لبنانی حکومت کے مطابق ایک ہزار کے قریب افراد مارے جا چکے ہیں جن میں سے زیادہ تعداد شہریوں کی ہے جبکہ اسی دوران سو سے زائد اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ پہلی قرارداد پر عرب لیگ کے اعتراضات کے بعد فرانسیسی اور امریکی سفارتکاروں نے مشرق وسطیٰ کے بحران کے حل کے لیئے ایک نئے مسودے پر کام شروع کر دیا ہے۔ منگل کے روز عرب لیگ کے وفد نے سلامتی کونسل کو بتایا تھا کہ موجودہ قرارداد سے مشرق وسطیٰ کا بحران حل نہیں ہو سکے گا۔ فرانسیسی صدر ژاک شیراک نے کہا ہے کہ امریکی تحفظات کے باوجود فوری جنگ بندی کے لیئے کوششیں ترک کرنا غیر اخلاقی عمل ہو گا۔ دوسری طرف اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی نمائندے نے کہا ہے کہ عرب اعتراضات کے بعد سلامتی کونسل کی قرارداد کے لیئے کی جانے والی سفارتی کوششیں انتشار کا شکار ہو گئی ہیں۔ حکومتی فیصلے کے چند گھنٹے بعد اسرائیلی فوج نے جنوبی لبنان میں نئی جنگی کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ text: سوموار کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ایک طرف برطانوی وزیر اعظم دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف انہوں نے الطاف حسین کو برطانیہ میں پناہ دے رکھی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ الطاف حسین کو پاسپورٹ برطانوی حکومت نے دیا ہوا جس وجہ سے وہ لندن میں بادشاہوں کی طرح رہ رہے ہیں۔ انہوں نےالزام عائد کیا کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے سب سے بڑے دہشت گرد الطاف حسین کی سرپرستی کر رہے ہیں اور اپنی کرسی کو بچانے کے لئے ایک دہشت گرد کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔ ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ اور اتحادی لاکھوں بےگناہ شہریوں کو مار چکے ہیں دوسری طرف صدر مشرف پاکستان کے نمبر ون دہشت گرد کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کراچی میں ہونے والی ہلاکتوں پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ کراچی میں جو کچھ ہوا ہے، اس کے ذمہ دار جنرل مشرف اور الطاف حسین ہیں۔ ان کی جماعت کراچی میں ہونے والی ہلاکتوں پر صدر جنرل مشرف اور الطاف حسین کے خلاف مقدمہ درج کرانے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت کی یہ ضرورت ہے کہ جنرل مشرف سے نجات کے یک نکاتی ایجنڈے پر تمام اپوزیشن اکھٹی ہوجائے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام اپوزیشن ارکان مشترکہ طور پر استعفے دیں۔ انہوں نے کہا کہ الطاف حسین مہاجروں کے نمائندہ نہیں ہیں اور ایم کیو ایم اور ہٹلر کی جماعت کے حربے ایک جیسے تھے۔ چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری کی کراچی آمد پر دانستہ طور پر ایم کیو ایم کی ریلی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنرل مشرف نے ایم کیو ایم کا کارڈ کھیلا ہے۔ عمران خان نے اسلام آباد میں حکمران جماعت کی ریلی پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ جنرل مشرف نے استحکام پاکستان کے نام پر انتشار ریلی نکالی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں زندہ لاشوں کا جلوس نکالا گیا اور غریب عوام کے ٹکیس کے پیسے سے اسلام آباد میں جشن کیا گیا جبکہ دوسری طرف ڈمی اسمبلی نے کراچی کی ہلاکتوں پر کچھ نہیں کہا۔ دریں اثناء عوامی نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل احسان وائیں نے ایک دوسری پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم پر دہشت گرد تنظیم ہونے کا الزام لگایا اور اس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی حکومت نے پاکستان کے سب سے بڑے دہشت گرد الطاف حسین کو تحفظ دے رکھا ہے اور تمام حالات جاننے کے باوجود ان کو برطانوی پاسپورٹ دیا ہوا ہےجس پر ان کی جماعت تحریک انصاف لندن میں الطاف حسین کے خلاف مقدمہ دائر کرے گی۔ text: آصف زرداری نے پہلی بار دو ماہ قبل بینظیر بھٹو کی سالگرہ کے بعد نوابشاہ میں میڈیا سےاپنی گفتگو میں کہا تھا کہ نیا صدر سندھ دھرتی سے ہوگا۔ اس سے قبل انہوں نے لاہور میں کہا تھا کہ ایوان صدر میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر جیسا کوئی جیالا صدر ہوگا۔ پرویز مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد حکمران اتحاد کے رہنماؤں کی مشاورت اسلام آباد میں جاری ہے جس میں اطلاعات کے مطابق ججوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ ملک کے نئے صدر کے نام پر بھی بحث کی جا رہی ہے۔ اسلام آباد کی سرگرمیوں سے دور سندھ کے شہروں اور صحراؤں میں عوامی بحث یہ کی جا رہی ہے کہ نیا صدر سندھ سے ہی کیوں ہوگا؟ پاکستان کے سیاسی ماضی میں ایوان صدر کا تعلق سندھ سے دور کے رشتہ داروں جیسا ہی رہا ہے۔ ایوان صدر کے ڈسے ہوئے وزیراعظم اسلام آباد کو سیاسی کوفہ سمجھتے ہیں۔ بینظیر بھٹو کے ایک جلسے میں شعر پڑھا گیا تھا کہ’اسلام آباد کے کوفے میں سندھ مدینے سے آئی ہوں۔‘ اسلام آباد، راولپنڈی اور ایوان صدر کے ڈسے ہوئے اکثر سیاستدانوں کا تعلق سندہ سے رہا ہے شاید اسی لیے ایوان صدر میں نئے چہرے کے داخل ہونے کو وزیراعظم کے انتخاب سے بھی زیادہ عوامی دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔ اٹھارہ فروری کے انتخابات کے بعد جب اقتداری کرسیوں کی تقسیم کی گئی تھی تو آصف علی زرداری کو اپنی پارٹی کےاندر بھی ایک تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ انہوں نے اس تقسیم میں اپنے آبائی صوبہ سندھ کو پیچھے رکھ دیا ہے۔ وزیراعظم اور وفاقی وزارتوں کےحساب نکال کر آصف پر تنقید کی گئی تھی کہ انہوں نے سندھ کو نظرانداز کر دیا ہے۔ اس وقت آصف کے پاس صرف ایک ہی جواب تھا کہ انہوں نے سندہ کی ایک خاتون کو پہلی بار قومی اسمبلی کا سپیکر متنخب کروایا ہے۔ اگر ڈومیسائل کے حساب سے دیکھا جائے تو مواخذے کی کارروائی سے چند گھنٹے پہلے مستعفی ہونے والے صدر پرویز مشرف کا تعلق بھی صوبہ سندھ سے ہے مگر ان پر اقتدار پر قبضہ کرنے اور آمریت کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ جبکہ قائم مقام صدر محمد میاں سومرو کا تعلق بھی جیکب آباد سندھ سے ہے مگر عارضی ہیں ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کےمطابق ستر کی دہائی میں بنگال کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ ملک کو سنبھالنے کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذولفقار علی بھٹو کو نیا صدر مقرر کیا گیا تھا۔ مگر وہ بھی منتخب صدر نہیں تھے۔ اگر نئے صدر کا تعلق سندھ سے ہوگا جیسے پیپلزپارٹی کے سربراہان کہہ چکے ہیں تو وہ ملک کا پہلا منتخب صدر ہوگا یا ہوگی۔ پیپلزپارٹی کے تمام رہنماء نئے صدر کے نام پر عجیب مسکراہٹ کے ساتھ خاموش ہیں جیسے وہ نام تو جانتے ہیں مگر کسی دوسرے کی زبان سے سننا چاہتے ہوں۔ پیپلزپارٹی کے دو صوبائی وزراء جن میں ایک خاتون بھی شامل ہیں اور تین رکن قومی اسمبلی سے بی بی سی نے رابطہ کیا مگر تمام رہنماؤں نے اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط رکھی پھر کھل کر بات کی۔ ایک خاتون صوبائی وزیر نے کہا ’ایوان صدر میں ادی فریال‘ بیٹھے گی اور کون ہوگا۔‘ سندھی زبان میں بہن کو ادی کہتے ہیں اور آصف زرداری کی بہن فریال تالپور کو پارٹی کے تمام رہنماء احترام سےادی فریال کہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ایک رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ لاڑکانہ بینظیر کا حلقہ اتنا عام بھی نہیں کہ اسے نظرانداز کردیا جائے۔اگر وزیر اعظم نہیں تو صدر تو وہاں سے ہوگا۔ انہوں نے فریال تالپور کی طرف اشارہ کیا جو لاڑکانہ سے بینظیر بھٹو کے آبائی حلقے سے بلا مقابلہ کامیاب ہوئی ہیں۔ انہوں نے پارٹی کے فیصلوں کی اندرونی منطق سمجھاتے ہوئے کہا کہ سندھ میں بینظیر بھٹو کی پارٹی اسٹیبلشمنٹ تین بندوں پر مشتمل ہے۔ جن میں سے ایک سید قائم علی شاہ کو انہوں وزیر اعلٰی بنا دیا ہے، دوسرے علی نواز شاہ کو صوبائی وزیر بنایا ہے اور آفتاب شعبان کو کسی دوسری جگہ ایڈجیسٹ کردیں گے۔ پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقوں میں یہ اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ فریال تالپور کی صورت میں بینظیر بھٹو کے بچے ایوان صدر پہنچ جائیں گے، کیونکہ وہ ان کی قانونی وارث ہیں اور اسی وجہ سے تینوں بچوں کو دبئی سے اسلام آباد طلب کیا گیا ہے۔ ایوان صدر میں لاڑکانہ سےمنتخب خاتون اگر نئے صدر کی حیثیت میں داخل ہوتی ہیں تو سندھ میں آصف زرداری پر کی گئی تنقید میں کمی ضرور ہوگی۔ مگر پاکستان کے سیاسی جنگل میں جاری دنگل کچھ نیا بھی ہوسکتا ہے ۔ آصف علی زرداری کی اشاروں کنایوں کی باتوں کو اکثر تجزیہ نگار سنجیدگی سے نہیں لیتے کیونکہ بینظیر بھٹو کی حالیہ سالگرہ کےموقع پر انہوں نے نوڈیرو ہاؤس میں لائیو کی گئی پریس کانفرنس میں ایک صحافی کے نئے صدر کےحوالے سے کیے گئے سوال کو مذاق میں اچھالتے ہوئے اس رپورٹر کو کہا تھا نئے صدر کی شکل آپ کی شکل سے ملتی جلتی ہے۔ جب وہ رپورٹر ہنس پڑے تو آصف نے کہا وہ ہنستے بھی آپ کی طرح ہیں تو رپورٹر نے فوراً کہا سر پھر میرے ہمشکل سے پہلے مجھے ہی صدر کیوں نہیں بنا لیتے۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ آصف زرداری جانتے ہیں کہ نیا صدر جو بھی ہو مگر وہ نیا فاروق لغاری ایوان صدر نہیں بھیجیں گے۔ آصف زرداری کا سیاسی فیصلہ کیا ہو گا مگر سندھ سے تمام لوگ بشمول فریال تالپور کے ڈرائیور اور خانساماں ایوان صدر جانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پیر کے روز اپنے والد اور پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے اس بیان کو دہرایا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ملک کے نئے صدر کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہوگا۔ text: یہ فیصلہ پیر کے روز صدر جنرل پرویز مشرف کی صدارت میں ہونے والے ایک خصوصی اجلاس میں کیا گیا۔ جس میں وزیراعظم، چاروں صوبوں کے وزراءاعلیٰ اور وزراء خزانہ شریک ہوئے۔ چاروں صوبوں کے درمیان چھٹے مالیاتی ایوارڈ کی تشکیل پر آپس میں سخت اختلافات تھے اور مقررہ مدت یعنی گزشتہ مارچ تک جب اتفاق نہیں ہوسکا اور آئندہ مالی سال کا بجٹ بھی پیش ہونے والا ہے تو صدر کو مداخلت کرنی پڑی۔ آئین کے مطابق ہر پانچ سال کے لیے مرکز اور صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم کے لیےقومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ تشکیل دیا جاتا ہے۔ ایوارڈ کی تشکیل اتفاق رائے سے کرنا لازمی ہے اور اگر ایک صوبہ بھی راضی نہ ہو تو اس کی تشکیل عمل میں نہیں لائی جاسکتی۔ ابتدا میں مرکز اور صوبوں میں اپنے حصہ کے تعین پر اختلاف رائے تھا لیکن بعد میں مرکزی حکومت صوبوں کا حصہ بڑھانے پر رضامند ہوگئی ۔ جب اس پر اتفاق ہوا تو دوسرے مرحلے میں صوبوں کے آپس میں اختلاف رائے پیدا ہوئے۔ گزشتہ مالیاتی ایوارڈ میں محض آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم ہوئی تھی۔ لیکن پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں نے کم ترقی ہونے اور دیگر نکات کو بھی اس فارمولے کی بنیاد بنانے پر اصرار کیا۔ مرکزی حکومت کے مطابق بیشتر نکات پر اب اصولی طور پر اتفاق ہے لیکن صوبہ پنجاب اور سندھ کے درمیان اختلاف ہے کہ صوبوں سے آمدنی کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہونی چاہیے۔ صوبہ سندھ کا مطالبہ تھا کہ جو صوبہ جتنا ٹیکس مرکز کو دیتا ہے اس رقم میں سے پانچ فیصد رقم کی تقسیم متعقلہ صوبوں میں اس شرح سے ہونی چاہیے جس تناسب سے وصولی ہوتی ہے۔ صوبہ پنجاب نے اس کی مخالفت کی تو بعد میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کل آمدن نہیں تو کم از کم انکم ٹیکس کی بنیاد پر تقسیم کی جائے لیکن اس پر بھی پنجاب رضامند نہیں ہوا اور ان کے وزیر نے صوبہ سندھ کے مطالبے کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ ایسی صورتحال میں صدر نے مداخلت کرتے ہوئے نوٹس لیا اور اجلاس طلب کیا۔ پیر کے روز چاروں صوبوں کے نمائندوں نے کہا ہے کہ انہیں صدر پر اعتماد ہے کہ وہ صوبوں کی ترقیاتی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے منصفانہ تقسیم کا ایسا فارمولہ وضح کریں جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ واضح رہے کہ فی الوقت وفاقی محاصل سے چاروں صوبوں کو سینتیس فیصد حصہ ملتا ہے جبکہ باقی مرکز لیتا ہے۔ لیکن حال ہی میں صدر نے ایک بیان دیا تھا کہ صوبوں کا حصہ پچاس فیصد تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم کا کہنا ہے کہ کل مالی وسائل کا کم از کم پانچ فیصد آمدنی کی فراہمی کی بنیاد پر کیا جائے۔ کیونکہ ان کے بقول مرکز کو ہونے والی کل وصولی میں سے اڑسٹھ فی صد صوبہ سندھ سے ہوتی ہے۔ صوبہ پنجاب کا کہنا ہے کہ کراچی میں بندرگاہ ہونے کی وجہ سے بیشتر کاروباری دفاتر موجود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ٹیکس بھی زیادہ وصول ہوتا ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبائی حکومتوں نے مالی وسائل کی تقسیم کے نئے فارمولے قومی مالیاتی ایوارڈ پر حتمی فیصلے کا اختیار صدر جنرل پرویز مشرف کو دے دیا ہے۔ text: پاناما پیپرز کے معاملے پر پیپلز پارٹی، پاکستان تحریکِ انصاف اور عوامی مسلم لیگ کا اتحاد ہے خیال رہے کہ پاناما کی ایک لا فرم موساک فونسیکا کی خفیہ دستاویزات افشا ہونے سے پتہ چلا تھا کہ دنیا بھر میں چوٹی کے امیر اور طاقتور لوگ اپنی دولت کیسے چھپاتے ہیں تاکہ انھیں ٹیکس سے چھوٹ مل سکے۔ پاکستانی پارلیمان کے ایوانِ زیریں میں جمعرات کی شام معمول کی کارروائی روک دی گئی اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دائر کی گئی تحریک التوا پر بحث کا آغاز کیا گیا۔ اپورزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اپنے خطاب میں وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے پاناما لیکس کے حوالے سے بنائے جانے والے عدالتی کمیشن کو مسترد کر دیا۔ اس معاملے پر پیپلز پارٹی، پاکستان تحریکِ انصاف اور عوامی مسلم لیگ کا اتحاد ہے۔ اپوزیشن لیڈر نے مطالبہ کیا کہ عدالتی کمیشن کے بجائے کسی بین الاقوامی فرم سے تحقیقات کروائی جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے جج کو کیا پتہ کہ آڈٹ کیا ہوتا ہے۔ دو تین ماہ کیا تین سال تک کوئی ثبوت نہیں آئیں گے۔‘ اپنے خطاب میں سید خورشید شاہ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے خود تسلیم کیا ہے کہ انھوں نے آف شور کمپنیاں ٹیکس سے بچنے کے لیے قائم کی تھیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ پاناما پیپرز کا معاملہ کسی اپوزیشن جماعت نے نہیں اٹھایا اور نہ ہی میڈیا نے اٹھایا ہے اس لیے اس پر تحقیقات ہونی چاہییں۔ اپوزیشن لیڈر نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم کو خطاب کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بعد ازاں وفاقی وزیرِ دفاع آصف خواجہ نے کہا کہ وزیراعظم نے نہایت ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر انکوائری کمیشن سے تسلی نہ ہو تو سپریم کورٹ جایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ انکوائری کمیشن ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ہی بنتا ہے۔ وزیرِ دفاع نے سوال کیا کہ عمران خان بتائیں کہ انھوں نے آف شور کمپنیوں میں جو سرمایہ کاری کی تھی جس کے بارے وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ 2015 میں انھیں پیسے واپس ملے تھے تو بتایا جائے وہ ہیں کتنے ہیں؟ عمران خان نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اگر ہماری بات نہ مانی گئی تو ہمارے پاس سڑکوں پر آنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ شوکت خانم کی بات کر کے انھیں بلیک میل کیا جا رہا ہے کہ وہ وزیراعظم کے بارے میں بات نہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم پر الزامات لگے ہیں جن میں الیکشن کمیشن کو غلط بیانی کرنا، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ شامل ہیں۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پاناما پیپرز میں ملک کے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے نام آنے کے بعد دائر کی جانے والی تحریک التوا پر بحث جاری ہے۔ text: کیتھلین اور ڈیل کی نوجوانی میں ملاقات ہوئی تھی اور دونوں نے 1981 میں شادی کی تھی برطانیہ کی سپریم کورٹ نے ایک مقدمے میں 20 سال قبل طلاق لینے والی عورت کیتھلین وائٹ کو اس کے سابق شوہر کی دولت میں حصہ دینے کا فیصلہ سنایا تھا۔ 53 سالہ برطانوی ارب پتی شہری ڈیل ونس کا کہنا ہے کہ کئی دہائیوں تک طلاق کا مقدمہ لڑنے پر وہ پانچ لاکھ پاؤنڈ خرچ کر چکے ہیں۔ اُن کی 55 سالہ سابق اہلیہ کیتھلین وائٹ نے برطانیہ کی سپریم کورٹ میں شوہر کی دولت میں حصہ لینے سے متعلق مقدمہ دائر کیا تھا۔ برطانوی جوڑا 11سال تک رشتۂ ازدواج میں منسلک رہا اور سنہ 1992 میں اُن کی درمیان علیحدگی ہوئی تھی۔ ڈیل ونس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’20 سال قبل ہی ہمارے تعلقات طے پا گئے تھے لیکن میں یہ ثابت نہیں کر پایا کیونکہ یہ بہت پہلے ہوا تھا اور عدالت کے پاس بھی ریکارڈ نہیں ہے۔ میرے خیال میں یہ بہت غلط ہے اور یہ بالکل ایسے ہی جیسے پرانی لاٹری ٹکٹ کو کیش کروا لیا جائے۔‘ کیتھلین وائٹ نے 19 لاکھ پاؤنڈ کی رقم حاصل کرنے کے لیے قانونی چارہ جوئی کا آغاز سنہ 2011 میں کیا تھا۔ اُن کے سابق شوہر ڈیل ونس سے اُن کا ایک بیٹا بھی ہے۔ اس سے قبل ڈیل ونس نے اس بنیاد پر کہ ان کی طلاق کو کافی عرصہ ہو چکا ہے، کیتھلین وائٹ کے دعوے کے خلاف اپیل کی تھی جو کامیاب رہی تھی۔ لیکن اس حالیہ فیصلے میں مقدمہ سننے والے سپریم کورٹ کے پانچوں ججوں نے متفقہ طور پر کیتھلین وائٹ کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ خیال رہے کہ کیتھلین اور ڈیل کی نوجوانی میں ملاقات ہوئی تھی اور دونوں نے 1981 میں شادی کی تھی۔ اس وقت دونوں میاں بیوی زیادہ خوشحال نہیں تھے اور ڈیل 1995 میں اپنا کاروبار شروع کرنے سے پہلے ایک پرانی ایمبولینس میں رہتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ان کے اثاثوں کی مالیت دس کروڑ پاؤنڈ سے زیادہ ہے۔ برطانیہ کی سپریم کورٹ کی جانب سے ایک خاتون کو سابق شوہر کی دولت میں حصہ دینے کے فیصلہ کو اُن کے سابق شوہر نے ’پرانا لاٹری ٹکٹ کیش کروانے‘ کے مترادف قرار دیا ہے۔ text: سیاح خاتون کو میلبرن شہر کے ریجس بیل سٹی ہوٹل میں ریپ اور ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا آلفیو اینتھنی گراناٹا نے متعدد ریپ، قتل کی دھمکیوں اور جان بوجھ کر شدید زخم پہنچانے کے الزامات قبول کر لیے ہیں۔ سنہ 2012 میں منشیات اور جنسی تعلقات کے بعد، جن میں آلفیو گراناٹا کی پارٹنر جینیفر پیسٹن بھی شامل تھیں، گراناٹا نے سیاح کو میلبرن شہر میں واقع ایک ہوٹل میں بند رکھا۔ جب سیاح نے خودکشی کرنے کی کوشش کی تو گراناٹا اور اس کی پارٹنر ہنگامی خدمات سے رابطہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ یوں سیاح رہا ہوئیں۔ پیر کے روز جج نے گراناٹا کے جرائم ’تشدد کے مترادف‘ قرار دیے اور کہا کہ انھوں نے ایک 21 سالہ خاتون، جس کا نام نہیں دیا گیا، کو ’توہین اور ذلت‘ کا ہدف بنایا۔ آلفیو گراناٹا اور جینیفر پیسٹن کی ملاقات سیاح سے 2012 میں ہوئی تھی جس کے بعد انھوں نے سیاح کو اپنے ہوٹل کے کمرے میں بلایا۔ سیاح کو شاور میں رہنے پر مجبور کیا گیا۔ پیسٹن کی مدد سے فراناٹی نے لڑکی کو بیلن سمیت مختلف اشیا سے مارا پیٹا اور اسے عجیب و غریب رسومات کا نشانہ بنایا۔ جج کا کہنا ہے کہ اس سب کے بعد سیاح خاتون ’خوفزدہ اور تنہائی پسند‘ ہو کر رہ گئی ہیں۔ اس سال کے شروع میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پیسٹن خود بھی گراناٹا کے ہاتھوں بدسلوکی کا شکار رہی تھی۔ نیدرلینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک سیاح لڑکی کو، جو آسٹریلیا میں بیک پیک کر رہی تھی، چھ ہفتے ایک ہوٹل میں بند کر کے بار بار ریپ کرنے اور اس پر تشدد کرنے کے الزام میں ایک آسٹریلوی شخص کو 17 سال قید سنائی گئی ہے۔ text: کلبھوشن جادھو کی اپنی والدہ اور اہلیہ سے ملاقات یہ ان سوالات میں سے چند ایک ہیں جو بعض پاکستانی صحافیوں نے گذشتہ روز اس وقت کیے جب پاکستان میں قید انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو کی والدہ اور اہلیہ دفتر خارجہ پہنچیں۔ اس شور شرابے میں کچھ صحافیوں کے وہ سوال کہیں دب گئے تھے جو ان سے پاکستان کے اس سفارتی اقدام سے متعلق پوچھنا چاہ رہے تھے جس کی وجہ سے آج ان کی اپنے بیٹے سے ملاقات ممکن ہو پائی تھی۔ پاکستان اور انڈیا کی جانب سے کئی ہفتوں کے سوچ بچار کے بعد، پاکستان میں گرفتار ہونے والے انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو کی والدہ اور اہلیہ ان سے ملاقات کے لیے پیر کو اسلام آباد پہنچی تھیں۔ حکومتِ پاکستان نے کلبھوشن جادھو اور انڈین حکومت کی درخواست پر دونوں خواتین کو تین روز کے ویزے جاری کیے تھے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے بہت بڑی تعداد میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا کو اس ملاقات کی کوریج کی اجازت دی تھی۔ سکیورٹی خدشات کے باعث صحافیوں کو خصوصی پاسز بھی جاری کیے گئے تھے۔ انڈیا نے پاکستان سے درخواست کی کہ وہ کمانڈر جادھو کے اہل خانہ کے ساتھ میڈیا کے رابطے سے گریز چاہتا ہ کلبھوشن جادھو کی والدہ اور اہلیہ کی گاڑی کو عین میڈیا کے نمائندوں کے سامنے پارک کرایا گیا۔ دفتر خارجہ میں عام طور پر مرکزی دروازے کے سامنے مہمان گاڑی سے اترتے ہیں لیکن آج اسی مرکزی دروازے کے پار میڈیا کے لیے جگہ مختص کی گئی تھی۔ ملاقات سے پہلے سکیورٹی پروٹوکولز کی تکمیل کے لیے کلبھوشن کی والدہ اور اہلیہ کا لباس تبدیل کرایا گیا اور ان کے چہرے دھلوائے گئے۔ جس کے بعد انھیں دفترِ خارجہ کے آغا شاہی بلاک کے پیچھے کنٹینر میں لے جایا گیا جہاں کلبھوشن جادھو موجود تھے۔ یہ کنٹینر تین حصوں میں تقسیم تھا اور اس کے دو دروازے تھے۔ ساؤنڈ پروف کنٹینر کے تینوں حصے بلٹ پروف شیشوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جدا تھے۔ یہ بھی پڑھیں ٭ کرنل حبیب کہاں ہیں؟ ٭ کلبھوشن جادھو کیس، کب کیا ہوا کلبھوشن جادھو اور ان کے اہلخانہ کے درمیان انٹرکام پر رابطہ تھا جبکہ تیسرے حصے میں پاکستان میں انڈیا کے ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ اور پاکستان کی جانب سے دفتر خارجہ میں ڈائریکٹر ساؤتھ ایشیا ڈیسک ڈاکٹر فریحہ بگٹی موجود تھیں۔ اس حصے میں فیملی کے درمیان ہونے والی گفتگو نہیں سنی جا سکتی تھی۔ کلبھوشن جادھو کی والدہ اور اہلیہ ان کے لیے تحفے کے طور پر ایک شال لائی تھیں، جسے 'سکیورٹی کلیرنس' کے بعد ان کے حوالے کیا جائے گا۔ شیشوں کے ذریعے علیحدہ کیے گئے کیبن میں ملاقات کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ انڈیا کے ساتھ اس ملاقات کے تمام ضابطے پہلے ہی طے کر لیے گئے تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ انڈین حکومت ان انتظامات سے آگاہ تھی۔ دفتر خارجہ پہنچنے پر گاڑی سے اتر کر کلبھوشن کی اہلیہ اور والدہ نے میڈیا کے نمائندوں کو پرنام کیا ابتدائی طور پر 30 منٹ دورانیے کی ملاقات کا وقت بڑھا کر چالیس منٹ کیا گیا تھا جبکہ دفترخارجہ کے باہر موجود میڈیا کلبھوشن کی اہلیہ اور والدہ کا انتظار کرتا رہا جو سکیورٹی ضابطے پورے کرنے میں تقریباً دو گھنٹے گزرنے کو تھے۔ یہ بھی پڑھیں ٭ کلبھوشن جادھو کی یہ ’آخری ملاقات نہیں تھی‘ ٭ کلبھوشن سے پہلے کتنے جاسوس اس دوران وہ گاڑی بھی واپس بھیج دی گئی جس میں انڈین ڈپٹی ہائی کمشنر اور کلبھوشن کے اہلخانہ دفتر خارجہ پہنچے تھے۔ ان کی واپسی کے لیے سرکاری نمبر پلیٹ والی سفید گاڑی تیار تھی جسے قدرے فاصلے پر کھڑا کیا گیا تھا۔ واپسی کے لیے وہ مرکزی دروازے پر پہنچے تو میڈیا نے ایک بار پھر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ میڈیا اور مرکزی دروازے کے بیچ کئی فٹ کا فاصلہ تھا۔ انڈین ڈپٹی ہائی کمشنر اور کلبھوشن کے اہلخانہ نے کچھ لمحے گاڑی کا انتظار کیا اور پھر واپس اندر جانے کو مڑے۔ انڈین سفارتکار نے گاڑی مرکزی دروازے کے سامنے منگوانے کی درخواست کی تاکہ میڈیا سے بچا جا سکے۔ جس کے بعد دفتر خارجہ کے حکام نے ان کی گاڑی کو مرکزی دروازے کے قریب بلوا لیا۔ دفتر خارجہ سے رخصت ہونے سے قبل کلبھوشن جادھو کی والدہ نے ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل کو پرنام کیا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس دوران انڈین ڈپٹی ہائی کمشنر ان کے عقب میں موجود رہے۔ میڈیا کے نمائندوں کو کسی چبھتے سوال کا جواب تو نہ مل سکا جس کے بعد اب ان میں سے بعض فرطِ جذبات میں نعرے بازی کرتے رہے۔ 'کیا آپ اپنے بیٹے کے اعترافِ جرم سے متفق ہیں؟'، آپ ایک قاتل بیٹے کی ماں ہیں، کیا کہنا چاہیں گی؟' 'آپ ایک دہشتگرد کی ماں ہیں'۔ 'آپ جواب دیں، آپ بھاگ کیوں رہی ہیں؟'، 'آپ کا بیٹا سینکڑوں پاکستانیوں کا قاتل ہے' وغیرہ وغیرہ۔ text: عراق کے سرکاری ٹی وی پر بتایا گیا ہے کہ خمیس العبیدی کو ’دہشتگردوں‘ نے ہلاک کیا ہے۔ صدام حسین کے چیف وکیلِ صفائی خلیل الدمیلی کے مطابق خمیس کو ان کے گھر سے پولیس کی وردیوں میں ملبوس افراد نے مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے اغوا کیا اور پولیس کے مطابق ان کی لاش چند گھنٹوں بعد بغداد کے صدر سٹی علاقے کے قریب پڑی ملی۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حفاظتی خدشات کے تحت صدام کے چیف وکیلِ صفائی الدمیلی کی اردن منتقلی کے برعکس العبیدی نے بغداد میں ہی رہائش پذیر رہنا پسند کیا تھا۔ یاد رہے کہ خمیس العبیدی صدام حسین کے تیسرے وکیل ہیں جنہیں ہلاک کیا گیا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ برس آٹھ نومبر کو صدام کے دو وکلائے صفائی کو ان کی گاڑی میں گولی مار دی گئی تھی۔ ادھر پیر کو صدام حسین کیس کے وکلائے استغاثہ نے بحث سمیٹتے ہوئے عدالت سے انہیں سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ صدام اور ان کے سات ساتھیوں کو جنگی جرائم کے ارتکاب پر موت کی سزا دی جائے۔ صدام حسین پر جاری مقدمے کی کارروائی اب دس جولائی تک ملتوی کر دی گئی ہے اور اس تاریخ کو وکلائے صفائی کے حتمی دلائل کے بعد جج اس مقدمے کا فیصلہ سنائیں گے۔ صدام حسین اور ان کے رفقاء پر اسّی کے عشرے میں عراقی صدر پر ایک ناکام قاتلانہ حملے کے بعد دجیل نامی قصبے کے ایک سو اڑتالیس شیعہ باشندوں کی ہلاکت کا الزام ہے جس سے وہ انکار کرتے آئے ہیں۔ بغداد میں سابق عراقی صدر صدام حسین کے ایک وکیلِ صفائی کو اغوا کرنے کے بعد ہلاک کر دیا گیا ہے۔ text: ٹینس کھلاڑی، اینا بیل کرافٹ برطانیہ کی سابق ٹینس کھلاڑی اینا بیل کرافٹ نے ’اسے آخری ٹیبو‘ قرار دیا تھا۔ وہ اپنی حیض کے بارے میں بات کر رہی تھیں۔ ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ہیدر واٹسن نے تسلیم کیا کہ وہ آسٹریلین اوپن کے پہلے راؤنڈ سے اسی لیے باہر ہو گئی تھیں کیونکہ وہ ان دنوں اُن کی حیض کا آغاز ہو گیا تھا۔ 22 سالہ واٹسن نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں حیض کے دوران چکر آتے ہیں، متلی ہوتی ہے، کمزوری محسوس ہوتی ہے یہاں تک کہ ان کے سر میں ہلکا درد بھی رہتا ہے۔ فٹبال مینیجر، شیلی کیر آرسنل لیڈیز کا مینیجر بننے سے پہلے شیلی کیر ایک کھلاڑی کے طور پر سکاٹ لینڈ کی ٹیم کی کپتان رہ چکی ہیں۔ اب وہ سٹرلنگ یونیورسٹی کی مردوں کی ٹیم کی کوچ ہیں۔ انھوں نے بی بی بی نیوز بِیٹ کو بتایا کہ ایک کھلاڑی کے طور پر حیض یقیناً ان کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے اور آپ 100 فیصد توانا محسوس نہیں کرتے۔ ایک سابق بین الاقوامی کھلاڑی کے طور پر اگر آپ بہت زیادہ سخت پریکٹس کریں گے تو اس سے آپ کا جسمانی عمل خراب ہو گا۔ فٹبال کھلاڑی، سو سمتھ 35 سالہ فٹبال کھلاڑی سو سمتھ ڈونکاسٹر کی جانب سے لیفیٹ ونگ کی پوزیشن پر کھیلتی ہیں۔ انھوں نے نیوز بِیٹ کو بتایا کہ اس سے پہلے حیض سے متعلق بات کرنا معیوب سمجھتا جاتا تھا تاہم اب ایسا نہیں ہے اور لوگ اس بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں اس حوالے سے خوش قسمت ہوں کہ حیض کے وقت مجھے زیادہ درد نہیں ہوتا۔ نیٹ بال کھلاڑی، کولیٹ کوپر کولیٹ کوپر برطانیہ کی نیٹ بال ٹیم کو تربیت دیتی ہیں۔ انھوں نے کھیلوں میں حصہ لینے والی خواتین کو حیض کے حوالے سے پیش آنے والے مسائل کے بارے میں کہا کہ اس سے خواتین کی کارکردگی یقینی طور پر متاثر ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حیض کے دوران خواتین تھک جاتی ہیں، انھیں کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنے بارے میں بتایا کہ حیض کے دوران ان کی کارکردگی بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ ٹیبو نہیں ہے کیونکہ ایسا ہر ماہ ہوتا ہے اور اس سے مختلف کھیلوں میں حصہ لینے والی خواتین کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ فیلڈ ہاکی کھلاڑی کیٹ رچرڈسن والش کیٹ رچرڈسن انگلینڈ کی خواتین ہاکی ٹیم کی کپتان ہیں۔ انھوں نے مختلف کھیلوں میں حصہ لینے والی خواتین کی حیض کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہ اعلیٰ ترین گیمز میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کے باعث شکست ہو سکتی ہے اس لیے اس قسم کی پریشانیاں جتنی کم ہوں اتنا ہی اچھا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ زیادہ محنت کرنے والی خواتین کو حیض کے دوران زیادہ مسائل ہوتے ہیں۔ نیٹ بال کھلاڑی تسمین گرین وے تسمین گرین وے انگلینڈ کی نیٹ بال ٹیم کی رکن ہیں اور وہ عام طور پر ونگ اٹیک یا گول اٹیک پوزیشن پر کھیلتی ہیں۔ ان کا سپورٹس خواتین کی حیض کے بارے میں کہنا تھا کہ کھیل کے دوران ان کا کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ حیض کے دوران دوائی کھانے سے حیض کے مسائل کو کچھ حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ہیڈ کوچ آف دی لندن ایکوئٹکس سینٹر، لیسا بیٹس لیسا بیٹس اولمپک میں حصہ لینے والی خواتین تیراکوں کو تربیت دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین ایتھلیٹس کے لیے ہائی آئرن خوراک بہت ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین تیراکوں کو حیض کےدوران اپنے کھانے میں آئرن کی مقدار کو بڑھا دینا چاہیے اور اس کے ساتھ وٹامن سی کی ایک گولی بھی کھانی چاہیے۔ جمناسٹک ٹرینر، کلیئر سٹار کلیئر سٹار جمناسٹک میں برطانیہ کی نمائندگی کرتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ جمناسٹک ٹرینر بھی ہیں۔ انھوں نے 12 سے 22 سال کی درجنوں لڑکیوں کو تربیت دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ عموماً 12 سال کی عمر سے لڑکیوں میں حیض شروع ہوتی ہے۔ کلیئر سٹار نے بتایا کہ انھیں دو ایسی جمناسٹ کھلاڑیوں کے بارے میں معلوم ہے جنھیں حیض کے دوران بہت سے مسائل ہوتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے کوئی بھی نصیحت نہیں کر سکتیں۔ مختلف کھیلوں میں حصہ لینے والی خواتین حیض کے دوران کس طرح کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ text: سیر و سیاحت سے آپ کو جسمانی اور ذہنی فوائد حاصل ہوتے ہیں آپ کافی خوش قسمت ہیں اگر آپ سفر کرنے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ذیل میں سیر و سیاحت کے ایسے چھ فوائد پیش کیے جا رہے ہیں جو آپ کو اس کی تحریک دے سکتے ہیں۔ پاکستان میں سیاحت کے بارے میں مزید جانیے ایوا زوبیک پاکستان میں کیا کر رہی ہیں؟ بلند پہاڑوں کے دامن میں ’فائیو سٹار‘ مزے کشمیر میں محفوظ سیاحت کیسے ممکن ہے؟ سیر و سیاحت سے آپ کا دل صحت مند رہتا ہے اگر آپ شہر یا قدرتی مناظر دیکھنے کے عادی ہیں تو دن میں پانچ سے چھ کلومیٹر یا دس ہزار قدم چل لیتے ہوں گے جو اعتدال سے ورزش کرنے کے لیے ایک اچھی گائیڈ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس عادت کو سیروسیاحت اور دیگر سرگرمیوں جیسے مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے آپ اپنی صحت کو بہت فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ مختلف مقامات کی سیر کرنا جہاں لطف اندوز ہوتا ہے وہیں ورزش کا باعث بھی ہوتا ہے سنہ 1948 کی فریمنگھم ریسرچ نے اس موضوع پر سروے کیا اور 20 سال بعد دوبارہ ان خواتین سے رابطہ کیا۔ چھ سال میں ایک بار سیروتفریح کرنے والی خواتین میں سال میں دو بار سیروتفریح کرنے والی خواتین کے مقابلے میں قلبی امراض اور دل کا دورہ پڑنے کے امکانات آٹھ گنا زیادہ تھے۔ تاہم نتائج کو مؤثر بنانے کے لیے موٹاپے اور تمباکو نوشی جیسے خطرناک عوامل کو سروے میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ایک دوسری تحقیق میں نیویارک سٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے ایسے 12000 مردوں کا نو سال تک مطالعہ کیا جن کے دل کو خون پہنچانے والی شریان کے مرض میں مبتلا کا ہونے کا شدید خطرہ لاحق تھا۔ سالانہ سیر و سیاحت نہ کرنے والے مردوں میں دل کے دورہ پڑنے سے موت کے خدشات 32 فیصد زیادہ نکلے۔ اگر سیرو سیاحت آپ کے ذہنی دباؤ کو کم کرتی ہے تو آپ کے زیادہ دنوں تک جینے کے امکانات بھی زیادہ ہیں یہ مشغلہ آپ کو دوبارہ جوان بنا دیتا ہے گلوبل کوالیشن آن ایجنگ نامی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق دباؤ اور تناؤ بڑھاپے کو عمل کو تیز کر دیتا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق ذہنی دباؤ روزانہ جسم میں کاٹیسول ہارمون کا ایک ٹیکا لگنے کے مترادف ہے جو مدافعتی نظام کو کمزور کر دیتا ہے اور گردوں کی خرابی، سر درد اور آنتوں میں سوزش جیسی بیماریوں کے امکانات بڑھا دیتا ہے۔ خوش قسمتی سے تفریحی سفر کے مثبت اثرات کم ہی وقت میں نظر آنے لگتے ہیں۔ سنہ 2012 میں 500 افراد سے لیے گئے ایکسپیڈیا کے سروے سے پتہ چلا کہ تفریحی مقام پر پہنچ کر لوگوں کو پُرسکون محسوس کرنے میں صرف ایک دو دن درکار ہوتے ہیں۔ سنہ 2002 میں برطانیہ کی سرے یونیورسٹی کے محققین نے تجویز دی کہ صرف تفریحی سفر کی تیاری کر کے اور اس کے بارے میں سوچ کر بھی سفر کرنے والوں میں مثبت احساسات جاگ اٹھتے ہیں اور وہ اپنی زندگی سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ نئے حالات اور ماحول سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ذہن مشغول رہتا ہے یہ آپ کے ذہن کو تیز بناتا ہے سفر کرنے سے ہمیں نئے کھانوں کو کھانے، نئے ماحول کو دیکھنے اور مختلف زبانیں سننے اور بولنے جیسی دماغ کی نشوونما کرنے والی سرگرمیاں سرانجام دینے کا موقع ملتا ہے۔ گلوبل کوئلیشن آن ایجنگ کی رپورٹ کے مطابق مقامی ثقافتی سرگرمیوں میں مشغول ہونا اور دوسری جگہوں کے بارے میں سیکھنا نہ صرف ہمیں ذہین بناتا ہے بلکہ ایلزائمر جیسے اعصابی امراض کی پہنچ سے بھی دور رکھتا ہے۔ پِٹسبرگ یونیورسٹی کے میڈیسن سکول کے ڈاکٹر پال ڈی نسبام کے مطابق 'سفر کرنا ایک اچھی دوا کی طرح ہے۔' ان کا کہنا ہے 'سفر کرنے سے دماغ میں مختلف اور نئے تجربات اور ماحول سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ رویہ عمر بھر کے لیے اعصاب کی صحت اور لچک کو بڑھاتا ہے۔' سیاحت کے بارے میں مزید پڑھیے پانچ ایسے مقامات جو سیاحوں سے تنگ ہیں! کیا یہ تاریخ کا سب سے طویل سرکاری دورہ ہے؟ گوگل کے ذریعے دنیا کا سفر ذہن کو سکون دینے سے آپ کی تخلیقی صلاحت کو جلا ملتی ہے یہ آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھا سکتا ہے اپنی کتاب 'اے ٹیکنیک فار پروڈیوسنگ آئڈیاز' میں امریکی ایڈورٹائیزنگ ایگزیکٹو جیمز ویب ینگ طالبعلموں اور مارکیٹنگ کے پیشہ ور خواہشمند افراد کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں 'اگر آپ اچھا خیال پیدا کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اس کے بارے میں سوچنا نہیں چاہیے۔' ان کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ ان کی اشتہاری مہموں کے لیے خیالات آسمان سے نازل ہوئے بلکہ اس کے برعکس ہوا۔ انھوں نے اپنے موضوع کا جائزہ لینے کے لیے شروعات میں اس پر بہت سوچا لیکن ان کے دماغ کی بتی تب جلی جب وہ جان بوجھ کر فلم دیکھنے جیسی سرگرمیوں سے اپنا دھیان بھٹکا رہے تھے۔ نیوروسائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نیا ماحول اور تجربے ہمارے دماغ کے تاروں کو دوبارہ جوڑ دیتے ہیں اور ہمارے ذہنوں کو تقویت بخشتے ہیں۔ 'کاگنیٹِو فلیکسیبیلیٹی' یعنی کہ ذہن کا مختلف خیالات کے درمیان سوچنا، تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے۔ شاید یہ اتفاق کی بات نہیں ہے کہ پال گاؤگن، ارنیسٹ ہیمینگ وے اور اِگور سٹراونسکی جیسے مشہورو معروف فنکار کسی سفر پر یا کسی سفر سے لوٹ کر اپنی سب سے بہترین کارکردگی دکھا پائے۔ ایک پرسکون سفر کے بعد آپ چیزوں کو مختلف زاویے سے دیکھنے کے اہل ہو سکتے ہیں یہ آپ کی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے کام کے نتیجے میں واقع ہونے والی تھکن دفاتر میں وبا کی طرح پھیل چکی ہے۔ ملازمین تھکن کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں، ہیلتھ کیئر سسٹمز کو بڑے پیمانے پر ذہنی امراض کا علاج کرنا پڑتا ہے جبکہ دنیا بھر میں کمپنیوں کو کارکردگی میں کمی، بیمار ملازمین، حادثات اور ہرجانہ بھرنے جیسے نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں۔ امریکی انسٹیٹیوٹ آف سٹریس کے تخمینے کے مطابق امریکی صنعت کو ذہنی دباؤ کی وجہ سے سالانہ 300 ارب ڈالر کا خسارہ ہوتا ہے۔ 'نیوروسائنس آف ہیپینیس اینڈ اوپٹیمل ہیلتھ' نامی کتاب کی معروف مصنف ڈاکٹر شمی کانگ کا کہنا ہے کہ ذہن کو آرام کرنے کا وقت دینے سے وہ بالکل تازہ دم ہو جاتا ہے اور مسائل حل کرنے اور خیالات کو مربوط کرنے میں مدد کرتا ہے۔ بیرون ملک رہنے سے آپ کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے یہ آپ کو ذاتی فروغ کے مواقع فراہم کرسکتا ہے ریسرچ کے مطابق اگر آپ جوان ہیں اور کچھ عرصے کے لیے بیرون ملک منتقل ہو سکتے ہیں تو یہ تجربہ آپ کی ذاتی فروغ کو بہت فائدہ پہنچائے گا۔ جرمنی کی فریڈریخ شِلر یونیورسٹی کے ڈاکٹر فرانز نیئر اور ڈاکٹر جولیا زِمرمان نے ایک سمیسٹر یا اس سے زائد وقت بیرون ملک گزارنے والے 3000 جرمن طالبعلموں کے ذاتی فروغ کا موازنہ ملک میں رہ کر تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلموں سے کیا۔ نتائج سے ظاہر ہوا کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک جانے والے طالبعلم ملک میں رہ کر تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلموں سے زیادہ ملنسار ہیں۔ وطن واپس لوٹنے کے بعد طالبعلموں نے جذبات میں استحکام اور نئے تجربات کرنے کے لیے زیادہ رضامندی دکھائی۔ محققین کا کہنا ہے 'لڑکپن سے جوانی میں داخل ہونے کے دوران زیادہ تر افراد باضمیر، سمجھدار اور جذباتی طور پر مستحکم ہو جاتے ہیں۔' خواہ آپ عمر کے جس بھی حصے میں ہوں اور جیسے بھی سفر کرنا پسند کرتے ہوں، کچھ وقت نکال کر تفریح کرنے کے فوائد سے آپ بھرپور لطف اٹھا سکتے ہیں۔ تفریح کے لیے سفر کرنے میں نہ صرف مزا آتا ہے بلکہ ایسا کرنے سے جسمانی اور ذہنی صحت کو فائدہ بھی پہنچتا ہے خواہ آپ کسی شہر میں گھوم پھر رہے ہوں، دلکش نظاروں سے محظوظ ہو رہے ہوں یا کسی گاؤں کی صاف فضا میں سانس لے رہے ہوں۔ text: سنیچر کو بم دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے لاشیں دفنانہ مکمل کر دیں ہیں کوئٹہ کے ڈی سی او عبدالمصور کاکڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ میتوں کی تدفین مکمل ہو چکی ہے۔ اس سے پہلے ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے کوئٹہ میں فوج کی تعیناتی تک میتوں کو دفنانے سے انکار کیا تھا اور وحدت المسلمین کا ملک بھر میں دھرنے ختم کرنے کے اعلان کے باوجود ان کا دھرنا جاری تھا۔ کوئٹہ میں مقامی صحافی محمد کاظم نے بتایا تھا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بعد کوئٹہ یک جہتی کونسل ، ہزارہ قومی جرگہ اور مجلسِ وحدت المسلمین نے دھرنے ختم کرنے اور لاشوں کی تدفین کا اعلان کیا تھا لیکن سنیچر کو بم دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے لاشیں دفنانے اور دھرنا ختم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک کوئٹہ کو فوج کے حوالے نہیں کیا جائے گا اس وقت تک وہ لاشوں کی تدفین نہیں کریں گے۔ لواحقین کا دوسرا بڑا مطالبہ یہ ہے کہ فوج کے ذریعے ان لوگوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کیے جائیں جو انہیں تشدد کی کارروائیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ کوئٹہ میں منگل کو مجلسِ وحدت المسلمین کے نائب صدر علامہ امین شہیدی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کی جانب سے یقین دہانی کے بعد دھرنا ختم کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ حکومتی اعلان کے بعد بعض نوجوانوں نے اعتراض کیا تھا لیکن یہ تاثر غلط تھا کہ ہلاک شدگان کےاہلخانہ نےدھرنا ختم کرنے کا فیصلہ قبول نہیں کیا۔ اس سے پہلے مجلسِ وحدت المسلمین نے دھرنے ختم کرنے کا اعلان کیا لیکن مظاہرین نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ ہلاک شدگان کے لوحقین کو اعتماد میں لے کر تمام فیصلے کیے گئے اور وہاں موجود 113 ہلاک شدگان کے ورثا نے تدفین پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔ امین شہیدی نے منگل کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ اگرچہ مجلس کی طرف سے تین رکنی کمیٹی نے، جس کے وہ خود بھی رکن تھے، حکومتی یقین دہانی کے بعد دھرنے ختم کرنے اور بدھ کے روز لاشوں کی تدفین کروانے کا اعلان کر دیا تھا، تاہم ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نہیں مانے۔ انھوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا، ’ہماری بات سے ہلاک شدگان کے لواحقین زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، انھیں مطمئن کرنا ضروری ہے۔‘ ہمارے نمائندے کے مطابق کوئٹہ میں مجلس کے اراکین نے دھرنے کے مقام پر آ کر مظاہرین سے دھرنا ختم کرنے کے لیے کہا لیکن انھوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ جب تک ہمارے مطالبے نہیں مانے جاتے، دھرنے جاری رہیں گے۔ علامہ امین شہیدی نے پی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ لواحقین کے دو مطالبات ہیں: کوئٹہ شہر کو فوج کے حوالے کیا جائے اور جیلوں میں بند وہ مجرم جن کی پھانسی کے حکم نامے آ چکے ہیں، ان پر عمل درآمد کیا جائے۔ علامہ امین شہیدی نے کہا تھا کہ ان مطالبات کو منوانے کے لیے حکومت سے دوبارہ بات کی جائے گی۔ اس سے قبل پاکستان کے وزیرِاطلاعات قمر زمان کائرہ نے منگل کو کہا تھا کہ کوئٹہ میں کل رات سے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن جاری ہے جس میں 170 افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ شيعہ ہزارہ برادري کے تمام جائز مطالبات مان لیے گئے ہیں اور ان سے گزارش کی ہے کہ وہ تدفین کا عمل شروع کر دیں۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات سانحہ کوئٹہ میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے میتوں کی تدفین مکمل کردی ہے۔ اس سے پہلے جب مظاہرین احتجاج ختم کرکے میتوں کو دفنانے کے لیے قبرستان لے گئے تو وہاں پر فائرنگ سے بھگدڑ مچ گئی تھی۔ text: اسلام آباد انتظامیہ کے مطابق شہر میں دفعہ 144 نافذ ہے اور تحریک انصاف نے اس کنونشن کے لیے درکار اجازت نامہ حاصل نہیں کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنے کارکنوں کی گرفتاری پر جمعے کو ملک بھر میں احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ٭ احتجاج جمہوری حق ہے، جو مرضی ہو ہم نکلیں گے: عمران خان ٭ سیاسی جماعتوں کی تحریک انصاف کے کنونشن پر کارروائی کی مذمت اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر نجی ٹی وی چینل سما سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اگر حکومت کی جانب سے ایسا ہی رویہ رہا تو آنے والے دنوں میں حالات اور زیادہ کشیدہ ہوں گے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ کارکن آج کے واقعے پر مشتعل ہیں اور حکومت کے اس اقدام کا بڑا ردعمل آئے گا۔ گرفتاری کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ’انھیں کتنے عرصے تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے اور وہ جب بھی جیل سے باہر نکلیں گے احتجاج کریں گے۔‘ تحریک انصاف کا یہ اجتماع اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں ایک پنڈال میں منعقد ہونا تھا تاہم پولیس اور ایف سی کے اہلکاروں کی بڑی تعداد وہاں پہنچ گئی۔ پولیس اور ایف سی کے ان اہلکاروں نے جب کنونشن میں آنے والے کارکنوں کو گرفتار کرنا شروع کیا تو وہاں تصادم کی صورتحال پیدا ہو گئی۔ ٹی وی پر دکھائے جانے والے مناطر میں ایف سی اور پولیس کے اہلکاروں کو کارکنوں پر لاٹھی چارج کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس موقع پر وہاں موجود تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے حکومت کے اس اقدام کی سختی سے مذمت کی اور اپنے کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ جب وہ میڈیا سے بات کر رہے تھے تو اس وقت بھی پولیس اور ایف سی اہلکار تحریک انصاف کے کارکنوں کو پکڑ کر وہاں موجود بسوں کے ذریعے منتقل کر رہے تھے۔ تحریک انصاف نے دو نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج دھرنے کا اعلان کر رکھا ہے شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ وہ حکومت کو جواب دینا ہو گا کہ کس جواز کے تحت پرامن اجتماع کو اس طرح کی کارروائی میں نشانہ بنایا گیا۔ انھوں نے اس موقع پر اعلان کیا کہ وہ جماعت کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ پولیس کے آئی جی اسلام کے دفتر جا رہے ہیں اور وہاں نہ صرف اس اقدام پر احتجاج کریں گے بلکہ اپنے کارکنوں کی فوری کارروائی کا مطالبہ کریں گے۔ تاہم اس کے کچھ دیر بعد شاہ محمود قریشی نے اپنی جماعت کے سربراہ عمران خان کی بنی گالہ میں واقع رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ورکر کنونشن میں پہنچنے سے پہلے ہی پولیس کا محاصرہ ہو چکا تھا حالانکہ ہم نے کوئی راستہ بند نہیں کیا تھا، کوئی قانون نہیں توڑا تھا پر ایسا کیوں کیا گیا؟ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے اس صورتحال پر جماعت کے رہنماؤں سے مشاورت کر رہے ہیں اور اپنے وکلا کو مختلف تھانوں میں زیر حراست اپنے کارکنوں کی رہائی کے لیے بھیجا جائے گا اور وہ خود بھی کشمنر اور آئی جی پولیس سے ملاقات کریں گے۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس نے تحریک انصاف کے ایک یوتھ کنونشن کے اجتماع میں کارروائی کرتے ہوئے متعدد کارکنوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ text: مصر کے مردوں کا کہنا ہے لوگ سٹرکوں پر سپائیڈر مین کا لباس پہنے شخص کو دیکھ کر بہت خوش تھے مصر کی ویب سائٹ اہرم کی آن لائن رپورٹ کے مطابق سپائیڈر مین کا لباس پہنے ایک شخص کی تصاویر شہر میں بہت زیادہ مقبول ہو گئی ہیں۔ ان تصاویر میں سپائیڈر مین کا لباس پہنے ایک شخص قاہرہ کی پر ہجوم سٹرکوں پر لوگوں سے باتیں کرتا، بس کو پکڑنے کے لیے بھاگتا دکھائی دیتا ہے۔ اینتیتکا فوٹوگرافی کا کام کرنے والے فوٹو گرافر حسام عاطف کا کہنا ہے کہ اس کرتب کا مقصد لوگوں کو یہ باور کروانا ہے کہ شہر کی زندگی کتنی مشکل ہو سکتی ہے؟ حسام عاطف نے ویب سائٹ اہرم کو بتایا کہ تمام مصری شہری ہر روز ان مشکلات کو برداشت کرتے ہیں اور وہ سپر ہیروز ہیں۔ ویب سائٹ اہرم کی آن لائن رپورٹ کے مطابق سپائیڈر مین کا لباس پہنے ایک شخص کی تصاویر شہر میں بہت زیادہ مقبول ہو گئی ہیں سپائیڈر مین کا لباس پہننے والے شخص عاطف سعد کے مطابق سپائیڈر مین دارالحکومت میں ’تھک‘ چکا ہے۔ مصر میں سپائیڈر مین کا لباس پہن کر فوٹو شوٹ کرنے والے عاطف سعد کو پولیس کی جانب سے متعدد بار روکا جاتا ہے اور انھیں اپنی شناخت کی دستاویزات دکھانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ مصر کے مردوں کا کہنا ہے لوگ سٹرکوں پر سپائیڈر مین کا لباس پہنے شخص کو دیکھ کر بہت خوش تھے۔ عاطف سعد نے ’الوطن ویب سائٹ‘ کو بتایا مصر کے بچے انھیں دیکھ کر یہی سمجھے کہ میں ہی اصل سپائیڈر مین ہوں تاہم بڑی عمر کے لوگوں کا خیال تھا کہ میں صدر جنرل عبدالفتح السیسی کے آدمیوں میں سے ایک ہوں جو ملک میں انصاف قائم کرے گا۔ عاطف سعد نے مزید بتایا کہ مصر کے نوجوان بچے مجھے پسند کرتے ہیں اور میرے ساتھ اپنی تصاویر کھینچوانا چاہتے ہیں۔ مصر کے دو باشندوں کے مطابق شہر کی زندگی مشکل ہو سکتی ہے تاہم دارالحکومت قاہرہ کی زندگی سپر ہیرو کے لیے بھی ایک چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔ text: منفرد انداز کے مالک دیوآنند سے جب کتاب کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ’دیکھیے بہتر یہ ہوگا کہ آپ اسے خود پڑھيں یا کسی ایسے شخص سے پوچھيں جو اس کتاب کو پڑھ چکے ہوں‘۔ انہوں نےمسکراتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں وہ سب کچھ موجود ہے جو ان کی طویل اور رنگین زندگی کا حصہ رہا ہے۔ دیو صاحب کا کہنا ہے ’ کوئی بھی بات خواہ وہ غم سے جڑی ہو یہ پھر خوشی سے جو کچھ بھی مجھے یاد رہا وہ اس کتاب ميں موجود ہے‘۔ جب ان سے یہ پوچھاگیا کہ کیا اس کتاب کو لکھنے کے دوران انہوں نے اپنی اہلیہ اور بیٹے سے مدد بھی لی تو ان کا کہنا تھا’جی نہیں، بالکل نہیں، میں نے جو تحریر کیا ہے وہ میرا اپنا تجربہ ہے‘۔ کتاب کے اجراء کے وقت دیو صاحب کافی خوش نظر آ رہے تھے۔ اس عمر میں جو جوش و خروش دیو صاحب میں نظر آیا اس کا نظارہ بہت کم ہی ملتا ہے۔ زندگی کے تراسی برس پورے کرنے والے دیو صاحب سے جب یہ پوچھا گیا کہ اس عمر میں اس قدر جوش کیسے برقرار ہے ؟ تو وہ فلسفیانہ انداز میں بولے’ آدمی دل سے بڈھا ہو تا ہے اور میں ابھی نہیں ہوا ہوں اور آج بھی کام کر رہا ہوں‘۔ دیو صاحب نے سوانح عمری میں فلمی زندگی کے علاوہ اپنی ذاتی زندگی سے جڑی ہوئی کئی باتوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے اس کتاب میں ان باتوں کا بھی ذکر کیا ہے جو اس دور میں ’گاسپ‘ کے طور پر اخبارات ميں شائع ہوتی تھیں، تو ان کا کہنا تھا ’جو بھی بات یاد رہی اور مجھے لگا کہ اس کا ذکر ضروری ہے وہ میں نے اس میں شامل کی ہے‘۔ دیوآنند 1923 میں پنجاب کے ضلع گروداس پور میں پیدا ہوئے تھے لیکن فلموں کا شوق انہیں ممبئی لے آیا۔ کافی جدوجہد کے بعد 1946 میں پربھات ٹاکیز کی فلم ’ہم ایک ہیں‘ کے ذریعے وہ پردے پر نظر آئے۔ بعد میں ان کی دوستی مشہور فلم ساز اور اداکار گرودت سے ہوئی اور پھر مشہور گلوکارہ ثریّا کے ساتھ بھی کئی فلموں میں انہوں نے کام کیا۔گلوکارہ ثریّا کے ساتھ دوستی کے رشتے کافی پروان چڑھے تاہم یہ دوستی شادی میں تبدیل نہ ہو سکی۔ لیکن ثریّا نے پھر پوری زندگی شادی نہیں کی۔ دیو صاحب گزشتہ چھ عشروں سے فلم میں کام کر رہے ہیں اور اس دوران فلموں میں اداکاری کے ساتھ ساتھ ہدایت کاری بھی کی۔ دیو صاحب آج کل ایک انگریزی فلم کی شوٹنگ میں مصروف ہیں جس کے لیے وہ کروئشیا جا رہے ہیں۔ بالی ووڈ کے’سدابہار اداکار‘ دیوآنند نے ہندوستان کی فلم نگری ممبئی میں حال ہی میں اپنی سوانح عمری کی رونمائی کی ہے جس کا نام ’رومانسنگ ود لائف‘ رکھا گیا ہے ۔ text: مقامی محکمہ موسمیات کے حکام کا کہنا ہے کہ یکم جنوری کی شب کشمیر کا درجہ حرارت صفر سے سات اعشاریہ چار ڈگری نیچے چلا گیا جو پچھلے چودہ سالہ عرصہ میں ایک ریکارڈ ہے۔ شدید سردی سے جھیل ڈل کا پانی بھی جم گیا ہے جبکہ وادی میں سیاسی اور سیاحتی سرگرمیوں میں بھی واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ڈل جھیل کے قریب موجود ایک چھابڑی فروش ارشد نے بتایا ’گولیوں سے بچے تھے لیکن لگتا ہے سردی مار دے گی۔شاید میری رگوں میں خون جم رہا ہے‘۔ اس دوران پینے کے پانی کی لائنیں جم جانے کی وجہ سے ہزاروں لوگ متاثر ہو رہے ہیں جبکہ طیاروں کی پروازوں میں دُھند کی وجہ سے خلل پڑنے کے سبب مسافروں کو بھی دقت کا سامنا ہے۔ سرکاری حکام کے مطابق پانچ سو پانی کے چشمے جم گئے ہیں اور پن بجلی منصوبوں کی پیدواری صلاحیت میں مشکلات کے بعد بجلی کٹوتی کی شرح پچاسی فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ سرکاری ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر صورتحال میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی تو آئندہ مہینوں میں کشمیر کو بجلی کے زبردست بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دن میں کھُلی دھوپ اور شام ہوتے ہی درجہ حرارت میں خطرنات حد تک کمی واقع ہونے سے صحت عامہ پر بھی مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ محکمہ موسمیات کے ناظم ٹی کے جوتشی کہتے ہیں کہ اُنیس سو پچانوے میں شبینہ درجہ حرارت منفی آٹھ اعشاریہ دو تک گر گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا ’خشک دن اور سرد راتوں کی صورتحال مزید چند دن تک قائم رہ سکتی ہے کیونکہ اس سال مغربی ڈسٹربنسسز کا اثر کشمیر پر نہیں ہو سکا‘۔ پچھلے سترہ برس میں حکومت نے پہلی بار بالائی سیاحتی مقام گلمرگ میں جس’سنو فیسٹول‘ کا اہتمام کیا تھا ، معیاری برفباری نہ ہونے کے سبب وہاں سکیٹنگ کے مقابلے منعقد کرنے میں بھی مشکلات پیش آئیں۔ تاہم کافی تعداد میں مقامی اور غیر مقامی سیاحوں نے برف پر پھسلنے کا خُوب لُطف اٹھایا۔ لیکن باہر سے آنے والے سیاحوں کو گلمرگ میں توقع سے بہت پتلی برف کی پرت دیکھ کر مایوسی ہوئی۔ اپنے والدین کے ساتھ گلمرگ میں برف میلے کا مزہ لینے آئیں نیتو اور رجنی نے بتایا’ ہم تو برف کا مزہ لینے آئےتھے لیکن برف زیادہ نہیں ہے۔پھر ہم اس میلے سے لطف اندوز ہورہے ہیں‘۔ سرینگر کے ایک نوے سالہ رہائشی ماسٹر غلام قادر راہ کا کہنا ہے کہ پچھلے چالیس سال کےدوران کشمیر کے موسمی حالات میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ وہ کہتے ہیں’ہمارے صحن میں انار کا چھوٹا درخت تھا۔ جاڑے میں برف ہوتی تو وہ غائب ہوجاتا تھا، ہمیں تو دروازہ کھولنے کے لیے کھڑکی سے باہر آنا پڑتا تھا۔ لیکن بعد میں ہم نے دیکھا کہ سالہاسال تک برفباری نہیں ہوئی‘۔ واضح رہے فروری سال دوہزار پانچ میں گزشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران سب سے زیادہ برفباری ریکارڑ کی گئی تھی اور کشمیر کے کئی علاقوں میں برفانی طوفان بھی آیا جس میں متعدد جانیں تلف ہوئیں۔ ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر میں گزشتہ چودہ برس کے دوران شدید ترین سردی کی لہر ریکارڈ کی گئی ہے جس نے عام زندگی کو بےحد متاثر کیا ہے۔ text: ڈونلڈ ٹسک نے کہا کہ اس بحران سے کیسے نمٹا جائے اس کے لیے ’یورپ میں اتفاق رائے‘ کا ہونا ضروری ہے برسلز میں یورپی یونین کی ایک اجلاس میں بات چیت کے بعد یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا ہے کہ ’یورپی یونین اور ترکی کا علمی منصوبہ ہماری ترجیح ہے۔‘ یورپی یونین نے ترکی کو اس کی اپنی سر زمین پر پناہ گزینوں کے رہائش کا انتظام کرنے کے لیے تین ارب 30 کروڑ ڈالر کی رقم مہیا کرنے کا عہد کیا ہے۔ برسلز میں بات کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹسک نے کہا کہ اس بحران سے کیسے نمٹا جائے اس کے لیے ’یورپ میں اتفاق رائے‘ کا ہونا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا ’ہمیں اس میں کامیاب ہونے کے لیے ہر وہ چيز کرنی چاہیے جو ہم کرسکتے ہیں۔ اسی لیے مارچ کے اوئل میں ہم ترکی کے ساتھ ایک خاص ملاقات کے اہتمام کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ اب وہ اس مسئلے پر مزید بات چیت کے لیے یورپی یونین کے رہنماؤں کے ساتھ دو طرفہ بات چیت کا سلسلہ شروع کریں گے۔ یورپی یونین نے ترکی کو تین ارب 30 کروڑ ڈالر کی رقم مہیا کرنے کا عہد کیا ہے ان کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے جرمن چانسلر اینگلا میرکل نے بھی کہا کہ یورپی یونین اور ترکی کا عملی منصوبہ ’کچھ ایسا ہے کہ ہم اسی پر توجہ مرکوز کریں گے۔‘ انھوں نے کہا کہ حالیہ مہینوں میں یورپ میں پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں کچھ کمی آئی ہے لیکن خبردار بھی کیا کہ موسم کے بہار میں جب سردی کم ہوجائے گی تو اس میں زبردست اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ ترکی کے وزیر اعظم احمد اوغلو جمعرات کو برسلز میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کرنے والے تھے لیکن انقرہ میں بم دھماکے کے واقعات کے بعد انھوں نے اپنا دورہ منسوخ کر دیا تھا۔ ترکی میں اس وقت تقریبا 30 لاکھ پناہ گزین مقیم ہیں اور اس میں بیشتر شام میں جاری خانہ جنگی سے بچنے کے لیے آئے ہیں۔ گذشتہ برس یورپ میں بھی تقریبا دس لاکھ پناہ گزین داخل ہوئے جس سے دوسری عالمی جنگ کے بعد اس نوعیت کا بحران پیدا ہوا ہے۔ جمعرات کو ہی یونان کے لیزبوز جزیرے کے پاس پناہ کے متلاشی ایسے تقریبا 900 افراد کو ڈوبنے سے بچایا گیا ہے۔ یورپی یونین کے حکام نے پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے آئندہ مارچ کے اوئل میں ترکی کے ساتھ ایک خصوصی اجلاس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ text: آخری ایک روزہ میچ میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کو 272 رنز کا ہدف دیا تھا مگر پاکستانی ٹیم 49 اوورز میں 256 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ اس میچ میں پاکستانی ٹاپ آرڈر ایک مرتبہ پھر ناکام رہا تاہم مڈل اور لوئر آرڈر میں حارث سہیل اور شاداب خان نے نصف سنچریاں بنائیں۔ میچ کا تفصیلی سکور کارڈ پاکستان کے پاس سیریز بچانے کا آخری موقع ان کے درمیان 100 رنز سے زیادہ کی شراکت ہوئی لیکن وہ فتح گر ثابت نہ ہو سکے۔ ان کے علاوہ عامر یامین نے 32 جبکہ محمد نواز اور فہیم اشرف نے 23، 23 رنز کی اننگز کھیلی۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے سب سے کامیاب بولر میٹ ہنری رہے جنھوں نے چار وکٹیں حاصل کیں۔ اس کے علاوہ مچل سینٹنر نے تین، لوکی فرگوسن نے دو اور کولن ڈی گرینڈہوم نے ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ اس سے قبل نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی تو اوپنر کولن منرو اور مارٹن گپٹل نے جارحانہ انداز میں اننگز کا آغاز کیا۔ 5.2 اوور میں 52 رنز کے آغاز کے بعد نیوزی لینڈ کی پہلی وکٹ گری جب منرو رومان رئیس کی گیند پر کیچ آؤٹ ہو گئے۔ انھوں نے 34 رنز بنائے۔ کولن منرو کے بعد کین ولیمسن کریز پر آئے اور انھوں نے گپٹل کے ساتھ مل کر سکور کو 100 تک پہنچا دیا۔ نیوزی لینڈ کی دوسری وکٹ 101 کے سکور پر اُس وقت گری، جب عمر امین نے ولیمسن کو کیچ کر لیا۔ انھوں نے 22 رنز بنائے تھے۔ ولیمسن کے آؤٹ ہونے کے بعد روس ٹیلر آئے اور مارٹن گپٹل کے ساتھ مل کر شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور اُن کی پارٹنرشپ میں 150 رنز بنے۔ اوپنر مارٹن گپٹل نے بہت پر اعتماد انداز میں بیٹنگ کی اور سنچری بنائی۔ سنچری کے بنانے بعد اگلی ہی گیند پر وہ آؤٹ ہو گئے۔ انھیں بھی رومان رئیس نے آؤٹ کیا، روس ٹیلر نے 59 رنز بنائے اور انھیں فہیم اشرف نے آؤٹ کیا۔ اس کے بعد آنے والے کھلاڑیوں میں گرینڈہوم علاوہ باقی تمام کھلاڑی سکور میں زیادہ اضافہ نہ کر سکے۔ آخری دس اووز میں نیوزی لینڈ کی پانچ وکٹیں گریں۔ پاکستان کے لیے رومان رئیس نے تین جبکہ فہیم اشرف نے دو وکٹیں لیں۔ ایک وکٹ عامر یامین کے حصے میں آئی۔ ’جب پاکستانی بیٹنگ پہ احتیاط طاری ہوئی‘ اس میچ کے لیے پاکستان کی ٹیم میں تین تبدیلیاں کی گئیں اور حسن علی، شعیب ملک اور محمد عامر کی جگہ عامر یامین، عمر امین کو محمد نواز شامل کیا گیا ہے۔ پانچ میچوں کی اس سیریز میں نیوزی لینڈ کو پہلے ہی تین صفر کی فیصلہ کن برتری حاصل ہے۔ ویلنگٹن میں کھیلے گئے پہلے ایک روزہ میچ میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کو ڈک ورتھ لوئس طریقے کے تحت 61 رنز سے ہرایا تھا جبکہ بارش سے متاثرہ دوسرے میچ میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کو آٹھ وکٹوں سے شکست دی تھی ڈنیڈن میں کھیلے جانے والے تیسرے میچ 183 رنز سے شکست پاکستان کا مقدر بنی تھی۔ ہیملٹن میں کھیلے جانے والے چوتھے میچ میں پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے میزبان ٹیم کو فتح کے لیے 263 رنز کا ہدف دیا جو اس نے 46ویں اوور میں حاصل کر لیا۔ ویلنگٹن میں کھیلے جانے والے پانچویں اور آخری ون ڈے کرکٹ میچ میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کو 15 رنز سے شکست دے کی سیریز 5-0 سے جیت لی ہے۔ text: گذشتہ چند روز میں چار شہریوں کی ہلاکت کی ذمہ داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کی اتوار کی صبح کو بھی اسی طرح معراج الدین نامی شہری کو قتل کیا گیا۔ گذشتہ چند روز میں ایسے چار افراد کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا جن کا ماضی میں مسلح مزاحمت کے ساتھ تعلق رہا ہے۔ اس سے قبل لشکر اسلام نامی گروپ نے دو ایسے شہریوں کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی تھی جنھوں نے موبائل فون کے ٹاور اپنی زمین میں نصب کروائے تھے۔ لشکر اسلام کا کہنا تھا کہ مواصلات کی جدید سہولات کو حکومت ان کے ساتھیوں کی ہلاکت کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ تاہم گذشتہ چند روز میں چار شہریوں کی ہلاکت کی ذمہ داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔ اگرچہ ان ہلاکتوں کا دائرہ ابھی سوپور تک ہی محدود ہے تاہم ٹارگٹ کلنگ کے نئے رجحان نے پوری وادی کو خوفزہ کر دیا ہے۔ سوپور کی صورتحال پر وزیراعلیٰ مفتی سعید نے ابھی تک لب کشائی نہیں کی پولیس کے سربراہ کے راجندرا کا اصرار ہے کہ مسلح تنظیموں کے درمیان بالادستی کی کشکمش کے نتیجے میں گروہی تصادم ہو رہے ہیں اور یہ ہلاکتیں اسی کا نتیجہ ہیں۔ تاہم انھوں نے اعلان کیا ہے کہ ان وارداتوں کی تحقیقات جاری ہیں اور عنقریب اس میں ملوث افراد کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ دوسری جانب سید علی گیلانی اور مسلح تنظیموں کے اتحاد جہادکونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے ان ہلاکتوں کے لیے بھارتی خفیہ ایجنسیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ صلاح الدین نے ان ہلاکتوں میں ملوث افراد کو ’سزا‘ دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ سید علی گیلانی نے ایک بیان میں کشمیر کے وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا: ’مفتی سعید کو اقتدار میں رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔ وہ اگر اب بھی کُرسی سے چمٹے رہے تو لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ بھارتی ایجنسیوں کی طرف سے بنائے گئے قتل کے ان منصوبوں میں وہ ان کے اعانت کار ہیں۔‘ واضح رہے مفتی سعید کشمیر میں تعینات تمام فوجی، نیم فوجی اور سراغ رساں اداروں کے ’یونیفائڈ ہیڈکوارٹرز‘ کے چیئرمین ہیں۔ انھوں نے قیام امن سے متعلق مقامی حکومت کی بے بسی کے بارے میں پوچھے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا: ’میں یونیفائڈ ہیڈکوارٹر کا سربراہ ہوں۔ میرے پاس معلومات ہیں، مجھے معلوم ہے کیسے امن قائم ہو گا۔‘ ٹارگٹ کلنگ کے نئے رجحان نے پوری وادی کو خوفزہ کر دیا ہے تاہم سوپور کی صورت حال پر انھوں نے ابھی تک لب کشائی نہیں کی ہے۔ حالانکہ ان کے حریف عمر عبداللہ نے سلامتی کی اسی بگڑتی صورت حال پر احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ کشمیر میں 20 ہزار سے زائد ایسے شہری ہیں جن کا ماضی میں بالواسطہ یا بلاواسطہ مسلح مزاحمت کے ساتھ تعلق رہا ہے۔ ان میں سے بیشتر نے طویل قید کاٹنے کے بعد خاندانی زندگی کو ترجیح دی، تاہم ایک بڑی تعداد غیر مسلح جہدوجہد کے لیے علیحدگی پسندوں کی صفوں میں شامل ہو گئے۔ سوپور میں پراسرار قتل کی وارداتوں میں سابقہ مزاحمت کاروں کی ہلاکت سے ان سبھی حلقوں میں خوف کی لہر پھیل گئی ہے۔ اتوار کی شب سید علی گیلانی نے اعلان کیا اس صورت حال کے سدباب کے لیے وہ حکمت عملی وضع کریں گے، لیکن پیر کی صبح قتل کی ایک اور واردات رونما ہو گئی۔ بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کے ضلع بارامولا کے قصبے سوپور میں پراسرار ہلاکتوں کی تازہ واردات میں پیر کی صبح نامعلوم اسلحہ برداروں نے اعجاز احمد ریشی نامی شہری کو گھر کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ text: شریف خاندان کے خلاف یہ ریفرنس حدیبیہ پیپر ملز، اتفاق فونڈری اور رائے ونڈ میں غیر قانونی اثاثہ جات بنانے کے حوالے سے قائم کیے گئے ہیں۔ جمعرات کو راولپنڈی کی احتساب عدالت میں ان مقدمات کی سماعت شروع ہوئی تو نیب کے ڈپٹی پراسکیوٹر جنرل ذوالفقار بھٹہ نے عدالت کو بتایا کہ نیب کا عملہ قومی مصالحتی آرڈیننس کے تحت مقدمات کی جانچ پڑتال میں مصروف ہے لہذٰا انہیں ان مقدمات کے بارے میں اعلٰی حکام کی طرف سے ہدایات نہیں ملی۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ان مقدمات کی سماعت ملتوی کر دی جائے جس پر عدالت نے سماعت انیس جون تک ملتوی کر دی۔ واضح رہے کہ شریف برادران کے یہ تمام مقدمات سنہ دو ہزار میں درج کیے گئے تھے۔ بعد ازاں عدالت نے بارہ اپریل سنہ دو ہزار ایک میں نیب کی درخواست پر ان مقدمات کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی تھی تاہم ملزمان کی وطن واپسی کے بعد نیب نے ان مقدمات کو دوبارہ سماعت کی درخواست دی تھی۔ نیب کے ڈپٹی پراسکیوٹر ذوالفقار بھٹہ کے مطابق حدبیہ پیپرز ملز کے مقدمے میں نو افراد کو نامزد کیا گیا تھا جن میں میاں محمد شریف مرحوم، نواز شریف، شہباز شریف، میاں عباس شریف، حسین نواز، حمزہ شہباز، شمیم اختر بیوہ محمد شریف، صبیحہ عباس زوجہ میاں عباس شریف اور نواز شریف کی بیٹی مریم صفدر شامل ہیں۔ اتفاق فونڈریز کے مقدمے میں چھ افراد کو نامزد کیا گیا ہے جن میں میاں محمد شریف، نواز شریف، شہباز شریف، عباس شریف، مختار حسین اور کمال قریشی شامل ہیں جبکہ رائے ونڈ میں واقع اثاثہ جات کے مقدمے میں میاں محمد شریف ان کی اہلیہ شمیم اختر اور میاں نواز شریف نامزد ملزم ہیں۔ تاہم میاں نواز شریف کے والد محمد شریف کی وفات کے بعد عدالت نے اُن کانام ان مقدمات سے خارج کر دیا تھا۔ راولپنڈی کی احتساب عدالت نے جمعرات کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف ان کے بھائی میاں شہباز شریف اور ان کے اہلخانہ کے خلاف دائر ریفرنسوں کی سماعت انیس جون تک ملتوی کر دی ہے۔ text: ذرائع ابلاغ کے ایک ادارے ’ رپورٹرز وتھاؤٹ بارڈرز‘ نے دعوی کیا ہے کہ یاہو نےچینی حکومت کو ایسا ڈیٹا جاری کیا جس نے لی زہی نامی صحافی کو گرفتار کروا دیا۔ لی اس سلسلے میں گرفتار ہونے والے دوسرے شخص ہیں۔ اس سے قبل دوہزار تین میں آن لائن پر لکھنے والے ایک صحافی کو آٹھ سال قید کی سزا دی گئی تھی۔ گزشتہ سال بھی یاہو کو بیجنگ کو ایسی معلومات فراہم کرنے کا مرتکب ٹھرایا گیا تھا کہ جس کی وجہ سے چین کے صوبہ ہونان میں بزنس نیوز سے وابستہ سینتیس سالہ شی تاؤ کو گرفتار کر کے دس سال کی سزا سنائی گئی۔ شی تاؤ کو کمپوٹر سے خفیہ معلومات افشا کرنے کے جرم میں سزا دی گئی۔ صحفیوں کی اس تنظیم نے یاہو سے کہا ہے کہ انٹر نیٹ پر لکھنے والے ان تمام صحافیوں کے نام بتائے کہ جن کی شاخت کے بارے میں وہ چین کے حکام کو بتا چکا ہے۔ یاہو کی ترجمان کاکہنا ہے کہ کمپنی نے قانون سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کیا۔ چین میں حکومت نے انٹرنیٹ کے استعمال کے حوالے سے سخت قوانین نافذ کیے ہیں۔ چار بڑی امریکی کمپنیوں مائیکرو سافٹ، گوگل، یاہو اور سسکو پر چین کے سامنے انٹرنیٹ سینسر کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ گوگل کو بھی گزشتہ ماہ سخت تنقید کا سامنا رہا کیونکہ اس نے بیجنگ کی شرائط مان کر اپنی کچھ سائٹس بلاک کر دیں۔ انٹرنیٹ کمپنی یاہو پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے چین کی حکومت کو ایسی معلومات فراہم کیں ہیں جس کی بنیاد پرانٹرنیٹ پر لکھنے والے ایک اور صحافی کی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔ text: مظفرنگر شہر کے چرتھال قصبے کی 35 سالہ عمرانہ کی آبرو ریزی خود انہیں کے سسر نے کی۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب انکے شوہر گھر پر موجود نہیں تھے۔ عمرانہ نے جب اس پورے واقعہ کا ذکر اپنے شوہر سے کیا تو اپنے والد کے خوف سےاس نے خاموشی اختیار کر لی۔ شوہر کے اس رویے سے پریشان عمرانہ نے اپنے بھائی کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ کسی طرح اس واقعہ کی خبر گاؤں میں پھیل گئی۔ گاؤں میں پنچائت طلب کی گئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ عمرانہ اب اپنے شوہر کے لائق نہیں رہ گئیں ہیں اور انہیں فوراً اپنے شوہر کو طلاق دینی ہوگی اور سسر سے شادی کرنا ہوگی۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ پنچائت نے عمرانہ سے اپنی پاکیزگی ثابت کرنے کے لیے بھی کہا ہے۔ اس معاملے کے بارے میں مظفر نگر کے ایک اعلیٰ پولیس اہلکار امریندر سنگھ سنگیر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ پو لیس نے عمرانہ کے سسر کے خلاف آبروریزی کا مقدمہ دائر کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’ پولیس نے عمرانہ کا بیان لے لیا ہے اور ان کا طبی معائنہ بھی کرایا گیا ہے۔ پولیس عمرانہ کے سسر محمد علی شاہ کو تلاش کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر مولانا جلال الدین عمری نے بتایا ہے کہ عمرانہ اور انکے شوہر کے درمیان اب کوئی رشتہ نہیں بچا ہے۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ نفسیاتی طور پر یہ ممکن نہیں ہے کہ جس خاتون کے ساتھ اسکے شوہر کے والد نے زیادتی کي ہو وہ دوبارہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنے لگے۔کیونکہ اس کے لیے اپنے سسر کے حوالے سے اس رشتے کو برقرار رکھنا ایک اعصابی مسئلہ بن جائے گا۔انہوں نے کہا کہ سسر کو تو انہیں تعزیرات ہند کی دفعات کے تحت سزا ملنی چاہئے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اور سرکردہ وکیل ظفریاب جیلانی نے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے میں برادری پنچایت کو کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ آبروریزی کے بعد اپنے شوہر کی ماں ہو گئی ہیں یہ انتہائی لغو ہے اور ملزم کو اس کی سزا ملنی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے میں مذہبی تنظیموں کو فوراً مداخلت کرنی چاہئے۔ ہندوستان کی ریاست اتر پریش میں آبرو ریزی کا ایک انوکھا معاملہ سامنے آیا ہے ۔ خبروں کے مطابق ایک برادری پنچائت نے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت ایک خاتون کا شوہر ہی اس کا سوتیلا بیٹا بن جائے گا۔ text: گزشتہ برس دو ہزار سے زیادہ افراد کو قتل کیا گیا تھا جبکہ اس سال کے پہلے تین ماہ کے دوران 728 افراد کو قتل کیا جاچکا ہے۔ حکام جرائم کے اعداد و شمار اور اس پر قابو پانے کے بارے میں کیے جانے والے اقدامات سے عدالت کو آگاہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان اعداد و شمار میں اغوا برائے تاوان کا ذکر اب تک نہیں آیا یا اس پر توجہ ہی نہیں دی گئی۔ حالانکہ کراچی میں گزشتہ برس 132 افراد کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا جبکہ اس برس پہلے تین ماہ کے دوران سینتالیس افراد کو تاوان کے لیے اغواء کیا جاچکا ہے۔ پولیس اور سیٹیزن پولیس لیاژان کمیٹی کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس اغواء برائے تاوان کے کیسز میں قلیل مدتی اغوا یعنی short -term kidnapping کی وارداتیں زیادہ ہورہی ہیں۔ سی پی ایل سی کا ادارہ اغوا برائے تاوان کے کیسوں کو حل کرنے میں ایک جانب پولیس اور دوسری جانب اغوا ہونے والے شخص کے اہلِ خانہ کی مدد کرتا ہے۔ سی پی ایل سی کے سربراہ احمد چنائے کا کہنا ہے کہ قلیل مدتی اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں ایک شخص پر نظر رکھی جاتی ہے اور اس کے بارے میں جاننے کے بعد اسے اس کی گاڑی سمیت اغوا کیا جاتا ہے اور شہر کی سڑکوں پر گھمایا جاتا ہے۔ ان کے بقول اسی دوران اغوا کنندہ کے موبائل فون کے ذریعے اس کے اہلِ خانہ سے تاوان کی رقم طلب کی جاتی ہے اور رقم ملنے کی صورت میں اغوا کیے جانے والے شخص کو آزاد کردیا جاتا ہے۔ اس تمام کارروائی میں کوئی چار سے چھ گھنٹے لگتے ہیں اور اب تک کے کیسوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسی وارداتوں میں ہر ایک کیسں میں دو لاکھ سے بیس لاکھ تک کی رقم وصول کی گئی ہے۔ اعداد و شمار کو تیار کرنا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب لوگ کیس کو پولیس میں رپورٹ کرتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی بھی کافی تعداد ہے جو کیس رپورٹ ہی نہیں کرتے۔ کیس رپورٹ نہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جو ہونا تھا ہوگیا اب پولیس اور تھانوں کے چکر لگانے کا کیا فائدہ۔ صرافہ مارکیٹ میں اعظم (اصل نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست) کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ دکان بند کر کے موٹر سائیکلوں پر گھر کے لیے نکلے اور ابھی تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ چند لوگوں نے ان کے بھائی کو گن پوائنٹ پر گاڑی میں بٹھایا اور لے گئے۔ اگلے روز صبح سویرے ہی ان کے ہی فون سے کال آئی کہ ایک بڑی رقم لے کر ان کی بتائی ہوئی جگہ پہنچ جاؤ۔ تھوڑی بحث کے بعد دس لاکھ روپے پر معاملہ طے ہوا اور یوں بھائی کو انہوں نے آزاد کیا۔ ان کے بقول اس سارے معاملے میں پوری رات کی ذہنی کوفت کے علاوہ اگلے دن دوپہر کے تین بج گئے تھے۔ کراچی بدامنی کیس کے سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے دباؤ کے نتیجے میں پولیس نے بظاہر ٹارگٹ کلنگز کی روک تھام پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے لیکن اب تک کوئی افاقہ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس دو ہزار سے زیادہ افراد کو قتل کیا گیا تھا جبکہ اس سال کے پہلے تین ماہ کے دوران 728 افراد کو قتل کیا جاچکا ہے۔ سپریم کورٹ میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت سولہ اپریل کو دوبارہ شروع ہورہی ہے۔ سپریم کورٹ آج کل کراچی بدامنی کیس کی سماعت کررہی ہے جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران بڑی بڑی فائلوں کے ساتھ ہر پیشی پر عدالت کے روبرو کھڑے ہوتے ہیں۔ text: ترکی نے گذشتہ برس دسمبر میں کم از کم 150 فوجی شمالی عراق کے لیے روانہ کیے تھے ترک فوجی دولت اسلامیہ کے زیرِ قبضہ شہر موصل کے نزدیک بعشیقہ کیمپ میں عراقی کرد فورسز کو تربیت دینے کے لیے تعینات ہیں۔ ترکی عراق سے اپنے مزید فوجی واپس بلا رہا ہے عراق میں کردستان کے نیم خود مختار علاقے سے ترک حکومت کے قریبی روابط ہیں۔ ترک حکام کے مطابق جمعے کو ہونے والی اس کارروائی کے دوران 17 شدت پسند ہلاک ہوئے ہیں جبکہ ترک فوج کو کوئی جانی نقصان نھیں اٹھانا پڑا۔ ترکی نے گذشتہ برس دسمبر میں کم از کم 150 فوجی شمالی عراق کے لیے روانہ کیے تھے اور اس کا کہنا تھا کہ انھیں فوجی تربیت دینے والے اہلکاروں کی حفاظت کے لیے بھیجا گیا ہے۔ تاہم عراق ان فوجیوں کی اپنے ملک میں تعیناتی کو اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتا رہا ہے۔ بعدازاں ترک وزارت خارجہ نے بھی فوج کی تعیناتی کے معاملے پر عراق کے ساتھ ’اطلاعات کی غلط ترسیل‘ کا معاملہ تسلیم کیا تھا اور عراق سے کچھ فوجیوں کو واپس بلا لیا تھا۔ یہ اقدامات امریکی صدر براک اوباما کی ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے ساتھ بات چیت کے بعد کیے گئے تھے۔ صدر اوباما نے صدر اردوغان سے کہا تھا کہ وہ بغداد کے ساتھ ’کشیدگی کو کم کریں۔‘ خیال رہے کہ ترکی دولتِ اسلامیہ کے خلاف امریکی قیادت میں قائم اتحاد کا حصہ ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ عراق کے شمالی علاقے بعشیقہ میں ترک فوج پر شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کا حملہ پسپا کر دیا گیا ہے۔ text: اسرائیلی فوجوں کی شدید بمباری کے بعد غزہ کے کچھ محلے زلزلہ زدہ علاقے کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ فلسطینی حکام نے قاہرہ میں عالمی امدادی برادری کی کانفرنس میں اپیل کی ہے کہ اسے حالیہ جنگ سے ہونے والی تباہی سے نمٹنے کے لیے چار ارب ڈالر درکار ہیں۔ اس جنگ کے دوران غزہ کے کم از کم ایک لاکھ رہائشی بےگھر ہو گئے تھے اور علاقے کی زیادہ تر سرکاری عمارتیں اور دیگر سہولیات تباہ ہو گئی تھیں۔ 26 اگست کو ایک امن معاہدے کے نتیجے میں ختم ہونے والی سات ہفتوں کی اس جنگ میں 2,100 فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ دوسری جانب اسرائیل کے 66 فوجی اور سات عام شہری ہلاک ہوئے تھے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے اتوار کو قاہرہ کانفرنس کے موقع پر کہا کہ جوں جوں موسم سرما قریب آ رہا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہزاروں بے گھر فلسطینیوں کی فوری مدد کی جائے۔ ’عزہ کے لوگوں کو ہماری فوری مدد کی ضرورت ہے۔ کل نہیں، اگلے ہفتے نہیں، بلکہ غزہ کو یہ مدد ابھی چاہیے۔‘ جان کیری کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان دیرپا امن کے عہد کے علاوہ مسئلے کے باقی تمام حل ’بینڈ ایڈ فِکس‘ یا عارضی ہوں گے۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کی میزبانی میں ہونے والی قاہرہ کانفرس میں جان کیری کے علاوہ اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے بھی شرکت کی۔ ان کے علاوہ درجنوں دیگر ممالک کے مندوب بھی کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں جن میں خلیجی ریاستیں اور یورپی ممالک بھی شامل ہیں۔امید ہے کہ امریکہ اور خلیجی ریاستیں غزہ کی تعمیر نو کے لیے رقوم مختص کریں گی۔ غزہ میں موجود نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجوں کی شدید بمباری کے بعد غزہ کے کچھ محلے زلزلہ زدہ علاقے کا منظر پیش کر رہے ہیں۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اس تنازعے کے دوران غزہ سے پھینکے جانے والے راکٹوں کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ فلسطینی علاقوں کے لیے یورپی یونین کے مندوب جان گاٹ رٹر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ اس میں کوئی شک نہیں کہ غزہ کا دیرینہ حل فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان ایک سیاسی معاہدہ ہی ہے۔‘ گزشتہ چھ برسوں میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ سات ہفتوں کی جنگ میں ایک لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہوگے قاہرہ سے بی بی سی کی نامہ نگار اورلا گیورن کا کہنا ہے کہ غزہ کی تعمیر نو کا انحصار اس پر ہے کہ آیا اسرائیل تعمیراتی سامان غزہ لائے جانے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں۔ یہ ایک متنازعہ مسئلہ ہے کیونکہ ماضی میں غزہ میں پہنچنے والا سیمنٹ حماس نے غزہ اور اسرائیل کے درمیان سرنگیں بنانے میں استعمال کیا تھا۔ غزہ کی پٹی اسرائیل اور مصر کے درمیان پھنسا ہوا وہ علاقہ ہے جوگزشتہ کئی برسوں سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جنگوں کا نقطہ آغاز ثابت ہوا ہے۔ اسرائیل نے سنہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران غزہ پر قبضہ کر لیا تھا اور یہاں سے اس نے اپنے فوجی اور آباد کاروں کو سنہ 2005 میں نکالا تھا۔اسرائیل سمجھتا ہے کہ اس کے ان اقدامات کا مطلب یہ ہے کہ غزہ پر اس کا قبضہ ختم ہو چکا ہے، لیکن غزہ کے زیادہ تر سرحدی علاقوں، اس کے پانی اور اس کی فضا پر اب بھی اسرائیل کا کنٹرول ہے۔ غزہ کی جنوبی سرحد مصر کے کنٹرول ہیں ہے۔ امریکہ نے غزہ کی تعمیر نو کے لیے 20 کروڑ ڈالر سے زائد کی نئی مالی مدد کا اعلان کیا ہے۔ text: روسی وزارتِ خارجہ کی جانب سے یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ لاوروف کن مفادات کا ذکر کر رہے تھے روس کے سرکاری ٹی وی چینل آر ٹی سے بات کرتے ہوئے روسی وزیر نے امریکہ پر یوکرین میں حالات کنٹرول کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب جبکہ یوکرینی حکومت نے امریکی نائب صدر جو بائڈن کے دورے کے دوران ’انسدادِ دہشت گردی‘ کا آپریشن دوبارہ شروع کیا ہے، تو یہ بات بہت واضح ہوگئی ہے۔ یوکرینی حکومت کو اس وقت ملک کے مشرقی حصے میں مسلح بغاوت کا سامنا ہے اور یوکرین اور مغربی ممالک کا خیال ہے کہ روس ان مزاحمت کاروں کو کنٹرول کر رہا ہے، تاہم روس اس الزام سے انکار کرتا ہے۔ اس وقت مشرقی یوکرین میں دونتسک اور لوہانسک سمیت کم از کم نو شہروں کے بیشتر علاقوں پر ان روس نواز گروہوں کا قبضہ ہے۔ امریکہ روس سے کئی بار یہ مطالبہ کر چکا ہے کہ وہ ان مسلح افراد سے ہتھیار پھینکنے اور عوامی مقامات خالی کرنے کو کہے۔ اس کے علاوہ اس نے روس سے جارحانہ بیان بازی پر بھی قابو پانے کو کہا ہے اور ایسا نہ کرنے پر مزید پابندیاں لگانے کی دھمکی دی ہے۔ روسی چینل سے بات کرتے ہوئے سرگے لاوروف کا کہنا تھا کہ اگر جارجیا کی طرح ’ہم پر حملہ ہوا تو ہم یقیناً جواب دیں گے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اگر ہمارے مفادات، ہمارے جائز مفادات، روسیوں کے مفادات کو براہِ راست نشانہ بنایا گیا جیسا کہ جنوبی اوسیتیا میں ہوا تھا، تو میرے خیال میں عالمی قانون کے مطابق جواب دینے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوگا۔‘ روس کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ روسی وزیر کن مفادات کا ذکر کر رہے تھے۔ امریکہ اور مغربی ملک روس پر الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ وہ مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسندوں کو مدد پہنچا رہا ہے سرگے لاورورف نے یہ بھی کہا کہ اس بات کو تسلیم نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ امریکہ ہی یہ سارا معاملہ چلا رہا ہے۔ اس سے قبل امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے روس کو متنبہ کیا تھا کہ یوکرین میں کشیدگی کم کرنے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو مزید پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ واضح رہے کہ روس نے پچھلے ہفتے جنیوا میں یوکرین پر ہونے والی کانفرنس کی ناکامی کی ذمہ داری کیئف کے رہنماؤں پر ڈالی تھی۔ اس سے قبل یوکرین کے عبوری صدر نے ملک کے مشرقی علاقے میں ایک مقامی سیاستدان سمیت دو افراد کی ہلاکت کے بعد روس کے حامی باغیوں کے خلاف دوبارہ فوجی آپریشن شروع کر دیا تھا۔ دونوں افراد کی لاشوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں تشدد کر کے ہلاک کیا گیا ہے۔ یوکرین کے قائم مقام صدر الیکساندر تورچینوف کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے مقامی رہنما کا نام ولادی میر رِباک تھا جو باغیوں کے کنٹرول والے علاقے سلووينسك کے پاس مردہ پائے گئے ہیں۔ یہ واقعات ایسے وقت ہوئے ہیں جب امریکی نائب صدر جو بائڈن یوکرین کے دورے پر پہنچے ہیں۔ دارالحکومت كيئف میں یوکرین کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد بائڈن نے روس سے کہا کہ یوکرین کے بحران کو ختم کرنے کے لیے اسے ’باتیں بند کرنا چاہیے اور کام شروع کرنا چاہیے۔‘ جو بائڈن نے روس کو خبردار کیا ہے کہ اسے ’مزید اشتعال انگیز کارروائیاں‘ نہیں کرنی چاہییں ورنہ روس ’مزید تنہا‘ہو جائے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ یوکرین کے نئے رہنماؤں کے ساتھ کھڑا ہے۔ روسی وزیرِ خارجہ سرگے لاوروف نے کہا ہے کہ اگر یوکرین میں اس کے مفادات کو نشانہ بنایا گیا تو وہ جوابی کارروائی کرے گا۔ text: چدمبرم نے یہ بات ایک نجی چینل این ڈی ٹی وی کو دیےگئے ایک انٹرویو میں کہی ہے۔اطلاعات کے مطابق اگلے ہفتے وزیر داخلہ ممبئی حملوں کے ثبوت لے کر امریکہ جانے والے ہیں۔ پی چدمبرم کا کہنا تھا کہ ’ممبئی حملہ ان افراد کی ہدایت پر ہوا جو خفیہ اداروں اور کمانڈو آپریشن سے پورے طرح واقف تھے‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ’حملہ آور پوری طرح سے غیر حکومتی عناصر نہیں ہو سکتے ہیں۔جب تک کہ اس بات کو غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا مجھے لگتا ہے کہ وہ حکومتی عناصر تھے یا انہیں حکومت کی طرف سے مدد ملی تھی‘۔ یہ پہلا موقع ہے جب ہندوستان نے پاکستان کے اس موقف کی تردید کی ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ ممبئی حملوں میں پاکستانی حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں۔ چدمبرم کا کہنا تھا کہ ممبئی حملے ایک بڑے پیمانے پر کیا گیا جرم تھا جس کے لیے تفصیلی منصوبہ اور کمیونیکیشن نیٹ ورک اور مالی امداد کی ضرورت تھی۔ امریکہ لے جانے والے شواہد کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ثبوت ممبئی حملوں میں ملوث شدت پسند اجمل قصاب سے کی گئی تفتیش کی رپورٹ پر مشتمل ہیں۔ ہندوستان کے حکام کا کہنا ہے کہ پی چدمبرم دورۂ امریکہ کے دوران امریکہ کے اہم سکیورٹی اہلکاروں اور وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس سمیت نو منتخب صدر باراک اوباما سے بھی مل سکتے ہیں۔ ہندوستان کے وزیر داخلہ پی چدمبرم کا کہنا ہے ممبئی حملے جس مہارت سے کیے گئے اس سے صاف لگتا ہے کہ اس میں پاکستان کے’حکومتی عناصر‘ ملوث تھے۔ text: محمد شریف (حقیقی) کے دیگر رہمناؤں اور کارکنوں کی طرح روپوشی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ قتل کے خطرے کے پیش نظر لاہور میں وہ ہر دو یا تین ماہ بعد مکان بدلتے رہتے تھے۔ حالیہ دنوں میں وہ اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ہمراہ لاہور کے علاقے ٹاؤن شپ کے میں کرائے کے ایک مکان میں رہائش پذیر تھے۔ بدھ کی شب وہ اپنے مکان کے قریب کمرشل ایریا میں واقع ایک حکیم کے شفاخانے جا رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کر دی اور ہلاکت کی تصدیق کرنے کے بعد وہاں سے فرار ہوگئے۔پولیس نے نعش قبضے میں لے کر ابتدائی تفتیش شروع کر دی ہے۔ پولیس حکام کہ مطابق مقتول کی اہلیہ بشریٰ نے بیان دیا ہے کہ ایم کیو ایم (حقیقی، آفاق گروپ) کی متحدہ قومی موومنٹ سے مخالفت تھی جس کی وجہ سے ان کے شوہر دو بچوں اور ان کے ہمراہ لاہور میں روپوشی کی زندگی گزار رہے تھے۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے مقتول کی اہلیہ نے مقدمے میں کسی کو نامزد نہیں کیا۔ ٹاؤن شپ تھانہ کی پولیس نے دو نامعلوم افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ محمد شریف ایم کیو ایم (حقیقی) کے سربراہ آفاق احمد اور عامر خان کی گرفتاری کے بعد کافی عرصہ تک پارٹی کے معاملات چلاتے رہے اور ان کا شمار کراچی میں حقیقی کے خلاف شروع ہونے والی ’کارروائیوں‘ سے بچ جانے والے چند ایک رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی) کے رہنما محمد شریف لاہور میں ہلاک کر دیے گئے ہیں۔ انہیں دو نامعلوم افراد نے بدھ کی شپ ٹاؤن شپ لاہور کے علاقے میں ایک دواخانے کے باہر فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ text: پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے پیر کو سرحد حکومت کی طرف سے حسبہ بل کے نفاذ کے خلاف صدر جنرل پرویز مشرف کے ریفرنس پر سماعت دوبارہ شروع کر دی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں ایک نو رکنی فل بنچ حسبہ بل کی سماعت کر رہا ہے۔ اٹارنی جنرل مخدوم علی خان نے صدارتی ریفرنس کے حق میں دلائل دیتے ہوئے سے عدالت سے کہا کہ حسبہ بل کے نفاذ سے شہریوں کی شخصی اور گھریلو آزادی متاثر ہو گی کیونکہ اس بل میں محتسب کو اختیارت دیے گئے ہیں کہ وہ لوگوں کی اخلاقی طرز زندگی پر نظر رکھے۔ سرحد حکومت نے حسبہ بل کا دفاع کرنے کے لیے سابق وزیر قانون خالد انور اور ڈاکٹر فاروق حسن کو اپنا وکیل مقرر کیا ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس بل میں ایک ایسی پولیس فورس کے قیام کی بات کی گئی ہے جس کو اگر لوگوں کے اخلاقی طرز زندگی پر نظر رکھنے کے اختیارات دے دیے گئے تو یہ خلاف آئین ہو گا کیونکہ ان کے مطابق اس سے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی۔ اٹارنی جنرل نے یہ بھی کہا کہ اس بل کے نفاذ سے طالبان جیسی طرز حکومت قائم ہو جائے گی جس میں نکر پہنے پر لوگوں کے بال منڈوا دیے جاتے تھے۔ ایک موقع پر جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ حضرت محمد اور خلفائے راشدین کے دور میں محتسب کا کوئی تصور نہیں تھا اور یہ تصور کافی بعد میں سامنے آیا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کو یہ دیکھنا ہو گا کہ حسبہ بل قران اور سنت کے مطابق ہے یا نہیں۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کیا محتسب کو جو اختیارات دیے گئے ہیں وہ جابرانہ تو نہیں ہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس بل کے تحت عدالتوں کے اختیارات کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہےاور اس کے تحت ایک متوازی نظام عدل قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں یہ بھی کہا کہ اس بل میں محتسب کے اختیارات کو دانستہ طور پر لامحدود چھوڑا گیا ہے اور ان پر کوئی قانونی قدغن نہیں لگائی گئی ہے جس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کسی عدالت کو یہ اختیار حاصل نہیں ہو گا کہ وہ محتسب کے اختیارت کو چیک کر سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ محتسب کو شہریوں کی زندگیوں میں مداخلت کرنے کا اختیار حاصل ہو گا۔ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ اس بل میں نماز عید کے دوران مسجد کے گرد تجارت کرنے والوں پر پابندی عائد کرنے کی تجویز دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر نماز عید کے بعد کوئی غبارے والا مسجد کے باہر غبارے بیچتا ہے تو اس کو روکنے سے کیا حاصل ہو گا۔ اس پر سرحد حکومت کے وکیل نے کہا کہ صدر جنرل پرویز مشرف کو بھی تو لامحدود اختیارات حاصل ہیں ان پر کوئی کیوں اعتراض نہیں کرتا۔ اس پر عدالت نے خالد انور سے کہا کہ وہ اپنے دلائل کے دوران یہ ساری باتیں کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد عدالت کے سماعت منگل تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔ حسبہ بل چودہ جولائی کو سرحد اسمبلی نے پاس کیا تھا۔ اس بل کے حق میں اڑسٹھ جبکہ مخالفت میں چونتیس ووٹ پڑے تھے۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیوں مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی سمیت کی جماعتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس قانون کی سخت مخالفت کر رہی ہیں جبکے دینی جماعتوں کے مطابق یہ قانون صوبہ سرحد، جہاں دینی جماعتوں کے اتحاد کی حکومت ہے، صوبے میں شریعت کے نفاذ میں مددگار ثابت ہو گا۔ صدر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے پندرہ جولائی کو یہ ریفرنس آئین کے آرٹیکل ایک سو چھیاسی کے تحت دائر کیا گیا ہے ۔اس ریفرنس میں سات سوالات کئے گئے ہیں اور عدالت سے رائے طلب کی گئی ہے۔ صدر نے سپریم کورٹ سے معلوم کیا ہے کہ حسبہ بل آئین یا اس کی کسی شق سے متصادم تو نہیں ہے اور کیا اس بل کو قانونی حیثیت مل جانے کے بعد آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق سلب تو نہیں ہونگے۔ ریفرنس میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ آیا کہ اس بل سے متبادل عدالتی نظام کا قیام تو نہیں ہوگا اور لوگوں کی انصاف سے پہنچ دور تو نہ ہوگی۔ عدالت سے پوچھا گیا ہے کہ ان سات سوالات یا کسی ایک سوال کا جواب ہاں میں ہونے کی صورت میں کیا گورنر اس بل پر دستخط کرنے کے لیے پابند ہیں؟ حسبہ بل کے بارے میں وفاقی حکومت اور سرحد حکومت کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں اور کئی وفاقی وزراء نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت اس بل کو صوبے میں نافذ نہیں ہونے دے گی۔ پاکستان کے اٹارنی جنرل نے سپریم کو بتایا ہے کہ حسبہ بل کے نفاذ سے طالبان طرز حکومت واپس آ جائے گا۔ text: جمعرات کو نوازشریف اور بینظیر بھٹوں کے درمیان جدہ میں ملاقات ہوئی جس میں آصف علی زرداری نے بھی شرکت کی۔ ملاقات میں موجود مسلم لیگ نواز کے رہنما احسن اقبال نے جدہ سے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ یہ معاہدہ بینظیر بھٹو اور نوازشریف کے درمیان ہونے والی تفصیلی ملاقات میں کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں نے ایک ’چارٹر آف ڈیموکریسی(جمہوریت کا منشور)‘ بنانے کے لیے اپنی جماعتوں کے ’ورکنگ گروپ‘ بنانے کا بھی فیصلہ کیا اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ اس منشور پر متفق ہوں تاکہ مستقبل میں ملک کو آمریت سے بچایا جاسکے۔ اس ملاقات میں آصف علی زرادری ، ان کے وکیل سینیٹر فاروق ایچ نائک کے علاوہ مسلم لیگ کی جانب سے احسن اقبال اور کیپٹن صفدر نے بھی شرکت کی۔ ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ دو ماہ بعد مجوزہ بلدیاتی انتخابات میں دونوں جماعتیں تعاون کریں گی جبکہ یہ تعاون آئندہ عام انتخابات میں بھی جاری رہے گا۔احسن اقبال نے بتایا کہ تین گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے دوپہر کا کھانا بھی اکٹھے کھایا۔ ان کے مطابق دونوں سابق اور جلاوطن وزراء اعظم کی زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں نے ایک ساتھ کھانا کھایا ہے۔ دونوں سابق وزراءاعظم دو دو مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم رہے لیکن کبھی اپنی پانچ سالہ مقررہ مدت مکمل نہیں کرسکے۔ آجکل دونوں رہنماء جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان حکومتوں سے باہر رہنے کے بعد یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ بینظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی اور میاں نوازشریف کی پاکستان مسلم لیگ دونوں ’اتحاد برائے بحالی جمہوریت‘ کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہیں اور حزب مخالف کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ملاقات کے بارے میں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی نے علیحدہ علیحدہ بیانات بھی جاری کیے ۔ مسلم لیگ نواز کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ دونوں جماعتیں ملک کی سب سے بڑی پارٹیاں ہیں اس لیے ملک کوموجودہ بحران سے نکالنے کے لیے مشترکہ جدوجہد کریں گی۔ بیان کے مطابق دونوں جماعتیں ملک میں ایک نئے سیاسی دور کا آغاز کرتے ہوئے ایک دوسرے کا احترام، برداشت، انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق، ملکی ترقی، 1973 کے آئین کی اصل شکل میں بحالی، پارلیمان اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے مشترکہ جدوجہد کریں گی۔ مسلم لیگ کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ دونوں جماعتوں کے سربراہان نے اتفاق کیا ہے کہ وہ اپنی صفوں میں دراڑیں ڈالنے کی کسی کی بھی کوششوں کو مل کر ناکام بنائیں گے۔ پیپلز پارٹی کے بیان میں بتایا گیا کہ کم سے کم جمہوریت کے منشور کے تعین کے لیے پیپلز پارٹی سے رضا ربانی اور ڈاکٹر صفدر عباسی جبکہ مسلم لیگ کی جانب سے احسن اقبال اور اسحاق ڈار کو نامزد کیا گیا ہے۔ ان کے بیان میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نواز شریف نے قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمٰن سے ہونے والی بات چیت سے بھی بینظیر بھٹو کو آگاہ کیا۔بینظیر بھٹو نے بعد میں نواز شریف کی اہلیہ اور ان کے بیٹے سے بھی ملاقات کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے جمہوریت کی بحالی، غیرجانبدار الیکشن کمیشن کے زیرانتظام فوری عام انتخابات منعقد کرنے اور ایک دوسرے کے ’مینڈیٹ، کا احترام کرنے کے لیے باضابطہ طور پر تحریری معاہدہ کرلیا ہے۔ text: نتائج کے مطابق کنزویٹوپارٹی کے انتالیس سالہ رہنما ڈیوِڈ کیمرون کو سب سے زیادہ ایک لاکھ چونتیس ہزار اور چار سو چھالیس ووٹ ملے جبکہ ان کے حریف ڈیوِڈ ڈیوِس کو چونسٹھ ہزار تین سو اٹھانوے ارکان کی حمایت حاصل ہوئی۔ ڈیوِڈ کیمرون برطانوی پارلیمان میں پہلی بار سات دسمبر کو بحث کے دوران وزیراعظم ٹونی بلیئر سے آمنے سامنے ہوں گے۔ برطانوی سیاست میں کیمرون کا موازنہ ٹونی بلیئر سے کیا جاتا رہا ہے کیوں کہ ٹونی بلیئر نے جب لیبر پارٹی کی قیادت سنبھالی تھی تو کم تجربہ کار تھے لیکن کیمرون کی طرح اپنی جماعت کے نوجوان رہنما تھے۔ ذیلی صفوں سے پارٹی کی قیادت تک کا سفر ڈیوڈ کیمرون نے بہت تیزی سے طے کیا۔ سات ماہ پہلے جب عام انتخابات میں کنزرویٹیو پارٹی کی مسلسل تیسری شکست کے بعد اس وقت کے قائد مائیکل ہاورڈ نے قیادت سے استعفی دیا تو ڈیوڈ کیمرون کے بارے میں عام تاثر یہ ہی تھا کہ وہ اس منصب کے لیے کم عمر اور ناتجربہ کار ہیں۔ اگرچہ وہ اپنی پارٹی کے کئی سینئر رہنماؤں کے مشیر رہ چکے تھے لیکن خود دو ہزار ایک کے انتخابات میں پہلی بار پارلیمنٹ میں پہنچے تھے۔ حکمراں جماعت لیبرپارٹی کے سن انیس سو ستانوے میں اقتدار سنبھالنے کے بعد کنزویٹیو پارٹی کی قیادت پانچ بار تبدیل ہو چکی ہے۔ اب ان کی پارٹی انہیں حکمراں جماعت کے سربراہ اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کا ہم پلہ سجمھتی ہے۔ انتِخابات کے نتائج کے بعد کیمرون نے کہا: ’میں ایک ایسی کنزویٹیو جماعت کی قیادت کرنا چاہتا ہوں اور قیادت کروں گا جو جب، (ٹونی بلیئر کی موجودہ) حکومت ٹھیک کام کرے گی تو ہم اس کا ساتھ دیں گے اور جب وہ راہ سے بھٹکے گی تو ہم اس کا محاسبہ کریں گے اور اس پر تنقید کریں گے۔ ہم اس ملک کے مستقبل سے نہیں کھیلیں گے۔‘ برطانیہ میں حزب اختلاف کی جماعت کنزرویٹِو پارٹی کے انتخابات میں نوجوان رہنما ڈیوِڈ کیمرون کو جماعت کے اراکین نے پارٹی کا رہنما منتخب کرلیا ہے۔ text: اٹلس فائیو نامی راکٹ کیپ کارنیوال ایئر فورس سٹیشن سے خراب موسم کے باعث تین دن کی تاخیر سے روانہ ہوا اتوار کو امریکی سامان سے لدا ایک خلائی جہاز انٹرنیشنل سپیس سٹیشن کی جانب روانہ ہوا۔ خلائی جہاز اڑان کے فوراً بعد تباہ یہ گذشتہ کئی ماہ کے دوران خلائی مرکز کی طرف جانے والا پہلا خلائی جہاز ہے۔ امریکہ نے اپنا آخری خلائی جہاز اس سال اپریل میں سٹیشن کی طرف بھیجا تھا۔ اٹلس فائیو نامی راکٹ کیپ کارنیوال ایئر فورس سٹیشن سے خراب موسم کے باعث تین دن کی تاخیر سے روانہ ہوا ہے اور توقع ہے کہ سگنس کیپسول بدھ تک خلائی سٹیشن پہنچ جائے گا۔ اس سے قبل راکٹ کی ناقص اڑان اور دیگر خرابیوں کی باعث خلائی مرکز پر سامان پہنچانے کی کئی کوششیں ناکام ہوئی تھیں جس کی وجہ سے اس وقت خلائی سٹیشن سامان کی قلت کا شکار ہے۔ اتوار کو روانہ ہونے والے جہاز میں ساڑھے تین ہزار کلو سے زیادہ وزنی سامان موجود ہے، جس میں غذائی اشیا، کپڑے، کمپیوٹر کے آلات، خلا میں چہل قدمی کا لباس، سائنسی آلات اور دیگر اشیا شامل ہیں۔ اس وقت خلائی سٹیشن پر صرف چار ماہ کی غذا رہ گئی ہے جبکہ ناسا کی کوشش ہوتی ہے کہ خلا میں چھ ماہ تک کا سامان پیشگی موجود رہے۔ راکٹ بنانے والی کمپنی یونائیٹڈ لانچ الائنس کے صدر ٹوری برونو نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ ’سانتا سٹیشن کی طرف کامیابی سے جا رہا ہے۔‘ سپیس سٹیشن پر موجود چھ خلابازوں نے اپنی کھڑکیوں سے جہاز کی تصاویر لیں اور کمانڈر سکاٹ کیلی نے ٹویٹ کیا کہ ’ہم نے افق پر کچھ بہت ہی زبردست دیکھا۔‘ ناسا نے دو پرائیوٹ کمپنیوں اوربٹل اے ٹی کے اور سپیس ایکس کو خلائی سٹیشن میں سامان پہنچانے کا ٹھیکہ دیا تھا۔ یہ دونوں کمپنیاں اپنے راکٹوں میں خرابی کے باعث سامان پہنچانے میں ناکام رہیں تھیں۔ اوربٹل راکٹ اکتوبر2014 میں سامان لے جاتے وقت تباہ ہوگیا تھا جبکہ سپیس ایکس اس سال جون میں اڑان بھرنے میں ہی ناکام رہا تھا۔ اس سال کے شروع میں روس کا بھی سامان پہنچانے والا ایک خلائی جہاز لاپتہ ہوگیا تھا۔ بین الاقوامی خلائی سٹیشن کو رسد کی فراہمی کا سلسلہ کئی ماہ کے تعطل کے بعد بحال ہوگیا ہے۔ text: زیادہ جانی نقصان جھنگ شہر سے گیارہ کلومیٹر دور ملتان روڈ پر موڑ ملہوانہ کے نزدیک ہوا جب تیز رفتاری کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک بس مخالف سمت سے آنے والی ایک مسافر ویگن پرچڑھ گئی اس حادثے میں باپ اور اس کےسات سالہ بیٹے سمیت بارہ افراد جاں بحق ہوگۓ ۔ تھانہ صدر جھنگ کے ایڈیشنل ایس ایچ او نے بتایا کہ دو بسیں بھکر اور لیہ جانے کے لیے ایک ساتھ روانہ ہوئیں۔ اٹھارہ ہزاری کے علاقہ تک ان کا ایک ہی راستہ تھا اور راستہ سے زیادہ مسافر بٹھانے کے لالچ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہی تھیں ۔عین اسوقت جب ایک بس تیز رفتاری سے دوسری کو اوور ٹیک کر رہی تھی سامنے سے ایک ویگن آگئی۔ بس ڈرائیور بس پر قابو نہ رکھ سکا اوربس ویگن پر چڑھ گئی۔ یہ ویگن اٹھارہ ہزاری سٹاپ سے ایک میلے کےشرکاء کو لیکر لوٹ رہی تھی۔ بس ویگن کو گھسیٹتے ہوۓ دور تک لے جانے کے بعد الٹ گئی۔ہلاک ہونے والے زیادہ تر مسافروں کا تعلق ویگن سے بتایا جاتا ہے۔اس حادثے میں بیس کے قریب افراد زخمی ہوۓ جن میں سے چار کی حالت نازک ہے ۔ ایک دوسرے حادثے میں خانپور سے بیس کلو میٹر دور’ بڑی امیر‘ کے مقام پر فیصل آباد سے صادق آباد جانے والی کوسٹر ایک موڑ کاٹتے ہوۓ الٹ گئی جس کے نتیجے میں پانچ افراد موقع پر ہلاک اور بائیس زخمی ہوگئے۔ چھ زخمیوں کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ مقامی پولیس کے مطابق ڈرائیور بس چھوڑ کر بھاگ گیا زخمیوں کو بہالپور ،رحیم یارخان اور خان پور کے ہسپتالوں میں داخل کرا دیا گیا ہے۔ ایک مقامی نامہ نگار کے مطابق اس موڑ پر اس سے قبل بھی اسی نوعیت کے سنگین حادثات ہوچکے ہیں۔ پنجاب میں دو الگ الگ ٹریفک حادثات میں کم از کم سترہ افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہوگئے۔ text: یہ تمام مزدور کرناٹک کے يادگر ضلع سے ٹرک پر مہاراشٹر کے علاقے ساوادتی جا رہے تھے اس حادثے میں کم سے کم 30 دیگر افراد زخمی ہو گئے۔ پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 13 خواتین بھی شامل ہیں۔ پولیس نے بتایا ہے کہ ٹرک ڈرائیور سے بے قابو ہو کر الٹ گیا جس کے نتیجے میں مزدوروں کی ہلاکت ہوئی۔ یہ تمام مزدور کرناٹک کے يادگر ضلع سے ٹرک پر مہاراشٹر کے علاقے ساوادتی جا رہے تھے۔ یہ حادثہ کرناٹک اور مہاراشٹر کی سرحد پر ہوا اور اس حادثے میں زخمی ہونے والے افراد کو مرگد کے مقامی سرکاری اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے جب جائے حادثہ سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ وزیر اعلیٰ سدھا رميا نے ہلاک ہونے والوں کے خاندان کو 1 لاکھ روپے بطور معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے اور زخمیوں کو بھی مدد فراہم کرنے کhا اعلان کیا گیا ہے۔ پولیس نے بتایا کہ مزدور باگل كوٹ ضلع کی قبائلی بستیوں کے رہنے والے تھے۔ تمام مزدور پتھر توڑنے کے لئے مہاراشٹر کے ساوادتی علاقے میں جا رہے تھے۔ اس سے پہلے مدھیہ پردیش کے دتيا ضلع میں ایسے ہی ایک حادثے میں ٹرک ڈرائیور کی لاپرواہی کے نتیجے میں چودہ مزدور جان سے ہاتھ بیٹھے تھے۔ بھارت کی ریاست کرناٹک کے علاقے بیلگام میں مزدوروں کو لے کر جانے والے ایک ٹرک کو حادثہ پیش آنے سے قریباً 22 مزدور ہلاک ہو گئے۔ text: وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے پولیس سے حملوں کی تفصیلات طلب کرلی ہیں دونوں واقعات نیپا چورنگی کے قریب پیش آئے۔ پولیس کے مطابق دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار مسلح افراد نے ایک کار پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک جبکہ دوسرا زخمی ہوگیا، جناح ہسپتال میں شعبہِ حادثات کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق صنوبر خان کو مردہ حالت میں لایا گیا جبکہ عامر شہاب شدید زخمی ہیں اور ونٹی لیٹر پر ہیں۔ انہیں سر اور پیٹ سمیت متعدد گولیاں لگی ہیں۔ دوسرے واقعے میں تھوڑے ہی فاصلے پر ایک کار پر موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک اور شخص ہلاک ہوگیا۔ جبکہ دوسری گاڑی میں موجود مفتی تقتی عثمانی محفوظ رہے۔ ایس پی گلشن طاہر نورانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’مفتی تقی دارلعلوم سے گلشن اقبال جارہے تھے کہ ان پر حملہ کیا گیا۔ گلشن اقبال میں واقع بیت المکرم مسجد میں وہ کئی سالوں سے جمعے کا خطبہ دیتے ہیں۔‘ دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے پولیس سے حملوں کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ یہ بھی پڑھیے جامعہ کراچی کے ڈاکٹر محمد شکیل اوج قتل کراچی: علامہ طالب جوہری کے داماد قتل کراچی: 306 روز میں 719 ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے جے یو آئی کے رہنما قاری عثمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ کار میں مفتی تقی عثمانی بھی سوار تھے جو محفوظ رہے جبکہ ان کا گارڈ ہلاک ہوگیا۔ قاری عثمان کے مطابق مفتی تقی نماز کے بعد فیملی کے ہمراہ جا رہے تھے۔ مفتی تقی عثمانی کون ہیں ؟ مفتی تقی عثمانی تحریک پاکستان کے رکن مولانا شفیع عثمانی کے فرزند ہیں جو دیوبند کے ان علما میں سے تھے جنہوں نے قیام پاکستان کی حمایت کی۔ مولانا شفیع عثمانی، محمد علی جناح کے رفیق مولانا شبیر عثمانی کے قریبی رشتے دار تھے۔ انھوں نے کورنگی میں دارالعلوم کراچی کی بنیاد رکھی جس کے موجودہ مہتمم رفیع عثمانی ہیں جو تقی عثمانی کے بڑے بھائی ہیں اور انہیں مفتی اعظم کا منصب بھی حاصل ہے۔ تقی عثمانی کی پیدائش اکتوبر 1943 میں ہوئی۔ انھوں نے پنجاب بورڈ سے فاضل عربی کی تعلیم حاصل کی اور درس نظامی سے فارغ ہونے کے بعد کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی کی سند حاصل کی۔ آج کل وہ دارالعلوم کراچی میں حدیث اور فقہ پڑھا رہے ہیں۔ تقی عثمانی 44 سے زائد کتابوں کے مصنف اور البلاغ نامی جریدے کے مدیر بھی ہیں جو اردو اور انگریزی میں شائع ہوتا رہا ہے۔ 1981 میں وہ فیڈرل شریعت کورٹ میں جج تعینات ہوئے اور ایک بڑے عرصے تک اس منصب پر فائز رہنے کے بعد جنرل مشرف کی حکومت میں انہیں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ پاکستان میں اسلامی بینکنگ کا نظام متعارف کرانے میں بھی ان کا بنیادی کردار رہا ہے۔ شریعت کورٹ میں انہوں نے ایک فیصلے میں بینکوں میں سود کو اسلامی نظام کے خلاف قرار دیا تھا۔ امریکہ اور اتحادیوں نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو انہوں نے اپنی تقریر اور تحریر میں کھل کر اس کی مخالفت کی تھی مفتی تقی عثمانی کا خاندان سیاست سے دور رہا ہے جبکہ مذہبی طور پر ان کی پاکستان، افغانستان اور انڈیا میں پذیرائی کی جاتی ہے۔ ملا عمر سے مذاکرات کے لیے جب حکومت پاکستان نے علماء کا وفد اسلام آباد بھیجا تو اس میں تقی عثمانی کے بھائی رفیع عثمانی شامل تھے جبکہ لال مسجد آپریشن سے قبل جب حکومت نے لال مسجد انتظامیہ سے مذاکرات کے لیے وفد بھیجا تو ان میں تقی عثمانی بھی شامل تھے۔ تقی عثمانی پر حملے کی تفصیلات اور ردِ عمل قاری عثمان کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے حکم پر علماء سے سیکیورٹی واپس لے لی گئی تھی اور ’وفاق المدارس نے کئی بار شکایت کی لیکن سنا نہیں گیا۔‘ مفتی تقی کے بھتیجے سرور عثمانی نے اپنے فیس بک پر لکھا ہے ’میرے محبوب چچا جان مفتی جسٹس محمد تقی عثمانی پر آج کراچی میں قاتلانہ حملہ کیا گیا لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ فائرنگ میں محفوظ رہے. البتہ ان کا محافظ فائرنگ سے شہید ہوگیا اور ان کا ڈرائیور زخمی ہوگیا لیکن وہ زخمی حالت میں گاڑی کو اس جگہ سے نکالنے میں کامیاب ہوگیا۔‘ سرور عثمانی کے مطابق ’گاڑی میں چچا جان، چچی جان اور ان کے پوتے پوتیاں موجود تھے جو اللہ کا شکر ہے سب محفوظ رہے۔ البتہ شیشے کے ٹکڑوں سے چچی جان کو معمولی زخم آیا۔ پوتے کو بھی شیشے کے کچھ ٹکڑے لگے لیکن سب لوگ بڑے حادثے سے محفوظ رہے۔‘ مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے مولانا مفتی تقی عثمانی پر حملے کی مذمت کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مذہبی شخصیات پر فائرنگ اور دہشتگردانہ حملے شہر کا امن تباہ کرنے کی سازش ہے۔ دہشتگرد قاتلوں کو فوری گرفتار کیا جائے۔ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے بھی کراچی میں فائرنگ کے واقعات میں ہلاکتوں کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ صوبے میں امن و امان کے خلاف سازش کو آہنی ہاتھوں سے روکے اور واقعے میں ملوث ملزمان کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ ‎ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں دارالعلوم کورنگی کے اساتذہ پر حملے کیے گئے جن میں کم از کم دو افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی ان حملوں میں محفوظ رہے۔ text: کشمیری شہدا کا قبرستان (فائل فوٹو) لیکن 13 جولائی سنہ 1931 کے روز سرینگر کی سینٹرل جیل کے احاطے میں اُس وقت کے مطلق العنان مہاراجہ ہری سنگھ کی فوج کے ہاتھوں درجنوں کشمیریوں کی ہلاکت ایسا واحد واقعہ ہے جس پر ہند مخالف اور ہند نواز دونوں حلقے متفق ہیں۔ دونوں اس کارروائی میں ہلاک ہونے والوں کو ’شہید‘ کہتے ہیں اور سالہا سال سے ہند نواز حکمراں ہر سال 13 جولائی کی صبح سرینگر کے خواجہ بازار میں واقع مزارِ شہدا پر گل پاشی کرتے اور سرکاری اعزاز کے ساتھ پولیس کے گارڈ آف آنر کا اہتمام کر کے شہدا کو یاد کرتے تھے۔ لیکن گذشتہ تیس سال سے اس روز علیحدگی پسندوں کو گھروں یا جیلوں میں نظر بند کیا جاتا تھا اور مزارِ شہدا کی طرف جانے والے راستوں کو بند کیا جاتا تھا، کیونکہ ہند نواز حکمرانوں کو لگتا تھا کہ علیحدگی پسندوں کی کال پر لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہو جائے گی جو ہند نوازوں کے لیے سیاسی چیلنج ہوسکتا تھا۔ یہ بھی پڑھیے کشمیر: ایک تصویر، بچہ اور دادا کی لاش برہان وانی کی برسی: انڈیا، پاکستان میں ان کا نام سوشل میڈیا پر ٹرینڈ ’اس دیار فانی سے رحلت تک بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما رہوں گا‘ یہ سارا قضیہ گذشتہ برس پانچ اگست کو اختتام پذیر ہوا، کیونکہ کشمیر کی نیم خود مختاری کو ختم کر کے جموں کشمیر کو انڈین وفاق میں باقاعدہ طور پر ضم کر لیا گیا۔ درجنوں دیگر قوانین کے ساتھ ساتھ مقامی قانون کے مطابق 13 جولائی کی تعطیل کو ختم کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی یوم شہدا منانے کی 70 سالہ سرکاری روایت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ سنہ 2003 میں مزار شہدا پر سرکاری تقریبات کا ایک منظر مورخ، مصنف اور قلمکار پی جی رسول کہتے ہیں: ’اس دن کی مناسبت کسی ہند مخالف نظریہ کے ساتھ نہیں تھی۔ یہ ڈوگرہ شاہی کے خلاف مزاحمت کا حصہ ہے۔ حکومت نے غیر ضروری طور پر کشمیریوں پر ایک ثفافتی اور فرقہ وارانہ جنگ مسلط کر دی ہے۔‘ پی جی رسول مزید کہتے ہیں کہ تاریخی ہیرو لوگوں کے اجتماعی ضمیر کا حصہ ہوتے ہیں، اُن کے مزار کو بند بھی کیا جائے تو اُنھیں کوئی فراموش نہیں کرتا۔ ’سبھاش چندر بوس کی کوئی سمادھی (مزار) نہیں، کیا اس کا مطلب ہے کہ بھارتی عوام اُنھیں بھول جائے گی؟ حضرت موسیٰ کی کوئی قبر نہیں، کیا اس کا مطلب ہے کہ یہودی اُن کو بھول گئے؟ ویسے بھی کشمیر میں یہ ایک رسم رہ گئی تھی، حریت بھی اس دن ہڑتال کی کال دیتی تھی۔ لیکن اس فیصلے سے جموں کشمیر میں ایک فرقہ ورانہ مسابقت آرائی کو ہوا دی گئی ہے۔ اور پھر اس پابندی سے جو نہیں جانتا تھا کہ 13 جولائی کو کیا ہوا تھا وہ ابھی جاننے کی کوشش کرے گا۔‘ کشمیر میں یوم شہدا کے بارے میں جو بھی اجتماعی سوچ ہو، جموں میں حکومت ہند کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا ہے جس کی رُو سے 13 جولائی کی تعطیل کو منسوخ کر کے اس دن ہونے والی سرکاری تقریبات کی روایت کو ختم کر دیا گیا ہے۔ جموں کے سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار ترون اُپادھیائے کہتے ہیں کشمیر کے سیاستدانوں اور علیحدگی پسندوں نے طویل عرصے سے یکطرفہ بیانیے کے ذریعہ جموں کے لوگوں کو نفسیاتی تکلیف پہنچائی ہے۔ ’ظاہر ہے 13 جولائی کو جو ہوا وہ ناخوشگوار واقعہ تھا، لیکن جو کچھ اس دن ہوتا تھا اُس سے جموں والوں کو لگتا تھا کہ کشمیر کے ہند مخالف اور ہند نواز مل کر جموں کو گالی دیتے ہیں۔‘ ترون اُپادھیائے کہتے ہیں کہ ہلاکتوں کا باقاعدہ دن منا کر اس روز سرکاری تقریب اور اُس تقریب میں پولیس کی پریڈ اور مقبرے پر شہیدوں کو سلامی وغیرہ کشمیر کے سابق حکمراں مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف نفرت کا اظہار ہے۔ ’مہاراجہ کوئی غیر تو نہیں تھا، جموں کا باسی تھا۔ جب ایک ہی ریاست میں ریاست کے باشندہ اور بادشاہ کی علامتی شکست کا دن سرکاری طور پر منایا جائے تو یہ بڑی ناانصافی ہے، جس کو بی جے پی حکومت نے دُور کیا ہے۔‘ میر واعظ عمر فاروق جموں کے ہندو اکثریتی خطے اور کشمیر کے مسلم اکثریتی خطے کے درمیان کشمیر کی تاریخ کے بارے میں دیرینہ اختلافات موجود ہیں اور یہی اختلافات یہاں کی سیاست کے خدوخال کی تشکیل کرتے رہے ہیں۔ لیکن عام لوگ حکومت کے ایسے فیصلوں سے ناراض ہیں جن میں حکومت تاریخی یادگاروں کو وطن دشمن قرار دیتی ہے۔ کشمیر یونیورسٹی کی ریسرچ سکالر آفرین قیوم کہتی ہیں: ’لوگوں کی اجتماعی خواہشات کے ساتھ حکومت متفق ہو یا نہ ہو وہ الگ بات ہے، لیکن ستم یہ ہے کہ کشمیر میں حکومت کو مُردوں سے بھی اختلاف ہے۔ تہاڑ جیل میں دفن کیے گئے کشمیری علیحدگی پسندوں مقبول بٹ اور افضل گورو کی لاشیں لواحقین کے سپرد کرنے میں بھی حکومت کو خطرہ محسوس ہوتا ہے اور اب نواسی سال قبل شخصی راج کے خلاف جدوجہد میں مارے گئے کشمیریوں کا مقبرہ بھی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔اس پر انسان کیا تبصرہ کرے؟‘ یہ بات قابل ذکر ہے کہ شخصی راج کے خلاف سنہ 1930 کے اوائل میں کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کے دوران مارے جانے والے لوگوں کو کشمیر کے سابقہ آئین میں شہیدوں کا درجہ دیا گیا تھا۔ گذشتہ برس پانچ اگست کو جب کشمیر کی رہی سہی خودمختاری ختم کردی گئی تو یہ روایت بھی ختم ہو گئی۔ گذشتہ سات دہائیوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ کشمیر میں 13 جولائی کو سرکاری تعطیل نہیں ہے اور کوئی بھی سرکاری اہلکار سرینگر کے پُرانے مزارِ شہدا پر حاضری دینے نہیں گیا۔ تاہم فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی اور دیگر کشمیری سیاسی لیڈروں نے الگ الگ بیانات میں شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ 30 سالہ مسلح شورش کے دوران علیحدگی پسند ہر سال 13 جولائی کو ہڑتال کی کال دیتے تھے۔ اس بار یہ ہوا کہ حکومت نے سرینگر ضلع میں کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک بار پھر سخت لاک ڈاون نافذ کیا ہے۔ گذشتہ سال کے موسم گرما تک انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی جدید سیاست کے دو دھارے تھے: ہند نواز رہنما انڈیا کی سالمیت پر یقین رکھتے ہوئے جموں کشمیر کی اندرونی خود مختاری کی قسمیں کھاتے تھے جبکہ ہند مخالف حلقےخود مختاری کو سیاسی نعرہ قرار دیتے ہوئے کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ کرتے تھے۔ text: گُوگل پلس بغیر کسی بڑی تشہیری مہم کے جون 2011 میں متعارف کروایا گیا تھا گُوگل پلس کی نئی ویب سائٹ کی توجہ کا مرکز اب ’کلیکشنز‘ (دلچسپیوں کے مجموعے) اور ’کمیونیٹیز‘ (سماجی حلقے) ہوں گے تاکہ اسے ذاتی نوعیت کے نیٹ ورک سے زیادہ پسندیدہ مشاغل کے نیٹ ورک کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ گوگل کا نیا لوگو متعارف کروا دیا گیا اپنے بلاگ پوسٹ میں گُوگل لکھتا ہے کہ ’ہم مکمل طور پر نئی شکل کے ساتھ گُوگل پلس کو متعارف کروانے کا آغاز کر رہے ہیں جس میں کمیونیٹیز اور کلیکشنز کو ترجیح دی گئی ہے۔ دلچسپیوں اور مشاغل پر انحصار کرنے والا گُوگل پلس استعمال میں پہلے کی نسبت آسان اور سادہ ہے۔‘ بلاگ پوسٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہم نے اسے انٹرنیٹ، اینڈروئڈ اور آئی او ایس کے حساب سے اسے از سرِ نو تشکیل دیا ہے اور اب اس کا استعمال موبائل فونز پر پہلے سے زیادہ سہل ہو گیا ہے۔ اب آپ بڑی سکرین استعمال کر رہے ہوں یا چھوٹی، آپ یکساں اور تیز رفتار تجربے سے گزریں گے۔‘ ادارے کا کہنا ہے کہ اس نے گُوگل نیٹ ورک کے صارفین کے طریقہ استعمال کا تجزیہ کیا ہے کہ وہ کن مخصوص سہولیات کو استعمال کر رہے ہیں اور ان کے لیے بار بار کیوں گُوگل پلس کی جانب لوٹ کر آتے رہے ہیں۔ گُوگل پلس بغیر کسی بڑی تشہیری مہم کے جون 2011 میں متعارف کروایا گیا تھا۔ اس نیٹ ورک کے بارے میں اصل منصوبہ یہ تھا کہ اسے اصل زندگی میں ہمارے دوستوں، رفقائے کار اور گھر والوں کے ساتھ سماجی حلقوں کی طرز پر تشکیل دیا جائے۔ خیال تو عمدہ تھا لیکن اسے لوگوں نے آخر تک نہیں اپنایا۔ اُس وقت تک فیس بُک کے صارفین کی تعداد پہلے ہی 50 کروڑ تک پہنچ چکی تھی اور صارفین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے تھمنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ حالیہ عرصے میں ایسا محسوس ہونے لگا تھا گویا گُوگل پلس آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہو۔ جیسے کسی گاڑی کی قدر ختم ہونے کے بعد اس کے کارآمد پُرزے الگ سے استعمال کیے جاتے ہیں اسی طرح گُوگل پلس کے عمدہ پہلوؤں کو الگ سے متعارف کروایا گیا تھا۔ مثال کے طور پر گُوگل پلس کی ہینگ آؤٹ ویڈیو چیٹ جیسی سہولت کو علیحدہ سے اپنی شناخت کے ساتھ متعارف کروایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی صارفین کی ناپسندیدگی کے باعث یو ٹیوب کے ساتھ گُوگل پلس کا انضمام بھی ختم کر دیا گیا تھا۔ گُوگل پلس کی اپنی بقا کی جنگ جاری ہے۔ اگرچہ کہے اہداف اب 2011 جتنے بلند نہیں رہے ہیں لیکن مقاصد اب اور بھی واضح ہیں۔ کسی کو اس بات کی پروا ہوتی ہے یا نہیں یہ الگ بات ہے۔ گُوگل پلس کی نئی شکل پیش کر دی گئی ہے تاہم جب تک مکمل طوپر نئی شکل متعارف نہیں کروا دی جاتی، صارفین ’پرانے‘ گُوگل پلس کو مختصر عرصے کے لیے استعمال کر سکیں گے ۔ سوشل میڈیا پر ایک عرصے مذاق کا نشانہ بننے والا گوگل پلس اب بھی ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نظر نہیں آتا اور اب گوگل نے اسے ایک نئی شکل دے دی ہے۔ text: انہوں نے اپنے وفد کے دیگر اراکین کے ہمراہ جن میں وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ بھی شامل تھے جمعہ کے روز صوبہ سرحد کے ضلع چارسدہ میں ولی باغ کا دورہ کیا اور پختون قوم پرست رہنما ولی خان کی وفات پر فاتحہ ادا کی۔ حامد کرزئی تقریبا ڈیڑھ گھنٹے تک ولی باغ میں گزارنے کے بعد ہیلی کاپٹر میں واپس روانہ ہوگئے۔ بعد ازاں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، حامد کرزئی نے حکومت پاکستان کی سرحد پر خار دار تار لگانے کی تجویز مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ دشمنوں کے درمیان لگائی جاتی ہے دوستوں کے درمیان نہیں۔ ان کا موقف تھا کہ یہ لوگوں کو تقسیم کرتی ہے اس لیئے وہ اس کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے دہشت گردوں کو نہیں روکا جاسکتا‘۔ بلوچستان میں مداخلت کے الزام کو بھی افغان صدر نے مسترد کیا اور کہا کہ ان کے ملک کی تمام تر توجہ اس وقت اپنے ملک کی تعمیر نو پر مرکوز ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ’ ہم خود مداخلت کے شکار رہے ہیں ہم کیسے یہ دوسروں کے ساتھ کر سکتے ہیں‘۔ طالبان کے ساتھ مفاہمت کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اعتدال پسند طالبان سے مذاکرات جاری ہیں تاہم تحریک کے سربراہ ملا محمد عمر کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ ’ملا محمد عمر نہ صرف افغانوں بلکہ اسلام کا بھی دشمن تھا۔ انہوں نے جو کچھ کیا اس کا جواب انہیں عدالت کے سامنے دینا ہوگا‘۔ افغان صدر حامد کرزئی نے پاکستان کے ساتھ سرحد پر دہشت گردوں کی آمدورفت روکنے کے لیئے خاردار تار لگانے کی تجویز مسترد کرنے کے علاوہ بلوچستان میں مداخلت کے الزام کی بھی تردید کی ہے۔ text: نیوزی لینڈ نے دوسری اننگز 177 رنز نو کھلاڑی آؤٹ پر ڈیکلیئر کر دی اور اس طرح انگلینڈ کو میچ جیتنے کے لیے 300 رنز کا ٹارگٹ دیا۔ تاہم نیوزی لینڈ کے بولر کائلی ملز نے اپنے پہلے چھ اوورز میں انگلینڈ کے چار کھلاڑی آؤٹ کر کے کھیل کا پانسہ ہی پلٹ دیا اور انگلینڈ کی پوری ٹیم 110 رنز پر آؤٹ ہو گئی اور اس طرح انگلینڈ کو 189 رنز سے شکست ہوئی۔ لنچ پر انگلینڈ کا سکور چار وکٹوں کے نقصان پر 36 تھا اور انگلینڈ کی کوشش تھی کہ کسی طرح میچ ڈرا کرا دیا جائے۔ لیکن نیوزی لینڈ کے کرس مارٹن اس ڈرا کی راہ میں حائل ہو گئے اور 33 رنز دے کر تین کھلاڑی آؤٹ کر دیے۔ اس سے قبل میچ کے چوتھے روز انگلینڈ کے ریان سائیڈبوٹم کی عمدہ بولنگ کے سبب ایسا لگنے لگا تھا کہ شاید انگلینڈ یہ میچ جیت سکتا ہے۔ انہوں نے ہیملٹن ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں سینتیس پر پانچ کھلاڑی آؤٹ کیے اور نیوزی لینڈ کی ٹیم کو مشکل صورتحال سے دو چار کر دیا۔ نیوزی لینڈ نے سیریز کے پہلے میچ کی دوسری اننگز میں چوتھے دن کے کھیل کے اختتام پر آٹھ وکٹیں گنوا کر ایک سو اڑتالیس رن بنائے تھے۔ نیوزی لینڈ نے پہلی اننگز میں چار سو ستر رن بنائے تھے اور انگلینڈ کا پہلی اننگز کا سکور تین سو اڑتالیس تھا۔ اس طرح نیوزی لینڈ کو انگلینڈ پر دو سو انہتر رن کی برتری پہلی ہی حاصل تھی۔ ایک موقع پر نیوزی لینڈ کا سکور ننانوے رنز تھا اور اس کا صرف ایک کھلاڑی آؤٹ ہوا تھا۔ لیکن سائیڈبوٹم کے ایک شاندار سپیل کی بدولت اگلے بیس رنز کے اندر اندر نیوزی لینڈ کی مزید چھ وکٹیں گِر گئیں۔ اس میں سائیڈبوٹم کی ایک شاندار ہٹ ٹرک بھی شامل ہے۔ انہوں نے پہلے اپنے اوور کی آخری گیند پر سٹیفن فلیمنگ کو آؤٹ کیا اور اگلے اوور کی پہلی دو گیندوں پر سنکلیئر اور جیکب اوورم کو آؤٹ کر دیا۔ انگلینڈ کی دوسرے کامیاب بالر مونٹی پنیسر تھے جنہوں نے تین کھلاڑی آؤٹ کیے۔ نیوزی لینڈ کے تیز بولروں نے عمدہ بولنگ سے انگلینڈ کی بیٹنگ لائن تباہ کر کے پہلا ٹیسٹ میچ جیت لیا ہے۔ text: یہ تصویر ایک عوامی غسل گاہ کی ہے جو 17ویں صدی میں ایک حبشی خواجہ سرا نے تعمیر کرائی تھی زیادہ تر افریقیوں نے ہندوستان کا سفر اگرچہ غلاموں یا تاجروں کے شکل میں کیا تھا، تاہم ان میں سے بے شمار نے آخر کار ہندوستان میں ہی سکونت اختیار کر لی اور یہاں کی مختلف سلطنتوں کے عروج و زوال، فتوحات اور جنگوں میں اہم کردار ادا کیا۔ ان میں کچھ کا شمار ہندوستان کے بڑے حکمرانوں اور جنگی اور سیاسی حکمت عملی کے ماہرین میں ہوتا ہے۔ مغربی بھارت کے شہر احمد نگر کے ملک انبار کا شمار ایسے ہی افریقیوں میں ہوتا ہے۔ ملک انبار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے وقت کے طاقتور مغل حکمرانوں سے ٹکر لی تھی جو شمالی بھارت میں اپنا سکہ جما چکے تھے۔ نیو یارک پبلک لائبریری سے منسلک سیاہ فام لوگوں کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے ادارے ’شومبرگ سینٹر فار ریسرچ اِن بلیک ہِسٹری‘ نے حال ہی میں دہلی میں ایک نمائش کا اہتمام کیا۔ اس نمائش کا مقصد ہندوستان کی تاریخ میں افریقہ کے کردار کو اجاگر کرنا تھا۔ ہندوستان پہنچنے والے زیادہ تر افریقیوں کا تعلق افریقہ کے اس علاقے سے تھا جو آج کل ایتھیوپیا کا حصہ ہے، جسے ماضی میں سلطنت ابی سینیا یا حبشہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اسی حوالے سے برصغیر میں ان افریقیوں کو حبشی کہا جاتا تھا۔ شومبرگ سینٹر سے منسلک ڈاکٹر سلوین ڈیوف کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں افریقیوں کی کامیابی کی وجہ ان کی عسکری طاقت اور انتظامی صلاحیتیں تھیں۔ ڈاکٹر سلیون کہتی ہیں کہ افریقی مردوں کو خاص طور پر سپاہی، محلوں کے محافظ یا بادشاہ اور راجاؤں کے ذاتی محافظوں کی حیثیت میں بھرتی کیا گیا، تاہم وہ انتظامی صلاحیتوں کی بدولت ترقی کرتے کرتے جنرل، بحریہ کے سربراہ (امیر البحر) بنے اور اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز ہوئے۔ 17ویں صدی کی کپڑے پر بنی اس پینٹنگ میں دکن کے سلطان کے شاہی جلوس میں افریقی النسل محافظ بھی دکھائی دے رہے ہیں دہلی میں ہونے والی نمائش کے دوسرے منتظم کینیتھ رابِنز کے بقول ہندوستانیوں کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ افریقی نہ صرف یہاں کی کئی سلطنتوں میں اہم کردار ادا کرتے رہے بلکہ انھوں نے ہندوستان میں اپنی بادشاہتیں بھی قائم کیں۔ ’تاریخی شواہد کے مطابق افریقی چوتھی صدی عیسوی میں ہندوستان پہنچ چکے تھے، لیکن بطور تاجر، فنکار، حکمران، ماہر تعمیرات اور مصلح ان کی خدمات اور صلاحیتوں کا اعتراف زیادہ تر 14ویں سے 17ویں صدی کی درمیان ہوا۔‘ 17ویں صدی کی اس پینٹنگ میں دکن کے سلطان عبداللہ قطب شاہ کا جلوس دیکھا جا سکتا ہے جس میں سلطان کی فوج میں افریقی سپاہی بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ سنہ 1887 کی اس پینٹنگ میں محور رقص مرد ’شیدی دھمال‘ میں مصروف ہیں جو افریقی صوفی مسلمان اپنے ساتھ ہندوستان لائے جنوبی ہندوستان میں دکن کے سلطان کی فوج کے علاوہ افریقی مغربی ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں بھی اہم عہدوں تک پہنچے۔ ان میں کچھ حبشی اپنے ساتھ افریقہ کی روایتی موسیقی اور صوفی اسلام بھی ہندوستان لائے۔ مسٹر رابِنز کہتے ہیں کہ ہندوستان کے سلاطین کے اپنے افریقی سپاہیوں پر انحصار کی ایک وجہ یہ تھی کہ شمالی ہندوستان کے مغل حکمران سلاطین کو افغانستان اور وسطی ایشیائی علاقوں سے سپاہی بھرتی کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ کچھ کے علاقے کی سنہ 1887 کی اس پینٹنگ میں شیدی دھمال کا منظر دکھایا گیا ہے۔ یہ صوفی رقص شیدی مسلمان اپنے ساتھ مشرقی افریقہ سے ہندوستان لائے تھے۔ بیجاپور (کرناٹکہ) کا یہ قبرستان افریقی ماہر تعمیرات ملک ساندل کی تخلیق ہے جو اس نے سنہ1597 کے بعد تعمیر کیا تھا ڈاکٹر سلوین ڈیوف کے بقول ہندوستانی حکمران افریقیوں پر بھروسہ کرتے تھے اور ان کی صلاحیتوں کے بھی مداح تھے۔ ’یہ بات سچ ہے۔ خاص طور ان علاقوں میں جہاں موروثی حمکرانی کمزور تھی اور مختلف راجاؤں اور ان کے گروہوں کے درمیان اقتدار کی چپقلش ہوتی رہتی تھی۔ دکن کا علاقہ اسی کی ایک مثال ہے۔‘ کبھی کبھار افریقی بنگال کی طرح ہندوستان کے کچھ دوسرے علاقوں میں بھی طاقت چھین کر اپنے ہاتھ میں لینے میں کامیاب بھی ہو گئے تھے۔ سنہ 1480 میں بنگال میں ایسا ہی ہوا اور ’ایبی سینیائی جماعت‘ نامی گروہ نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس کے علاوہ افریقی ہندوستان کے مغربی ساحلی علاقوں جنجیرا اور سچن میں بھی حکمرانی کرتے رہے۔ ڈاکٹر سلوین ڈیوف کے بقول ’اس کے علاوہ کچھ مقامات پر افریقی گروہوں کی بجائے افریقیوں نے ذاتی حیثیت میں بھی اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس کی مثالوں میں جنوبی ہندوستان میں ادونی کے مقام پر شیدی مسعود اور پھر مغربی ہندوستان میں احمد نگر میں ملک انبار کا اقتدار سنبھالنا شامل ہیں۔‘ اوپر دی ہوئی تصویر میں ایک ایسا مقام دکھایا گیا ہے جہاں کسی کی آخری رسومات ادا کی جاتی تھیں۔ یہ عمارت سنہ 1587 کے بعد کے بیجاپور (موجودہ کرناٹکہ) کے علاقے میں تھی جس کا نقشہ ملک سندل نے بنایا تھا جو خواجہ سرا تھا۔ سنہ 1590 کی اس پینٹنگ میں ایک ہندوستانی شہزادے کو ایک افریقی دعوت میں دیکھا جا سکتا ہے سنہ 1590 کی اس پینٹنگ میں ایک ہندوستانی شہزادے کو ’حبشیوں کی سرزمین‘ یا مشرقی افریقہ میں دعوت کھاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ سنہ 1640 کی اس پینٹنگ میں ہندوستانی فنکار کو افریقی سرود بجاتے دکھایا گیا ہے افریقی اپنے ساتھ اپنی روایتی موسیقی بھی ہندوستان لائے۔ سنہ 1640 اور 1660 کے درمیانی عرصے کی نمائندگی کرتی ہوئی اس پینٹنگ میں ایک فنکار کو افریقی سرود بجاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ سنہ 1904 کی دکن کی اس تصویر میں بھی افریقی محافظ دیکھے جا سکتے ہیں سنہ 1904 میں حیدرآباد دکن میں کھینچی گئی اس تصویر میں افریقی محافظوں کو شاہی قافلے کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ افریقی انسل سلاطین میں سے سب سے زیادہ مشہور ملک انبار تھے جن کا مزار اورنگ آباد میں ہے ہندوستان میں جس افریقی حکمران کو سب سے زیادہ شہرت ملی وہ ملک انبار تھے جو سنہ 1548 میں پیدا ہوئے اور ان کا انتقال سنہ 1626 میں ہوا۔ ان کا مزار آج بھی ضلع اورنگ آباد میں دیکھا جا سکتا ہے۔ نواب شیدی حیدر خان افریقیوں کی سلطنتِ سچن کے حاکم تھے اس پینٹنگ میں سچن کے نواب شیدی حیدر خان کو دکھایا گیا ہے۔ گجرات میں افریقیوں کی سلطنتِ سچن سنہ 1791 میں قائم ہوئی۔ اس ریاست کی اپنی گھُڑ سوار فوج تھی اور سرکاری بینڈ بھی تھا جس میں افریقی سپاہی شامل تھے۔ اس کے علاوہ ریاست کے فوجیوں کی اپنی وردیاں بھی تھیں اور ریاست کی اپنی کرنسی اور ڈاک کے ٹکٹ بھی تھے۔ سنہ 1948 میں جب شہزادوں کی چھوٹی چھوٹی ریاسوں کو بھارت میں ضم کیا گیا تو اس وقت سچن کی ریاست کی آبادی 26 ہزار تھی جس میں 85 فیصد ہندو اور13 فیصد مسلمان شامل تھے۔ تجارت، موسیقی، مذہب، فنون لطیفہ اور فن تعمیر میں ہندوستان اور افریقہ کے درمیان بہت سی تاریخی مماثلت پائی جاتی ہے، لیکن ایسا کم ہی ہوا ہے جب دنیا کے ان دو خطوں کے درمیان تاریخی تعلق پر کوئی بحث ہوئی ہو۔ text: مقامی انتظامیہ کے مطابق جمعہ کو باجوڑ ایجنسی کے صدر مقام خار کے مختلف علاقوں کوثر، لوئی سم اور رشکئ میں گن شپ ہیلی کاپٹروں اور بھاری توپخانے سے شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جس کے نتیجہ میں سات مقامی طالبان ہلاک ہوگئے ہیں۔ حکام کے مطابق ہلاکتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ سکیورٹی فورسز نے رات بھر ٹانگ خطاء؛چارمنگ؛اور تحصیل ماموند کے مختلف علاقوں پر مارٹرگنوں اور بھاری توپخانے سےگولہ باری بھی کی جس میں حکام نے مقامی طالبان کے کئی ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا دعوٰی کیا ہے۔ باجوڑ کی تحصیل اتمان خیل میں قبائل کا ایک جرگہ بھی ہوا ہے جس میں عسکریت پسندوں کے خلاف رضا کارانہ طور پر مُسلح فورس کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ جرگہ میں فیصلہ کیاگیا ہے کہ طالبان کو پناہ دینے والے کا گھر جلایا جائے گا اور دس لاکھ روپے جرمانہ بھی وصول کیا جائے گا۔ ادھر پاکستانی فوج کے ایک ترجمان میجر مراد نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ نیم قبائلی علاقے درہ آدم خیل میں آپریشن کے بعد تباہ شدہ رابطہ پلوں کے مرمت کا کام جاری ہے اور عارضی طور پر پلوں کے قریب سے متبادل راستے بنائےگئے ہیں جن پرگاڑیوں کی آمدورفت شروع ہوگئی ہے۔ باجوڑ میں سکیورٹی فورسز کی تازہ کارروائی میں کم از کم سات مبینہ شدت پسند ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ اتماخیل قبائل کے ایک جرگہ نے عسکریت پسندوں کے خلاف رضا کارانہ طور پر مُسلح لشکر کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ text: عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے جسے ٹینکوں اور جنگی جہازوں کی مدد حاصل تھی، جبیلیہ کے قریب غزہ میں دراندازی کی جہاں مسلح افراد سے اس کی جھڑپ ہوئی۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک اڑتیس سالہ معلم بھی شامل ہیں جو اس وقت مارے گئے جب زمین سے زمین پر مار کرنے والا ایک میزائل ایک علیحدہ حملے میں بیت حنون میں واقع سکول پر آ کر گرا۔ اس جھڑپ میں اسرائیل کی فوج میں کسی قسم کے جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ سنہ دو ہزار چار کے بعد پہلی مرتبہ اسرائیلی علاقے دیامونا میں گزشتہ پیر کو ایک خود کش حملہ ہوا تھا جس کی ذمہ دار حماس نے قبول کی تھی۔ اس حملے کے بعد سے اسرائیل نے حماس کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج سے جنگ کرتے ہوئے اسلامی جہاد تنظیم کا ایک رکن اور اس کے پانچ ارکان مارے گئے۔ تین طالب علم جن کی عمریں سولہ برس کی بتائی جاتی ہیں اس وقت زخمی ہوگئے جب اسرائیل کی طرف سے بیت حنون میں میزئل داغا گیا۔ ایک بیان میں حماس نے کہا ہے کہ اس معلم کا کیا قصور تھا جو طالب علم کی تدریس میں مشغول تھا۔وہ ایک نیک کام کر رہا تھا۔ اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ فوج نے فلسطینی سکول کو نشانہ نہیں بنایا تھا بلکہ فلسطینی عملے کے ان ارکان پر حملہ کیا تھا جو اسرائیل پر راکٹ داغتے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ فوج اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ آیا سکول کی عمارت کسی ’بھٹکے ہوئے‘ میزائل کی زد میں تو نہیں آئی۔ حماس کا کہنا ہے کہ جھڑپوں میں تیزی آنے کے بعد سے اس نے جنوبی اسرائیل پر چالیس راکٹ اور ساٹھ مارٹر گولے داغے ہیں۔ حماس کے مطابق اس کی شروعات منگل کو اسرائیل کی جانب سے انتہائی مہلک فضائی حملے کے بعد ہوئی۔ اس حملے میں حماس کی سکیورٹی فوج کے سات ارکان مارے گئے تھے۔ نامہ نگاروں کے مطابق تشدد میں اضافے سے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی ان کوششوں کو دھچکا لگے گا جو وہ امن کے لیے کر رہے ہیں۔ حماس اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتی اور امن کے عمل کی مخالف ہے۔ گزشتہ جون میں حماس نے غزہ سے محمود عباس کی فوج کو باہر نکال دیا تھا۔ تاہم محمود عباس کو غربِ اردن کے مقبوضہ علاقے میں فلسطینی انتظامیہ کے تحت کنٹرول حاصل ہے جبکہ حماس غزہ پر کنٹرول رکھتی ہے۔ اسرائیلی فوج نےغزہ میں کارروائی کرتے ہوئے فلسطینی تحریک حماس کے پانچ ارکان اور ایک مسلح شخص کے علاوہ ایک معلم کو ہلاک کر دیا ہے۔ text: حقوقِ انسانی کمیشن نے الزام لگایا ہے کہ شجاع خانزادہ کی حفاظت پر معمور ایلیٹ فورس بھی ان کے پاس موجود نہیں تھی لاہور سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کمیشن نے اٹک دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس خوفناک واقعے کے بعد انسدادِ دہشت گردی کی حکمتِ عملی اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے متعلق کئی اہم سوالات سامنے آتے ہیں۔ ’پنجاب حکومت سکیورٹی میں خامی سے انکار نہیں کر سکتی جس کی وجہ سے اتنا بھاری جانی نقصان ہوا۔‘ بیان میں کہا گیا کہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ کو کئی دن سے دھمکیاں دی جا رہی تھیں اور اس کے باوجود وہ اتوار کو تقریباً سکیورٹی کے حصار کے بغیر تھے۔ ’حتیٰ کہ ان کی حفاظت پر معمور ایلیٹ پولیس سکواڈ وہاں موجود نہیں تھی اور بظاہر اجلاس کی جگہ تک رسائی پر بھی کوئی کنٹرول نہیں تھا۔‘ کمیشن نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ انسدادِ دہشت گردی کے متعلق اقدامات کی پڑتال کرے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے سب اقدامات قانون کے مطابق ہونے چاہیئں کیونکہ اس سے کسی بھی قسم کے انحراف سے حکومتی رہنماؤں اور سکیورٹی اہلکاروں کے لیے خطرہ بڑھ جائے گا اور نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان میں حقوق انسانی کے کمیشن نے کہا ہے کہ حکومت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے متعلق اپنی حکمت عملی کا از سرے نو جائزہ لینا ہو گا۔ text: ان کھلاڑیوں میں کپتان راہول ڈراوڈ، سچن تندولکر، وریندرسہواگ، محمد کیف، یوراج سنگھ، ہربھجن سنگھ اور ظہیرخان شامل تھے۔ مائیکل ہولڈنگ، ارون لعل اور شعیب اختر بھی دعوت میں مدعو تھے۔ عمران خان نے اس موقع پر فاسٹ بولر ظہیرخان کو مفید مشورے دیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی بولنگ کمزور ہے۔ انہوں نے کہا کہ عرفان پٹھان اور ظہیرخان اپنی خامیوں کو دور کرکے کارکردگی میں نمایاں بہتری لاسکتے ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ظہیرخان کو بولنگ کرتے وقت اپنے دائیں بازو کے زاویئے کا خیال رکھنا ہوگا اسی طرح سابق پاکستانی کپتان کے خیال میں عرفان پٹھان کو بال کی گرفت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ جب وہ کھیلتے تھے تو جان اسنو اور مائیکل ہولڈنگ سے مشورے کرتے تھے اور اب وہ کسی بھی بولر کی رہنمائی میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ بھارتی ٹیم انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز جیت جائے گی کیونکہ اسے انیل کمبلے اور ہربھجن سنگھ کی خدمات حاصل ہونگی۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کے سات کھلاڑیوں نے جمعرات کو اسلام آباد میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان کی طرف سے دیے گئے ظہرانے میں شرکت کی۔ text: اسلام آباد ہائی کورٹ پہلے ہی ذکی الرحمن لکھوی کی نظربندی کے اقدام کو کالعدم قرار دے چکی ہے یہ حکم اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نور الحق قریشی نے ملزم ذکی الرحمن لکھوی کے وکیل کی طرف سے مذکورہ افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر کی گئی درخواست پر دیا۔ درخواست گزار کا موقف تھا کہ عدالت نے اُن کے موکل کی نظر بندی کو کالعدم قرار دیا تھا تو اس کے بعد اوکاڑہ کے ڈی سی او نے ذکی الرحمن لکھوی کی نظر بندی میں ایک ماہ کی توسیع کر دی جس کی معیاد 13 اپریل کو ختم ہو رہی ہے۔ لکھوی کی نظربندی کے خلاف درخواست مسترد لکھوی کی نظربندی میں چوتھی بار توسیع ’لکھوی کے خلاف نئے مقدمے سے پہلے عدالت کو بتائیں‘ اُنھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے عدالت کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ ملزم ذکی الرحمن لکھوی کے خلاف مستقبل میں کوئی نیا مقدمہ درج کرنے یا اُنھیں خدشہ نقض امن کے تحت حراست میں لینے سے متعلق عدالت عالیہ کو آگاہ کیا جائے گا لیکن اُنھوں نے ایسا نہیں کیا۔ ذکی الرحمن لکھوی کے وکیل رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے مطابق اُن کے موکل کے خلاف دو مقدمات درج تھے جن میں اُن کی ضمانت ہو چکی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ محض مفروضوں کی بنیاد پر کسی شخص کی آزادی کو سلب نہیں کیا جا سکتا اور وفاقی حکومت کا یہ اقدام بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ان افراد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ جسٹس نور الحق قریشی نے اس بات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے نوٹس میں لائے بغیر ذکی الرحمن لکھوی کی حراست کی مدت میں توسیع کیسے کر دی گئی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ عدالت اس تمام معاملے کا جائزہ لے گی اور جو بھی غیر قانونی اقدام میں ملوث پایا گیا اُس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ یاد رہے کہ ملزم ذکی الرحمن لکھوی کا تعلق پنجاب کے وسطی شہر اوکاڑہ ہے اور اس شہر کے ضلعی ربطہ افسر نے خدشہ نقض امن کے تحت اُن کی نظر بندی کی مدت میں ایک ماہ کی توسیع کردی تھی جو تیرہ اپریل کو ختم ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ ذکی الرحمن لکھوی کی نظربندی کے اقدام کو کالعدم قرار دے چکی ہے۔ دوسری جانب ممبئی حملوں کی سازش تیار کرنے کے مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کا دو رکنی بینچ 26 مارچ کو کرے گا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اس مقدمے میں ذکی الرحمن لکھوی کی ضمانت کی درخواست منظور کر لی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ممبئی حملوں کی سازش تیار کرنے کے مرکزی ملزم ذکی الرحمن لکھوی کو عدالت کو بتائے بغیر حراست میں رکھنے کے معاملے پر سیکریٹری داخلہ اور صوبہ پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے ضلعی رابطہ افسر کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ text: مقامی اخبار القدس کے مطابق حماس کا کہنا ہے کہ ڈولفن پر جاسوس کے آلات نصب ہیں جن میں کیمرے بھی شامل ہیں۔ بظاہر یہ ڈولفن حماس کے بحری یونٹ نے پکڑی ہے جس کے بعد اسے ساحل پر لایا گیا ہے۔ البتہ حماس کی جانب سے اس ڈولفن کی کوئی تصویر جاری نہیں کی گئی ہے۔ القدس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے اس ڈولفن کو اس کی مرضی کے خلاف ایک ’قاتل‘ میں تبدیل کر دیا تھا۔ اخبار کے مطابق اس سے حماس کے بحری جنگی یونٹ کی تشکیل پر اسرائیل کا ’غصہ اور بےچینی‘ بھی ظاہر ہوتی ہے۔ اسرائیلی حکام نے جاسوس ڈولفن پکڑنے جانے کی اطلاعات پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اسرائیل غزہ کی زمینی، بحری اور فضائی سرحدوں کو کنٹرول کرتا ہے اور یہ پہلا موقع نہیں کہ اسرائیل پر جانوروں یا پرندوں کو جاسوسی کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگا ہو۔ سنہ 2010 میں اسرائیل نے مصر کے ان الزامات کو مسترد کر دیا تھا کہ بحیرۂ احمر میں شارک مچھلیوں کے حملوں کے پیچھے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کا ہاتھ تھا۔ اس واقعے کے چند ہفتے بعد سعودی عرب میں جی پی ایس ٹرانسمیٹر سے لیس ایک گدھ پکڑا گیا تھا اور اسے بھی موساد کی کارروائی قرار دیا گیا تھا۔ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے غزہ کے ساحل کے قریب ایک ڈولفن پکڑنے کا دعویٰ کیا ہے جو تنظیم کے بقول اسرائیلی جاسوس ہے۔ text: روس نے امید ظاہر کی ہے کہ آئی سی آر سی اب اس امدادی سامان کو تقسیم کرنے میں مدد کرے گا یورپی یونین اور مریکہ ان لاریوں کو واپس بلانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ نیٹو نے کہا کہ اس سے کشیدگی میں اضافہ ہوگا جبکہ روس کا کہنا ہے کہ امداد دینے میں مزید تاخیر ناقابلِ قبول ہے۔ روس نے اس بات کی بھی تردید کی کہ ان کے فوجی اور توپ خانے یوکرین میں موجود ہیں۔ رس سے امدادی سامان لے جانے والا پہلا ٹرک باغیوں کے زیرِ قبضہ شہر لوہانسک پہنچ گیا ہے۔ ادھر اقوامِ متحدہ بھی روس کے امداد لے جانے والے قافلے کا یوکرین میں داخلے کے معاملے پر بات چیت کے لیے ہنگامی اجلاس کرنے والا ہے۔ یوکرین نے روسی قافلے کے داخلے کو ’حملہ‘ قرار دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں روس کے سفیر ویٹالے چیورکین نے کہا کہ روس یوکرین کے فیصلہ سازی کے نظام کا مزید انتظار نہیں کر سکا اور روس کو ضائع ہونے والی اشیا کو بچانے کے لیے قدام اٹھانا پڑا۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ آئی سی آر سی اب اس امدادی سامان کو تقسیم کرنے میں مدد کرے گا۔ دریں اثنا لیتوانیا نے جو روسی اقدامات کا سخت ہے، کہا ہے کہ لوہانسک میں ان کے اعزازی قونصل جنرل کو ’دہشت گردوں‘ نے ہلاک کیا ہے۔ خیال رہے کہ عام طور پر روسی نواز باغیوں کو’دہشت گرد‘ کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یوکرین میں نئی حکومت کی جانب سے اپریل کے وسط میں دونیتسک اور لوہانسک میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائی کے لیے فوج بھیجے جانے کے بعد سے اب تک اس علاقے میں کم از کم 1500 افراد مارے جا چکے ہیں۔ روس نواز علیحدگی پسند چار مہینوں سے یوکرین حکومت کے خلاف ملک کے مشرقی علاقے میں برسر پیکار ہیں اور انھوں نے یوکرین سے علیحدگی کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے ہیں اور بہت سے بھاگ کر روس چلے گئے ہیں۔ یوکرین کی فوج نے دونیتسک کا محاصرہ کر رکھا ہے اور وہاں کے لوگوں کو خوراک اور بجلی کے حصول میں دقتوں کا سامنا ہے۔ حالیہ شورش سے قبل اس شہر کی آبادی دس لاکھ ہوا کرتی تھی۔ مغربی ممالک نے اس روسی فیصلے کی شدید مذمت کی ہے جس کے تحت جنگ زدہ مشرقی یوکرین میں اجازت کے بغیر امدادی سامان لے جانے والی 100 سے زائد لاریوں کو بھیجا جا رہا ہے۔ text: وزیراطلاعات محمد علی درانی نے بی بی سی کو بتایا کہ نواب اکبر بگٹی سنیچر کے روز ایک فوجی آپریشن میں مارے گئے۔ اسلام آباد سے ہمارے نامہ نگار اعجاز مہر کے مطابق اس آپریشن میں 14 سکیورٹی اہلکار بھی مارے گئے ہیں جبکہ نواب اکبر بگٹی کے کچھ ساتھی بھی مارے گئے ہیں۔ کوئٹہ میں ہمارے نامہ نگار عزیزاللہ خان کے مطابق مسلح قبائلیوں کے ایک ترجمان نے سنیچر کو ٹیلی فون پر بتایا کہ سیکیورٹی فورسز نے مخالف قبیلے کے کوئی ڈیڑھ سو افراد کے ساتھ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے سرحدی علاقوں پر حملے کیے ہیں۔ بعض مقامات پر جھڑپیں ہوئیں جن میں سیکیورٹی فورسز اور ان کے حمایتی قبائلیوں کا جانی نقصان ہوا ہے اور دو ہیلی کاپٹروں کو مار گرایا ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ فورسز نے سبی اور سوئی ہسپتالوں میں ایمر جنسی نافذ کر رکھی ہے۔ ترجمان نے کہا ہے کہ چوبیس اگست کو جرگہ کے بعد سے حملے شروع کیے گئے ہیں جو آج بھی جاری رہے۔ سنیچر کی صبح چار ہیلی کاپٹروں نے ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے سرحدی علاقوں میں بمباری کی ہے۔ شام کو یہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ بعد میں جیٹ طیاروں سے بھی حملے کیے گئے۔ پاکستانی حکومت نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی فوجی آپریشن میں مارے گئے ہیں۔ text: پرویز مشرف کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے بھی رابطہ کیا گیا تھا اس مقدمے کے سرکاری وکیل کا کہنا ہے کہ ملزم پرویز مشرف کو اس مقدمے میں گرفتار کرنے اور ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کا فیصلہ تحقیقاتی ٹیم کرے گی۔ جسٹس عبدالسمیع خان کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے سابق صدر پرویز مشرف کی عبوری ضمانت میں توسیع کی درخواست کی سماعت شروع کی تو ملزم کی جانب سے کوئی وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ تاہم کچھ دیر کے بعد ایک خاتون وکیل عدالت میں پیش ہوئیں اور انھوں نے کہا کہ وہ اس درخواست کی پیروی کرنا چاہتی ہیں۔ عدالت نے جب ان سے وکالت نامہ دکھانے کو کہا تو اس ضمن میں وہ عدالت میں کوئی وکالت نامہ پیش نہ کر سکیں۔ اس مقدمے کے سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار کا کہنا تھا کہ دنیا کی عدالتی تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ ایک اشتہاری مجرم کو ضمانت قبل از گرفتاری دی گئی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ملزم پرویز مشرف کی گرفتاری کے لیے انٹرپول تک سے رابطہ کیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ سابق فوجی صدر عدلیہ کے ججوں کو حبسِ بےجا میں رکھنے کے مقدمے میں قید ہیں اور اسلام آباد کی انتظامیہ نے ان کے گھر کو سب جیل قرار دیا ہوا ہے۔ سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم پرویز مشرف کی درخواست مسترد ہونے کے بعد انھیں حراست میں لینے کا فیصلہ اس مقدمے کی تحقیقات کرنے والی وفاقی تحقیقاتی ادارے کی ٹیم کے سربراہ کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں ایف آئی اے میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے۔ سرکاری وکیل کے مطابق اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم کے سربراہ خالد قریشی نے ان دنوں عارضی طور پر ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کا چارج بھی سنبھالا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کو اس مقدمے میں حراست میں لینے اور اُن سے پوچھ گچھ کے لیے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں درخواست دائر کی جائے گی جس کے بعد ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کی استدعا بھی کی جائے گی۔ یاد رہے کہ بےنظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں راولپنڈی پولیس کے سابق سربراہ ڈی آئی جی سعود عزیز سمیت سات افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جن پر فرد جُرم بھی عائد کی جا چکی ہے۔ سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد ان دنوں ضمانت پر ہیں جب کہ پرویز مشرف پر اس مقدمے میں اعانت مجرمانہ کا الزام ہے۔ ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم نے بےنظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس ایس پی خرم شہزاد کا دورانِ تفتیش جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کیا تھا۔ نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق ملک میں سیاسی حکومت کی غیر موجودگی کی وجہ سے ایف آئی اے کے لیے خود فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوگا کہ وہ ایک سابق آرمی چیف کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے متعقلہ عدالت میں درخواست دے۔ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق چیئرپرسن بےنظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں سابق صدر پرویز مشرف کی عبوری ضمانت عدم پیروی کی بنا پر خارج کر دی ہے۔ text: پشاور میں اتوار کو ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر خزانہ شاہ راز خان نے بتایا کہ صوبہ سرحد کا بجٹ الیکشن کا سال ہونے کی باوجود خسارے کا بجٹ ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ لفظوں کا ہیر پھیر نہیں۔ انہوں نے کہا کہ خسارے کو پورا کرنے کے لیے اسی ماہ عالمی بنک صوبائی حکومت کو سات ارب 80 کروڑ روپے کی امداد دے گا جس سے ان کے بقول بجٹ خسارے کی بجائے سرپلس ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مرکز بجلی کی خالص آمدن کی مد میں ثالثی ٹریبونل کا فیصلہ نہ مان کر صوبے کے دوکروڑ عوام کی حق تلفی کررہا ہے اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ملک میں مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم وفاقی وزراء آفتاب احمد خان شیرپاؤ، امیر مقام اور سلیم سیف اللہ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے سیاسی مقاصد پورنے کرنے کے لیے صوبے کے حقوق کے حصول میں روکاوٹیں نہ ڈالیں۔ صوبائی وزیر کی پریس کانفرنس کا زیادہ تر حصہ صوبے کے پن بجلی میں منافع کے بارے میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے پن بجلی کے معاملے میں بطور ’ضامن‘ کردار ادا کیا لیکن اس کے باوجود ٹربیونل کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا ہے۔ شاہ راز خان کے مطابق وفاقی محاصل میں صوبے کو ناقابل تقسیم پول سے آمدن سینتالیس عشاریہ چھ تین ارب روپے، جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں پانچ عشاریہ آٹھ ارب روپے، پن بجلی کا منافع چھ ارب روپے، گیس و تیل کی رائلٹی تین ارب روپے اور وفاقی مالی اعانت کی مد میں چھ عشاریہ دو ارب روپے ملیں گے۔ صوبائی کل محاصل چھ عشاریہ دو ارب روپے بنتے ہیں جس میں اخراجات جاریہ اکسٹھ ارب روپے ہیں ، صوبائی اخراجات بتیس عشاریہ آٹھ ارب روپے اور ضلعی اخراجات اٹھائیس عشاریہ دو ارب روپے ہیں۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ اس بجٹ میں غریب مزدورں کے لیے جن کی ماہانہ تنخواہ چار ہزار روپے ہے سی پی فنڈ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس میں سو روپے ماہانہ حکومت کی طرف سے اور سو روپے مزدور خود ادا کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پیسہ مزدوروں کی فلاح پر خرچ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یتیموں اور بیواؤں کے لیے یونین کونسل کی سطح پر وظیفہ سکیم شروع کی جائیگی جبکہ بیواؤں کی کمرشل پراپرٹی پر ٹیکس معاف کردیا گیاہے۔ صوبہ سرحد میں چھ مذہبی جماعتوں پر مشتمل ایم ایم اے کی حکومت نے مرکز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سرحد کے دو کروڑ عوام کی ’حق تلفی‘ فوری طور پر بند کردے اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر صوبے کو اس کی بجلی کا منافع ادا کرے تاکہ صوبے میں غربت اوردیگر مسائل کاخاتمہ ہوسکے۔ text: جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ محمد البرادعی نے کہا ہے کہ وہ اگلے ہفتے معائنہ کاروں کی ایک ٹیم کے ساتھ ترپولی جائیں گے تاکہ لیبیا کے جوہری پروگرام کا معائنہ شروع کیا جا سکے۔ یہ پیش رفت لیبیا کے اس اعلان کے بعد ہوئی ہے جس میں لیبیا نے اپنے جوہری پروگرام کو ختم کرنے اور اسے بین الاقوامی معائنہ کاروں کے لیے کھولنے کے لیے تیار ہے۔ البرادعی نے لیبیا کے فیصلہ کا خیر مقدم کیا۔ لیبیا کے صدر معمر قدافی نے برطانوی اور امریکی خفیہ اداروں کے حکام کے ساتھ مذاکرات کے بعد اعلان کیا تھاکہ وہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو تلف کرنے کے لیے تیار ہیں۔ البرادعی نے کہا کہ گزشتہ سنیچر کو انہوں نے لیبیا کے جوہری ہتھیاروں کے اعلی اہلکار معتق محمد معتق سے ملاقات کی تھی۔ معتق نے بتایا کہ لیبیا نے کئی سال تک یورینیم کو افزودہ کرنے کی تحقیق پر کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی ٹیم اصلاح کے لیے کام کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ لیبیا کے حکام زیادہ تفصیلی معائنوں پر تیار ہو گئے ہیں۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ائی اے) کے معائنہ کار اگلے ہفتے سے لیبیا کے جوہری پروگرام کا معائنہ شروع کر دیں گے۔ text: متحدہ عرب امارات کی ٹیلی مواصلات کی کمپنی ایتیصلات نے اٹھارہ جون کو پی ٹی سی ایل کے چھبیس فی صد حصص کی کامیان بولی دے کر پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی نجکاری کو اپنے نام کر لیا تھا۔ اس نجکاری کے بعد ایتیصلات پی ٹی سی ایل کا انتظامی کنٹرول بھی سنبھالے گی۔کابینہ کی طرف سے اس نجکاری کی منظوری کے بعد ایتیصلات کو پندرہ دن کے اندر اس بولی کی پچیس فی صد رقم جمع کرانی ہو گی اور بقیہ پچھتر فی صد رقم دو مہینے کے اندر واجب الادا ہو گی۔ ایتیصلات نے پی ٹی سی ایل کے ایک ارب بتیس کروڑ ساٹھ لاکھ حصص کے لئے ایک اعشاریہ چھیانوے ڈالر فی حصص کی بولی لگائی تھی جسے نجکاری کمیشن نے کامیاب قرار دے دیا تھا۔ اس نجکاری کے تحت ایتیصلات نے یہ حصص دو ارب ساٹھ کروڑ ڈالر میں خرید لئے ہیں۔ پاکستان کے اقتصادی شعبے سے وابستہ وفاقی وزرا عبدالحفیظ شیخ، عمر ایوب اور اویس احمد خان لغاری نے اس نجکاری کو انتہائی کامیاب قرار دیا ہے۔ نجکاری کمیشن نے پی سی سی ایل کے نجکاری کے لئے رکھے گئے حصص کی کم سے کم قیمت باسٹھ روپے فی حصص مقرر کی تھی مگر ایتیصلات نے ایک سو سترہ روپے فی حصص کی بولی لگائی جو پاکستانی حکومت کی امیدوں سے کہیں زیادہ رہی۔ ایتیصلات کے مقابلے میں سنگاپور کی سنگ ٹیل نے صفر اعشاریہ اٹھاسی ڈالر فی حصص اور چین کی چائنہ موبائیل نے ایک اعشاریہ صفر چھ ڈالر فی حصص کی بولیاں دی تھیں جو مسترد کر دی گئیں۔ یہ نجکاری پہلے دس جون کو ہونا تھی مگر پی ٹی سی ایل کے نجکاری مخالف ملازمین کی یونین اور پی ٹی سی ایل انتظامیہ کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو گئے تھے جس کے بعد حکومت کی درخوست پر نیم فوجی دستوں نے ملک کی تمام مواصلاتی تنصیبات کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سینکڑوں نجکاری مخالف ملازمین کو بھی حراست میں لیا تھا۔ تاہم اب حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے نجکاری مخالف ملازمین کی یونین کے ساتھ تمام معاملات طے کر لئے ہیں اور ان کے لئے پانچ ارب روپے کا مراعاتی پیکج دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ وزیر اعظم شوکت عزیز کے زیر صدارت پیر کو کابینہ کی نجکاری کمیٹی کے ایک خصوصی اجلاس میں پاکستان کے ٹیلی مواصلات کے سرکاری ادارے پی ٹی سی ایل یعنی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ کی نجکاری کی منظوری دے دی ہے۔ text: گزشتہ روز افغانستان کے وزیر برائے پارلیمانی امور فاروق وردگ نے دعوٰی کیا تھا کہ ان کے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ طالبان دورِ حکومت میں پاکستان نے اپنا جوہری فضلہ افغانستان میں دفن کیا تھا۔ فاروق وردگ نے کابل میں بی بی سی کے نامہ نگار کو بتایا تھا کہ یہ فضلہ سنہ 1996 سے سنہ 2001 کے دوران ملک کے جنوبی صوبوں قندھار اور ہلمند میں دبایا گیا تھا۔ افغان وزیر کے اس بیان پر اپنے ردعمل میں بدھ کے روز وزارت خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ میں ترجمان محمد صادق نے کہا کہ پاکستان کے تمام نیوکلیئر پاور پلانٹس بین الاقوامی ضابطوں کے تحت کام کرتے ہیں جن میں ان پلانٹس کے فضلے کو ٹھکانے لگانے کا بھی نظام اور طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی ایٹمی پلانٹس انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کے حفاظتی نظام کے تحت ہیں اور یہ ادارہ نہ صرف ان پلانٹس کی کارکردگی بلکہ ان کے فضلے کا بھی حساب کتاب رکھتا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ افعان وزیر کا بیان کم علمی کی بنا پر دیا گیا ہے۔ محمد صادق نے کہا کہ ویسے بھی ان پاور پلانٹس کا افغان سرحد سے فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ ایٹمی فضلے کو وہاں تک پہنچانا ہی ممکن نہیں ہے۔ امریکی خفیہ ایجنسی کے سربراہ جنرل مائیکل ہیڈن کے اس بیان پر کہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن پاک۔افغان سرحدی علاقے میں موجود ہیں، دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اس طرح کی باتیں مختلف امریکی عہدیدار پہلے بھی کرتے رہے ہیں اور ہم نے ہمیشہ اسکے ثبوت کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ اگر ان اطلاعات میں کوئی صداقت ہے تو کارروائی کی جائے۔ ترجمان نے کہا کہ پاک۔افغان سرحد دو ہزار کلومیٹر سے زائد لمبی ہے اور اس طرح کے بیانات اس وسیع رقبے پر القاعدہ کے راہنماؤوں کے مبینہ ٹھکانوں کی تلاش میں معاون ثابت نہیں ہو سکتے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ جہاں تک پاکستانی علاقوں میں ان مبینہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کا تعلق ہے تو اس بارے میں امریکہ کے ساتھ واضح مفاہمت موجود ہے کہ پاکستان علاقوں میں کارروائیاں صرف پاکستانی افواج ہی کر سکیں گی۔ جبکہ افعانستان میں موجود امریکی اور اتحادی افواج صرف افعان علاقوں میں کارروائی کی مجاز ہیں۔ محمد صادق نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ قومی مفاد کے لیے لڑ رہا ہے اور پاکستان کی یہ کوششیں کسی بری منصوبہ بندی کے تحت کی گئی ایسی کارروائی کی متحمل نہیں ہو سکتی جو نہ صرف بین القوامی قوانین سے متصادم ہو بلکہ قبائلی علاقوں اور پاکستانی عوام میں بھی انتہائی غیر مقبول ہوں۔ ترجمان کا کہنا تھا اس طرح کا کوئی بھی منصوبہ خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ ہو گا۔ محمد صادق نے اپنے تحریری بیان میں کہا کہ پاکستان اور امریکہ اس بین الاقوامی مہم میں ساتھی ہیں اور ان کے درمیان اس بارے میں اختلاف رائے پائے جانے کا تاثر دہشت گردی کے خلاف کوششوں کے لئے اچھا نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس جنگ کی کامیابی کے لئے ہمیں ایسے اقدامات کے بارے میں باتیں کرنے کے بجائے باہمی تعاون بہتر بنانے کی کو کوششیں کرنی ہوں گی۔ پاکستان نے افغانستان کے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے کہ طالبان کے دور حکومت میں پاکستان اپنا ایٹمی فضلہ افغانستان کے بعض علاقوں میں پھینکتا رہا ہے۔ text: بیگم کلثوم نواز کی بگڑتی صحت پر پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ان کی صحت یابی کے لیے نیک تمناؤں کے پیغامات دیے ہیں۔ جمعرات کی شب نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اطلاع دی کہ کلثوم نواز کو دل کا دورہ پڑا ہے اور وہ اس وقت انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں ہیں اور انھیں مصنوعی طریقے سے سانس دیا جا رہا ہے۔ مزید پڑھیے ’کلثوم نواز سیاست کو سمجھتی ہیں‘ بیگم کلثوم نواز کی ’طبیعت بگڑ رہی ہے‘ خیال رہے کہ بیگم کلثوم نواز کو چند ماہ قبل کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اور وہ اس وقت برطانیہ میں زیر علاج ہیں۔ بیگم کلثوم نواز کے دونوں صاحبزادے حسن اور حسین مسلسل ان کے ساتھ ہیں لیکن ان کے شوہر اور ان کی بیٹی مریم نواز اسلام آباد کی احستاب عدالت سے اجازت ملنے کے بعد جمعرات کو لندن پہنچے تھے۔ ان کی بیٹی مریم نواز نے ٹوئٹر پر اپنی والدہ کی بگڑتی ہوئی صحت کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا، ’ہم جہاز میں تھے جب امی کو اچانک دل کا دورہ پڑا۔ اب وہ آئی سی یو میں وینٹیلیٹر پر ہیں۔ آپ سب سے التجا ہے کہ ان کے لیے دعا کریں۔‘ بیگم کلثوم نواز نے گذشتہ سال لاہور کے حلقے این اے 120 سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن اپنی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے وہ انتخابی مہم نہیں چلا پائی تھیں بلکہ انھوں نے رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے حلف بھی نہیں اٹھایا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ٹوئٹر پر کلثوم نواز کے لیے دعائیہ الفاظ میں کہا کہ ’اللہ انھیں صحت عطا کرے۔‘ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کی جانب سے بیگم کلثوم نواز کی صحت یابی کے لیے دعا کی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ’میری دعائیں بیگم کلثوم نواز کے ساتھ ہیں۔ اللہ انہیں صحت مند اور لمبی عمر دیں۔‘ خیال رہے کہ جب سنہ 1999 میں نواز شریف جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے بعد جیل چلے گئے تھے۔ اس دور میں سیاسی جدوجہد کے دوران اخبارات میں شائع ہونے والی بیگم کلثوم نواز کی ایک تصویر مزاحمت کی علامت بن گئی تھی۔ بیگم کلثوم نواز کا خاندان کشمیر سے تعلق رکھتا ہے جبکہ ان کی پیدائش لاہور میں ہوئی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی لندن میں زیرِ علاج اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی صحت دل کا دورہ پڑنے کے بعد مزید بگڑ گئی ہے۔ text: پشاور کے علاقے بڈھ بیر اور اطراف کے مقامات پر پچھلے چند ہفتوں سے تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے پولیس کے مطابق یہ جھڑپ سنیچر کی شام قبائلی علاقے کی سرحد پر واقع پشاور کے مضافاتی علاقے ماشوخیل بڈھ بیر میں ہوئی۔ بڈھ بیر پولیس سٹیشن کے ایک اہلکار اشفاق عمر نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس اور حکومتی حامی امن کمیٹی کے افراد شام کے وقت علاقے میں مشترکہ گشت کر رہے تھے کہ اس دوران 20 کے قریب مسلح افراد نے ان پر اچانک خود کاروں ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ انھوں نے کہا کہ حملے میں امن کمیٹی کے دو اور سپیشل پولیس فورس کا اہلکار موقع ہی پر ہلاک ہوئے۔ ان کے مطابق پولیس کی طرف سے بھی جوابی کارروائی کی گئی جس میں ایک حملہ آور مارا گیا تاہم دیگر حملہ آور قبائلی علاقے کی جانب بھاگ جانے میں کامیاب ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے علاقے میں کوڑے کے ڈھیر سے دھماکہ خیز مواد برآمد کیا گیا تھا جسے بعد میں بم ڈسپوزل یونٹ کی جانب سے ناکارہ بنا دیا گیا۔ پشاور کے علاقے بڈھ بیر اور اطراف کے مقامات پر پچھلے چند ہفتوں سے تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس سے چند ہفتے قبل بڈھ بیر ہی کے علاقے میں عوامی نیشنل پارٹی کے ایک ضلعی رہنما میاں مشتاق کو مسلح افراد نے ساتھیوں سمیت ایک حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔ کچھ دن پہلے اسی علاقے میں جماعت اسلامی کے ایک رہنما کے گھر پر بھی حملہ کیا گیا تھا جس میں چار افراد مارے گئے تھے۔ اس کے علاوہ اس علاقے میں سکیورٹی اہلکاروں پر حملے بھی ایک معمول بن چکا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پشاور کے سرحدی علاقے بڈھ بیر اور متنی قبائلی علاقے باڑہ اور درہ آدم خیل سے ملے ہوئے ہیں جہاں شام کے وقت حکومت کی عمل داری نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ ان میں بعض علاقے بدستور پولیس کے لیے’نو گو ایریا‘ سمجھے جاتے ہیں۔ ان علاقوں میں اغواء برائے تاؤان اور ڈکیتی کے وارداتیں بھی عام ہیں تاہم حکومت کو ان مقامات میں اپنی عمل داری بحال کرنے میں کئی سالوں سے مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں حکام کا کہنا ہے کہ پولیس اور مسلح افراد کے درمیان ہونے والی ایک جھڑپ میں پولیس اہلکار اور امن کمیٹی کے رضاکاروں سمیت چار افراد ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا۔ text: خیبر پختون خوا میں اتحادی حکومت نے ایک متوازن بجٹ پیش کیا صوبہ خیبر پختون خوا اسمبلی میں صوبائی وزیرخزانہ سراج الحق نے پیر کو اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ آئندہ مالی سال کے لئے صوبے کی کل آمدنی کا تخمینہ تین کھرب چوالیس ارب روپے لگایا گیا ہے جو رواں مالی سال کی نسبت تیرہ اعشاریہ پانچ فیصد زیادہ ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے پیش کردہ بجٹ ایک متوازن بجٹ ہے۔ بجٹ میں تجویز کردہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کا کل حجم ایک سو اٹھارہ ارب روپے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پیش کردہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد اضافہ بھی کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ صوبے میں کم از کم ماہانہ اجرت دس ہزار روپے ماہنہ مقرر کی گئی ہے۔ صوبائی وزیر کی تقریر کے مطابق صوبے میں صحت کے لئے تقریباً بائیس ارب اسّی کروڑ ستر لاکھ روپے جبکہ تعلیم کے لئے تقریباً چھیاسٹھ ارب ساٹھ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ دوسری جانب صوبہ سندھ کی صوبائی اسمبلی میں صوبے کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے بجٹ پیش کیا جس کا کل حجم چھ کھرب سترہ ارب روپے ہے۔ وزیراعلیٰ نے بتایا کہ آئندہ مالی سال میں کل آمدنی کا تخمینہ پانچ کھرب پچانوے ارب روپے ہے اور اس طرح یہ بجٹ اکیس ارب روپے خسارے کا ہے۔ اُن کے مطابق اس بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ اس بجٹ میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے بیاسی ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور آئندہ پانچ سالوں میں ایک لاکھ پچاس ہزار نئی نوکریاں دینے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ صوبے میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے کُل تراسی ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ بجٹ کے مطابق تونائی کے شعبے کے لیے اکیس ارب اور صحت کے لیے سترہ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ آئندہ مالی سال میں دس ہزار پولیس اہلکار بھرتی کیے جائیں گے، اس کے علاوہ چالیس کروڑ مالیت کے سرویلنس کیمرے بھی خرید کیے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا اعلان بھی کیا۔ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ سندھ میں صوبائی حکومتوں نے آئندہ مالی سال کے لیے صوبائی بجٹ پیش کر دیا ہے۔ text: ایک اخبار نے لکھا ہے کہ حکومت نے جو کچھ کیا ہے اس سے شہباز شریف ہیرو بن گئے ہیں۔ پاکستان کے تین بڑے قومی اخبارات نے گیارہ مئی کو لاہور میں شہباز شریف کی آمد اور ملک بدری کو اپنے اداریوں کا موضوع بنایا ہے اور سب نے ہی حکومت کی طرف سے گرفتاریوں اور لاہور میں ناکہ بندی پر تنقید کی ہے۔ دی نیشن نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ حکومت نے کس قانون کے تحت میاں شہباز شریف کو ان کے ملک آنے سے روکا ہے، یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ اگر شہباز شریف ملک واپس آنا چاہتے تھے تو حکومت ان کو دی گئی معافی واپس لے لیتی اور ان کے خلاف مقدمہ چلاتی۔ اخبار لکھتا ہے کہ جیت حکومت کی ہوئی یا شہباز شریف کی لیکن شکست قانون کی حکمرانی کی ہوئی ہے۔ فریقین میں کوئی بھی معاہدہ ہو سپریم کورٹ کے فیصلہ کی اس دلیری سے توہین نہیں کی جانی چاہیے تھی۔ اخبار نے مسلم لیگ کے کارکنوں کی گرفتاریوں اور لاہور میں ناکہ بندیوں سے شہریوں کو ہونے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوۓ کہا ہے کہ حکومت نے ایک سیاسی معاملہ کو انتظامی طریقہ سے نپٹا کر غلطی کی ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ اگر شہباز شریف کو بظاہر غیرقانونی طور پر ملک بدر کرنا بھی تھا تو پورے شہر کی ناکہ بندی کرنی کی ضرورت نہیں تھی۔ انگریزی روزنامہ ڈیلی ٹائمز نے آج اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ جو چیز چائے کے کپ میں ایک طوفان کے برابر تھی اسے حکومت نے ٹی وی چینلز پر دباؤ ڈال کر تمام توقعات سے زیادہ بڑھا دیا۔ اخبار کےمطابق اے آر وائی کو شہباز شریف کا انٹرویو براڈ کاسٹ کرنے کی اجازت نہ دے کر حکومت نے چینل کو بلیک میل کیا اور سی این این کے لاہور کے دفتر کا گھیراؤ کرلیا تاکہ وہ شہباز شریف کا لاہور ائرپورٹ پر ایسا استقبال ہوتے نہ دکھا سکے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ کہنا کہ شہباز شریف جلاوطنی کے معاہدہ کے باعث ملک میں واپس نہیں آسکتے قانونی اور آئینی طور پر مضبوط موقف نہیں۔ اب حکومت نے یہ ظاہر کردیا ہے کہ جب فیصلہ کن مرحلہ آتا ہے تو اسے قانون کی قطعاً پرواہ نہیں ہوتی۔ اخبار لکھتا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ شہبازشریف کا سیاسی قد بہت چھوٹا تھا اور وہ اپنے مقبول ار طاقتور بھائی نوا شریف کے زیرسایہ پنجاب پر حکومت کرتے رہے اور خود کبھی پارٹی میں مقبول نہیں رہے کیونکہ وہ اسے نطرانداز کرتے تھے۔ لیکن حکومت نے ان کو ملک میں آنے سے روکنے کے لیے زور زبردستی کا مظاہرہ کرکے شہباز شریف کو توقع سے زیادہ کامیاب کر دکھایا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ جنرل مشرف نے شہباز شریف کو ان کے تصور سے بھی زیادہ بڑا ہیرو بنادیا ہے اور ان کی ملک بدری آنے والے وقت میں ان کے لیے ایک اثاثہ ثابت ہوگی۔ اردو روزنامہ نواۓ وقت نے گرفتاریوں، نطربندیوں اور آنسو گیس پھینکنے کے واقعات پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ ایک ہی واقعہ میں حقیقی جمہوریت کا نقاب اتر گیا ہے اور عوام کو پتہ چل گیا ہے کہ یہ ماضی کی جنرل صاحب کے الفاظ میں مصنوعی جمہوریت کا نقش ثانی ہے مگر بہت ہی بھونڈا اور تلخ۔ اخبار نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ حکومت کو ایک بہترین موقع ملا تھا کہ وہ شہباز شریف کی آمد کو ایک نۓ دور کا آغاز سمجھ کر ملک میں مصالحت اور مفاہمت کے سیاسی کلچر کو فروغ دے لیکن جمالی صاحب ، جنرل صاحب اور چودھری برادران اور ان کے مشیروں نے یہ موقع کھودیا۔ پاکستان کے قومی اخبارات کا کہنا ہے کہ حکومت نے شہباز شریف کو ملک بدر کرکے قانون اور آئین کی خلاف ورزی کی ہے اور ملک میں مصالحت اور مفاہمت کا ایک موقع گنوا دیا ہے۔ text: سری لنکا نے پاکستان کو فتح کے لیئے ایک سو اکتیس رن کا ہدف دیا تھا جسے پاکستان نے عبدالرزاق کی ذمہ دارانہ بلے بازی کی بدولت پنتالیسویں اوور میں چھ وکٹ کے نقصان پر حاصل کر لیا۔ عبدالرزاق اکتالیس اور کامران اکمل بیس رن بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔ ان دونوں بلے بازوں نے ساتویں وکٹ کی ناقابل شکست شراکت میں 52 رنز کا اضافہ کیا۔ پاکستان کے آؤٹ ہونے والے آخری کھلاڑی محمد یوسف تھے جو 26 رن بنا کر ایل بی ڈبلیو ہوئے۔اس سے قبل شعیب ملک 17 رن بنا کر کلاسیکارا کی گیند پر آؤٹ ہوئے۔ پاکستان کی جانب سے شاہد آفریدی اور سلمان بٹ نے اننگز کا آغاز کیا مگر شاہد آفریدی تین رن بنا کر ملنگا کی گیند پر سنگاکارا کے ہاتھوں کیچ ہوگئے۔ سلمان بٹ آؤٹ ہونے والے دوسرے کھلاڑی تھے۔ انہیں فرویز معروف نے چار رن پر آؤٹ کیا۔ یونس خان اور کپتان انضمام الحق بھی قابلِ ذکر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے اور بالترتیب چار اور ایک رن بنا کر پویلین میں واپس چلے گئے۔ اس سے قبل پاکستانی بالروں نے تباہ کن بالنگ کرتے ہوئے سری لنکا کی ٹیم کو چوالیس اوور میں ایک سو تیس رن پر آؤٹ کر دیا۔ تلکا رتنے دلشان کے علاوہ کوئی بھی سری لنکن کھلاڑی پاکستانی بالروں کا مقابلہ نہ کرسکا۔ تلکارتنے دلشان نے اڑتالیس رن بنائے اور آؤٹ نہیں ہوئے۔ پاکستان کی جانب سے نوید الحسن نے تین، شاہد آفریدی، عبدالرزاق اور افتخار انجم نے دو، دو جبکہ محمد آصف نے ایک وکٹ حاصل کی۔ سری لنکا کے آؤٹ ہونے والے آخری کھلاڑی مرلی دھرن تھے جو دو رن بنا کر رانا نویدالحسن کا تیسرا شکار بنے۔ اس سے قبل ملنگا کو15 رن کے انفرادی سکور پر شاہد آفریدی نے آؤٹ کیا۔ کلاسیکارا بھی شاہد آفریدی کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے۔ انہوں نے گیارہ رن بنائے۔ پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے سری لنکا کو کھلانے کا فیصلہ کیا تھا اور سری لنکا کی طرف سے آؤٹ ہونے والے پہلے کھلاڑی چمارا کاپوگدیرا تھے جو ایک رن بنا کر رانا نوید الحسن کی گیند پر محمد یوسف کے ہاتھوں کیچ ہوئے۔ دوسری طرف وکٹ کیپر بیٹسمین سنگاکارا بھی ایک ہی رن بنا کر محمد آصف کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہو گئے۔ سری لنکا کی طرف سے تیسرے آؤٹ ہونے والے کھلاڑی کپتان جے وردھنے تھے جو بغیر کوئی رن بنائے رانا نوید کی گیند پر وکٹ کیپر کامران اکمل کے ہاتھوں کیچ ہوئے۔ اپل تھارنگاانیس رنز بنا کر عبدالرزاق کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے جبکہ رسل آرنلڈ کو افتخار انجم نے بولڈ کیا۔ انہوں نے سولہ رنز بنائے۔ ایک موقع پر صرف 56 رن پر سری لنکا کی سات وکٹیں گر چکی تھیں مگر تلکارتنے دلشان اور کلاسیکارا نے محتاط انداز سے پاکستانی بالروں کا مقابلہ کیا۔ ان دونوں بلے بازوں کے درمیان 41 رن کی شراکت ہوئی۔ پاکستانی ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے جبکہ سری لنکن ٹیم میں دو تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ان فٹ کپتان مرون اتاپتو اور فاسٹ بولر پرساد کی جگہ نوان کولا سکیرا اور چمارا کاپوگدیرا ٹیم میں شامل کئے گئے ہیں۔ ٹیمیں یہ ہیں پاکستان: انضمام الحق( کپتان) محمد یوسف۔ یونس خان۔ عبدالرزاق۔ شاہد آفریدی۔ شعیب ملک۔ کامران اکمل۔ سلمان بٹ۔ نوید الحسن۔ راؤ افتخار اور محمد آصف۔ سری لنکا: جے وردھنے( کپتان) اپل تھارنگا۔ سنگاکارا۔ تلکارتنے دلشن۔ رسل آرنلڈ۔ پرویز ماہروف۔ مالنگا۔ مرلی دھرن۔ لوکوآراچی۔ چمارا کاپوگدیرا اور نوان کولاسکیرا۔ امپائرز سری لنکا کے ٹائرن وجے وردھنے اور آسٹریلیا کے اسٹیو ڈیوس ہیں جبکہ میچ ریفری آسٹریلیا کے ایلن ہرسٹ ہیں۔ کولمبو کے پریماداسا سٹیڈیم میں پاک سری لنکا سیریز کے دوسرے ون ڈے میچ میں پاکستان نے سری لنکا کو چار وکٹ سے شکست دے کے ایک، صفر سے برتری حاصل کر لی ہے۔ text: فلم کی پروڈیوسر کوشی لال وانی کا کہنا ہے کہ وہ منتظر ہیں اس دن کی جب انہیں پاکستان میں فلم ریلیز کرنےکی اجازت مل جائےگی۔ ’دی اویکننگ‘ فلم انڈیا کے ممبئی، کولکتہ، مدراس اور دیگر شہروں میں رواں ماہ کے ابتدائی دنوں میں ریلیز ہو چکی ہے۔ فلم کے ممبئی میں ہونے والے خصوصی پریمیئر شو میں بھارت کے حزب اختلاف کے رہنما ایل کے اڈوانی نے شرکت کی تھی۔فلم کی موسیقی ریلیز کرنے والی تقریب کےمہمان خصوصی معروف گلوکار جگجیت سنگھ تھے۔ ’دی اویکننگ‘ فلم کی پروڈیوسر کوشی لال وانی نے دبئی سے فون پر بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان کی فلم ایک نوجوان سکالر سندھو کے گرد گھومتی ہے جو انڈس سولائیزیشن پر تحقیق کرنے کے لیے نیویارک سے ہندوستان پہنچتی ہیں ۔ انہیں ممبئی میں اپنی نانی سے مل کر پتا چلتا ہے کہ خود ان کی بنیادیں انڈس سولائیزیشن میں پیوست ہیں۔ کوشی کے مطابق اس کے بعد وہ اپنی ثقافتی جڑیں تلاش کرنے کی جستجو شروع کر دیتی ہیں۔ ’دی اویکننگ‘ فلم انڈیا میں اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ ہے جس کےصرف نغمے سندھی زبان میں ہیں اور باقی تمام فلم انگریزی زبان میں بنائی گئی ہے۔ کوشی کا کہنا ہے کہ وہ موہنجودڑو کی سات ہزار سالہ تاریخی ثقافت کو اپنی اس فلم کے ذریعے عالمی سطح پر اجاگر کرنا چاہتی ہیں۔اس لیےانہوں نے فلم انگریزی زبان میں بنائی ہے۔ کوشی لالوانی کا تعلق دبئی کے تعمیراتی اور گارمنٹ کی صنعت سے وابستہ صنعتکار خاندان سے ہے مگر وہ خود فلم بنانے اور موسیقی ترتیب دینے کا کام کرتی ہیں۔کوشی کا تعلق ان خاندانوں سے ہے جن کی زندگیوں پر تقسیم ہند کے واقعات نے گہرے اثرات مرتب کیے۔ کوشی نے بتایا کہ وہ تین سالہ بچی تھیں جب تقسیم ہند کےفسادات کےدوران انہیں سندھ سے ہند کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ جس کے بعد انہوں نے دوبارہ لوٹ کر کبھی سندھ نہیں دیکھا۔ان کی خواہش ہے کہ اگر حکومت پاکستان سے انہیں فلم ریلیز کرنے کی اجازت مل جائے تو اس بہانے ان کی اپنی ماتر بھومی سے بھی ملاقات ہوجائےگی جو ان کے بچپن کا خواب ہے۔ کوشی لالوانی کی فلم ’دی اویکننگ‘ میں ہندستان کےمعروف قانون دان رام جیٹھملانی پہلی مرتبہ مہمان اداکار بنے ہیں اور ان کے دس منٹ کےکردار پر انڈین میڈیا میں کافی چرچہ رہا۔ رام جیٹھملانی کا کہنا تھا کہ’ دی اویکننگ‘ فلم کے بعد سندھی ثقافت کی اہمیت سمجھنے میں مدد ضرور ملے گی اورخود انڈیا میں سندھیوں کو عزت کی نگاہ سےدیکھا جائے گا ۔ انگریزی اور سندھی زبان میں بنائی گئی پہلی فلم ’دی اویکننگ‘ انڈیا کے بعد دبئی اور شارجہ کے سینما گھروں میں انتیس مئی کو ریلیز ہو رہی ہے۔ text: اطلاعات کے مطابق جمعرات کی دوپہر صدر مقام خار سے تقریباً چالیس کلومیٹر دور سالارزئی کے باٹ مالئی کے علاقے میں طالبان مخالف جرگہ ہو رہا تھا کہ اس دوران ایک دھماکہ ہوا۔ جرگے میں موجود باجوڑ کے رہائشی ملک کمال خان نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ حملے کے وقت جرگے میں موجود تھے اور ان سے بہت قریب ہی دھماکہ ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد انیس ہے جن میں نو کے قریب سرکردہ ملکان شامل ہیں۔ باجوڑ سول ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر طاہر نے بی بی سی کہ ابھی تک ان کے پاس سات لاشیں جبکہ تنیتیس زخمی لائے گئے ہیں۔انہوں نے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ ایک اور ڈاکٹر، ڈاکٹر عاطف نے بی بی سی کو بتایا کہ نو لاشیں اور بیالیس زخمی لائے گئے ہیں۔ ان کے بقول زخمیوں کو ہسپتال لانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ان کے مطابق زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر شدید زخمی افراد شامل ہیں جن میں سے زیادہ تر کو طبی امداد فراہم کرنے کے لیے پشاور ہسپتالوں میں منتقل کیا جارہا ہے۔ سالارزئی قبیلے کے ملک کمال خان نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ جرگے میں مصروف تھے کہ ایک مبینہ خودکش بمبار نے ان پر حملہ کردیا۔ ان کے بقول اس حملے میں قبائلی لشکرکی قیادت کرنے والے ایک مشر میجر ریٹائرڈ فضل کریم بھی ہلاک ہوگئے ہیں۔ یاد رہے کہ باجوڑ ایجنسی میں سالارزئی وہ پہلا قبیلہ ہے جس نے علاقے میں مبینہ طور پر سرگرم طالبان کے خلاف مسلح لشکر تشکیل دیا تھا اور ان کے بعض مشتبہ ٹھکانوں کو مسمار بھی کردیا گیا تھا۔ طالبان نے دھمکی دی تھی کہ اگر سالارزئی قبیلے نے ان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھیں تو انہیں حملے کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے تاہم ابھی تک طالبان اور نہ ہی کسی اور گروہ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ذرائع کے مطابق پولٹیکل حکام نے گزشتہ روز سالارزئی قبیلے کے مشران کے جرگے کی طالبان مخالف سرگرمیوں کی تعریف کی تھی اور انہیں کہا تھا کہ اب بھی ان کے علاقے میں بعض ایسے عناصر موجو ہیں جن کے خلاف وہ مزید کارروائی کریں۔ ان کے مطابق جمعرات کے جرگے میں مشران اس بارے میں صلاح مشورہ کرنے میں مصروف تھے کہ یہ واقعہ پیش آیا۔ قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں ایک جرگہ پر مبینہ خودکش حملہ ہوا ہے جس میں طالبان مخالف لشکر کے سربراہ فضل کریم سمیت انیس افراد ہلاک جبکہ تقریباً بیالیس کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ text: طبی حکام کے مطابق شیلنگ کے نتیجے میں 18 افراد زخمی ہو گئے ہیں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے اپنی احتجاجی دھرنے شاہراہ دستور سے وزیراعظم ہاؤس کے سامنے منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جس کے بعد مظاہرین نے وزیراعظم ہاؤس کی جانب پیش قدمی شروع کی تھی۔ نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق انقلاب مارچ کے شرکا کی طرف پیش قدمی کو روکنے کے لیے پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی ہے۔ اسلام آباد کے سرکاری ہسپتال پیمز کے ترجمان ڈاکٹر وسیم نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ شیلنگ سے 18 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ پولیس کی جانب سے مظاہرین پر ربڑ کی گولیاں چلانے کی بھی اطلاعات ہیں۔پولیس کے مطابق مظاہرین کو سیکریٹیریٹ کی جانب سے وزیراعظم ہاؤس جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ حکومت نے فوج کے مزید دستے طلب کر لیے ہیں۔ سرکاری ریسکیو ادارے 1122 کے مطابق پولیس کی شیلنگ اور اس کے بعد بھگدڑ کے نتیجے میں چھ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کنٹینر میں اپنے کارکنوں کے ساتھ عوامی تحریک کے کارکنوں کے پیچھے موجود ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنے سٹیج سے اعلان کیا ہے کہ ’فوج نے کہہ دیا ہے کہ وہ کچھ نہیں کریں گے‘۔ اس کے ساتھ ہی عمران خان نے اپنے کارکنوں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ عمران خان نے اس سے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ عوامی تحریک کے پیچھے وزیراعظم ہاؤس کی جانب مارچ کریں گے۔ پولیس نے سنیچر کی شام کو مظاہرین کو روکنے کے لیے تیاریاں شروع کر دی تھیں عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے شام کو ہی اپنے کارکنوں کو شاہراہ دستور سے اپنے شامیانے ہٹانے کا حکم دے دیا تھا اور اس بعد رات کے وقت انھوں نے اعلان کہ اب احتجاجی دھرنا وزیراعظم ہاؤس کے سامنے دیا جائے گا۔ اس کے فوری بعد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی وزیراعظم ہاؤس کے سامنے احتجاج کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ حکومت نے وزیراعظم ہاؤس سمیت ریڈ زون کی سکیورٹی فوج کے حوالے کر رکھی ہے۔ دونوں احتجاجی جماعتوں نے دھرنے جب آبپارہ سے شاہراہ دسور پر منتقل کرنے کے لیے مارچ شروع کیا تھا تو اس وقت فوج کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق ریڈ زون میں واقع عمارتیں ریاست کی علامت ہیں اور ان عمارتوں کی حفاظت فوج کر رہی ہے۔ اسلام آباد میں پولیس نے شاہراہ دستور سے وزیراعظم ہاؤس کی جانب بڑھنے والے مظاہرین پر شدید شیلنگ کی ہے جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ text: یہ حکومت تین مہینے کے گٹھ جوڑ کے بعد تشکیل پائی ہے۔ اگرچہ کابینہ کی کئی اہم وزارتوں پر اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا تاہم صدر بش نے کہا ہے کہ نئی حکومت اتحاد اور تنوع کی مظہر ہے۔ صدر بش نے نو منتخب عراقی وزیرِ اعظم ابراہیم جعفری سے کہا کہ وہ اب عراق کی دوسری اہم تبدیلی یعنی آئین کی تشکیل مکمل کریں۔ انہوں نے نومنتخب وزیرِ اعظم سے کہا کہ وہ دوسرے (ناراض) گروہوں سے بھی ملیں۔ کئی سنی سیاستدانوں نے کہا سنی جماعت کو نئی حکومت میں مناسب نمائندگی نہیں دی گئی۔ سنیئر سنی رہنما نائب صدر غازی یاور نے بھی کہا کابینہ میں مناسب تعداد میں سنی موجود نہیں ہیں۔ عراق کی نئی کابینہ میں سات وزارتوں کے قلمدانوں پر کسی رکن کو نامزد نہیں کیا گیا۔ ان وزارتوں میں تیل اور دفاع جیسی اہم وزارتیں بھی شامل ہیں۔ عراقی وزیر اعظم ابراھیم جعفری کا کہنا ہے کہ جلد ہی ان وزارتوں کے لیے وزراء کا تقرر کر دیا جائے گا۔ عراق کی عبوری پارلیمان کے 180 ارکان نے وزراء کے حق میں ووٹ دیا جب کہ مخالفت میں پانچ ووٹ ڈالے گئے۔ رائے شماری میں نوے ارکان نے حصہ نہیں لیا۔ وزیر اعظم جعفری عارضی طور پر دفاع کا قلمدان سنبھالیں گے جب کے وزیر تیل کی ذمہ داریاں احمد چلابی نبھائیں گے۔ احمد چلابی نائب وزیراعظم کا عہدے پر بھی کام کریں گے۔ امریکی عہدیدار عراقی نمائندوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ حکومت سازی میں جلدی کریں۔ ادھر عراق میں ایک خاتون رکن اسمبلی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ عراق میں عام انتخابات جنوری میں ہوئے تھے۔ لامیہ عابد خدوری عبوری وزیر اعظم ایاد علاوی کی مخلوط حکومت میں شامل تھیں۔ پولیس نے بتایا ہے کہ مسلح افراد نے ان کے گھر کے دروازے پر دستک دی تھی اور جب انہوں نے دروازہ کھولا تو ان کو گولی مار دی گئی۔ مسز خدوری کچھ ہی دیر پہلے پارلیمان کے اجلاس کے بعد گھر لوٹی تھیں۔حملہ آور موقع سے فرار ہو نے میں کامیاب ہو گئے۔ امریکہ کے صدر بش نے عراق کی پہلی جمہوری حکومت کی تشکیل پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور اسے خیر مقدم کہا ہے۔ text: بدلتے ہوئے پاکستانی معاشرے میں اب یہ صرف یہ ایک سوال ہی نہیں بلکہ بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ ثمن کی دونوں بچیوں کی پیدائش بہت سے پاکستانی بچوں کی طرح آپریشن سے ہی ہوئی جو ملک کے شہری طبقے میں اس بدلتے رجحان کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ آپریشن کے ذریعے پیدائش کو عالمی ادارۂ صحت نے دنیا بھر میں اس کے نقصان دہ اثرات کے باعث ناپسندیدہ طریقہ قرار دیا گیا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے دنیا بھر میں سی سیکشن یعنی آپریشن کے ذریعے پیدائش کی شرح 15 فیصد تجویز کی تاہم 2010 میں اسے یہ کہہ کر واپس لے لیا کہ ملکوں کی آبادی اور طبی سہولیات میں پائے جانے والے فرق کی بنا پر ایسی کوئی پابندی ممکن نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں سی سیکشن سے بچوں کی پیدائش کی شرح 25 سے 28 فیصد ہے ۔ جبکہ بھارت اور چین میں 30 سے 33 فیصد جبکہ افغانستان میں سی سیکشن سے بچوں کی پیدائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان کے شہری معاشرے کی تصویر ذرا مختلف ہے۔ پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں قائم صوبہ پنجاب کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال سر گنگا رام ہسپتال میں ہر سال لگ بھگ 24 ہزار بچے پیدا ہوتے ہیں۔ ہسپتال کے اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے 50 فیصد بچوں کی پیدائش اب آپریشن کے ذریعے ہو رہی ہے۔ ہسپتال کے شعبہ امراضِ خواتین کی سربراہ ڈاکٹر مریم ملک کہتی ہیں اس شرح میں اضافے کی وجہ ہسپتال میں ریفرل کیسز کا آنا ہے اور ساتھ ہی پیچیدگیوں والے کیسز بھی یہاں ہی بھجوائے جاتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے شہروں میں محض سرکاری ہسپتالوں میں ہی سی سیکشن سے بچوں کی پیدائش کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ شہروں میں قدم قدم پر قائم پرائیوٹ ہسپتال اور میٹرنٹی ہومز بچہ پیدا کرنے کے لیے ’تکلیف کے بغیر آپریشن‘ کا حل تجویز کرتے ہیں۔ ان کلینکس میں عام طور سے ایک سیزیرین سیکشن یعنی آپریشن سے بچوں کی پیدائش پر کم سے کم 30 ہزار روپے اور زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ یا اس سے بھی زیادہ روپے کی لاگت آتی ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور ملک کے معروف گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شیر شاہ سید کہتے ہیں کہ ’سی سیکشن محض اس صورت میں کیا جانا چاہیے جب ماں اور بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہو کیونکہ جب پیٹ کاٹ دیا گیا تو اس میں انفیکشن ہو سکتا ہے، کبھی زخم نہیں بھرتا اور کبھی خون نہیں رکتا اور کبھی پیٹ میں مستقل درد کی شکایت ہو جاتی ہے‘۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید اسے منافع بخش کاروبار بھی گردانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ڈاکٹرز جان بوجھ کر وقت بچانے اور پیسہ کمانے کی غرض سے اب سی سیکشن کو ہی فوقیت دیتے ہیں۔ تاہم پرائیوٹ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر حضرات کے نزدیک سیزیرین کے بارے میں ابہام ہے۔ لاہور کے ایک بڑے پرائیوٹ ہسپتال میں موجود گائناکالوجسٹ ڈاکٹر ثاقب سعید اس سے اتفاق نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ ’اچھے اور برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں اور یہ الزام ہے کہ آپریشن جان بوجھ کر کیے جاتے ہیں۔ سیزیرن سیکشن ایک بہت خطرناک بات ہے اور یہ مفروضہ ڈیڑھ سو سال پرانا ہے اور جان بوجھ کر سیزیرین سیکشن نہیں کیے جاتے‘۔ بہت سے ڈاکٹر اس آپریشن کے زریعے بچوں کی پیدائش کے رجحان کے لیے مریضوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں 22 سال امریکہ میں گائنی کے شعبے سے وابستہ رہنے کے بعد ڈاکٹر ناصر خاکوانی اب لاہور میں پریکٹس کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ ان کے ساتھ کام کرنے والے نوجوان ڈاکٹروں کو جدید آلات کی تربیت نہیں دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ذرا سی بات پر سیزیرین کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ ڈاکٹر خاکوانی کے مطابق اس ضمن میں جدید آلات تو دور کی بات عمومی طور پر ہمارے ہاں محکمۂ صحت کی جانب سے ایسے کوئی ضوابط ہی نہیں جس میں ہم ڈاکٹروں کی قابلیت کی تصدیق کر سکیں۔ پاکستان میں 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو خود مختاری دی گئی تو وفاقی وزارت صحت بھی تحلیل ہو گئی۔ محکمۂ صحت پنجاب کا کہنا ہےکہ معاشرے میں سیزیرین سیکشن کے اضافے کے لیے قوانین اس لیے نہیں ہیں کیونکہ یہ ڈاکٹر اور مریض کا آپس کا معاملہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹرز کے نزدیک سی سیکشن میں اضافے کی وجہ مریض کا خود اس پر زور دینا ہے۔ ڈاکٹر مریم ملک کےمطابق ان کے پاس آنے والی اکثر خواتین بیٹے کی خواہش میں ہر سال بچہ پیدا کرتی ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی پہلی اولاد آپریشن سے ہونے کے باعث ہر بار آپریشن ہی کیا جاتا ہے۔ جس سے ان کی صحت پر انتہائی نقصان دہ اثرات پڑتے ہیں۔ خاندان کو بیٹا دینے کی لگن میں وہ اپنی جان سے کھیل رہی ہوتی ہیں۔ دوسری طرف ڈاکٹر شیر شاہ سید پاکستان کے شہروں میں امنِ عامہ کی خراب صورتِ حال کو بھی ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔ ’دنیا میں 70 فیصد بچے قدرتی طور پر رات کو دو بجے کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں آپ رات کے دو بجے ہسپتال جانے کا رسک نہیں لیں گے، آپ دوپہر کو جائیں گے اور شام ڈھلے سی سیکشن کرا کر بچہ لے کر گھر آ جائیں گے۔‘ 21 سال کی عمر میں دو بچیاں سی سیکشن سے پیدا کرنے کے بعد ثمن اب گھر کا زیادہ کام کاج نہیں کر پاتیں۔ انھیں کمر میں تکلیف رہتی ہے، تاہم وہ اور اس کی دونوں بچیاں خوش قسمت ہیں کہ وہ سی سیکشن کے مضر اثرات سے جزوی طور پر محفوظ ہیں۔ تاہم پاکستانی معاشرے میں اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک نہ ہونے اور حکومتی سطح پر سنجیدگی مشکوک ہونے کے باعث مستقبل قریب میں اس بارے میں کسی قسم کی قانون سازی ہوتی نظر نہیں آتی۔ ثمن ندیم کے گھر دو مہینے پہلے دوسری بچی کی پیدائش ہوئی۔ خبر ملنے پر ثمن کو مبارکباد تو ملی مگر سب سے پہلے یہی سوال کیا گیا بچی آپریشن سے ہوئی ہے یا نارمل؟ text: یہ وہی کاغذ تھا جسے 1590 کے ٹیوڈر دربار میں ’خاص درجہ‘ حاصل تھا۔ اور اس خاص کاغذ پر لکھی گئی تحریریں ایک ایسی کتاب کا ترجمہ تھیں جس میں ٹیسیٹس نے شہنشاہیت کے فوائد کے بارے میں لکھا تھا۔ ملکہ الزبتھ اول کے ہاتھ سے لکھا گیا یہ مسودہ تقریباً ایک صدی بعد دریافت ہوا ہے۔ یہ چونکا دینے والا انکشاف ڈاکٹر جان مارک فیلو نے لندن کی لیمبیتھ پیلس لائبریری میں کیا۔ ان تحریروں کی مصنفہ ملکہ الزبتھ اول ہی ہیں، یہ ثابت کرنے کے لیے ڈاکٹر فیلو نے ایک جاسوس کا روپ دھار لیا اور سراغوں کی کڑیوں سے کڑیاں جوڑتے چلے گئے۔ یہ بھی پڑھیے ہندوستان کے شاہی باورچی خانے نوجوان نے ملکہ کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی ملکۂ برطانیہ اور ان کے ہندوستانی دوست کی داستان مسودے میں ایسے کئی اشارے ملتے ہیں جن کے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ملکہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے ملکہ کی بدخطی ڈاکٹر فیلو کہ مطابق ’ٹیوڈر دربار میں صرف ایک ہی ایسا مترجم تھا جن کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ انھوں نے ٹیسیٹس کا کویی ترجمہ کیا تھا اور وہی شخصیت ترجمہ قلم بند کرنے یا ذاتی خط و کتابت میں اُس خاص کاغذ کو استعمال کرتی تھیں۔۔۔ اور وہ ملکہ خود تھیں۔‘ تین خاص نشانات: سکاٹ لینڈ کے کوٹ آف آرمز پر موجود غصیلا شیر (ریمپنٹ لائن) اور تیر کمان کے ساتھ برطانیہ کا مخفف۔۔۔ الزبتھ اول کی ذاتی خط و کتابت میں یہ سب نشانیاں ملتیں ہیں۔ اس بارے میں سب سے مستحکم دلیل ان کی لکھائی ہے۔ اگرچہ ترجمہ ملکہ کے ایک سیکرٹری نے نقل کیا تھا لیکن اس میں اضافے اور تصحیح ملکہ کی مخصوص بدخطی میں نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر فیلو کے مطابق ’ترجمے میں کی گئی تصحیح الزبتھ کی لکھائی سے ملتی ہے جس سے ان کا مزاج جھلکتا ہے۔‘ ’ٹیوڈر دور کے معاشرے میں آپ کا مقام جتنا اعلیٰ ہو گا، آپ کی لکھائی اتنی ہی بُری ہو گی۔ ملکہ کے نزدیک اسے سمجھنا دوسروں کا دردِ سر تھا۔‘ مسودے میں ملکہ کے اپنے ہاتھ سے کی گئی تصیح بھی نظر آتی ہے یہ ترجمہ ٹیسیٹس کی لکھی ہوئی قدیم روم کی تاریخ کا ایک اقتباس ہے جو شہنشاہ آگسٹس کی موت سے لے کر ٹائبیریئس کے عروج اور تمام اختیارات کے ایک ہی شخصیت میں منتقل کرنے سے متعلق ہے۔ ڈاکٹر فیلو کے مطابق ملکہ شاید طرزِ حکمرانی سے متعلق رہنمائی کے لیے اس کا مطالعہ کر رہی تھیں۔ وہ کہتے ہیں’ ٹیسیٹس کو ہمیشہ سے ہی تخریبی مورخ سمجھا جاتا رہا ہے اور بعد میں چارلس اول کے دور میں انھیں بادشاہت مخالف بھی قرار دیا گیا تھا۔‘ اس انکشاف سے سوال سے اٹھتا ہے کہ الزبتھ کو آخر ان میں دلچسپی کیوں ہوگی؟ کیا وہ اسے طرزِحکمرانی کے متعلق رہنمائی کے لیے انھیں پڑھ رہیں تھیں یا خراب حکمرانی کی مثالوں سے بچنے کے لیے؟ یا شاید ترجمہ کرنا ملکہ کے مشاغل میں شامل تھا؟ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کلاسیکی تاریخ سے کافی لطف اندوز ہوتی تھیں۔ یہ مسودہ 17ویں صدی سے لیمبیتھ میں ہی موجود تھا لیکن اس کے مصنف کی شناخت پہلی بار ہوئی ہے۔ برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا سے تعلق رکھنے والے ادبی سکالر لائبریری میں معروف رومن مؤرخ ٹیسیٹس کے ترجمے ڈھونڈ رہے تھے جب ان کے ہاتھ 42 صفحات پر مشتمل ایک مسودہ لگا جو انتہائی خاص قسم کے کاغذ پر لکھا گیا تھا۔ text: صدر براک اوباما نے فوج کو 2016 تک لڑاکا رجمنٹوں میں خواتین کی بھرتی پر پابندی ختم کرنے کا حکم دیا ہے امریکہ میں ابھی تک خواتین پر فوج کی لڑاکا رجمنٹوں میں شمولیت اختیار کرنے کی پابندی عائد ہے۔ صدر براک اوباما نے فوج کو سنہ 2016 تک یہ پابندی ختم کرنے کا حکم دیا ہے جس کے نتیجے میں اس سال خواتین کے پہلے بیچ نے لڑاکا تربیت حاصل کی ہے۔ فوج کے سیکریٹری جان میک ہیو کا کہنا تھا کہ اس کورس نے ثابت کر دیا ہے کہ بلا امتیاز جنس کوئی بھی سپاہی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ فوج کے ترجمان نے خواتین کے نام نہیں بتائے لیکن کہا کہ یہ امریکہ کی معروف ویسٹ پوئنٹ اکیڈمی کی گریجویٹ ہیں۔ 61 دن کی اس مشکل ترین تربیت کے آغاز پر کورس میں 380 مرد اور 19 خواتین شامل تھیں، تاہم کورس کو ختم کرنے میں صرف 92 مرد اور دو خواتین کامیاب ہوئیں۔ کورس میں جسمانی تربیت کا مرحلہ اتنا کٹھن ہے کہ آدھے سے زیادہ امیدوار پہلے چار دنوں میں ہی ناکام ہو جاتے ہیں۔ کیڈیٹ اکثر دن میں 20 گھنٹوں تک تربیت کرتے ہیں اور انھیں مختصر وقت کے لیے نیند نصیب ہوتی ہے۔ خواتین کی بھرتی کے بعد فوج کو اس بات پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ تربیت کے معیار میں نرمی کی گئی ہے لیکن فوج نے اس بات کی تردید کی ہے۔ آرمی چیف آف سٹاف جنرل ریمنڈ اوڈیرنو نے واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’خواتین نے سب کو حیران کیا ہے، ان میں بہت جذبہ ہے اور ہم اپنے سپاہیوں سے آخریہی چاہتے ہیں۔‘ فی الحال امریکی فوج میں خواتین کی تعداد 15 فیصد ہے۔ نئے نظام کے تحت خواتین فوج میں 91000 اضافی ملازمتوں کے لیے اہل ہو جائیں گی۔ دو امریکی خواتین نے امریکی فوج کے مشکل ترین تربیتی پروگرام میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ البتہ جمعے کے دن گریجویشن حاصل کرنے والی یہ خواتین اپنی رجمنٹ میں فوراً شامل نہیں ہو سکیں گی۔ text: سِول ہپستال ہنگو کے ایمرجنسی وارڈ میں زیر علاج عزیز اللہ آفریدی نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام بتایا کہ وہ اپنے گاؤں سے سائیکل پر ہنگو شہر جا رہے تھے جب وہ پولیس ٹریننگ کالج کے تربیتی مرکز کے سامنے پہنچے تو وہاں ایک سوزوکی گاڑی میں زوردار دھماکہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ’دھماکہ مجھ سے کوئی تیس پینتیس میٹر کے فاصلے پر ہوا لیکن اس کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ میں سائیکل سے گر گیا اور کچھ پتھر کے ٹکڑے بھی لگے جس سے میرے چہر پر زخم آئے۔‘ عزیز اللہ نے بتایا کہ ’اس وقت عجیب قسم کے حالات تھے، میں زور زور سے کلمہ پڑھ رہا تھا۔ میرے ساتھ زمین پر اور بھی زخمی پڑے تھے جو مدد کےلیے چیخ رہے تھے۔‘ اس دھماکے میں زخمی ہونے والے کچ کلی کے ایک عینی شاہد سوات خان نے بتایا کہ وہ سواریوں کی گاڑی میں اورکزئی ایجنسی کے ہیڈ کوارٹرز جا رہے تھے اور ان کے ساتھ گاڑی میں بارہ دیگر سواریاں بھی تھیں۔ سوات خان کے بقول ’دھماکے کے بعد ہر طرف اندھیرا سا چھا گیا اور ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے زمین پھٹ گئی ہو یا آسمان ٹوٹ پڑا ہو۔ لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے، کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، ہر طرف افراتفری کا ماحول تھا۔ بعض لوگ چیخ چیخ کر رو رہے تھے لیکن تھوڑی دیر کے بعد پولیس والے آئے اور انہوں نے زخمیوں کو اٹھایا۔‘ انہوں نے بتایا کہ جس گاڑی میں حملہ آور آیا تھا اس گاڑی کے ٹکڑے دور دور تک گرے ہیں جس سے اردگرد گاڑیوں میں سوار لوگ زخمی ہوئے جبکہ اس کے علاوہ ایک اور پِک اپ گاڑی کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ صوبہ سرحد کے ضلع ہنگو میں جمعرات کی صبح ہونے والے مبینہ کار بم خود کش حملے میں زخمی ہونے والے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ جیسے زمین پھٹ گئی ہو یا آسمان ٹوٹ پڑا ہو۔ اس وقت ہر طرف اندھیرا سا چھا گیا تھا۔ text: پاکستان بار کونسل کے فیصلے کے مطابق سوموار بارہ نومبر سے ماتحت عدالتوں میں صرف ایک گھنٹے کی جزوی ہڑتال کی جانی تھی۔ لیکن کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر اہم شہروں بشمول لاہور، راولپنڈی اسلام آباد ، پشاور اور کوئٹہ میں وکلاء تنظیموں کی جانب سے اعلیٰ عدالتوں سمیت ماتحت عدالتوں کا بھی پورے دن کے لیے بائیکاٹ جاری رکھا گیا ۔ اُن کا کہنا تھا کہ کئی شہروں میں پیر کے روز بھی ماتحت عدالتوں کا پورے دن کے لیے بائیکاٹ کیا گیا۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے انُہوں نے کہا کہ ضلعی بار کونسلوں کا موقف ہے کہ اُن کے ارکان کی بڑی تعداد تاحال گرفتار ہے لہذٰا جب تک گرفتار وکلاء کو رہا نہیں کیا جاتا تب تک ماتحت عدالتوں کا بائیکاٹ جاری رکھا جائے گا ۔ اسی حوالے سے لاہور میں ضلعی بار ایسوسی ایشن کی جانب سے ایک اعلان کیا گیا ہے کہ جب تک گرفتار کیے گئے وکلاء کو رہا نہیں کیا جائے گا تب تک ماتحت عدالتوں کا بائیکاٹ جاری رہے گا ۔ ملک کے دیگر شہروں کی طرح پشاور میں بھی وکلاء کی بھوک ہڑتال اور اعلیٰ عدالتوں کا بائیکاٹ سوموار کے روز بھی جاری رہا۔پیر کے روز پشاور میں دس وکلاء نے بھوک ہڑتالی کیمپ میں شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے چند مقررین کی جانب سے ماتحت عدالتوں کے بائیکاٹ کو ختم کرنے کا مشورہ دیا گیا جسے حاضرین کی بڑی تعداد نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح وکلاء کے اتحاد اور اتفاق کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ وکلاء رہنماؤں کا مطالبہ تھا کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے عبوری آئینی حکم کی موجودگی میں آئندہ عام انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا جانا چاہیے ۔ پیر کے روز بھوک ہڑتالی کیمپ میں جماعتِ اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی سے وابستہ طلباء تنظیموں کے ارکان نے بھی شرکت کی اور وکلاء کی تحریک میں سرگرمی سے حصہ لینے کا اعلان کیا ۔ طلباء تنظیموں کے نمائندوں نے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وہ منگل کے روز سے ’گھیراؤ اور جلاؤ ’ کی حکمتِ عملی اپناتے ہوئے احتجاج میں حصہ لیں گے ۔ کراچی سے بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق ماتحت عدالتوں میں آج کافی گہما گہمی دیکھنے میں آئی البتہ وکلا ء نے گیارہ بجے کے بعد ایک گھنٹے کے لیے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔ ملک بھر میں وکلاء تنظیموں کی جانب سے سوموار کے روز بھی ماتحت عدالتوں کا بائیکاٹ جاری رہا البتہ کراچی میں وکلاء نے پاکستان بار کونسل کے فیصلے کے مطابق صرف ایک گھنٹے کے لیے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا ۔ text: اس فیصلے کے حق میں 522 جب کہ مخالفت میں صرف 13 ووٹ آئے۔ برطانوی قانون کے مطابق قبل از وقت انتخابات کے لیے ایوان کی طرف سے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ * فوری انتخابات سے بریگزٹ میں آسانی ہو گی: ٹریزا مے * برطانیہ میں قبل از وقت انتخابات کروانے کا اعلان وزیرِ اعظم ٹریزا مے کا کہنا تھا کہ نئے انتخابات سے بریگزٹ کے بارے میں مذاکرات اور برطانیہ کے مستقبل کے بارے میں پائی جانے والی بےیقینی دور کرنے میں مدد ملے گی۔ آٹھ جون کو منعقد کیے جانے والے ان انتخابات میں ٹریزا مے اور جیریمی کوربن مدِ مقابل ہوں گے۔ وزیرِ اعظم نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ وہ انتخابات سے پہلے ٹیلی ویژن پر ہونے والے مباحثوں میں حصہ نہیں لیں گی۔ سکاٹس نیشنل پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹس نے ان کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکنِ پارلیمان گریم سٹرنگر نے قبل از وقت انتخابات کی مخالفت کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی جماعت حکمران ٹوری جماعت کی اکثریت میں اضافہ کرنے کے لیے 'ٹریزا مے کے جال' میں پھنس گئی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ لوگ مجھ پر بھروسہ کریں: ٹریزا مے انھوں نے کہا: 'میں کنزرویٹو پارٹی کی اکثریت میں اضافہ کرنے کے لیے ٹریزا مے کی منافقانہ چال کے حق میں ووٹ نہیں ڈال سکتا تھا۔' ادھر لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن نے سیاسی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ ایک ایسی حکومت چاہتے ہیں جس میں خدمات انجام دینے والوں کا مناسب خیال رکھا جائے، لوگوں کو ہنگامی طبی امداد کے لیے گھنٹوں تک قطاروں میں انتظار نہ کرنا پڑے اور سکولوں کے لیے وسائل فراہم ہوں۔ انتخابی مہم کے پہلے اقدامات کے طور پر انھوں نے کہا: 'یہی لیبر اور کنزرویٹو پارٹی کے درمیان فرق ہے۔' وزیرِ اعظم ٹریزا مے گذشتہ برس جولائی میں وزیرِ اعظم بننے کے بعد سے بار بار یہ کہتی آئی ہیں کہ وہ 2020 سے قبل انتخابات کے حق میں نہیں ہیں، تاہم انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'کوئی سیاست دان انتخابات برائے انتخابات نہیں چاہتا،‘ اور ایسا کرنے میں خطرات بھی موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ برطانوی عوام پر بھروسہ کرتی ہیں اور کہا کہ 'میں چاہتی ہوں کہ وہ بھی مجھ پر بھروسہ کریں۔' انھوں نے کہا کہ انھیں ہمیشہ سے زیادہ یقین ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے کے دو سالہ عمل کے لیے اور اس کے بعد برطانیہ کو نئی سمت میں لے جانے کے لیے مضبوط قیادت کی ضرورت ہے۔ برطانیہ کے دارالعوام نے وزیرِ اعظم ٹریزا مے کی جانب سے نئے انتخابات کے انعقاد کے فیصلے کی بھاری اکثریت سے منظوری دے دی ہے۔ text: ریبکا کا کہنا ہے کہ سماج کو اور قانون کو حقیقت سے نظر ملانے کی ضرورت ہے انھوں نے بی بی سی تھری کے لیے اپنی جدو جہد کا ذکر کیا جسے نیچے پیش کیا جا رہا ہے: ریبکا ٹوئنلی کے مطابق تقریباً 18 سال قبل عوامی جگہ پر ایک اجنبی خاتون نے پرتشدد طریقے سے میرا ریپ کیا اور مار پیٹ کی۔ ٭ ’تھک گئی ہوں، اب نہیں لڑا جاتا‘ ٭ ترکی میں ریپ سے متعلق قانون پر ہزاروں افراد کا احتجاج ’میں کسی طرح وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب رہی اور سیدھے گھر پہنچی۔ میں اس بات پر متفکر تھی کہ جب لوگ میرے چہرے پر نیلے نشانات کے بارے میں پوچھیں گے تو میں کیا جواب دوں گی۔‘ اگلے دن میں نے اپنی دوست کو پوری کہانی بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ نہیں سمجھ پا رہی کہ ایک خاتون کس طرح دوسری خاتون کا ریپ کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی صورت حال میں معلومات اور امداد کی کمی زیادہ کھلتی ہے ’پرتشدد خاتون کی حرکت نے مجھے تنہا و بے بس کر دیا تھا۔‘ خواتین کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ حساس، جذباتی اور مددگار ہوتی ہیں، لیکن زیادہ تر لوگوں کو یہ سمجھنے میں دقت ہوتی ہے کہ وہ بھی مردوں کی طرح ہی ظالم بھی ہو سکتی ہیں۔ ایک عورت کے ہاتھ دوسری عورت کا ریپ، جنسی ہوس سے زیادہ تشدد کا معاملہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین میں آپسی رضامندی سے تعلقات بنانے کے متعلق سمجھ کی کمی سے یہ مسئلہ مزید خوفناک صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ریبکا ٹوئنلی کے مطابق اسی لیے جب میری دوست اور ساتھی نے سرد مہری دکھائی تو میں نے پولیس میں رپورٹ درج کرانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ ’میں نے سوچا اگر وہ خود عورت ہو کر یہ نہیں سمجھ رہی ہے تو باقی کیا سمجھیں گے؟ مجھے اس وقت کسی کی مدد اور معلومات کی ضرورت تھی لیکن میں بالکل تنہا محسوس کر رہی تھی۔‘ برطانیہ میں پیش آنے والے اس واقعہ کے چند سال بعد سنہ 2010 میں میں نے پلائماؤتھ یونیورسٹی میں کام کرنا شروع کیا اور یہاں مجھے ڈاكٹریٹ کی پڑھائی کا موقع ملا۔ ریبکا نے اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے ایک آن لائن سروے بھی کیا ’اب تک اس طرح کی صورت حال سے گزرنے والی کئی خواتین کو میں جان چکی تھی اس لیے میں نے اس پر تحقیق کرنے ارادہ کر لیا۔‘ میں نے ایک آن لائن سروے کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہاں اور ناں کی شکل میں ایک سوالنامہ تیار کیا جس میں ایک آخری سوال بھی شامل تھا کہ کیا آپ ایک عورت کے ہاتھوں کسی دوسری عورت کے ریپ کو ممکن سمجھتے ہیں؟ اس سروے میں 159 لوگوں نے شرکت کیا اور ان میں سے کسی نے بھی آخری سوال کے جواب میں ہاں نہیں لکھا۔ اس طرح کے ریپ کے اعداد و شمار حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے تاہم بی بی سی ریڈیو شو میں انٹرویو کے دوران ریپ كرائسس ان انگلینڈ' نامی تنظیم کی چیف ایگزیکٹو یونے ٹراينر نے مجھے بتایا تھا کہ 'ریپ کے 10 فیصد واقعات میں حملہ آور خواتین ہوتی ہیں۔‘ سروے میں حصہ لینے والے ایک شخص نے بتایا کہ سب سے بڑی دقت ریپ کی قانونی تعریف ہے جس کی وجہ سے ایسے معاملے عدالت تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ 1994 تک برطانیہ میں قانونی طور پر یہ تسلیم کیا جاتا تھا کہ صرف مرد ہی خواتین کے ساتھ ریپ کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی این جی او سٹون وال نے اس قانون کو یہ باور کرایا کہ ایک مرد بھی دوسرے مرد کا ریپ کر سکتا ہے۔ 2016 میں ریپ کی قانونی تعریف میں تبدیلی کے لیے ایک درخواست داخل کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ایک عورت بھی مرد کا ریپ کر سکتی ہے لیکن برطانوی حکومت نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ تعریف میں تبدیلی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ایک خاتون کیلی نے مجھے بتایا کہ ’ان سے عمر میں بڑی ایک خاتون 16 سال تک ریپ کرتی رہی تھی۔ انھوں نے اپنے قریبی دوستوں سے اس بابت بات بھی کی لیکن انھوں نے اسے پولیس میں شکایت درج کرانے سے باز رکھا۔‘ ایک دوسری خاتون لارن نے بتایا کہ ایک خاتون نے انھیں ریپ کیا اور اس میں ان کے بوائے فرینڈ نے اس کی مدد کی اور اس نے اس پر تشدد بھی کیا۔ لارن نے پولیس میں شکایت درج کی لیکن ان پر مقدم نہیں چلایا کیونکہ انھیں دھمکیاں مل رہی تھی۔ لارن نے بتایا کہ جب انھوں نے پولیس میں شکایت درج کی تو وہاں موجود خاتون پولیس نے کہا کہ تجربے کے طور پر اس کا ذکر کرنا اچھی بات ہے۔ تحقیق کے دوران جب میں نے ایک عورت سے پوچھا کہ وہ کیوں اس تحقیق میں شامل ہونا چاہتی ہیں، تو ان کا جواب تھا، 'بیداری بڑھانے کے لیے۔' برطانیہ کی ریبکا ٹوئنلی بتاتی ہیں کہ کس طرح ایک عوامی جگہ پر ایک دوسری خاتون نے ان پر تشدد اور ریپ کیا۔ text: بدھ کو مقتدی الصدر نے کہا تھا کہ وہ مہدی آرمی کی سرگرمیاں اگلے چھ ماہ کے لیے معطل کر رہے ہیں اور اس دوران میلشیا گروپ کو از سرِ نو منظم کیا جائے گا۔عراقی حکومت نے مقتدی الصدر کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا۔ خبروں کے مطابق مقتدی الصدر کے معاونین کا کہنا تھا کہ اس اعلان کا مطلب یہ ہے کہ مہدی آرمی اگلے چھ ماہ تک کسی قسم کا کوئی حملہ نہیں کرے گی اور امریکی فوج کو بھی نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ ان معاونین کے بقول اس اقدام کا مقصد مہدی آرمی سے ناپسندیدہ عناصر کا خاتمہ ہے۔ مقتدی الصدر کے نائب احمد شیبانی کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ امریکی فوج کے خلاف کارروائی روک دی گئی ہے۔ تاہم اب ان کا اصرار ہے کہ انہوں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا۔ احمد شیبانی کا کہنا تھا: ’ہم نے اس قسم کا کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ لیکن ذرائع ابلاغ نے میرے حوالے سے وہ کچھ منسوب کیا ہے جو میں نے کبھی نہیں کہا۔میرے بیان میں عراق میں قابض قوتوں کے خلاف کارروائی روکنے کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ گزشتہ روز کے اس اعلان کے بعد تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے مقتدی الصدر تیزی سے منقسم ہوتی ہوئی اپنی میلشیا کو پھر سے کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ ادھر عراقی وزیرِ خارجہ ہوشیار زباری نے کہا ہے کہ امریکی حکام اگلے ماہ کانگریس میں جو رپورٹ پیش کرنے والے ہیں اور جس سے بڑی امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں تو ان کے خیال میں یہ رپورٹ عراق کو درپیش مسائل کا کوئی طلسمی حل مہیا کرنے والی نہیں۔ اس سال اپریل میں امریکی محکمۂ دفاع نے مہدی آرمی کو عراق کی سکیورٹی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔ محکمۂ دفاع نے کہا تھا کہ مہدی آرمی نے القاعدہ تنظیم کی جگہ لے لی ہے اور یہ عراق میں فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ کرنے والی سب سے خطرناک تنظیم ہے۔‘ مہدی آرمی دو ہزار تین میں وجود میں آئی تھی اور اس وقت اس کے اراکین کی تعداد ساٹھ ہزار کے قریب ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ مہدی آرمی کو ایران نے تربیت دی ہے اور وہی اس کی مالی معاونت کرتا ہے اور اسے اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ مہدی آرمی کو عراقی سکیورٹی افواج اور سنی مسلمانوں پر حملوں کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا جاتا ہے۔ عراق کے ریڈیکل شعیہ رہنما مقتدی الصدر کے ایک نائب نے اس خبر کی تردید کی ہے کہ ان کی مہدی آرمی امریکی اور عراق میں موجود دیگر غیر ملکی افواج پر حملے معطل کر رہی ہے۔ text: ڈانکےوچ میچ کے دوسرے ہی سیٹ میں بےہوش ہوگئے تھے ٹورنامنٹ کے منتظمین کو 42 سنٹی گریڈ درجۂ حرارت کے باوجود کھلاڑیوں کو کھیلنے پر مجبور کرنے پر تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ اصل مقابلہ تو گرمی سے ہے: تصاویر منگل کو کینیڈا سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی فرینک ڈانکے وِچ کو اس وقت طبی امداد دینا پڑی جب وہ اپنے پہلے راؤنڈ کے میچ میں گرمی کی وجہ سے بےہوش ہوگئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قسم کے موسم میں کھلاڑیوں کو کھیلنے دینا ’غیرانسانی‘ ہے۔ برطانوی ٹینس کھلاڑی اینڈی مری نے بھی کہا ہے کہ اس قسم کے واقعات ٹورنامنٹ کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر لوگ بےہوش ہوتے رہیں گے تو یہ کھیل کے لیے اچھا نہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’زیادہ تر کھلاڑی اس قسم کے موسم کے لیے تیاری کرتے ہیں لیکن تین سے چار گھنٹے اسے برداشت کرنا مشکل ہے۔‘ خواتین کھلاڑی بھی موسم کی شدت سے پریشان نظر آئیں اس ٹورنامنٹ میں اپنے اعزاز کا دفاع کرنے والی وکٹوریہ ایزارینکا نے گرم موسم میں کھیلنے کو ’توے پر ناچنے‘ کے مترادف قرار دیا۔ منگل کو میلبرن پارک میں گرم موسم کی وجہ سے جہاں سابق عالمی نمبر ایک خاتون کھلاڑی کیرولائن ووزنیاکی کی پانی کی بوتل کی شکل بگڑگئی وہیں فرانسیسی کھلاڑی جو ولفریڈ سونگا کے جوتوں کا تلا نرم پڑ گیا۔ گرمی کی وجہ سے ہی کورٹ پر موجود گیند اٹھانے والے لڑکے اور لڑکیوں کی شفٹ بھی ایک گھنٹے سے کم کر کے 45 منٹ کر دی گئی۔ کینیڈین کھلاڑی فرینک ڈانکےوچ پہلے راؤنڈ میں فرانس کے بینوا پیئر کے مدِمقابل تھے اور یہ میچ کورٹ نمبر چھ پر کھیلا گیا جس پر چھت موجود نہیں۔ وہ گرمی کی شدت کی وجہ سے اس میچ کے دوسرے ہی سیٹ میں بےہوش ہوگئے۔ طبی امداد لینے کے بعد 29 سالہ ڈانکےوچ کا کہنا تھا: ’جب تک کوئی مر نہیں جاتا، یہ لوگ اسی طرح سلسلہ جاری رکھیں گے اور اتنی دھوپ میں میچ کھلواتے رہیں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ غیرانسانی ہے اور میرے خیال میں کسی کے لیے بھی مناسب نہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میں نے ساری زندگی پانچ سیٹ کے میچ کھیلے ہیں لیکن یہاں ڈیڑھ سیٹ کے بعد ہی گرمی کی وجہ سے بےہوش ہونا معمول کی بات نہیں۔‘ آسٹریلوی شہر میلبرن میں سال کا پہلا ٹینس گرینڈ سلیم مقابلہ آسٹریلین اوپن جاری ہے تاہم اس میں حصہ لینے والے کھلاڑی سخت گرم موسم سے شدید پریشان ہیں۔ text: محمد شامی نے چار وکٹیں لے کر بھارت کی فتح میں اہم کردار ادا کیا پاکستان آج تک اس ٹورنامنٹ میں بھارت کو ہرانے میں ناکام رہا ہے اور یہ ورلڈ کپ کی تاریخ میں لگاتار چھٹا موقع ہے کہ بھارتی ٹیم پاکستان کے خلاف فتح یاب ہوئی ہے۔ ایڈیلیڈ میں اتوار کو کھیلے جانے والے میچ میں بھارت نے ٹاس جیت کر پہلے کھیلنے کا فیصلہ کیا اور کوہلی، دھون اور رائنا کی عمدہ اننگز کی بدولت 300 رنز بنائے۔ میچ کا تفصیلی سکور کارڈ کرکٹ ورلڈ کپ کا دوسرا دن: تصاویر میں ورلڈ کپ 2015 پر بی بی سی اردو کا خصوصی ضمیمہ ایک بڑے ہدف کے تعاقب میں پاکستانی بلے باز اچھی شراکتیں قائم کرنے میں ناکام رہے اور پوری ٹیم 47 اوورز میں 224 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔ اس میچ میں پاکستان نے اپنے تجربہ کار بلے باز یونس خان سے اننگز شروع کروائی لیکن یہ تجربہ ناکام رہا اور وہ صرف چھ رنز بنا کر محمد شامی کی گیند پر کیچ ہوگئے۔ دوسری وکٹ کے لیے حارث سہیل اور احمد شہزاد کے درمیان 68 رنز کی شراکت ہوئی۔ کوہلی ورلڈ کپ میں پاکستان کے خلاف سنچری کرنے والے پہلے بھارتی بلے باز بن گئے ہیں۔ احمد شہزاد نے 47 رنز کی اننگز کھیلی لیکن اس سکور تک پہنچنے میں انھوں نے 73 گیندیں استعمال کیں۔ ان دونوں کے آؤٹ ہونے کے بعد بقیہ بلے بازوں میں سے مصباح الحق کے سوا تمام ناکام رہے۔ پاکستانی کپتان نے ایک روزہ کرکٹ میں ایک اور نصف سنچری بنائی لیکن ٹیم کو فتح نہ دلوا سکے اور نو چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 74 رنز بنا کر شامی کی چوتھی وکٹ بنے۔ محمد شامی سب سے کامیاب بھارتی بولر رہے جنھوں نے 35 رنز دے کر چار وکٹیں لیں۔ شامی کے علاوہ امیش یادو نے دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ کوہلی کی سنچری اس سے قبل بھارت نے ٹاس جیت کر پہلے کھیلنے کا فیصلہ کیا اور مقررہ 50 اوورز میں سات وکٹوں کے نقصان پر 300 رنز بنائے۔ بھارتی اننگز کی خاص بات ویراٹ کوہلی کی شاندار سنچری تھی۔ یہ ان کی ایک روزہ کرکٹ میں 22ویں سنچری تھی۔ سہیل خان نے پاکستان کے لیے پانچ وکٹیں حاصل کیں وہ ورلڈ کپ میں پاکستان کے خلاف سنچری کرنے والے بھی پہلے بھارتی بلے باز بن گئے ہیں اور 107 رنز بنانے کے بعد سہیل خان کی وکٹ بنے۔ انھوں نے پہلے دھون اور پھر رائنا کے ساتھ مل کر 100 رنز سے زیادہ کی شراکتیں قائم کیں جنھوں نے نصف سنچریاں بنائیں اور بالترتیب 73 اور 74 رنز کی اننگز کھیلی۔ پاکستان نے کوہلی کو آؤٹ کرنے کے دو مواقع ضائع کیے۔ پہلے 11ویں اوور میں یاسر شاہ شاہد آفریدی کی گیند پر ایک مشکل کیچ نہ پکڑ سکے اور پھر 32ویں اوور میں عمر اکمل نے وکٹوں کے پیچھے ان کا کیچ چھوڑ دیا۔ ایک موقع پر لگ رہا تھا کہ بھارت 330 سے زیادہ رنز بنا لے گا لیکن اننگز کے آخری پانچ اوورز میں سہیل خان اور وہاب ریاض نے عمدہ بولنگ کی اور صرف 27 رنز ہی دیے۔ سہیل خان پانچ وکٹوں کے ساتھ سب سے کامیاب پاکستانی بولر رہے جبکہ وہاب ریاض نے ایک وکٹ لی۔ اس میچ کو ورلڈ کپ کا سب سے بڑا میچ قرار دیا جا رہا ہے اور سٹیڈیم میں موجود ساڑھے 41 ہزار افراد کے علاوہ اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ افراد نے یہ مقابلہ دیکھا۔ ایڈیلیڈ میں دونوں ممالک کے شائقین کی بڑی تعداد جمع ہے جبکہ دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ افراد نے یہ مقابلہ دیکھا آخری مرتبہ یہ دونوں ٹیمیں 2011 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں ایک دوسرے کے خلاف کھیلی تھیں اور پاکستانی ٹیم 29 رنز سے یہ میچ ہارگئی تھی۔ اسی ٹورنامنٹ میں بھارت نے فائنل میں سری لنکا کو ہرایا تھا اور یوں وہ اس بار اپنے اعزاز کا دفاع کر رہا ہے۔ بھارت نے ماضی میں سنہ 2011 سے قبل 1983 میں بھی کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا۔ ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستان 1992 کے ٹورنامنٹ کا فاتح رہا جبکہ 1999 میں بھی پاکستانی ٹیم فائنل میں پہنچنے میں کامیاب ہوئی تھی جہاں آسٹریلیا نے ایک یکطرفہ مقابلے کے بعد اسے شکست دے دی تھی۔ 11ویں کرکٹ ورلڈ کپ میں دفاعی چیمپیئن بھارت نے اپنے پہلے میچ میں روایتی حریف پاکستان کو 76 رنز سے شکست دے دی ہے۔ text: ہم نے بالاکوٹ میں پائین پارک ہوٹل (جو کہ اب تباہ ہو چکا) کے پچھواڑے میں اس ماہ کی تیرہ تاریخ کوایک امدادی کیمپ قائم کیا تھا۔ ہم اس کیمپ سے مختلف علاقوں میں ٹیمیں بھیجتے ہیں۔ یہ ٹیمیں متاثرین کے نقصانات کا جائزہ لے کر لوگوں کو خیمے، خوراک اور کمبل وصول کرنے کے لیے رسیدیں دیتے ہیں۔ متاثرین یہ رسیدیں لے کر ہمارے امدادی مرکز پر آتے ہیں جہاں سے انہیں ان کی ضرورت کا سامان مہیا کیا جاتا ہے۔ شروع کے دنوں میں متاثرین کی پوری کوشش رہی ہے کہ وہ ملبے کے نیچے سے مرنے والوں کی لاشوں کے علاوہ اپنا بچھا کچھا سامان نکالیں۔ یوں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ متاثرین نے امداد کے لیے اس وقت تک ہاتھ نہیں پھیلائے جب تک انہیں یقین نہیں ہو گیا کہ اب ان کے پاس زندہ رہنے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا۔ اس کے بعد ان لوگوں نے بالاکوٹ میں ہمارے کیمپ آنا شروع کر دیا اور وہ اشیاء وصول کرنا شروع کر دیں جو انہیں ملبے سے نہیں ملیں مگر انہیں ضرورت تھیں۔ اب بالاکوٹ سے اوگی کی جانب پچیس کلومیٹر کی سڑک کھول دی گئی ہے۔ گھنگول نامی گاؤں تک فوج، الرشید ٹرسٹ، الخدمت گروپ اور الرحمت ٹرسٹ نے اپنے مراکز قائم کر دیے ہیں۔ فوج اپنے ہیلی کاپٹروں اور خچروں کی مدد سے امدادی سامان پہنچا رہی ہے اور امداد میں بہتری آ گئی ہے۔ یہ بہتری اپنی جگہ لیکن اس علاقے تک مکمل رسائی اور امداد پہنچانے کے انتظامات مکمل ہونے میں ابھی مزید آٹھ دس دن لگیں گے۔ اب تک ہم مختلف تنظیموں کو ایک سو خیمے، آٹے کے ایک سو توڑے، ایک سو کمبل، چینی اور ضرورت کی دوسری اشیاء دے چکے ہیں۔ لیکن ہمیں خطرہ ہے کہ اگر دوبارہ شدید بارش ہوتی ہے تو بالاکوٹ کے ارد گرد دیہاتوں کو جانے والے راستے پھر بند ہو جائیں گے۔ ہمیں دوسرا خطرہ یہ بھی ہے کہ بارش کی صورت میں بالاکوٹ کے امدادی کیمپ میں آیا ہوا سامان بھی ضائع ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں اس وقت کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم جلد از جلد امدادی سامان کسی ایسے مقام تک پہنچا دیں کہ اگر راستے بند بھی ہو جائیں تو ارد گرد کے دیہاتوں والے اس مقام تک آ کر امداد لے جا سکیں۔ میں پرسوں واپس گھنگول جاؤں گا۔ میں بالاکوٹ میں پانچ دن امدادی کام کرنے کے بعد واپس اوگی ضلع مانسہرہ آیا ہوں۔ text: پنجاب پولیس کے شبعہ انسداد ہدشت گردی(سی ٹی ڈی) کے مطابق ہلاک ہونے والے شدت پسندوں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان سے ہے۔ صحافی اے این خان کے مطابق سی ٹی ڈی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مبینہ مقابلہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور کے قریب سگیاں پل کے قریب ہوا جہاں مبینہ شدت پسندوں کی ایک ٹھکانے پر موجودگی کی خفیہ اطلاع پر پولیس نے طلعت پارک، کچی آبادی شیراکوٹ لاہور میں چھاپہ مارا۔ ترجمان کے مطابق ٹھانے پر موجود نو سے دس شدت پسندوں کو ہتھیار پھینک کر خود کو پولیس کے حوالے کرنے کا کہا گیا لیکن شدت پسندوں نے پولیس پر فائرنگ شروع کر دی۔ ترجمان نے بتایا کہ فائرنگ کے تبادلے میں چھ شدت پسند ہلاک ہو گئے جبکہ تین سے چار شدت پسند تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہوگئے۔ سی ٹی ڈی پولیس کے مطابق ہلاک مشتبہ دہشت گردوں کا تعلق تحریک طالبان پاکستان کے استاد اسلم گروپ سے ہے جو لاہور میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معروف شخصیات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ مطابق ہلاک ملزموں کی شناخت ابھی باقی ہے۔ ترجمان کے مطابق فرار ہونے والے شدت پسندوں کی تلاش جاری ہے۔ 27 مارچ کو لاہور کے گلشن اقبال پارک میں دھماکے کے بعد لاہور میں یہ دوسرا پولیس مقابلہ ہے اس سے قبل رائے ونڈ روڈ کے علاقے ایل ڈی اے ایونیو میں سی آئی اے پولیس نے ایک مقابلہ میں پانچ مشتبہ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پولیس نے ایک مقابلے میں چھ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ text: یہ جلوس ان یرغمالیوں کے رشتہ داروں نے اس دھمکی کے بعد نکالا جس میں اغوا کنندگان نے دھمکی دی تھی کہ اگر عراق میں اٹلی کی فوج کی موجودگی کے خلاف مظاہرے نہ کیے گئے تو وہ اطالوی یرغمالیوں کو ہلاک کر دیں گے۔ اپریل ہی میں چوتھے اطالوی یرغمالی کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ سینٹ پیٹر سکوائر میں پاپائے روم کے ایک ترجمان نے پوپ کا ایک پیغام پڑھ کر سنایا جس میں ایک خدا کے نام پر یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھاگ ایک اندازے کے مطابق تین ہزار افراد نے مظاہرے میں شرکت کی جبکہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے مظاہرے میں حصہ نہیں لیا کیونکہ وہ نہیں چاہتیں کہ اغوا کنندگان کو اپنی کامیابی کا کوئی تاثر ملے۔ تاہم بعض سیاستدانوں کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی حیثیت میں مظاہرے میں شریک ہوں گے۔ یرغمالیوں بنانے والوں نے عراق میں اٹلی کی فوج کی موجودگی کے خلاف پانچ روز کے اندر بڑے پیمانے پر مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اٹلی کے دارالحکومت روم میں جمعرات کو سینکڑوں شہریوں نے امن مارچ میں حصہ لیا جو عراق میں یرغمال بنائے گئے تین اطالوی شہریوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ text: امریکی سپیکر پال ریان ملک میں ریپبلیکن پارٹی سے سب سے اعلی منتخب اہلکار ہی پال ریان نے ایک کالم میں لکھا ’ہم میں اختلافات سے زیادہ مشترک باتیں ہیں۔‘ ماضی میں پال ریان نے ان کی حمایت سے انکار کیا تھا لیکن اب اس سے صاف ظاہر ہے کہ ریپبلیکنز ڈونلڈ ٹرمپ کے نام پر متحد ہونے لگے ہیں۔ * ’ہلیری میں جوش کی کمی، عقلمند ٹرمپ کو ووٹ دیں‘ * ٹرمپ کو نامزدگی کے لیے درکار حمایتی مل گئے اس اثنا میں ڈیمو کریٹک رہنما ہلیری کلنٹن نے ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیس کو نشانہ بناتے ہوئے اسے ’خطرناک حد تک بے ربط‘ قرار دیا۔ پال ریان نے ایک ٹویٹ میں کہا ’میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دوں گا۔ میں پر اعتماد ہوں کہ وہ ایوان میں ریپبلیکن پارٹی کے ایجنڈے کو قانون میں بدلنے میں مدد دیں گے۔‘ اپنے فیصلے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے ایک مقامی اخبار میں لکھا ’یہ بات راز نہیں کہ ہم میں اختلافات ہیں میں دکھاوا نہیں کرتا۔‘ ’جب میں کچھ محسوس کروں گا تو میں اپنے ذہن کے مطابق بات کروں گا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے اپنی پارٹی کے ایجنڈے کے معاملے میں ہم میں اختلافات کی نسبت قدریں مشترک ہیں۔‘ اب لگتا ہے کہ ریپبلیکنز ڈونلڈ ٹرمپ کے نام پر متحد ہونے لگے ہیں انھوں نے ہلیری کلنٹن پر بھی تنقید کی اور کہا کہ ’کلنٹن کے وائٹ ہاؤس میں آنے کا مطلب ہے کہ لبرل کرونزم کے مزید چار مزید سال اور ایسی حکومت جو عوام سے زیادہ اپنے بارے میں سوچتی ہے۔‘ امریکی سپیکر پال ریان ملک میں ریپبلیکن پارٹی سے سب سے اعلی منتخب اہلکار ہیں۔ ان کے اور ٹرمپ کے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ بعض اعلی ریپبلیکن رہنماؤں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت سے انکار کیا ہے جن میں سابق صدور جارک ایچ ڈبلیو بش اور جارج ڈبلیو بش سامل ہیں۔ ادھر ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ امریکہ ٹرمپ کو صدر منتخب کر کے ’تاریخی غلطی‘ کرے گا۔ اپنے حریف کی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’انھوں نے اس کے لیے تیاری ہی نہیں کی اور وہ اس کے لیے ان فِٹ بھی ہیں۔‘ اس بیان کے جواب نے ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کیا ’ہلیری اب قابلِ اعتبار نہیں رہیں، وہ اپنے کام میں بہت ناکام رہی ہیں۔ لوگ نالائقی کو مزید چار سال نہیں دیں گے۔ ‘ امریکی ایوان کے سپیکر پال ریان کا کہنا ہے کہ وہ اختلافات کے باوجود صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں شامل ریپبلکن رہنما ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کریں گے۔ text: لاہور سے بی بی سی کے نماہ نگار عباد الحق نے بتایا کہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں وکلاء عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے ۔لاہور کی ضلعی بارایسوسی ایشن اور ہائی کورٹ بار کے اجلاسوں کے بعد وکلا نے جلوس نکالا جو ایوان عدل سے شروع ہوکر پنجاب اسمبلی کے سامنے ختم ہوگیا۔ لاہور ہائی کورٹ بار کے اجلاس سے صوبائی وزیر مجتبیْ الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی لاہور آمد پر ان کو پنجاب حکومت چیف جسٹس کا پروٹوکول دے گی۔ان کے بقول وکلاء کے لانگ مارچ میں ان کی جماعت مسلم لیگ نون بھر پور حصہ لے گی۔ وکلاءکےجلوس میں سیاسی جماعتوں کے کارکن اور سوسائٹی کےارکان بھی شامل ہوئے۔ جلوس میں شامل افراد نے ’گو مشرف گو‘ اور ’عدلیہ کی بحالی تک جنگ رہے گی جنگ رہے گی‘ کے نعرے لگائے۔ پنجاب اسمبلی کے سامنے سپریم کورٹ بار کے سابق صدر حامد خان نے خطاب میں کہا کہ صدر پرویزمشرف کے اقتدار کی گھڑیاں ختم ہونے والی ہیں اور صدر مشرف کو ملک سے بھاگنے نہیں دینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدرپرویز مشرف اور پی سی او ججوں کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔ وکیل اپنے رہنماؤں کے خطاب کے بعد پُرامن طور پر منشتر ہوگئے۔ لاہور کے علاوہ پنجاب کے دیگر شہروں میں وکلا نے ہڑتال کر کے احتجاج میں حصہ لیا۔ کراچی میں احتجاج، منیر اے ملک کا خطابپاکستان بار کونسل کی اپیل پر ججوں کی بحالی کے لیے جمعرات کو کراچی میں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا گیا ہے اور وکلاء نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مجوزہ آئینی پیکیج عوام کے سامنے لایا جائے۔ کراچی سے بی بی سی کے ریاض سہیل نے بتایا ہے کہ کراچی میں وکلاء نے ہائی کورٹ بار سے پریس کلب تک ریلی نکالی، جس میں وکلاء کے علاوہ تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور پاسبان کے کارکن اور رہنما شریک تھے۔ یہ لوگ حکومت اور خاص طور پر صدر مشرف کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ ریلی سے قبل سندھ ہائی کورٹ بار میں وکلاء کی جنرل باڈی کا اجلاس منعقد کیا گیا۔ اجلاس سے وکلاء رہنما منیر ملک نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وکلاء تحریک کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ موقع پرست قوتوں کو موقع فراہم کیا جائے، اور جو قوتیں ہمیشہ ایسے موقع کے انتظار میں رہتی ہیں کہ حالات سازگار ہوں تو وہ مداخلت کریں، ان کے مطابق وکلاء تحریک کا مقصد ان قوتوں کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کردینا ہے۔ منیر ملک نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی معزولی کے وقت کا ایک واقعہ بتاتے ہوئے کہا کہ دس مارچ دو ہزار سات کو جب سپریم جوڈیشل کاؤنسل کا اجلاس ہونے جا رہا تھا اس کے وقت قائم مقام چیف جسٹس جاوید اقبال نے انہیں اپنے دفتر میں طلب کیا تھا، ہاتھ ملایا تھا اور آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ان سے کہا تھا کہ ’ مجھ پر اعتماد کرو۔‘ منیر ملک کے مطابق انہوں نے جسٹس جاوید اقبال کو جواب دیا کہ آپ جو کہہ رہے ہیں اس پر نہیں بلکہ اس پر عمل کریں گے تب ہی اعتبار کر سکوو ں گا۔ ’موجودہ سیاسی قیادت بھی کہتی ہے ہم پر اعتبار کرو، ججز بحال ہوں گے اور یہ ان کی اولیت میں شامل ہے۔ مگر ہم انہیں بھی یہ کہتے ہیں آپ جو کہہ رہے ہیں اس پر نہیں، آپ کچھ کریں گے تو اس پر اعتبار کریں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ’جسٹس جاوید اقبال اور ان کے رفقاء کو یہ پیغام پہنچانا ضروری تھا اور آج کی سیاسی قیادت کو بھی پیغام پہنچانا ضروری ہے۔‘ منیر ملک کا کہنا تھا کہ وکلاء تحریک کے دو بنیادی مقاصد تھے۔ پہلا مقصد تھا عوام کے ذہن کو بدلنا اور دوسرا اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے ذہنوں کو۔ ان کے مطابق وکلاء تحریک نےعوام کی عدالت کے ذریعے ملک کی عدالت کے ذہن کو بدلا اور اس لیے جو تیسرا مقصد تھا کہ ریفرنس کا خاتمہ ہوا، اس پر پھر عمل ہوا۔ سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے سابق صدر کا کہنا تھا کہ آج کے حالات میں دوبارہ عوام کی عدالت میں جانا ضروری ہے ’اُس تحریک اور اِس تحریک میں فرق یہ ہے کہ اس وقت عوام کی طاقت استعمال کر کے عدلیہ کو ہم نے یہ پیغام دیا کہ اگر آپ کھڑے ہوجائیں اور ایک درست رخ اختیار کریں تو عوام آپ کے ساتھ ہے۔‘ منیر ملک کا کہنا تھا کہ اب ’عدالت کے بجائے پارلیمنٹ کو یہ پیغام دینا ہے کہ اگر آپ نے کوئی غلط چیز کی تو عوام آپ کا احتساب کرے گی۔‘ انہوں نے واضح کیا کہ عدلیہ کی آزادی سے نہ وکلاء کی پریکٹس چمکے گی اور نہ ہی اس ملک میں عدالتی نظام میں ایک انقلابی تبدیلی آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا انہیں اندازہ ہے کہ یہ عدالتی اصلاحات کے لیے وکلاء کی جدوجہد کا دوسرا مرحلہ ہوسکتا ہے ۔ سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر رشید رضوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی وکیل یا تنظیم کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی مُدت ملازمت میں کمی منظور نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجوزہ آئینی پیکیج میں اگر عدلیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی تو وکلاء اسی قوت کے ساتھ اس کی مخالفت کریں گے۔ آج ملک بھر کے شہروں میں وکلاء نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا اور بار ایسوسی ایشنوں میں ہونے والے اجلاسوں کے بعد احتجاجی ریلیاں اور جلوس نکالے۔ text: الیکشن کمیشن نے ریاست ہماچل پردیش کی اسمبلی کے انتخابات کی بھی تاریخوں کا اعلان کر دیا ہے اور دسمبر کے میہنے میں دونوں ریاستوں کی اسمبلیوں کا انتخابی عمل مکمل ہو جائےگا۔ چیف الیکشن کمشنر این گوپالا سوامی کا کہنا ہے کہ انتخابات شفاف اور منصافانہ بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔ دلی میں ایک نیوز کانفرنس میں تاریخوں کا اعلان کرتے ہوئے گوپالا سوامی نے کہا ’گجرات میں دو مرحلے میں انتخاب ہوں گے، پہلے مرحلے میں ستاسی سیٹوں کے لیے گيارہ دسمبر کو پولنگ ہوگي جبکہ دوسرے مرحلے میں پچانوے سیٹوں کے لیے سولہ دسمبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے، ووٹوں کی گنتی تئیس دسمبر کو ہوگی‘۔ گجرات میں کل ایک سو بیاسی نشستیں ہیں۔ ریاست ہماچل پر دیش کی اسمبلی کی کل اڑسٹھ سیٹیں ہیں جس کے لیے چودہ اور انیس دسمبر کو پولنگ ہوگی۔ ووٹوں کی گنتی اٹھائیس دسمبر کو کی جائےگی۔ چیف الیکشن کمشنر این گوپالا سوامی کا کہنا تھا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائےگا کہ انتخابات سے قبل اقلیتی برادری کے تمام رائے دہندگان کو انتخابی شناختی کارڈ مل جائے۔’ ایسے کسی بھی پولیس افسر کو انتخابی ڈیوٹی پر تعینات نہیں کیا جائےگا جس پر کیس ہوں یا ان کی غیر جانبداری مشکوک ہو‘۔ ریاست گجرات میں گزشتہ دس برس سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے اور گزشتہ چھ برسوں سے اس کی باگ ڈور موجودہ وزیراعلی نریندر مودی کے ہاتھوں میں ہے۔ ریاست میں بدترین فرقہ وارانہ فسادات کے بعدگزشتہ انتخابات ہوئے تھے اور بی جے پی کو شاندار جیت حاصل ہوئی تھی۔ سخت گیر ہندو نظریات کے حامل نریندر مودی کے لیے پچھلا انتخاب کافی آسان رہا تھا لیکن اس بار ان کی جماعت کے کئی ریاستی رہنما ان سے ناراض ہیں اور سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ چیز ان کے لیے مشکلیں پیدا کر سکتی ہے۔ ہندوستان کی ریاست گجرات کی اسمبلی کے انتخابات گيارہ اور سولہ دسمبر کو ہوں گے۔ text: فرانسیسی وزیر خارجہ نے صدر مشرف سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر مشرف نے ان کی تحقیقات کی پیشکش کو ایک ’دلچسپ پیشکش‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر مشرف سے پینتالیس منٹ کی ملاقات میں انہوں نے تجویز پیش کی ہے کہ قتل کی تحقیقات کے لیے وہ پاکستانی ماہرین کی مدد کے لیے فرانسیسی یا یورپی ماہرین بھیج سکتے ہیں۔ فرانسیسی وزیر خارجہ نے لیاقت باغ میں جائے وقوعہ کا بھی دورہ کیا اور انہوں نے جائے حادثہ پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے فرانس کے سفارتخانے میں پیپلز پارٹی کے ایک وفد سے بھی ملاقات کی، جس میں سینیٹر لطیف کھوسہ اور شہناز وزیر علی بھی شامل تھے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان محمد صادق نے بدھ کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا کہ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے فرانسیسی وزیر خارجہ برناڈ کوشنر نے ’بینظیر قتل کیس‘ کی تحقیقات کے حوالے سےتعاون کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح ابھی تک اس واقعہ کی تحقیقات کے حوالے سے تین ملکو ں نے تعاون کی پیشکش کی ہے جن میں فرانس کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ بھی شامل ہیں۔ امریکی کانگریس کے تیرہ ارکان کے بیان پر انہوں نے کہا کہ امداد مشروط کرنے کی دھمکی سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری نہیں آسکتی۔ یاد رہے کہ امریکی کانگریس کے تیرہ ارکان نے اپنی حکومت سے کہا ہے کہ اگر پاکستانی حکومت پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات بین الاقوامی ماہرین سے نہیں کرواتی تو اس کی امداد بند کردی جائے۔ بینظیر قتل کیس کی لبنان کے سابق وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کی طرح بین الاقوامی تحقیقات کروانے کے بارے میں محمد صادق نے کہا کہ لبنان اور پاکستان کے حالات میں بہت فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ رفیق حریری کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے نو مختلف رپورٹیں اقوام متحدہ کو پیش کی تھیں۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں محمد صادق نے کہا کہ جب بھی پاکستان میں غیر معمولی حالات آتے ہیں تو ذرائع ابلاغ میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں چہ میگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ فرانسیسی وزیر خارجہ برناڈ کوشنر نے صدر پرویز مشرف اور نگران وزیر اعظم محمد میاں سومرو سے ملاقاتیں کیں اور انہیں بینظیر کے قتل کی تحقیقات کے حوالے سے تعاون کی پیشکش کی۔ برناڈ کوشنر بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد کسی بھی ملک کے پہلے وزیر خارجہ ہیں جو پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ text: اس فیصلے کے بعد اسرائیل غرب اردن اور غزہ کی پٹی کو بجلی، پانی اور ایندھن کی ترسیل روک سکتا ہے۔ فلسطینی کا کہنا ہے کہ اس طرح کا اقدام لوگوں کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہو گا۔ دو ہفتے قبل اسرائیلی فوجی اڈے پر راکٹ گرنے کی وجہ سے انہتر افراد زخمی ہونے کے واقعے کے بعد سےاسرائیلی حکومت پر فلسطینیوں کے خلاف جوابی کارروائی کرنے کے لیے عوامی دباؤ بڑھ گیا ہے۔ فلسطینی شدت پسندوں کا کہنا ہے کہ راکٹ حملہ اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ اور غرب اردن میں کارروائیوں کے ردعمل میں کیا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوجی حکام کو توقع ہے کہ نئے اقدامات سے حماس پر جس نے اس سال جون میں حریف دھڑے فتح گروپ کو غزہ کے علاقے سے بے دخل کر دیا تھا، راکٹ حملے روکنے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔ ایک اسرائیلی سرکاری اہلکار نے امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اسرائیلی وزیر دفاع ایہود براک نے کابینہ کے اجلاس میں کہا تھا کہ ان اقدامات کا مقصد حماس کو کمزور کرنا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایہود براک کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل غزا میں ایک بڑی فوجی کارروائی کرنے کے بارے میں بھی غور کر رہا ہے۔ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ غزہ میں ایک بڑی کارروائی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ غزہ کو دشمن کا علاقہ قرار دینے سے اسرائیل یہ دلیل دے سکتا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کے تحت غزہ کی پندرہ لاکھ آبادی کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کا اخلاقی طور پر پابند نہیں رہا ہے۔ لیکن موجودہ صورت حال کے تحت بین الاقوامی قوانین اب بھی اسرائیل کو اس بات کا پابند کرتے ہیں وہ اس ساحلی پٹی کو جہاں سے اس نے دو سال قبل اپنی فوجیں واپس بلالی تھیں، تمام بنیادی سہولیات فراہم کرے کیونکہ وہ اب بھی اس کی سرحدوں، فضائی حدود اور ساحل کو کنٹرول کرتا ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کی طرف سے مستقل راکٹ باری کی وجہ سے غرہ کی پٹی کو ’دشمن علاقہ‘ قرار دینے والا ہے۔ text: جناح سپورٹس کمپلیکس کے گراؤنڈ میں ہونے والی افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ہوں گے جبکہ لیاقت جمنازیم میں ہونے والی اختتامی تقریب کی صدارت صدر مملکت جنرل (ر) پرویز مشرف کریں گے۔ حفاظتی نقطہ نظر سے ان تقریبات کو اصل پروگرام کے مقابلے میں بہت مختصر کر دیا گیا ہے۔ ابتدائی پروگرام کے مطابق، اولمپکس مشعل برداروں کو تین کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے استقبالیہ تقریب کے لیے سپورٹس سٹیڈیم پہنچنا تھا۔ مشعل برداری کی تقریب کے بعد لیاقت جمنازیم میں اختتامی تقریب ہو گی جس میں پاکستان کے نامور گلوکار اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔ اسلام آباد میں موسم کی خرابی اور بارش کے امکانات کے پیش نظر اولمپکس مشعل کی انتظامیہ اس وقت مشعل پروگرام کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہے۔ اس سے پہلے گزشتہ رات ایک بجے کے قریب جب مشعل اسلام آباد ائر پورٹ پہنچی تو پاکستان اولمپکس کمیٹی کے سربراہ سید عارف حسن اور پاکستان میں چینی سفیر بھی استقبال کے لیے موجود تھے۔ مشعل کی آمد اور اسلام آباد میں اس کے سفر کے دوران سخت حفاظتی انتظامات کے تحت دو ہزار اضافی پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں ۔ اولمپکس مشعل چین واپسی کے اپنے سفر میں منگل اور بدھ کی درمیانی رات پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد پہنچی جہاں مشعل برداری کی تقریبات بعد دوپہر شروع ہوں گی۔ text: تحویل میں لیے جانے والے افراد میں ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان بھی شامل ہیں رینجرز نے کراچی میں جمعے کو ایم کیو ایم کے مزید 58 کارکنان کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جن میں سے 32 افراد کو عدالت نے تحفظِ پاکستان آرڈیننس کے تحت 90 روز کے لیے رینجرز کے حوالے کر دیا۔ نائن زیرو پر رینجرز کا چھاپہ: تصاویر فیصل موٹا اور عبید کے ٹو سمیت دیگر 26 ملزمان کو 25 مارچ تک پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔ تحفظِ پاکستان آرڈیننس کے تحت رینجرز کے پاس ایسے اختیارات ہیں کہ جن افراد پرسنگین جرائم میں ملوث ہونے کا شبہ ہو انھیں 90 روز تک بغیر کسی ایف آئی آر اور ثبوت کےاپنی تحویل میں رکھ سکتے ہیں۔ جمعرات کو بھی ایم کیو ایم کے رابطہ کمیٹی کے ممبر اور سینیئر رہنما عامرخان سمیت 27 ملزمان کو 90 روزہ ریمانڈ پر رینجرز کے حوالے کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ نائن زیرو پر چھاپے میں گرفتار کیے گئے تین افراد کو جمعرات کو روز تفتیش کے بعد رہا کر دیا گیا، جبکہ جمعے کو مزید 19 افراد کو رہا کر دیا گیا ہے۔ ان تمام افراد کو رینجرز نے بدھ کو ایم کیو ایم تنظیم کے ہیڈکوارٹر پر چھاپے کے دوران حراست میں لیا تھا۔ ادھر ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما فاروق ستار نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی ’فرشتوں کی جماعت‘ نہیں ہے، تاہم قانون ہاتھ میں لینے والوں کی اس میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہماری عزت نفس کا خیال رکھا جائے۔ اب تک جو کچھ ہوا اس میں ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہوا: فاروق ستار بدھ کی صبح چار گھنٹے تک جاری رہنے والے آپریشن میں رینجرز اہلکاروں نے عزیز آباد میں واقع ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹر نائن زیرو اور خورشید بیگم میموریل ہال اور اطراف سے بڑی تعداد میں غیر قانونی اسلحے کی برآمدگی اور سزا یافتہ مجرموں اور ٹارگٹ کلرز کو حراست میں لینے کا دعویٰ کیا تھا۔ حراست میں لیے جانے والوں میں ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان کے علاوہ صحافی ولی خان بابر کے قتل کے جرم میں سزائے موت پانے والا مجرم فیصل موٹا بھی شامل تھا۔ ’فرشتوں کی جماعت نہیں‘ فاروق ستار کے مطابق رینجرز کی جانب سے نائن زیرو کے ’نوگو ایریا‘ ہونے کا جو تاثر دیا گیا ہے وہ غلط ہے ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے جمعرات کی شام کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جرائم کے لیے اور دہشت گردی کے لیے ایم کیو ایم میں کوئی گنجائش نہیں اور ان کی جماعت اپنے قائد الطاف حسین کی ’زیرو ٹالیرنس‘ کی پالیسی پر کاربند ہے۔ فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ’ہم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ایم کیو ایم فرشتوں کی جماعت ہے۔ اگر ہماری صفوں میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے قانون ہاتھ میں لیا تو ہماری جماعت میں ایسے افراد کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ نائن زیرو پر چھاپے کا واقعہ ناقابل فہم اور سمجھ سے بالاتر ہے اور یہ صورت حال جماعت کے لیے قابلِ تشویش ہے لیکن ان کی پریس کانفرنس کا مقصد رینجرز اور ایم کیو ایم کو مدِمقابل کھڑا کرنا یا فریق بنانا نہیں۔ ایم کیو ایم کے رہنما نے کہا کہ رینجرز نے چند مطلوب افراد کو پکڑنے کے لیے جو آپریشن کیا اس کے دوران 110 افراد کو گرفتار کیا ہے اور ان میں سے بیشتر کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما نے کہا کہ ان کی جماعت اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ چھاپے کے دوران اس کا کارکن وقاص علی رینجرز کی فائرنگ سے ہی ہلاک ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس واقعے کے ناقابل تردید ثبوت ہیں جس کی بنا پر قتل کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ رینجرز کی جانب سے نائن زیرو کے ’نوگو ایریا‘ ہونے کا جو تاثر دیا گیا ہے وہ غلط ہے۔ چھاپے کے دوران اسلحے کی برآمدگی پر بات کرتے ہوئے فاروق ستار کا کہنا تھا کہ یہ لائسنس یافتہ اسلحہ تھا جو نائن زیرو کی حفاظت اور دہشت گردوں سے بچاؤ کے لیے رکھا گیا تھا اور ان کی جماعت کو دہشت گردوں کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کے بعد اسلحہ رکھنا ان کا حق ہے۔ 11 مارچ کو متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کے بعد گرفتار کیے جانے والے افراد میں سے اب تک 85 کو عدالت میں پیش کیا گیا ہے جبکہ ان میں سے 22 افراد کو رہا کر دیا گیا ہے۔ text: یہ بات نواز شریف نے بی بی سی اردو سروس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی۔ نواز شریف کے مطابق ان کے اسی سلسے میں گزشتہ دو ہفتے سے لندن میں پارٹی کے سینئیر رہنماؤں سےصلاح مشورے ہوتے رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں کے اختتام ہر سنیچر کو ایک اخباری کانفرنس میں انہوں نے فوج پر سخت تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ ’اب جی ایچ کیو میں بیٹھے پندرہ جنرلوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ صرف وہ اور ان کے سربراہ ملک پر حکمرانی کریں گے یہ پھر پاکستان کے ڈیڑھ کروڑ عوام۔‘ بی بی سی سے بات کرتے انھوں نے کہا کہ ان کی پارٹی کے سینکڑوں لوگ اس لیے لندن آئے ہوئے تھے تاکہ انتخابات کی بھرپور تیاری کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کو ’فری اینڈ فیر الیکشنز تو سوٹ ہی نہیں کرتے‘ اور اسی لیے جنرل مشرف نے ایجنسیوں کو اس کام پر شروع کرا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ملکی ایجنسیاں ہیں لیکن جنرل مشرف نے ان کو ’اپنے ذات کے ارد گھما دیا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایجنسیاں’میدان میں کود پڑی ہیں اور الیکشنز کی بھرپور تیاریاں کر رہی ہیں ۔یہ مختلف امیدواروں کے پاس بھی جارہی ہیں اور الوگوں کو توڑنے اور جوڑنے کا بھی سلسلہ انہوں نے شروع کر دیاہے۔‘ نواز شریف نے کہا کہ ’فوج ملکی اور قومی ادارہ ہے مشرف صاحب کی ذاتی جاگیر تو نہیں۔ فوج کو قومی ادارے کے طور پر کام کرنا چاہیے کسی کے گھر کی باندھی تو نہیں بننا چاہیے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کی جماعت ملک کو ’انشاالہ قانون اور آئین کی حکمرانی واپس دلائیں گے۔‘ سابق وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ جمہوریت کی بحالی میں پاکستانی عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور جلاوطن رہنما میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ انھیں ملک کے فوجی آمر صدر مشرف کی قیادت میں منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کی امید نہیں مگر ان کی جماعت اتخابات میں حصہ لینے کی بھر پور تیاری کررہی ہے۔ text: بولٹ کے علاوہ نویں دن کی خاص بات چار سو میٹر کی دوڑ میں جنوبی افریقہ کے ویڈ وین نیکرک کی ریکارڈ ساز کارکردگی رہی۔ نیکرک نے مقررہ فاصلہ 43.03 سیکنڈ میں طے کر کے نہ صرف اس دوڑ میں طلائی تمغہ جیتا بلکہ امریکہ کے مائیکل جانسن کا 17 سال پرانا عالمی ریکارڈ بھی توڑ دیا۔ ٭ 100 میٹر کی دوڑ: اولمپکس کے سر کا تاج ٭ ریو اولمپکس پر بی بی سی اردو کا خصوصی ضمیمہ نواں دان برطانیہ کے لیے بھی بہترین رہا اور اس کے کھلاڑیوں میں نے مزید پانچ طلائی تمغے جیت کر اپنے ملک کو میڈل ٹیبل میں دوسرے نمبر پر پہنچا دیا۔ یوسین بولٹ نے سو میٹر کی دوڑ کے فائنل میں اپنے روایتی حریف امریکہ کے جسٹن گیٹلن کو سخت مقابلے کے بعد شکست دی۔ بولٹ نے سو میٹر کا فاصلہ 9.81 سیکنڈ میں طے کیا جبکہ دو بار ممنوعہ ادویات استعمال کرنے کے الزام میں پابندی کا سامنا کرنے والے گیٹلن ان سے صرف 0.08 سیکنڈ پیچھے رہے۔ ویڈ وین نیکرک نے 400 میٹر کی دوڑ میں طلائی تمغہ جیتا اور امریکہ کے مائیکل جانسن کا 17 سال پرانا عالمی ریکارڈ بھی توڑا سو میٹر کی دوڑ میں عالمی ریکارڈ یافتہ بولٹ نے فتح کے بعد نے بی بی سی کو بتایا: ’مجھے زیادہ تیز بھاگنے کی توقع تھی، لیکن پھر بھی خوشی ہے کہ میں جیت گیا۔ میں یہاں اپنی کارکردگی دکھانے آیا ہوں اور میں نے وہی کیا جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔‘ اس سے قبل بولٹ 2008 اور 2012 میں سو میٹر، دو سو میٹر اور چار ضرب سو میٹر کی ریس جیت چکے ہیں اور وہ ریو میں بھی انھی تین مقابلوں میں اپنے اعزاز کا دفاع کر رہے ہیں۔ بولٹ نے، جنھیں دنیا کا تیز رفتار ترین انسان کہا جاتا ہے، فروری میں کہا تھا کہ وہ 2017 میں ہونے والی عالمی چیمپیئن شپ کے بعد ریٹائرمنٹ لے لیں گے۔ ادھر برطانیہ کے ٹینس سٹار اینڈی مرے ارجنٹائن کے ہوان مارٹن ڈیل پوٹرو کو ہرا کر ٹینس کے پہلے ایسے کھلاڑی بن گئے جنھوں نے اولمپکس میں مردوں کے سنگلز مقابلوں میں دو طلائی تمغے حاصل کیے ہیں۔ عالمی نمبر دو مرے اس سے قبل لندن 2012 میں بھی طلائی تمغہ جیت چکے ہیں۔ بولٹ نے سو میٹر کا فاصلہ 9.81 سیکنڈ میں طے کیا مرے اور ان کے حریف ڈیل پوٹرو کے درمیان مقابلہ چار سیٹ تک چلا جس کے دوران پلڑا کبھی ایک اور کبھی دوسرے کے حق میں جھکتا رہا۔ ومبلڈن چیمپیئن مرے نے اس میچ کو اپنے کریئر کے ’سخت ترین مقابلوں میں سے ایک‘ قرار دیا۔ مرے کے علاوہ برطانیہ کے کھلاڑیوں نے سائیکلنگ سپرنٹ (جیسن کینی)، جمناسٹکس پومل ہورس (میکس وٹلاک)، جمناسکٹس فلور ایکسرسائز (میکس وٹلاک) اور گولف (جسٹن روز) میں طلائی تمغے حاصل کیے۔ نویں دن کے اختتام پر امریکہ 26 طلائی سمیت 69 تمغوں کے ساتھ میڈل ٹیبل پر سرفہرست ہے۔ برطانیہ اور چین دونوں نے 15، 15 طلائی تمغے جیتے ہیں تاہم چاندی کے تمغوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے برطانیہ دوسرے اور چین تیسرے نمبر پر ہے۔ اینڈی مرے نے اپنے حریف کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر سونے کا تمغہ اپنے نام کیا برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں جاری اولمپکس میں جمیکا کے یوسین بولٹ سو میٹر کی دوڑ میں طلائی تمغہ جیت کر اولمپک مقابلوں میں اس ریس میں تین طلائی تمغے جیتنے والے پہلے کھلاڑی بن گئے ہیں۔ text: تاہم متعدد سینیٹرز نے بظاہر اپنے اثاثے مارکیٹ کی موجودہ قیمت سے کم ظاہر کئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ تفصیلات ارکان کی طرف سے مہیا کردہ گوشواروں پر مبنی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اس ’گزٹ نوٹیفیکیشن‘ یا اعلانیے میں ارکان کی اپنی تحریر میں مہیا کردہ تفصیلات شائع کی ہیںـ اس اعلانیے کے مطابق امیر ترین رکن سرحد سے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے اعظم خان سواتی ہیں جنہوں نے اپنی املاک کا تخمینہ تین ارب چھتیس کروڑ پچہتر لاکھ سے زائد بتایا ہے جبکہ انہوں نے اپنے ذمے واجب الادا قرضہ انتیس لاکھ پچاس ہزار امریکی ڈالر ظاہر کیا ہے۔ ان کا بیشتر کاروبار امریکہ میں ہے جہاں وہ متعدد سٹورز کے مالک ہیں ـ قرضہ بھی امریکی بینک سے حاصل کیا ہوا ہےـ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے لیاقت علی بنگلزئی اور مولوی آغا محمد نے ایک ٹکے کے بھی اثاثے نہ ہونے کا دعوٰی کیا ہے ـ مکان گاڑی، زیورات، نیز نقد رقم کے خانوں میں انہوں نے کچھ نہیں لکھا اور کہا ہے کہ انکے پاس کچھ نہیں ہےـ سرحد سے سینیٹر الیاس احمد بلور نے اپنی جائیداد تو سات کروڑ اکاسی لاکھ سے زائد رقم کی ظاہر کی ہے لیکن اتنی ہی رقم کا اپنے ذمے واجب قرضہ بھی ظاہر کیا ہےـ سابق وفاقی وزیر اطلاعات سید مشاہد حسین نے ایک کروڑ باسٹھ لاکھ سے زائد جبکہ ایک اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات نثار میمن نے تین کروڑ روپے سے زائد کے اثاثوں کے مالک ہونے کا دعوٰی کیا ہےـ سینیٹ کے چیئرمین محمد میاں سومرو نے مجموعی طور پر اسی لاکھ سے زائد کےاثاثے ظاہر کئے ہیں جن میں کلفٹن کراچی کے فلیٹ میں پچاس فیصد حصے کی قیمت محض چھ لاکھ اور لاہور میں بانوے کنال پر محیط ایک فارم کی قیمت اٹھارہ لاکھ بتائی ہےـ شکارپور اور جیکب آباد میں زرعی زمین کی قیمت بارہ لاکھ ظاہر کی ہے جو بظاہر مارکیٹ کی قیمت سے کم ہےـ ڈپٹی چیئرمین خلیل الرحمان نے دو کروڑ گیارہ لاکھ سے زائد کی ملکیت ظاہر کی ہےـ پروفیسر غفور احمد نے تیس لاکھ سے زائد جبکہ وسیم سجاد نے ایک کروڑ گیارہ لاکھ کی املاک ظاہر کی ہیں ـ سینیٹ میں قائد ایوان وسیم سجاد نے جھینکاگلی میں پلاٹ کی قیمت محض تیس ہزار جبکہ کینال روڈ لاہور کے گھر کی قیمت سرے سے ظاہر ہی نہیں کی اور بتایا ہے کہ اس مکان میں انکا حصہ پندرہ فیصد ہے اور وہ ان کو ورثے میں ملا ہےـ انہوں نے عدالتی ملازمین کی لاہور کالونی میں دو کنال کے پلاٹ کی قیمت محض دو لاکھ دس ہزار ظاہر کی ہےـ طاہرہ لطیف نے دو کروڑ پچہتر لاکھ سے زائد جبکہ طارق عظیم خان اور ملت پارٹی کے محمد علی درانی نے اپنی املاک ایک ایک کروڑ سے زائد کی ظاہر کی ہیںـ سابق وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار نے انتیس کروڑ اکہتر لاکھ سے زائد جبکہ موجودہ وزیر خزانہ شوکت عزیز نے چالیس کروڑ سے زائد ملکیت ظاہر کی ہےـ دونوں کے لاکھوں پاؤنڈ اور ڈالر بیرون ملک بنکوں میں پڑے ہیں ـ اسحاق ڈار کے چوبیس لاکھ تینتیس ہزار برطانوی پاؤنڈ اور تین لاکھ پانچ ہزار سے زائد متحدہ عرب امارات کے درہم مختلف بینکوں میں جمع ہیں ـ انیس سو اٹھانوے میں جب اسحاق ڈار وفاقی وزیر تھے تو انہوں نے اپنی بیگم کے نام ڈیفنس لاہور میں اسی لاکھ روپے کا مکان خریدا ـ شوکت عزیز نے برطانیہ میں ایک اپارٹمنٹ کی قیمت ایک کروڑ چوراسی لاکھ بتیس ہزار چھ سو پچاس روپے اور نیویارک کے اپارٹمنٹ کی قیمت ایک کروڑ ایک لاکھ روپے سے زائد ظاہر کی ہےـ لندن کے ایک بنک میں تین لاکھ دس ہزار پاؤنڈ جبکہ سٹی بنک امریکہ میں انتیس لاکھ بارہ ہزار تین سو اڑتالیس ڈالر جمع ہونے کا بھی اقرار کیا ہےـ شوکت عزیز نے ڈیفنس کراچی کے ایک مکان کی قیمت محض پینتیس لاکھ اور ایک پلاٹ کی قیمت پانچ لاکھ بیالیس ہزار روپے ظاہر کی ہےـ جب کہ مارکیٹ کی قیمت انکی ظاہر کردہ قیمت سے کئی گنا زیادہ ہےـ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیمٹینٹ جنرل (ر) جاوید اشرف نے کل ملکیت کا تخمینہ تین کروڑ بہتر لاکھ روپے بتایا ہے شامی روڈ لاہور کے ایک ہزار گز کے پلاٹ کی قیمت انہوں نے پچاس لاکھ جبکہ لاہور کینٹ میں عسکری ولاز کے ایک مکان میں بیوی کے ساتھ پچاس فیصد حصے کی قیمت محض تیس لاکھ ظاہر کی ہےـ نامور وکلاء میں سے سردار لطیف کھوسہ نے پندرہ کروڑ چھتیس لاکھ جبکہ ایس ایم ظفر نے پانچ کروڑ اناسی لاکھ سے زائد اور آصف زرداری کے وکیل فاروق نائیک نے ایک کروڑ اکتیس لاکھ سے زائد اور خالد رانجھا نے چھ کروڑ سے زائد کے اثاثے ظاہر کئے ہیں ـ ڈاکٹر محمد اکبر خان نے آٹھ کروڑ ستر لاکھ کے اثاثے ظاہر کئے ہیں جن میں دو لاکھ ڈالر سے زائد رقم بنکوں میں جمع ہےـ متعدد ارکان نے اپنے اہل خانہ کی املاک ظاہر نہیں کیں ـ سینیٹر انور بھنڈر نے لاہور میں اپنے ایک مکان کی قیمت محض ڈیڑھ لاکھ روپے جبکہ حیدرآباد کے قریب دو سو چھتیس ایکڑ زرعی اراضی کی قیمت ایک لاکھ روپے بتائی ہےـ پاک فضائیہ کے سابق سربراہ کی بیگم رازینہ عالم خان نے دو کروڑ دو لاکھ سے زائد کے اثاتے ظاہر کئے ہیںـ جبکہ سرحد سے آزاد حیثیت میں سینٹ کا انتخاب جیتنے والے سینٹر وقار احمد نے کل ملکیت دو کروڑ پینتیس لاکھ سے زائد اور اپنے ذمے قرضہ جات اٹھاسی لاکھ سے زائد بتائے ہیں ـ انکے والد بھی آزاد حیثیت میں سینٹر منتخب ہوئے اور انہوں نے اپنی جائداد محض دس لاکھ سے زائد اور قرضہ جات انیس کروڑ چھہتر لاکھ سے زائد ظاہر کئے ہیں ـ اسفندیارولی خان نے ایک کروڑ سے زائد اثاثے بتاتے ہوئے ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار سے زائد واجب الادا قرضہ بھی ظاہر کیا ہےـ بینظیر بھٹو کے ترجمان سینٹر فرحت اللہ بابر نے انچاس لاکھ سے زائد مولانا سمیع الحق اکتالیس لاکھ فوزیہ فخر الزمان چار کروڑ چوبیس لاکھ امین دادا بھائی ایک کروڑ نوےلاکھ بابر خان غوری تین کروڑ روپے سے زائد جبکہ میاں رضاربانی پونے دو کروڑسے زائد کے اثاثوں کے مالک ہیں ـ آصف جتوئی سوادو کروڑ روپےـ ڈاکٹر عبداللہ ریاڑ چھبیس کروڑ بائیس لاکھ روپے کی املاک کے مالک ہیں انکے لاکھوں ڈالر بیرون ملک کے بنکوں میں جمع ہیں جبکہ بعض بیرونی بینکوں کے پانچ لاکھ ترپن ہزار ڈالر کا قرضہ واجب الادا ہےـ مولانا شاہ احمد نورانی چھیاسی لاکھ سے زائد جبکہ سینٹر احمد علی آٹھ کروڑ ـ انور بیگ نے ستانوں لاکھ سے زائد کے اثاثے ظاہر کئے ہیں ـ یہ پہلا موقع ہے کہ اثاثوں کی تفصیل اس طرح کتابچے کی صورت میں شائع کی گئی ہے۔ اس سے قبل یہ تفصیل حاصل کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو تحریری درخواست اور فیس جمع کرانی پڑتی تھی اور کمیشن صرف اسی رکن کے اثاثوں کی تفصیل مہیا کرنے کا پابند تھا جس کا نام درخواست میں دیا جائے ـ پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا یا سینیٹ کے ایک سو ارکان کے اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن آف پاکستان نے شائع کر دی ہیں جن کے مطابق بیشتر ارکان ارب پتی اور کروڑ پتی ہیںـ text: جہاز محل کی تجدید کاری مغل بادشاہ جہانگیر نے کروائی تھی اور اس کے معمار کی پزیرائی کی تھی یہ شہر جغرافیائی لحاظ سے ہندوستان کا دل ہے جس کی دھڑکن کبھی ہزاروں کا دل موہ لیا کرتی تھی لیکن اب وہاں ویرانی میں ایستادہ عمارتیں اس کی ماضی کی شان و شوکت کی خاموش گواہ ہیں۔ سلاطین دہلی نے پندروھویں صدی کے آغاز میں دلاور خاں غوری کو مالوہ کا گورنر مقرر کیا تھا لیکن دلاور خان نے جلد ہی اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا اور مانڈو کو اپنا دارالحکومت قرار دے کر اسے 'شادی آباد' کا نام دیا۔ ٭ مالیرکوٹلہ کی کہانی ٭ شہر والیاں اور ان کے پکوان معمار اور فنکار دہلی سے بلوائے گئے اور مانڈو کی چھوٹی سی ریاست خوبصورت عمارتوں سے سجنے لگی۔ وہاں کی ابتدائی دور کی عمارتوں میں تغلق اور خلجی فن تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے۔ خلجی حمکرانوں نے مانڈو کو ایک مستحکم ریاست کی شکل دی اور ایک خوشگوار اور پرسکون ماحول دیا۔ غیاث الدین خلجی نے مانڈو کو عیش و عشرت کا گہوراہ بنا دیا جہاں رقص و سرود کی محفلیں، شاہی ضیافتوں کا دور دورہ، دلفریب حسیناؤں کی انجمن سجتی رہتی تھی۔ مالوہ کا علاقہ اب بھی اپنے مخصوص طرز اور رقص کے لیے معروف ہے غیاث الدین کے دور حکومت میں نعمت نامہ جیسی کتاب لکھی گئی جو نہ صرف طرح طرح کے کھانوں پر مشتمل تھی بلکہ صحت مندی کے کئی راز اس کے اوراق میں پنہا تھے۔ غیاث الدین بذات خود شاہی باورچی خانے میں تیار ہونے والے پکوانوں پر نظر رکھتے تھے۔ نعمت نامہ اس دور کی پہلی کتاب ہے جس میں کھانا پکانے کی تصاویر شامل ہیں۔ حرم کی بے شمار حسیناؤں کی دلبستگی کےلیے جہاز نما شاندار محل تعمیر کروایا جو آج بھی تاریخ میں اپنی مثال آپ اور سیاحوں کی دلچسپی کا باعث ہے۔ انھوں نے حرم میں مدرسے کی بنیاد رکھی اور تعلیمی معیار کو بلند کرنےکی کوشش کی۔ غیاث الدین کے حرم کی حسینائیں زندگي کے ہر شعبے میں مہارت رکھتی تھیں۔ 16 ویں صدی کے نصف آخر میں مانڈو کو مغلوں کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ یہاں کا خوبصورت نظارہ، چنچل ہوائيں، لہروں کے گیت، پرندوں کی چہچہاہٹ نے مغل حکمرانوں کو مانڈو کا گرویدہ بنا دیا۔ اکبر نے اس کوہستانی ریاست کا چار بار دورہ کیا۔ ہمایوں نے خانہ جنگیوں سے دور مانڈو کے خوشگوار ماحول میں مختصر قیام کیا۔ جہانگیر خود عیش پسند بادشاہ کہلاتا ہے وہ اپنی ملکہ نورجہاں کے ساتھ اکثر مانڈو میں اچھا وقت گزارتے تھے اور اس کا تذکرہ ان کی خودنوشت جہانگیر نامہ میں موجود ہے۔ مانڈو کی جامع مسجد بتاتی ہے کہ اپنے زمانے میں یہ کس شاہانہ شان سے کھڑی رہی ہوگی سنہ 1617 میں جب جہانگیر نے پہلی مرتبہ مانڈو کا قصد کیا تو عبدالکرمی معمار کے سپرد مانڈو کی عمارتوں کی ترمیم کی گئی تاکہ بادشاہ اور ملکہ کی آمد سے قبل جہازمحل شاہی مہمانوں کے لیے تیار ہو جائے۔ عبدالکریم نے جہاز محل کی تجدید کاری میں پانچ لاکھ روپے خرچ کیے اور محل کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیے۔ بادشاہ نے خوش ہو کر انھیں معمور خان کا خطاب دیا۔ مانڈو نہ صرف خوبصورت مناظر اور عمارتوں کا شہر ہے بلکہ عشق و محبت کا ہمراز بھی ہے۔ اس کی مٹی میں باز بہادر اور رانی روپ متی کے عشق کی داستان نہفتہ ہے۔ باز بہادر مانڈو کا آخری حکمراں تھا جبکہ روپ متی ایک چرواہن تھی اور مانڈو کی آزاد فضامیں بکریاں چرایا کرتی تھی۔ خدا نے روپ متی کو بلا کا حسن اور سریلی آواز دی تھی۔ غیاث الند نے سر راہ روپ متی کی ایک جھلک دیکھی اور دیوانہ وار فدا ہو گئے۔ عشق کے دیوتا نے انھیں ایسا گھائل کیا کہ انھوں نے روپ متی کو اپنی ملکہ بنا لیا۔ زندگی روپ متی کے ساتھ اور حسین ہو گئی۔ لیکن ادھم خان کے حملے نے غیاث الدین کی زندگی کو بکھیر دیا۔ باز بہادر کو ادھم خان کے ہاتھوں شکست ہوئی اور وہ فرار ہو گیا اور رانی روپ متی نے اپنے ناموس کی حفاظت اور باز بہادر کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے آپ کو موت کے حوالے کر دیا۔ ٭ سلمیٰ حسین کھانا پکانے کی شوقین، ماہر طباخ اورکھانوں کی تاریخ نویس ہیں۔ ان کی فارسی زباندانی نے عہد وسطی کے مغل کھانوں کی تاریخ کے اسرار و رموز ان پر کھولے۔ انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں اور بڑے ہوٹلوں کے ساتھ فوڈ کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ سلمیٰ حسین ہمارے لیے مضامین کی ایک سیریز لکھ رہی ہیں۔ وسطی ہند میں وندھیاچل کے پہاڑی سلسلے میں چھپا مالوہ ریاست کا شہر مانڈو اگر ایک طرف تاریخی اہمیت رکھتا ہے تو دوسری طرف دریائے نربدا کی لہروں میں پنہاں عشق و محبت کی داستان دہراتا ہے۔ text: تاريخ داں جادوناتھ سرکار نے اگر انھیں اپنی نظر سے دیکھا تو جواہر لعل نہرو نے اپنی نظر سے یا پھر شاہد نعیم نے اپنی نظر سے اور سب نے ان کے مذہبی پہلو پر ضرورت سے زیادہ زور دیا۔ ’اورنگزیب دی مین اینڈ دی متھ‘ نامی کتاب کی مصنفہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر رواداری کے موجودہ معیار کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ماضی کے تمام بادشاہ اور حکمران غیر روادار رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اورنگزیب کے بارے میں غلط فہمیاں زیادہ ہیں اور ان کو ہوا دے کر موجودہ دور میں مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ مصنفہ کے مطابق انڈیا میں اس وقت عدم رواداری عروج پر ہے اور حیدرآباد (دکن) میں ان کے لیکچر کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی پڑھیے کیا اورنگزیب واقعی ہندوؤں سے نفرت کرتے تھے؟ 'آج انڈیا میں ہر سال 500 فسادات ہوتے ہیں' ’تاج محل مغل لٹیروں کی نشانی ہے‘ آڈری بتاتی ہیں کہ اس کے برعکس اورنگزیب بادشاہ کے عہد کے برہمن اور جین مصنفین اورنگزیب کی تعریف کرتے ہیں اور انھوں نے جب فارسی زبان میں ہندوؤں کی مقدس کتاب رامائن اور مہابھارت کو پیش کیا تو اس کا انتساب اورنگزیب کے نام کیا۔ آڈری نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اورنگزیب نے اگر ہولی پر سختی دکھائی تو انھوں نے محرم اور عید پر بھی سختی کا مظاہرہ کیا۔ اگر انھوں نے ایک دو مندر توڑے تو کئی مندروں کو عطیہ بھی دیا۔ مختلف تاريخ دانوں نے اورنگزیب کو اپنی عینک سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ مصنفہ کے مطابق اورنگزیب نے خود کو ایک اچھے مسلمان کی طرح پیش کیا یا پھر ان کی ہمیشہ ایک اچھا مسلمان بننے کی کوشش رہی لیکن ان کا اسلام آج کا سخت گیر اسلام نہیں تھا۔ وہ بہت حد تک صوفی تھے اور کسی حد تک توہم پرست بھی تھے۔ بی بی سی نے ان سے دریافت کیا کہ ان کی توہم پرستی کی کوئی مثال پیش کر سکتی ہیں تو انھوں نے بتایا کہ تمام مغل بادشاہ کے یہاں علم نجوم کے ماہرین ہوا کرتے تھے اور اورنگزیب کے دربار میں بھی ہندو مسلم دونوں قسم کے نجومی تھے اور وہ ان سے مشورے کیا کرتے تھے۔ انھوں نے اورنگزیب کے ایک سپاہی بھیم سین سکسینا کے حوالے سے بتایا کہ جنوبی ہند میں ایک بار جہاں وہ سکونت پزیر تھے وہاں سیلاب آ گیا اور یہ خدشہ زور پکڑنے لگا کہ سیلاب کی وجہ سے شاہی قیام کو نقصان ہو سکتا ہے تو انھوں نے قرآن سے آیتیں لکھ کر سیلاب کے پانی میں ڈلوائیں جس کے بعد سیلاب کا پانی کم ہونے لگا۔ خیال رہے کہ اسی طرح کا ایک واقعہ اسلام کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر سے منسوب ہے جس کا ذکر جا بجا ملتا ہے کہ کس طرح انھوں نے مصر کی دریائے نیل کے نام خط لکھا تھا۔ روایت میں آتا ہے کہ مصر کا خطہ جب اسلام کے زیر نگيں آیا تو وہاں اس وقت کے گورنر عمرو بن العاص کو پتہ چلا کہ وہاں ایک خوبصورت دوشیزہ کو سجا سنوار کر ہر سال دریائے نیل کے نام پر قربان کیا جاتا ہے تاکہ دریا روانی سے بہتا رہے اور وہاں کے لوگ اس کے فیض سے بہرہ مند ہوتے رہیں۔ لیکن اسلامی حکومت نے اس پر پابندی لگا دی اور پھر دریا کا پانی واقعتا خشک ہو گیا اور لوگوں نے سمجھا کہ ان پر دریا کا غضب نازل ہوا ہے۔ یہ خبر جب حضرت عمر فاروق کو دی گئی تو انھوں نے نیل کے نام خط لکھا جس میں مذکور تھا کہ 'اے دریا اگر تو اپنے اختیار سے جاری ہے تو بے شک جاری نہ ہو لیکن اگر تو اللہ کے حکم سے جاری ہے تو پھر سے جاری ہو جا' اور کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد دریائے نیل ایسا جاری ہوا کہ پھر کبھی خشک نہ ہوا۔ یہ بھی پڑھیے کتنا رنگیلا تھا محمد شاہ رنگیلا؟ ’تاج محل مغل لٹیروں کی نشانی ہے‘ ایک ہیرا، چھ افسانے آڈری ٹرسکی نے اس واقعے پر کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اورنگزیب نے ان کی پیروی میں ہی ایسی بات کی ہو جسے لوگ ان کا اعجاز سمجھتے ہوں۔ انھوں نے کہا کہ ایک جدید تاریخ داں کی حیثیت سے انھیں اس پر یقین نہیں ہے لیکن اورنگزیب کو اس پر یقین تھا اور انھوں نے لوگوں کے سامنے اس پر عمل کیا اور یہ دکھانے کی کوشش کی کہ یہ طلسم بھی ہو سکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اورنگزیب ہندو اور مسلم دونوں قسم کے نجومی سے صلاح مشورہ کرتے تھے اور کبھی ان کے مشورے پر عمل بھی کرتے اور کبھی انھیں مسترد بھی کر دیتے تھے۔ اڈری ٹرشکی نے دوسرے مغل بادشاہوں کے مقابلے اورنگزیب کے امتیاز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ سارے مغل بادشاہوں سے میں سب سے زیادہ پاکباز تھے، وہ حافظ قرآن تھے اور نماز اور عبادات کے سب سے زیادہ پابندی کرنے والے تھے۔ اورنگزیب پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ان کی فنون لطیفہ اور بطور خاص موسیقی سے نفرت تھی اور اس بارے میں موسیقی کے جنازے والا قصہ مشہور ہے۔ لیکن ایک دوسری مؤرخ کیتھرین براؤن نے 'ڈڈ اورنگزیب بین میوزک' یعنی کیا اورنگزیب نے موسیقی پر پابندی لگا دی تھی کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھا کہ اورنگزیب اپنی خالہ سے ملنے برہانپور گئے تھے جہاں ہیرا بائی زین آبادی کو دیکھ کر وہ انھیں اپنا دل دے بیٹھے۔ ہیرا بائی ایک رقاصہ اور گلوکارہ تھیں۔ آڈری بھی بتاتی ہیں کہ اورنگزیب کو جتنا سخت گیر پیش کیا جاتا ہے وہ ویسے نہیں تھے۔ ان کی کئی ہندو بیگمات تھیں اور مغلوں کی ہندو بیگمات ہوا کرتی تھیں۔ اپنے آخری دنوں میں اورنگزیب اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کام بخش کی والدہ اودے پوری کے ساتھ رہتے تھے جو ایک گلوکارہ تھیں۔ انھوں نے بستر مرگ سے کام بخش کو ایک خط لکھا جس میں ذکر کیا کہ ان کی والدہ اودے پوری بیماری کی حالت میں ان کے ساتھ ہیں اور موت تک ان کے ساتھ رہیں گی اورنگزیب کی موت کے چند مہینے بعد 1707 کے موسم گرما میں اودے پوری بھی انتقال کر گئیں۔ (نوٹ: یہ خبر پہلے بھی بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر شائع کی جا چکی ہے۔) امریکی تاریخ دا ن آڈری ٹرشکی کہتی ہیں کہ تمام مغل بادشاہوں میں بطور خاص اورنگزیب عالمگیر میں ان کی دلچسپی کی وجہ ان کے بارے میں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی غلط فہمیاں ہیں۔ text: بنجمن زیفانیہ نے کہا ہے کہ ملکہ برطانیہ کی طرف سے پیش کئے جانے والے اعزاز کے نام سے سفیدفام لوگوں کی برتری کا تاثر ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر انہیں عراق میں جنگ کے مخالفین کی طرف سے کوئی اعزاز دیا گیا تو وہ اسے وصول کرنے پر غور کریں گے۔ لیکن انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی وضح کیا کہ وہ شاعری اعزاز حاصل کرنے کے لئے نہیں کرتے۔ برطانوی فٹ بال ٹیم کے کپتان ڈیوڈ بیکم ان سرکردہ شخصیات میں شامل تھے جنہوں نے جمعرات کے روز بکنگھم پیلس میں ملکہ برطانیہ سے ایوارڈ وصول کیا۔ لیکن بنجمن زیفانیہ نے بی بی سی ریڈیو فور کے ٹوڈے پرواگرام کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ زندگی بھر برطانوی سامراج کے باقیات کے خلاف جدوجہد میں سرگرم عمل رہے ہیں اور جس نے بھی ان کو او بی ای کا اعزاز دینے میں سوچا ہے اس نے میری شاعری نہیں پڑھی ہو گی۔ ’یہ جزوی طور پر موجودہ حکومت کے خلاف احتجاج ہے لیکن ایمانداری کی بات یہ ہے کہ اگر عراق میں جنگ نہ بھی ہو رہی ہوتی تو وہ ملکہ برطانیہ سے یہ اعزاز نہ قبول کرتے۔‘ ’اس اعزاز کی میرے لئے کوئی اہمیت نہیں ہے۔ میں نظمیں ایوارڈز یا او بی ایز حاصل کرنے کے لئے نہیں لکھتا۔ میں لوگوں کے لئے لکھتا ہوں۔‘ انہوں نے کہا کہ ان کے اعزاز وصول کرنے سے انکار پر نظام میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ جانوروں سے بے رحمی اور نسلی امتیاز کے خلاف اپنی جدوجہد پر ایوارڈ حاصل کرنے کو ترجیح دیں گے۔ بنجمن زیفانیہ نے اپنی نظم Bought and Sold لکھا ہے کہ جو ادیب او بی ای یا درباری شاعر بننا قبول کرتے ہیں وہ اپنے اصولوں پر سمجھوتا کرتے ہیں۔ بنجمن زیفانیہ سے پہلے فلم ڈائریکٹر کین لوچ یہ اعزاز وصول کرنے سے انکار کر چکے ہیں لیکن انہیں نے یہ کام بڑے خفیہ طریقے سے کیا تھا۔ بیٹلز گروپ کے رکن جان لینن شاید سب سے مشہور شخصیت ہیں جنہوں نے سیاسی وجوہات کی بنا پر اعزاز کو واپس کیا تھا۔ انہوں نے سن انیس سو پینسٹھ میں چار سال تک ممبر آف برٹش ایمپائر کا اعزاز اپنے پاس رکھنے کے بعد واپس کر دیا تھا۔ سیاہ فام شاعر بنجمن زیفانیہ نے برطانوی حکومت کی جانب سے آرڈر آف برٹش ایمپائر کا اعزاز لینے سے یہ کہہ کر معذوری ظاہر کی ہے کہ یہ اعزاز نوآبادیاتی ظلم وجبر اور غلامی کی علامت ہے۔ text: دونوں رہنماؤں کے درمیان جمعرات کی صبح ہونے والی یہ ملاقات بدھ کی رات کوہونی تھی لیکن پہلے سے طے شدہ یہ ملاقات التواء کا شکار ہوگئی تھی۔ امریکی صدر اور عراقی وزیرِ اعظم دونوں اردن میں ہیں اور انہوں نے عراق کے مسئلے پر اردن کے شاہ عبداللہ کے ساتھ بھی تبادلۂ خیال کیا ہے۔ صدر بش اور نوری المالکی کے درمیان بدھ کی ملاقات کے ملتوی ہونے سے قبل یہ خبریں آئیں تھیں کہ عراق میں مقتدیٰ الصدر کے حامی سیاسی گروپ نے اس میٹنگ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے اشتراک معطل کر دیا ہے۔ اسی دوران ایک امریکی میمو (دستاویز) اخبارات کے ہاتھ لگ گیا ہے جس میں نوری المالکی کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا گیا ہے۔ امریکی حکام کےمطابق بدھ کو ہونے والی ملاقات میں تبدیلی کی وجہ یہ تھی کہ نوری المالکی پہلے ہی شاہ عبداللہ سے مل چکے تھے۔ امریکی حکام نے کہا ہے کہ صدر بش سے ملنے سے قبل عراقی وزیرِ اعظم کی شاہ عبداللہ سے ملاقات نہ صدر بش کے خلاف غصے کا اظہار ہے اور نہ ہی اخبارات میں شائع ہونے والے امریکی میمو کے خلاف احتجاج۔ نامہ نگاروں نے بتایا ہے کہ مقتدیٰ الصدر کے وفادار رہنماؤں نے عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کو حکومت سے شرکت ختم کرنے کی دھمکی چار روز پہلے دی تھی۔ بدھ کو امریکی صدر اور عراقی وزیرِ اعظم کے درمیان متوقع ملاقات کی خبروں کے تناظر میں کابینہ کے پانچ وزراء اور پارلیمان کے تیس ارکان نے عراقی حکومت سے اپنی شرکت ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ مقتدیٰ الصدر کے ایک وفادار رکنِ پارلیمان نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیر اعظم نوری المالکی عراقی پارلیمان سے اجازت لیے بغیر اردن پہنچے ہیں اور یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ ایک اور رکن پارلیمان صالح الاوکیلی نے حکومت سے اپنی شرکت ختم کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا: ’یہ ملاقات عراق کی خود مختاری کے خلاف ہے کیونکہ مجرم جارج بش عراق کی نمائندگی نہیں کرتا حالانکہ اس کی فوج عراق پر قابض ہے۔‘ صالح الاوکیلی نے کہا: ’وزیر اعظم المالکی کو جارج بش سے ملاقات کرنے کی بجائے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کرنا چاہیے تھا کہ عراق سے اِن فوجوں کو نکالا جائے نہ کہ انہیں روکنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے ہمیں یہ موقف اختیار کرنا پڑا۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی جماعت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اس فیصلے کے خلاف قانونی کارووائی کرے گی جس کے تحت عراق میں اتحادی افواج کو دو ہزار سات تک رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔ بغداد میں بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ مقتدیٰ الصدر کے حامیوں کے حکومت میں شرکت ختم کرنے کے فیصلے سے نوری المالکی کی حکومت کو کافی دھچکا لگےگا۔ مبصرین کے مطابق جمعرات کو صدر بش اور نوری المالکی کے درمیان متوقع ملاقات میں عراق میں سکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے پر بات چیت ہونے کا امکان ہے۔ بی بی سی کے مشرق وسطیٰ کے امور کے تجزیہ نگار راجر ہارڈی کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کو کامیاب قرار دینے کے لیے، امریکی صدر اور عراقی وزیر اعظم کو ایک دوسرے کو، اور باقی دنیا کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ ان کے پاس عراق کے سکیورٹی مسائل بہتر کرنے کا حل موجود ہے۔ امریکی صدر جارج بش عراقی وزیرِ اعظم نوری المالکی سے اردن میں ملاقات کر رہے ہیں جس میں عراق میں بڑھتے ہوئے تشدد کو کنٹرول کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ text: سعودی عرب کے شرعی نظام میں ریپ، قتل، مسلح ڈکیتی اور منشیات کی سمگلنگ کا جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا دی جاتی ہے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سعودی وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ اتوار کو پاکستانی شہری افتخار محمد ولد محمد عنایت کو ہیروئن کی سمگلنگ کے جرم میں موت کی سزا دی گئی۔ وزارتِ داخلہ کے مطابق افتخار محمد نے پیٹ میں ہیروئن چھپا کر سعودی عرب سمگل کرنے کی کوشش کی تھی اور ساحلی شہر جدہ میں ان کا سر قلم کیا گیا۔ سعودی وزارتِ داخلہ کے مطابق حکومت منشیات کی روک تھام کے لیے کوششیں کر رہی ہے کیونکہ یہ معاشرے کے لیے اور انفرادی طور پر سخت نقصان دہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک ماہر اور ایمنیسٹی انٹرنیشنل سعودی عرب میں پھانسی کی سزا پر پابندی کا مطالبہ کر چکی ہے۔ ایمنیسٹی کے مطابق سعودی عرب کا شمار دنیا کے تین ممالک میں ہوتا ہے جہاں بڑے پیمانے پر مجرموں کو سزائے موت دی جاتی ہیں۔ رواں سال جنوری میں ماورائے عدالت ہلاکتوں کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر کرسٹوف ہینز نے سعودی عرب میں مقدموں کی سماعت کو انتہائی غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بعض اوقات تو ملزموں کو اپنے دفاع کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ملزمان سے تشدد کے ذریعے اعتراف جرم کرایا جاتا ہے۔ رواں ماہ فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے سعودی عرب کے دورے کے موقعے پر سزائے موت پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔ سعودی عرب کے شرعی نظام میں ریپ، قتل، مسلح ڈکیتی اور منشیات کی سمگلنگ کا جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ سعودی عرب میں وزارتِ داخلہ کے مطابق ایک اور پاکستانی شہری کا ہیروئن کی سمگلنگ کے جرم میں سر قلم کر دیا ہے جبکہ سعودی عرب میں رواں سال اب تک 84 مجرموں کو موت کی سزا دی جا چکی ہے۔ text: ٹیسٹ کے نتائج کے مطابق سعید اجمل کے بولنگ ایکشن ٹیسٹ میں مزید بہتری آئی ہے اور ان کی آف سپن ڈلیوری 15 ڈگری کے قانون میں آ گئی ہے پی سی بی نے ایک بار پھر ذاتی طور پر سعید اجمل کے بولنگ ایکشن کا ٹیسٹ کروایا ہے اور ان کی آف سپن ڈلیوری 15 ڈگری کے اندر آ گئی ہے۔ کرکٹ کی مقبول ویب سائٹ کرک انفو کے مطابق انگلینڈ میں کیےگئے ٹیسٹ کے نتائج کے مطابق سعید اجمل کے بولنگ ایکشن ٹیسٹ میں مزید بہتری آئی ہے اور ان کی آف سپن ڈلیوری 15 ڈگری کی حد میں آ گئی ہے تاہم ’دوسرا‘ گیند کراتے وقت اجمل کا بازو اب بھی 15 ڈگری سے زیادہ خم کھا رہا ہے۔ قومی کرکٹ اکیڈمی کے ہیڈ کوچ محمد اکرم نے کرک انفو سے اس بات کی تصدیق کردی ہے۔ محمد اکرم نے بتایا کہ اجمل کی آف سپن اور تیز گیند 15 ڈگری کے اندر آ گئی ہے تاہم ان کی ’دوسرا‘ میں اب بھی مسائل ہیں اور یہ گیند کراتے وقت ان کا بازو 15 ڈگری سے زیادہ خم کھا رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اجمل کا ایک بار پھر غیر آفیشل ٹیسٹ کیا جائے گا اور اگر وہ یہ دونوں گیندیں دوبارہ کامیابی سے کرنے میں کامیاب رہتے ہیں تو ان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں واپسی ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں ایکشن میں روانی لانے کے بعد سعید اجمل کو باقاعدہ طور پر آئی سی سی کے ٹیسٹ کے لیے بھیجا جائے گا۔ محمد اکرم نے کرک انفو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اجمل نے اپنے بازو کا خم کم کرنے کے لیے بہت محنت کی اور پیر کو بائیو مکینک لیب میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ وہ 15 ڈگری کے اندر گیند کرنے لگے ہیں۔ سابق فاسٹ بولر نے کہا کہ اجمل اپنی روایتی آف سپن اور تیز گیند مکمل کنٹرول کے ساتھ 15 ڈگری کے اندر کر رہے ہیں۔ پاکستانی بولر سعید اجمل کے ایکشن میں مسلسل بہتری آ رہی ہے اور وہ اپنی آف سپن گیند کو 15 ڈگری زاویے کے اندر لے کر آ گئے ہیں تاہم ان کی خطرناک بال’دوسرا‘ ابھی بھی مقررہ حد سے متجاوز ہے۔ text: چالیس سال کے بعد کھوکھرا پار سے پاکستان کی حدود میں داخل ہونے والا یہ پہلا بھارتی وفد ہے۔ سابق بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ کی قیادت میں بھارتی وفد بذریعہ سڑک پاکستان پہنچا۔ ایل کے اڈوانی کے بعد جسونت سنگھ بھارتی اپوزیشن کے دوسرے لیڈر ہیں جو سندھ کا دورہ کر رہے ہیں۔ وفد اسی افراد پر مشتمل ہے۔ جو دس جیپوں میں سوار ہیں اور ہر جیپ میں آٹھ لوگ سوار ہیں۔ یہ وفد اسی راستے سے آ رہا ہے جس راستے سے ریل گزرتی تھی۔ بھارتی قافلہ زیرو پوائنٹ سے کھوکھراپار براستہ چھور و عمرکوٹ، میرپورخاص پہنچا ۔ جہاں اس کے اعزازمیں ایک استقبالیہ دیا گیا۔ ان کی اگلی منزل کراچی ہے۔ وفد کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں اور اس کو میڈیا سے دور رکھا گیا ہے۔ کسی بھی شہر میں وفد کی میڈیا سے ملاقات نہیں کرائی گئی جبکہ میرپورخاص میں دیئے گئے استقبالیے سے بھی میڈیا کو باہر رکھا گیا ہے۔ پروگرام کے مطابق بی جے پی کے رہنما جسونت سنگھ منگل کے روز قائد اعظم کے مزار پر حاضری دینگے ۔ حالیہ دورے کے دوران وفد ہنگلاج بھی جائیں گے جہاں ہندو مذہب کے قدیم مندروں اور مقامات کی یاترا کریں گے۔ جبکہ موہن جوداڑو کے آثار بھی دیکھیں گے۔ اس کے علاوہ سندھ کے گورنر، وزیر اعلیٰ کے عشائیوں میں بھی شرکت کرینگے۔ ادھر پاکستان اور بھارت میں کھوکھراپار، منا باؤ ریلوے روٹ کھولنے کے لیے اسلام آباد میں مذاکرات جاری ہیں۔ جہاں ایک معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے جس کے بعد توقع کی جاری ہے کہ فروری کے دوسرے ہفتے میں یہ ریلوے روٹ کھل جائےگا۔ تھر ایکسپریس کے طے شدہ روٹ کے مطابق ٹرین کراچی، حیدرآباد اور میرپورخاص سے ہوتی ہوئی کھوکھراپار جائے گی جہاں سے زیرو پوائنٹ سے بھارتی حدود میں داخل ہوگی۔ بھارتی راجیہ سبھا میں حزب محالف کے رہنما جسونت سنگھ کی قیادت میں ایک وفد پیر کی صبح کو مناباؤ سے پاکستان پہنچ گیا ہے ۔ text: فوج کو میر علی میں کارروائی سے پہلے کم از کم علاقے سے خواتین اور بچوں کو نکال لینا چاہیے تھا: عمران خان گذشتہ چند روز کے دوران شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں اور پاکستان فوج کے درمیان شدید لڑائی جاری رہی اور فوج نے 33 شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا ہے۔ نہ امریکہ مخالف ہوں اور نہ ہی بھارت مخالف: عمران خان ’عمران کو دھکمیوں کے بعد سکیورٹی بڑھانے کا مطالبہ‘ اس کے علاوہ پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے سنیچر کے روز کہا کہ دہشت گردوں کے حملے ہرگزبرداشت نہیں کیے جائیں گے اور ان کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ پاکستانی افواج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کی جائے گی۔ تاہم جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ فوج امن کے لیے مذاکرات کے عمل میں حکومت کی مکمل حمایت کرے گی۔ عمران خان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوج کے خلاف کارروائی کی مذمت کرتے ہیں تاہم اگر فوج جوابی کارروائی کرنے والی تھی تو انہیں میر علی پر بمباری کرنے سے پہلے کم از کم علاقے سے خواتین اور بچوں کو نکال لینا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہی خواتین اور بچے ڈرون حملوں کا بے گناہ نشانہ بن رہے ہیں اور ایسی جنگ جس کے لیے یہ بے گناہ لوگ ذمہ دار نہیں، اب فوجی کارروائی بھی ان لوگوں پر مظالم کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم فاٹا کے عورتوں اور بچوں کو اس لاپرواہی سے نہیں دیکھا کر سکتے جس لاپرواہی سے ان کی اپنی ریاست انہیں دیکھتی ہے۔ عمران خان نے یاد دلوایا کہ قبائلی علاقے براہِ راست صدرِ پاکستان کے زیر انتظام ہیں اور انہیں اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ صدرِ پاکستان کرفیو اور فوجی کارروائیوں کے باوجود کیوں خاموش ہیں۔ عمران خان کا مطالبہ تھا کہ صدرِ پاکستان فوری طور پر فاٹا کے لوگوں کی مشکلات حل کریں اور اس سلسلے میں فوری طور پر اشیائے خورد و نوش، طبی امدادی سامان اور فوجی کارروائی سے حفاظت مہیا کی جائے۔ عمران خان نے کہا کہ حکومت کو نہ صرف ممکنہ فوجی آپریشن کا کنٹرول اور ذمہ داری لینا چاہیے بلکہ اسے تمام سیاسی جماعتوں کو بھی مطلع کرنا چاہیے کہ انہوں نے اے پی سی میں کیے گئے مذاکرات کے فیصلے کو بھی ترک کر دیا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ اگر حکومت شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنا چاہتی ہے تو انہیں قوم کو بتانا چاہیے۔ text: ایران نے میزائلوں کی تجربات پہلے بھی کیے ہیں لیکن تازہ ترین تجربہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب ایرانی جوہری پروگرام کے تنازع پر تہران کی واشنگٹن اور تل ابیب کے ساتھ کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ امریکی نائب وزیرِ خارجہ ولیئم برنز نے ایران کے اس تجربے کو ’اشتعال انگیز‘ قرار دیا ہے۔ کانگریس کے ایک اجلاس کے دوران انہوں نے کہا ’طاقت کا استعمال ایک راستہ ہے لیکن یہ (تجویز) ابھی میز پر ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ابھی تمام سفارتی امکانات کو پوری طرح آزمایا نہیں گیا۔ ولیئم برن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایران کے خلاف اقوامِ متحدہ کی پابندیاں مطلوبہ اثر پیدا کر رہی ہیں اور تہران کا جوہری پروگرام رک رہا ہے اگرچہ ایران یہ تاثر دے رہا ہے کہ اس کا پروگرام آگے بڑھ رہا ہے لیکن حقیقت میں اس کی رفتار بہت ہی کم ہے۔ ادھر اسرائیلی پارلیمان میں ہاؤسنگ کے وزیر زیئف بوئم نے کہا ہے کہ اسرائیل ایران کے میزائل تجربے پر بات چیت نہیں کرے گا لیکن اسے اپنے آپ کو تیار رکھنا چاہیے۔ ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق طویل فاصلے تک مار کرنے والے شہاب تین کی رینج دو ہزار کلو میٹر ہے اور یہ ان نو میزائیلوں میں سے ایک ہے جسے کسی نامعلوم مقام سے فائر کیا گیا۔ اس سے قبل وائٹ ہاؤس کے ترجمان گورڈن جانڈرو نے کہا ہے کہ اگر ایران دنیا کا اعتماد حاصل کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے مزید میزائل ٹیسٹوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ منگل کے روز امریکی حکومت نے ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق کچھ اداروں اور افراد پر نئی اقتصادی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا۔ امریکی محکمہ خزانہ نے کہا ہے کہ اِن پابندیوں کا اِطلاق اُن اداروں اور افراد پر ہوگا جن کے بارے میں محکمے کو یہ شک ہوگا کہ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو فروغ دینے میں شریک ہیں۔ ممنوعہ فہرست میں کئی ایرانی کمپنیوں کے ساتھ ایک ایرانی جوہری سائنسداں محسن فخریزادے مہابادی بھی شامل ہیں۔ نئی پابندیوں کے اعلان کے بعد امریکی تجارتی اداروں پر ایرانی کپمنیوں اور مذکورہ سائینسداں سے نہ صرف کاروبار کی ممانعت ہوگی بلکہ امریکہ میں موجود ان کے تمام اثاثے بھی منجمد کردیے جائیں گے۔ امریکی پابندیاں دراصل ایران کو یورینیم کی افزودگی سے باز رکھنے کے لیے ہیں۔ ایران اس کو اپنا حق قراردیتا ہے۔ جاپان میں جاری آٹھ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملکوں کے گروپ جی ایٹ کے اجلاس میں بھی ایران سے یورینیم کی افزودگی فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔ امریکہ کی جانب سے اِن پابندیوں کا اعلان ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے ایک مشیر کی جانب سے اُس بیان کے بعد کیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر ایران پر حملہ کیا گیا تو جواباً اسرائیل کے شہر تل ابیب اور خلیج میں موجود امریکی بحری بیڑے کو نشانہ بنایا جائے گا۔ اسرائیل اور امریکہ نےطویل فاصلے پر مار کرنے والے میزائل ’شہاب سوئم‘ کا تجربہ کرنے پر ایران کی مذمت کی ہے۔ یہ میزائل اسرائیل میں اندر تک مار کر سکتا ہے۔ text: ان حکام نے برسلز میں نیٹو کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے پہلے کونڈولیزا رائس سے ملاقات بھی کی۔ رائس نے زور دے کر کہا کہ امریکی اہلکاروں کو اپنے ملک کے اندر یا باہر تفتیش کے دوران تشدد کی اجازت نہیں ہے۔ نیٹو اور یورپی یونین کے حکام نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ نے ایک بند کمرے کے اجلاس میں انہیں اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ امریکہ کا بین الاقوامی قوانین کی تشریح کے بارے میں اپنے اتحادیوں سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جرمنی کے وزیر خارجہ فرینک والٹر سٹائنمر نے اس ملاقات کہا کہ ’یہ ملاقات ہم سب کے لیے اطمینان بخش تھی‘۔ کونڈولیزا رائس کو اپنے یورپ کے دورے کے دوران مسلسل ان الزامات کا جواب دینا پڑا کہ امریکہ نے عالمی دہشت گردی کے ملزمان کو خفیہ طور پر یورپ میں ٹھہرایااور انہیں امریکہ پہنچانے کے لیے وہاں کے ہوائی اڈے استعمال کیے۔ رائس نے بدھ کو یورپی ممالک کے خدشات کا سد باب کرنے کی کوشش کی اور زوور دے کر کہا کہ امریکی اہلکار ملک کے اندر اور باہر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے پابند ہیں۔ بُش انتظامیہ اس سے پہلے کہہ چکی ہے کہ اس کے اہلکار امریکہ سے باہر غیر انسانی، ظالمانہ اور ہتک آمیز رویوں کے خلاف قرارداد کے پابند نہیں ہیں۔ دریں اثناء امریکہ میں کانگریس کے ان ارکان نے رائس کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے جو رپبلکن جماعت کے سینیٹر جامکین کی طرف سے تجویز کیے گئے قانون کی حمیت کر رہے ہیں جس کے تحت ’دہشتگردی‘ کے غیر ملکی ملزمان کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں طریقہ کار میں تبدلی لائی جائے گی۔ کانگریس کے ارکان نے رائس کے بیان کے بعد کہا کہ امریکی انتظامیہ نےبالآخر تسلیم کر لیا کہ سینیٹر کا موقف درست ہے۔ وائٹ ہاؤس نے سی آئی اے پر تفتیش کے نئے ضوابط کے اطلاق کی مخالت کی ہے۔ یورپی یونین اور نیٹو کے حکام نے کہا ہے کہ وہ امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس کی سی آئی اے کی یورپ میں مبینہ خفیہ کارروائیوں سے متعلق وضاحت سے مطمئن ہیں۔ text: امریکہ اور ہندوستان کے فوجیوں کی مشترکہ مشقیں آئندہ ہفتے سے مغربی بنگال میں شروع ہونگی۔ حکومت کی اتحادی بائیں بازو کی جماعتوں نے اس کے خلاف احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر دفاع پرنب مکھرجی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’گزشتہ روز سے مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ بات چيت ہورہی ہے اور سی پی آئی ایم کی مرکزی قیادت سے بھی دِلی میں بات ہوئی ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ پرامن مظاہرہ کرنا کسی بھی سیاسی جماعت کا حق ہے لیکن لیکن انہوں نے ریاستی حکومت سے اپیل کیا ہے کہ مشقوں کے لیے وہ سیکیورٹی کا انتظام کرے تاکہ مشقیں ہو سکیں‘۔ مسٹر مکھرجی کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کے ساتھ مشترکہ مشقیں گزشتہ کئی برس سے ہورہی ہیں اور یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ کمیونسٹ پارٹی(مارکس) کے ایک رہنما انل بسواس نے کہا ہے کہ ’ہم کلائی کنڈا کا گھیراؤ کرینگے جہاں مشقیں ہونا طے ہیں۔ جس نوعیت سے بھارت اور امریکہ کے درمیان فوجی تعاون میں اضافہ ہورہا ہے ہم اس کے مخالف ہیں اور اسکے خلاف ہم پر زور آواز اٹھائیں گے‘۔ لیکن مسٹر بسواس نے اس بات پر زور دیا کہ احتجاج پر امن ہوگا۔ مغربی بنگال میں کلائی کنڈا کے فوجی ہوائی اڈے پر آئندہ سات نومبر سے امریکی اور ہندوستانی فضائیہ کی ایک ساتھ مشقیں شروع ہونگی۔ بنگال میں کمیونسٹ پارٹیوں کا غلبہ ہے اور وہ روایتی طورپر امریکہ کے بارے میں حکومت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتی رہتی ہیں۔ امریکی افسران نے بتایا ہے کہ امریکی فوجی جاپان میں مساوا فوجی ایئر پورٹ سے ایف سولہ لڑاکا طیاروں سے پرواز کرینگے۔ مشقوں میں ہندوستان مغربی و روسی ساخت کے طیارے استعمال کریگا۔ یہ مشترکہ مشقیں دو ہفتے تک جاری رہینگی۔ بائیں بازو کے محاذ کی سخت مخالفت کے باوجود حکومت نے امریکی فضائیہ کے ساتھ طے شدہ پروگرام کے مطابق فوجی مشقیں کرنا کا فیصلہ کیا ہے۔ text: کراچی میں ٹرک ڈرائیوروں اور ایف ڈبلیو او کے مابین ٹرکوں پر لادے گئے سامان کے وزن کے حوالے سے جاری تنازع پر کشیدگی ہو گئی جس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہو گئے (فائل فوٹو) اس واقعے کے تنیجے میں صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے کم از کم تین افراد ہلاک جبکہ چند کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ایک سینئر پولیس اہلکارنے بی بی سی کو بتایا کہ ملزمان کی شناخت کا عمل ابھی جاری ہے۔ دوسری جانب پشتون تحفظ موومنٹ سے منسلک محمد شیر نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت سے مذاکرات کے بعد مظاہرین منتشر ہو گئے ہیں۔ واضح رہے کہ واقعہ کے بعد مشتعل مظاہرین نے کراچی سے حیدر آباد کو ملانے والی موٹروے ایم نائن کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کردیا تھا۔ یہ بھی پڑھیے ’رینجرز اہکاروں کی سزا معاف کرنا انصاف کے تقاضوں کے خلاف‘ رینجرز کی لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو ’مالی مدد کی پیشکش‘ شمالی وزیرستان میں دھماکہ، چار فوجی اہلکار ہلاک سرکاری ذرائع کے مطابق وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے کراچی کے ایڈیشنل آئی جی کو اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی ہدایات دی ہیں۔ سندھ پولیس کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق صوبہ کے انسپکٹر جنرل کلیم امام نے واقعہ کی تفتیش کا حکم دے دیا ہے۔ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ جو بھی واقعہ میں ملوث نکلا اس کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی ہوگئی تاہم ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ تنازع کا پس منظر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کراچی پولیس ضلع مشرقی کے ڈی آئی جی عامر فاروقی نے بتایا کہ ایف ڈبلیو او اور ٹرک ڈرائیوروں کے درمیان ٹرکوں پر سامان لادنے یعنی لوڈنگ کے حوالے سے تنازعہ چل رہا تھا۔ ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ ایف ڈبلیو او کے اہلکار اعلیٰ عدالت کی جانب سے ٹرکوں کے لوڈنگ کے وزن کے حوالے سے دیے گئے فیصلے کو نافذ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ ڈی آئی جی عامر فاروقی کے مطابق ٹرک ڈرائیوروں نے طیش میں آ کر ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ پولیس کے مطابق ایف ڈبلیو او کے حکام نے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی مگر ایسا ممکن نہ ہوا تو انھوں نے ہوائی فائرنگ شروع کر دی۔ واقعہ میں ہلاک ہونے والا ایک ٹرک ڈرائیور تاہم فائرنگ کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہوگئے جن کی لاشوں کو ہسپتال پہنچا دیا گیا جبکہ چند افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ ہلاک ہونے والوں کی شناخت سعید ایوب، نیاز علی اور رسول خان کی حیثیت سے ہوئی ہے۔ ٹرک ڈرائیوروں کی جانب سے کیا موقف ہے؟ واقعہ میں ہلاک ہونے والے ٹرک ڈرائیور سعید ایوب کے بھائی علی زمان خود بھی ٹرک ڈرائیور ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزن کے تنازعے پر گذشتہ چار روز سے ایف ڈبلیو او اور موٹروے پولیس نے سامان سے لدے ٹرک اور بڑے ٹرالرز کو روک رکھا تھا جن پر پورے ملک کا مال لوڈ کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرکوں اور بڑے ٹرالرز کی طویل لائن لگنے کے سبب صورتحال سے نمٹنے کے لیے ڈرائیوروں نے ایف ڈبلیو او اور موٹروے پولیس سے مطالبہ کیا کہ جب ٹرکوں پر اتنا سامان لوڈ ہے تو ان کو جانے کی اجازت دی جائے مگر ایسا نہیں ہوا۔ علی زمان کے مطابق اجازت نہ ملنے پر ٹرک اور ٹرالر ڈرائیور احتجاجاً ایک ساتھ اپنی گاڑیاں لے کر موٹر وے کی جانب بڑھنا شروع ہوئے جس پر ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں نے براہ راست فائرنگ شروع کردی۔ کراچی اور حیدر آباد کو ملانے والی 134 کلو میٹر لمبی ایم نائن کی تعمیر ایف ڈبلیو او نے کی ہے انھوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف براہ راست فائرنگ کی بلکہ ایک ڈرائیور جو فائرنگ سے بچنے کے لیے ٹرک کے نیچے چھپ گیا تھا، اُس کو تاک کر نشانہ بنایا جس سے وہ موقع ہی پر ہلاک ہو گیا۔ علی زمان کے مطابق ڈرائیوروں کو یہ توقع نہیں تھی کہ ایف ڈبلیو او لوگوں پر براہ راست فائرنگ کرے گی۔ ’ہمارا خیال تھا کہ احتجاج کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ گرفتار کر لیا جائے گا۔ اگر گرفتار بھی کر لیا جاتا تو ہم مالکان اور جن لوگوں کا مال تھا، ان کو کہہ سکتے تھے کہ پولیس ہمیں جانے نہیں دے رہی ہے۔ اس بات کا تو ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ لوگ براہ راست فائرنگ کردیں گے۔' سوشل میڈیا پر رد عمل اور ٹرینڈ واقعے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر یہ معاملہ زیر بحث بن گیا اور پاکستان کے ٹاپ ٹرینڈز میں سے فریقین کی جانب سے شروع کیے گئے ٹرینڈ سرفہرست آ گئے۔ شمالی وزیرستان سے قومی اسمبلی میں منتخب ہونے والے رکن محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں تینوں افراد کا تعلق ان کے حلقے سے ہے۔ انھوں نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ ذمہ داران کو سزا دی جائے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ٹرک ڈرائیوروں اور پاکستانی فوج کے زیر انتظام تعمیراتی ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کے درمیان تنازعے کے دوران تین افراد کی ہلاکت کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ text: اٹلی کے کوسٹ گارڈ کے مطابق انھیں جمعے کو 17 مختلف کشتیوں سے پریشانیوں کی اطلاعات ملیں انھوں نے بتایا کہ ایک تلاش مہم کے دوران انھیں تین کشتیوں سے 17 لاشیں ملیں جبکہ ان کے علاوہ کشتیوں پر سوار 217 افراد کو بچا لیا گیا ہے۔ اطالوی کوسٹ گارڈ نے کہا کہ انھیں جمعے کو 17 مختلف کشتیوں سے پریشانیوں کی اطلاعات ملیں۔ تارکین وطن کی بین الاقوامی تنظیم آئی او ایم نے کہا کہ بحیرۂ روم کو عبور کرنے کی کوشش میں رواں سال اب تک کم از کم 1,826 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ آئی او ایم کے مطابق گذشتہ سال اسی دورانیے میں ہونے والی اموات کے مقابلے رواں سال ہونے والی ہلاکتیں 30 گنا زیادہ ہیں۔ اطالوی زبان میں شائع ہونے والے ’کوریئری دیلا سیرا‘ اخبار کے مطابق زیادہ تر لوگوں کو لیبیا کے ساحل کے قریب بچایا گیا ہے۔ لیبیا کے ساحل سے غیر محفوظ کشتیوں میں گنجائش سے زیادہ افراد کے سفر کرنے سے رواں سال ہلاکتوں میں زبردست اضافہ دیکھا گيا ہے اخبار نے بتایا کہ کشتی میں پھنسے لوگوں کو بچانے کی اس مہم میں آئرلینڈ، جرمنی اور بلجیئم کے جہازوں نے حصہ لیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال کے آغاز سے اپریل کے اواخر تک کم از کم 40 ہزار افراد نے بحیرۂ روم کو عبور کرنے کی کوشش کی ہے۔ تارکین وطن کی تعداد میں اس قدر اضافے کی وجوہا ت میں لیبیا میں انتشار شامل ہے۔ اس کے علاوہ یہاں سے ترک وطن کے زیادہ تر سفر کا آغاز ہوتا ہے کیونکہ یہاں کا موسم نسبتا معتدل ہے۔ جمعرات کو امدادی ادارے ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نے خبر دی کہ ایک کشتی سے ایک 98 سالہ شخص کو بچایا گیا جو کہ مصر سے 13 دن قبل روانہ ہوا تھا۔ انھیں سسلی کے آگسٹا میں بچایا گیا۔ خیال رہے کہ یورپی یونین میں تارکین وطن اور پناہ گزینوں کی باز آبادکاری ایک متنازع مسئلہ ہے۔ اٹلی کے کوسٹ گارڈ نے کہا ہے انھوں نے جمعے کو بحیرۂ روم عبور کرنے کی کوشش کرنے والے 3,300 سے زیادہ تارکین وطن کو بچانے میں اپنی خدمات انجام دی ہے۔ text: موریشیئس یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے 100 باورچی خانوں کے ان تولیوں کی جانچ کی جو ایک ماہ سے استعمال میں تھے۔ تحقیق میں معلوم چلا کہ مختلف کاموں کے لیے استعمال ہونے والے تولیے میں ای کولی کے پائے جانے کے زیادہ امکانات بطور خاص ان تولیے یا صافیوں میں ملے جن کا برتن پوچھنے، سلیب یا فرش کو صاف کرنے اور ہاتھ خشک کرنے جیسے کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بھیگے تولیوں یا پھر جہاں گوشت کھایا جاتا ہے وہاں ایسے جراثیم کے پائے جانے کے بھی امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے بیوی کی جگہ باورچی خانہ ہے: نائجیریا کے صدر کا جواب ’انڈین ٹرینوں کا کھانا استعمال کے قابل نہیں‘ ایک ہی کپڑے کو مختلف قسم کے کاموں میں استعمال کرنے کے نتیجے میں امراض پھیلانے والے جرثوموں کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جس سے فوڈ پوائزننگ ہو سکتی ہے۔ امریکی حکومت برتن پونچھنے والے کپڑے، چائے پوش، سپنج اور اوون میں استعمال ہونے والے دستانوں کو پابندی سے بدلتے رہنے اور انھیں استعمال سے پہلے خشک کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ کچن کی صفائی کا خاص اہتمام رکھیں یہ تحقیق جارجیا کے شہر اٹلانٹا میں امریکن سوسائٹی فار مائکروبائیولوجی کے اجلاس میں پیش کی جا رہی ہے۔ سائنسدانوں نے تولیے یا صافی میں پائے جانے والے بیکٹیریا کی افزائش کی تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ ان کی موجودگی کتنی ہو سکتی ہے۔ جتنے تولیے یا صافیاں یکجا کیے گئے تھے ان میں سے 49 فیصد میں بیکٹیریا پیدا ہوا اور ان میں بڑے خاندان کے حساب سے اضافہ دیکھا گیا یعنی جتنے ہاتھ اتنے زیادہ بیکٹیریا کی موجودگی۔ یہ بھی پڑھیے ’خاکروب کو پہلے نہلایا جائے پھر علاج ہو گا‘ کیا مشینیں انسانوں کی جگہ لے لیں گی؟ ان میں سے 36.7 فیصد میں کولی بیکٹیریا پایا گيا جس میں ایک ای کولی بھی شامل ہے۔ ای کولی ایسا بیکٹیریا ہے جو انسانوں اور جانوروں کی آنتوں میں پایا جاتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر بے ضرر ہوتے ہیں لیکن بعض سنگین انفیکشن اور فوڈ پوئزننگ کا سبب بن سکتے ہیں۔ کچن میں جرثوموں کے پھیلاؤ کو کیسے روکیں؟ ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ گھر میں صافی کے طور پر بیک وقت کئی کاموں میں استعمال ہونے والے تولیے فوڈ پوائزننگ کا سبب بن رہے ہیں۔ text: یہ اسرائیلی حملہ مبینہ فلسطینی شدت پسند گروپوں کی جانب سے غزہ سے اکیس راکٹ فائر کیے جانے کے واقعے کے بعد ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پانچ اسرائیلی شہری ان راکٹوں سے زخمی ہوئے۔ شدت پسند تنظیم اسلامی جہاد نے دس گھریلو ساخت کے راکٹ اسرائیل پر فائر کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اسلامی جہاد کے مطابق ان راکٹوں کے ذریعے تلکرم میں اس کے تین رہنماؤں کی ہلاکت کا بدلہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسرائیلی کے وزیر دفاع شول موفاز نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ غزہ سے ہونے والے ہر حملے کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ شمالی غزہ پر ہونے والے ہوائی حملے کا مقصد جبالیہ کے مہاجر کیمپ میں واقع حماس کے اسلحہ ڈپو کو تباہ کرنا تھا۔ اس سے پہلے جمعرات کو غزہ میں ایک دھماکہ ہوا جس میں 15 فلسطینی ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔ ہلاکتیں اس وقت ہوئیں جب غزہ شہر میں واقع جبالیہ کے پناہ گزیں کیمپ میں حماس کی طرف سے منعقد کی جانے والی ایک ریلی کے دوران بندوق برداروں اور گولہ بارود سے بھرا ایک ٹرک دھماکے سے اڑ گیا۔ حماس نے اسرائیلی فوج کو دھماکے کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس کا بدلہ لیں گے۔ اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس دھماکے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ فلسطینی لیڈر محمود عباس کی تنظیم الفتح کا کہنا ہے کہ حماس تنظیم دھماکے کی ذمہ دار ہے۔ ٹیلی ویژن پر ریلی کی دکھائی جانے والی فلم میں ریلی کے درمیان سے دھواں اٹھتے ہوئے دکھایا گیا۔ دھماکہ کے بعد لوگوں میں افراتفریحی پھیل گئی اور انہوں نے بھاگنا شروع کر دیا۔اس فلم میں بہت سے زخمیوں کو زمین پر گرے ہوئے بھی دکھایاگیا۔ یہ دھماکہ غزہ سے اسرائیلی انخلاء کے بعد ہونے والا بدترین واقعہ ہے۔ حماس اور دوسرے فلسطینی مسلح گروہ اسرائیل کو غزہ سے نکل جانے پر مجبور کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اسرائیلی جنگی طیاروں نے انخلاء کے بعد پہلی بار شمالی غزہ میں فلسطینی ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔ text: اغوا کاروں کی جانب سے موصول ٹیپ میں کہا گیا تھا کہ جیسن نام کے شخص نے 25 مئی 2008 کو اپنی جان لے لی۔برطانوی افسران کا کہنا ہے کہ وہ اس دعوے کی تصدیق نہیں کر سکے ہیں۔ مئی 2007 میں پولیس افسران کے بھیس میں شدت پسندوں نے بغداد میں چار محافظوں اور وزارتِ خزانہ کے ایک کمپیوٹر ماہر کو اغوا کر لیا تھا۔ ویڈیو میں دیگر دو یرغمالیوں کو بھی دکھایا گیا ہے اور اس عربی میں کچھ تحریر تھا۔شدت پسندوں کا یہ گروپ خود کو عراق میں اسلامک شیعہ رزسٹنٹ گروپ کہتا ہے۔ دسمبر میں اغواکاروں نے یرغمالیوں کی ایک ویڈیو جاری کی تھی اور خیال ہے کہ جس شخص نے مبینہ طور پر خودکشی کی ہے اسے اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اغوا کاروں نے اپنے بیان میں برطانوی حکومت پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس کے غیر سنجیدہ برتاؤ کے سبب جیسن خود کشی کرنے پر مجبور ہوگیا‘۔ ویڈیو میں ایک اور برطانوی شخص کو دکھایا گیا ہے جو برطانوی حکومت سے اپیل کر رہا ہے کہ وہ اغوا کاروں کی بات مان لے۔اس کا کہنا تھا’جسمانی اور نفسیاتی طور پر میں ٹھیک نہیں ہوں میں اپنے گھر والوں سے ملنا چاہتا ہوں‘۔ ایلن نے جیسن کی موت کا کوئی ذکر نہیں کیا۔سنڈے ٹائمز کے مطابق جس ثالث نے یہ ٹیپ پہنچائی تھی اس کا کہنا ہے کہ جیسن نے پہلے بھی دو مرتبہ خود کشی کرنے کی کوشش کی تھی۔ ثالث کا کہنا تھا کہ اگر برطانوی حکومت مذاکرات کے لیے تیار ہو تو جیسن کی موت کا ثبوت بھی مہیا کیا جا سکتا ہے۔ عراق میں شدت پسندوں کی جانب سے یرغمال بنائے جانے والے پانچ برطانویوں میں سے ایک نے’خود کشی‘ کر لی۔ یہ دعوی سنڈے ٹائمز کو موصول ایک ویڈیو میں کیا گیا ہے۔ text: ابھی تک کی معلومات کے مطابق سب سے دور واقع کہکشاں کا خاکہ یہ کہکشاں زمین سے قریب 30 ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس سے بگ بینگ کے فوری بعد والی مدت کی وضاحت ہوگی۔ ماہر فلکیات کا یہ مطالعہ سائنس کے معروف جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہوا ہے۔ اس نئی کہکشاں کو ہبل خلائی دوربین کے ذریعے دیکھا گیا ہے اور اس کے فاصلے کی تصدیق ہوائی میں موجود کیک آبزرویٹری میں کی گئی ہے۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ چونکہ روشنی کو کائنات کے باہری سرے سے ہم تک پہنچنے میں کافی وقت لگتا ہے اس لیے ایک اندازے کے مطابق یہ کہکشاں قریب 13 ارب نوری سال کے فاصلے پر ہے (لیکن چونکہ یہ کائنات مستقل پھیل رہی ہے اس لیے زمین سے اس کا فاصلہ 30 ارب نوری سال ہوگا) اس مطالعے کے اہم محقق اور امریکہ کی ٹیکساس یونیورسٹی کے سٹیون فنکلسٹین نے کہا ’ابھی تک ہمیں جتنی بھی کہکشاں کا پتہ چلا ہے ان میں یہ سب سے دور واقع ہے۔ ہم اس کہکشاں کو اس لیے دیکھ پا رہے ہیں کیونکہ یہ بگ بینگ (کائنات کے وجود میں آنے کا نظریہ) کے 70 کروڑ سال کے بعد وجود میں آئی ہے۔‘ اس نئی کہکشاں کو زیڈ 8 جی این ڈی 5296 کا نام دیا گیا ہے۔ ماہر فلکیات نے زمین سے اس کے فاصلے کا تخمینہ اس کے رنگ کے تجزیے کے بعد کیا ہے۔ تیزی سے پھیلتی کائنات میں فاصلے کی نوری سال میں پیمائش ہوتی ہے چونکہ یہ کائنات پھیل رہی ہے اور ہر چیز ہم سے دور ہو رہی ہے اس لیے روشنی کی لہریں بھی پھیل رہی ہیں اور اس کے سبب چیزیں ہمیں اپنے اصل سے زیادہ سرخ نظر آتی ہیں۔ ماہر فلکیات رنگوں میں آنے والی ظاہری تبدیلی کو ایک پیمانے پر جانچتے ہیں جسے ریڈ شفٹ کہا جاتا ہے۔ اس نئی کہکشاں کے تعلق سے یہ پایا گیا کہ اس کی ریڈشفٹ 7.51 تھی۔ اس سے قبل جس کہکشاں میں سب سے زیادہ ریڈ شفٹ دیکھی گئی تھی اس کا درجہ 7.21 تھا۔ اس طرح یہ ابھی تک کی سب سے زیادہ فاصلے پر نظر آنے والی کہکشاں ہے۔ اس نئی تحقیق پر اظہار خیال کرتے ہوئے گرینچ کی رائل رصد گاہ کے ماہر فلکیات ڈاکٹر میرک کوکولا نے بی بی سی کو بتایا ’دوسرے شواہد کے ساتھ اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ حیرت انگیز طور پر یہ کہکشاں کائنات کے ابتدائی زمانے میں بننے لگی تھی۔‘ انھوں نے کہا ’تاروں کے اس جھرمٹ کے وجود میں آنے کی شرح سے شاید اس کے اس قدر جلدی بننے کا کوئی راز ظاہر ہو سکے۔‘ ناٹنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر الفانسو سلامینکا نے کہ ’یہ ایک اہم قدم ہے لیکن ہمیں مزید کی تلاش جاری رکھنی ہوگی۔ کیونکہ ہم جتنے آگے جائیں گے کائنات میں بننے والے سب سے پہلے ستارے کے بارے میں جاننے کے قریب پہنچیں گے۔‘ ماہر فلکیات کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے کہا ہے کہ انھیں اب تک کی سب سے دور موجود کہکشاں کا پتہ چلا ہے۔ text: اس کانفرنس کے حق میں یہ دلیل بہت ہی بودی ہے کہ کم ازکم 50 برس بعد تو کسی واقعے کے کثیر سمتی علمی جائزے کی آزادی ہونی چاہیے۔ یہ لال بھجکڑ شاید نہیں جانتے کہ اگر ایک بار اجازت دے دی گئی تو سانپوں کا پٹارا کھل جائے گا۔ کل کلاں یہی مٹھی بھر غیر محبِ وطن دانشور مطالبہ کریں گے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب اور ذمے داروں کے تعین کے لیے سرکار کے قائم کردہ حمود الرحمان کمیشن کی نصف صدی پرانی رپورٹ نہ صرف باضابطہ شائع کی جائے بلکہ اس کی سفارشات پر بھی مباحثے کی اجازت دی جائے۔ پھر ہو سکتا ہے کہ کسی جانب سے آواز اٹھے کہ ہمیں تعلیم گاہوں میں 65 کی جنگ کے اسباب اور کرداروں اور پھر کارگل کی جنگ کے اسباب اور کرداروں پر بھی کھل کے تجزیاتی مباحثے اور سائنسی تحقیق کا پروانہ جاری کیا جائے۔ وسعت اللہ خان کے دیگر کالم پڑھیے وسعت اللہ خان کا کالم: کرو یا مرو وسعت اللہ خان کا کالم: ’اب تو پیوند لگانے کی بھی گنجائش نہیں رہی‘ پاکستان خدانخواستہ پائیدار جمہوریہ بن گیا تو؟ بعد ازاں کوئی صاحب یا صاحبہ علمی آزادی کے نام پر یہ نعرہ بھی بلند کر سکتے ہیں کہ ہم ہندو انگریز سازشوں کے ساتھ ساتھ 1200 برس پرانی فتح سندھ کی مہم، ہزار برس پرانی محمود غزنوی کی چڑھائیوں اور 300 برس پرانے احمد شاہ ابدالی کے حملے سمیت جملہ تاریخی واقعات کو آخر کیوں تیسری آنکھ اور تازہ زاویے کے ساتھ جدید تاریخی پیمانوں کی ناقدانہ کسوٹی پر نہیں پرکھ سکتے۔ تب تو پاکستان بھی نہیں تھا (حالانکہ پاکستان تو اس وقت ہی وجود میں آ گیا تھا جب برصغیر میں پہلا مسلمان آیا یا پیدا ہوا تھا)۔ اور پھر کوئی خبطی یہ جھنڈا اٹھا سکتا ہے کہ ہم اپنے میزائلوں کے نام غزنوی، ابدالی، بابر وغیرہ کیوں رکھتے ہیں۔ ہوشو شیدی میزائل، دُلا بھٹی میزائل اور اقبال میزائل کیوں نہیں رکھ سکتے۔ یہ ماننے میں آخر کیا قباحت ہے کہ بنگلہ دیشیوں نے 16 دسمبر کے بجائے 25 مارچ کی تاریخ کو جان بوجھ کر اپنا یومِ آزادی قرار دیا حالانکہ اس روز مشرقی پاکستان میں مٹھی بھر شرپسندوں کے کرتوتوں کو ننگا کرنے کی نیت سے آپریشن سرچ لائٹ شروع کیا گیا تھا۔ آپریشن سرچ لائٹ کا مقصد یہ تھا کہ اس کی چکا چوند میں سادہ لوح بنگالی آستین کے سانپوں کو پہچان سکیں۔ ہم سے اگر کوئی غلطی ہوئی تو بس اتنی کہ سچائی دکھانے کے جوش میں سرچ لائٹ کچھ زیادہ ہی کھل گئی جس کے سبب بنگالیوں کی آنکھیں چندھیا گئیں اور انھیں وقتی طور پر اپنے پرائے کی تمیز نہ رہی۔ اس کا فائدہ انڈیا نے اٹھا لیا۔ جو بھی ہوا اس کے ذمہ دار بس تین کردار ہیں۔ اندرا، مجیب اور بھٹو، اللہ اللہ خیر صلا۔ تو کیا ہماری درسی کتابوں میں کچھ غلط لکھا ہے؟ لمز کے سیمینار بازوں کو یہ کیوں نظر نہیں آتا کہ خود بنگلہ دیشی قیادت بھی 50 برس سے کینہ پروری میں مبتلا ہے۔ انھوں نے اپنی آزادی (علیحدگی) کے جشنِ طلائی میں سارک ممالک کے سبھی سربراہانِ مملکت و حکومت اور چنیدہ عالمی رہنماؤں کو ڈھاکہ مدعو کیا ہے مگر اسلام آباد کو تادمِ تحریر دعوت نامہ موصول نہیں ہوا۔ اسی لیے حکومتِ پاکستان کا بھی کوئی فرض نہیں بنتا کہ وہ بنگلہ دیش کو رسمی مبارکباد کا پیغام بھیجے۔ ایسا نہیں کہ ہمارے ہاں اکیڈمک آزادی نہیں مگر آزادی و بے لگامی و بے راہ روی و بے شرمی میں تمیز کرنی چاہیے۔ مثلاً اگر آپ ریاست کے طے کردہ شرائط و ضوابط کے دائرے میں رہتے ہوئے کشمیر پر انڈین تسلط، افغانستان کی احسان فراموشیوں، چین میں اقلیتوں سے حسن سلوک، یمن کی قبائلی تاریخ، سابق فاٹا کی پسماندگی، 74 برس میں بلوچستان کی مثالی ترقی، سابقہ مشرقی پاکستان کے لیے مغربی پاکستان کے ایثار و قربانی، عسکری و غیر عسکری اشرافیہ کی سنہری قومی خدمات، عدلیہ کے جرات مندانہ فیصلوں، مارشل لا ادوار میں ملکی استحکام، مسلم حکمرانوں کی بیدار مغز پالیسیوں، جوہری پروگرام کی شاندار کامیابی، انتہا پسندی کے تدارک میں علما کے تاریخی کردار وغیرہ وغیرہ سمیت ایسے بیسیوں موضوعات پر کوئی علمی تحقیق کرنا چاہتے ہیں یا پھر ناقدانہ جائزہ لینا چاہتے ہیں تو کس نے ہاتھ پکڑا ہے؟ مگر آپ کو تو جان بوجھ کر انھی موضوعات کی تلاش رہتی ہے جن کے پردے میں آپ قومی بیانیے کو چیلنج کر کے ریاستی اتحاد کو کمزور کر سکیں۔ پھر آپ شکوہ کرتے ہیں اگر آپ کو ’ففتھ جنریشن وار کے مہرے‘ کہا جائے۔ لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) میں بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) کے قیام (علیحدگی) کی پچاسویں سالگرہ (برسی) پر ہونے والی پانچ روزہ مجوزہ کانفرنس کی منسوخی پر میں تمام محبِ وطن پاکستانیوں کو ہدیہِ تبریک پیش کرتا ہوں۔ text: پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نعیم خان نے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ دونوں ممالک کے حکام نے بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں روایتی ہتھیاروں کے بارے میں بات چیت کے دوران فیصلہ کیا کہ دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان ہاٹ لائن کو اپ گریڈ کیا جائے گا اور کارگل، اڑی، نوشہرہ اور جموں میں ماہانہ فلیگ میٹنگ منعقد کی جائے گی۔ دونوں ملکوں کے حکام نے ایک دوسرے کی فضائی حدود کی خلاف ورزیاں نہ کرنے کے ایک پرانے معاہدے کی بھی توثیق کی۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ دونوں جانب سے لائن آف کنٹرول غلطی سے عبور کرنے والے افراد کو واپس کرنے کے عمل کو تیز کیا جائے گا اور اس بارے میں ایک تفصیلی لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔ دونوں ممالک کے حکام اعتماد بڑھانے کے اقدامات کا وقتاً فوقتاً جائزہ لینے پر بھی متفق ہو گئے ہیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس بات چیت کو انتہائی مفید قرار دیا اور کہا کہ صدر جنرل پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے درمیان گزشتہ ماہ کے آخر میں ہونے والی بات چیت میں بھی اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے رہنما اشتعال انگیز بیانات دینے سے گریز کریں گے۔ پاکستان اور بھارت نے پیر کو لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی جاری رکھنے اور ایل او سی پر کوئی نئی چیک پوسٹ یا دفاعی تعمیرات نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ text: کوڈک انسٹمیٹک کیمرے اس ذخیرے میں کم از کم تین ہزار کیمرے موجود ہیں اور ان میں سے کچھ ایک صدی پرانے ہیں۔ یہ تمام کیمرے نیول جِم میتھیو کے تھے۔ وہ ایک پُر فضا گاؤں سے تعلق رکھتے تھے۔ کام کے سلسلے میں وہ پوری دنیا گھومے پھرے لیکن پھر ریٹائر ہوگئے تھے۔ انھوں نے سیلویشن آرمی کے ایک پرانے ہال میں اپنے اس خزانے کو محفوظ کرلیا تھا۔ اس ذخیرے میں کم از کم تین ہزار کیمرے موجود ہیں اور ان میں سے کچھ ایک صدی پرانے ہیں۔ یہ تمام کیمرے نیول جِم میتھیو کے ہیں۔ کوڈک سائن کیمرے انھوں نے ایک ایسے کرئیرکا انتخاب کیا جس کی وجہ سے انھوں نے پوری دنیا کی سیر کی اور اخیر میں ریٹائر ہو کر سینٹ مونینس کے دلکش اور پر فضا مشرقی نیوک گاؤں میں رہائش پزیر ہو گئے۔ انھوں نے اپنے قیمتی ذخیرے کو رکھنے کے لیے سالویشن آرمی کے سابق ہال کا انتظام سنبھال لیا۔ ہال کے اندر قطار در قطار الماریوں میں کیمرے اور اس کے لوازمات کے ساتھ یادگار چیزیں رکھی ہوئی ہیں۔ مزید پڑھیے سمندر میں کھویا ہوا کیمرا دو سال بعد مل گیا سپر ٹیلی سکوپ اور دیو ہیکل کیمرے سے گوبھی کے راز آشکار ان میں سٹیریوسکوپک اور تھری ڈی کیمرے کے ساتھ مشرقی یورپی ماڈلز بھی شامل ہیں جن میں سے بہت سے مغربی ممالک میں نایاب تھے۔ اس ذخیرے کی اہم بات کوڈک براؤنی کیمروں کا ذخیرہ ہے جن میں تقریباً تمام ماڈلز ہیں جو کہ کوڈک نے تیار کیے تھے۔ کوڈک ریٹینا اور ریٹنیٹی ماڈلز ’براؤنی پہلا سستا کیمرہ تھا اور جب اسے پہلی بار سنہ 1900 میں لانچ کیا گیا تو وہ صرف ایک ڈالر میں خریدا جاسکتا تھا۔ جِم چاہتے تھے کہ ان کا ذخیرہ سب کے دیکھنے کے لیے کھلا ہو لیکن بڑھاپے اور صحت کی خرابی کے سبب یہ بہت مشکل کام تھا۔ اس کے بجائے وہ سال میں ایک بار گاؤں کے تہوار کے موقعے پر اس کی نمائش کرتے اور کبھی کبھار نجی طور پر دیکھنے والوں کے لیے کھولتے۔ ان کی بیوہ ڈوروتھی کہتی ہیں کہ 'جب لوگ ہال میں آتے تو وہ اس کے بارے میں لوگوں سے باتیں کرنا واقعتاً پسند کرتے تھے۔ 'مجھے کبھی کبھی نیچے آ کر انھیں روکنا پڑتا تھا کیوں کہ انھیں پتہ نہیں چلتا تھا کہ کب رکنا ہے۔ 'وہ بہت اچھے خطیب تھے۔ وہ مختصر گفتگو میں کم ہی دلچسپی لیتے ان کی باتیں طویل ہوتی تھیں۔' جِمٹ میتھیو جنھوں نے دنیا بھر سے مختلف قسم کے کیمرے اکھٹے کیے جم کا سنہ 2017 کے آخر میں 81 سال کی عمر میں انتقال ہوا اور انھوں نے اس سے 24 سال قبل اپنا ذخیرہ اس وقت اکٹھا کرنا شروع کیا جب وہ کینیڈا کے وینکوور میں اپنی بیٹی سے ملنے گئے۔ وہ نوادرات کی دکانوں میں گھوم رہے تھے کہ ان کی اہلیہ ڈوروتھی نے انھیں ایک پرانا کیمرہ خرید کر تحفتاً دیا تھا۔ اس کے فورا بعد جیسے ہی جم دل کی سرجری سے صحت یاب ہوئے انھوں نے امریکہ کے مغربی ساحل سے اوریگون کا سفر کیا جہاں بہت ساری نوادرات کی دکانیں تھیں۔ ڈوروتھی نے بتایا کہ 'انھوں نے ایک ایک چیز کو ہٹا کر تلاش کرنا شروع کیا اور چند ایسے کیمرے نکالے جو انھیں پسند آئے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا اور بڑھتا گیا۔ جب وہ کسی چیز میں اپنا دل لگا لیتے تھے تو پھر وہ اس میں پوری تندہی سے شامل ہو جاتے تھے۔ 'وہ رکتے نہیں۔ انھوں نے کبھی کیوں کا جواب نہیں دیا۔ وہ بس شروع ہو گئے اور پھر اسی میں سرگرم رہنے لگے۔' The Lubitel cameras originated in Russia ڈوروتھی نے بتایا کہ جم 'بہترین وقت پر' پرانے کیمرے خرید رہے تھے کیونکہ لوگ نئے ڈیجیٹل ماڈلز کے حق میں اپنے پرانے کیمروں سے جان چھڑا رہے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ 'جب بھی وہ کہیں جاتے تو وہ ہمیشہ کیمرے سے بھرا ہوا کیس لے کر واپس آتے۔' وہ کام اور تفریح کے لیے بہت سفر کیا کرتے تھے اور وہ ہمیشہ پرانی چیزوں کی منڈیوں یا پرانے سامان فروخت کرنے والی جگہوں کی تلاش میں رہتے تھے۔ پولینڈ ان کے لیے ایک بہت ہی کارآمد منزل ثابت ہوئی کیونکہ لوگ وہاں سوویت دور کے بہت سارے روسی کیمرے سے پیچھا چھڑا رہے تھے۔ 1920 کی دہائی کی براؤنی فلیش ڈوروتھی نے بتایا کہ 'جب بھی وہ چھٹی منانے کسی دوسرے ملک جاتے تو وہ ہر ملک سے کیمرے تلاش کرتے۔ وہ دوستوں سے یہ بھی کہتے کہ اگر ان کے پاس ان کے لیے کیمرہ تلاش کرنے کا وقت ہے تو وہ ان کے لیے کیمرہ تلاش کریں اور ان کے دوست اکثر ایسا کرتے تھے۔ جِم کی پیدائش گریٹر مانچسٹر کے علاقے بولٹن میں ہوئی اور وہ انجینیئر کیڈٹ کے طور پر سمندر میں گئے۔ جم کے فولڈنگ کیمروں کی سلیکشن حب وہ سمندر میں کام کر رہے تھے اس دوران ان کے والدین گلاسگو منتقل ہو گئے جہاں ان کی ملاقات ڈوروتھی سے ہوئی اور انھوں نے اپنا نام نیول سے تبدیل کیا کیونکہ وہ نام سکاٹ لینڈ میں اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس جوڑے کی جلد ہی شادی ہوگئی اور ان کے تین بچے ہوئے۔ بحری انجینیئر کی حیثیت سے جم کے کام نے انھیں پوری دنیا کی سیر کا موقعہ فراہم کیا۔ انھوں نے ہانگ کانگ میں سات سال، یونان میں دو سال، ہالینڈ میں پانچ سال اور کینیڈا میں 12 سال گزارے۔ ڈوروتھی کا کہنا ہے کہ جم 'سفر کے لیے بنے تھے' اور بہت کم جگہیں ایسی تھیں جہاں وہ نہیں گئے۔ ان کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ وہ کئی بار نجی دوروں پر بھی گئے کیونکہ انھیں کیمرے کے پیچھے رہنے میں دلچسپی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ میرا وہاں ہونا پیسے کا ضیاع تھا۔ 'انھوں نے اچھی تصاویر لیں لہذا میں سمجھتی ہوں کہ اس کے نتائج سے وہ لطف اندوز ہوتے۔ وہ اسے محض ایک تصویر کے بجائے یادگار بنانا چاہتے تھے۔ وہ اس کے ساتھ پوری طرح جذب ہوگئے تھے۔' جب وہ ہالینڈ میں رہتے تھے اس وقت ان کا ذخیرہ بڑھنا شروع ہو گیا اس لیے وہ اپنے کیمرے اپنے دفتر میں رکھنے لگے۔ ریٹائرمنٹ کی تیاری میں، انھوں نے ڈوروتھی کی والدہ کے قریب رہنے کے لیے سینٹ مونینس میں ایک مکان خریدا۔ وہ مکان کیمرے کے کلکشن کو رکھنے کے لیے کافی نہیں تھا اس لیے انھوں نے مقامی سالویشن آرمی ہال خریدا۔ جم کی وفات کے تقریبا تین سال بعد ڈوروتھی ایک رفاہی ادارے کے ساتھ کام کر رہی ہیں تاکہ عمارت اور ذخیرے کومنتقل کرکے اسے میوزیم میں تبدیل کر سکیں۔ ڈوروتھی اب کینیڈا میں رہتی ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ وہ میوزیم کے امکان پر خوش ہیں۔ انھوں نے کہا: 'مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے اور میں فکر مند تھی کہ ہم ان کیمروں کا کیا کریں گے۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ انھیں یوں ہی پھینک دیا جائے۔ تمام تصاویر ڈیو سمتھ کی فراہم کردہ ہیں۔ دنیا میں کیمروں کا سب سے بڑا ذخیرہ (کولیکشن) ایک چھوٹے سے گاؤں میں چھپا ہوا ہے۔ یہ سکاٹ لینڈ کے ساحلی علاقے فائف کے قریب ہے۔ لیکن شاید ہی کوئی اس بارے میں علم رکھتا ہے۔ text: ’عمر زیب نے کہا تھا کہ اگر اس بار لڑکی ہوئی تو وہ زینب کو مار دیگا‘ 28 سالہ عمر زیب کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ اسے بیٹا چاہیے تھا۔ بی بی سی کے نامہ نگار علیم مقبول کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ پورے جنوبی ایشیا میں لڑکیوں کے قتل کے مسئلے کو اجاگر کرتا ہے۔ علیم مقبول کا کہنا تھا کہ وہ عدالت کے باہر ہتھکڑیاں پہنے 28 سالہ عمر زیب سے ملے جنھیں عدالت لے جایا جا رہا تھا۔ عمر کا کہنا تھا کہ ان سے بہت بڑی غلطی ہو گئی، پتہ نہیں ان کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔ عمر زیب حراست میں ہیں اور ابھی ان پر اپنی بیٹی کے قتل کا الزام عائد کیا جانا ہے۔ عمر نے قبول کیا کہ انھوں نے ہی اپنی بیٹی کو دریا میں ڈبو کر ہلاک کیا ہے۔ عمر کی اہلیہ 24 سالہ سمیرہ نے واقعے کی تفصیل بتائی۔ سمیرہ کا کہنا تھا کہ ’رات کے وقت عمر نے اچانک کہا کہ ہمیں اس کی بہن کے گھر جانا ہے۔ ہماری دونوں بیٹیاں ہمارے ساتھ تھیں۔‘ ’ میرے شوہر نے کہا کہ میں نے زینب کو ٹھیک سے نہیں پکڑا اور اسے میری گود سے لے لیا۔‘ ’لیکن راستے میں ہم دریا کے کنارے رُک گئے اور عمر نے میری آنکھوں کے سامنے ہی زینب کو دریا میں پھینک دیا۔ ’دریا میں گرتے ہی زینب نے رونا اور چیخنا شروع کر دیا میں نے اسے بچانے کی کوشش کی تو میرے شوہر نے میرے ساتھ مار پیٹ کی، میں بے بس تھی اور رو رہی تھی۔‘ سمیرہ نے کہا کہ اس کے شوہر نے دھمکی دی تھی کہ اگر ’میں نے کسی کو یہ بات بتائی تو وہ مجھے جان سے مار دے گا۔‘ سمیرہ کا کہنا تھا’ کئی دن تک میں پولیس کے پاس جانے سے ڈرتی رہی لیکن آخر کار ہمت کر کے میں نے اپنے والدین کو حقیقت بتا دی۔‘ سمیرہ کا کہنا ہے کہ اسے معلوم ہے کہ اس کے شوہر نے اس کی بیٹی کو کیوں مارا، کیونکہ جب سے ان کی پہلی بیٹی ہوئی تھی عمر اس سے خوش نہیں تھا کیونکہ وہ بیٹا چاہتا تھا۔ ’عمر زیب نے کہا تھا کہ اگر اس بار لڑکی ہوئی تو وہ زینب کو مار دے گا۔ آٹھ ہفتے پہلے سمیرہ نے ایک اور بچی کو جنم دیا تھا اس کے بعد سے عمر زینب کو مارنے کی دھمکیاں دے رہا تھا۔‘ سمیرہ کے مطابق اس کا شوہر رکشا ڈرائیور تھا اور اس کے گھر والے لڑکیوں کی پیدائش سے ناخوش تھے۔ علیم مقبول کا کہنا ہے کہ اس پورے خطے میں بچیوں کو مارنے کا رجحان سنگین مسئلہ ہے اور اقوام متحدہ نے اس مسئلے پر صرف پاکستان کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی ہے۔ کئی برسوں سے انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں پر الزام لگاتی رہی ہیں کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتیں۔ زینب کے قتل کیس کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسر بشارت علی کا کہنا ہے کہ اپنی بیٹی کے قتل کے الزام میں خواہ عمر زیب سلاخوں کے پیچھے ہو لیکن پاکستان جیسے ملک میں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اسے اپنی بیٹی کو صرف اس لیے قتل کرنے کے لیے مناسب سزا دی جائے گی کیونکہ وہ لڑکی ہے۔ پاکستان میں ایک شخص نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے اپنی ڈیڑھ سالہ بیٹی کو پانی میں ڈبو کر ہلاک کیا ہے جس کا اب اسے افسوس ہے۔ text: فوج کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے نصف لوگ اسی عرصے میں مارے گئے جب کہ اس عرصے میں اس کے بھی چھپن فوجی مارے گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ ابھی صورتِ حال پُر امن نہیں ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وزیرستان پر ہمارا کنٹرول نہیں۔ فوج کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی زیر قیادت دراندازی کے بعد طالبان کے حامیوں کی بڑی تعداد وزیرستان آ گئی تھی اور پاکستان کو ان سے نمٹنے کے لیے ہزاروں فوجی مقرر کرنے پڑے تھے۔ خاص طور پر قبائلی ایجنسیوں پر مشتمل شمالی وزیرستان میں بے چینی زیادہ ہے اور اس علاقے کو دہشت گردی کی امریکی جنگ کا اولین محاذ قرار دیا جاتا ہے۔ بی بی سی کی نامہ نگار باربرا پلیٹ کا کہنا ہے کہ اس انتہائی دشوار گزار قبائلی علاقے میں ہزاروں فٹ کی بلندیوں پر فوجی چوکیاں ہیں۔ بی بی سی کی نامہ نگار کا کہنا ہے اصل معاملہ قبائلی علاقے میں طالبان کا بڑھتا ہوا اثر اور نظریے کا پھیلاؤ ہے تاہم پا کستانی جنرلوں کا کہنا ہے کہ ’ملاؤں کو زیادہ حمایت حاصل نہیں ہے اور ان کے انتہائی سرگرم حامیوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہے‘۔ تاہم صدر خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ’طالبانی شدت پسندی‘ علاقے میں جڑیں پکڑ رہی ہے‘۔ جب کہ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ علاقے میں فوجی آپریشن قبائلیوں میں نئی سوچ کو جنم دے رہا ہے۔ پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ گزشتہ نو ماہ کے دوران وزیرستان میں تین سو سے زائد شدت پسند ہلاک کیے گئے جب کہ 56 فوجی مارے گئے ہیں۔ text: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس کو جورجیا پر فوج کشی کی ’سزا‘ دینے کے حوالے سے نیٹو ممالک میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار جوناتھن مارکس کے مطابق ایک جانب امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور مشرقی یورپ کے زیادہ تر ممالک ممکنہ طور پر روس سے سختی سے پیش آنے کو کہیں گے تو وہیں فرانس اور جرمنی سمیت مغربی یورپ کے زیادہ تر ممالک روس سے اپنے تعلقات بگڑنے کے خیال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے محتاط رویے کا مظاہرہ کریں گے۔ اس اجلاس کے آغاز سے قبل امریکی وزیرِ خارجہ کونڈالیزا رائس نے کہا ہے کہ مغربی ممالک کو روس کو جورجیا پر فوج کشی سے کسی قسم کا سٹریٹیجک فائدہ نہیں اٹھانے دینا چاہیے۔ اجلاس میں شرکت کے لیے برسلز جاتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ’ ہمیں روسی سٹریٹجک مقاصد کو پورا ہونے سے روکنا ہوگا جو کہ واضح طور پر جورجیا میں جمہوریت کی نفی کرنا، فوجی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جورجیا کے انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانا یا پھر اسے تباہ کرنا ہیں‘۔ ادھر روس نے جورجیا کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے کہ اس کی فوج وعدے کے مطابق جورجیا کی سرزمین سے واپس نہیں جا رہی ہے۔دارالحکومت تبلیسی میں موجود جورجیا کے حکام کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ روسی فوج جورجین زمین چھوڑ رہی ہے تاہم روسی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ فوج کی واپسی شروع ہو گئی ہے اور یہ عمل آنے والے چند دن میں مکمل کر لیا جائے گا۔ نیٹو کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ برسلز میں ایک ہنگامی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں جس میں جورجیا میں روس کی فوجی کارروائی پر اتحاد کے ردعمل کے حوالے سے بات چیت ہوگی۔ text: ارمان صابر بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی یہ دھماکا اتوار کی شام کراچی کے شرقی حصے میں ابوالحسن اصفہانی روڈ پر عباس ٹاؤن میں واقع رہائشی کمپلکس اقرا سٹی میں ہوا تھا جس سے دو رہائشی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ اس دھماکے میں ہلاک شدگان کی تعداد اڑتالیس تک پہنچ گئی ہے جبکہ اس واقعے کے خلاف حکومتی اور عوامی سطح پر پیر کو سوگ منایا جا رہا ہے اور پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس دھماکے کا از خود نوٹس لے لیا ہے۔ فائرنگ کا یہ واقعہ سہراب گوٹھ کے علاقے میں پیر کی شام اس وقت پیش آیا جب لوگ سپر ہائی وے پر واقع وادی حسین قبرستان میں تیس افراد کی اجتماعی تدفین کے بعد واپس شہر کی جانب آ رہے تھے۔ پولیس حکام کے مطابق فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوگیا جبکہ رینجرز کے پانچ اہلکاروں سمیت تینتیس افراد زخمی ہوئے ہیں جنہیں شہر کے مختلف ہسپتالوں میں لایا گیا ہے۔ فائرنگ کے اس واقعے کے بعد علاقے میں حالات کشیدہ ہوگئے اور مشتعل افراد نے متعدد گاڑیوں کو نذرِ آتش کر دیا۔ شہر میں سوگ کراچی میں یومِ سوگ کے موقع پر شیعہ تنظیموں نے ہڑتال کی کال بھی دی تھی جس پر شہر میں کاروباری مراکز اور ٹرانسپورٹ کے علاوہ تعلیمی ادارے بھی بند رہے۔ شہر میں زندگی صبح ہی سے مفلوج اور سڑکیں ویران رہیں۔ "میں اپنے ایک رشتے دار کو ڈھونڈ رہی ہوں۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ یہاں تھے۔ لیکن اب ان کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔ ملبے میں اب بھی کچھ لاشیں دبی ہوئی ہیں۔" فرزانہ اظفر عباس ٹاؤن میں ہونے والے دھماکے میں جن عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا تھا ان کے مکین اور ہلاک ہونے والوں کے لواحقین منگل کو اپنا سامان سمیٹتے نظر آئے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ دھماکے کے باعث متاثرہ عمارتیں انتہائی مخدوش ہو چکی ہیں اور مرمت کے قابل بھی نہیں رہی ہیں۔ دھماکے میں متاثر ہونے والی ایک خاتون نے روتے ہوئے کہا ’میں کیا بتاؤں، میری امی ہسپتال میں ہیں، میرا بھائی ہسپتال میں ہے، میرے بھتیجے کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں ہیں، میں کیا بتاؤں، میرا تو پورا گھر تباہ ہوگیا ہے ۔۔۔ بس اعلان ہوتے ہیں دس لاکھ دیں گے بیس لاکھ دیں گے ۔۔۔ کوئی نہیں پوچھتا۔‘ خیال رہے کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ نے ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے لیے پندرہ پندرہ لاکھ اور زخمیوں کے لیے دس دس لاکھ روپے کے معاوضے کا اعلان کیا ہے۔ ادھر کراچی کے پولیس سرجن اسلم پیچوہو نے بتایا ہے کہ اس دھماکے میں ہلاک ہونے والے اڑتالیس افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں اور 200 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے تین کی حالت نازک ہے۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جناح ہسپتال میں دو خواتین سمیت تینتیس افراد کی لاشیں جبکہ عباسی شہید ہسپتال میں چودہ اور سول ہسپتال میں ایک لاش پہنچائی گئی اور ان تمام ہلاک شدگان کا پوسٹ مارٹم کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جائے وقوع سے ایک سر اور ایک بغیر سر کی لاش بھی ملی ہے جن کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔ "میں کیا بتاؤں، میری امی ہسپتال میں ہیں، میرا بھائی ہسپتال میں ہے، میرے بھتیجے کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں ہیں، میں کیا بتاؤں، میرا تو پورا گھر تباہ ہوگیا ہے ۔۔۔ بس اعلان ہوتے ہیں دس لاکھ دیں گے بیس لاکھ دیں گے ۔۔۔ کوئی نہیں پوچھتا۔" متاثرہ خاتون اسلم پیچوہو نے کہا کہ دھماکے میں زخمی ہونے والے 170 افراد نجی ہسپتالوں میں لائے گئے جبکہ 30 زخمی افراد کو سرکاری ہسپتالوں میں علاج مہیا کیا گیا۔ ان کے بقول جناح ہسپتال میں تین افراد کا آپریشن کیا گیا ہے جن کی حالت اب بھی خطرے سے باہر نہیں ہے۔ چیف جسٹس کا ازخود نوٹس سپریم کورٹ کی جانب سے صوبہ سندھ کے پراسیکیوٹر جنرل اور سندھ پولیس کے سربراہ کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں کہ وہ چھ مارچ کو کراچی میں امن وامان کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کے سامنے تفصیلی جواب داخل کروائیں۔ از خود نوٹس میں چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ مذکورہ افسران یہ بھی بتائیں کہ حکومت لوگوں کی جان ومال کے تحفظ میں کیوں ناکام رہی تاکہ اس معاملے کی سماعت کے بعد مناسب احکامات جاری کیے جا سکیں۔ چیف جسٹس نے تین مارچ کے واقعہ سہ متعلق اخبارت میں شائع ہونے والی خبروں پراز خود نوٹس لیا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اخبارات میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار اور سرکاری حکام کی نجی تقریب میں شرکت کی وجہ سے وہ جائے حادثہ پر تاخیر سے پہنچے جس کی وجہ سے امدادی کارروائیاں بروقت شروع نہ ہو سکیں۔ وزیرِاعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے سی آئی ڈی کے ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں عباس ٹاؤن دھماکے کی تحقیقات کے لیے ایک چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں پولیس اور رینجرز کے اعلٰی افسران شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی تین دن میں اپنی رپورٹ سندھ حکومت کو پیش کرے گی۔ کراچی پولیس کے مختلف شعبوں نے دھماکے کے بعد مشترکہ تفتیش شروع کر دی ہے اور دھماکے کے مقام سے شواہد اور ثبوت جمع کیے جا رہے ہیں۔ ایس ایس پی سی آئی ڈی پولیس فیاض خان کا کہنا ہے کہ اس دھماکے میں دو سو کلوگرام سے زیادہ دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا جس میں بال بیئرنگ بھی تھے اور اسی وجہ سے ہلاکتیں بھی زیادہ ہوئیں۔ کراچی میں ہونے والے دہشت گردی کے اس واقعہ میں رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا جو ایک نیا رجحان ہے۔ ایس ایس پی فیاض خان کے مطابق ’جب دہشت گرد دیکھتے ہیں کہ مسجدوں، امام بارگاہوں اور دیگر جگہوں پر سکیورٹی زیادہ ہوگئی ہے تو وہ ’سافٹ ٹارگٹ‘ تلاش کرتے ہیں۔ کوئٹہ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا جہاں ایک مخصوص آبادی والے علاقے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اتوار کی شام ہونے والے بم دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین سے واپس آنے والے افراد پر فائرنگ کے واقعے میں مزید ایک شخص ہلاک اور رینجرز کے پانچ اہلکاروں سمیت تینتیس افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ text: وزیر داخلہ نے یہ اعلان پیر کی رات کو ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔ کلِک طاہر القادری کی واپسی: جواب کم سوال زیادہ رحمان ملک نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ مذاکرات یا لانگ مارچ ختم کرانے کے لیے نہیں آئے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری اسلام آباد سو بسم اللہ آئیں۔ منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے لاہور میں ایک جلسے میں حکومت کو تین ہفتوں میں انتخابی اصلاحات کے لیے مہلت دی تھی اور اعلان کیا کہ انتخابی اصلاحات نہ ہونے کی صورت میں چودہ جنوری کو لانگ مارچ ہوگا۔ حکومت کی اتحادی سیاسی جماعت ایم کیو ایم نے بھی لانگ مارچ کی حمایت کرتے ہوئے اس میں بھرپور شرکت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر داخلہ رحمان ملک نے بتایا کہ ملاقات کے دوران ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ اسلام آباد میں لانگ مارچ کی جگہ کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ انہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کے لیے تجویز کردہ مقام سے اتفاق کیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری سے اتفاق "وزیر داخلہ رحمان ملک نے بتایا کہ ملاقات کے دوران ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ اسلام آباد میں لانگ مارچ کی جگہ کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا اور انہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کے لیے تجویز کردہ مقام سے اتفاق کیا" وزیر داخلہ رحمان ملک لاہور سے بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے اعلان کیا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی خواہش اور اطمینان کے مطابق جتنے وسائل موجود ہیں ان کے مطابق سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ لانگ مارچ کی لانگ سکیورٹی کے لیے چیف سیکریٹری ، ہوم سیکریٹری سمیت دیگر حکام کو ہدایات جاری کردی گئیں ہیں۔ وزیر داخلہ رحمان ملک نے ڈاکٹر طاہر القادری کی انتخابی اصلاحات کی حمایت کی اور کہا کہ یہ قومی ایجنڈا ہے ۔ منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ انہوں نے وزیرداخلہ کو دوٹوک انداز میں واضح کر دیا کہ چودہ جنوری کو ہر صورت میں پرامن لانگ مارچ ہوگا اور اگر لانگ مارچ کو روکنے کی کوشش کی گئی تو پھر وہ لانگ مارچ کے پرامن رہنے کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے بتایا کہ اگر حکومت ان سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو وزیراعظم کابینہ کے ارکان کے ساتھ ان سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کا لانگ مارچ انتخابات کو ملتوی کروانے کے لیے نہیں ہے بلکہ جمہوریت کو عوامی جمہوریت بنانا ہے۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے تحریکِ منہاج القرآن کے سربراہ طاہرالقادری کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ چودہ جنوری کو لانگ مارچ کے شرکاء کو ہر ممکن سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ text: خیبرپختونخوا میں شامل ان نئے اضلاع میں مختلف ادوار میں انٹرنیٹ سروس سکیورٹی وجوہات کی بنا پر بند کردی گئی تاہم یہ کبھی نہیں بتایا گیا کہ انٹرنیٹ سروس سے کس طرح کے سکیورٹی مسائل پیش آ سکتے ہیں ان اضلاع سے تعلق رکھنے والے طالب علم تب تک تعلیمی سرگرمیوں سے دور رہیں گےِ جب تک وہاں انٹرنیٹ دوبارہ بحال نہیں کیا جاتا۔ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی بشریٰ محسود ہزارہ یونیورسٹی میں ایم فل کررہی ہیں لیکن کورونا اور لاک ڈاون کے باعث وہ اس لیے جنوبی وزیرستان میں اپنے گاوں نہیں جا سکتیں کیونکہ وہاں انٹرنیٹ نہ هونے کی وجہ سے وہ اپنی کلاسز نہیں لے سکیں گی۔ وہ کہتی ہیں ’انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف ہمارے طالب علم کلاسز سے محروم ہیں بلکہ اس دوران ہم کسی ملازمت کے لیے بھی درخواست نہیں کرسکتے۔‘ یہ بھی پڑھیے فاٹا کا نظام آخر کیسے چلے گا؟ ’جب قانون ہی نہیں رہا تو سینٹر کی حیثیت کیا ہے؟‘ فاٹا اصلاحات کے اہم نکات کیا ہیں؟ بشریٰ محسود کے مطابق انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ان کے لوگ سوشل میڈیا پر کورونا وبا کی احتیاطی تدابیر تک رسائی سے بھی محروم ہیں۔ ان اضلاع سے تعلق رکھنے والے طالبعلم تب تک تعلیمی سرگرمیوں سے دور رہیں گےِ جب تک انٹرنیٹ دوبارہ بحال نہیں کیا جاتا سابقہ فاٹا کے سات اضلاع میں سے صرف باجوڑ میں ایک مخصوص جگہ انٹرنیٹ کے سگنل آتے ہیں جبکہ باقی تمام نئے ضلعوں میں تھری جی اور فورجی سگنل بند ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے نو مارچ کو ضلع مہمند میں جلسے سے خطاب میں وفاقی وزیر مراد سعید کو یہ ٹاسک دیا تھا کہ وہ انٹرنیٹ کا مسئلہ حل کریں لیکن ان اضلاع کے باسیوں کے مطابق ان کے ساتھ کیے گئے دیگر وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی ابھی تک پورا نہیں ہوسکا۔ ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے ارشد آفریدی پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے نئے اضلاع میں انٹرنیٹ کی بحالی سمیت وفاقی حکومت سے دیگر وعدوں کی تکمیل بھی چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’ریفارمز میں ہمارے ساتھ بہت سارے وعدے کیے گئے تھے لیکن ان میں کسی بھی وعدے کی تکمیل ابھی تک نہیں ہوئی تو ہم مرکز اور وزیراعظم عمران خان سے ان وعدوں کی تکمیل چاہتے ہیں۔‘ واضح رہے کہ خیبرپختونخوا میں شامل ان نئے اضلاع میں مختلف ادوار میں انٹرنیٹ سروس سکیورٹی وجوہات کی بنا پر بند کردی گئی تاہم یہ کبھی نہیں بتایا گیا کہ انٹرنیٹ سروس سے کس طرح کے سکیورٹی مسائل پیش آ سکتے ہیں۔ نئے ضم شدہ ضلع کرم کی طالبہ نائلہ الطاف کہتی ہیں ’ہمارے علاقے میں موبائل سگنلز صحیح کام نہیں کررہے ہیں تو انٹرنیٹ سگنلز تو دور کی بات ہے۔‘ بی بی سی نے جب صوبے کے نئے اضلاع میں انٹرنیٹ سروس کی دوبارہ بحالی کے سلسلے میں خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان اجمل وزیر سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ جمعرات کو ایک اہم اجلاس میں اس پر بات ہو گی۔ کوویڈ 19 کی وبا کے بعد دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اکثر تعلیمی اداروں نے آن لائن کلاسز کا آغاز کیا ہے لیکن خیبر پختونخوا میں شامل نئے اضلاع میں انٹرنیٹ کی بندش کے باعث وہاں کے باسی انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے کئی مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔ text: جزیرہ فیزاں دریا کے بیچوں بیچ واقع ہے لیکن اس کے چھ ماہ بعد سپین رضاکارانہ طور پر اس علاقے کو فرانس کو لوٹا دے گا۔ بی بی سی کے نامہ نگار کرس بوکمین کے مطابق یہ سلسلہ گذشتہ ساڑھے تین سو سال سے جاری ہے۔ دریا کے بیچ میں واقع فیزاں نامی یہ پرامن جزیرہ درختوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ یہاں کوئی نہیں رہتا البتہ یہاں ایک قدیم یادگار قائم ہے جو 1659 میں ہونے والے ایک واقعے کی یاد دلاتی ہے۔ فرانس اور سپین کے درمیان طویل جنگ زوروں پر تھی۔ اس دوران فیزاں جزیرے کو غیرجانب دار علاقہ تصور کیا گیا اور دونوں سرحدوں کی طرف سے شہتیروں کے پل بنائے گئے۔ مذاکراتی ٹیمیں پہنچ گئی اور اس جزیرے میں امن مذاکرات شروع ہوئے جو تین ماہ تک چلتے رہے۔ اس دوران دونوں طرف فوجیں تیار کھڑی تھیں۔ انجام کار امن معاہدہ طے پایا۔ علاقے تقسیم ہوئے اور سرحدوں کا نئے سرے سے تعین کیا گیا۔ معاہدے کی سیاہی پکی کرنے کے لیے فرانس کے بادشاہ لوئی چاردہم نے ہسپانوی شہنشاہ فلپ چہارم کی بیٹی سے شادی کر لی۔ معاہدے میں ایک شق یہ بھی شامل تھی کہ یہ جزیرہ دونوں ملکوں میں برابر تقسیم کیا جائے گا۔ اس کا علاقہ نہیں، بلکہ اقتدار تقسیم ہو گا، یعنی چھ ماہ تک ایک ملک کے پاس رہے گا اور بقیہ چھ ماہ دوسرے کے پاس۔ ویسے تو اس کا انتظام و انصرام فرانسیسی اور ہسپانوی نیول کمانڈروں کے ذمے ہے، لیکن درحقیقت قریبی قصبوں ارون اور ہینڈائی کے میئر ہی اس کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں۔ ہینڈائی قصبے کے پارک ڈویژن کے نگران بیوئی نے مجھے بتایا کہ وہ ہر سال کشتی کے ذریعے ایک ٹیم بھیجتے ہیں جو یہاں گھاس کاٹتی ہے اور درختوں کی شاخ تراشی کرتی ہے۔ لوئی چہاردہم اور فلپ چہارم کے درمیان 1660 میں اسی جزیرے پر ملاقات ہوئی تھی کبھی کبھار یہاں عوام کو آنے کی اجازت ملتی ہے لیکن بینوئی کہتے ہیں کہ صرف معمر لوگ ہی اس میں دلچسپی لیتے ہیں اور نوجوانوں کو اس کی تاریخی اہمیت کا کچھ پتہ نہیں۔ جزیرہ ننھا منا ہے۔ اس کی لمبائی دو سو میٹر اور چوڑائی صرف 40 میٹر ہے۔ اور یہ رقبہ بھی رفتہ رفتہ گھٹتا جا رہا ہے کیوں کہ دریا جزیرے کو کاٹ رہا ہے۔ گذشتہ صدیوں میں جزیرے کا رقبہ نصف ہو کر رہ گیا ہے، لیکن دونوں حکومتوں کو اسے بچانے کے پشتے تعمیر کرنے کے لیے پیسے خرچ کرنے میں دلچسپی نہیں ہے۔ جزیرے پر کوئی جھنڈا نصب نہیں کیا جاتا۔ ایک خیال تھا کہ جن چھ ماہ میں یہ جزیرہ جس ملک کے پاس ہے اس کا پرچم وہاں لہرایا جائے، لیکن میئر نے مجھے کہا کہ اس سے باسک علیحدگی پسندوں کو شہہ ملے گی کہ وہ اس جھنڈے کو اتار کر وہاں اپنا جھنڈا لگا دیں۔ اگلے چند دنوں میں دنیا کا سب سے غیر متنازع جزیرہ اپنا ملک تبدیل کر لے گا۔ اس کے بعد اگست میں یہ دوبارہ فرانس کے قبضے میں آ جائے گا، بشرطیکہ سپین ساڑھے تین سو سالہ معاہدے سے روگردانی پر نہ اتر آئے! اگلے ہفتے فرانس بغیر ایک بھی گولی چلائے اپنی زمین کا تین ہزار مربع میٹر علاقہ سپین کے حوالے کر دے گا۔ text: اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے پیر کو ترکی کی فوجی کارروائی کے بارے میں بات تو کی لیکن مذمت نہیں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ترک فوج کو عفرین کے علاقے سے نکالنے کے لیے کرد جنگجو امریکہ کے فراہم کردہ ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا کہ ان کا ملک ترکی کے ساتھ مل کر شمالی شام کے حوالے سے اس کے سکیورٹی خدشات پر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ ترکی کے دہشت گردوں سے دفاع کے حق کو تسلیم کرتا ہے اور اس نے صورتحال کو مستحکم بنانے کے لیے کچھ تجاویز بھی دی ہیں۔ ترکی اس ملیشیا کو دہشت گرد سمجھتا ہے اور اسے کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے ) کی ہی شاخ قرار دیتا ہے جو آزاد کردستان کا مطالبہ کرتے ہیں تاہم وائی پی جی تنظیم سے کسی قسم کے تعلق سے انکاری ہے۔ اسی بارے میں پڑھیے ترکی کی امریکی حمایت یافتہ کردوں کے خلاف کارروائی ترکی کردوں کے ساتھ امریکی اتحاد قبول نہیں کرے گا: اردوغان کرد آزادی چھوڑ دیں یا پھر بھوکے رہیں: اردوغان کرد ملیشیا شمال مشرقی شام کے ایک بڑے حصے پر قابض ہے اور دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں امریکہ کی اہم اتحادی ہے۔ ترکی کا الزام ہے کہ کرد جنگجو امریکہ کے فراہم کردہ ہتھیار استمعال کر رہے ہیں انقرہ کا موقف ہے کہ چونکہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ ختم ہو چکی ہے اس لیے یہ اتحاد ختم ہونا چاہیے۔ ترک صدر کے ترجمان ابراہیم کالن کا کہنا تھا ’ہم اپنی سرحدوں کے ساتھ شام میں ’پی کے کے‘ کی اسٹیبلشمنٹ برداشت نہیں کر سکتے۔‘ عفرین میں ترک فوج کی کارروائی کے بعد لاکھوں شہری وہاں سے فرار ہو رہے ہیں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سنیچر کو شروع ہونے والی اس کارروائی کے بعد سے 70 سے زائد شہری مارے جا چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے پیر کو ایک خصوصی اجلاس میں ترکی کی شام میں کارروائی کے بارے میں بات تو کی لیکن اس کی مذمت نہیں کی گئی۔ پیر کو ترکی کے وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا تھا کہ ترکی کی زمینی افواج شام کے شمالی حصے میں داخل ہو گئی ہیں جس کا مقصد سرحدی علاقے سے کرد جنگجوؤں کا انخلا ہے۔ ترکی سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بن علی یلدرم نے کہا کہ اس کارروائی کا مقصد شام کے اندر 30 کلومیٹر گہرا 'محفوظ زون' قائم کرنا ہے۔ ترکی شام کے علاقے عفرین سے کرد جنگجوؤں کا انخلا چاہتا ہے جو کہ سنہ 2012 سے کردوں کے کنٹرول میں ہے۔ ترکی نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شام میں کرد ملیشیا وائی پی جی کی پشت پناہی بند کرے۔ text: بائیس سالہ گریش کمار کو سترہ اگست کو حیدرآباد سےاغوا کیا گیا تھا،بدھ کو دو افراد کے گرفتار ہونے کے بعد ان کے قتل ہونےکا انکشاف ہوا۔ گرفتار ملزم شاہد نے پولیس کو بتایا تھا کہ اس کے بھائی طاہر نےگریش کو اغوا کرنے کے بعد کاٹ دیا اور لاش کو جلا کر دفن کردیا۔ سسپال داس نے بی بی سی کو بتایا کہ انہوں نےگریش کے لاپتہ ہونے کے بعد ملک بھر کے لوگ آزمائے، پاکستان کی کوئی ایجنسی نہیں چھوڑی، ایوان صدر تک پہنچے مگر اس کا صلہ یہ ملا کہ انہیں بیٹے کی لاش دی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ اس عرصے میں ملزمان نے ان سے رابطہ کیا تھا اور پیسے مانگے انہوں نے ان سے پوچھا یہ پیسے کس کو دیئے جائیں ، کوئی آدمی سامنے آئےگا تو پیسے دیں گے یا بیچ میں کوئی آدمی لایا جائے۔ سسپال ملزمان سے یہ مطالبہ کرتے رہے کہ ان کی گریش سے بات کروائی جائے مگر ملزماں نے ان کی یہ خواہش پوری نہیں کی۔ سسپال داس کےمطابق ملزماں کا کہنا تھا کہ لڑکے سے بات نہیں کروائی جاسکتی کیونکہ وہ ایسی جگہ پر ہیں جہاں ٹریس ہوجائیں گے۔ سسپال داس کنری میں تجارت کرتے ہیں گریش کمار کے بچھڑنے کے بعدان کے دو بیٹے ہیں جس میں سے ایک ڈاکٹر اور دوسرا ایم بی اے کا طالب علم ہے گریش کمار الیکٹریکل انجنیئر تھے جن کی منگنی ہوچکی تھی۔ ان کے والد کے مطابق چھ ماہ کے بعد وہ بیٹے کی شادی کرنے کا سوچ رہے تھے۔سسپال داس نے بتایا کہ اس واقعے میں ملوث ملزماں کو وہ نہیں جانتے ہیں مگر اس وقت جو حقائق سامنے آئے ہیں ان سے یہ معلوم ہوا کہ کنری میں حزب المجاہدین کا ایک آدمی اس سازش میں شامل ہے۔ان کے مطابق بس جہادی تنظیم کا آدمی ہے، جہاد کے نام پر ہندو کو قتل کرو۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں صرف ہندو ہونے کی وجہ سے ٹارگیٹ بنایا گیا ہے ان کا اور کوئی مقصد نہیں تھا۔ ہم کاروباری لوگ ہیں صبح کو آنا شام کو گہر جانا اس کے علاوہ کوئی سرگرمی نہیں تھی۔ سسپال داس نے بتایا کہ وہ انصاف کے لیے لڑیں گے اور انہیں عدالتوں سے توقع رکھتے ہیں کہ ان سے انصاف کیا جائےگا۔ دوسری جانب گریش کمار کی لاش کے ٹکڑے ورثا کے حوالے کردیئےگئے ہیں۔ عمرکوٹ کے شہر کنری میں ان کی آخری رسومات ادا کی جائیں گی، مزید تصدیق کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے لاہور بھیج دیئے گئے ہیں۔ کوٹڑی پولیس نےجمعرات کوگرفتار ملزماں خادم حسین اور شاہد حسین منہاس کو ریمانڈ کے لیے حیدرآباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کر کے سات روز کا ریمانڈ حاصل کیا۔ خادم حسین کا گریش کمار کے قتل اور اغوا کےمقدمے میں جبکہ شاہد حسین کا پولیس پر حملے اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں سات روز کا ریمانڈ حاصل کیا گیا ہے۔ حیدرآباد سے اغوا کے بعد بیدردی سے قتل کئےگئے ہندو انجنیئر گریش کمار کے والد سسپال داس نے حکومت سے انصاف کا مطالبہ کیا ہے،ان کا کہنا ہے کہ اقلیتی بغیر تحفظ کے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ان کی کوئی سننے والا نہیں ہے۔ text: ججوں کی بحالی کے طریقۂ کار پر اختلافات کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) نے حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی تھی لیکن انہوں نے جہاں حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا وہاں حکومتی اتحاد میں بھی شامل رہنے کا بھی اعلان کیا تھا۔ تیرہ مئی کو مسلم لیگ کے وزراء کے مستعفی ہونے کے بعد چار جماعتی حکومتی اتحاد کی دونوں بڑی جماعتوں کے سربراہوں کی پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔ اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس میں ہونے والی اس ملاقات میں دونوں جماعتوں کے بعض سرکردہ رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کی کوشش ہوگی کہ وہ مسلم لیگ (ن) کو دوبارہ حکومت میں شامل کرنے کی کوشش کریں۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) ججوں کی بحالی کے بغیر ایسا کرنا سیاسی طور پر خود کشی کے مترادف سمجھتی ہے۔ ججوں کی بحالی پر ایک دوسرے سے دور ہونے کے بعد دوبارہ قربت کی ایک وجہ آصف علی زرداری کے صدر پرویز مشرف سے پیدا ہونے والے شدید اختلافات بتائے جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف پہلے دن سے صدر مشرف کو فوری طور پر ہٹانے کی بات کرتے رہے ہیں لیکن آصف علی زرداری اس معاملے پر فوری کارروائی سے گریز کرتے رہے۔ لیکن اب آصف علی زرداری نے بھی صدر مشرف کے جلد چلے جانے کا موقف اختیار کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس میں آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ ’پیپلز پارٹی نے کبھی بھی صدر مشرف کو آئینی صدر تسلیم نہیں کیا اور ہم چاہتے ہیں کہ صدر مشرف خود چلے جائیں بجائے اس کے کہ ان کا احتساب کیا جائے۔‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کے درمیان منگل کو پنجاب ہاؤس میں ملاقات میں ججوں کی بحالی اور آئینی پیکج کے پر بات چیت ہوئی۔ text: یہ بات روس کے وزیر خارجہ سرگے لاوروف نے پریس کانفرنس میں کہی۔ تاہم روسی وزیر خارجہ نے یہ نام نہیں لیا کہ آیا کون سی غیر ملکی خفیہ ایجنسی ملوث ہے۔ ’میرا ماننا ہے کہ کیمیائی ہتھیار یا کلورین کا ثبوت نہیں ملے گا۔ ہمارے ماہرین کو ایک ثبوت بھی نہیں ملا۔ ہمارے پاس ناقابل تردید ڈیٹا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوما کا واقعہ سٹیج کیا گیا تھا اور اس کو سٹیج کرنے میں اس ملک کی سپیشل سروسز ملوث تھیں جو روس مخالف مہم میں پیش پیش ہے۔‘ ’دوما میں شامی حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے‘ ڈبلیو ایچ او کا مشرقی دوما تک رسائی کا مطالبہ روسی وزیر خارجہ سرگے لاوروف نے پریس کانفرنس میں امید ظاہر کی کہ لیبیا اور عراق جیسی مہم جوئی شام میں نہیں کی جائے گی۔ ’خدانخواستہ شام میں عراق اور لیبیا جیسی مہم جوئی نہیں کی جائے گی۔‘ انھوں نے کہا کہ شام کے حوالے سے آخری مہلت یا دھمکیوں سے مذاکرات میں مدد نہیں ملے گی۔ اس سے قبل روس نے متنبہ کیا تھا کہ اگر امریکہ نے شام میں مبینہ کیمیائی حملے کے جواب میں فضائی حملے کیے تو دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہو سکتی ہے۔ اقوام متحدہ میں روس کے سفیر وسیلی نیبنزیا نے جمعرات کو کہا کہ ’اس وقت فوری ترجیح جنگ کا خطرہ ٹالنا ہے۔‘ انھوں نے واشنگٹن پر عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے کا الزام لگایا اور کہا کہ اس وقت صورتحال انتہائی خطرناک ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ مغربی ممالک شام میں کارروائی کی تیاری کر رہے ہیں اور روس ایسی کارروائی کی مخالفت کرتا ہے۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے بند کمرہ اجلاس میں شرکت کے بعد وسیلی نیبنزیا نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بدقسمتی سے ہم کسی بھی امکان کو رد نہیں کر سکتے‘۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس ’کیمیائی حملے‘ کے ردِعمل پر غور کر رہے ہیں۔ ادھر برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کابینہ کے وزیروں نے ’کیمیائی ہتھیاروں کے مزید استعمال کو روکنے کے لیے شام میں کارروائی کرنے کی ضرورت‘ پر اتفاق کیا ہے۔ ٹریزا مے نے جمعرات کی رات امریکی صدر سے بات کی اور اس بات پر اتفاق کیا کہ شام کے معاملے پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے قبل فرانس کے صدر ایمینوئل میخواں نے جمعرات کو کہا تھا کہ فرانس کے پاس شواہد ہیں کہ شام کے شہر دوما میں گذشتہ ہفتے کیمیائی ہتھیار یا کم از کم کلورین کا استعمال کیا گیا ہے اور یہ ہتھیار بشار الاسد کی حکومت نے استعمال کیے ہیں۔ مقامی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے فرانسیسی صدر نے کہا کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں ہونے والی فوجی کارروائی میں ترجیحات پر توجہ دیں گے اور خطے کے استحکام کو برقرار رکھیں گے۔ 'فرانس کبھی بھی صورت حال کو مزید کشیدہ ہونے نہیں دے گا یا کچھ ایسا ہونے نہیں دیں گے جس سے خطے کا استحکام خطرے میں پڑے، لیکن ہم اس طرح کی حکومتوں کو ان کی من مانی نہیں کرنے دیں گے جن میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی شامل ہے۔' روس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ دوما میں ہونے والے مبینہ کیمیائی حملے کا ڈراما غیر ملکی خفیہ ایجنسی کی مدد سے رچایا گیا۔ text: سر رچرڈ برینسن کا یہ خلائی طیارہ مسافروں کو آواز کی رفتار سے چار گنا تیزی کے ساتھ زمین سے خلا میں لے جاتا ہے۔ یہ کوئی عام روائتی طیارہ نہیں جہاں دراز قد گوری چمڑی والی فضائی میزبان، بلاک بسٹر مووی یا پرواز سے قبل جن یا کوئی ٹانک ملے۔لیکن یہ خلائی طیارہ طیاروں کی ٹیکنالوجی میں جدید ترین ہے۔ اب آپ بس بیٹھ جائیں، حفاظتی بند باندھ لیں اور انٹرٹینمینٹ کا انتظار کریں۔ اس طیارے میں اپنی نشست بک کروانے کے لیے دس ہزار پاؤنڈ جمع کرانے سے قبل اگر کوئی چاہے تو خلائی سفر کی جھلک بھی دیکھ سکتا ہے۔ نیو یارک کی آئندہ منعقد ہونے والی ٹیکنولوجی نمائش دیکھنے والوں کو اس طیارے کو اندر سے دیکھنے کے لیے مدعو بھی کیا گیا ہے تاکہ وہ خود دیکھ سکیں کہ آخر یہ چرچا یا ہنگامہ کیا ہے۔ طیارے کے اندر ایک فلیٹ سکرین ٹی وی پر دل لبھانے والے خلائی سفر کے بارے میں فلم بھی دکھائی جاتی ہے۔ خمیدہ پشت آرام دہ نشست پر بیٹھتے ہیں نظریں طیارے کی کھڑکیوں کی طرف اٹھتی ہیں۔ یہ نشستیں چھت اور کنارے سے اس طرح جڑی ہیں کہ مسافروں کو حیران کن اور وسیع ترین مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ اندر سے تنگ برینسن کے اس خلائی طیارے میں چھ خوش نصیب مسافروں اور عملے کے دو افراد کی نشستیں ہیں۔ آپ کو خلائی سفر میں اس وقت حیرانی ہوسکتی ہے جب ڈیوٹی فری ٹرالی نظر آئے۔ ڈھائی گھنٹے کی اس خلائی پرواز کے دوران مسافر حفاظتی بند کھول کر قلابازیاں کھاسکتے ہیں اور خلا سے زمین کا منظر دیکھنے اور تصاویر بھی بناسکتے ہیں۔ خلائی سفر خاصا دشوار گزار ہے لیکن اس طیارے کی انتظامیہ ہر طرح کی یقین دہانی کرواتی ہے۔ سر رچرڈ اور برینسن کے اہل خانہ کے بعض افراد نے خلائی سفر کے لیے اپنی نشستیں بھی بک کروا رکھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’گیلیکٹیک‘ کی ٹیکنالوجی سے ایک دن سڈنی تک کا سفر آدھے گھنٹے میں طئے کیا جاسکے گا۔ ’ورجن گیلیکٹک‘ دنیا کا پہلا تجارتی خلائی طیارہ ہے جس میں اب کوئی بھی شخص ایک لاکھ برطانوی پاؤنڈ ادا کرکے خلائی سفر کر سکتا ہے۔ text: مشرقی غوطہ کے ایک علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد شامی سکیورٹی اہلکار گشت کر رہی ہیں مشرقی غوطہ میں حکومت افواج کی بمباری کی وجہ سے 16 ہزار افراد نکلیں ہیں۔ اس علاقے حکومتی افواج باغیوں پر بمباری کر رہی ہیں۔ شام کے شمالی قصبے عفرین سے بھاگنے والے 30,000 افراد میں سے 18 افراد ترکی کی جانب سے کی جانے والی شیلنگ کی زد میں آ کر مارے گئے۔ مشرقی غوطہ میں حکومت افواج نے دوبارہ شدید بمباری شروع کی ہے جبکہ اطلاعات کے مطابق حکومت نے 70 فیصد علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ غوطہ میں جمعے کو روس کے فضائی حملوں میں اطلاعات کے مطابق 31 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ بھی پڑھیے شام میں خانہ جنگی، ’انسانی المیے‘ کے سات برس مکمل شامی فوج کی کارروائی، مشرقی غوطہ’تین حصوں میں تقسیم‘ بمباری کا نشانہ مشرقی غوطہ برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم سیرئین آبزرویٹری نے جمعے کو غوطہ کے مشرقی صوبے میں ہلاکتوں کی اطلاع دی ہے۔ سیرین آبزرویٹری کے مطابق جمعرات کو بھی 20,000 شہری باغیوں کے زیر انتظام علاقوں سے بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق حکومتی فورسز نے تین ہفتوں کی شدید لڑائی کے بعد تقریباً 70 فیصد علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور اس دوران ہونے والی کارروائیوں میں 900 سے زیادہ شہری مارے جا چکے ہیں۔ غوطہ کا شمار ان چند علاقوں میں ہوتا ہے جہاں باغیوں کی اکثریت ہے اور اس علاقے کو سنہ 2013 سے شامی افواج نے محصور کیا ہوا ہے۔ فورسز نے گذشتہ ماہ مشرقی غوطہ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کے لیے کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ اگرچہ یہ علاقہ باغی فورسز کے کنٹرول میں ہے تاہم وہاں سے عام شہریوں کے انخلا کے حوالے سے مذاکرات میں تھوڑی بہت کامیابی ہوئی ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ بدھ کی صبح 25 ایسے خاندانوں کو کامیابی سے حکومتی چیک پوائنٹ کے راستے نکال لیا گیا ہے جنھیں طبی امداد کی ضرورت تھی۔ اس سے قبل منگل کو 31 خاندانوں کو وہاں سے نکالا گیا تھا۔ مشرقی غوطہ میں موجود باغیوں کا تعلق کسی ایک گروہ سے نہیں بلکہ یہ کئی چھوٹے گروہ ہیں جن میں جہادی بھی شامل ہیں۔ یہ گروہ آپس میں بھی لڑ رہے ہیں اور اس کا فائدہ شامی حکومت کو ہوا ہے۔ شام میں جاری جنگ کے سات سال مکمل ہونے کے موقعے پر پناہ گزینوں کے امور سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے نے گذشتہ روز اسے ایک انتہائی شدید انسانی المیے کے طور پر بیان کیا ہے۔ اقوام محتدہ کے مطابق ان سات سالوں میں تقریباً پانچ لاکھ شامی ہلاک ہو چکے ہیں اور تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ افراد اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف مارچ سنہ 2011 سے شروع ہونے والی بغاوت کے نتیجے میں اب تک چار لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ حالیہ کچھ دنوں میں شام میں لڑائی زدہ علاقے مشرقی غوطہ اور عفرین سے 60 ہزار افراد اپنی جان بچانے کے لیے نکلے ہیں۔ text: اس دورے میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان جاوید برکی تھے۔ پاکستانی ٹیم پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز چار صفر سے بُری طرح ہار گئی تھی۔ کھلاڑیوں کی غیرتسلی بخش کارکردگی اور فاسٹ بولرز کا ان فٹ ہوجانا شکست کے عمومی اسباب کے طور پر بیان کیے گئے لیکن اس دورے سے قبل کچھ ایسی باتیں ہوچکی تھیں جو اس دورے میں ٹیم کی کارکردگی کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ سنہ 1961 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم جب انڈیا کے دورے سے واپس آئی تو ٹیم کے مینیجر ڈاکٹر جہانگیر خان کی رپورٹ سامنے آئی جس میں کپتان فضل محمود کا ذکر اچھے الفاظ میں نہیں تھا۔ یہ بھی پڑھیے ’سعید انور کی اوسط جے سوریا، تندولکر سے بھی زیادہ تھی‘ کیا وسیم اکرم تاحیات پابندی کے ہی مستحق تھے؟ سبائنا پارک 1976: جب ویسٹ انڈیز نے سنیل گواسکر کو ’باڈی لائن‘ بولنگ کروائی بولر گیند کو تھوک نہ لگائے گا تو کیا کرے گا؟ 1962 میں انگلینڈ کے دورے پر جانے والی پاکستانی کرکٹ ٹیم۔ جاوید برکی کو پچھلی قطار کے وسط میں دیکھا جا سکتا ہے اسی سال جب انگلینڈ کی ٹیم ٹیڈ ڈیکسٹر کی قیادت میں پاکستان آئی تو پاکستان کرکٹ بورڈ نے امتیاز احمد کو قیادت سونپ دی۔ لیکن جب انگلینڈ کے دورے کا وقت قریب آیا تو حیران کن طور پر سینیئر کرکٹر حنیف محمد اور امتیاز احمد کی موجودگی میں قرعہ فال جاوید برکی کے نام نکلا جو 24 سال کی عمر میں ایک نوجوان کرکٹر تھے اور انھوں نے صرف آٹھ ٹیسٹ میچ کھیل رکھے تھے۔ جاوید برکی نے اپنے ایک انٹرویو میں کپتان بنائے جانے کے بارے میں کہا تھا کہ امتیاز احمد، حنیف محمد اور انھیں پاکستان کرکٹ بورڈ نے میٹنگ کے لیے بلایا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ سلیکشن کمیٹی کے تقریباً تمام ارکان سینیئر بیوروکریٹس تھے جنھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ٹیم کی قیادت کریں گے چونکہ وہ خود ایک جونیئر سِول سرونٹ تھے لہذا ان کے لیے انکار کرنا ممکن نہ تھا۔ انھوں نے اپنے کپتان بنائے جانے کے بارے میں یہ جواز بھی پیش کیا تھا کہ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی طرف سے کھیل رہے تھے لہذا پاکستان کرکٹ بورڈ کا خیال تھا کہ ان کا یہ تجربہ ٹیم کے کام آئے گا۔ جاوید برکی کے والد لیفٹیننٹ جنرل واجد علی برکی سابق صدر ایوب خان کے قابل اعتماد ساتھی تھے۔ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ جن تین فوجی جرنیلوں نے صدر سکندر مرزا سے پہلے سے تیار کردہ استعفے پر دستخط کرائے تھے ان میں جنرل واجد علی برکی بھی شامل تھے۔ اعلیٰ سطحی فون کال پر کپتانی؟ فضل محمود نے اپنی کتاب ’فرام ڈسک ٹو ڈان‘ میں جاوید برکی کو کپتانی دیے جانے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ اوپر سے آئے ہوئے احکامات کے سبب جاوید برکی کو کپتانی سونپی گئی تھی۔ فضل محمود کی کتاب ’فرام ڈسک ٹو ڈان‘ فضل محمود اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’ایک دن وہ اپنے دفتر میں بیٹھے تھے کہ ایک فون کال آئی۔ آپریٹر نے کہا کہ فضل صاحب میں آپ کو یہ گفتگو سنوا رہا ہوں لیکن آپ خاموشی سے سنیے گا، کچھ نہیں بولیے گا، ورنہ میری نوکری چلی جائے گی۔‘ فضل محمود لکھتے ہیں کہ ’اس کے بعد اس شخص نے مجھے جو ٹیلی فونک گفتگو سنوائی وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی ایڈہاک کمیٹی کے اُس وقت کے سربراہ جسٹس اے آر کارنیلیئس اور کسی اعلیٰ افسر کے درمیان تھی۔ اس میں وہ اعلیٰ افسر جسٹس کارنیلیئس سے کہہ رہے تھے ہم جس کے بارے میں کہہ رہے ہیں آپ نے اسے پاکستانی ٹیم کا کپتان بنانا ہے۔ ’جسٹس کارنیلیئس کا جواب تھا: سر آپ فکر نہ کریں۔‘ ’آواز آئی۔ فضل محمود کا کیا ہوگا؟ جواب دیا گیا اس کا ہم خیال رکھ لیں گے۔‘ فضل محمود نے اپنی کتاب میں مزید لکھا ہے یہ گفتگو سن کر ان کا خون کھول اٹھا تھا اور وہ کئی راتوں تک نہ سو سکے۔ فضل محمود نے لکھا ہے کہ جب انگلینڈ کے دورے میں پاکستانی ٹیم پے درپے شکست سے دوچار ہوئی تو پورے ملک میں انھیں انگلینڈ بھیجنے کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ اخبارات میں کالم اور مضامین لکھے گئے۔ پہلے تو کرکٹ بورڈ نے اس پر توجہ نہ دی لیکن پھر ایک دن انھیں پیغام ملا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ جسٹس کارنیلیئس ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ تو وہ ان سے سپریم کورٹ میں ان کے چیمبر میں ملے۔ جسٹس کارنیلیئس اس وقت پاکستان کے چیف جسٹس بھی تھے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے آر کارنیلیئس کو عام طور پر ایک اصول پسند شخص کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے فضل محمود کے مطابق جسٹس کارنیلیئس نے جب ان سے کہا کہ آپ انگلینڈ جاکر ٹیم میں شامل ہو جائیں تو وہ حیران رہ گئے کیونکہ انھوں نے ہی اعلیٰ حکام کو انھیں کرکٹ سے دور رکھنے کے بارے میں یقین دہانی کرائی تھی اور اب وہ ان سے ٹیم میں شامل ہونے کی درخواست کر رہے تھے۔ فضل محمود نے لکھا ہے کہ ’انھوں نے جواب دیا کہ وہ پریکٹس میں نہیں ہیں لہذا ان کے لیے یہ ممکن نہیں۔ جسٹس کارنیلیئس بہت شرمندہ تھے اور انھوں نے ان سے معذرت بھی کی اور کہا کہ پاکستانی ٹیم کو آپ ہزیمت سے بچالیں۔‘ فضل محمود نے اپنی کتاب میں جسٹس کارنیلیئس کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا ہے وہ اس لیے بھی حیران کن ہے کہ جسٹس کارنیلیئس کو عام طور پر ایک اصول پسند شخص کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ انگلینڈ کے دورے میں کیا ہوا؟ فضل محمود نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ چوتھے ٹیسٹ میچ سے چند روز پہلے انگلینڈ پہنچے تھے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ پاکستانی ٹیم لگاتار تین ٹیسٹ ہارچکی تھی تاہم جاوید برکی کا ان کے ساتھ رویہ اچھا نہ تھا۔ فضل محمود کہتے ہیں کہ ٹرینٹ برج کے چوتھے ٹیسٹ میں انھوں نے 60 اوور تک طویل بولنگ سپیل کیا اور 130 رنز دے کر تین وکٹیں حاصل کیں، لیکن جب بھی انھوں نے جاوید برکی سے اپنی پسند کی فیلڈ سیٹ کرنے کے لیے کہا انھوں نے انکار کر دیا۔ جاوید برکی دوسری جانب جاوید برکی نے اپنے ایک انٹرویو میں فضل محمود کو انگلینڈ بھیجے جانے کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ٹیم مینجمنٹ تیز بولر بشیر حیدر کو انگلینڈ بلانا چاہتی تھی۔ ’لیکن فضل محمود کو بھیج دیا گیا جو اس وقت تک اپنا اثر کھو چکے تھے۔‘ جاوید برکی نے اس انٹرویو میں فضل محمود کے لیے سلو میڈیم لیگ سپنر کا لفظ استعمال کیا تھا۔ فضل محمود نے اوول کے پانچویں اور آخری ٹیسٹ میں 49 اوور کیے اور 192 رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کیں۔ یہ وہی اوول گراؤنڈ تھا جہاں انھوں نے 1954 کے ٹیسٹ میں بارہ وکٹیں لے کر پاکستان کو تاریخی جیت سے ہمکنار کیا تھا۔ لیکن اس وقت کے اور اب کے فضل محمود میں واضح فرق آچکا تھا۔ اس بار نہ پاکستان جیتا اور نہ ہی اوول کی بالکونی کے نیچے شائقین جمع ہوئے جن کے پُرجوش نعروں کا فضل محمود ہاتھ ہلا کر جواب دیتے۔ اس طرح فضل محمود خاموشی کے ساتھ کرکٹ کی دنیا کو الوداع کہہ گئے۔ سنہ 1962 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورۂ انگلینڈ کو کارکردگی کے اعتبار سے پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کے انتہائی مایوس کن دورے کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ text: بچوں اور خواتین سمیت لوگوں کی بڑی تعداد گاڑیوں کی کمی کی وجہ سے پیدل نقل مکانی کر رہی ہے پولٹیکل انتظامیہ کے ایک اہلکار گل رحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ منگل کو ماموند قبائل کے ایک گرینڈ جرگے نے پولیٹکل ایجنٹ جبار شاہ اور بریگیڈیر حیدر کے ساتھ ملاقات کی جو کامیاب ہوئی۔ ان کے مطابق جرگے میں شریک عمائدین علاقے نے سکیورٹی فورسز اور پولٹیکل انتظامیہ کو باور کرایا ہے کہ قبائلی جرگہ فورسز کے ساتھ مکمل تعاون کرے گا اور فورسز کے ساتھ مل کر شدت پسندوں کے خلاف لشکر کشی کرےگی۔ جرگے میں شریک ایک مقامی شخص نے بتایا کہ جرگے میں علاقے کے علما سمیت عمائدین کی بڑی تعداد شامل تھی جس نے پولٹیکل انتظامیہ اور فوجی حکام کو یقین دلایا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں کسی دہشت گرد کو پناہ نہیں دیں گے۔ قبائلی جرگے نے یہ ضمانت دی ہے کہ اگر کسی قبائلی نے دہشت گرد کو پناہ دی تو ان کے گھروں کو جلانے کے ساتھ ساتھ انہیں علاقہ بدر کیا جائے گا اور علاقے کے لوگ فوج کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔ قبائلی جرگے کے کامیاب مذاکرات کے بعد پولٹیکل انتظامیہ اور سیکورٹی فورسز کے اعلی حکام نے نقل مکانی کرنے والے لوگوں کو واپس اپنے گھروں کو انے کی اجازت دے دی ہے۔ تحصیل ماموند کے تین بڑے دیہات نختر، غاخے اور کٹکو کے رہائشیوں کو سیکورٹی فورسز کی طرف سے منگل کی شام چار بجے تک علاقے خالی کرنے کا حکم دیا گیا تھا جس کے بعد ان دیہات سے تقریبا 70 فیصد لوگ نقل مکانی کر کے محفوظ مقامات پر منتقل ہوچکے تھے۔ تاہم کامیاب مذاکرات کے بعد فوج کے اعلی حکام نے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کو علاقے میں واپس آنے کی اجازت دی ہیں تاہم نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کے واپسی کا سلسلہ تا حال شروع نہیں ہوا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اب تک چھ سو سے زائد خاندان علاقہ چھوڑ چکے ہیں۔ ادھر پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نے افغانستان کے صوبے کنڑ اور نورستان میں پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں۔ باجوڑ ایجنسی کے علاقے تحصیل ماموند کے تین گاؤں نختر، غاخے اور کٹکو کے رہائشیوں کو سیکورٹی فورسز کی جانب سے پیر کی شام چھ بجے تک علاقے خالی کرنے کا حکم دیا گیا تھا جس کے بعد وہاں سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کی تھی جو تا حال جاری ہے تحریک طالبان کے سربراہ ملا فضل کے خلاف افغانستان میں کارروائی کے لیے اقوام متحدہ یا امریکہ سے اجازت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا: ’ کہ سفارتی سطح پر ایسی آپشنز موجود ہوتی ہیں لیکن اس کا فیصلہ حکومت کو کرنا ہے۔ ‘ باجوڑ کنٹرول روم کے ایک اہلکار گل رحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ مذکورہ علاقے پاک افغان سرحد پر واقع ہیں اور دو دن قبل غاخی پاس کے علاقے میں سکیورٹی فورسز پر ہونے حملے میں تین اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔ خیال رہے کہ دو دن قبل افغانستان کی سرحد کی جانب سے آنے والے سے درجنوں مسلح شدت پسندوں نے رات کی تاریکی میں ماموند کے علاقے میں قائم پاکستانی سکیورٹی چیک پوسٹوں پر بھاری اور خودکار ہتھیاروں سے حملہ کیا تھا جس میں تین اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہو گئے تھے۔ ہلاک ہونے والے اہلکاروں میں ایک فوجی کیپٹن بھی شامل تھا۔ باجوڑ ایجنسی میں سرحد پار افغانستان کے صوبے کنڑ سے ہونے والا یہ پہلا حملہ نہیں ہے۔ اس سے قبل باجوڑ سمیت دیر اور چترال میں بھی افغانستان کے علاقوں سے متعدد حملے ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ سرحد پار افغانی علاقوں سے پاکستانی سرزمین پر حملوں کا سلسلہ گذشتہ دو سالوں سے جاری ہے۔ باجوڑ ایجسنی فاٹا کے انتہائی شمال میں واقع ہے اور رقبے کے اعتبار سے سب سے چھوٹی ایجنسی ہے۔ اس کا کل رقبہ 1290 مربع کلومیٹر ہے۔ سنہ 1988 کی مردم شماری کے مطابق باجوڑ ایجنسی کی کل آبادی 5,95,227 افراد پر مشتمل تھی۔ باجوڑ ایجنسی مہمند، مالاکنڈ اور دیر سے ملحقہ ہے، جبکہ ہمسایہ ملک افغانستان کے صوبے کنڑ اور باجوڑ ایجنسی کی 52 مربع کلومیٹر سرحد مشترک ہے۔ بعض اطلات کے مطابق کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ مبینہ طور پر افغانستان کے صوبے کنڑ میں روپوش ہیں تاہم طالبان ذرائع اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ دوسری جانب پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے 15 جون کو شمالی وزیرستان میں شروع ہونے والی فوجی کارروائی کے بارے میں یہ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ اس کے دوران اب تک 400 سے زائد شدت پسند ہلاک ہو چکے ہیں، تاہم عسکری حکام نے تصدیق کی ہے کہ متعدد شدت پسند علاقے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں ماموند قبائل اور سیکورٹی حکام کے درمیان ہونے والےگرینڈ جرگے کے بعد سیکورٹی فورسز نے علاقے میں شدت پسندوں کے خلاف ہونے والے سرچ اور ٹارگٹڈ آپریشن ملتوی کردیا ہے۔ text: ڈاکٹر سرکی اور اُن کا خاندان امریکی شہریت رکھتے ہے اور پچھلے پندرہ برس سے امریکہ میں مقیم ہیں ۔ ڈاکٹر سرکی کی اہلیہ پارس سرکی کا الزام ہے کہ اُن کے شوہر کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کراچی میں اُن کی عارضی رہائشگاہ سے زبردستی اُٹھا کر لے گئے اور اندیشہ ہے کہ اُن پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں حکام ان الزامات سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صفدر ان کے پاس نہیں ۔ حالیہ مہینوں میں انسانی حقوق کے اداروں اور ذرائع ابلاغ نے پاکستان میں ڈاکٹر سرکی کی طرح پرسرار طور پر لاپتہ ہوجانے والے صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کی بازیابی کے لیئے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ لاپتہ افراد کے گھر والوں کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ پارس سرکی اور ان کےدو بچے پندرہ برس کے الاہی اور دس سالہا گینم ریاست ٹیکساس میں رہتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی مالی مشکلات کے باوجود گزشتہ ہفتے اپنے احساسِِ بے بسی سے تنگ آ کر انہوں نے مجبوراً امریکی دارالحکومت واشنگٹن کا رخ کیا۔ یہاں ان کی سینیئر وکلاء کے علاوہ امریکی محکمہء خارجہ اور کانگریس کے ارکان کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں ۔ پارس سرکی کا کہنا ہے کہ امریکی حکام نے ان کی درخواست ہمدردی سے سنی اوریہ معاملہ پاکستانی حکومت کے ساتھ اٹھانے کی یقین دہانی کرائی ۔ شیلا جیکسن جو کہ عام طور پر پاکستان کی حامی رکن کانگریس سمجھی جاتی ہیں نے اس موقع پر پاکستانی سفیر پر زور دیا کہ ڈاکٹر سرکی کی جلد بازیابی کے لیئے کوششیں کی جائیں۔ سفیرمحمود علی درانی نے اس معاملے سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے پارس سرکی کو یقین دلایا کہ وہ اسلام آباد جا رہے ہیں ، معاملے کی چھان بین کرائیں گے اور ضرورت پڑی تو صدر مشرف سے بھی اس پر بات کریں گے ۔ ایک ایسے وقت میں جب صدرجنرل مشرف اور بش انتظامیہ کے درمیان حالیہ برسوں کی گرمجوشی پھیکی پڑتی معلوم ہوتی ہے، واشنگٹن میں آئے دن پاکستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا ذکر حکومت پاکستان کے لیئے کوئی نیک شگون نہیں ۔ پاکستانی حکام اکثر یہ شکایت کرتے سنے جاتے ہیں کہ ’ہمارے ملک میں بڑی بڑی مثبت چیزیں ہورہی ہیں لیکن باہر کی دنیا میں ہمارا امیج کیوں بہتر نہیں ہورہا۔۔۔‘ ذرا پارس سرکی جیسی پریشان حال خاتون کو اپنے دو بچوں کے ہمراہ امریکی اقتدار کے ایوانوں کے چکر کاٹتے دیکھیں تو اس سوال کا جواب سمجھنے میں شاید زیادہ دقت نہ ہو۔ پاکستان میں پچھلے چار ماہ سے لاپتہ سندھی قوم پرست رہنما ڈاکٹر صفدر سرکی کی اہلیہ اور بچوں نے اعلیٰ امریکی حکام سے اُن کی بازیابی کی اپیل کی ہے۔ text: عمران خان نے نواز شریف سے مستعفی ہونے اور وسط مدتی انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا ہے اگر یہ مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو حکومت عمران خان کو 14 اگست کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی اجازت دے دے گی۔ ’عمران خان ایک کیفیت کا نام ہے‘ ’حکومت کو جمہوری طریقہ اپنانا چاہیے‘ اس مذاکراتی عمل میں شامل جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے جمعے کو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہا کہ انھوں نے عمران خان کے مطالبات حکومت تک پہنچا دیے ہیں اور اب وہ حکومت کا موقف حاصل کر رہے ہیں۔ ’ہم یہ نکات خورشید شاہ اور محمود خان اچکزئی کے ساتھ مشورے کے بعد عمران خان تک پہنچائیں گے۔‘ لیاقت بلوچ نے کہا کہ ان کی جماعت اور بعض دیگر سیاسی قائدین کی خواہش ہے کہ ملک انتشار کا شکار نہ ہو۔ ’ملکی سیاست میں خطرناک رجحانات آ رہے ہیں اور ہم اس صورتحال کو نارمل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں بلکہ ملک کو انتشار سے بچانے کا وقت ہے۔‘ لیاقت بلوچ نے صحافیوں کے اصرار کے باوجود عمران خان کے مطالبات یا حکومت کے جواب کی تفصیل بتانے سے انکار کیا۔ البتہ انھوں نے کہا کہ وہ پرامید ہیں کہ یہ معاملہ بات چیت سے حل ہو جائے گا۔ عمران خان نے گذشتہ برس عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف 14 اگست کو ’آزادی مارچ‘ کے نام سے اسلام آباد کی جانب جلوس لے جانے اور وہاں دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ عمران خان نے وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے اور وسط مدتی انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان ثالثی کرنے والے بعض سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے جو مطالبات ان کے ذریعے حکومت تک پہنچائے ہیں ان میں استعفے یا نئے انتخابات پر زور نہیں دیا۔ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان ثالثی کا کردار جماعت اسلامی اور بعض دیگر سیاسی جماعتیں اور اہم رہنما کر رہے ہیں۔ ان مذاکرات سے باخبر ایک سیاسی رہنما نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ عمران کے وہ مطالبات جو حکومت کے زیر غور ہیں وہ ان ’عوامی‘ مطالبات سے مختلف ہیں جو وہ اپنے کارکنوں سے خطاب میں کرتے رہے ہیں۔ نواز شریف کابینہ کے رکن وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے جمعے کی صبح ایک بیان میں کہا کہ حکومت عمران خان کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ ’ہم عمران خان کے مطالبات پر دیگر سیاسی جماعتوں سے مشورہ بھی کر رہے ہیں۔اس حساس موقعے پر عمران خان کو غیر ضروری دھول اڑانے سے گریز کرنا چاہیے۔‘ سرکاری ذرائع نے بھی عمران خان کے ان ’خفیہ‘ مطالبات پر سے پردہ نہیں اٹھایا، تاہم سعد رفیق کا کہنا تھا کہ ان شرائط یا مطالبات کی منظوری کی صورت میں عمران خان کو اپنا احتجاج پر امن رکھنے کی ضمانت دینا ہو گی۔ اسلام آباد میں ضرب عضب کے شروع ہونے کے ساتھ ہی سکیورٹی انتظامات سخت کر دیے گئے تھے ’عمران خان کو یہ ضمانت دینا پڑے گی کہ اسلام آباد سمیت ملک میں کہیں بھی سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ عمران خان کو یہ بھی ضمانت دینا ہو گی کہ ملک کا امن متاثر نہیں ہو گا۔‘ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جماعت اسلامی کے وفد سے ملاقات میں انھوں نے حکومت کی جانب سے تجاویز دی ہیں تاکہ یہ معاملہ بخیر و خوبی حل ہو سکے۔ عمران خان کے ساتھ ان مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں حکومت نے ان کے مارچ کو روکنے کے لیے صوبہ پنجاب اور اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کو حکمت عملی بنانے کا حکم دے دیا ہے جس نے پیر کے روز سے تمام عملے، بشمول پولیس ملازمین کو الرٹ رہنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ انتظامیہ نے اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے جس کے تحت پانچ یا پانچ سے زائد افراد کے اکٹھے ہونے پر پابندی ہو گی۔ عمران خان کی تحریک انصاف کو 14 اگست کے روز احتجاجی مہم شروع کرنے سے باز رکھنے کے لیے حکومت نے ان کے مطالبات پر غور شروع کر دیا ہے اور دوسری جانب مارچ کو ناکام بنانے کے لیے انتظامی فیصلے بھی کیے جا رہے ہیں۔ text: پیانگ یانگ نے گذشتہ سال بھی دو جوہری تجربات کیے تھے جن میں سے ایک کو اب تک شمالی کوریا کا اب تک کا سب سے طاقتور تجربہ کہا جا رہا ہے۔ کم جانگ اُن نے اس بات کا اعلان نئے سال کے موقع پر دیے گئے اپنے پیغام میں کیا۔ شمالی کوریا کا بیلسٹک میزائل کا تجربہ ناکام: امریکہ شمالی کوریا کا راکٹ انجن کا ’کامیاب‘ تجربہ شمالی کوریا کے رہنما نے سالِ نو کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ بین البراعظمی میزائل کی تیاری 'آخری مراحل' میں ہے۔ پیانگ یانگ نے گذشتہ سال بھی دو جوہری تجربات کیے تھے جن میں سے ایک کو اب تک شمالی کوریا کا سب سے طاقتور تجربہ کہا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعے شمالی کوریا سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے جوہری اور میزائل تجربات نہ کرے۔ شمالی کوریا کے نوجوان رہنما کم جانگ اُن نے سنہ 2011 میں اپنے والد کے مرنے کے بعد ایک ایسی ریاست کا کنٹرول سنبھبالا جس کے دنیا کے ساتھ محدود نوعیت کے تعلقات ہیں۔ کم جانگ اُن نے نئے سال کے موقع پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا ’نئی اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہتھیاروں کی تیاری میں پیش رفت ہو رہی ہے اور بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا تجربہ اپنے آخری مرحلے میں ہے۔‘ شمالی کوریا نے حال ہی میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے امریکہ تک مار کرنے کی صلاحیت رکھنے والے میزائل کی تیاری میں کامیابی حاصل کی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک سینئیر امریکی فوجی اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگرچہ شمالی کوریا بظاہر چھوٹے جوہری ہتھیار لے کر جانے والے میزائل بنانے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ تاہم طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کی ٹیکنالوجی کو حاصل کرنا شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں توسیع کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ شمالی کوریا کے رہنما کم جانگ اُن کا کہنا ہے کہ اُن کا ملک جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بین البراعظمی میزائل بنانے کے قریب ہے۔ text: یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب امریکی فوج نے بعقوبہ شہر کے قریب فوجی اڈے کے باہر ایک گاڑی پر فائر کھول دیا۔ امریکی فوج کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ مقتول افراد کی منی بس کو روکنے کی کوشش کی گئی تووہ نہیں رکی۔ عراقی پولیس کا کہنا ہے کہ اس فائرنگ سے تین بچوں سمیت دو افراد ہلاک ہو گئے جبکہ ایک بچہ زخمی ہو گیا۔ امریکی فوجی ترجمان کے مطابق تین ہلاک اور دو زخمی ہوئے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یہ خاندان اس وقت ایک جنازے میں شرکت کے لیے جا رہا تھا۔ عراق میں فوجی گاڑیوں سے سڑکوں کو بند کرکے انہیں فوجی بیس کی شکل دے دی گئی ہے۔ امریکی فوج کے میجر اسٹیو وارن نےاے ایف پی کو بتایا کہ عراقی گاڑی نہیں رکی اور اس کے بعد ہی وہ میشن گن کی گولیوں کا نشانہ بنی۔ بائیس سالہ احمد کمال جو گاڑی چلا رہا تھا اس کا کہنا ہے کہ جب گولیاں برسنی شروع ہوئیں تو اس کے پاس جوابی رد عمل کا وقت نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ’میں نے اپنے خاندان کو ایک کے بعد ایک مرتے ہوئے دیکھا۔ اس وقت گاڑی کو شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میں نے لاشوں کو گاڑی سے باہر نکالا‘۔ سنہ دوہزار تین میں امریکی اتحادی فوج کے عراق پر قبضے کے بعد متواتر ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ جب امریکی فوجی دستوں کی جانب سے شہریوں پر گولیاں برسائیں گئیں۔ امریکی فوج کا کہنا ہے کہ وہ معصوم شہریوں پر گولیاں برسانے سے گریز کے لیےحتی الامکان اقدامات اٹھاتی ہے۔ اتحادی فوج کی چیک پوسٹیں اور قافلے مزاحمت کاروں کے مسلسل حملوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ فوجی دستوں نے گاڑیوں پر عربی زبان میں خبردار کرنے والے سائن لگا رکھے ہیں جیسے دور رہیں یا گولی مارے جانے کا خطرہ۔ عراق کی پولیس کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کی فائرنگ سے ایک ہی خاندان کے پانچ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ text: اس اشتہار کے ذریعے ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے: شہباز شریف یہ بات الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ کے روبرو شہباز شریف کی اس درخواست کی سماعت کے دوران بتائی جس میں انہوں نے اپنے خلاف پیپلز پارٹی کی اشتہاری مہم کو چیلنج کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے تحریری طور پر فل بینچ کو بتایا کہ درخواست گزار شہباز شریف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف منفی اشتہاری مہم پر پیمرا سے وضاحت بھی طلب کی گئی اور یہ ہدایت کی کہ ٹی وی چینلز پر سیاسی جماعتوں اور سیاسی شخضیات کے بارے میں منفی اشتہارات نشر نہ کیے جائیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے الیکشن کمیشن کے تحریری جواب کی روشنی میں درخواست نمٹا دی اور قرار دیا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے اس معاملے پر نوٹس لینے کے بعد اب عدالت کی کارروائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ شہباز شریف نےدرخواست میں یہ موقف اختیار کیا کہ پیپلز پارٹی کی طرف مختلف ٹی وی چینلز پر ان کی ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ملک محمد قیوم کی ساتھ مبینہ ٹیلی فوننگ گفتگو پر مبنی اشتہار نشر کیا جا رہا ہے اور اس اشتہار کے ذریعے ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ ہائی کورٹ کے فل بینچ کے سامنے پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کی طرف سے بیرسٹر اعتراز احسن پیش ہوئے جبکہ سردار لطیف کھوسہ نے پیپلز پارٹی کی جانب سے پیروی کی۔ نامہ نگار عبادالحق کے مطابق بیرسٹر اعتزاز احسن نے بتایا کہ اشتہار میں شہباز شریف اور ملک قیوم کی جو گفتگو نشر کی جا رہی ہے یہ وہی گفتگو ہے جس کی ٹیپ دو ہزار ایک میں سپریم کورٹ کے روبرو پیش کی گئی تھی اور کسی نے بھی اس کی تردید نہیں کی۔ پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے وکیل نے کہا کہ شہباز شریف کی اس گفتگو کی ٹیپ سامنے آنے کے بعد اعلیٰ عدلیہ کے دو ججوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اعتزاز احسن نے یہ اعتراض اٹھایا کہ شہباز شریف کی درخواست ناقابل سماعت ہے۔ درخواست میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ اس طرح اشتہارات انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہیں اس لیے ان کو روکا جائے۔ پاکستان الیکشن کمیشن نے انتخابی مہم کے دوران سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے خلاف منفی اشتہاری مہم چلانے کا نوٹس لیتے ہوئے الیکٹرنک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی یعنی پیمرا کو ایسے اشتہار نشر کرنے سے روکنے کا حکم دیا ہے۔ text: میرلن سیموئلز پشاور زلمی کی فاتح ٹیم کا حصہ تھے 36 سالہ سیموئلز پاکستان سپر لیگ یعنی پی ایس ایل کا فائنل کھیلنے کے لیے لاہور آئے تھے جہاں انھوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا۔ ٭ ڈیرن سیمی پشاور زلمی کے کپتان مقرر ٭ پشاور زلمی کو افغانستان کے دورے کی دعوت ٭ ’پشاور زلمی کے غیرملکی کھلاڑی لاہور جانے کو تیار‘ واضح رہے کہ سیموئلز پی ایس ایل میں پشاور زلمی کی نمائندگی کر رہے تھے اور لاہور ہونے والے فائنل میں اسی ٹیم نے پی ایس ایل کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ اس کے مالک جاوید آفریدی نے ٹوئیٹر پر ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں جمیکا کے اس کھلاڑی نے پاکستانی فوج کے سیکورٹی انتظامات کی تعریف کی۔ پشاور زلمی کے پی ایس ایل جیتنے کے بعد پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فاتح ٹیم سے ملاقات کی تھی۔ پشاور زلمی کی قیادت ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی ڈیرن سیمی نے کی تھی ڈیڑھ منٹ سے زیادہ کے اس ویڈیو میں سیموئلز نے کہا کہ ان کے لیے پاکستان میں آکر کرکٹ کھیلنا یہاں کا محض دورہ کرنے سے زیادہ تھا۔ یہاں کھیلنے سے ان اداس چہروں پر خوشی لوٹ آئی ہے، جو طویل عرصے سے یہاں کرکٹ نہیں دیکھ پا رہے تھے۔ سیموئلز نے کہا: 'میں دل سے پاکستانی ہوں اور یہی وجہ ہے کہ مجھے پاکستان آنے کے بارے میں فیصلہ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی۔‘ پاکستانی فوج کے سربراہ کو براہ راست خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’جنرل میں آپ کو سليوٹ کرتا ہوں۔ میں اپنے کندھوں پر پاکستانی فوج کا مٹیلک بیج لگنے کا انتظار کر رہا ہوں۔ میں بھی پاکستانی فوج کا حصہ بننا چاہتا ہوں۔ میں مرتے دم تک اس ملک میں آتا رہوں گا۔‘ خیال رہے کہ پاکستان میں ایک عرصے کے بعد کرکٹ کے بین الاقوامی کھلاڑیوں کی آمد شروع ہوئی ہے۔ 2009 میں سری لنکا کی ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ ختم ہو گئی۔ ویسٹ انڈیز کے کرکٹر مارلن سیموئلز نے پاکستانی فوج میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ وہ مرتے دم تک پاکستان آتے رہیں گے۔ text: فوج کے انسانی حقوق کے حوالے سے خراب ریکارڈ کی وجہ سے لوگ ان پر اعتماد نہیں کرتے اس دوران شدت پسند تنظیم بوکو حرام نے فوجی بیرکوں پر حملہ، کونو شہر میں بس سٹیشن پر بم دھماکے، چار بچوں سمیت فرانسیسی خاندان کے اغوا جیسی کارروائیاں کیں جو دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنی رہیں۔ ملک کے صدر نے ایمرجنسی کے نفاذ کے متعلق کہا تھا کہ اس کے ذریعے علاقے میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے ’غیر معمولی اقدامات کیے جائیں گے۔‘ صدر گڈ لک جوناتھن نے کہا تھا کہ ’دہشت گردوں اور شدت پسندوں پر قابو پانے کے لیے فوج کو قواعد و ضوابط کے مطابق تمام ضروری کارروائی کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔‘ ایمرجنسی کے نفاذ کے 12 مہینے بعد گذشتہ چند ہفتوں کے دوران بوکو حرام نے دارالحکومت ابوجا میں کئی فوجی اڈوں پر حملے کیے اور ایک مصروف بس اڈے کو دو دفعہ بم دھماکوں سے نشانہ بنایا۔ لیکن جس بات نے انھیں دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا دیا وہ چیبوک میں ایک سکول سے 200 سے زائد لڑکیوں کا اغوا تھا۔ نائجیریا کے اخبار ڈیلی ٹرسٹ کے مدیر حبیب پیندیگا ایمرجنسی کے نفاذ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب ایمرجنسی نافذ کی گئی تو انھیں معلوم تھا کہ یہ قدم بھی آزمایا جائے گا: ’لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ یہ اقدام ناکام رہا ہے۔‘ برطانیہ میں سسیکس یونیورسٹی کی جمع کردہ معلومات کے مطابق آداماوا، بورنو اور یوبا کی ریاستوں میں ایمرجنسی کے نفاذ سے پہلے والے سال کے دوران عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد 741 تھی، جبکہ ایمرجنسی کے نفاذ کے دوران گذشتہ 12 مہنیوں میں ہلاک ہونے والے عام شہریوں کی ہلاکتوں میں تین گنا اضافہ ہونے کے بعد یہ تعداد 2265 تک پہنچ گئی ہے۔ حبیب پیندیگا کہتے ہیں کہ فوج درپیش مسائل سے نمٹ نہیں سکی۔ فوج کی انسانی حقوق کے حوالے سے خراب ریکارڈ کی وجہ سے لوگ اس پر اعتماد نہیں کرتے اور اس کے علاوہ ان کے پاس جدید ہتھیار اور ہنر بھی نہیں ہے اور ان کے حوصلے بھی پست ہیں۔ ایک برطانوی فوجی افسر جس نے نائجیریا کی حکومت کے ساتھ قریب سے کام کیا ہے، کہتے ہیں کہ نائجیریا کی حکومت شش و پنج میں مبتلا ہے۔ گذشتہ 12 مہنیوں میں ہلاک ہونے والے عام شہریوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے نائجیریا میں سابق برطانوی فوجی اتاشی کرنل ریٹائرڈ جیمز ہال کہتے ہیں کہ ’نائجیریائی حکومت کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسا سرخ بٹن چاہتی ہے جسے دبا کر تمام مسائل حل ہو جائیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’مجھ سے ایک سینیئر کمانڈر نے پوچھا کہ کیا ہم ان کو ایک ایسی مشین فروخت کر سکتے ہیں جس کے ذریعے یہ پتہ لگایا جا سکے کہ سڑک پر جانے والی موٹر کار میں کوئی دہشت گرد موجود ہے یا نہیں۔ ’میں نے انھیں یہ بتانے کی کوشش کی کہ ایسی کوئی مشین موجود ہی نہیں ہے لیکن وہ سمجھے کہ ہم ان سے یہ مشین چھپا رہے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’برطانیہ ان کو تربیت میں مدد دینے کے حوالے سے احتیاط سے کام لے رہا ہے اور انھیں معیاری ہتھیار فروخت کرنے میں بھی مسائل آڑے آ رہے ہیں۔‘ انسانی حقوق کی تنظیموں ہیومن رائٹس واچ اور ایمنیسٹی انٹرنیشنل دونوں نے نائجیریا کی فوج کو ان کی حکمتِ عملی پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابق مارچ میں میدیو گیوری میں فوجی بیرکوں پر حملے کے بعد فوج نے تقریباً 600 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ ان خدشات کی بنا پر برطانوی قوانین کے تحت نائجیریا کو مہلک ہتھیاروں کے فروخت پر پابندی ہے۔ نائجیریائی فوج کے بریگیڈیئر جنرل اولاجیدی لال آئی نے سات مئی کو ابوجا میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’فوج عسکریت پسندی کو روکنے کے لیے وہ سب کچھ کر رہی ہے جو کر سکتی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’بغاوت کے خلاف وسیع پیمانے پر آپریشنز اور ملک کی تقریباً ہر ریاست میں سول انتظامیہ کی مدد کے لیے کارروائیوں کی وجہ سے فوج کی افرادی قوت اور وسائل پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔‘ فوجیوں کا مورال بلند کرنے کے لیے انھوں نے اعلان کیا کہ کسی فوجی کی ہلاکت کے بعد اس کی تنخواہ خاندان کو زیادہ عرصے تک ملتی رہے گی۔ اطلاعات کے مطابق عام طور پر فوجیوں کی ہلاکت کے تین ماہ بعد ان کی تنخواہ روک دی جاتی ہے۔ لیکن بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ صرف فوج کی صلاحیت کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس اس میں دیگر عوامل بھی کار فرما ہیں۔ تیل کی دولت سے مالامال نائجر ڈیلٹا سے تعلق رکھنے والے ایک سابق کارکن لیدیئم میتی کہتے ہیں کہ ’ملک بھر میں سیاسی اعتماد کا فقدان ہے۔‘ انھوں نے صدر گڈلک جوناتھن کی سیاست کو قریب سے دیکھا ہے جن کا تعلق بھی نائجر ڈیلٹا سے ہے۔ ملک کی شمال مشرقی تین ریاستوں کے سیاسی رہنماؤں کا تعلق حزب اختلاف کے اتحاد آل پروگریسیو کانگرس (اے پی سی) سے ہے۔ لیدیئم میتی کہتے ہیں کہ ’صدر کے ارد گرد افراد اور ان کے قریبی لوگ سب صدر کو یہ بتاتے ہیں کہ بوکو حرام کو شمال سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں نے سیاسی کھیل کھیلنے کے لیے تخلیق کیا ہے۔ ’یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس سارے معاملے سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میدان میں موجود فوجی کمانڈروں کو بھی سیاست کرنی پڑتی ہے۔‘ لیدیئم میتی کہتے ہیں کہ ’اگر فوجی کمانڈر یہ تاثر دیں کہ حالات خراب ہیں تو انھیں نااہل قرار دیے جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے حکامِ بالا کو سب اچھا کی رپورٹ دیتے ہیں۔ لڑکیوں کے اغوا کے معاملے پر بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے حکومت کو مجبوراً اپنا رویہ تبدیل کرنا پڑا ہے ’اور جب کشیدگی شروع ہو جاتی ہے تو کوئی بھی اس سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔‘ لڑکیوں کے اغوا کے معاملے پر بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے حکومت کو مجبوراً اپنا رویہ تبدیل کرنا پڑا ہے، اور اس نے چین، فرانس، اسرائیل، برطانیہ اور امریکہ کے ماہرین کو فوج کی مدد کرنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن یہ ماہرین صرف مغوی لڑکیوں کی بازیابی میں مدد دیں گے، فوج کی صلاحیت بڑھانے میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔ جمیز ہال سمجھتے ہیں کہ اگر یہ غیر ملکی ماہرین نائجیریائی فوج کی صلاحیت کو بڑھانا چاہیں بھی تو یہ ایک بہت بڑا کام ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ان کی فوج کو موثر بنانے کے لیے تربیت دینے میں سالہا سال لگ جائیں گے، جس کے لیے شاید کوئی بھی تیار نہیں ہے۔‘ نائجیریا کے صدر گڈلک جوناتھن کی طرف سے ملک کے شمال مشرقی حصے میں ایمرجنسی کے نفاذ کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ یہ اقدام اسلامی شدت پسندی کو کنٹرول کرنے میں بہت کم کارگر ثابت ہوا ہے۔ text: بھارت میں تقریبا 15 فی صد مسلمان ہیں جبکہ اتر پردیش میں ان کا فی صد 20 سے زیادہ ہے شاید اسی لیے بی جے پی کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیاں ندوہ کے وائس چانسلر سے مدد مانگنے جاتے ہیں۔ بہوجن سماج پارٹی کے لیڈر ستیش چندر مشرا وائس چانسلر مولانا رابع حسنی ندوی سے اسی ارادے سے ملے تاکہ ان کے ذریعے مسلمانوں کا ووٹ حاصل کیا جا سکے۔ ندوے میں 5،000 طالب علم ہیں۔ پہلے تو انڈونیشیا، ملائشیا اور سعودی عرب سے بھی طالب علم یہاں آتے تھے۔ خود کو ندوۃ العلماء کا خادم کہنے والے ہارون رشید کا کہنا ہے کہ گذشتہ دس برسوں سے غیر ملکی طالب علموں یہاں آنے کے لیے ویزا نہیں دیا جاتا ہے۔ ہارون کہتے ہیں کہ ندوے کے علما سیاسی معاملات سے دور رہتے ہیں۔ آج تک صرف ایک بار ندوے کے کسی بھی وائس چانسلر یا مہتم نے کھل کر کسی سیاسی پارٹی یا لیڈر کی مخالفت کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بعض حلقوں میں مسلمانوں کے ووٹ سے نتائج بہت حد تک متاثر ہوتے ہیں سنہ 1992 میں جب بابری مسجد شہید گئی، اس وقت یہاں کے وائس چانسلر مولانا علی میاں نے کانگریس کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن ظفریاب جیلانی نے ایک دوسرے واقعے کا ذکر کیا جب مولانا علی میاں نے سیاسی مسئلے میں اپنی رائے دی تھی۔ جیلانی کے مطابق جس وقت ملائم سنگھ یادو نے کلیان سنگھ کے ساتھ مل کر انتخابات میں آئے تھے مسلمان ان سے کافی ناراض تھے۔ لیکن پرسنل لا بورڈ کی ایک میٹنگ کے بعد علی میاں نے باتوں باتوں میں صرف اتنا کہا کہ اس شخص (ملائم سنگھ) کے علاوہ کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ ان کا اتنا کہنا ہی کافی تھا۔ اسلامی تعلیم کا ایک بڑا مرکز دارالعلوم دیوبند بھی ہے۔ اس کا قیام سنہ 1866 میں سلطنت برطانیہ کے روز افزوں اثرات اور عیسائی مذہب سے لڑنے کے لیے ہوئی تھی۔ ندوے کے اساتذہ کے مقابلے یہاں کے اساتذہ سیاست میں زیادہ دخل رکھتے ہیں۔ لیکن گجرات سے تعلق رکھنے والے مولانا وستانوی کو دیوبند اس لیے چھوڑنا پڑا کیونکہ انھوں نے نریندر مودی کے حق میں بیان دیا تھا۔ بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ لکھنؤ سے امیدوار ہیں اور انھوں نے شیعہ عالم مولانا کلب جواد سے ملاقات کی ہے حال ہی میں عام آدمی پارٹی کے منیش سیسودیا نے دیوبند کے مولانا خالق سنبھلی سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد دیوبند کی طرف سے بیان جاری ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ دیوبند سیاست سے دور رہتا ہے۔ ان کے علاوہ حیدرآباد کا جامعہ نظامیہ بھی مسلمانوں کا ایک قدیدیمی تعلیمی مرکز ہے۔ انتخابات کا موسم آتے ہی ان تمام مراکز میں سیاسی رہنماؤں کی آمد و رفت بڑھ جاتی ہے۔ فی الحال ستیش چندر مشرا کے علاوہ ابھی دیگر کسی پارٹی کے لیڈر نے مولانا رابع سے ملاقات نہیں کی ہے۔ شاید ملائم سنگھ یادو کو وہاں جانے کی ضرورت نہ پڑے کیونکہ ان دنوں ظفریاب جیلانی سماج وادی پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کے لیے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ جیلانی کی رائے سے بھی مسلم دانشوروں میں اہمیت کی حامل ہے ۔ ملائم سنگھ کے وہاں نہ جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ پہلے ہی دیوبند کی حمایت حاصل کر چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سماجوادی پارٹی کو گذشتہ انتخابات میں مسلمانوں کی حمایت حاصل رہی ہے عام طور یہ کہا جاتا ہے کہ کانگریس کے لیڈروں کو ندوے جانے یا نہ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ پارٹی اب بھی مکمل طور پر ان کا اعتماد حاصل نہیں کر پائی ہے۔ دوسری جانب یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ شیعہ مذہبی رہنما مولانا کلب جواد سے بی جے پی کے قومی صدر راج ناتھ سنگھ کی ملاقات کے بعد شیعہ مسلمانوں کا ووٹ بی جے پی کو جائے گا۔ لیکن کیا یہ کہنا آسان ہے کہ لکھنؤ کے مسلمان صرف ظفریاب جیلانی اور مولانا کلب جواد کے کہنے کے مطابق ہی اپنا ووٹ دیں گے؟ جیلانی کہتے ہیں کہ اس برادری کا بنیادی مقصد بی جے پی کو روکنا ہے۔ اس کے لیے ووٹنگ سے ایک دن پہلے بھی وہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون بی جے پی کو شکست دے سکتا ہے اور ووٹ اسی کو جائے گا۔ جیلانی کے مطابق لکھنؤ سے کانگریس کی امیدوار ریتا بہوگنا جوشی ’مقابلے میں نہیں ہیں‘، اس لیے سماج وادی پارٹی کے ابھیشیک مشرا کی حمایت کی جا رہی ہے۔ راج ناتھ اور جواد کی ملاقات کو بھی وہ سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ مسلمان کسی بھی صورت میں بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ بھارتی ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں واقع دارالعلوم ندوۃ العلماء کا دنیا کے مشہور تعلمی مراکز میں شمار ہوتا ہے مسلمانوں میں قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ text: ’اظہار کی آزادی ہے لیکن آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کب، کہاں اور کتنا بولنا ہے‘ کامیڈی شو کے بارے میں اجے کا کہنا تھا ’میں اس طرح کا مذاق پسند نہیں کرتا۔‘ اجے سے جب پوچھا گیا کہ کیا انھوں نے شو دیکھا ہے تو ان کا کہنا تھا ’نہیں میں نے اس کے بارے میں کافی سنا اور پڑھا ہے، اس کے بعد اسے نہ دیکھنے کا فیصلہ کیا۔‘ بالی وڈ اداکار اجے دیوگن کا مزید کہنا تھا ’اظہار کی آزادی ہے لیکن آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کب، کہاں اور کتنا بولنا ہے۔‘ متنازع شو دسمبر میں ممبئی کے ایک سٹیڈیم میں منعقد ہوا تھا جس میں چار ہزار سے زیادہ ناظرین شریک تھے۔ اس شو کی ویڈیو جنوری کے اواخر میں یو ٹیوب پر بھی شائع کی گئی جسے چند ہی گھنٹے میں 80 لاکھ افراد نے دیکھا تھا۔ ’روسٹ شو‘ دسمبر میں ممبئی کے ایک سٹیڈیم میں منعقد ہوا تھا تاہم بعدازاں عوامی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کے بعد اس’روسٹ شو‘ کی ویڈیو کو یو ٹیوب سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اس پروگرام کے دوران رنویر سنگھ اور ارجن کپور، میزبان کرن جوہر اور پینل میں شامل دیگر افراد نے ایک دوسرے کے بارے میں ’فحش‘ مذاق اور باتیں کی تھیں۔ خیال رہے کہ اس متنازع کامیڈی شو میں شرکت کرنے والے بالی وڈ کے متعدد فنکاروں کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ بھارت کے شہر پونے میں درج ہونے والی ایف آئی آر میں اداکار ارجن کپور اور رنویر سنگھ، اداکارہ دیپیکا پاڈوکون اور سوناکشی سنہا کے علاوہ فلمساز اور ہدایتکار کرن جوہر اور ویڈیو شیئرنگ کی ویب سائٹ یو ٹیوب کے نام شامل تھے۔ مقدمے میں نامزد دیپکا پاڈوکون اور سوناکشی سنہا کے علاوہ عاليہ بھٹ اور سنجے کپور سمیت بالی وڈ سے وابستہ متعدد اہم شخصیات بھی اس تقریب میں موجود تھیں۔ متنازع کامیڈی شو ’اے آئی بی روسٹ‘ پر ناراضگی کا اظہار کرنے والے بالی وڈ اداکاروں میں اجے دیوگن بھی شامل ہو گئے ہیں۔ text: بھارتی سپریم کورٹ نے ان کی درخواست یہ کہہ کر خارج کر دی کہ ایسا کرنا عدالت کے پہلے حکم کے منافی ہو گا کرکٹ کی ویب سائٹ کرک انفو کے مطابق سری نواسن کی جانب سے دائر درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ بطور بی سی سی آئی چیئرمین ان کا آئی پی ایل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ تاہم بھارتی سپریم سپریم کورٹ نے ان کی درخواست یہ کہہ کر خارج کر دی کہ ایسا کرنا عدالت کے پہلے حکم کے منافی ہو گا۔ یاد رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ سری نواسن بی سی سی آئی کے چیئرمین کے عہدے سے اس وقت تک ہٹ جائیں جب تک کہ آئی پی ایل میں مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں۔ جسٹس بلبیر سنگھ چوہان نے سری نواسن کے وکلا سے کہا کہ جس بینچ نے سری نواسن کے خلاف حکم جاری کیا ہے یہ درخواست اسی بینچ میں کی جائے۔ سری نواسن نے عدالت میں ایک حلف نامہ بھی پیش کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جب عدالت ان کے اس معاملے پر ستمبر میں سماعت کرے گی تب تک ان کے چیئرمین کے عہدے کی مدت پوری ہو چکی ہو گی۔ حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ ان کی مدت ختم ہونے کے باعث اس سماعت کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ آئی پی ایل سپاٹ فکسنگ کی تحقیقات کرنے والی مدگل کمیٹی میں جن 13 افراد کے خلاف الزامات عائد کیے گئے ہیں ان کی تفتیش ہندوستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ (بي سي سی آئی) کو خود کرنی چاہیے۔ اور عدالت نے سری نواسن کو مشورہ دیا تھا کہ جب تک یہ تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں تب تک وہ اپنے عہدے سے ہٹ جائیں۔ سپریم کورٹ میں تازہ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مدگل کمیٹی میں جن افراد کے نام ہیں ان میں سے کسی کو بھی آئی پی ایل میں ملوث ہونے سے نہیں روکا گیا۔ درخواست میں کہا گیا ہے: ’فردِ جرم عائد نہ ہونے کے باوجود صرف درخواست گزار یعنی سری نواسن کو ہی پابندیوں کا سامنا ہے۔‘ آئی پی ایل کی ٹیم چینّئی سپر کنگز کے مالک اور بی سی سی آئی کے سربراہ این سری نواسن کے داماد گروناتھ ميپّن ان حکام، کھلاڑیوں اور سٹے بازوں میں شامل ہیں جن کے خلاف آئی پی ایل میں سپاٹ فکسنگ کے تحت دھوکہ دہی اور مجرمانہ سازش کے الزام ہیں اور تحقیقات جاری ہیں۔ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مکل مدگل کی صدارت میں آئی پی ایل 2013 کے دوران سپاٹ فکسنگ معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک تین رکنی کمیٹی بنائی گئی تھی۔ کمیٹی نے رپورٹ سپریم کورٹ کے حوالے کر دی ہے جس کی بنیاد پر عدالت نے این سری نواسن کو عہدے سے علیحدہ ہونے کا مشورہ دیا تھا۔ گذشتہ آئی پی ایل کے دوران سپاٹ فکسنگ کا معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا جب راجستھان رائلز کے تین کھلاڑیوں ایس شری سانت، انكت چوہان اور اجیت چنڈيلا کو دہلی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ اس کے بعد ممبئی پولیس نے مزید گرفتاریاں کی تھیں۔ بھارتی سپریم کورٹ نے بی سی سی آئی کے سابق چیئرمین این سری نواسن کی کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے عہدے پر بحالی کی درخواست خارج کر دی۔ text: وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چنیوٹ کے لکڑی کے کام کی شہرت اندرون ملک اور بیرون ملک پھیل چکی ہے۔ چنیوٹ میں فرنیچر کے تاجر اور فرنیچر بنانے والے کہتے ہیں کہ جتنی اچھی صورتحال اب ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ رہی ہو۔ چنیوٹ میں فرنیچر کے ایک شو روم کے مالک شیخ انیس جاوید کا کہنا ہے کہ برآمدات کی وجہ سے چنیوٹ کی سالانہ آمدن دس ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے لیکن یہاں لوگ اندرون ملک سے مانگ پوری کرنے میں اتنے مصروف ہیں کہ انہیں باہر کا دھیان ہی نہیں۔ ایکسپورٹ میں اضافے کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مقامی تاجروں کی بین الاقوامی نمائشوں میں شرکت اور موٹروے کی وجہ سے شہر تک آسان رسائی اس اضافے کی بنیادی وجوہات ہیں۔ شیخ انیس نے بتایا کہ انہوں نے شہر میں پہلا شو روم بنایا تھا اور اب شہر میں یہ رجحان بڑھ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چنیوٹ ایک ایسا شہر جس میں کوئی بیروزگار نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شہر میں تین سے چار ہزار یونٹ کام کر رہے ہیں۔ ایک چھوٹی ورکشاپ چلانے والے زیب سیال نے بتایا کہ چنیوٹ میں روزانہ چھ ہزار فٹ لکڑی استعمال ہوتی ہے جبکہ کبھی پورے مہینے میں اتنی لکڑی استعمال نہیں ہوتی تھی۔ زیب سیال نے بتایا کہ اگر ہر یونٹ میں اوسطاً دس مزدور کام کرتے ہیں تو شہر میں پچاس ہزار کے لگ بھگ افراد لکڑی کے کام سے روزی کماتے ہیں۔ زیب سیال کا کہنا تھا کہ جو صوفہ وہ بارہ ہزار میں بناتے اس کی قیمت کراچی پہنچنے تک ایک لاکھ ہو جاتی ہے۔ انہوں نے بھی کاروبار میں تیزی کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بھی فوجی حکومت آتی ہے فرنیچر کی مانگ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ چنیوٹ کے ایک اورایکسپورٹر نے بتایا کہ اس چار پانچ لاکھ کی آبادی والے شہر میں تقریباً ایک چوتھائی لوگ کسی نہ کسی طرح لکڑی کے کام سے وابستہ ہیں۔ دریائے چناب کے کنارے واقع چنیوٹ کا شہر ہمیشہ سے لکڑی کے کام کی وجہ سے مشہور رہا ہے۔ محّرم میں نکالے جانے والے تعزیے ہوں، عمارات کے دروازے اور کھڑکیاں یا فرنیچر، یہاں کے ہنرمندوں نے ہمیشہ اپنا لوہا منوایا ہے۔ text: لیکن صرف دو دن کی پریکٹس کے بعد کھلاڑی پہلے کی طرح نارمل دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی فٹنس صحیح ہے اور وہ پریکٹس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم تین ٹیسٹ اور تین ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں کی سیریز کھیلنے کے لیے اس وقت ووسٹر انگلینڈ میں ہے جہاں وہ قرنطینہ میں رہتے ہوئے انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے ترتیب دیے گئے پروٹوکول کے مطابق پریکٹس شروع کر چکی ہے۔ بابراعظم جو پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کے نائب کپتان بھی ہیں کہتے ہیں کہ تمام کھلاڑی ٹیسٹ سیریز شروع ہونے کے شدت سے منتظر ہیں۔ انگلینڈ کی کنڈیشنز مختلف اور مشکل بابراعظم چار سال میں چوتھی مرتبہ انگلینڈ کا دورہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انگلینڈ میں ڈیوک بال سے کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔ ڈیوک بال انگلش کنڈیشنز سے مطابقت رکھتا ہے۔ جب آپ انگلینڈ کی بولنگ کے خلاف انھی کی کنڈیشنز میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو آپ کے حوصلے میں اضافہ ہوتا ہے اور آپ میں یہ اعتماد پیدا ہو جاتا ہے کہ اگر آپ انگلینڈ میں اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں تو دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں بھی دکھا سکتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے 'بابر اعظم، کیمروں اور اشتہارات سے بے نیاز کپتان' انگلینڈ میں پاکستانی ٹیم کے تمام 20 کھلاڑیوں کے کووڈ 19 ٹیسٹ منفی بابر اعظم: فیصلے خود کرتا ہوں، مصباح باہر بیٹھ کر کنٹرول نہیں کرتے انگلینڈ میں ہونے والی کرکٹ میں موسم کا عمل دخل نمایاں ہوتا ہے اور ٹیم کی پریکٹس میں مصباح الحق اور یونس خان اسی نکتے کو اجاگر کر کے کھلاڑیوں کو سمجھا رہے ہیں کہ بدلتے موسم میں کس طرح بیٹنگ کی جاتی ہے۔ اچھی کارکردگی اور وزڈن کے پانچ کرکٹر بابر اعظم کا کہنا ہے کہ ہر کھلاڑی کی طرح ان کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ بہترین کارکردگی دکھائیں تاکہ ان کا نام بھی دنیا کے سرفہرست کھلاڑیوں میں شامل ہو سکے۔ وہ ایسی پرفارمنس پر زیادہ یقین رکھتے ہیں جو ٹیم کے کام آئے اور جس سے ٹیم کو جیتنے میں مدد مل سکے۔ سابق کرکٹر زیادہ پُرامید نہیں چند سابق ٹیسٹ کرکٹرز کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی ٹیم انگلینڈ میں ٹیسٹ سیریز نہیں جیت پائے گی۔ اس بارے میں بابر اعظم کا کہنا ہے کہ ہر ایک کی اپنی رائے اور سوچ ہوتی ہے۔ اگر پاکستانی ٹیم کی انگلینڈ میں کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اس نے اپنے گذشتہ دونوں دوروں میں ٹیسٹ سیریز برابر کی ہے۔ سنہ 2016 میں اس نے ٹیسٹ سیریز دو دو سے برابر کی تھی جبکہ سنہ 2018 میں ٹیسٹ سیریز ایک ایک سے برابر رہی تھی۔ اس کے علاوہ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے خلاف ہوم سیریز میں بھی اس کی کارکردگی اچھی رہی، ان تمام عوامل اور کھلاڑیوں کی موجودہ صورتحال دیکھ کر وہ بہت زیادہ پرُامید ہیں کہ ٹیم اچھا کرے گی کیونکہ تمام کھلاڑی جیتنا چاہتے ہیں۔ انگلینڈ کی ٹیم کی کمزوری بابراعظم اپنے کپتان اظہر علی کی طرح یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کے بولر انگلینڈ کی ٹاپ آرڈر بیٹنگ کو جلد آؤٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بابراعظم کا کہنا ہے کہ انگلینڈ کے ٹاپ آرڈر بیٹسمین اس وقت زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے ہیں لہذا اگر ہمارے بولر انھیں جلد آؤٹ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سے ان کی ٹیم دباؤ میں آ جائے گی۔ انگلینڈ کا بولنگ اٹیک اچھا ہے لیکن پاکستان کے پاس بھی شاہین شاہ آفریدی، محمد عباس اور نسیم شاہ پر مشتمل موثر بولنگ اٹیک ہے۔ محمد عباس کو انگلش کنڈیشنز کا تجربہ ہے۔ کووڈ 19 کی وجہ سے احتیاط بابراعظم کا کہنا ہے کہ یہ دورہ مختلف حالات میں ہو رہا ہے، جو پروٹوکول ہیں ان پر مکمل عمل کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کھلاڑی ہوٹل سے گراؤنڈ اور پھر ہوٹل تک آ جا رہے ہیں۔ ٹیم کی پریکٹس میں بھی احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہیں۔ کھلاڑی ِجم میں بھی چھ چھ کے گروپ کی شکل میں ٹریننگ کے لیے جا رہے ہیں۔ بابر اعظم کا کہنا تھا کہ ظاہر ہے کہ معمول کی صورتحال سے کسی غیرمعمولی اور مختلف صورتحال میں آنے اور اس سے ہم آہنگ ہونے میں وقت لگتا ہے۔ محمد رضوان پہلی ترجیح بابراعظم اس بارے میں بالکل واضح سوچ رکھے ہوئے ہیں کہ ٹیسٹ سیریز میں وکٹ کیپنگ کی پہلی ترجیح محمد رضوان ہوں گے۔ بابراعظم کا کہنا ہے کہ محمد رضوان نے آسٹریلیا میں اچھی کارکردگی دکھائی تھی، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے خلاف ہوم سیریز میں بھی وہی ٹیم کا حصہ تھے لہذا انگلینڈ کے خلاف سیریز میں بھی پہلا موقع انھی کا ہو گا۔ یاد رہے کہ محمد رضوان کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے سبب ٹیم کے ساتھ انگلینڈ نہیں پہنچ سکے تھے تاہم بعد میں دو منفی نتائج کے بعد وہ ان چھ کھلاڑیوں میں شامل ہیں جو انگلینڈ روانہ ہو رہے ہیں جہاں وہ قرنطینہ میں رہنے کے بعد اپنی پریکٹس کا آغاز کریں گے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے سرفراز احمد اور محمد رضوان کے علاوہ اس دورے میں تیسرے وکٹ کیپر کے طور پر روحیل نذیر کو بھی بھیجا ہے جو اعلان کردہ ریزرو کھلاڑیوں میں شامل تھے۔ پاکستان کے ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کے کپتان بابراعظم تسلیم کرتے ہیں کہ جب پاکستانی ٹیم انگلینڈ پہنچی تو کھلاڑیوں کے ذہنوں میں یہ تفکرات موجود تھے کہ کرکٹ سے تین ماہ کی دوری ان پر کیا اثر دکھائے گی؟ text: کوئٹہ میں ایک پر ہجوم اخباری کانفرنس میں آزاد رکن سردار اسلم بزنجو نے کہا ہے کہ یہ حمایت بلوچستان کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کی گئی ہے۔ سردار اسلم بزنجو نے مزید کہا کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن بند کیا جائے، لاپتہ افراد کو منظر عام پر لایا جائے، سردار اختر مینگل سمیت تمام گرفتار افراد کو رہا کیا جائے اور حیر بیار مری کا مسئلہ حل ہو تاکہ بلوچستان میں امن قائم ہو اور جمہوری روایات کو پروان چڑھایا جا سکے۔ سردار اسلم بزنجو کے مطابق اگر پیپلز پارٹی نے یہ مسائل حل نہ کیے تو ان کے راستے الگ ہوں گے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے عوامی نیشنل پارٹی کے دو اور جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کے نظریاتی دھڑے کے ایک رکن نے پیپلز پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا تھا جس کے بعد اب پیپلز پارٹی کو سترہ اراکین کی حمایت حاصل ہو گئی ہے۔ بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے مزید چھ آزاد اراکین نے پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ text: سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی فورس اور پولیس نے مونسپل بلڈنگ پر قومی پرچم لہرا دیا ہے۔ ٭ ’دولتِ اسلامیہ فلوجہ سے نکلنے والوں کو نشانہ بنا رہی ہے‘ ٭ فلوجہ میں ’زیرحراست افراد پر شیعہ ملیشیا کا تشدد‘ اس سے پہلے یہ اطلاعات تھیں کہ جنوب اور مشرقی علاقوں پر حکومت نے کنٹرول حاصل کیا۔ بغداد سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع فلوجہ وہ شہر ہے جس پر شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ سب سے زیادہ عرصے سے قابض ہے۔ دولتِ اسلامیہ نے فلوجہ پر سنہ 2014 میں قبضہ کیا تھا اور اس کے کچھ ماہ بعد ہی وہ عراق اور شام میں دیگر علاقوں پر قابض ہوئی تھی۔ امریکہ کی سیکرٹری دفاع ایش کارٹر کا کہنا ہے کہ ’شہر کے اہم علاقے دولتِ اسلامیہ کے قبضے‘ میں اور ’مزید لڑائی کرنے کی ضرورت ہے۔‘ عراق کے وزیراعظم حیدر العبادی کا کہنا ہے کہ شہر میں بہت کم تعداد میں شدت پسند موجود ہیں۔ سرکاری ٹی وی سے خطاب میں حیدر العبادی نے کہا کہ ’ ہم نے فلوجہ آزاد کروانے کا وعدہ کیا تھا اور ہم نے دوبارہ قبضہ حاصل کر لیا ہے۔ ہماری سکیورمی فورسز کا فلوجہ پر کنٹرول ہے اور مختصر علاقہ کچھ ہی گھنٹوں میں خالی کروا لیا جائے گا۔‘ حیدر العبادی نے ٹویٹ کی کہ فلوجہ کو ’شہریوں کو واپس کر دیا گیا ہے‘ اور ’داعیش کو ناکامی ہوئی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ اگلا معرکہ موصل میں ہو گا۔ موصل پر سنہ 2014 سے دولتِ اسلامیہ کا قبضہ ہے۔ عراق افواج نے دسمبر 2015 میں رمادی پر کنرول حاصل کیا تھا۔ اس سے قبل لیفٹیننٹ جنرل عبدالوہاب السعدی نے بی بی سی کو بتایا کہ ایلیٹ کاؤنٹر ٹیررازم فورس اور ریپڈ رسپانس فورسز نے سٹی کونسل بلڈنگ کو ’آزاد‘ کروا لیا۔ وفاقی پولیس کے سربراہ رعد شاکر جودت نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس سرکاری عمارت کی آزادی جو کہ شہر کی مرکزی نشانی ہے، حکومت کی رٹ کی بحالی کی علامت ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ حکومتی افواج کو پیش قدمی کے دوران محدود پیمانے پر ہی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ عراقی افواج نے کئی ماہ کے محاصرے کے بعد گذشتہ ماہ فلوجہ کو دولت اسلامیہ کے کنٹرول سے واپس لینے کے لیے کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ فلوجہ شہر میں خوراک اور پانی کی شدید قلت ہو گئی تھی اور اطلاعات کے مطابق دولتِ اسلامیہ شہریوں کو اپنے دفاع کے لیے استعمال کر رہی تھی۔ شدت پسندوں نے فلوجہ سے نکلنے کی کوشش کرنے والے کئی افراد کو قتل بھی کیا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ فلوجہ میں آپریشن کی وجہ سے اب تک 68 ہزار افراد نے شہر سے نقل مکانی کی ہے۔ عراقی حکومت کا کہنا ہے کہ ملکی افواج نے فلوجہ شہر کو شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے قبضہ سے آزاد کروا لیا ہے۔ text: سی آئی اے کے سربراہ نے یہ بات امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں القاعدہ کے خلاف کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن اسامہ بن لادن اسی علاقے میں موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا ’القاعدہ کے اہم کارکنوں کی ہلاکت اور گرفتاریاں جاری ہیں اور اسی وجہ سے یہ تنظیم اپنے سب سے زیادہ محفوظ علاقے یعنی پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں بھی مشکل میں ہے۔‘ ہیڈن نے کہا کہ القاعدہ کو عراق اور سعودی عرب میں شکست دی جا چکی ہے اور دیگر ممالک میں یہ تنظیم پسپائی پر ہے۔ ’ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کافی کامیاب ہو رہے ہیں۔ عراق اور سعودی عرب میں شکست کے بعد عالمی سطح پر القاعدہ پسپائی پر ہے۔‘ تاہم انہوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن اور ایمن الظہوری کی گرفتاری یا ہلاکت اہم ترین ہے۔انہوں نے کہا کہ اس جنگ کو جاری رکھنا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ دو سال قبل سی آئی اے نے متنبہ کیا تھا کہ شدت پسند اسلامی گروہ عراق کو لے کر کامیابی سے پروپیگینڈہ کر رہے ہیں۔ تاہم اب ہیڈن کا کہنا ہے کہ القاعدہ مسلم دنیا میں حمایت کھو رہی ہے۔ امریکی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ مائیکل ہیڈن کا کہنا ہے کہ القاعدہ کے خلاف جنگ میں پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں بھی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ text: صورتِ حال ایسی چلتی رہی تو پھر مذاکرات کبھی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتے: چوہدری نثار اُنھوں نے کہا کہ فوج کی جانب سے ان مذاکرات کے حوالے سے نہ پہلے کوئی رکاوٹ تھی اور نہ ہی اب ہے۔ جمعے کو نیشنل ڈیٹابیس رجسٹریشن اتھارٹی یعنی نادرا کے دفتر میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ طالبان کی نمائندہ کمیٹی کے درمیان جو آخری ملاقات ہوئی تھی اس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ حکومت اور طالبان کے درمیان جو اگلی ملاقات ہوگی وہ حتمی ہوگی اور اس ملاقات میں دونوں جانب سے ایجنڈا سامنے آنا چاہیے۔ وزیرِ داخلہ نے طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے کسی بھی رکن کا نام لیے بغیر کہا کہ اس کے ارکان حکومتی کمیٹی سے ملاقات کے دوران کچھ باتیں طے کر کے جاتے ہیں اور باہر جا کر میڈیا میں کچھ اور بیان دے دیتے ہیں، جس سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ جیسے وہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ صورتِ حال ایسی ہی چلتی رہی تو پھر مذاکرات کبھی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتے۔ چوہدری نثار علی خان نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ غیر عسکری طالبان کی رہائی سے متعلق فوجی قیادت نالاں ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ افراد عسکری اداروں کی تحویل میں تھے جنھیں وہاں سے رہا کروایا گیا تو پھر عسکری قیادت اس پر کیسے ناراض ہو سکتی ہے؟۔ ایک سوال کے جواب میں وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات کبھی بھی ناخوشگوار نہیں ہوئے۔ خیال رہے کہ چوہدری نثار علی خان نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ حکومت اور فوج کے دومیان ’کچھ نہ کچھ ہے‘ جس کی وجہ سے دونوں کے درمیان تناؤ موجود ہے۔ وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ ماضی میں کسی بھی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع نہیں کیے اور آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلوں کے نتیجے میں موجودہ حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کیے ہیں، لہٰذا دیگر سیاسی جماعتوں ان مذاکرات کو کامیاب ہونے دیں۔ واضح رہے کہ اس سے ایک روز قبل حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں طالبان رابطہ کمیٹی کے ممبران نے کہا تھا کہ جب تک طالبان اور فوج کے درمیان براہِ راست بات چیت نہیں ہوتی اس وقت تک یہ عمل بامقصد نتیجے کی جانب نہیں بڑھ سکتا۔ جمعرات کو پشاور میں جماعتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام قبائل امن جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے طالبان رابطہ کار کمیٹی کے سربراہ اور جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولاناسمیع الحق نے کہا تھا کہ غاروں میں بیٹھے ہوئے طالبان سے ان کا رابطہ ہو جاتا ہے مگر اسلام آباد والوں سے رابطہ نہیں ہوتا۔ پاکستان کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ کھینچاتانی کے ماحول میں حکومت اور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ text: اس یونیورسٹی کے انتظامی بلاک کے قریب پرجوش طالب علم جمع ہیں۔ جیسے ہی کوئی طلبہ رہنما تقریر کے لیے سٹیج پر آتا ہے تو اس کا پرجوش طریقے سے استقبال کیا جاتا ہے۔ جیسے جیسے پرجوش طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ’کنہایا کمار کو رہا کرو‘ اور ’انقلاب زندہ باد‘ جیسے نعروں کی گونج میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مظاہرے میں شامل طلبہ کا کہنا ہے کہ کمار پر غداری کا مقدمہ غلط بنایا گیا ہے اور انھیں حیرت اس پر ہے کہ پولیس سنیچر کے روز یونیورسٹی میں داخل ہوئی۔ پولیس نے الزام لگایا ہے کہ کمار نے 2001 میں پارلیمنٹ پر حملے کے جرم میں پھانسی پانے والے افضل گورو کی پہلی برسی پر احتجاج کیا اور ’بھارت مخالف نعرے‘ لگائے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ سے جب پوچھا گیا کہ اس دن کیا ہوا تھا تو انھوں نے کمار کا بھرپور انداز میں دفاع کیا۔ ایک طالب علم نے کہا ’ہم دہشت گرد نہیں ہیں۔ ہم صرف طلبہ ہیں اور ہم بھی بھارت مخالف نعروں کی مذمت کرتے ہیں۔ اس موقعے پر بھارت مخالف نعروں سے ہمارے صدر کا کوئی تعلق نہیں۔‘ تاہم اس طلبہ نے کیمرے کے سامنے بات کرنے سے منع کر دیا۔ ’میں کیمرے کے سامنے نہیں آنا چاہتی۔ مجھے اپنی حفاظت پیاری ہے۔‘ تقاریر کے بعد نہرو یونیورسٹی کی سابق طالبہ اور آرٹسٹ مایا راؤ نے پرفارم کیا ایک اور طلبہ شریا گھوش نے یونیورسٹی میں خوف کی فضا کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ’گرفتاری کے ڈر سے ہم ہر رات مختلف کمروں میں سوتے ہیں۔‘ ایک اور طلبہ دیشیتا نے دعویٰ کیا کہ نظریاتی سیاست کے باعث کمار کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ’دائیں بازو کے سٹوڈنٹس یونیورسٹی میں اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور اسی لیے انھوں نے کمار کو گرفتار کرایا۔‘ پروفیسر راجرشی داش گپتا اس بات سے متفق ہیں۔ سہ پہر کے تین بج چکے ہیں اور تقاریر میں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی پر کی جانے والی تنقید میں سختی آتی جا رہی ہے۔ پروفیسر اجیتھ کنا تقریر کے لیے آئے اور کہا ’اگر کمار قوم پرست نہیں تو میں بھی قوم پرست نہیں۔‘ تاہم انھوں نے طلبہ سے اپیل کی کہ وہ پرامن رہیں اور افواہوں پر کان نہ دھریں۔ یونیورسٹی کے کیمپس میں بہت افواہیں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک افواہ یہ ہے کہ کیمپس میں ایک سو مسلح دائیں بازو کے کارکنان داخل ہو گئے ہیں۔ دائیں بازو کے طلبہ گروپ کے کارکن سورابھ کمار سے میں ملا جو مظاہروں کی جگہ سے کچھ ہی فاصلے پر ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’قانون اس بات کا فیصلہ کرےگا کہ کمار مجرم ہے یا نہیں لیکن ہم کیمپس میں بھارت مخالف حرکات و سکنات برداشت نہیں کریں گے۔‘ لیکن ہر کوئی اس احتجاج کا حصہ نہیں ہے۔ پی ایچ ڈی کے طلبہ بباس سیوا اور بجے تھاپا نے کمار کی گرفتاری کی مذمت کی لیکن کہا کہ مظاہروں کی وجہ سے ان کی تعلیم میں تعطل آگیا ہے۔ اگرچہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو سیاست نے گرفت میں لے رکھا ہے لیکن کچھ طلبہ اپنی تعلیم کا سلسہ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار وکاس پانڈے نے دہلی کی مشہور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں دن گزارا جہاں طلبہ رہنما پر غداری کا مقدمہ قائم کرنے کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ text: صوبہ پنجاب کے شہر حافظ آباد کے ایک قدیم مکان میں تقریباً 80 سالہ ممتاز بیگم نے تقسیم کے دور کو یاد کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ انھیں جس بات کا سب سے شدید صدمہ تھا وہ یہ تھی کہ ان اپنی بچپن کی ہندو سہیلیوں کی زندگیاں خطرے میں تھیں۔ ممتاز بیگم نے کچھ دیر خاموشی کے بعد سنجیدہ تاثرات کے ساتھ بتایا کہ ہنگاموں کی خبریں مل رہی تھیں کہ ایک دن ان کے والد صاحب نے پریشانی میں آ کر بتایا کہ جلدی جلدی سب سامان باندھ لو کیونکہ لاہور کے انڈیا میں شامل ہونے کا ریڈیو پر اعلان ہوا ہے۔ اس پریشانی میں تھے کہ کیا کریں تو ایک دوسرا اعلان ہوا گیا کہ لاہور پاکستان میں ہی رہے گا تو تھوڑی ہی دیر میں ان کا حویلی نما گھر ہندوؤں سے بھر گیا جس میں عورتیں، بچے اور مرد سبھی تھے۔ 'وہ لوگ ہمارے گھر میں جمع ہو گئے تو باہر مسلمانوں کا ایک ہجوم جمع ہو گیا اور میرے ابا سے کہا کہ سب کو باہر نکالیں لیکن انھوں نے انکار کر دیا اور کچھ دیر میں محلے کے دیگر مسلمان بھی والد کی حمایت میں باہر جمع ہو گئے تو مشتعل ہجوم کو وہاں سے ہٹنا پڑا لیکن کچھ دو مکان چھوڑ کر ہندو خاندان کے ایک مکان کو آگ لگا دی۔' ممتاز بیگم نے بتایا کہ' ان حالات میں ہندو برادری نے اپنے مکانوں کی چابیاں اور دیگر سامان وہاں موجود میرے دادا جی کے پاس رکھوا دیا، دو دن بڑی پریشانی اور خوف میں گزرے اور تیسرے دن گورکھا پولیس کے اہلکار شہر میں آ گئے اور ان لوگوں کو حفاظت میں شہر میں ہی قائم کیمپ میں منتقل کر دیا اور پھر وہاں سے انڈیا چلے گئے۔' انھوں نے اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ' ہمارے گھر سے ان لوگوں کی روانگی کے وقت ماحول انتہائی افسردہ تھا اور سب ایک دوسرے سے آبدیدہ ہو کر گلے مل رہے تھے اور گھر سے نکلتے وقت عورتوں کے رونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ممتاز بیگم نے کہا کہ بعد میں ان میں سے کئی لوگ واپس بھی آئے اور اپنی امانتیں واپس لے کر چکے گئے اور کچھ چیزیں مال خانے میں جمع کرانی پڑیں لیکن میری سہلیوں کے خاندان سے کوئی نہیں آیا۔' انھوں نے ایک الماری کھول کر اس میں پڑے دو تالوں میں سے ایک نکال کر دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ میری سہیلی شیلا اور سورنا کے گھر کا تالہ ہے جو میں نے ابھی تک سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ ان کی سہلیوں کا گھر تو انڈیا سے ہجرت کر کے آنے والے مسلمانوں کو سونپ دیا گیا لیکن ممتاز بیگم کی یادیں ان مکانوں پر لگنے والے تالوں کی صورت میں اب بھی پاس ہیں۔ متماز بیگم کے بقول جب ان کو دیکھی ہوں تو سہلیوں کی یاد آتی ہے اور سوچتی ہوں کہ اگر آج میں زندہ ہو تو سکتا ہے میری سہلیاں بھی زندہ ہوں اور کسی دن مجھے ملنے آ جائیں کیونکہ میں تو وہاں نہیں جا سکتی۔۔۔ مجھے تو یہ بھی معلوم ہو سکا کہ وہ کہاں جا کر آباد ہوئے ہیں۔' ممتاز بیگم سے ملاقات میں جہاں ان کے چہرے پر ہجرت کے دوران ہنگامے اور افراتفری کی تلخ یادیں تھیں تو وہیں اس دور سے جڑے حسین لمحات کے احساسات کو محسوس کیا جا سکتا تھا اور سب ایسے تھا جیسےاچانک سخت گرمی اور حبس کے بعد بارش کا ہونا اور ٹھنڈیں ہوائیں۔ ممتاز بیگم نے اپنے آبائی مکان کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ اسے 1945 کے قریب مکمل کیا گیا تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جو وہ آٹھ دس برس کی تھیں۔ جب انھوں نے اس دور کی بات کی تو چہرے پر جہاں خوشی تھی وہیں آنکھوں میں شرارت کو محسوس کیا جا سکتا تھا اور اس کی وجہ ان کی وہ یادیں تھیں جن کے بارے میں انھوں نے بتاتے ہوئے کہا کہ ان کے ہمسایوں میں زیادہ تر ہندو تھے اور ان کی قریبی سہلیاں شیلا، سورنا اور شکونترا تھیں جن سے وہ کھیلا کرتی تھیں۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ ان کی سہلیوں نے گڑیا گڈے کی شادی کی اور مجھے اس میں دعوت نہیں دی تو اگلے دن جا کر میں نے گڑیا اور گڈے کو چھپا دیا اور پھر بڑی مشکل سے اسے واپس کیا۔ ممتاز بیگم جیسے ماضی کی قید میں جیسے بند ہو گئیں اور پھر اس دور کے قصے شروع ہوئے جس میں خاندان کی شادی پر ہمسایوں نے جیسے آگے بڑھ کر ہر ضرورت پوری کی اور کس طرح شرارتاً کسی برہمن کو ہاتھ لگاتیں تو اسے سردی میں تالاب پر جا نہانا پڑتا تھا۔ ممتاز بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا ہے کہ میری سہیلی شیلا کے گھر میں خوبصورت گائے ہوا کرتی تھی اور اسے وہ خوب صاف ستھرا رکھتے تھے، تو میں بھی گھر جا کر اپنی گائے کو زیادہ سے زیادہ صاف اور خوبصورت رکھنے کی کوشش کرتی تھی، یہ ایسے ہی تھا جسے ہم دونوں سہیلوں کا اس میں کوئی مقابلہ چل رہا ہو۔ انھیں اچانک ہی ہاتھ میں پکڑا تالہ یاد آ گیا اور اس کے ساتھ پھر کہنا شروع کیا کہ'ان کے ساتھ بچپن کی محبت تھی، یاد تو ہر روز آتی ہیں کیوں نہیں آئیں گی۔ یہ کہتے ہوئے ممتاز بیگم نے الماری میں دوبارہ تالا رکھ کر اسے بند کر دیا لیکن شاید ان کے دماغ میں ان کی یادوں کا دریچہ ہمیشہ کھلا رہے گا۔ ’جب تقسیم کا اعلان ہوا تو محلے کے سارے ہندو پناہ لینے کے لیے ہمارے گھر میں جمع ہو گئے۔ جب مسلمانوں کو پتہ چلا ان کا مشتعل ہجوم باہر اکٹھا ہو گیا کہ ان کو باہر نکالو۔ ‘ text: سرکاری ملازمین سے لے کر ڈاکٹر اور ’سول سرونٹ‘ تک ہر شعبے کے لوگ اس تحریک میں شامل ہیں اور نیپال کی جدید تاریخ میں یہ اس نوعیت کی پہلی عوامی تحریک ہے۔ دارالحکومت کٹھمنڈو میں گزشتہ بدھ کی رات سے کرفیو نافذ ہے لیکن مظاہروں اور احتجاج میں روز بروز شدت آ تی جا رہی ہے۔ شہر کی سڑکوں پر لوگوں نے جگہ جگہ بڑے بڑے پتھر بکھیر دیے ہیں تاکہ فوجی گاڑیوں کی نقل وحرکت روکی جا سکے جبکہ کئی مقامات پر درختوں کی شاخوں سے رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ صبح کچھ دیر کے لیے جب کرفیو ہٹتا ہے تو لوگ کھانے پینے کی چیزیں اور دیگر ضروری اشیاء کی خریداری کے لیئے باہر نکلتے ہیں۔ اس وقت سارے شہر میں سب کچھ معمول کے مطابق لگتا ہے مگر جیسے ہی کرفیو کا وقت دوبارہ شروع ہوتا ہے بازاروں اور سڑکوں سے لوگوں کی بھیڑ غائب ہوجاتی ہے۔ چند ہی لمحوں میں فٹ پاتھوں پر، ہر چوراہے پر اور سڑکوں پر صرف فوج اور پولیس نظرآتی ہے اور ایسا لگنے لگتا ہے کہ جیسے اس شہر پر کسی غیر ملکی فوج نے قبضہ کر لیا ہو۔ دوپہر تک شہر کے ہر داخلی راستے سے مظاہرین شہر میں داخل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے اور ان میں خواتین بھی ہوتی ہیں اور بچے بھی۔ سب سے زیادہ تعداد نو عمر لڑکوں کی ہوتی ہے۔ یہ لوگ شہر کے نواحی دیہات سے آتے ہیں اور جیسے جیسے وہ شہرکی طرف بڑھتے ہیں ان کے ساتھ شہر کے جلوس بھی شامل ہوتے جا تے ہیں۔ ان کی قیادت مقامی رہنماؤں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ سب سے آگے کی صفوں میں لوگ سیاسی اتحاد اور اپنی اپنی جماعتوں کا پرچم لیے ہوتے ہیں۔ شہر میں جگہ جگہ مقامی آبادی نے مظاہرین کے لیئے پینے کے پانی کا بندوبست کر رکھا ہے۔گرمی سے بچاؤ کے لیئے لوگ اپنی چھتوں سے مظاہرین پر پانی کا چھڑکاؤ کرتے ہیں غرض کہ ہرکام بہت منظم اور پرامن طریقے سے انجام پاتا ہے۔ ادھر فوج نے شاہی محل کے گرد کئی قطاروں کا حفاظتی گھیرا بنا رکھا ہے۔ ان کے آگے مسلح پولیس تعینات ہے۔ جگہ جگہ بکتر بند گاڑیاں اور بھاری مشین گنیں نصب کی گئی ہیں۔ مظاہرین کو محل سے کافی دور روک دیا جاتا ہے۔ وہ نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انہیں فائرنگ، لاٹھی چارج اور اشک آورگولوں سے پسپا کر دیا جاتا ہے اور ہر روز سینکڑوں جمہوریت حامی مظاہرین زخمی ہو رہے ہیں۔ دارالحکومت کے علا وہ ملک کے دوسرے شہروں میں بھی زبردست مظاہرے ہو رہے ہیں اور جیسے جیسے مظاہروں میں شدت آ رہی ہے ویسے ہی پولیس اور فوج کے تشدد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ اپنے مطالبات کے حصول تک جمہوریت کی تحریک جاری رکھیں گی۔ عوام مکمل طور پر ان کے ساتھ ہیں اور مظاہرین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کی منزل شاہی محل ہے اور وہ رفتہ رفتہ محل کے نزدیک پہنچتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں کٹھمنڈو میں وزارتِ داخلہ کے درجنوں اعلٰی افسر اور اہلکار بحالیِ جمہوریت تحریک کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے مگر نیپال کے لیئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ text: فرش پر اپنے والدین کے ساتھ سوتے ہوئے بچے بھی اسرائیلی فوج کی بمباری کا نشانہ بن گئے اقوام متحدہ کے ترجمان کرس گنیس نے کہا ہے کہ یہ حملہ ’پوری دنیا کی تذلیل ہے۔‘ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ سکول کے قریب سے مارٹر گولے داغے گئے تھے جس کے جواب میں اس کے فوجیوں نے کارروائی کی۔ غزہ میں جاری لڑائی میں اب تک 1200 تک فلسطینی اور 55 اسرائیلی، جن میں 53 فوجی شامل ہیں، ہلاک ہوئے ہیں۔ شدت پسند تنظیم حماس کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک لڑنے کے لیے تیار ہے جب تک اسرائیل کی طرف سے گذشتہ سات سال سے جاری غزہ کی اقتصادی ناکہ بندی ختم نہیں کی جائے گی۔ گذشتہ ہفتے بھی اقوام متحدہ کا ایک سکول نشانہ بن گیا تھا حماس اور اسرائیل کے درمیان موجودہ فوجی تصادم سب سے زیادہ طویل ہو گیا ہے۔ سنہ 2012 میں ہونے والی لڑائی آٹھ دن تک جاری رہی تھی جبکہ سنہ 2008 میں فریقین کے درمیان لڑائی 22 دن بعد ختم ہو گئی تھی۔ موجودہ لڑائی میں اسرائیل نے دس تک غزہ پر مسلسل فضائی، بحری اور بری فوج کی بمباری کے بعد زمینی کارروائی شروع کی تھی۔ اقوام متحدہ کے امدادی ادارے ’ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی‘ کے سربراہ کرس گِنیس نے کہا ہے کہ اسرائیل فوج کو 17 مرتبہ بتایا گیا تھا کہ جبالیا کے سکول میں مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج حماس پر شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا الزام عائد کرتی ہے انھوں نے کہا آخری مرتبہ حملے سے چند گھنٹے قبل انھیں بتایا گیا تھا کہ سکول میں شہریوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کی طرف سے کی گئی ابتدائی تحقیقات کے مطابق اسرائیلی توپ خانے نےسکول کو نشانہ بنایا۔ کرس گنیس نے کہا کہ اپنے والدین کے پہلو میں سوئے ہوئے بچے بھی اس حملے کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئے۔ انھوں نے کہا کہ اس حملے میں عورتوں اور بچوں سمیت متعدد ہلاکتیں ہوئی ہیں اور یہ واقعہ عالمی شرمندگی کا باعث ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ بم کے ٹکڑوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حملہ اسرائیل نے کیا تھا حملے کے بعد سکول کی تصاویر میں دیواروں اور چھتوں میں بڑے بڑے شگاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے غزہ میں امدادی کارروائیوں کے ڈائریکٹر باب ٹرنر کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہے کہ اسرائیل ہی اس کا ذمہ دار ہے۔ انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اہلکاروں نے سکول کی عمارت کے ملبے سے بموں کے ٹکڑے جمع کیے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ آرٹلری بم ہیں جو سکول کے شمال مشرق سے اسرائیل فوج نے فائر کیے تھے۔ اسرائیل اس طرح کے واقعات کے بعد ان کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتا ہے کہ حماس ان جگہوں کو اسرائیلی فوج پر راکٹ داغنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ گذشتہ ہفتے بھی اقوام متحدہ کے ایک سکول کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں 15 بچے ہلاک ہو گئے تھے۔ اسرائیل کی بمباری میں مساجد، سکول، رہائشی عمارتیں حتیٰ کہ ہسپتال تک نشانہ بنے ہیں۔ درین اثنا حماس اور فتح گروہوں کے درمیان جنگ بندی کے لیے قاہرہ میں بات چیت متوقع ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ بار بار خبردار کیے جانے کے باوجود اسرائیل نے غزہ میں اقوام متحدہ کے ایک سکول پر تباہ کن حملہ کر کے بچوں سمیت 15 فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ اس سکول میں فلسطینی پناہ لیے ہوئے تھے۔ text: یہ بات انہوں نے وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کے دوران کہی۔ وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی نے کہا کہ حکومت کبھی بھی دہشت گردوں کے آگے نہیں جھکے گی بلکہ صدر مشرف پر حملے میں ملوث ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ قوم اس نازک مرحلے پر متحد رہے اور ملک کے خلاف ہونے والی سازشوں کا حکومت سے ساتھ مل کر ڈٹ کر مقابلہ کرے۔ کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اعظم جمالی نے صدر مشرف سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور ان کی خیریت دریافت کی۔ دریں اثنا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حملے سے متعلق تازہ اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق جو گاڑیاں حملے میں استعمال کی گئیں ان میں تیس تیس کلوگرام دھماکہ خیز مواد موجود تھا۔ پولیس حکام کے مطابق انہیں اس بات کی قطعی امید نہیں تھی کہ دہشت گرد اسی جگہ کا انتخاب کریں گے جہاں چند روز پہلے ایک اور حملے میں صدر مشرف کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ وزیر اعظم جمالی نے قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ خود کش حملے میں صدرمشرف کی جانے بچ جانے پر جمعہ کے روز یوم تشکر منائے۔ text: شوانیگر کا کہنا تھا کہ توجہ اب ایتھیلٹس کی طرف کر دیں ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اداکار پر پشت سے حملہ کیا گیا۔ 71 سالہ شواسنیگر جو کیلیفورنیا کے سابق گورنر بھی رہ چکے ہیں ایک تقریب کے دوران اپنے مداحوں سے بات چیت کر رہے تھے کہ ایک شخص سے پیچھے سے آکر انہیں لات ماری۔ حملہ کرنے والے نوجوان کو پکڑ لیا گیا ہے۔ آرنلڈ شواسنیگر نے اپنے مداحوں کی جانب سے متفکر پیغامات پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ’فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔‘ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ شواسنیگر جوہانسبرگ میں ایک تقریب کے دوران اپنے مداحوں کے ساتھ تصاویر بنا رہے ہیں اور ایک شخص پیچھے سے انہیں فلائنگ کک مارتا ہے۔ اگرچہ حملے میں اداکار لڑکھڑائے تاہم حملہ آور خود گر گیا۔ جسے فورا ہی سکیورٹی اہلکاروں نے دبوچ لیا۔ اس شخص کو بعد ازاں پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ آرنلڈ شواسنیگر نے اپنے 40 لاکھ فالوورز کو مخاطب کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ’مجھے لگا کہ شاید مجھے ہجوم کی وجہ سے دھکا لگا ہے جو میرے ساتھ بہت ہوتا ہے۔ مجھے تو اس لات کے بارے میں تب پتا چلا جب میں نے یہ ویڈیو دیکھی۔‘ انھوں نے اپنے مداحوں سے کہا کہ وہ ایتھیلٹس کی تقریب پر دھیان دیں ناکہ اس حملے پر۔ انھوں نے ٹویٹر پر لکھا ’یہاں جنوبی افریقہ میں 90 کھیلوں کے مقابلے ہو رہے ہیں جس میں 24000 ایتھیلس ہیں جو اپنی قابلیت سے ہمیں متاثر کر رہے ہیں۔ چلیں ان کی طرف دھیان کریں۔‘ دی آرنلڈ کلاسیک افریقہ کے نام سے یہ تقریب ہر سال مئی میں ہوتی ہے جس مںی باڈی بلڈنگ اور کامبیٹ کھیل شامل ہوتے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں خود پر ہونے والے ایک حملے کے بعد اداکار آرنلڈ شوانیگر نے اپنے مداحوں سے کہا ہے کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ text: صوبائی دارلحکومت پشاور سمیت کرک اور سرائے نورنگ میں زلزلے کی افواہ نے کل شام سے گردش کرنا شروع کیا۔ سینئر صوبائی وزیر سراج الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ افواہ جمعہ کی رات گئے صوبے کے جنوبی شہر کرک سے کسی نامعلوم شخص کی جانب سے لاوڈ سپیکر پر اعلان سے پھیلی۔ اس کے بعد یہ جنگل کی آگ کی طرح صوبائی دارلحکومت پشاور سمیت مختلف علاقوں میں پھیل گئی۔ مسجدوں میں اعلانات اور کئی علاقوں میں پولیس بھی لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کے مشورے دینے لگے جس سے صورتحال مزید ابتر ہوگئی۔ لوگ ایک دوسرے سے ٹیلفون پر زلزلے کے بارے میں پوچھتے رہے۔ ہزاروں لوگ گھر بار چھوڑ کر کھلے میدانوں اور قبرستانوں میں جمع ہوگئے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق پولیس کی موبائل ٹیموں نے عوام کو واپس اپنے گھروں کو جانے کی ہدایت دینا شروع کر دیا ہے۔ سینئر وزیر سراج الحق نے بھی عوام سے پرسکون رہنے کی اپیل کی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ آج تک زلزلے کی پیشن گوئی کا کوئی سائنسی طریقہ ایجاد نہیں ہوا ہے البتہ خوفزدہ ہونے والوں میں بڑی تعداد پڑھے لکھے افراد کی بھی ہے۔ کئی لوگ زلزلے کی خبر بی بی سی سے چلنے کی افواہیں بھی پھیلا رہے ہیں حالانکہ اس ادارے سے ایسی کوئی خبر نشر نہیں ہوئی۔ سینر وزیر کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت اس افواہ کی تردید کے لئے اقدامات اٹھا رہی ہے البتہ اس کی تفصیل انہوں نے نہیں بتائی۔ صوبہ سرحد کے اکثر علاقوں بشمول صوبائی دارلحکومت پشاور میں زلزلے کی افواہ نے خوف وہراس پھیلا دیا ہے۔ تاہم صوبائی حکومت نے ان افواہوں کی سختی سے تردید کی ہےاور عوام کو پرسکون رہنے کی تلقین کی ہے۔ text: روس کے تفریحی مقام سوچی میں ملاقات کے دوران عباس نے کہا کہ ماسکو فلسطین کا انتہائی قابل بھروسہ دوست ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ اور یورپ نے جنوری میں فلسطین کی شدت پسند تنظیم حماس کے انتخابات میں کامیابی کے بعد اسے فراہم کی جانے والی امداد روک دی تھی۔ اس بارے میں روس کا کہنا ہے کہ فلسطین کو امداد کی فراہمی روکے جانے کا فیصلہ غلط ہے۔ روس کے صدر نے ملاقات کے دوران فلسطینی صدر کو پیشکش کی کہ روس فلسطین کی کس طرح بھرپور مدد کر سکتا ہے۔ گزشتہ ہفتے روس نے فلسطین کو اس کے معاشی بحران سے نکلنے میں مدد دینے کے لیئے دس ملین ڈالر یا پانچ اعشاریہ دو ملین پونڈ کی ہنگامی امداد دی تھی۔ فلسطینی انتظامیہ میں کام کرنے والے ایک لاکھ پینسٹھ ہزار کارکنوں کو دو ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ محمود عباس نے امید ظاہر کی کہ روس کے اس عمل سے امریکہ، اقوام متحدہ اور یورپی یونین بھی فلسطین کو امداد کی بحالی کا آغاز کر دیں گے۔ امریکہ، اقوام متحدہ اور یورپی یونین فلسطین کی امدادی رقم حماس کی حکومت کی بجائے متبادل طریقوں سے دینے پر غور کر رہے ہیں کیونکہ ان کے مطابق حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ واشنگٹن اور برسلز کے برخلاف ماسکو نے حماس کو ایک دہشت گرد تنظم کے طور پر تسلیم نہیں کیا اور روس کی دعوت پر حماس کے رہنماؤں نے دو ماہ قبل ماسکو کا دورہ کیا تھا۔ علاوہ ازیں محمود عباس نے ایک خطاب میں فلسطینیوں کے جلد از جلد اس صورت حال سے باہر آنے کی امید ظاہر کی تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ بصورت دیگر انہیں انتہائی مشکل حالات برداشت کرنے پڑیں گے۔ انہوں نے اسرائیل سے امن مذاکرات کے دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ محمود عباس نے اپنی تقریر میں اسرائیلی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اپنے اور تمہارے بچوں کا محفوظ مستقبل چاہتے ہیں۔ آؤ اور اس سال کو امن کا سال بنا دو‘۔ انکی تقریر براہ راست فلسطین کے ٹیلی وژن اور ریڈیو سے نشر کی جا رہی تھی۔ انہوں نے حماس سے بھی درخواست کی کہ وہ موجودہ معاہدہ امن کی پاسداری کرے۔ فلسطین کے صدر محمود عباس فلسطین کو دی جا نے والے امداد کے بارے میں بات چیت کے لیئے ان دنوں ماسکو کے دورے پر ہیں اور انہوں نے روس کے صدر ولادیمر پیوٹن سے ملاقات کی ہے۔ text: حسن روحانی اب تک گنے گئے ووٹوں کی بنیاد پر سب سے آگے ہیں انتخابات میں حسن روحانی کی فتح کے بعد امریکی حکومت نے کہا ہے کہ وہ ایران سے اس کے جوہری گروگرام پر براہ راست بات کرنے پر تیار ہے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں نومنتخب صدر کو مبارکباد نہیں دی گئی مگر ایرانی لوگوں کی تعریف کی گئی ہے کہ انہوں نے حکومتی رکاوٹوں، سنسرشپ، شفافیت کی عدم موجودگی اور دھمکی آمیز سکیورٹی کے باوجود ہمت کی۔ایران کے انتخابات پر اسی قسم کا ردعمل دیگر یورپی ممالک کی جانب سے بھی آیا ہے۔ صدارتی انتخابات میں حسن روحانی نے پچاس فیصد سے معمولی زیادہ ووٹ لیے ہیں اس لیے ثانوی انتخابات کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تہران کے میئر محمد باقر قالیباف نے دوسری پوزیشن حاصل کی لیکن ان کے ووٹ حسن روحانی کے مقابلے پر بہت کم تھے۔ پانچ کروڑ کے قریب ایرانی ووٹروں میں سے 72.2 فیصد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔روحانی نے عالمی طاقتوں کے ساتھ بہتر روابط کا عزم ظاہر کیا ہے۔ رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای تین اگست کو انتخابات کی توثیق کریں گے، جس کے بعد نئے صدر پارلیمان میں حلف اٹھائیں گے۔ وزیرِداخلہ مصطفیٰ محمد نجار نے اعلان کیا کہ حسن روحانی نے کل پڑنے والے 36,704,156 ووٹوں میں سے 18,613,329 ووٹ حاصل کیے ہیں۔ یہ کل ووٹوں کا 51.71 فیصد بنتا ہے۔ قالیباف نے 6,077,292 ووٹ لے کر دوسری پوزیشن حاصل کی، جو 16.56 فیصد ووٹ بنتے ہیں۔ سعید جلیلی تیسرے اور محسن رضائی چوتھے نمبر پر آئے۔ وزیرِ داخلہ نجار نے کہا کہ اگر کسی امیدوار کو ان نتائج پر اعتراض ہو تو اس کے پاس شورائے نگہبان میں شکایت درج کروانے کے لیے تین دن کی مہلت ہے۔ ایرانی قانون کے مطابق اگر جیتنے والے امیدوار نے 50 فیصد سے کم ووٹ لیے ہوتے تو پھر ثانوی انتخابات کروائے جاتے۔ جمعے کو ووٹروں کی بڑی تعداد کے پیشِ نظر ووٹنگ کے وقت میں پانچ گھنٹے کی توسیع کی گئی تھی۔ اگرچہ انتخابات میں حصہ لینے والے چھ کے چھ امیدوار قدامت پرست تھے، 64 سالہ حسن روحانی کو اکثر ’معتدل‘ کہا جاتا ہے۔ اس سے قبل وہ کئی وزارتی عہدے پر فائز رہ چکے ہیں اور جوہری پروگرام کی ثالثی کے سربراہ کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔ روحانی کی مقبولیت میں اس وقت اضافہ ہوا جب منگل کو صدارتی دوڑ میں شامل واحد اصلاح پسند امیدوار رضا عارف نے اعلان کیا کہ وہ سابق صدر محمد خاتمی کی ہدایت پر دست بردار ہو رہے ہیں۔ حسن روحانی کو دو سابق صدور محمد خاتمی اور ہاشمی رفسنجانی کی حمایت حاصل تھی۔ اس کے علاوہ ایران میں اسلامی انقلاب لانے والے آیت اللہ روح اللہ خمینی کے پوتے حسن خمینی بھی حسن روحانی کے حامی تھے۔ مشہد سے تعلق رکھنے والے ایک ممکنہ ووٹر مہدی سافٹ ویئر ڈیویلپر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے ووٹ نہیں ڈالا کیوں کہ وہ ’اسلامی جمہوریہ‘ کے خلاف ہیں۔ تاہم انھوں نے کہا: ’اس کے باوجود میں امید رکھتا ہوں کہ روحانی جیت جائیں کیوں کہ وہ بہترین امیدوار ہیں۔ وہ کوئی ڈرامائی تبدیلی نہیں لا پائیں گے، تاہم وہ کچھ نہ کچھ بہتری ضرور آ جائے گی۔‘ خیال رہے کہ ایران میں سنہ 2009 میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے نتائج کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے کیونکہ صدر احمدی نژاد کے مخالفین کے خیال میں انہیں دھاندلی کر کے جتوایا گیا تھا۔ ایرانی اپوزیشن کے مطابق سنہ 2009 کے صدارتی انتخاب کے بعد آنے والے 6 ماہ میں حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اس کے 80 سے زائد حامی ہلاک کر دیے گئے لیکن ایرانی حکومت ان اعدادوشمار کو مسترد کرتی ہے۔ اس صدارتی الیکشن میں حصہ لینے والے دو اصلاح پسند امیدوار میر حسین موسوی اور سابق سپیکر مہدی کروبی آج بھی نظربند ہیں۔ لیکن سنہ 2009 کے بعد اب ہونے والے انتخاب میں سابق ایرانی صدر رفسجانی کو نا اہل قرار دینے کے بعد ایران میں لبرل تحریک انتخاب میں حصہ لینے یا نہ لینے پر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ ایران میں انتخابی عمل کا جائزہ لینے کے لیے غیر ملکی مبصرین موجود نہیں ہیں۔ ایران کے صدارتی انتخابات میں اصلاح پسندوں کے حمایت یافتہ رہنما حسن روحانی نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ text: اس سلسلے میں سائنسدانوں نے دس یورپی ملکوں سے چار لاکھ تیرہ ہزار افراد سے لیے گئے مواد کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھا کہ جسمانی طور پر چاق و چوبند لوگ باقی لوگوں کی نسبت بائیس فیصد تک کم تعداد میں بڑی آنت کے کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق دن بھر میں ایک گھنٹے کی سخت ورزش یا بھر دو گھنٹے کی درمیانے درجے کی ورزش کینسر کے خطرے کو کم کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس تحقیق سے پتا چلا ہے جسمانی طور پر فعال افراد کی پینتیس فیصد تعداد بڑی آنت کے دائیں جانب کے حصے کے کینسر سے محفوظ رہتی ہے۔ ایسے لوگ جو کہ چاق و چوبند ہوتے ہیں اور ان کا وزن بھی کم ہوتا ہے ان میں اس طرح کے کینسر کا خطرہ اور بھی کم ہو جاتا ہے۔ ایک بین الاقوامی تحقیق کے مطابق جسمانی طور پر چاق و چوبند رہنے سے بڑی آنت کے کینسر کا خطرہ بہت حد تک کم ہو جاتا ہے۔ text: کورونا وائرس کی وبا کے سبب پیدا ہونے والے معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے بہت سے ممالک نے اپنی معاشی پالیسیاں تبدیل کی ہیں اور کویت بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ کویت ایک ایسی قانون سازی کرنے جا رہا ہے جس کے بعد غیر ملکی ورکرز کی تعداد میں کمی کی جا سکے گی تاکہ کویتی شہریوں کے لیے روزگار کے مواقع کم نہ پڑ جائیں۔ عرب نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کی قانون ساز کمیٹی نے ایک بل کے مسودے کی قانونی معقولیت کی منظوری دے دی ہے جس میں غیر ملکی ورکرز کے لیے ایک کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔ یہ مسودہ پانچ ارکان اسمبلی نے تیار کیا ہے۔ قانون میں تبدیل ہونے کے لیے اب اس بل کو دیگر کمیٹیوں سے بھی منظوری حاصل کرنی ہوگی۔ یہ بھی پڑھیے غلاموں کی آن لائن منڈی میں ملازماؤں کی خرید و فروخت کورونا وائرس ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو کیسے تباہ کر رہا ہے؟ کورونا سے پاکستان میں ایک کروڑ افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ لاک ڈاؤن میں 20 ہزار کلو سبزیاں مفت تقسیم کرنے والی خاتون متعلقہ کمیٹیاں اس بل کا جائزہ لینے کے بعد اس پر اپنی رائے دیں گی۔ اس بل کے مندرجات کے مطابق کویت میں سب سے زیادہ غیر ملکی ورکرز انڈیا سے آئے ہوئے ہیں۔ اگر یہ بل منظوری کے بعد قانون کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو پھر کویت کی کل آبادی کے 15 فیصد آبادی سے زیادہ انڈین باشندوں کو کویت میں رہنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اس وقت کویت میں تقریباً 10 لاکھ سے زائد انڈین رہ رہے ہیں۔ اگر یہ نیا بل منظور ہو جاتا ہے تو پھر آٹھ لاکھ انڈین تارکین وطن کو کویت سے کام چھوڑ کر واپس انڈیا جانا ہوگا۔ کویت کی کل آبادی تقریباً 45 لاکھ ہے جس میں سے کویتی نژاد باشندے محض 13 لاکھ کے قریب ہی ہیں۔ وہاں موجود تارکِ وطن آبادی میں مصر، فلپائن، پاکستان، بنگلادیش، سری لنکا اور دیگر ممالک کے افراد کے مقابلے میں سب سے بڑی آبادی انڈین شہریوں کی ہے۔ مسودے میں دیگر ملکوں سے آکر کویت میں کام کرنے والوں کی تعداد بھی کم کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ اس کے مطابق غیر ملکی افراد کی تعداد ملک کی کل آبادی کے 30 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ کویت کی ایک کثیرالقومی کمپنی میں کام کرنے والے ناصر محمد (فرضی نام) کو انجینیئر ہونے کے باوجود مجبوری میں سپروائزر کے طور پر کام کرنا پڑ رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’یہاں رہنے والے انڈین افراد فکرمند ہیں کہ اگر قانون بن گیا تو کیا ہوگا۔‘ ناصر نے بتایا کہ 2018 میں نئے کویتی قوانین کے دائرے سے باہر ہو جانے پر انڈیا کے مقبول اداروں سے انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے والے افراد کی نوکریاں بھی چلی گئی تھیں۔ وہ خود کو خوش قسمت مانتے ہیں کہ انھیں پرانی کمپنی میں نوکری جانے کے بعد نئی جگہ کام مل گیا۔ انڈیا کی سابق وزیر خارجہ سشما سواراج نے انجینیئروں کے معاملے کو کویتی حکومت کے سامنے اٹھایا بھی تھا لیکن اس کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔ محمد ناصر نے بتایا کہ ’حالات یہ ہیں کہ انجینیئرنگ کی ڈگری یافتہ متعدد انڈینز کویت میں سپروائزر اور فورمین جیسے عہدوں اور ان کی تنخواہوں پر کام کر رہے ہیں، جبکہ کام انھیں انجینیئر والا کرنا پڑتا ہے۔‘ اںڈین ریاست حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے محمد الیاس کویت میں رہتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ تارکینِ وطن سے وابستہ قانون کی آہٹ 2008 کی کساد بازاری کے دور سے بار بار سنائی دیتی رہی ہے۔ یہ آہٹ 2016 میں اور بھی تیز ہوئی تھی جب سعودی عرب نے ایک ایسا قانون نافذ کیا جس کا مقصد سرکاری محکموں اور مستقل عہدوں پر مقامی لوگوں کی نوکری کی شرح کو اوپر لے جانا تھا۔ گذشتہ برس ایک کویتی رکن پارلیمان خالد الصالح نے ایک بیان جاری کر کے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ’تارکین وطن کے طوفان کو روکا جانا چاہیے جنھوں نے نوکریوں اور حکومت کی جانب سے ملنے والی خدمات پر قبضہ کر رکھا ہے۔‘ ایک اور رکن پارلیمان صفا الہاشم ہے نے چند برس قبل کہا تھا کہ ’تارکین وطن کو ایک برس تک ڈرائیونگ لائسنس نا دینے اور ایک سے زیادہ کار رکھنے کی اجازت نہ دیے جانے کے لیے قانون لایا جانا چاہیے۔‘ صفا الہاشم کے اس بیان کی کچھ حلقوں میں مذمت بھی ہوئی تھی۔ کویت کی قومی اسمبلی میں 50 رکن پارلیمان انتخابی عمل کے ذریعے آتے ہیں حالانکہ وہاں فیصلہ لینے کا اختیار سلطنت کے امیروں کے پاس ہی ہے۔ حال ہی میں جب نئے قانون کی بات چلی تو چند مقامی افراد نے اس کے خلاف بیان بھی دیے۔ انیسویں صدی کے آخر میں 1961 تک برطانیہ کے زیر نگرانی رہنے والے ملک کویت میں انڈینز کا جانا طویل عرصے سے جاری ہے۔ اس وقت وہاں تقریباً سبھی شعبوں میں انڈینز کام کرتے ہیں۔ کویتی گھروں میں ڈرائیورز اور خانساموں سے لے کر گھریلو ملازموں تک کی تعداد تقریباً ساڑھے تین لاکھ ہے۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں جگہیں خالی ہونے پر انھیں بھرنا بھی آسان نہیں ہوگا۔ ریون ڈیسوزا کے مطابق غیر قانونی تارکینِ وطن کو واپس قبول نہ کرنے کی وجہ سے کویت میں کچھ حلاقے نڈیا سے ناراض ہیں ریون ڈیسوزا کا خاندان 1950 کی دہائی میں انڈیا سے کویت چلا گیا تھا۔ ان کی پیدائش وہیں ہوئی۔ ریون ڈیسوزا مقامی اخبار کویت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’فی الحال تارکین وطن سے متعلق مسودے کو محض قانونی معقولیت کی منظوری ملی ہے۔ ابھی اسے کئی اور کمیٹیوں جیسے افرادی قوت کی کمیٹی اور دیگر مراحل سے گزرنا ہے۔ اس کے بعد ہی یہ بل کے طور پر منظوری کے لیے پیش ہو سکے گا۔ اور اس کے بعد ہی اس کا قانون بننا ممکن ہے۔' ریون ڈیسوزا اسے دوسرے نظریے سے بھی دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کووڈ 19 سے پیدا ہونے والے بحران کے علاوہ کویت میں غیر قانونی طور پر رہنے والے لوگوں کو واپس انڈیا لے جانے کے مقامی حکومت کے مطالبے کو انڈین حکومت کی جانب سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، جس کی وجہ سے بھی کویتی حکومت کے کچھ حلقوں میں ناراضی ہے، اور اب وہ کسی ایک ملک کے کارکنان پر انحصار نہیں کرنا چاہتے۔ کویت میں تارکینِ وطن سے متعلق ایک مجوزہ قانون نے مشرق وسطیٰ میں رہنے والے انڈین افراد کو ایک بار پھر اس فکر میں مبتلا کر دیا ہے جس سے دو برس قبل انڈین انجینیئر متاثر ہوئے تھے۔ اس وقت بھی قوانین میں تبدیلی کے سبب سینکڑوں انڈین انجینیئرز کو نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ text: ’بینگستان‘ 31 جولائی کو بھارت میں ریلیز کی جا رہی ہے اس فلم کے شریک پروڈدیوسر رتیش سدھواني نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ریلیز کی اجازت نہ ملنے کی تصدیق کی اور کہا کہ وہ اس بات سے خاصے مایوس ہوئے ہیں۔ رتیش نے بتایا، ’پاکستانی سینسر بورڈ نے صرف ٹریلر دیکھ کر یہ طے کر لیا کہ فلم پاکستان مخالف ہے اور مسلم مخالف بھی جبکہ یہ فلم اگر کسی کی مخالفت کر رہی ہے تو وہ ہے دہشت گردی۔‘ رتیش نے پاکستان کے متعلقہ وزارت سے گزارش کی ہے کہ وہ دوبارہ اس فلم کو دیکھیں اور پھر فیصلہ کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ’ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت اور سینسر بورڈ یہ فلم دیکھیں۔‘ خیال رہے کہ ’بینگستان‘ 31 جولائی کو بھارت میں ریلیز کی جا رہی ہے۔ رتیش نے پاکستان کے متعلقہ وزارت سے گزارش کی ہے کہ وہ دوبارہ اس فلم کو دیکھیں اور پھر فیصلہ کریں اس فلم کے ٹریلر میں اداکار رتیش دیش مکھ اور پلکت سمراٹ کو خودکش حملہ آوروں کے کردار میں دکھایا گیا ہے، جنہیں ’برین واش‘ کر کے ایک دوسرے ملک میں حملہ کرنے بھیج دیا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں سینسر بورڈ کی جانب سے ماضی میں بھی بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگائی جاتی رہی ہے۔ سنہ 2010 میں پاکستانی اداکار علی ظفر کی پہلی بھارتی فلم ’تیرے بن لادن‘ کو بھی پاکستانی سنیما گھروں میں نمائش کی اجازت نہیں ملی تھی۔ حال ہی میں پاکستانی سینسر بورڈ نے سلمان خان کی بلاک بسٹر فلم ’بجرنگی بھائی جان‘ سے بھی چند مکالمے حذف کر کے اسے نمائش کی اجازت دی تھی۔ پاکستانی سینسر بورڈ نے بالی وڈ کے اداکاروں رتیش دیش مکھ اور پلکت سمراٹ کی آنے والی فلم ’بینگستان‘ کو پاکستان میں ریلیز کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ text: سنہ 2006 کے بلائنڈ کرکٹ ورلڈ کپ کے لیئے دو ممالک پاکستان اور جنوبی افریقہ نے بولی دی تھی اور کامیاب بولی دہندہ جنوبی افریقہ کی جانب سے اس مقابلے کے انعقاد سے معذرت پر اب پاکستان کو اس عالمی کپ کی میزبانی دی گئی ہے۔ پاکستان بلائنڈ کرکٹ ایسوسی ایشن یکم سے سولہ دسمبر تک اسلام آباد اور راولپنڈی میں بلائنڈ کرکٹ کا عالمی کپ کروائے گی جس میں پاکستان، بھارت، سری لنکا، انگلینڈ، آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز، جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں شریک ہوں گی۔ ان تمام ممالک نے عالمی کپ میں شرکت کی یقین دہانی کروا دی ہے۔ پاکستان بلائنڈ کرکٹ ایسوسی ایشن کے چیئرمین آغا شوکت کے مطابق اس عالمی کپ کے انعقاد کے لیئے انہیں دو کروڑ چالیس لاکھ روپے کی رقم درکار ہے جس میں سے اسی لاکھ روپے دینے کا تحریری وعدہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے کیا ہے۔ آغا شوکت پرامید ہیں کہ بقیہ رقم سپانسر شپ سے حاصل کر لی جائے گی۔ پاکستان بلائنڈ کرکٹ ایسوسی ایشن کے چیئرمین نے بتایا کہ عالمی کپ کے لیئے پاکستانی ٹیم کی تشکیل کی خاطر ابتدائی اوپن ٹرائلز پورے ملک میں ہوں گے اور ان ٹرائلز کا آغاز پانچ جولائی کو کراچی میں ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ جولائی کے آخر میں ایبٹ آباد میں حتمی ٹرائلز منعقد کیئے جائیں گے۔ پاکستان کی ٹیم سنہ 2002 میں بھارت کے شہر چنائی میں ہونے والےگزشتہ بلائنڈ کرکٹ ورلڈ کپ کی چیمپئن بھی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی بلائنڈ کرکٹ ٹیم نے گزشتہ ماہ انگلینڈ کا دورہ کیا تھا جس میں چار ایک روزہ میچز کی سیریز میں پاکستان نے انگلینڈ کو ایک کے مقابلے میں تین میچز سے شکست دی تھی اور اسی کارکردگی کی بناء پر پاکستان کے وزیرِاعظم شوکت عزیز سترہ جولائی کو بلائنڈ کرکٹ ٹیم کو وزیرِاعظم ہاؤس میں استقبالیہ دے رہے ہیں۔ پاکستان میں اس سال بصارت سے محروم کھلاڑیوں کا کرکٹ ورلڈ کپ منعقد ہو رہا ہے۔ text: امریکی ریاست سیٹل میں سزا پانے والے جیمز اوجامہ کو جن کی عمر اڑتیس برس ہے سن دو ہزار دو میں امریکہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر دو الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں سے ایک یہ تھا کہ وہ امریکہ میں دہشت گردی کی تربیت کے لئے کیمپ قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم گزشتہ برس دہشت گردی کے خلاف حکومت کی مدد کرنے کے عہد کے بعد ان پر سے الزامات اٹھا لیے گئے تھے۔ تاہم ان پر صرف طالبان سے تعاون کرنے کا الزام برقرار رکھا گیا۔ توقع ہے کہ اس سال موسم گرما کے آغاز پر انہیں رہائی مل جائے گی کیونکہ وہ اپنی سزا کا پیشر حصہ پہلے ہی کاٹ چکے ہیں۔ جج کے سامنے انہوں نے مستقبل میں زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کا عہد کیا۔ وہ ڈینور میں پیدا ہوئے تھے اور نوّے کی دہائی کے اوائل میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ ستانوے میں انہوں نے کچھ وقت لندن میں گزارا جہاں متنازعہ عالم ابو حمزہ المصری سے ان کی دوستی ہوگئی۔ ادھر امریکی حکام نے گوانتانامو بے میں قید سپین کے ایک شہری کو وہاں کی حکومت کے حوالے کر دیا جہاں اس پر مقدمہ چلایا جائے گا۔ انتیس سالہ عبدالرحمان احمد کو سن دو ہزار ایک میں افغانستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ سپین کی حکومت کا کہنا ہے کہ احمد سپین میں القاعدہ کا حلقہ ترتیب دے رہے تھے۔ احمد خلیج گوانتانامو کے پہلے اسیر ہیں جنہیں مقدمہ چلانے کی غرض سے ان کی حکومت کے حوالے کیا گیا ہے۔ امریکہ میں سیٹل میں ایک عدالت نے طالبان حکومت کی مدد کا اعتراف کرنے والے نومسلم ’امریکی طالبان‘جیمز اوجامہ کو دو سال قید کی سزا سنائی ہے۔ text: بنوں میں اس سے پہلے بھی سکیورٹی اہلکاروں پر متعدد حملے ہو چکے ہیں( فائل فوٹو) سرکاری میڈیا نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ منڈان پولیس سٹیشن کے مرکزی دروازے پر ایک خودکش بمبار نے باردو سے بھری گاڑی ٹکرا دی۔ اس واقعے میں دو اہلکار زخمی ہوئے ہیں جنھیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ اطلاعات کے مطابق علاقے میں سکیورٹی فورسز کا سرچ آپریشن بھی جاری ہے۔ دھماکے کے نتیجے میں پولیس سٹیشن کے مرکزی دروازے کے علاوہ عمارت کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ دوسری جانب اس حملے کی ذمہ داری دو کالعدم تنظیموں کی جانب سے قبول کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے ایک بیان میں حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے جبکہ ایک دوسری کالعدم شدت پسند تنظیم القاعدہ برصغیر نے بھی بی بی سی کو فون کر کے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ خیال رہے کہ بنوں میں اس سے پہلے متعدد بار سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو شدت پسندوں نے نشانہ بنا چکے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں ایک پولیس سٹیشن پر خودکش کار بم حملے میں دو اہلکار زخمی ہو گئے ہیں۔ text: وزیر اعظم ریاست اترانچل کے نینیتال شہر میں جاری کانگریس کے وزراء اعلی کے اجلاس کے اختتام پر ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ مسٹر سنگھ کا کہنا تھا کہ ہندوستان نے اپنا رویہ نہیں بدلا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ہندوستان نے ہمیشہ بات چیت کی حمایت کی ہے اور اب بھی ہندوستان بات چیت کے لئے تیار ہے لیکن پاکستان کو بھی اپنے خطے میں جاری دہشتگردانہ کارروائی روکنے کی ذمے داری اٹھانی ہوگي ۔ حال ہی میں ہوانا میں دہشتگردی سے نمٹنے کے لئے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک مشترکہ کارروائی کرنے پر حزب اختلاف نے سخت نکتہ چینی کی تھی۔ اس کے جواب میں وزير اعظم نے کہا: ’نہ تو ہندوستان جموں اور کشمیر علاقے سے لگی ہوئی پاکستان کی سرحد میں کوئی تبدیلی لانا چاہتا ہے اور نہ پاکستان کنٹرول لائن کو مستقل سرحد ميں تبدیل کرنے کی حمایت کرتا ہے اس لئے دونوں ملکوں کے سامنے بات چیت کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔‘ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ملک پر مزید دہشتگردانہ حملوں کا خطرہ برقرار ہے اور صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے انڈیا کو جس حد تک تیار رہنا ضروری ہے وہ تیار ہے۔ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ خطرے سے نمٹنے کے لئے خفیہ ایجنسیوں اور پولس کی کارکردگی کو جدید بنانے کی ضرورت ہے۔ ملک میں اقلیتوں کے حالات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں اقلیتوں کی پریشانیوں کو صحیح طریقے سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر کانگریس کی صدر سونیا گاندھی بھی موجود تھیں ۔ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ گاندھی نے کہا کہ دہشتگردانہ حملوں کے لئے کسی ایک برادری کو ذمہ دار ٹھرانا غلط ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ’لوگوں میں یہ احساس نہیں آنا چاہيے کہ پوری برادری ان حملوں میں ملوث ہے۔‘ محترمہ گاندھی نے مزید کہا کہ جب کسی مسلم شخص کو پوچھ گـچھ کے لئے گرفتارکیا جا تا ہے تو فوراً انکی خبريں ذرائع ابلاغ میں آ جاتی ہیں لیکن جب انہیں رہا کر دیا جاتا ہے تو کہيں کوئی خبر نظر نہیں آتی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ دہشتگردی پر قابو پانے کے دوران کسی بھی معصوم کو ملزم قرار دینا غلط ہے۔ ہندوستان کے وزير اعظم منموسن سنگھ نے ایک بار پھر دہشتگردی سے نمٹنے کے لئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ اب پاکستان کے صدر مشرف کو اپنی کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہے۔ text: الطاف حسین نے لندن سے ٹیلیفونک خطاب میں مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم اپنے ’مکھی کے مرجانے پر ہڑتال ہو جاتی ہے‘ والے الفاظ پر معافی مانگیں نواز شریف کا کہنا تھا کہ انھوں نے تاجر برادری کی شہر میں کی جانے والی ہڑتال کی شکایتیں سنیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ کوئی ایسا انتظام کریں کہ ہڑتالیں نہ ہوں۔ یاد رہے کہ کراچی گذشتہ ہفتے متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن کی پولیس تحویل میں ہلاکت کے بعد دو روز بند رہا تھا۔ ایم کیو ایم گورنر سندھ سے لاتعلقی کا اظہار کرچکی ہے جبکہ ماضی میں وہ حکومت اور تنظیم میں پل کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان نے کہا ’اگر مکھی بھی مر جاتی ہے تو احتجاج اور ہڑتال ہوتی ہے جو نہیں ہونی چاہیے۔‘ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کراچی میں جب ہڑتالیں نہیں ہوں گی تو یہاں صنعتیں چلیں گی، ملک کی معشیت پھلے پھولے گی جس سے عوام کو فائدہ ہوگا، سکول اور سڑکیں بنیں گی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ’کراچی میں جب ہڑتالیں نہیں ہوں گی تو یہاں صنعتیں چلیں گے، ملک کی معشیت پھلے پھولے گی‘ نواز شریف نے تاجروں کو بتایا کہ کراچی حیدرآباد موٹر وے پر جلد کام شروع ہونے والا ہے جہاں سے اسے سکھر جانا ہے جس کے بعد یہ موٹر وے چین پاکستان اقتصادی راہداری میں شامل ہو جائے گی۔ وزیر اعظم نے واضح کیا کہ وہ سکیورٹی معاملات سے غافل نہیں ہیں چاہے ملک کی سکیورٹی ہو یا کراچی کی تاہم انھوں نے رینجرز کی گذشتہ روز جاری کی گئی رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ وزیر اعظم کے اس خطاب کے بعد جمعہ کو رات گئے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے لندن سے ٹیلیفونک خطاب میں مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم اپنے ’مکھی کے مرجانے پر ہڑتال ہو جاتی ہے‘ والے الفاظ پر معافی مانگیں۔ واضح رہے کہ پاکستان رینجرز نے گذشتہ روز اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ کراچی میں سالانہ 230 بلین روپے سے زائد رقم غیر قانونی طریقوں سے وصول کی جاتی ہے، جس سے نہ صرف قومی خزانے کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ شہری انفرادی طور پر اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ رینجرز ترجمان نے ایپکس کمیٹی کے گذشتہ اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے ایک غیر معمولی اعلامیے میں بتایا کہ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ کراچی فش ہاربر سے غیر قانونی طریقوں سے حاصل کی گئی رقم لیاری گینگ وار، مختلف دھڑوں اور سندھ کی کچھ بااثر شخصیات میں تقسیم کی جاتی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے کراچی میں ایوان صنعت و تجارت میں صنعت کاروں اور تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں ہڑتال کے کلچر کو ختم ہونا چاہیے۔ text: 30 روز کے طویل ریمانڈ کی وجہ سکیورٹی خدشات کو قرار دیا گیا ہے جبکہ سماعت کے موقع پر صحافیوں کو کمرہ عدالت سے دور رکھا گیا۔ نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق جمعرات کو ملزم راؤ انوار کو بکتر بند گاڑی میں پولیس کی دیگر متعدد گاڑیوں کے حصار میں انسداد دہشت گردی کی جج خالدہ یاسمین کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں تفتیشی پولیس نے ملزم کا 30 روز کا جسمانی ریمانڈ طلب کیا۔ اس بارے میں مزید پڑھیے ’اداروں سے بات کی تو راؤ انوار پیش ہو گئے‘ نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار کو گرفتار کر لیا گیا ’خفیہ اداروں کی رپورٹس لیکن گرفتاری میں پیش رفت نہیں‘ نقیب اللہ کیس: راؤ انوار کی تین روز میں گرفتاری کا حکم عدالت نے ملزم راؤ انوار سے دریافت کیا کہ انھیں کوئی اعتراض تو نہیں جس پر راؤ انوار نے کہا کہ وہ پولیس افسر ہیں انھیں معلوم ہے کہ تفتیش کے لیے ریمانڈ کی ضرورت پڑتی ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ان کا 30 روز کا ریمانڈ دیا جا رہا ہے۔ عدالتی احاطے میں ملزم راؤ انوار کی آمد سے لے کر عدالت میں پیشی تک صحافیوں کو دور رکھا گیا جبکہ راؤ انوار کے وکیل جاوید چھتیاری نے سماعت کی تفصیلات بیان کیں۔ اس سے قبل جمعرات کی صبح عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت کے موقع پر ایس ایس پی قمر احمد سمیت گرفتار 10 پولیس اہلکاروں کو پیش کیا گیا۔ مقدمے کے تفتیشی افسر ایس پی عابد قائم خانی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ نقیب اللہ قتل کیس میں پولیس نے جو اسلحہ اور بارود ظاہر کیا تھا اس مقدمے میں راؤ انوار کا ریمانڈ لینے کے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے انتظامی جج (جو سندھ ہائی کورٹ کے جج ہیں) کی عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے حکم جاری کیا کہ ملزم کو پہلے اس عدالت میں پیش کیا جائے جس کے بعد پولیس کی مرضی ہے اسے جہاں بھی پیش کرے جس پر راؤ انوار کو غیر معمولی سکیورٹی میں عدالت میں پیش کیا گیا۔ نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تھا راؤ انوار نے کئی ماہ کی روپوشی کے بعد بدھ کے روز خود کو سپریم کورٹ میں پیش کیا تھا، جہاں سے انھیں گرفتاری کے بعد کراچی پہنچایا گیا ہے۔ اس سے قبل انسداد دہشت گردی کی عدالت راؤ انوار کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر چکی ہے۔ نقیب اللہ کیس: راؤ انوار کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ’راؤ انوار طاقتور حلقوں کے بھی نور نظر‘ ملیر کے سچل تھانے میں ایس ایس پی راؤ انور کے خلاف قتل اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقتول نقیب اللہ کے والد کی درخواست پر مقدمہ درج ہے۔ راؤ انوار نے نقیب اللہ کو عثمان خاصخیلی گوٹھ میں ایک مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور ان کا تعلق تحریک طالبان سے بتایا تھا۔ نقیب اللہ کے والد محمد خان محسود نے ایف آئی آر میں بتایا ہے کہ تین جنوری کو مبینہ طور پر راؤ انوار کے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار ان کے بیٹے نقیب اللہ اور حضرت علی اور قاسم کو اٹھا کر لے گئے بعد میں 6 جنوری کی شب حضرت علی اور قاسم کو سپر ہائی وے پر چھوڑ دیا لیکن راؤ انوار نے نقیب اللہ کو قید رکھا اور اس کا موبائل فون بھی بند کر دیا۔ ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ نقیب اللہ کے رشتے دار اسے تلاش کرتے رہے لیکن کچھ معلوم نہیں ہوا۔ ان کے والد نے ایف آئی آر میں کہا کہ 17 جنوری کو ٹی وی اور اخبارات سے انھیں معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے کو راؤ انوار اور اس کے اہلکاروں نے جعلی مقابلے میں ہلاک کردیا لہٰذا ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔ پولیس انسپکٹر شاکر نے ایف آئی آر میں تحریر کیا ہے کہ اس واقعے کی وجہ سے عوام میں دہشت اور خوف و ہراس پھیلا اس لیے اس میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ بھی شامل کی گئی ہے۔ کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ محسود قتل کیس میں سابق ایس پی ملیر راؤ انوار کو 30 روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ text: ذشتہ ہفتے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اسرائیل کی آبادکاری کی سرگرمیوں کو ’ناجائز‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا وزیرِاعظم نے کہا کہ منگل کو حکومت کے ہاؤسنگ وزیر اوری ایریئل نے جس منصوبے کا اعلان کیا ہے اس سے بین الاقوامی برادری کے ساتھ اسرائیل کی غیر ضروری کشیدگی پیدا ہوگی۔ اس سے قبل امریکہ نے کہا تھا کہ اسے اسرائیل کے منصوبے پر ’گہری تشویش‘ ہے۔ دوسری جانب فلسطین نے کہا ہے کہ وہ اس بابت اقوام متحدہ میں اپیل کریں گے۔ انھوں نے متنبہ کیا ہے کہ اسرائیل کے اس قدم سے امن مذاکرات کا خون ہو جائے گا۔ ایک بیان میں وزیرِاعظم نتن یاہو نے کہا ہے کہ انھوں نے اوری ایریئل سے کہا ہے کہ وہ غربِ اردن میں بسنے والے یہودیوں کے لیے مکانات کی تعمیر کے اپنے منصوبے پر نظر ثانی کریں۔ انھوں نے کہا کہ ’اس طرح کے اقدام سے یہودیوں کی آبادکاری کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ ایک ایسے وقت میں بین الاقوامی برادری کے ساتھ اس منصوبے کی وجہ سے غیر ضروری اختلاف بڑھے گا، جب ہم ایران کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے کوشاں ہیں۔‘ واضح رہے کہ حال ہی میں ایران کے متنازع جوہری پروگرام کے سلسلے میں جینوا ایران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتوں امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی کے درمیان مذاکرات ہوئے جو بغیر کسی حتمی معاہدے کے ختم ہو گئے ہیں۔ جان کیری کے حالیہ دورے میں فلسطین نے اسرائیلی تعمیرات کو رکوانے کی اپیل کی تھی اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہاؤسنگ کے وزیر اوری ایریئل نے وزیر ا‏عظم کی درخواست قبول کر لی ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے اس سے قبل آگاہ کیا تھا کہ اگر اسرائیل یہودی بستیاں بنانے کے اپنے منصوبے پر عمل کرتا ہے تو اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات ختم ہو جائیں گے۔ فلسطینیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس مسئلے پر بحث کے لیے اقوام متحدہ سے اپیل کریں گے۔ واشنگٹن میں امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے کہا تھا کہ امریکہ کو اسرائيلی منصوبے پر ’گہری تشویش‘ ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ اس بابت اسرائیل سے مزید وضاحت طلب کرے گا۔ واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اسرائیل کی آبادکاری کی سرگرمیوں کو ’ناجائز‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے اپنے ہاؤسنگ کے وزیر سے کہا ہے کہ وہ غربِ اردن میں 20 ہزار سے زیادہ نئے مکانات پر مشتمل یہودی بستیوں کی تعمیر کے منصوبے پر نظرِ ثانی کریں۔ text: ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں بین الاقومی فوج کے ترجمان نے خبر رساں ایجنسی رائیٹرز کو بتایا کہ خود کش حملہ آور موٹر سائیکل پر سوار تھا اور اس نے فوجی اڈے کے داخلی دروازے پر خود کو اڑا دیا۔ واضح رہے کہ اب سے گیارہ برس قبل طالبان مخالف لیڈر احمد شاہ مسعود کو القاعدہ کے ایک بمبار نے ایک خودکش حملے میں ہلاک کردیا تھا۔ احمد شاہ مسعود کی گیارویں برسی کے موقع پر کابل میں سیکورٹی کے انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں۔ بین الاقوامی فوج کے ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ حملے کے بعد فوجی اڈے کے اطراف میں سخت سیکورٹی ہے۔ افغان پولیس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ حملہ ایک خودکش حملہ آور نے کیا ہے۔ خبررساں ادارے رائیٹرز کے مطابق حملے میں سڑک کنارے سامان فروخت کرنے والے افراد متاثر ہوئے ہیں اور ایمبولینس میں چھوٹے بچوں کی لاشوں کو لے جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو ایک پولیس اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنےکی شرط پر بتایا کہ حملے میں وہ بچے ہلاک ہوئے ہیں جو فوجی اڈے کے باہر فوجیوں کو چھوٹا موٹا سامان فروخت کرتے تھے۔ جس فوجی اڈے پر حملہ ہوا ہے اس کے قریب ہی امریکی اور برطانوی سفارتخانے واقع ہیں اور وہیں افغانستان کے صدر کا محل بھی واقع ہے۔ طالبان کے ایک ترجمان کا کہنا ہے امریکہ خفیہ ایجنسی کو نشانہ بناتے ہوئے کسی شدت پسند گروپ نے یہ حملہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ احمد شاہ مسعود کے اعزاز میں آج کابل میں سرکاری چھٹی ہے۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات افغانستان کے دارلحکومت کابل میں پولیس کا کہنا ہے کہ نیٹو افواج کے ایک اڈے کے قریب ایک خودکش حملے میں چھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔ text: سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ آخر طالبان نے پاکستان سے ہی کیوں کورونا وبا کے بعد اپنے دوروں کا آغاز کیا؟ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پیر کے روز وزارت خارجہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی کوشش ہے کہ بین الافغان مذاکرات میں درپیش پیچیدگیاں کم ہوں اور یہ مذاکرات جلد ہی شروع ہو۔ 'کوشش تو یہی ہے، نیت بھی یہی ہے، خواہش بھی یہی ہے کہ پیچیدگیاں کم ہوں اور بین الافغان مذاکرات کو جلد از جلد شروع ہونا چائیے۔' وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ دورہ چین میں بھی اُنہوں نے چینی حکام کے ساتھ افغان امن عمل پر بات چیت کی اور اسی سلسلے میں افغانستان کے لئے چین کا نمائندہ خصوصی جلد پاکستان کا دورہ کریں گے۔ طالب ترجمان سہیل شاہین نے اُن کے وفد کا دورہ پاکستان پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ کورونا وبا کے بعد اُنہوں نے غیرملکی ممالک کے دوروں کا آغاز پاکستان سے کیا اور جلد ہی اُن کے ساتھی دوسرے ممالک کا سفر بھی کریں گے۔ اسی حوالے سے مزید پڑھیے شاہ محمود قریشی: کشمیر پر سعودی مؤقف او آئی سی سے مختلف نہیں افغان لویہ جرگہ کی 400 طالبان قیدیوں کی رہائی کی منظوری، پاکستان کا خیر مقدم ’افغان حکام، دولت اسلامیہ رہا ہونے والے طالبان قیدیوں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں‘ چار سو طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع، بین الافغان مذاکرات کا امکان روشن پاکستان پر پہلے دن سے طالبان کی حمایت کا الزام لگتا رہا ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان نے کورونا وبا کے بعد اپنے دوروں کا آغاز آخر پاکستان سے ہی کیوں کیا؟ افغان امور کے ماہر اور صحافی سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ پاکستان کا طالبان پر دباؤ تھا کہ وہ دورہ پاکستان کریں تاکہ بین الافغان مذاکرات کے لیے راہ ہموار ہو۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ دورہ چین میں بھی اُنہوں نے چینی حکام کے ساتھ افغان امن عمل پر بات چیت کی اور اسی سلسلے میں افغانستان کے لئے چین کا نمائندہ خصوصی جلد پاکستان کا دورہ کریں گے 'پاکستان یہ چاہتا ہے کہ وہ امریکہ اور طالبان امن معاہدے کی طرح بین الافغان مذاکرات منعقد کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کریں اور اسی لیے وہ بار بار قطر میں موجود طالبان کو دورہ پاکستان کی دعوت دیتے رہے۔' سمیع یوسفزئی کے مطابق طالبان وفد دورہ پاکستان میں پاکستانی حکام سے ملاقاتوں کے ساتھ طالبان رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کریں گے اور اُن چھ طالبان قیدیوں کی رہائی (جن کی رہائی پر فرانس نے تشویش کا اظہار کیا ہے) اور بین الافغان مذاکرات کے سلسلے میں صلاح مشورے کریں گے۔ طالبان ذرائع اور افغان میڈیا کے مطابق ان قیدیوں میں حکمت اللہ، سید رسول، گل علی، محمد داود، اللہ محمد اور نقیب اللہ شامل ہیں جن پر فرانسیسی اور آسٹریلین شہریوں کی ہلاکت کا الزام ہیں۔ جبکہ صحافی اور افغان اُمور کے دوسرے ماہر طاہر خان کہتے ہیں کہ پاکستان نے حال ہی میں کئی مرتبہ طالبان کو دورہ پاکستان کی دعوت دی، لیکن طالبان نہیں آنا چاہتے تھے۔ طالبان کا وفد اُن چھ قیدیوں کی رہائی (جس پر فرانس نے تشویش کا اظہار کیا ہے) اور بین الافغان مذاکرات کے سلسلے میں پاکستانی حکام سے صلاح مشورے کریں گے 'ملا برادر اور کئی طالبان رہنما یہ سمجھتے تھے کہ بین الافغان مذاکرات شروع ہو رہے ہیں اور اس سے پہلے وہ نہیں چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان کا دورہ کریں۔' لیکن اُن کے مطابق جب گزشتہ ہفتے پاکستانی وزارت خارجہ نے طالبان رہنماوں پر پابندیاں سخت کرنے کا اعلان کیا تو اُس کے ساتھ ہی طالبان نے دورے کا آغاز کیا۔ دوسری جانب افغانستان کی وزارتِ امن نے طالبان کے دورہ پاکستان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُنھیں اُمید ہیں کہ پاکستان طالبان پر اپنا اثر ورسوخ کا صحیح طور پر استعمال کر کے بین الافغان مذاکرات شروع کرنے لیے راہ ہموار کرسکتا ہے۔ وزارتِ امن کی ترجمان ناجیہ انوری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ہمسایہ ملک اور وہاں طالبان رہنماؤں کی موجودگی کی وجہ پاکستان کا افغان امن عمل پر اثر ورسوخ ہے۔ 'پاکستان کے ساتھ سفارتی سطح پر افغان حکام کی ملاقاتوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان کا افغان امن عمل میں اثرورسوخ ہیں اور پاکستان نے ہمیشہ اس اثر ورسوخ کو مثبت انداز میں استعمال کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔' قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کا ایک وفد پیر کو اسلام آباد پہنچا جہاں پاکستانی حکام سے ان کی بین الافغان مذاکرات پر بات چیت ہوگی۔ text: ہمارے جیسے دیسی ساختہ معاشرے، جو قبیلوں سے بادشاہتوں، بادشاہتوں سے نو آبادیاتی ادوار اور نو آبادیاتی دور سے نکل کے سیدھے خریدار معاشرے میں تبدیل ہوئے، وہاں فرد کی تربیت ادھوری ہی نہیں بلکہ بے حد ناقص رہ گئی۔ جب میں فرد کی بات کر رہی ہوں تو میری مراد مرد ہیں کیونکہ عورت کو تو آپ نے فرد ماننے سے ہر لمحے پہ انکار کیا ہے اور اپنے فرد ہونے کا ثبوت دینے میں بھی مکمل طور پہ ناکام ہو چکے ہیں۔ سیالکوٹ موٹروے پر پیش آنے والا سانحہ نہ تو پہلا واقعہ ہے اور نہ آخری۔ اس واقعے پر لاہور کے سی سی پی او صاحب نے جس ظالمانہ انداز میں تبصرہ کیا اس پر پورا ملک سراپا احتجاج ہے مگر اس واقعے سے پہلے تک وہ اس طرح کی بات کرنا معمول کا حصہ سمجھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ان سے بھی زیادہ بری طرح سے عورتوں کے بارے میں بات کرنے والے اس ملک میں کندھوں پہ اٹھائے جاتے ہیں اور عورتوں کو دیکھ کر بانچھوں سے بہتی رال پونچھنے والے ایسے حادثات کا شکار ہونے والی عورتوں کے سر پر ہاتھ پھیرنے آتے ہیں۔ آمنہ مفتی کے دیگر کالم پڑھیے ’اپنی کرپشن خود چھپاؤ!‘ ماحولیاتی تبدیلی کا شکار، کراچی اجے قیامت نئیں آئی! وہ صبح کبھی تو آئے گی! اس واقعے پر بہت سے مرد حضرات نے ہمدردی اور دکھ کا اظہار کیا، بہت سے آج بھی ڈھٹائی اور بے حیائی کی سیسہ پلائی دیوار بنے کھڑے ہیں۔ کھڑے رہیں، آخر کب تک؟ ایک روز تھک جائیں گے۔ سچ یہ ہے کہ ڈکیتی کے اس واقعے نے پاکستان میں امن و امان کی صورت حال کی قلعی کھول دی ہے اور ایک دفعہ پھر پاکستانی مردوں کا دماغ کھول کر سامنے رکھ دیا، جس میں حسب توقع ’بہت کام رفو کا نکلا۔‘ عورت اکیلی ہو، جوان ہو، بوڑھی ہو، کمسن ہو، خوب صورت ہو یا بد صورت، وقت دیکھ کے گھر سے نکلی ہو یا بے وقت، بلکہ گھر سے بھی نہ نکلی ہو تب بھی ہر طرح کے جسمانی اور ذہنی تشدد کی تلوار اس کے سر پر منڈلاتی رہتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا صرف اس لیے ہے کہ آپ نے عورتوں کے لیے کچھ ’لچھمن ریکھائیں‘ کھینچ دی ہیں جن کے باہر آپ خود ہی راون کا روپ دھارے کھڑے ہیں۔ زمانہ بدل چکا ہے۔ آپ کی لچھمن ریکھا کو زمانے کی ہوائیں اڑا کر لے گئی ہیں۔ یہ ایک حادثہ تھا جس کی مکمل ذمہ داری ریاست اور امن قائم کرنے والے اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ جس طرح سی سی پی او صاحب کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اکیلی خاتون جی ٹی روڈ کی بجائے موٹروے سے کیوں رات گئے جا رہی تھیں اسی طرح مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ خیر سے ہمارے ملک کے ہر طرح کے وردی و سادہ لباس والے ہمارے معاشرے اور ملک کو اکیلی عورتوں اور بچوں کے لیے محفوظ کیوں نہیں بنا پائے؟ مزید حیرت مجھے ان لوگوں پر ہے جو اسے عصمت دری اور آبرو ریزی لکھ رہے ہیں۔ عصمت دری آپ کے معاشرے کی ہوئی اور آبرو ریزی آپ کی ریاست اور محکمے کی ہوئی ہے۔ ڈوب مرنے کا مقام ہے آپ سب کے لیے کہ آپ اپنے عالی شان تھانوں میں غفلت کی نیند سو رہے تھے اور مجرم سڑک پہ دندناتے پھر رہے تھے۔ فرانس کی امن و امان کی صورت حال کے بارے میں حسرت سے تبصرے کرنے کی بجائے اپنے اختیار کو استعمال کیجیے اور ’پھوپھا رپھڑی‘ بننے کی بجائے اپنا کام کیجیے۔ اس واقعے نے صرف نااہلوں کی نااہلی کو واضح کیا ہے۔ عورتوں کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ کو اپنی زندگی گزارنے کے لیے جہاں جس وقت جانا ہے ،پورے اعتماد سے جائیے۔ سڑکوں، بازاروں کو محفوظ بنانا جن کا فرض ہے، وہی بنائیں گے اور ہمارے ٹیکس کے پیسے سے بنے تھانوں میں سستانے کی اور سرکاری گاڑیوں میں سیر سپاٹے کرنے کی بجائے اپنی ڈیوٹی دیں گے۔ ان کو یہ کرنا ہی ہو گا کیونکہ یہ ہی ان کا فرض ہے۔ ڈکیتی کی اس واردات نے پولیس کے محکمے کو اچھی طرح سکھا دیا ہے کہ اس کا کام کیا ہے اور اپنی حد کے اندر رہتے ہوئے اپنا کام کیسے کرنا چاہیے۔ ہر خاتون کے لیے ناصح اور ناقد بننے کا انجام سب کے سامنے ہے۔ عبرت پکڑیے اور زبان کو لگام دیجئے۔ ایک اور بات یہ کہ اس واقعے کے بعد سے اکثر خواتین رنجیدگی کے عالم میں لکھ رہی ہیں، ’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو۔‘ کیوں نہ کیجو؟ اگر بیٹے ایسے ہوتے ہیں جیسے ہمارے چاروں طرف پھر رہے ہیں تو توبہ کیجئے۔ کانوں کو ہاتھ لگائیے اور خدا سے رو کے دعا کیجیے کہ اگلے جنم بھی موہے بٹیا ہی کیجو! خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کسی ایسے معاشرے میں معمول کی بات ہیں جہاں معاشرتی انصاف مفقود ہو۔ کہتے ہیں، طاقت گنہگار بناتی ہے اور بے انتہا طاقت گنہگار ترین بناتی ہے۔ text: گزشتہ رات حزب اللہ کی طرف سے حکومت کے حامی رہنما ولید جمبلاٹ کی فوج پر حملے کے نتیجے میں تیرہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ بیروت میں گزشتہ رات کے زبردست مسلح تصادم کے بعد اب لبنانی فوج نے شہر کے جنوب مشرق میں پہاڑیوں پر مورچے بنالیے ہیں۔ شوے فات نامی قصبے سے کئی افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ اس کےعلاوہ لبنان کےشمالی شہر تریپولی سے بھی لڑائی کی خبریں مل رہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ گزشتہ ہفتے بیروت میں پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فسادات انیس سو نوے میں ختم ہونے والی پندرہ سالہ خانہ جنگی کے بعد بدترین فسادات ہیں۔ لبنان کے کشیدہ حالات پر بین الاقوامی ردعمل بھی بظاہر سرد نظر آتا ہے جبکہ مغربی بیروت کے سنی اکثریت والے علاقے پر حزب اللہ ملیشیا کے قبضے پر امریکی ردعمل بھی خلاف توقع نہ رہا۔ واشنگٹن نے اِس قبضے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ نے شام اور ایران کی مدد سے لبنان کی خودمختاری اور جمہوری اداروں کی تذلیل کی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے بھی ایسے ہی الفاظ کی بازگشت سننے میں آئی جس میں اُس نے حزب اللہ کو شام اور خاص طور پر ایران کا بغل بچہ قرار دیا ہے۔ حزب اللہ کا اس طرح آنکھیں دکھانا واشنگٹن کے لیے باعث ندامت ہے کیونکہ امریکہ لبنان کی اپنی سکیورٹی فورس بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ اگر اس فورس کی ضرورت پڑی تو یہ شاید زیادہ کارآمد نہ ہوسکے کیونکہ یہ فرقے کی بنیادپر باآسانی تقسیم ہوسکتی ہے۔ ادھر عرب دنیا میں لبنانی حکومت کے حامی، خاص طور پر مصر اور سعودی عرب بھی لبنان کی صورتحال کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں جو بظاہر ایک اور خانہ جنگی کی جانب جاتا نظر آرہا ہے لیکن اس صورتحال کی روک تھام کے لیے وہ کچھ کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ کچھ مبصروں کا خیال ہے کہ اس مرتبہ حزب اللہ نے شاید اپنی بساط سے بڑھ کر چال چل دی ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو لیکن یہ واضح ہے کہ اِس وقت لبنان میں کسی بھی سیاسی مفاہمت کا امکان نہ ہونے کے برابر نظر آرہا ہے۔ لبنان پر امریکی تجزیے پر بھی اب نئے سرے سے تنقید شروع ہوگی۔ لبنان میں بیرونی طاقتیں سرگرم عمل ہوسکتی ہیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ حزب اللہ ایک ایسی طاقت ور اور متحرک لبنانی تحریک ہے جس کو مقامی طور پر مضبوط حمایت حاصل ہے۔ لبنان کے شمالی شہر تریپولی میں حکومتی اور اپوزیشن کے حامیوں کے درمیان پھر لڑائی چھڑ گئی ہے۔ text: اگر یہ سکیم پارلیمنٹ سے منظور ہو جاتی ہے تو ان مزدوروں کو لائف انشورنس اور پنشن جیسی سہولیات مہیا کرائی جائیں گی۔ ایک ارب سے زائد آبادی والے ہندوستان کے ایک تہائی سے زیادہ مزدوروں کی آمدنی یومیہ ایک ڈالر سے بھی کم ہے۔ گزشتہ سال حکومت نے دیہی غربت سے نپٹنے کے لیے بہت ہی پر عزم کوششیں شروع کی تھیں۔ سوشل سکیورٹی کے بل کو کابینہ کے اجلاس میں منظوری دے دی گئی ہے اس اجلاس کی صدارت وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کی تھی۔ اس سکیم کا اعلان کرتے ہوئے پارلیمانی امور کے وزیر پریہ رنجن داس منشی نے کہا کہ ’یہ ایک انقلابی قدم‘ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس بل کے مسودے کو اگست میں پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔ ہندوستان میں نوے فیصد سے زائد مزدور کسی منظم یونین سے وابستہ نہیں ہیں۔ یہ مزدور کھیتوں ، اینٹوں کے بھٹوں ، اور عمارتوں کی تعمیر کے مزدوروں کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔اس نئی سکیم کے تحت بغیر یونین والے مزدور لائف انشورنس ، صحت اور معذوری کی بنیاد پر ملنے والی امدادکے حقدار ہوں گے اور وہ یہ تمام فائدے صرف ایک روپیہ روز دے کر حاصل کر سکتے ہیں۔ حکومت اور مالکان بھی اس سکیم کے تحت یکساں رقم مہیا کریں گے اور جن لوگوں کی آمدنی سالانہ ساڑھے چھ ہزار روپیہ سے کم ہوگی انہیں غربت کی لکیر سے نیچے قرار دیا جائے گا اور ان کا یہ ایک روپیہ بھی وفاقی حکومت مہیا کرے گی۔ ایک اندازے کے مطابق اس سکیم کو نافذ کرنے کے لیے حکومت کو 22 اعشاریہ 2 بلین ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ وزیراعظم نے ایک پیغام میں ملک کے کاروباری حلقوں کو عام لوگوں کے تیئں ان کی ذمہ داری کا احساس دلایااور اقتصادی ترقی کو غریبوں کے ساتھ بانٹنے کے دس نکاتی سوشل چارٹر کی حمایت کی۔ کنفڈریشن آف انڈین انڈسٹری سالانہ اجلاس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کارپوریٹ کی سماجی ذمہ داری کو صرف ٹیکس عائد کرنے کی حکمت عملی تک ہی محدود نہیں کیا جانا چاہئیے۔ ہندوستان میں کانگریس پارٹی کی قیادت والی حکومت نے اسی ہفتے اقتدار میں اپنے تین سال مکمل کیے ہیں۔ ہندوستان کی حکومت نے سوشل سکیورٹی کے ایک منصوبے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد 390 ملین غریب اور ایسے مزدوروں کو فائدہ پہنچانا ہے جن کی کوئی یونین نہیں ہے۔ text: فلوجہ شہر پر اتنی بمباری ہو چکی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ دولتِ اسلامیہ کی اسے دفاع کرنے کی صلاحیت بہت کم رہ گئی ہو جنوری 2014 میں شہر شدت پسندوں کے قبضے میں آ گیا تھا اور اس کے بعد سے اب تک اس پر کئی مرتبہ حملے کیے گئے ہیں، بم پھینکے گئے ہیں اور شیلنگ ہوئی ہے۔ اس شہر نے بڑے پیمانے پر تباہی اور ہلاکتیں برداشت کی ہیں۔ اب حکومت نے اسے ’بریک ٹیررزم‘ یا دہشت گردی کے خاتمے کے آپریشن کے ذریعے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد کرانے کا عہد کیا ہے۔ اس حملے کے لیے ہزاروں فوجی، خصوصی فوجی دستے، شیعہ ملیشیا اور قبائلی سنی جنگجوؤں کو اکٹھا کیا گیا ہے اور وزیرِ اعظم نے اسے ’عظیم فتح کا لمحہ قرار دیا ہے۔‘ لیکن یہ جنگ کتنی سخت ہو گی اس پر متضاد اندازے لگائے گئے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ دولتِ اسلامیہ پر شہر میں اتنی بمباری ہو چکی ہے کہ اس کی مزاحمت کرنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہو گی۔ لیکن دوسرے جن کے شہر میں موجود ذرائع سے تعلقات ہیں کہتے ہیں کہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجو اس حملے کے لیے بہت پہلے سے تیاری کر رہے تھے اور انھوں نے دفاع کے لیے پوری صف آرائی کر رکھی ہے جس میں سڑک کے کنارے نصب بم اور بوبی ٹریپ بھی شامل ہیں۔ کئی ہفتوں کی لڑائی زیادہ تر جنگجوؤں کا تعلق فلوجہ شہر یا اس کے آس پاس کے علاقوں مثلاً جرف ال صخر سے ہے جس پر ایران کی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا کا قبضہ ہو چکا ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ جنگجو کتنی مزاحمت کریں گے۔ لیکن حکومت میں سب سے زیادہ رجائیت پسند بھی سمجھتے ہیں کہ یہ جنگ کم از کم دو یا تین ہفتے جاری رہے گی۔ دولتِ اسلامیہ نے 2014 میں فلوجہ پر کنٹرول سنبھالا تھا حال ہی میں اس طرح کا حملہ انبار صوبے کے دارالحکومت رمادی پر کیا گیا تھا۔ فلوجہ بھی ال انبار صوبے کا ہی ایک شہر ہے۔ حکومت نے جنوری کے اوائل میں ہی وہاں فتح کا اعلان کر دیا تھا لیکن شہر کے مضافاتی اور قریبی علاقوں کو محفوظ بنانے میں کئی ہفتے لگ گئے تھے۔ موصل کا راستہ فلوجہ جیسے مشہور شہر کا ہاتھ سے نکل جانا دولتِ اسلامیہ کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہو گا۔ بغداد سے شام اور اردن جانے والی شاہراہ پر واقع یہ شہر سنی مزاحمت کا گڑھ رہا ہے۔یہ 2004 میں امریکیوں کے خلاف مزاحمت کا نشان بن گیا تھا اور پر تشدد لڑائیوں میں بڑے پیمانے پر تباہی اور ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ جب 2014 میں دولتِ اسلامیہ نے اس شہر پر قبضہ کیا تھا تو اس وقت فلوجہ پہلے ہی مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کر چکا تھا۔ اگر فلوجہ کی مہم کامیاب رہتی ہے تو پھر اگلا مرحلہ موصل کی طرف پیش قدمی ہو گا اگر حکومت اس پر آسانی اور تیزی سے قبضہ کر لیتی ہے تو بغداد کی حوصلہ افزائی ہو گی کہ وہ شمال کی جانب اپنے سب سے بڑے چیلنج ’موصل کی جنگ‘ کے لیے زیادہ فوج اور ذرائع مختص کر سکے۔ لیکن اگر دولتِ اسلامیہ فلوجہ کھونے کے باوجود حملہ آوور فوج، خصوصاً الیٹ ٹیررازم فورس، کا بھاری نقصان کرتی ہے تو اس سال موصل پر قبضے کی امیدوں کو دھچکہ لگ سکتا ہے۔ فرقہ وارانہ نتائج فلوجہ اس لیے بھی اہم ہو گا کہ اسے حاصل کرنے کے جنگی آپریشن میں کون سی فورسز حصہ لیتی ہیں اور بعد میں کون یہاں موجود ہے گا۔ ایران کی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا بھی اس ’بریک ٹیررازم‘ آپریشن میں حصہ لے رہی ہے۔ لیکن بظاہر لگتا ہے کہ اس طرح کا کوئی معاہدہ ہو گیا ہے کہ وہ ارد گرد کے علاقوں میں اپنا کردار کریں گے لیکن فرقہ واریت کے خدشات کی وجہ سے ان کی تعیناتی فلوجہ میں نہیں ہو گی۔ ماضی میں اس طرح کی کارروائیوں میں جہاں انھوں نے مرکزی کردار ادا کیا تھا جیسا کہ بغداد کے مشرق اور شمال میں دیالہ اور تکریت وغیرہ کے علاقے، شیعہ ملیشیا پر بدلہ لینے کے لیے ہلاکتوں اور سنیوں کی جائیدادوں کو نقصان پہنچانے کے الزامات لگائے گئے تھے۔ اگر فلوجہ اس آپریشن میں بالکل تباہ ہو جاتا ہے اور زیادہ تر آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑتی ہے تو یہ بھی موصل پر قبضے کی مہم کے لیے اچھا نہیں ہو گا، جو کہ سنی اکثریت کا ایک اور علاقہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ سے عراق کے اہم شہر فلوجہ کا کنٹرول واپس حاصل کرنے کے لیے لڑی جانے والی جنگ کا وقت آ گیا ہے۔ text: سکول کے بچوں کو محفوظ مقام تک پہنچا دیا گیا ہے پولیس کا کہنا ہے کہ مشتبہ حملہ آور کو سکول کے باہر سے حراست میں لے لیا گیا ہے اور لا لوچے کمیونیٹی سکول کے بچوں کو محفوظ مقام تک پہنچا دیا گيا ہے۔ کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے اس سے پہلے پانچ افراد کے مارے جانے کی بات کہی تھی تاہم بعد میں اس کی تصیح کر دی گئی۔ کینیڈا کے وزیر اعظم نے سکول میں فائرنگ کے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: ’سکول میں جو کچھ بھی ہوا وہ والدین کے لیے کسی خوفناک خواب سے کم نہیں تھا۔‘ عینی شاہدین نے بتایا کہ انھوں نے بچوں کے چیخنے اور کم از کم نصف درجن گولیوں کی آوازیں سنیں۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے سکول میں فائرنگ کے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے اسے خوفناک خواب سے تعبیر کیا کینیڈا پولیس کی سینيئر اہلکار مورین لیوی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور اس سے ہتھیار چھین لیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا: ’اب عوام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘ تاہم انھوں نے کہا ’یہ ایک افسوسناک واقعہ تھا۔‘ انھوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔ کینیڈا براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے مطابق پولیس نے بتایا کہ انھیں مقامی وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے بتایا گیا ’ایک شوٹر فائرنگ کر رہا ہے اور انھوں نے 45 منٹ بعد مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا تھا۔ صوبے سیسکیچوان کے وزیر اعظم نے ایک بیان میں کہا ہے ’لا لوچے کے واقعات پر ہونے والے رنج و غم کو میں اپنے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ حملے کے شکار افراد، ان کے اہل خانہ، ان کے دوستوں اور برادری کے لوگوں کے لیے ہماری دعائیں اور نیک خواہشات ہیں۔‘ پولیس ایک اور فائرنگ کے واقعے کی جانچ کر رہی ہے گذشتہ سال کے اعداد و شمار کے مطابق اس سکول میں تقریبا 900 بچے زیر تعلیم تھے اور یہاں درجۂ اطفال سے 12 ویں تک کی تعلیم ہوتی ہے۔ ایک طالب علم نے بتایا کہ انھوں نے فائرنگ کی آوازیں سنیں اور ’سکول سے باہر بھاگے۔ وہاں بہت چیخ و پکار تھی۔ میرے سکول سے باہر نکلنے تک میں نے چھ سات گولیوں کی آواز سنیں۔ میرے خیال سے اور بھی گولیاں چلی ہوں گی۔‘ کینیڈا میں پولیس کے مطابق ملک کے مغربی صوبے سیسکیچوان کے ایک سکول میں فائرنگ کے واقعے میں چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔ text: انیس سو پینسٹھ میں بھارت کے ساتھ جنگ کے بعد پاکستان ہر سال چھ ستمبر کو یوم دفاع مناتا ہے اور اس بار بھی اس موقع پر خصوصی تقریبات منعقد کی گئی تھیں۔ فضائیہ نے اپنے لڑاکا طیارے اڑانے کا مظاہرہ بھی کیا۔ متحدہ مجلس عمل کے رکن فرید احمد پراچہ کی نشاندہی پر سپیکر قوی اسمبلی نے انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کے لیئے فاتح کرائی۔ انہوں نے کہا کہ اس ایوان سے یہ پیغام دینا چاہیئے کہ فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے بجائے اپنے پیشہ ورانہ فرائض ادا کرنے چاہئیں۔ جس پر متحدہ قومی موومنٹ کے اسرار العباد نے کہا کہ فوج اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے اور مذہبی سیاستدانوں کو اپنا فرض پورا کرنا چاہیئے اور لوگوں کو شیعہ سنی کے چکر میں لڑانا نہیں چاہیئے۔ اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی اعتزاز احسن نے کہا کہ فتح وہ فوجیں مناتیں ہیں جو جنگ جیتتی ہیں۔ پاکستان کے سپاہی جو جنگ جیتے ہیں وہ جرنیل بات چیت میں ہار کر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوے ہزار فوجی بھارت میں قید کیئے گئے۔ ان کے مطابق جو کچھ پینسٹھ میں حاصل ہوا تھا وہ اس وقت کے فوجی حکمرانوں نے طشتری میں رکھ کر بھارتی وزیراعظم کو پیش کردیا تھا۔ انہوں نے صدر جنرل پرویز مشرف کے دورہ افغانستان کا ذکر کرتے ہوئےکہا کہ وہ کروڑوں روپے خرچ کرکے ان کی پارلیمان سے خطاب کرنے جارہے ہیں جبکہ اپنی پارلیمان سے خطاب کرنے کے لیئے سیڑھیاں اترنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور کی ایک سڑک پر ایک باوردی کرنل کی گاڑی بند ہوگئی اور لوگ اُسے دھکہ لگانے کے لیئے تیار نہیں تھے۔ راجہ نادر پرویز نے کہا کہ یحیٰ خان نے کہا تھا کہ وہ بنگال میں آخری گولی اور سانس تک لڑیں گے لیکن بارہ گھنٹے میں ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ ان کے مطابق اب فوج کے ساتھ تعاون کا قوم میں وہ جذبہ نہیں رہا جو انیس سو پینسٹھ کے وقت تھا جب لوگ بندوقیں لے کر سرحد پر پہنچے تھے۔ جس پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور وزیر تعلیم لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اشرف نے کہا کہ فوج نے ملکی سرحدوں کے دفاع کے لیئے بے انتہا قربانی دی ہے اور ہر سال شہیدوں کی یاد منائی جاتی ہے اور ہر زندہ قوم اپنی فتح کا جشن مناتی ہے۔ انہوں نے سیاستدانوں پر نکتہ چینی بھی کی اور کہا کہ یہی لوگ ان کے پاس آتے تھے کہ فلاں حکومت خراب ہے اُسے نکالیں۔ ڈاکٹر شیرافگن نیازی نے کہا کہ ہم اپنی کوتاہیوں سے آدھا ملک گنوا چکے ہیں اب متحد ہوکر ایک پیغا دینا چاہیئے کہ ہم بطور قوم یکجا ہیں۔ پاکستان کے یوم دفاع کے موقع پر قومی اسمبلی میں حزب مخالف کے اراکین نے فوج پر تنقید کی اور یہ دن منانے پر حکومت اور حزب مخالف کے اراکین کا ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔ text: شعلے کو ہر سال تقریباً 800 فلمیں بنانے والی ہندی فلم انڈسٹری میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ پچھلے ہفتے اس فلم کو ڈیجیٹل طرز پر ریلیز کیا گیا تھا اور تب ہی سے اسے دیکھنے کے لیے لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ شعلے کی کہانی کسی حد تک اکیرا کوروساوا کی ’دی سیوینتھ سانورائے‘ اور ہالی وڈ کی ’دی میگنیفیسینٹ سیون‘ سے متاثر ہے۔ ابتدا میں اس کی کامیابی کو ایک اور بلاک بسٹر ہٹ قرار دیا گیا تھا مگر بہت جلد اس فلم کے مکالمے روزمرہ کی زبان میں شامل ہو گئے۔ اس فلم میں مقبول اداکار امیتھابھ بچن نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ انوپما چوپڑا نے شعلے پر کتاب لکھی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہے کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ اس فلم کو ایک لیجینڈ کی حیثیت دے دی جائے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر 29 سال کے بعد بھی فلم کی ٹکٹیں بلیک میں فروخت ہو رہی ہیں تو اس سے فلم کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ شعلے اب صرف ایک فلم نہیں ہے بلکہ اپنے آپ میں ایک واقعہ بن گئی ہے۔‘ اس فلم کو آج دیکھنے والوں میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہیں 1975 میں اس فلم کی ریلیز یاد نہیں ہوگی۔ ان میں سے ایک راس بہاری بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ویسے تو انہوں نے شعلے دس مرتبہ دیکھی ہے مگر وہ اور ان کے دوست اب تک فلم کو بڑے پردے پر دیکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس دور میں بھی فلم کی مقبولیت سے حیران ہیں۔ اس نئی اور بہتر شکل میں ریلیز ہونے والی شعلے کے بارے میں کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ بہتر ساؤنڈ کوالٹی اور نئے رنگوں کے ساتھ اس فلم کو دیکھنے کامزہ ہی کچھ اور ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شعلے کی مقبولیت کی وجہ اس کی کہانی ہے جس میں محبت، بدلے اور انصاف کو بخوبی پیش کیا گیا ہے۔ منروا سینما کے مینیجر سشیل میہرا کا کہنا ہے کہ شعلے میں اداکاری اور ہدایت کاری کی نفاست اور خوبی ہی اس فلم کی مقبولیت کا راز ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’شعلے جیسے فلم زندگی میں ایک ہی بار بنتی ہے۔‘ ڈیجیٹل تکنیک سے دوبارہ بنائی گئی شعلے کے بارے میں فلم کے ڈسٹری بیوٹر لیاقت گولا کا کہنا ہے کہ کہ وہ فلم ڈسٹری بیوشن میں ایک نیا دور شروع کرنا چاہتے تھا اور اس کا آغاز انہوں نے شعلے سے کیا ہے۔ مسٹر گولا کا کہنا ہے کہ انہوں نے شعلے 32 بار دیکھی ہے اور ہر بار انہیں ایسا لگا کہ وہ کچھ نیا اور مختلف دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جانتے تھے کہ شعلے کی نئی ریلیز کامیاب ہوگی اور اب وہ نئی شعلے کو دوسرے شہروں میں دکھانے کی کوشش کریں گے۔ مسٹر گولا ایک اور پرانی مقبول فلم ’شان‘ کو بھی نئے سرے سے ریلیز کرنے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شان اگلے ماہ تک ریلیز کر دی جائے گی۔ بھارت کے شہر ممبئی کے منروا سینما ہال کے باہر میٹنی شو کے لیے ہاؤس فل کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ فلموں کے شوقین یہاں 29 سال پرانی ہندی فلم ’شعلے‘ دیکھنے آئے ہیں۔ text: کلپانی نامی نالے پر واقع پل ٹوٹنے سے کم سے کم سو افراد پانی میں بہہ گئے تھے۔ مردان شہر میں کلپانی نالے میں طغیانی اور شگو پل ٹوٹنے کے واقعے کو چوبیس گھنٹے پورے ہونے کو ہیں لیکن حکومتی مشینری تاحال مکمل طور پر حرکت میں نہیں آسکی ہے۔ ٹوٹے ہوئے پل کے آس پاس پاک فوج کے کچھ جوان دکھائی دیئے ہیں اس کے علاوہ وہاں پر کالعدم مذہبی تنظیم جماعت الدعوۃ کے رضاکار بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ تقریباً دس فٹ اونچے اس پل کا ایک حصہ گرنے کی وجہ سے بیٹھ گیا ہے جبکہ حکام خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ تاحال پل کے ملبے تلے لوگ پھنسے ہوئے ہیں تاہم لاپتہ ہونے والے افراد کی حتمی تعداد کسی بھی ذریعہ سے معلوم نہیں کی جا سکی۔ پل ٹوٹنے کے واقعہ میں بچ جانے والے چالیس سالہ خان بہادر نے بی بی سی کو بتایا کہ’ کلپانی نالہ میں جب پانی کی سطح بلند ہورہی تھی تو اس وقت پل کے اوپر مجھ سمیت کوئی ستر یا اسّی کے قریب لوگ کھڑے پانی کا نظارہ کر رہے تھے کہ اچانک پل پانی میں بیٹھ گیا جس سے وہاں پر موجود تمام لوگ پانی کے اندر بہہ گئے‘۔ ادھر مسلسل بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے مردان شہر میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور سینکڑوں گھر اور دوکانیں سیلابی پانی میں بہنے کی وجہ سے تباہ ہوگئے ہیں۔ مردان شہر کے اندر داخل ہوتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جسے یہاں سے سیلابی ریلا گزرا ہو۔ ہر طرف پانی اور ٹوٹے ہوئے گھر دکھائی دیتے ہیں۔ علاقے میں بدستور خوف کی فضا ہے اور شہر میں سیلاب کی افواہوں کا دور دورہ ہے۔ جن لوگوں کے گھر پانی میں ڈوب گئے ہیں وہ اپنا ٹوٹا ہوا سامان اکھٹا کرنے میں مصروف ہیں جبکہ خواتین اور بچوں کو قریبی سکولوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ مردان شہر کے اندر واقع تمام سرکاری سکول سیلاب سے متاثرہ افراد سے بھرگئے ہیں۔ مردان شہر کے اندر کوئی حکومتی امدادی کارکن نظر نہیں آ رہا ہے تاہم ہر جگہ مقامی لوگ خود اپنی مدد آپ کے تحت کام کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ افراد نے ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کی بےحسی پر شدید تنقید کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ جو لوگ بےگھر ہوئے ہیں ان کی بحالی کے لیئے فوری اور ٹھوس اقدامات کیئے جائیں۔ انہوں نے بتایا کہ’علاقے میں خوف کی فضا ہے، ہلاکتیں ہوئی ہیں، عوام کا بھاری پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔ لوگوں کو آزمائش کی اس گھڑی میں ہمدردی کی ضرورت ہے، حوصلے کی ضرورت ہے تاکہ وہ دوبارہ زندگی شروع کریں لیکن افسوس کہ حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے‘۔ حکام کے مطابق مردان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کے باعث ایک پل منہدم ہونے سے سیلابی پانی میں بہہ جانے والے افراد میں سے چالیس کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں جبکہ باقی کی تلاش جاری ہے۔ تاہم حکومت کی جانب سے امدادی سرگرمیوں میں تاخیر کے باعث متاثرہ لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ text: دونوں رہنما علاقائی نوعیت کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے انڈونیشیا میں موجود تھے۔ دو سال قبل شمالی کوریا کے جوہری عزائم کے بارے میں شروع ہونے والے تنازعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان یہ سب سے اعلیٰ سطحی رابطہ ہے۔ کولن پاول کے ترجمان نے جمعہ کو کہا کہ دونوں رہنماؤں نے مذاکرات کے پچھلے دور میں پیش کی جانے والی تجاویز پر بات کی۔ اُن مذاکرات میں امریکہ اور شمالی کوریا کے علاوہ روس، جاپان، چین اور جنوبی کوریا بھی شریک ہوئے تھے۔ ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ کولن پاول نے امریکی انتظامیہ کی طرف سے شمالی کوریا کے جوہری منصوبوں کے خاتمے کے بارے میں پیش کی گئی تجاویز کا ذکر کیا۔ بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق شمالی کوریا کی طرف سے اس ملاقات کے بارے میں جاری ہونے والا بیان محتاط معلوم ہوتا ہے۔ بیان میں شمالی کوریا کے وزیر خارجہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ’اگر امریکہ شمالی کوریا سے تعلقات میں بہتری چاہتا ہے تو وہ بھی امریکہ کو ازلی دشمن کی حیثیت سے نہیں دیکھے گا۔ امریکہ نے کہا ہے کہ اگر شمالی کوریا کو اپنا جوہری پروگرام ترک کرنے پر توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تیل کی امداد دی جا سکتی ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق حقیقی پیش رفت کے امکانات بہت کم ہیں اور فریقین اپنے اختلافات کی طرف اشارہ بھی کر چکے ہیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق ممکن ہے کہ شمالی کوریا اس اُمید پر امریکہ میں انتخابات کے نتائج کا انتظار کر رہا ہو کہ نئی انتظامیہ کے اقتدار میں آنے سے مذاکرات میں نئی تیزی آ جائے گی۔ امریکہ کے وزیر خارجہ کولن پاول اور شمالی کوریا کے وزیر خارجہ پیک نیم سن کے درمیان جکارتہ میں بیس منٹ کی ملاقات ہوئی ہے۔ text: انھوں نے ایک اجلاس میں حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز پر الزام لگایا کہ حکمراں جماعت نے پاناما کیس کے حوالے سے چپ سادھنے کے لیے 10 ارب روپے کی پیشکش کی۔ ٭’عمران خان کی ویڈیو اور اظہارِ یکجہتی ‘ ٭پھٹیچر، ریلو کٹّے اور عمران خان اس الزام کے بعد وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے تو پوری پریس کانفرنس کر ڈالی۔ دیگر سیاسی جماعتوں نے تو اپنے اپنے بیان دیے جیسے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے میڈیا سے بات کر تے ہوئے کہا کہ 'عران خان صاحب سے پوچھیں کہ یہ الف والے ہیں یا عین والے ہیں'۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک بیان میں کہا کہ عمران خان کی جانب سے یہ بہت سنگین الزام لگایا گیا ہے اور ان کو اس شخص کا نام منظر عام پر لانا چاہیے جس نے ان کو یہ پیشکش کی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا واویلا تو ایک طرف لیکن سوشل میڈیا پر اس الزام پر کافی چرچا ہوا اور IwasOffered10BillionFor # کا ہیش ٹیگ پاکستان میں پہلے 10 ٹرینڈز میں آیا۔ نعمان ڈار نامی ایک صارف نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’خان صاحب کو 10 ارب کا میسج کہیں بینظیر انکم سپورٹ والوں کی طرف سے تو نہیں آیا۔‘ سماجی کمنٹیٹر اور کالم نگار ندیم فاروق پراچہ نے ٹرینڈ IwasOffered10BillionFor پر ٹویٹ میں لکھا ’دس ارب روپے ملیں گے۔ پانچ ارب عید مبارک کے نوٹوں کی شکل میں اور باقی روپے مونوپلی کی رقم کی شکل میں۔‘ ایک اور صارف نعمان یوسف نے حکمراں جماعت پر طنز کرتے ہوئے لکھا ہے ’بریانی پر مان جانے والے سپورٹرز کے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ کوئی بندہ دس ارب کی بڑی پیشکش بھی ٹھکرا سکتا ہے۔‘ صحافی غریدہ فاروقی کے ٹویٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے ٹویٹ کیا کہ ’عمران خان کو ضرور وضاحت کرنی ہو گی کیونکہ یہ الزام نہایت سنگین ہے اور جس رقم کا ذکر ہے وہ بہت بڑی ہے۔‘ ایک اور صارف ٹویٹ میں لکھتے ہیں کہ عمران خان نے پیشکش کے حوالے سے مبہم بیان دیا ہے۔ لیکن ایک اور صارف جن کا ٹوئٹر ہینڈل ’لائف از رِگڈ‘ ہے کا کہنا ہے ’اگر نواز شریف گاڈ فادر ہیں بقول جسٹس کھوسہ کے تو وہ عمران خان کو وہ پیشکش کرتے جو وہ ٹھکرا نہ سکتے۔‘ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے قومی سیاست اور عوام میں ایک بار پھر تہلکہ اس وقت مچا دیا جب گذشتہ دنوں ایک اجلاس میں خطاب کرتے انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کو 'چپ رہنے کے لیے 10 ارب روپے' کی پیشکش کی گئی تھی۔ text: لارڈ احمد نامناسب طرز عمل اختیار کرنے کے الزامات سے انکار کرتے ہیں بی بی سی کے حالاتِ حاضرہ کے معروف پروگرام ’نیوز نائٹ‘ نے انکشاف کیا ہے کہ مزکورہ خواتین میں سے ایک نے کہا ہے کہ انھوں نے ’ایک دوست کے ذریعے لارڈ نذیر احمد سے ایک معاملے میں مدد کے لیے رابطہ کیا، لیکن لارڈ نذیر نے اس کا 'فائدہ اٹھایا' اور ان کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کیے۔ ان الزامات کے منظر عام پر آنے کے بعد دارالامراء کے ضابطہ اخلاق کے مؤثر ہونے کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ 61 سالہ لارڈ احمد نامناسب طرز عمل اختیار کرنے کے الزامات سے انکار کرتے ہیں۔ 43 سالہ طاہرہ زمان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے فروری 2017 میں لارڈ نذیر سے اس امید پر رابطہ کیا تھا کہ وہ پولیس کو کہہ کر ایک ایسے مسلمان پیر کے خلاف تفتیش میں مدد کریں گے جو ان کے بقول خواتین کے لیے خطرناک ہو سکتے تھے۔ یہ بھی پڑھیے بھارتی خاتون وزیر کو چھونے کی ویڈیو وائرل ایم جےاکبر جنسی طور پر ہراس کرنے کے الزام کے بعد مستعفی طاہرہ زمان نے نیوز نائٹ کو تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ لارڈ نذیر احمد نے انھیں بتایا کہ انھوں (لارڈ نذیر) نے لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کی سربراہ کریسڈا ڈِک کو مدد کے لیے خط لکھا ہے۔ خاتون کے بقول اس کے بعد لارڈ نذیر احمد انھیں ’بار بار ڈِنر کے لیے ملنے‘ کا کہتے رہے۔ طاہرہ زمان کے مطابق وہ آخر کار کھانے کے لیے ملنے پر رضامند ہو گئیں اور دعوت سے چند ہفتے پہلے انھوں نے ’لارڈ نذیر سے پیر والے معاملے کے حوالے سے رابطہ کیا تو لارڈ نذیر نے انھیں مشرقی لندن میں واقع اپنی رہائش گاہ پر بلایا‘۔ طاہرہ زمان کے مطابق لارڈ نذیر نے ان سے کہا کہ وہ ایک خوبصورت خاتون ہیں۔ اس کے بعد دونوں نے کئی مرتبہ ہم بستری کی۔ طاہرہ زمان تسلیم کرتی ہیں کہ دونوں کے تعلقات میں رضامندی شامل تھی لیکن ان کا کہنا تھا کہ ’میں مدد کی طلبگار تھی اور انھوں نے میرا فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے اپنی طاقت کا غلط استعمال کیا۔‘ خاتون کے بقول یہ تعلقات دو ماہ بعد اس وقت ختم ہو گئے جب لارڈ نذیر نے انھیں بتایا کہ وہ اپنی اہلیہ سے علیحدہ نہیں ہوں گے۔ ’میں واقعی سمجھ بیٹھی تھی کہ انھیں مجھ سے محبت ہو گئی ہے۔ میں اتنی بے وقوف نکلی ۔۔۔ اور میں نے یقین کر لیا کہ وہ میری مدد کریں گے۔‘ طاہرہ زمان کا مزید کہنا تھا کہ انھیں لگتا ہے کہ لارڈ نذیر نے ان کا فائدہ اٹھایا کیونکہ اُس وقت وہ ڈپریشن اور ذہنی دباؤ میں مبتلا تھیں۔ ایک دوسری خاتون، جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتیں، ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے بھی لارڈ نذیر سے مدد کے لیے رابطہ کیا تھا۔ خاتون کا دعویٰ ہے کہ انھیں بھی ’لارڈ نذیر نے اپنی لندن والی رہائشگاہ پر رات گزارنے کی تجویز دی‘۔ خاتون کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس پیشکش کا مطلب یہی سمجھا کہ لارڈ نذیر ان کے ساتھ ہم بستری چاہتے ہیں، اس لیے انھوں نے ملنے سے انکار کر دیا۔ ’شرمناک‘ طاہرہ زمان نے گذشتہ سال جنوری میں لارڈ نذیر احمد کے رویے کی شکایت دارالامراء کی کمشنر فور سٹینڈرڈز لُوسی سکاٹ مونکریف سے کی تھی۔ انھوں نے کمشنر کو بتایا کہ 'لارڈ نذیر نے میرے اعتبار کو استعمال کرتے ہوئے مجھ سے متعدد مرتبہ ہم بستری کی۔ میں محسوس کرتی ہوں کہ لارڈ نذیر نے مجھے میری کمزوری کی وجہ سے شکار بنایا۔' طاہرہ زمان کی شکایت کا دو بار جائزہ لینے کے بعد کشمنر نے کہا کہ وہ اس معاملے کی تفتیش نہیں کر سکتیں۔ اپنے جواب کے آخر میں لُوسی سکاٹ مونکریف نے لکھا کہ ’اس معاملے میں ہاؤس آف لارڈز کے ارکان کے قوائد و ضوابط سے رو گردانی نہیں ہوئی کیونکہ جس وقت لارڈ نذیر احمد نے خاتون کی مدد کرنے اور پولیس کو خط لکھنے پر رضامندی ظاہر کی تھی، اس وقت یہ کام لارڈ نذیر کی پارلیمانی ذمہ داریوں کا حصہ نہیں تھا۔‘ کمشنر نے لکھا کہ ’آپ نے اپنی ای میل میں جس رویے کے بارے میں بات کی ہے وہ (کسی لارڈ کے) ذاتی مرتبے سے روگردانی تو ہو سکتی ہے، تاہم اخلاقی قوائد و ضوابط کا اطلاق صرف ارکان کے پارلیمانی کام پر ہوتا ہے، اور آپ کی ای میل سے لگتا ہے (لارڈ نذیر) سے آپ کے ابتدائی رابطے کا تعلق ان کے پارلیمانی کام سے نہیں تھا۔' نیوز نائٹ نے طاہرہ زمان اور لارڈز کمشنر فور سٹینڈرڈز، لُوسی سکاٹ مونکریف کے درمیان تمام خط وکتابت بیرسٹر اور ہائی کورٹ کے سابق ڈپٹی جج لارڈ کارلائل کو بھی دکھائی۔ طاہرہ زمان نے الزام لگایا کہ لارڈ احمد نے بار بار ان سے ڈنر پر ملاقات کے لیے کہا ان کا یہ کہنا ہے کہ قوانین کو واضح کیا جانا چاہیے۔ 'اگر کوئی آپ کے پاس مدد کے لیے آتا ہے، خاص طور پر اگر وہ کمزور ہے اور آپ اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتے ہیں تو یہ بہت شرمناک ہے'۔ انہوں نے مزید کہا کہ 'کمشنر، جو کہ ایک تجربہ کار وکیل ہیں، ان کو یہ بات واضح نہیں ہے تو پھر میرے خیال میں قوانین کو مزید واضح بنانے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ضابطۂ اخلاق کے بارے میں گائیڈ کو زیادہ واضح کرنے کی ضرورت ہے'۔ انہوں نے مزید کہا 'وہ لارڈ احمد کے پاس اس لیے گئیں کیونکہ وہ یہ یقین رکھتی تھیں کہ وہ ایک ایسے مقام پر ہیں جس کی وجہ سے وہ ان کے کام کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتے ہیں۔ مجھے یہ بالکل واضح نظر آ رہا ہے کہ وہ جو بھی کر رہے تھے وہ سب دارالامراء کے رکن کے طور پر کر رہے تھے۔‘ لارڈ کارلائل نے کہا کہ ’لارڈ احمد اور طاہرہ زمان کے درمیان جنسی تعلق ضابطہ اخلاق کی دو شقوں کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔‘ ایک جو 'مفادات کے تصادم' کے حوالے سے ہے اور دوسرا جو یہ کہتا ہے کہ دارالامراء کے اراکین کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے ’ذاتی وقار‘ کا خیال رکھیں۔ لیکن نیوز نائٹ کو بھجوائے گئے ایک بیان میں لوسی مونکریف نے کہا 'اگرچہ شکایت قابل اعتماد اور ٹھوس ہے مگر شکایت میں اس بارے میں نا مکمل شواہد فراہم کیے گئے کہ ان کے ساتھ رابطہ ان کی پارلیمانی ذمہ داریوں کے حوالے سے کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی اور نتیجہ نکالنا، جیسا کہ لارڈ کارلائل نے نکالا ہے، وہ ضابطۂ اخلاق کی غلط تشریح کے مترداف ہو گا'۔ نیوز نائٹ کو ایک جواب میں لارڈ نذیر کا کہنا تھا کہ 'میں ان تمام الزامات سے مکمل طور پر انکار کرتا ہوں کہ میں نے اپنی طاقت کو عام عوام کے ساتھ نامناسب تعلقات قائم کرنے کے لیے استعمال کیا یا میں نے خواتین کی موجودگی میں اپنی ذاتی یا پیشہ ورانہ حیثیت میں نامناسب طرزِ عمل اختیار کیا۔‘ لارڈ نذیر کا مزید کہنا تھا کہ 'برطانوی دارالامرا کی سٹینڈرڈز کمشنر لوسی سکاٹ مونکریف نے شکایت کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ یہ شکایت میری پارلیمانی حیثیت کے حوالے سے (کسی) نامناسب رویے میں نہیں آتی۔ انہوں نے اس پر مزید کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا'۔ انہوں نے مزید کہا کہ 'ایک پارلیمنٹیرین کے طور پر میں اپنی ذمہ داریوں کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہوں اور میں ایسا کوئی کام نہیں کرتا جس سے میری ذاتی اور پیشہ ورانہ ساکھ متاثر ہوتی ہو۔‘ برطانیہ کے دارالامراء یا ہاؤس آف لارڈز کے رکن لارڈ نذیر احمد پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے ایسی خواتین سے جنسی تعلقات قائم کیے جو ان کے پاس مدد کے لیے آئی تھیں۔ text: اراکین پارلیمان کا کہنا ہے کہ شاہ کے آئین سازی سے متعلق تمام اختیارات ختم کردیئے گئے ہیں۔ پارلیمان کے اس اقدام کے بعد شاہ پارلیمان کے منظور کردہ کسی بھی آئینی بل اور قانون کو مسترد نہیں کرسکیں گے اور اراکین کو آئینی بلوں کو قانونی شکل دینے کے لیے شاہ کی منظوری کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس بات کا اعلان سرکاری سطح پر اتوار کو کیا گیا۔ شاہ گیانندرا نے اپریل میں شدید عوامی احتجاج کے بعد پارلیمان بحال کردی تھی۔ کئی ہفتوں تک چلنے والے اس احتجاج میں چودہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ رکن پارلیمان رام بران یادو نے بتایا کہ پارلیمان میں شاہ کی موجودگی کے تصور کو قانون کے ذریعے ختم کر دیا گیا ہے۔ نیپال کی کمیونسٹ پارٹی کے رکن پارلیمان رگھوجی پٹنہ کا کہنا ہے کہ اب شاہ کا کردار محض نمائشی رہ گیا ہے۔ پارلیمان کے سپیکر سبھاش نیوانگ نے بتایا کہ اس نئے قانون کی رو سے ریاست کے تمام تر اختیارات قانون ساز اداروں اور وزراء کی کونسل کو منتقل کر دیئے گئے ہیں۔ گزشتہ ماہ اراکین پارلیمان نے ووٹنگ کے ذریعے شاہ کے فوج، قانونی استثنیٰ اور ٹیکس کی ادائیگی سے مبرا ہونے کے اختیارات میں کمی کی تھی۔ نیپال میں پارلیمان نے اتفاق رائے سے بادشاہ گیانندرا کو آئینی دستاویزات کو ویٹو کرنے کے حق سے محروم کردیا ہے۔ text: دِلّی میں حکام کا کہنا ہے کہ محمود عباس کا دورہ بھارت کے لیے فلسطینیوں کی حمایت کا اظہار کرنے کا اہم موقع ہے۔ اس سے پہلے فلسطینی رہنما نے پاکستان کے دورے میں کہا تھا کہ وہ دنیا میں ایک اہم مقام رکھتا ہے اس لیے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعہ پرامن طور پر حل کرانے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے صدر جنرل پرویز مشرف کی مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی پالیسی کی تعریف کی اور کہا کہ انہیں پالیسیوں کی بدولت دنیا میں عزت و احترام حاصل ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان القدس الشریف کے دارالحکومت کے ساتھ فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام کا خواہاں اور حامی ہے۔ انہوں نے عالمی سطح پر مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے فلسطینی انتظامیہ کی سیاسی حمایت اور مدد جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا۔ پاکستان اور فلسطین کے صدور نے اس موقع پر اتفاق رائے سے کہا کہ اسلام ایک عظیم مذہب ہے اور اس کا دہشت گردی جیسی لعنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ وہ بہتر حکمرانی اور دفاع و سلامتی کے شعبوں میں فلسطین کو تربیت اور تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ مہمان صدر محمود عباس نے بتایا کہ انہوں نے پاکستانی قیادت کو فلسطین کے دورے کی دعوت بھی دی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بھارتی قیادت سے مذاکرات میں مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے علاوہ فلسطینی علاقوں میں جاری بھارتی ٹیلی مواصلاتی منصوبے بھی گفتگو کے اہم موضوعات ہوں گے۔ فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے بھارت میں مختلف رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔ text: جمعرات کو قومی اسمبلی کے چیمبر میں بی بی سی کے سوالات کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’قتل کی تحقیقات کیسے ہونی چاہیے اور اس کا دائرہ کار کیا ہو، اس بارے میں مشاورت ہور رہی ہے اور ڈرافٹ تیار کیا جارہا ہے جو کابینہ کو منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ وزارت خارجہ یا اس کا کوئی افسر اقوام متحدہ سے بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کی مخالفت کر رہا ہے یا کسی کو کوئی تحفظات ہیں۔ ادھر دفتر خارجہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ کابینہ کی منظوری کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم اس بارے میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو درخواست پیش کریں گے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان اس نوعیت کی مدد کے لیے عالمی ادارے سے رجوع کر رہا ہے۔ بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ لبنان کے سابق وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کی تفتیش کے لیے قائم اقوام متحدہ کے کمیش کی طرز پر بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات ہوئی تو بہت سارے راز افشاں ہوں گے اور بات بینظیر بھٹو کے قاتلوں سے بہت دور نکل جائے گی۔ بین الاقوامی قوانین کے ماہر ایڈوکیٹ احمر بلال صوفی کا کہنا ہے کہ دیکھنا یہ ہے کہ اقوام متحدہ بینظیر بھٹو کے قتل کی جانچ کے لیے جو کمیشن بناتا ہے اس کا دائرہ کار اور اختیارات کیا طے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رفیق حریری کمیشن کو کسی بھی شخص کو شامل تفتیش کرنے، مشکوک اکاؤنٹ اور املاک منجمند کرنے، ملک بھر میں ریاستی اور نجی اداروں اور افراد سے پوچھ گچھ کی اجازت تھی۔ ان کے بقول اگر وہ اختیارات بینظیر بھٹو کمیشن کو بھی ملے تو جوہری پاکستان عدم استحکام سے دوچار بھی ہوسکتا ہے۔ ’دوران تفتیش بہت سارے راز کھلیں گے اور پاکستان کی دشمن قوتیں اگر تفتیش سے حاصل ہونے والی معلومات کو کوئی بھی رنگ دینا چاہیں تو دے سکتی ہیں۔‘ احمر بلال صوفی کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان حکومت چاہے تو صرف اقوام متحدہ سے تفتیشی ماہرین کی خدمات حاصل کرے اور وہ اقوام متحدہ کے بجائے صرف پاکستان حکومت کو رپورٹ کرنے کے پابند ہوں۔ اس بات کا احساس حکومت پاکستان کو بھی ہے اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ وہ تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر اقوام متحدہ سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں۔ تحقیقات کا ایسا طریقہ کار ہونا چاہیے جس سے معاملات صرف قتل کی تحقیقات تک محدود رہیں اور پاکستان پر کسی قسم کی آنچ نہ آئے۔ کچھ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی کمیشن بنانے کے لیے سیکریٹری جنرل معاملہ سلامتی کونسل یا جنرل اسمبلی میں بھی پیش کرسکتے ہیں اور کمیشن سے تعاون کے لیے دنیا بھر کے ممالک کو پابند کیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں جن لوگوں کی خود نشاندہی کی تھی، ان اعلیٰ ترین عہدیداروں سمیت سیکورٹی افسران اور پاکستان حکومت جسے بھی تفتیش کے لیے تجویز کرے، ان سے پوچھ گچھ ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا ہے کہ سابق وزیراعظم بینظر بھٹو کے قتل کی اقوام متحدہ سے تحقیقات کرانے کے طریقہ کار پر مشاورت ہورہی ہے اور اس بارے میں بہت جلد اقوام متحد سے باضابطہ طور پر رابطہ کیا جائے گا۔ text: مصروف تجارتی علاقے میں واقع مندر کی عمارت زمین بوس کردی گئی ہے اور جمعہ کے دن سہ پہر تک وہاں ایک تجارتی پلازہ بنانے کا کام تیزی سے جاری تھا۔ جمعہ کے دن مختلف اخباری فوٹوگرافروں نے جب اس جگہ کی تصویر بنانےکی کوشش کی تو عمارت بنانے والوں نے انہیں اس سے روک دیا اور انہیں مارنے کی دھمکی دی۔ مندر کے انہدام کا معاملہ بھارت میں اٹھنے کی وجہ سے اس پورے علاقہ میں تناؤ ہے۔ عدالت عالیہ کے جج اختر شبیر نے جمعہ کے دن ایک آئینی رٹ درخواست پر مندروں کے انتظامی وفاقی محکمہ متروکہ وقف املاک (ای ٹی بی) کو جواب دینے کے لیے نوٹس جاری کیئے اور کہا کہ تا حکم ثانی اس مندر کی موجودہ حیثیت میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔ اندرون شہر میں سوہا بازار اور گمٹی کے تجارتی علاقہ میں واقع اس چھوٹے سے قدیمی مندر کا ذکر کنہیا لال کی تاریخ لاہور میں درج ہے۔ اس مندر کو اس کی خوبصورتی کی وجہ سے عرف عام میں سندر مندر کہا جاتا تھا۔ عدالت عالیہ نے حکم امتناعی راولپنڈی کے ایک ہندو شہری اوم پرکاش کی رٹ درخواست پر دیا ہے جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ متروکہ وقف املاک نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے نو مارچ سنہ دو ہزار چھ میں ملک سہیل نامی ایک شخص کو یہ مندر پٹہ (لیز) پر دے دیا اور اسے وہاں ایک تجارتی عمارت بنانے کی منظوری دے دی۔ درخواست گزار نے عدالت عالیہ سے کہا ہے کہ قانون کے تحت متروکہ وقف املاک کسی مندر یا مذہبی عمارت کو گرانے کا حکم نہیں دے سکتی۔ درخواست گزار کا یہ بھی کہنا ہے کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ دو سو پچانوے سی کے تحت اگر کسی شخص کی کسی مذہب کے خلاف حرکت سے کسی مذہب کے ماننے والے کی دل آزاری ہو تو اسے دو سال قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ سندر مندر کا انتہائی خوبصورت لکڑی کا دروازہ تین برس پہلے چرا لیا گیا تھا جس کی ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ پرانی چیزوں کے شوقین لاہور کے با اثر شہری پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ان کے گھر میں یہ دروازہ آج بھی موجود ہے۔ تاہم اس بارے میں پولیس نے کوئی حتمی تفتیش نہیں کی اور یہ مقدمہ سرد خانہ کی نذر ہوگیا۔ وفاقی وزیر نے یہ بیان دیا کہ بھارتی جنتا پارٹی کے رہنما لال کرشن ایڈوانی دیکھ سکتے ہیں کہ کرشنا مندر منہدم نہیں کیا گیا بلکہ اس کی مرمت کی جارہی ہے۔ تاہم درخواست گزار کے وکیل فواد چودھری کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر اعجاز الحق نے جس مندر کی نشان دہی کی وہ سوہا بازار کے اس مندر سے مختلف ہے جسے منہدم کیاگیا ہے۔ لاہور میں اندرون شہر رنگ محل چوک کے پاس سوہا بازار میں واقع ہندو دیوتا کرشن کا ایک قدیمی مندر منہدم کردیا گیا ہے جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے جمعہ کو اس مندر پر تعمیراتی کام کے خلاف حکم امتناعی جاری کردیا ہے۔ text: بالی وڈ اداکارہ دیپکا پاڈوکون اور اداکار رنبیر سنگھ کئی سال سے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں لیکن آج تک کھل کر انھوں نے اپنے اس رشتے کو قبول نہیں کیا یہ اور بات ہے کہ ہر جگہ کھلے عام ہاتھ تھامے نظر آنے والی ان کی تصاویر کچھ اور کہانی بیان کرتی ہے۔ اب خبر ہے کہ دونوں کی منگنی ہو چکی ہے اور نومبر میں شادی ہونے والی ہے۔ ایسے میں جب دیپکا سے اس بارے میں سوال پوچھے گئے تو انھوں نے ایک بار پھر بجائے صاف بات کرنے کے بات کو الجھا دیا۔ یہ بھی پڑھیے محبت میں پانی بھی شربت لگتا ہے: رنبیر کپور دیپکا پاڈوکون اور مادھوری دیکشت کی ناقابل فراموش باتیں ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ذاتی زندگی کو پروفیشنل زندگی سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن افواہوں اور قیاس آرائیوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتیں۔ دپیکا کا کہنا تھا کہ ان کے والدین کا آپسی رشتہ بہت مضبوط اور خوبصورت ہے اور وہی ان کے رول ماڈل ہیں۔ سلمان خان کے بہنوئی آیوش شرما کی پہلی فلم 'لو راتری' کی شوٹنگ تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھیں یہ فلم سلمان خان کے ساتھ رشتے داری کے سبب ملی ہے۔ لیکن آیوش کا کہنا ہے کہ انھیں اس فلم سے پہلے سخت محنت کرنی پڑی اور 'بجرنگی بھائی جان' کے علاوہ کئی فلموں میں پردے کے پیچھے کام کرنے اور تربیت کے بعد ہی انھوں نے خود کو پردے کے سامنے لانے کی ہمت کی۔ یہ بھی پڑھیے ’یہ فوٹو بیڈ روم کے لیے بچا کر رکھو دیپکا‘ دیپکا پاڈوکون اور رنبیر کپور ایک بار پھر ساتھ سلمان خان کے حوالے سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے پرانے دوست سنجے لیلا بھنسالی کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہو گئے ہیں اور سنجے کے ساتھ ان کی فلم کا نام ہو گا 'انشا للہ۔' سنجے لیلا بھنسالی کافی عرصے سے سلمان کے ساتھ فلم کرنے کی کوششوں میں تھے اور کیوں نہ ہوں جس کی فلاپ فلم بھی تین سو کروڑ کا بزنس کرتی ہو اس کے ساتھ کون کام نہیں کرنا چاہے گا؟ یہ بھی پڑھیے میں سنگل ہوں، کنفیوژڈ ہوں: سلمان کیا بالی وڈ بدل رہا ہے؟ اب 'ریس تھری' کو ہی لے لیجیے۔ نہ نہ کر کے بھی فلم نے ورلڈ وائیڈ تین سو کروڑ کی کمائی کر لی۔ ایسا ہی سلمان کی فلم 'پریم رتن دھن پایو' کے ساتھ بھی ہوا۔ 'ریس تھری' کا جو ہوا سو ہوا اب سلمان دھوم سیریز کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ اب سنجے لیلا بھنسالی کی 'انشاللہ' بنے یا نہیں ہاں سلمان کے لیے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ بھائی ماشااللہ! کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے ایسا ہی کچھ آج کے اس جدید ترین دور میں ہے کہ کچھ بھی چھپائے رکھنا بہت مشکل ہے۔ text: امیتابھ اور سلمان کا ملن امیتابھ نے ٹوئٹر پر اپنے مداحوں کو بتایا کہ انہوں نے ممبئی میں فلم ’بھوت ناتھ ریٹرن‘ کی شوٹنگ شروع کی تو پاس ہی سلمان خان اور تبو اپنی ایک فلم کی شوٹنگ کر رہے تھے۔ وہیں امیتابھ اور سلمان نے شوٹنگ میں وقفے کے دوران ملاقات کی اور دونوں نے نہ صرف باتیں کی بلکہ گلے بھی ملے۔ خیال رہے کہ سلمان خان کی سابق گرل فرینڈ ایشوریہ رائے کے بچن خاندان کی بہو بننے کے بعد عوامی طور پر امیتابھ اور سلمان ساتھ نظر نہیں آئے۔ امیتابھ اور سلمان خان نے ایک ساتھ ’باغبان‘، ’گاڈ تسسي گریٹ ہو‘ اور ’بابل‘ جیسی فلمیں کی ہیں۔ ہنی سنگھ کے نغمے پر اعتراض اکشے کمار کی یہ فلم جلد ہی ریلیز ہونے والی ہے دہلی ہائی کورٹ نے اکشے کمار کی آنے والی فلم ’باس‘ کے ایک نغمے سے ایک لفظ حذف کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ ’پارٹی آل نائٹ‘ نامی یہ نغمہ متنازع گلوکار ہنی سنگھ نے گایا ہے۔ عدالت نے لفظ حذف کرنے کے لیے اکشے کمار کو جمعے تک کا وقت دیا ہے۔ بھارتی سینسر بورڈ نے بھی اس لفظ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگوں کو ٹھیس پہنچانے والا لفظ ہے۔ اس سے پہلے بھی ہنی سنگھ کے ایک گانے میں متنازع الفاظ کے استعمال کے لیے ان پر تنقید ہو چکی ہے۔ عدنان سمیع مشکل میں عدنان سمیع اور صبا گالاداری میں اب علیحدگی ہو چکی ہے پاکستانی گلوکار عدنان سمیع کا بھارت میں رہائش کا ویزا چھ اکتوبر کو ختم ہو گیا ہے۔ یہ بات عدنان سمیع اور ان کی سابق اہلیہ صبا گالاداري کے مابین جاری ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سامنے آئی. دراصل عدنان نے مبینہ طور پر صبا کے لیے ممبئی کے علاقے لوكھنڈوالا میں ایک فلیٹ خریدا تھا لیکن اب وہ خود اس میں اپنی تیسری بیوی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ صبا نے عدالت میں فلیٹ کے مالکانہ حقوق اور کرائے کی رقم کے معاملات پر عدنان پر کیس دائر کیا ہے۔ سماعت کے دوران عدنان نے اپنے ویزا کے بارے میں کہا کہ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کے ویزے کی مدت ختم ہو رہی ہے اور وہ اب اپنے ویزے کی تجدید کروانے کی کوشش کریں گے۔ امیتابھ بچن اور سلمان خان طویل عرصے بعد انتہائی گرم جوشی سے ملتے نظر آئے اور یہی نہیں امیتابھ نے سلمان خان کے ساتھ اپنی تصاویر اپنے فیس بک پیج پر بھی شیئر کیں. text: ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ میچوں میں کپتان اور منیجر کی حیثیت سے پاکستان کی نمائندگی کرنے والے انتخاب عالم کا کہنا تھا کہ آٹھ سال قبل وہ ویسٹ انڈین کرکٹ اکیڈمی میں کام کر چکے ہیں اور اس دوران انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ساحل سمندر پر کرکٹ کھیلنے کے لیے وہاں اب پہلے جیسا جوش و خروش نہیں رہا۔ انتخاب عالم کے مطابق امریکہ کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے باسکٹ بال نے ویسٹ انڈیز میں اپنا خوب اثر دکھایا ہے کیونکہ اس کھیل میں بہت پیسہ ہے اور نوجوان اب کرکٹ کی بجائے اس (باسکٹ بال) کی طرف مائل ہیں۔ کرکٹ ورلڈ کپ 1992 کی فاتح پاکستانی ٹیم کے منیجر کے خیال میں یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے جس سے ویسٹ انڈین کرکٹ اس وقت دوچار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ معیار کے کھلاڑی سامنے نہ آنے کی وجہ سے ویسٹ انڈین ٹیم کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے۔ انتخاب کے مطابق ویسٹ انڈین ٹیم کا ماضی کی ٹیموں سے کسی طور بھی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ ٹیم نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے جس کی کارکردگی ٹیسٹ کے مقابلے میں ایک روزہ کرکٹ میں زیادہ بہتر نظرآتی ہے۔ ’لیکن ویسٹ انڈین ٹیم منیجمنٹ کو ٹیسٹ کرکٹ کے بارے میں بھی سوچ بچار کرنا ہوگا اور غلطیوں سے سیکھنا ہوگا‘۔ انتخاب عالم کا کہنا ہے کہ لاہور ٹیسٹ میں پاکستان کی جیت کی وجہ ’آل راؤنڈ‘ کارکردگی تھی، البتہ فیلڈنگ میں ابھی بھی بہتری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمر گل اور شاہد نذیر نے متاثر کن بولنگ کی جبکہ محمد یوسف نے یادگار اننگز کھیلی۔ انتخاب عالم کہتے ہیں کہ لاہور ٹیسٹ کی جیت کا پاکستانی ٹیم سے کریڈٹ نہیں چھینا جاسکتا، لیکن سری لنکن امپائر اشوکا ڈی سلوا کی امپائرنگ کا معیار خاصا پست رہا اور اتفاق سے ان کے تمام غلط فیصلے ویسٹ انڈیز کے خلاف رہے۔ ’غالباً ڈیرل ہیئر کو ایلیٹ پینل سے ہٹانے کے بعد آئی سی سی کے پاس کوئی دوسری چوائس نہیں تھی‘۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر انتخاب عالم کے خیال میں ویسٹ انڈین کرکٹ میں ورلڈ کلاس کھلاڑیوں کی کمی کی وجہ وہاں باسکٹ بال اور فٹبال جیسے کھیلوں کی مقبولیت ہے۔ text: پشاور کے کور کمانڈر لفٹینٹ جنرل صفدر حسین نے صحافیوں کو ایک بریفنگ میں بتایا کہ اس آپریشن میں پاکستان فوج کے چھ سو تہتر فوجی جوان زخمی بھی ہوئے۔ صفدر حسین نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے تین سو تریپن شدت پسندوں میں ایک سو پچھہتر غیر ملکی بھی تھے جن میں زیادہ تر تعداد ازبکستان اور تاجکستان سے تعلق رکھنے والوں کی تھی۔ تاہم ان غیر ملکیوں میں کچھ عرب ملکوں کے باشندے بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس آپریشن کے دوران فوج نے پچھہتر ہزار ٹن اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا۔ اس کے علاوہ شدت پسند رہنماؤں کے خطبوں اور تقریروں کی کیسٹیں بھی بڑی تعداد میں برآمد ہوئی ہیں۔ جنرل صفدر نے کہا کہ انہوں نے سرحد کے آر پار شدت پسندوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے چھ سو کلو میٹر طویل سرحد کے ایک حصے پر سات سو پریسٹھ فوجی چوکیاں بھی تعمیر کی ہیں۔ وزیر ستان میں فوجی آپریشن کے دوران عورتوں، بچوں اور شہریوں کی ہلاکت کے بارے میں جنرل صفدر کی بریفنگ میں کوئی اعداد شمار مہیا نہیں کیا گیا۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن کے دوران گزشتہ اٹھارہ مہینوں میں دو سو اڑسٹھ فوجی اور تین سو تریپن مبینہ شدت پسند ہلاک ہو چکے ہیں۔ text: فوجی اڈے سے اڑنے والے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کلورین گیس سے بھرے بیرل بم گرائے۔ رپورٹ کے مطابق کہ فوجی اڈے سے اڑنے والے ہیلی کاپٹروں نے ایسے بیرل بم گرائے جس میں کلورین گیس موجود تھی۔ اس سے پہلے اگست میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں شامی افواج پر دو مرتبہ کلورین گیس سے حملہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ شام کی حکومت نے اس تازہ رپورٹ پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ یاد رہے کہ ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت سنہ 2013 میں شام اپنے تمام کیمیائی ہتھیار ناکارہ بنانے پر رضا مند ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی ایک قرارداد کے ذریعے کیمیائی ہتھیار ناکارہ بنانے کے معاہدے کی حمایت کی تھی۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو 'وحشیانہ' قرار دیا ہے اقوام متحدہ کی جانب سے شام میں جاری جنگ کے بارے میں گذشتہ 13 ماہ کے دوران جاری ہونے والی چوتھی رپورٹ میں حکومتی افواج پر ممنوعہ کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ رپورٹ کا نتیجہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے طریقہ کار کے حوالے سےسلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کے درمیان اختلاف کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے پہلے اگست میں شائع ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ میں اسلامی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ پرسلفر گیس استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ جمعے کو جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومتی افواج نے ہیلی کاپٹروں سے بیرل بم گرائے۔ شام افواج کے ہیلی کاپٹروں نے ممکنہ طور پر دو عسکری اڈوں سے پروازیں کی۔ انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اُس وقت ہیلی کاپٹر کے سکارڈنز کو کنٹرول کرنے والے افراد کے نام کی تصدیق نہیں کی جا سکتی ہے۔‘ رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ ’اس کے ذمے دار عسکری یونٹ کو کنٹرول کرنے والے ہیں اور اُن کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘ 1997یاد رہے کہ میں طے پانے والح کیمیائی ہتھیاروں کے معاہدے کے تحت کلورین گیس کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پر پابندی ہے اور شام نے سنہ 2013 میں اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو ’وحشیانہ‘ قرار دیتے ہوئے تمام ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ فوری اقدامات کریں۔ اقوم متحدہ کی سکیورٹی کونسل کو پیش کی جانے ایک خفیہ والی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شام کی حکومتی افواج نے گذشتہ برس مارچ میں شمال مغربی علاقے ادلیب میں تیسری مرتبہ زہریلی گیس کا حملہ کیا تھا۔ text: وزیر داخلہ نے بتایا ہے کہ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق مظفر آباد میں مرنے والوں کی تعداد اٹھارہ ہزار پانچ سو ہے جبکہ زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اڑتیس ہزار سے زیادہ ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق زلزلے میں چونسٹھ ہزار سے زیادہ زخمیوں میں سے اکتالیس ہزار کشمیری باشندے ہیں۔ پاکستان فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ ایک ہفتہ قبل آنے والے زلزلے میں اب تک اڑتیس ہزار افراد ہلاک جبکہ ساٹھ ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل شوکت سلطان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ دور دراز علاقوں سے تباہی اور ہلاکتوں کی مزید اطلاعات آ رہی ہیں۔ مظفرآباد میں بی بی سی کی نامہ نگار ڈیمیتھا لتھرا کے مطابق ابھی بھی کئی علاقے اور گاؤں ایسے ہیں جہاں نہ زمینی مدد پہنچی ہے اور نہ ہیلی کاپٹروں سے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ انتظار کر رہے ہیں، امید کر رہے ہیں لیکن کھلے آسمان کے نیچے رہنے کی وجہ سے کئی لوگ ہلاک ہو گئے ہیں۔ زلزلہ آنے کے ایک ہفتے کے بعد بھی لوگوں کے پاس ٹینٹ، کمبل، کھانے کی اشیاء کی کمی ہے۔ نامہ نگار کے مطابق مظفر آباد میں اب لوگ اپنے ٹوٹے پھوٹے گھروں کو واپس جا رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ وہاں سے جو بھی بچ سکے وہ نکال لیں۔ ان ہی میں ایک خاندان بے چینی سے گھر کے ملبے کے اندر سے ایک چیز ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ کوئی پرانی یادگار چیز یا زیور نہیں ہے بلکہ ایک چیک ہے جو ان کے خاندان کے ایک فرد کی برطانیہ میں کینسر کا علاج کروانے کے لیے دی گئی گرانٹ کا ایک چیک ہے۔ اقوام ے متحدہ کے ادارے یونیسف نے کہا ہے کہ سردی کا موسم آتے ہی بچے نزلہ زکام، خوراک کی کمی اور دیگر بیماریوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ برطانوی فلاحی تنظیم اوکسفیم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان دشوارگزار علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں کمبل اور خیمے پہنچانے کی ضرورت ہے جہاں بہتر حالات میں بھی رسائی آسان نہیں۔ پاکستان کے وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ کے مطابق زلزلے سے ہلاک ہونے والوں میں سےتقریباً نصف کا تعلق مظفر آباد سے تھا۔ text: بیت الخلیل کے گورنر نے ان ہلاکتوں کودانستہ اور سوچ سمجھ کر کیا جانے والا قتل قرار دیا ہے ان اسرائیلی لڑکوں کی ہلاکت کے بعد ہی غزہ میں اسرائیلی کارروائی شروع ہوئی تھی جس میں دو ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے۔ اسرائیل کی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل پیٹر لرنر نے کہا ہے کہ عمر ابوعائشہ اور مروان القواصمی نامی ان افراد کو منگل کو بیت الخلیل کے علاقے میں ایک آپریشن کے دوران مارا گیا۔ ترجمان کے مطابق ایک فلسطینی اسرائیلی فوج کے خصوصی دستوں سے فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہوا۔ اسرائیلی فوج کے ذرائع کے مطابق کارروائی میں دوسرا شخص بھی ہلاک ہوا لیکن اس کی باقاعدہ تصدیق ابھی باقی ہے۔ ان دونوں افراد کا ایک اور رشتے دار پہلے ہی حراست میں ہے اور اس پر اسرائیلی لڑکوں کے اغوا کی فردِ جرم عائد کی جا چکی ہے۔ بیت الخلیل کے رہائشیوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے علی الصبح ایک مکان کا محاصرہ کیا جس کے بعد فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔ اسرائیلی فوجیوں نے منگل کی صبح بیت الخلیل یونیورسٹی کے علاقے میں آپریشن کیا اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’پولیس اور فوج انھیں گرفتار کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ ہم نے گولیاں چلائیں تو جواباً ہم پر فائرنگ ہوئی اور اسی تبادلے میں وہ مارے گئے۔‘ لیفٹیننٹ کرنل پیٹر لرنر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہم نے ان میں سے ایک کی لاش دیکھی ہے لیکن دوسرے کی نہیں۔ تاہم غالب خیال یہی ہے کہ وہ بھی مارا گیا ہے۔‘ روئٹرز کے مطابق بیت الخلیل کے گورنر کامل حمید نے فلسطینی ریڈیو پر دونوں افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’القواصمی اور ابوعائشہ آج صبح بیت الخلیل یونیورسٹی کے علاقے میں فوجی آپریشن کے دوران ہلاک کر دیے گئے۔ ہم اس جرم کی مذمت کرتے ہیں اور یہ دانستہ اور سوچ سمجھ کر کیا جانے والا قتل ہے۔‘ خیال رہے کہ تین اسرائیلی باشندوں کی گمشدگی کا واقعہ 12 جون کو پیش آیا تھا اور ان کی لاشیں 30 جون کو بیت الخلیل کے نزدیک سے ملی تھیں۔ لاشوں کی برآمدگی کے بعد اسرائیل نے آٹھ جولائی کو غزہ پر حملوں کا آغاز کر دیا تھا اور کئی ہفتے جاری رہنے والی اس کارروائی میں 2100 فلسطینی مارے گئے تھے جن میں سے بیشتر عام شہری تھے۔ فلسطینی عسکریت پسندوں کے جوابی حملوں میں 67 اسرائیلی فوجی اور چھ شہری بھی ہلاک ہوئے تھے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے ایسے دو فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا ہے جن پر رواں برس جون میں مقبوضہ غربِ اردن سے تین اسرائیلی لڑکوں کے اغوا اور ان کی ہلاکت میں ملوث ہونے کا شبہ تھا۔ text: اطلاعات کے مطابق ان دھماکوں کے نتیجے میں کم سے کم 30 افراد زخمی ہوئے پولیس کے مطابق پہلا دھماکہ دریائے فرات کے قریب بیبی لون نامی ہوٹل جبکہ دوسرا ایشتر ہوٹل کے باہر ہوا۔ حکام کے مطابق یہ دونوں دھماکے مقامی وقت کے مطابق آدھی رات کے بعد ہوئے۔ خبر رساں ادارے روئیٹرز کے مطابق ان دھماکوں کے نتیجے میں کم سے کم 30 افراد زخمی ہوئے۔ غداد میں موجود بی بی سی کی نامہ نگار اورلا گیرن نے ٹویٹ کیا ہے کہ شیرٹن ہوٹل کے قریب ہونے والے دھماکے کے بعد دھواں اٹھ رہا ہے جبکہ دوسرے دھماکے نے بی بی سی دفتر ہو ہلا کر رکھ دیا بغداد میں موجود بی بی سی کی نامہ نگار اورلا گیرن نے ٹویٹ کیا ہے کہ شیرٹن ہوٹل کے قریب ہونے والے دھماکے کے بعد دھواں اٹھ رہا ہے جبکہ دوسرے دھماکے نے بی بی سی دفتر ہو ہلا کر رکھ دیا۔ عراقی پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں بیبی لون کی کار پارکنگ میں ایک تیسرا بم ملا ہے جس ناکارہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔ خیال رہے کہ حالیہ برسوں کے دوران ان ہوٹلوں کی تزین و آرائش کے بعد جمعرات کی رات یہاں کافی رش ہوتا ہے۔ خیال رہے کہ کچھ دن پہلے بھی طالبان شدت پسندوں نے کابل میں ایک گیسٹ ہاؤس پر حملہ کیا تھا جس میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں کچھ غیر ملکی بھی شامل تھے۔ سنہ 2010 میں ان ہوٹلوں کو کار بم دھماکوں میں نشانہ بنایا گیا تھا جس میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ عراق میں پولیس کے مطابق دارالحکومت بغداد میں واقع دو ہوٹلوں کے باہر ہونے والے دو کار بم دھماکوں میں کم سے کم دس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ text: پاکستان میں چھٹی مردم شماری کا عمل مکمل ہو گیا ہے یہ مردم شماری نو برس کے التواء کے بعد کی گئی تھی اور دو مرحلوں میں مکمل کی جانے والی خانہ و مردم شماری کا آغاز 15 مارچ کو ہوا تھا۔ مردم شماری میں فوج کا کردار پاکستان کے وفاقی ادارہ شماریات کے سینسس آپریشن کے رابطہ کار حبیب اللہ خٹک نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ 'مردم شماری کا دوسرا اور آخری مرحلہ بدھ کو ختم ہو گیا ہے۔ آخری دن بےگھر افراد کو شمار کیے جانے کے لیے مختص تھا لیکن اگر کسی علاقے میں معمول کی مردم شماری کا کام رہ گیا ہے تو وہ بھی مکمل کیا جائے گا۔‘ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے بتایا کہ افغانستان کی سرحد سے متصل پاکستانی علاقے چمن میں کشیدگی کے باعث مردم شماری کے کام میں خلل پڑا تھا لیکن وہ بعد میں دونوں ممالک کے حکام کی بات چیت کے بعد دوبارہ شروع کر دیا گیا تھا اور جو لوگ وہاں موجود تھے اُنہیں شمار کر لیا گیا۔ پاکستان کے وفاقی ادارے برائے شماریات کے مطابق مردم شماری کے دورانیے کو بڑھانے پر غور نہیں ہو رہا اور تقریباً پورے ملک میں کام ختم ہو گیا ہے۔ حبیب اللہ خٹک کے مطابق کسی علاقے سے شکایت آنے کی صورت میں دو دن تک فوج سے اہلکاروں کی دستیابی کی درخواست کی ہے لیکن اب تک ایسی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔ پاکستان میں 19 سال بعد مردم شماری وفاقی ادارہ شماریات کے ترجمان قاضی سعید نے بتایا 'جمعرات سے ملک بھر سے فارم واپس لائے جانے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا جس میں ضلعے اور اس کے بعد صوبے کی سطح پر فارم جمع کر کے اُنہیں وفاقی ادارے کو بھجوایا جائے گا جہاں ان فارمز کو ایک خاص نظام کے ذریعے ڈیجیٹائز کر کے نتائج تیار کیے جائیں گے۔' سینسس آپریشن کے رابطہ کار حبیب اللہ خٹک نے ایک سوال کے جواب میں بتایا 'ملک میں شرح پیدائش اور فارمز کی چھپائی کی بنیاد پر جو اندازے لگائے گئے ہیں اُن کے مطابق شاید آبادی اکیس سے بائیس کروڑ کے درمیان ہو'۔ خانہ و مردم شماری کے آغاز میں طے شدہ مراحل کے مطابق عبوری نتائج دو ماہ میں سامنے آئیں گے جس میں ضلعی، صوبائی اور قومی سطح پر معمول کی رپورٹس، بڑے شہروں اور منتخب علاقوں پر خصوصی رپورٹس، اہم موضوعات پر مضمون کی مناسبت سے تجزیاتی رپورٹس اور سینسس اٹلس شامل ہوں گی۔ چھٹی مردم شماری کے آٹھ انتظامی یونٹس میں کل 118826 سویلین اور دو لاکھ فوجی اہلکاروں نے حصہ لیا جبکہ اِس کا کُل بجٹ ساڑھے 18 ارب روپے تھا۔ کُل بجٹ سے افواجِ پاکستان کے لیے 6 ارب، سویلین کے لیے 6 ارب اور ٹرانسپورٹ کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ پاکستان میں چھٹی مردم شماری کا عمل اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے جس میں غیر سرکاری اور غیر حتمی اندازوں کے مطابق ملک کی آبادی 21 سے 22 کروڑ تک ہو سکتی ہے۔ text: عامر سہیل کو ڈائریکٹر نیشنل کرکٹ اکیڈمی مقرر کردیا گیا ہے۔یہ عہدہ مدثر نذر کے استعفے سے خالی ہوا تھا جنہیں آئی سی سی نے اپنی گلوبل اکیڈمی کے کوچز پینل میں شامل کیا ہے۔ وسیم باری کو ڈائریکٹر ہیومن ریسورسز بنایا گیا ہے۔ وہ ندیم اکرم کی جگہ یہ ذمہ داری سنبھالیں گے جنہیں کرکٹ بورڈ کے سیٹ اپ میں تبدیلی کے بعد ان کے عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے پیر کے روز ہونے والے گورننگ بورڈ کے اجلاس میں سلیم الطاف کو چیف آپریٹنگ آفیسر بنائے جانے کی منظوری بھی دی گئی۔ شفقت نغمی کو چیف آپریٹنگ آفیسر کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سلیم الطاف موجودہ سیٹ اپ میں ڈائریکٹر جنرل کی ذمہ داری نبھارہے تھے۔ عامر سہیل اور وسیم باری اس سے قبل چیف سلیکٹر کے عہدے پر بھی کام کرچکے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے سابق ٹیسٹ کرکٹرز عامر سہیل، وسیم باری اور سلیم الطاف کو اہم ذمہ داریاں سونپ دی ہیں۔ text: یہ الفاظ ہیں پرانے سرینگر میں رہنے والے شمس الدین کے جِن کے پینتیس سالہ بیٹے بلال احمد کاٹا کو جنوبی ہندوستان کی ریاست کرناٹک کے داراالحکومت بنگلور میں مقامی پولیس نے ’دہشت گرد‘ ہونے کے الزام میں تین کشمیری تاجروں کے ہمراہ گرفتار کیا ہے۔ شمس الدین کا کہنا ہے کہ بلال گزشتہ سولہ برس سے بنگلور میں تجارت کر رہا ہے اور آج تک کسی قسم کی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی۔ شمس الدین کے پاس مقامی روزنامہ دکن ہیرالڈ کی ایک رپورٹ بھی ہے جس میں بلال کو بہترین ہمسایہ بتایا گیا ہے۔ تاہم پولیس کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ وہ ایک ’دہشت گرد تھا اور اس کی گرفتاری سے مقامی ایئرپورٹ پر حملہ کی سازش بے نقاب ہوگئی‘۔ گزشتہ چند ماہ میں بیرون ریاست تعلیم اور تجارت کے سلسلے میں مقیم کشمیری نوجوانوں کے پولیس اور فوج کے ہاتھوں ’ہراساں‘ ہونے کے متعدد واقعات ہوئے ہیں۔ گزشتہ ماہ شمالی قصبہ سوپور کے پرویز احمد رڈو نامی ایک طالب علم کو گرفتار کیا گیا۔ اسی طرح گزشتہ روز بھارتی ریاست اترآنچل میں پی ایچ ڈی کے طالب علم شفقت احمد کو ٹرین پر سفر کے دوران ’غلطی سے فوجیوں کے ڈبے میں گھسنے پر حراست میں لے کر ان پر تشدد کیا گیا‘۔ نئی دلّی پہچنے پر انہوں نے ٹی وی چینل ’آج تک‘ سے رجوع کیا اور اپنی کہانی کیمرے پر بیان کی۔ اس سے قبل سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور مفتی محمد سعید نے بھی حکومتِ ہند سے اس معاملے میں باضابطہ رجوع کیا تھا۔ گزشتہ دنوں دِلّی پولیس نے بنگلہ دیش میں تجارت اور ماڈلنگ کرنے والے طارق احمد ڈار کو ’دہشت گردی‘ کی پاداش میں گرفتار کیا۔ حکومت ہند کی کابینہ میں واحد کشمیری وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے اس حوالے سے بی بی بی کو بتایا کہ ’ کشمیریوں کی پکڑ دھکڑ کے حوالے سے حکومت ہند کی کوئی پالیسی نہیں ہے بلکہ یہ رابطے کی کمی کا نتیجہ ہوسکتا ہے‘۔ مسٹر سوز نے جو ایک روزہ دورے پر وادی آئے تھے یقین دلایا کہ وہ وزیر اعظم سے اس بارے میں بات کرینگے۔ بلال کی بیوی جواہرہ بیگم نے روتے ہوئے بتایا کہ ’ہماری تو پوری قوم مشکوک بن گئی ہے۔ کوئی شدت پسند ہو یا نہ ہو، اگر کشمیری ہے تو ہندوستان میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں‘۔ کشمیر یونیورسٹی کے پروفیسر ارشاد نے بتایا کہ ’ایک طرف حکومتِ ہند اقلیتی فرقے کا دل جیتنے کے لیے مسلمانوں کی معاشی حالت سدھارنے کا منصوبہ بناتی ہے اور دوسری طرف کشمیریوں کو ہر ہندوستانی شہر میں دہشت گرد کہہ کر قید کیا جاتا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ملکی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا لیکن بلال، طارق، ارشاد لون، شفقت کی گرفتاری قانونی معیار پر پوری نہیں اترتی۔ بلال کو اٹھائیس دسمبر کو گرفتار کیا گیا اور یہ خبر میڈیا میں گیارہ جنوری کو شائع ہوئی۔ارشاد کا کہنا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے سربراہان بھلے ہی چوٹی ملاقاتیں کرتے رہیں، ایسے واقعات عوام کو امن عمل سے متنفر کرتے ہیں۔ ’یہاں تو ہماری زندگی پہلے ہی جہنم تھی، سوچا تھا ہمارے بچے ہندوستانی شہروں میں اپنی زندگی سنواریں گے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ بد نصیبی ان کا پیچھا کرتے کرتے وہاں بھی پہنچ گئی ہے‘۔ text: ایف بی آر کے لارج ٹیکس پیئرز یونٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان موبائل کمیونیکیشن لمیٹڈ (پی ایم سی ایل) یعنی جاز 25 ارب روپے سے زائد کی انکم ٹیکس نادہندہ ہے اور ٹیکس ادا نہ کرنے کے باعث اس کے اسلام آباد میں موجود دفتر کو سیل کیا جاتا ہے۔ ایف بی آر نوٹیفکیشن کے مطابق ’پاکستان موبائل کمیونیکشن لمیٹیڈ نے جان بوجھ کر انکم ٹیکس ادا نہیں کیا اور اس کے لیے غیر قانونی عذر پیش کیے اور قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔‘ پاکستان موبائل کمیونیکیشن لمیٹڈ نے ان الزامات کی تردید کی ہے مگر یہ تصدیق کی ہے جاز کا اسلام آباد میں آفس سیل کر دیا گیا ہے۔ اس بارے میں ایف بی آر ترجمان ندیم رضوی سے جب رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اس متعلق مزید تفصیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ’ایف بی آر کے ڈھائی لاکھ صارفین ہیں میں ہر ایک کیس کی تفصیلات سے آگاہ نہیں ہوں، اس ضمن میں آپ متعلقہ حکام سے رابطہ کریں۔‘ یہ بھی پڑھیے نئی ’ٹیکس آسان‘ ایپ کتنی آسان ہے 100 روپے کے کارڈ سے 40 روپے جاتے کہاں ہیں؟ فائیو جی کیا ہے اور پاکستان کے لیے کتنا فائدہ مند ہے؟ جاز کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن عائشہ سروری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جاز قانون کی پاسداری کرنے والی ایک ذمہ دار کمپنی ہے۔ گذشتہ روز ہمیں ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس نادہندہ ہونے اور دفتر سیل کیے جانے کا نوٹس ملا تھا۔‘ انھوں نے وضاحت کی کہ ’کمپنی نے قانون کے مطابق ٹیکس ادائیگی کی ہے تاہم ہم اس کا دوبارہ جائزہ لیں گے اور اس ضمن میں تمام قانونی ذمہ داریاں پوری کریں گے اور جلد ہی متعلقہ اداروں کے ساتھ اس معاملے کو مشترکہ رضامندی اور افہام و تفہیم کے تحت حل کر لیا جائے گا۔‘ ایف بی آر اور ٹیلی کام کمپنی میں ٹیکس تنازع کیا ہے؟ ٹیلی کام کمپنی جاز نے ’دیودار پرائیویٹ لمیٹڈ‘ کے نام سے اپنی ایک ذیلی کمپنی بنائی ہے جو جاز کو موبائل ٹاورز لگا کر دیتی ہے اور جاز ملک بھر میں مختلف شہروں میں موبائل سگنل ٹاورز اپنی اس ذیلی کمپنی کے ذریعے لگاتا ہے۔ ایف بی آر کا موقف ہے کہ ٹیلی کام کمپنی جاز نے اپنی ذیلی کمپنی سے حاصل ہونے والا منافع یعنی کیپیٹل گین پر انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔ جبکہ ٹیلی کام کمپنی کی قانونی اور آڈٹ ٹیم کا موقف ہے کہ پاکستان کے انکم ٹیکس قوانین کے تحت کمپنی اپنی ہی ذیلی کمپنی سے لین دین پر انکم ٹیکس دینے کی پابند نہیں ہے۔ جاز کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن عائشہ سروری نے ایف بی آر کے ساتھ اس تنازع کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور ٹیلی کام کپمنی جاز کے درمیان پاکستان انکم ٹیکس آرڈینینس کے سیکشن 97 کے تحت اختلاف پایا جاتا ہے اور اب تک یہ موقف ہے کہ پاکستان کے انکم ٹیکس قوانین کے تحت انکم ٹیکس قانون کی شق 97 کی ہماری تشریح ٹھیک ہے اور ہم کوئی ٹیکس نادہندہ نہیں ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اس ضمن میں ہم نے اس معاملے کو پہلے انکم ٹیکس کمشنر کے سامنے اپیل میں اٹھایا، اس کے بعد ایف بی آر کے ان لینڈ ریونیو کے اپیلٹ ٹربیونل میں بھی معاملے کو لے کر گئے، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے اس پر اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی حکم امتناع حاصل کر رکھا تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مگر جب ہماری اپیل اپیلٹ ٹربیونل سے خارج ہوئی تو قانون کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ سے حاصل کردہ حکم امتناع بھی ختم ہو گیا۔‘ ایف بی آر کی جانب سے کمپنی پر ٹیکس نادہندہ ہونے اور اس کے مرکزی دفتر کو سیل کرنے کے اقدام پر بات کرتے ہوئے عائشہ سروری کا کہنا تھا کہ ’جو کمپنی گذشتہ 25 برس سے ملک میں کام کر رہی ہے اور ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے اس کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے آپ چند کاروباری اخلاقیات کا خیال رکھتے ہیں اور کمپنی کو کچھ وقت دیتے ہیں لیکن ایف بی آر نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوری طور پر سنگین اقدام اٹھایا۔‘ انھوں نے ایف بی آر پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’نوٹس ملنے کے چند گھنٹوں بعد ہی ایف بی آر کی ٹیم نے دفتر میں گھس کر ہمارے عملے کو ہراساں کرنے کی کوشش کی اور گرفتار کرنے کی دھمکیاں دیں۔‘ وہ کہتی ہے کہ ’ہمارا پورا عملہ پریشان تھا کہ کیا ہوا ہے، کیا کووڈ کی ریڈ (چھاپہ) پڑا ہے یا کیا ہوا ہے۔‘ عائشہ سروری نے ایف بی آر کی اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک ایسے وقت میں جب آپ کی معیشت ڈوب رہی ہے اور جب ملک کی بڑی کمپنیاں ٹیکس ادا کرنے کی بجائے ملکی اداروں کے ساتھ قانونی چارہ جوئی کر رہی ہیں، ایسے وقت میں اس کمپنی کے ساتھ جو ملک میں 25 برس سے معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے، کے لیے اس طرح کی خوف کی فضا قائم کرنا مناسب نہیں ہے۔‘ عائشہ سروری کا کہنا ہے کہ ’ایف بی آر اور جاز کے درمیان ابھی تک اس نقطہ پر تنازع ہے اگر عدالت ہمیں کہہ دیتی ہے تو ہمیں ٹیکس کی رقم ادا کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن کل جو اقدام اٹھایا گیا اس کی ضرورت نہیں تھی۔‘ ان کا کہنا تھا ’حکومتی اداروں کی جانب سے طاقت کے استعمال کا مطلب ہے کہ آپ سے چیزیں سنبھالی نہیں جا رہی اور آپ کسی بھی کارپوریٹ ادارے کو باقاعدہ موقع فراہم کرنے کی بجائے ہراساں کرنے کی پالیسی اختیار کر رہے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ایک طرف ہمیں ایف بی آر سے ہر سال ملک کے بڑے انکم ٹیکس دہندہ کی حیثیت سے ایوارڈ ملتا ہے تو دوسری جانب یہ اقدام سامنے آتا ہے، حکومتی اداروں کے مابین رابطے کا فقدان ہے۔ یہ اقدام ملک میں کاروبار میں آسانی کی کوشش کو آپ خراب کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ ملک سے سرمایہ کاروں کو بھگانے کے مترادف ہے۔‘ پاکستان فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے پاکستان کی سب سے بڑی ٹیلی کام کمپنی جاز (سابقہ موبی لنک) پر 25 ارب روپے کے ٹیکس نادہندہ ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت میں کمپنی کے دفتر کو سیل کر دیا ہے۔ text: ’مجھے یہ سفر کرنے پر افسوس ہے۔ اگر مجھےحالات کا ذرا بھی اندازہ ہوتا تو میں کبھی نہیں آتی‘ اس پرُخطر سفر میں خاندان بچھڑ سکتے ہیں اور اِنھیں دوبارہ سے ملانا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ جیسا کہ جان سوئنی جو ہنگری میں ایک شامی خاتون سے ملے جو اپنے لخت جگر کو ڈھونڈنے کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے کے لیے تیار تھی۔ ٹرین کی کھڑکی سے ٹیک لگائے بیٹھی اس عمر رسیدہ خاتون کے چہرے سے غم جھلک رہا تھا۔ ’ماں کے بغیر نیند نہیں آتی‘: ویڈیو رپورٹ پناہ گزینوں کی یادگار تصاویر ’یورپی سرحدوں کو پناہ گزینوں سے خطرہ ہے‘ پناہ گزینوں کو جرمن شہریوں سے کیا توقعات: ویڈیو رپورٹ فاخرہ نے مجھے اپنی کہانی رک رک کر اور مختصر کر کے بیان کی۔ مجھے اُس خطرے کا مکمل احساس ہوا جس کا اُنھوں نے سامنا کیا جب وہ آسٹریا کے ساتھ ہنگری کی سرحد پرگر گئی اور مجھے خوف تھا کہ وہ مر سکتی ہیں۔ لیکن یہ میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا۔ اگرچہ میں ہنگری میں سفر کر رہا تھا اور اس 2100 کلومیٹر طویل راستہ پر گامزن تھا، جس کو لوگ یونان کے جزیرے کوس سے وسطیٰ یورپ تک پہنچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دولتِ اسلامیہ سے لڑائی کے دوران کوبانی ملبے کا ڈھیر بن گیا فاخرہ نے بتایا کہ ’ایمانداری کی بات یہ ہے کہ مجھے یہ سفر کرنے پر افسوس ہے۔ اگر مجھےحالات کا ذرا بھی اندازہ ہوتا تو میں کبھی نہیں آتی۔‘ میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ فاخرہ 60 کی دہائی میں قدم رکھ چکی ہیں وہ سر پر سیاہ سکارف اور سادہ فراک پہنے تھی۔ اُن کے پاس بیگ یا اِس قسم کی کوئی چیز نہیں تھی۔ اُنھوں نے مجھے بتایا کہ اُن کا تعلق شام کے علاقے کوبانی سے ہے جو اب خود کو دولت اسلامیہ کہنے والی تنظیم اور امریکی حمایت یافتہ کرد جنگجوؤں کے درمیان جاری جنگ کے باعث ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یورپ میں پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد شام سے آئی ہے اِس گرمیوں میں اُن کے پورے خاندان نے شام چھوڑنے اور ڈنمارک میں اپنے رشتہ داروں کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ فاخرہ نے سفر کا آغاز اپنے بیٹے محمد، اپنے بھائی اور ان کے اہلخانہ کے ہمراہ کیا تھا۔ اُن کا راستہ اُنھیں ہنگری لے آیا لیکن اُنھوں نے ایک غلط افواہ سنی تھی کہ اگر ہنگری کے حکام اُن کے پاسپورٹ پر مہر لگادیں گے تو ان کا جرمنی تک کا سفر تمام ہو جائے گا اور وہ کسی دوسری جگہ نہیں جا سکیں گے۔ ہنگری کے حکام کی جانب سے مہر لگنے کا خوف ڈنمارک جانے کے مقصد کو ختم کر سکتا تھا۔ اُن کا خاندان ہنگری میں ہی غائب ہوگیا اور رات کے وسط میں چھ گھنٹے تک جنگل میں سفر کرتا رہا۔ دولتِ اسلامیہ سے لڑائی کے دوران کوبانی ملبے کا ڈھیر بن گیا فاخرہ کا کہنا تھا کہ’میں بہت زیادہ تکلیف میں تھی۔ میں تھک چکی تھی۔ اور اس سب کے آخر میں پولیس نے ہمیں گرفتار ک رکے بند کر دیا۔ پھر میں نے اپنے آپ سے کہا کہ ’یہاں آنے سے اپنے ملک میں رہنا بہت بہتر تھا۔‘ ’آسمان سے بارش برس رہی تھی۔ میرے پوتا رو رہا تھا وہ بیمار تھا اُسے علاج کی ضرورت تھی۔ ہم نے اُنھیں کہا کہ ’بچہ بیمار ہے، ہمیں ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔‘ اُنھوں نے ہمیں جواب دیا کہ ’انتظار کریں ڈاکٹر ابھی آ رہے ہیں لیکن بچہ ہمارے ہاتھوں میں تقریباً جان دے چکا تھا۔‘ فاخرہ اور اُن کے خاندان کو ایک کیمپ لے جایا گیا جس کے ارد گرد خاردار تاریں لگی ہوئی تھیں اور اُنھیں کچھ وقت کے لیے بارش میں کھڑا بھی ہونا پڑا: ’مجھے لگ رہا تھا کہ میں جیل میں ہوں۔ کیا میں یورپ اس لیے آئی تھی کہ میں اِس غم اور درد سے گزر سکوں؟‘ فاخرہ کیمپ میں بیمار ہوگئیں تھی۔ امدادی کارکنان اُنھیں علاج کے لیے دور لے گئے۔ اُنھوں نے اپنا پرس اور پیسے اپنے بیٹے کے حوالے کر دیے وہ یہ بھی بھول گئی کہ پرس میں اُن کی دوا موجود ہے۔ ’وہ مجھے ہسپتال لے گئے، وہاں بس تقریباً 30 منٹ کا کام تھا۔ میں چاہتی تھی کہ وہ مجھے واپس لے جائیں لیکن اُنھوں نے مجھے رات وہیں روک کے رکھا اور جب میں کیمپ میں واپس لوٹی تو میں اپنے بچوں کو نہیں ڈھونڈ پا رہی تھی۔ وہ جا چکے تھے۔ میں اُنھیں مسلسل تلاش کر رہی تھی لیکن وہ مجھے نہیں ملے۔ وہ کس طرح میرے بچوں کو یہاں سے دور بھیج سکتے ہیں وہ بھی اُس وقت جب میں ہسپتال میں تھی۔ قسمت سے فاخرہ بی بی کو اپنا بھانجا مصطفیٰ اور اُن کا خاندان مل گیا فاخرہ کو بعد میں کیمپ سے بوڈاپیسٹ ریلوے سٹیشن لے جایا گیا۔ وہ اکیلی تھی۔ ’میں انگریزی کا ایک لفظ تک نہیں بول سکتی تھی۔ میرے پاس ایک پیسہ تک نہیں تھا۔‘ اُنھوں نے جس طرح مجھے اپنے اکیلے ہونے کی داستان سنائی اُن کے چہرے سے آنسوں بہنے لگے: ’یہ انتہائی تکیف دہ تھا۔ میرا دل چھلنی ہو گیا تھا۔ میں یہ کبھی نہیں بھول سکتی۔ میں نے اُس سٹیشن پر دو روز گزارے میں رو رہی تھی اپنے بچوں کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھی پر کوئی فائدہ نہیں تھا۔ میں ہر اُس شخص سے اپنے بچوں کے بارے میں پوچھ رہی تھی جس سے پوچھ سکتی۔ کوئی ایک شخص اُن باتوں کا ترجمہ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ مجھے نہیں سمجھ پا رہے تھے ، وہ میری بنیادی مصیبت سے آشنا تک نہیں تھے۔ صرف ایک لفظ جو مجھے معلوم تھا کہ کیسے ادا ہوتا ہے وہ ’خاندان، خاندان‘ تھا۔ میں نے سٹیشن پر چند گھنٹے گزارے۔ مجھے نظر آ رہا تھا کہ ہنگری کی پولیس سٹیشن کے تہہ خانے میں بنے ٹکٹ ہال سے لوگوں کو پلیٹ فارم کی جانب دھکیل رہی ہے اور مجھے یہ عمل انسانیت سوز لگا۔ اس جگہ پر اکیلے بغیر رقم کے اور اپنے خاندان والوں سے رابطے کے بغیر رہنا اپنے ایسا ہی ہے جیسے جہنم کے اندر جہنم ہو۔ یورپی کونسل کے مطابق تقریباً 40 لاکھ شامی باشندوں نے ہمسایہ ممالک کی جانب ہجرت کی ہے ’میں اِدھر اُدھر جا رہی تھی، ڈھونڈ رہی تھی، پوچھ رہی تھی لیکن ہر شخص اپنی دنیا میں مگن تھا۔‘ فاخرہ نے بتایا کہ’ میں سوچ رہی تھی کہ میں اپنے بچوں کو تلاش کر رہی ہوں اُن کے متعلق پوچھ رہی ہوں کوئی تو میری مدد کرے گا لیکن میں غلط تھی۔ وہ مجھے ایسے دیکھ رہے تھے کہ جیسے میں ہوں ہی نہیں۔ اُنھیں میرا خیال تک نہ تھا۔ وہ اپنی دنیا میں مگن تھے۔ ہر لمحے مجھے لگ رہا تھا کہ میں بار بار مر رہی ہوں۔‘ قسمت سے ان کو اپنا بھانجا مصطفیٰ اور اُن کا خاندان مل گیا۔ اُنھوں نے فاخرہ کو اپنی حفاظت میں لے لیا اور پھر وہ سب مل کر آسٹریا کی جانب چل پڑے۔ لیکن فاخرہ شدت سے اپنے بیٹے کو تلاش کرنا چاہتی تھی۔ اُنھیں دیکھ کر مجھے اپنی دادی کا خیال آگیا اور میں اُن کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ میں نے کہا’ میری بات سنیں، ہم آپ کے بیٹے کو ڈھونڈنے میں آپ کی مدد کریں گے۔ یہ آسان نہیں ہے لیکن ہم اُنھیں ڈھونڈ لیں گے۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں۔ ہم ٹوئٹر، ای میل، فیس بک اور سنیپ چیٹ کا استعمال کریں گے۔‘ ویانا کے سٹیشن پر فاخرہ اور اُن کے بیٹے محمد مل گئے اُس کے کچھ لمحوں بعد ہی ٹرین رک گئی ہم اب بھی ہنگری میں آسٹریا کی سرحد سے تقریباً دو میل دور تھے۔ فاخرہ سمیت ہر شخص ٹرین سے اتر کر چلنا چاہتا تھا۔ ہنگری کی سرحد پر پہنچ پر فاخرہ گر گئی اُن کی آنکھیں ڈگمگانے لگی اور پھر بند ہوگئی۔ اور آخر کار ہمیں اندازہ ہوا کہ اُنھیں شوگر کی بیماری ہے۔ ہم نے ہنگری میں ریڈ کراس کے رضاکاروں سے ڈیکسٹروکس کی گولی لیکر ان کے ہونٹوں کے نیچے رکھی اور وہ جلد ہی ہوش میں آگئیں اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئی اور آسٹریا کی جانب جانے والوں کے ساتھ شامل ہوگئی۔ ہم نے بی بی سی نیوز کے فیس بک کے صفحے پر ویڈیو لگائی جس کو تین لاکھ 20 ہزار سے زائد بار دیکھا گیا۔ اس دوران ہمیں معلوم ہوا کے فاخرہ کے بیٹا محمد اپنی والدہ کو ڈھونڈنے کے لیے آسٹریا کی ایک ویب سائٹ ٹرینز آف ہوپ کا استعمال کر رہے ہیں۔ آخر کار ویانا کے سٹیشن پر فاخرہ اور اُن کے بیٹے محمد مل گئے۔یہ ایک امید کی روشن کرن تھی جو میں کبھی نھیں بھول سکتا۔ مہاجرین اور پناہ گزینوں کی شمالی یورپ تک پہنچنے کی جدوجہد خطرات سے بھری ہے۔ text: غیرسرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے مطابق ان واقعات میں سے بیشتر ضلع نصیر آباد اور ضلع جعفرآباد میں پیش آئے ہیں۔اس تنظیم کے عہدیدار علاؤالدین خلجی نے بتایا کہ وہ ان دنوں ان واقعات پر تحقیق کر رہے ہیں اور جب سے ذرائع ابلاغ نے نصیرآباد میں پانچ خواتین کے قتل کے واقعہ کو اٹھایا ہے اس کے بعد سے چوبیس واقعات پیش آئے ہیں۔ علاؤالدین خلجی کے مطابق ان واقعات میں چوبیس خواتین اور گیارہ مرد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ تین خواتین اقدام قتل میں زخمی ہوئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے چھ ماہ میں ستر خواتین اور پچیس مرد سیاہ کاری کے الزام میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان واقعات کی اطلاع پندرہ جولائی کے بعد ذرائع ابلاغ یا غیرسرکاری تنظیموں کے نمائندوں کے ذریعے ان تک پہنچی ہیں۔ خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی ایک خاتون صائمہ جاوید سے میں نے پوچھا کہ آیا نصیر آباد کے واقعہ کے بعد ان میں اضافہ ہوا ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ واقعات معمول سے پیش آرہے ہیں لیکن اب یہ واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ صائمہ جاوید کے مطابق نصیر آباد اور جعفرآباد کے علاقوں میں خواتین کو گندہ کہ کر مار دیا جاتا ہے۔ ایک اور غیرسرکاری تنظیم سحر کے عہدیدار عبدالودود نے بتایا ہے کہ ان واقعات کو اکثر اوقات ذرائع ابلاغ میں کم ہی جگہ دی جاتی ہے جبکہ بلوچستان کے برعکس دیگر صوبوں میں یہ واقعات معمول سے رپورٹ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پانچ خواتین کے واقعہ کو بھی صرف اس لیے زیادہ کوریج ملی ہے کیونکہ اس میں زندہ درگو کا عنصر غالب رہا ہے۔ نصیر آباد سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر صادق عمرانی نے کہا ہے کہ نصیر آباد کے ہی واقعہ کو ذرائع ابلاغ میں اچھالنا بدنیتی پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ان علاقوں میں اپنی روایات ہیں اور قانون کی عملداری ہے۔ جب ان سے پوچھا کہ یہ پانچ خواتین تھیں تو انہوں نے کہا کہ سراسر غلط ہے، صرف دو خواتین کو سیاہ کاری کے الزام میں ہلاک کیا گیا ہے اور ان خواتین کے والد اور بھائی پولیس کے پاس ہیں۔ بلوچستان میں بھی یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ذرائع ابلاغ اور غیرسرکاری تنظیمیں صوبے میں جاری آپریشن اور سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں بےگناہ افراد کے قتل پر توخاموش ہیں لیکن ان پانچ خواتین کے قتل کے واقعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سیاہ کاری کے واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری قانون سازی اور پھر اس پر عملدرآمد ضروری ہے۔ ان تنظیموں کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ نصیر آباد پولیس حکام نے ابتدائی طور پر عدالت کو بھی یہی کہا کہ یہ واقعہ پیش ہی نہیں آیا ہے اور پھر شور شرابے کے بعد دو خواتین کی لاشیں برآمد کر لی گئی تھیں۔ بلوچستان کے ضلع نصیر آباد میں ڈھائی ماہ پہلے مبینہ طور پر پانچ خواتین کے سیاہ کاری کے الزام میں قتل کے واقعہ کے بعد چوبیس مزید واقعات پیش آچکے ہیں جن میں چوبیس خواتین سمیت پینتیس افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ text: کل تک جو ایٹمی سائنسداں ہاتھوں ہاتھ اٹھائے جا رہے تھے آج گھروں سے اٹھائے جا رہے ہیں۔ جنہیں پلکوں پر بٹھایا جا رہا تھا، آج تیز روشنی کے سامنے رکھی وہیل چیئر پر بٹھایا جا رہا ہے۔ کہا تو یہ جا رہا تھا کہ کہوٹہ کے اوپر سے ایک چڑیا کا بچہ بھی نگاہ میں آئے بغیر نہیں گزر سکتا اور اب یہ اعتراف کیا جا رہا ہے کہ رازوں کے پلندے کے پلندے یہاں سے نکل کر کہیں اور پہنچ گئے۔ اس سوال کا جواب فی الوقت کہیں سے نہیں مل پا رہا کہ ایک ایسی عمارت جس کی ہر اینٹ فوجی ایجنینیئروں کی نگرانی میں استوار کی گئی، جہاں آلات اور کل پرزوں کی تیاری سے لے کر ایک معمولی نائب قاصد سے ڈاکٹر قدیر خان تک کا پورا شجرہ اور نقل و حرکت کا ریکارڈ نگرانوں کے پاس موجود رہا اور ہے، وہاں سوئی کے ناکے سے اونٹ آخر کس طرح نکل گیا؟ اگر یہ سائنسداں اتنے ہی بے باک اور خود سر تھے کہ بارہ چودہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کے نیٹ ورک کو جل دے کر کام دکھا گئے تو پھر ڈی بریفنگ کا دائرہ پچھلے بیس پچیس برس کے دوران ایٹمی پروجیکٹ کی سیکیورٹی کے نگرانوں اور ایجنسیوں کے اہل کاروں تک وسیع کیوں نہیں کیا جا رہا؟ جو بات سب سے پہلے ویانا میں قائم جوہری توانائی کی بین الاقوامی تنظیم کے زلزلہ پیما آلات نے محسوس کر لی، وہ اسلام آباد میں کسی کو کیوں نہ معلوم ہو سکی؟ چلئے مان لیتے ہیں کہ غفلت ہوئی لیکن غفلت کے ازالے کا کیا یہ طریقہ بہتر ہے کہ جوہری سائنسدانوں کو دھوم دھڑکے کے ساتھ ڈی بریفنگ کے انگاروں سے گزارا جائے یا یہ طریقہ بہتر ہوتا کہ بغیر تشہیر کے ان سائنسدانوں سے باکل اسی طرح سے پوچھ گچھ کی جاتی، جس طرح بے قاعدگی میں ملوث فوجی جرنیلوں سے فوج کے اندر کئے جانے کا رواج ہے۔ اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ کچھ سروں کو بچانے کے لئے کچھ سروں کو قربان گاہ تک پہنچا کر معاملے سے بری الذمہ ہونے کی سر توڑ کوشش ہو رہی ہے۔ کیا اس پوری مشق سے یہ تاثر زائل ہو جائے گا کہ پاکستان جوہری ٹیکنالوجی کے تحفظ کے معاملے میں ایک ذمہ دار ملک نہیں ہے۔ ویسے جوہری ٹیکنالوجی کے معاملے میں ذمہ دار ملک ہے کون؟ امریکہ نے ایٹم بم بنانے کے لئے نازی جرمنی سے بھاگنے والے سائنسداں اوپن ہائیمر کی خدمات حاصل کی تھیں، سوویت یونین کو امریکہ کے ایٹمی راز روزنبرگ نے فراہم کئے تھے، چین کو ایٹمی استعداد سویت یونین کی ٹیکنالوجی سے نصیب ہوئی تھی، اسرائیل امریکہ کی صنعتی جاسوسی اور پینٹاگون کے رفیقوں کی مدد سے ایٹمی طاقت بن پایا اور جوبی افریقہ کا ایٹمی پروگرام اسرائیل کا مرہونِ منت رہا۔ لیکن بدلے ہوئے حالات میں پاکستان اگر یہ دلیل دے بھی تو دہ کسے اور سنے گا کون۔ کیا کسی نے سوچا تھا کہ جو ٹیکنالوجی ملک کے تحفظ کے لئے جاں توڑ کوششیں کرکے حاصل کی گئی ہے، ایک دن وہ گلے میں لٹکا کر سرِ بازار یوں چلنا پڑے گا۔ میاں خالد جاوید، لاہور، پاکستان: ساڈے ملک دیاں موجاں ہی موجاں۔ جدھر ویکھو فوجاں ہی فوجاں ارشد بٹ، ناروے: جرم ہیرو کرے یا زیرو، ہے تو جرم ہی ناں۔ قانون سے بالا کوئی نہیں ہونا چاہئے۔ سزا ملنی چاہئے۔ قمر فاروقی، کراچی، پاکستان: لیاقت بلوچ کا بیان بہت اچھا لگا کہ آج سائنسدانوں کی ڈی بریفنگ کرنے والے سمجھ لیں کہ کل جرنیلوں کی بھی ڈی بریفنگ ہو سکتی ہے۔ خانم سومرو، کراچی، پاکستان: گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے احمد عبدالرحیم، واٹرلو، کینیڈا: مشرف کی افغانستان کے خلاف جنگ کے حق میں پالیسی کے تین اہم نکات تھے۔ کشمیر، جوہری طاقت اور معیشت ۔ کشمیر پہلے ہی جا چکا، جوہری ہتھیار جا رہے ہیں اور معیشت پر شوکت عزیز کی تین دسمبر کی تقریر یاد کریں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ معیشت فیل ہو گئی ہے۔ عامر ہاشمی، گجرانوالہ: میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ مشرف صاحب اس وقت سخت دباؤ میں ہیں۔ پاکستان کے حالات تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں۔ میری چھٹی حس گواہی دے رہی ہے کہ کچھ ہونے والا ہے، سن اکہتر سے بھی بڑا سانحہ۔ محمد صلاح الدین ایوبی، پشاور: اس ملک میں اب ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے سائنسدان پیدا نہیں ہونگے۔ احسن شیخ، ٹورانٹو: ساری صورت ایک فوجی یونٹ کی سی ہے، جہاں مشرف حولدار میجر ہیں، اور جارج بش کمانڈِنگ افسر۔ اشرف سید، کراچی: آگ ہی اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے، کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے۔ رِضوان عادل، پاکستان: چور کی داڑھی میں تِنکا۔ شاعر چنجہ، پاکستان: سکول میں جب میں آدھا سوال یا آدھا جواب دیتا تو میرے استاد مجھے ڈانٹ پلاتے تھے۔ لیکن یہاں سرِ عام آدھا سوال کیا جا رہا ہے اور آدھا جواب دیا جا رہا ہے۔ پورا سوال یوں ہونا چاہئے کہ ’یہ جوہری توانائی تم نے کس سے لی ہے اور مجھے کس نے بتایا ہے؟‘ عاصم الدین، برطانیہ: جہاں تک میں سمجھ پایا پاکستانی فوج شروع سے لے کر اب تک تمام معاملے میں ملوث رہی ہے۔ اب جب کہ امریکہ کی وجہ سے جان پر بنی ہے تو خود کو پاک دامن ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ مدس گائے پھر بچ کر نکلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ منیر احمد سلیمی، امریکہ: لگتا ہے مشرف میں ریڑھ کی کوئی ہڈی نہیں ہے اور اسی لئے وہ سوائے لچک دکھانے کے اور کوئی کام نہیں کر سکتے۔ سعید قریشی، ٹورنٹو، پاکستان: اس تمام صورتِ حال کے بارے میں بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’چور مچائے شور‘۔ نسیم، جھنگ، پاکستان: کیا خوب کہا ہے شاعر نے ’میری آواز سنو، مجھے آزاد کرو‘۔ کوئی ہے، ارے بھئی کوئی ہے جو میرے ہیروز کو آزاد کروائے۔ افسوس اب تو کوئی مولوی بھی نہیں ہے۔ اللہ دتہ، سٹاک ہوم، سویڈن: اس سے پہلے پاکستان میں نعرہ ہوتا تھا کہ ’پاکستان، زندہ باد‘۔ اب پاکستان میں تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادد کے لئے نعرہ ہونا چاہئے کہ ’پاکستان سے زندہ بھاگ‘ خاص طور پر سائنسدانوں کے لئے۔ اگر یہی سائنسداں یورپ یا امریکہ کے لئے کام کر رہے ہوتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ ظفر صادق، کراچی، پاکستان: فوجی ہر کام کو اتنے بھونڈے طریقے سے کیوں کرتے ہیں کیا ان کی اوپر کی منزل خالی ہوتی ہے؟ صالح محمد، راولپنڈی، پاکستان: کل تک پرویز مشرف زور زور سے نعرہ لگا رہے تھے کہ ہمارے جوہری اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور چند سائنسدانوں کی پکڑ دھکڑ کرکے اپنی کرسی اور ٹوپی بچا رہے ہیں۔ عوام کا خون نچوڑ کر جو طاقت حاصل کی گئی اب اس کو اس طرح ختم یا کم کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی تمام پالیسیاں کسی خاص طاقت کو فائدہ پہنچانے کے لئے تھیں یا پھر یہ ایک وقتی فیصلہ تھا۔ خدا پاکستان کو آزادی نصیب کے فوج سے۔ کوئی ڈیڑھ سال بعد پاکستان میں چار ہفتے کی چھٹی گزارنے کے دوران جہاں ماحول اور حالات سے قربت نصیب ہوئی اور خود کو اپ ڈیٹ کرنے کا موقعہ ملا وہاں کچھ انگریزی اصطلاحات کی حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں معنویت بھی کھلی۔ مثلاً اسلام آباد جا کر یہ معلوم ہوا کہ ’ڈی بریفنگ‘ کا مطلب ہے ’چھتر پریڈ‘۔ text: کھانے کے قابل ایسے پھول اُگانا طویل عرصے سے ناسا کے منصوبے ’ویجی‘ کا حصہ رہا ہے امریکی خلا باز سکاٹ کیلی نے ٹویٹر پر پھول کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’خلا میں اُگنے والا پہلا پھول‘۔ زمین پر موسم گرما میں ہر جگہ دکھائی دینے والے ان پھولوں کو تجربات کے لیے سپیس سٹیشن لایا گیا تھا، جہاں اس پودے کو کافی دقت کا سامنا رہا۔ ’آپ سب کا شکریہ، خلا میں زندگی کیسی ہے جلد بتاؤں گا‘ ٹم پیک چھ مہینے خلا میں کیا کریں گے؟ خلائی سٹیشن کو رسد کی فراہمی بحال ناسا کا کہنا ہے کہ دسمبر میں شدید نمی سے پتے جل جانے کی وجہ سے زینیا کی حالت خراب رہی تھی۔ تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ سکاٹ کیلی کی محنت رنگ لے آئی ہے۔ کھانے کے قابل ایسے پھول اُگانا طویل عرصے سے ناسا کے منصوبے ’ویجی‘ کا حصہ رہا ہے۔ منصوبے کا مقصد خلا میں ایسی خوراک پیدا کرنا ہے جو مستقبل میں مریخ پر جانے والے انسانی مشن کے لیے کام آ سکے۔ ناسا کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی کامیابی سے خلا باز خلا میں خوراک کے حوالے سے خود کفیل ہو جائیں گے۔ خیال رہے کہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن کا عملہ گذشتہ سال سلاد کے پتے اُگا کر کھا چکا ہے اور امید ہے کہ اگلے سال ٹماٹر بھی اگانے میں کامیاب رہیں گے۔ خلائی سٹیشن میں سبزیاں اُگانے کا عمل 2014 کے وسط میں شروع ہوا تھا۔ ناسا کے مطابق، مٹی کے بغیر ہوا اور نمی والے ماحول میں سبزیاں کم پانی اور کھاد کے ساتھ زمین کے مقابلے میں تین گنا زیادہ رفتار سے اُگتی ہیں۔ ’ویجی‘ منصوبے پر کام کرنے والے سائنس دان کے مطابق اب تک اُگنے والے پودے بہترین تو نہیں لیکن ان سے زمین پر تحقیق دانوں کو بہت کچھ جاننے کا موقع ملتا ہے۔ خلا میں پہلی مرتبہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن میں ایک شوخ نارنجی رنگ کا ’زینیا‘ پھول کھلا ہے۔ text: عام تاثر ہے کہ یہ عمارت تعمیر کے بعد ملک ریاض نے سابق صدر آصف علی زرداری کو تحفے میں دی ہے یہ بات اس نوٹس میں سامنے آئی ہے جو محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب نے لگژری ٹیکس کی وصولی کے لیے بلاول ہاؤس کو بھجوایا ہے۔ بلاول ہاؤس جدیدرہائشی آبادی بحریہ ٹاؤن میں لگ بھگ اڑھائی برس پہلے تعمیر کیاگیاتھا اور صدر آصف علی زرداری صدر مملکت کی حیثت سے اس عمارت میں قیام کرتے رہے ہیں۔ آصف علی زرداری اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد جب بھی پنجاب کا دورہ کرتے ہیں تو یہیں قیام کرتے ہیں اور یہ عمارت ان کی سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ بن جاتی ہے ۔ صوبائی محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے بلاول ہاؤس سے ٹیکس کی وصولی کے لیے کاروباری شخصیت اور بحریہ ٹاؤن کے منصوبہ کے مالک ملک ریاض کو نوٹس بھجوایا ہے۔ بلاول ہاؤس وزیر اعظم نواز شریف کی لاہور میں رہائش گاہ رائے ونڈ سے زیادہ دور نہیں ہے۔ بحریہ ٹاؤن میں بلاول ہاؤس کے بارے میں یہ عام تاثر ہے کہ یہ عمارت تعمیر کے بعد ملک ریاض نے سابق صدر آصف علی زرداری کو تحفہ میں دی ہے اور بلاول ہاؤس زرداری خاندان کی ملکیت ہے۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب کے نوٹس کے مطابق بلاول ہاؤس پر 36 لاکھ روپے لگژری ٹیکس عائد کیا گیا ہے اور بروقت ادائیگی نہ کرنے پر تقریباً تین لاکھ سرچارج ادا کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ وسیع رقبے پر تعمیر ہونے والی یہ قلعہ نما عمارت دو حصوں پر مشتمل ہے ایک حصہ رہائش کے لیے ہے جبکہ دوسرا حصے میں پارٹی سیکریٹریٹ قائم کیا جائے گا۔ اس گھر میں ہیلی پیڈ کے علاوہ اس کے اندر کئی ہزار افراد کا اجتماع ہو سکتا ہے۔ لاہور میں یہ تیسری عمارت ہے جسے بلاول ہاؤس کے نام سے منسوب کیاگیا ہے۔ بحریہ ٹاؤن سے پہلے کینٹ اور ماڈل ٹاؤن کے علاقوں میں بلاؤل ہاؤس قائم کیےگئے تھے۔ سابق آصف علی زرداری نے اپنے خلاف مقدمات سے رہائی کے بعد لاہور میں قیام کے لیے کینٹ کے علاقے میں کرائے پر لیے گئے ایک مکان کو بلاؤل ہاؤس کا نام دیا تھا۔ تاہم آصف علی زرداری کے بیرون ملک جانے کے بعد اس عمارت کو خالی کر دیا گیا۔اس طرح بلاول ہاؤس کو کینٹ سے ماڈل ٹاؤن کے علاقے میں ایک کرائے کے گھر میں منتقل کر دیا ۔بعد ازں یہ عمارت بھی چھوڑ دی گئی۔ لاہور کے جدید رہائشی علاقے میں سابق صدر آصف علی زرداری کی رہائش گاہ ’بلاول ہاؤس‘ سرکاری کاغذات میں ابھی تک سابق صدر مملکت اور ان کے خاندان کے کسی فرد کے نام منتقل نہیں ہوئی ہے۔ text: یہ گذشتہ چند ہفتوں میں جنرل راحیل شریف کا کوئٹہ کا دوسرا دورہ تھا ان خیالات کا اظہار انھوں نے جمعرات کو کوئٹہ میں کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج میں فوجی افسران سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جنرل راحیل کا کہنا تھا کہ آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں نے ملک کے شہری کے علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف بڑی اور فیصلہ کن کارروائی کا موقع فراہم کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے ہمیشہ کے لیے خاتمے کی خاطر سیاسی اقدامات کو استعمال میں لانے کے لیے ایک ماحول تیار ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ہماری جنگ آج کے لیے نہیں بلکہ ہماری آئندہ نسلوں کے لیے ہے۔‘ فوج کے سربراہ نے کہا کہ صرف مستحکم پاکستان ہی خوشحال پاکستان کا ضامن ہے۔ جنرل راحیل نے کہا کہ جنگیں صرف فوجیں نہیں لڑتیں بلکہ ان کے لیے پوری قوم کی کوششوں اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو لاحق خطرات پیچیدہ اور کثیر الجہتی ہیں اور ان سے صرف روایتی طریقوں سے نمٹنا کافی نہیں۔ انھوں نے کہا آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں نے شہری علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن اور بڑی کارروائی کرنے کا موقع دیا ہے۔ قبل ازیں کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج پہنچنے پر فوج کی جنوبی کمان کے سربراہ لیفٹینینٹ جنرل ناصر خان نے فوجی سربراہ کا استقبال کیا۔ یہ گذشتہ چند ہفتوں میں جنرل راحیل شریف کا کوئٹہ کا دوسرا دورہ ہے۔ اس سے قبل وہ بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تربت میں 20 مزدوروں کے قتل کے واقعے کے بعد کوئٹہ آئے تھے۔ اس دورے میں انھوں نے صوبے میں سکیورٹی کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ان کے حل کے لیے سویلین اور فوجی قیادت کی مربوط کوششوں کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ ایک محفوظ اور مستحکم پاکستان ہی ملک میں خوشحالی کا ضامن ہے۔ text: اکبر آغا امریکی فوجوں کے افغانستان میں قیام سے متعلق سکیورٹی کے معاہدے یعنی بی ایس اے کے بھی شدید مخالف ہیں البتہ صدر حامد کرزئی نے انھیں دو ہزار نو میں معافی دیتے ہوئے رہا کر دیا۔ رہتے تو وہ کسی اور مکان میں ہیں لیکن ہمیں بظاہر ان کے اس مکان میں لے جایا گیا جسے وہ شاید حجرے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ دروازے سے داخل ہوں تو ایک مٹی سے اٹی گاڑی جسے شاید دس برسوں سے وہاں سے ہلایا نہیں گیا پنکچرڈ کھڑی ہے۔ ہمیں اس کمرے میں لے جایا گیا جہاں چند صوفے پڑے تھے۔ ساتھ قالین والا کمرہ شاید فرشی اجلاسوں کے لیے مختص تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہی پٹوں لپیٹے، بڑے سے چہرے پر اسی طرح کی لمبی سیاہ گھنی داڑھی سابق اہم طالبان رہنما اکبر آغا کمرے میں داخل ہوئے۔ دعا سلام کے بعد وہ سامنے ایک صوفے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔ انھیں کراچی میں پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں نے دو ہزار چار میں گرفتار کیا تھا۔ ڈیڑھ ماہ پاکستانی حراست میں رکھنے کے بعد انھیں امریکیوں کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ آج کل وہ کہتے ہیں وہ نہ حکومت کا حصہ ہیں نہ طالبان کا۔ لیکن جیش المسلمین نامی ایک جماعت کی قیادت کر رہے ہیں۔ حالیہ افغان صدارتی انتخابات کی ان کا کہنا ہے کہ وہ نہ حمایت کرتے ہیں اور نہ مخالفت۔ وہ اپنی ہی ایک کوشش میں مصروف ہیں جس میں وہ غیرجانبدار علماء اور ایسے سابق مجاہدین کے اشتراک سے، جنھوں نے لڑائی میں حصہ نہ لیا ہو، افغانوں کو اختیار دلوا کر افغانستان کا قضیہ خود حل کرنا چاہتے ہیں۔ ’خارجیوں سے ملک کو مکمل طور پر پاک کروا کر افغان خود یہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔ لوگ افغان حکومت اور طالبان دونوں سے ناراض ہے اور پھر دونوں لڑ لڑ کر تھک بھی گئے ہیں۔ ایک جانب اگر کرزئی غیرملکیوں کو لے کر آئے ہیں تو دوسری جانب بدعنوانی بھی بڑھی ہے۔ گورنری اور ضلعی عہدے فروخت ہوتے ہیں۔ دوسری جانب طالبان کی لڑائی اور تشدد سے لوگ تنگ آچکے ہیں۔‘ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے طالبان ذرائع دبئی یا کہیں اور کرزئی کے ساتھ کسی قسم کے رابطوں یا مذاکرات کی تردید کرتے ہیں۔اکبر آغا کرزئی حکومت پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ بات چیت میں مخلص نہیں۔ ’طالبان اخلاص کے ساتھ قطر گئے تھے لیکن یہ سب حامد کرزئی نے خراب کروا دیا۔ لیکن یہ بھی واضح ہے کہ طالبان محض جنگ کے ذریعے دوبارہ قبضہ نہیں کر سکتے ہیں۔ اب اس کا بھی امکان نہیں رہا۔‘ اکبر آغا امریکی فوجوں کے افغانستان میں قیام سے متعلق سکیورٹی کے معاہدے یعنی بی ایس اے کے بھی شدید مخالف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مجوزہ معاہدہ نہ صرف افغانستان بلکہ اس خطے کے لیے ایک مصیبت ہے۔ ’یہ جنگ کو دوام دے سکتی ہے۔ میں ان کے قیام سے متفق نہیں جو لوگ اس کی حمایت کر رہے ہیں وہ دراصل اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ امریکیوں کے پاس پیسہ ہے جس سے افغان رہنما اپنا کاروبار چمکا رہے ہیں۔‘ طالبان کی سوچ سمجھنے کے لیے میں ایک افغان تجزیہ کار نظر محمد مطمئن کے پاس پہنچا۔ ان کا کہنا تھا کہ انتخابات اس سے قبل بھی دو مرتبہ ہوچکے ہیں لہٰذا جب تک صلح یا مصالحت نہیں ہوتی ان سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ’یہ درست ہے کہ افغان حکومت مذاکرات کی خواہاں ہے لیکن طالبان کہہ چکے ہیں کہ جب تک غیرملکی موجود ہیں ان کی مسلح مزاحمت جاری رہے گی۔ ایسے میں اگر بی ایس اے پر دستخط ہوتے ہیں تو اس سے جنگ مزید طول پکڑ سکتی ہے۔‘ نظر محمد مطمئن کے خیال میں اگر ڈاکٹر اشرف غنی احمدزئی یا ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ میں سے کوئی ایک بھی صدر بنا طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع ہونے کے امکان کم ہیں۔ ’عبداللہ عبداللہ کے بارے میں تو طالبان کا موقف واضح ہے لیکن اشرف غنی کی ٹیم (جنرل رشید دستم) متنازع ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اشرف غنی سے بات چیت کرسکتے ہیں۔ تو جو بھی نئی حکومت آئے گی مشکل ہے کہ طالبان ان سے مذاکرات پر رضامند ہوں گے۔‘ خارجیوں سے ملک کو مکمل طور پر پاک کروا کر افغان خود یہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں: آغا اکبر پوچھا کہ اب غیرملکی افواج کی اکثریت تو واپس جا رہی ہے تو طالبان کا موقف کمزور نہیں ہوگا؟ جواب تھا کہ اگر طالبان افغان فوج سے لڑیں گے تو خدشہ ہے کہ بعض غیرملکی قوتیں چاہیں گی کہ ان میں یہ لڑائی جاری رہے نا ایک کا پلڑا بھاری ہو نہ دوسرے کا۔ ’ایسے میں امکان ہے کہ یہ لڑائی کئی برسوں مزید جاری رہے۔‘ اکبر آغا اور نظر محمد مطمئن کی باتیں سن کر جب روانہ ہوا تو محسوس ہوا کہ افغانستان میں اگرچہ زمینی حالات میں تبدیلی کافی آئی ہے لیکن صلح اور مذاکرات کے ذریعے حل میں ابھی وقت لگے گا۔ واپسی میں گاڑی کے ڈرائیور نے ایسا سوال کیا جس کا میرے پاس جواب نہیں تھا۔ کہنے لگا ’طالبان تو منحرف لوگوں کو زندہ نہیں چھوڑتے تو پھر اکبر آغا جیسے لوگ زندہ کیوں ہیں؟‘ افغان دارالحکومت کابل میں ایک مکان کے باہر پہنچے تو چند مسلح لوگوں کو بیٹھے پایا۔ یہاں سکیورٹی یا تو سرکاری لوگوں کی ہے یا اس قسم کے غیرسرکاری لوگوں کی۔ یہ مکان ہے اُس شخص کا جسے دس سال پہلے اقوام متحدہ کے تین اہلکاروں کو کابل سے اغوا کرنے کے الزام میں سولہ سال قید کی سزا دی گئی تھی۔ text: احمد علی خان، جنہیں ان کے دوست اور مداحوں کے حلقے میں خان صاحب کہا جا تا تھا، 1924 میں بھوپال میں پیدا ہوئے اور اپنے آبائی وطن سے ہی انہوں نے 1945 میں صحافتی زندگی کا آغاز کیا جہاں وہ ترجمان میں کام کیا کرتے تھے۔ انہوں نے برصغیر کی تقسیم سے پہلے دہلی میں ’ڈان‘ میں شمولیت اختیار کی اور قیامِ پاکستان کے بعد جب ’ڈان‘ کی اشاعت کراچی سے شروع ہوئی تو وہ بھی یہاں آگئے۔ کوئی دو سال بعد لاہور چلے گئے اور وہاں پاکستان ٹائمز سے وابستہ ہو گئے جہاں انہیں فیض احمد فیض، مظہر علی خان اور ظہیر صدیقی جیسے اکابرین کی صحبت میسر آئی۔ خان صاحب 13 سال تک پاکستان ٹائمز کے ساتھ رہے اور 1962 میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیئت سے ’ڈان‘ واپس آ گئے۔ وہ 1976 میں ڈان کے ایڈیٹر بنے۔ پھر چیف ایڈیٹر اور بعد میں ایڈیٹر انچیف بن گئے اور سن 2000 میں ریٹائرمنٹ تک اس عہدے پر فائز رہے۔ تین سال بعد وہ تھوڑے عرصے کے لیے دوبارہ ڈان میں آگئے تھے۔ انہیں طویل عرصہ تک ایڈیٹر رہنے کا اعزاز حاصل ہے جبکہ انکی صحافتی زندگی نصف صدی پر محیط ہے۔ خان صاحب نے قید و بند کی صعوبتیں بھی کاٹیں۔ بائیں بازو کی تنظیموں اور ترقی پسند عناصر کے خلاف کارروائی کے دوران انہیں سکیورٹی ایکٹ کے تحت بند کر دیا گیا تھا۔ وہ زندگی میں کئی بار آمرانہ حکومتوں اور حکومتوں کے آمرانہ رویوں کا نشانہ بنے مگر انہوں نے ہمیشہ استقامت کا مظاہرہ کیا۔ خان صاحب نے حکومت کی جانب سے ایوارڈ دیے جانے کی پیشکش دو مرتبہ مسترد کی۔ احمد علی خان نے اپنی اہلیہ محترمہ ہاجرہ مسرور اور دو بیٹیوں اور بہت سے مداحوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔ انہیں شام گئے سپرد خاک کردیا گیا۔ پاکستان کے سب سے بڑے انگریزی اخبار ’ڈان‘ کے سابق ایڈیٹر انچیف احمد علی خان طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 83 برس تھی۔ وہ 28 سال تک ڈان کے ایڈیٹر رہے۔ text: ہلہ شیعہ اکثریت والا شہر ہے جو دارالحکومت بغداد کے جنوب میں 60 کلومیٹر دور واقع ہے حملہ آور ایک منی بس میں سوار تھا جس میں دھماکہ خیز مواد بھرا تھا۔ دھماکے کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں میں خواتین اور بچوں سمیت عام شہری اور سیکورٹی فورسز کے اہلکار شامل ہیں۔ چوکی سے گذرنے کے لیے وہاں کھڑی گاڑیاں بھی دھماکے کی زد میں آئیں جس کی وجہ سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ عراقی پولیس کا کہنا ہے کہ منی بس میں مائع ایندھن بھرا تھا جو شاید گیسولین تھا۔ الحلہ صوبائی کونسل کے نائب صدر عقيل امام ربی نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ اس حملے کے پیچھے شدت پسند تنظیم القاعدہ کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ عراق میں آئندہ ماہ انتخابات ہونے ہیں۔ الحلہ شیعہ اکثریت والا شہر ہے جو دارالحکومت بغداد کے جنوب میں 60 کلومیٹر دور واقع ہے۔ عراق میں حالیہ مہینوں میں تشدد کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ پڑوسی ملک شام بھی تشدد کی زد میں ہے۔ عراق میں پہلے بھی فرقہ وارانہ تشدد ہوتا رہا ہے لیکن اتنی بڑی تعداد میں لوگ اس سے پہلے کبھی نہیں مارے گئے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سال 2013 میں عراق میں 8،868 افراد ہلاک ہو گئے تھے. وہیں اس سال جنوری اور فروری میں 1400 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے سعودی عرب اور قطر پر الزام لگایا ہے کہ وہ عراق کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے لیے شدت پسند گروپوں کو مالی مدد مہیا کرا رہے ہیں۔ عراق میں حکام کا کہنا ہے کہ الحلہ شہر کی ایک چوکی پر مشتبہ خودکش بم حملے میں کم سے کم 32 افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور 150 زخمی ہوئے ہیں۔ text: ہندوستان اور سری لنکا کے بعد پاکستان تیسرا ملک ہے جس کے ساتھ بنگلہ دیش نے آزادانہ تجارت پر معاہدے کے سلسلے میں بات چیت کا آغاز کیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ بات چیت میں بنگلہ دیشی وفد کی قیادت وزارت تجارت کے جوائنٹ سیکرٹری الیاس احمد کر رہے جبکہ پاکستانی وفد کے سربراہ پاکستانی وزارت تجارت کے اعلیٰ اہلکار جعفر اقبال قادر ہیں۔ پہلے روز کے اختتام پر فریقین نے بات چیت کے دوران ہونے والی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا۔ بنگلہ دیشی حکام کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش پاکستانی وفد کے ساتھ بھی انہیں نکات پر بات چیت کر رہا ہے جن پر اس نے ہندوستان اور سری لنکا سے کی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ خطہ کا سب سے کم ترقی یافتہ ملک ہونے کی بنا پر بنگلہ دیش پاکستان سے مختلف رعایتوں کا مطالبہ کر رہا ہے۔ حکام کے مطابق آزادانہ تجارت کے معاہدے کے سلسلہ میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے مابین مذاکرات نسبتاً کم پیچیدہ ہیں کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی تجارت کا حجم بہت کم ہے۔ گزشتہ سال کے دوران بنگلہ دیش نے پاکستان سے چھ کروڑ تہتر لاکھ ڈالر کی مالیت کا سامان درآمد کیا جبکہ بنگلہ دیش سے پاکستان کو برآمد کا حجم دو کروڑ چھیاسی لاکھ ڈالر رہا۔ بنگلہ دیش پاکستان کو پٹ سن اور چائے برآمد کرتا ہے جبکہ پاکستان سے کپڑا، کپڑے کی مصنوعات، سبزیاں، پھل اور ڈبے میں بند خوراک بنگلہ دیش بھیجی جاتی ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین آزادانہ تجارت کے معاہدے پر دو روزہ مذاکرات ڈھاکہ میں شروع ہو گئے ہیں۔ text: یہ معاہدہ حکومت اور جنوبی وزیرستان کے احمدزئی وزیر قبائل کی چار ذیلی شاخوں خوجل خیل، توجی خیل، کاکا خیل اور سرکی خیل کے درمیان پیر کو رات گئے پشاور میں طے پایا۔ تقریباً دو سو قبائلیوں پر مشتمل ایک جرگے نے گورنر سرحد لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) سید افتخار حسین شاہ سے ملاقات کی اور اپنے علاقے کو غیرملکی شدت پسندوں سے پاک رکھنے اور مطلوب افراد حکومت کے حوالے کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ مطلوب افراد میں القاعدہ کی مدد کے الزام میں مطلوب کاکا خیل سے تعلق رکھنے والے مولوی عباس بھی شامل ہیں۔ کئی مطلوب افراد کے قبیلوں نے اس سے قبل بھی حکومت سے اسی قسم کے معاہدے کیے ہیں لیکن وہ ان کی حوالگی میں ناکام رہے ہیں۔ اس سے قبل جنوبی اور شمالی وزیرستان کے کئی قبائل نے بھی حکومت سے ایسے ہی معاہدے کیے تھے۔ حکومت ان معاہدوں کو اپنی سیاسی کوششوں کا ثمر قرار دیتی ہے۔ لیکن احمدزئی وزیر قبائل کے بعد شاید اب حکومت کو محسود قبائل کے ساتھ بھی اس قسم کے معاہدوں کی ضرورت محسوس ہو۔ پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں جہاں سیکیورٹی دستوں اور قبائلی جنگجوؤں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے وہیں چار قبائل نے حکومت کے ساتھ تعاون کا معاہدہ کر لیا ہے۔ text: یا شاید یوں کہیں کہ ان کے خیال میں شاید ناکافی امریکی فوجیوں نے جنگ میں حصہ لیا تھا۔ ہر دس فوجیوں میں سے اوسطاً تین یا اس سے کم نے لڑائی کے دوران اپنے ہتھیاروں سے گولی چلائی تھی چاہے ان کا جتنا بھی تجربہ تھا یا ان کی زندگی کو جتنا بھی خطرہ لاحق ہوا ہو۔ کیا جنگ عظیم دوم میں امریکی فوجی اپنے ہتھیاروں کا کم استعمال کرتے تھے؟ یہ بات امریکی فوج کے ایک تجزیہ کار اور تاریخ دان بریگیڈیئر جنرل سیمیول لائیمن ایٹوڈ مارشک نے ملٹری جریدوں میں لکھی جنھیں بعد میں ان کی کتاب ’مِن اگینسٹ فائر‘ میں شائع کیا گیا۔ ان کے کام پر بعد میں بہت تنقید کی گئی اور بہت سے لوگ انھیں بالکل فراڈ قرار دیتے ہیں مگر ایک وقت تھا کہ ان کے انکشافات نے امریکی فوج کی تربیت بدل کر رکھ دی تھی۔ یہ بھی پڑھیے دنیا کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ کون جیتا تھا؟ ’فضائی بمباری سے بےمثال تباہی‘ امریکی فوج میں خواجہ سراؤں پر پابندی گوگل ٹیکنالوجی امریکی فوج کے استعمال میں مار ڈالنے کا تناسب جنرل مارسل نے لکھا کہ ’انفنٹری کے کسی کمانڈر کا یہ ماننا درست ہوگا کہ جب لڑائی ہو تو اس کے صرف ایک چوتھائی فوجی ہی دشمن کو کوئی نقصان پہنچائیں گے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ایک چوتھائی کا یہ تناسب تربیت یافتہ اور لڑائی کے منجھے ہوئے فوجیوں کے لیے ہے۔ میرے خیال میں تین چوتھائی فائر نہیں کریں گے۔ انھیں خطرہ بھی ہوگا تو وہ لڑیں گے نہیں۔‘ بعد میں جنرل مارشل نے یہ تناسب تین چوتھائی سے بھی بڑھا دیا۔ مگر کیا وجہ ہے کہ امریکی انفنٹری کے فوجی یورپ اور پیسیفک میدانوں میں فائر کرنے سے اتنا کتراتے ہیں چاہے انھیں خود شدید خطرہ ہو۔ مارشل کی تحقیق نے فوجیوں کی ٹریننگ کو بدل کر رکھ دیا جنرل مارشل کے خیال میں اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ کسی بھی ٹیم میں چند ہی لوگ ہوتے ہیں جو زیادہ تر کام کرتے ہیں اور تہزیبی اعتبار سے امریکیوں میں جارحیت سے خوف پایا جاتا ہے جو انھیں لڑنے نہیں دیتا۔ فوجیوں کو جنگ میں فطری طور پر فائرنگ کرنے کی تربیت کی ضرورت تھی تاکہ وہ نہ جزباتی ہوں نہ ہی زیادہ سوچیں۔ جنرل مارشل نے یہ نتحجہ اخذ کیا کہ امریکی فطری طور پر بہت زیادہ پرامن ہیں اس لیے ایسے طریقے متعارف کروائے گیے جس میں اگلے کو مار ڈالنا ان کی فطرت کا حصہ بن جائے اور ایک فوجی میں سے انسانیت کی محبت نکال دی جائے۔ معروف برطانوی فوجی تاریخ دان سر جان کیگن کا خیال ہے کہ جنرل مرشل کا مقصد صرف تجزیہ کرنا نہیں تھا بلکہ ان کا ہدف امریکی فوج کو اس بات پر قائل کرنا تھا کہ وہ جنگیں درست انداز میں نہیں لڑ رہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ان کی باتیں نہ صرف موثر ثابت ہوئیں بلکہ انھیں ایک تاریخ دان کی حیثیت سے یہ عجیب موقع بھی ملا کہ ان کے اسباق کو ان کی زندگی میں ہی نہ صرف تسلیم کر لیا گیا بلکہ عمل میں بھی لایا گیا۔‘ تحقیق کے مطابق امریکی فوجیوں نے ویتنام کی جنگ میں جنگ عظیم دوم کے مقابلے اپنے ہتھیاروں کا زیارہ استعمال کیا مارشل نے خود دعویٰ کیا کہ ان کی تحقیق کی بدولت فوج نے موثر انداز میں جنگ کی تربیت دی اور فائر کرنے کا تناسب بہتر ہوا۔ انھوں نے کوریائی جنگ میں اپنی تحقیق جاری رکھی اور پتا چلا کہ فائر کرنے والے فوجیوں کا تناسب 55 فیصد تک بڑھ گیا۔ ویتنام کی جنگ میں یہ فائر کرنے کا تناسب اور بھی بڑھ گیا اور ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ 90 فیصد فوجی دوسرے انسانوں پر فائر کرنے لگے۔ میتھڈولوجی جنرل مارشل نے لڑائی کے بعد انٹرویو کرنے کا طریقہ متعارف کروایا۔ وہ فرنٹ لائن کمپنیوں کا دورہ کرتے (ان کا دعویٰ تھا انھوں نے 400 کمپنیوں سے بات کی) اور پھر ان فوجیوں سے بات کرتے جنھوں نے لڑائی میں شرکت کی۔ فوجی اپنا شناخت ظاہر کیے بغیر بتاتے کہ لڑائی کے دوران انھوں اور ان کے ساتھیوں نے کیا کیا اور ان باتوں کے نوٹس بنائے جاتے۔ البتہ جنرل مارشل کے ناقدین کا کہنا ہے کہ بہت کم یہ نوٹس بعد میں ملے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے کبھی ان فوجیوں کے انٹرویو نہیں کیے جو زخمی ہوئے یا ظاہر ہے جو ہلاک ہوگئے۔ بعد میں کچھ فوجیوں کے بیانات نے مارشل کو دیے انٹرویوز متنازع بنا دیے اس ساری تحقیق سے جنرل مارشل اس نتیجے پر پہنچے کہ امریکی فوجیوں کی زیادہ تر تعداد جرمن یا جاپانی فوجیوں پر فائر کرنے سے گھبراتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ فوجی مرنے سے نہیں مارنے سے ڈرتے تھے۔ ان واشنگٹن ڈی سی میں جرنیلوں نے ان کی یہ بات سنی۔ تربیت کے طریقے شروع میں امریکی نشانہ بازوں کو بلز آئی کے انداز کے ایک ہدف پر تربیت دی جاتی تھی۔ مگر اصلی جنگ کی صوتحال سے یہ ماحول بہت کم مماثلت رکھتا تھا اور اس سے فوجی کسی اصل انسان پر گولی چلانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ سال 1940 کی دہائی میں امریکی فوجی ڈارٹس کی مدد سے ہدف طے کرتے تھے چنانچہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکی فوج نے انسانی شکل کے ہدف تربیتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیے۔ امید کی جا رہی تھی کہ اس سے جارحیت کا خوف ختم ہو جائے گا۔ اہداف مختلف فاصلوں پر لگے ہونے کے بجائے ایک دم سے سامنے آنے لگے اور نشانہ بازوں کو کہا گیا کہ فوری گولی چلائیں تاکہ فطری طور پر ان کا ردِعمل فائر کرنا بن جائے۔ ویتنام کی جنگ تک فوجیوں کے آمنے سامنے ایک دوسرے سے ہاتھوں ہاتھ لڑنا کم ہوتا جا رہا تھا۔ لیکن بندوقوں کی نالیوں پر لگے چھُروں کے استعمال کی تربیت جاری رہی تاکہ دشمن کے خلاف جارحیت قائم کی جا سکے۔ حالانکہ انھیں اس صورتحال کی توقع نہیں تھی۔ امریکی فوج میں نیزے کا استعمال اب بھی سیکھایا جاتا ہے ان تمام طریقوں سے مقصُود یہ تھا کہ جنگ میں بے حسی سے دوسرے انسانوں کو قتل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ امریکی فوج کے میجر ایف ڈی جی ولیمز نے لکھا: ’ان (جنرل مارشل) کے خیالات نے پذیرائی حاصل کی لیکن پھر بھلا دیے گئے۔ درحقیقت مارشل کے مشاہدات اور تجاویز کئی بہتریوں کا باعث بنیں۔‘ تنازعات لیکن فوجی اسٹیبلشمنٹ میں ہر کوئی مارشل کے کام سے متفق نہیں تھا اور شدید تنقید سے ان کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ ان کے منتازع نوٹس کے علاوہ کچھ فوجی، جنھوں نے انھیں انٹرویو دیے، نے بعد میں بتایا کہ انھوں نے ان سے کبھی یہ نہیں پوچھا تھا کہ آیا ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا یا نہیں۔ مارشل نے اپنے نتائج کی حمایت میں کوئی شماریاتی تجزیہ بھی نہیں پیش کیا۔ جنگ عظیم دوم پر مارشل کا کام شک کی نظر ہو گیا ہے کنیڈین مصنف رابرٹ انجن کے مطابق ’یہ ممکن ہے کہ فائرنگ کے تناسب کے اعداد و شمار جنگ سے متعلق مارشل کے نظریات کی وجہ سے من گھڑت ہو۔‘ ’مارشل نے جنگی تاریخی میں بہت اچھا کام کیا ہے۔ لیکن وہ علمی سطح پر دور اندیش نہیں تھے اور انھوں نے وہی دیکھا جو وہ دیکھنا چاہتے تھے۔‘ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کے کچھ دعوے عملی طور پر غلط تھے۔ جیسے کہ ان کا دعوی کہ انھوں نے جنگ عظیم اول میں فوجیوں کی سربراہی کی اور یہ کہ وہ پوری امریکی فوجی مہم میں سب سے جوان افسر تھے۔ انھیں سنہ 1919 میں افسر کے طور پر بھرتی کیا گیا تھا۔ اور تب بھی انھوں نے صرف یورپ میں حصہ لیا جبکہ ان کا کام محض جنگ ختم ہونے پر فوجیوں کو واپس لانا تھا۔ جنگ عظیم اول میں مارشل کی شرکت پر سوال اٹھائے گئے ہیں ان کی باتوں سے ریٹائرڈ افسر بھی ناراض ہوئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ مارشل کے نظریے پر ان کی کمپنی کے ایک پرانے سارجنٹ کا کہنا تھا کہ ’کیا انھیں لگتا ہے ہم نے جرمنوں کو لاٹھیوں کی مدد سے موت کے گھاٹ اتارا؟‘ آج بھی معروف ذرائع مارشل کے 15 سے 20 فیصد اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہیں، باوجود اس کے کہ کئی سال پہلے یہ منتازع بن گئے تھے۔ لیکن کوئی اس کی اہمیت پر شک نہیں کر سکتا کیونکہ اس نے دنیا بھر کے فوجیوں کو مؤثر انداز میں جنگ لڑنا سیکھایا۔ سات کروڑ ہلاکتوں والے تاریخ کے خون ریز ترین واقعے، دوسری جنگِ عظیم، کے بعد امریکی فوج ایک عجیب نتیجے پر پہنچی۔۔۔ ہلاکتیں کافی نہیں ہوئیں! text: طالبان فیکٹر کوئی ایسی چیز نہیں جس پر قابو نہیں پایا جاسکتا: سپریم کورٹ یہ بات ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سپریم کورٹ کو کراچی کی امن و امان کی صورتحال پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران بتائی۔ اس ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کر رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ از خود نوٹس اپنے چھ اکتوبر 2011 کے حکم پر عملدرآمد نہ ہونے پر لیا ہے۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق سماعت کے دوران بینچ نے استفسار کیا کہ جب ایک ممبر صوبائی اسمبلی کراچی میں محفوظ نہیں ہے تو عام آدمی کیسے محفوظ ہو سکتا ہے۔ بینچ نے کہا کہ طالبان فیکٹر کوئی ایسی چیز نہیں جس پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے احکامات کے بعد کراچی میں دو ماہ کے لیے امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی لیکن دوبارہ صورتحال خراب ہو گئی۔ ’وجہ یہ ہے کہ آپ نے ہمارے احکامات پر پوری طرح علمدرآمد نہیں کیا۔ ہم نے سیاسی جماعتوں کے عسکری دھڑوں کی نشاندہی کی تھی اور کہا تھا کہ ان کو ختم کیا جائے۔ ہم نے پولیس میں سے سیاسی عمل دخل ختم کرانے کا کہا تھا۔‘ یاد رہے کہ گزشتہ سال تین نومبر کو کراچی رجسٹری میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے کراچی میں امن وامان کی صورت حال کے متعلق از خود کیس کے فیصلوں پر عمل درآمد کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کی تھی جس میں سندھ کی صوبائی حکومت اور سکیورٹی اداروں کو کراچی شہر میں طالبان کی موجودگی کو سنجیدگی سے لینے اور پے رول پر رہا ہونے والے ملزمان کو گرفتار کر کےعدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات پاکستان کے صوبہ سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل عبدالفتح ملک نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ ان کے پاس ان پانچ ہزار طالبان کی فہرست ہے جو کراچی میں میں داخل ہوئے ہیں۔ text: چینی بحریہ کے ایک ریڈیو آپریٹر نے غصے میں کہا:’ یہ چینی بحریہ ہے، یہاں سے نکل جاؤ‘ چین متنازع جنوبی بحیرۂ چین میں ریتیلی چٹانوں پر مصنوعی جزائر تیار کر رہا ہے۔ ’چین کے اقدامات پر امریکہ کو تشویش‘ ’ریت کی عظیم دیوار‘ چینی بحریہ کی جانب سے خبردار کیے جانے پر امریکی جہاز میں سوار پائلٹوں نے جواب دیا کہ وہ بین الاقوامی فضائی حدود میں پرواز کر رہے ہیں۔ اس پر چینی بحریہ کے ایک ریڈیو آپریٹر نے غصے میں کہا:’ یہ چینی بحریہ ہے، یہاں سے نکل جاؤ۔‘ سی این این کے مطابق جاسوسی کرنے کا جدید ترین ہوائی جہاز P8-A Poseidon اس وقت 15 ہزار فٹ کی بلندی پر تھا اور یہ اس کی کم ترین بلندی تھی۔ چین کی وزاتِ خارجہ کے ایک ترجمان ہانگ لی نے معمول کی بریفنگ کے بارے میں بتایا کہ وہ سپریٹلی جزائر پر پیش آنے والے واقعے کے بارے میں آگاہ ہیں۔ ’چین کا حق ہے کہ وہ ملک کی خودمختاری اور سمندر میں حادثات کی روک تھام کے لیے متعلقہ فضائی حدود اور پانیوں کی نگرانی کرے۔‘ P8-A Poseidon سے حاصل ہونے والی ویڈیو فوٹیج سی این این پر نشر کی گئی ہے جس میں نئے جزائر کی تعمیر کے حوالے سے سرگرمیوں کو دیکھا جا سکتا ہے جبکہ چینی بحریہ کے جہاز قریب ہی تعینات ہیں۔ یہ پہلی بار ہے کہ امریکہ نے حساس نوعیت کی ویڈیو جاری کی ہے۔ امریکی بحریہ کے مطابق چین نے جنوبی چینی سمندر میں چار مربع کلومیٹر کی مصنوعی زمین تیار کر لی ہے امریکی جہاز کے کپتان مائیک پارکر نے جہاز میں سوار سی این این کے صحافیوں کو بتایا کہ یقینی طور پر چین کی جانب سے متنبہ کرنے کا پیغام فیری کراس ریف کی فوجی تنصیب سے آیا ہے جہاں ایک دو ہزار فٹ لمبا رن وے بھی موجود ہے۔ یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا جب حال ہی میں چین نے فلپائن کے ایک فوجی ہوائی جہاز کو جنوبی بحیرۂ چین میں واقع سپریٹلی جزائر سے نکلنے کا حکم دیا تھا۔ سپریٹلی جزائر پر ویت نام، فلپائن، اور تائیوان سمیت کئی ممالک اپنا دعویٰ کرتے ہیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ چین اس ان جزائر کے اطراف میں مونگوں کی زندہ چٹانوں پر ریت ڈال کر مصنوعی زمین تیار کر رہا ہے۔ ان میں سے بعض جگہیں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں جن کو کنکریٹ سے ہموار کیا جا رہا ہے۔ چین نے زمین پر تقریباً چار مربع کلومیٹر کا مصنوعی رقبہ تیار کرلیا ہے۔ عسکری امور کے ماہرین کے مطابق اس علاقے میں فوجی تصادم ہو سکتا ہے کیونکہ گذشتہ ہفتے ہی امریکی حکام نے کہا تھا کہ محکمۂ دفاع پینٹاگون چین کے بنائے جانے والے جزائر کے اطراف میں بحری نقل و حرکت کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے مزید ہوائی اور بحری جہاز بھیجنے پر غور کر رہا ہے۔ گذشتہ ہفتے ہی امریکی وزیرِ خارجہ نے چین کے دورے کے موقعے پر کہا تھا کہ چین جس سمت و رفتار سے جنوبی بحیرۂ چین کے علاقوں پر اپنا دعویٰ پیش کر رہا ہے اس سے انھیں تشویش ہے۔ چین کے مصنوعی طور پر تیار کیے جانے والے جزائر پر رن وے بھی ہیں خیال رہے کہ چین جنوبی بحیرۂ چین میں اپنے عسکری سرگرمیاں میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس سمندری علاقے سے سالانہ پانچ کھرب ڈالر مالیت کی مصنوعات گزرتی ہیں۔ سال 2013 میں چین نے شمال مشرقی بحیرۂ چین میں اپنے ’فضائی دفاعی علاقے‘ کی حد بندی کی تھی جس میں وہ جزیرہ بھی شامل ہے جس پر جاپان بھی اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ چین کے وزارتِ دفاع کے مطابق جو جہاز بھی اس فضائی حدود میں داخل ہوگا اسے قوانین کی پابندی کرنی ہو گی یا چین کی طرف سے’ایمرجنسی دفاعی اقدامات‘ کا سامنا کرنا ہو گا۔ چین کی بحریہ نے جنوبی بحیرۂ چین کے متنازع پانیوں میں تعمیر کیے جانے والے مصنوعی جزائر کے اوپر پرواز کرنے والے ایک امریکی جاسوس طیارے کو خبردار کیا ہے۔ text: اس حملے میں خود کش بمبار نے دھماکہ خیز مواد سے لدھا ایک ٹرک استعمال کیا یہ حملہ بن غازی کے قریب اغویرا گاؤں میں ایک سیکورٹی چیک پوائنٹ پر ہوا۔ بن غازی لیبیا کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اس حملے میں کم از کم آٹھ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں فوجی اور عام شہری شامل ہیں۔ بن غازی کے مضافاتی علاقوں میں سیکورٹی کی صورتحال گذشتہ کئی ماہ سے بگڑتی جا رہی ہے اور تقریباً ہر روز شدت پسند ملیشیا پر حملوں کے الزامات لگ رہے ہیں۔ طرابلس سے بی بی سی کی نامہ نگار رانا جواد کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شدت پسند کے طریقہِ واردات میں تبدیلی آ رہی ہے جو کہ اس سے پہلے صرف سیکورٹی فورسز کو ہی نشانہ بناتے تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس حملے میں خود کش بمبار نے دھماکہ خیز مواد سے لدھا ایک ٹرک استعمال کیا۔ فوجی اہلکار ایمن العبدلے کے حوالے سے خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے بتایا کہ ٹویوٹا کمپنی کا یہ ٹرک چوکی کے قریب آ کر کھڑا رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اسے ایک نوجوان چلا رہا تھا اور جب فوجی اسے چیک کرنے کے لیے گئے تو اس نے خود کو دھماکے سے اّا لیا۔ زخمی ہونے والے افراد میں قریب کھڑے عام شہری اور فوجی دونوں ہی شامل ہیں۔ ہمارے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ ابھی تک اس حملے کی کسی گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم یہ گاؤں اسلامی شدت پسند گروہ انصاد الشریعہ کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ روز مسلح مظاہرین نے لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں ملک کی سب سے بڑی انٹرنیٹ کمپنی کی عمارت پر دھاوا بولا جس کی وجہ سے ملک کے ایک بڑے حصے میں انٹرنیٹ بند رہا۔ تقریباً 150 مظاہرین نے انٹرنیٹ کی سرکاری کمپنی لیبیئن ٹیلی کامز اینڈ ٹیکنالوجی میں گھس کر ملازمین کو مجبور کیا کہ وہ انٹرنیٹ کی رسد بند کر دیں۔ لیبیا میں کرنل قدافی کی حکومت گرنے کے بعد سے عدم استحکام ایک مسئلہ رہا ہے۔ لیبیا میں کرنل قدافی کی حکومت گرنے کے بعد پہلی بار ایک خودکش حملہ ہوا ہے جس میں سات افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ text: سری لنکا کی جانب سے دوسری اننگز میں دلروان پریرا نے پانچ وکٹیں لی ہیں اس میچ میں مہمان ٹیم نے پاکستان کو فتح کے لیے 317 رنز کا ہدف دیا تھا لیکن اس کی پوری ٹیم پہلے ہی سیشن میں 248 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ میچ کا تفصیلی سکور کارڈ پاکستان کی جانب سے اسد شفیق نے سنچری اور کپتان سرفراز احمد نے نصف سنچری بنائی لیکن یہ دونوں اپنی ٹیم کو وائٹ واش کی ہزیمت سے بچانے میں ناکام رہے۔ یہ متحدہ عرب امارات میں پاکستان کی کسی بھی ٹیسٹ سیریز میں پہلی شکست ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستانی ٹیم عالمی ٹیسٹ درجہ بندی میں ساتویں نمبر پر چلی جائے گی۔ منگل کو آخری دن جب کھیل شروع ہوا تو کپتان سرفراز احمد اور اسد شفیق مجموعی سکور کو 27 رنز کے اضافے کے بعد 225 تک لے گئے۔ تاہم اس موقع پر سرفراز احمد پریرا کی گیند پر سویپ شاٹ کھیلتے ہوئے پردیپ کو کیچ دے بیٹھے۔ سرفراز اور اسد کے درمیان پانچویں وکٹ کے لیے اب تک 173 رنز کی شراکت ہوئی۔ یہ دونوں اس وقت کریز پر آئے تھے جب دوسری اننگز میں پاکستان کے پانچ کھلاڑی صرف 52 کے مجموعی سکور پر آؤٹ ہو چکے تھے۔ سرفراز کی جگہ آنے والے محمد عامر چار رنز ہی بنا سکے اور پریرا کی ہی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہو گئے۔ اسد شفیق نے دس چوکوں کی مدد سے اپنے ٹیسٹ کیریئر کی 11ویں سینچری مکمل کی آؤٹ ہونے والے اگلے بلے باز یاسر شاہ تھے جو ہیرتھ کی گیند پر سٹمپ ہوئے۔ اس سیریز میں سری لنکا کے سب سے کامیاب بولر کی یہ اس اننگز میں پہلی وکٹ تھی۔ اسد شفیق 112 رنز کے سکور پر لکمل کی گیند پر کیچ ہوئے تو پاکستان کی رہی سہی امیدیں بھی دم توڑ گئیں۔ آؤٹ ہونے والے آخری پاکستانی بلے باز وہاب ریاض تھے جنھیں سری لنکن کپتان دنیش چندیمل نے ہیرتھ کی گیند پر کیچ کیا۔ سری لنکا کی جانب سے دوسری اننگز میں دلروان پریرا نے پانچ، ہیرتھ نے دو جبکہ لکمل،گمانگے اور فرنینڈو نے ایک ایک وکٹ لی۔ خیال رہے کہ سری لنکا نے اس میچ میں ٹاس جیت کر پہلے کھیلنے کا فیصلہ کیا تھا اور پہلی اننگز میں 482 رنز بنائے تھے۔ اس اننگز کی خاص بات اوپنر کرونا رتنے کے شاندار 196 رنز تھے۔ اس کے جواب میں پاکستان کی پوری ٹیم پہلی اننگز میں 262 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی تھی تاہم فالو آن کے باوجود سری لنکا نے پاکستان کو دوبارہ بیٹنگ کروانے کے بجائے خود بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سری لنکا نے ابوظہبی میں کھیلا گیا اس ٹیسٹ سیریز کا پہلا میچ 21 رنز سے جیتا تھا۔ سری لنکا نے دبئی میں کھیلے جانے والے دوسرے کرکٹ ٹیسٹ میچ کے آخری دن پاکستان کو 68 رنز سے شکست دے کر سیریز دو صفر سے جیت لی ہے۔ text: ماہانہ اعزازیہ صوبہ سندھ کے ضلع ناظمین کا دیگر صوبوں سے زیادہ ہے جبکہ ماہانہ دیگر مراعات پنجاب کے ضلعی ناظمین کا باقی صوبوں کے ناظمین سے خاصے زیادہ ہیں۔ حکومت اس کی وجہ یہ بتاتی ہے کہ یہ صوبائی حکومتوں کا اختیار ہے کہ وہ ناظمین اور نائب ناظمین کے ماہانہ اعزازیہ، سفری اور روزانہ الاؤنس سمیت مختلف الاؤنسز کا تعین کرے۔ جمعرات کے روز سینیٹ کے اجلاس میں وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر شیر افگن نیازی کی طرف سے پیش کی گئی معلومات کے مطابق پنجاب کے ضلع ناظم کو پندرہ ہزار ماہانہ اعزازیہ، کار بمع ڈرائیور، اکانومی کلاس میں فضائی سفر، دوروں کے دوران سرکاری رہائش ملنے کی صورت میں پانچ سو روپے یومیہ الاؤنس اور بصورت دیگر پندرہ سو روپے یومیہ ادا کیے جاتے ہیں۔ پنجاب کے ضلع ناظمین کو بمع اہل خانہ، گریڈ بیس یا اکیس کےافسران کے برابر سرکاری ہسپتالوں میں مفت طبی سہولت حاصل ہے۔ ضلع ناظم کو دو ہزار روپے ماہانہ’انٹرٹینمینٹ الاؤنس، کے مد میں بھی ملتے ہیں۔ جبکہ اس مد میں نائب ضلع ناظم کو کچھ نہیں ملتا۔ لاہور، گجرانوالہ، راولپنڈی، سرگودھا، فیصل آباد، ملتان، بھاولپور اور ڈیرہ غازی خان کے ضلع ناظمین کو ماہانہ تیس ہزار رہائشی الاؤنس جبکہ صوبہ پنجاب کے دیگر اضلاع کے ناظمین کو بیس ہزار روپے اس مد میں ادا کیے جاتے ہیں۔ پنجاب میں ضلع ناظم کے دفتری فون کے اخراجات کی کوئی حد نہیں البتہ گھر کے فون کا بل پندرہ سو روپے ماہانہ دیا جاتا ہے۔ جبکہ نائب ضلع ناظم کو دس ہزار ماہانہ اعزازیہ اور آٹھ سو روپے ماہانہ گھریلو فون کے بل کے مد میں ملتے ہیں۔ جبکہ سرکاری گاڑی ایک ہزار سی سی تک ضلع ناظم کی اجازت سے نائب ناظم کو فراہم کی جاسکتی ہے، لیکن انہیں رہائشی الاؤنس نہیں ملتا۔ پنجاب میں تحصیل یا ٹاؤن ناظم کو آٹھ ہزار ماہانہ اعزازیہ، سرکاری کام کی صورت میں گاڑی کی سہولت، دورے کے دوران سرکاری رہائش کی صورت میں چار سو روپے یومیہ اور بصورت دیگر بارہ سو روپے ملتے ہیں۔ جبکہ دفتر میں لامحدود فون بل اور گھر میں چھ سو کالیں مفت کرنے کی سہولت حاصل ہے۔ صوبہ پنجاب کے تحصیل یا ٹاؤن نائب ناظم کو پانچ ہزار روپے یومیہ اعزازیہ اور دفتر میں پانچ سو مفت فون کالز کی سہولت ہے۔ اس صوبے میں یونین کونسل کے ناظم کو تین ہزار اور نائب ناظم کو دو ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ، سرکاری گاڑی یا موٹر سائیکل اور لامحدود فون یا ایک سو مفت موبائیل فون کالز کرنے کی سہولتیں دی گئی ہیں۔ پنجاب میں ضلع، تحصیل اور یونین کونسلوں کے اراکین کو کوئی اعزازیہ نہیں ملتا۔ سندھصوبہ سندھ کے ضلع ناظم کو بیس ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ، گریڈ بیس کے افسر کے برابر سفری اور یومیہ الاؤنس اور سرکاری گاڑی ملتی ہے۔ ناظمین کو سرکاری رہائش یا بصورت دیگر کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے ناظمین کو ماہانہ اعزازیہ کے پینتالیس فیصد کے برابر جبکہ دیگر اضلاع میں تیس فیصد کے برابر کرایہ ملتا ہے۔ ضلع ناظم کو دفتر میں دو اور رہائش پر ایک فون جبکہ نائب ضلع ناظم کو پندرہ ہزار ماہانہ اعزازیہ، انیس گریڈ کے برابر سفری اور یومیہ الاؤنس اور دفتر میں ایک فون کی سہولت حاصل ہے۔ ضلع نائب ناظم کو گاڑی، طبی اور رہائش کی سہولت حاصل نہیں۔ سٹی ناظم (کراچی) کا ماہانہ اعزازیہ پچیس ہزار، سفری اور یومیہ الاؤنس اور دیگر سہولتیں گریڈ اکیس کے افسر کے مساوی حاصل ہیں۔ جبکہ نائب سٹی ناظم کو بیس ہزار اعزازیہ اور دیگر سہولتیں گریڈ بیس کے افسر کے برابر ملتی ہیں۔ صوبہ سندھ کے تحصیل یا ٹاؤن ناظم کو پندرہ ہزار ماہانہ اعزازیہ، گاڑی، ایک فون، اور گریڈ اٹھارہ کے برابر سفری اور یومیہ الاؤنس دیے جاتے ہیں۔ جبکہ نائب تحصیل یا ٹاؤن ناظم کو اعزازیہ صرف پانچ سو روپے اور ایک فون کی سہولت حاصل ہے۔ کراچی کے یونین ناظم کو تین ہزار ماہانہ اعزازیہ اور گریڈ سترہ کے برابر سفری اور یومیہ الاؤنس جبکہ نائب ناظم کو صرف دو ہزار روپے اعزازیہ ملتا ہے۔ ضلع کونسل کے ارکان کو سات ہزار روپے اعزازیہ جبکہ اجلاس میں شرکت کے دوران تین سو سے دو سو روپے یومیہ الاؤنس ملتا ہے۔ سرحدصوبہ سرحد کے ضلع ناظم کو بارہ ہزار اور نائب ناظم کو دس ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ ملتا ہے۔ ضلع ناظم کو صوبائی صدر دفتر میں اجلاس میں شرکت کی صورت میں ایک ہزار روپے اور صوبے سے باہر پندرہ سو روپے یومیہ ملتے ہیں۔ پشاور کے ناظم کو پانچ ہزار جبکہ دیگر اضلاع کے ناظمین کو چار ہزار روپے ماہانہ رہائش الاؤنس ملتا ہے۔ ناظم کو پندرہ ہزار روپے دفتری فون اور گھر پر پندرہ سو مفت فون کالز کی سہولت حاصل ہے۔نائب ضلع ناظم کو دس ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ اور پندرہ سو مفت فون کالز کی سہولت حاصل ہو ہے۔ صوبہ سرحد کے تحصیل یا ٹاؤن ناظم کو دس ہزار اعزازیہ، دفتری فون پر دو ہزار اور رہائشی فون پر ساڑھے سات سو کالز مفت کرنے کی سہولت ہے۔ جبکہ نائب تحصیل ناظم کو سات ہزار روپے اعزازیہ اور پندرہ سو تک مفت فون کالز کی سہولت ہے۔ یونین ناظم اور نائب ناظم کو ترتیب وار پانچ اور دو ہزار روپے اعزازیہ، پندرہ سو تک دفتر اور رہائشی فون کالز مفت جبکہ نائب کو تین سو مفت فون کالز کی سہولت دی گئی ہے۔ اس صوبے میں ضلع، تحصیل اور یونین کونسلوں کے ارکان کوئی سہولت حاصل نہیں۔ بلوچستانصوبہ بلوچستان میں سٹی ضلع (کوئٹہ) کے ناظم کو پندرہ ہزار اور نائب کو دس ہزار روپے اعزازیہ ملے گا۔ جبکہ انہیں سفری، رہائشی، یومیہ اور دیگر الاؤنس صوبائی بلدیاتی ضابطوں کے تحت ملیں گے۔ کوئٹہ کے علاوہ دیگر اضلاع کے ناظمین کو دس ہزار ماہانہ اعزازیہ، پانچ سو روپے یومیہ الاؤنس، تین سو لٹر پٹرول، دفتر اور رہائش کے لیے پندرہ سو مفت فون کالز کرنے کی سہولت ہے۔ جبکہ نائب ضلع ناظم کو آٹھ ہزار روپے اعزازیہ ملتا ہے۔ نائب ناظمین کی دیگر سہولتوں کے بارے میں مزید کچھ نہیں بتایا گیا۔ بلوچستان کے تحصیل ناظم کو پانچ ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ اور دورے کی صورت میں یومیہ دو سو روپے الاؤنس، جبکہ تحصیل نائب ناظم اور یونین ناظم کو پانچ ہزار روپے اعزازیہ اور دو دو سو روپے یومیہ الاؤنس ملتا ہے۔ یونین کونسل کے نائب ناظم کو تین ہزار اعزازیہ اور ایک سو روپے یومیہ الاؤنس، جبکہ ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کے ارکان کو ترتیب وار پانچ، تین اور دو ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ جبکہ یومیہ الاؤنس کے مد میں ترتیب وار دو سو، اسی اور ساٹھ روپے ملتے ہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں بلدیاتی نظام کا قانون تو ایک جیسا ہی نافذ ہے لیکن ضلع، تحصیل اور یونین ناظمین اور نائب ناظمین کے مالی مراعات ایک صوبے کی دوسرے صوبے سے خاصے مختلف ہیں۔ text: اْتر نامی یہ طوفان پیر کو سارا دن شمالی فلپائن میں رہے گا طوفان لیوزان کے جزیرے کے شمال میں پیر کو آیا جس میں 200 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چلنے کے ساتھ تیز بارشیں ہو رہی ہیں۔ ملک کے بعض شمالی علاقوں میں بجلی کی تاریں کٹ گئیں ہیں اور کشتیوں کی سروس منقطع کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں مسافر پھنس گئے ہیں۔ اْتر نامی یہ طوفان پیر کو سارا دن شمالی فلپائن میں رہے گا جس کے بعد یہ سمندر کی طرف چلا جائے گا۔ لاپتہ ہونے والے مچھیروں کا تعلق کیٹان ڈیونز جزیرے سے ہے۔ حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ شاید انھوں نے قریبی جزیرے میں پناہ لی ہو۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ طوفان پھر جنوبی بحیرہ چین سے گزرتا ہوا جنوبی چین کی طرف بڑھے گا۔ ملک کے دارالحکومت منیلا میں طوفانی بارش ہوئی جس کے نتیجے میں بعض سکولوں کو بند کیا گیا۔ بارشوں کے بعد بڑھے پیمانے پر سیلاب کی اطلاعات نہیں ہیں۔ خراب موسم کی وجہ سے جہازوں کے کئی مقامی پروازوں کو بھی منسوخ کر دیا گیا۔ یادر ہے کہ گذشتہ سال کے آخر میں فلپائن کے جنوبی حصے میں آنے والے شدید سمندری طوفان کے نتیجے میں ایک ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ بوپھا نامی اس طوفان نے فلپائن کو چار دسمبر 2012 کو اپنا نشانہ بنایا اور اس میں طوفانی بارشوں کے ساتھ ساتھ دو سو دس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوا بھی چلی تھی۔ فلپائن کے شمال میں ایک سمندری طوفان کے نتیجے میں 23 مچھیرے لاپتہ ہو گئے ہیں۔ text: اختر رسول کے سابق دور میں پاکستانی ہاکی ٹیم کا ریکارڈ بہت خراب رہا ہے۔ دونوں عہدوں کے لیے امیداواروں کا انتخاب بلامقابلہ عمل میں آیا ہے۔ پاکستان ہاکی: اور کتنی جگ ہنسائی ہوگی؟ ٹیم کی شرمناک کارکردگی، تمغے واپس اختر رسول کا تعلق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن سے ہے وہ قاسم ضیا کی جگہ یہ عہدہ سنبھالیں گے جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔ اختر رسول نے صدر کا انتخاب لڑنے کے لیے قومی ہاکی ٹیم کے ہیڈ کوچ کے عہدے سے ستمبر میں استعفیٰ دے دیا تھا جب کہ رانا مجاہد آصف باجوہ کے مستعفی ہونے کے بعد سیکریٹری بنائے گئے تھے اور انہوں نے بھی جونیئر ٹیم کے منیجر اور ہیڈ کوچ کا عہدہ چھوڑا تھا۔ انتخاب کے بعد بی بی سی اردو کے عبدالرشید شکور سے بات کرتے ہوئے اختر رسول نے کہا کہ وہ اپنا وقت پاکستانی ہاکی کی بہتری کے لیے صرف کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’اس وقت پاکستانی ہاکی کو پڑھے لکھے کھلاڑیوں کی اشد ضرورت ہے اور انہیں امید ہے کہ حکومت تعلیمی اداروں میں سپورٹس کی بنیاد پر داخلوں کی پالیسی کو منظم کرے گی تاکہ باصلاحیت اور پڑھے لکھے کھلاڑی سامنے آسکیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ایک مضبوط ٹیم کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ ڈومیسٹک ہاکی کو صحیح خطوط پر استوار کیا جائے جس کے لیے ہرممکن کوشش کی جائے گی۔ خیال رہے کہ 59 سالہ اختر رسول دوسری مرتبہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بنے ہیں۔ اس سے قبل وہ اگست 1997 میں بھی صدر بنے تھے لیکن ان کے دور میں پاکستانی ہاکی ٹیم کی کارکردگی غیرتسلی بخش رہی۔ پاکستانی ٹیم پہلی بار چیمپیئنز ٹرافی کے لیے کوالیفائی نہ کرسکی جبکہ قومی جونیئر ٹیم بھی جونیئر ورلڈ کپ سے باہر ہوگئی تھی۔ اختر رسول بحیثیت کوچ بھی مطلوبہ نتائج دینے میں بری طرح ناکام رہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم پہلی مرتبہ عالمی کپ کے لیے کوالیفائی نہ کرسکی جبکہ لندن اولمپکس میں ٹیم نے ساتویں پوزیشن حاصل کی تھی۔ اختر رسول انتظامی اور کوچنگ کے معاملات میں ناکام سہی لیکن بحیثیت کھلاڑی ان کا کریئر کامیاب رہا۔ وہ سنہ 1982 کا عالمی کپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان تھے۔ اس طرح وہ سنہ 1978 کا عالمی کپ جیتنے والی ٹیم میں بھی شامل تھے۔ رانا مجاہد سیکریٹری بننے سے پہلے ہی پاکستان ہاکی فیڈریشن کے معاملات میں متحرک رہے ہیں۔ وہ سنہ 1994 کا عالمی کپ جیتنے والی ٹیم میں بھی شامل تھے۔ سابق اولمپیئن اختر رسول پاکستان ہاکی فیڈریشن کے نئے صدر اور رانا مجاہد سیکریٹری منتخب ہوگئے ہیں۔ text: امریکی سفیر نے فوج کے سربراہ کو امریکہ کی خطے کے بارے میں نئی پالیسی کے خدوخال سے آگاہ کیا انھوں نے یہ بات بدھ کو راولپنڈی میں جی ایچ کیو میں پاکستان میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل سے ملاقات کے بعد کہی۔ فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق امریکی سفیر نے فوج کے سربراہ کو امریکہ کی خطے کے بارے میں نئی پالیسی کے خدوخال سے آگاہ کیا۔ ٭ ’پاکستان نے رویہ نہ بدلا تو امریکی مراعات کھو سکتا ہے‘ * پاکستان کو دہشت گردی کا کفیل ملک قرار دینے کا مطالبہ * ’حقانی نیٹ ورک نہ ہمارے دوست ہیں اور نہ پراکسی‘ بیان میں کہا گیا ہے کہ جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ 'پاکستان امریکہ سے کسی مادی یا مالی امداد کا خواہاں نہیں بلکہ چاہتا ہے کہ اس پر اعتماد کیا جائے اور اس کی کارکردگی کا اعتراف کیا جائے۔' چیف آف آرمی سٹاف نے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے پاکستان کی کوششیں کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس کے اپنے قومی مفاد میں اور قومی پالیسی کے مطابق ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کسی بھی دوسرے ملک کی طرح پاکستان کے لیے بھی اہم ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں پاکستان نے بہت کچھ کیا ہے اور مستقبل میں بھی کرتا رہے گا۔ جنرل باجوہ نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کی طویل جنگ کو کامیابی سے اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں تمام سٹیک ہولڈڑز کا باہمی تعاون اور مشترکہ کوششیں شامل ہوں۔ خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو جنوبی ایشیا خصوصاً افغانستان اور پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں پاکستان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ 'اب پاکستان میں دہشت گردوں کی قائم پناہ گاہوں کے معاملے پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔' ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں امریکہ کے اہداف بالکل واضح ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اس خطے میں دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کا صفایا ہو۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو جنوبی ایشیا خصوصاً افغانستان اور پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی کا اعلان کیا ہے پاکستان کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ سے شراکت داری پاکستان کے لیے بہت سود مند ثابت ہوگی لیکن اگر وہ مسلسل دہشت گردوں کا ساتھ دے گا تو اس کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ صدر ٹرمپ کے پالیسی بیان کے ردعمل میں پاکستانی دفتر خارجہ نے تفصیلی بیان میں کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر افغان طالبان کی محفوظ پناہ گاہوں کی موجودگی کی سختی سے تردید کرتا ہے اور وہ اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ پاکستان کا یہ بھی کہنا تھا کہ محفوظ پناہ گاہوں کے جھوٹے بیانیے کے بجائے امریکہ کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی صدر کے پالیسی بیان کے بعد امریکی وزیرِ خارجہ ریکس ٹیلرسن کا بھی ایک بیان سامنے آیا جس میں انھوں نے کہا کہ اگر پاکستان اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لاتا یا ان متعدد دہشت گرد تنظیموں سے نمٹنے کی حکمت عملی کو تبدیل نہیں کرتا جنھیں پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں تو نیٹو اتحاد سے باہر پاکستان کو خصوصی اتحادی کے درجے اور اربوں ڈالر کی فوجی امداد جیسے معاملات کو میز پر بات چیت کے لیے لایا جا سکتا ہے۔ پاکستانی برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان امریکہ سے امداد کا نہیں بلکہ اعتماد کا خواہاں ہے۔ text: برطانوی اخبار سنڈے ٹیلی گراف کے مطابق جن رجمنٹوں کو ختم کیا جا رہا ہے ان میں بلیک واچ اور رائل سکاٹ شامل ہیں۔ اگرچہ سرکاری طور پر اس خبر کی تصدیق نہیں کی گئی ہے تاہم خیال ہے کہ شمالی آئرلینڈ میں قیام امن کے منصوبہ کے تحت اپریل دو ہزار پانچ میں نو ہزار برطانوی فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے گا۔ کنزرویٹیو پارٹی نے اس فیصلہ کو باعث شرم اور قومی سلامتی پر سمجھوتے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی فوج میں یہ سب سے بڑی کٹوتی ہوگی۔ بلیک واچ عراق میں برطانوی فوج کی ساتویں بریگیڈ کا حصہ رہی ہے اور بصرہ پر چڑھائی اسی دستے نے کی تھی۔ جن دوسری رجمنٹوں کو سبکدوش کیا جا رہا ہے ان میں کنگس اون سکاٹش بارڈررز، پرنس آف ویلز اون رجمنٹ آف یاکشائر، آئرش گارڈز کی ایک بٹالین اور گورکھا کی ایک بٹالین شامل ہیں۔ اخبار نے اطلاع دی ہے کہ اس سلسلے میں ایک وائٹ پیپر شائع کیا جائے گا جس میں فوج میں کٹوتی کے بارے میں اعلان کیا جائے گا۔ برطانوی وزیر دفاع جیف ہون نے اس سال جون میں کہا تھا کہ برطانیہ کی فوجی طاقت ٹیکنالوجی پر عبور اور پیشہ ورانہ صلاحیت کی مرہون منت ہے نہ کہ فوجی نفری کی۔ وزارت دفاع نے سنڈے ٹیلی گراف کی مذکورہ رپورٹ کو محض قیاس آرائی قرار دیا ہے۔ اور کہا ہے کہ وزیر دفاع کے بیان کا مطلب فوج کو زیادہ منظم کرنا تھا۔ عراق پر حملے میں حصہ لینے والی برطانوی فوج کے رجمنٹ بلیک واچ سمیت بعض رجمنٹوں کو ختم کیے جانے کے بارے میں اطلاعات ہیں۔ text: تقریباً 10 سے 12 لوگ جمع ہوئے تاکہ ربیکا کو بتایا جا سکے کہ اس کے دوست اس کے ہر فیصلے میں اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ 34 سالہ ربیکا واشنگٹن کے ایک بینک میں گذشتہ چار سال سے کام کرتی ہے۔ ریبکا کا تعلق نیشول سے ہے۔ نیشول کو موسیقی کا کا دل کہا جاتا ہے۔ ربیکا کے والد بھی بارز میں گلوکاری کر کہ اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔ پڑھائی پوری کرنے کے بعد ربیکا کیلیفورنیا میں ہی نوکری کرنے لگی۔ جب وہ واشنگٹن آئی تو یہاں اس کی ملاقات جان سے ہوئی۔ ایک سال بعد شادی ہو گئی لیکن نظریاتی اختلاف اور جنسی کشش ختم ہو جانے کی وجہ سے دونوں نے طے کیا کہ وہ علیحدہ ہو جائیں۔ کوئی بڑا لڑائی جھگڑا نہیں۔ دونوں اپنے خاندانوں کے پاس گئے اور ان کو اپنا فیصلہ سنایا۔ سب نے ان کی خوشی کو ترجیح دی۔ سب صلح صفائی کے ساتھ ہوا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں لگ بھگ ہر پانچ میں سے ایک شخص طلاق سے گزرا ہے۔ چاہے آپ جتنے بھی ذہنی طور پر مضبوط ہوں اور کتنا ہی صلح صفائی سے معاملے نمٹے طلاق سے گزرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ لیکن مغربی معاشرے میں ایک انسان کی خوشی کو ترجیح دینا ایک ایسی آزادی ہے جس کی ہمارے معاشرے میں قدر نہیں کی جاتی۔ اس بارے میں مزید پڑھیے ایک ساتھ تین طلاق پر تین سال جیل؟ بچہ اپنی خوشی یا امریکی شہریت کے لیے پیدا کرنا ہے؟ ’سنگل ہونے پر لوگوں کے خیالات بدل جاتے ہیں‘ اس واقعے سے مجھے میری لاہور کی ایک دوست کا قصہ یاد آ گیا۔ وہ شادی کے دو سال بعد طلاق کے بارے میں سوچنا شروع ہو گی تھی۔ لیکن اس کو شادی سے نکلنے میں مزید چار سال لگے۔ وہ مالی طور پر آزاد تھی۔ خاندان بھی امیر تھا لیکن اپنی زندگی کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لینے میں اسے کئی سال لگ گئے۔ طلاق کا نام سنتے ہی پورا خاندان میدان میں کود پڑا۔ شادی میں جوڑے کی خوشی جیسے کسی کے لیے اہم ہی نہیں تھی۔ وہ رشتہ ٹوٹنے کا غم تو منا ہی رہی تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ پورے معاشرے کے ساتھ جنگ بھی لڑ رہی تھی۔ میری دوست کے والدین، سسرال اور دوستوں نے وہی مشہور مشورہ دیا کہ ’بچہ پیدا کر لو سب ٹھیک ہو جائے گا‘۔ لیکن مجھے آج تک یہ نہیں سمجھ آئی کہ آخر ایک بچہ دو سمجھ دار لوگوں کے آپس کے معاملات کیسے ٹھیک کر سکتا ہے؟ واشنگٹن میں ربیکا کو ملنے والی سپورٹ سے یہی سوچ رہی تھی کہ بے شک طلاق کا جشن نہ منایا جائے لیکن کم از کم ہمارے معاشرے میں طلاق سے جڑی روایتی سوچ کو ختم ہونا چاہیے تاکہ لوگ صحت مند گھرانا پروان چڑھا سکیں۔ میری ایک دوست ربیکا کی طلاق ہو رہی ہے۔ اس کے دوستوں نے اس کا دل بہلانے کے لیے رات کے کھانے کا اہتمام کیا۔ text: انڈیا کے شہر دہرادون میں معذور لڑکی کے ساتھ ریپ کا معاملہ پولیس، ہمسائے اور یہاں تک خود متاثرہ کے خاندان والے اس سے پوچھ رہے تھے کہ ’معذور لڑکی کے ریپ سے کسی کو کیا ملے گا؟‘ اس کے ساتھ گینگ ریپ ہوا تھا۔ متاثرہ کے مطابق اس کے ہمسائے اور اس کے دوست نے اسے کولڈ ڈرنک میں کچھ ملا کر دے دیا اور جب اسے ہوش آیا تو وہ ایک گلی میں نیم برہنہ حالت میں پڑی تھی۔ آخر کار پولیس نے شکایت درج کر لی اور اب مقدمہ چل رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیے ’کسی کو آپ کے ریپ سے کیا ملے گا؟‘ معذور خواتین کے ساتھ ریپ کے معاملوں میں بیشتر اوقات ان کے قریبی افراد ہی ان کا ساتھ نہیں دیتے۔ انڈین ریاست اترکھنڈ کے شہر دہرادون کے انسٹیٹیوٹ آف وژوئلی ہینڈی کیپڈ (این آئی وی ایچ) میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ ادارے کے ماڈل سکول میں خواتین طالب علموں نے موسیقی کے استاد پر جنسی زیادتی کا الزام لگایا۔ معذور خواتین کے لیے لوگوں کو یہ یقین دلانا مشکل ہو جاتا ہے کہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے استاد فرار ہو گیا ان لڑکیوں کی بات پر کسی نے یقین نہیں کیا۔ سکول کے پرنسپل نے اور نہ ہی منتظمیں نے۔ لڑکیوں کو تین دن تک ہڑتال کرنا پڑی۔ پھر سوشل میڈیا پر اس کا ویڈیو پوسٹ کیا، مقامی میڈیا تک خبر پہنچائی اور اس کے بعد پولیس نے معاملے کا نوٹس لیا۔ لڑکیوں نے مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیے جس کے بعد ملزم ٹیچر پر پوکسو ایکٹ کے تحت ’معذوری کا فائدہ اٹھا کر جنسی زیادتی‘ کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا۔ ملزم ٹیچر اب بھی مفرور ہے۔ اس معاملے کے بعد پرنسپل اور نائب پرنسپل کو عہدے سے ہٹا دیا گیا اور ادارے کے ڈائریکٹر نے استعفیٰ دے دیا۔ یہ بھی پڑھیے ’انڈیا میں ریپ کے جھوٹے دعوے ایک مسئلہ‘ ٹیچر نے ریپ کر کے اسقاط حمل بھی کروا دیا انڈیا میں ٹیچر پر معذور طالب علموں کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزامات رپورٹ کیا کہتی ہے؟ صحت کے عالمی ادارے اور ورلڈ بینک کی سنہ 2011 کی رپورٹ ’ورلڈ رپورٹ آن ڈسیبیلیٹی‘ کے مطابق عام خواتین اور معذور مردوں کے مقابلے معذور خواتین کی تعلیم اور روزگار کے مواقع کم ہیں تاہم ان کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملوں کی شرح زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان کی تعلیم اور روزگار وغیرہ کو خاندان والے بھی کم اہمیت دیتے ہیں۔ اس کی خاص وجہ یہ بھی ہے کہ انھیں باہر بھیجنے سے ان کے تحفظ کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔ معذور خواتین سے بات کر کے پتہ چلتا ہے کہ جنسی زیادتی کے خطرات ان کے لیے بےشک زیادہ ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ پوری دنیا انھیں وحشی نظروں سے دیکھ رہی ہو۔ دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی طالب علم شویتا منڈل کے بقول ’ہمیں مدد چاہیے، اس میں کوئی دو آرا نہیں ہیں، اور وہ ملتی بھی ہے۔ غیر معذور افراد پر انحصار اور یقین ہماری زندگی کا بہت اہم حصہ ہے۔‘ این آئی وی ایچ میں بھی اسی یقین کے پیشِ نظر ہاسٹل میں رہنے والی معذور لڑکیوں کو دروازے اور کھڑکیاں کھلے رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ انڈیا میں ٹیچر پر معذور طالب علموں کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزامات یہ معاملہپہلی بار نہیں اٹھا جنسی زیادی کے الزامات سامنے آنے کے بعد انڈیا کے نیشنل پلیٹ فارم فار دی رائٹس آف دی ڈس ایبلڈ کی دو رکنی ٹیم نے جب اس ادارے کا معائنہ کیا تو وہاں رہنے والی لڑکیوں نے بتایا کہ وہ ادارے میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ ادارے میں کام کرنے والے عملے کے مرد بغیر بتائے ہاسٹل میں داخل ہو جاتے ہیں۔ غسل خانوں کے دروازوں میں بھی چٹخنیوں نہیں لگائی گئیں۔ متاثرہ لڑکیوں نے بتایا کہ جب انھوں نے اپنے ساتھ ہونے والی مبینہ جنسی زیادتی کی شکایت پرنسپل سے کی تو پلٹ کر انھی کو تمیز والے کپڑے پہننے کا مشورہ دیا گیا۔ جنسی زیادتی کی شکار متعدد معذور لڑکیوں کا خاندان والے ہی ساتھ نہیں دیتے ہیں یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ اس ادارے میں ایسا کوئی مسئلہ سامنے آیا ہو۔ اپریل میں اسی استاد اور موسیقی سکھانے والے ایک اور استاد کے خلاف بھی لڑکیوں نے جنسی زیادتی کی شکایت کی تھی۔ اس وقت بھی ہڑتال ہوئی تھی جس کے بعد دوسرے استاد کو گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن اس استاد کو تب چھوڑ دیا گیا تھا جو اب تازہ معاملے میں ایک بار پھر ملزم ہیں۔ تاہم پوکسو ایکٹ کے تحت اگر کوئی نابالغ کسی اہلکار کو جنسی زیادتی کے بارے میں بتائے اور وہ اہلکار اس کا نوٹس نہ لے تو خود اس اہلکار کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔ ’جس نے مجھے ریپ کیا، میں نے اسے مار دیا‘ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس ادارے کے پرنسپل اور منتظمین کے خلاف کیا کوئی کارروائی ہو گی؟ رائٹس آف پرسن ود ڈسیبلٹی ایکٹ کے تحت عہدے اور طاقت کا غلط استعمال کر کے کسی معذور کے ساتھ جنسی زیادتی کرنا قابل سزا جرم ہے۔ اس معاملے کی تحقیقات شروع ہو گئی ہیں۔ میں سوچتی ہوں تو مجھے دوبارہ اس ریپ متاثرہ کی بات یاد آتی ہے کہ جنسی زیادتی خود دردناک ہوتی ہے، لیکن متاثرین کی بات پر یقین نہ کرنا انھیں زیادہ تکلیف پہنچاتا ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کی طرف سے جن پر انھیں یقین ہوتا ہے۔ آگے کی لڑائی میں ان کا ساتھ نہ ملنا انھیں اور توڑ دیتا ہے۔ ریپ کی متاثرہ ایک لڑکی سے جب میں نے پہلی بار بات کی تو اس نے بتایا کہ اس کے لیے ریپ کی زیادتی سے زیادہ دردناک یہ بات تھی کہ کوئی اس کی بات ماننے کو تیار نہیں تھا۔ عام طور پر لوگوں کو اس بات پر یقین نہیں ہوتا کہ کسی معذور لڑکی کے ساتھ بھی ریپ ہو سکتا ہے۔ text: سوئس محکمہ انصاف کے مطابق بدھ کو تین پولیس اہلکاروں کے حصار میں انھیں نیو یارک لے جایا گیا ہے یہ عہدے دار 27 مئی کو سوئٹزرلینڈ سے بدعنوانی کے الزامات کے تحت حراست میں لیے جانے فٹبال کے سات عہدے داروں میں سےایک ہیں تاہم ان کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ سوئس محکمہ انصاف کے مطابق بدھ کو تین پولیس اہلکاروں کی نگرانی میں انھیں نیو یارک لے جایا گیا ہے۔ اس شخص کا نام تو ظاہر نہیں کیا گیا ہے لیکن گذشتہ رپورٹس کے مطابق سیمین آئس لینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک افسر جیفری ویب امریکی حوالگی کی درخواست کے خلاف اپنے حق سے دستبردار ہوگئے تھے۔ جیفری ویب سینٹرل اینڈ نارتھ امریکن فٹبال فیڈریشن کے سابق صدر رہ چکے ہیں اور ان پر مارکیٹنگ کے حقوق بیچنے کے لیے لاکھوں ڈالر بطور رشوت لینے کے الزامات ہیں۔ بی بی سی کے کھیلوں کے نامہ نگار رچرڈ کون وے کا کہنا ہے کہ امریکی قوانین کے مطابق مدعی پر جس ضلع میں مقدمہ دائر کیا گیا ہو وہاں پہنچتے ہی ان کا ’بنا غیر ضروری تاخیر‘ کے جج کے سامنے پیش ہونا لازمی ہے۔ جیسا کہ مدعی بدھ کو زیورخ سے جا چکے ہیں لہذٰا ان کی عدالت میں حاضری جلد متوقع ہے۔ حراست میں لیے جانے والے سات عہدے داروں میں سے چھ کو امریکہ کو حوالگی کے خلاف مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ امریکی محکمۂ انصاف کی درخواست پر زیورخ کے ایک ہوٹل میں پولیس چھاپے کے بعد فیفا کے 14 سابق اور موجودہ اہلکاروں کو حراست میں لیا گیا تھا اور ان پر بدعنوانی کے سنگین مقدمات قائم کیے تھے۔ اس کے علاوہ مئی میں سوئس استغاثہ کی جانب سے بھی الگ سے سنہ 2018 اور سنہ 2022 کے عالمی کپ مقابلوں سے متعلق ’نامعلوم افراد کے خلاف مجرمانہ بدانتظامی اور منی لانڈرنگ‘ کی تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔ محکمہ انصاف کے مطابق بدعنوانی کی منصوبہ بندی امریکہ میں کی گئی تھی اور رقوم کی منتقلی کے لیے بھی امریکی بینکوں کا استعمال کیا گیا تھا۔ سوئس حکام کا کہنا ہے کہ فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کے سوئٹزرلینڈ میں حراست میں لیے جانے والے ایک عہدے دار کو امریکہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ text: چین کی روایات اور قدیم طریقہ علاج میں ذیا بیطس کے مریضوں کے لیئے باربرین نامی مادے کا استعمال کیا جاتا ہے جو کئی پودوں کی جڑوں اور ٹہنیوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ مادہ جسم میں گلو کوز کی سطح کو کم کرتا ہے۔ سائنسدانوں نے اب اس مادے کا استعمال چوہوں پر کیا ہے جو کافی موثر ثابت ہوا ہے۔ ماہرین ڈائی بیٹیز جریدے میں لکھتے ہیں کہ باربرین سے چوہوں کا وزن بھی کم ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مادہ موٹاپے سے نمٹنے کے لیئے بھی سود مند ہوسکتا ہے۔ مختلف ثقافتوں میں اس مادے کا استعمال مختلف بیماریوں کے علاج کے لیئے ہوتا رہا ہے مثلاً ہیضہ تاہم چین میں اس کا خاص استعمال شوگر کے مریضوں کے لیئے کیا جاتا ہے۔ آسٹریلیا کے گارون انسٹیٹیوٹ میں ذیا بیطس کے شعبہ کے سربراہ پروفیسر ڈیوڈ جیمز کا کہنا ہے کہ ہم ’ٹائپ ٹو ڈائی بیٹیز‘ کے مریضوں کے علاج پر غور کررہے ہیں کیونکہ ٹائپ ٹو شوگر جسم میں انسولین کے نظام کی خرابی سے ہوتی ہے اور اس سے جسم میں شوگر کی سطح بہت کم یا زیادہ ہوجاتی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق باربرین جسم میں انسولین کو منظم کرتی ہے۔ تاہم حتمی طور پر یہ جاننے کے لیئے ابھی مزید تحقیق کی جارہی ہے۔ حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ چین کی ایک روایتی دوا، ذیا بیطس کے مریضوں کے لیئے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔ text: روبوسیمیئن ایک مشینی بندر ہے جو چل سکتا ہے، رینگ سکتا ہے اور مختلف انداز دکھا سکتا ہے اور کئی با اثر شخصیات نے اس جلتی آگ پر تیل بھی چھڑکا ہے: سٹیفن ہاکنگ کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت انسانی نسل کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے جبکہ کاروباری شخصیت ایلون مسک کہتے ہیں کہ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے بھوت کو دعوت دی جائے۔ تو کیا اس سے کمپیوٹر کی فتح ناگزیر بن جاتی ہے۔ ’مصنوعی ذہانت انسانی نسل کا خاتمہ کر دے گی‘ اس لیے اس طرح کے گرما گرم موضوع کے لیے ضروری ہے کہ پریشان ہونے سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ کیا ہو سکتا ہے اور کیا بعید از قیاس ہے۔ آغاز میں تو دیکھیں کہ ہم مصنوعی ذہانت کے ساتھ پہلے ہی رہ رہے ہیں۔ گوگل کی سرچوں اور ایمیزون کی براؤزنگ صرف چند کلکنگ ہی نہیں ہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک سافٹ ویئر ہے جو مسلسل سیکھتا اور اپنے آپ کو بہتر کرتا رہتا ہے کہ کس طرح تیزی اور مفید طریقے سے ردِ عمل ظاہر کرنا ہے۔ یہ بہت قابلِ ذکر لیکن اسے بہت ہی ’محدور‘ اور’ کمزور‘مصنوعی ذہانت کہا جاتا ہے کیونکہ یہ صرف ان ہدایات کے تحت کام کر سکتی ہے جو اسے اس کے انسانی موجدوں نے دی ہیں۔ اور یہی اس کی ایک اہم کمزوری ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں ’عمومی‘ اور ’ٹھوس‘مصنوعی ذہانت کا، جو ابھی معرضِ وجود میں نہیں آئی، یعنی کام کرنے کی ایسی تحکمانہ صلاحیت ہے جو اصل انسانی ارادوں سے بہت آگے جاتی ہے، یعنی صرف سوچنا نہیں بلکہ اس میں جدت اور اختراع پیدا کرنا۔ انسانی دماغ کی نقل بنانے میں یا پھر ایسے طریقۂ کار واضح کرنے میں یا وہاں تک پہنچنے میں بہت سی دشواریاں حائل ہیں۔ یہ تو دور کی بات ابھی ایسا روبوٹ بنایا جائے جس کی اپنی سوچ اور ایجنڈا ہو یہ بھی مشکل کام ہے۔ اس کے لیے میں نے پہلے کیلیفورنیا کے علاقے پیسے ڈینا میں ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری (جے پی ایل) کا دورہ کیا کہ تاکہ دنیا میں سب سے باصلاحیت روبوٹس پر کام کرنے والے انجینئروں کو دیکھوں۔ وہ یہ بات سن کر ہنس پڑے کہ کبھی روبوٹس کی فوج ہم پر غالب آ جائے گی۔ یہ کہنا ممکن نہیں کہ ٹیکنالوجی مستقبل میں کہاں تک جائے گی اس منصوبے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر بریٹ کینیڈی نے کہا کہ ’مجھے ذہین مشینوں کے آنے پر کوئی تشویش نہیں۔‘ ان کی ٹیم کا بنایا ہوا روبوسیمیئن ایک مشینی بندر ہے جو مختلف کھڑے ہونے، رینگنے اور پہیوں پر چلنے جیسے مختلف انداز دکھا سکتا ہے۔ اسے آفت زدہ علاقوں اور جگہوں پر بھیجنے کے لیے بنایا گیا ہے جہاں انسان کا جانا خطرے سے خالی نہیں جیسا کہ گری ہوئی عمارتیں اور تباہ شدہ جوہری ری ایکٹر ہیں۔ اس میں دو کمپیوٹر ہیں۔ ایک اس کے سینسرز جبکہ دوسرا اس کی حرکت کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ گاڑی چلانے اور بڑے والو کو بند کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ لیکن روبوسیمئن کی ذہانت ابتدائی نوعیت کی ہے۔ میں نے دیکھا کہ جب اس کو دروازہ کھولنے کا کہا گیا تو اس نے دروازہ کھولا۔ میں نے دیکھا کہ یہ درست سمت بڑھا اور پھر اس نے دیکھا کہ ہینڈل کو دھکیلنے کے لیے اسے اپنے بازو کو کہاں تک لے جانے کی ضرورت ہے۔ لیکن مشین کو بہت خاص ہدایات دینے کی ضرورت ہے۔ جیسے روبوٹ ہمارے قریب سے آواز پیدا کرتا گیا بریٹ کینیڈی نے کہا: ’مستقبل میں تو مجھے نہ تو تشویش ہے اور نہ ہی میں توقع کرتا ہوں کہ روبوٹ انسانوں جتنے ذہین ہو جائیں گے۔ مجھے اس بات کا براہِ راست علم ہے کہ روبوٹ بنانا کتنا مشکل ہے جو کچھ کرتا ہے۔‘ ان لوگوں کے لیے یہ کافی حوصلہ بخش بات ہو گی جن کومصنوعی ذہانت پر تشویش ہے۔ مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والی برطانیہ کی سرکردہ شخصیت پروفیسر ایلن ونفیلڈ کہتے ہیں کہ روبوٹس کے دنیا پر قبضے کا خوف کافی حد تک بڑھا چڑھا کہ پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایجادات کو بڑی احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے اور وہ ان 1000 سے زیادہ سائنسدانوں میں شامل ہیں جنھوں نے اس اپیل پر دستخط کیے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ہتھیاروں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال پر پابندی ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ’روبوٹ اور ذہین نظام کو حفاظت کی اسی بلند حد پر بنایا جانا چاہیے جو ہم اپنی واشنگ مشینوں، کاروں اور جہازوں میں چاہتے ہیں۔‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی کے مستقبل کے بارے میں کوئی بھی پیشگوئی کرنا ناممکن بھی ہے۔ اگر ہالی وڈ کی فلمیں ہی مصنوعی ذہانت کے متعلق آپ کی گائیڈ ہیں تو ہمیں ایک بہت خوفناک مستقبل کا سامنا ہے جس میں مشینیں اتنی چالاک ہو جاتی ہیں کہ وہ ہم پر غالب ہو جاتی ہیں اور ہمیں تباہ بھی کر دیتی ہیں۔ text: برازیل کے پرستاروں نے جیت کا جشن اس طرح بھی منایا ٹی وی سیٹ اس زوردارگھونسے کا متحمل نہ ہو سکا اور بار میں لگے قیمتی ایل سی ڈی کی سکرین چکنا چور ہو گئی۔ چونکہ پنالٹی شوٹ آؤٹ ابھی شروع ہی ہوا تھا اس لیے وہاں موجود بیٹھے فٹبال کے شائقین پنالٹی شوٹ آؤٹ کا نتیجہ جاننے کے لیے بے چین ہو گئے۔ بار کے مالک نے اس شخص کو پکڑ لیا اور اس سے ہرجانہ مانگنے لگا لیکن دوسرے لوگ میچ دیکھنے کے لیے فوری طور پر پیسے دیے بغیر دوسرے بار کی طرف دوڑ پڑے جبکہ بعض اپنے سمارٹ فون پر میچ دیکھنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن جب ژولیو سیزر پنالٹی شوٹ آؤٹ میں دو گول روکنے میں کامیاب رہے اور برازیل دو کے مقابلے تین گول سے میچ جیت گیا تو اس بار سے جانے والے لوگوں نے واپس آ کر اپنا بل ادا کیا۔ یہاں تک کہ ٹی وی توڑنے والے شخص کو بھی جیت کی خوشی میں معاف کر دیا گیا اور برازیل کی جیت کا جشن رات بھر منایا جاتا رہا۔ ’فولیکو ہے اصل سٹار‘ برازیل ورلڈ کپ کے میسکوٹ فولیکو شائقین میں انتہائی مقبول ہیں فولیکو برازیل میں جاری فٹبال ورلڈ کپ کا سرکاری طور پر میسکوٹ ہے۔ کھیل کے میدان میں ’فولیكو‘ بھلے ہی کم نظر آ رہا ہو، لیکن سڑکوں اور گلیوں میں عوام کے درمیان وہ بہت مقبول ہے۔ اتوار کو ریو ڈی جنیرو میں جہاں میکسیکو اور ہالینڈ کی ٹی شرٹ میں بہت سے فٹبال فین فيفا فین فیسٹ ایریا میں جمع تھے، وہیں مقامی باشندے عالمی کپ کے میسکوٹ ’فلیكو‘ کی قد آدم مورتی کے ساتھ اپنی تصویر لینے کے لیے لمبی قطار میں منتظر تھے۔ یعنی ریو ڈی جنیرو میں ’فولیكو‘ سٹار ہے۔ جس وقت فین فیسٹ میں ایک بڑی سی ٹی وی سکرین پر میچ کی لائیو نشریات جاری تھی تب بھی تقریبا 30 لوگ ’فلیكو‘ کے ساتھ تصویر لینے کے لیے قطار میں لگے ہوئے تھے۔ کئی پرستار تو تصویر لینے کے ساتھ ہی اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرنے میں لگے تھے۔ شکست کے باوجود بھی فاتح جیسا استقبال چلی کی فٹبال ٹیم اپنے ملک کی صدر کے ساتھ چلی کی ٹیم فٹبال ورلڈ کپ میں برازیل سے ہارنے کے بعد جب دارالحکومت سینتیاگو پہنچی تو وہاں موجود ہزاروں شائقین نے ان کا استقبال فاتحین کی طرح کیا۔ چلی اور برازیل کا مقابلہ اخیر تک بے حد ڈرامائی رہا تھا جس میں بالآخر چلی پنالٹی شوٹ آؤٹ میں ہار گیا۔ چلی کی صدر میچیل بیچلیٹ نے اتوار کو ملک واپس لوٹنے والی ٹیم اور اس کے کوچ کو ایوان صدر میں مدعو کیا۔ صدارتی محل میں کھلاڑیوں سے بات کرتے ہوئے بیچلیٹ نے کہا: ’سچ ہے کہ کل ہم جیت نہیں پائے، لیکن ہم نے مقابلہ کیا۔۔۔ یہ ہنر اور جوش کی شاندار مثال تھی۔ ہم نے برابر کی ٹکر دی اور یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے۔‘ گھانا کے کھلاڑیوں کا گھمسان مڈفیلڈر کیون پرنس بواٹنگ کو پرتگال کے ساتھ ميچ سے قبل ہی ٹیم سے رخصت کر دیا گیا تھا اگر چلی کے کھلاڑی شکست کے باوجود فاتح کی طرح واپس آئے تو وہیں گھانا کے کھلاڑیوں کو آپس میں لڑنے سے فرصت نہیں ہے۔ گھانا عالمی کپ میں پہلے ہی دور میں باہر ہو گیا ہے۔ ٹیم کے کھلاڑیوں کو ایک دوسرے سے کئی شکایتیں ہیں۔ بعض کھلاڑی تو کوچ سے ہی الجھ پڑے۔ ٹیم کے مڈفیلڈر کیون پرنس بواٹنگ کو پرتگال کے ساتھ ميچ سے قبل ہی ٹیم سے رخصت کر دیا گیا تھا۔ یہ گھانا کا اس عالمی کپ میں آخری میچ تھا۔ بواٹنگ پر اپنے کوچ کے ساتھ بدتمیزی کا الزام ہے۔ بواٹنگ نے اب جا کر اس معاملے میں اپنا موقف رکھا ہے۔ جرمنی کے اخبار بلڈ کو دیے جانے والے انٹرویو میں انھوں نے اپنے ملک کی فٹبال ایسوسی ایشن پر ٹیم کے لیے ہوٹل اور پروازوں وغیرہ کے خراب انتظامات کا الزام لگایا ہے۔ جرمنی کے ایک کلب کے لیے کھیلنے والے اس کھلاڑی نے اخبارسے کہا: ’مجھے توقع نہیں تھی کہ فٹبال ایسوسی ایشن عالمی کپ میں اتنا خراب انتظام کرے گی۔‘ برازیل اور چلی کے درمیان سنیچر کو ہونے والے مقابلے میں جب برازیل کے گول کیپر ژولیو سيزر نے پنالٹی شوٹ آؤٹ کے دوران پہلا گول بچا لیا تو کھیل کے میدان کے باہر ساؤ پاولو کے ایک بار میں ٹی وی پر میچ دیکنے والے ایک فٹبال کے دیوانے نے فرط جذبات میں ٹی وی پر گھونسا دے مارا۔ text: تعلیمی اداروں کی بیرونی دیواروں کو مقررہ اونچائی تک بلند کرنے اور ان پر خاردار تاروں کو لگانے کو ہر حال میں یقینی بنانے کی ہدایت جاری کی صوبائی محکمہ تعلیم کے ایک اہلکار نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ سنیچر کو پنجاب کے تعلیمی اداروں کے تمام ایجوکیشنل ڈسٹرکٹ آفیسر، ای ڈی اوز نے وزیرِ تعلیم رانا مشہود احمد خان سے ملاقات کی۔ محکمہ تعلیم کے اہلکار کا کہنا تھا ملک کی موجودہ صورتحال میں صوبے بھر کے سکولوں کے متعلقہ حکام کو ہدایت جاری کی گئی ہیں کہ وہ عارضی طور پر اسمبلی معمول کے مطابق گراؤنڈ کے بجائے جماعت میں ہی کرایا کریں۔ صوبائی وزیر نے ای ڈی اوز ایجوکیشن کی کانفرنس سے خطاب بھی کیا اور سکولوں کی حفاظت کے لیے طے شدہ ضابطہ کار ایک پریس ریلیز بھی جاری کیا گیا ہے جس میں تعلیمی اداروں کے ای ڈی اوز سے کہا گیا ہے کہ ہر تعلیمی ادارے میں آمدورفت کے لیے ایک ہی گیٹ کا استعمال کریں اور ہر آنے جانے والے شخص کے کوائف درج کریں۔ پاکستان کے بہت سے تعلیمی ادارے بنیادی سہولیات سے ہی محروم ہیں وزیرِ تعلیم مشہود علی خان نے تعلیمی اداروں کی بیرونی دیواروں کی مقررہ اونچائی تک بلند کرنے اور ان پر خاردار تاروں کو لگانے کو ہر حال میں یقینی بنانے کی ہدایت جاری کی۔ اس کے علاوہ سکولوں میں سکیورٹی گارڈز، سی سی ٹی وی کیمرے اور میٹل ڈیٹیکٹرز کی تنصیب کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ صوبائی وزیر نے یہ بھی کہا کہ طلبہ، اساتذہ اور مقامی آبادی کی حفاظت کے لیے 1122، سول ڈیفینس اور دیگر ادارے فرضی مشقیں بھی کریں۔ ای ڈی اوز کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم طلبا و طالبات کو انتہاپسندی، دہشت گردی اور عدم برداشت و فرقہ واریت سے بچانے کے لیے رواداری، بردباری اور بین لامذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے چارٹ اور بینرز آویزاں کریں۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کی وزارتِ تعلیم نے سکولوں میں معمول کی اسمبلی گراؤنڈ کے بجائے عارضی طور پر کلاس رومز میں کروانے کا حکم جاری کیا ہے اور طلبہ، اساتذہ اور مقامی آبادی کی حفاظت کے لیے 1122، سول ڈیفینس اور دیگر اداروں کو فرضی مشقیں کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ text: یوکرین، مغربی رہنماؤں اور نیٹو کا کہنا ہے کہ روس مشرقی یوکرین میں بھاری ہتھیار اور فوجی فراہم کر کے باغیوں کی مدد کر رہا ہے یوکرین کا کہنا ہے کہ اس کی افواج پر باغیوں کے گڑھدونیتسک میں 26 بار گولہ باری کی گئی۔ دوسری جانب باغیوں کا موقف ہے کہ شہر کے ایئرپورٹ کے قریب ان پر حملہ کیا گیا۔ یاد رہے کہ پیر کے روز یوکرین، روس،جرمنی اور فرانس نے محاذ سے مزید ہتھیاروں کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔ روس اور یوکرین نے مشرقی یوکرین میں مزید جھڑپوں کے بعد بھاری ہتھیاروں کے علاوہ ٹینکوں سمیت چند دیگر ہتھیاروں کی محاذے جنگ سے واپسی کے معاہدے کا اعلان کیا تھا۔ مشرقی یوکرین میں جنگ بندی کا معاہدہ 12 فروری کو فرانس اور جرمنی کے تعاون سے طے پایا تھا۔ تاہم حالیہ دنوں میں فوج اور روس نواز باغیوں میں جھڑپوں کے بعد سے جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔ خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برلن میں رات گئے تک جرمنی، فرانس، روس اور یوکرین کے وزرا خارجہ کے درمیان جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد جرمنی کے وزیرِ خارجہ فرینک والٹر نے بتایا کہ اب جو ہتھیار ہٹائے جائیں گے ان میں ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں بھی شامل ہیں۔ جرمنی کے وزیرِ خارجہ نے میڈیا کو بتایا کہ’ اب ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں، مارٹر گولوں اور 100 ایم ایم سے کم درجے کے ہتھیاروں کی واپسی یقین دہانی شامل ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات نے ایک بار پھریوکرین کی فوج اور روس نواز باغیوں کے درمیان موجود اختلافات ایک بار پھر واضح ہو گئے ہیں۔ خیال رہے کہ اس سے قبل 26 فروری کو یوکرین کی وزارتِ دفاع نے باضابطہ طور پر ملک کے مشرقی علاقوں سے ہھتیار ہٹانے کا اعلان کیا تھا۔ یوکرین کے مشرقی علاقوں دونیتسک اور لوہانسک میں حکومتی افواج اور روس نواز باغیوں کے مابین لڑائی گذشتہ برس اپریل میں روس کے کرائمیا کو اپنا حصہ بنانے کے ایک ماہ بعد شروع ہوئی تھی۔ حال ہی میں دونیتسک ائیر پورٹ اور شروکین نامی گاؤں میں ہونے والی جھڑپوں سے قبل تک یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یوکرین کی فوج اور روس نواز باغی فروری میں طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے پر مکمل طور پر کاربند ہیں۔ برلن میں مذاکرات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں فریقین میں ہونے والی ان حالیہ جھڑپوں پر ’تشویش‘ کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس عرصے میں اکثر اوقات دونوں جانب سے شیلنگ کا سلسلہ جاری رہا ہے تاہم فریقین نے محاذِ جنگ سے بھاری ہتھیاروں کو ہٹانے کا دعویٰ بھی اسی دوران کیا تھا۔ خیال رہے کہ یوکرین، مغربی رہنماؤں اور نیٹو کا کہنا ہے کہ روس مشرقی یوکرین میں بھاری ہتھیار اور فوجی فراہم کر کے باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔ غیر جانبدار ماہرین بھی اس بات کو دہراتے نظر آتے ہیں جبکہ ماسکو ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اگر کوئی روسی باغیوں کی مدد کر رہا ہے تو یہ اس کا رضا کارانہ فعل ہے۔ جنگ بندی کی تازہ سفارتی کوششوں کے باوجود مشرقی یوکرین میں حکومتی افواج اور روس نواز باغیوں کے مابین رات بھر جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ text: معین بیگم: فاٹا کی پہلی خآتون ایجنسی سرجن لیکن ان علاقوں میں بعض ایسی باہمت خواتین بھی موجود ہیں جنھوں نے تمام تر خطروں اور سماجی رکاوٹوں کے باوجود عوام کی خدمت کو ہمیشہ سے اپنا نصب العین بنائے رکھا۔ ان میں کرم ایجنسی کے صدر مقام پاڑہ چنار سے تعلق رکھنے والی معین بیگم قابل ذکر ہیں۔ معین بیگم پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں اور اس کے علاوہ وہ فاٹا کی پہلی خاتون ایجنسی سرجن بھی ہیں جو گذشتہ تین سالوں سے اس عہدے پر کام کررہی ہیں۔ عام طور ہر قبائلی ایجنسی کی سطح پر ایک ایجنسی سرجن کی نشست ہوتی ہے جس کا کام ایجنسی بھر کے تمام طبی مراکز، ڈسپنسریز اور دیہی طبی مراکز کی نگرانی کرنا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر معین بیگم نے کہا کہ کسی قبائلی علاقے میں خاتون کا گھر سے باہر نکل کر مردوں کے درمیان کام کرنا انتہائی مشکل ہے کرم ایجنسی میں اس وقت 40 سے زیادہ طبی مراکز قائم ہیں جس کی نگرانی کی ذمہ داری ڈاکٹر معین بیگم کی سپرد ہے جہاں ہزاروں ملازمین کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر معین بیگم نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ کسی قبائلی علاقے میں خاتون کا گھر سے باہر نکل کر مردوں کے درمیان کام کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے اور انھیں اس سلسلے میں سکول کے زمانے سے لے کر اب تک کئی قسم کے مشکل مرحلوں سے گزرنا پڑا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جب میں نے میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا تو ان دنوں ہمارے محلے میں لوگ میرے والد صاحب کو دھمکیاں دیا کرتے تھے کہ آپ کا مسجد میں داخلہ بند کردیں گے، آپ کا سماجی بائیکاٹ کردیں گے، لیکن میرے والد میرے ساتھ کھڑے رہے اور انھوں نے کبھی ان دھمکیوں کی پرواہ نہیں کی۔‘ انھوں نے کہا کہ آج وہ انھی لوگوں کی خدمت کررہی ہیں جو ان کی سب سے زیادہ مخالفت کیا کرتے تھے اور یہی ان کا مقصد بھی تھا۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر معین بیگم نے کہا کہ انھیں بچپن سے رشتہ داروں اور محلے والوں کی طرف سے دھمکیوں کا سامنا رہا ہے لیکن انھوں نے کبھی ان مسائل کو اپنے اوپر حاوی ہونے نہیں دیا بلکہ اپنی تعلیم اور ملازمت پر توجہ دی۔ معین بیگم نے کہا کہ آج وہ انہی لوگوں کی خدمت کررہی ہیں جو ان کی سب سے زیادہ مخالفت کیا کرتے تھے ’میں جب قبائلی جرگوں میں جاتی ہوں تو وہاں میں واحد خاتون ہوتی ہوں لیکن میں نے کبھی ڈر، خوف محسوس نہیں کیا۔ فاٹا میں عورتوں کا کام کرنا مشکل ضرور ہے لیکن جب آپ کوئی خدمت کر رہی ہوتی ہیں تو پھر یہی قبائلی عوام آپ کو عزت و احترام بھی زیادہ دیتے ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ان کے آنے سے پہلے کرم ایجنسی کے ہسپتالوں اور طبی مراکز میں خواتین سٹاف ملازمت کرنے سے کتراتی تھیں لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔ ’میرے آنے سے نوکری پیشہ عورتوں کو حوصلہ ملا ہے اور یہاں تک کہ اب کئی سرکاری تنظیموں میں بھی خاتون سٹاف بھرتی کیا جا رہا ہے اور یہاں خواتین کے لیے کافی ساری امداد بھی آرہی ہے۔‘ ڈاکٹر معین بیگم کا کہنا ہے کہ کرم ایجنسی میں خواتین کے لیے تعلیمی اداروں کی تعداد فاٹا کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود یہاں مزید سکولوں اور کالجز کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس ملک میں تعلیم کو کبھی ترجیح نہیں دی گئی۔ پاکستان میں وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں میں عام طور پر خواتین کا گھروں سے باہر نکلنا معیوب سمجھا جاتا ہے اور ایسے میں وہاں خواتین کا مردوں کے درمیان رہ کر ملازمت کرنا نہ صرف جان کے خطرے کا سبب بن سکتا ہے بلکہ ایسی ملازم پیشہ خواتین کی مختلف طریقوں سے کردار کشی بھی کی جاتی ہے۔ text: ان سے پہلے ٹخنے کی تکلیف میں مبتلا عمرگل بھی دورہ ادھورا چھوڑ کر وطن واپس آچکے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے خلاف پورٹ الزبتھ میں کھیلے گئے دوسرے کرکٹ ٹیسٹ کے دوران ہیمسٹرنگ انجری کے سبب ٹیم منیجمنٹ نے شعیب اختر کو وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ شعیب اختر پر کوچ باب وولمر کے ساتھ جھگڑا کرنے کے جرم میں جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔ پورٹ الزبتھ ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں شعیب اختر نے چار وکٹیں حاصل کی تھیں لیکن دوسری اننگز میں وہ بولنگ کے قابل نہیں رہے تھے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ شعیب اختر کو جنوبی افریقہ کے دورے کے لیے ٹیم میں منتخب نہیں کیاگیا تھا جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ مکمل فٹ نہیں ہیں اور انہیں ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لیے میچ فٹنس درکار ہے لیکن قائداعظم ٹرافی کے میچ میں انہیں بولنگ کرتے دیکھنے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم اشرف نے انہیں دوسرے ٹیسٹ سے قبل جنوبی افریقہ بھیجنے کا فیصلہ کیا اور وہ دوسرے کرکٹ ٹیسٹ میں شامل کیے گئے لیکن ٹیسٹ میچ مکمل نہ کھیل سکے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وطن واپسی پر شعیب اختر پی سی بی میڈیکل پینل کی نگرانی میں اپنی فٹنس دوبارہ حاصل کرینگے۔ ماضی میں وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ٹرینر کے بجائے اپنے ذاتی ٹرینر ڈاکٹر توصیف رزاق کےساتھ ٹریننگ کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ شعیب اختر ذاتی حیثیت میں جس سے بھی چاہیں رابطہ کریں لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کا اپنا میڈیکل سیٹ اپ موجود ہے جو ان کی فٹنس دیکھے گا۔ لیکن کرکٹ بورڈ کے بیان کے بر عکس ڈاکٹر توصیف رزاق دو روز قبل بیان دے چکے ہیں کہ شعیب اختر ان کی نگرانی میں فٹنس بحال کرینگے۔ ان فٹ فاسٹ بولر شعیب اختر جمعہ کی صبح جنوبی افریقہ سے وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ text: انڈین ایکسپریس میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق اردو سیکھنے کے لئے انہوں نے جو فارم بھرا ہے اس میں انہوں نے کالی سیاہی والے پین سے جلی حروف میں اپنا نام لکھا ہے۔ دس ہزار درخواستوں میں جسونت سنگھ کی درخواست پر ان کی تاریخِ پیدائش تین جنوری انیس سو اڑتیس اور ان کے والد کا نام سردار سنگھ ہے۔ فارم پر ان کی تصویر بھی موجود ہے جس دیکھنے کے بعد کوئی شبہہ نہیں رہتا کہ یہ کوئی اور جسونت سنگھ نہیں بلکہ بھارت کے سابق وزیرِ خارجہ اور حال کے وزیرِ خزانہ ہی ہیں۔ جسونت سنگھ نے اردو سیکھنے کے لئے خود کو ایک سال کے کورس کے لئے کونسل میں رجسٹر کروایا ہے۔ لیکن اردو سیکھنے کے لئے جسونت سنگھ کو کسی جگہ جانا نہیں پڑے گا کیونکہ یہ کورس خط و کتابت کے ذریعے کرایا جاتا ہے۔ تاہم انہیں زبانی اور تحریری طور پر آموزش کی تمام ذمہ داریاں مکمل کرنی پڑیں گی تاکہ سال کے آخر میں انہیں ڈپلوما مل سکے۔ اس سال اپریل میں دہلی میں واقع فروغِ اردو کی کونسل نے درخواستیں مانگیں تھیں۔ شاید کونسل کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ ایک درخواست جسونت سنگھ کی نکلے گی۔ اخبار کے مطابق کونسل کے ڈائریکٹر حمیداللہ بھٹ نے بتایا ہے کہ جسونت سنگھ کی درخواست کا فارم بڑی صفائی سے بھرا گیا ہےاور اس میں ان تمام سوالات کا جواب موجود ہے جو کونسل نے پوچھے ہیں۔ حمیداللہ کا کہنا ہے کہ اس درخواست کا سب سے اچھا پہلو یہ ہے کہ جسونت سنگھ نے بالکل عام طالب علموں کی طرح اردو سیکھنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ ’ہمیں تو جسونت سنگھ کا پتہ ہی اس وقت چلا جب ہم درخواستوں کی چھان بین کر رہے تھے۔‘ بھارتی وزیرِ خزانہ نے ڈیمانڈ ڈرافٹ کے ذریعے کورس کی رقم یعنی تین سو روپے بھی ادا کی ہے۔ اردو سیکھنے کے لئے ایک درخواست ہیما مالنی کی صاحبزادی کی بھی ہے۔ بھارت کے وزیرِ خزانہ جسونت سنگھ آج کل اردو سیکھ رہے ہیں اور اردو سیکھنے کے لئے انہوں نے دہلی میں فروغِ اردو کی ایک کونسل کا فارم بھی بھرا ہے۔ text: زخمیوں میں سے پچیس افراد کی حالت نازک ہے، ہسپتال ذرائع دوسری جانب کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے بی بی سی کو فون کر کے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ کراچی پولیس کے ترجمان ایس ایس پی عمران شوکت کا کہنا ہے کہ یہ دھماکہ موٹر سائیکل میں نصب بارودی مواد سے کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دھماکہ فیڈرل بی ایریا کے علاقے عائشہ منزل کے قریب ہوا ہے۔ کراچی پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ اس واقعے میں تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ عباسی شہید ہسپتال کے اسسٹنٹ میڈیکو لیگل آفیسر نے بی بی سی کو بتایا کہ پینتالیس افراد کو ہسپتال لایا گیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ زخمیوں میں سے پچیس افراد کی حالت نازک ہے۔ جس جگہ یہ دھماکہ ہوا اس سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر ڈاکٹر طاہر القادری بھی جلسے گاہ میں موجود تھے۔ یہ جلسہ کچھ دیر پہلے ہی ختم ہوا تھا اور بڑی تعداد میں لوگ جلسہ گاہ سے باہر نکلے تھے۔اس دھماکے کے نتیجے میں ایک بس کو بھی نقصان پہنچا ہے جس میں ایم کیو ایم کے کارکنان جلسے سے واپس جا رہے تھے۔ پولیس کے ترجمان ایس ایس پی عمران شوکت کا کہنا ہے کہ اس جلسے کی حفاظت کے لیے سات ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ دھماکہ پولیس کے حصار سے باہر ہوا ہے۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پولیس کا کہنا ہے کہ فیڈرل بی ایریا کے علاقے میں ایک دھماکے میں تین افراد ہلاک اور بیالیس زخمی ہوئے ہیں۔ text: للی اپنی پیدائش کے تین ہفتے بعد ہی بیمار ہو گئی تھی لِلی نام بکری کا بچہ برطانیہ کے علاقے نارتھمٹن شائر میں جنوری میں اپنی پیدائش کے فوراً بعد ہی سخت بیمار ہو گیا تھا۔ جس کی وجہ اس کی مالکن ریبیکا مائنیارڈز کو اس بکری کو چڈّی یا نیپی پہنا کر گھر کے اندر رکھنا پڑا۔ انھوں نے کہا کہ ’لِلی اب سب کچھ وہی کر رہی ہے جو ایک بکری کرتی ہے۔ اگر وہ کوئی کتا دیکھتی ہے تو اسے ٹکر مار دیتی ہے۔‘ جب بکری تین ہفتوں کو تھی تو اسے جانوروں کے ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑا تھا۔ لِلی کو اس کی ماں اور بھائیوں کے پاس واپس بھیج دیا گیا ہے لیکن اس کی ماں اسے دودھ نہیں پلاتی۔ ریبیکا مائنیارڈز کوبتایا گیا تھا کہ بکری شاید ہی بچ پائے گی لیکن سٹیرائڈ سے علاج کے بعد ریبیکا نے فیصلہ کیا کہ وہ بکری کی صحت کا خود خیال رکھے گی۔ اس کے بعد کئی ہفتوں تک للی ریبیکا کے گھر کے اندر رہی اور وہ اس کی نیپیاں بدلتی رہیں۔ علاج کے دوران للی گھر میں موجود کتے کے ساتھ کھیلتی رہتی اور کبھی اس کے کھلونے چھپا لیتی اور کبھی اس کے ساتھ گیند سے کھیلتی۔ ریبیکا کہتی ہیں کہ آہستہ آہستہ لِلی یہ سمجھنے لگی کہ وہ ایک کتا ہے۔ اب لِلی کو اس کی ماں اور بھائیوں کے پاس واپس بھیج دیا گیا ہے لیکن اس کی ماں اسے دودھ نہیں پلاتی۔ دودھ ریبیکا کو ہی پلانا پڑتا ہے۔ کبھی کبھار لِلی گھر میں گھس جاتی ہے لیکن اب کتے اس کے ساتھ نہیں کھیلتے۔ وہ اس سے ڈرتے ہیں کیونکہ یہ انھیں ٹکر مار دیتی ہے۔ اس بیمار بکری کو اپنی ماں کے پاس واپس بھیج دیا گیا ہے جس نے اپنی بیماری کے دوران خود کو کتا سمجھنا شروع کر دیا تھا۔ text: بھارتی وزیرِاعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ، جنوبی افریقہ کے صدر تھابو امبیکی اور میزبان ملک کے صدر لولا ڈا سِلوا کا کہنا ہے کہ تین برِاعظموں پر پھیلے ان ممالک کو اب سمندری فاصلے قریب آنے سے نہیں روک سکیں گے۔ اس موقع پر مفاہمت کے جن سمجھوتوں پر دستخط ہوئے اُن میں جہاز رانی کے شعبے میں تعاون کے علاوہ زراعت، بائیو فیول اور انفارمیشن سوسائٹی میں مل کر کام کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ تین برس پہلے وجود میں آنے والے بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ کے اس اتحاد میں، حکام کے مطابق، تینوں ملکوں میں آپس کی اربوں ڈالر کی تجارت بڑھ کر دوگنی ہوئی ہے۔ بڑی بڑی کمپنیوں نے ایک دوسرے کے ملکوں میں پیسہ لگانا شروع کردیا ہے۔ مثال کے طور پر، جنوبی افریقہ کی بڑی کمپنی ساسول، بھارت میں لکوئیڈ فیول ٹیکنالوجی میں سرمایاکاری کرنے جا رہی ہے۔ برازیل کی کمپنی مارکوپولو نے بھارت کی ٹاٹا موٹرز کے ساتھ اشتراک کیا ہے۔ اسی طرح بھارت میں تیل کی کمپنی او وی ایل کو برازیل کی سمندری حدود میں تیل کی تلاش کے ٹھیکے مل چکے ہیں۔ لیکن تینوں حکومتوں کے نزدیک سہ فریقی تعاون میں یہ صرف ابتدا ہے اور مذید اشتراک کے لئے ابھی وسیع میدان کُھلا پڑا ہے۔کاروبار کے نئے مواقع کی اسی تلاش میں بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ کے سرکردہ سرمایہ کار اور صنعتکار دو دن سے یہاں آئے ہوئے ہیں اور نئے نئے منصوبوں پر بات چیت کر رہے ہیں۔ لیکن معاشی طور پر ابُھرتے ہوئے ان تین بڑے ترقی پذیر ملکوں کے بلند و بالا عزائم کا عملی نتیجہ کیا نکلتا ہے، یہ ابھی واضح نہیں۔ اہم سوال یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ان اعلیٰ سطحی دوروں، ملاقاتوں اور سمجھوتوں کا، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ کے اکثر غریب لوگوں پر کیا اثر پڑے گا؟ مستقبل قریب میں، کوئی خاص نہیں! اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ یہ ابتدائی نوعیت کے تعاون کے سمجھوتے ہیں۔ ان پر آہستہ آہستہ عمل میں خاصا وقت لگے گا۔ دوسرا یہ کہ ابھی ان ملکوں نے ایک دوسرے سے آشنائی کا سفر شروع کیا ہے۔ لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بھی محنت اور وقت لگے گا۔لیکن جیسے جیسے ثقافتی تبادلے بڑھائے جائیں گے، سمندری اور ہوائی رابطے شروع ہوں گے، اُس کا بھی براہ راست فائدہ بھارت جیسے ملک میں پیسے والا محدودکاروباری طبقہ اُٹھائے گا۔ بہار اور راجھستان کے غریب کسانوں کو ان اعلیٰ سطحی رابطوں کے ممکنہ ثمرات کے لئے ابھی بہت لمبا انتظار کرنا ہو گا۔ بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ کے رہنمائوں نے یہاں اپنی نوعیت کی پہلی سربراہی کانفرنس میں ایک دوسرے کے ساتھ معاشی اور سیاسی تعاون مضبوط کرنے پر سمجھوتے کئے ہیں۔ text: وہ ٹوئٹر پر سب سے زیادہ با اثر سعودی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ کچھ لوگ انھیں سعودی ’جولین اسانژ‘ پکارتے ہیں لیکن کوئی بھی ان کی اصل شناخت نہیں جانتا۔ اب بھی سعودی عرب میں 17 لاکھ افراد ان کو فالو کر رہے ہیں۔ Mujtahidd@ کے نام سے اس ٹوئٹر اکاؤنٹ کے 17 لاکھ فالوور تھے جو ان کا اکاؤنٹ بند کیے جانے کے بعد ضائع ہو گئے تھے۔ اس اکاؤنٹ کو شاہی خاندان کے افراد کی جانب سے کی جانے والی مبینہ بدعنوانیوں سے متعلق دستاویزات افشا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ ان شاہی افراد میں موجودہ سعودی شاہ اور ولی عہد بھی شامل ہیں۔ سعودی عرب میں شاہی خاندان اور مذہبی رہنماؤں کے خلاف تنقید کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ قوانین کے تحت ایسے افراد پر ریاست کے حکمران سے غداری اور آن لائن جرائم سے متعلق الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق انہی قوانین کے تحت سعودی حکام اصلاحات کا مطالبہ کرنے والے انسانی حقوق کے درجنوں کارکنوں کو قید کر چکے ہیں۔ سنہ 2014 میں اطلاعات کے مطابق مذہبی پولیس نے مذہبی اور اخلاقی خلاف ورزیوں کی الزام میں دس ہزار کے قریب ٹوئٹر اکاؤنٹس بند کروائے۔ جولائی سنہ 2011 میں ریاست میں عرب سپرنگ کی ناکامی کے بعد اب تک صرف یہی اکاؤنٹ Mujtahidd@ سزا سے بچ سکا ہے۔ یا کم سے کم گذشہ ہفتے تک جب اس کا اکاؤنٹ چند روز کے لیے بند کر دیا گیا۔ کیا یہ حکام کے کہنے پر کیا گیا؟ یہ جاننے کے لیے بی بی سی نے ٹوئٹر سے رابطہ کیا تو ٹوئٹر کا جواب تھا کہ پرائیویسی اور سیکورٹی وجوہات کی بنا پر کمپنی کسی انفرادی اکاؤنٹ کے بارے میں بات نہیں کرتی۔ سعودی حکام سے بھی رابطہ کیا گیا لیکن انھوں نے بھی کوئی بیان نہیں دیا۔ Mujtahidd@ کے نام سے اس ٹوئٹر اکاؤنٹ کے 17 لاکھ فالوور تھے جو ان کا اکاؤنٹ بند کیے جانے کے بعد ضائع ہو گئے تھے سعودی عرب کے یہ ’وسل بلوئر‘ یعنی راز افشا کرنے والے ہیں کون؟ بی بی سی نے ان سے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر رابطہ کیا اور جاننا چاہا لیکن انھوں نے گمنام رہنا ہی پسند کیا۔ سوال: کیا آپ ہمیں بتائیں گے کہ جو معلومات آپ نے ٹوئٹر پر شیئر کیں وہ کہاں سے حاصل کی گئی تھیں؟ جواب: پہلے تو میں نے اپنے ہی ذرائع استعمال کیے تاہم اب ایسے کئی لوگ مجھ سے تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں جو ان کے بقول ملک کے مستقبل کے لیے فکر مند ہیں۔ معلومات کے حصول کے لیے شاہی خاندان، شاہی عدالت، ہر صوبے میں، فوج میں، سکیورٹی انٹیلیجنس ایجنسیوں اور مذہبی حکام میں میرے ذاتی ذرائع ہیں۔ سوال: آپ کے فالوورز آپ پر کیونکر بھروسہ کریں، کیا آپ کے پاس کوئی شواہد ہیں؟ جواب: مجھے یقین کروانے کے لیے کسی کی منت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو کچھ میں نے شائع کیا ان میں سے زیادہ تر وقوع پذیر ہو چکا ہے اور بعض دفعہ تو میں نے ثبوت کے طور پر دستاویزات بھی فراہم کی ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے اپنا اعتبار قائم کیا ہے۔ سوال: اپ کا مقصد کیا ہے؟ جواب: میرا مقصد بدعنوانی، ناانصافی اور منافقت کا پردہ فاش کرنا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے بعد ازاں میری فراہم کردہ معلومات کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو اصلاحات کے لیے قائل کیا۔ میں نے اپنے اعتبار کا استعمال کرتے ہوئے کئی کارکنوں کے اصلاحات کے مثبت اقدامات کی ٹویٹس کو بھی ری ٹویٹ کیا۔ سوال: آپ کی ٹویٹس سے لگتا ہے کہ آپ شاہی خاندان کے بعض افراد کے خلاف ہیں کیا اس کی وجہ آپ کا کسی دوسری کے قریب ہونا تو نہیں؟ جواب: یہ سچ نہیں ہے میں شاہی خاندان کے کسی ایک حصے کے خلاف نہیں، میں نے اس خاندان کے ہر تقریباً ہر پہلو سے تنقید کی۔ سوال: آپ کی ٹویٹس دیکھنے والے بعض افراد آپ کی سیاسی حمایت کے بارے میں متجسس ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ آپ کی ہمدردیاں اخوان المسلمین کے ساتھ ہیں؟ جواب: مجھے فالو کرنے والے جانتے ہیں کہ میرا مقصد بدعنوانی اور سعودی حکام بالخصوص شاہی خاندان کے افراد کی مناقفت کا پردہ فاش کرنا ہے۔ آپ یقیناً دیکھیں گے کہ میرے ارادے اور عقائد اسلامی ہیں لیکن میرے کام کا اخوان المسلیمین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ سوال: کیا آپ مذہبی حکام پر بھی تنقید کرتے ہیں؟ جواب: یقیناً، اور میں انھیں بھی منافقت کا حصہ قرار دیتا ہوں جو شہریوں کو بھٹکا رہے ہیں۔ سوال: کیا آپ اپنی شناخت ظاہر ہونے کے بارے میں فکر مند ہیں؟ جواب: میں خوف زدہ نہیں ہوں۔ اس لیے نہیں کہ میں احتیاط کر رہا ہوں بلکہ میں لگ بھگ پُریقین ہوں کہ حکومت جانتی ہے کہ میں کون ہوں۔ لیکن وہ سکینڈل کے خوف سے میری شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ سوال: کیا آپ اسے لیے خوفزدہ نہیں ہیں کیونکہ ایک خیال ہے کہ آپ بھی شاہی خاندان سے ہیں؟ جواب: اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ سوال: کیا آپ کو یہ فکر نہیں کہ آپ کی افشا کردہ معلومات سعودی عرب کو غیر مستحکم کر سکتی ہیں اور یہاں بھی ہمسایہ عرب ریاستوں میں جاری صورت حال پیدا ہو سکتی ہے؟ جواب: یہ وہ سوال ہے جو شاہی خاندان کے احمق حمایتی مجھ سے عموماً پوچھتے ہیں۔ سعودی عرب میں شاہی خاندان کے افراد کی جانب سے اعلی سطح پر بدعنوانی سے متعلق دستاویزات افشا کرنے والے بلاگر کا ٹوئٹر اکاؤنٹ نامعلوم وجوہات کی بنا پر بند کر دیے جانے کے بعد اب دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے۔ text: مارک فیلپس سے پہلے امریکہ کی ہی مارک اسپٹز 1972 میں اولمپک میں سات طلائی تمغے جیتنے کا ریکارڈ بنا چکے ہیں۔ لیکن سپر سٹار تیراک مائیکل فیلپس نے اسپٹز کے ریکارڈ کی برابری کرلی ہے۔ فیلپس نے اپنا ساتواں طلائی تمغہ 100 میٹر بٹرفلائی تیراکی مقابلے میں حاصل کیا ہے۔ فیلپس کے بارے میں خاص بات یہ ہے کہ انہوں نےسارے طلائی تمغے ریکارڈ بناکر حاصل کیے ہیں۔ بیجنگ میں ساتواں طلائی تمغہ جیتنے کے بعد فیلپس کا کہنا تھا کہ اسپٹز کے ریکارڈ کی برابری کرکے انہیں خوشی کا احساس ہوا ہے۔’مجھے خوشی ہے کہ میں ان کی ریکارڈ کے برابری کرنے والا کھلاڑی بن سکا ہوں۔‘ وہیں 58 سالہ اسپٹز کا کہنا ہے ’فیلپس نہ صرف دنیا کے بہترین تیراک اور اولمپئن ہیں بلکہ وہ دنیا کے سب سے بہترین ایتھلیٹ بھی ہوسکتے ہیں۔‘ بیجنگ اولمپکس میں فیلپس ابھی تک 400 میٹر میڈلے، 200 میٹر فری اسٹائل، 200 میٹر بٹرفلائی، 100X4 میٹر فرے رلے، 200X4 میٹر فری ریلے، 200 میٹر میڈلے اور 200 میٹر فلائی میں طلائی تمغے جیت چکے ہیں۔ اتوار کو فیلپس کو100X4 میٹر میڈلے میں حصہ لینے والے ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ فیلپس کو ہرانا کسی بھی تیراک کے لیے مشکل ہوگا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اس مقابلے کے بعد فیلپس کا بیجنگ اولمپکس میں آٹھ طلائی تمغے جیتنے کا خواب پورا ہوجائے گا۔ اور اگر ان کا یہ خواب پورا ہوتا ہے تو وہ اولمپکس میں انفرادی طور پر سب سے زیادہ طلائی تمغے جیتنے والے کھلاڑی بن جائیں گے۔ امریکی تیراک مائیکل فیلپس نے بیجنگ اولمپک میں سات طلائی تمغہ جیت کر مارک اسپٹز کے ریکارڈ برابر کردیا ہے۔ text: آسٹریلیا نے اپریل سے شروع ہونے والا دورہ سکیورٹی خدشات کی بنا پر ملتوی کر دیا ہے۔ اس سے پہلے بنگلہ دیش نے آسٹریلیا کے دورہ نہ کرنے کی وجہ بچنے والے وقت میں پاکستان کا دورہ کرنے کی حامی بھری تھی۔ بنگلہ دیش پاکستان میں پانچ ایک روزہ اور ایک 20 ٹونٹی میچ کھیلے گی۔بنگلہ دیش کے میچ لاہور، ملتان ، فیصل آباد اور کراچی میں کھیلے گی۔ سری لنکا کی ٹیم بھی پانچ ایک روزہ میچ کھیلے گی۔سری لنکا کے ٹیم کے دورے کی تاریخ کا تعین ابھی نہیں ہوا ہے لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام کو یقین ہے کہ سری لنکا کی ٹیم ویسٹ انڈیز کے دورے کے بعد پاکستان آئے گی۔ اس وقت سری لنکا کی ٹیم ویسٹ انڈیز کے دورے پر ہے۔ پاکستان کے چیف سیلکٹر صلاح الدین کا کہنا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے دورے کے دوران نواجوان کھلاڑیوں کو موقع دینے کا ارادہ رکھتے ہیں صلاح الدین کا کہنا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کی ٹیم کو آسان نہیں سمجھتے کیونکہ بنگلہ دیش کی ٹیم کسی بھی ٹیم کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ آسٹریلیا کی طرف سے پاکستان کا دورہ ملتوی کیے جانے کے بعد سری لنکا نے پاکستان کا دورہ کرنے پر رضامندگی ظاہر کی ہے۔ text: حلف لینے والوں میں ایک خاتون وزیر بھی شامل ہیں۔ حلف برداری کی تقریب گورنر ہاؤس میں منعقد ہوئی اورگورنر سرحد اویس احمد غنی نے نومنتخب وزراء سے ان کے عہدوں کا حلف لیا۔ اس تقریب میں صوبہ سرحد کے نو منتخب وزیراعلٰی امیر حیدر خان ہوتی کے علاوہ وفاقی وزراء ، منتخب اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور اعلٰی سول و فوجی حکام نے شرکت کی۔ سرحد کی اکیس رکنی کابینہ میں اکثریتی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے بارہ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے نو وزراء شامل ہیں۔ حلف اٹھانے والے وزراء میں اے این پی کے بشیر بلور جبکہ پیپلز پارٹی کے رحیم داد خان کو سینئر وزیر کا عہدہ دیا گیا ہے۔ حلف اٹھانے والے وزراء کے محکموں کا بھی اعلان کردیا گیا ہے جن کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی کے بشیر احمد بلور بلدیات، سید عاقل شاہ کھیل و سیاحت، ارباب ایوب جان زراعت، میاں افتخار حسین تعلیم، سردار حسین بابک اطلاعات ، بیرسٹر ارشد عبداللہ قانون و پارلیمانی امور، زرشید خان زکوٰۃ و عشر، نمروز خان خیل اوقاف و حج، واجد علی خان جنگلات و جنگلی حیات، محمد ایوب شاڑی سائنس و ٹیکنالوجی، اے این پی میں شامل ہونے والے کرک سے رکن اسمبلی میاں نثارگل جیل خانہ جات اور صوابی سے خاتون رکن اسمبلی ستارہ ایاز کو سوشل ویلفئیر کا قلمدان دیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے وزراء میں رحیم داد خان کو سینئر وزیر اور پی این ڈی کا محکمہ دیا گیا ہے جبکہ ہمایون خان آبپاشی اور خزانہ، محمود زیب خان محصولات، سید ظاہر شاہ صحت، جعفر شاہ ایکسائز و ٹیکسیشن، شیر اعظم محنت و افرادی قوت، سلیم خان بہبود آبادی، سید احمد شاہ صنعت اور شجاع خان کو خوراک کا قلمدان دیا گیا ہے۔ سرحد میں حکومت سازی کے فارمولے کے مطابق اتحاد میں شامل جماعت مسلم لیگ (ن) کو دو وزارتیں دی گئیں تھیں تاہم بدھ کو ان کے کسی وزیر نے حلف نہیں اٹھایا۔ گزشتہ روز پشاور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر پیر صابر شاہ نے صوبائی کابینہ میں تین وزارتوں کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں جو محکمے دیے جا رہے ہیں ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی کابینہ سے باہر رہ کر بھی حکومت کی حمایت جاری رکھی گی۔ سرحد کابینہ کے پہلے مرحلے میں حکمران اتحاد عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی سےتعلق رکھنے والے اکیس وزراء نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھالیا ہے۔ text: جبکہ صوبائی حکومت نے جماعت کے دس دفاتر کو سربمہر کرنے اور آٹھ کارکنوں کے گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔ پشاو ر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت الدعوۃ سرحد کے ترجمان عتیق چوہان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جماعت الدعوۃ پر پابندی کے بعد صوبائی حکومت نے صوبہ بھر میں ان کے چھیالیس دفاتر کو سیل اور ایک سو پچاس سے زائد کارکنوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرحد میں جماعت کے مزید کارکنوں کی گرفتاری کےلیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ عتیق چوہان نے کہا کہ ملک بھر میں جماعت الدعوۃ کے ساڑھے چار ہزار دفاتر کو سیل کرکے جہاد کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان کے اندر موساد اور سی آئی اے کی سرگرمیاں جاری ہیں جس کی وجہ سے ملک کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ عتیق چوہان نے کہا کہ جماعت الدعوۃ کا کسی عسکری پسند تنظیم سے کوئی تعلق نہیں اور وہ سلامتی کونسل کے فیصلہ کے خلاف پرامن احتجاج ریکارڈ کریگی۔ انہوں نے کہا کہ جماعت الدعوۃ پر اس لئے پابندیاں لگائی جارہی ہے کیونکہ وہ امریکہ اور بھارت کی سازشوں کے خلاف اٹھ رہی ہے۔ دوسری طرف صوبہ سرحد میں حکام نے تصدیق کی ہے کہ جماعت الدعوۃ کے خلاف کاروائیوں میں ان کے دس دفاتر کو سربمہر کردیا گیا ہے جبکہ ان کے آٹھ کارکنوں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ سرحد حکومت کے ترجمان اور صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ کاروائیوں میں جماعت الدعوۃ کے پشاور، نوشہرہ، کوہاٹ، ہری پور، مانسہرہ اور ایبٹ آباد میں دفاتر کو سیل کردیا گیا ہے جبکہ آن کے اٹھ کارکنوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ صوبہ سرحد میں جماعت الدعوۃ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ پولیس نے ان کے چھیالیس دفاتر کو سیل کر کے ایک سو پچاس سے زائد کارکنوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ text: شیرون کی والدہ سوچتی ہیں کہ کاش اس دن وہ انھیں سکول نہ بھیجتیں یہ الفاظ بورے والا سے تعلق رکھنے والی زبیدہ مسیح کے ہیں جن کے بیٹے شیرون کو تین ستمبر کو ان کے ہی ایک ہم جماعت نے جان سے مار دیا۔ 16 سالہ شیرون گورنمنٹ ایم سی ماڈل سکول میں نویں جماعت کے طالبعلم تھے اور جس دن وہ ہلاک ہوئے وہ سکول میں ان کا تیسرا دن تھا۔ پہلا دن انھوں نے یونیفارم نہ ہونے کی وجہ سے کلاس سے باہر سزا کے طور پر کھڑا رہ کر گزارا تھا جبکہ دوسرے دن سکول گئے ہی نہیں تھے کیونکہ پہلے دن کے واقعے کے بعد انھوں نے سکول جانے سے انکار کر دیا تھا۔ زبیدہ مسیح نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا 'جب وہ واپس آیا تو اس نے کہا وہ سکول دوبارہ نہیں جانا چاہتا کیونکہ لڑکے اسے تنگ کرتے ہیں۔ اسے قتل کرنے والا بچہ اسے اپنے گلاس سے پانی نہیں پینے دیتا کیونکہ وہ مسیحی ہے۔ ہم اتنے شوق سے اسے پڑھا رہے تھے۔ تینوں وقت کی روٹی بھی کبھی کبھی نہیں کھاتے تھے تاکہ فیس ادا کر سکیں۔ اب سوچتی ہوں کاش اس دن اسے سکول نہ بھیجتی۔' شیرون کا خاندان دو کمروں کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا ہے۔ وہ چھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اور ان کے والد الیاس مسیح دیہاڑی دار مزدور ہیں اور روزانہ پانچ سے چھ سو روپے بمشکل کماتے ہیں۔ گھر سے دس منٹ کے فاصلے پر شیرون کا سکول ہے۔ 16 سالہ شیرون گورنمنٹ ایم سی ماڈل سکول میں نویں جماعت کے طالبعلم تھے 68 بچوں کی جماعت میں شیرون کا صرف ایک ہی دوست تھا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا 'شیرون کلاس سے باہر جانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس لڑکے نے سامنے ٹانگیں رکھ کر اس کا راستہ روکا جس کے بعد جھگڑا شروع ہو گیا۔' کمرۂ جماعت میں اس وقت کوئی استاد موجود نہیں تھا اور باقی بچے اس واقعے کو مذاق سمجھ کر ہنستے رہے ، کسی نے ملزم کو نہیں روکا۔ شیرون کے دوست نے اپنی سی کوشش کی مگر وہ ناکام رہا۔ ملزم آٹھ سے دس منٹ تک شیرون کو گھونسے اور لاتیں مارتا رہا جس کے بعد وہ بےہوش ہو کر زمین پر گر گیا۔ پانچ بچے خود ہی اسے ہسپتال لے کر گئے مگر وہاں پہنچنے سے پہلے ہی شیرون دم توڑ چکا تھا۔ شیرون کی والدہ نے بتایا کہ 'مجھے سکول سے فون آیا کہ شیرون کا ایکسیڈینٹ ہوا ہے۔ میں بھاگتی بھاگتی ہسپتال پہنچی تو میں نے اپنے بچے کا مرا ہوا منہ دیکھا۔ اتنا بڑا سکول ہے ٹیچرز کو کیسے پتہ نہیں چلا کہ بچے کا خون ہو گیا ہے؟ بچے اکیلے خود ہی میرے بیٹے کو ہسپتال بھی لے کر گئے۔' اس واقعے کے بعد پولیس نے ملزم کو حراست میں لیا ہے اور تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت قتلِ عمد کا پرچہ کاٹا گیا ہے جبکہ معاملے کی تحقیقات کے لیے تین کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق شیرون کے جسم پر بظاہر کوئی نشانات نہیں تاہم ان کی موت گھونسے اور لاتیں لگنے سے ہوئی ہے۔ شیرون کے والد الیاس کا کہنا ہے کہ دو دن میں ایسی کیا دشمنی پیدا ہو گئی تھی کہ ہمارے بچے کو اس لڑکے نے جان سے ہی مار دیا سکول کی انتظامیہ نے کوتاہی برتنے پر پانچ اساتذہ کو معطل بھی کیا ہے تاہم اس ہلاکت کے حوالے سے اس کی بےحسی واضح تھی۔ انتظامیہ کے ایک شخص نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'دیکھیے میڈیم ہمارے بچے بڑے پرامن ہیں۔ اس سے پہلے کبھی ایسا واقعہ نہیں ہوا۔ 2600 طالبعلموں میں 35 بچے مسیحی ہیں۔ بچوں میں لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا ہے۔ دراصل شیرون کمزور بہت تھا۔' اس شخص کے برابر میں کھڑے ایک صاحب بولے 'ملزم کا بھی تو دانٹ ٹوٹا ہے۔ اس کے بارے میں کوئی بات کیوں نہیں کر رہا؟' شیرون کی ہلاکت کے الزام میں گرفتار طالبعلم کا دعویٰ ہے کہ جھگڑا فون کی سکرین ٹوٹنے کی وجہ سے ہوا۔ وہاڑی کے ڈی پی او عمر سعید کا بھی کچھ ایسا ہی موقف تھا۔ انھوں نے کہا کہ 'فون کی سکرین ٹوٹنے پر جھگڑا ہوا اور یہ تاثر غلط ہے کہ ایک سے زیادہ بچوں نے شیرون پر حملہ کیا لیکن ہم اس بات کو نظرانداز نہیں کر سکتے کہ ملزم کے قتل کرنے کے پیچھے دیگر مقاصد بھی ہو سکتے ہیں۔' مقتول شیرون کے والد اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے کہ یہ ہلاکت ایک معمولی جھگڑے کا نتیجہ تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قتل مذہب کی ہی بنیاد پر ہوا ہے۔ 'آپ مجھے بتائیں دو دن میں ایسی کیا دشمنی پیدا ہو گئی تھی کہ ہمارے بچے کو اس نے جان سے ہی مار دیا۔ ہمیں تو اس نے جیتے جی ہی مار دیا ہے۔ میرا سب سے بڑا بیٹا، میرا سہارا ہی چھین لیا۔ ہمیں انصاف چاہیے۔' مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں طلبا کے ہاتھوں توہینِ مذہب کا الزام لگا کر طالبعلم مشال خان کی ہلاکت کے بعد ایک اور درسگاہ میں طالبعلم کے کمرۂ جماعت کے اندر قتل کا واقعہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ لازم ہے کہ شیرون کے والدین کو انصاف ملے تاکہ اس طرح کے خوفناک واقعات کو روکا جا سکے۔ 'اس نے صرف میرے بیٹے کو ہی قتل نہیں کیا بلکہ ہم سب کو مار دیا ہے۔ ہم اپنا پیٹ کاٹ کر اسے پڑھا رہے تھے تاکہ وہ وکیل بننے کا خواب پورا کر سکے، اپنی بہنوں کی شادیاں کروا سکے۔' text: لاہور میں پولیس نے مظاہروں میں سرگرم جماعت الدعوۃ کے قائد حافظ سعید کو ان کے گھر پر نظر بند کردیا گیا ہے۔ ملتان اور فیصل آباد میں پولیس نے احتجاجی جلوس نکالنے کی کوشش کرنے والے ایک سو سے زیادہ افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ یاد رہے کہ دو روز سے پورے پنجاب میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کردی گئی ہے جس کے تحت جلسے جلوس کرنے پر پابندی ہے۔ شہر میں پولیس نے خواجہ سعد رفیق اور زعیم قادری سمیت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مقامی رہنماؤں اور دیگر درجنوں کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ پیپلزپارٹی پنجاب کے ترجمان نوید چودھری نے دعویٰ کیا ہے کہ پورے صوبے سے ان کی پارٹی کے سینکڑوں کارکنوں کو آج صبح سے ان کے گھروں پر چھاپے مار کر گرفتار کرلیاگیا ہے۔ مختلف مسالک کی مذہبی جماعتوں اورمدرسوں پر مشتمل تحفظ ناموس رسالت محاذ نے جمعہ کے بعد یورپی اخبارات میں متنازعہ کارٹونوں کی اشاعت کے خلاف احتجاج کی اپیل کی تھی۔ لاہور پولیس کے ترجمان اطہر علی نے بتایا کہ شہر میں دس ہزار سے زیادہ پولیس کے جوان سڑکوں پر اور عمارتوں پر حفاظتی اقدام کے طور پر پہرہ دے رہے ہیں اور گشت کررہے ہیں۔ نیم فوجی تنظیم رینجرز کے ترجمان ایس آئی ندیم نے بتایا کہ رینجرز کے جوان خاص طور پر اندرون شہر کے علاقوں جیسے شاہ عالمی، مال روڈ، پنجاب اسمبلی، ہال روڈ، امریکی قونصلیٹ وغیرہ پر بڑی تعداد میں تعینات کیے گئے ہیں۔ شہر کی بڑی سڑکوں جیسے گلبرگ بلیوارڈ، دی مال، جیل روڈ وغیرہ پر پولیس نے جگہ جگہ ناکے لگائے ہوئے ہیں اور پولیس کی بھاری نفری موجود ہے۔ مال روڈ پر پولیس کی بکتر بند گاڑیاں بھی گشت کررہی ہیں۔ شہر میں سٹی بینک اور غیر ملکی ریستوران بند ہیں اور کئی سکولوں نے وقت سے پہلے بچوں کو چھٹی دے دی ہے۔ منگل کو شہر میں مقامی بازاروں کی ہڑتال کے روز کھلے ہوئے غیر ملکی بینکوں اور ریستورانوں کو ہجوم نے توڑا پھوڑا اور آگ لگائی تھی جس میں دو افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ بدھ کو جماعت اسلامی سے وابستہ طلبا تنظیم کے پنجاب یونیورسٹی کے باہر احتجاج کے دوران میں بھی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوگیا تھا۔ تحفظ ناموس رسالت محاذ کے رہنماؤں کہنا ہے کہ منگل کے تشدد کے واقعات کے ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے اور امن و امان قائم رکھنا حکومت کا فرض ہے اس کا نہیں۔ محاذ کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ثبوت ہیں کہ منگل کے روز تشدد میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کے کارندے ملوث تھے اور وہ دو افراد کی ہلاکت کا مقدمہ پنجاب کے وزیراعلی پرویز الہٰی، پولیس کے آئی جی اور سیکرٹری داخلہ کے خلاف درج کرائے گی۔ محاذ کا دعویٰ ہے کہ لاہور میں پولیس اب تک مظاہرہ میں شریک پانچ سو افراد کو گرفتار کرچکی ہے۔ دوسری طرف پولیس نے محاذ کے رہنماؤں پر منگل کے تشدد کے واقعات کے مقدمے درج کرلیے ہیں تاہم کسی کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا۔ جمعہ کے روز تحفظ ناموس رسالت محاذ کی جانب سے احتجاج کی اپیل پر پورے لاہور میں جگہ جگہ پولیس اور رینجرز تعینات ہیں جبکہ غیرملکی بنک اور ریستوران بند کر دیے گئے ہیں۔ text: خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے تحریکِ انصاف کے تقریباً 11 ارکانِ قومی اسمبلی نے اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کی پارٹی پالیسی پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا منگل کو بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کے صوبائی صدر اعظم سواتی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے بعض اراکینِ قومی اسمبلی استعفوں کے معاملے پر ناراض ضرور ہوئے تھے تاہم اس بات میں کوئی حقیقت نہیں کہ انھوں نے پارٹی پالیسی سے انحراف کر کے اپنا الگ گروپ تشکیل دے دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ گلزار خان سمیت چند ارکانِ قومی اسمبلی اس بات پر ناراض تھے کہ ان سے استعفے دینے کے معاملے پر مشاورت نہیں کی گئی تاہم اب یہ مسئلہ حل کر لیا گیا ہے۔ اعظم سواتی کے مطابق ناراض ارکان کے فوکل پرسن گلزار خان نے اپنا استعفیٰ صوبائی وزیر شاہ فرمان کے ذریعے پارٹی کے سربراہ عمران خان کو بھیج دیا ہے۔ اس سلسلے میں ناراض ارکان کے فوکل پرسن گلزار خان اور ان کے ساتھیوں کا موقف معلوم کرنے کے لیے ان سے بار بار رابطے کی کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہیں ہوسکی۔ خیبر پختونخوا میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے وزیرِ اعلی پرویز خٹک کے خلاف صوبائی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد لانے کے حوالے سے اعظم سواتی نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کو اسمبلی میں 63 ارکان کی اکثریت ثابت کرنا ہوگی اور اگر وہ کامیاب ہوگئے تو بے شک انھیں آئینی طورپر حکومت تشکیل دینے کا حق ہے۔ انھوں نے ان اطلاعات کی بھی سختی سے تردید کی کہ صوبائی اسمبلی میں تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے بعض ناراض ارکان نے وزیرِ اعلی کو اعتماد کا ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی سے استعفیٰ دینے کے ایک سوال پر صوبائی صدر نے کہا کہ اس حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے تاہم اس بات کا اختیار پارٹی کے سربراہ عمران خان کے پاس ہے اور وہ جو بھی فیصلہ کریں گے وہ سب کو قبول ہوگا۔ ِخیال رہے کہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے تحریکِ انصاف کے تقریباً 11 ارکانِ قومی اسمبلی نے اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کی پارٹی پالیسی پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ اس گروپ نے پشاور سے تعلق رکھنے والے رکنِ قومی اسمبلی اور سابق بیوروکریٹ گلزار خان کو اپنا فوکل پرسن مقرر کیا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف میں چند ماہ پہلے صوبائی اسمبلی میں بھی کچھ اراکین نے صوبائی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی تھی اور ایک علیحدہ گروپ بنانے کا عندیہ دیا تھا لیکن جماعت کی طرف سے ان کے تمام شکایات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی جس کے بعد کابینہ میں بھی ردو بدل کیا گیا اور بعض اراکین سے وزارتیں واپس لے لی گئی تھیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف خیبر پختونخوا کے صدر اعظم سواتی نے دعویٰ کیا ہے کہ پشاور سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ناراض ارکانِ قومی اسمبلی کے فوکل پرسن ایم این اے گلزار خان نے اپنا استعفیٰ پارٹی کے سربراہ عمران خان کو دے دیا ہے تاہم اس دعویٰ کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ text: ڈسٹرک اینڈ سیشن جج کی اہلیہ جن پرکم سن ملازمہ کو تشدد کا نشانہ بنانے کے الزامات کا سامنا ہے عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ کمسن طیبہ کچھ روز کے لیے اپنے والدین کے ساتھ نہیں رہے گی اور اس عرصے کے دوران اس کی کونسلنگ بھی کی جائے گی۔ بدھ کے روز عدالت نے اسلام آباد پولیس کے حکام کو کہا کہ وہ اس واقعے سے متعلق دس روز میں رپورٹ دیں تاکہ ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جا سکے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اس از خود نوٹس کی سماعت کی تو متاثرہ بچی اور اس کے والدین کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس کے علاوہ طیبہ کے والدین ہونے کے تین دعوےدار بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ اسلام آباد کی انتظامیہ کی طرف سے طیبہ پر ہونے والے تشدد کے بارے میڈیکل رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق طیبہ کے جسم پر زخموں کے 22 نشانات پائے گئے ہیں۔ اس پر بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ میں اس وقت کا تعین نہیں کیا گیا کہ یہ زخم کب لگائے گئے تھے۔ لڑکی کے والد محمد اعظم نے عدالت میں بیان دیا کہ اُنھیں لڑکی سے اس وقت ملوایا گیا جب صلح نامہ متعلقہ عدالت میں جمع کروا دیا تھا جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایڈیشنل سیشن جج نے کیسے تحقیق کیے بغیر طیبہ کو محمد اعظم کے حوالے کر دیا۔ عدالت نے کمسن بچی پر ہونے والے تشدد میں صلیح نامہ اور ملزمہ کی عبوری ضمانت کی دستاویزات سیل کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت اس معاملے کو بھی دیکھے گی کہ لڑکیوں کو گھروں میں نوکریاں دلوانے کے لیے کوئی گینگ تو متحرک نہیں ہے۔ عدالت نے اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی کاشف محمود کو حکم دیا کہ وہ کسی بھی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر اس معاملے کی تحقیقات میں تمام پہلووں کو مدنظر رکھیں اور دس روز میں اس واقعے کی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کریں۔ دوسری طرف اسلام آباد پولیس نے ایڈیشنل سیشن جج راج خرم علی کی اہلیہ کے خلاف طیبہ پر تشدد سے متعلق درج ہونے والے مقدمے میں انسانی سمگلنگ کی دفعات کا بھی اضافہ کر دیا ہے۔ اس از خودنوٹس کی سماعت اب 18جنوری کو ہو گی۔ سپریم کورٹ نے اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج کی اہلیہ کے ہاتھوں تشدد کا شکار بننے والی دس سالہ کمسن بچی طیبہ کو سویٹ ہوم بھجوا دیا ہے جبکہ اسلام آباد پولیس کو اس کی سکیورٹی کے مناسب اقدامات کرنے کا حکم دیا ہے۔ text: شمالی آئرلینڈ کے شہر ارما کے اوپر ظہور ہونے اس موسمیاتی عجوبے کو پچیس اور چھبیس جولائی کی رات آنے والے طوفانِ برق باران کے دوران ریکارڈ کیاگیا۔ ڈبلن میں قائم آوبزویٹری میں ریکارڈ کیا جانے والا سپرائٹ ایک گاجر کی شکل کی ایک چمک ہے جسے ارما کے اوپر دیکھا گیا۔ عام طور پر طوفان میں پھوٹنےوالی برق بادلوں کے درمیان یا پھر بادلوں اور زمین کے درمیان سفر کرتی ہے۔ جبکہ سرخی نما سپرائٹ بادلوں کے اوپر نمودار ہوتا ہے۔ سپرائٹ بہت ہی کم وقت کے لیے نمودار ہوتا ہے اور اسے انسانی آنکھ سے دیکھنا ممکن نہیں اور خصوصی کمیروں کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے۔ سپرائیٹ ایک انتہائی طاقتور موسمیاتی عجوبہ ہوتا ہے اور اسے دور سے دیکھا جا سکتا ہے۔ انیس سو اسی کی دہائی میں انتہائی حساس کیمروں کی مدد سے سپرائٹ ریکارڈ کیا گیا۔ پچیس جولائی کی رات ایک بجے سے تین بجے تک ریکارڈ کیے جانے والی تصاویر میں میں گاجر نما سپرائٹ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ شمالی آئرلینڈ کی ایک اوبزویٹری نے ایک نیا موسمیاتی عجوبہ ’سپرائٹ‘ ریکارڈ کیا ہے۔ سپرائٹ نامی موسمیاتی عجوبہ برطانیہ اور آئرلینڈ میں شاذر نادر ہی نظر آتے ہیں۔ text: شہزادہ مقرن کی ملاقاتوں اور سرگرمیوں کے بارے میں سرکاری طور پر تاحال کچھ بھی نہیں بتایا گیا۔ لیکن بعض حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے دورے کا مقصد پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کم کرنا، افغانستان میں طالبان کو قومی دھارے میں شامل کرنا اور پاکستان میں سیاسی قوتوں کو متحد کرنا ہے۔ تریسٹھ سالہ شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ ممبئی حملوں کے الزام میں گرفتار ذکی الرحمٰن لکھوی اور ضرار شاہ کے خلاف ثبوت ملنے پر انہیں سزا دی جانی چاہیے۔ سعودی شہزادے کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ ذکی الرحمٰن لکھوی اور ضرار شاہ، جن سے جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید بھی لا تعلقی ظاہر کرچکے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے فوج اور حکومتی قیادت میں ہم خیالی پیدا کی جائے۔ سنہ دو ہزار پانچ میں سعودی عرب کے چیف آف جنرل انٹیلی جنس کا عہدہ سنبھالنے والے شہزادے مقرن کے دورہ پاکستان کے بارے میں بعض مبصرین کا خیال ہے کہ وہ مختلف امور پر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف میں اختلافات کی خلیج کم کرنے کے لیے بھی کوشش کریں گے۔ کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ سعودی شہزادے کے دورے کا تیسرا اہم مقصد افغانستان کے آئندہ انتخابات میں طالبان کی شرکت کو یقینی بنانا بھی ہوسکتا ہے۔ ایسی ہی رائے پاکستان کے ایک سیاسی تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری رضوی کی ہے جو کہتے ہیں کہ سعودی عرب کا پاکستان اور افغانستان میں اثر رسوخ ہے اور ان کی کوشش ہوگی کہ آئندہ انتخابات میں طالبان کے بعض عناصر ضرور شرکت کریں تاکہ صورتحال بہتر ہوسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’سعودی عرب کی کوشش ہوگی کہ بعض امور پر نواز لیگ اور پیپلز پارٹی میں جو چپقلش ہے وہ بات چیت سے طے کی جائے‘۔ پروفیسر عسکری کی رائے کو ماضی قریب میں سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے طالبان حکومت میں بعص اہم عہدوں پر رہنے والی شخصیات سے اس بارے میں بات چیت کی گئی تھی۔ لیکن اس وقت کوشش تھی کہ تمام طالبان قومی دھارے میں شامل ہوجائیں۔ اس بارے میں جب افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے گزشتہ برس طالبان کو باضابطہ پیشکش کی تھی تو طالبان نے کہا تھا کہ جب تک امریکی افواج واپس نہیں جائیں گی اس وقت تک ایسا ممکن نہیں۔ پاکستان کا دورہ کرنے والے سعودی عرب کے چیف آف جنرل انٹیلی جنس شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز نے بدھ کو مشیر داخلہ رحمٰن ملک سمیت دیگر حکام سے ملاقاتیں کیں۔ text: ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج نونیت کمار نے پانچ مسلمانوں کے قتل کے سلسلے میں بتیس ملزمان میں سے دس پر جرم ثابت ہونے پر جمعرات کو فیصلہ سنایا ہے۔ استغاثہ کے وکیل قمرالرحمن نے بتایا کہ چودہ نومبر سن 1989 کو بھاگلپور کے سلطان گنج تھانے میں قمرگنج گاؤں پر سینکڑوں افراد نے حملہ کیا تھا جس میں پانچ مسلمان مارے گۓ تھے۔ حملہ آوروں نے گاؤں میں گھس کر گھروں کو آگ لگا دی تھی اور انہیں روکنے کی کوشش کرنے والی پولیس پر بھی ہجوم سے گولی چلائی گئی تھی۔ اس معاملے میں کل باون لوگ شامل تھے جس میں سےدس کو سزا سنائی گئی ہے۔ ان میں سے بتیس پر چارج شیٹ داخل کی گئی تھی۔ پانچ ملزمان ابھی بھی فرار ہیں اور چار کا دوران سماعت انتقال ہو گیا ہے۔ باقی تیرہ کو عدالت نے رہا کر دیا۔ استغاثہ کے وکیل نے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ جبکہ وکیل صفائی نے فیصلے کا مطالعہ کر کے ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کی بات کہی ہے۔ مسٹر قمرالرحمن نے بتایا کہ فسادات کے مقدمے کی مقامی انتظامیہ کی لاپرواہی کی وجہ سے سماعت کافی سست روئی سے ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ابھی بھی کم از کم 27 ایسے مقدمے ہیں جن کی سماعت مکمل ہونی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملزمان کے خلاف جاری وارنٹ پر پولیس کارروائی نہیں کر رہی ہے۔ اسی لیے عدالت میں گواہ پیش نہیں ہو رہے ہیں۔ بعض معاملات تو ایسے ہیں کہ جن میں سرکاری ملازمین گواہ ہیں لیکن وہ گواہی دینے عدالت نہیں آتے ہیں۔ سرکاری اہلکاروں کی لاپرواہی کی ایک مثال لونگائی کا معاملہ ہے جہاں 120 لوگوں کو قتل کر دیاگیا تھا اور پولیس نے گوبھی کے کھیت سے لاشیں برآمد کی تھیں۔ اس معاملہ میں ایک ڈپٹی سپریٹینڈینٹ آف پولس کی گواہی کے لیے ڈھائی برس انتظار کرنا پڑا تھا۔ مسٹر قمراالرحمن کے مطابق اب تک 52 معاملوں میں 322 ملزمان کو سزا سنائی گئ ہے۔ قمرگنج معاملہ سے پہلے چندیری کے واقعے میں 16 ملزان کو آج سے چار برس پہلے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھاگلپور فسادات میں تقریباً دو ہزار لوگ مارے گئے تھےجن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ شمالی ہندوستان میں بھاگلپور کے فسادات کی ملک میں کوئی مثال نہیں ہے۔ علاقے کے لوگوں کے ذہنوں اور نفسیات پر اسکے اتنے گہرے اثرات مرتب ہوئے تھے کہ خوف سے بڑی تعداد میں لوگ بنگال ہجرت کر گئے تھے۔ سولہ برس قبل بھاگلپور میں ہوئے بدرترین فرقہ وارانہ فسادات کے مقدمے میں عدالت نے دس ملزامان کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ text: اسامہ بن دلان دو مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی فوجی کارروائی میں ہلاک ہوئے تھے اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکہ نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن دلان کو ہلاک کرنے کی فوجی کارروائی پاکستانی فوج کے اعلیٰ اہلکاروں کی مدد سے کی تاہم آپریشن کے بعد پاکستان کو امریکی انتظامیہ نے ’ولن‘ کے طور پر پیش کیا۔ ’قومی امکان ہے کہ آئی ایس آئی اسامہ کے بارے میں جانتی تھی‘ عائشہ صدیقہ کا انٹرویو بریگیڈیئر سعد اور واجد شمس الحسن کی گفتگو سیمور ہرش کے اسامہ بن لادن کی رپورٹ پر اکثر مبصرین نے کسی قسم کی حیرانگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس کے چند مندرجات کو ’ڈرامائی رنگ‘ میں پیش کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ دفاعی امور کی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے بی بی سی اردو کے پروگرام سیربین میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس رپورٹ میں امریکی صدر اوباما کے خلاف جوش و جذبہ اور غصہ بھی جھلکتا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ کیا یہ تین ماہ پہلے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کے الجزیرہ ٹی وی چینل کو دیے جانے والے انٹرویو کا رد عمل ہے جس میں انھوں نے تقریباً یہ بتا دیا کہ اسامہ بن دلان کی موجودگی کے بارے میں آئی ایس آئی اور فوج کو علم تھا۔۔۔ لگتا یہی ہے کہ پردے کے پیچھے سے کوئی گفتگو ہو رہی ہے۔‘ اس رپورٹ کے تناظر میں امریکی اور پاکستانی سکیورٹی اسٹyبلشمنٹ کے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے عائشہ صدیقہ نے کہا کہ’یہ کھیل ہی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فوجیوں کے درمیان تھا جس میں امریکی فوج، سی آئی اے، پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس رپورٹ کے ذریعے فوجیوں اور ایجنسیوں کے درمیان پیغامات کا کوئی تبادلہ ہو رہا ہے یا کوئی گفتگو ہو رہی ہے جس کا ہم حصہ نہیں ہیں۔‘ امریکی حکام اسامہ کی لاش اپنے ساتھ لے گئے عائشہ صدیقہ کے مطابق یہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی نے اس رپورٹ سے پہلے ہی لندن میں لوگوں کو یہ بات کہہ دی ہو کہ پاکستان کو اس معاملے کا علم تھا کیونکہ وہ خود لندن میں منعقدہ اس سیمنیار میں شامل تھیں جس میں اسد درانی نے اسامہ کی موجودگی کے بارے میں بات کی تھی اس وقت انھیں یہ محسوس ہوا تھا کہ جنرل ریٹائرڈ درانی بظاہر کسی اور کو یہ پیغام دے رہے ہیں۔ سیمور ہرش کی رپورٹ پر ڈاکٹر عائشہ نے مزید کہا کہ اس سے امریکہ سے تعلقات پر شاید کوئی زیادہ اثر نہ پڑے لیکن ملک کے اندر لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال زور پیدا ہوا ہو گا کہ حقائق کیا ہیں جبکہ فوج کے اندر بھی سوالات کیے جائیں گے اور فوجی سربراہ پر دباؤ بھی بڑھ سکتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دو قدم پیچھے ہٹ جائیں۔ برطانیہ میں سابق پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ شاید کسی اور چیز پر پردہ ڈالنے کے لیے شائع کی گئی ہے لیکن اس میں چند حقائق پر اختلاف نہیں ہے جس میں یہ کہ اسامہ بن لادن کی پاکستان کی موجودگی کے بارے میں پاکستانی فوج کے علاوہ امریکی فوج بھی بخوبی آگاہ تھی۔ سیربین میں رپورٹ کے بارے میں بریگیڈئیر ریٹائرڈ سعد نے بھی واجد شمس الحسن کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ میں کچھ حقائق ہیں جبکہ باقی سب معلومات کو ایک فلمی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کو اسامہ بن لادن کی موجودگی کے بارے میں علم تھا اور فوج کی قیادت کی جانب سے اس واقعے پر اس وقت سخت ردعمل سامنے آیا جب فوج کے اندر اس واقعے پر غم و غصے کا اظہار کیا جانے لگا۔ تحقیقاتی صحافت کے معروف امریکی صحافی سیمور ہرش کی پاکستان میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں تلاش کرنے اور یکطرفہ آپریشن میں ہلاک کرنے کے بارے میں ایک نئی رپورٹ کے بعد اس آپریشن کے بارے میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ text: بی بی سی کے پشنس اتھوہیر نے ایک ایسی خاتون مودا کیتاارگابروے سے ملاقات کی جسے اس کے بھائی جزیرے پر مرنے کے لیے چھوڑ گیا تھا لیکن شادی کے متمنی ایک ملاح نے اسے بچا لیا تھا۔ یوگنڈا میں خاندان کی ’غیرت‘ کو پامال کرنے والی لڑکیوں کو اس جزیرے پر مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا مودا کیتا ارگابروے بتاتی ہیں: ’جب میں بارہ برس کی تھی تو میرے خاندان کو پتہ چلا کہ میں حاملہ ہو چکی ہوں۔ انھوں نے مجھے کشتی میں ڈال کر اکمپنی (سزا جزیرے) پر چھوڑ دیا۔ میں نے وہاں چار راتیں وہاں بغیر پانی اور خوراک کے گذاریں اور مجھے لگا کہ میرے موت واقع ہو جائے گی۔ پانچویں روز ایک ملاح آیا تو اس نے مجھے کہا کہ تم میرے ساتھ میرے گھر چلو۔ مجھے لگا کہ وہ مجھے دھوکہ دے کر کشتی میں بٹھا لےگا اور پھر گہرے پانیوں میں پھینک دے گا۔ جب میں ہچکچائی تو اس نے مجھے صاف صاف بتا دیا کہ وہ مجھے اپنی بیوی بنانے کے لیے بچا رہا ہے۔‘ مودا کیتاارگابروے اب اس جزیرے سے جہاں سے اسے مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا وہاں کشتی کے صرف دس منٹ کے سفر پر رہتی ہیں۔ مودا کیتاارگابروے کا اندازہ ہے کہ اس کی عمر اسی برس کے قریب ہے لیکن ان کے پوتے کا خیال ہے کہ ان کی عمر 106 برس ہے۔ یوگنڈا کی باکیگا معاشرے میں جوان عورت سے امید کی جاتی ہے کہ وہ شادی کے بعد ہی حاملہ ہو۔ اس سے اس کے خاندان کو اچھی قیمت ملتی تھی جو مال مویشیوں کی شکل میں ادا کی جاتی تھی۔ مودا کیتاارگابروے کا اندازہ ہے کہ اس کی عمر اسی برس کے قریب ہے لیکن ان کے پوتے کا خیال ہے کہ ان کی عمر 106 برس ہے۔ انیسویں صدی میں یوگنڈا پر انگریز راج کے باوجود یہ رواج جاری رہا۔ یوگنڈا میں پرانے زمانے میں عورتیں تیرنا نہیں جانتی تھیں اور اگر عورت اس جزیرے پر چھوڑ دی جائے تو اس کے پاس دو ہی راستے تھے یا تو وہ پانی میں چھلانگ لگا کر ڈوب جائے یا پھر بھوک پیاس سے مرنے کے لیے تیار رہے۔ لیکن اس جزیرے پر ساری عورتیں مرتی نہیں تھیں۔ کچھ نوجوان جن کے پاس بیوی خریدنے کے لیے رقم نہیں ہوتی تھی وہ اس جزیرے کا چکر لگاتے رہتے تھے اور اگر انھیں کوئی عورت مل جائے تو اسے بچا کر اسے شادی کر لیتے تھے۔ مودا کیتاارگابروے کے اس بچے کا کیا بنا جو اس کی کوکھ میں تھا جب اسے موت جزیرے پر چھوڑا گیا۔ مودا کیتاارگابروے اس سوال کا واضح جواب نہیں دیتیں لیکن اس کی باتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا حمل گرا دیا گیا تھا۔ وہ اس شخص کے بارے میں بتاتی ہیں جس نے اسے موت جزیرے بچایا تھا۔ 'وہ مجھ سے بہت محبت کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میں نے تمھیں بچایا اور تمھیں کوئی دکھ نہیں دوں گا۔ ہمارے ہاں چھ بچے پیدا ہوئے۔‘ مودا کیتاارگابروے اپنے پوتے کے ساتھ جو علاقے میں ٹورسٹ گائیڈ کے طور کام کرتا ہے مودا کیتاارگابروے کے شوہر کا 2001 میں انتقال ہو گیا ہے۔ مودا کیتاارگابروے کہتی ہیں کہ جب اس نے عیسائی مذہب قبول کر لیا تو اس نے اپنے خاندان کو اور خاص طور اس بھائی کو بھی معاف کر دیا ہے جس نے اسے مرنے کے لیے اس جزیرے پر چھوڑ دیا تھا۔۔ افریقی ملک یوگنڈا میں ایک زمانے میں اگر کوئی لڑکی شادی سے پہلے ہی حاملہ ہو جائے تو اسے خاندان کی بے عزتی تصور کیا جاتا تھا اور اسے مرنے کے لیے ایک چھوٹےجزیرے سے میں چھوڑ دیا جاتا تھا۔ text: ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق دنیا میں چین کے بعد سب سے زیادہ موت کی سزائیں ایران میں دی جاتی ہیں قتل کا یہ واقعہ سات برس قبل بازار میں ایک لڑائی کے دوران پیش آیا تھا۔ حال ہی میں جب بلال نامی مجرم کو 17 سالہ عبداللہ حسین زادہ کے قتل کے جرم میں سزائے موت دینے کے لیے پھانسی گھاٹ لایا گیا تو مقتول کی والدہ نے پہلے تو اسے ایک طمانچہ رسید کیا اور پھر معاف کر دیا جس سے اس کی جان بچ گئی۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق مقتول کے والد عبدالغنی حسین زادہ نے کہا ہے کہ پھانسی کی مقررہ تاریخ سے تین دن قبل ان کی اہلیہ نے خواب میں اپنے بیٹے کو دیکھا جس نے انھیں بتایا کہ وہ بہت اچھے حالات میں ہیں اور وہ بدلہ نہ لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بیٹے کو دیکھ کر ان کی اہلیہ پرسکون ہوگئیں اور پھر باہمی صلاح مشورے کے بعد انھوں نے بلال کو معاف کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ سرعام پھانسی کا عمل دیکھنے کے لیے جمع ہونے والے افراد نے اس سارے واقعے کو تصاویر کی شکل میں محفوظ کر لیا جو ایران میں فیس بک اور ٹوئٹر جیسی سماجی روابط کی ویب سائٹس کی مدد سے جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئیں۔ خیال رہے کہ حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق دنیا میں چین کے بعد سب سے زیادہ موت کی سزائیں ایران میں دی جاتی ہیں اور اکثر یہ عمل سرعام پھانسی کی شکل میں سرانجام دیا جاتا ہے۔ ایرانی قانون کے مطابق سزائے موت کے مجرم کو معاف کرنے کا اختیار صرف مقتول کے اہلِ خانہ کے پاس ہے تاہم وہ صرف موت کی سزا معاف کر سکتے ہیں اور مجرم کو پھر بھی قید بھگتنا پڑتی ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود ایرانیوں نے بلال کو معاف کیے جانے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے بہادرانہ اور قابلِ احترام قدم قرار دیا جبکہ کچھ لوگ قصاص کے نظام میں تبدیلی اور سزائے موت پر پابندی کا مطالبہ کرتے رہے۔ بہت سے افراد نے اس عمل کو ٹی وی میزبان عادل فردوس پور کی اپیل کا نتیجہ قرار دیا جنھوں نے اپنے پروگرام میں عوام سے بلال کو معافی دلوانے کے لیے پیغامات بھیجنے کو کہا تھا اور اس مہم کے دوران دس لاکھ سے زیادہ پیغامات موصول ہوئے تھے۔ ایران میں قتل کے جرم میں پھانسی سے چند لمحات قبل مجرم کو مقتول کے والدین کی جانب سے معاف کیے جانے کے واقعے کا ملک بھر میں چرچا ہے۔ text: سینیٹ کے متفقہ بیان میں اقوام متحدہ کی قرارداد اور عالمی عدالت کے باڑ کے بارے میں فیصلے کا خیر مقدم بھی کیا گیا ہے۔ حزب اختلاف کے سینیٹر رضا ربانی نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل کونسل نے بھاری اکثریت سے اسرائیلی باڑ مسمار کرنے کی قرار داد منظور کی ہے جس کا ایوان کو خیر مقدم کرنا چاہیے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ امریکہ سمیت دیگر ممالک جنہوں نے عالمی عدالت کے فیصلے اور اقوام متحدہ کی قرارداد کی مخالفت کی ہے ان کی مذمت کی جائے۔ حزب اختلاف کے سینیٹر ڈاکٹر اسماعیل بلیدی کا کہنا تھا کہ اسرائیل اقوام متحدہ کی قرار داد پر عمل درآمد نہ کرے تو پاکستان اسرائیل پر اقتصادی پابندیاں لگانے کے متعلق سلامتی کونسل میں معاملہ اٹھائے۔ حکومت کی جانب سے قائد ایوان وسیم سجاد نے حزب اختلاف کی تجویز کی مخالفت نہیں کی البتہ رضا ربانی کے بقول امریکہ اور دیگر کی مذمت کا نکتہ متفقہ ایوان کے بیان سے نکال دیا گیا۔ جس کے بعد افسر صدارت ڈپٹی چیئرمین سینیٹ خلیل الرحمٰن نے کہا کہ ایوان میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے لہٰذا ایوان سے متفقہ پیغام جانا چاہیے اور انہوں نے کہا کہ ’ یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ اسرائیلی باڑ کے خلاف عالمی عدالت کے حکم اور اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کی قرارداد پر فوری عمل کیا جائے۔ انہوں نے متفقہ بیان میں کہا کہ یہ ایوان اسرائیل کے توسیع پسندی کے عزائم کی مذمت بھی کرتا ہے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے بھاری اکثریت سے منظور کی گئی ایک قرارداد میں اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ وہ غرب اردن کے فلسطینی علاقوں کے درمیان بنائی جانیوالی اپنی باڑ مسمار کردے۔ اس قرارداد کے حق میں ایک سو پچاس ممالک نے ووٹ دیے جبکہ امریکہ سمیت چھ ملکوں نے اس کی مخالفت کی اور دس ارکان نے ووٹِنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ پاکستان کی پارلیمینٹ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ نے جمعرات کو اتفاق رائے سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیلی باڑ مسمار کرنے کے متعلق اقوام متحدہ کی قرارداد پر فوری عمل درآمد کیا جائے۔ text: سرحد اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل اور دیگر سیاسی جماعتوں نے استعفوں کا اعلان مؤخر کرتے ہوئے وزیراعلی سرحد کے خلاف دائر عدم اعتماد کی تحریک کا مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ قومی اسمبلی سے استعفٰی دینے والوں میں ایم ایم کے باسٹھ، مسلم لیگ نواز کے بیس، تحریکِ انصاف اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ایک، ایک جبکہ مسلم لیگ(ق) سے تعلق رکھنے والی دو خواتین رکن اسمبلی شہزادی عمر زادی ٹوانہ اور ڈاکٹر سائرہ طارق بھی شامل ہیں۔ جمیعت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حسین احمد ایک روز قبل جبکہ جماعت اسلامی کے سربراہ قاضی حسین احمد تیئس جولائی کو مستعفی ہوگئے تھے۔ اے پی ڈی ایم کے مرکزی رہنما پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے واقع پارلیمنٹ لاجز سے ایک جلوس کی شکل میں قومی اسمبلی گئے جہاں سپیکر قومی اسمبلی چودھری امیر حسین نے ان سے استعفے اپنے چیمبر میں وصول کیے۔پارلیمنٹ لاجز سے جلوس میں بڑی تعداد میں حزب اختلاف کے کارکن اپنی اپنی جماعتوں کے پرچم اٹھائے شامل تھے۔ اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی، رسول بخش پلیجو اور بلوچ قوم پرست سیاستدان عبدالحئی بلوچ بھی موجود تھے۔ یہ رہنما اور کارکن تمام راستے مشرف مخالف نعرہ بازی بھی کرتے رہے۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے سب سے پہلے اپنا استعفیٰ سپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کیا بعد میں قائد حزب اختلاف نے متحدہ متحدہ عمل کے ارکان اسمبلی کے استعفے اجتماعی طور پر سپیکر اسمبلی کے حوالے کیے۔ سپیکر کے چیمبر میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی رہنما لیاقت بلوچ نے استعفے پیش کرنے سے قبل ایک مختصر خطاب میں صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف چارج شیٹ پیش کی۔ صدر مشرف کے خلاف الزامات میں عریانی و بے حیائی کے علاوہ فوجی طاقت کا بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں استعمال اور لال مسجد کی بےحرمتی شامل تھے۔ اس کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنماجاوید ہاشمی نے اپنی پارٹی کے ارکانِ قومی اسمبلی کے استعفے سپیکر کے حوالے کیے۔اے پی ڈی ایم کے مرکزی رہنما محمود خان اچکزئی نے بھی اس موقع پر اپنا استعفی جمع کرایا۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جن بیس افراد کے استعفے جمع کوائے گئے ہیں ان میں سے تین افراد ایسے ہیں جو مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر رکن منتخب ہوئے تھے لیکن انہوں نے بعدازاں مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کر دیا تھا۔ ان اراکینِ اسمبلی میں علی حسن گیلانی ، بلال ورک اور اختر کانجو شامل ہیں۔ استعفے جمع کروانے کے بعد قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ان استعفوں کے بعد اب صدر کے انتخاب کی کوئی سیاسی یا اخلاقی اہمیت برقرار نہیں رہ جاتی اور’اراکین نے جمہوریت کے لیے سولہ کروڑ عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ قدم اٹھایا ہے‘۔ مولانا فضل الرحمان نے بعد میں اپنے چیمبر میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے میڈیا سےگلہ کیا کہ وہ انہیں اے پی ڈی ایم کی جانب سے استعفے پیش کرنے کی تاریخ میں چار روز کی تاخیر کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے تاہم اس کی وجہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والوں کی حتمی فہرست تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر مشرف کا حتمی امیدواروں کی فہرست میں نام آنے کے بعد ہی استعفے دینے کا جواز بنتا تھا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سرحد اسمبلی کی تحلیل اب بھی ممکن ہے اور اس میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی ہے۔ اس موقع پر جاوید ہاشمی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اے پی ڈی ایم کے خلاف پروپیگنڈے کے ذریعے اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم انہیں اس میں ناکامی ہوگی۔ انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ ان استعفوں سے سیاست کا رخ موڑنے میں مدد ملے گی۔ مشترکہ استعفوں پر انہوں نے جمیعت علمائے اسلام کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ سپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین جنہوں نے خود بھی صدارتی انتخاب میں صدر مشرف کے کورنگ امیدوار کے طور پر کاغذات جمع کرائے تھے کہنا تھا کہ وہ ابھی نہیں کہہ سکتے یہ استعفے کب منظور کیئے جائیں گے۔ حزب اختلاف سن دو ہزار چار سے بار بار جن استعفوں کی دھمکیاں حکومت کو دے رہی تھی آج بلاآخر اسے عملی جامہ پہنانے میں کامیاب رہی۔ جب اراکین اسمبلی قومی اسمبلی کے صدر دروازے پر صحافیوں کو تصاویر کے لیے اپنے استعفے دکھا رہے تھے تو ایک کارکن نے غصے میں آ کر کہا کہ’ آپ اپنا فیصلہ ایک مرتبہ پھر تبدیل کرنے سے قبل جا کر انہیں جمع کرا دیں‘۔ صدارتی انتخاب سے چار روز قبل اے پی ڈی ایم کے استعفوں کے بعد اب تمام نظریں پیپلز پارٹی پر لگی ہیں۔ بے نظیر کی صدارت میں لندن میں پارٹی کا کل سے دو روزہ اجلاس اپنے لائحہ عمل کے بارے میں حمتی فیصلہ کرے گا۔ حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی نے اپنے استعفے سپیکر کے پاس جمع کرا دیے ہیں۔اے پی ڈی ایم کی طرف سے 86 استعفے سپیکر قومی اسمبلی کو پیش کیے گئے جبکہ پنجاب میں چھیالیس، بلوچستان میں پچیس اور سندھ میں سات اراکینِ صوبائی اسمبلی نے استعفے دیے۔ text: امریکی آئین کے تحت نائب صدر اور کابینہ کی اکثریت مل کر صدر کو عہدے سے ہٹا سکتے ہیں سینیٹر چک شومر نے اپنے بیان میں کہا: 'امریکی کیپیٹل پر جو کچھ گذشتہ روز ہوا وہ امریکہ کے خلاف بغاوت تھی جس کے شہ صدر نے دی تھی۔ اس صدر کو مزید ایک دن بھی عہدے پر نہیں رہنا چاہیے۔' انھوں نے مزید کہا کہ نائب صدر مائیک پینس کو 25 ویں آئینی ترمیم کا استعمال کرنا چاہیے جس کے تحت اختیارات عارضی یا مستقل طور پر صدر سے نائب صدر کو منتقل ہوجاتے ہیں۔ انھوں نے کہا: 'اگر نائب صدر اور کابینہ اقدام کرنے سے انکار کرتے ہیں تو کانگریس کو دوبارہ اجلاس بلا کر صدر کا مواخذہ کرنا چاہیے۔' ایوانِ نمائندگان کی عدلیہ کمیٹی کے ڈیموکریٹ ارکان نے بھی نائب صدر پینس کو خط لکھا ہے اور ان پر ڈونلڈ ٹرمپ کو دفتر سے ہٹانے کے لیے زور دیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے لوگوں کو بغاوت پر اکسایا اور ان کا مقصد 'جمہوریت کو کمزور کرنا' تھا۔ یہ کام کیسے ہوگا؟ پچیسویں آئینی ترمیم کے تحت اگر مثال کے طور پر کسی جسمانی یا ذہنی بیماری کے باعث صدر اپنی ذمہ داریاں نہ نبھا پا رہے ہوں تو نائب صدر قائم مقام صدر بن سکتے ہیں۔ ترمیم کا جو حصہ زیرِ بحث ہے وہ اس کی شق چار ہے جس کے تحت نائب صدر اور کابینہ کی اکثریت مل کر صدر ٹرمپ کے بارے میں اعلان کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل نہیں رہے۔ اگر صدر ٹرمپ کے اختیارات سلب کر لیے جاتے ہیں تو مائیک پینس قائم مقام صدر بن جائیں گے انھیں سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کے سپیکرز کو ایک دستخط شدہ خط بھیجنا ہوگا جس میں صدر کو حکومت کے لیے نااہل یا پھر 'اپنے عہدے کی ذمہ داریاں اور اختیارات کے استعمال' سے معذور قرار دیا جائے گا۔ اس موقع پر نائب صدر مائیک پینس خود بخود اختیارات حاصل کر لیں گے۔ صدر کو ایک تحریری ردِعمل دینے کی پیشکش کی جاتی ہے اور اگر وہ اپنے خلاف اس الزام کو چیلنج کریں تو فیصلہ کرنے کی ذمہ داری کانگریس پر آ جاتی ہے۔ صدر کو ہٹانے کے لیے سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان میں ہونے والی کسی بھی ووٹنگ میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک یہ معاملہ حل نہیں ہوتا، تب تک نائب صدر ہی بطور صدر کام کریں گے۔ نینسی پیلوسی نے صدر ٹرمپ میں کورونا کے مرض کی تشخیص کے بعد 25 ویں ترمیم کی بنیاد پر نیا قانون متعارف کروایا تھا پچیسیویں ترمیم کے استعمال کے بارے میں بحث گذشتہ سال اکتوبر میں صدر ٹرمپ کو کورونا وائرس لاحق ہونے کے بعد بھی اٹھی تھی۔ اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ صدر شاید اتنے بیمار ہوں کہ ملک نہ چلا سکیں۔ اسے دوران ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی نے 25 ویں ترمیم کی بنا پر ایک قانون متعارف کروایا تھا جس کے تحت صدر کی اپنے عہدے لیے موزونیت پرکھنے کے لیے ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا۔ کیا اسے پہلے بھی استعمال کیا جا چکا ہے؟ پچیسویں ترمیم کی منظوری 1967 میں صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے چار سال بعد دی گئی تھی۔ اس کا مقصد صدر کے ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہوجانے پر صدارتی جانشین کا تعین کرنا تھا۔ رپبلکن صدر رونلڈ ریگن نے 1985 میں کینسر سرجری کے دوران آٹھ گپنٹوں کے لیے اپنے اختیارات نائب صدر کو منتقل کر دیے تھے پچیسیویں ترمیم کے استعمال کے بارے میں بحث گذشتہ سال اکتوبر میں صدر ٹرمپ کو کورونا وائرس لاحق ہونے کے بعد بھی اٹھی تھی۔ اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ صدر شاید اتنے بیمار ہوں کہ ملک نہ چلا سکیں۔ اسے دوران ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی نے 25 ویں ترمیم کی بنا پر ایک قانون متعارف کروایا تھا جس کے تحت صدر کی اپنے عہدے لیے موزونیت پرکھنے کے لیے ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا۔ کیا اسے پہلے بھی استعمال کیا جا چکا ہے؟ پچیسویں ترمیم کی منظوری 1967 میں صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے چار سال بعد دی گئی تھی۔ اس کا مقصد صدر کے ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہوجانے پر صدارتی جانشین کا تعین کرنا تھا۔ اور اسی لیے کئی صدور نے اس ترمیم اور بالخصوص اس کی دفعہ نمبر تین کا استعمال کیا ہے جس کے تحت وہ اپنے نائب صدور کو عارضی طور پر اختیارات منتقل کر سکتے ہیں۔ سنہ 2002 اور 2007 میں صدر جارج بش اپنے نائب صدر کو اختیارات تفویض کر دیا کرتے جب انھیں اپنی بڑی آنت کے معمول کے معائنوں کے لیے بے ہوش کیا جاتا۔ صدر رونلڈ ریگن نے بھی 1985 میں یہی کیا تھا جب انھیں کینسر کی سرجری کے لیے ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ مگر آج تک کسی صدر کو پچیسویں ترمیم کا استعمال کرتے ہوئے مستقل طور پر نہیں ہٹایا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کو اور کس طریقے سے عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے؟ صدر کا ایک بار پھر مواخذہ کرنے کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔ ریاست منیسوٹا سے ڈیموکریٹ کانگریس رکن الہان عمر نے اعلان کیا کہ وہ صدر کے خلاف مواخذے کے لیے مواد اکٹھا کر رہی ہیں اور کئی ڈیموکریٹس نے اس حوالے سے حمایت کا اظہار کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا دسمبر 2019 میں ایک بار پہلے بھی ڈیموکریٹ اکثریت والے ایوانِ نمائندگان کی جانب سے مواخذہ کیا جا چکا ہے۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے دوبارہ منتخب ہونے کے امکانات بڑھانے کے لیے یوکرین سے نامناسب طور پر مدد مانگی۔ ان پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور کانگریس کا راستہ روکنے کے لیے الزامات دو عائد کیے گئے تھے مگر رپبلکن اکثریتی سینیٹ نے انھیں بری کر دیا تھا۔ تاریخ میں وہ تیسرے امریکی صدر ہیں جن کا مواخذہ کیا گیا ہے۔ مواخذے کا مطلب کانگریس میں ایسے الزامات پیش کرنا ہے جن کی بنا پر صدر کا ٹرائل کیا جا سکے۔ امریکی آئین کے تحت صدر کو 'غداری، رشوت خوری، یا دیگر بڑے جرائم یا غلط رویوں کی بنا پر مواخذہ مکمل ہونے پر دفتر سے ہٹایا جا سکتا ہے۔' لیکن یہ کوئی فوجداری کارروائی نہیں بلکہ صرف ایک سیاسی کارروائی ہوتی ہے۔ اس کے دو مراحل ہوتے ہیں۔ الزامات ایوانِ نمائندگان میں پیش کیے جاتے ہیں اور اگر یہ وہاں سے منظور ہو جائیں تو انھیں ٹرائل کے لیے سینیٹ بھیجا جاتا ہے۔ مگر یہاں صدر کو عہدے سے ہٹانے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ سنگِ میل امریکی تاریخ میں آج تک عبور نہیں کیا گیا ہے۔ اگر صدر ٹرمپ کو مواخذے کے ذریعے ہٹا دیا جاتا ہے تو نائب صدر مائیک پینس صدر کے عہدے پر فائز ہوجائیں گے۔ کسی بھی صدر کو دورانِ صدارت دو مرتبہ مواخذے کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ اس حوالے سے بھی سوالات موجود ہیں کہ چونکہ صدر ٹرمپ کے عہدے کی مدت 20 جنوری کو ختم ہو رہی ہے، تو کیا ان کے مواخذے کے لیے وقت کافی ہے بھی یا نہیں۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب وائٹ ہاؤس میں دو ہفتوں سے بھی کم کے مہمان رہ گئے ہیں مگر سینیٹ میں ڈیموکریٹس کے رہنما نے بدھ کو کیپیٹل ہل پر ان کے حامیوں کے حملے کے بعد مطالبہ کیا ہے کہ ان کے صدارتی اختیارات فوری طور پر ختم کر دیے جائیں۔ text: یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وزارت خارجہ کی طرف سے شاید کوئی بیان منگل کی شام تک جاری کیا جا ئے لیکن وہاں سے بھی ابھی تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے بس اتنا کہا تھا کہ ’کوئی ردعمل نہیں،۔ ملک کے سبھی اخبارات نے پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کا بیان نمایاں طور پر شائع کیا ہے۔ بعض اخبارات نے اسے اسلام آباد کے موقف ميں تبدیلی سے تعبیر کیا ہے۔ روونامہ ہندوستان ٹا‏ئمز نے لکھا ہے کہ محترمہ اسلم نے اپنے اس بیان سے کہ ’کشمیر پاکستان کا اٹوٹ حصہ نہیں ہے‘ صدر پرويز مشرف کے حالیہ بیان کا تضاد پیش کیا ہے۔ ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں صدر مشرف سے پو چھا گیا تھا کہ کیا پاکستان کشمیر پراپنے دعوے سے دست بردار ہو رہا ہے تو انہوں نے جواب دیا تھا’ہمیں دستبردار ہونا پڑے گا۔ جی ہاں اگر میرے (چار نکاتی فارمولے ) حل پر اتفاق ہو جائے۔‘ اخبار کا کہنا ہے اس بیان سے واضح ہے کہ پاکستان اس وقت تک کشمیر پر دعویدار تھا لیکن محترمہ تسنیم کے اس بیان سےصدر کے بیان کی تردید ہوتی ہے۔ خود اخبار نے بے یقینی کے انداز میں سرخی لگائی ہے ’پاکستانی اہلکار کا بیا ن‘ جبکہ عمومی حالت میں یہ سرخی ' پاکستان کا بیان‘ ہوتی ہے۔ سیاسی حلقوں میں دفتر خارجہ کے بیان پرسبھی کوحیرت ہوئی ہے لیکن کسی طرح کے بیان سےگریز کیا گیا ہے۔ اس بیان کو ہندوستان کے نقطہ نظر سے موزوں سمجھا جا رہا ہے۔اس لیے کئی مبصرین کا خیال ہے کہ اس پر بیان دے کر کسی طرح کی غیر ضروری پیچیدگی پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس بات پر بھی حیرت ظاہر کی جا رہی ہے کہ پہلے تو صدر مشرف اور اب دفتر خارجہ کی طرف سے ’بولڈ ‘ نوعیت کے بیان دیے جا رہے ہیں۔ سیاسی حلقوں میں اس کی ٹائمنگ کے بارے میں بھی کئی طرح کی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بیانات امریکہ کے دباؤ میں دیۓ جا رہے ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے طرف سے کشمیر سے متعلق بیان پر ہندوستان کی جانب سے کسی طرح کا بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ text: اس ہڑتال کا سب سے زیادہ اثر ائر ٹریفک پر پڑا ہے جس کے سبب درجنوں پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔ بیمہ کمپنیوں اور بینکوں میں کام رکنے سے تجارتی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ ملک میں پہلی بار ائرپورٹ اتھارٹی آف انڈیا کے تقریباً بیس ہزار ملازم ہڑتال پرگئے ہیں۔ حکومت نے ممبئی اور دلی ائر پورٹ کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہےاور یہ ہڑتال اسی کی مخالفت میں کی گئی ہے۔ دیگر شعبے کےایک لاکھ سے زائد ملازمین بھی بعض سرکاری کمپنیوں کی نجکاری اور حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہڑتال پر ہیں۔ پرائیویٹ ہوائی کمپنیوں نے اپنی پروازیں منسوخ کر دی ہیں اور ہڑتال کا اثر تقریباً تمام ہوائی اڈوں پر دیکھاگیا ہے۔ حیدرآباد سے جانے والے بیشتر ہوائی جہاز کھڑے رہے جبکہ کولکتہ کے لیے صرف انڈین ائر لائنز کی ہی پروازیں جا سکیں باقی سبھی کمپنیوں کی پروازیں مختلف ہوائی اڈوں پر منسوخ کرنی پڑی ہیں۔ صبح کے وقت دلی ائر پورٹ پرائر ٹریفک بہت ہی سست تھا۔ ہڑتال سے نمٹنے کے لیے حکومت نے فضائیہ اور بحری عملے کو طلب کیا ہے لیکن جس پیمانے پر پروازوں کی آمد و رفت میں خلل پڑا ہے، فوج کے اس عملے سےکوئی خاص مدد نہیں مل سکی ہے۔ ائر ٹریفک کنٹرولر اسٹاف نے اس ہڑتال میں حصّہ نہیں لیا ہے اور وہ فضائیہ و بحری حکام کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ بینک اور بیمہ کمپنیوں میں کام کاج رکنے سے تجارتی و صنعتی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ ہڑتال کا سب سے زیادہ اثر کولکتہ اور کیرالہ میں ہے جہاں عام زندگی رک سی گئی ہے۔ ان ریاستوں میں سکول اور سرکاری دفاتر پوری طرح بند ہیں اور ٹیکسی اور بسيں بھی سڑکوں پر موجود نہیں۔ بعض علاقوں میں ریل گاڑیوں کی آمدورفت بھی متاثر ہوئی ہے۔ مرکز میں کانگریس کی قیادت میں یو پی اے حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد مزدور یونیونوں کی جانب سے یہ پہلی ملک گیر ہڑتال ہے۔ ائر پورٹ اتھارٹی کے جنرل سیکرٹری ایم این گھوشال کا کہنا ہے کہ’ نجکاری کے نام پر حکومت ائر پورٹوں کو نجی کمپنیوں کے ہاتھ بیچنا چاہتی ہے جبکہ سرکاری ملازم یہ کام خود کرسکتے ہیں۔ ہر برس حکومت کو کئی سو کروڑ روپے کا فائدہ ہوتا ہے اور حکومت کے نئے قدم سے یہ فائدہ نجی کمپنیوں کو ہوگا‘۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ نجی کاری کا فیصلہ ہوائی اڈوں کی بہتری کے لیے کیا گیا ہے تاکہ وہ بین الاقوامی معیار پر پورا اتر سکیں۔ مستقبل میں پروازوں میں اضافہ ہوگا جس کے لیے بہتر سہولیات کی ضرورت ہے۔ ہندوستان میں اقتصادی اصلاحات کے عمل کے بعد اقتصادی سرگرمیوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ آج ہی کابینہ نے ائرانڈیا کو مزید تینتالیس ہوائی جہاز خریدنے کو منظوری دی ہے اور موجودہ ہوائی اڈے نہ صرف نا کافی ہیں بلکہ انہیں جدید بنانے کی بھی سخت ضرورت ہے۔ حکومت یہ کام نجی شعبے کو دینا چاہتی ہے کیونکہ پچاس برس کے سرکاری کنٹرول کے بعد حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اب اس میں نجی زمرے کی شمولیت ضروری ہے لیکن بائیں بازو اور مزدور یونینز اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعت بی جے پی نےآج کی ہڑتال کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ بائیں بازو کی جماعتیں آئندہ برس کے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر اس طرح کی غیر ضروری ہڑتال کرہی ہیں۔ بی جے پی نے مطالبہ کیا ہے کہ اس ہڑتال سے کئی ارب روپے کا نقصان ہوا ہے اور وہ ان جماعتوں سے وصول کیا جائے۔ بھارت میں ائرپورٹ اتھارٹی آف انڈیا اور بینک ملازمین کی ملک گیر ہڑتال سے شعبہ شہری ہوابازی اور بینکوں کا کام کاج بری طرح متاثر ہوا ہے۔ text: گیتا سنہ 2003 میں غلطی سے سرحد کر کے پاکستان آگئی تھیں بی بی سی کے نمائندے شاہ زیب جیلانی سے گفتگو میں ایدھی فاؤنڈیشن کی انتظامیہ میں شامل فیصل ایدھی نے بتایا کہ سنہ 2013 کے بعد اب ایک بار پھر بھارتی حکام نے گیتا سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان میں رہنے والی گیتا بجرنگی بھائی جان کی تلاش؟ ان کا کہنا تھا کہ غلطی سے سرحد پار کر کے بھارت سے پاکستان آنے والی گیتا کو سنہ 2003 میں پاکستان کے سرحدی حکام نے ان کے حوالے کیا تھا۔ سرحدی حکام نے ایدھی فاؤنڈیشن سے کہا تھا کہ بچی گونگی اور بہری ہے اس لیے آپ قونصلیٹ سے یا بھارتی حکومت سے رابطہ کر کے اسے بھارت پہنچا دیں۔ ’ اگر ہم اسے عدالتی چکروں میں ڈالیں گے تو یہ ساری عمر جیل میں پڑی رہے گی۔‘ فیصل ایدھی کے مطابق ان کے ادارے نے گیتا کی حوالگی کے لیے متعدد بار بھارتی حکومت کو لکھا لیکن کوئی رد عمل نہیں ملا۔ گیتا نہ بول سکتی ہیں اور نہ ہی سن سکتی ہیں تاہم وہ ہندی سے ملتی جلتی ایک زبان میں اپنی کہانی لکھتی ہیں ان کا مزید کہنا تھا کہ سنہ 2013 میں جب گیتا کا معاملہ میڈیا میں اٹھا تو بھارتی سفارت خانے سے ایک نمائندہ گیتا سے ملنے آیا تھا: ’ بھارتی ایمبیسی سے آنے والے نمائندے نے کہا کہ گیتا کے پاس چونکہ کوئی دستاویز نہیں ہے اس لیے انھیں جیل میں ڈالنا پڑے گا، پھر وہ دن ہے اور آج کا دن ہے بھارتی سفارت خانے سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔‘ ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق گیتا سے ملنے کے لیے بہت سے بھارتی وفد پاکستان آتے تھے اور ان کی تصاویر بناتے تھے اور ان کی کتابیں بھی لے کر جاتے تھے۔ فیصل ایدھی کا دعویٰ ہے کہ گیتا کی کہانی کو چوری کیا گیا اور ’بجرنگی بھائی جان‘ فلم انھی کی کہانی سے متاثر ہو کر بنائی گئی، سرمایہ کاروں نے پیسہ کمایا لیکن گیتا کو گھر پہنچانے میں مدد نہیں کی۔‘ گیتا کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ہندی سے ملتی جلتی ایک زبان میں لکھتی ہیں۔ فیصل ایدھی کہتے ہیں کہ یہ بھارتی ریاست جھارکھنڈ کے جنوب میں ایک زبان مندرائی سے ملتی جلتی زبان ہے۔ اب اگلا قدم کیا ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں ایدھی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ بھارتی ہائی کمشن نے آج ہی ان سے رابطہ کیا ہے اور آئندہ چند روز میں گیتا سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ وہ گیتا کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق گیتا نامی بھارتی لڑکی کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں بھارتی حکومت پہلے سے آگاہ تھی۔ text: اسرائیل کے وزیر دفاع موفاز شال نےاسرائیلی ریڈیو کو بتایا کہ حماس اور اسلامی جہاد فلسطینی رہنمامحمود عباس کے ساتھ مذاکرات میں اس بات پر رضامند ہو گئے ہیں کہ وہ امن مذاکرات کے دوران اسرائیل کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے۔ ابھی تک فلسطینی گروہوں کی طرف سے اس معاہدہ کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ اسرائیلی وزیر دفاع کے مطابق جنگ بندی کے جواب میں محمود عباس نے دونوں گروہوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ انہیں مستقبل میں فلسطینی انتظامیہ میں شامل کیا جائےگا۔ اس سے قبل گذشتہ روزمسلح مزاحمت کرنے والے ایک گروپ نے کہا تھا کہ اگر اسرائیل حملے نہ کرنے پر متفق ہوتا ہے تو وہ بھی اسرائیل سے جنگ بندی کے لیے تیار ہے۔ الاقصیٰ شہدا بریگیڈ نے کہا ہے کہ ’اگر مفاہمت دو طرفہ ہوتی ہے‘ تو وہ بھی مفاہمت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ یاسر عرفات کا جانشین منتخب ہونے کے بعد سے فلسطینی رہنما محمود عباس یہ کوشش کر رہے ہیں کہ فلسطینی شدت پسندوں کو اسرائیل پر حملے نہ کرنے پر آمادہ کر لیں۔ محمود عباس خود بھی مسلح جدو جہد پر یقین رکھنے والےفلسطینیوں کے ایک گروپ الفتح سے تعلق رکھتے ہیں اور اس گروپ نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے۔ الفتح نے اس کے علاوہ اسرائیلی فوجی حملے بند کرنے اور فلسطینی علاقوں سے اسرائیل کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ محمودعباس دو شدت پسند فلسطینی گروہوں سے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کی ضمانت لینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ text: بلوچ مزاحمت کاروں کے پہاڑوں پر ٹھکانے ہیں سابقِ صدر پرویز مشرف کے بعد موجودہ حکومت سے توقع تھی کہ بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کیا جائے گا لیکن بقول مبصرین کے اس حکومت کے پاس بلوچستان کے مسئلے کے حل کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے۔ بلوچ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکمرانوں کی معافیاں اور بلوچستان پیکج منافقت ہے۔بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی وفاق کے حامی تھے اور آخر دم تک ان کی یہی کوشش تھی کہ مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کیے جائیں۔ پرویز مشرف کے دور میں آپریشن شروع ہونے سے پہلے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا لیکن پھر ٹینک اور توپخانے پہنچنے کے بعد نواب اکبر بگٹی کے بیانات میں بھی تلخی نظر آنے لگی اور ان کی طرف سے ایسے بیانات بھی دیے کہ توپوں اور ٹینکوں کے ذریعے اگر مذاکرات ہوتے ہیں تو ہاں وہ ہو رہے ہیں۔ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو میں فوجی آپریشن سے پہلے اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے پہلے ماضی کی زیادتیوں پر بلوچوں سے معافی مانگی اور پھر فوجی کارروائی کا آغاز کر دیا تھا جسے انھوں نے کامیاب قرار دیا تھا۔ یہ تو تھے بلوچستان میں دسمبر سن دو ہزار پانچ میں شروع کیے گئے آپریشن سے پہلے اور اس آپریشن کے دوران کے حالات لیکن اب حالات یکسر مختلف ہیں۔ پانچ برس میں بلوچستان کے حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کے بلوچستان پیکج کو قوم پرست رہنما ڈھونگ قرار دیتے ہیں۔ بلوچ ریپبلکن پارٹی کے رہنما ڈاکٹر حکیم لہڑی نے ٹیلیفون پر بی بی سی کو بتایا کہ’ صدر زرداری اور وزیر اعظم کے پاس مذاکرات کرنےکا اختیار نہیں ہے اور ہمارے حکمران فوج اور خفیہ ایجنسیاں ہیں۔‘ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دیگر صوبوں خاص طور پر صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہدف بنا کر قتل کرنے کی کارروائیاں شروع ہوئیں تو بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کر گئے۔ اب کچھ عرصہ سے بلوچوں کی بھی لاشیں مل رہی ہیں۔ اس بارے میں ڈاکٹر حکیم لہڑی نے کہا کہ یہ جنگ بلوچوں پر مسلط کی گئی ہے اور بلوچ اپنے دفاع میں لڑ رہے ہیں۔ اگر ہر گھر میں لاشیں پہنچیں گی تو باقی لوگ خوفزدہ نہیں ہوں گے بلکہ وہ ان لوگوں سے ملیں گے جو پہاڑوں پر پہلے سے موجود ہیں۔ اس بارے میں پنجاب حکومت کے ترجمان اور مسلم لیگ نواز کے رہنما پرویز رشید سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنانا پنجاب کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے کیونکہ پاکستان کے آئین اور قانون میں ہے کہ ہر پاکستانی کہیں بھی جا کر کام کر سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں میں محرومیاں ہیں اور غصہ ہے اور کسی بھی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی ہے۔ پرویز رشید کے مطابق بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ابتدائی طور پر ان جماعتوں یا قوتوں سے بات چیت شروع کی جائے جو آزادی نہیں بلکہ وفاق کے حامی ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آگے چل کر یہ قوتیں بھی ان لوگوں کے زیادہ قریب ہو جائیں جو آزادی چاہتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد موجودہ حکومت کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آتے تھے کہ ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کیے جائیں گے لیکن ان رہنماؤں نے کہا کہ ان سے کسی نے رابطہ نہیں کیا ہے بلکہ ان رہنماؤں نے کہا کہ وہ بلوچستان کی آزادی چاہتے ہیں۔ اس ساری صورتحال کے بارے میں بلوچستان کے سینئر صحافی انور ساجدی کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں یا تو کی نہیں گئیں یا انھیں کرنے نہیں دی گئیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ معاملہ ان قوتوں کے پاس ہے جو اسے نیشنل سکیورٹی کا مسئلہ سمجھتے ہیں اس لیے وفاقی حکومت کو اس میں مداخلت کی اجازت نہیں ہے۔ بلوچستان میں اس وقت خوف کی فضا پائی جاتی ہے صوبے کے مختلف علاقوں میں کہیں دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہے تو کہیں بلوچوں کی لاشیں مل رہی ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے اس طرح کی صورتحال میں کشیدگی میں اضافہ ہو گا اور وہ لوگ بھی جو اب تک سیاسی سطح پر اپنے حقوق کی باتیں کر رہے تھے ہو سکتا ہے کہ وہ ان قوتوں کے ساتھ ہو جائیں جو مسلح جدو جہد کر رہی ہیں۔ بلوچستان میں پانچ سال پہلے شروع کیے گئے مبینہ فوجی آپریشن کے بعد سے اب تک حالات بظاہر مسلسل خراب ہو رہے ہیں۔ text: انہوں نے کہا کہ وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ہر سطح پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ آصف زرداری نے سولہ اپریل کو دبئی سے لاہور پہنچنے کے بعد لاہور چھاؤنی میں واقع اپنے گھر بلاول ہاؤس ٹو میں پہلی بار لاہور کے میڈیا سے پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس موقع پر پیپلزپارٹی پارلیمینٹرین کے چیئرمین مخدوم امین فہیم اور پارٹی کے دوسرے سرکردہ رہنما بھی موجود تھے۔ فوری عام انتخابات، وفاق کو لاحق خطرہ اور فوجی اسٹیبلیشمنٹ سے مذاکرات وہ تین باتیں تھیں جو زرداری بار بار اپنی پریس کانفرنس میں کہتے رہے۔ آصف زرداری نے کہا کہ انتخابات کے بعد ایک سال تو نئی حکومت کو سنبھلنے میں لگ جاتا ہے اور وہ دو سال بعد کچھ کرنے کے قابل ہوتی ہے لیکن اگر الیکشن ہوجائیں تو بڑے بڑے مسائل فوراً حل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ وہ الیکشن کے بدلے پرویز مشرف کو صدر تسلیم کرلیں گے تو انہوں نے کہا کہ صدر پرویزمشرف کے بارے میں کوئی فیصلہ نومنتخب پارلیمنٹ کرے گی۔ پیپلزپارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ملک کے وفاق کی سلامتی خطرہ میں ہے اور وہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسی سال آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کرائے جائیں۔ text: ’اس حوالے سے مزید تحقیق ہونے کی ضرورت ہے کہ اگر کمرہ روشن نہ ہو تو اس سے وزن میں کمی ہو گی یا نہیں‘ لندن کے کینسر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اگر خواتین ایسے کمرے میں سوئیں جہاں اتنی روشنی ہو کہ پورے کمرے کو دیکھا جا سکے تو ان کی کمر بڑھ جاتی ہے۔ تاہم تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ ابھی اس تحقیق کے حوالے سے وہ لوگوں کو کمرے میں موٹے پردے ڈالنے یا روشنی گُل کر کے سونے کا مشورہ نہیں دیں گے۔ اس تحقیق کے لیے کینسر ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے ایک لاکھ تیرہ ہزار خواتین سے سوالات پوچھے۔ اس سروے میں خواتین سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے سونے والے کمرے کی وضاحت کیسے کریں گی 1) اتنی روشنی ہوتی ہے کہ پڑھا جا سکے 2) روشن ہوتا ہے لیکن اتنا نہیں کہ پڑھا جاسکے 3) اتنا روشن ہوتا ہے کہ کمرے میں دیکھا جاسکے لیکن پڑھا نہیں 4) اتنا روشن ہوتا ہے کہ اپنا ہاتھ دیکھا جاسکتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاسکتا 5) بالکل اندھیرا ہوتا ہے یا پھر آنکھوں پر ماسک پہن کر سوتی ہیں کینسر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر اینتھنی سورڈلو نے بی بی سی کو بتایا ’اس سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ رات کو روشن کمرے میں سونے اور وزن میں اضافے کا ربط ہے۔ تاہم اس حوالے سے مزید تحقیق ہونے کی ضرورت ہے کہ اگر کمرہ روشن نہ ہو تو اس سے وزن میں کمی ہو گی یا نہیں۔‘ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ روشنی باڈی کلاک میں خلل پیدا کرتی ہے۔ سرے سلیپ سینٹر کے مطابق اس میں کوئی قباہت نہیں اگر بیڈ روم میں مکمل اندھیرا کر کے سویا جائے۔ ’لوگوں کو اکثر نہیں پتہ چلتا کہ ان کا بیڈروم روشن ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ لوگ اپنے بیڈ روم کا دوبارہ معائنہ کریں اور دیکھیں کہ مکمل اندھیرے میں سونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔‘ ایک تازہ برطانوی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ روشن کمرے میں سونے سے وزن میں اضافہ ہوتا ہے۔ text: دہشت گردی کے خلاف بنائے گئے نئے قانون (Terrorism Act) کے تحت اس بڑی کارروائی میں ڈھائی سو پولیس اہلکاروں نے حصہ لیا۔ گولی لگنے والے نوجوان کو بعد میں گرفتار کر کے ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے جہاں اس کے حالت خطرے سے باہر ہے۔ اس کے علاوہ ایک دوسرے بیس سالہ نوجوان کو بھی موقعہ سے گرفتار کیا گیا ہے اور اطلاعات کے مطابق مرکزی لندن کے ایک تھانے میں اس سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ پولیس کے مطابق جمعہ کی کارروائی کا گزشتہ جولائی میں ہونے والے لندن دھماکوں سے تعلق نہیں ہے۔ چھاپے کی کارروائی کی تفصیل بتاتے ہوئے لندن کی میٹ پولیس کے دہشتگردی کے خلاف کام کرنے والے شعبہ کے سربراہ نے بتایا کہ یہ کارروائی ’خاص خفیہ معلومات‘ کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ پیٹر کلارک نے کہا کہ کارروائی بہت سوچ سمجھ کر کی گئی ہے تاکہ اس بات کا پتہ لگایا جا سکے کہ آیا خفیہ معلومات درست تھیں یا غلط۔ بی بی سی کے برطانیہ کے داخلی امور کے نامہ نگار ڈینیل سینفورڈ کے مطابق مشرق لندن میں کی جانے والی کارروائی دہشت گردی کے خلاف سال رواں کی سب سے اہم کارروائی ہے۔ زخمی ہو جانے والے نوجوان کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ اسے دہشگردی کی مالی معاونت کرنے کے علاوہ دہشتگردی کے عمل کی تیاری اور دوسروں کو دہشتگردی پر اکسانے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق ان دو نوجوانوں کے گھر کی تلاشی میں کئی دن لگیں گے۔ بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ مشرقی لندن میں جمعہ کی کارروائی اس اطلاع کے بعد کی گئی ہے جس کے مطابق بین الاقوامی دہشتگردی کی سازش میں برطانیہ کو نشانہ بنایا جانا تھا۔ دوسری جانب سیکورٹی اداروں کے مطابق اس کارروائی سے پہلے کئی ماہ تک علاقے کی نگرانی کی گئی تھی۔ جمعہ کے روز مشرقی لندن میں مبینہ دہشت گردوں پر ایک گھر پر چھاپے کے دوران ایک تئیس سالہ نوجوان کو گولی مار دی گئی ہے۔ text: بریڈفورڈ کی رہائشی خدیجہ، صغریٰ اور زہرا داؤد اور ان کے نو بچے ایک ہفتہ قبل لاپتہ ہوگئے تھے ویسٹ یارکشائر پولیس نے بتایا ہے کہ انھیں موصولہ معلومات کے مطابق ایک خاتون نے اپنے خاندان کے ساتھ ’رابطہ کیا‘ ہے اور اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ شام کی سرحد میں داخل چکی ہیں۔ بریڈفورڈ کی رہائشی خدیجہ، صغریٰ اور زہرا داؤد اور ان کے تین سے 15 سال کی عمر کے درمیان نو بچے ایک ہفتہ قبل لاپتہ ہوگئے تھے۔ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان کے بھائی شام میں انتہا پسندوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ اسسٹنٹ چیف کانسٹیبل رس فوسٹر کا کہنا ہے: ’ہمیں اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ برطانیہ میں ان کے خاندان کے ساتھ رابطہ کیا گیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لاپتہ ہونے والوں میں سے ایک بالغ فرد شام میں ہو سکتا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا: ’لاپتہ ہونے والی خواتین میں سے ایک خاتون نے رابطہ کیا ہے اور یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ شام کی سرحد میں داخل ہو چکی ہیں لیکن ابھی تک یہ غیرمصدقہ اطلاع ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ انھیں خاندان کے تحفظ اور بالخصوص بچوں کے بارے میں ’بہت زیادہ تشویش‘ ہے۔ اس سے قبل منگل کو تینوں بہنوں کے شوہروں نے ایک جذباتی اپیل کی تھی جس میں انھیںواپس لوٹ آنے کا کہا گیا تھا۔ واضح رہے کہ دو بچوں کی والدہ 30 سالہ خدیجہ داؤد، پانچ بچوں کی ماں 34 سالہ صغریٰ داؤد اور دو بچوں کی والدہ 33 سالہ زہرا داؤد سعودی عرب میں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے گئی تھیں اور بعدازاں وہ بچوں سمیت لاپتہ ہوگئیں۔ منگل کو تینوں بہنوں کے شوہروں نے ایک جذباتی اپیل کی تھی جس میں انھیں واپس لوٹ آنے کا کہا گیا تھا انھوں نے 28 مئی کو سعودی عرب کے شہر مدینہ کا سفر کیا اور آخری بار ایک ہوٹل میں دیکھی گئی تھیں۔ انھیں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے بعد مانچسٹر واپس لوٹنا تھا لیکن واپس نہ پہنچنے پر دو بہنوں کے شوہروں اختر اقبال اور محمد شعیب نے ان کے لاپتہ ہونے کی اطلاع دی۔ انھوں نے آخری بار اپنے بچوں سے آٹھ جون کو بات کی تھی۔ تیسری بہن کے شوہر پاکستان میں ہیں۔ تینوں بہنوں نے بچوں کے ساتھ نو جون کو براستہ استنبول واپس آنا تھا۔ اس سے پہلے تک ایک ہفتے تک ان خواتین کا اپنے خاندان کا کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔ واضح رہے کہ شام جانے والے افراد اکثر ترکی کے راستے وہاں پہنچتے ہیں۔ برطانوی پولیس نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ لاپتہ ہونے والی تین برطانوی بہنوں اور ان کے نو بچوں میں سے ایک بہن شاید شام پہنچ چکی ہے۔ text: پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ابوظہبی میں کھیلا جانے والا ٹیسٹ میچ یاسر شاہ کا ستائیس واں ٹیسٹ ہے جس میں انہوں نے اپنے ٹیسٹ کریئر کی ایک سو پچاس ویں وکٹ تھری مانے کو ایل بی ڈبلیو کرکے حاصل کی۔ اس سے قبل کسی اسپنر کا سب سے کم ٹیسٹ میچز کھیل کر ایک سو پچاس وکٹیں مکمل کرنے کا ریکارڈ آسٹریلیا کے کلیری گریمیٹ کے پاس تھا جنہوں نے اٹھائیس ٹیسٹ میچوں میں یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔ ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے کم ٹیسٹ میچوں میں ایک سو پچاس وکٹیں حاصل کرنے کا ریکارڈ انگلینڈ کے تیز بولر سڈ بارنس کا ہے جنہوں نے چوبیس ٹیسٹ میچز میں یہ سنگ میل عبور کیا۔ یاسر شاہ سپنر اور تیز بولر کی مشترکہ فہرست میں بھی دوسرے نمبر پر ہیں ۔ وقاریونس اور انہوں نے ایک سو پچاس وکٹیں ستائیس ٹیسٹ میچوں میں مکمل کی ہیں۔ وقت کے اعتبار سے سب سے کم عرصے میں ایک سو پچاس وکٹیں مکمل کرنے والے بولرز میں یاسر شاہ تیسرے نمبر پر ہیں ۔ انہوں نے دو سال اور تین سو اکتالیس دن میں یہ ایک سو پچاس وکٹیں مکمل کی ہیں ۔ صرف دو بولرز آسٹریلیا کے مچل جانسن اور انگلینڈ کے گریم سوآن ان سے کم وقت میں ایک سو پچاس وکٹیں مکمل کرچکے ہیں۔ پاکستانی لیگ اسپنر یاسر شاہ سب سے کم ٹیسٹ میچوں میں ایک سو پچاس وکٹیں حاصل کرنے والے سپنر بن گئے ہیں۔ text: گزشتہ پیر کو ایک ٹی وی چینل پر ان اراکین کو ایک خفیہ ویڈیو میں پارلیمنٹ میں مخصوص سوالات پوچھنے کے لیے رشوت لیتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ معاملے کے سامنے آنے کے بعد لوک سبھا کے سپیکر سوم ناتھ چیٹر جی نے ویڈیو ریکارڈنگ کی سچائی جاننے کے لیے ایک کمیٹی بنائی تھی اور تحقیقات مکمل ہونے تک متعلقہ ارکان کے پارلیمنٹ میں داخل ہونے پر پابندی بھی لگا دی گئی تھا۔ راجیہ سبھا میں بھی اس معاملے کی تحقیق کرنے والی کمیٹی نے سکینڈل میں ملوث واحد رکن کو معطل کر دیا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا جب ’ کوبرا پوسٹ‘ نامی ویب سائٹ اور ’ آج تک‘ ٹی وی چینل نے ایک خفیہ کیمرے کے ذریعے ارکان پارلیمان کو رشوت لیتے ہوئے دکھایا۔ رشوت لینے والوں میں سے دس لوک سبھا اور ایک راجیہ سبھا کے رکن ہیں۔ ان میں سے چھ اراکین کا تعلق بی جے پی سے ہے جب کہ تین ارکان بہو جن سماج پارٹی اور ایک ایک رکن کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل سے تعلق رکھتے ہیں۔اس سلسلے میں بی جے پی، کانگریس اور بہوجن سماج پارٹی اپنے متعلقہ ارکان کو پہلے ہی معطل کر چکی ہیں۔ پارلیمانی کمیٹیوں نے اگر خفیہ ریکارڈنگ کو صحیح پایا تو وہ سزا کے طور پر ان ارکان کی پارلیمنٹ کی رکنیت ایک مخصوص مدت کے لیے معطل کرنے سے لےکر انہیں پارلیمنٹ سے نکالنے تک کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جس طرح ان ارکان پارلیمان کو رشوت لیتے ہوئے ملک میں ٹیلی وژن پر دکھایا گیا ہے یہ کمیٹیاں پارلیمنٹ کے وقار کے لیے شاید ان ارکان کو پارلیمنٹ سے نکالنے کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔ رشوت سکینڈل میں ملوث لوک سبھا کے تمام دس اراکین نے اپنے اپنے جواب اور وضاحتیں اس معاملے کی تحقیق کرنے والی کمیٹی کے سامنے پیش کردی ہیں۔ text: سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے مجرمان کے خلاف مقدمات کی تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے مجرموں کے خلاف مقدمات کی تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں۔ جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے منگل کے روز وفاق کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کی سماعت کی جس کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بیچ سے استدعا کی کہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کیا جائے۔ یاد رہے کہ جون 2020 میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے فوجی عدالتوں کی طرف سے مختلف الزامات کے تحت سزاؤں کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 196 افراد کی سزائیں کالعدم قرار دے دی تھیں، جبکہ مزید ایک سو سے زیادہ مقدمات کا ریکارڈ طلب کیا گیا تھا۔ یہ بھی پڑھیے ’جسٹس وقار احمد سیٹھ کے فیصلے بولتے ہیں‘ ملک کو اب بھی فوجی عدالتوں کی ضرورت ہے: فواد چوہدری فوجی عدالتوں کی طرف سے 196 افراد کو دی گئی سزائیں کالعدم منگل کے روز سپریم کورٹ میں اس معاملے میں ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ فوجی عدالتوں سے ٹرائل کے بعد مجرمان کو سزا ہوئی ہے تو ہر کیس کے اپنے شواہد اور حقائق ہوں گے۔ رواں برس جون میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 196 افراد کی سزائیں کالعدم قرار دے دی تھیں اُنھوں نے ایڈشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا مجرمان پشاور ہائی کورٹ کے رہائی کے فیصلے کے بعد جیلوں میں ہیں؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو اگاہ کیا کہ مجرمان جیلوں میں ہیں تاہم اُنھوں نے عدالت سے استدعا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کیا جائے۔ وفاق کی درخواست پر آئندہ سماعت 24جولائی کو ہوگی۔ پشاور ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کیا ہے؟ جون میں مختصر فیصلہ سنانے کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے رواں ماہ یعنی جولائی میں 426 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا جس میں 196 افراد کی گرفتاریوں سے لے کر حراستی مراکز میں ان کی قید اور فوجی عدالتوں میں ان کے مقدمات کی سماعت کا ذکر ہے۔ پشاور ہائی کورٹ میں فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے تقریباً 300 سے زیادہ افراد کی اپیلیں زیرِ سماعت تھیں لیکن پشاور ہائی کورٹ نے صرف اُن اپیلوں پر فیصلہ سنایا تھا جن کے مکمل ریکارڈ عدالت کو فراہم کر دیے گئے تھے۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ملزمان کو شفاف ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا، یہاں تک کہ ملزمان کو اپنا وکیل رکھنے کا موقع بھی فراہم نہیں کیا جو کہ آئین کے آرٹیکل 10 اور 10 اے کی خلاف ورزی ہے۔ اس فیصلے میں لکھا گیا تھا کہ یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ درخواست گزاروں یا جنھیں سزا سنائی گئی انھیں دنیا سے الگ تھلگ رکھا گیا، یہاں تک کہ انھیں خاندان کے افراد، والدین اور وکیلوں تک بھی اس وقت تک رسائی فراہم نہیں کی گئی جب تک کہ حراست کے دوران ان کا فیصلہ نہیں سنا دیا گیا۔ پشاور ہائی کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ ان ملزمان کو ملٹری کورٹس میں شفاف ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا (فائل فوٹو) اس فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ پاکستان آرمی کے رول 82، 83 اور 87 جنھیں رول 23 اور 24 کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے، میں واضح طور پر لکھا ہے کہ جس شخص کے خلاف مقدمہ فوجی عدالت میں زیر سماعت ہو، اسے دفاع کے لیے وکیل کرنے کی اجازت ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ پشاور ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں لکھا گیا کہ مقدمے کا سارا انحصار ملزمان یا جنھیں سزا سنائی گئی ہے ان کے اعترافی بیان پر مشتمل ہے جو ان ملزمان سے حراست کے دوران جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے لیا گیا ہے جو (جوڈیشل مجسٹریٹ) اس کا مجاز نہیں تھا۔ پشاور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ جنھیں سزا سنائی گئی ہے ان کے خلاف براہ راست نہ تو کوئی شکایت کہیں سامنے لائی گئی ہے، نہ کوئی ایف آئی آر درج ہے اور نہ ہی کوئی ایسی تفتیش سامنے لائی گئی ہے جس سے ملزمان یا جنھیں سزا سنائی گئی ہے ان کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کو تقویت مل سکتی، اس لیے یہ واضح ہوتا ہے کہ تمام کارروائی آرمی ایکٹ/رول کے خلاف کی گئی ہے اور دیگر بنیادی حقوق اور انصاف کے تقاضوں پر عمل کرنا تو دور کی بات ہے۔ پاکستان کی عدالت عظمی نے پشاور ہائی کورٹ کے اس حالیہ فیصلے کو معطل کر دیا ہے جس میں فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے 196 افراد کی سزاؤں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔ text: اسرائیلی اخبارات میں شائع ہونے والی خبر پر بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے محتاط رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس بارے میں سرکاری طور پر مطلع نہیں کیا گیا اور وہ اس پر رد عمل ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نےواضح کیا کہ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات نہیں ہیں اور اگر ایسا فیصلہ اسرائیل نے کیا ہے تو یہ ان کے اپنے تجارتی اداروں کے لیے ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں مزید بات کرنے کے لیے وزارت تجارت سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا۔ لیکن جب سیکریٹری تجارت آصف شاہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ براہ راست اسرائیل سے تجارت پر پابندی کی پرانی صورتحال برقرار ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان اور اسرائیل کے مابین پہلے بھی چھوٹے پیمانے پر تجارت ہوتی رہی ہے اور سنہ 1995 میں پانچ اعشاریہ چھ ملین ڈالر کا سامان پاکستان سے اسرائیل نے درآمد کیا تھا، تو آصف شاہ نے کہا کہ وہ تجارت بالواسطہ ہوئی ہوگی۔ جب انہیں بتایا گیا کہ اسرائیل سلے ہوئے کپڑے پاکستان سے درآمد کرتا رہا ہے اور پاکستان سے نصف ملین ڈالر کا سامان بھی سن پچیانوے میں برآمد کیا تھا، تو اس کے جواب میں سیکریٹری تجارت نے کہا کہ یہ تجارت کبھی بھی براہ راست نہیں رہی اور اس ضمن میں کبھی کسی اسرائیلی کمپنی نے ’ایل سی‘ نہیں کھولی۔ واضح رہے کہ منگل کے روز اسرائیلی اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ صنعت اور روزگار کے اسرائیلی وزیر ایہود المرت نے اسرائیل کی درآمدی پالیسی میں ایک ترمیمی دستاویز پر پیر کو دستخط کیے ہیں۔ اس شرط کے خاتمے کے بعد مبصرین امید ظاہر کر رہے ہیں کہ اسرائیلی تاجر پاکستان سے بڑے پیمانے پر کپڑے درآمد کریں گے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حال ہے کہ یہ فیصلہ دونوں ممالک کے وزراء خارجہ کی ترکی میں ہونے والی پہلی ملاقات کا مثبت نتیجہ ہے اور اس سے براہ راست تجارتی تعلقات کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ اسرائیل کے ایک اخبار ’ہارٹز‘ نے لکھا ہے کہ تجارت کی راہ ہموار کرنے کے اس اسرائیلی فیصلے کو پاکستان سے دوستانہ تعلقات کی طرف ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اسرائیلی وزارتِ خارجہ ایسے اقدامات سے یہ اشارہ دینا چاہ رہی ہے کہ اسرائیل ایشیا کے سب سے بڑے مسلم ملک سے تجارتی تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے پاکستان سے درآمدات کے لیے تجارتی اداروں پر عائد لائسنس کی پابندی اٹھانے کے فیصلے سے حکومتِ پاکستان کو سرکاری طور پر آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔ text: فرانس کے اخبار لی فگار کے ڈپٹی ایڈیٹر چارلس لیمبروسشینی کہتے ہیں کہ دوسرا گروپ یرغمال فرانسی صحافیوں کو رہا کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ فرانس کے وزیرِ ثقافت اور مواصلات نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ یرغمالیوں کو ایک دوسرے گروپ کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے۔ اس سے قبل فرانس کے وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ دونوں فرانسیسی صحیح سلامت ہیں۔ اغوا کاروں نے یرغمالیوں کی رہائی فرانس حکومت کے حجاب پر پابندی کے قانون کے خاتمے سے مشروط کر دی تھی۔ سنتیس سالہ کرسچین چیسناٹ جن کا تعلق ریڈیو سے ہے اور اکتالیس سالہ جیورج میلبروناٹ جن کا تعلق اخبار لی فگار سے ہے اگست کو عراق میں کام کے دوران اغوا کر لیے گئے تھے۔ بی بی سی کے نامہ نگار پال وڈ کاکہنا ہے کہ فرانس کی اپنے شہریوں کو رہا کرانے کی کوششوں کو عرب اور مسلمان دنیا میں بہت زیادہ پزیرائی حاصل ہوئی ہے جس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ فرانس امریکہ کی سالاری میں عالمی فوج کا حصہ نہیں بنا۔ لی فگار کے ڈپٹی ایڈیٹر چارلس لیمبروسشینی کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے فرانسیسیوں کو اغوا کیا تھا وہ غیر عراقی اسلامی بنیاد پرست ہیں جنہوں نے اب صحافیوں کو دوسرے گروپ کے حوالے کر دیا ہے۔ لیمبروسشینی کا کہنا تھا کہ دونوں گروپوں کے درمیان اس مسئلے پر جھگڑا بھی ہوا ہے۔ تاہم ان کا خیال ہے کہ دنوں فرانسیسیوں کو جمعہ یا ہفتے تک رہا کر دیا جائے گا۔ فرانس نے اپنے صحافیوں کی رہائی کے لیے زبردست سفارتی کوششیں کی ہیں اور جمعرات کو یرغمالیوں کا ایک گروپ کے قبضے سے نکل کر دوسرے گروپ کے ہاتھوں میں چلا جانا جو ان کی رہائی پر آمادہ ہے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ فرانس کے اہم مسلمان رہنماؤں نے بھی مذاکرات میں شرکت کی۔ عراق میں دو فرانسیسی اخبار نویسوں کو اغوا کرنے والے گروہ نے یرغمال صحافیوں کو ایک دوسرے گروپ کے حوالے کر دیا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یرغمالیوں کو آزاد کرنے پر تیار ہے۔ text: امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ہلری کلنٹن نے پینیسلونیا میں فتح حاصل کر لی ہے لیکن کتنی سبقت حاصل کی وہ ابھی مکمل طور پر واضح نہیں ہے۔ ابتدائی اندازوں کے ہلری کلنٹن نے پرائمری ووٹنگ میں چون فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ باراک اوبامہ کو چھیالیس فیصد ووٹ ملے۔ مبصرین کے مطابق پینیسلونیا کی پرائمری ووٹنگ میں ہلری کلنٹن کی فتح کے باوجود باراک اوبامہ کے ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار بننے کے امکانات ہلری کلنٹن سے اب بھی بہتر ہیں۔ پینیسلونیا پرائمری ووٹنگ سے پہلے باراک اوبامہ کو ایک سو اڑتیس مندوبین کی برتری حاصل تھی جو اب کم ہوگی لیکن پھر بھی ہلری کلنٹن سے زیادہ ہے۔ امریکہ میں نومبر میں صدارتی انتخاب ہونے ہیں لیکن ڈیموکریٹک پارٹی ابھی تک اپنے امیدوار کا انتخاب نہیں کر پائی ہے۔ پینیسلوینا میں ہلری کلنٹن کی فتخ کے بعد ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار کا فیصلہ سپر مندوب اگست میں کریں گے۔ پینیسلونیا آخری بڑی پرائمری ریاست تھی۔اطلاعات کے مطابق بھاری تعداد میں لوگوں نے ووٹ ڈالے ہیں۔ ڈیمریٹ امیدوار کو پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے دوہزار پچیس مندوبین کی ضرورت ہے۔ باراک اوبامہ کے مندوبین کی تعداد 1645 ہے جبکہ ہلری کلنٹن کے مندوبین کی تعداد 1507 ہے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار کی نامزدگی کی دوڑ میں ہلری کلنٹن نے پینیسلونیا پرائمری میں اپنے حریف باراک اوبامہ کو شکست دے دی ہے۔ text: رہائی کے فوراً بعد نہال ہاشمی کی جانب سے عدلیہ کے لیے ایک مرتبہ پھر انتہائی سخت زبان استعمال کی گئی نہال ہاشمی کو سپریم کورٹ نے گذشتہ ماہ توہینِ عدالت کے جرم کا مرتکب پاتے ہوئے ایک ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی جو 28 فروری کو مکمل ہوئی تھی۔ تاہم رہائی کے فوراً بعد نہال ہاشمی کی جانب سے عدلیہ کے لیے ایک مرتبہ پھر انتہائی سخت زبان استعمال کی گئی۔ مزید پڑھیے نہال ہاشمی کو مسلم لیگ ن سے نکال دیا گیا ’سپریم کورٹ کے جج کے ریمارکس افسوسناک ہیں‘ دھمکیاں دی جا رہی ہیں لیکن ڈرنے والے نہیں:سپریم کورٹ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے منگل کو نہال ہاشمی کی جانب سے توہینِ عدالت کے مقدمے میں سنائی گئی سزا کے خلاف نظرِثانی کی اپیل کی سماعت کی۔ نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نہال ہاشمی نے جیل سے رہائی کے بعد ججوں کے خلاف قابل اعتراض زبان استعمال کی ہے۔ عدالت نے ان کے وکیل کامران مرتضیٰ سے دریافت کیا کہ آیا انھوں نے اپنے موکل کا رہائی کے بعد دیا گیا بیان سنا ہے۔ ان کے انکار کے بعد چیف جسٹس کے حکم پر نہال ہاشمی کی ویڈیو چلائی گئی۔ اس پر نہال ہاشمی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جو الفاظ استعمال کیے گئے وہ ان پر شرمندہ اور معافی کے طلبگار ہیں تاہم عدالت کا کہنا تھا کہ ان کی معافی کی ضرورت نہیں بلکہ نہال ہاشمی خود آ کر وضاحت کریں۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ نہال ہاشمی نے خود اپنے لیے یہ راستہ چنا ہے، لہٰذا وہ خود ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت بدھ سات مارچ تک کے لیے ملتوی کر دی۔ خیال رہے کہ اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کی میڈیا اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو کا ہی ازخود نوٹس لیا تھا جس میں انھیں پاناما لیکس کیس میں تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کو دھمکیاں دیتے سنا جا سکتا تھا۔ اسی ویڈیو پر انھیں توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی اور پانچ برس کے لیے کسی بھی عوامی عہدہ سنبھالنے کے لیے نااہل بھی قرار دیا گیا تھا۔ نہال ہاشمی وہ دوسرے رکنِ پارلیمان ہیں جنھیں توہینِ عدالت کے کیس میں سزا سنائی گئی۔ اس سے قبل سنہ 2012 میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی توہینِ عدالت کا مرتکب پایا گیا تھا۔ نہال ہاشمی کون ہیں؟ آصف فاروقی، بی بی سی اردو مسلم لیگ ن میں سینیٹر نہال ہاشمی کی پہچان متوسط طبقے سے تعلق اور نواز شریف کے ساتھ بے لوث وابستگی ہے۔ وہ اس وقت مسلم لیگ ن اور نواز شریف کے ساتھ کھڑے تھے جب سندھ اور بالخصوص کراچی میں ان کی جماعت کے نام لیوا بہت کم تھے اور جو یا تو جیل میں تھے یا جیل جانے سے بچنے کے لیے چھپتے پھرتے تھے۔ ایسے وقت میں نہال ہاشمی، جو کہ کراچی میں ذیلی عدالتوں میں وکالت کرتے تھے، طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں نواز شریف کی عدالت حاضری کے وقت ان کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ نہال ہاشمی نواز شریف کے قریب تو بہت تھے لیکن کبھی بھی ان کے سنجیدہ مشاورتی حلقے میں شامل نہیں رہے۔ وجہ اس کی، ان کے مزاج کا سیلانی پن بتایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ پارٹی میٹنگز میں بھی بعض اوقات ایسی بات کر جاتے جس پر ان کے علاوہ شرکا کو بھی خفت کا سامنا کرنا پڑتا۔ یہی جذباتی پن بلآخر ان کے جیل جانے کا باعث بنا۔ گذشتہ سال جب مئی میں انھوں نے پاناما کیس کے دوران اس کیس کی تفتیش کرنے والے جے آئی ٹی اور عدلیہ کے ارکان کے بارے میں توہین اور دھمکی آمیز تقریر کی، تو مسلم لیگ ن نے ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے سینیٹ سے استعفیٰ طلب کیا۔ انہوں نے استعفیٰ دینے سے انکار کیا اور نواز شریف سے ملاقات کا وقت مانگا جو انھیں نہیں ملا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کٹھن وقت میں انھیں مسلم لیگ کی صرف ایک خاتون شخصیت کی حمایت حاصل رہ گئی تھی جو اس وقت پارٹی میں دوسری اہم ترین فرد سمجھی جاتی ہیں۔ پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے توہینِ عدالت کے مقدمے میں سزایافتہ سابق سینیٹر نہال ہاشمی کو سزا کی مدت مکمل ہونے کے فوراً بعد ایک مرتبہ پھر عدلیہ مخالف تقریر پر وضاحت کے لیے انھیں بدھ کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔ text: چین کے صدر شت جن پنگ روس کے ساتھ تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں امریکی صدر براک اوباما اور یورپی یونین ریڈ سکوئر پر ہونے والی تقریب میں یوکرین میں روسی کے کردار پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے دور رہیں گے۔ دیگر آٹوکریٹس کے علاوہ شمالی کوریا کے کم جونگ ان، ازبکستان کے اسلام کریموف اور چین کے صدر شی جن پنگ مہمانانِ اعزاز ہوں گے۔ ماضی قریب میں صدر پوتن ’یورایشن وژن‘ کو پروموٹ کرتے رہے تھے، اس یونین کا احاطہ ’ڈبلن سے ولادی وستوک تک‘ ہو سکتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے یوکرین کا تنازع بڑھ رہا ہے اور امریکہ کی جانب سے ایک سال سے روس کے خلاف پابندیاں عائد ہیں، ایسی صورت حال میں گذشتہ نصف صدی میں چین اور روس اتنا قریب پہلے کبھی نہیں آئے۔ چین نے یوکرین میں روسی مداخلت کی مذمت نہیں کی چین میں روسی سفارت کار آندرے ڈینیسوف کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ برس صدر پوتن اور صدر شی نے پانچ بار ملاقات کی۔ رواں برس بھی کم سے کم وہ اتنی ہی بار ملیں گے۔ اس سے سیاسی بات چیت کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔‘ صدر شی جن پنگ اور صدر پوتن خود کو ’اچھا دوست‘ کہتے ہیں۔ دونوں رہنما خود کو طاقت ور رہنما کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں جو اپنے شاندار ماضی کی طرح تعمیرنو کریں گے۔ لیکن سفارت کار سے میری ملاقات سفارت خانے کے اسی کمرے میں ہو رہی تھی جہاں چیئرمین ماؤ سویت یونین کے نکیتا خروشیف سے سنہ 1959 میں ملے تھے، اور سفارت کار نے یہ امر تسلیم کیا کہ اس موقعے پر مسکراہٹوں اور نرم لہجے کے باوجود تعلقات میں کشیدگی متوقع تھی، جس کے بعد ماسکو اور بیجنگ تقریباً دو دہائیوں تک دشمن بنے رہے۔ چیئرمین ماؤ نے سویت یونین کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کو بھانپ لیا تھا تاہم آج کل بیجنگ کی خارجہ پالیسی حقیقت پسندی کو نظریے سے زیادہ اہمیت دے رہی ہے۔ چین کی سفارت کار ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات بڑھتی ہوئی خلیج کو چین کے حق میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور یوکرین کے تنازعے نے یہ نادر موقع فراہم کیا ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی کی بنیادی اصول خودمختاری، علاقائی سالمیت اور عدم مداخلت پر مبنی ہیں۔ اگر یہی اصول چین کی خارجہ پالیسی چلا رہے ہیں تو روس کی جانب سے یوکرین میں کارروائیوں پر اس کی مذمت کی توقع کی جا سکتی ہے۔ تاہم سب اہم پہلو یہ ہے کہ دوستوں کو سرعام تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ نکیتا خروشیف چین کو دشمن سمجھتے تھے یوکرین اور روس کے دومیان بیجنگ نے کسی ایک کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اسی ماہ روسی ذرائع ابلاغ میں چین کے وزیرخارجہ کا یہ بیان شائع کیا گیا تھا: ’یوکرین کے تنازعے پر چین کا موقف غیرجانبدار ہے۔ شروع سے ہی ہم اس بار پر زور دے رہے ہیں کہ اس کا سیاسی طور پر حل پیش کیا جائے۔‘ درحقیت یوکرین کے تنازعے کے باعث چین کو اپنے قومی مفادات کو بڑھانے کا موقع ملا ہے۔ یورپ میں دوست ممالک کی برہمی سے ماسکو کو مشرق میں دوستوں اور منڈیوں کی تلاش تھی اور گذشتہ سال مئی میں اس نے چین کے ساتھ چار کھرب ڈالر پر مشتمل 30 سالہ گیس معاہدہ کیا ہے۔ چین کو قدرتی ذرائع کے لیے روس کی ضرورت ہے اور اب روس اس پروجیکٹ میں شامل ہے۔ صدر شی جن پنگ سٹریٹیجک فوجی مہمات کے علاوہ سٹریٹیجک اقتصادی مہمات کی جانب بڑھ رہے ہیں، جس میں وسطی ایشیا میں سلک روڈ اقتصادی بیلٹ اوراس کے متوازی جنوب مشرقی ایشیا میں میری ٹائم سلک روٹ شامل ہیں۔ امریکہ کو چین اور روس کی بڑھتی ہوئی قربت سے بظاہر تشویش نہیں ہے دوسری جانب صدر اوباما کا ٹرانس پیسیفک پروجیکٹ (ٹی پی پی) واشنگٹن کی کانگریسی سیاست کی نذر ہوگیا ہے۔ اوباما انتظامیہ کے پاس وقت بہت کم ہے اور اس کی توجہ اب صدارتی انتخابات کی طرف مرکوز ہو رہی ہے۔ علاقائی اتحادیوں کو خدشہ ہے کہ امریکہ چین کی طرف سے پیش کردہ چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ تاہم امریکہ کو چین اور روس کی بڑھتی ہوئی قربت سے بظاہر تشویش نہیں ہے۔ امریکی صدر اوباما نے گذشتہ اگست میں جریدے اکنامسٹ کو بتایا تھا: ’روس سمجھتا ہے کہ وہ ژانوس کی طرح مشرق اور مغرب دونوں جانب دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ صدر پوتن روس میں ایک گہرے داغ کی نمائندگی کرتے ہیں اور شاید یہ طویل المدت تناظر میں روس کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔۔۔ لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اس کو نقطہ نظر کو اس کے تناظر میں سمجھنا اہم ہے۔‘ اگلے ماہ مغربی ممالک کے سربراہ دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کی کامیابی کی 70 ویں برسی کے موقعے پر روسی صدر ولادی میر پوتن کی فوجی پریڈ میں واضح طور پر شرکت نہیں کریں گے۔ text: مصباح الحق کے مطابق وہ ریکارڈز کے لیے نہیں کھیلتے لیکن جو بھی سنگ میل اور ریکارڈ بناتے ہیں اس پر خوشی ضرور ہوتی ہے ابوظہبی ٹیسٹ میں 113 رنز کی جیت اور سیریز اپنے نام کرنے کے بعد مصباح الحق کا کہنا ہے کہ جو ٹیم بھی ٹیسٹ میچ جیتا کرتی ہے اس سے اس کی اہمیت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور انھیں خوشی ہے کہ ان کے بولرز ان وکٹوں پر چیلنج قبول کر رہے ہیں جو بولرز کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوتیں۔ مصباح الحق نے کہا کہ وہ اپنی ٹیم کی کارکردگی اور جس طرح وہ میچ جیت رہی ہے اس سے بالکل مطمئن ہیں۔ مصباح الحق نے عمران خان کے سب سے زیادہ ٹیسٹ میچوں میں کپتانی کا ریکارڈ برابر کرنے کے بارے میں کہا کہ وہ ریکارڈز کے لیے نہیں کھیلتے لیکن ’جو بھی سنگ میل اور ریکارڈ آپ بناتے ہیں اس پر خوشی ضرور ہوتی ہے‘ تاہم انھیں زیادہ خوشی یہ میچ اور سیریز جیتنے کی ہے۔ مصباح الحق نے کہا کہ پاکستانی ٹیم کی اصل قوت اس وقت سپن بولنگ ہے اور یاسر شاہ ایک ورلڈ کلاس سپنر ہیں اسی لیے وہ توقع رکھتے ہیں کہ ٹرننگ وکٹ ملے لیکن اس میچ کی وکٹ پانچویں دن بھی زیادہ ٹرن نہیں لے رہی تھی اس لحاظ سے وہ اپنے بولرز کی تعریف کریں گے کہ ایک فلیٹ وکٹ پر انہوں نے عمدہ بولنگ کی۔ مصباح الحق نے کہا کہ انہیں موجودہ ویسٹ انڈین ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر مایوسی ہوئی ہے کیونکہ سب کو ماضی میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی شاندار کارکردگی کا بخوبی اندازہ ہے لیکن اب وہ زوال کا شکار ہے اس کی وجہ اس کے کھلاڑیوں کا انٹرنیشنل کرکٹ کا زیادہ تجربہ نہ ہونا ہے۔ مصباح کے خیال میں یاسر شاہ جیسے بولر کے لیے بھی بہت مشکل ہے کہ پہلی اننگز میں 30 سے زائد اوورز کے بعد دوسری اننگز میں بھی آرام کے بغیر 40 اوورز کرائے اس کے چند کھلاڑی اچھے ہیں لیکن جوں جوں وہ کھیلتے جائیں گے انہیں تجربہ حاصل ہو گا اور ہر کوئی ایک مضبوط ویسٹ انڈین ٹیم کو دیکھنا چاہتا ہے۔ اپنی کپتانی میں پانچویں بار حریف ٹیم کو فالوآن پر مجبور نہ کیے جانے کے بارے میں مصباح الحق کا کہنا ہے کہ اس کا سبب اپنے جسم اور پوری ٹیم کو بھی بچانا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ پہلی اننگز میں تقریباً سو اوورز کی فیلڈنگ کے بعد تھکاوٹ کے ساتھ دوبارہ بولنگ اور فیلڈنگ کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ یاسر شاہ جیسے بولر کے لیے بھی بہت مشکل ہے کہ پہلی اننگز میں 30 سے زائد اوورز کے بعد دوسری اننگز میں بھی آرام کے بغیر 40 اوورز کرائے۔ اس کے علاوہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ میچ کے چوتھے اور پانچویں دن وکٹ مزید خراب ہوتی ہے جس کا فائدہ بولرز کو ہوتا ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق اپنے کھلاڑیوں کی کارکردگی پر نازاں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ خوشی کی بات یہ ہے کہ ٹیم کا ہر کھلاڑی جیت میں اپنا کردار بخوبی نبھارہا ہے۔ text: کرد جنگجوؤں نے چار ماہ تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد رواں برس جنوری میں کوبانی سے دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کو مار بھگایا تھا ان حملوں کا آغاز شام اور ترکی کی سرحد پر واقع شہر کے قریب ایک خودکش کار بم دھماکے سے ہوا۔ شام میں حقوقِ انسانی پر نظر رکھنے والی ایک تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ کوبانی کے مرکزی علاقے میں دولتِ اسلامیہ اور کرد فورسز کے جنگجوؤں کے مابین شدید لڑائی ہو رہی ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجو شمال مشرقی شام میں حصاکہ نامی شہر میں بھی داخل ہوئے ہیں اور حکومتی افواج سے شہر کے دو اہم حصوں کا کنٹرول چھین لیا ہے۔ دی سیریئن آبزرویٹري فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ کوبانی میں جاری شدید لڑائی میں متعدد افراد مارے گئے ہیں۔ کرد جنگجوؤں نے امریکی فضائیہ کے حملوں کی مدد سے چار ماہ تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد رواں برس جنوری میں کوبانی سے دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کو مار بھگایا تھا۔ کوبانی سے دولتِ اسلامیہ کے انخلا کو ایک علامتی شکست کے طور پر دیکھا گیا تھا اور کوبانی سے نکلنے کے بعد انھیں کرد جنگجوؤں کے ہاتھوں کئی دیگر محاذوں پر بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ شام اور ترکی کی سرحد پر واقع کوبانی جنگ کے نتیجے میں تباہ ہو چکا ہے رواں ہفتے ہی كردش پاپولر پروٹیکشن یونٹس کی افواج نے دولتِ اسلامیہ کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقے رقہ کے نزدیک واقع اہم قصبے عین العیسیٰ اور فوجی اڈے پر قبضے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس سے پہلے کرد افواج نے تل ابیض پر قبضہ کر کے دولتِ اسلامیہ کی فوج کی رسد کا راستہ بھی بند کر دیا تھا۔ سیریئن آبزرویٹري فار ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر رمی عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں نے سرحدی راہگزر کے نزدیک ایک خودکش حملہ کیا جس میں پانچ افراد مارے گئے۔ رمی عبدالرحمان کے مطابق اس دھماکے کے بعد بدھ کو کوبانی شہر کے مرکزی علاقوں میں شدید جھڑپیں شروع ہوگئیں اور گلیاں لاشوں سے اٹ گئیں۔ انھوں نے کہا کہ جھڑپوں کا سلسلہ جمعرات کو بھی جاری ہے۔ تنظیم نے شمال مشرقی شام میں کوبانی سے270 کلومیٹر دور واقع قصبے حصاکہ میں بھی جھڑپوں میں بھاری جانی نقصان کی خبر دی ہے۔ دولتِ اسلامیہ کے جنگجو کئی ماہ سے حصاکہ پر قبضہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ کوبانی کی جنگ کو امریکہ کی سربراہی والے اتحاد کے لیے ایک اہم ٹیسٹ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ اتحادی طیارے دولتِ اسلامیہ کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کر کے اسے پسپا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شام سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں نے سرحدی شہر کوبانی پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے حملے کیے ہیں۔ text: مقامی صحافی دلاور خان وزیر کے مطابق محرر کی ہلاکت کا واقعہ وانا بازار میں اس وقت پیش آیا جب پولیٹکل محرر عنایت اللہ خاصہ دار فورس کی نگرانی میں ٹانک سے وانا جا رہے تھے کہ مسلح نقاب پوشوں نے ان کی گاڑی پر اندھادھند فائرنگ کر دی۔ فائرنگ کے نتیجے میں پولیٹکل محرر اور خاصہ دار فورس کے چار اہلکار موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ ایک اہلکار شدید زخمی ہو گیا جسے وانا ہیڈکوراٹر ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔ ادھر شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کے دوران مزاحمت کاروں نے حملہ کر کے خاصہ دار فورس کے ایک اہلکار کو ہلاک جبکہ چھ فوجیوں کو زخمی کر دیا۔ قبائلی مزاحمت کاروں کی جانب سے یہ حملہ خطی کلے نامی گاؤں میں آپریشن کے دوران کیا گیا۔ وانا میں پہلے بھی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوتے رہے ہیں اور پولیٹکل انتظامیہ ان واقعات کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستانی فوج نے افغان سرحد کے قریب چھاپوں کے دوران گوانتانامو بے کے ایک سابقہ قیدی سمیت پانچ قبائلیوں کو گرفتار کر لیا ہے اور ہتھیاروں کی بڑی کھیپ برآمد کر لی ہے۔ فوج کے ترجمان جنرل شوکت سلطان کا کہنا ہے کہ یہ گرفتاریاں ماچی خیل کے علاقے میں کی گئیں اور فوجی نزدیکی دیہات میں مزید شدت پسندوں کو تلاش کر رہے ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے پولیٹکل محرر سمیت خاصہ دار فورس کے پانچ اہلکاروں کو ہلاک کردیا جبکہ شمالی وزیرستان میں خاصہ دار فورس کا ایک اہلکار مارا گیا ہے۔ text: بی بی سی اردو کے پروگرام ’جہاں نما‘ کے میزبان آصف جیلانی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اس بحران کے موقع پر ایسی کوئی صورتحال پیدا نہ ہو جس کا فائدہ دشمن اٹھائے۔ ’دشمن کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسی صورتحال پیدا کردے کے اگر وہ شدت اختیار کرے تو اس کا فائدہ بھی دشمن کو ہو اور اگر ہم کچھ بھی نہ کریں تو بھی فائدہ دشمن ہی اٹھائے۔ تو ہم نے اسی لیے بالکل سوچ سمجھ کر ایسی حکمت عملی اختیار کی ہے جو ملک کے بہترین مفاد میں ہو۔‘ ایم ایم اے کے رہنما نے کہا کہ اس سلسلے میں بڑے پیمانے پر عوام کو متحرک کیا جائے گا اور انہیں حقائق کی ایک واضح شکل پیش کی جائے گی تاکہ وہ اپنا راستے متعین کرتے ہوئے بین الاقوامی سازشوں سے ملک کو محفوظ رکھ سکیں۔ ’اصل والی وارث اور مالک اس ملک کے عوام ہیں۔‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ فی الحال کچھ نہیں بتا سکتے مگر پانچ فروری کے کسی بڑے جلسے میں ہی عوام کو حقائق بتائیں گے۔ انہوں نے کہا ’اس سلسلے میں ہم مجلس عمل کے اندر اور باہر مشورے کرکے ہی حقائق واضح شکل میں عوام کے سامنے رکھیں گے۔‘ ملک کے جوہری پروگرام کے مستقبل کے بارے میں ایک سوال پر قاضی حسین نے کہا کہ ملک کا جوہری پروگرام اور ملک میں سائنس و ٹیکنالوجی کا مستقبل مخدوش ہوگیا ہے کیونکہ اگر سائندانوں اور ٹیکنالوجی کا علم رکھنے والوں کو اس طرح رسوا کرنے کوشش کی جائے گی تو نقصان علم کو پہنچے گا۔ زد علم پر پڑے گی۔‘ جوہری پروگرام کے تحفظ کے بارے میں انہوں نے کہا ’سب سے زیادہ غیر محفوظ جوہری پروگرام تو خود امریکہ کا ہے۔ جس کا تجربہ بھی کیا جاچکا ہے۔ انسانیت دشمنی کا مظاہرہ تو انہوں نے کیا ہے۔‘ سنیچر کو برطرف کیے جانے والے حکومتی مشیر ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے اس سلسلے میں کسی ملاقات کے بارے میں قاضی حسین احمد نے کہا ’میری بات ہوئی تھی ڈاکٹر عبدالقدیر سے۔ میں اس بحران کے پیدا ہونے کے بعد ان سے ملا ہوں۔ اصل میں تو انہوں نے مجھے کہا تھا کہ آپ کسی بھی وقت مجھے بلا سکتے ہیں کسی پریس کانفرنس میں جہاں میں اپنی بات کروں۔‘ ڈاکٹر قدیر کی نظر بندی یا حراست سے متعلق ایک اور سوال کے جواب میں قاضی حسین نے کہا کہ جب میں ان سے ملا تھا اس وقت وہ آزاد تھے۔۔۔کہتے تھے کہ میں آسکتا ہوں کہیں بھی۔۔۔‘ جماعت اسلامی کے امیر اور متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے رہنما قاضی حسین احمد نے کہا ہے کہ وہ جوہری سائنسداں اور خان ریسرچ لیبارٹری کے سابق سربراہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے مشورے کے بعد پانچ فروری کو بڑے جلسے میں تمام حقائق عوام کے سامنے رکھیں گے۔ text: پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکن عامر علی خانیوال میں 16 اگست کو مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔ اس کا ذکر بعد میں مگر پہلے بات کریں گے مسلم لیگ ن کے کارکنوں کے تحفظات اور خدشات کا جو سوشل میڈیا پر اس بارے میں بات کر رہے ہیں۔ 'ن لیگی کارکن صرف قربانی کے‘ بکرے ہیں کیا؟ ووٹ کا تقدس ووٹ کی عمت گلا پھاڑ پھاڑ کر کہنے والے کو کوئی بتائے کہ کل اس کے ایک ووٹ کا کوئی گلا گھونٹ گیا ہے۔ اصف بٹ نے لکھا 'ووٹ کا احترام کروانے سے پہلے کارکن کا احترام کریں اور کروائیں' واسکوڈے گاما نامی اکاؤنٹ نے لکھا 'جس طرح کا رویہ ن لیگ اپنے کارکنوں کے ساتھ رکھ رہی ہے ان کو ووٹ تو ملیں گے مگر ساتھ نبھانے والے شاید نہ ملیں۔' ذوہیب سعید نے شکوہ کیا کہ 'کسی کو عامر کے لیے دو لفظ بولنے کی توفیق نہیں ہوئی۔' ایک اور مسلم لیگی کارکن منصور نے لکھا کہ 'مسلم لیگ ن کی حکومت میں سب سے سستی چیز ان کا کارکن ہے۔ اٹھایا جاتا ہے، مار دیا جاتا ہے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔' بینش نے لکھا 'جو پارٹی اپنے کارکنوں کے حق کے لیے کھڑی نہیں ہو سکتی وہ کشمیریوں پر ظلم کے خلاف اور پاکستانیوں کی عزت کی خاطر کہاں کھڑی ہوتی ہو گی؟' حسین علی نے لکھا 'ن لیگی کارکن کو سمجھ جانا چاہیے کہ وہ صرف قربانی کے بکرے ہیں جنھیں بوقتِ ضرورت وار کے پھینک دیا جانا ہے۔' اس کے ساتھ ہی مختلف کارکنوں نے مریم نواز شریف اور وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال کو ٹیگ کر کے ٹویٹس کیں جن میں ایک زعیم بنیامین کی تھی جنھوں نے لکھا 'میڈم اور سر اپنے کارکنوں کی بے توقیری نہ کریں میڈیا اگر خاموش ہے تو آپ تو خاموش نہ رہیں۔ کارکن ہی اصل سرمایہ ہیں۔' 'ڈینگی برادران سے ڈینگی خان تک کا سفر مکافاتِ عمل' پشاور میں ڈینگی کے بعد مچھر دانیوں کی فروخت کا کام عروج پر ہے۔ پشاور اور آس پاس کے علاقوں میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد بڑھنے کے نتیجے میں خیبرپختونخوا کی حکمراں جماعت پاکستانِ تحریکِ انصاف کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر تبصروں میں عمران خان کی جانب سے دھرنے کے دنوں میں پنجاب کے وزیرِاعلیٰ شہباز شریف اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو ڈینگی برادرن کہنے پر تنقید کا سامنا ہے جیسا کہ باسط فاروقی نے لکھا کہ 'ڈینگی برادران سے ڈینگی خان تک کا سفر مکافاتِ عمل کی تامہ ترین مثال ہے۔‘ جبکہ بس ساری صورتحال کے دوران عمران خان کی جانب سے مختلف پرفضا مقامات پر اتاری گئی تصاویر بھی شیئر کی جا رہی ہیں۔ تاہم خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے پنجاب حکومت کی بھجوائی گئی ٹیموں کو خوش آمدید کہنے کو خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے اور اسے ایک ثبت عمل قرار دیا گیا ہے۔ اس ہفتے کی تصاویر عید الاضحیٰ کے لیے قربانی کے اونٹ کی کھال پر اونٹ کا مالک نقش و نقار بنا رہا ہے۔ پشاور میں ڈینگی سے بچاؤ کے لیے سپرے کیا جا رہا ہے جہاں مچھروں کے نتجے میں بیمار ہونے والے مریضوں کی تعداد میں بہت اضافہ دیکھا گیا ہے۔ سوشلستان میں ’ڈینگی برادارن' کے بعد ’ڈینگی خان' کی واپسی ہوئی جس میں لوگ عمران خان کے شہباز شریف اور نواز شریف کی ڈینگی کے خلاف مہم پر شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ text: پون کمار بنسل اور اشونی کمار نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ریلوے کے وزیر پون کمار بنسل اور کوئلہ گھوٹالے میں سی بی آئی رپورٹ سے مبینہ طور پر چھیڑ چھاڑ کے الزام میں پھنسے وزیر قانون اشونی کمار نے روز افزوں دباؤ کے درمیان بالآخر جمعہ کی شام استعفیٰ دے دیا۔ پون کمار بنسل اور اشونی کمار نے دو مختلف الزامات کے لیے استعفیٰ دیا ہے۔ ریلوے کے وزیر نے اس وقت استعفی دیا جب پولیس نے ان کے بھتیجے وجے سنگلا کو رشوت کے الزام میں گرفتار کیا جبکہ وزیر قانون اشونی کمار پر یہ الزام ہے کہ انھوں نے کوئلہ گھپلے کی رپورٹ کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ واضح رہے کہ بھارت کی عدالت عظمی یعنی سپریم کورٹ نے حکومت ہند پر کوئلہ گھپلے میں جاری تفتیش میں دخل اندازی کا الزام لگایا تھا جس کے ایک دن بعد اشونی کمار نے اپنا استعفیٰ دیا ہے۔ آڈیٹروں کے مطابق سستے داموں پر کوئلے کی کانوں کو حکومت کے ذریعے فروخت کیے جانے سے ملک کو 210 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ دونوں وزراء کے استعفے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے بی جے پی لیڈر شاہنواز حسین نے کہا کہ یہ استعفے حزب اختلاف اور میڈیا کے دباؤ میں دیے گئے ہیں۔ شاہنواز حسین نے کہا کہ، ’یہ دیر سے اٹھایا گیا درست قدم ہے۔‘ خبروں کے مطابق کانگریس رہنماؤں نے رات اس بحران سے نمٹنے کے لیے ہنگامی میٹنگ بھی کی ہے۔ خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق بنسل نے خود ہی اپنے استعفے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ’میں نے استعفی دے دیا ہے۔‘ پون کمار بنسل کے بھتیجے کو رشوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے انھوں نے اس معاملے میں پولیس جانچ کی بات بھی کہی ہے۔ اور مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ’ہمیشہ جانچ کے اعلی ترین معیار کو برقرار رکھا ہے۔‘ بھارت کی اہم اپوزیشن پارٹی بی جے پی نے اعلان کر دیا تھا کہ دونوں وزراء کے استعفے تک پارلیمان کی کارروائی نہیں چلنے دی جائے گی۔ کانگریس پارٹی نے کہا ہے کہ’بدعنوانی میں ملوث کسی بھی فرد کو پارٹی معاف نہیں کرے گی۔‘ وجے سنگلا کو سی بی آئی نے مبینہ طور 90 لاکھ روپے کی رشوت لیتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ سنگلا نے یہ رقم مبینہ طور پر ریلوے بورڈ کے ایک رکن مہیش کمار کو ایک خاص عہدے دینے کی عوض میں لیا تھا۔ اس معاملے میں بنسل کے ذاتی سیکرٹری راہول بھنڈاری سے سی بی آئی کی پوچھ گچھ کے بعد سے بنسل کی مشکلات اور بڑھ گئی تھیں۔ راہل بھنڈاری 1997 بیچ کے ائی اے ایس افسر ہیں۔ پارلیمانی امور کے وزیر مملکت راجیو شکلا نے کہا، ’اگر انہیں کلین چٹ مل جاتی ہے تو وہ واپس آ سکتے ہیں۔‘ بھارت کے دو مرکزی وزیروں نے گھپلوں کے الزامات کے درمیان گزشتہ روز استعفیٰ دے دیا ہے جس سے برسر اقتدار جماعت کانگریس مزید بحران کا شکار ہو گئی ہے۔ text: لندن کے میئر نے کہا کہ لندن دھماکوں میں مغربی طاقتوں کی مشرق وسطیٰ کے بارے میں پالیسوں کا بڑا عمل دخل ہے جو تیل کے حصول کے لیے وہاں حکومت کو تبدیل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کی شہ پر جو کچھ مشرق وسطیٰ میں تین نسلوں سے ہو رہا ہے اگر وہ سب کچھ ہمارے ہاں ہو رہا ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ ہم بھی کئی خود کش بمبار پیدا کر چکے ہوتے۔‘ لندن کے میئر نے کہا کہ انہیں لندن بم حملوں کے مرتکب افراد سے کوئی ہمدردی نہیں ہے لیکن وہ ان حکومتوں کی بھی مذمت کرتے ہیں جو اپنی غیر منصفانہ خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے کے لیے بلاتفریق لوگوں کا قتل عام کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مغربی طاقتیں پچھلے اسی سال سے مشرق وسطیٰ میں مداخلت نہ کر رہے ہوتے تو لندن دھماکے نہ ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب نے ہمیشہ مشرق وسطیٰ میں غیر مقبول حکومتوں کی حمایت کی اور ایسی حکومتوں کو گرا دیا جو ہمارے خیال میں مغرب کی مخالف تھیں۔ بی بی سی ریڈیو فور کو دیئے گئے انٹرویو میں لندن کے میئر نے کہا کہ معاملات اس وقت زیادہ خراب ہو گئے جب امریکہ نے اسی کی دہائی میں اسامہ بن لادن کو افغانستان میں روسیوں سے لڑنے کے لیے بھرتی کیا۔ کین لونکسٹن نے کہا کہ امریکہ نے اسامہ بن لادن کو لوگوں کو مارنے، بم بنانےاور بم پھاڑنے کی تربیت دی۔’ ایسا کرنے والوں نے یہ نہیں سوچا کہ کل یہی اسامہ بن لادن ان کے خلاف بھی ہو سکتا ہے‘۔ انہوں نے مغربی حکومتیں تیل کی ترسیل میں رکاوٹ سے اتنے خائف تھیں کہ انہوں نےمشرق وسطیٰ میں مداخلت کو پالیسی جاری رکھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم پہلی جنگ عظیم کے بعد عربوں سے کیے ہوئے وعدے پر قائم رہتے ہوئے ان کے معاملات میں مداخلت نہ کرتے تو آج حالات اس نہج پر نہ پہچنتے ۔میئرکن لوینگسٹن نے کہا کہ لندن دھماکوں کے پیچھے مغرب کی دوغلی پالیسیوں کا بھی ہاتھ ہے اور کہا کہ مغرب نے پہلے صدام حسین کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے کہا کئی نوجوان جب یہ دیکھتے ہیں کہ گوانتانوموبے میں کیا ہو رہا اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ مغرب کی خارجہ پالیسی منصفانہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا اسرائیلی حکومت صرف اس بنیاد پر فلسطینی علاقوں پر بمباری کرتے ہیں کہ اس علاقے سے حملہ آور نکل کر آتے ہیں جن میں معصوم بچے، عورتیں اور لوگ مارے جاتے ہیں۔ کن لیونگسٹن نے کہا لندن میں پچھتر ہزار مسلمان رہتے ہیں لیکن ہمیشہ تین چار غیر نمائندہ لوگوں کو اخبار کے صفحہ اول پر جگہ ملتی ہے جن میں کئی حقیقی دنیا سے بہت ہی دور رہتے ہیں۔ لندن کے میئر کین لوینگسٹن نے کہا ہے کہ لندن دھماکوں کی ذمہ داری مغربی طاقتوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے ماضی میں اسامہ بن لادن جیسے لوگوں کو دہشت گردی کی تربیت دی۔ text: مناء رانا بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور عمران خان پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون، دونوں جماعتوں پر سخت تنقید کرتے رہتے ہیں پاکستان کی بڑی جماعتوں کو مختلف قسم کے الزامات کا سامنا ہے۔ پیپلز پارٹی پر بد عنوانی کا دھبہ لگا ہے تو مسلم لیگ ن کو شدت پسندوں سے روابط کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ معروف سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر مہدی حسن کے بقول ایک دوسرے پر الزام تراشی پاکستانی سیاست کی روایت رہی ہے اور ہمیشہ ہی سیاسی جماعتوں نے حریف جماعتوں کے بارے میں منفی پراپیگنڈے کو اپنی انتخابی مہم کا اہم حصہ سمجھا ہے۔ ڈاکٹر مہدی حسن کے بقول ٹی وی پر چلنے والے تجزیاتی پروگراموں میں سیاسی رہنما یہ ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے علاوہ کرپشن کے کچھ نہیں کیا جبکہ ان کی کچھ مثبت باتیں بھی ہوں گی اور اسی طرح ن لیگ کے بارے میں یہ باور کرایا جا رہا ہےکہ وہ شدت پسندی کے خلاف نہیں ہیں اور بلواسطہ ان کے شدت پسندوں سے تعلقات ہیں۔ ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق انتخابی مہم شروع ہوتے ہیں اس منفی مہم میں تیزی آئے گی ۔ انتخابات میں ایک دوسرے پر الزامات کا اثر ووٹروں پر کتنا پڑتا ہے اس ضمن میں ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر ووٹروں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ انہیں کس کو ووٹ دینا ہے ۔ جتنا بھی منفی پراپیگنڈا ہو جائے اور یہاں تک کہ وہ خود بھی اپنی پارٹیوں کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوں لیکن انتخابات میں وہ اپنی پارٹی ہی کو ووٹ دیں گے۔ سینیئر صحافی سعید عاصی کے بقول اس وقت پاکستانی عوام کو بہت سے مسائل در پیش ہیں جن میں بد امنی اور شدت پسندی، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی اور غربت نمایاں ہیں لیکن سیاسی جماعتیں ان ایشوز کو بھی منفی پراپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتیں ہیں اور یہ حربہ اصل مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہوتا ہے جس سے لوگ مخمصے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انتخابی مہم کے باقاعدہ اعلان سے پہلے ہی سیاسی رہنما اپنے اپنے علاقوں میں جلسے اور جلوسوں کا آغاز کر چکے ہیں۔ روزنامہ ایکسپریس کے مدیر ایاز خان کہتے ہیں کہ آج کل جلسے جلوسوں میں جس طرح کی زبان استعمال کی جا رہی ہے اس نے انیس سو اسی کی دہائی کی سیاست کی یاد تازہ کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے انتخابات مزید قریب آئیں گے سیاست دان ایک دوسرے پر الزامات کی بھر مار کریں گے، ذاتیات کو ملوث کیا جائے گا اور کیچڑ اچھالا جائے گا۔ سیاست دانوں کی ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کی کوششیں اپنی جگہ لیکن بقول ایاز خان کے اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ انہیں نہیں ہو گا کیونکہ اب لوگ منفی سیاست سے زیادہ یہ چاہتے ہیں کہ ایشوز کی سیاست کی جائے اور ان کے مسائل پر نا صرف بات کی جائے بلکہ انہیں بتایا جائے کہ ان مسائل کو ختم کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے پاس کونسا جامع لائحۂ عمل ہے۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات پاکستان میں اسمبلیوں کی تحلیل میں بہت کم دن رہ گئے ہیں اور باقاعدہ انتخابی مہم ابھی شروع ہو گی لیکن سیاسی جماعتیں اپنی توانائیاں اپنی خوبیوں سے زیادہ دوسروں کی خامیوں کو اجاگر کرنے میں صرف کر رہی ہیں اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں تیزی نظر آ رہی ہے۔ text: قدرتی حیات کے تحفظ کی بین الاقوامی یونین نے اس پھول کے پودے کو ’غیر محفوظ‘ قرار دیا ہوا ہے دو میٹر (6.5 فٹ) لمبے لوف جسیم نامی پودے کے پھول شاز و نادر ہی کھلتے ہیں اور ان کی افزائش بھی ایک مشکل عمل ہے۔ جاپان کی کیودو نیوز سروس کے مطابق ٹوکیو کے جندائی باٹینکل گارڈنز میں اس پھول کو دیکھنے آنے والوں کی بڑی تعداد کے باعث پارک کے اوقات میں توسیع کر دی ہے۔ پارک میں اس پھول کو دیکھنے والوں کی لمبی قطار بنی ہوئی ہے۔ یہ پھول صرف ایک یا دو دن کے لیے ہی کھلتا ہے۔ اس پھول کو عام طور پر لاش والا پھول کہا جاتا ہے، کیونکہ اس کی بدبو سڑے ہوئے گوشت جیسی ہوتی ہے اور یہ مکھیوں اور بھونروں کو اپنی جانب مائل کرتا ہے۔ پارک میں اس پھول کو دیکھنے والوں کی لمبی قطار بنی ہوئی ہے یہ پھول عام طور پر انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا کے مغرب میں واقع برساتی جنگوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ سطح سمندر سے 400 سے 1200 فٹ بلند پہاڑیوں پر پھلتا پھولتا ہے تاہم جنگلات کے کٹاؤ کے باعث اب اس پھول کی نسل ناپید ہوتی جارہی ہے۔ قدرتی حیات کے تحفظ کی بین الاقوامی یونین نے اس پھول کے پودے کو ’غیر محفوظ‘ قرار دیا ہوا ہے۔ دنیا کا سب سے قدیم اور بڑے پھولوں میں سے ایک پھول جاپان کے پارک میں پانچ سال بعد دوبارہ کِھل گیا ہے۔ text: اپنا ٹیسٹ میچ کھیلنے والے بلے باز احمد شہزاد دوسری اننگز میں 55 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے سنیچر کو کھیل کے آخری دن سری لنکا نے پاکستان کو فتح کے لیے 302 رنز کا ہدف فراہم کیا تھا اور جب امپائرز نے دونوں ٹیموں کی مشاورت میچ کے خاتمے کا اعلان کیا تو اس وقت پاکستان نے اپنی دوسری اننگز میں دو وکٹوں کے نقصان پر 158 رنز بنائے تھے۔ میچ کا تفصیلی سکور کارڈ دوسری اننگز میں پاکستان کی جانب سے محمد حفیظ 80 رنز کے ساتھ ٹاپ سکورر رہے جبکہ اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے احمد شہزاد نے بھی نصف سنچری بنائی، وہ 55 رنز بنا کر ہیراتھ کی گیند پر کیچ ہوئے۔ پاکستان کے آؤٹ ہونے والے دوسرے کھلاڑی اوپنر خرم منظور تھے جو صرف آٹھ رنز بنا سکے، انہیں لکمل نے آؤٹ کیا۔ کپتان میتھیوز نے 157 رنز بنائے اور آ‎‎ؤٹ نہیں ہوئے اس سے پہلے سری لنکا نے اپنی دوسری اننگز پانچ وکٹوں کے نقصان پر 480 رنز بنا کر ڈیکلیئر کر دی تھی۔ پاکستانی بولرز پانچویں دن بھی مزید کوئی سری لنکن وکٹ حاصل نہ کر سکے اور کپتان اینجلو میتھیوز 157 اور پرسنّا جے وردھنے 63 رنز پر ناقابلِ شکست رہے۔ پاکستان کی جانب سے دوسری اننگز میں جنید خان نے تین جبکہ بلاول بھٹی نے دو وکٹیں لیں۔ اس میچ میں پاکستان نے ٹاس جیت کر سری لنکا کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی تھی اور سری لنکن بلے باز جنید خان اور بلاول بھٹی کی فاسٹ بولنگ کے سامنے بےبس دکھائی دیے تھے۔ سری لنکا کی ٹیم پہلی اننگز میں 204 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی تھی۔ اس کے جواب میں پاکستان نے اپنی پہلی اننگز میں یونس خان اور مصباح الحق کی سنچریوں کی بدولت 383 رنز بنا کر سری لنکا پر 179 رنز کی برتری حاصل کر لی تھی۔ متحدہ عرب امارات کے شہر ابوظہبی میں پاکستان اور سری لنکا کے مابین کھیلا جانے والا پہلا کرکٹ ٹیسٹ میچ بے نتیجہ رہا ہے۔ text: عالمی فٹبال کپ کے ساتویں دن برلن میں ہونے والے تیسرے اور آخری میچ کے اٹھاسویں منٹ میں سویڈن کے کھلاڑی فریڈی لیونگ برگ گول کر کے نہ صرف اپنے ملک کو فتح دلا دی بلکہ پیراگوئے کو ورلڈ کپ سے باہر بھی کر دیا۔ تیسرے میچ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سویڈن، انگلینڈ اور اور ایکاڈور علمی کپ کے دوسرے راؤنڈ میں جانے کے اہل ہو گئے ہیں۔ ان میں ایکا ڈور نے پہلے بار دوسرے رانڈ میں جانے کے لیے کوالیفائی کیا ہے۔ جرمنی میں کھیلے جانے والے فٹ بال کے عالمی کپ کے ساتویں دن کے پہلے میچ میں ایکواڈور نے کوسٹاریکا کو تین صفر سے ہرا دیا۔ جب کہ گروپ بی کے ایک اہم میچ میں انگلینڈ نے ٹرینیڈاڈ اور ٹوبیگو کو دو صفر سے ہرا دیا۔ انگلینڈ کا پہلا گول پیٹر کراؤچ نے تراسیویں منٹ میں اور دوسرا گول سٹیفن جرارڈنے اضافی وقت میں کیا۔ انگلینڈ اپنا پہلا میچ پیراگوئے سے ایک صفر سے جیت گیا تھا جبکہ ٹرینیڈاڈ اور ٹوبیگو اور سویڈن کے درمیان کھیلا جانے والا میچ بغیر کسی گول کے برابر رہا تھا۔ آج کے دن کا تیسرا میچ گروپ بی کی ہی ٹیموں سویڈن اور پیراگوئے کے درمیان کھیلا جائے گا۔ دِن کے پہلے میچ میں ایکواڈور کی جانب سے پہلاگول کھیل کے آٹھویں منٹ میں کارلوس ٹینوریو نے کیا۔ ایک گول کی برتری پہلے ہاف کے خاتمے تک قائم رہی۔ دوسرے ہاف کے چونّویں منٹ میں ڈیلگاڈو نے دوسرا گول کر کے ایکواڈور کی برتری دگنی کر دی۔ ایکواڈور نے تیسرا گول کھیل کے ترانوے منٹ میں کیا۔ گروپ اے میں بدھ کو جرمنی کی پولینڈ پر فتح کے بعد یہ میچ نہایت اہمیت کا حامل تھا اور ایکواڈور کی جیت کے بعد اب جرمنی اور ایکواڈور کے دوسرے راؤنڈ کے لیئے کوالیفائی کرنے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ ایکواڈور نے اس میچ کے لیئے وہی ٹیم کھلانے کا فیصلہ کیا ہے جس نے افتتاحی میچ میں پولینڈ کو صفر کے مقابلے میں دو گول سے شکست دی تھی۔ یہ میچ ہیمبرگ کے اے او ایل ایرینا میں کھیلا جار ہا ہے۔ ایکواڈور اور کوسٹاریکا کی ٹیمیں ماضی میں نو مرتبہ دوستانہ مقابلوں میں آمنے سامنے آ چکی ہیں اور ان میں سے دونوں ٹیموں نے دو، دو میچ جیتے جبکہ پانچ مقابلے بےنتیجہ رہے۔ ساتویں دن کا دوسرا میچ گروپ بی کی دو ٹیموں انگلینڈ اور ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو کے مابین ہوگا اور اپنے پہلے میچ میں انگلینڈ کی غیر متاثر کن کارکردگی اور ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو کے سویڈن سے میچ ڈرا کرنے کے بعد اس میچ میں شائقین کی دلچسپی مزید بڑھ گئی ہے۔ ایکواڈور کی ٹیم: مورا، ڈی لا کروز، رائیسکو، ایسپینوزا، ہرتادو، کاسٹیلو، ویلنسیا، ایڈون ٹینوریو، مینڈیز، کارلوس ٹینوریو، ڈیلگاڈو کوسٹاریکا کی ٹیم: پوراس،گانزالز، امانا،والس، مارن، فانسیکا، سینٹینو، سالس، سیکوئریا، وان چوپ، گومز، ایکواڈور نے کوسٹاریکا کو0-3 سے، انگلینڈ نے ٹرینیڈاڈ ٹوباگو 0-2 سے اور سویڈن نے پیراگوئے کوایک صفر سے ہرایا ہے۔ text: عرب لیگ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شام کے صدر بشرالاسد نے کہا ہے کہ ان کا ملک لبنان کے سیاسی بحران کو ختم کرنے کے لیے عرب اور غیر عرب ممالک کی کوششوں میں شریک ہونے کو تیار ہے بشرطیکہ ان کوششوں کی بنیاد لبنانی عوام کا قومی اتفاقِ رائے ہو۔ مصر، سعودی عرب اور اردن ان ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے اس دو روزہ اجلاس میں شرکت کے لیے قدرے کم درجے کے نمائندوں پر مشتمل وفود بھیجے ہیں۔ یہ ممالک شام پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ لبنان میں جاری سیاسی بحران کا ذمہ دار ہے۔ لبنان نے بھی اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور لبنانی وزیراعظم فواد سینیورا نے کہا ہے کہ ان کا ملک شام کو لبنان میں جاری طویل سیاسی بحران کا ذمہ دار گردانتے ہوئے عرب سربراہ کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا۔ تاہم فواد سینیورا نے عرب سربراہوں سے یہ بھی کہا ہے کہ ان کا ملک اپنے ہمسایوں سے اچھے تعلقات کا خواہش مند ہے اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ عرب رہنما شام اور لبنان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد کریں۔ لبنان وزیراعظم کے اعلان پر شامی حکومت نے کہا ہے کہ لبنان نے کانفرنس میں شرکت سے انکار کر کے بحران پر بات چیت اور اس کے کسی ممکنہ حل کا ایک سنہری موقع کھو دیا ہے جبکہ شام کے وزیرِ خارجہ ولید معلم کا کہنا ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کو اس اجلاس سے دور رکھ کر عربوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ لبنان میں نومبر کے بعد سے اب تک صدارتی عہدہ کے لیے پر انتخاب ممکن نہیں ہو سکا اور نامہ نگار اس کی وجہ سعودی عرب اور مصر کی حمایت رکھنے والے مغرب نواز حکومتی حلقوں اور شام اور ایران کی حمایت رکھنے والے حلقوں کے درمیان محاذ آرائی کو قرار دیتے ہیں۔ عرب لیگ کا سربراہ اجلاس شام کے دارالحکومت دمشق میں شروع ہو گیا ہے تاہم کئی اہم عرب ممالک کے سربراہان اس اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔ text: انھوں نے نیو ہیمپشائر میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’اگر میں جیتا تو وہ واپس جائیں گے۔‘ سیاسی صداقت کتنی تبدیلی لا سکتی ہے؟ اوباما کا دفاع کرنا میرا کام نہیں ہے: ڈونلڈ ٹرمپ ’کسی مسلمان کو امریکہ کا صدر نہیں بننا چاہیے‘ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان ان کے گذشتہ بیان کے برعکس ہے، جب انھوں نے امریکی چینل فوکس نیوز کو گذشتہ ماہ بتایا کہ امریکہ کو مزید پناہ گزین لینے چاہیئں۔ منگل کی شب کین ہائی سکول میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’میں نے سنا ہے کہ ہم دو لاکھ شامیوں کو لینا چاہتے ہیں۔ سنیں، وہ داعش ہوسکتے ہیں۔‘ شامی پناہ گزینوں کو دو لاکھ افراد کی فوج قرار دیتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں لوگوں کو مطلع کر رہا ہوں کہ وہ بڑے پیمانے پر ہجرت کے طور پر شام سے یہاں آرہے ہیں، اور اگر میں جیت گیا، اگر میں جیتا تو وہ واپس جائیں گے۔‘ خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے تارکین وطن کے موضوع کو اپنی انتخابی مہم کا مرکز بنا رکھا ہے، وہ جنوبی سرحد پر دیوارکی تعمیر کا وعدہ بھی کر چکے ہیں۔ اس سے قبل انھوں نے میکسیکو کے غیررجسٹرڈ تارکین وطن کو ’منشیات فروش، مجرم اور ریپ کرنے والے‘ قرار دیا تھا۔ خیال رہے کہ سنہ 2011 میں شام میں تنازع کے آغاز سے امریکہ نے 1500 شامیوں کی ملک میں دوبارہ آباد کاری کی اجازت دی تھی۔ دوسری جانب ڈیموکریٹس بشمول ہلیری کلنٹن نے امریکہ میں شامیوں کی تعداد دس ہزار سے 65 ہزار تک بڑھانے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری نے دنیا بھر سے پناہ گزینوں کو پناہ دینے کا عندیہ دیا ہے، ان کے مطابق یہ تعداد اگلے سال 70 ہزار سے بڑھ کر 85 ہزار اور سنہ 2017 میں ایک لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ امریکہ میں ریپبلکن پارٹی کا صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں شامل ارب پتی تاجر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر وہ صدر بن گئے تو امریکہ کی جانب سے قبول کیے گئے تمام شامی پناہ گزینوں کو واپس بھیج دیا جائے گا۔ text: یہ واقعہ چارسدہ پولیس کے تھانہ مندنی کے ہری چند علاقے میں پیش آیا۔ تھانے کے محرر کے مطابق نامعلوم افراد نے رات ایک بج کر چالیس منٹ پر خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کی اور دستی بم پھینکے۔ ہلاک ہونے والے سپاہی کا نام گُل زمین بتایا جاتا ہے جبکہ زخمی ہونے والے سپاہیوں میں عزیز، زیار اور مطاہر شاہ شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق جوابی فائرنگ میں ایک حملہ آور ہلاک ہوا جس کی لاش پولیس نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال، چارسدہ، پہنچا دی ہے۔ مندنی پولیس سٹیشن میں ’نامعلوم دہشت گردوں‘ کے خلاف پرچہ درج کیا گیا ہے۔ ضلع پشاور سے چارسدہ میں پولیس چیک پوسٹ پر حملہ کی اس واردات سے چند ہفتے قبل بھی نیم شہری آبادی کے حامل شبقدر کے علاقے میں گاڑیوں میں سوار مسلح افراد نے بازار کا دورہ کیا تھا جس کے بعد سے وہاں کافی اضطراب پایا جاتا ہے ۔ مبصرین کے مطابق چارسدہ سے متصل قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں مقامی طالبان کے اثر رسوخ میں گزشتہ چند مہینوں میں کافی اضافہ ہوا ہے اور اُن کی کارروائیوں کا دائرہ کار مہند ایجنسی سے متصل باجوڑ ایجنسی اور صوبہ سرحد کے علاقے چارسدہ میں بڑھا ہے ۔ مہمند ایجنسی کے مقامی طالبان نے باجوڑ ایجنسی کی تحصیل ناواگئی کی سول کالونی سے چند ہفتے قبل دن دہاڑے ایک تحصیلدار اور لیویز کے تین اہلکاروں کو اغوا کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ یہ لوگ ابھی تک بازیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ صوبہ سرحد کے ضلع چارسدہ میں جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات پولیس کی ایک چیک پوسٹ پر حملے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور تین زخمی ہوگئے جبکہ ایک حملہ آور بھی ہلاک ہوگیا ۔ text: ریاست کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے شکست تسلیم کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اب تک آنے والے نتائج کے مطابق کانگریس اور اس کی حلیف جماعتیں دو سو چھبیس حلقوں میں کامیابی حاصل کی ہے جبکہ چندرا بابو نائیڈو کی تیلگو دیسم نے انچاس سیٹیں جیتی ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر جماعتیں انیس نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ آندھراپردیش میں کل نشستوں کی تعداد دو سو چورانوے ہے اور یہاں وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو کی حکومت گزشتہ نو سال یہاں برسر اقتدار تھی۔ مسٹر نائیڈو کو ہندوستان کا سب سے فعال علاقائی رہنما سمجھا جاتا ہے جنہوں نے ریاست آندھرا پردیش کے دارالحکومت حیدرآباد دکن کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا مرکز بنا دیا۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ مسٹر نائیڈو نے اپنی پالیسیوں میں ریاست کی دیہی آبادی کو نظر انداز کیا اور غریب ووٹروں تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ کئی سالوں پر محیط خشک سالی کی وجہ سے ہزاروں کسان قرضوں تلے دب گئی کو کئی نے توخود کشی کی کوشش بھی کی۔ آندھرا پردیش میں ملک کے باقی حصوں کے مقابلے میں جلد گنتی ہورہی ہے اور اس کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے کیونکہ مبصرین کے مطابق اس سے مجموعی نتائج کے رجحان کا اندازہ ہوگا۔ ہندوستان کی ریاست آندھراپردیش میں ریاستی اسمبلی کے انتخاب میں کانگریس نے زبر دست کامیابی حاصل کی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر حکمران جماعت تیلگو دیسم ہے جو بی جے پی کی اتحادی ہے۔ text: مشعل دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ آئے ہوئے تھے ریو کے میئر ایدواردو پایس شہر کے وسط میں تھوڑی دور تک مشعل لے کر بھاگے۔ تاہم شہر کے شمال میں اس وقت صورتحال خراب ہوئی جب مشعل کے جلوس کو سینکڑوں لوگوں کے ہجوم کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں اولمپک کھیلوں پر اٹھنے والی بھاری لاگت پر اعتراض ہے۔ ٭ ریو اولمپکس 2016: خصوصی ضمیمہ ٭ اولمپکس مشعل کا سفر بلوہ پولیس نے آنسو گیس اور مرچوں کا سپرے کر کے لوگوں کو منتشر کیا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر میں وہ بچے دیکھے جا سکتے ہیں جو مشعل دیکھنے آئے تھے لیکن پولیس کی کارروائی کے بعد وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ پولیس نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ لوگوں نے سڑک کا ایک حصہ خالی کرنے سے انکار کر دیا جہاں سے مشعل گزرنی تھی، جس کے بعد انھیں انتشار روکنے کے لیے حرکت میں آنا پڑا۔ ریو کے میئر ایدواردو پایس شہر کے وسط میں تھوڑی دور تک مشعل لے کر بھاگے بی بی سی کے برازیل کے نامہ نگار وائر ڈیویز کہتے ہیں کہ برازیلین اولمپک منتظمین کو مشعل کے جلوس کے دوران اسی بات کا ڈر تھا۔ منگل کو نیتوروئی قصبے میں تین مظاہرین کو وہاں سے مشعل گزرنے کے دوران احتجاج کرنے پر حراست میں لے لیا گیا تھا۔ برازیل مالی اور سیاسی بحرانوں کی زد میں ہے اور جمعے کو اولمپک کی افتتاحی تقریب سے قبل مزید مظاہروں کا خدشہ ہے۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ دس لاکھ ٹکٹ اب تک فروخت نہیں ہو سکے۔ تین ماہ تک برازیل کے مختلف شہروں کے چکر کاٹنے کے بعد اولمپک مشعل بالآخر ایک کشتی کے ذریعے ریو ڈی جنیرو پہنچ گئی ہے۔ text: یہ تمام افراد پیر کو واہگہ کے راستے پیدل سرحد عبور کرکے پاکستان داخل ہوگئے۔ ان کی رہائی دونوں ملکوں کے درمیان جاری اعتماد سازی کے ان کااقدامات کا حصہ ہیں جو گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے جاری ہیں۔ رینجرز کے حکام کے مطابق رہا ہونے والوں میں ایک نوعمر لڑکی اور ایک لڑکا بھی شامل ہیں جو ان کے بقول بظاہر غلطی سے سرحد پار کر گئے تھے۔ حکام کے مطابق فرح پاکستانی پنجاب کے ایک شہر نارروال کے گاؤں کوٹلی بھورے خان کی رہائشی تھی اور معمولی ڈانٹ پر اپنے گھر والوں سے ناراض ہوکر سرحد پارکرنے چلی گئی جہاں بھارتی سیکیورٹی فورس کے اہلکاروں نے اسے پکڑکر بچوں کی جیل بھجوادیا۔ آٹھ اپریل کو لدھیانہ کی ایک عدالت نے اسے اس بنیاد پر رہا کرنے کا حکم دیا کہ وہ اپنی سزا سے زیادہ جیل پہلے ہی کاٹ چکی ہے۔ اس لڑکی کے والدین اسے لینے کے لیے واہگہ موجود تھے۔ بھارت کی جیل سے رہائی پانے والے افراد بھارت کی مختلف جیلوں میں چار سے نو سال تک کی قید کاٹنے کے بعد پاکستان لوٹ سکے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں سے شدید کشیدگی رہی ہے اور طویل عرصے تک دونوں اطراف کے حکام ایک دوسرے کے اقدامات کو شک کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں۔ ایک پاکستانی سیکیورٹی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکام ان قیدیوں کے پاکستانی ہی ہونے کے بارے میں مکمل تسلی چاہتے ہیں۔ امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق رہا ہونے والے سولہ سالہ لڑکے الطاف شاہ نے کہا ہے وہ چار سال تک بھارت کی مختلف جیلوں میں قید کاٹنے کے بعد وطن لوٹا ہے تو اسے یہ نہیں معلوم کہ اس کا گھر کہاں ہے اور اہلخانہ کدھر ہیں تاہم اسے آزاد ہونے اور وطن لوٹنے کی خوشی ہے۔ الطاف شاہ کے مطابق وہ واہگہ باڈر کی سیر کےدوران غلطی سے سرحد پار کر گیا تھا۔ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات کے بعد سے دونوں اطراف سے سینکٹروں قیدیوں کو رہا کیا جاچکا ہے لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اب بھی بڑی تعداد میں شہری دونوں ملکوں کی جیلوں میں موجود ہیں۔ بھارت نےایک نوعمر لڑکی سمیت ان آٹھ پاکستانی شہریوں کو رہا کر دیا ہے جو کئی سال سے بھارت کی مختلف جیلوں میں قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ text: پاکستان کے ساتھ 740 کلومیٹر لمبی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری پر اکثر کشیدگی ہوتی رہتی ہے دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان گذشتہ کئی روز سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں اب تک پاکستان کی جانب دو اہلکاروں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا جبکہ بھارت کے زیر کنٹرول علاقوں میں ایک 14 سالہ لڑکی اور تین فوجی مارے گئے۔ بھارتی کشمیر میں حکام کا کہنا ہے کہ مسلسل فائرنگ کے پیش نظرجموں کے سرحدی خطوں میں رہائش پذیر شہریوں کو محفوظ مقامات کی طرف منتقل کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ سال اکتوبر اور نومبر میں بھی سرحدی خطوں میں فائرنگ کے تبادلے کی وجہ سے تناؤ رہا جس کے باعث ہزاروں لوگوں کو گھر چھوڑ کر عارضی کیمپوں میں رہنا پڑا۔ سرحدوں پر تناؤ کی وجہ سے بھارت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کو بھی معطل کیا ہے۔ دونوں ممالک کی فورسز ایک دوسرے پر پہل کرنے کا الزام عائد کرتی ہیں پاکستان نے فائرنگ کے حالیہ واقعات کے بعد اسلام آباد میں بھارتی سفارتخانہ میں رسمی احتجاج بھی درج کرایا ہے اور پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کےمشیر برائے سلامتی سرتاج عزیز نے بھارتی حکام کو ایک خط کے ذریعہ ’بھارتی جارحیت‘ سے آگاہ کیا ہے۔ تاہم سنیچر کو بھارت کی وزیرخارجہ سشما سوراج نے جوابی خط میں پاکستان پر واضح کیا ہے کہ سرحدوں پر فائرنگ کی ابتدا ہمیشہ پاکستانی فورسز کی جانب سے ہوتی ہے۔ دریں اثنا جموں اور کشمیر خطوں میں انتظامیہ نے بتایا کہ اکھنور اور سامبا ضلعوں کے سرحدی خطوں کے بوبیان، پنسار، پہاڑ پور اور لچھی پورہ علاقوں سے شہریوں کو ہٹا کر محفوظ مقامات کی طرف منتقل کیا گیا ہے۔ غور طلب ہے پچھلے سال اکتوبر اور نومبر میں بھی دونوں افواج کے درمیان سرحدوں پر تناؤ پیدا ہوا جس کے بعد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بھارت اور پاکستان سے امن بحال کرنے کی اپیل کی تھی۔ اس کے بعد بھارتی بی ایس ایف اور پاکستانی رینجرز کے سیکڑ کمانڈروں کے درمیان فلیگ میٹنگ ہوئی جس میں ورکنگ باؤنڈری اور ایل او سی پر تناو ختم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ گذشتہ سال اکتوبر اور نومبر میں بھی سرحدی خطوں میں فائرنگ کے تبادلے کی وجہ سے تناؤ رہا جس کے باعث ہزاروں لوگوں کو گھر چھوڑ کر عارضی کیمپوں میں رہنا پڑا یاد رہے 2003 میں اُس وقت کی واجپائی حکومت نے پاکستان کے ساتھ 740 کلومیٹر لمبی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری پر جنگ بندی کا سمجھوتہ کیا تھا لیکن دونوں ممالک اکثر اوقات ایک دوسرے اس معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے رہے ہِیں۔ دوسری جانب کشمیر کی سرحدوں پر فوجی کشیدگی ایک ایسے وقت دوبارہ پیدا ہوگئی ہے جب یہاں انتخابات میں غیر واضح نتائج کے بعد سیاسی غیر یقینی پائی جاتی ہے۔ 87 رکنی اسمبلی میں کسی بھی جماعت کو اکثریت یعنی 44 نشستیں نہیں ملی ہیں۔ حالانکہ ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کو صرف 25 سیٹیں لے کر دوسرے نمبر پر ہے، لیکن بھارت پر اس جماعت کا اقتدار میں ہونے کے سبب اس کے سربراہ امیت شاہ کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر پر بی جے پی کا اقتدار ضروری ہے۔ مفتی محمد سعید کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو سب سے زیادہ یعنی 28 سیٹیں ملی ہیں۔ دونوں جماعتوں کے درمیان مشترکہ حکومت کا معاہدہ ایک قدرتی امر تھا، لیکن اس میں دونوں کا نظریاتی تضاد آڑے آ رہا ہے۔ بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں انتخابات کے نتائج غیر یقینی تھے لیکن حکومت سازی میں تاخیر کے بیچ سرحدوں پر تناؤ کے باعث خطے میں ایک بار پھر کشیدگی کا ماحول ہے۔ text: تین بار کے برٹش اوپن چیمپئن اور 2002ء کے ورلڈ چیمپئن ڈیوڈ پامر نے اپنے تجربے کی بدولت نوجوان ولسٹروپ کو تین گیمز میں زیرکیا۔ سیمی فائنل میں پامر کا مقابلہ فرانس کے گریگوری گالٹیئر سے ہوگا جنہوں نے سابق عالمی چیمپئن امرشبانا کو تین گیمز میں ہرادیا۔ امرشبانا پٹھ کھنچ جانے کے سبب اپنا اصل کھیل پیش کرنے سے قاصر رہے۔ عالمی نمبر ایک فرانس کے تھیری لنکو سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے انتھونی رکٹس کے مقابل ہونگے جو انہیں اس سال ٹورنامنٹ آف چیمپئنز کے فائنل میں شکست دے چکے ہیں۔ کوارٹرفائنل میں لنکو نے جو اس سال ایک بھی ٹورنامنٹ نہیں جیت سکے ہیں کریم درویش کے خلاف اعتماد سے کھیلتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔ اگرچہ پہلے دو گیمز میں2000ء کے جونیئر ورلڈ چیمپئن درویش نے موجودہ عالمی چیمپئن کا سخت مقابلہ کیا لیکن ٹائی بریکر پر دونوں مرتبہ لنکو نتیجہ اپنے حق میں کرنے میں کامیاب رہے۔ تیسرے گیم میں بھی لنکو نے فیصلہ کن گھڑی میں حواس قابو میں رکھتے ہوئے میچ کو اپنے حق میں ختم کیا۔ لنکو کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان اوپن جیتنے کے لئے پرعزم ہیں لیکن اس وقت اسکواش کا معیار بہت بلند ہے اور کسی بھی کھلاڑی کی کامیابی کے بارے میں پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ انتھونی رکٹس ریفری کے شکرگزار تھے جنہوں نے پانچویں اور فیصلہ کن گیم کے فیصلہ کن مرحلے میں انگلینڈ کے نک میتھیو کے حق میں دو فیصلے نہیں دیے جو مبصرین اور شائقین کے خیال میں تھے اس واضح غلطی نے میتھیو کو سیمی فائنل میں پہنچنے کے بجائے چیمپئن شپ سے ہی باہر کردیا۔ دفاعی چیمپئن ولسٹروپ کی شکست کے بعد اب پاکستان اوپن میں اس مرتبہ بھی نیا چیمپئن سامنے آئے گا۔ جہانگیرخان اور جان شیر کی مجموعی طور پر سولہ کامیابیوں کے بعد1998 میں امجد خان فاتح بنے لیکن اگلے سال فائنل میں انہیں انگلینڈ کے پیٹرمارشل نے ہرادیا۔2002ء میں جوناتھن پاور چیمپئن بنے اور گزشتہ سال ولسٹروپ کے حصے میں پاکستان اوپن کا اعزاز آیا تھا۔ پاکستان اوپن اسکواش چیمپئن شپ سیمی فائنل مرحلے میں داخل ہوگئی ہے لیکن دفاعی چیمپئن انگلینڈ کے جیمز ولسٹروپ اس میں شامل نہیں ہیں انہیں کوارٹرفائنل میں آسٹریلیا کے ڈیوڈ پامر نے شکست دیدی تھی۔ text: اگر شہزادہ محمد بن سلمان اپنے والد کے بعد سعودی تخت سنبھالتے ہیں تو وہ اسلام کے دو اہم ترین شہروں کے محافظ بھی بن جائیں گے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان فی الحال کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں گذشتہ چند سالوں میں بہتری آئی ہے۔ دونوں ممالک کی نظر میں ایران دشمن اور امریکہ اہم اتحادی ملک ہے جبکہ دونوں ممالک کو مسلح اسلامی شدت پسندی سے بھی خطرہ لاحق ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ ہے کیونکہ سعودی عرب اب بھی ایک خودمختاد فلسطینی ریاست کا حامی ہے۔ امریکی اخباری جریدے دی اٹلانٹک سے بات کرتے ہوئے شہزادہ محمد بن سلمان نے بظاہر اس متنازع خطے پر اسرائیلی اور فلسطینی دعوؤں کو برابر قرار دے دیا ہے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا یہودی لوگوں کو اپنے قدیمی آبائی علاقوں میں کم از کم جزوی طور پر ایک خودمختار ریاست کا حق ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’میرا ماننا ہے کہ تمام لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایک پرامن ریاست میں رہیں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرا ماننا ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو اپنی اپنی زمین کا حق حاصل ہے۔ مگر ہمیں نارمل تعلقات اور سب کے لیے استحکام کے لیے ایک امن معاہدے کو یقینی بنانا ہوگا۔‘ سنہ 2002 سے سعودی عرب عرب پیس انیشیئیٹوو کا مرکزی حامی ہے جس کے تحت فلسطینی عرب مسئلے کا دائمی حل دو ریاستوں پر مبنی ہے۔ مگر اب تک کسی بھی سینیئر سعودی اہلکار نے اسرائیل کے وجود کا حق تسلیم نہیں کیا تھا۔ اگر شہزادہ محمد اپنے والد کے بعد سعودی تخت سنبھالتے ہیں تو وہ اسلام کے دو اہم ترین شہروں کے محافظ بھی بن جائیں گے۔ انھوں نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ انھیں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ رہنے پر کوئی مذہبی اعتراض نہیں جب تک کہ یروشلم کی مسجد القدس محفوظ ہو۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ اسرائیل کو اپنی سرزمین کا حق حاصل ہے۔ text: پہلے دن کے کھیل کے اختتام پر جو روٹ اور معین علی کریز پر موجود تھے اور دونوں نے بالترتیب 184 اور 61 رنز بنائے تھے۔ لارڈز میں کھیلے جانے والے اس میچ میں انگلینڈ کی کپتانی جو روٹ کر رہے ہیں۔ انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو اسے اننگز کے ابتدا میں ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے چار اہم کھلاڑی 76 رنز کے مجموعی سکور پر ہی پویلین لوٹ گئے۔ تفصیلی سکور کارڈ کے لیے کلک کریں اس کے بعد کپتان جو روٹ نے آل روانڈر بین سٹوکس کے ساتھ مل کر اننگز کو آگے بڑھانا شروع کیا۔ جو روٹ نے عمدہ کھیل پیش کرتے ہوئے اپنی سنچری مکمل کی۔ بین سٹوکس نصف سنچری سکور کر کے فاسٹ بولر کاغیزو ربادہ کے باونسر کو ہک کرنے کی کوشش میں وکٹ کیپر کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گئے۔ انگلینڈ کو ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ اس وقت مہنگا پڑا جب ابتدائی چھ اوروں میں اس کے دونوں اوپنر آؤٹ ہو گئے۔ سب سے پہلے آؤٹ ہونے والے کھلاڑی ایلسٹر کک تھے جو صرف تین رنز بنا کر ورنن فلینڈر کی گیند پر وکٹ کیپر کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گئے۔ پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے کیٹن جیننگز بھی زیادہ دیر کریز پر نہ ٹہر سکے اور سترہ کے مجموعی سکور آؤٹ ہو کر پویلین لوٹ گئے۔ گیری بیلنس اور جونی بیرسٹو بھی زیادہ دیر وکٹ پر نہ ٹہر سکے اور جب ٹیم کا سکور 76 رنز پر پہنچا تو انگلینڈ کے چار کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ انگلینڈ نے دو نئے کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا ہے۔ انگلینڈ کی ٹیم ان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے: ایلسٹر کک، کیٹن جیننگز، گیری بیلنس، جو روٹ (کپتان) جانی بیرسٹو (وکٹ کیپر)، بین سٹوکس، معین علی، لیئم ڈواسن، سٹیو براڈ، مارک ووڈ، جیمز اینڈرسن۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم: ڈین ایلگر، ہینو کوہن، ہاشم آملہ، جے پی ڈومنی، ٹیمبا بووما، تھونس ڈی برائن، کوئٹن ڈی کاک، ورنن فلینڈر، کشیو مہاراج، کاغیزو ربادہ اور مورنی مورک لارڈز میں کھیلے جانے والے پہلے کرکٹ ٹیسٹ میچ کے پہلے دن کھیل کے اختتام پر انگلینڈ نے جنوبی افریقہ کے خلاف پانچ وکٹوں کے نقصان پر 357 رنز بنائے ہیں۔ text: گوگل کو کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کی طرف سے ایک ہفتے میں کی گئی سرچز اور جن ویب سائٹس اور انڈیکس کے لیے یہ کی گئی تھیں کی ان کی معلومات مہیا کرے۔ محکمۂ انصاف چاہتا ہے کہ وہ یہ ڈیٹا عدالت میں دکھائے تاکہ فحاشی کے خلاف آن لائن قانون بنانے کا جواز پیش کیا جا سکے۔ محکمۂ انصاف کا خیال ہے کہ اس سے نجی حدود (پرائیویسی) کی خلاف ورزی نہیں ہو گی جبکہ گوگل کا موقف ہے کہ یہ بہت وسیع ہے اور اس سے تجارت کے راز افشا ہونے کا خطرہ ہے۔ گوگل یہ بھی کہتا ہے کہ مانگ ایک قابلِ تشویش بات ہے اور اس سے ایک نئے باب کا اضافہ ہو جائے گا کیونکہ حکومت جرائم اور دہشت گردی کے خلاف انٹرنیٹ کو زیادہ استعمال کرنا چاہتی ہے۔ تاہم محکمۂ انصاف کے مطابق گوگل کے دوسرے حریف حکومت سے تعاون کر رہے ہیں۔ محکمے نے گزشتہ اگست ڈیٹا کے لیے درخواست دی تھی۔ محکمہ چاہتا ہے کہ اسے ڈیٹا دیا جائے کہ کسی بھی ایک ہفتے کے اندر کون کون سے سوالات انٹرنیٹ پر پوچھے گئے تھے ان کی تعداد لاکھوں کروڑوں میں ہو سکتی ہے اور محکمے کی یہ بھی مانگ ہے کہ گوگل کے ڈیٹا بیس سے دس لاکھ کوئی سے بھی یکدم چنے گئے انٹرنیٹ کے پتے اسے مہیا کیے جائیں۔ محکمہ انیس سو اٹھانوے کے چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کا دفاع چاہتا ہے جسے چند قانونی وجوہات کی بنا پر سپریم کورٹ نے روک دیا ہے۔ انٹرنیٹ کا سرچ انجن گوگل امریکی وزارتِ انصاف کی یہ بات ماننے سے انکار کر رہا ہے کہ وہ اسے بتائے کہ لوگ انٹرنیٹ پر کیا دیکھ رہے ہیں۔ text: چھیالیس سالہ پیر بنیامن رضوی گارڈن ٹاؤن سے پنجاب یونیورسٹی کی طرف جا رہے تھے کہ ان پر موٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر دی اور فرار ہوگئے۔ پیر بنیامن موقع پر ہی ہلاک ہوگئے اور ان کا ڈرائیور اور گن مین ، محمد نصیر اورحلیم خان بعد میں ہسپتال میں دم توڑ گئے۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ فاران بیگ نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بظاہر دہشت گردی پر مبنی حملہ ہے اور اس واقعہ کی تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے۔‘ پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کے اہلکار اور ترجمان زعیم الحق قادری نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم اپنے رہنما کے ظالمانہ قتل کی شدید مذمت کرتے ہیں البتہ ابھی یہ واضح نہیں کہ بنیامین کی ہلاکت کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔‘ زعیم الحق نے اس خدشہ کا بھی اظہار کیا کہ بنیامین پر فرقہ وارانہ بنیادوں پر حملہ کیا گیا ہے۔ پیر بنیامین رضوی ضلع گجرات کے قصبہ پھالیہ کے رہنے والے تھے جو منڈی بہاؤالدین سے متصل ہے۔ انہوں نے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا ہوا تھا۔ ان کے والد بھی رکن صوبائی اسمبلی رہے ہیں۔ پیر بنیامین نے حکمران جماعت مسلم لیگ(ق) میں شامل ہونے کے بعد دوبارہ نواز گروپ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ مسلم لیگ(ن) نے اس واقعہ پر چار روزہ سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) پنجاب کے نائب صدر اور سابق صوبائی وزیر پیر بنیامن رضوی کو سنیچر کی سہ پہر ایک بجے کے قریب لاہور میں ان کے دو ساتھیوں سمیت قتل کردیا گیا۔ text: پولیس حکام نے بتایا ہے کہ یہ مبینہ طالبان افغانستان سے مختلف اوقات میں کوئٹہ علاج کے لیے پہنچے ہیں۔ آج بعد دوپہر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے زرغون روڈ پر ایک نجی ہسپتال پر چھاپہ مار کر ستائیس افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان افراد میں سے دس جنگ کے دوران زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس حکام نے بتایا ہے کہ ابھی تفتیش ابتدائی مراحل میں ہے تاہم یہ معلوم ہوا ہے کہ ان مبینہ طالبان میں دو اہم کمانڈرز شامل ہیں۔ ان طالبان کا تعلق افغانستان کے مختلف علاقوں جیسے قندھار ہلمند اور اورزگان سے بتایا گیا ہے۔ پولیس حکام نے بتایا ہے کہ ان طالبان کے پاس بین الاقوامی تنظیم کی پرچیاں تھی جن پر تحریر تھا کہ یہ لوگ جنگ میں زخمی ہوئے ہیں اور یہاں افغانستان میں مطلوبہ سہولیات نے ہونے کی وجہ سے انھیں کوئٹہ بھیجا جا رہا ہے۔ کوئٹہ سے گزشتہ ماہ کوئی ڈیڑھ سو افغانیوں کو گرفتار کرکے افغانستان حکومت کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کوئٹہ سلمان سید نے کہا تھا کہ یہ ڈیڑھ سو مشتبہ طالبان ہیں جنھیں پولیس نے گرفتار کیا ہے جبکہ جمعیت علماء اسلام کوئٹہ کے سیکرٹری اطلاعات ستار چشتی نے کہا تھا کہ پولیس نے بے گناہ دینی مدارس کے طالبعلموں کو گرفتار کرکے انھیں طالبان کا نام دے دیا ہے۔ کوئٹہ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں نے دس زخمیوں سمیت ستائیس افراد کو ایک نجی ہسپتال سے گرفتار کیا ہے جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ طالبان جنگجو ہیں ۔ text: احمد علی موتہانہ نے جمعرات کے روز ایک مقدمہ درج کروایا ہے جس میں ٹرمپ انتظامیہ پر ہدیٰ موتہانہ کی شہریت منسوخ کرنے کے لیے ’غیر قانونی کوششوں‘ کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اپنی واپسی پر ہدیٰ موتہانہ، فیڈرل چارجز کا سامنے کرنے پر رضامند ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ نے دولتِ اسلامیہ کی پروپیگینڈا کرنے والی طالبہ کا امریکہ میں داخلہ روکنے کے لیے حکام کو احکامات جاری کیے ہیں۔ ہدیٰ موتہانہ جو اب 24 سال کی ہیں، ریاست الابامہ میں پلی بڑھیں لیکن 20 سال کی عمر میں انہوں نے اپنے خاندان کو بتائے بغیر، کالج سے داخلہ واپس لیتے ہوئے اپنی ٹیوشن کے پیسوں سے ترکی کا ٹکٹ لے کر دولتِ اسلامیہ میں شمولیت کے لیے شام کا سفر کیا۔ اب ان کا ایک 18 ماہ کا بیٹا ہے اور وہ اس کے ساتھ ملک میں واپس داخل ہونے کے حق کے لیے لڑ رہی ہیں۔ مقدمہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ مس موتہانہ شام میں اپنے اعمال پر امریکی حکومت کی طرف سے کسی قسم کی پراسیکیوشن سے بچنے کے لیے بحث نہیں کر رہیں، لیکن وہ چاہتی ہیں کہ ان کی اور ان کے بچے کی امریکی شہریت قانونی طور پر تسلیم کی جائے۔ مقدمے کا اعلان کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’مس موتہانہ نے عوامی طور پر اپنے اقدامات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی پوری ذمہ داری لی ہے۔‘ ’مس موتہانہ کے الفاظ میں، وہ تسلیم کرتی ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی برباد کر لی ہے، لیکن وہ اپنے بچے کی زندگی برباد نہیں کرنا چاہتیں۔‘ یہ بھی پڑھیے ’اتحادی دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کو واپس لیں‘ عراق، شام میں کتنے غیرملکی جنگجو باقی رہ گئے؟ ’شمیمہ بیگم بنگلہ دیشی شہری نہیں‘ سیکرٹری آف سٹیٹ، مائیک پومپیو نے بدھ کے روز کہا کہ مس موتہانہ کوئی ’قانونی بنیاد‘، پاسپورٹ یا کسی قسم کے امریکی ویزا کا ’حق‘ نہیں رکھتیں۔ مسٹر پومپیو نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ انتظامیہ کے اس فیصلے کے پیچھے، اقوام متحدہ کے یمنی سفارتکار کے طور پر ان کے والد کی سابقہ حیثیت تھی۔ امریکی قانون کے مطابق، سفیروں کے بچوں کو امریکی شہری نہیں سمجھا جاتا۔ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے مسٹر موتہانہ کی ایک سفارتکار کے طور پر خدمت بند کرنے اور ان کی بیٹی کی پیدائش کے وقت کی عین ٹائم لائن پر لڑا جا رہا ہے۔ خاندان اس موقف پر قائم ہے کہ سنہ 2004 میں مس موتہانہ کو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے شہری تسلیم کرتے ہوئے پاسپورٹ جاری کیا گیا تھا۔ اس ہفتے کے آغاز میں مس موتہانہ کے وکیل، حسن شبلی نے ایک تصویر ٹوئٹر پر شئیر کی جو ان کے مطابق ہدیٰ موتہانہ کی امریکی پیدائش کا سرٹیفکیٹ تھا۔ مس موتہانہ کے والد کی نمائندگی امریکی مسلمانوں کا آئین اور قانون سے متعلق سینٹر کر رہا ہے۔ سینیٹر کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے اس خاندان کے معاملے کو لیا ہے کیونکہ آئین کے مطابق شہریت ایک ایسا اہم حق ہے جو ایک بار تسلیم ہونے کے بعد یک طرفہ ٹویٹ سے ختم کرنے کے قابل نہیں ہونا چاہیے۔ چاہے کسی شخص کا برتاؤ کتنا ہی قابلِ اعتراض کیوں نہ ہو۔ مس موتہانہ اور ان کا بیٹا فی الحال شام کے کرد کیمپ میں مقیم ہیں۔ سی این این کو دئیے گئے ایک بیان میں انہوں نے لکھا کہ جب سالوں پہلے انہوں نے امریکہ چھوڑا وہ ایک ’سیدھی سادی، غصیلی اور گھمنڈی لڑکی‘ تھیں۔ ’شام میں گزارے گئے سالوں کے دوران میں نے جس طرح کی زندگی اور جنگ کے خوفناک اثرات دیکھے اور ان سے گزری، اس سب نے مجھے بدل دیا ہے۔ خون خرابے کو اتنا قریب سے دیکھنے نے مجھے بدل دیا ہے۔ ماں بننے کے احساس نے مجھے بدل دیا ہے۔ دوستوں، بچوں اور جن مردوں سے میں نے شادی کی، ان سب کو مرتے ہوئے دیکھنے نے مجھے بدل دیا ہے۔‘ یہ مقدمہ برطانیہ میں پیدا ہونے والی لڑکی شمیمہ بیگم کے مقدمے سے مماثلت رکھتا ہے، جنہیں ان کی برطانوی شہریت سے محروم کردیا گیا ہے۔ شمیمہ بیگم نے سنہ 2015 میں برطانیہ سے فرار ہو کر دولتِ اسلامیہ میں شمولیت اختیار کر لی تھی لیکن اب وہ برطانیہ واپس آنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ امریکہ سے فرار ہو کر دولتِ اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرنے والی طالبہ ہدٰی موتہانہ کے والد اپنی بیٹی کی امریکہ واپسی کے حق کے لیے حکومت کے خلاف عدالت پہنچ گئے ہیں۔ text: کے بی سی میں ایک کروڑ جیتے والی پہلی مسلم خاتون شو کے میزبان امیتابھ بچن کے ساتھ ان کا یہ پروگرام آج سونی ٹی پر دیکھا جا سکتا ہے۔ بی بی سی ہندی کی مدھو پال کہتی ہیں: ’ان کے چہرے کی خوشی دیدنی ہے۔ وہ بات بات پر ہنس دیتی ہیں لیکن جب میں نے ان سے انٹرویو شروع کیا تو پوری طرح سنجیدہ نظر آئیں۔‘ مدھو پال کے مطابق ان کی سنجیدگی اور شائستگی ایسی چیزیں ہیں جو انھیں گیم شو میں ایک کروڑ روپے کی انعامی رقم جیتنے میں مددگار ثابت ہوئیں۔ فیروز فاطمہ اتر پردیش کے سہارنپور ضلعے کے سنسارپور نامی گاؤں کی رہنے والی ہیں اور انھوں نے اسی سال بی ایس سی مکمل کی ہے۔ اپنی جیت کا کریڈٹ وہ اپنی تعلیم کو دیتی ہیں۔ فیروز فاطمہ نے کہا: ’میرے والد دو سال پہلے انتقال کر گئے تھے اس کے بعد ہمارے خاندان پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اگر میں تعلیم یافتہ نہ ہوتی تو یہ کامیابی حاصل نہ کر پاتی۔ آج میں جو کچھ ہوں اپنی تعلیم کی وجہ سے ہوں۔‘ فیروز فاطمہ لباس سے زیادہ افکار و خیالات پر زور دیتی ہیں فیروز کے گھر میں ان کی ایک بہن اور ماں ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بچپن سے ہی ان کے رشتہ دار انھیں تعلیم دینے کے مخالف تھے۔ وہ کہتی ہیں: ’میرے والدین سے سب کہتے کہ لڑکیوں کو کیوں پڑھا رہے ہو؟ انھیں آخر روٹی ہی تو بنانی ہے لیکن میرے ماں باپ نے ان کی ایک نہ سنی۔ اب دیکھیے میری جیت سے ان لوگوں کو سخت جواب مل گیا ہوگا۔‘ فیروز کا دعویٰ ہے کہ جب سے لوگوں کو پتہ چلا ہے کہ انھوں نے ’كے بي سي‘ میں ایک کروڑ روپے جیت لیے ہیں، تب سے ان کی سوچ بھی بدل رہی ہے اور اب وہ بھی اپنی بچیوں کو تعلیم دینے کے حامی بن گئے ہیں۔ فیروز کے ساتھ ان کی والدہ بھی شو میں آئی تھیں۔ وہ اپنی ماں کو ایک بہادر خاتون بتاتی ہیں کیونکہ ان کے مطابق والد کے انتقال کے بعد ماں کی وجہ سے ہی وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔ فیروز فاطمہ اس جیت کا سہرا اپنی تعلیم کے سر باندھتی ہیں روایتی مسلم لباس میں ملبوس فاطمہ کا کہنا ہے کہ لباس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ انسانی سوچ بہتر ہونی چاہیے۔ وہ ملالہ يوسف زئی کو اپنا آئیڈیل مانتی ہیں۔ شو کے میزبان امیتابھ بچن کے بارے میں فیروز نے کہا: ’جب میں ہاٹ سیٹ پر پہنچی تو بے حد نروس تھی، لیکن امیتابھ جی نے مجھے حوصلہ دیا اور اتنی اچھی باتیں کیں کہ میری ساری گھبراہٹ دور ہو گئی، میں ان سے گلے بھی ملی، مجھے بہت اچھا لگا۔‘ شادی کے بارے میں انھوں نے کہا: ’ابھی اس بارے میں کچھ نہیں سوچا ہے، لیکن جب بھی شادی کروں گی ماں کی رضامندی سے کروں گی۔‘ وہ اس ایک کروڑ روپے کا کس طرح استعمال کریں گی؟ اس سوال پر فاطمہ نے بتایا: ’والد کے علاج کے لیے جو قرض لیا تھا اسے چكاؤں گي۔ پھر اپنی اور بہن کی تعلیم کے لیے پیسے کا استعمال کروں گی۔ پھر کیا کروں گی کبھی سوچا نہیں تھا کہ اتنا پیسہ ایک ساتھ مل جائے گا۔‘ فیروز فاطمہ اب پبلک سروس کمیشن امتحانات کی تیاری کرنا چاہتی ہیں۔ ملالہ یوسف زئی کو اپنا آئیڈیل ماننے والی 22 سالہ فیروز فاطمہ نے معروف ٹی وی شو ’کون بنے گا کروڑ پتی‘ میں ایک کروڑ روپے کی انعامی رقم جیت لی ہے۔ text: محمد عامر کو سپاٹ فکسنگ کے جرم میں لندن میں جیل بھی جانا پڑا تھا آئی سی سی نے محمد عامر پر سنہ 2010 میں پانچ برس کی پابندی لگائی تھی جو رواں برس دو ستمبر کو ختم ہونی ہے۔ اس پابندی کے تحت وہ کرکٹ کے حوالے سے کسی نوعیت کی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ عامر پر عائد پابندی میں نرمی کا فیصلہ دبئی میں جاری آئی سی سی کے اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس کے بعد جمعرات کو آئی سی سی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ تنظیم کے اینٹی کرپشن یونٹ کے سربراہ سر رونی فلینیگن نے آئی سی سی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی منظوری کے بعد اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے محمد عامر کو اجازت دے دی ہے کہ وہ فوری طور پر پاکستان کرکٹ بورڈ کے زیرِ انتظام منعقد ہونے والے کرکٹ کے مقابلوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ بیان کے مطابق اے سی ایس یو کے سربراہ مطمئن ہیں کہ عامر نے سپاٹ فکسنگ کے معاملات میں غلطی تسلیم کرتے ہوئے اپنے کردار کے بارے میں یونٹ کو مکمل طور پر آگاہ کیا ہے اور وہ اس غلطی پر پشیمان ہیں۔ آئی سی سی کا کہنا ہے کہ محمد عامر اینٹی کرپشن یونٹ کی تحقیقات میں معاون رہے ہیں اور انھوں نے اینٹی کرپشن کے تعلیمی پروگرام کے لیے پیغامات بھی ریکارڈ کروائے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے گذشتہ برس آئی سی سی سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ عامر پر پابندی کی شرائط میں نرمی کرے کیونکہ انھوں نے میچ فکسنگ کے الزامات کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی بحالی کی مدت پوری کر لی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اس کوشش میں تھا کہ پانچ سالہ پابندی ختم ہونے سے قبل ہی انھیں پاکستان کے اندر کھیلی جانے والی کرکٹ میں شرکت اور تربیت کی اجازت مل جائے تاکہ جب ان پر پابندی ختم ہو تو وہ فوری طور پر عالمی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے قابل ہوں۔ خیال رہے کہ محمد عامر کو جب سنہ 2010 میں سپاٹ فکسنگ کی پاداش میں سلمان بٹ اور محمد آصف کے ہمراہ پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا اس وقت بھی آئی سی سی کے اینٹی کرپشن ٹریبیونل کے سربراہ نے اس وقت بھی یہ کہا تھا کہ اس قانون میں نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ محمد عامر پر الزام تھا کہ انھوں نے سنہ 2010 میں محمد آصف اور سلمان بٹ کے ساتھ مل کر انگلینڈ کے خلاف سیریز میں جان بوجھ کر نو بال کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ان الزامات کے بعد آئی سی سی محمد آصف اور سلمان بٹ پر دس دس سال کی جبکہ محمد عامر پر پانچ سال کی پابندی لگائی گئی تھی۔ نامہ نگار عبدالرشید شکور کے مطابق محمد عامر پر پابندی میں نرمی کے بعد بھی ان کی فوری طور پر فرسٹ کلاس کرکٹ میں واپسی ممکن نہیں کیونکہ پاکستان میں موجودہ فرسٹ کلاس کرکٹ سیزن ختم ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب صرف مارچ میں گریڈ ٹو پیٹرنز ٹرافی کھیلی جانی ہے جسے فرسٹ کلاس کرکٹ کا درجہ حاصل نہیں لیکن اس بات کے امکانات روشن ہیں کہ کوئی نہ کوئی ڈپارٹمنٹ محمد عامر کو اپنی ٹیم سے کھیلنے کی پیشکش کر دے۔ محمد عامر پابندی سے قبل نیشنل بینک کی ٹیم میں شامل تھے لیکن سپاٹ فکسنگ اسکینڈل کےسبب ان کا معاہدہ ختم کر دیا گیا تھا۔ نامہ نگار کے مطابق نیشنل بینک محمد عامر کو پابندی ہٹنے کے بعد دوبارہ اپنی ٹیم میں شامل کرنا چاہے گا لیکن بینک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات کا انحصار بینک کے لیگل ڈیپارٹمنٹ کی کلیئرنس پر ہوگا کہ کسی سزایافتہ کو دوبارہ ملازمت دی جا سکتی ہے یا نہیں۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے سپاٹ فکسنگ کے الزام میں پابندی کا شکار پاکستانی فاسٹ بولر محمد عامر کو ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت دے دی ہے۔ text: برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل جنگ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ’ کل آدھی رات کے بعد، دو بجکر اکتالیس منٹ پر جنرل آئزنہاور کے صدر دفتر میں، جرمنی کی اعلی کمان کے نمائندے جنرل جوڈل نے بلا شرط ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کر دئے ہیں۔‘ اس اعلان کے ساٹھ سال بعد اگرچہ عام تاثر یہ ہے کہ اتحادی افواج کی بے پناہ طاقت کے سامنے جرمنی کو شکست ہونی ہی تھی، لیکن مورخین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا کہنا ہےکہ ایک مرحلے پر برطانیہ اور اس وقت کی سوویت یونین دونوں ہی شکست کے قریب پہنچ چکے تھے۔ اس کے باوجود یہ جنگ کیسے جیتی گیی؟ شاید اس کا سب سے اچھا تجزیہ جواکم وان ربن ٹراپ نے کیا جو جنگ کے دوران جرمنی کے وزیر خارجہ تھے۔ ان کے خیال میں سوویت فوج کی طرف سے توقع سے کہیں زیادہ مزاحمت، بے پناہ امریکی اسلحہ اور اتحادی افواج کی فضائی قوت فیصلہ کن ثابت ہوئے یعنی دوسرے الفاظ میں روسیوں کا خون اور امریکیوں کا پسیہ اور ٹکنالوجی جرمنی کو لے ڈوبے۔ سوویت یونین کے گیارہ ملین یعنی ایک کروڑ دس لاکھ فوجی مارے گئے، جبکہ برطانیہ کو ساڑھے سات لاکھ اور امریکہ کو چار لاکھ جانوں کا نقصان ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں آج اتنے بڑے پیمانے پر تقریبات ہو رہی ہیں۔ جنگ میں فتح کا جشن اور ان فوجیوں کی عظیم قربانی کی یاد، تقریبات ان دونوں باتوں کا امتزاج ہیں۔ لندن میں جنگ کی یادگاری تقریب کی قیادت مسلح افواج کے بشپ ڈیوڈ کونرنے کی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ’آج ہم ان تمام لوگوں کو یاد کر رہے ہیں، جنہوں نے دوسری عالمی جنگ میں آزادی انصاف اور امن کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں۔‘ اس کے بعد شہزادہ چارلس نے شہیدوں کی یادگار پر پھول چڑھائے اور فوج کے بینڈ نے خراج عقیدت پیش کیا۔ امریکی صدر جارج بش نے ہالینڈ کے شہر ماسترخت کے نزدیک امریکی فوج کے ایک قبرستان میں منعقد ہونے والی تقریب میں شرکت کی۔ اس قبرستان میں آٹھ ہزار امریکی فوجی دفن ہیں۔ صدر بش نے اس موقع پر کہا ’آج سے ساٹھ سال پہلے ختم ہونے والی اس جنگ میں، جتنے بھی لوگوں نے حصہ لیا، سبھی نے قربانیاں دیں، اور بہت سو نےاپنی جانیں تک گنواں دیں۔ آج ہم آزادی کی عظیم فتح کی یاد منا رہے ہیں، اور سنگ مرمر کی یہ ہزاروں صلیبیں اور یہودیوں کے ستارہ داؤد اس بات کے عکاس ہیں کہ ہم نے اس فتح کی کتنی بڑی قیمت ادا کی ہے۔‘ انہوں نے کہا ’امریکہ کی جانب سے میں تہہ دل سے آپکا شکریہ ادا کرتا ہوں، کہ آپ نے عظیم قربانی دینے والے امیریکیوں کو اپنے بیٹے اور بیٹیوں کی طرح سمجھا۔‘ یورپ میں یہ واحد قبرستان ہے جہاں مقامی لوگوں نے امریکی فوجیوں کی قبریں اپنا لی ہیں اور ان کی خود دیکھ بھال کرتے ہیں۔ جرمنی میں اس موقع پر جمہوریت کا جشن منایا جارہا ہے، جس میں موسیقی اور تقریریں ہوں گی جبکہ جرمن پارلیمنٹ میں بھی ایک خصوصی تقریب ہو رہی ہے۔ فرانس میں صدر ژاک شیراک نے پیرس میں ایک تقریب میں شرکت کی جہاں انہوں نے بزرگ فوجیوں کو تمغوں سے نوازا اور اسکول بچوں سے ملے۔ دوسری طرف ماسکو میں روسی صدر ولامیر پوتن نے کہا ہے کہ جنگ عظیم دوئم میں روسیوں نے نجات دہندہ کا کردار ادا کیا۔روس پہلے ہی ان تقریبات کے سلسلے میں صدر بش کے بالٹک ریاستوں کو اولیت دینے پر احتجاج کرچکا ہے۔ توقع ہے کہ کل ماسکو میں ہونے والی ایک تقریب میں پچاس ممالک کے سربراہان مملکت اور حکومت حصہ لیں گے۔ جب برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے آٹھ مئی انیس سو پینتالیس کو یورپ میں جنگ کے خاتمے اور نازی جرمنی کی شکست کا اعلان کیا، تو اس وقت تک دوسری عالمی جنگ میں چار کروڑ سے زیادہ لوگ مارے جاچکے تھے۔ text: گزشتہ روز بادشاہ کے اس اعلان کے بعد کہ وہ پارلیمان کو بحال کر رہے ہیں، اپوزیشن نے احتجاجی تحریک ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ دارالحکومت کٹھمنڈو میں انہوں کہا کہ منگل کو احتجاج کی جو کال دی گئی تھی اسے اب فتح کے جلوس میں بدل دیا جائے گا۔ اس سے پہلے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور کئی جگہ جشن کا سا سماں دیکھا گیا۔ تاہم ماؤ نوازوں نے بادشاہ کے اعلان کو مسترد کر دیا ہے اور منگل کو ان کے اکابرین کا بھی اجلاس ہو رہا ہے۔ دارالحکومت کٹھمنڈو میں لوگوں نے سڑکوں پر ’عوامی فتح‘ کے حق میں جلوس نکالا اور جمہوریت کے لیئے پرجوش نعرے لگائے۔ نیپال میں بی بی سی کے نامہ نگار شکیل اختر نے بتایا ہے کہ شاہ گینندار کے جمعہ کو پارلیمان بلانے کے اجلاس کے بعد ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور نصف شب تک لوگ خوشیاں مناتے رہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اتوار کی شام یہ کال دی تھی کہ منگل کو بادشاہ کے خلاف ایک بہت بڑا مظاہرہ ہوگا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ لوگ منگل کو بھی سڑکوں پر آئیں گے لیکن یہ فتح کا جلوس ہوگا۔ نیپال کے بادشاہ گیانیندرا نے پیر کو ٹیلی وژن پر ملک کی پارلیمان کو بحال کرنے کا اعلان عوام کے زبردست مظاہروں کے بعد کیا۔ نیپال کی پارلیمان کو چار سال پہےتحلیل کیا گیا تھا۔ حزب اختلاف نے ملک کے آئین پر نظر ثانی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ جس کے مطابق بادشاہ کو حکومت اور فوج پر وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ ہمارے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ ماؤنوازوں اور اپوزیشن کی جماعتوں میں بادشاہ کے اعلان پر ردِ عمل مختلف ہے۔ اپوزیشن شاہی اعلان کو عوام کی بہت بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے کیونکہ پارلیمان کی بحالی اس کے مطالبات میں سرِ فہرست اور سب سے پرزور مطالبہ تھا۔ نیپال سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق حزب مخالف نے فیصلہ کیا ہے کہ نئی حکومت کے سربراہ سابق وزیر اعظم گرجہ پرساد کوئیرالا ہونگے۔ text: مظاہرین کے خیال میں ورلڈ کپ مقابلوں پر رقم ضائع کی جا رہی ہے فٹبال کے عالمی مقابلے آئندہ برس جون میں برازیل میں منعقد ہونا ہیں۔ فیفا کے جنرل سیکریٹری جیروم والکے نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ برازیل میں تعمیراتی عمل میں مشکلات کے علاوہ اخراجات کے خلاف عوامی احتجاج کے تناظر میں ان مقابلوں کا انعقاد مشکل دکھائی دے رہا ہے لیکن ان مقابلوں میں خلل ڈالنا بھی صحیح نہیں ہوگا۔ برازیل میں گزشتہ کچھ عرصے میں متعدد پرتشدد مظاہرے ہوئے ہیں اور مظاہرین ورلڈ کپ کے منتظمین کی جانب سے ان مقابلوں پر رقم ضائع کرنے کے الزامات لگاتے ہیں۔ جیروم والکے نے یہ بات ایک ایسے موقع پر کہی ہے جب برازیل کے وزیرِ کھیل نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ان مقابلوں کے لیے زیرِ تعمیر تمام سٹیڈیمز فیفا کی دی گئی مدت میں مکمل نہیں ہو سکیں گے۔ فیفا نے عالمی کپ کے لیے سٹیڈیمز کی تیاری کے لیے رواں برس 31 دسمبر کی حتمی تاریخ مقرر کی تھی۔ برازیل کے وزیرِ کھیل آلڈو ریبیلو نے کہا ہے کہ ساؤ پاؤلو، کوراتیبہ، پورٹو الیگرے، کویابا، مناس اور نتال میں تعمیر ہونے والے چھ سٹیڈیم جنوری 2014 میں ہی مکمل ہوں گے۔ فیفا نے رواں ہفتے ہی سٹیڈیمز کی تعمیر کی حتمی مدت میں اضافے پر اتفاق کیا ہے۔ تنظیم کے صدر سیپ بلیٹر کا کہنا تھا کہ سٹیڈیمز کی تیاریوں میں اس قدر معمولی مسائل ہیں کہ اب ہم ’اپنی آنکھیں بند کر سکتے ہیں۔‘ 2014 کے فٹبال ورلڈ کا آغاز بارہ جون کو ساؤ پاؤلو کے ایرینا کورنتھیئنز سے ہونا ہے۔ یہی وہ سٹیڈیم ہے جہاں گزشتہ ماہ ایک تعمیراتی کرین گرنے سے دو افراد مارے گئے تھے۔ خیال رہے کہ رواں ہفتے ہی فیفا نے کہا تھا کہ برازیل میں فٹبال کے عالمی کپ کے لیے تین سٹیڈیم وقت پر تیار نہیں ہو سکیں گے تاہم اب برازیلی وزیر نے یہ تعداد بڑھا کر چھ کر دی ہے۔ بدھ کو ایک بیان میں برازیلی وزیر نے کہا کہ ’تاخیر ہو رہی ہے لیکن یہ قابلِ ذکر نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم جنوری میں تیار ہوں گے۔‘ انھوں نے ورلڈ کپ کے لیے تیاریوں کو شادی کی تیاریوں سے تشبیہ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں جس شادی میں جاتا ہوں وہاں دلہن دیر سے آتی ہے۔ میں نے آج تک کسی دلہن کو وقت پر آتے نہیں دیکھا لیکن کبھی یہ بھی نہیں دیکھا کہ اس وجہ سے شادی نہ ہو پائی ہو۔‘ برازیل نے فٹبال کے عالمی مقابلوں کے لیے بارہ سٹیڈیم تعمیر کیے ہیں جن میں سے چھ رواں برس جون کے کنفیڈریشن کپ مقابلوں سے قبل تیار ہو گئے تھے۔ فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کے جنرل سیکریٹری نے برازیلی عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ فٹبال ورلڈ کپ کے دوران ملک میں مظاہرے نہ کریں۔ text: تشدد کی وجہ سے ملک بھر میں 150 سے زیادہ پولنگ مراکز پر ووٹنگ کا عمل معطل کر دیا گیا۔ تشدد کے سائے میں انتخابی عمل: تصاویر ملک کے دسویں عام انتخابات کے لیے پولنگ اتوار کی صبح آٹھ بجے سے شام چار بجے تک ہوئی اور اب ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے۔ بنگلہ دیش کی حزبِ مخالف کی بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی سمیت 20 جماعتوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ اپوزیشن نے اس الیکشن کو ’شرمناک‘ قرار دیا ہے اور ان کے بائیکاٹ کی وجہ سے اگرچہ وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ الیکشن میں باآسانی فتح حاصل کر لے گی لیکن انتخابات کی قانونی حیثیت پر سوال کھڑے اٹھ رہے ہیں۔ پولنگ سے ایک دن قبل بنگلہ دیش میں کم از کم 100 پولنگ سٹیشنوں کو نذر آتش کیا گیا جب کہ انتخابات سے قبل چند ہفتوں میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں کم از کم 100 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ڈھاکہ سے نامہ نگار نتن شریواستو نے بتایا ہے کہ شہر میں ووٹنگ کے لیے تمام اپیلوں اور تیاریوں کے باوجود سڑکیں بالکل سنسان رہیں اور پولنگ سٹیشنوں پر بھی لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ بنگلہ دیش میں حفاطتی انتظامات کے تحت 50,000 زائد فوجی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں ان کے مطابق تشدد کے خوف سے لوگ گھروں سے نکلنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہر کے وسط میں جگن ناتھ یونیورسٹی کے پاس ایک کریکر دھماکہ بھی ہوا اور اس طرح کے کچھ دھماکوں کی خبریں شہر کے دوسرے علاقوں سے ملی ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ دھماکہ دیسی کریکر کا تھا اور یہ دھماکے لوگوں کو ڈرانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ان واقعات کے بعد ڈھاکہ میں سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔ ڈھاکہ کے علاوہ شمالی بنگلہ دیش کے علاوہ ملک کے دور دراز کے علاقوں سے تشدد کی خبریں ملی ہیں۔ حکام کے مطابق دن بھر میں تشدد کے مختلف واقعات میں 12 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں اپوزیشن کے حامیوں کے علاوہ انتخابی عملے کا ایک رکن بھی شامل ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں رنگ پور اور نلفاماری کے اضلاع میں ووٹنگ سے متعلق سامان چھیننے والے افراد کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کرنا پڑی جس سے چار افراد ہلاک ہوئے۔ چٹاگانگ میں پولیس سے تصادم میں متعدد افراد زخمی ہوئے ملک میں حفاظتی انتظامات کے تحت انتخابات کے لیے 50 ہزار سے زائد فوجی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں ڈھاکہ میں صرف آٹھ پارلیمانی نشستوں کے لیے انتخابات ہو رہے ہیں جب کہ کئی نشستیں ایسی بھی ہیں جن پر حکمراں عوامي لیگ کا امیدوار پہلے ہی بلامقابلہ منتخب کر لیا گیا ہے۔ دارالحکومت میں ٹریفک کا نظام مکمل طور پر معطل ہے اور سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کے علاوہ دوسری گاڑیاں نہیں ہیں۔ بنگلہ دیش کی حزبِ مخالف نے انتخاب کے موقعے پر سنیچر کو دو روزہ ہڑتال کی اپیل کی تھی۔ حزبِ مخالف چاہتی ہے کہ یہ انتخابات ایک غیرجانبدار نگراں حکومت کے نگرانی میں ہوتے جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے لیکن شیخ حسینہ واجد کی حکومت اس پر تیار نہیں تھی۔ امریکہ، یورپی یونین اور دولتِ مشترکہ نے بنگلہ دیش میں انتخابات کی نگرانی کرنے کے لیے اپنے مبصرین بھیجنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد بنگلہ دیشی حزبِ مخالف کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات قابلِ اعتبار نہیں ہوں گے۔ بنگلہ دیش میں اتوار کو متنازع عام انتخابات کے موقع پر اپوزیشن جماعتوں کے حامیوں اور پولیس میں تصادم کے واقعات میں انتخابی عملے کے ایک رکن سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ text: جبکہ شہر کے جنوب میں مِشخاب کے علاقے میں شیعہ راہنما آیت اللہ علی السیستانی کے ایک معاون کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ السیستانی کے ایک ترجمان کے مطابق معاون کو ان کے گھر کے باہر نامعلوم افراد نے منگل کی شام گولی ماری تھی۔ منگل کو ہی فلوجہ میں ہونے والے ایک خودکش کار بم حملے میں پندرہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ امریکہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بغداد میں سکیورٹی بڑھانے کے لیے جس منصوبے پر عمل کیا جا رہا ہے اس میں خاصی دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔ دارالحکومت میں چار ماہ سے زیرعمل اس منصوبے کے جائزے میں کہا گیا ہے کہ بغداد کے مغرب میں شیعہ اور سنی آبادیاں اب بھی پرخطر ہیں۔ اس نئے منصوبے کے تحت بغداد میں بیس ہزار سے زیادہ امریکی فوجیوں کو سکیورٹی کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ مئی کا مہینہ عراق میں امریکی فوجیوں کے لیے انتہائی ہلاکت خیز تھا جس کے دوران ایک سو بیس امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ جبکہ جون کے ابتدائی تین دنوں میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد چودہ ہو چکی ہے۔ عراقی پولیس نے کہا ہے کہ دارالحکومت بغداد میں دو کار بم دھماکوں کے نتیجے میں کم سے کم سات افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ یہ دھماکے شیعہ اکثریتی علاقے قدیمیہ میں ہوئے۔ text: چوبیس سالہ یوراج سنگھ بخار ہونے کی وجہ سے جمعرات کو ہی کوالالمپور پہنچیں گے جب ان کی ٹیم ویسٹ انڈیز کے مدمقابل ہو گی۔ یوراج سنگھ گزشتہ سال بہترین کارکردگی کی بنا پر بھارتی کرکٹ ٹیم کا ایک اہم جز بن گئے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال ایک روزہ میچوں کی سات سنچریوں میں سے چار سنچریاں بنائیں تھیں۔ بھارت کی ٹیم اس سہ ملکی ٹورنامنٹ کوجس میں ویسٹ انڈیز کے علاوہ آسٹریلیا کی ٹیم بھی شرکت کر رہی ہے چیمپیئن ٹرافی کی تیاری کے لیئے استعمال کر رہا ہے۔ چیمپیئن ٹرافی اگلے مہینے سے بھارت ہی میں کھیلی جانے والی ہے۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کو سچن تندولکر کی طویل علالت کے بعد ٹیم میں شمولیت سے کافی تقویت ملی ہے۔ اس سال مارچ میں انگلینڈ کے دورے کے بعد سے سچن تندولکر بھارتی کرکٹ ٹیم کے کسی میچ میں شامل نہیں ہو سکیں ہیں۔ سچن تندولکر ایک روزہ میچوں میں دنیا کے سب سے کامیاب ترین بلے باز ہیں انہوں نے اب تک چودہ ہزار ایک سو چھیالیس رنز بنائے ہیں جس میں انتالیس سنچریاں بھی شامل ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک پریکٹس میچ میں انہوں نے تراسی گیندوں پر ایک سو ایک رن بنائے۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کے کوچ گریگ چیپل کے مطابق سچن تندولکر بہت بہتر نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سچن کی طرف سے انہیں اب کوئی پریشانی نہیں ہے۔ کوالالمپور میں ہونے والے سہ ملکی ٹورنامنٹ میں تینوں ٹیمیں ایک دوسرے کے خلاف دو دو میچ کھیلیں گی جس کے بعد چوبیس ستمبر کو دو بہتریں ٹیموں کے درمیان فائنل کھیلا جائے گا۔ کوالالمپور میں جمعرات سے شروع ہونے والے سہ ملکی کرکٹ ٹورنامنٹ کے افتتاحی میچ میں بھارتی آل راونڈر یوراج سنگھ علالت کے باعث شریک نہیں ہو سکیں گے۔ text: نکولس ہینن نے اپنی 5 سالہ بیٹی کے لیے کتاب لکھی نکولس ہینن نے اپنے ساتھی صحافی پیئری ٹارس کے ساتھ قید کے دنوں میں بچوں کے لیے ایک کتاب لکھی۔ ’وِل ڈیڈی ہیج ہاگ ایور کم ہوم‘ (کیا ڈیڈی سیہہ کبھی گھر واپس آئیں گے) نامی کتاب ہینن نے اپنی پانچ سالہ بیٹی کے لیے لکھی اور یہ گذشتہ ہفتے شائع کی گئی ہے۔ دونوں صحافیوں نے اسے مخفی رکھتے ہوئے رات کے اوقات میں پنیر کے لفافوں پر تحریر کیا تھا۔ ہینن کے مطابق یہ کہانی دوران قید بوریت کے لمحات میں کھیلے گئے ایک کھیل سے پیدا ہوئی۔ یہ کھیل برطانوی فلاحی کارکن ڈیوڈ ہینز نے تجویز کیا تھا جنھیں بعد ازاں قتل کر دیا گیا تھا۔ ہینن بتاتے ہیں کہ ’ہمیں بتانا تھا کہ کون سا جانور ہے جو آپ کی شخصیت کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔‘ میں نے ہیج ہاگ (سیہہ) کا انتخاب کیا۔ مجھے ایک اچھی حفاظت کا خیال پسند تھا۔ حالانکہ سیہہ کی حفاظت مکمل طور پر بے وقوفانہ ہے۔‘ ’وہ قید میں بھی وہی احمقانہ طریقہ اختیار کرتا ہے۔ میں گیند کی طرح گول ہو جاؤں گا۔‘ ’لیکن دورانِ قید تحفظ کے لیے کوئی بھی تدبیر کام نہیں کرتی۔ آپ صرف ایک پتلے کی طرح ہوتے ہیں۔‘ انھوں نے اپنے ساتھی قیدیوں اور اپنے اغوا کاروں کی گفتگو کو بھی بیان کیا۔ ایسے تعلقات عموماً، خوراک اور دواؤں کے حصول کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ انھوں نے اغوا کاروں کے بارے میں کچھ متزلزل سی تفصیلات بھی فراہم کیں۔ ’میں نے غور کیا کہ یہ جہادی مقامی تہذیب اور عرب یا مسلمان تہذیب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ یہ دوسرے معاشروں کے بچے ہیں۔‘ ’وہ ہماری زبانیں بولتے ہیں، ان کی ثقافتی اقدار بھی وہی ہیں جو ہماری ہیں۔ وہ بھی وہی فلمیں دیکھتے ہیں جو ہم دیکھتے ہیں، وہی کھیل کھیلتے ہیں جو ہمارے بچے کھیلتے ہیں۔ وہ ہماری ثقافت اور ہماری دنیا کی پیداوار ہیں۔‘ ’انھوں نے سب دیکھا ہے ٹیلی ٹیوبیز سے گیم آف تھارن تک۔‘ ہینن نے بالخصوص محمد ایموازی المعروف ’جہادی جان‘ کے بارے میں بات کرنے سے انکار کیا کیونکہ ان کے ساتھی برطانوی صحافی جان کینٹائل تاحال تنظیم کی قید میں ہیں۔ کئی دوسرے مغویوں، برطانوی فلاحی کارکن ایلن ہننگ، امریکی صحافی جیمز فولی، سٹیفن سٹالف، پیٹر کیسج کو دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں قتل کر چکے ہیں۔ ہینن بتاتے ہیں کہ ایک روسی انجینیئر سرگے گوبانوف کو ان کی قید کے دوران قتل کیا گیا۔ قیدیوں نے ایک چھوٹی سی تقریب میں انھیں یاد کیا۔ نکولس ہینن نے اپنے ساتھی صحافی پیئری ٹارس کے ساتھ قید کے دنوں میں بچوں کے لیے ایک کتاب لکھی ’سب نے انھیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ جان کینٹائل نے پہلے بولا پھر ہم سب نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔‘ ہینن نے بتایا کہ اپنی قید کے دس ماہ کےدوران انھوں نے اپنے اغوا کاروں سے بات کی۔ ان کے بقول انھیں کئی شبہات دکھائی دیے، کمزور عقائد، کیونکہ انھیں اپنے لیے جواز دینا پڑتا تھا، اور ان کے بعض اقدامات کی تو کوئی جواز ممکن ہی نہیں تھا۔‘ ہینن کے خیال میں کئی جہادی واقعی شام کے متاثرین کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ لیکن وہ کہتے ہیں ’یہ کمزور لوگ ہیں۔ یہ جیسے ہی وہاں پہنچتے ہیں ان کے بھرتی کرنے والے انھیں جرم کرنے کے لیے پھنسا لیتے ہیں اور پھر ان کے لیے واپسی کا کوئی راستے نہیں رہتا۔‘ ہینن کہتے ہیں ’مجھے یاد ہے چند اغوا کاروں کے ساتھ گفتگو میں یہ صاف ظاہر تھا کہ ان کے عقائد کمزور ہیں۔ اور شاید انھیں اپنے کیے پر پچھتاوا بھی تھا۔‘ اس کے باوجود ان کے ساتھ رابطہ بہت مشکل تھا۔ تھوڑی بہت بات چیت شاید مددگار ہو لیکن اُن کے ہاں رحم کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ انھوں نے رحم کے لیے در بند کر دیے ہیں۔‘ ’ان سے رحم مانگنا سب سے بدترین عمل ہوگا۔ یہ احمقانہ ہے۔ کبھی کوشش بھی مت کیجیئے گا۔‘ برطانوی عسکریت پسند ’جہادی جان‘ کی قید میں دس ماہ تک رہنے والے ایک مغوی نے بی بی سی کو اپنی قید کے اور انہیں حراست میں رکھنے والوں سے بات چیت کے بارے میں بتایا۔ text: چلی میں رواں ماہ کے اوئل میں زبردست زلزلہ آيا تھا واضح رہے کہ بحرالکاہل کی جانب سے آنے والی تیز ہواؤں کے نتیجے میں شعلے بلند ہو رہے ہیں اور آگ کی تپش دور تک محسوس کی جا رہی ہے۔ چلی کی صدر میشیل بیچلیٹ نے شہر کو آفت زدہ قرار دینے کے بعد وہاں کے باشندوں کو شہر سے نکالنے کا کام فوج کے حوالے کر دیا ہے۔ یہ شہر سنیٹیاگو سے 110 کلومیٹر مغرب میں واقع ہے۔ دھوئیں سے لوگوں کو سانس لینے میں پریشانی ہو رہی ہے۔ شہر کے بڑے حصے میں بجلی کا نظام معطل ہے۔ شہر کے میئر جورجے کاسترو نے چلی کی قومی ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہزاروں شہریوں کے لیے پناہ گاہیں بنائی گئی ہیں جنھیں آتشزدگی کے نتیجے میں اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے۔ انھوں نے کہا: ’والپرائسو میں فی الحال بجلی نہیں ہے بڑھتی ہوئی یہ آگ بظاہر قابو سے باہر ہے۔‘ بحرالکاہل سے شہر کی جانب آنے والی تیز ہوا کی وجہ سے آگ پر قابو پانا مشکل نظر آ رہا ہے آگ پر قابو پانے کی کوشش بحرالکاہل سے آنے والی تیز ساحلی ہوا کے نتیجے میں متاثر ہوئی ہیں اور آگ شہر کے نواحی علاقوں میں داخل ہو چکی ہے۔ کسی بھی ہلاکت کی اطلاعات نہیں ہیں لیکن لوگوں کو سانس لینے میں دشواری ہے چلی کے ایمرجنسی آفیسر گوئلرمو دا لا مزا نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’موسم نے حالات کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ہوا ہماری کوئی مدد نہیں کر رہی ہے۔ آگ پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ شہر کو خالی کرانا ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔‘ شہر کو خالی کرانے کا ذمہ فوج کے حوالے کیا گيا ہے جنوبی امریکی ملک چلی کے ساحلی شہر والپرائسو کے جنگلات میں لگنے والی آگ سے ڈیڑھ سو سے زیادہ مکانات تباہ ہوگئے ہیں جبکہ ہزاروں افراد سے شہر خالی کروایا جا رہا ہے تاکہ آگ کی لپٹ سے انھیں بچایا جا سکے۔ text: سنیچر کی صبح ختم ہونے والے اس احتجاجی دھرنے کا آغاز جمعے کی شام لاہور کے مال روڈ پر ہوا تھا جس میں مرد و خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ٭ آرمی چیف فوجی عدالت سے انصاف دلوائیں: طاہر القادری ڈاکٹر طاہر القادری نے سحری کے بعد دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’رمضان کی وجہ سے دھرنا ختم نہیں بلکہ ملتوی کررہے ہیں جب کہ انصاف نہ ملا تو کسی وقت بھی دھرنے کی کال دی جاسکتی ہے۔‘ طاہر القادری کی جانب سے دھرنے کو معطل کرنے کے اعلان کے بعد دھرنے کے شرکاء پرامن طور پر منتشر ہوگئے۔ دھرنے میں پاکستان پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، تحریک انصاف ، مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، مجلس وحدت المسلمین، آل پاکستان مسلم لیگ کے وفود اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید نے بھی اظہار یکجہتی کرتے ہوئے شرکت کی۔ احتجاجی دھرنے کے دوران خطاب کرتے ہوئے طاہرالقادری نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے مطالبہ کیا کہ سانحہ ماڈل واقعے کے مقدمات کی سماعت فوجی عدالت میں کروا کر انھیں انصاف فراہم کریں۔ کارکنوں سے خطاب میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ جنرل راحیل شریف کہ کہنے پر ہی ایف آئی آر کٹی تھی اور پوری قوم کو جنرل راحیل پر اعتماد ہے اور انھیں بھی انصاف وہی دلائیں گے۔ طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ ان کا مطالبہ انصاف اور قصاص یعنی ’خون کا بدلے خون‘ ہے جبکہ موجودہ حکمرانوں کے ہوتے ہوئے انصاف کا حصول ممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسال گزر گئے کارکنوں کے قتل کے مقدمات آگے نہیں بڑھ سکے ہیں اس لیے وہ حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ طاہر القادری نے کہا کہ ’ماڈل ٹاؤن واقعے میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کو دیت کے نام پر کروڑوں روپے دینے اور بیرون ملک ملازمتوں کی پیشکش کی گئی لیکن نہ تو حکمرانوں کا جبر اور ظلم انھیں جھکا سکا اور نہ دولت و زر ان کے اعتماد کو متزلزل کرسکا، ہم اب قانون کی جنگ لڑتے رہیں گے کوئی سودا نہیں کریں گے۔‘ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کی جانب سے ماڈل ٹاون واقعے میں پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے 14کارکنوں کی دوسری برسی کے موقع پر دیے جانے والے احتجاجی دھرنے کا اختتام ہوگیا۔ text: یہ ریکارڈ ایسے مریضوں کے لیے امید کی کرن ہے جو دل کی تبدیلی کے منتظر ہیں: جان میکفرٹی جان میکفرٹی نے 31 برس قبل مڈل سیکس کاؤنٹی کے ہیئر فیلڈ ہسپتال سے اس وقت ’ہارٹ ٹرانسپلانٹ‘ کروایا تھا جب ڈاکٹروں نے انھیں بتایا کہ وہ مزید پانچ برس ہی زندہ رہ سکیں گے۔ ان سے پہلے اس آپریشن کے بعد طویل ترین عرصے تک زندہ رہنے کا اعزاز ایک امریکی شہری کے پاس تھا جو 30 برس، 11 ماہ اور دس دن زندہ رہنے کے بعد 2009 میں انتقال کر گیا تھا۔ بکنگھم شائر کاؤنٹی سے تعلق رکھنے والے جان میکفرٹی کا کہنا ہے کہ ان کا یہ ریکارڈ ایسے مریضوں کے لیے امید کی کرن ہے جو دل کی تبدیلی کے منتظر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’میں اس عالمی ریکارڈ کو ہر اس شخصں کے لیے متاثر کن سمجھتا ہوں جو یا تو دل کی تبدیلی کا منتظر ہے یا میرے جیسا خوش قسمت ہے کہ اس عمل سے گزر چکا ہے۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’میرا مشورہ یہی ہے کہ ہمیشہ پرامید رہیں اور مستقبل کے بارے میں مثبت سوچ رکھیں اور ہاں یقیناً ماہر ڈاکٹروں سے مشورہ کریں۔‘ جان میکفرٹی نے دل کی تبدیلی کا آپریشن بیس اکتوبر 1982 کو کروایا تھا اور یہ عمل دنیا کے مشہور سرجن ڈاکٹر سر مغدی یعقوب نے سرانجام دیا تھا۔ میکفرٹی میں 39 برس کی عمر میں ڈائلیٹڈ کارڈیو مایوپیتھی کی تشخیص کی گئی تھی جو کہ دنیا میں دل کی خرابی کی سب سے عام وجوہات میں سے ایک ہے۔ اس بیماری میں جہاں دل پر خراشیں پڑ جاتی ہیں وہیں اس کی بافتیں بھی متاثر ہوتی ہیں، دل کمزور پڑنے کے ساتھ ساتھ حجم میں بڑا بھی ہو جاتا ہے اور یوں اسے خون پمپ کرنے میں دشواری پیش آنے لگتی ہے۔ دنیا میں دل کی تبدیلی کا پہلا کامیاب آپریشن 1967 میں جنوبی افریقہ میں پروفیسر کرسچین نیتھلنگ نے 30 ماہر ڈاکٹروں کی مدد سے کیا تھا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں دل کی تبدیلی کے بعد لوئی واشکینسکی نامی مریض 18 دن زندہ رہ سکا تھا۔ برطانیہ کے 71 سالہ جان میکفرٹی دنیا میں دل کی تبدیلی کے عمل سے گزرنے کے بعد طویل ترین مدت تک زندہ رہنے والے شخص بن گئے ہیں۔ text: اس بحث کے کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو پر سوشل میڈیا کے لوگ اپنی اپنی سمجھ کے اعتبار سے رائے دینے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ میچ میں پاکستان کی شکست کے بعد اپنی خراب کارکردگی کے لیے سینيئر کرکٹر شعیب ملک تو پہلے سے ہی لوگوں کے نشانے پر تھے لیکن جب سے ایک ریستوران میں ثانیہ مرزا کے ساتھ ان کی تصویر وائرل ہوئی ہے، ثانیہ بھی اس کی زد میں آ گئیں۔ کسی نے انھیں انڈیا کا بارھواں کھلاڑی، کسی نے را (انڈیا کی خفیہ ایجنسی) کا ایجنٹ، کسی نے انڈر کور، تو کسی نے انڈیا کی جیت میں ان کے کردار پر بات کی۔ یہ بھی پڑھیے BabyMirzaMalik#: کوئی ماموں تو کوئی خالہ ’دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشہ نہ ہوا‘ ماہرہ خان کا بےغیرت سگریٹ اس سے قبل کسی ریستوران کے باہر کسی نے ثانیہ کی ان کے بیٹے کے ساتھ ویڈیو بھی بنائی جو وائرل ہوئی اور اس پر ثانیہ مرزا نے برہمی کا اظہار کیا۔ ویڈیو ڈالنے والے نے ویڈیو ہٹا تو لی لیکن ابھی اس کے متعلق ٹینس سٹار ثانیہ مرزا کی تلخی کم نہیں ہوئی تھی کہ پاکستانی اداکارہ وینا ملک نے ایک نصیحت آموز ٹویٹ کر ڈالا جو شاید جلتی پر تیل کا کام کر گیا۔ دراصل وینا ملک نے جنک فوڈ ریستوران آرچیز میں ثانیہ کو اپنے بچے کے ساتھ جانے کے بارے میں تادیبی قسم کا ٹویٹ کیا تھا۔ انھوں نے لکھا: 'ثانیہ، میں آپ کے بچے کے بارے میں واقعی متفکر ہوں۔ آپ لوگ اسے شیشہ پینے والی جگہ لے گئے۔ کیا یہ صحت کے لیے مضر نہیں؟ جہاں تک مجھے علم ہے آرچی جنک فوڈ کے لیے جانا جاتا ہے جو کہ ایتھلیٹ/بچوں کے لیے ٹھیک نہیں۔ آپ کو یہ بہتر طور پر معلوم ہونا چاہیے کیونکہ آپ خود ایک ماں اور ایک ایتھلیٹ ہیں؟' ثانیہ نے اس کے جواب میں لکھا: 'وینا، میں اپنے بچے کو شیشے کی جگہ نہیں لے گئی تھی۔اس سے نہ آپ کو اور ناں ہی دنیا کے باقی لوگوں کو سروکار ہونا چاہیے کیونکہ میرے خیال سے میں اپنے بیٹے کا کسی سے بھی زیادہ خیال رکھتی ہوں۔ دوسرے یہ کہ ناں میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ڈائٹیشین ہوں، ناں ہی ان کی ماں یا پرنسپل یا ٹیچر ہوں۔' ان دو ٹویٹس سے سوشل میڈیا کو مصالحہ مل گیا اور انھوں نے اپنی پسند کے اعتبار سے حمایت اور مخالفت شروع کر دی۔ پاکستان اور انڈیا دونوں جگہ ثانیہ مرزا ٹرینڈ کرنے لگیں۔ بقول وینا ملک ثانیہ مرزا ان کی بات پر اس قدر بھڑکیں کہ انھوں نے ان کے ماضی کو لے کر ذاتی کمنٹس کر ڈالے لیکن بعد میں انھوں نہ صرف ٹویٹ ڈیلیٹ کر دی بلکہ وینا ملک کو بلاک بھی کر دیا۔ اس پر وینا نے ٹویٹ کیا: 'تو ایسا ہوا۔ پہلے انھوں نے ٹویٹ کیا پھر ٹویٹ کو ڈلیٹ کر دیا اور مجھے بلاک کردیا۔ میں نے اپنے خدشات کو انتہائی مہذب، ٹھنڈے اور سلیقے سے ظاہر کیا تھا۔ اس پر صحت مندانہ بحث ہو سکتی تھی۔' خیال رہے کہ اتوار کو پاکستان کی شکست کے بعد سے ایک ریستوران کی تصویر وائرل ہے جس میں ثانیہ مرزا، ان کے شوہر شعیب ملک کے ساتھ کرکٹر انعام الحق، وہاب ریاض، عماد وسیم وغیرہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کے درمیان ایک بوتل ہے اور دھوئیں کے مرغولے اٹھ رہے ہیں۔ اس ویڈیو کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ سنیچر اور اتوار کی شب کی بات ہے۔ لیکن پاکستانی کرکٹ بورڈ کے مطابق یہ جمعے اور سنیچر کے درمیانی شب کی بات ہے۔ ان سب کے باوجود بہت سے لوگ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی فٹنس کے بارے میں لاپروائی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ شعیب ملک نے بھی ایک ٹویٹ کے ذریعے معاملہ ٹھنڈا کروانے کی کوشش کی۔۔۔ سوشل میڈیا پر ردِعمل انڈیا میں زیادہ تر لوگ ثانیہ کے حق میں نظر آتے ہیں لیکن بہت سے ایسے ہیں جو ثانیہ کے دوسرے ٹویٹ پر زیادہ ناراض ہیں جس میں ثانیہ نے وینا ملک کے ماضی کو کریدنے کی کوشش کی ہے۔ ایک نے لکھا: ’ثانیہ نے وینا کو انھیں کے انداز میں جواب دیا۔ بہت اچھا تھا۔‘ اس کے جواب میں ’سانو کی‘ نامی صارف نے لکھا: ’ثانیہ نے ایک انتہائی معمولی بحث جیتنے کے لیے وینا کو اخلاق باختہ کہہ کر شرمندہ کیا۔ مجھے اس کی کبھی امید نہ تھی۔ آج انھوں نے بہت سے لوگوں کے درمیان اپنا وقار کھو دیا۔‘ جبکہ مہوش بھٹی نے ایک ٹویٹ نے لکھا: 'ثانیہ، وینا ملک تنخواہ پر ہیں اور وہ کسی بھی چیز پر کسی کو بھی ٹرول کریں گی۔ انھیں نظر انداز کریں۔' مریم نامی ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا: 'وینا ملک نے انتہائی سمجھداری کے ساتھ ثانیہ مرزا کو اپنے بچے کو شیشے کی جگہ لے جانے کے خطرات کے بارے میں بتایا۔ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ وہ ان کا بچہ نہیں تھا۔ لیکن پھر عالمی شہریت یافتہ ایتھلیٹ بھابھی اپنے پر اتر آئیں اور وینا کو ان کے ماضی کی یاد دلائی، ایسا ماضی جسے وہ پیچھے چھوڑ چکی ہیں۔ ثانیہ مرزا کی جانب سے یہ بہت نیچے اترنا تھا۔' آدم بیزار نامی صارف نے لکھا: 'ثانیہ مرزا نے وینا ملک کو اخلاق باختہ کہہ کر شرمسار کرنے کی کوشش کی جبکہ برسوں سے انھوں نے خود کو بیدار شخص کے طور پر پیش کیا ہے۔ میں ان (ثانیہ) کی مداح تھی لیکن اب میں متنفر ہوں۔ 'اگر ان کا حال بھی ویسا ہی ہوتا جیسا کہ ماضی تھا تو بھی انکا سلٹ شیمنگ اچھا نہیں۔۔۔' ‏عائشہ نواز نے مریم کا جواب دیتے ہوئے لکھا: 'ثانیہ مرزا کے لیے اپنے ہی سلیبریٹی کی تضحیک اور تنقید خالصتاً غیر اخلاقی ہے۔ وینا ملک اپنے ٹویٹ میں غلط نہیں تھیں۔ لیکن دوسری جانب ثانیہ نے بہت نیچے گر کر اپنی اصلیت کو واضح کر دیا ہے۔ وہ ہمارے لیے سلیبریٹی نہیں ہیں۔ وہ منھ پھٹ اور مغرور خواتون کے علاوہ کچھ نہیں۔' جبکہ انڈیا کی معروف صحافی برکھا دت نے ثانیہ کے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا: 'ثانیہ نے بے سرو پا جنسیت پر ٹھیک کہا جو انھیں دوسرے ملک کی شکست کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔' جبکہ مانو پروہت نامی صارف نے لکھا: 'وینا ملک، ثانیہ مرزا نے اصل ٹویٹ کو تبدیل کرکے آپ کو غیر ضروری ٹرول سے بچا لیا لیکن آپ اس کی مستحق نہیں۔ ثانیہ بہت مہربان رہیں لیکن ہم سب نہیں ہیں۔' دراصل ڈلیٹ کیے ہوئے ٹویٹ میں ثانیہ نے وینا ملک کے ایک میگزن پر شائع ہونے والی تصویر کا ذکر کرکے اسے بچوں کے لیے نقصاندہ قرار دیا تھا۔ ایس ایس اسالٹ کے نامی ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا: 'ثانیہ مرزا نے اپنی گھٹیا ذہنیت کا مظاہرہ کیا جبکہ وینا ملک نے طنز کرتے ہوئے بھی صحیح بات کہی۔ اور اس گولی سے بچنے کے لیے انھوں نے سلٹ شیمنگ کارڈ کھیلا۔ اور پھر ٹویٹ ڈلیٹ کر دیا اور اس کا مختصر روپ پیش کیا۔ لیکن ایس ایس نے اسے لے لیا۔' ورلڈ کپ کے دوران انڈیا پاکستان کے میچ کا شاخسانہ سوشل میڈیا پر وینا ملک اور ثانیہ مرزا کے درمیان تلخ کلامی کی صورت نکلا اور اس نے نئی بحث کو جنم دے دیا۔ text: ہڑتال کی کال حالیہ دنوں فوج کی فائرنگ کے دوران جنوبی کشمیر کے ترال قصبہ میں نوجوان کی ہلاکت اور مسرت عالم کی گرفتاری کے خلاف دی گئی ادھر کشمیری رہنما سید علی گیلانی اور دوسرے علیحدگی پسند گروپوں کی کال پر سنیچر کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہڑتال کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے تعلیمی اور تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں۔ ہڑتال کی کال حالیہ دنوں فوج کی فائرنگ کے دوران جنوبی کشمیر کے ترال قصبہ میں نوجوان کی ہلاکت اور مسرت عالم کی گرفتاری کے خلاف دی گئی۔ سرینگر کے مغربی علاقے ناربل میں سنیچر کی صبح بھارتی نیم فوجی اہل کاروں نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس کے نتیجے تین نوجوان زخمی ہوگئے۔ تینوں نوجوانوں کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں انِ میں شامل 17 سالہ سہیل صوفی زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے۔ عینی شاہدین کے مطابق نوجوان ناربل میں احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے کہ پولیس اور سی آر پی ایف نے ان پر براہ راست فائرنگ کی جس میں سہیل کی ہلاکت ہوگئی۔ پولیس کے ترجمان منوج کمار نے ایک بیان میں اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ گولی چلانے والے فورسز کے اہلکاروں نے ضابطوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ منوج کمار کے مطابق ’اس سلسلے میں ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے اور ہم تفتیش کر رہے ہیں۔ اس واقعہ میں ایک 17 سالہ نوجوان ہلاک ہوا اور ہم غمزدہ خاندان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔‘ عینی شاہدین کے مطابق نوجووان ناربل میں احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے کہ پولیس اور سی آر پی ایف نے ان پر براہ راست فائرنگ کی جس میں سہیل کی موت ہوگئی واضح رہے کشمیر میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حمایت سے پی ڈی پی کی حکومت بننے کے بعد سے ہی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ تازہ تنازع اُس وقت ہوا جب سید علی گیلانی کی ریلی میں مسرت عالم بٹ نے پاکستان نواز نعرے بازی کی اور لوگوں نے پاکستانی پرچم بھی لہرایا۔ حکومتِ ہند نے وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید پر دباؤ ڈالا کہ وہ مسرت عالم کو گرفتار کرے جنھیں حال ہی میں ساڑھے چار سال کی قید کے بعد رہا کیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق مسرت عالم نے سنہ 2010 میں کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کی قیادت کی اور وہ زیرِ زمین رہ کر ہر ہفتے احتجاج کا پروگرام جاری کرتے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ فی الحال مسرت عالم سات روز تک پولیس حراست میں رہیں گے اور بعد میں ان کے خلاف غداری کا مقدمہ عدالت میں پیش ہوگا۔ دریں اثنا جموں کٹرہ شہر میں بی جے پی کے کارکنوں کا دوروزہ اجلاس جاری ہے۔ اجلاس میں شرکت کے دوران نائب وزیراعلیٰ نرمل سنگھ نے کہا ’کشمیر میں قوم دشمنوں کو بخشا نہیں جائے گا۔‘ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں فی الوقت ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حمایت یافتہ پی ڈی پی کی حکومت ہے اور وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید کو آئے روز بی جے پی اور حکومت ہند کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں فرضی جھڑپوں اور علیحدگی پسند رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف جاری مظاہروں کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے اور سنیچر کو ایسے ہی ایک مظاہرے میں فائرنگ سے ایک نوجوان ہلاک ہوگیا ہے۔ text: اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے فلسطین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پسے ہوئے لوگوں کی انسانی فطرت ہوتی ہے کہ وہ قبضے کے خلاف ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ سلامتی کونسل میں بات کرتے ہوئے بان کی مون نے فلسطینیوں کے اسرائیلیوں پر چاقوؤں سے حملوں کے حالیہ واقعات کی مذمت کی تھی۔ اکتوبر سے تشدد کے واقعات میں 155 فلسطینی اور 28 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ’قبضے کے خلاف ردعمل انسانی فطرت ہے‘ ’حملوں کی حالیہ لہر فلسطینیوں بطور خاص نوجوانوں میں تنہائی اور مایوسی کے گہرے احساس کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔نصف صدی سے قبضے اور امن کے عمل کے مفلوج ہونے کے بوجھ کی وجہ سے فلسطینیوں کی مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ‘ انھوں نے مزید کہا:’پسے ہوئے لوگ عرصے سے احتجاج کر رہے ہیں، قبضے کے خلاف ردعمل انسانی فطرت ہے جس کے نتیجے میں اکثر نفرت اور انتہا پسندی کی زبردست افزائش ہوتی ہے۔‘ سیکریٹری جنرل بان کی مون نے حملوں کی مذمت کی لیکن اس کے ساتھ کہا کہ اسرائیل کی جانب سے بستیوں کی تعمیر اس کے فسلطینی ریاست کے قیام کے وعدے پر شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہے۔‘ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے ایک بیان میں بان کی مون کے بیان کی مذمت کرتے کہا کہ ’سیکریٹری جنرل دہشت کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور دہشت کا کوئی جواز نہیں۔‘ اکتوبر سے تشدد کے واقعات میں 155 فلسطینی اور 28 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں انھوں نے الزام عائد کیا کہ فلسطین ریاست کے قیام کے خلاف کام کر رہا ہے۔ ’فلسطینی قاتل ریاست قائم نہیں کرنا چاہتے ہیں، وہ ایک ریاست کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔۔۔وہ امن کے لیے قتل نہیں کرتے اور نہ ہی حقوق انسانی کے لیے قتل کرتے ہیں۔‘ وزیراعظم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ’ اقوام متحدہ بہت عرصے پہلے ہی اپنی غیر جانبداری اور اخلاقی قوت کھو چکی ہے۔‘ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون پر دہشت کی حوصلہ افزائی کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ text: میونخ میں سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی تعلقات کی جانب امریکہ کے ’بہت خطرناک‘ رویے سے ایٹمی اسلحے کی دوڑ کو تقویت ملی ہے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں دنیا میں امریکی کردار کے حوالے سے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے بیان کو مایوس کن اور حیرت انگیز قرار دیا گیا ہے۔ وائٹ ہاوس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ روسی صدر نے جو الزامات عائد کیے ہیں وہ غلط ہیں تاہم امریکہ روس سے اپنا تعاون جاری رکھےگا۔ صدر پوتن نے مندوبین سے کہا تھا کہ دنیا کو ’بین الاقوامی تعلقات میں لگ بھگ لامحدود طاقت کے کثرت سے استعمال‘ کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا: ’ایک ملک، امریکہ، ہر طور پر اپنی سرحدوں سے تجاوز کررہا ہے۔‘ روسی صدر نے مزید کہا: ’یہ بہت خطرناک ہے۔ کوئی بھی محفوظ محسوس نہیں کرتا کیونکہ کوئی بھی عالمی قوانین کی پناہ نہیں لے سکتا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’اس وجہ سے اسلحے کی دوڑ کو تقویت مل رہی ہے اور (دوسرے) ممالک ایٹمی ہتھیار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘ روسی صدر کے خطاب سے قبل جرمنی کی چانسلر انگیلا مرکل نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ عالمی برادری ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے پرعزم ہے۔ ایران کے ایٹمی معاملات کے مذاکرات کار علی لاریجانی بھی جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والی اس سکیورٹی کانفرنس میں شرکت کررہے ہیں۔ میونخ میں ہونے والی یہ کانفرنس 1962 میں شروع ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں ہر سال عالمی رہنما اپنے وقت کے اہم مسائل پر خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اپنے خطاب میں جرمن چانسلر انگیلا مرکل نے کہا کہ ایران کے اقوام متحدہ اور اس کے ایٹمی ادارے آئی اے ای اے کے مطالبات سے بچنے کا ’کوئی راستہ‘ نہیں بچا۔ انگیلا مرکل نے کہا: ’ہم یہاں جس چیز کی بات کررہے ہیں وہ، بہت، بہت حساس ٹیکنالوجی ہے۔ اور اس وجہ سے ہم (اس معاملے میں) شفاف طریقہ دیکھنا چاہتے ہیں جو کہ ایران فراہم نہیں کر پایا ہے۔‘ توقع کی جارہی ہے کہ ایرانی مندوب علی لاریجانی اس کانفرنس کو بتائیں گے کہ ان کا ملک ایٹمی ہتھیار نہیں بلکہ ایٹمی توانائی کا خواہاں ہے۔ اس کانفرنس میں یورپی یونین کے سفارتکار علی لاریجانی سے مذاکرات کرنے والے ہیں۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے امریکہ کو ’بہت خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے اس پر دنیا میں ’تقریباً لامحدود‘ طاقت کے استعمال کے لیے شدید تنقید کی ہے۔ text: مقدمے کے ملزم کو سزا ہونے کی صورت میں ایک سال جیل ہو سکتی تھی عدالت میں موجود جیوری میں ہالی ووڈ کے مشہور ادارکار ٹام ہینکس بھی شامل تھے۔ وکیلِ صفائی نے لاس انجلیس کے وکیلِ استغاثہ کے دفتر کی ایک خاتون رکن کا ٹام ہینکس کے قریب جانے اور ان کا شکریہ ادا کرنے کے غیر پیشہ وارانہ برتاؤ کی بنیاد پر عدالت سے مقدمہ خارج کرنے کی درخواست کی۔ مقدمے کے ملزم کو سزا ہونے کی صورت میں ایک سال جیل ہو سکتی تھی۔ تاہم ایک سمجھوتے کے تحت ملزم پر 150 امریکی ڈالر جرمانہ عائد کرنے پر اتفاق ہوا۔ آسکر انعامِ یافتہ اداکار ٹام ہینکس گذشتہ ہفتے شروع ہونے والے اس مقدمے میں بارہ ارکان پر مشتمل جیوری کا حصہ تھے۔ وکیلِ صفائی انڈریو فلائر نے ٹی ایم زی کو بتایا کہ بدھ کو کھانے کے وقفے کے دوران لاس انجلیس کے اٹارنی جنرل کے دفتر کی ایک خاتون رکن نے ٹام ہینکس سے بات کی جو کہ وکلا کا کمرۂ عدالت سے باہر جیوری کے ارکان سے بات کرنے کے قانون کے خلاف ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’خاتون رکن عمارت کی سیڑھیوں پر ٹام ہینکس سے ملی اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے ٹام سے کہا کہ وہ اس بات سے سب بہت متاثر ہیں کہ ان جیسی اتنی مشہور شخصیت جیوری میں اپنی خدمات دے گی۔‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ’حقیقت میں شاید وہ سٹار سٹرک یا ٹام کے سحر میں تھی لیکن سو فیصد ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس کی بالکل اجازت نہیں ہے۔‘ وکیلِ صفائی کی طرف سے اس غیر پیشہ ورانہ برتاؤ کو ثابت کرنے کے لیے عدالت میں درخواست کے بعد دونوں طرفین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ملزم معمولی الزامات کو مان لے گا۔ لاس انجلیس کے اٹارنی جنرل کے دفتر کی ترجمان اس واقعے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ اس معاملے سے شہر کے اٹارنی جنرل کو مطلع کیا گیا ہے جو اس صورتِ حال کو دیکھے رہے ہیں۔ امریکہ کی ایک مقامی عدالت میں زیرِ سماعت مقدمہ جیوری پر اثر انداز ہونے کے الزامات کی وجہ سے وقت سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ text: جمعیت علمائے اسلام نے اس ماہ کی 27 تاریخ کو حکومت کے خلاف احتجاجی مارچ جسے آزادی مارچ کا نام دیا گیا ہے، شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ یہ مارچ 31 اکتوبر کو اسلام آباد پہنچے گا۔ وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ 'اگر یہ مارچ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی تشریح کے مطابق آئین اور قانون کے دائرے میں ہوا تو اس کی اجازت ہو گی۔' اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ حکومت جمہوری نظریات کی سربلندی پر پختہ یقین رکھتی ہے۔ اعلامیے میں جمعیت علمائے اسلام کے مجوزہ احتجاج کے لیے ’آزادی مارچ‘ کا لفظ ہی استعمال کیا گیا ہے۔ یہ بھی پڑھیے مولانا فضل الرحمان کے حکومت مخالف مارچ کا خصوصی ضمیمہ انصار الاسلام کیا ہے، حکومت اس پر پابندی کیوں چاہتی ہے؟ ’اداروں سے جنگ نہیں چاہتے، احتجاج حکومت کے خلاف ہے‘ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے مختلف مقامات پر منگل کی رات سے کنٹینرز رکھے جانے کا سلسلہ جاری ہے تاہم دوسری جانب حکومت اس مارچ کے حوالے سے خصوصی اقدامات کرتی بھی نظر آ رہی ہے۔ اسلام آباد میں ڈی چوک اور سرینا چوک کے آس پاس بدھ کی سہ پہر تک لگ بھگ پچاس کنٹینرز سڑک کنارے نظر آئے، جو ضلعی انتظامیہ کے مطابق مارچ کے شرکا ریڈ زون کی جانب جانے کی صورت میں سڑکوں پر رکھے جائیں گے۔ شہری کیا کہتے ہیں؟ اسلام آباد کے شہری مارچ اور کنٹینرز دونوں سے پریشان نظر آرہے ہیں۔ محمد بشیر نامی ایک شہری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں کی جانب سے کنٹینرز کے استعمال سے ’پاکستانی سیاست کنٹینرز کی سیاست بن چکی ہے‘۔ ان کا کہنا تھا ’ہم ابھی سے پریشان ہیں کہ کیا ہوگا؟ روزگار کی بھی فکر ہے اور ملک کی بھی۔ اگر اسلام آباد کو بند کیا جاتا ہے، تو ہماری زندگیاں رک جائیں گی‘۔ بدھ کی دوپہر کو بھی بلیو ایریا کے ساتھ اے کے فضل الحق روڈ پر دو ٹرالروں میں کنٹینرز ڈی چوک کی طرف لے جائے جارہے تھے، جن میں سے ایک ٹرالر ڈرائیور مستجاد نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کو صرف ڈیزل فراہم کیا گیا ہے، تاہم اُن کو یہ معلومات نہیں دی گئیں کہ اُنھیں کرایہ ملے گا بھی یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا ’پیسے کون دیتا ہے یہاں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے ’ہر دھرنے میں ہمارے کنٹیرز استعمال ہوئے ہیں، لیکن کبھی بھی اُن کا کرایہ نہیں دیا گیا۔ اب بھی صرف ڈیزل دیا ہے، کرائے کا پتہ نہیں‘۔ تاہم وہاں موجود دوسرے ٹرالر کے ڈرائیور راشد محمود نے بتایا کہ اُن کے ساتھ انتظامیہ نے کرایہ طے کر لیا ہے اور اُنھیں ’ایک کنٹینر پر فی دن کے حساب سے سات ہزار روپے‘ دیے جائیں گے۔ کتنے کنٹینرز کا بندوبست کیا جا رہا ہے؟ اسلام آباد میں ضلعی انتظامیہ کے بعض ذرائع کے مطابق پولیس نے جڑواں شہروں کے لیے تین سے چار سو کے درمیان کنٹینرز کا مطالبہ کیا ہے اور ان کنٹینرز کو دو دنوں سے مختلف علاقوں تک پہنچانے کا کام شروع کیا جاچکا ہے۔ اگرچہ ابھی تک ڈی چوک کے علاوہ کسی شاہراہ کو کنٹینرز کے ذریعے بند نہیں کیا گیا ہے، تاہم مختلف جگہوں پر یہ کنٹینرز سڑک کنارے پہنچا دیے گئے ہیں۔ پنجاب حکومت نے کیا ہدایات دی ہیں؟ پنجاب حکومت کی جانب سے 22 اکتوبر کو جاری کردہ ایک نوٹیفیکیشن میں صوبے بھر کے ڈپٹی کمشنرز کو خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں۔ ان اختیارات کے تحت ڈپٹی کمشنرز مخصوص جرائم بشمول بغاوت پر اکسانے جیسے کسی بھی کیس میں صوبائی حکومت کی طرف سے شکایت کنندہ ہوں گے۔ وفاقی حکومت نے حزبِ اختلاف کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کو آزادی مارچ کی مشروط اجازت دے دی ہے۔ text: ایک تو دونوں ٹیمیں زبردست فارم میں ہیں، اور دوسرا یہ کہ دونوں کے درمیان پرانی رنجش ہے جس کی جڑیں انیس سو چھیانوے کے ورلڈ کپ تک جاتی ہیں جب آسٹریلیا نے سکیورٹی کے خدشات ظاہر کرتے ہوئے اپنا میچ کھیلنے کے لیے سری لنکا جانے سے انکار کر دیا تھا۔ حسن اتفاق سے فائنل آسٹریلیا اور لنکا کے درمیان ہی ہوا، اور لنکا نے اروندا ڈی سلوا کی شاندار سینچری کی مدد سے اپنا انتقام لے لیا۔ اس کے بعد مرلی دھرن کے ایکش پر آسٹریلوی اپمائر ڈیرل ہیر نے اعتراض کیااور تب سے دونوں ٹیموں کی آپس میں نہیں بنتی۔ لنکا کے کوچ ٹام موڈی کہتے ہیں کہ وکٹ شروع میں فاسٹ بولز کی مدد کرے گی لیکن بعد میں اسپنرز کو کھیلنا مشکل ہوگا۔ سری لنکا کے خطرناک فاسٹ بولر لست ملنگا کے ٹخنے کی سوجن کم ہے، کل انہوں نے نیٹس میں تھوڑی دیر بولنگ بھی کی لیکن ٹام موڈی کے مطابق انہیں آج ٹیم میں شامل کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ وہ سیمی فائنل سے قبل کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔ نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے میچ کی طرح آج بھی ٹاس فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے لیکن گراؤنڈ اسٹاف کاکہنا ہے کہ آج وکٹ میں اتنی نمی نہیں ہوگی جتنی پچھلےمیچ میں تھی۔ آسٹریلیا کو اس میچ میں بھی شین واٹسن کے بغیر کام چلانا ہوگا لیکن سب کی نگاہیں لیگ اسپنر بریڈ ہاگ پر ہوں گی جو شین وارن کے بعد سے ٹیم میں اسپن کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں۔ اس وکٹ پر اسپنرز کافی کامیاب رہے ہیں۔ لیکن سری لنکا کے لیے بڑا چیلنج شروع میں ہی ایڈم گلکرسٹ اور میتھیو ہیڈن کی جوڑی کو توڑنا ہوگا جو اپنی جارحانہ بیٹنگ سے چند ہی اوورز میں کھیل کا رخ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ گرینیڈا کے نیشنل اسٹیڈیم میں پیر کو سری لنکا اور آسٹریلیا کے درمیان ہونے والے مقابلے کو مبصرین ایک منی فائنل کےطور پر دیکھ رہے ہیں۔ مقابلہ ہمیشہ کی طرح سخت ہونے کی توقع ہے اور اس کی دو وجہ ہیں۔ text: تقریبا ایک برس تک کشیدگی، خونی حملے اور کارروائیاں برداشت کرنے کے بعد ہی گزشتہ برس ستمبر میں حکومت اور مقامی طالبان کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے پر مقامی آبادی نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ لیکن بہت لے دے کے بعد یہ صرف دس ماہ ہی چل سکا۔ ستمبر کا معاہدہ طے پانے میں دو شخصیات نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان میں ایک اس وقت کے نئے گورنر علی جان اورکزئی تھے جنہوں نے مسئلے کا حل عسکری طریقے کی بجائے سیاسی انداز سے نکالنے کا اعلان کیا تھا۔ معاہدے کے حوالے سے دوسری اہم شخصیت جعمیت علماء اسلام کے رکن قومی اسمبلی مولانا نیک زمان تھے۔ معاہدے کے ابتدائی دنوں میں دونوں اس کا بھرپور دفاع کرتے دکھائی دیتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے جذبے میں کمی آتی گئی۔ علاقے میں فوجی کارروائیوں کے بعد تو گورنر صاحب نے جیسے اس بارے میں لب کشائی ہی چھوڑ دی۔ یہ واضح نہیں کہ فوجی کارروائیاں گورنر کی رضامندی سے کی گئیں یا نہیں۔ اس کی شاید ایک وجہ مغربی خصوصاً امریکی میڈیا اور درپردہ حکومت کا دباؤ بھی ہوسکتا ہے۔ امریکیوں نے تو پہلے دن سے اس معاہدے کو شک کی نگاہ سے دکھنا شروع کر دیا تھا۔ ان کی خبروں میں کبھی وزیرستان سے سینکڑوں کی تعداد میں شدت پسندوں کی سرحد پار اتحادی افواج کے خلاف کارروائیوں کی ہوتیں یا پھر دہشت گردی کے کیمپس اور القاعدہ اور طالبان کے اہم رہنماؤں کے بارے میں ہوتا کہ انہوں نے اس علاقے میں پناہ لے رکھی ہے یا پھر یہاں آتے جاتے ہیں۔ افغانستان کے ذرائع ابلاغ بھی کوئی زیادہ مختلف نہیں تھے۔ ایسے میں بظاہر دباؤ میں آ کر خطے میں دو چار فوجی کارروائیاں کی گئیں جن سے معاہدے کے بعد پیدا ہونے والے خیرسگالی کے جذبات ٹھنڈے پڑنا شروع ہوگئے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کے ایک گروہ کی جانب سے معاہدہ توڑنے اعلان کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ یہ معاہدہ قبائل سے ہے۔ لیکن یہ قبائل جو کہ معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے قائم امن کمیٹی میں شامل تھے پہلے ہی حکومت کے دتہ خیل میں ایک آپریشن پر بطور احتجاج اس کمیٹی سے مستعفی ہوچکے ہیں۔ تاہم حکومت کی جانب سے گزشتہ چند روز سے خطے میں بیس سے پچیس مختلف مقامات پر حفاظتی چوکیوں نے بظاہر طالبان کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا۔ انہیں اعتراض تھا کہ ان چوکیوں سے قبائلیوں کو شدید تکلیف تھی اور ان کے کپڑے بھی اتار کر ان کی تلاشی لی جانے لگی تھی۔ ستمبر کے معاہدے میں یہ بات واضع طور پر لکھی گئی تھی کہ فوج صرف کیپموں تک محدود رہے گی اور چوکیاں ختم کر دی جائیں گی۔ پھر چوکیوں کے اس اچانک قیام کی وجہ کیا تھی معلوم نہیں ہوسکا ہے۔ فوجی کارروائیوں سے متاثرہ افراد کو معاوضے کی عدم ادائیگی کی شکایت شدت پسندوں کو معاہدے کے آغاز سے تھی۔ حکومت نے کچھ افراد کو تو رقم دی لیکن شدت پسندوں کے مطابق سب کو نہیں۔ البتہ شدت پسندوں کے خلاف زمینی و فضائی کارروائیاں مقامی طالبان کی ایک اہم شکایت تھی۔ حکام نے ان حلموں کو دھماکہ خیز مواد کے پھٹنے سے تعبیر کیا تاہم اس تاویل کا قبائلی علاقوں میں کوئی اثر نہیں ہوا۔ مقامی لوگ اب بھی کہتے ہیں کہ یہ فضائی حملے یا تو پاکستانی اور یا پھر سرحد پار سے امریکی افواج نے کیے۔ مبصرین کے نزدیک صورتحال نے یقینا ایک خراب شکل اختیار کر لی ہے تاہم اس کا ایک خطرناک پہلو مقامی طالبان کا دعویٰ ہے کہ اس مرتبہ اس جنگ میں جنوبی وزیرستان کے قبائل بھی ان کی پشت پر ہوں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس مرتبہ میدان جنگ صرف شمالی یا جنوبی نہیں بلکہ تمام وزیرستان ہوگا۔ یہ ایک بڑا علاقہ ہوگا جہاں اپنی رٹ قائم رکھنا حکومت کے لیے ایک مشکل ضرور ثابت ہوگی۔ شمالی وزیرستان میں مقامی طالبان نے قبائلیوں کے حکومت سے رابطوں پر پابندی عائد کر دی ہے جبکہ حکومت نے طالبان کی ڈیڈلائن کے جاری کرنے کے بعد سے اس معاہدے کو بچانے کی بظاہر کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے۔ text: حکومت کو ایوارڈز کی واپسی کی تحریک میں سائنسدان، تاریخ دان اور فلم ساز بھی شامل ہوچکے ہیں مصنفین کی جانب سے حکومت کو ایوارڈز کی واپسی کی جو تحریک شروع ہوئی تھی اس میں سائنس دان، تاریخ دان اور فلم ساز بھی شامل ہو چکے ہیں۔ بھارت اور بیرون ملک بسنے والے تقریباً 200 اساتذہ نے ملک میں بڑھتی ہوئی ’عدم رواداری اور تعصب‘ کے خلاف ایک مشترکہ بیان بھی جاری کیا ہے۔ یہاں تک کہ عامر خان اور شاہ رخ خان جیسے اداکاروں نے بھی اس موضوع پر بات کی ہے۔ پارلیمان میں موسم سرما کے اجلاس میں حزب اختلاف کے سیاستدانوں نے بڑھتی ہوئی رواداری پر بحث کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے اس ضمن میں ایم ایم کلبرگی اور گوند پنسارے جیسے عقلیت پسندوں کو جان سے مارنے اور گائے کا گوشت کھانے کے شبہے میں ایک شخص کو ہلاک کرنے جیسے واقعات کا حوالہ دیا ہے۔ تاہم بہت سارے لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بھارت میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت میں اچانک عدم رواداری پروان نہیں چڑھی۔ بہت سارے لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بھارت میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت میں اچانک عدم رواداری پروان نہیں چڑھی کتابوں اور فلموں پر عرصہ دراز سے پابندیاں عائد ہوتی رہی ہیں۔ ملک بھر میں لکھاریوں اور فنکاروں کو سیاسی جماعتوں اور دیگر گروہوں کی جانب سے ہراساں کیا جاتا رہا ہے۔ تجزیہ کار موکو کیساون کہتے ہیں کہ حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کا لبرل اقدار کے تحفظ کے حوالے سے کوئی شاندار ریکارڈ نہیں رہا ہے۔ تو کیا بھارت کو اکثریتی سیاست کی جانب سے ایک نئی طرز کی عدم رواداری کا سامنا ہے؟ یا جیسا کہ تجزیہ کار ٹی این نینن کہتے ہیں کہ عدم رواداری کا کچھ حصہ ایک پیچیدہ قوم کے ’ترقی سے جڑے معاشرتی غصے‘سے متعلق ہے؟ سنجے سبرامنیم فرانس اور امریکہ میں پڑھاتے ہیں اور ان کا شمار بھارت کے بہترین تاریخ دانوں میں ہوتا ہے۔ میں نے ان سے نریندر مودی کے زیراثر بھارت میں عدم روادی کے پھیلاؤ کے بارے میں بات چیت کی۔ سنجے سبرامنیم کہتے ہپیں کہ ’میں تقریباً ایک سال سے بھارت نہیں گیا لہذا میرا مشاہدہ دور سے ہے۔‘ وہ کہتے ہیں: ’تاہم ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بی جے پی کے پاس پارلیمان میں اکثریت حاصل ہے جسے اپنے اس ایجنڈے کے نفاذ کا موقع سمجھا جا سکتا ہے جسے وہ سنہ 2004-1998 میں نہیں کر سکے تھے۔ ’لوگ اس بارے میں زیادہ خدشہ ظاہر نہ کرتے اگر یہ اتحادی حکومت ہوتی۔‘ ’مزید یہ کہ موجودہ وفاقی حکومت مسلسل دو زبانیں بول رہی ہے۔ ایک زیادہ مناسب اورصبرو تحمل والی اور دوسری زیادہ اودھم مچانے والی اور جارح۔‘ وہ کہتے ہیں: ’یہ ‘اچھا پولیس والا، برا پولیس والا‘ جیسی پالیسی جیسی ہے۔ یہ واقعی پریشان کن ہے اگر یہ حکومت کے آئندہ پانچ برسوں میں روایت بن جائے۔‘ سنجے سبرامنیم فرانس اور امریکہ میں پڑھاتے ہیں اور ان کا شمار بھارت کے بہترین تاریخ دانوں میں ہوتا ہے سنجے سبرامنیم کہتے ہیں: ‘یہ سچ ہے کہ آزاد بھارت میں ’لبرل اقدار‘ کمزور رہی ہیں۔ ان کو نشانہ بنانے کے معاملے میں بی جے پی تنہا نہیں ہے۔ کچھ جماعتیں واقعی طور پر اصل سیاسی لبرل ازم کا مظہر ہیں۔ ’اگر دو جیب کترے مجھے لوٹ لیتے ہیں، تو کیا یہ کوئی مداوا ہے؟ اگر حالیہ سیاسی ماحول میں تنقید سیاسی بنیادوں پر ہوتی اور صرف ان سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہوتی جن کا اپنا ماضی تاریک ہے (جیسا کہ کانگریس) تو پر یہ اتنا بڑا مسئلہ نہ ہوتا۔‘ سنجے سبرامنیم کے مطابق یہ تنقید سول سوسائٹی کی ارکان کی جانب سے کی جارہی ہے جو خوفزدہ ہیں، اور جب وہ پرامن انداز میں احتجاج کرتے ہیں تو انھیں ظالمانہ انداز میں ملک چھوڑ کر کہیں اور چلے جانے کا کہنا جاتا ہے۔ سنجے سبرامینم بی جے پی کی حالیہ حکومت اور گذشتہ ادوار سے کرتے ہوئے ہیں کہ جب اشتعال انگیزی عام بات چیت کا حصہ بن جائے تو خدشات لاحق ہونے کی بہت سی وجوہات سامنے آتی ہیں۔ ’بی جے پی صرف تنہا گروہ نہیں جو ایسا کرتا ہے، لیکن وہ بھارت میں بہت سارے حصوں میں حکومت میں ہیں۔‘ ’اگر میں پاکستان میں رہتا ہوتا تو میرے خدشات سلافیوں کے بارے میں ہوتے، اگر فرانس میں رہتا تو فرنٹ نیشنل کے بارے میں ، جو اکثریتی زبان استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’فرانسیسی ہماری شرائط پر بنو یا پھر انجام کے لیے تیار رہو۔‘ ہمیں اپنے حال اور ماضی کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے: سنجے سبرامنیم وہ کہتے ہیں کہ ’اس کے خلاف احتجاج کی ضرورت ہے، جیسا سنہ 1975 کی ایمرجنسی کے خلاف ہوا، یا نندی گرام (کی ہلاکتوں) پر احتجاج کی ضرورت پیش آئی تھی۔ ہم بی جے پی کی دھونس کو رعایت کیوں دی جائے؟‘ تہذیبی طور پر بھارت کے روادار ہونے کے بارے میں سنجے سبرامنیم کہتے ہیں کہ تاریخی مقام ہونے کے لحاظ سے، بھارت دنیا کے کسی دوسرے حصے سے کمتر یا بہتر نہیں ہے۔ ’ہمیں یہ دعویٰ کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ ہم باقی تمام سے بہتر ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہم نہیں ہیں، ہمیں اپنے حال اور ماضی کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’بھارتی تاریخ کا ایک طالب علم اس کے ماضی میں مذہب، ذات، رنگ، غیروں سے نفرت یا سیاسی طور ہونے والے تشدد کی کمی نہیں دیکھتا۔‘ سنجے سبرامنیم کے مطابق بھارت میں کبھی بھی ’سنہری دور‘ نہیں رہا۔ کچھ ایسے مواقعے رہے ہیں جس میں رواداری اور مل جل کر ایک ساتھ رہا گیا ہے لیکن دراصل یہ ایسا شاذ و نادر ہی ہوا ہے یہ قانون نہیں رہا۔ بھارت میں حالیہ چند ہفتوں میں اداکاروں، دانشوروں اور سائنس دانوں نے ملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔ text: مہمند ایجنسی میں بیت اللہ گروپ کے تحریک طالبان پاکستان کے مقامی ترجمان ڈاکٹر اسد نے کہا کہ ان کے حامیوں نے مخالف شاہ صاحب گروپ کے امیر اور نائب امیر سمیت پندرہ افراد کو قتل کردیا ہے جبکہ ان کے بیس حامیوں اور دو مراکز کو بھی قبضہ میں لیا ہے۔ بیت اللہ گروپ کے ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا کہ مخالف گروپ غیروں کے اشاروں پر چل کر مہمند ایجنسی میں مقامی عسکریت پسندوں کے لیے مسائل پیدا کر رہا تھا۔ ترجمان نے مزید دعویٰ کیا کہ مخالفین کے مراکز سے بڑی تعداد میں اسلحہ اور گاڑیاں بھی قبضہ میں لی گئی ہیں۔ مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ جمعہ کی شام عمر خالد گروپ نے مخالف گروہ کے امیر شاہ خالد المعروف شاہ صاحب، نائب امیر اور ان کے دو مراکز پر قبضہ کیا اور ان کے سو سے زائد حامیوں کو بھی حراست میں لے لیا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ شاہ صاحب اور ان کے نائب امیر سمیت پندرہ افراد کو قتل کردیا گیا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے شاہ صاحب گروپ کا تعلق اہلحدیث مسلک سے تھا جبکہ عمر خالد اور ان کے حامی دیوبندی مسلک سے بتائے جاتے ہیں۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہ گروپ افغانستان میں سرگرم عمل تھا جبکہ وہ مقامی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا تھا۔ مہمند ایجنسی میں ہلاک ہونے والے شاہ گروپ کے امیر شاہ خالد، نائب امیر مولوی عبید اللہ اور تین دیگر حامیوں کی نماز جنازہ سنیچر کی شام عید گاہ پشاور میں ادا کی گئی جس میں شاہ گروپ کے حامیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ نماز جنازہ کے بعد خود کو شاہ صاحب گروپ کے ترجمان ظاہر کرنے والے خطاب نامی ایک شخص نے صحافیوں سے مختصر گفتگو میں کہا کہ افغانستان میں طالبان کے سربراہ ملا عمر ان کے امیر المومنین ہیں اور ان کا گروپ ملا عمر ہی کے کہنے پر افغانستان میں کفر کے خلاف جہاد کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے گروپ نے پاکستان میں کبھی کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ ترجمان نے ملاعمر اور دیگر جہادی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ کمانڈر شاہ خالد اور دیگر ساتھیوں کی ہلاکت کا نوٹس لیں اور اس واقعہ کی تحقیقات کی جائے۔ پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں مقامی طالبان کے دوگروپوں کے مابین جھڑپ میں پندرہ افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ text: میولت چووشولو نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا میکخواں یورپ کے لیڈر بننا چاہتے تھے مگر ناکام ہوئے میولت چووشولو نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا میکخواں یورپ کے لیڈر بننا چاہتے تھے مگر وہ ناکام ہو گئے ہیں۔ گذشتہ ماہ میکخواں نے اس وقت ترکی کو ناراض کیا تھا جب فرانس نے شامی ڈیموکریٹک فورس (جس کی قیادت کرد ہے) کے ایک افسر کی میزبانی کی تھی۔ ترکی اس تنظیم کے ایک حصے کو دہشت گرد گردانتا ہے۔ ترکی اور فرانس کے درمیان یہ جھگڑا برطانیہ میں نیٹو کے ممالک کے اہم اجلاس سے ایک ہفتے پہلے ہوا ہے۔ یہ دونوں ممالک نیٹو کے رکن ہیں۔ اس سے قبل جمعرات کو میکخواں نے کہا تھا کہ وہ تین ہفتے قبل دیے گئے اپنے بیان پر قائم ہیں جب انھوں نے نیٹو کو 'ذہنی طور پر مردہ' قرار دیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ نیٹو کے ممبر ممالک کو بیداری کی ضرورت ہے کیونکہ بہت سے اہم معاملات پر یہ ممالک آپس میں مشاورت نہیں کر رہے۔ انھوں نے ترکی کے شمالی شام میں فوجی حملے پر نیٹو کی خاموشی پر بھی تنقید کی۔ ترک وزیر نے کیا کہا؟ ترکی اور روس کے فوجی دستے شام میں اکھٹے گشت کرتے ہوئے جمعرات کو پارلیمان میں صحافیوں سے گفتگو میں ترکی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ 'وہ (میکخواں) پہلے ہی دہشت گرد تنظیم کو سپانسر کر رہے ہیں۔ اگر وہ دہشت گرد تنظیم کو اپنا اتحادی کہیں گے تو پھر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انھوں نے مزید کہا کہ 'ابھی یورپ میں ایک خلاء ہے۔ میکخواں یورپ کے لیڈر بننا چاہتے ہیں۔ لیکن لیڈر شپ قدرتی ہوتی ہے۔' ترکی نے اس وقت ناراضگی کا اظہار کیا تھا جب میکخواں نے پیرس میں آٹھ اکتوبر کو ایس ڈی ایف کی ترجمان خاتون جہانے احمد سے مذاکرات کیے تھے۔ میکخواں کے دفتر کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ملاقات ایس ڈی ایف، جو کہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑ رہی ہے، کے ساتھ یکجہتی کا اظہار تھی۔ اس کے علاوہ ان کی جانب سے ایک بار پھر ترکی کے شام میں فوجی آپریشن پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس کے ایک دن بعد ہی ترکی نے شمالی شام میں سیف زون بنانے کے لیے کرد ملیشیا سے علاقے کو کلیئر کیا۔ ترکی اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے درمیان تعلقات تب سے خراب ہیں جب سے انقرہ نے روس سے رواں برس کے آغاز میں زمین سے فضا میں نشانہ بنانے والے ایس 400 میزائل سسٹم کو خریدا ہے۔ ترکی کے وزیر خارجہ نے فرانسیسی صدر ایمنیوئل میکخواں پر 'دہشت گردی کو سپانسر' کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ انھوں نے یہ بیان شام میں ترکی کے حملوں پر فرانسیسی صدر کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے دیا ہے۔ text: سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث کئی افراد ہلاک ہوئے ہیں کوئٹہ میں فرنٹیئر کور کے ترجمان کی جانب سے سنیچر کو فراہم کردہ معلومات کے مطابق یہ کارروائی ناگ کے علاقے میں کی گئی۔ ترجمان کے مطابق عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع پر ایف سی نے اس علاقے میں کاروائی کی ۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ فائرنگ کے تبادلے میں دو عسکریت پسند ہلاک ہوگئے جبکہ 12 کو گرفتار کیا گیا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ہلاک اور گرفتار ہونے والے عسکریت پسند قومی شاہراہ کی تعمیر میں مصروف فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے کارکنوں اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کے علاوہ دیگرجرائم میں ملوث تھے۔ ادھر ضلع کیچ میں نامعلوم مسلح افراد نے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے کارکنوں پر فائرنگ کی ہے۔ کیچ میں انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق یہ حملہ بالگتر کے علاقے میں کیا گیا مگر اس حملے میں کوئی جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا۔ ادھر کوئٹہ اور قلعہ سیف اللہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں میں ’را‘ کے ایک مبینہ ایجنٹ سمیت تین افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ نے فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ کوئٹہ سے گرفتار شخص بھارتی خفیہ ادارے کا ایجنٹ ہے جس کے قبضے سے دیسی ساختہ بم برآمد ہوا ہے اور وہ چھ ستمبر کو یومِ دفاع کے موقع پر تخریب کاری کرنا چاہتا تھا۔ ایک اور کارروائی میں افغانستان سے متصل قلعہ سیف اللہ کے علاقے گوال اسماعیل زئی سے بھی دو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ سکیورٹی فورسز کے ذرائع کے مطابق گرفتار افراد کا تعلق شدت پسند تنظیم سے ہے جن سے اسلحہ و گولہ بارود بھی بر آمد کیا گیا ہے۔ آزاد ذرائع سے تاحال واشک اور قلعہ سیف اللہ میں ہلاک اور گرفتار افراد کی کسی عسکریت پسند تنظیم سے تعلق کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع واشک میں فرنٹیئر کور نے ایک کارروائی میں دو عسکریت پسندوں کو ہلاک اور 12 کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ text: ایک واقعے میں ایک کار بم دھماکے میں سکیورٹی فورسز کے دو اہلکار ہلاک ہوگئے۔ یہ دھماکہ افغانستان کی سرحد کے قریب شمالی وزیرستان میں واقع ایک چیک پوسٹ پر ہوا۔ دھماکے میں کار میں سوار شخص بھی دھماکے میں مارا گیا۔ میران شاہ کے مغربی علاقے دتا خیل میں واقع سکیورٹی پوسٹ پر فائرنگ کے اس واقعے میں سکیورٹی فورسز کے دو اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کار سوار کو جب معمول کے سکیورٹی معائنے کے دوران رکنے کے لیے کہا گیا تواس نےگاڑی کی رفتار بڑھا کر سکیورٹی اہلکاروں پرفائرنگ شروع کر دی۔ کار سوار کی فائرنگ سے دو فوجی موقع پر ہی ہلاک اور تین زخمی ہو گئے اور کار میں دھماکے سے سوار شخص بھی ہلاک ہو گیا۔ مقامی شدت پسند گروہ کے ایک ترجمان عبداللہ فرحاد کے مطابق دھماکہ خودکش حملہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سکیورٹی فورسز کی اپنی عورتوں کی تلاشی لینے پر غصہ میں ہیں اور اسی کے اظہار کے لیے انہوں نے ایسا کیا۔ فوج کے ترجمان میجر شوکت سلطان نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ایک خودکش حملہ ہو سکتا ہے اور وہ خودکش حملے کے امکان کی تردید نہیں کرتے‘۔ اس سے قبل انٹیلیجنس ایجنسی کے ایک اہلکار کے مطابق دو نقاب پوش شدت پسندوں نے حکومت نواز قبائلی رہنما ملک تختی خان کو اس وقت گولیاں ماریں جب وہ میر علی میں سبزی اور پھلوں کے ایک ہفتہ وار بازار سےگزر رہے تھے۔ انیٹیلجنس اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ پچاس سالہ ملک تختی خان موقع پر دم توڑ گئے۔ ملک تختی خان کو مارنے والے نقاب پوش اپنے دو دیگر ساتھوں کے ہمراہ موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور ابھی تک انہیں گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔ ملک تختی خان سرکاری حکام سے شمالی وزیرسان کے مرکزی شہر میران شاہ میں باقاعدگی سے ملتے تھے اور شدت پسندوں کو شک تھا کہ وہ ان ملاقاتوں میں حکومت کو ان کے بارے میں معلومات پہنچاتے ہیں۔ ادھر جنوبی وزیرستان میں دو فوجی ٹھکانوں پر کُل گیارہ راکٹ داغے گئے ہیں۔ ان میں سے پانچ راکٹ ایزر رائے کے فوجی ٹھکانے جبکہ چھ پالا پتھر کے مقام پر گرے۔ فوج نے جوابی کارروائی بھی کی تاہم ان دونوں واقعات میں کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔ شمالی وزیرستان میں دو مختلف واقعات میں چار افراد ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے ہیں۔ text: سن ہوئی کے مطابق شمالی کوریا میں حالیہ دنوں کچھ چیزیں تبدیل ہوئی ہیں لیکن دو شہریوں نے زندگی کو لاحق خطرات اور جیل جانے کے خدشات کے باوجود بی بی سی کے وکٹوریا ڈربی شائر پروگرام میں بات کرنے کی ہامی بھر لی۔ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کا درجہ تقریباً خدا کے برابر تصور کیا جاتا ہے اور یہاں بہت سے لوگ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ان کے بارے میں بلند آواز میں سوال کیا جا سکے۔ شہری یہ سمجھتے ہیں کہ کم جونگ اُن کو سب کے بارے میں معلوم ہوتا ہے اور انھیں انحراف کرنے والوں کے بارے میں معلومات دی جاتی ہیں جن میں ان کے اپنے خاندان کے افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ مارکیٹ میں کاروبار کرنے والے سن ہوئی ( فرضی نام) جانتی ہیں کہ وہ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ سن ہوئی کے مطابق زیادہ تر لوگ کم جونگ ان پر کاروباری ہونے پر تنقید کرتے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ وہ ہماری طرح کے کام کرتا ہے لیکن ہماری ہی رقم لے لیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چھوٹے قد کا یہ آدمی اپنے دماغ کو ویمپائر (خون چوسنے والی چمگادڑ) کی طرح ہمارے پیسے کو ہڑپ کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ شمالی کوریا کے بارے میں مزید پڑھیے پیانگ یانگ میں زندگی کے شب و روز 'جیل میں مجھ سے دوسروں کی لاشیں دفن کروائی گئیں‘ دنیا کے خفیہ ترین ملک کے اندر زندگی بی بی سی کا پروگرام کئی ماہ سے شمالی کوریا کے عام شہریوں سے سوالات کرنے کے لیے رابطوں کا ایک خفیہ نیٹ ورک استعمال کر رہا تھا اور اب بی بی سی نے ان کے نام خفیہ رکھنے اور شناخت ظاہر نہ ہونے کے حوالے سے اقدامات کیے ہیں۔ اگر شمالی کوریا کی حکومت کو سن ہوئی کی شناخت کے بارے میں معلوم ہو جائے تو اس صورت میں انھیں متعدد الزامات میں سزا کا سامنا ہو گا جس میں سخت ترین لیبر کیمپ میں عمر قید کا سامنا اور سزائے موت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ نہ صرف ان کو سزا کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ ان کے خاندان کی تین نسلوں کو بھی جیل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ شمالی کوریا سن ہوئی اپنے خاوند اور دو بیٹیوں کے ساتھی رہتی ہیں۔ اگر کاروبار اچھا ہو تو تین وقت کا کھانا کھاتی ہیں لیکن اچھا نہیں ہوتا تو چاولوں میں مکئی ملا کر کھاتی ہیں۔ بازار جہاں وہ کام کرتی ہیں، وہاں پر کھانا، سمگلنگ کی الیکڑانک مصنوعات جیسی چند ایک اشیا ہیں جنھیں فروخت کیا جا سکتا ہے۔ روزنامہ این کے مطابق ملک میں 50 لاکھ لوگوں کا براہ راست یا بالواسطہ ایسے بازاروں پر انحصار ہوتا ہے۔ جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں قائم میڈیا کا ادارہ شمالی کوریا کے اندر کی زندگی کے بارے میں رپورٹیں دیتا ہے اور اس نے شمالی کوریا کے اندر موجود اپنے نیٹ ورک کے ذریعے بی بی سی کے وکٹوریا ڈربی شائر پروگرام کی مدد کی۔ سن ہوئی نے بتایا کہ ایسے بازاروں میں بععض اوقات سینکڑوں دکانیں ہوتی ہیں اور یہ چغل خوری اور افواہوں کے فروغ کے مقام بھی ہوتے ہیں۔ ’میں نے بازار میں سنا کہ امریکی صدر آ رہے ہیں۔ لوگ اس ملاقات کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے لیکن ہر ایک امریکہ کو ناپسند کرتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہماری غربت کی زندگی کا ذمہ دار امریکہ ہے کیونکہ اس نے ہمیں (جنوبی کوریا) سے علیحدہ کر دیا اور اس سے بالکل کاٹ کر رکھا دیا ہے۔‘ شمالی کوریا میں معلومات کی ترسیل کو سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے اور یہاں پر امریکہ اور ہمسایہ ملک جنوبی کوریا کے بارے میں شدید پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ سن ہوئی کے مطابق حالیہ عرصے میں چیزیں تبدیل ہو رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمیں جنوب کے ساتھ ہونا چاہیے اور حال ہی میں کہنا شروع کیا ہے کہ ہمیں امریکہ کے ساتھ پرامن طریقے سے رہنا چاہیے اور ہر ایک کی اچھی زندگی ہونی چاہیے۔ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے بارے میں زیادہ تر افراد کھل کر بات کرنے کا سوچ نہیں سکتے شمالی کوریا کی فوج میں کام کرنے والے چؤل ہؤ (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی سے امید بہت سادہ ہے، اور وہ یہ کہ بغیر کسی عداوت کے، اور مرنے تک بغیر بیمار ہوئے اچھی زندگی گزرے۔ وہ امید کرتے ہیں کہ اسے طرح کی زندگی ان کے والدین اور بچوں کے نصیب میں ہو۔ چؤل ہؤ نے بھی بی بی سی کے وکٹوریا ڈربی شائر پروگرام میں خفیہ بات چیت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کے اندر اختلافات ہیں جس میں لوگ اپنی روزہ مرہ زندگی کے بارے میں شکایات کرتے ہیں۔ بعض لوگ’ غلط کاموں‘ پر ریاست کے سکیورٹی ادارے کے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں۔ لوگ اچانک غائب ہو جاتے ہیں لیکن ایسا حالیہ عرصے میں نہیں ہوا ہے۔ چؤل بیرونی دنیا کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے جن لوگوں کے بارے میں چؤل بات کر رہے ہیں انھیں اکثر ملک کے جیل کیمپوں میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں کے بارے میں اطلاعات دی جاتی ہیں کہ قیدیوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور انھیں اپنے قبریں خود ہی کھودنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور ریپ کو سزا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیم ایمنیسٹی کے مطابق اس طرح کے کیمپوں میں ایک وقت میں 20 ہزار تک قیدی موجود ہو سکتے ہیں۔ سن ہوئی کے مطابق ان کیمپوں کی ’دہشت‘ ہے جس سے معاشرہ چلتا ہے اور جہاں وہ رہتی ہیں وہاں بہت سارے لوگوں کو حکومت نے پکڑا ہے۔ چؤل ہؤ کو یقین ہے کہ بعض لوگوں کو بیؤبو (کیمپ) میں اس وجہ سے بھیجا گیا تاکہ افسران اپنی کاررکردگی کے بارے میں کہانیاں بنا سکیں۔ وہ لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ چین جانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور پھر ان کے بارے میں رپورٹ کر دی جاتی ہے۔ ملک میں سمگل کیے جانے والی فلمیں اور ٹی وی شو دیکھنے کے جرم میں ملک کے لیبر کیمپوں میں دس برس تک قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ شمالی کوریا کے بارے میں مزید پڑھیے شمالی کوریا کی فوجی خواتین کس حال میں ہیں؟ شمالی کوریا: خفیہ ریاست کے بارے میں 9 حقائق شمالی کوریا میں امریکی شہری زیرِ حراست شمالی کوریا کا فوجی بھاگ کر جنوبی کوریا پہنچ گیا شمالی کوریا کی حکومت غیر ملکی میڈیا کے بارے میں سخت کریک ڈاؤن کرتی ہے کیونکہ یہ مواد مغرب کے خلاف پروپیگنڈے کو نقصان پہنچتا ہے۔ بہت سارے افراد چین سے یو ایس بی اور ڈی وی ڈی کے ذریعے ایسے مواد کو ملک میں سمگل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ سن ہوئی کے مطابق جنوبی کوریا کی چیزیں سب سے زیادہ مقبول ہیں اور وہ خود تسلیم کرتی ہیں کہ انھوں نے خود کوریا کے ڈرامے اور غیر ملکی فلمیں رات کو دیکھ رکھی ہیں لیکن ان چیزوں کے خلاف کریک ڈاؤن بہت سخت ہے۔ میں نے سن رکھا ہے کہ ایسا مواد برآمد ہونے پر بھاری رشوت دینا پڑتی ہے لیکن لوگ پھر بھی اس کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ’اس کو سمجھنا بہت آسان ہے کیونکہ لوگوں کو جنوبی کوریا کی زندگی کے بارے میں تجسس ہے۔‘ لیکن شمالی کوریا میں ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو بیرونی دنیا کی جھلک دیکھ سکتے ہیں اور بہت سارے یہ جانتے ہیں کہ وہ کس طرح سے اس کو محسوس کرتے یا سمجھتے ہیں۔ شمالی کوریا میں غیر ملکی مواد دیکھنے پر سخت پابندیاں ہیں چؤل ہؤ نے تسلیم کیا کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کو لوگ کس طرح پسند کرتے ہیں اور باہر کی دنیا کیا رائے رکھتی ہے کیونکہ وہ صرف شمالی کوریا کے لوگوں سے ہی ملے ہیں، لیکن اس کے ساتھ اصرار کیا کہ ویسے تو زندگی مشکل ہے۔۔۔ (لیکن) ہمارے لوگ اچھے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمسائے ہمارے کزنز سے اچھے ہیں اور جب بھی ہمارے ہمسایوں کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو ہم ان کی طرف جاتے ہیں۔ شمالی کوریا کے بعض علاقوں میں رہائشی اپنی جان خطرے میں ڈال کر منحرف ہو کر چین کے ذریعے جنوبی کوریا چلے جاتے ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ایسے واقعات میں کمی آئی ہے کیونکہ سرحدی سکیورٹی میں اضافہ ہوا ہے اور چین کے ساتھ ایک متنازع معاہدہ کیا گیا ہے جس کے تحت چین میں پکڑے جانے والوں کو واپس شمالی کوریا کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ شمالی کوریا میں عام شہریوں سے بات کرنا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ یہاں جانے والے غیر ملکیوں پر پولیس کا سخت پہرہ ہوتا ہے اور ان کے بیرونی دنیا سے رابطوں کو بلاک کیا جاتا ہے۔ text: نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک فوجی افسر نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ پانچ فوجیوں کی ایک عراقی خاتون سے مبینہ زیادتی اور بعد ازاں اس کی اور اس کے خاندان کے تین افراد کی ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات بھی جا ری ہیں اور اس بارے میں ان فوجیوں سے تفتیش کی جارہی ہے۔ امریکی فوج کے ترجمان کے مطابق تحقیقات سے’اس شام‘ کے واقعے کی اصلیت سامنے آ جائے گی۔ تحقیقات کا آغاز سنیچر کو ابتدائی فوجی تفتیش سے ہوا۔ امریکی فوج کے کریمینل انویسگییشین کمانڈ کو اس واقعے کی تحقیقات کو کہا گیا تھا۔ یہ واقعہ بغداد کے جنوبی علاقے محمودیہ میں پیش آیا۔ ایک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ایک فوجی نے اس واقعے میں ملوث ہونے کا اقرار کیا ہے۔ اسے اور چار دیگر ساتھیوں کو گرفتار کرکے فوجی اڈے میں ہی قید کیا گیا ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اتحادی فوج کی عراقی شہریوں سے مبینہ بدسلوکی کے دیگر کئی واقعات کے خلاف بھی تحقیقات کی جائیں گی۔ عراق میں امریکی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ اس کے فوجیوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے عراقی خاندان کے مبینہ ہلاکت کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ text: علاقے میں کچھ لوگ ہلاک بھی ہوئے ہیں لیکن سرکاری سطح پر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی متاثرہ افراد پاڑہ چنار اور دیگر علاقوں میں پہنچ رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے غیر اعلانیہ کارروائی شروع کی ہے جس سے علاقے میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ کرم ریفارمز کمیٹی کے جنرل سیکرٹری عطاء اللہ نے پاڑہ چنار سے ٹیلیفون پر بی بی سی کو بتایا کہ پاڑہ چنار تک راستے میں بے سروسامانی کی حالت میں لوگ سفر کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاڑہ چمکنی کا یہ علاقہ پہاڑی سلسلے پر واقعہ ہے جس کی سرحدیں خیبر ایجنسی، اورکزئی ایجنسی اور افغانستان کے ساتھ ملتی ہیں۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ علاقے میں کچھ لوگ ہلاک بھی ہوئے ہیں لیکن سرکاری سطح پر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ مقامی لوگوں کے مطابق علاقے میں غربت اور سہولیات کے فقدان کی وجہ سے لوگوں کو نقل مکانی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور راستے میں بیماریوں سے لوگ بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومتی کی جانب سے متاثرہ افراد کو کسی قسم کی کوئی امداد فراہم نہیں کی جا رہی۔ بیشتر لوگ محفوظ علاقوں میں اپنے رشتہ داروں یا جان پہچان والے افراد کے پاس پناہ کے لیے پہنچے ہیں۔ سکیورٹی ذرائع نے بتایا ہے کہ کرم ایجنسی کے علاقے میں یہ آپریشن پاڑہ چنار میں ایک انتخابی مہم کے دوران دھماکے کے کچھ دن بعد شروع کر دیا گیا تھا۔ اس کارروائی میں سکیورٹی اہلکاروں کا کچھ جانی نقصان بھی ہوا تھا تاہم اب پاڑہ چکمنی کے بعض علاقوں سے شدت پسندوں کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق علاقے سے نقل کانی کا حکم کسی کو نہیں دیا گیا لیکن لوگ خود خوف کی وجہ سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔ یاد رہے انتخابات سے چند روز پہلے کرم ایجنسی کے علاقے پاڑہ چنار کے قریب جمعیت علماء اسلام کے امیدوار منیر اورکزئی کی انتخابی مہم کے دوران دھماکہ ہوا تھا جس میں پچیس افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔ ان واقعات کے بعد کرم ایجنسی میں انتخابات ملتوی کر دیے گئے تھے اور علاقے میں فوجی کارروائی شروع کر دی گئی تھی۔ اب تک شدت پسندوں کے جانی نقصان یا کسی قسم کی کوئی گرفتاری کی اطلاع نہیں ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے علاقے پاڑہ چکمنی میں شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے باعث علاقے سے بڑی تعداد میں لوگوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔ text: قلعہ عبداللہ کا علاقہ چمن اور کوئٹہ کے درمیان واقع ہے جہاں سنیچر کی صبح علاقے کے لوگوں نے روڈ بلاک کر رکھا تھا اور پولیس کارروائی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ قلعہ عبداللہ کے پولیس افسر وزیر خان ناصر نے بتایا ہے کہ سنیچر کی صبح اے ایس پی سلیم مروت چمن سے کوئٹہ مظاہرین سے بات کرنے گئے تو انہیں اسلحہ کے زور پر محافظوں سمیت اغوا کر لیا گیا۔چمن سے آمدہ اطلاعات کے مطابق پولیس کی کرائمز برانچ نے گزشتہ روز محکمہ تعلیم کے افسر کی بازیابی کے لیے اسی علاقے میں چھاپہ مار کر کچھ افراد کو گرفتار کیا تھا۔ لوگوں نے بتایا ہے کہ سنیچر کا مظاہرہ انہی گرفتار افراد کی بازیابی کے لیے کیا جا رہا تھا۔ اس کے علاوہ پولیس نے کوئٹہ میں ٹریفک پولیس پر حملے کے حوالے سے کم سے کم سات مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے جن سے پولیس حکام کے مطابق پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ یاد رہے دو روز پہلے کلی اسماعیل میں نا معلوم افراد نے ٹریفک پولیس کے ایک سب انسپکٹر سمیت تین اہکاروں کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری خود کو کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کا ترجمان ظاہر کرنے والے بیبرگ بلوچ نے قبول کی تھی۔ ادھر جمعہ کو نامعلوم افراد نے سوئی میں اٹھارہ انچ قطر کی ایک پائپ لائن کو دھماکے سے اڑا دیا تھا اور جمعہ کی رات ڈیرہ بگٹی اور جعفر آباد کے سرحدی علاقے دیناری پٹ میں پولیس کی ایک چوکی پر راکٹوں اور دیگر اسلحے سے حملہ کیا گیا ہے جس میں کسی جانی نقصان کی تصدیق نہیں ہو سکی۔خود کو ایک اور مسلح کالعدم تنظیم بلوچ ریپبلکن آرمی کا ترجمان ظاہر کنے والے سرباز بلوچ نامی شخص نے ٹیلیفون پر ان حملوں کی ذمہ داری اپنی تنظیم کی جانب سے قبول کی ہے۔ بلوچستان میں چمن کے مغوی اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کو ان کے تین محافظوں سمیت مذاکرات کے بعد بازیاب کرالیا گیا ہے۔ text: امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کا ایک اہلکار خفیہ طور پر ان خواتین سے رابطے میں تھا اور اسی نے ان کی گرفتاری کو یقینی بنایا عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات کے مطابق ان دونوں خواتین نے جو امریکی شہری ہیں، خود کو ’دولتِ اسلامیہ کی شہری‘ قرار دیا۔ کچھ عرصہ پہلے تک نویل ویلنٹزاس اور آسیہ صدیقی دونوں نیویارک شہر کے کوئینز سیکٹر میں رہتی تھیں۔ آسیہ صدیقی کے پاس کئی ’گیس ٹینک‘ تھے اور عدالتی دستاویزات کے مطابق ان کے قبضے سے ان آلات کو بموں میں تبدیل کی ہدایات بھی ملی ہیں۔ دستاویزات کے مطابق آسیہ صدیقی کا تنظیم القاعدہ فی جزیرہ العرب کے ارکان سے تواتر کے ساتھ رابطہ تھا۔ امریکی محکمۂ انصاف کے مطابق آسیہ صدیقی کی مبینہ ساتھی ویلینٹزاس اسامہ بن لادن کو ہیرو کہہ کر پکارتی تھیں۔ نیویارک کے فیلڈ آفس میں ایف بی آئی کے انچارج اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈیئگو راڈریگس نے بتایا کہ ’ملزم خواتین نے دھماکہ خیز آلات کے ذریعےدہشت گردی سے تباہی پھیلانے کی سازش کی۔ انھوں نے پریشر ککر بم بنانے کی ترکیبوں پر بھی تحقیق کی جو بوسٹن میں میراتھن کے دوران استعمال کیے گئے تھے۔‘ محکمۂ انصاف کا کہنا تھا کہ دونوں خواتین نے گذشہ سال اگست سے دھماکہ خیز چیزیں بنانے کی منصوبہ بندی کی اور (اس مقصد کے لیے) کیمسٹری اور بجلی جیسے موضوعات کی تعلیم حاصل کی۔ عدالتی دستاویزات کے مطابق ان خواتین کا کوئی خاص ہدف نہیں تھا لیکن ایک موقعے پر انھوں نے نیویارک کے مین ہیٹن میں واقع ہیرالڈ سکوائر کے بارے میں سوچا تھا۔ محکمۂ انصاف کا کہنا ہے کہ یہ دونوں خواتین ’تاریخ رقم کرنا‘ چاہتی تھیں اور انھوں نے حالیہ دہائیوں میں کئی بڑے حملوں میں استعمال کردہ بم بنانے کے طریقوں پر تحقیق کی۔ ویلینٹزاس نے بظاہر امریکی فضائیہ کے ایک افسر پر تنقید کی تھی جسے حال ہی میں پرتشدد جہاد میں شرکت کے لیے شام جانے کی کوشش کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔ امریکی محکمۂ انصاف کا کہنا ہے کہ اس خاتون نے سوال کیا کہ جب امریکہ میں ایسے ہدف موجود ہیں جن سے ’اللہ کو خوش‘ کرنے کے مواقع مل سکتے ہیں تو پھر لوگ باہر کے ممالک کا سفر کیوں کرتے ہیں؟ عدالتی کاغذات کے مطابق یہ دونوں خواتین کئی سال سے ایک انڈر کور ایجنٹ سے رابطے میں تھیں۔ آسیہ صدیقی نے مبینہ طور پر ایجنٹ کو بتایا کہ ویلینٹزاس کو اس طرح کے پریشر ککروں میں خاص دلچسی تھی جو 2013 میں بوسٹن کے بم دھماکوں میں استعمال کیے گئے تھے۔ دونوں خواتین اگلے چند گھنٹوں میں نیو یارک کی ایک عدالت میں پیش ہوں گی۔ اگر قصوروار پائی گئیں تو انھیں عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ پچھلے ماہ سرکاری اہلکاروں نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے 47 سالہ تیرود نیتھن ویبسٹر کو جو امریکی شہری ہیں اور کافی عرصہ امریکی فضائیہ میں رہے ہیں، مبینہ طور پر دولتِ اسلامیہ کی مدد کی کوشش میں گرفتار کیا تھا۔ گرفتاری سے قبل وہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے مشرقِ وسطیٰ میں رہ کر کام کر رہے تھے اور انھوں نے شدت پسند گروہ دولتِ اسلامیہ میں شرکت کے لیے شام جانے کی کوشش بھی کی تھی۔ تاہم وہ ان تمام الزامات سے انکاری ہیں۔ امریکی تحقیقاتی ایجنسی ایف بی آئی نے کہا ہے کہ اس نے دو خواتین کو گرفتار کر لیا ہے جن پر امریکہ میں مختلف مقامات پر بم نصب کرنے کی منصوبہ بندی کا الزام ہے۔ text: عرب کی حمایت والی قرارداد میں قدیم شہر اور مقدس مقامات پر اسرائیلی سرگرمیوں کی مذمت کی گئي ہے یونیسکو کے ایگزیکٹیو بورڈ نے عرب ممالک کی جانب سے پیش کردہ اس قرارداد کو منظور کر لیا ہے۔ حرم الشریف: آخر جھگڑا کیا ہے؟ قرارداد میں بار بار اسے صرف اس کے اسلامی ناموں سے یاد کیا گيا ہے۔ مسلمان اسے 'حرم الشریف‘ یا ’بیت المقدس' کے ناموں سے پکارتے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ یہودیوں کا بھی مقدس ترین مقام ہے اور وہ اسے 'ٹمپل ماؤنٹ' کہتے ہیں۔ اس قرارداد کے سبب گذشتہ ہفتے اسرائیل نے یونیسکو سے اپنے سارے رابطے منجمد کر دیے۔ قرارداد کے متن کا مقصد فلسطین کے ثقافتی ورثے اور مشرقی یروشلم کے مخصوص کردار کو بچانا تھا۔ اس میں یروشلم اور مقبوضہ غرب اردن کے مقدس مقامات پر اسرائیل کی سرگرمیوں پر تنقید بھی کی گئی ہے۔ یروشلم کے قدیم شہر اور اس کی دیواروں کو وحدانیت کے قائل تینوں مذاہب (اسلام، یہودی اور نصرانی) میں مقدس تسلیم کیا گيا ہے لیکن مقدس پہاڑی کو صرف 'الاقصی مسجد یا حرم الشریف' کے نام سے یاد کیا گيا ہے۔ یونیسکو کی سربراہ نے اس مقام کی اہمیت پر زور دیا ہے قرارداد کے متن میں 'البراق پلازہ' کو دو واوین میں لکھا گيا ہے جبکہ اسی کے یہودی نام 'ویسٹر پلازہ' کو ایک واوین میں لکھا گيا ہے یعنی اسے کم اہمیت دی گئی ہے۔ یونیسکو کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے صدر مائیکل ووربس نے جمعے کو کہا کہ مصالحت کے لیے اگر مزید وقت مل جاتا تو بہتر ہوتا۔ انھوں نے اسرائیل ٹی وی نیٹ ورک چینل 10 کو بتایا: 'کل جو ہوا وہ بہت غیر معمولی تھا اور مجھے اس پر افسوس ہے۔' منگل کو یونیسکو میں اسرائیل کے سفیر کارمیل شمع ہوکوہین نے فلسطین پر 'کھیل کھیلنے' کا الزام لگایا۔ انھوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ 'ممالک اور لوگوں کے درمیان مسائل کو سلجھانے کے لیے یہ غلط جگہ ہے۔' لیکن یونیسکو میں فلسطین کے نائب سفیر منیر انستاس نے قرارداد کے منظور کیے جانے کا خیرمقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ 'اس سے اسرائیلی حکام پر دباؤ پڑے گا' کہ وہ اپنی تمام خلاف ورزیاں بطور خاص قدیم شہر اور اس کے اطراف میں کھدائی روک دیں۔ قرارداد میں بار بار قوت کے استعمال، مسلمانوں پر پابندی عائد کرنے اور آثار قدیم کے تعلق سے اسرائیلی سرگرمیوں کی مذمت کی گئی ہے لیکن اسرائیل اس تنقید کو سیاست سے متاثر قرار دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو نے ایک متنازع قرارداد منظور کی ہے جس میں یروشلم میں موجود تاریخی بیت المقدس کے سلسلے میں یہودیوں کا کوئی ذکر نہیں۔ text: اس بات کا اعلان کمیٹی کے چیئرمین عبدالنبی عباسی نے پریس کانفرنس میں کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس کمیٹی کا مقصد کالاباغ یا بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے راہ ہموار کرنا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ ان کے مطابق متعلقہ کمیٹی کا مقصد مجوزہ بڑے آبی ذخائر کا تکنیکی اعتبار سے جائزہ لے کر اپنی رائے دینا ہے۔ واضح رہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے متنازعہ کالاباغ ڈیم سمیت بڑے ڈیم تعمیر کرنے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی خاطر چاروں صوبوں کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر تاحال صوبہ پنجاب اور سندھ کے دورے کر چکے ہیں جبکہ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں بھی وہ جلد جائیں گے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر چار میں سے پنجاب کے علاوہ باقی تین صوبوں کی اسمبلیاں ایک سے زیادہ بار مخالفت میں قراردادیں منظور کر چکی ہیں اور گزشتہ تین دہائیوں سے اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ صدر جنرل پرویز مشرف کالاباغ ڈیم کا تاحال نام لیے بغیر کہتے رہے ہیں کہ ’بڑے ڈیموں کی تعمیر پاکستان کے لیے انتہائی ضروری ہے‘۔ اب تک صدر کی جانب سے کسی ڈیم کی تعمیر کے اعلان میں تاخیر کا سبب بھی تکنیکی کمیٹی کی رپورٹ میں دیر بتائی جاتی ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے بڑے ڈیم تعمیر کرنے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کے سلسلے میں دو کمیٹیاں بنائی تھیں جس میں تکنیکی کمیٹی کے علاوہ پارلیمانی کمیٹی بھی شامل تھی۔ دونوں کمیٹیوں کے سربراہ سندھی مقرر کیے گئے کیونکہ سندھ صوبے کی کئی سیاسی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے ان کے صوبے کی زمینیں بنجر ہو جائیں گی۔ پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر نثار میمن ہیں جو اپنی رپورٹ مکمل کر کے صدر کو پیش کر چکے ہیں۔ سینیٹر میمن نے جب اخباری بیانات میں دبے انداز میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی حمایت کی تھی تو کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر قوم پرست جماعت کے کارکنوں نے’سیاہ توا‘ لٹکا کر ان کے خلاف نعرے لگائے تھے۔ پاکستان میں متنازعہ کالاباغ ڈیم سمیت پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے ڈیم بنانے کے بارے میں قائم کردہ اعلیٰ سطحی’ٹیکنیکل کمیٹی‘ نے مشاورت کر لی ہے اور جلد ہی صدر اور وزیراعظم کو رپورٹ پیش کر دی جائے گی۔ text: اس پریس کانفرنس کو براک اوباما کی کی جانب سے ایک علامتی اقدام کی حیثیت سے دیکھا جا رہا تھا صدر براک اوباما اپنے دورِ صدارت کی آخری پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ براک اوباما نے کہا کہ روسی صدر کے فیصلوں سے امریکہ اور روس کے تعلقات میں مخالفانہ کیفیت ہو گئی ہے جو کہ سرد جنگ کے دور کی یاد دلاتی ہے۔ صدر اوباما کے آنسو اور سوشل میڈیا اوباما کا دورِ صدارت، تصاویر کی زبانی وائٹ ہاؤس خاندانی کاروبار نہیں ہے: اوباما انھوں نے اپنے صحافیوں کو جوابات دیتے ہوئے اپنے اس فیصلے کا بھی دفاع کیا جس میں انھوں نے خفیہ امریکی دستاویزات وکی لیکس کےحوالے کرنے والی سابق فوجی اہلکار چیلسی میننگ کی سزا ختم کردی تھی۔ انھوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ وہ اپنی صدارت ختم ہونے کے بعد بھی بنیادی اقداروں کا دفاع کرتے رہیں گے۔ براک اوباما نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مشرق وسطیٰ کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اچانک لیے گیے فیصلے خطے کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ واضع رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ اسرائیل میں واقع امریکی سفارت خانے کو یروشلم میں منتقل کر دیں گے۔ اس پریس کانفرنس کو براک اوباما کی کی جانب سے ایک علامتی اقدام کی حیثیت سے دیکھا جا رہا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم کی جانب سے کہا گیا ہے کہ صدارت کے بعد وہائٹ ہاؤس میں روزانہ ہونے والی پریس کانفرنس کو عمارت کے ویسٹ ونگ حصے سے نکال کر کہیں اور منعقد کیا جائے گا۔ براک اوباما نے کہا کہ روسی صدر کے فیصلوں سے امریکہ اور روس کے تعلقات میں مخالفانہ کیفیت ہو گئی ہے جو کہ سرد جنگ کے دور کی یاد دلاتی ہے لیکن براک اوباما نے صحافیوں کو براہ راست پیغام دیا کہ: ’آپ سب کا اس عمارت میں ہونے سے ہم سب کے کام کرنے کے معیار بہتر ہوا ہے۔‘ صدر اوباما نے یہ بھی بتایا کہ انھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخاب میں فتح حاصل کرنے کے بعد کئی بار گفتگو کی ہے اور انھیں مشورہ دیا ہے کہ ’صدارت ایک مشکل کام ہے اور اس کو وہ اکیلے نہیں کر سکتے۔‘ آٹھ سال صدارت کرنے کے بعد صدر اوباما نے کہا کہ وہ صدارت چھوڑنے کے بعد پس منظر میں جانا پسند کریں گے۔ ’میں کچھ عرصے چپ رہنا چاہوں گا تاکہ اپنی آواز بار بار نہ سن سکوں۔‘ صدر اوباما امریکہ کے مستقبل کے بارے میں پر امید تھے اور انھوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آنے والے وقت میں ملک سیدھے راستے پر گامزن رہے گا۔ امریکی صدر براک اوباما نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو تنبیہ کی ہے کہ روس پر لگائی جانے والی پابندیاں اس وقت تک نہ اٹھائیں جب تک روسی صدر ولادی میر پوتن یوکرین کی سالمیت کی خلاف ورزی کرنا بند نہیں کرتے۔ text: پاکستان وومین چیئمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی سربراہ بیگم سلمیٰ احمد اور فیڈریشن آف انڈین وومین انٹر پری نیور کی صدر رجنی اگروال نے کراچی میں بدھ کو اس یادداشت نامے پر دستخط کیے۔ یادداشت نامے کے مطابق مشترکہ بزنس کاؤنسل کے تحت دونوں تنظیمیں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے وفود کا تبادلہ کریں گی۔ بزنس وومین کا ماہانہ نیوز لیٹر اور رابطہ ڈائریکٹری شائع کی جائےگی۔ ایسے منصوبوں کی نشاندہی کی جائےگی جو بزنس وومین کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں۔ دونوں ممالک میں مشترکہ تربیتی پروگرام کا انعقاد کیا جائےگا۔ یادداشت نامے کے مطابق مشترکہ بزنس کونسل دونوں ممالک میں امن اور سلامتی کے لیے بھی کام کرے گی اور سارک میں وومین کونسل فار ٹریڈ اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ بنانے کی لیے بھی کوشش کی جائے گی۔ فیڈریشن آف انڈین وومین انٹری پرینیور کی صدر رجنی اگروال کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ہندستان کا معاشرتی اور ثقافتی پس منظر ایک ہی ہے اس طرح مسائل اور ان کا حل بھی ایک ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بزنس وومین ہندوستان کی بزنس وومین کی کامیابیوں سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں۔ ان کے مطابق مرد اپنے فائدے کے لیے کاروبار کرتا ہے مگر عورت خاندان کے لیے کاروبار کرتی ہے۔ رجنی اگروال نے بتایا کہ ہندوستان میں خواتین کی کامیابی میں مرد مددگار ثابت ہوا ہے کیونکہ ذہنی تبدیلی کی ضرورت ہے جب تک مرد کا ذہن تبدیل نہیں ہوگا عورت کچھ نہیں کرسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان کی حکومت نے بھی حقیقت پسندانہ سوچ کا مظاہرہ کیا ہے کہ خواتین کو نظر انداز کرکے پالیسیاں بنائی نہیں جاسکتی ہیں اس لیے پاکستان حکومت کو بھی اس پر غور کرنا چاہیئے۔ پاکستان کی وومین چیئمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے چیف ایگزیکٹوبیگم سلمیٰ احمد کا کہنا تھا پاکستان میں مرد بزنس وومین کی ترقی میں مددگار ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ ان کی تنظیم کو تین سال کے بعد رجسٹرڈ کیا گیا ہے۔ تجارت سے وابستہ پاکستان اور ہندوستان کی خواتین تنظیموں نے مشترکہ بزنس کونسل بنانے کا اعلان کیا ہے اور باہمی تعاون کی ایک یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔ text: اس معاملے میں قصور وار پائے گئے لوگوں میں یعقوب میمن، عیسی میمن، یوسف میمن اور روبینہ میمن شامل ہیں جبکہ سلیمان میمن، حنیفہ میمن اور راحین میمن کو بری کر دیا گیا ہے۔ ایک دیگر ملزم عبد الرزاق انتقال کر چکے ہیں۔ یعقوب میمن گزشتہ دس برس سے جیل میں ہیں۔ عدالت جب یہ فیصلہ سنا رہی تھی اس وقت یعقوب عدالت میں موجود تھے۔ فیصلہ آنے سے قبل تو ان کے چہرے پر کوئی شکن دکھائی نہیں دے رہی تھی لیکن فیصلہ سنتے ہی وہ عدالت میں بر ہم ہوگئے ۔ انکا کہنا تھا کہ ’یہاں بےقصوروں کو دہشتگرد بنایا جا رہا ہے، یہاں سب ڈرامہ چل رہا ہے۔‘ یعقوب اور ان کی فیملی کے ارکان دھماکوں کے بعد ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ لیکن اعلیٰ سیاسی رہنماؤں کی یقین دہانی کے بعد انہوں نے خودسپردگی کردی تھی اور انہیں امید تھی کہ شاید عدالت ان کے ساتھ نرمی برتے۔ ٹائگر میمن نے یعقوب کو انڈیا واپس آنے سے منع کیا تھا۔ یعقوب میمن کا شمار ممبئی کے بہترین چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس میں ہوتا تھا اور انہیں ایک ذہین شخص سمجھا جاتا تھا۔ عدالت کے باہر سرکاری وکیل اجول نگم نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ جو لوگ اس واقعہ میں براہ راست ملوث تھے ان کی سزاؤں کا تعین جلد سے جلد کیا جائے۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہےکہ سزائيں دینے کا عمل بھی کل سے شروع ہو جائے گا۔اس معاملے میں 123 افراد کے خلاف گزشتہ تیرہ برس سے مقدمہ چل رہا ہے۔ مافیا ڈان داؤد ابراہیم، ان کے بھائی انیس ابراہیم، ٹائگر میمن اور ان کے کئی ساتھی اس واقعہ کے اصل ملزم بتائے جاتے ہیں۔ یہ سبھی ملک سے فرار ہیں۔ ملزموں میں فلم اسٹار سنجے دت بھی شامل ہیں۔ ان کے اوپر غیرقانونی طور پر اسلحہ رکھنے کا الزام ہے جو فرد جرم کے مطابق مافیا ڈان ابوسالم نے فراہم کیا تھا۔ اس معاملے میں سنجے دت ڈیڑھ برس جیل میں گزار چکے ہيں اور اس وقت وہ ضمانت پر رہا ہیں۔ باقی ملزمین کا فیصلہ بدھ سے آٹھ آٹھ کے گروپ میں سنائے جانے کی توقع ہے۔ ممبئی کی ایک خصوصی عدالت نے 1993 میں ہونے والے بم دھماکوں میں ممین فیملی کے چار افراد کو قصور وار قرار دیا ہے جب کہ تین کو بری کر دیا ہے۔ text: ہنگری کے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ تارکینِ وطن کا مسئلہ اصل میں ’جرمنی کا مسئلہ‘ ہے تاہم ان کے اس دعوے کو جرمنی نے رد کر دیا ہے۔ ’ہم بھی انسان ہیں‘ (تصاویر) ’تارکین وطن کا بحران دراصل جرمنی کا مسئلہ ہے‘ خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق برسلز میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ہم اپنے ملک میں بڑی تعداد میں مسلمان نہیں چاہتے‘ فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعرات کو ہنگری کے وزیراعظم نے یورپ میں جرمنی کے اخبار فرینکفرٹر الگیمین زیٹنگ میں تارکین وطن کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’اگر تعداد میں اضافہ ہوگا تو آپ تارکین وطن کو قبول نہیں کر سکتے۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ان میں سے بیشتر عیسائی نہیں بلکہ مسلمان ہیں۔ انھوں نے یورپی یوربین کی امیگریشن کی پالیسی کو بھی ’ناکام‘ قرار دیا۔ انھوں نے لکھا کہ ’ہمیں یہ بالکل نہیں بھولنا چاہیے کہ جو لوگ یہاں آرہے ہیں وہ ایک مختلف مذہب کے زیراثر پلے بڑھے ہیں اور ایک مختلف ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں۔‘ ’بیشتر عیسائی نہیں بلکہ مسلمان ہیں۔ یہ ایک اہم سوال ہے کیونکہ یورپ اور یورپی کلچر کی بنیادیں عیسائیت پر ہیں۔ یا کیا یہ ہے تشویش ناک صورتحال نہیں ہے کہ یورپ کے عیسائی کلچر یورپ کی اپنی عیسائی اقدار قائم رکھ نہیں پارہا۔‘ تارکین وطن کے بحران کے حل کے لیے یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کا اجلاس 14 ستمبر کو برسلز میں ہوگا اے ایف پی کے مطابق جرمن چانسلر انگیلا مرکل نے سوئٹزرلینڈ کے شہر برن کے دورے کے دوران کہا ہے کہ ’ کسی حد تک ہمارے ذہن میں عیسائی اقدار موجود ہیں لیکن میرے خیال میں انسان کی عظمت زیادہ اہم ہے۔ اور اس کے حفاظت ہراس جگہ کرنا چاہیے جہاں یہ خطرے میں ہے۔‘ واضح رہے کہ ہنگری کے دارالحکومت بڈاپیسٹ کے ریلوے سٹیشن پر ہزاروں کی تعداد میں پھنسے ہوئے تارکین وطن کے مسئلے پر بات کرنے کے لئے ہنگری کے وزیراعظم اور یورپی یونین کے حکام برسلز میں ملاقات کررہے ہیں۔ اس دوران ہنگری کے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ تارکینِ وطن کا مسئلہ اصل میں ’جرمنی کا مسئلہ‘ ہے کیونکہ یورپی یونین میں آنے والے سبھی تارکینِ وطن وہاں ہی جانا چاہتے ہیں۔ جرمنی کی چانسلر اینگلا مرکل اور فرانس کے صدر فرانسو اولاند نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تارکین وطن کی یورپی ممالک میں منصفانہ تقسیم کی تجاویز تیار کریں گے۔ جرمنی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو قبول کرنے پر تیار ہے مگر دوسرے ممالک اس پر آمادہ نہیں انھوں نے بیان میں کہا ہے کہ یورپی یونین کو جنگ زدہ علاقوں سے نکلنے والے افراد کو تحفظ دینے کی ذمہ داریوں پر فیصلہ کن انداز میں عمل درآمد کرنا ہو گا۔ خیال رہے کہ جرمنی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو قبول کرنے پر تیار ہے مگر دوسرے ممالک اس پر آمادہ نہیں۔ اس سے پہلے ہنگری کے وزیرِ اعظم وکٹر اوربان نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ ہنگری بغیر اندراج کے کسی تارکینِ وطن کو بھی اپنے ملک سے نہیں نکلنے دے گا۔ وکٹر اوربان، جو امیگریشن مخالف جماعت فدیز کے سربراہ ہیں، مذاکرات کے لیے برسلز میں موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہنگری کے عوام ’بہت ڈرے ہوئے ہیں۔ یورپ کے لوگ ڈرے ہوئے ہیں کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ یورپی رہنما، جن میں وزرائے اعظم بھی شامل ہیں، صورتِ حال کو قابو کرنے سے قاصر ہیں۔‘ یورپی پارلیمان کے صدر مارٹن شلز کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے دوران ہنگری کے رہنما نے کہا کہ کوئی بھی ہنگری، سلوینیا، پولینڈ یا ایسٹونیا میں نہیں رہنا چاہتا۔’سب جرمنی جانا چاہتے ہیں۔ ہمارا کام ان کا اندراج کرنا ہے۔‘ صرف جولائی میں یورپ میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی تعداد ایک لاکھ سات ہزار تک پہنچ گئی ہے خیال رہے کہ صرف جولائی میں یورپ میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی تعداد ایک لاکھ سات ہزار تک پہنچ گئی ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ جرمنی کا اندازہ ہے کہ رواں سال اس کے یہاں آٹھ لاکھ پناہ گزین پہنچیں گے جوگذشتہ سال سے چار گنا زیادہ ہیں۔ افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے ہزاروں کی تعداد میں تارکین وطن یورپ کا رخ کر رہے ہیں، جس کے باعث یورپی یونین کے رکن ممالک کو اس بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینے میں دشواری کا سامنا ہے۔ اٹلی اور یونان کا کہنا ہے کہ ان کے ساحلوں پر بڑی تعداد میں تارکین وطن پہنچے ہیں، جبکہ دیگر ممالک بشمول جرمنی بھی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم کئی ممالک بشمول برطانیہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ تارکین وطن کے بحران کے حل کے لیے یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کا اجلاس 14 ستمبر کو برسلز میں ہوگا۔ ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان نے خبردار کیا ہے کہ یورپ آنے والے بڑی تعداد میں مسلمان پناہ گزینوں سے یورپی بر اعظم کی عیسائی بنیادوں کو خطرہ ہے۔ text: میں سازشی نظریات پر یقین رکھنے والوں کی ایسی باتوں پرکوئی بھی دھیان نہیں دیتا۔ لیکن مجھے اس پر یوں دھیان دینا پڑا کہ ہرطرح کی تاریخ اور ملک کے اساسی دو قومی نظریے پر سیاہی پھیرنے والے اس ’عدیم المثال نظریے‘ کے پرچارک کوئی اور نہیں، بلکہ ملک کی ’جغرافیائی اور نظریاتی‘ سرحدوں کی حفاظت کے علمبردار ادارے یعنی پاکستانی فوج کے ایک حاضر سروس جنرل تھے۔ ہوا کچھ یوں کہ نواب اکبر بگٹی کے مخالف میر احمدان بگٹی اور ان کے ڈیڑھ ہزار ساتھیوں کی ڈیرہ بگٹی واپسی کا منظر دکھانے کے لیے کراچی سے ملکی اور غیرملکی اداروں کے صحافیوں کو سوئی اور ڈیرہ بگٹی لے جایا جارہا تھا۔ اس اہم دورے سے پہلے ’قومی مفاد سے ہم آہنگ، اطلاعات عوام تک پہنچانے کی خاطر صحافیوں کی ’ذہن سازی‘ کی ذمہ داری جنرل موصوف اس اصرار کے ساتھ نبھا رہے تھے کہ ان کے فرائض کی نزاکت کا تقاضا ہے کہ ان کی شناخت ذرائع ابلاغ میں ظاہر نہ ہو اور اس دوران جب بات مشرقی پاکستان کی صورتحال اور آج کے بلوچستان کے موازنے تک آئی تو ’قیام پاکستان کی بنگالی سازش‘ کا انکشاف کیا گیا‘۔ بیان کیے گئے تاریخی واقعات اور ان کی صحت کی بحث میں جائے بغیراب اس نظریے کے کچھ دلائل بھی سنیے۔ ’سن انیس سو پانچ میں تقسیم بنگال کے خاتمےکےساتھ ہی بنگالیوں (ہندوستانی مسلمان نہیں) کو احساس ہوا کہ بنگالی مسلمانوں کا ایک الگ ملک ہونا چاہیے‘۔ ’سازش کے پہلے قدم کے طور پر انیس سو چھ میں مسلم لیگ بنائی گئی اور اصل عزائم چھپانے کی خاطر اس کو آل انڈیا مسلم لیگ کا نام دیا گیا‘۔ ’جماعت کے تقریباً تمام بانی ارکان بنگالی تھے‘۔ ’اس مرحلے پر بنگالی مملکت کے قیام کو برصغیر کے تمام مسلمانوں کا نصب العین بنانے کے لیے مسلم لیگ کی ظاہری قیادت اترپردیش اور وسطی ہندوستان کے مسلم رہنماؤں کے حوالے کی گئی کیونکہ بنگالی تنہا اس سازش کو کامیاب نہیں کرسکتے تھے لیکن باقی ہندوستان کے مسلمانوں کو پھسلا کر ضرور یہ مقصد حاصل ہوسکتا تھا‘۔ ’سن انیس سوسینتیس میں علامہ اقبال نےجب نظریۂ پاکستان کےخدوخال واضح کیے تو ان کی مخالفت بنگالیوں نے ہی کی کیونکہ علامہ اقبال اس سازش کو سمجھ چکے تھے‘۔ ’سن انیس سو اڑتیس میں علامہ اقبال کے انتقال سے اس بنگالی سازش کو سمجھنے والے واحد رہنما راستے سے دور ہوگئے‘۔ ’بائیس مارچ سن انیس سو چالیس کو اسی سازش کے اہم قدم کے طور پر ایک بنگالی اے کے فضل الحق نے قرارداد لاہور پیش کی۔ یہی اے کے فضل الحق بعد میں بنگال کے وزیراعلٰی بنے‘۔ ’کینیڈا میں آج بھی دو سرکاری زبانیں ہیں۔ یہ پاکستان میں بھی ہوسکتا تھا۔ لیکن سازش کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد ہوتے ہی، یعنی قیام پاکستان کے ساتھ ہی ایک اور بنگالی حسین شہید سہروردی نے قائداعظم کے کان بھرے کہ وہ صرف اردو کو قومی زبان بنادیں۔ یہ سازش کے دوسرے مرحلے کا پہلا اور بہت اہم قدم تھا جس سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا آغاز ہوا اور جو بالآخر سن انیس سو اکہتر میں بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوا‘۔ یہ تو تھے دلائل لیکن قیام پاکستان کی بنگالی سازش پر یقین ملاحظہ فرمائیے کہ جب یہ بات کہی گئی کہ سازش کا یہ نظریہ تو ملک کے قیام اور بقاء کے تمام دلائل کو باطل کردیتا ہے تو جواب میں قائداعظم کی جانب سے قرارداد پاکستان میں ایک مملکت پر اصرار کو بین ثبوت کے طور پر پیش کردیا گیا۔ سازش کے اس نظریے کا ایک حاصل یہ بھی ہے کہ قائداعظم اور تحریک پاکستان کے تمام رہنما یا تواس میں شریک تھے یا پھر اتنے سادہ لوح اور احمق کے اس سازش کو سمجھ ہی نہ سکے۔ جب کہ پاکستان کے قیام کے مخالفین یعنی اس وقت کے نیشلسٹ مسلمان اور کانگریس چونکہ متحدہ ہندوستان کے علمبردار تھے، لہٰذا وہ قیام پاکستان کی سازش میں شریک نہیں ہوئے۔ اور اس تمام پر مستزاد یہ کہ پاکستان کی تاریخ کے بدترین سانحے یعنی سقوط مشرقی پاکستان کے شارح اس ’عدیم المثال، نظریے کے پرچارک جرنیل کا گفتگو میں بار بار یہ بھی اصرار تھا کے فوج میں تین دہائیوں سے زیادہ پر محیط ان کی تربیت کا واحد محور پاکستان کی ’جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا ہرقیمت پر تحفظ‘ رہا ہے۔ اور اس ’بنگالی سازش‘ کا ایک امکانی نتیجہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ (خدانخواستہ، خاکم بدہن) تیس پینتیس برس بعد کوئی اور جنرل سندھ ، سرحد یا پنجاب میں صحافیوں کی ذہن سازی کرتے ہوئے انکشاف کرے کہ بلوچوں نے تو قیام پاکستان کے وقت ہی ملک سے علیحدہ تھے وہ تو قائداعظم کا دباؤ تھا کہ ریاست قلات پاکستان میں شامل ہوئی۔ ’پاکستان کا قیام دراصل بنگالیوں کی ایسی سازش تھی جس پر انہوں نے سن انیس سو پانچ میں کام شروع کیا تھا اور جس کا مقصد دراصل بنگلہ دیش بنانا تھا۔بنگالیوں نے اپنا یہ مقصد بالآخر سن انیس سو اکہتر میں حاصل کر ہی لیا‘۔ text: مغل فن مصوری کی ابتدا ہندوستان میں ہمایوں کے عہد سے کہی جاتی ہے وہ چیزیں جو مغلوں کے ہاتھوں رواج پائيں اور ان کی سرپرستی کی پناہ میں آئيں ان میں تزئین کاری اور شبیہ سازی قابل ذکر ہیں۔ مغل فن مصوری نے کئی تاریخی مراحل طے کیے اور کئی خاندانوں کے ہاتھوں ترقی کے ان مدارج کو پہنچی۔ منگولوں سے اگر فن مصوری کا آغاز ہوا تو تیموروں نے اسے اپنے خون سے سینچا اور ایران کے صفوی بادشاہوں نے اس کی ناز برداری کی۔ 14 ویں صدی سے 16 ویں صدی تک ایران کی فن مصوری تزئین کاری تک محدود تھا کیونکہ درباروں میں کتابوں کی تزئین کا رواج عام تھا۔ اس دور میں ہرات اور بخارا اس کا مرکز رہے۔ عباسی خاندان کے حکمرانوں نے اس فن کو آگے بڑھایا۔ منگولوں کے متواتر حملوں سے علوم و فنون کی ترویج میں بڑی رکاوٹ آئی، سیاسی انتشار نے لوگوں کے سکون کو درہم برہم کر دیا لیکن جلد ہی ان کی تلواریں نیام میں چلی گئیں۔ درباروں میں فنون پر دسترس رکھنے والے جمع ہوئے اور پھر ایک بار سمرقند اور بخارا ماہرین فن سے بھر گيا۔ اس تصویر میں بابر کو دربار میں اپنے وزرا اور دیگر لوگوں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے بابر فنون لطیفہ کا بڑا دلدادہ تھا۔ شاعری، مصوری اور فلسفے میں اسے بڑی دلچسپی تھی۔ تزک بابری میں اس نے ایران کے مشہور مصور بہزاد کے قلم کی بڑی تعریف کی ہے۔ بابر کا یہ ذوق موروثی تھا۔ تیمور کی طرح وہ بھی جلال و جمال کا پرستار تھا۔ افسوس کہ زندگی کی رزم آرائيوں نے اسے مہلت نہیں دی اور جب ماہرین فن کی سرپرستی کا وقت آيا تو اس نے صدائے اجل کو لبیک کہا۔ ہمایوں بھی اپنے والد بابر کی طرح جمالیات کا دلدادہ تھا۔ ایک دن کی بات ہے کہ ایک خوبصورت سی فاختہ کہیں سے آ نکلی۔ شہنشاہ نے دوڑ کر اسے پکڑ لیا اور مصوروں کو بلواکر اس کی تصویر بنائی اور پھر اسے آزاد کر دیا۔ ایران کے دور اقامت میں ہمایوں کی کئی نامور مصوروں سے ملاقات ہوئی جو بعد میں ان کی دعوت پر ہندوستان آئے اور یہیں سے مصوری کے ایک نئے سکول کی ابتدا ہوئی ہے جو بعد میں مغل فن مصوری کے نام سے مشہور ہوئی۔ ایرانی مصوروں نے مصوری کے ایسے معجزے دکھائے کہ اگر حادثات زمانہ اور انقلابات وقت سے محفوظ رہ جاتے تو لوگوں کو محو حیرت بنائے رہتے۔ میر سید علی اور عبدالصمد نے چاول کے دانے پر چوگان کا پورا میدان دکھایا جس میں تماشائیوں سمیت کھلاڑیوں اور گھوڑوں کی شبیہیں تھیں۔ ایران اور ہندوستان کے امتزاج سے انڈیا میں ایک نیا رواج ظہور پزیر ہوا عبدالصمد نے ہندوستانی مصوروں کی مدد سے داستان امیر حمزہ کی تزئین کا کام سر انجام دیا اور بادشاہ سے نادرالعصر کا خطاب حاصل کیا۔ اس میں کل ملا کر 1375 تصاویر ہیں۔ بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور میں فن مصوری کی بھی تجدید ہوئي۔ ایرانی اور ہندوستانی مصوروں کی اتنی بڑی تعداد اس سے قبل کبھی کسی دربار میں اکٹھا نہیں ہوئي تھی۔ دو مختلف مزاج کے مصور جب مل بیٹھے تو ان کے قلم میں یکسانیت آئی اور اکبر کا دربار فن مصوری کا گہوارہ بن گيا۔ اکبر کے عہد کی معروف کتاب آئين اکبری میں اس کا مفصل ذکر ہے۔ اکبر نے درباری مصوروں کو اپنے دادا کی کتاب بابر نامہ کی تزئین کا کام سپرد کیا اور تزئین کاری کو فروغ دیا۔ رزم نامہ، تیمور نامہ، خمسۂ نظامی اور بہارستان کی تزئين کاری اکبری عہد کا انمول خزانہ ہیں۔ آپ کو مصوری کے ان نادر نمونوں کی کاپی بازاروں میں سستے داموں پر دستیاب ہے جمال پرست بادشاہ جہانگیر زندگی کو حسن کے آئینے میں دیکھنے کا قائل تھا اور کم و بیش شاہجہاں کی بھی یہی حالت تھی۔ جہانگیر کو شراب و جام سے بہت قرب حاصل رہا چنانچہ اس زمانے کی مصوری میں یہی علامتیں جلوہ گر نظر آتی ہیں۔ شاہجہانی دور میں طلائی کا کام ہویدا ہوا۔ معروف مورخ بنارسی پرشاد سکسینہ کا خیال ہے کہ تصویروں میں طلائی کاری اثر فن تعمیر کے زیر اثر آيا کیونکہ شاہجہاں نے تاج محل کی تعمیر میں طلائی کاری پر بڑا زور دیا تھا۔ شاہ جہاں کی طرح ان کا بڑا لڑکا دارا شکوہ بھی مصوری کا بڑا دلدادہ تھا اور ان کا مرقع انڈو ایرانی فن میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اورنگزیب کو ذاتی طور پر اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن دربار کے امرا میں اس فن کا چرچا تھا۔ اورنگزیب کے قیام دکن نے بہت سے لوگوں کو دکن کا ساکن بنا دیا۔ پیسہ حاصل کرنے کے لیے مصوروں نے عوام کی دلچسپی کی چیزیں بنانا شروع کیں تاکہ فروخت میں آسانی ہو۔ کہا جاتا ہے کہ مغل بادشاہ اکبر نے رات میں روشن گیند سے چوگان کی ابتدا کی تھی لیکن اس پورے میدان کو چاول کے دانے پر دکھانے کا کارنامہ مغل دربار کے مصور عبدالصمد نے دکھایا تھا اس طرح دکن میں مصوری کے ایک نئے سکول کی ابتدا ہوئی اور فن مصوری دربار سے نکل کر عوام تک پہنچا۔ دکن کے علاوہ مصوروں کے کئی کنبے مختلف سمتوں پر نکل پڑے جن میں سے کچھ اودھ کے دربار میں آ گئے، کچھ پٹنہ چلے گئے اور کچھ اورنگ آباد اور حیدرآباد چلے گئے۔ مغلوں کے زوال کے ساتھ مغربی فن مصوری کا عروج ہونے لگا۔ در حقیقت مغل فن مصوری کی کہانی ہندوستانی تاریخ سے کم دلچسپ نہیں۔ ٭ سلمیٰ حسین کھانا پکانے کی شوقین، ماہر طباخ اورکھانوں کی تاریخ نویس ہیں۔ ان کی فارسی زباندانی نے عہد وسطی کے مغل کھانوں کی تاریخ کے اسرار و رموز ان پر کھولے۔ انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں اور بڑے ہوٹلوں کے ساتھ فوڈ کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ سلمیٰ حسین ہمارے لیے مضامین کی ایک سیریز لکھ رہی ہیں۔ مغلوں کی تاریخ کے اوراق الٹنے کے بعد یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ مغل فن مصوری ہندوستانی فن مصوری کی تاریخ میں نہ صرف حسین حادثہ ہے بلکہ ایک حسین اضافہ بھی ہے۔ text: ان دنوں سندھ میں تعلیمی بورڈوں حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ کے نویں اور دسویں جماعتوں کے سالانہ امتحانات چل رہے ہیں جن کا اساتذہ نے بائیکاٹ کررکھا ہے- اس کے بعد ہزاروں طلبا اور طالبات چپراسیوں، کلرکوں، پٹواریوں کی نگرانی میں پرچے دے رہے ہیں- کئی مواقع پر بڑی دلچسپ صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جب طالبعلم کسی سوال کی وضاحت کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں- نگرانی کرنے والے حضرات خود پریشان ہوجاتے ہیں جس کے بعد ان امیدواروں کو نقل کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے- آٹھ سال کی پابندی کے بعد محکمہ تعلیم میں ہونے والی ان بھرتیوں میں اساتذہ اپنا حصہ اور کوٹہ مانگ رہے ہیں - اساتذہ کے دیگر مطالبات میں سلیکشن گریڈ دینا بھی شامل ہے- صوبائی وزیر تعلیم عرفان اللہ مروت کا کہنا ہے کہ وہ کسی صورت میں کسی کو کوٹہ نہیں دیں گے- ان کا دعویٰ ہے کہ وہ تمام بھرتیاں میرٹ کی بنیاد پر کرینگے- مسٹر مروت نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ اساتذہ کی تنظیموں کو سیاسی جماعتیں استعمال کرہی ہیں- دوسری جانب اساتذہ تعلیمی بائیکاٹ کے بعد سڑکوں پر نکل آئے ہیں، کلاسوں میں طلبا پر ڈنڈے برسانے والے یہ اساتذہ خود لاٹھی کی لپیٹ میں آگئے ہیں اور ان کا احتجاج پر تشدد کا سلسلہ ہے- لاڑکانہ میں جمعہ کے روز پولیس اور لیڈی ٹیچرز کے درمیاں جھڑپ ہوئی جس میں لیڈیز پولیس نے خواتین ٹیچرز کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا اور انہیں پکڑ کر موبائل گاڑیوں میں ڈال کر تھانے لے جایا گیا جبکہ ڈوکری شہر میں اساتذہ کے ایک گروپ نے بجلی کے پول پر چڑھ کر بجلی کا تار کاٹ دیا جس سے بجلی کی فراہمی منقطع ہوگئی- پولیس نے اساتذہ پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کا بھی استعمال کیا- اسی طرح سے جیکب آباد میں اساتذہ نے محکمہ تعلیم کے ایک افسر سے امتحانی پرچے چھیننے کی کوشش کی تو پولیس نے فائرنگ کی- اساتذہ نے تعلیمی افسر کے کپڑے تار تار کردیئے- خیرپور میں دو درجن سے زائد اساتذہ کے خلاف امتحانات میں رکاوٹیں ڈالنے کے الزام میں مقدمات درج کئے گئے ہیں- بدین میں پہلے روز چھ مراکز پر پرچے نہیں ہو سکے- شکارپور میں اساتذہ نے ایک ھیڈ ماسٹر کو امتحانات لینے پر تشدد کا نشانہ بنایا اور کلاس روم میں کالا تیل چھڑک دیا- وزیراعلی سندھ کے ضلع کے شہر میرپور ماتھیلو میں وزیر تعلیم کے پتلے کو نذر آتش کیا گیا- اس طرح سے مختلف شہروں میں ایک سو سے زائد اساتذہ کو گرفتار کیا جا چکا ہے- سیکنڈری استاذہ کی تنظیم صدر عبدالغنی کنبھر کا کہنا ہے کہ حکومت مسائل حل کرنے کے بجا مزید الجھا رہی ہےاور پرامن اساتذہ پر لاٹھیاں برسائیں جا رہی ہیں- پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر محمد رفیق جروار اور محمد سچل نے صحافیوں کو بتایا کہ اساتذہ پندرہ مارچ سے سندہ کے ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں علامتی عدالتیں لگاکر صوبائی وزیر تعلیم عرفان مروت اور محکمہ کے افسران کو سزائیں سنائینگے- ان کا کہنا ہے کہ اگر بھرتیوں میں اساتذہ کے بچوں کے لئے کوٹے سمیت ان کے مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تو اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینگے- اساتذہ نے اپنے احتجاج کے لئے امتحانات کا وقت چُنا لیکن احتجاج کے باوجود حکومت اساتذہ کا کوئی مطالبہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہے- واضح رہے کہ سندھ میں پہلی مرتبہ اساتذہ کی بھرتی کے لئے ایک سو روپے کے عوض درخواست فارم بنک سے جاری کیا گیا ہے- بنکوں میں یہ فارم کم مہیا کرنے کی وجہ سے بعض مقامات پر یہ فارم ایک سو کے بجائے پانچ سو روپے میں بھی فروخت کیا گیا۔ اساتذہ کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ محکمہ تعلیم نے ان فارموں پر بھی کمیشن لیا ہے- یہ امر قابل غور ہے کہ سندھ میں حکومت اپنے اتحادیوں کو خوش رکھنے کے لئے اتحادی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے کو ملازمتوں کا کوٹا دیتی رہی ہے- سیٹیں کم ہونے کی وجہ سے اساتذہ کوحصہ نہیں ملتا- سندھ کے پرائمری اساتذہ کی تنظیم پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن اور سیکنڈری اساتذہ کی تنظیم گورنمنٹ سیکنڈری ٹیچرز ایسوسی ایشن نے کلاسیں لینے سے انکار کردیا ہے اور پوری صوبے میں اساتذہ گزشتہ ایک ہفتے سے سراپا احتجاج ہیں- text: پاکستان اور بھارت کے درمیان انسداد دہشت گردی کے بارے میں مشترکہ طریقۂ کار کے حوالے سے مذاکرات کا تیسرا دور منگل کے روز وزارت خارجہ میں ہوا جس میں دونوں اطراف سے دہشت گردی میں ملوث مختلف تنظیموں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کیا گیا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ان تنظیموں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جائے گی اور ایک دوسرے کو آگاہ کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ سنہ دو ہزار چھ میں صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی ہوانا میں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد یہ طے پایا تھا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ طریقۂ کار تیار کیا جائے۔ اس مشترکہ طریقۂ کار کے حوالے سے پہلا اجلاس اسلام آباد میں دوسرا نئی دِلّی میں ہوا۔ اجلاس میں فریقین نے دونوں ملکوں کو دہشت گردی کی وارداتوں میں مطلوب افراد کی فہرست کا بھی تبادلہ کیا۔ مذاکرات میں شامل ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ سمجھوتا ایکسپریس پر ہونے والے حملوں کی تفتیش کے بارے میں پاکستان نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا جبکہ بھارت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اس واقعہ کی تفتیش جاری ہے اور جوں جوں اس میں پیش رفت ہوگی تو پاکستان کو اس حوالے سے آگاہ کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اس حملے میں دو سو کے قریب پاکستانی جاں بحق ہوگئے تھے۔ اجلاس میں بھارت کی طرف سے جے پور، اجمیر اور حیدرآباد میں ہونے والے بم دھماکوں کے حوالے سے بھی بات کی گئی اور ان دھماکوں میں ملوث مبینہ افراد کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ستائیس جون کو بھارت کا پہلا دورہ کر رہے ہیں۔ اُدھر وزرات خارجہ کی طرف سے ان مذاکرات کے بارے میں جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں نے دہشت گردی کے خلاف مشرکہ طریقۂ کار کے حوالے سے گزشتہ دو اجلاسوں کے بعد جو اقدامات تجویز کیے گئے تھے اُن کا جائزہ لیا گیا۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں میں ہونے والے دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کیا گیا۔ پاکستان اور بھارت نے دہشت گردی اور تشدد کے واقعات کو روکنے کے لیے ایک دوسرے کو معلومات فراہم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون جاری رکھنے پر بھی رضا مندی ظاہر کی گئی ہے۔ text: سندھ کے سیکریٹری صحت ڈاکٹر نوشاد شیخ کے مطابق عالمی ادارہ نےامداد کی فراہمی معطل کرنےکا عندیہ حال ہی میں جینیوا میں منعقدہ اجلاس میں دیا ہے۔ پاکستان کےصوبہ سندھ میں ادارہ کے نمائندہ ڈاکٹرغلام نبی قاضی کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کی کوئی وارننگ تو نہیں دی گئی ہے تا ہم پاکستان میں اب تک پولیو کی صورتحال کے پیش نظر امداد میں اضافے کو بہتر کار کردگی سے مشروط کیا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے 6 ممالک میں بچے پولیو جیسی معذور کر دینے والی بیماری کاشکار ہوتے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ ان ممالک میں بھارت، افغانستان نائجیریا، سوڈان اور مصر شامل ہیں۔ پاکستان میں1995 سےاب تک پولیو کےخلاف ٹیکوں کی مہم کے 50 سے زائد دور کیے جا چکے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت، یونیسیف اور روٹری انٹرنیشنل کے اشتراک سے پاکستان کو پولیو کے خاتمہ کے لیے تقریبا 50 ملین ڈالرز کی امداد دی جاتی ہے۔ پولیو کے خلاف 1995 میں شروع کی جانے والی مہم کا مقصد پاکستان کو 2000 تک معذور کر دینے والی اس بیماری سے پاک کردینا تھا مگر یہ ہد ف ٹلتے ٹلتے اب جنوری 2006 تک جا پہنچا ہے اور اس کے باوجود پاکستان ابھی تک زیرو پولیو کی سطح تک نہیں پہنچ سکا ہے جس کو ایک سال برقرار رکھنے کے بعد تین سال تک اس ملک کو بغیر کسی پولیو کیس کے گزارنا ہوتے ہیں تا کہ عالمی ادارۂ صحت اسے پولیو سے پاک ملک قرار دے سکے۔ پاکستان کی صورتحال یہ ہےکہ صرف جنوری 2005 میں ہی پولیو کے دو کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی پولیو کے خلاف ایک عشرہ پر محیط جدوجہد کے جائزہ سےپتہ چلتا ہے کہ اس بیماری کے خاتمہ کے حوالے سے صورتحال پانی سے بھرے آدھے گلاس کی سی ہے۔ صوبہ بلوچستان میں گزشتہ چودہ ماہ سے پولیو کا ایک کیس بھی رپورٹ نہیں ہوا ہے اس کے برعکس صوبہ سندھ میں صرف 2004 میں پولیو کے 27 کیس رپورٹ ہوئے جبکہ پورے پاکستان سے پولیو کے 51 کیس رپورٹ ہوئے۔ پولیو ایکسپرٹ ریویو کمیٹی بلوچستان کےچیئرمین ڈاکٹرغفارناگی کا کہناہے کہ بلوچستان میں پولیو کے خاتمہ کی بڑی وجہ آبادی کا قدرے پھیلا ہوا ہونا ہے۔ ان کےخیال میں پولیو جیسی بیماری کا وائرس گنجان آباد علاقوں میں زیادہ تیزی سے پھیلنے اور متاثر کرنےکی صلاحیت رکھتاہے۔ دوسری جانب سندھ میں ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ کی رکن ڈاکٹر درِّ ثمین اکرم کےنزدیک سندھ میں سب سے زیادہ پولیو کےکیس رپورٹ ہونےکی بڑی وجہ یہاں کےگنجان آباد شہراورمتحرک آبادی ہے۔ ان کےخیال میں سندھ بھر میں عموماً اور کراچی میں خصوصاً دیگر علاقوں سے بچوّں کی آمدورفت بھی پولیو کیس میں اضافہ کا سبب ہوسکتی ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری ڈاکٹر شیر شاہ سیّد کہتے ہیں کہ پولیو کے خاتمہ میں ناکامی پر ملک میں صحتِ عامہ کے کرتا دھرتاؤں کا محاسبہ ہونا چاہیے کیونکہ اگر اتنی خطیر رقم خرچ کر کے بھی پولیو پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ مقصد سے بےایمانی روا رکھی جا رہی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ اگر 2005 میں اس کی پو لیو کے خلاف مہم مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو ادارہ اس ضمن میں دی جانے والی امداد معطل کردےگاـ text: ڈیفنس سائنس بورڈ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکہ میں عوامی سطح پر اس بات کا اعلان کہ وہ مسلمان دنیا میں جمہوریت لائے گا محض ’اپنے مفاد کے لیے کی جانے والی منافقت‘ کا درجہ رکھتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگر امریکہ یہ چاہتا ہے کہ مسلمان تحمل و برداشت کو سمجھیں تو اسے مسلمانوں کو یہ یقین دہانی کرانی پڑے گی کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ امریکی طرزِ زندگی اور اندازِ فکر کے سامنے سر جھکا دیں۔ امریکہ کو رپورٹ میں یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنی روش میں تبدیلی لائے۔تاہم اس دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف تعلقاتِ عامہ کو سدھارنا کافی نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق ’مسلمان ہماری آزادی سے متنفر نہیں ہیں بلکہ وہ ہماری پالیسیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی غالب اکثریت اس بات پر معترض ہے کہ بقول اس کے امریکہ یکطرفہ طور پر اسرائیل کی حمایت اور فلسطینیوں کے حقوق کی مخالفت کرتا ہے۔‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کی نظر میں امریکہ جابرانہ حکومتوں کی ہمیشہ سے اور پہلے سے بڑھ کر حمایت کرتا ہے ان حکومتوں میں مصر، سعودی عرب، اردن، پاکستان اور خلیجی ریاستیں شامل ہیں۔ ’لہذا جب امریکہ ایسے مسلمان معاشروں میں جہموریت لانے کی بات کرتا ہے تو اسے محض مفاد پرستانہ منافقت کی طرح دیکھا جاتا ہے۔‘ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغانستان اور عراق میں امریکی جنگ کی وجہ سے امریکہ کے دشمنوں کا قد کاٹھ کم ہونے کی بجائے بڑھ گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ کی رابطہ مہم بحران کا شکار ہے اور یہ کہ وائٹ ہاؤس کو فوری طور پر موثر ابلاغ کا شعبہ قائم کرنا چاہیئے۔ بی بی سی کے نامہ نگار نک چائلڈز کہتے ہیں کہ یہ رپورٹ سرکاری پالیسی کا درجہ تو نہیں رکھتی لیکن اس سے سرکاری حلقوں میں پائے جانے والی تشویش بحر حال اجاگر ہوگئی ہے۔ ڈیفنس بورڈ پینٹاگون کے مقرر کردہ عام ماہرین پر مشتمل ہے اور سائنسی، تکنیکی اور دیگر امور پر محکمانہ مشاورت کا کام کرتا ہے۔ پینٹاگون کے ایک مشاورتی پینل نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ اسلامی دنیا کا دل جیتنے کی لڑائی ہار رہا ہے۔ text: رابعہ بٹ کا کہنا ہے کہ اگرچہ ماڈلنگ اور ایکٹنگ ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں لیکن پھر بھی انھوں نے اس فیلڈ میں قدم رکھنے کے لیے اچھی خاصی سوچ بچار کی۔ وہ پاکستانی نجی چینل کے ذرامہ ’پہلی سے محبت‘ میں ’نرگس‘ کا اہم کرادر ادا کر رہی ہیں۔ یہ بھی پڑھیے ’مجھے محض جگانے اور چائے پلانے والی ماں نہیں بننا تھا‘ رمشا خان: ’سامعہ کا کردار عورتوں کے دل کی آواز ہے‘ رقصِ بسمل کی اداکارہ سارہ خان ’ہمیشہ‘ مردوں کو برا دکھانے پر نالاں کیوں؟ ’نرگس کا کردار ایک جوا تھا‘ روایتی طور پر منفی سمجھے جانے والے سوتیلی ماں کے کردار کو اپنے منفرد انداز اور جاندار پرفارمنس سے مثبت رنگ میں بدلنے والی رابعہ کا کہنا ہے کہ کہ وہ اپنے کام کے بارے میں بہت سوچ سمجھ کر انتخاب کرتی ہیں۔ بی بی سی کے لیے مکرم کلیم کو دیے گئے انٹرویو میں ڈرامہ ’پہلی سی محبت‘ میں اپنے کردار کے بارے میں رابعہ کا کہنا تھا کہ ’اس ڈرامے کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر دونوں نے مجھ سے کہا تھا کہ نرگس کا کردار ڈرامے کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور ہم اس میں ہلکی سی بھی کمی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے اس چیز کا مجھ پر بہت زیادہ دباؤ تھا۔‘ رابعہ کہتی ہیں ہیں ’اس کردار یار نرگس کے کردار کی بہت سی خصوصیات ایسی تھیں جو میرے لیے رسک فیکٹر تھیں۔ سب سے پہلے اس کا اُس جگہ (کوٹھے) سے آنا۔ پھر تقریباً اپنی ہم عمر لڑکی کی ماں کا کردار ادا کرنا، پھر ایسے اداکار جنہیں دیکھتے ہوئے ہم بڑے ہوئے شبیر جان کی بیوی کا کردار ادا کرنا میرے لیے یہ سب آسان نہیں تھا‘۔ بقول رابعہ کے ’یہ ہر طرح سے جوا تھا جو میں نے کھیلا۔‘ نرگس اور رابعہ کے یکساں انداز رابعہ کے کردار نرگس کو سوشل میڈیا پر کافی پذیرائی ملی۔ ایک بدنام ماضی رکھنے والے عورت ہونے کے باوجود لوگ نرگس کی شخصیت کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے رابعہ کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ میں نے کام میں بہت زیادہ محنت کی ہے لیکن اس کردار کو نبھانے کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی کیونکہ کہ مصنف نے اسے لکھا ہی بہت اچھا ہے۔‘ رابعہ کا کہنا تھا ’نرگس جس طرح سے بات کرتی ہے رابعہ بھی بالکل ویسے ہی بات کرتی ہے، ہاں مشکل تھا تو اُن لائنز کو یاد کرنا کیونکہ میری یاداشت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔‘ رابعہ بٹ کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ اداکار چاہتا ہے کہ اس کے کردار کی چھاپ ہر گھر میں رہے لیکن کبھی کبھار ہر اچھی چیز اپنے اندر منفی پہلو بھی رکھتی ہے کیونکہ جتنا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو اس نام سے جانا پہچانا جائے اتنا ہی پھر آپ کو اس کے اثر سے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔‘ رابعہ بٹ کا کہنا تھا کہ ماڈلنگ سے ایکٹنگ میں آنے پر اگرچہ انہیں کافی محنت کرنا پڑی اور کام مشکل لگا تاہم ان کا کہنا تھا 'یہ تو ہر فیلڈ میں ہوتا ہے سب کو مشکلات کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ محنت کرنا ہوتی ہے۔ ' انھوں نے تسلیم کرتے ہوئے کہا 'جی مجھ پر دباؤ تھا، جی مجھ پر دباؤ ہے۔ لیکن میں یہ کروں گی'۔ سوشل میڈیا پر نرگس کی طرح منہ پھٹ اپنے کردار نرگس کی طرح رابعہ ذاتی طور پر بھی لوگوں کی باتوں کا کھل کر جواب دیتی ہیں وہ سوشل میڈیا پر کافی ایکٹیو ہیں ہیں۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا ’اگرچہ میں عام زندگی میں زیادہ بات نہیں کرتی اور جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ سلیبرٹیز کی زندگی پبلک پراپرٹی ہوتی ہے میں مانتی ہوں کہ آپ نے ہمیں بنایا ہے لیکن میں اپنی تذلیل کرنے کا حق کسی کو نہیں دے سکتی۔‘ رابعہ کا کہنا تھا ’میرا حق ہے کہ میں اسے برداشت کروں یا اس کا جواب دوں۔ لوگ اس کا جواب بھی دے سکتے ہیں اور چپ چاپ آگے بڑھ سکتے ہیں لیکن میں ایسا نہیں کرتی، میں زیادہ تر جواب دیتی ہوں۔‘ ’میں ایسے الفاظ کا چناؤ کرتی ہوں جس میں کسی کی بےعزتی نہیں ہوتی، اس میں مزاح ہوتا ہے۔‘ ایک سوشل میڈیا صارف کی جانب سے انہیں ’غریبوں کی اینجلینا جولی‘ کہنے پر رابعہ بٹ نے انہیں پنجابی جواب دیا تھا کہ ’آپ کے گھر سے نکلنے والی تیل کی پائپ لائنیں کیا براہ راست شیخوں کے گھر جاتی ہیں۔؟‘ ’شریک حیات بہت امیر نہ ہو لیکن میرا بوجھ اٹھا لے‘ سوشل میڈیا پر مداحوں کی جانب سے کی جانب سے بے انتہا اظہار محبت پر رابعہ کا کہنا تھا 'وہ میری زندگی میں نہیں ہیں اس لیے اظہار کرتے ہیں۔ اصل مسئلہ تو تب شروع ہوتا ہے جب کوئی زندگی میں آ جائے اور تب بھی مسلسل اظہار محبت کرتا رہے۔ ' اپنے ممکنہ شریک حیات کے لیے خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا 'وہ اتنا کما سکے کہ وہ کم از کم میرا بوجھ اٹھا سکے۔ میں محبت کو پلیٹ میں رکھ کر نہیں کھا سکتی اس کے لیے مجھے روٹی چاہیے، لیکن صرف اتنا ہی پیسہ، کیونکہ زیادہ پیسہ اپنے ساتھ تباہیاں اور گمراہیاں لاتا ہے۔' رابعہ بٹ کا کہنا تھا کہ وہ ایسا شخص ہو جس پر میں اپنی ذمہ داری ڈال کر وہ بے فکر ہو جائیں۔ ان کا کہنا تھا ’میں اپنی ذمہ داری کسی کو دوں گی تو اس کے بعد میں اپنی ذمہ داری سے آزاد ہو جاؤں، مجھے نہیں معلوم کہ یہ احساس کیسا ہوتا ہے کہ جب مجھے سب کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔‘ واضح رہے کہ رابعہ بٹ کی والدہ کی وفات اس وقت ہو گئی تھی جب وہ ابھی نوجوان تھیں اور ان کی چھوٹی بہنیں بہت کم عمر تھیں۔ والدہ کی وفات کے رابعہ بٹ نے خود اپنی بہنوں کی پرورش کی۔ وہ اکثر اپنے انٹرویوز میں اپنی زندگی کی مشکلات اور والدہ سے محبت کا ذکر کرتی نظر آتی ہیں۔ انہی میں سے ایک انٹرویو میں کا کہنا ہے تھا کہ ڈرامے میں ان کی اپنی سوتیلی بیٹی سے محبت اور سلوک میں نظر آنے والی حقیقی جھلک شاید اسی کمی اور ذاتی زندگی میں بہنوں سے مامتا بھرے سلوک کا اثر ہے۔ ڈھیلی چوٹی، کاجل سے بھری آنکھیں اور گلابی ہونٹوں کے ساتھ شریف گھرانے میں بیاہ کر آنے والی بدنام عورت ’نرگس‘ کے کردار میں رابعہ بٹ کو پہلے ہی منظر سے ناظرین کی جانب سے اچھی خاصی پذیرائی ملی۔ text: باون سالہ مارٹن سٹیل چھیاسٹھ دن تک دریائے ایمیزان میں مگرمچھوں اور پرانیا مچھیلوں سے بھرے دریائے امیزان میں تیرتے رہے۔ مارٹن سٹیل نے، جو اوسطً روزانہ 52 میل تیرتے تھے، شیڈول سے چار روز پہلے ہی اپنا سفر مکمل کرکے دنیا کے پہلے شخص بن گئے ہیں جنہوں نے دنیا کے سب سے بڑے دریا کو تیر کر عبور کیا۔ دریائے ایمیزان دنیا کاسب سے بڑا دریا ہے اور لمبائی میں دریائے نیل کے بعد اس کا دوسرا نمبر ہے۔ مارٹن سٹیل نے ڈاکٹروں کی ہدایت کے خلاف اپنے تیراکی کے سفر کو جاری رکھا اور جب وہ اپنی منز ل پر پہنچے تو مارٹن سٹیل سن سٹروک، ڈائیریا اور متلی کی کیفیت میں مبتلا تھے۔ مارٹن سٹیل اس سے پہلے دریائے مسسپی، دریائے ینگتز اور دریائے دنوبی کو تیر کر عبور کر چکے ہیں۔ دریائے ایمیزان دنیا کی سب سے خطرناک مچھلی بل شارک، مگرمچھ اور اناکونڈا سانپوں کی آماجگاہ ہے۔دریائی لہروں کے علاوہ امیزان کے قزاق بھی بہت شہرت رکھتے ہیں۔ مارٹن سٹیل کے بیٹے بورت نے کہا کہ ان کے والد اپنے سفر کو مکمل کر چکے ہیں اوراتوار کے روز ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی جائے گی مارٹن سٹیل نے کہا کہ دریائے امیزان کے جانوروں نے انہیں قبول کر لیا تھا اور وہ شاید سمجھتے ہیں کہ وہ ان میں سے ہیں۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے کہا کہ وہ چند ہفتوں بعد مارٹن سٹیل کے ریکارڈ کی تصدیق کرے گا۔ سلوینیا کے باشندے مارٹن سٹیل نے پانچ ہزار دو سو پینٹسھ کلو میٹر لمبے ایمیزان دریا کو تیر کر عبور کر لیا ہے۔ text: پاکستان نے سری لنکا کے بعد آسٹریلیا کو بھی شکست دے کر سیمی فائنل تک رسائی ممکن بنالی تھی لیکن بنگلہ دیشی ٹیم کی شکست کے بعد اس کی پوزیشن واضح ہوگئی ہے۔ اس گروپ سے دوسری سیمی فائنلسٹ ٹیم کا فیصلہ سری لنکا اور آسٹریلیا کے میچ میں ہوگا جو جمعرات کو کیپ ٹاؤن میں کھیلا جائے گا۔ آسٹریلیا کے خلاف میچ میں کپتان شعیب ملک اور مصباح الحق کیایک سو انیس رن کی ناقابل شکست پارٹنر شپ کی بدولت پاکستان نے دنیائے کرکٹ کی تقریبًا ناقابل شکست ٹیم کو زیر کر لیا۔ پاکستان کی اننگز کا آغاز حسب معمول اچھا نہیں تھا۔ پاکستان کے دونوں افتتاحی بلے باز عمران نذیر اور محمد حفیظ نے چوتھے ہی اوور میں میدان سے باہر جاتے نظر آئے۔ دونوں کھلاڑیوں کو کلارک نے آؤٹ کیا۔ سری لنکا کے خلاف نصف سنچری بنانے والے یونس خان اس میچ میں صرف چار رنز بنا کر کلارک کو ایک زوردار شاٹ لگانے کے چکر میں کیچ آؤٹ ہوگئے۔ سلمان بٹ جانسن نے گیارہ رنز پر ایل بی ڈبلیو کر دیا۔ چھیالیس کے سکور پر پاکستان کے چار کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے اور آسٹریلیوی بالرز میچ پر چھائے ہوئے تھے۔ ایسے میں کپتان شعیب ملک اور مڈل آرڈر بیٹسمین مصباح الحق نے ذمہ داری سے کھیلتے ہوئے مطلوبہ ہدف اس وقت حاصل کر لیا جب اننگز کی پانچ گیندیں ابھی باقی تھیں۔ دونوں کھلاڑیوں نے نصف سنچریاں بنائیں۔ اس سے قبل پاکستان کے کپتان شعیب ملک نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ آسٹریلیا کی جانب سے میتھیو ہیڈن اور ایڈم گلکرسٹ نے آسٹریلیا کی اننگز کا آغاز کیا تو دوسرے ہی اوور میں میتھیو ہیڈن سہیل تنویر کی گیند پر یونس خان کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔ پاکستان کی جانب سے سہیل تنویر نےتین جبکہ آفریدی، آصف اور حفیظ نے ایک ایک کھلاڑی کو آوٹ کیا۔ گزشتہ روز سپر ایٹ مرحلے کے اپنے پہلے میچ میں پاکستان نے سری لنکا کے خلاف 33 رنز سے کامیابی حاصل کی تھی۔ جوہانسبرگ میں آئی سی سی ورلڈ ٹوئنٹی ٹوئنٹی کے سپر ایٹ مرحلے میں پاکستان نے آسٹریلیا کو چھ وکٹوں سے شکست دے دی ہے۔ ادھر سری لنکا کے ہاتھوں بنگلہ دیش کی شکست کے بعد پاکستان کی ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ گئی ہے۔ text: الفا نے مصالحت کاروں کے ذریعے ستمبر تک مرکزی حکومت سے جاری رہنے والی بات چیت ناکام ہو جانے کے بعد پھر سے تشدد کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ جب سے الفا نے کانگریس پارٹی کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کی پالیسی اپنائی ہے تب سےاب تک چار کانگریس رہنما اور سرگرم کارکن ہلاک ہو چکے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ عبدالبشر مشرقی ضلع گولہ گھاٹ میں گولیوں کا نشانہ بننے کے بعد گھر سے ہسپتال جاتے ہوئے ہلاک ہوئے۔ کانگریس کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جب سے الفا نے پارٹی کے لوگوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے پارٹی کے حامیوں پر افراتفری طاری ہو گئی ہے۔ الفا نے اعلان کیا ہوا کہ آسام میں جاری فوجی آپریشن کے دوران الفا کے جتنے لوگ ہلاک کیے جائیں گے اتنے ہی کانگریس رہنما اور سرگرم کارکن ہلاک کیے جائیں گے۔ کھاگرابل نامی ایک گاؤں میں ہونے والے ایک اور واقعے میں ہندی بولنے والی تین مہاجر عورتیں اس وقت زخمی ہو گئیں جب تیز دھار ہتھیاروں سے لیس مقامی لوگوں نے ان کے خاندان پر حملہ کر دیا۔ انڈیا کی ریاست آسام میں برسرِ اقتدار کانگریس پارٹی کے رہنما عبدالبشر کو مشکوک علیحدگی پسندوں نے قتل کر دیا ہے۔ text: صوبائی حکومت نے کارروائی کرتے ہوئے نوشہرہ کینٹ کے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو معطل بھی کر دیا ہے۔ ساتھ میں مندر کو پہنچائے جانے والے نقصان کے ازالے کا حکم بھی دیا ہے۔ اس واقعے میں مبینہ طور پر ملوث پینتیس سالہ یوسف مسیح کو پولیس نے پہلے ہی حراست میں لے رکھا ہے۔ پشاور سے چالیس کلومیٹر مشرق میں نوشہرہ شہر میں قرآن کریم کی مبینہ بےحرمتی کا یہ واقعہ منگل کو پیش آیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق پینتیس سالہ یوسف مسیح کے علاقے کے لوگوں نے پولیس کو اطلاع دی کہ وہ مبینہ طور پر قرآن مجید کے صفحات کو آگ لگا رہا ہے۔ اس پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے اسے گرفتار کر لیا۔ اس خبر کے ملنے پر علاقے کے لوگ مشتعل ہوگئے، انہوں نے نوشہرہ کینٹ تھانے کے سامنے دھرنا دیا، جی ٹی روڈ بلاک کیا اور قریب ہی لمبا ویڑہ میں ایک مندر پر پتھراؤ کیا اور اسے نذر آتش کرنے کی کوشش کی۔ پولیس نے بعد میں مظاہرین کو منتشر کر دیا۔ تاہم مندر پر حملے کے الزام میں آٹھ افراد کو حراست میں لے لیا۔ اس معاملے پر آج صوبائی اسمبلی میں بھی بات ہوئی اور اقلیتی اراکین نے نوشہرہ کی اقلیتی برادری کے عدم تحفظ کا شکار ہونے کی شکایت کی۔ اس موقعہ پر صوبائی وزیر قانون ملک ظفر اعظم نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا۔ ادھر چھ دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے سربراہ قاضی حسین احمد نے آج اس مندر کا دورہ کیا اور صوبائی حکومت کی جانب سے اسے پہنچنے والے نقصان کے ازالے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے ضلعی حکام کو اقلیتی عبادت گاہوں کی حفاظت کے خصوصی انتظامات کا حکم دیا۔ پاکستان میں مذہب کی توہین کے الزام کے متنازعہ قانون کے تحت سزاے موت دی جاسکتی ہے۔ صوبہ سرحد کی حکومت نے نوشہرہ میں ایک عیسائی کے ہاتھوں قرآن مجید کی مبینہ بےحرمتی کے واقعے اور اس کے تنیجے میں مشتعل ہجوم کی جانب سے ایک مندر کو نذر آتش کیے جانے والے واقعے کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ text: اس کے نتیجے میں باغیوں کے زیرِ قبضہ اس شہر میں اقوامِ متحدہ نہ تو امداد پہنچا سکی اور نہ ہی وہاں سے کسی بیمار یا زخمی شخص کو علاج کے لیے نکالا جا سکا۔ دمشق کے قریب واقع اس شہر میں تین لاکھ 93 ہزار لوگ گھر کر رہ گئے ہیں۔ سرکاری افواج نے 2013 سے اس شہر کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ اسی بارے میں مزید پڑھیے غوطہ: صدر پوتن کا لڑائی میں روزانہ وقفے کا اعلان شام میں 30 روزہ جنگ بندی کی قرارداد منظور طبی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ نو روز قبل لڑائی شروع ہونے کے بعد سے اب تک پانچ سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق منگل کو کم از کم چھ عام شہری مارے گئے۔ ان میں سے دو عین پانچ گھنٹے کی جنگ بندی کے وقفے کے دوران ہلاک ہوئے۔ روسی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ مشرقی غوطہ میں باغیوں نے وقفے کے دوران حملہ کر دیا اور دو جگہوں پر سرکاری فوج کے ٹھکانوں کو ہدف بنایا۔ فرانس اور برطانیہ نے روس پر زور دیا ہے کہ وہ شامی صدر بشار الاسد پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے تمام ملک میں 30 روزہ جنگ بندی پر عمل کروائے۔ ہفتے کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے فریقین سے 30 روزہ جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔ جب منگل کو صبح نو بجے روس کی جانب سے عائد کردہ جنگ بندی کا وقفہ شروع ہوا تو جنگ چھڑ گئی۔ اقوامِ متحدہ کے حکام کے مطابق اس کے باعث امدادی کاروان شہر میں داخل نہیں ہو سکے اور نہ ہی وہاں سے کسی زخمی و بیمار کو نکالا جا سکا۔ عالمی ادارۂ صحت نے کہا ہے کہ غوطہ میں ایک ہزار شدید بیمار افراد موجود ہیں جنھیں فوری طور پر علاج کے لیے شہر سے باہر لے جایا جانا ضروری ہے۔ سیریئن آبزرویٹری نے جنگ بندی کے وقفے کی کئی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اسی دوران سرکاری فوج کے ہیلی کاپٹروں اور جہازوں نے جسرین قصبے پر بمباری کی جس سے ایک بچے سمیت دو افراد ہلاک ہو گئے۔ دوسری جانب شام کے سرکاری خبر رساں ادارے سانا نے کہا ہے کہ 'دہشت گردوں' نے سرکاری چوکیوں پر گولے داغے اور وہ انسانی ڈھالیں استعمال کر رہے ہیں۔ شام کے شہر غوطہ کے مشرقی علاقے میں شامی حکومت کے حامی روس کی جانب سے عائد کردہ پانچ گھنٹہ دورانیے کی جنگ بندی کے باوجود گولہ باری کا سلسلہ جاری رہا۔ text: حادثے میں سات افراد موقع پر ہلاک جبکہ دس کے قریب زخمی ہوگئے جنہیں سول اور جناح ہسپتال پہنچایا گیا جہاں تین افراد زخموں کی تاب نے لاکر جاں بحق ہو گئے۔ بس میں ماہی گیروں کی ایک بڑی تعداد تھی جو بندرگاہ سے اپنے گھر جا رہے تھے۔ ڈی آئی جی ٹریفک نے بی بی سی کو بتایا کہ بس سامنے آنے والے ایک بچے کو بچانے کی کوشش میں بے قابو ہو گئی اور پل سے ٹکرا کر نیچے جا گری۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں غیر محتاط ڈرائیونگ کی وجہ سے سڑک حادثات میں اضافہ ہورہا ہے۔ کراچی سٹی پولیس چیف کے مطابق ہر ماہ تین سو سے زائد افراد سڑکوں پر حادثات میں ہلاک ہوجاتے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور بوڑھوں کی ہوتی ہے اور جو سڑک عبور کرتے ہوئے گاڑیوں کی زد میں آ جاتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کے ایک جائزے کے مطابق شہر میں ہونے والے اٹھارہ فیصد حادثات منی بسوں کو پیش آتے ہیں۔ واضح رہے کہ شہر میں پندرہ ہزار سے زیادہ منی بسیں کوچیں ہیں۔ حکام کے کہنا ہے کہ منی بس کے ڈرائیور کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ چکر لگانے کی کوشش میں حادثات کر بیٹھتے ہیں۔ کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے رہنما ارشاد بخاری کا کہنا ہے کہ جس ملک میں قانون کی حکمرانی نہ ہو وہاں لوگ بے پرواہ ہوتے ہیں یہاں پچاس اور سو روپے میں ٹریفک قانون بکتا ہے۔ انہوں کا کہنا تھا کہ کہا یہ جاتا ہے کہ ناخواندہ ڈرائیور تیز رفتاری سے کوچ چلاتے ہیں اس لیے حادثات ہوتے ہیں مگر میں پوچھتا ہوں کہ یہی ڈرائیور جب مڈل ایسٹ میں گاڑی چلاتے ہیں تو وہاں کیوں حاثات نہیں ہوتے؟ کیونکہ وہاں قانون سخت ہے۔ ارشاد بخاری کے مطابق ڈرائیور کو جب سزا کے خوف ہوگا تو وہ محتاط طریقے سے گاڑی چلائے گا، یہاں سزا کی بجائے جرمانہ کیا جاتا ہے اور یے جرمانہ بھی مالک ادا کرتا ہے۔ کراچی کے ایک سڑک حادثے میں نیوی کے دو اہلکاروں سمیت دس افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔کراچی حادثے میں 8 مزدور ہلاکجمعہ کی صبح یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب بندرگاہ کے قریب ایک منی بس جنگلہ توڑتی ہوئی آئی سی آئی پل سے نیچے گر گئی۔ text: عمران فاروق کافی برسوں سے لندن میں مقیم تھے پچاس سالہ عمران فاروق کو جمعرات کی شام لندن کے علاقے ’ ایجوئر‘ میں ان کے گھر کے قریب قتل کر دیا گیا تھا۔ ایک نظریے کی موت ان کا پوسٹ مارٹم جمعہ کے روز شمالی لندن میں فنچلے کے مردہ خانے میں کیا گیا۔ لندن پولیس کے مطابق ڈاکٹر عمران فاروق پر حملہ جمعرات کو برطانوی وقت کے مطابق شام ساڑھے چھ بجے کیا گیا۔ پولیس کے مطابق حملہ آور نے ان پر چاقو سے حملہ کیا اور انہیں سر، سینے اور گردن پر زخم آئے۔ انہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہوسکے۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کا انسدادِ دہشتگردی یونٹ اس قتل کی تحقیقات کر رہا ہے اس حملے کے بعد پولیس نے ان کی رہائش گاہ کو گھیرے میں لے لیا اور تفتیش کا آغاز کر دیا گیا۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کا انسدادِ دہشتگردی یونٹ اس قتل کی تحقیقات کر رہا ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں ابھی کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ ڈاکٹر عمران فاروق کے ساتھیوں کو خدشہ ہے کہ انہیں ایم کیو ایم کے سیاسی مخالفین نے جان بوجھ کر نشانہ بنایا ہے۔ درایں اثنا پولیس نے عینی شاہدین سے مدد حاصل کرنے کے لیے ہنگامی طور پر ایک اپیل جاری کی ہے۔ دوسری طرف پولیس گھر گھر جا کر لوگوں سے اس قتل کے بارے میں معلومات بھی حاصل کر رہی ہے۔ میٹروپولیٹن پولیس کے ایک ترجمان کے مطابق پولیس ہر اس شخص سے بات کرنا چاہتی ہے جس نے حملے کو دیکھا یا وہ حملے کے وقت علاقے میں موجود تھا۔ ایم کیو ایم اور عمران فاروق ڈاکٹر عمران فاروق ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین کے قریبی ساتھیوں اور پارٹی کے بانی رہنماؤں میں سے تھے۔ وہ کئی برس تک پارٹی کے کنوینر رہے۔ ایم کیو ایم اسی کے عشرے میں کراچی کے سیاسی منظر نامے میں داخل ہوئی۔ اُس وقت ملک جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کے سائے میں سیاہ ترین دور سے گزر رہا تھا۔ پارٹی کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ عام طبقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ تاہم اس کے مخالفین اس پر اغوا، مخالفین کو اذیتیں دینے، اورسیاسی مخالفین کو قتل کردینے جیسے الزامات عائد کرتے ہیں۔ 1992 میں حکومت وقت کی جانب سے پارٹی کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی گئی تھی۔ ڈاکٹر عمران فاروق اسی آپریشن کے دوران الزامات سے بچنے کے لیے کئی برس تک روپوش رہنے کے بعد سنہ انیس سو ننانوے میں لندن پہنچ گئے تھے۔ لندن آنے کے بعد عمران فاروق نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ انھوں نے بر طانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست کی ہے کیونکہ پاکستان میں اُن کے خلاف مجرمانہ الزامات سیاسی بنیادوں پر لگائے گئے ہیں۔ عمران فاروق جنھوں نے طالب علمی کے زمانے میں پارٹی میں شمولیت اختیارکی، دو مرتبہ اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوچکے تھے۔ بی بی سی کے شعیب حسن نے بتایا ہے کہ کراچی میں ان کے ہلاکت کی خبر پر انتہائی غم و رنج کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے بڑے تجارتی شہر کراچی میں ایک اہم سیاسی جماعت ہے۔ برطانوی پولیس کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عمران فاورق کی موت چاقو کے زخموں اور سر پر لگنے والی چوٹ کے سبب واقع ہوئی۔ text: اسرائیلی حکام نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جنگ بندی کی تصدیق کی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ وہ دیکھیں گے کہ حماس اس جنگ بندی میں سنجیدہ ہے یا نہیں۔ دوسری طرف حماس کے حکام کا کہنا تھا کہ ان کو یقین ہے کہ غزہ میں موجود تمام عسکریت پسند تنظیمیں مصر کی کوششوں سے ہونے والی جنگ بندی کا احترام کریں گے۔ اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی کا اطلاق جمعرات سے ہو گا۔ اس جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں ایک دوسرے پر کارروائیوں کی روک تھام اور غزہ کی سرحد کو جزوی طور پر کھولنا شامل ہے۔ دوسرے مرحلے میں اسرائیلی فوجی گلاد شالت کی رہائی اور مصر کے ساتھ رفاع کراسنگ کھولنا شامل ہیں۔ بی بی سی کے ٹم فرینکس کے مطابق اسرائیل نے جنگ بندی کی کامیابی کے لیے تین شرائط رکھی ہیں۔ ان شرائط میں کارروائیوں کا مکمل خاتمہ، اسلحہ کی مصر سے غزہ سمگلنگ میں بندش اور اسرائیلی فوجی گلاد شالت کی رہائی میں پیش رفت شامل ہیں۔ حماس کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کو امید ہے کہ جنگ بندی سے اسرائیل سے غزہ میں داخلے کے مزید راستے کھولے جائیں گے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ تمام تنظیمیں اس جنگ بندی کا احترام کریں گی۔ وہ تمام تنظیمیں جو مصر میں اس معاہدے کے لیے گئے تھیں انہوں نے اس معاہدے پر حامی بھری ہے اور اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ اس کا اپنا فعل ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اب مقصد قیدیوں کی رہائی کا ہے اور حماس اور فتح کے مابین نئی بات چیت کا ہے۔ واضح رہے کہ حماس نے سنہ دو ہزار چھ میں غزہ کا کنٹرول زبردستی حاصل کر لیا تھا اور صدر محمود عباس کی فتح تنظیم کو باہر نکال دیا تھا۔ دریں اثناء جنوبی غزہ میں اسرائیل کے فضائی حملے میں چھ فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ اسلامک جہاد نے کہا ہے کہ میزائل اس گاڑی کو لگا جس میں اس تنظیم کے پاچ کارکن جا رہے تھے۔ ایک فلسطینی دوسرے واقعہ میں ہلاک ہوا۔ فلسطینی اور اسرائیلی حکام کے مطابق اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی ہو گئی ہے جس کا اطلاق جمعرات سے ہو گا۔ text: یہ تجزیہ عراق باڈی کاؤنٹ (عراق میں لاشوں کی گنتی) اور آکسفورڈ تحقیقاتی گروپ نامی تنظیموں نے مل کر کیا ہے۔ تجزیہ دس ہزار اخباری خبروں کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ تجزیے کی رپورٹ لکھنے والوں میں سے ایک پروفیسر جان سلبوڈا نے کہا کہ’عراق میں بڑھتی ہوئی ہلاکتیں عراق پر حملہ کرنے کے فیصلے کی وہ قیمت ہے جو لوگوں کو یاد نہیں‘۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عراق میں باقاعدہ لڑائی کے علاوہ ہلاک ہونے والوں میں سے سینتیس فیصد لوگ عراق میں موجود غیر ملکی فوجیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں عراق پر امریکی یلغار کے مرحلے کے دوران ہوئیں جس کا خاتمہ رپورٹ کے مطابق یکم مئی دو ہزار تین کو ہوا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نو فیصد ہلاکتیں مزاحمت کاروں کے ہاتھوں ہوئی جبکہ چھتیس فیصد لوگ گزشتہ دو سال کے دوران مجرموں کا نشانہ بنے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں بیس فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ ’لڑائی میں سترہ سو سے زیادہ امریکی اور درجنوں دیگر غیر ملکی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔‘ عراقی حکومت کا کہنا ہے کہ سن دو ہزار تین میں سیکیورٹی فورس کے قیام کے بعد سے تیرہ سو سے زیادہ اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم امریکی تنظیم بروکنگس انسٹیٹیوٹ کے مطابق ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی تعداد اس دوگنی ہے۔ تجزیے میں تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ عراق پر حملے کو ڈھائی سال گزرنے کے بعد بھی امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں نے شہریوں پر اس کے اثرات کا جائزہ لینا شروع نہیں کیا۔ امریکہ اور برطانیہ کا کہنا ہے کہ عراق میں افراتفری میں ایسا کرنا ممکن نہیں۔ ایک تجزیے کے مطابق عراق میں مارچ دو ہزار تین میں امریکی فوجی حملے کے بعد سے پچیس ہزار افراد ہلاک اور بیالیس ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ text: جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر کے حل اور خطے میں قیام امن کے لیے طویل عرصے سے جاری تنازع کو حل کرنے میں مدد کرے۔ ٭ کشمیریوں کی ہلاکتیں ماورائے عدالت قتل ہیں: پاکستان ٭ کشمیر پر مودی کا ہنگامی اجلاس، پاکستان کی تشویش پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق بدھ کو آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی میں کور کمانڈروں کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں ملک کی اندرونی و بیرونی سکیورٹی کے علاوہ افغانستان کی صورت حال کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں سرحد پار نقل و حمل اور شدت پسندوں کی آمد و رفت کو روکنے کے لیے پاک افغان بارڈر مینجمنٹ سے متعلق امور بھی زیر غور آئے۔ اجلاس کے دوران جنرل راحیل شریف نے انڈیا کی افواج کے ہاتھوں کشمیریوں کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کشمیریوں کی آزادی کی خواہش اور کوششوں کا احترام کرے جب کہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر کے حل اور خطے میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ خیال رہے کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں گذشتہ جمعے کو نوجوان علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے وادی میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے اور اب تک سکیورٹی فورسز اور شہریوں کے درمیان جھڑپوں میں اب تک جہاں 36 افراد ہلاک ہو چکے ہیں وہیں 1500 زخمی ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند رہنما برہان وانی سمیت دیگر کشمیروں کی ہلاکت کو ماورائے عدالت قتل قرار دیتے ہوئے اس کی سختی سے مذمت کی تھی۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کے مطابق ’جموں و کشمیر کے عوام پر مظالم انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور یہ مظالم جموں و کشمیر کی عوام کو ان کے حق خوداردایت کے مطالبے سے نہیں روک سکتے۔‘ اس سے پہلے انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے منگل کو دہلی میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں وادی میں پرتشدد واقعات پر تشویش ظاہر کی تھی۔ پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں انڈین فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کشمیریوں کی خواہش اور جدو جہد کو تسلیم کرے۔ text: جمعے کو دولتِ اسلامیہ نے رمادی میں ایک سرکاری احاطے پر قبضہ کر لیا تھا دولتِ اسلامیہ کیا ہے؟ ویڈیو رپورٹ ’داعش آپ کے بھائی نے بنائی تھی‘ ’ریگستان کے وینس‘ کو شدت پسندوں سے خطرہ امریکی سپیشل فورسز کی شام میں کارروائی شام کے قدیم شہر پالمیرا سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق دولتِ اسلامیہ کے شدت پسند شہر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں جبکہ سرکاری فورسز ان کا تعاقب کر رہی ہیں۔ اس وقت شدت پسند شہر کے شمالی علاقوں میں پہنچ گیے ہیں۔ اگر شہر پر شدت پسندوں کا قبضہ ہو جاتا ہے تو پالمیرا کے عالمی ثقافتی ورثے کو نقصان پہنچے کا واضح امکان ہے کیونکہ دولتِ اسلامیہ اس سے پہلے عراق اور شام میں کئی تاریخی مقامات کو ملیا میٹ کر چکی ہے۔ ریگستان کا وینس کہلانے والے پالیمرا شہر کو اس وقت دولتِ اسلامیہ سے شدید خطرہ لاحق ہے دوسری جانب رمادی سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اگرچہ دولتِ اسلامیہ فضائی حملوں کے نتیجے میں ایک سرکاری احاطے سے پسپا ہو گئی ہے لیکن اس وقت شہر کے 60 فیصد حصے پر اس کا قبضہ ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار احمد مہر کے مطابق دولتِ اسلامیہ نے شہری اضلاع کے اطراف میں فوجی کی بھیجی جانے والے تین اضافی دستوں کو شکست دینے کے بعد اب اپنی پوزیشن مستحکم کر رہے ہیں۔ اگر رمادی دولتِ اسلامیہ کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے تو اس صورت میں دارالحکومت سے یہ تنظیم صرف 100 کلومیٹر کے فاصلے پر ہو گی۔ دفاعی لحاظ سے اہم صوبہ انبار کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے عراقی سکیورٹی فورسز اور دولتِ اسلامیہ کے درمیان کئی ماہ سے لڑائی جاری ہے۔ اس سے پہلے رمادی میں سرکاری فورسز کی طاقت میں اضافے کے لیے فوج کے تین اضافی دستے بھیجے گئے تھے لیکن دولتِ اسلامیہ انھیں بھی پسپا کر دیا۔ عراقی فوج کے ترجمان بریگیڈئیر جنرل سعد مان ابراہیم نے سرکاری ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکی قیادت میں اتحاد فضائی حملوں سے زمینی فوج کی مدد کر رہے ہیں اور جمعے سے دولتِ اسلامیہ پر کئی مہلک حملے کیے جا رہے ہیں۔ رمادی میں فوج کے تین اضافے دستے بھیجے گئے لیکن کوئی کامیاب نہیں مل سکی اعلیٰ حکام کی جانب سے میڈیا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر دیے جانے والے بیانات میں تسلیم کیا ہے کہ رمادی میں صورتحال انتہائی خراب ہے۔ نامہ نگار کے مطابق اس صورتحال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت اس وقت کتنی پریشان ہے اور زمینی صورتحال کتنی سنگین ہو چکی ہے۔ اس سے پہلے سنیچر کو ہی عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے رمادی پر جوابی کارروائی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ رمادی کو دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے ہاتھوں میں جانے نہیں دیا جائے گا۔ ادھر امریکہ نے عراقی افواج کو بھاری اسلحے اور مزید جنگی سازوسامان دینے کا وعدہ کیا ہے۔ امریکی نائب صدر جو بائڈن نے جمعے کو عراق کے وزیر اعظم حیدرالعبادی سے گفتگو کی اور انھیں بھاری اسلحے دینے کا وعدہ کیا ہے جن میں شانے پر رکھ کر چلایا جانے والا راکٹ لانچر اور مزید گولے بارود کے علاوہ عراقی فوجیوں کے لیے سپلائیز شامل ہیں۔ دولت اسلامیہ نے رات میں اس کمپاؤنڈ میں خودکش کار بموں سے حملہ کیا جس میں کم از کم 10 پولیس اہل کار ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔ رمادی عراق کے سب سے بڑے صوبے انبار کا دارالحکومت ہے اور اس شہر پر قبضے کے لیے دولت اسلامیہ اور عراقی فوجوں کے درمیان کئی ماہ سے شدید لڑائی جاری رہی تھی۔ جنگ کی وجہ سے شہریوں کو بڑے پیمانے پر وہاں سے کوچ کرتے دیکھا جا رہا ہے واضح رہے کہ گذشتہ ماہ عراق کی سکیورٹی فورسز اور ان کی اتحادی شیعہ ملیشیا نے سابق صدر صدام حسین کے آبائی شہر تکریت کو دولتِ اسلامیہ کے قبضے سے آزاد کرایا تھا جس پر دولتِ اسلامیہ نے گذشتہ سال جون میں قبضہ کر لیا تھا۔ اس کامیابی کے بعد عراق کے وزیراعظم حیدر العبادی نے صوبہ انبار کو شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے کارروائی کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا ’ہماری اگلی جنگ انبار کی سرزمین پر ہو گی اور اسے مکمل طور پر آزاد کرایا جائے گا۔‘ صوبہ انبار میں سنّی آبادی اکثریت میں ہے اور اس کی سرحدیں ایک طرف شام سے اور دوسری طرف عراقی دارالحکومت بغداد سے ملتی ہیں۔ اس صوبے کے اکثر شہروں اور دیہاتوں پر دولتِ اسلامیہ یا دیگر شدت پسندوں گروہوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ عراقی حکومت کے لیے ایک وسیع صوبے کو دولتِ اسلامیہ سے نکالنا ایک بڑا چلینج ہوگا تاہم حکومت تکریت میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف کامیابی کے تسلسل کو جاری رکھنا چاہتی ہے۔ عراق میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے صوبہ انبار کے دارالحکومت رمادی میں سکیورٹی فورسز کو پیچھے دھکیل کر شہر کے زیادہ تر حصے پر اپنا قبضہ مستحکم کر لیا ہے جبکہ شام کے تاریخی شہر پالمیرا میں داخل ہونے میں بھی کامیاب ہو گئی ہے۔ text: سرینگر میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور کے مطابق سرینگر کے حساس علاقوں میں پولنگ مراکز سنسان تھے تاہم گاندربل اور بڈگام کے نواحی علاقوں میں اکا دُکا پولنگ مراکز پر لوگ ووٹ ڈالنے جارہے تھے۔ بھارتی پارلیمان کے لئے ہورہے انتخابات کے دوسرے مرحلے میں کشمیر اور جموں کی ایک ایک نشست کے لئے آج ووٹنگ ہورہی ہے۔ انتخاب کے روز سرینگر کا ایک منظر انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں دوسرے مرحلے کی پولنگ میں پانچ پارلیمانی حلقوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ریاست کے 40 لاکھ سے زیادہ ووٹروں کو شہریت کی فہرست سے باہر رکھا گیا ہے تاہم انھیں رواں پارلیمانی انتخابات میں ووٹ دینے کی اجازت دی گئی ہے۔ آسام کے دارالخلافہ گوہاٹی کے قریب ایک پولنگ شٹیشن کا منظر جہاں ایک خاتون (دائیں جانب) اپنا ووٹ ڈال رہی ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انڈیا میں انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 97 پارلیمان کی نشستوں پر ووٹ ڈالے جارہے ہیں۔ مغربی بنگال کے علاقے سلی گُری کے ایک پولنگ سٹیشن پر ووٹروں کی ایک لمبی قطار انتخابی عمل میں اپنا حصہ ڈالنے کے منتظر۔ سلی گُری کے پولنگ سٹیشن کا منظر سات مرحلوں پر مشتمل یہ الیکشن 19 مئی تک جاری رہے گا جب کہ ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان 23 مئی کو ہو گا۔ اس الیکشن کو ملک کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی پر ریفرینڈم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ شمالی ریاست اتر پردیش کے علاقے بلند سحر میں لوگ اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے نامہ نگار ریاض مسرور کے مطابق سکیورٹی اداروں نے سرینگر کی سیٹ کو نہایت حساس قرار دیتے ہوئے بھاری تعداد میں پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کو تعینات کیا ہے۔ سرینگر، گاندربل اور بڈگام کے تینوں اضلاع میں موبائل انٹرنیٹ کو معطل کیا گیا ہے۔ سرینگر: علیحدگی پسندوں کے مشترکہ مزاحمتی فورم کی کال پر وادی بھر میں ہمہ گیر ہڑتال کی جارہی ہے بنگلور کے پولنگ سٹیشن کا ایک منظر جہاں لوگ قطار بنا کر ووٹ ڈالنے کے منتظر ہیں انڈیا کے یہ 17ویں عام انتخابات ہیں۔ ان انتخابات میں 90 کروڑ کے لگ بھگ افراد اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے اور اسے دنیا کا سب سے بڑا الیکشن قرار دیا جا رہا ہے۔ روحینی گاؤں کے پولنگ سٹیشن کے باہر خواتین سیلفی لیتے ہوئے . انڈیا میں انتخابات کا آج دوسرا مرحلہ ہے اور اے ایف پی کے مطابق 15 کروڑ سے زائد لوگ اس مرحلے میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ انڈیا کی 12 ریاستوں میں اس انتخابی مرحلے کا انعقاد کرایا جا رہا ہے۔ text: رپورٹ کے مطابق سنہ 2004 کے وسط سے لے کر اب تک عراق میں دو سو ستر افراد کو موت کی سزا سنائی گئی اور ان افراد میں سے ایک سو کی سزا پر عملدرآمد بھی ہو چکا ہے۔ ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق عراق میں صرف گزشتہ برس پینسٹھ افراد کو پھانسی دی گئی جن میں دو عورتیں بھی شامل تھیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس وقت صرف چین، ایران اور پاکستان سزائے موت دینے کے حوالے سے عراق سے آگے ہیں۔ عراق میں 2003 میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد سزائے موت کو معطل کر دیا گیا تھا تاہم بعد ازاں بڑھتے ہوئے تشدد اور مزاحمت کے نتیجے میں اس سزا کو بحال کیا گیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ عراق میں سزائے موت کے دوبارہ آغاز کے باوجود سکیورٹی صورتحال ابتر ہی ہوئی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عراق میں سزائے موت پانے والے متعدد افراد کو غیرمنصفانہ مقدمات کے بعد پھانسی چڑھایا گیا جبکہ سزائے موت پانے والے متعدد افراد اپنے اقبالی بیانات سے بھی مکر گئے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ان سے یہ بیانات تشدد کے نتیجے میں زبردستی لیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ واضح بات ہے کہ سزائے موت کو انسانی حقوق کی پامالی اور ذاتی انتقام کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ سزائے موت دیے جانے کے حوالے سے عراق دنیا میں چوتھے نمبر پر آ گیا ہے۔ text: پاکستانی ٹیم کے نئے سٹار بالر کے گھر مبارکباد دینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ لندن کے اوول کرکٹ گراؤنڈ میں چیمپیئنز ٹرافی کی فتح کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی منگل کو وطن واپس لوٹے ہیں۔ لندن سے واپس آنے والے کھلاڑیوں میں پاکستانی لیگ سپنر شاداب خان بھی تھے جن کا ایئرپورٹ سے گھر تک بھرپور استقبال کیا گیا۔ پاکستان کے چیمپیئنز ٹرافی جیتنے کی پانچ وجوہات 'پاکستان کرکٹ میری زندگی میں واپس آنے کا شکریہ' ایسی شاندار کارکردگی کا نہیں سوچا تھا: شاداب خان شاداب خان اور اسامہ میر قومی تربیتی کیمپ میں شامل راولپنڈی کے مضافاتی علاقے الہ آباد میں رہائش پزیر شاداب خان کے گھر منگل کو صبح سے لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا جو انھیں مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ سیلفیاں کھنچوانا نہیں بھولتے تھے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شاداب خان نے بتایا 'میں ہمیشہ ٹیپ بال سے فاسٹ بولنگ ہی کیا کرتا تھا، کلب کے ساتھ کھیلتے ہوئے بھی فاسٹ بولنگ کی لیکن کلب کے صدر نے مجھ سے کہا کہ تم لیگ سپن کیا کرو تو میں نے شروع کردی'۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب وہ سپن بولنگ کے ساتھ خوش ہیں کیونکہ انھیں اللہ نے اسی میں عزت دی ہے۔ شاداب خان انگلینڈ اور ویلز میں کھیلی جانے والی چیمپیئنز ٹرافی کے دوران جو روٹ اور یوراج سنگھ کی وکٹیں لینے پر خوش ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ گاؤں میں پڑھائی کرتے تھے لیکن پھر وہ صرف اس لیے راولپنڈی آئے تاکہ ان کے بھائی کرکٹ کھیل سکیں۔ شاداب کے بھائی تو کرکٹ نہیں کھیل سکے البتہ قسمت ان پر مہربان ہوئی اور انھوں نے پہلے کلب کی جانب سے کرکٹ کھیلی، پھر انڈر 16، اس کے بعد انڈر 19 اور وہاں بہترین کارکردگی کی بنیاد پر وہ انڈر 19 ورلڈ کپ کھیلے۔ وہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر پاکستان سپر لیگ کے مالکان کی نظر میں آئے اور ان کی ٹیم میں منتخب ہوئے۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب ان کی قسمت کا ستارہ چمکنا شروع ہوا اور بلاآخر انھیں پاکستانی ٹیم میں شمولیت کی خوشخبری ملی۔ شاداب خان کہتے ہیں'مجھے معلوم تھا میں ٹیم میں سلیکٹ ہونے والا ہوں کیونکہ مجھے ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے بتایا تھا، اس کے علاوہ اظہر محمود نے بھی مجھے اس بات کا اشارہ دیا تھا اور اسلام آباد یونائیٹڈ کی انتظامیہ نے بہت اُمید دلائی تھی۔' پاکستان کے سابق سپنر مشتاق احمد کو اپنا استاد ماننے والے شاداب خان کبھی اپنی بولنگ کی وجہ سے مشہور نہیں تھے، اُن کی خاصیت پہلے فیلڈنگ پھر بیٹنگ اور آخر میں بولنگ تھی لیکن اب وہ بولنگ کو ہی سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے آئیڈیل سٹیو سمتھ کے بارے میں بتایا کہ ’سٹیو سمتھ کو دیکھا لیکن انھیں نہیں بتایا کہ میں ان کا مداح ہوں، سوچا جب اُن کے ساتھ کھیلوں گا تو بتاؤں گا اور وہ موقع برطانیہ میں ملا۔‘ پاکستانی ٹیم میں شاداب کی سب سے زیادہ دوستی حسن علی سے ہے کیونکہ بقول شاداب کے اُن کی نفسیات ایک جیسی ہے۔ ڈریسنگ روم میں کھلاڑیوں کے آپس میں مذاق کے قصے سناتے ہوئے شاداب نے بتایا کہ انھیں 'شیڈی' اور حسن علی کو 'چھوٹو' پکارا جاتا ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر میانوالی کے گاؤں قمر مشیانی کے نوجوان شاداب خان ہمیشہ سے فاسٹ بولنگ کرنا چاہتا تھا لیکن آسٹریلیا کے کپتان سٹیو سمتھ سے متاثر ہو کر وہ لیگ سپنر بن گئے۔ text: نجی فنڈ کے تحت کوسموس اوّل نامی خلائی جہاز کو بحیرہ بیرنٹس سے ایک روسی آبدوز سے روانہ کیا گیا تھا۔ ماسکو میں مشن کنٹرولروں کا کہنا ہے ایسے اشارے ملے ہیں کہ روانہ ہونے کے بعد راکٹ ناکام ہو گیا۔ لیکن بعد میں اسی مشن پر کام کرنے والی امریکی ٹیم نے کہاکہ جہاز سے بہت کمزور سگنل ملے ہیں۔ امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں پیسادینا میں دی پلینٹری سوسائٹی نامی ادارے کے بیان کے مطابق دو گراؤنڈ اسٹیشنوں میں دو الگ الگ سگنل ملے ہیں ۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر لوئیس فریڈ مین کا کہنا ہے’ میرے خیال میں ہمیں صبر سے کام لیکر کچھ اور انتظار کرنا ہوگا تاکہ صورت حال کا بغور جائزہ لیا جا سکے۔ لیکن روسی خلائی ایجنسی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس طیارے کو لیجانے والا راکٹ بوسٹر پرواز کے 83 سیکنڈ بعد ناکام ہو گیا تھا۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر لوئیس فریڈ مین نے بھی خبردار کیا ہے کہ یہ طے کرنا کہ یہ کمزور سگنل واقعی کوسموس اوّل کے ہیں قبل از وقت ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہو سکتا ہے کہ طیارہ مدار میں داخل ہو گیا ہو لیکن اتنی بلندی پر نہ ہو جتنی کہ توقع کی جا رہی تھی۔ جہاز کو سورج کی روشنی کے ذرات یعنی فوٹون سے ایسے ہی دھکیلا جانا تھا جیسے بادبانی کشتی کو ہوا دھکیلتی ہے۔ روشنی کے ذرات جہاز کے آٹھ بلیڈوں سے ٹکرائیں گے اور اس کو آگے دھکیلیں گے۔ شمسی بادبانی خلائی جہاز کا تصور سائنس فکشن سے لیا گیا ہے۔ اس مشن کا مقصد شمسی بادبان کے تصور کے قابل عمل ہونے کو ثابت کرنا تھا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں فوٹون سے چلنے والا یہ خلائی جہازپر دوسرے مشن کے مقابلے میں کم خرچ آئےگا۔ امریکی، یورپی، جاپانی اور روسی خلائی ادارے بھی ایسے ہی مشن پر کام کر رہے ہیں۔ روس میں بنا کوسموس اوّل ننیانوے کلوگرام وزنی ہے۔ پروگرام کے مطابق اس جہاز نے آٹھ سو چار کلومیٹر کی بلندی سے چار روز تک زمین کی تصاویر لینی تھیں۔ اس کے بعد خلائی جہاز کے پلاسٹک سے بنے آٹھ بلیڈ کھل کر تیس میٹر کے دائرے میں پھیل جائیں گے۔ ابتدائی طور پر سورج کی روشنی سے ہر روز جہاز کی رفتار میں ایک سو اکسٹھ کلومیٹر فی گھنٹے کا اضافہ ہوگا۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ خلائی جہاز کی رفتار تیز ہو جائےگی۔ سائنس دانوں کے مطابق بادبانی کشتی کی طرز پر روشنی کے ذرّات سے چلنے والے تجرباتی خلائی جہاز کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں چلا۔ text: تنظیم کا کہنا ہے کہ اس سے یہودیوں کے قتل عام کی یاد تازہ ہوگی۔ اس تصویر میں ویانہ کا ایک گرجا گھر دکھایا گیا ہے۔ پینٹنگ کی نمائش ٹوکیو تھیٹر میں سنیچر کو ہونی تھی جس کا مقصد ہٹلر کی زندگی پر بنائی جانے والی فلم کو فروغ دینا تھا۔ توشیبا انٹرٹینمنٹ کے ترجمان نے مبینہ طور پر کہا ہے کہ پینٹنگ میں لوگوں کی ضرورت سے زیادہ دلچسپی کی وجہ سے یہ نمائش منسوخ کرنی پڑی کیونکہ اس سلسلے میںلوگوں کی بڑی تعداد پینٹنگ کے بارے میں معلومات حا صل کرنا چاہتی تھی ۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے ترجمان کے حوالے سے کہا کہ لوگ مختلف طرح کے سوال کر رہے تھے جیسے کہ یہ پینٹنگ کتنے دن کے لئے نمائش میں رکھی جائے گی اور اسکی قیمت کتنی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اسے نمائش میں مناسب سیکیورٹی کے بارے میں تشویش بھی تھی۔ یہ فلم ایک نا کام مصور کی روداد بیان کرتی ہے جو اگے چل کر ایک کٹر قوم پرست بنا اور فلم کا مرکز ہٹلر اور نوادرات کے ایک یہودی تاجر کے درمیان تعلقات ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اگر ہٹلر ایک کامیاب مصور بن جاتا تو اقتدار میں نہ آتا۔ ہٹلر نے بیسویں دہائی کے اوائل میں ہزاروں تصاویر بنائیں حالا نکہ ویانہ اکیڈمی آف فائین آرٹ میں داخلے کے لئے انکی درخواست مسترد ہو گئی تھی۔ جاپان میں فلموں کے ایک تقسیم کار نے یہودیوں کی تنظیم کے احتجاج کے بحد اس پینٹنگ کی نمائش روک دی جو جرمنی کے نازی رہنما ایڈولف ہٹلر نے بنائی تھی۔ text: برما میں تبدیلی اپنے انتہائی نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے: بان کی مون بان کی مون کا کہنا ہے کہ برما میں تبدیلی اپنے انتہائی نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ ایک سال پہلے اصلاحاتی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد اعلٰی شخصیات نے برما کے سفارتی دورے کیے ہیں جبکہ موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بان کی مون کا برما کا یہ پہلا دورہ ہوگا۔ سنیچر کو یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے کہا تھا کہ یورپی یونین برما میں سفارتی سطح کا دفتر قائم کرے گا۔ برما پہنچنے سے قبل نیویارک میں بان کی مون نے کہا ہے کہ برما کے دروازے دنیا کے لیے دوبارہ کھل رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ دوبارہ آغاز اب بھی نازک ہے۔ اس سے قبل بان کی مون نے اُس وقت کی حکومت کی دعوت پر جولائی سنہ دو ہزار نو میں برما کا دورہ کیا تھا اور مایوس لوٹے تھے۔ انہیں اس وقت نوبل انعام یافتہ آنگ سانگ سوچی سے ملاقات نہیں کرنے دی گئی تھی جو اُس زمانے میں حراست میں تھیں۔ تاہم اس بار توقع کی جارہی ہے کہ بان کی مون اور آنگ سانگ سوچی کے درمیان منگل کو ملاقات ہو گی۔ اس کے علاوہ وہ برما کی پارلیمان سے بھی خطاب کریں گے جو کسی بیرونی اعلٰی شخصیت کا پارلیمانی اراکین سے پہلا خطاب ہوگا۔ بان کی مون برما پہنچنے کے بعد پیر کو صدر تھین سین سے ملاقات کریں گے جس کے بعد وہ شمالی ریاست شان کا بھی دورہ کریں گے۔ ریاست شان میں افیون کی کاشت دنیا میں سب سے زیادہ ہوتی ہے اور وہاں اقوامِ متحدہ کی مدد سے اس کی کاشت کے خاتمے کے لیے کام ہورہا ہے۔ اس ہفتے کے اوائل میں یورپی یونین نے تاریخی اصلاحات کا اعتراف کرتے ہوئے برما پر عائد غیر فوجی پابندیاں اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔ برما کے دارالحکومت رنگون میں بی بی سی نامہ نگار کا کہنا ہے غیر ملکی اعلٰی شخصیات کے برما کے دوروں میں تیزی آنا ظاہر کرتا ہے کہ دنیا اس ملک میں کتنی دلچسپی لے رہی ہے۔ نامہ نگار کا کہنا ہے کہ دنیا کے ممالک کا عزم ہے کہ برما میں شروع ہونے والا اصلاحاتی عمل اس ملک کو درست سمت لے جائے تاکہ مستقبل میں وہاں سرمایہ کاری کے مواقعوں سے بھی فائدہ حاصل کیا جاسکے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون برما کا تاریخی دورہ کررہے ہیں جہاں وہ حزبِ اختلاف کی رہنماء آنگ سانگ سوچی سے ملاقات کریں گے اور برما کی حکومت پر مزید جمہوری اصلاحات متعارف کرانے کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔ text: ابوجا میں گذشتہ ہفتے میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں اسلامک موومنٹ آف نائجیریا سے منسلک متعدد مظاہرین ہلاک ہو گئے تھے شیخ ابراہیم الزکزکی کو سنہ 2015 میں ملک کی شمالی ریاست کاڈونا میں اپنے حامیوں اور فوج کے درمیان جھڑپ کے بعد اقدام قتل اور امن عامہ میں خلل ڈالنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان جھڑپوں میں شیعہ اسلامک موومنٹ کے 347 اراکین ہلاک ہوئے تھے جبکہ سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں تحریک کے رہنما شیخ ابراہیم الزکزکی اور ان کی اہلیہ بھی شامل تھیں۔ پیر کو ہونے والی سماعت طویل مقدمہ بازی کا حصہ ہے جو ان کے مستقبل کا تعین کرے گی۔ شیخ زکزکی کے وکیل نے عدالت میں ان کی رہائی کی درخواست دے رکھی ہے تا کہ ان کا بیرون ملک علاج کرایا جا سکے۔ شیخ زکزکی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اسیری کے دوران ان پر دو مرتبہ ہلکے فالج کا حملہ ہو چکا ہے اور ان کی بینائی بھی متاثر ہو چکی ہے۔ 2016 میں ایک عدالتی تحقیقات سے معلوم ہوا تھا ملک کے شمال میں ہونے والی جھڑپ میں 300 سے زیادہ شیعہ مسلمانوں کو فوج نے ہلاک کیا تھا۔ اسی سال ابوجا کی وفاقی ہائی کورٹ نے شیخ زکزکی کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ریاستی عدالت نے اس فیصلے کو نظر انداز کیا۔ ابوجا میں مظاہرے زکزکی کے حامی ان کی رہائی کے لیے نائجیریا کے دارالحکومت ابوجا میں باقاعدگی سے مظاہرے کرتے رہے ہیں جن میں اکثر پُرتشدد واقعات پیش آتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے ایک سینئیر پولیس افسر اور ایک صحافی مظاہرے کے دوران ہلاک ہوئے جبکہ مظاہرین کے مطابق اُن کے 20 افراد بھی ہلاک ہوئے۔ اس واقعے پر انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے نائجیریا کی حکومت سے کہا ہے کہ وہ شیعہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی پرتشدد مہم کو روکیں اور تحقیقات کریں کہ اس گروہ کے خلاف وسیع پیمانے پر طاقت کا استعمال کیوں کیا گیا۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا تھا کہ کچھ زخمیوں کو ہسپتال میں طبی امداد دینے سے بھی انکار کیا گیا۔ ہیومن رائٹس واچ کا مزید کہنا تھا کہ بظاہر نائجیریا کی پولیس نے پرامن شیعہ مسلمان مظاہرین پر 22 جولائی کو غیرقانونی طور پر گولیاں چلائیں۔ نائجیریا میں ہیومن رائٹس واچ سے منسلک انیتی واگ نے کہا کہ بظاہر نائجیریا کی پولیس اسلامک موومنٹ کے خلاف آتشی اسلحہ استعمال کر رہی ہے اور یہ غیر قانونی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ کچھ زخمیوں کو ہسپتال میں طبی امداد دینے سے بھی انکار کیا گیا احتجاج کا آغاز کب ہوا؟ 22 جولائی کو ہونے والے احتجاج کا آغاز مقامی وقت کے مطابق دوپہر ساڑھے بارہ بجے اس وقت ہوا تھا جب ہزاروں مظاہرین نے سیکریٹریٹ کی جانب مارچ شروع کیا۔ مظاہرین کو روکنے کے لیے پولیس نے فائرنگ شروع کر دی۔ انڈیپینڈنٹ میڈیا نیوز سے منسلک محمد ابراہیم گماوا کہتے ہیں کہ انھوں نے پولیس کو دو خواتین اور دو مردوں پر فائرنگ کرتے 1ہوئے دیکھا۔ ابوجا میں موجود ایک یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے بتایا کہ انھوں (پولیس) نے ہماری جانب گولیاں چلانا شروع کر دیں۔ انھیں پرواہ نہیں تھی کہ گولیاں کہاں لگ رہی ہیں۔ ’ایک گولی میری بائیں ٹانگ پر لگی، پھر میرا بھائی مجھے وہاں سے دور لے کر گیا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ یونیورسٹی کے ہسپتال کے ایمرجنسی روم میں گئے لیکن انھیں وہاں سے جانا پڑا کیونکہ پولیس زخمی مظاہرین کو گرفتار کرنے کے لیے ہسپتال کے اندر آ گئی تھی۔ ’ہم نے دو مرتبہ اپنی جگہ تبدیل کی کیونکہ ہم پولیس سے خوفزدہ تھے۔ گولی اب بھی میری ٹانگ میں ہے، میرا خیال ہے کہ میری ٹانگ ٹوٹ چکی ہے اور مجھے پورے جسم میں بہت درد محسوس ہو رہا ہے۔‘ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ سنہ 2015 سے نائجیریا کے حکام اسلامک موومنٹ کے خلاف بہت زیادہ طاقت کا استعمال کر رہے ہیں۔ شیخ ابراہیم الزکزکی سنہ 2015 سے ریاستی تحویل میں ہیں اور ان کی رہائی کے لیے گاہے بگاہے مظاہرے ہوتے رہتے ہیں نائجیریا میں شیعہ آبادی کی تعداد نائجیریا میں پیر کے روز ایک شیعہ رہنما شیخ ابراہیم الزکزکی کو عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔ text: 16 سالہ محمد کریم نے یہ لیپ 3:27.41 میں مکمل کیا اس مقابلے میں پہلی پوزیشن امریکہ جبکہ دوسری اور تیسری پوزیشن فرانس کے سکیئرز نے حاصل کی۔ پہلی پوزیشن پر آنے والے امریکی کھلاڑی ٹیڈ لیگٹی نے 2:45.29میں لیپ مکمل کیا جبکہ 71ویں نمبر پر آنے والے پاکستانی محمد کریم نے یہ لیپ 3:27.41 میں مکمل کیا۔ 16 سالہ محمد کریم کا تعلق پاکستان کے شمال میں گلگت بلتستان کے دور دراز علاقے نلتر بالا سے ہے۔ نلتر بالا کے ایک سکول سے آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد محمد کریم گلگت کے ایک سکول میں نویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ ان کا گاؤں گلگت سے 45 کلومیٹر پر واقع ہے اور وہاں صرف ایک مڈل سکول ہے۔ محمد کریم نے بتایا کہ پانچ یا چھ سال کی عمر میں وہ اپنے بڑے بھائی کے ہمراہ اپنے گاؤں کے قریب واقع پاکستانی فضائیہ کے سکیئنگ کے تربیتی مرکز میں جایا کرتے تھے اور وہیں ان میں بھی سکیئنگ کا شوق پیدا ہوا۔ ’شروع شروع میں میرے پاس نہ ساز و سامان تھا اور نہ ہی دیگر ذرائع۔ ایسے میں پاکستانی فضائیہ نے میری مدد کی، مجھے ساز و سامان اور تربیت دی اور اس قابل بنایا کہ بیرون ملک جا کر تربیت حاصل کر سکوں۔‘ متوسط خاندان اور دور دراز علاقے سے تعلق رکھنے والے اس طالب علم کو اس مہنگے کھیل میں مہارت حاصل کرنے کے لیے بعض مسائل کا بھی سامنا رہا محمد کریم 12 سال کی عمر سے بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ وہ 2008 میں یورپی ملک آسٹریا میں انٹرنیشنل سکیئنگ فیڈریشن کے زیراہتمام تربیت حاصل کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اٹلی، ترکی اور لبنان وغیرہ میں بھی مقابلوں میں حصہ لے چکے ہیں۔ متوسط خاندان اور دور دراز علاقے سے تعلق رکھنے والے اس طالب علم کو اس مہنگے کھیل میں عروج حاصل کرنے کے لیے بعض مسائل کا بھی سامنا رہا۔ ’ابتدائی تربیت تو میں نے جیسے تیسے گاؤں کےقریب فضائیہ کے مرکز سے حاصل کر لی لیکن پاکستان میں بین الاقوامی معیار کا کوئی ساز و سامان یا میدان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ اس کھیل کے لیے وقت نکالنا میرے لیے بڑے چیلنج تھے۔ روس کے شہر سوچی میں جاری سرمائی اولمپکس میں پاکستان کے واحد کھلاڑی محمد کریم نے جائنٹ سلالم ایلپائن میں 71ویں پوزیشن حاصل کی ہے۔ text: بلدیاتی انتخابات میں کل 41762 نشستوں کے لیے 84420 امیدوار مدمقابل ہیں بلدیاتی انتخابات کےلیے ووٹنگ کا عمل سنیچر کی صبح اٹھ بجے سے شروع ہوا جو بغیر کسی وقفے کے شام پانچ بجے تک جاری رہا ۔ تاہم مختلف اضلاع میں پولنگ کا عمل دیر سے شروع ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔ صوبے میں مجموعی طور پر 41762 نشستوں کے لیے 84420 امیدوار مدمقابل ہیں۔ صوبے کے چوبیس اضلاع میں ایک کروڑ 41 لاکھ سے زائد ووٹرز کواپنے رائے دہی حق کا استعمال کرنا تھا۔ کل 11 ہزار یک سو سترہ پولنگ سٹیشن قائم کئےگئے جن میں دو ہزار پانچ سو پولنگ سٹیشنز کوحساس قرار دیاگیا تھا۔ صوبے کےمختلف اضلاع میں موبائل سروس بند کر دینے کی اطلاعات بھی سامنے آئی۔ پولنگ کے لیے صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے کا وقت مقرر کیا گیا ہے صوبے کے مختلف اضلاع میں امن و امان کی صورتحال تسلی بخش نہ ہونے کی وجہ سے ایک لاکھ کے قریب سکیورٹی اہلکار تعینات کئےگئے جبکہ کسی بھی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر فوج کو بھی سٹینڈ بائی رکھا گیا۔ ملاکنڈ ڈویژن کے جی او سی میجر جنرل نادر خان نے اس حوالے سے بتایا کہ امن و امان کی صورتحال خراب کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائےگا سکیورٹی ذرائع کے مطابق داخلی و خارجی راستوں پر گزرنے والے افراد اور گاڑیوں خصوصی نظر رکھی جا رہی ہیں۔ صوبے میں اقلیتوں کے نشستوں کے کی تعداد تین ہزار تین سو انتالیس ہیں۔ تاہم صوبے کے زیادہ ترعلاقوں میں اقلیتی آبادی نہ ہونے کی وجہ ڈھائی ہزار سے زائد نشستیں خالی رہ گئی اور اب تین سو انچاس امیدوار سامنے آئے۔ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں سکھ اور مسیحیوں سمیت دیگر اقلیتیں رہائش پذیر ہیں اور صوبے میں ان کی نمائندگی بھی موجود ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے پریذائیڈنگ افسران کو درجہ اول کے مجسٹریٹی اختیارات دیے گئے تھے جو انتخابی عمل کے دوران دراندازی کرنے والوں کو موقع پر قید اور جرمانوں کی سزائیں سنا سکیں۔ سنیچر کو صوبے کے 24 اضلاع میں منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں لگ بھگ 44 ہزار نشستوں کے لیے 93 ہزار سے زیادہ امیدوار میدان میں ہیں۔ سرکاری ریڈیو کے مطابق بلدیاتی انتخابات میں کل 41762 نشستوں کے لیے 84420 امیدوار مدمقابل ہیں۔ یہ انتخابات ضلع، تحصیل یا ٹاؤن کی سطح کے انتخاب جماعتی بنیاد پر جبکہ یونین کونسل یا دیہات کونسل کی سطح کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے۔ ان انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کا کہنا ہے کہ کامیابی کے بعد وہ اپنے علاقے کے مسائل کے حل کے لیے کوششیں کریں گے۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے لیے پولنگ ختم ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ text: چیف جسٹس لاہور بارایسوسی ایشن میں وکلا کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کررہے تھے۔چیف جسٹس نے بارش کی وجہ سے مختصر خطاب کیا اور شرکاء میں ان کے خطاب کی کاپیاں تقسیم کی گئیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سنیچر کی شام چھ ضلع کچہری میں وکلا سے خطاب کرنا تھا لیکن ان کے لاہور میں زبردست استقبال کی وجہ سے لاہور ائیر پورٹ سے ضلع کچہری کا ایک گھنٹےکا سفر بارہ گھنٹوں میں طے ہوا اور اس طرح لاہور کے وکلاء نے ایک مرتبہ پھر رات بھر جاگنے کے بعد چیف جسٹس کا خطاب سنا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری جب خطاب کے لیے سٹیج پر آئے تو بوندا باندی تیز بارش میں تبدیل ہوگئی اور لاہور بار کے صدر سید محمد شاہ کی تقریر کے دوران بارش کی وجہ سپیکرز نے کام کرنا چھوڑ دیا اور صرف ایک سپیکر کام کرتا رہا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر سنہ 73 کا آئین بحال نہیں ہوتا تو آج جیسے حالات ملک میں رہیں گے ۔ان کے بقول جب تک ادرے آئین کے تحت کام نہیں کریں گے ملک میں خوشحالی نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے کہ ادارے بخوبی اپنے فرائض انجام دیں سکیں۔اس لیے آئین کی پاسداری کرنے کے لیے جمہوری اداروں کو مضبوط کرنا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کی یہ خصوصیات ہے کہ اسے پوری قوم کا اعتماد حاصل ہوتا ہے ہرشخص خواہ کسی بھی اعلیْ ترین حکومتی عہدے پر فائز ہو وہ آئین کی دفعات کا پابند ہے۔انہوں نے کہا کہ آئین کی دفعات میں آسانی سے مداخلت نہیں کی جاسکتی اور اس میں کسی قسم کی مداخلت ایک سنگین جرم ہے۔ چیف جسٹس افتخار نے کہا کہ آئین کی دفعات پر عملدرآمد کرنے سے ملک بہت سے مسائل اور برائیوں سے بچ سکتا ہے اور جو اقوام آئین کی پاسداری نہیں کرتیں ان کو اپنی بقا کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں سیاست ہمیشہ متزلزل رہی ہے اور جمہوریت کا سفر آئین کے خلا ،تعطل اور تنسیخ جیسی رکاوٹوں سے بھر ا پڑا ہے۔ اس سے قبل چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا لاہور ضلعی بار سے خطاب کرنے کے لیے سنیچر کو لاہور آمد پر علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر والہانہ استقبال کیا گیا ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا استقبال کرنے کے لیے وکلاء کے نمائندوں منیر اے ملک، حامد خان، لاہور ضلعی بار کے صدر سید محمد شاہ، قومی اسمبلی کے ارکان، سابق جج، سیاسی جماعت اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ہزاروں کارکن موجود تھے۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور لیبر پارٹی کے کارکن کافی بڑی تعداد میں موجود تھے جب کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنوں کی تعداد نسبتاً کم تھی۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے چیف جسٹس کے ہوائی اڈے کی عمارت سے باہر آنے پر صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف زبردست نعرے بازی کی۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے کارکنوں نے ’ڈیل‘ کے خلاف بھی نعرے بازی کی۔ جواباً پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے وزیراعظم بے نظیر کے نعرے بلند کیے۔ ائرپورٹ سے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ڈسٹرک بار کی طرف سفر شروع کیا تو ان کے استقبال کے لیے آئے ہوئے لوگوں نے ایک بڑے جلوس کی صورت اختیار کر لی۔ اس جلوس میں ہر عمر کے لوگ اور ہر طبقہِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔جلوس میں بے شمار گاڑیاں، وگنیں اور موٹر سائیکلیں شامل تھیں۔ چیف جسٹس افتخار چودھری نے لاہور ایئرپورٹ سے لاہور کینٹ کچہری تک کا چھ کلومیٹر کا سفر طے کرنے پر پہلا پڑاؤ کیا۔ یہاں وہ گاڑی سے باہر نہیں آئے لیکن ان کے وکلاء اعتزاز احسن اور علی احمد کرد نے تقریریں کیں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ وکلاء تحریک کی پہلی منزل چیف جسٹس کی بحالی ہے اور دسری منزل شہریوں کے انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی بحالی کے بعد وہ وکلاء کارکنوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس تحریک سے سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کو اس لیے دور رکھا گیا ہے ’کیونکہ ہم عدالت میں پیروی کررہے ہیں۔ اور یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم وکالت اور عدالت پر انحصار نہیں کررہے ہیں بلکہ سیاست پر کررہے ہیں۔‘ اس موقع پر علی احمد کرد نے اپنی تقریر میں کہا کہ چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کے بعد یہ تحریک ختم نہیں ہوجائے گی۔ ’یہ تحریک پاکستان کے کروڑوں عوام کی امید ہے۔ چیف جسٹس کی بحالی کے بعد ہم گھر نہں بیٹھیں گے، آمریت کا خاتمہ کیا جائے گا۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ جنرل مشرف کی اقتدار میں موجودگی میں ’کوئی انتخاب منظور نہیں ہوگا، مشرف کو جانا ہوگا اور آئندہ جرنیل حکومت نہیں کرے گا۔‘ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت کے علاوہ کوئی اور نظام نہیں چل سکتا اورعدلیہ پر لازم ہے کہ وہ آئین کے تحفظ اور نفاذ کو یقینی بنائے۔ text: فرحان ورک کی سیاسی وابستگی تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے رہی ہے اور وہ جماعت پر تنقید کرنے والوں کو سوشل میڈیا پر نشانہ بناتے رہے ہیں اگر آپ اپنے ذہن پر کچھ زیادہ زور ڈالیں تو یقیناً ان کی جانب سے کیے گئے متعدد دعوے بھی آپ کو یاد آئیں گے۔ اکثر افراد کی رائے میں فرحان ورک کی وجہ سے پاکستان میں سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں اور سیاسی مباحثوں میں گالم گلوچ اور جھوٹے دعوؤں کا رواج عام ہوا تاہم ان کی زندگی پر بننے والی دستاویزی فلم ’ہیش ٹیگ، وار اینڈ لائز‘ نے ان کے چند ناقدین کو بھی ان پر ترس کھانے پر مجبور کر دیا۔ ٹھہریے! ان کا نام ٹوئٹر پر ڈھونڈنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ گزشتہ برس ٹوئٹر کی جانب سے فرحان ورک پر قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ یہ بھی پڑھیے ٹوئٹر کا رپورٹنگ نظام ’جتھوں کے ہاتھ میں ہتھیار کی مانند‘ سوشل میڈیا اکاؤنٹس معطلی: پاکستان کی تشویش ’کشمیر کی حمایت، پاکستانی ٹوئٹر صارفین کو مشکلات‘ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے فرحان ورک پیشے کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر ہیں تاہم انھوں نے سوشل میڈیا کی دنیا میں قدم رکھنے کو ترجیح دی۔ ان کی سیاسی وابستگی تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے رہی ہے اور وہ جماعت پر تنقید کرنے والوں کو سوشل میڈیا پر نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اس دستاویزی فلم میں فرحان ورک کے کام اور نظریے پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے دستاویزی فلم میں کیا ہے؟ اس فلم میں فرحان ورک نے ٹوئٹر پر اپنے شہرت کی کہانی خود بیان کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ وہ جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ انھیں بطور ٹوئٹر ٹرول جانتے ہیں اور انھیں اس بات میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ فلم کے متعدد مناظر ان کے گھر پر ہی عکس بند کیے گئے ہیں جہاں ان کی ذاتی زندگی کا بھی مشاہدہ کیا گیا۔ ان کے والد کو ان کے موجودہ پیشے کے حوالے سے ناگواری کا اظہار کرتے اور خود فرحان ورک کو پاکستان تحریک انصاف سے علیحدگی کے بعد ایک مایوس کن صورتحال کا شکار ہوتے دکھایا گیا ہے۔ اس دستاویزی فلم میں فرحان ورک کے کام اور نظریے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ کئی واقعات جیسے ان کی بیوی کا یہ کہنا کہ مجھے فرحان نے دو لاکھ فالورز والا اکاؤنٹ تحفے میں دیا، کے ذریعے ناظرین کو فرحان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے روشناس کروایا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ردِعمل فرحان ورک کے مداح اور ناقد جہاں اس دستاویزی فلم کو سراہتے نظر آ رہے ہیں وہیں جو افراد سوشل میڈیا پر فرحان ورک کا نشانہ بنے تھے، وہ ان پر پھر سے تنقید بھی کر رہے ہیں۔ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے سابق سربراہ عمر سیف نے ایک ٹویٹ میں لکھا: ’اس بندے نے میرے خلاف جھوٹی خبر پھیلائی کہ میں آر ٹی ایس کی خرابی کا ذمہ دار تھا۔‘ واضح رہے کہ سنہ 2018 کے الیکشن کے روز یعنی 25 جولائی کو جب آر ٹی ایس مبینہ طور پر کسی خرابی کا شکار ہوا تھا تو فرحان ورک نے اس کی ذمہ داری عمر سیف پر عائد کی تھی۔ صحافی ثنا بچہ نے فرحان ورک کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا: ’میں آپ کے بارے میں برا محسوس کر رہی ہیں۔ وہ لوگ کتنے چھوٹے ہیں جنھوں نے اپنے مخالفین کو ہراساں کرنے کے لیے آپ کو تعینات کیا۔‘ صحافی ضرار کھوڑو نے لکھا: ’یہ دستاویزی فلم دیکھنے کے بعد میں فرحان ورک کے لیے ہمدردی محسوس کر رہا ہوں۔‘ صحافی عمبر شمسی نے لکھا کہ فرحان ورک نے دوسرے لوگوں کو بدنام کر کے طاقت اور سکون حاصل کیا، اس لیے ان پر ترس کھانا مشکل ہے۔ صحافی سلمان مسعود نے فلم کو سراہتے ہوئے لکھا کہ یہ فلم سوشل میڈیا کی طاقت کی صحیح عکاسی کرتی ہے کہ کیسے فرحان ورک جیسے لوگ اہم ترین گفتگو میں مرکز نگاہ بنتے ہیں۔ ایک اور صارف سالار خان نے فلم پر تبصرہ دلچسپ انداز میں کیا اور اس فلم کے ایک منظر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ انھوں نے ڈمپلنگ کھانے کی ایک نئی جگہ دریافت کی ہے۔ فلم کے ڈائریکٹر کا مؤقف اس دستاویزی فلم کے ڈائریکٹر ہشام کبیر چیمہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد فرحان ورک کو ہیرو یا ولن کے طور پر دکھانا نہیں تھا بلکہ وہ تو ان کی زندگی کے حقائق لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتے تھے تاکہ لوگ اس بات کا فیصلہ خود کریں۔ ہشام نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ فرحان ورک کے مداح اور ناقدین دونوں ہی کو یہ فلم پسند آئی لیکن ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو لگتا ہے کہ انھوں نے فرحان ورک کو غیر ضروری طور پر مثبت کردار میں دکھانے کی کوشش کی ہے تو دوسرے لوگ مزید فلمیں بنا کر فرحان کی زندگی کے دیگر پہلو بھی اجاگر کریں۔ اگر آپ پاکستان میں ایک ٹوئٹر صارف ہیں یا کم از کم پاکستان کی سیاست کے بارے میں جاننے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں تو فرحان ورک کے چلائے گئے ٹرینڈز یقیناً آپ کی نظر سے گزرے ہوں گے۔ text: پہلا واقعہ مُلتان روڈ پرنیو ایورنیو سٹوڈیو کا قیام تھا۔ فلم ساز آغا جی۔اے گُل نے 1956 میں فلم دُلا بھٹی بنائی تھی جو کہ انتہائی کامیاب ثابت ہوئی۔ اسی آمدنی کو نئی سرمایہ کاری پر استعمال کرتے ہوئے آغا صاحب نے مُلتان روڈ پر نئے سازو سامان اور جدید سہولتوں والا ایک ایسا سٹوڈیو تعمیر کیا جو فنکاروں اور کاریگروں کے لئے ہوا کا ایک تازہ جھونکا ثابت ہوا۔ سن ساٹھ کے عشرے میں بننے والی اکثر کامیاب فلمیں اسی سٹوڈیو میں تیار ہوئی تھیں۔ سن پچاس کے عشرے میں پیش آنے والا دوسرا اہم واقعہ ایک ایسے غیر معروف ریڈیو آرٹسٹ کا فلمی دُنیا میں آنا تھا جو بعد میں پاکستانی فلموں کا اہم ترین کریکٹر ایکٹر ثابت ہوا۔ شاید آپ نے اندازہ لگا لیا ہو کہ ہم اداکار طالش کا ذکر کر رہے ہیں۔ طالش کا نام فلم سات لاکھ میں گائے ہوئے اِس شرابی گانے کی بدولت راتوں رات ملک میں مشہور ہو گیا۔’یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں‘ میر تقی میر کے کلاسیکی مضمون کو سیف الدین سیف نے ایک نئے اور ہلکے پھلکے انداز میں باندھا تھا۔ رشید عطرے نے دھُن بھی خوب بنائی تھی اور سونے پہ سہاگہ طالش کی ادا کاری تھی۔ اگرچہ یہ طالش کی پہلی فلم نہیں تھی اور اس سے قبل وہ نتھ، جھیل کنارے اور جبرو میں کام کر چُکے تھے بلکہ پاکستان آنے سے پہلے انھوں نے بمبئی میں معروف افسانہ نگار کرشن چندر کی فلم ’سرائے کے باہر‘ میں بھی ایک کردار ادا کیا تھا، لیکن طالش کو حقیقی شہرت فلم سات لاکھ کے اس گیت پر لب ہلانے سے ملی۔ گویا جب 1960 کا سورج طلوع ہوا تو پاکستان میں اچھے اداکاروں کی ایک کھیپ تیار ہو چکی تھی، لاہور میں ایک نیا سٹوڈیو کام شروع کر چُکا تھا اور فلمی صنعت میں سرمایہ کاری کے لئے حالات سازگار تھے۔ پاکستان کی فلمی دُنیا میں سن ساٹھ کے عشرے کا آغاز ایک دلچسپ فلم سے ہوا۔ مصنّف تھے نذیراجمیری، فلم ساز اور ہدایت کار تھے اشفاق ملک اور فلم کا نام تھا ’ سلمٰی‘۔ اس میں اگرچہ بہار، اعجاز، یاسمین، اے شاہ شکارپوری اور طالش جیسے ہِٹ اداکار موجود تھے لیکن بُنیادی طور پر یہ علاؤالدین کی فلم تھی جنھوں نے ایک بدھو اور اَن پڑھ نوجوان کا کردار ادا کیا تھا، لیکن ایسا بدھو جو کبھی کبھی بڑے پتے کی بات کہہ جاتا ہے۔ علاؤالدین کی تعلیم کے لئے منشی شکارپوری کو ملازم رکھا جاتا ہے لیکن جب وہ الف۔ بے کی پٹی شروع کرتا ہے تو علاؤالدین اُس سے کہتے ہیں ’ ماسٹر جی ’الف‘ سے لے کر ’ی‘ تک تو مجھے معلوم ہے، ذرا یہ بتائیے کہ الف سے پہلے کیا ہوتا ہے اور ’ی‘ کے بعد کیا آتا ہے‘۔ مُنشی یہ سُن کر چکرا جاتا ہے اور علاؤالدین کی ذہانت کا ایسا قائل ہوتا ہے کہ ساری فلم میں اسکی عقل مندی کے گُن گاتا رہتا ہے۔ اس کے منہ سے تعریفیں سُُن کر ایک پڑھی لکھی معزّز خاتون کا رشتہ علاؤالدین کے گھر پہنچ جاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک اَن مِل بے جوڑ رشتہ ہے لیکن سلمٰی (بہار) فیضو (علاؤالدین) کی سادگی اور بھولپن سے بہت متاثر ہوتی ہے۔ شادی کے بعد پہلا منظر یہ دکھایا جاتا ہے کہ علاؤالدین تختی لکھ رہے ہیں اور بہار اُنکی ٹیچر بنی ہوئی ہیں۔ مرکزی کردار کی سادگی اور بھولپن اس فلم کی اصل جاذبیت تھی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ فلم سلمٰی اس سے پہلے ’شاردا‘ کے نام سے بھی بن چُکی تھی (1942) اور ہٹ ہوئی تھی۔ اُس زمانے میں علاؤالدین والا کردار واسطی نے ادا کیا تھا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ 1942 اور 1960 کی کامیابیوں کے بعد یہی کہانی 1974 اور 1980 میں بھی آزمائی گئی اور اسے دونوں مرتبہ زبردست کامیابی حاصل ہوئی ۔ 1974 میں تو اشفاق ملک ہی نے اسے پنجابی کے روپ میں ڈھالا اور’بھولا سجن‘ کا نام دیا۔ اس میں بھولے سجن کا کردار اعجاز نے ادا کیا۔ 1980 میں یہ کہانی ہدایتکار جاوید فاضل کے مشّاق ہاتھوں میں پہنچی۔ انہوں نے اسے’صائمہ ‘ کے نام سے فلمایا اور بھولے بھالے ہیرو کے لئے ندیم کا انتخاب کیا۔ لیکن اس کہانی میں شاید اب بھی اتنا دَم خَم ہے کہ اگر اداکارہ اور ہدایت کارہ ریما اسے فلمانے کا ارادہ کر لے تو اب بھی یہ کہانی کامیاب ہو سکتی ہے۔ اس کہانی کی متواتر کامیابیوں کا راز اسکے ہیرو کی شخصیت میں مضمر ہے۔ ایک ان پڑھ شخص، پڑھے لکھے لوگوں کے دُنیا میں اکیلا، بے سہارا اور بے یارو مددگار ہے اور اسی لئے ناظرین کی ہمدردی کا مستحق ہے۔ ساٹھ پیسنٹھ برس پہلے فلم بینوں نے ہمدردی کے جو پھول واسطی پہ نچھاور کئے تھے وہی بعد میں علاؤالدین اعجاز اور ندیم پہ لُٹائے گئے۔ سن ساٹھ کے عشرے میں ایک طرف تو ڈھاکے میں اُردو فلم سازی کا کام سنجیدگی سے شروع ہو گیا اور دوسرے لاہور میں پنجابی فلم سازی نے ایک مضبوط صنعت کی شکل اختیار کر لی۔ مغربی پاکستان کی اُردو فلموں میں یہ دور محمد علی، ندیم، وحید مُراد، زیبا، دیبا، شبنم، شمیم آراء اور نیّر سُلطانہ کا دور تھا جب کہ پچھلی دہائی کے فلمی جوڑے صبیحہ۔ سنتوش اور مسرّت ۔سدھیر بھی منظر میں موجود تھے۔ فلمی سرمایہ کاری، تقسیم کاری، نمائش کاری اور نئے فلمی تجربات کے لحاظ سے سن ساٹھ کا عشرہ خصوصی مطالعے کا تقاضہ کرتا ہے اور آئندہ نشست میں ہم اِِن پہلؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ سن پچاس کے عشرے میں جہاں دوپٹہ، وعدہ، مکھڑا، سات لاکھ، انتظار، کرتار سنگھ، نیند اور کوئل جیسی معیاری فلمیں بنیں وہیں کچھ ایسے واقعات بھی پیش آئے جن کا اثر پاکستان کی فلم انڈسٹری میں بہت دُور رس ثابت ہوا۔ text: نہ تو کوئٹہ اور نہ ہی اسلام آباد کی ہوائی اڈے پر انہوں نے بڑی تعداد میں جمع وکلاء یا صحافیوں سے کوئی بات کی۔ تاہم وہاں موجود وکلاء نے ان کے حق میں نعرہ بازی کی۔ دریں اثناء معزول چیف جسٹس کو ائیرپورٹ پر سرکاری پروٹوکول بھی دیا گیا۔ انہیں پروٹوکول کا عملہ اور سیکورٹی گاڑیاں مہیا کی گئیں۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے معزول چیف جسٹس کے ترجمان اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ انہیں پوری امید ہے جمہوری قوتیں صدر پرویز مشرف کی سازشوں کا حصہ کبھی نہیں بنیں گی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن کے مطابق یہ خاموشی معزول چیف جسٹس نے وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کے کہنے پر اختیار کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ معزول چیف جسٹس حکومت کو دی جانے والی تیس روز کی مہلت میں ججوں کی بحالی کا انتظار کریں گے۔ پرجوش وکلاء ’افتخار تیرے جانثار بےشمار بےشمار` اور ’عدلیہ کی بحالی تک جنگ رہے گی جنگ رہے گی‘ جیسے نعرے بلند کرتے رہے۔ معزول چیف جسٹس ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنز کے خطاب کے پروگرام کو ملتوی کرتے ہوئے واپس اسلام آباد پہنچے ہیں۔ وہ ایک جلوس کی شکل میں ہوائی اڈے سے سیدھا ججز کالونی میں اپنی رہائش گاہ پہنچے۔ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنے آبائی شہر کوئٹہ میں چند روز گزارنے کے بعد جمعہ کی دوپہر خاموشی سے واپس اسلام آباد لوٹ آئے ہیں۔ text: اسحاق ڈار علاج کی غرض سے بیرون ملک گئے تھے اور تاحال واپس نہیں آئے مفاہمت کی یادداشت پر ایک برطانوی عہدیدار اور پاکستان کی طرف سے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے دستخط کیے ہیں اور شہزاد اکبر نے اس معاہدے کی تصدیق سماجی رابطے کی وہیب سائٹ پر بھی کی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط مجرموں کے تبادلے کا معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے کیے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرموں کے تبادلے کے بارے میں مذاکرات ہوتے رہے ہیں اور اس ضمن میں ایک معاہدے کا مسودہ تیار ہے لیکن اس پر دستخط نہیں کیے گئے۔ یہ بھی پڑھیے اسحاق ڈار شریف خاندان کے لیے ناگزیر کیوں ؟ اسحاق ڈار کے قرق ہونے والے اثاثہ جات کتنے ہیں؟ اسحاق ڈار: گرفتاری کے لیے انٹرپول سے رابطے کا فیصلہ وزارت قانون کے ایک اہلکار عبدالرشید کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کی یادداشت قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی عدم موجودگی میں قانونی بنیاد فراہم کرے گی۔ اس سے پہلے وفاقی حکومت اشتہاری قرار دیے گئے سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کو وطن واپس لانے کے لیے انٹرپول سے رابطہ کر چکی ہے، تاہم انٹرپول کے حکام نے اسحاق ڈار کو وطن واپس لانے کے لیے حکومت کی طرف سے فراہم کردہ دستاویزات کو ناکافی قرار دیا تھا۔ یاد رہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف اسلام آباد کی احتساب عدالت میں آمدن سے زیادہ اثاثوں کے ریفرنس میں مسلسل غیر حاضری کے سبب انھیں اشتہاری قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کی پاکستان میں موجود جائداد کی قرقی کے احکامات جاری کیے تھے۔ اسحاق ڈار کے خاندان نے اس عدالتی فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ اسحاق ڈار علاج کی غرض سے بیرون ملک گئے تھے اور تاحال واپس نہیں آئے۔ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف یہ الزام عائد کرتی ہے کہ ملزم اسحاق ڈار کو بیرون ملک فرار کروانے میں اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا جہاز استعمال کیا گیا۔ قومی احتساب بیورو کے سابق ایڈشنل پراسیکیوٹر جنرل عامر عباس کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی ملزم کی حوالگی کے بارے میں بات چیت کا آغاز ایک اچھا شگون ہے لیکن اس وقت اس کا کوئی فائدہ نہیں جب تک اس پر عملدرآمد نہیں ہو جاتا۔ انھوں نے کہا کہ برطانیہ کی طرف سے ایک بھی ایسی مثال موجود نہیں ہے جس میں انھوں نے کسی ملزم کو پاکستان کے حوالے کیا ہو۔ راجہ عامر عباس کا کہنا تھا کہ جب وہ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب تھے تو وہ امریکہ میں روپوش ہونے والے پنجاب بینک کے صدر ہمیش خان کو گرفتار کر کے پاکستان لائے تھے۔ انھوں نے کہا کہ یہ بھی اسی صورت میں ممکن ہوا کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی قانونی معاونت کا معاہدہ موجود ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار ان کی پاکستان میں موجود جائداد کی قرقی کے احکامات جاری کیے تھے حکمران جماعت اس مفاہمتی یادداشت کو ایک بڑا اقدام قرار دے رہی ہے اور حکومت پُرامید ہے کہ اس سے ملزم اسحاق ڈار کو وطن واپس لانے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں مدد ملے گی۔ نیب کے ایک اور سابق ایڈشنل پراسیکیوٹر جنرل ذوالفقار بھٹہ کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ معاہدہ کسی ایک شخص سے ہی متعلق ہے۔ انھوں نے کہا کہ ابھی تو صرف معاہدے کی یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں اور اس کو عملی جامہ پہنانے میں ایک عرصہ درکار ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ اگر اس معاہدے پر فوری طور پر عملدرآمد ہو بھی جاتا ہے تو پھر بھی اس میں کم از کم ایک سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ ذوالفقار بھٹہ کا کہنا ہے کہ اگر اسحاق ڈار برطانیہ سے کسی دوسرے ملک چلے جاتے ہیں تو پھر ایسے معاہدے کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔ پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین کامران مرتضی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ملزمان کے تبادلے سے متعلق مذاکرات کے لیے ہونے والے یادداشت کے معاہدے پر دستخط قانونی طور پر کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ اُنھوں نے کہا کہ ابھی تو صرف دونوں ممالک اس ضمن میں مذاکرات کرنے پر آمادہ ہوئے ہیں اور یہ مذاکرات کب شروع ہوں گے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر ان دونوں ممالک کے درمیان ملزموں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ ہو بھی جاتا ہے تو یقینی طور پر اس معاہدے کو برطانیہ کی عدالت میں چیلنج کیا جائے گا اور اس پر عدالتی فیصلہ آنے میں بھی ایک عرصہ درکار ہوگا۔ کامران مرتضی کا کہنا ہے کہ بظاہر دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے کی یادداشت پر دستخط کی کارروائی کے پیچھے جو سوچ کارفرما ہے اس کے مطابق اس پیش رفت کا واحد مقصد اسحاق ڈار کو وطن واپس لانا ہے لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔ سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پاکستان حوالگی کے طریقۂ کار پر بات چیت کے لیے برطانیہ اور پاکستان میں مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہو گئے۔ text: جج نے فیصلے میں کہا کہ ان دونوں کا ہدف شام کی حکومت تھی نہ کہ برطانیہ اور کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے یہ بات ثابت ہو کہ ان دونوں نے شدت پسند کارروائیوں میں حصہ لیا یہ دونوں بھائی پہلے برطانوی شہری ہیں جن کو شام میں تربیت لینے کے الزام میں سزا سنائی گئی ہے۔ یہ دونوں بھائی ایسٹ لندن کے رہایشی ہیں۔ 30 سالہ محمد نواز کو ساڑھے چار سال جبکہ 24 سالہ حمزہ نواز کو تین سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان دونوں بھائیوں نے 2013 میں شام میں شدت پسند کیمپ میں تربیت لینے کا اعتراف کیا ہے۔ جج نے فیصلے میں کہا کہ ان دونوں کا ہدف شام کی حکومت تھی نہ کہ برطانیہ اور کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے یہ بات ثابت ہو کہ ان دونوں نے شدت پسند کارروائیوں میں حصہ لیا۔ جج کرسٹوفر موس نے کہا ’دونوں کے موبائل فونز سے یہ بات واضح ہے کہ دونوں شدت پسند ٹریننگ کیمپ گئے تھے۔‘ واضح رہے کہ گذشتہ اگست میں نواز خاندان نے پولیس کو مطلع کیا تھا کہ دونوں بھائی لاپتہ ہیں۔ دونوں بھائی یہ کہہ کر گھر سے نکلے تھے کہ وہ کچھ کھانے جا رہے ہیں لیکن وہ حمزہ نواز کی گاڑی میں فرانس چلے گئے۔ فرانس سے دونوں بھائیوں نے ترکی کی فلائیٹ لی اور آخر کار سرحد پار کر کے شام میں داخل ہو گئے۔ ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ یہ بھائی دریا پار کر کے شام میں داخل ہو رہے ہیں۔ ایک شخص ان سے پوچھتا ہے کہ کس کی حمایت کرتے ہو جس کے جواب میں یہ جواب دیتے ہیں ’جنود الشام‘ ان دونوں کی واپسی ستمبر میں ہوئی لیکن کو حرات میں لے لیا گیا کیونکہ ان سے کلاشنکوف کی گولیاں، موبائل پر فوٹوز اور شام میں جاری خانہ جنگی کی ویڈیوز برآمد ہوئیں۔ ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ یہ بھائی دریا پار کر کے شام میں داخل ہو رہے ہیں۔ ایک شخص ان سے پوچھتا ہے کہ کس کی حمایت کرتے ہو جس کے جواب میں یہ جواب دیتے ہیں ’جنود الشام‘۔ یہی شخص ان سے پوچھتا ہے ’یہاں جہاد کے لیے آئے ہو؟‘ تو جواب میں یہ کہتے ہیں ہاں جہاد۔‘ برطانیہ میں عدالت نے دو بھائیوں کو شام میں عسکری تربیت لینے کے الزام میں قید کی سزا سنائی ہے۔ text: صادق شہید پارک میں اس جلسے کے دوران پشتونخواہ مِلّی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ) کے کارکن اور جھنڈے نمایاں نظر آرہے تھے جبکہ بلوچستان کے حقوق اور پنجاب کی بالادستی کے خلاف زبردست نعرہ بازی ہوئی۔ اس جلسے سے بزرگ سیاستدان اور پونم کے چیئرمین سردار عطاءاللہ مینگل، محمود خان اچکزئی ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کے علاوہ سندھی اور سرائکی قوم پرست جماعتوں کے قائدین نے خطاب کیا۔ عطا اللہ مینگل نے اپنی تقریر میں بلوچستان کے حقوق کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ گوادر میں ترقی کے نام پر بلوچستان کے لوگوں کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ حکمران اتنے اچھے نہیں ہیں کہ بلوچستان کی فکر میں گوادر کی ترقی کر رہے ہیں بلکہ ان کے عزائم کچھ اور ہیں جنہیں یہاں پنپنے نہیں دیا جائے گا۔ عطاء اللہ مینگل نے کہا ہے کہ جلسے جلوسوں اور تقریروں سے ہم یہ کام نہیں رکوا سکتے بلکہ اس کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ محمود خان اچکزئی نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کر جرنیلوں سے کہنا پڑے گا کہ ’بابا آپ سرحدوں کی حفاظت کرو سیاست سیاستدانوں کا کام ہے‘، فوج کے لیے تمام سازوسامان مہیا کرنا سیاستدانوں کا کام ہوگا۔ انہوں نے دیگر ممالک کی مثالیں دیتے ہوئے کہا ہے کہ کہیں بھی فوج اور خفیہ ایجنسیاں سیاست یا حکومتی کاموں میں مداخلت نہیں کرتیں صرف پاکستان میں یہ کام ہو ہا ہے جس کی وہ ہر مقام پر مخالفت کریں گے۔ محمود خان نے مذہبی جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ایک جنرل کو تسلیم کرکے تین مزید جرنیلوں کی سیاست میں آمد کے لئے راہ ہموار کر دی ہے اور نعرے جمہوریت کے لگا رہے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالحئی نے کہا ہے کہ بلوچستان کی ساحلی پٹی کو اونے پونے داموں بیچا جا رہا ہے جس کی وہ اجازت نہیں دیں گے ۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں جلسے کو یہ باور کرایا کہ موجودہ حکمران طبقہ زمینوں کی ایجنٹی بھی کر رہا ہے، سوسائیٹیاں بھی یہ خود ہی بنا رہے ہیں اور بلوچستان کے عوام کے حقوق چھین رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق یہ جلسہ کوئٹہ کی تاریخ کا ایک بڑا جلسہ تھا۔ صادق شہید پارک لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مغرب کی آزان کے وقت نماز کا وقفہ کیا گیا لوگوں نے پارک میں نماز ادا کی اور پھر جلسہ شروع ہوا لیکن لوگوں کی تعداد کم نہیں ہوئی۔ کوئٹہ میں اپنے آپ کو محکوم کہلوانے والی قوم پرست جماعتوں کی تنظیم پونم نےایک بہت بڑا جلسہ منعقد کیا ہے جس میں مختلف قوموں کو برابری کی بنیاد پر نئی قانون ساز اسمبلی کا انتخاب اور ان قوموں کے حقوق پر مبنی نئے آئین کے مطالبے دہرائے گئے ہیں۔ text: دونوں فریقین نے سرحدوں کی سلامتی، ریل کے رابطوں اور جوہری معاملات سمیت بہت سے موضوعات کے بارے میں ڈھیروں کمیٹیوں اور نظام الاوقات کا اعلان کیا۔ لیکن دونوں نے اخباری کانفرنس کے دوران برملا کشمیر کے مسئلے کے بارے میں اپنے اختلافات کا اظہار کیا۔ بھارتی وزیر خارجہ نٹور سنگھ نے کہا کہ بھارت اس بات سے ناخوش ہے کہ مبینہ طور پر پاکستان سے شدت پسند لائن آف کنٹرول کے پار بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کارروائیوں کے لیے جاتے ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے الزام لگایا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ مبصرین کے نزدیک یہ بھی بڑی پیش رفت ہے کہ دونوں ملک مذاکرات جاری رکھتے ہوئے اپنے اختلافات کا کھلے عام اظہار کر پائے ہیں۔ ایسا کرنے سے دونوں حکومتیں اپنے اپنے ملک کے سخت گیر موقف رکھنے والے طبقوں کی تنقید سے بھی اپنے آپ کو بچا سکتی ہیں۔ لیکن زیادہ تر مبصرین کے نزدیک مذاکرات کی سب سے مثبت بات یہ تھی کہ وہ ختم نہیں ہوئے۔ اس سے پہلے پاکستان اور بھارت کے درمیان اس طرح کے طویل اور مرحلہ وار مذاکرات انیس سو اٹھانوے میں ہوئے تھے۔ لیکن اس وقت زیادہ پیش رفت نہیں ہوئی تھی اور وہ جلد ہی ختم ہو گئے تھے۔ انیس سو اٹھانوے میں بھارت کی کی نمائندگی اس وقت کے سیکرٹری خارجہ سلمان حیدر نے کی تھی جن کے خیال میں دِلّی میں ہونے والے تازہ ترین دو روزہ مذاکرات دونوں ممالک کے درمیان پیش رفت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ باڈی لینگویج مثبت تھی، مسکراٹیں بڑی اور مصافحہ زوردار۔ لیکن جب پاکستان اور ہندوستان کے وزرا خارجہ نے مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کیا تو تفصیلات مبہم تھیں اور نتیجہ معمولی۔ text: امان اللہ خان کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی کی پالیسی کو اس وقت کے پاکستان کے حکمران جنرل ضیاالحق کی حمایت حاصل تھی۔ حکومت پاکستان کشمیری عسکریت پسندوں کو مدد کرنے کے الزامات کی ہمیشہ تردید کرتی رہی ہے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ یعنی جے کے ایل ایف کے سربراہ امان اللہ خان نے یہ دعویٰ اپنی کتاب ’جہد مسلسل‘ کے دوسرے ایڈیشن میں کیا ہے جسکا پہلا ایڈیشن سن 1992 چھپا تھا۔ اس کتاب کی ابھی باضابطہ تقریب رونمائی ہونی ہے۔ امان اللہ خان کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے ایک سینئیر رہنما ڈاکڑ فاروق حیدر کے ذریعے سن 1987 جے کے ایل ایف سے رابطہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ فاروق حیدر نے خفیہ ادارے کے ساتھ یہ طے کیا کہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے تحریک میں حصہ لینے کے خواہشمند نوجوانوں کو سرحد پار لائےگی اور ان کو اپنی نظریات کی تعلیم دے گی جبکہ ان کو عسکری تربیت اور اسلحہ آئی ایس آئی فراہم کرے گی۔ امان اللہ خان کے مطابق اس منصوبے کا مقصد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں شورش برپا کرنا تھا۔ امان اللہ خان کا کہنا ہے وہ اُس وقت اس معاہدے میں شامل نہیں تھے جب یہ طے پایا تھا لیکن انہوں نے اس کو اس لئے قبول کیا ان کو بتایا گیا تھا کہ ضیاالحق جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے نظریہِ خود مختار کشمیر کے حامی تھے۔ کشمیری رہنما کا کہنا ہے کہ ان کو یاد ہے کہ ضیاالحق نے ایک بار یہ کہا تھا کہ وہ چاہتے کہ کشمیر اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کا رکن بنے جس کا ان کے کہنے کے مطابق صاف مطلب تھا خود مختار کشمیر۔ اسی لئے مسڑ خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ معاہدہ قبول کیا۔اس پیشکش کو قبول کرنے کی دوسری وجہ امان اللہ خان یہ بتاتے ہیں کہ ماضی میں بیرونی امداد کے بغیر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح تحریک شروع کرنے کی کوششں دو بار ناکام ہوچکی تھیں۔ مسڑ خان کا کہنا ہے کہ اس وقت انہیں آئی ایس آئی کے ایک بریگیڈیر فاروق نے یہ کہا تھا کہ وہ جے کے ایل ایف کو غیرمشروط مدد فراہم کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ آئی ایس آئی جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے تنظیمی معاملات میں بھی مداخلت نہیں کرے گی اور اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کا کوئی بھی رکن جو سیاسی اور سفارتی محاذ پر کام کررہا ہے آئی ایس آئی سے نقد رقم وصول نہیں کرے گا۔ امان اللہ خان کا کہنا ہے کہ یہ زبانی معاہدہ تھا۔ ان کا کہنا ہے بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے عسکری تربیت حاصل کرنے کے لئے آٹھ نوجوانوں کا پہلا قافلہ فروری سن 1988 میں مظفرآباد پہنچا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کو عسکری تربیت اور اسلحہ فراہم کرنے کہ بعد واپس بھارت کے زیر انتظام کشمیر بھیجا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کو عسکری تربیت اور اسلحہ فراہم کرنے کہ بعد واپس بھارت کے زیر انتظام کشمیر بھیجا گیا لیکن ان کو یہ کہا گیا کہ پاکستان کے زیر انتظام میں موجود جے کے ایل ایف کے رہنماؤں کی ہدایت کے بغیر وہ کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔ مسڑ خان نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے تین رہنماؤں غلام حسن لون ، غلام نبی بٹ اور شیخ محد افضل کو سن 1988 میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر بلایا گیا اور ان کے ساتھ طویل صلح مشورے کے بعد ہم نے یہ طے کیا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 13 جولائی کو عسکریت کا آغاز کیا جائے گا لیکن بعض وجوہات کی بنیاد پر عسکری تحریک کا آغاز 31 جولائی کو کیا گیا جب سرینگر میں امر سنگھ کلب اور پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف آفس میں دھماکے کئے گئے۔ مسڑ خان نے اس کا کریڈٹ چھ عسکریت پسندوں کو دیا جن میں ہمایوں آزاد، جاوید جہانگیر، شبیر احمد گورو، ارشاد کول، غلام محمد اور محمد رفیق ہیں۔ اس کے بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے نوجوانوں کاپاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آنے جانے کا تانتا بندھ گیا۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما کا کہنا ہے کہ جے کے ایل ایف نے آئی آیس آئی سے سن 1990 میں قطع تعلق کیا جب انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ آئی ایس آئی ایس کے ایک افسر کو ان کی تنظیم کی اجلاسوں میں مبصر کے طور پر بیٹھنے کی اجازت دی جائے۔ خودمختار کشمیر کی حامی تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے اپنے دھڑے کے سربراہ امان اللہ خان نے دعویٰ کیا کہ ہے 80 کی دہائی کے آخر میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کشمیری عسکریت پسندوں کو عسکری تربیت دے رہی تھی ۔ text: براک اوباما نے حال ہی میں ایران کا جوہری پروگرام دس برس کے لیے منجمد کرنے کی تجویز دی تھی براک اوباما کا کہنا ہے کہ خط لکھنے والے 47 سینیٹرز نے ایک طرح سے ایران کے سخت گیر رہنماؤں کے ساتھ ’غیرمعمولی اتحاد‘ کر لیا ہے۔ 47 ریپبلکن سینیٹرز کی جانب سے دستخط شدہ اس خط میں ایران کو یاد دلایا گیا ہے کہ اس کے جوہری پروگرام پر کوئی بھی معاہدہ اس وقت تک صرف ایک ’ایگزیکیٹو ایگریمنٹ‘ ہی رہے گا جب تک کانگریس اس کی منظوری نہیں دے دیتی۔ اس وقت ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی مذاکرات نازک موڑ پر ہیں اور اس سلسلے میں معاہدہ طے پانے کے لیے حتمی مدت 31 مارچ کو ختم ہو رہی ہے۔ خیال رہے کہ تین مارچ کو امریکی کانگریس سے خطاب میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نتن یاہو نے کہا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدہ ایرانی جوہری بم کی تیاری کی راہ ہموار کر دے گا۔ واشنگٹن میں بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ رپبلکن اور کچھ ڈیموکریٹ سینیٹرز ایک عرصے سے ایران سے جوہری معاہدے کے معاملے پر ایوان میں ووٹنگ کے لیے کوشاں ہیں جبکہ وائٹ ہاؤس کا اصرار ہے کہ اس قسم کے کسی معاہدے کے لیے ان کی منظوری ضروری نہیں۔ خط پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا ہے کہ ’میرے خیال میں یہ کچھ مضحکہ خیز سی بات ہے کہ کانگریس کے کچھ ارکان ایران کے سخت گیر عناصر کے ہمراہ ایک نکتے پر اکھٹا ہونا چاہیں۔‘ وزیرِ خارجہ جان کیری جوہری پروگرام پر بات چیت کے لیے اتوار کو سوئٹزرلینڈ میں اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف سے ملاقات کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ تو ایک غیرمعمولی اتحاد ہے۔‘ براک اوباما کے مطابق وہ ایران کے جوہری معاہدے پر بات چیت کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے کوششوں پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔ اس سے قبل امریکی صدر کے دفتر کی جانب سے کہا گیا تھا کہ خط نے سفارتی بات چیت میں خلل ڈالا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری جوش ارنسٹ کا کہنا تھا کہ ’یہ جنگ کی جانب تیزی سے بڑھنے جیسا ہے یا کہیں کہ کم از کم عسکری مداخلت کی جانب تیزی سے بڑھنے جیسا ہے۔‘ ایران نے بھی اس خط کو پروپیگنڈے کی کوشش قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ اگر اگلی امریکی حکومت کسی معاہدے کو ختم کرتی ہے تو یہ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔ ایرانی حکام کے نام اپنے خط میں امریکی سینیٹروں نے کہا ہے ممکن ہے کہ ایرانی رہنما امریکہ کے آئینی نظام سے مکمل طور پر واقف نہ ہوں۔ مغربی ممالک کا خیال ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ ایران اس سے انکار کرتا آیا ہے اور اس کا موقف ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیاں صرف توانائی کے حصول کے لیے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ کوئی بھی ایسا معاہدہ جسے کانگریس کی حمایت حاصل نہیں محض امریکی صدر براک اوباما اور ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کے درمیان ہونے والا معاہدہ ہی ہوگا۔ سینیٹرز نے یہ بھی کہا ہے کہ ان میں سے بیشتر اس وقت بھی ایوان کے رکن ہوں گے جب جنوری 2017 میں براک اوباما کے دورِ اقتدار کی مدت ختم ہو جائے گی۔ دریں اثنا امریکی حکام نے تصدیق کی ہے کہ وزیرِ خارجہ جان کیری جوہری پروگرام پر بات چیت کے لیے اتوار کو سوئٹزرلینڈ میں اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف سے ملاقات کریں گے۔ امریکہ سلامتی کونسل کے دیگر مستقل اراکین اور جرمنی کے ساتھ مل کر ایران کو اس کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے کوشاں ہے اور اس کے بدلے میں وہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے ایران پر عائد پابندیاں کم کروانے کی پیشکش کرتا ہے۔ مغربی ممالک کا خیال ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ ایران اس سے انکار کرتا آیا ہے اور اس کا موقف ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیاں صرف توانائی کے حصول کے لیے ہیں۔ امریکہ کے صدر براک اوباما نے امریکی کانگریس کے رپبلکن سینیٹرز کی جانب سے ایران کے نام خط پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایوانِ نمائندگان کے ان ارکان نے جوہری پروگرام پر جاری بات چیت میں ’مداخلت‘ کی ہے۔ text: باغیوں کے زیرِانتظام المسيرہ ٹی وی چینل کے مطابق ہیلی کاپٹر سعودی سرحد کے قریب پرواز کر رہا تھا جب اسے نشانہ بنایا گیا باغیوں کے زیرِانتظام المسيرہ ٹی وی چینل کے مطابق ہیلی کاپٹر کو جب نشانہ بنایا گیا یب وہ سعودی سرحد کے قریب پرواز کر رہا تھا۔ چینل کے مطابق حملے میں ہیلی کاپٹر میں سوار عملے کے دو ارکان ہلاک ہوگئے۔ حملہ جمعے کی صبح سعودی عرب کے صوبے عسیر کی سرحد کے نزدیک ہوا اور مقامی ذرائع کے مطابق ہیلی کاپٹر کا ملبہ جل کر راکھ ہو گیا۔ یہ بھی پڑھیے سعودیہ، جنوبی کوریا کے بحری جہاز حوثیوں کے قبضے میں سعودی ہوائی اڈے پر ’حوثی باغیوں کے حملے‘ میں 26 زخمی ’مکہ شہر پر میزائل حملہ کرنے کی کوشش نہیں کی‘ باغیوں کے ترجمان یحییٰ الصریع کے مطابق: ’یمنی افواج نے زمین سے فضا میں مار کرنے والے ایک نئے میزائل کے ذریعے ایک اپاچی (ہیلی کاپٹر) کو مار گرایا ہے۔ اس میزائل میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے جس کے بارے میں تفصیلات ہم بعد میں دیں گے۔‘ ان کے مطابق باغیوں کے پاس واقعے کی فوٹیج بھی موجود ہے۔ رواں برس حوثی باغیوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انھوں نے خود ساختہ ایئر ڈیفنس سسٹم تیار کر لیے ہیں انھوں نے کہا ’ہم ایک بار پھر دہراتے ہیں کہ کسی کو بھی یمن کی فضائی حدود میں داخلے کی اجازت نہیں ہے اور ہم ایسی تمام کوششیں ناکام بنا دیں گے۔‘ یاد رہے کہ رواں برس حوثی باغیوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انھوں نے خود ساختہ ایئر ڈیفنس سسٹم تیار کر لیے ہیں۔ پچھلے کئی ماہ سے سعودی عرب اور حوثی باغیوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے اور سرحدی علاقوں اور بندرگاہوں پر جھڑپیں معمول بنتی جا رہی ہیں۔ گذشتہ ماہ یمنی باغیوں نے تین بحری جہازوں کو بھی قبضے میں لے لیا تھا۔ اس سے پہلے 2017 میں فرینڈلی فائر کے نتیجے میں ہیلی کاپٹر گرنے سے 12 سعودی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔ اپاچی ہیلی کاپٹر میں کیا خاص بات ہے؟ بوئنگ کمپنی نے جنوری 1984 میں پہلی مرتبہ اپاچی ہیلی کاپٹر امریکی فوج کے لیے بنائے تھے۔ اب تک کمپنی نے 2200 سے زیادہ اپاچی ہیلی کاپٹر فروخت کیے ہیں۔ کمپنی کے مطابق 16 فٹ اونچے اور 18 فٹ چوڑے اس ہیلی کاپٹر کو اڑانے کے لیے دو پائلٹ درکار ہوتے ہیں۔ اس میں ایک بڑا انجن لگا ہوتا ہے تاکہ اس کے بڑے پر اور پنکھے تیز رفتار میں گھوم سکیں۔ بوئنگ کی اپنی ویب سائٹ کے مطابق یہ جنگی ہیلی کاپٹر 280 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار سے اڑ سکتے ہیں۔ 550 کلو میٹر کی پرواز کی حد والے ان ہیلی کاپٹرز میں 16 ٹینک شکن میزائل پھینکنے کی صلاحیت ہے۔ ان کے نیچے نصب بندوق میں گولیوں کے 12000 راؤنڈ بھرے جا سکتے ہیں۔ برطانوی ایئر فورس کے ایک پائلٹ کے مطابق اپاچی ہیلی کاپٹر کو اڑانا ایسا ہے جیسے آپ کو 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی گاڑی کی چھت پر باندھ دیا گیا ہو۔ یمن کے حوثی باغیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے ایک جدید نئے میزائل کے ذریعے سعودی عرب کا ایک جنگی ہیلی کاپٹر مار گرایا ہے۔ text: سیکرٹری آف سٹیٹ کاڈینل ٹارکیسیو برٹون کا کہنا تھا کہ اٹلی کے کیتھولک یوتھ کلبوں میں بے شمار ایسے فٹبالر موجود ہیں جو ملکی سطح پر فٹبال کھیلنے کے اہل ثابت ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ چرچ کے تحت چلنے والی یونیورسٹیوں اور یوتھ کلبوں میں بہت سے برازیلی بھی زیرِ تعلیم ہیں جو پادری بننے کے لیئے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ رومن کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ کی جائے رہائش ویٹیکن میں فٹبال کے کھیل کے بہت سے شائقین موجود ہیں اور کارڈینل برٹون ان میں سے ایک ہیں۔ وہ اطالوی کلب یونیٹنس کے حامی ہیں اور جب وہ جینووا کے آرچ بشپ تھے تو انہوں نے ایک مقامی ٹی وی پر فٹبال میچ پر تبصرہ بھی کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ’ میں اس امکان کو رد نہیں کرتا کہ مستقبل میں ایک ایسی فٹبال ٹیم بنائی جا سکتی ہے جو روما، انٹر میلان اور سیمپڈوریا جیسے کلبوں کا مقابلہ کر سکے‘۔ ویٹیکن کی فٹبال ٹیم کی تجویز کے حوالے سے جہاں تک رقم کی فراہمی کی بات ہے تو اس سلسلے میں بھی ویٹیکن کو کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہوگا۔ ایسے حالات میں صرف دو سوالات باقی رہ جاتے ہیں ایک تو یہ کہ کیا دنیا کی اس سب سے چھوٹی ریاست کی ٹیم اٹلی کی مقامی لیگ میں شریک ہوگی اور ایسا ہوا تو اتوار کو کھیلے جانے والے میچ میں کیا ہو گا؟ تاہم ایک ایسے وقت میں جب کہ اٹلی میں فٹبال کا کھیل رشوت ستانی جیسے متعدد تنازعات کا شکار ہے، شاید یہ تجویز فٹبال کے کھیل کے حوالے سے ایک روشنی کی کرن ہے۔ ایک سینیئر رومن کیتھولک پادری نے امید ظاہر کی ہے کہ ایک دن ویٹیکن کی بھی ایسی فٹبال ٹیم ہو گی جو اٹلی کے بہترین کلبوں کے ساتھ مقابلہ کر سکے گی۔ text: احسان اللہ احسان پاکستان میں کیے جانے والے اکثر دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں کل تک احسان اللہ احسان پاکستان کے جانی دشمن طالبان کے ترجمان تھے۔ آج پاکستان کا پورا میڈیا احسان اللہ احسان کا ترجمان بن گیا ہے۔ ان کی حب الوطنی کا دیوانہ ہے۔ ان کی قاتلانہ مسکراہٹ کے پیچھے اپنے بچوں کا خون معاف کرنے کو تیار ہے۔ ’کھانا احسان اللہ احسان کے گھر سے آتا تھا‘ ’مشال خان قتل اور احسان اللہ احسان سلیبرٹی‘ لیکن میڈیا کا ایک ادنیٰ مزدور ہوتے ہوئے مجھے یہ تشویش ہے کہ میڈیا احسان اللہ احسان کی ترجمانی کرتے ہوئے اس پروفیشنلزم کا مظاہرہ نہیں کر رہا جس طرح کی پروفیشنلزم کا مظاہرہ احسان اللہ احسان نے طالبان کے ترجمان کے طور پر پورے دس سال کیا۔ تو میڈیا کے بھائیوں کے لیے چند گزارشات یا جیسا کہ آج کل کہا جاتا ہے، کچھ ٹاکنگ پوائنٹس کہ جب ہمارے نئے نیلسن منڈیلا احسان اللہ احسان کا ذکر آئے تو مندرجہ ذیل باتیں کرنا نہ بھولیں، آپ کا ملک و قوم پر بڑا احسان ہو گا۔ نام ہی سے شروع کر لیں۔ جب بھی کوئی تحریک میں شامل ہوتا تھا یا اب کہنا چاہیے کہ دہشت گرد تھا، تو اپنا نام بدل کر کوئی مولانا، کوئی ابو فلاں فلاں، تو کوئی خراسان سے جوڑتا تھا کوئی قرون اولیٰ کے جنگجوں کا نام اختیار کرتا تھا۔ آپ کا بھائی لیاقت علی سے احسان اللہ احسان بن گیا۔ کیا کسی دہشت گرد کا اتنا شاعرانہ اور باتخلص نام سنا ہے؟ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ پاکستان کی کسی گلی میں گٹر ہو نہ ہو، شاعر ضرور ہوتا ہے جس کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ تو میں بھی اس ناقدری سے تنگ آ کر تحریک میں شامل ہو گیا۔ لیکن آپ کو پتہ ہے شاعروں کے ساتھ ہر جگہ زیادتی ہوتی ہے، تو مجھے لگا دیا گیا پریس ریلیز لکھنے پر، ای میلز بھیجنے اور ٹوئٹر پر ہلکی پھلکی دھمکیاں دینے پر۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا آپ بھی سارا دن دفتر میں بیٹھ کر یہی نہیں کرتے؟ ہاتھ ابھی دل پر ہی رہنے دیں اور یہ بتائیں کہ گذشتہ دس سال میں جب دھماکوں میں آپ کے بچے وغیرہ مرتے تھے تو آپ سب سے پہلے کس کو ڈھونڈتے تھے؟ اپنے اس بھائی کو اور میں آپ سے ہمیشہ تعاون کرتا تھا اور آج آپ کی باری ہے تو آپ تعاون جاری رکھیں۔ یہ وقت احسان فراموشی کا نہیں ہے۔ (کہا تھا نا طبیعت شاعرانہ بنے بنا رہا نہیں جاتا) سوال کرنا آپ کا حق بنتا ہے آپ ضرور پوچھیں ۔ آپ کہیں گے واہگہ بارڈر پر پاکستانی شہریوں اور بچوں کا قتل عام کر کے اسلام کی کون سی خدمت کی۔ جب یہ دھماکہ ہوا تو چند گز کے فاصلے پر ہمارے بھارتی دشمنوں کا ایک ہجوم یہ ہولناک منظر دیکھ رہا تھا۔ سوچیں ان کے دل کیسے دہل گئے ہوں گے۔ کیا انھوں نے یہ نہیں سوچا ہو گا کہ جو مجاہد اپنے ہم وطنوں، ایک ہی خدا کے ماننے والوں کو اتنی بے دردی سے مارتے ہیں وہ اپنے کافر دشموں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ کوئی پوچھے گا کہ ایسٹر کے دن لاہور میں معصوم لوگوں کا قتل عام کیوں کیا جو بچوں کے پارک میں اپنے بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ آپ پھر دل پر ہاتھ رکھیں اور مجھے بتائیں کہ ایسٹر ہوتا کیا ہے؟ اس ملک میں منایا کیوں جاتا ہے؟ کیا ہم نے یہ ملک اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں پر ایسٹر منایا جا سکے؟ کوئی پھر کہے گا کہ آپ کا نشانہ کوئی بھی رہا ہو مارے تو زیادہ مسلمان گئے۔ فروعی معاملات میں نہ الجھیں یہ سوچیں کہ زیادہ دہشت زدہ کون ہوئے۔ مسلمان یا یہود و نصاریٰ۔ اب آپ میں سے کسی کو ملالہ یاد آجائے گی۔ تو اس کے بارے میں ہمارے ایک سینیئر کمانڈر کہہ چکے ہیں اس کا معاملہ اب ہم نے اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔ لیکن آپ جو ملالہ کے اتنے فین بنتے ہیں تو وہ پوری دنیا میں گھومتی ہے، اقوام متحدہ، کینیڈا کی پارلیمان سے خطاب کرتی ہے۔ آپ اسے سوات یا اسلام آباد کی گلیوں میں نہیں گھومنے دے سکتے تو اپنی پارلیمان میں بلا کر ایک تقریر کروا لیں؟ ہم میں اور آپ میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ جیسا کہ حضرت علی کا قول ہے جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔ مجھے دہشت گرد کہنے سے پہلے یہ ضرور سوچنا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں کیا ہوتا تھا۔ کیا شمالی آئرلینڈ کے دہشت گرد بعد میں حکومت میں نہیں بیٹھے، وزیر نہیں بنے اور وہ تو اتنے مستند دہشت گرد تھے کہ برطانوی ٹیلی ویژن پر نہ ان کی تصویر آ سکتی تھی نہ آواز۔ آپ میں سے کوئی کہے گا لیکن شمالی آئرلینڈ کے دہشت گرد سکول کی وین روک کر سکول جاتی بچی کا نام پوچھ کر اس کے منہ پر گولی نہیں مارتے تھے۔ تو میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ شمالی آئرلینڈ والوں کے ایمان اتنے مضبوط نہیں تھے جتنے ہمارے مجاہد بھائیوں کے۔ آپ پوچھیں گے اب کیوں خیال آیا؟ میں کہوں گا کہ میرے میڈیا والے بھائیو! آپ میں کون ہے جو اپنے مالک کو منہ بھر کے گالی نہیں دیتا لیکن اکاؤنٹ میں جب تنخواہ آتی ہے تو سب بھول جاتے ہیں۔ اور جب کہ میں نے ویڈیو میں عرض کیا تھا، ایک کمانڈر صاحب نے تین تین بیویاں رکھ چھوڑی ہیں۔ ایک اور اپنے استاد کی بیٹی کو لے گیا، میرے مقدر کی سیاہ راتوں کا ساتھی کون؟ پریس ریلیزیں اور ٹوئٹر۔ تو میں نے بھی سوچا: آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں آپ نے ابھی تک اچھا ویلکم دیا ہے آئندہ بھی تعاون کریں۔ کل ہی ہمارے سابق صدر سپہ سالار اور دائمی چُک کے مریض پرویز مشرف فرما رہے تھے کہ اس ملک میں بڑے بکرے بچ جاتے ہیں اور چھوٹوں کی قربانی ہو جاتی ہے۔ میں پرویز مشرف جتنا بڑا بکرا بننے کا تو خواب بھی نہیں دیکھ سکتا لیکن آپ تمام بھائیوں کا تعاون رہا تو اتنا چھوٹا بھی نہیں رہوں گا۔ پیار محبت کے اس ماحول میں اویس توحید جیسے صحافیوں کی بات مت سنیں جو کہتے ہیں میں نے انھیں گولی مارنے کی دھمکی دی تھی۔ اویس بھائی ویسے بھی جمہوری سوچ رکھتے ہیں۔ اگر وہ قوم جس نے اپنے بچے گنوائے ہیں وہ معاف کر دے گی تو اویس بھائی کا دل تو ویسے بھی نرم ہے۔ اور اگر ٹی وی پر میری گزارشات کو زیادہ دل گداز بنانا مقصود ہو تو بچپن میں ایک گانا سنا تھا وہ لگا دیا کریں۔ مان میرا احسان ارے نادان میں نے تجھ سے کیا ہے پیار کیا کہا گانا انڈین ہے۔ بھائی اگر دشمن کا ہتھیار اس کے خلاف استعمال کیا جائے تو ان کا مزا ہی اپنا ہے۔ زندگی سے مایوس افراد کے لیے خوشخبری۔ تبدیلی آ نہیں رہی، آگئی ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ text: آپ آسانی سے اس طرح سے متبادل نہیں دیکھ سکتیں جیسا کہ دوسری شاپنگ میں کرتی ہیں۔ آپ کو شراب کی دکان پر اپنی پسند کی چیز کے بارے میں بہت واضح ہونا ہوتا ہے اور دکان سے جلد رخصت ہونا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے دوستوں کے ساتھ مختلف قسم اور برانڈز کی شراب پر کھل کر بات بھی نہیں کر سکتے۔ شراب کی ایک بوتل واپس کرنے کے بارے میں تو آپ سوچ نہیں سکتیں۔ اگر خواتین قانونی طور پر کچھ خریدنا چاہتی ہیں، تو ان کے لیے یہ اس قدر مشکل کیوں ہے؟ پڑوسی ملک سری لنکا کے صدر نے تو خواتین کے شراب خریدنے کو ہی غیر قانونی قرار دیا ہے۔ خواتین کے لیے مخصوص شراب کی دکان ہم نے انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں شراب کی دکانوں میں لگی قطار میں لگ کر یہ جاننے کی کوشش کی کہ جب ایک عورت شراب خریدنے جاتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔ ہم سب سے پہلے مشرقی دہلی کے ایک مال میں نام نہاد لیڈیز وائن شاپ پر گئے جو عورتوں کے لیے مخصوص ہے۔ پرمود کمار یادو اس ’زنانہ شراب خانے‘ سے ملحق دکان میں کام کرتے ہیں۔ دونوں دکانیں ایک ہی شخص کی ملکیت ہیں اور اندر اندر دونوں دکانوں کے درمیان ایک دروازہ بھی ہے۔ عام طور پر لیڈیز سپیشل دکان میں سیلز گرل ہوا کرتی ہیں لیکن جس دن ہم وہاں گئے وہ چھٹی پر تھیں۔ پرمود کمار پچھلے دروازے کے ذریعے ہمیں دیکھنے آئے۔ انھوں کہا کہ یہ پورے ملک میں واحد لیڈیز سپیشل شراب کی دکان ہے۔ ہم مختلف برانڈز کا جائزہ لینے کے لیے دکان میں داخل ہوئے۔ دوسری دکانوں کی طرح بغیر کسی جلد بازی کے ہم نے وہاں موجود شراب، بیر اور وسکی کے سٹاک اور برانڈز پر نظر ڈالی۔ یہ بھی پڑھیے ٭ خواتین مے نوشی میں مردوں کے برابر ٭ 'دنیا کی قدیم ترین شراب کی دریافت' وہاں ایک صوفہ بھی تھا جہاں دوستوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا جا سکتا ہے۔ یہاں شراب خریدنا کسی مال سے جینز خریدنے کے مترادف ہے۔ ہم نے کچھ مہنگی شراب کی بوتلیں دیکھیں۔ پہلی مرتبہ شراب کی دکان پر جانے کے جوش میں چند سیلفیاں بھی لیں اور وہاں آنے والی خاتون گاہکوں سے بات بھی کی۔ لیکن بوتل لے کر نکلیں تو۔۔۔ ایک گاہک نے کہا: 'میں عورتوں کے لیے مخصوص شراب کی دکان کے خیال کے خلاف ہوں۔ جو سیلز گرل یہاں ہوتی ہے اسے شراب کے بارے میں کچھ نہیں پتہ۔ اس سے کوئی مدد نہیں مل پاتی۔ اس لیے میں عام شراب کی دکان پر جاتی ہوں کیونکہ وہاں لوگ شراب کے بارے میں جانتے ہیں۔ تاہم جب آپ یہاں سے شراب کی بوتل کے ساتھ باہر آتی ہیں، تو آپ کو ان عجیب نظروں کا سامنا ہوتا ہے جو یہ پوچھ رہی ہوتی ہیں کہ کوئی خاتون شراب کس طرح خرید سکتی ہے۔ آپ کو ان نگاہوں کو نظر انداز کرنا ہوتا ہے۔ خواتین کے لیے مخصوص شراب کی دکانیں کھولنے کے بجائے محفوظ ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی پڑھیے ٭ شوہروں کی پٹائی کے لیے دلھنوں کو تحفہ ٭ ’انڈیا میں بڑھتے ہوئے شرابی پائلٹ‘ ایک لڑکی کے ساتھ شراب خریدنے والے عالم خان کہتے ہیں: 'اگر آپ کو یہ سب کرنا ہے تو پھر لڑکیوں کے ساتھ کرو۔' ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ان کے ساتھ آنے والی لڑکی نے کہا: 'آپ خواتین کو شراب پینے سے روک نہیں سکتے تو کم از کم انھیں محفوظ ماحول ہی فراہم کرا دیں۔ وہ کہتی ہیں: 'شراب پینے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، ایسی مزید دکانیں ہونی چاہیے۔' پرمود کمار اطمینان سے انتظار کر رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں: 'یہاں آنے والی خاتون گاہکوں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے، ان کے شراب خریدنے کے لیے یہ محفوظ جگہ ہے۔' جب ان سے پوچھا کہ کیا وہ اپنی دوسری دکان میں عورتوں کو شراب فروخت کرتے ہیں تو وہ ہچکچائے۔ انھوں نے کہا: 'ہم انھیں شراب فروخت کرنے سے منع نہیں کرتے لیکن انھیں کہتے ہیں کہ وہ اپنی مخصوص دکان سے لے لیں۔ یہ زیادہ محفوظ ہے۔ خاص طور پر بھیڑ کے وقت۔ دونوں دکانیں ایک جیسی ہیں تو پھر مردوں کے ساتھ قطار میں کیوں کھڑی ہوں۔' کم روشنی والی عام دکان کا تجربہ اس مخصوص دکان کے بعد ہم ایک کم روشن علاقے میں عام شراب کی دکان پر گئے۔ ہمارے مرد دوست پہلے دکان پر گئے اور حالات کا جائزہ لیا۔ مطمئن ہونے کے بعد ہمیں صرف دن کی روشنی میں جانے کا مشورہ دیا۔ یہ بھی پڑھیے ٭ خاتون شراب نہیں خرید سکتی، سری لنکن صدر کا حکم ٭ 'ہزاروں لیٹر شراب چوہوں نے پی لی' ہم مشرقی دہلی کے میور وہار علاقے میں واقع ایک بھیڑ بھاڑ والی شراب کی دکان پر گئے۔ یہ دکان بیسمنٹ میں تھی۔ وہاں کے اٹینڈنٹ نے اپنا نام پپو سنگھ بتایا۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا یہاں خواتین شراب خریدنے کے لیے آتی ہیں؟ اس نے ہمیں یوں دیکھا جیسے ہم کسی دوسرے سیارے سے آئے ہوں۔ انھوں نے کہا: 'وہ یہاں کیوں آئیں گی، یہ خواتین کی جگہ نہیں ہے۔' ہم نے زور دے کر کہا کہ 'لڑکیاں بھی تو شراب پیتی ہیں، تو وہ شراب خریدنے آتی ہی ہوں گی؟' پپو سنگھ نے جواب دیا: 'ہاں، آج کل پیتی تو ہیں۔ لڑکیاں دکان پر نہیں آتیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ شراب نہیں خریدتیں۔' یہ بھی پڑھیے ٭ انڈیا: سڑکوں کے قریب شراب کی فروخت پر پابندی ٭ صحت میں بہتری کے لیے شراب مہنگی کرنے پر غور عام طور پر وہ اپنے مرد دوستوں کو شراب خریدنے بھیجتی ہیں اور اگر ان کے ساتھ کوئی نہیں ہوتا تو وہ کسی مرد سے کہہ کر شراب حاصل کرتی ہیں۔ ایک رکشے والا دیر سے ہمیں دیکھ رہا تھا۔ اس نے کہا: 'ایک دن ایک آنٹی رکشے میں بیٹھی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر وہ شراب خرید کر لا دے تو وہ ٹپ دیں گی۔ انھوں نے کہا تھا، 'بیٹا پیسے کے بارے میں فکر مت کرنا۔' ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سروے کے مطابق انڈیا میں تقریبا پانچ فیصد خواتین شراب پیتی ہیں جبکہ شراب پینے والے مردوں کی شرح 26 فیصد ہیں۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جنھوں نے کم از کم ایک بار شراب پی ہے یا کبھی کبھی پی لیتی ہیں۔ ہم جیسی بہت سی خواتین کے لیے شراب خریدنا معمول کی شاپنگ جیسا نہیں ہے۔ text: لندن کی پولیس تفتیش اور تحقیقات میں دنیا بھر میں مشہور ہے لیکن وہ ان دھماکوں کے سلسلے میں کیا کر رہی ہے؟ یہ واقعی سب کے لیے دلچسپی کا معاملہ ہے۔ پولیس نے ٹرین کے ڈبوں کے شیشے، فرش، چھت اور اردگرد موجود خون کے دھبوں، دھماکوں کا نشانہ بننے والے انسانوں کے کٹے ہوئے اعضاء، دھماکے دار مادے ، ادھر ادھر گرے ہوئے بالوں کپڑوں کے چیتھڑوں اور جوتوں اور دوسری تمام اشیاء کے تجزیے اورڈی این اے ٹیسٹ کرے گی۔ اس کے علاوہ پولیس ان تمام علاقوں میں نصب سی سی ٹی وی یعنی کلوز سرکٹ کیمروں کی ریکارڈنگ دیکھے گی۔ لندن کے تمام انڈر گراؤنڈ سٹیشنوں اور بیشتر سڑکوں پر یہ سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں اور چوبیس گھنٹے تمام سرگرمیوں کی ریکارڈنگ کرتے رہتے ہیں۔ پولیس ان تمام کیمروں کی ریکارڈنگ دیکھے گی اور یہ جاننے کی کوشش کرے گی کہ کہاں سے کون کون سوار ہوا اور اس میں مشتبہ افراد کون کون سے ہو سکتے ہیں۔ بم حملوں کے بعد یہ تفتیش واقعی ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہاں کی پولیس، خفیہ ادارے ایم فائیو، ایم آئی سکس اور انسداد دہشت گردی سکواڈ اپنی تمام تر مہارت اور جدید سائنسی ایجادات سے بھی استفادہ کر رہا ہے۔ لندن پولیس کے ہیڈ کوارٹرز کو سکاٹ لینڈ یارڈ کہتے ہیں اور دنیا بھر میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ سکاٹ لینڈ یارڈ جس معاملے میں ہاتھ ڈالتی ہے اسے حل کر کے ہی چھوڑتی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جن مقامات پر بم حملے ہوئے ہیں انہیں اطراف سے بند کر فورنزک انوسٹی گیشن کے نمونے لیے جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جائے وقوعہ پر جو کچھ بھی ہے اس کا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔ اس کے علاوہ پولیس وہ تمام ریکاڈنگ سنے گی جو مشتبہ افراد نے موبائل اور عام ٹیلیفونوں پر کی ہو گی اور جسے ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ای میلز کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ پولیس کو امید ہے کہ وہ ان تمام طریقوں کو استعمال کر کے ملزموں تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ لندن میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد ملزمان کی شناخت اورگرفتاری کیلیے بڑے پیمانے پر تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ جس میں جدید سائنسی طریقوں کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ text: پہلے توقع تھی کہ میلبورن میں کھیلے جانے والے اس ٹیسٹ میچ سے پہلے وہ کھیلنے کے قابل ہوجائیں گے تاہم ڈاکٹروں نے انہیں مزید آرام کا مشورہ دیا ہے۔ انصمام کا کہنا ہے ’مجھے ڈاکٹرز نے تین ہفتے آرام کا مشورہ دیا ہے۔ میری کمر میں کافی تکلیف ہے‘۔ پاکستان کے خلاف پہلا ٹیسٹ آسٹریلیا نے 491 رن سے جیت لیا تھا۔ تاہم اب آسٹریلوی اوپنر جسٹن لینگر کی میچ میں شرکت ان کے ان فٹ ہونے کے باعث غیر یقینی ہے۔ وہ خود یہ میچ کھیلنے کے لیے کافی پرامید ہیں تاہم ابھی اس بارے میں حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اگر وہ بہتر نہ ہوسکے تو ان کی جگہ سائمن کاٹش بطور اوپنر کھیلیں گے جوکہ پاکستان کے لیے ایک حوصلہ افزا خبر ثابت ہوسکتی ہے۔ پاکستانی ٹیم شعیب اختر کے بارے میں آسٹریلوی کھلاڑی گلین میگراتھ کے بیان سے کافی ناخوش تھی جنہوں نے کہا تھا ’انٹرنیشنل کرکٹ میں شعیب اختر سے زیادہ شو مین یا دکھاوے والا کھلاڑی اور کوئی نہیں ہے۔ وہ یوں تو ٹاپ بیٹسمین ہیں تاہم وہ بے کار گیندیں کرانے کی بھی کافی اہلیت رکھتے ہیں۔‘ آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ کا کہنا ہے کہ یہاں کی پچ پرتھ کی نسبت پاکستانی ٹیم کے لیے بہتر ثابت ہوسکتی ہے تاہم ہم پھر بھی یہی سوچ رکھنا چاہیں گے کہ ہمارا پلہ پاکستان سے بھاری ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا ’اگر مخالف ٹیم پاکستانی ٹیم کو دباؤ میں لانے میں کامیاب ہوجائے تو پھر وہ زیادہ بہتر کارکردگی نہیں دکھا سکتے‘۔ پاکستانی ٹیم کے کپتان انضمام الحق ان فٹ ہونے کے باعث آسٹریلیا کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ میں شریک نہیں ہوسکیں گے۔ text: روس نے امریکی اداروں کو خبردار کیا تھا کہ تیمرلان شدت پسند اسلام کی طرف مائل ہو گئے ہیں تیمرلان سارنائیف کا نام اس وقت شامل کیا گیا جب روسی حکام نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ وہ حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ بدھ ہی کے روز ایک امریکی قانون ساز نے تصدیق کی کہ بم ریموٹ کنٹرول سے چلائے گئے تھے۔ حکام نے امریکی میڈیا کو بتایا کہ بموں میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی زیادہ جدید نہیں تھی، اس لیے بموں کو چلانے کے لیے ریموٹ کنٹرول کا قریب ہونا ضروری تھا۔ تیمرلان جمعرات کی رات پولیس مقابلے میں مارے گئے تھے۔ ان کا نام سی آئی اے کی درخواست پر فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ دہشت گردوں کی شناخت کے لیے مرتب کی جانے والی اس فہرست میں پونے آٹھ لاکھ نام موجود ہیں۔ اس سے قبل امریکی خفیہ اداروں کو 15 اپریل کو بوسٹن میں میراتھن دوڑ میں ہونے والوں دھماکوں کی کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی۔ چھ ماہ قبل سی آئی اے کی درخواست پر ان کا نام فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ ایف بی آئی نے روس سے مزید معلومات کی درخواست کی لیکن جب اس کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو اس نے تفتیش بند کر دی۔ بدھ کو ایوانِ نمائندگان کو بند کمرے میں دی جانے والی بریفنگ کے بعد ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینٹیر ڈچ رپرزبرگر نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں اس میں ایف بی آئی کا قصور نہیں تھا۔ انھوں نے نامہ نگاروں کو بتایا، ’آج ہونے والی شہادت کے پیشِ نظر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایف بی آئی نے معلومات ملنے کے بعد ضابطے کے مطابق بالکل وہی کیا جو انھیں کرنا چاہیے تھا۔‘ تیمرلان کے چھوٹے بھائی جوہر سارنائیف پولیس مقابل میں زخمی ہو گئے تھے۔ ان کا ہسپتال میں علاج ہو رہا ہے جہاں ان کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔ بھائیوں کی والدہ زبیدہ سارنائیف امریکہ پہنچ رہی ہیں حکام نے پہلے کہا تھا کہ انھوں نے پکڑے جانے سے قبل پولیس کے ساتھ ایک گھنٹے تک فائرنگ کا تبادلہ کیا تھا لیکن ایسوسی ایٹڈ پریس نے بدھ کے روز خبر دی ہے کہ جوہر غیر مسلح تھے۔ اے پی کے مطابق حکام کو اس کشتی میں کوئی ہتھیار نہیں ملا جہاں سے جوہر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم اس جگہ سے ایک نو ملی میٹر کا پستول ملا تھا جہاں سے تیمرلان نے مبینہ طور پر ایک پولیس اہلکار کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ حکام نے کہا ہے کہ جوہر نے ہسپتال میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ اور ان کے بھائی عراق اور افغانستان میں امریکی جنگوں پر برہم تھے۔ تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ ان بھائیوں کا کسی جنگ جو تنظیم سے براہِ راست تعلق نہیں تھا۔ خیال ہے کہ یہ دنوں آن لائن مواد کی وجہ سے شدت پسندی کی طرف مائل ہو گئے تھے۔ روسی میڈیا نے خبر دی ہے کہ ان کے والدین، انزور سارنائیف اور زبیدہ، جمعرات کو امریکہ پہنچیں گے۔ سارنائیف خاندان کا تعلق مسلم اکثریتی آبادی والی روسی ریاست چیچنیا سے ہے۔ حکام نے بتایا ہے کہ امریکی حکومت نے بوسٹن بم دھماکوں کے ملزم تیمرلان سارنائیف کا نام ڈیڑھ سال قبل انسدادِ دہشت گردی کے ڈیٹا بیس میں شامل کیا گیا تھا۔ text: ’میں نے رات کو بے چینی کے عالم میں اسے خواب میں دیکھا تھا اور صبح اٹھ کر میں اسے دفتر جانے سے روکنا چاہتا تھا لیکن۔۔۔۔۔۔’ عامر کے والد کی یہ حسرت دل میں ہی رہ گئی کیونکہ عامر اب کبھی دفتر نہیں جائے گا۔ پیر کے روز جب آخری مرتبہ وہ دفتر گیا تو ڈنمارک کے سفارتخانے کے باہر ہونے والے بم دھماکے کا نشانہ بن گیا۔ چھبیس سالہ عامر سات بھائیوں میں پانچویں نمبر پر تھا اور تین برس سے ایف سکس کی گلی نمبر اکیس میں واقع قومی تعمیر نو بیورو کے سابق سربراہ دانیال عزیز کی غیر سرکاری تنظیم ڈی ٹی سی ای میں خاکروب کے طور پر ملازم تھا۔ دو جون کی تباہی کا منظر پیش کرتی اس گلی سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ’سو کوارٹر‘ نامی کچی بستی کی ایک بیٹھک میں چوہدری پیارا مسیح بیٹے کی موت پر لوگوں سے تعزیت وصول کر رہے ہیں۔ گھر اور دفتر میں زیادہ فاصلہ نہیں تھا اس لئے عامر دس بجے کے قریب صبح کے ناشتے کے لئے دوبارہ گھر آتا تھا۔ ’میں نے سوچا ناشتے کے لئے آئے گا تو روک لوں گا۔ لیکن جب وہ آیا تو میں گھر پر نہیں تھا۔ اس کے آنے کے وقت میں گھر پہنچا تو وہ ایک بار پھر جا چکا تھا۔‘ اور اس بار عامر ہمیشہ کے لئے چلا گیا تھا۔ شاہد محمود، ظفر اقبال، محمد ناصر، امین شوکت اور منتظر کی طرح عامر مسیح گل بھی ڈنمارک کا شہری نہیں ہے۔ عامر خاکروب تھا۔ باقی پانچ میں سے دو چوکیدار، دو پولیس کانسٹیبل اور ایک غالبًا راہگیر۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ بم دھماکے کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل کرنے والوں کا نشانہ چوک گیا ہو۔ اگر ان بائیس بم دھماکوں میں مرنے والوں کے نام پتے کھنگالنے شروع کریں تو سینکڑوں کی اس فہرست میں ترکی کی ایک نرس کے علاوہ کوئی غیر ملکی شامل نہیں ہے۔ رشیدہ بی بی گزشتہ برس چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی مہم کے سلسلے میں ہونے والے جلسے میں شرکت کرنے گئی تھی لیکن سو کوارٹر میں بھی اس کی لاش ہی پہنچی تھی۔ اس دوران جن فوجی تنصیبات اور قافلوں کو نشانہ بنایا گیا ان میں مرنے والے بھی بے نام اور ’لو رینک’ جوان ہی رہے ہیں۔ ماسوائے لیفٹنٹ جنرل مشتاق بیگ کے جو راولپنڈی کے سی ایم ایچ ہسپتال کے غیر فوجی مریضوں میں بھی’مسیحا‘ کے طور پر مشہور تھے۔ اپنی عمر کے لحاظ سے سنجیدہ اور کم گو عامر مسیح گل کے گھر میں شادی کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ اس کے والد بستی کی بیٹھک میں تعزیت کرنے والوں کو بتا رہے ہیں کہ اسکے لئے لڑکی کی تلاش جاری تھی اور ایک آدھ جگہ بات بھی چل رہی تھی۔ اور پھر ڈنمارک ایمبیسی کے باہر دھماکہ ہو گیا۔ پیر دو جون کی اس صبح عامر مسیح گل کے والد نے اسے خواہش کے باوجود دفتر سے چھٹی کرنے کی ہدایت نہیں کر سکے اور یہی اب چوہدری پیارا کی زندگی کا پچھتاوا بن گیا ہے۔ text: حال ہی میں واٹس ایپ نے اپنے پیغامات کی اینڈ ٹو اینڈ انسكرپشن کرنا شروع کر دی۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی تیسری پارٹی دو لوگوں کے درمیان بھیجے جانے والے پیغامات کو پڑھ نہیں سکتی۔ واٹس ایپ نے کہا ہے: 'جب آپ کا پیغام اینڈ ٹو اینڈ انسكرپٹ ہوتا ہے تو آپ کے پیغامات، تصاویر، ویڈیوز، وائس میسیجز، ڈاکیومنٹس، سٹیٹس اپ ڈیٹ اور کال غلط ہاتھوں میں جانے سے بچ جاتی ہے۔ 'واٹس ایپ کے اینڈ ٹو اینڈ انسكرپشن سے آپ اور آپ جسے پیغام بھیج رہے ہیں، صرف وہی بات چیت کر پائیں گے، دوسروں کوئی نہیں، وٹس ایپ بھی نہیں۔' 'آپ کا پیغام ایک تالے کی مدد سے محفوظ ہے، صرف آپ اور آپ جسے پیغام بھیج رہے ہیں، ان کے پاس اس تالے کو کھولنے اور پیغام پڑھنے کی خصوصی چابی ہے۔ زیادہ سے زیادہ تحفظ کے لیے ہر بھیجے جانے والے پیغام کے لیے مختلف تالے اور چابیاں ہوتی ہیں۔' ایسی صورت میں جب کوئی غلط اکسانے والا پیغام یا ویڈیو وائرل ہو جاتی ہے جسے روکا جانا چاہیے کیا یہ کھوج لگانا ممکن ہے کہ اس ویڈیو یا پیغام کو سب سے پہلے واٹس ایپ میں کس نے ڈالا، اس کا ذریعہ کیا تھا؟ فیس بک کے ایک ترجمان نے اس بارے میں تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پتہ لگانا ممکن نہیں ہے کہ کسی ویڈیو کو کس نے اور کہاں سب سے پہلے وٹس ایپ میں ڈالا۔ وجہ ظاہر ہے، کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ڈیٹا سرور کو بچا کر نہیں رکھتی۔ کمپیوٹر ہیکر رضوان شیخ کو بھی کمپنی کی بات پر یقین ہے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر سکیورٹی ایجنسیاں چاہیں تو وہ یہ سراغ لگا سکتی ہیں کہ میسج کس کس موبائل پر گیا اور اسے آگے فارورڈ کیا گیا، لیکن وسائل کی کمی کی وجہ ہر بار ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں: 'ایک پیغام وٹس ایپ اپلیکیشن پر چند گھنٹوں میں وائرل ہو جاتا ہے۔ اگر آپ پیغام کو پھیلنے سے روکنا چاہتے ہیں یا تلاش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کہاں سے آیا، تو ایسا کرنے کے لیے ابتدائی گھنٹے میں ہی کارروائی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔' وٹس ایپ نے زبان کی حدیں بھی توڑ ڈالی ہیں۔ ویڈیو گرافکس کے ذریعے پیغام تیزی سے پھیل جاتے ہیں۔ سنہ 2015 میں خبر آئی کہ انڈین ایئر فورس کا ایک طیارہ گر کر تباہ ہو گیا ہے۔ پولیس نے چترکوٹ کے ارد گرد کے دس کلو میٹر کے حصے کو چھان مارا لیکن کچھ نہیں چلا. تب پولیس کو شک ہوا کہ یہ خبر جھوٹی تھی۔ چترکوٹ کے اس وقت کے ایس پی پون کمار نے بتایا کہ یہ بات وٹس ایپ میں ایک تصویر کی وجہ سے پھیلی۔ مقامی صحافی ضمیر اگروال کہتے ہیں کہ خبر کرنے کی جلدی کی وجہ سے کسی نے بھی اس کے درست ہونے کی تفتیش نہیں کی۔ کمار بتاتے ہیں کہ یہ تصویر دراصل مدھیہ پردیش سے آئی تھی۔ ایک اور صحافی، جس نے اس حوالے سے خبر چلائی، کے مطابق یہ تصویر راجستھان سے آئی تھی۔ ایسی صورت میں یہ معلوم کرنا كي کسی تصویر یا ویڈیو کی اصل کہاں سے ہوئی، انتہائی مشکل ہے۔ سینٹر آف انٹرنیٹ اینڈ سوسائٹی کے سنیل ابراہیم کے پاس وٹس ایپ سے منسلک کچھ سوالات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فریقین کے درمیان تو اینڈ ٹو اینڈ انسكرپشن سب سے بہتر کام کرتا ہے لیکن گروپ بات چیت میں کیا ہوتا ہے؟ 'دو فریقین کے درمیان اینڈ ٹو اینڈ انسكرپشن سب سے بہتر کام کرتا ہے تاہم ایک گروپ میں ایک پیغام کو کئی اطراف بھیجا جاتا ہے۔ مجھے یہ یقین کرنے میں پریشانی ہے کہ ایک پیغام کو جب 100 ارکان پر مشتمل گروپ میں بھیجا جاتا ہے تو وہ پیغام 100 بار خفیہ ہوتا ہے اور پھر گروپ کے ہر رکن کو حاصل ہوتا ہے، مجھے نہیں لگتا کہ یہ ٹیکنالوجی اس طرح کام کرتی ہے۔' ان کا خیال ہے کہ وٹس ایپ کے پاس اس سوال کے جواب ہونے چاہییں۔ این ڈی ٹی وی کے مطابق وٹس ایپ نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر نشر کیے جانے والے جنسی تشدد کے ویڈیو اپنی سروس پر نشر ہونے سے روکنے کے لیے مدد کرے گا۔ اینڈ ٹو اینڈ انسكرپشن کے ماحول میں یہ کیسے ہو گا، یہ واضح نہیں ہے۔ واٹس ایپ اپلیکیشن صارفین کو پیغام، آڈیو اور ویڈیو کالز بھیجنے کے علاوہ، تصاویر، ویڈیوز اور اپنی لوکیشن دکھانے کی اجازت دیتی ہے۔ text: بیان کے مطابق اس واقعے میں کوئی شہری یا اتحادی فوجی زخمی نہیں ہوا۔ طالبان ہلاکتوں کا یہ واقعہ جلال آباد کے جنوب میں واقع پہاڑی علاقے میں اس وقت پیش آیا جب افغان اور اتحادی افواج نے ایک ایسے مکان کوگھیرے میں لینے کی کوشش کی جس پر شبہ تھا کہ وہ طالبان جنگجوؤں کی کمین گاہ ہے۔ اس موقع پر اتحادی فوج کے جوانوں پر فائرنگ کی گئی اور جوابی فائرنگ سے چھ طالبان ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا۔ دریں اثناء اتحادی اور افغان فوج نے خوست میں دو علیحدہ علیحدہ واقعات میں تین مشتبہ طالبان شدت پسندوں کو گرفتار کر لیا۔ اتحادی فوج کے مطابق ان افراد سے شدت پسندی کی کارروائیوں کے حوالے سے تفتیش کی جائے گی۔ اتحادی فوج کے ترجمان میجر کرس بیلچر کے مطابق’ ہم ان شدت پسندوں کو تلاش کر کے گرفتار کرتے رہیں گے جو افغانستان میں قیامِ امن اور ترقی کے دشمن ہیں‘۔ یاد رہے کہ اس وقت افغانستان میں تیس ہزار اتحادی اور دس ہزار امریکی فوجی طالبان اور القاعدہ کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ افغانستان میں اتحادی فوج کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق امریکی اور افغان افواج نے جلال آباد کے نزدیک چھ مشتبہ طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا ہے۔ text: جی ایٹ کے رہنماؤں کی جرمنی میں آمد سے قبل ہی امریکہ نے انکار کردیا ہے کہ وہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کم کرنے کے کسی ایسے معاہدے پر دستخط کرے گا جس کے اہداف سخت ہیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار جیمز روبِنس کا کہنا ہے کہ دنیا کے طاقتور رہنماؤں کی ملاقاتیں مشکل ہوتی ہیں لیکن یہ ملاقات کچھ زیادہ ہی مشکل ہے۔ روس نے دھمکی دی ہے کہ اگر امریکہ پولینڈ اور چیکوسلواکیہ میں اپنا میزائل شیلڈ قائم کرتا ہے تو یورپ بھی روسی میزائلوں کے نشانے پر ہوگا۔ جرمنی پہنچنے پر صدر جارج بش نے امریکی موقف میں نرمی دکھانے کی کوشش کی۔ صدر بش نے جرمنی پہنچنے سے قبل روسی صدر ولادمیر پوتن پر تنقید کی تھی کہ وہ روس میں اصلاحات کی کوششوں کو کچل رہے ہیں۔ لیکن جرمنی پہنچنے پر اپنے موقف میں نرمی اپناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سوویت یونین کے دور سے روسی معاشرہ کافی آگے بڑھ گیا ہے۔ امریکی صدر جی ایٹ کانفرنس کے دوران روسی صدر ولادمیر پوتن سے علیحدہ بھی ملاقات کرنے والے ہیں اور امید کی جارہی ہے کہ وہ انہیں یقین دلانے کی کوشش کرینگے کہ یورپ میں امریکی میزائل شیلڈ سے روس کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ صدر پوتن نے اس موقف کو مسترد کردیا ہے کہ میزائل شیلڈ کا مقصد ایران اور شمالی کوریا سے یورپ کا دفاع ہے۔ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے بھی بدھ کے روز اس موضوع کو چھیڑتے ہوئے کہا کہ روس کے لیے مغرب کے ساتھ بہتر تعلقات کی ضرورت ہے اور وہ روسی صدر سے یورپ اور روس کے تعلقات کی حالت کے بارے میں ’کھلی گفتگو‘ کرینگے۔ جی ایٹ کے سربراہی اجلاس کے ایجنڈے پر دوسرا اہم موضوع ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق ایک معاہدے پر اتفاق کرنا ہے۔ لیکن صدر جارج بش کے جرمنی پہنچنے سے قبل ہی ان کے ایک ترجمان نے یہ کہا کہ اگرچہ ایسے معاہدے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے لیکن امریکہ کو اس بات پر یقین نہیں ہے کہ جی ایٹ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے متعلق کوئی اہداف طے کرے گا۔ اجلاس کے موقع پرگلوبلائزیشن مخالف کئی ہزار مظاہرین اکٹھا ہیں۔ لگ بھگ چھ ہزار مظاہرین سے نمٹنے کے لیے تقریبا سولہ ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ جی ایٹ ممالک کے سربراہی اجلاس کے ایجنڈے پر جمعرات کو روس اور مغرب کے تعلقات اور ماحولیاتی تبدیلی پر اختلافات سرفہرست ہیں۔ text: تھائی لینڈ میں گزشتہ ہفتے بھی ایک شخص اس بیماری سے ہلاک ہو گیا تھا۔ تھائی لینڈ کے علاوہ ویتنام میں بھی اب تک چھ افراد اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔ تاز ترین اطلاعات کے مطابق مشرقی بعید میں مرغیوں میں پھیلنے والی بیماری نے انڈونشیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ایک سرکاری اعلان کے مطابق ملک میں بیس لاکھ مرغیاں اس بیماری میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوچکی ہیں۔ تاہم ابھی اس بات کی حتمی طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ آیا یہ وہی ’برڈ فلو‘ نامی بیماری ہے یا انڈونشیا میں مرنے والی مرغیوں کو کوئی اور بیماری لاحق ہو گئی ہے۔ انڈونشیا میں مرنے والی مرغیوں پر کئے جانے والی لیبارٹری تجزیوں کی رپورٹ منگل کو موصول ہو گی جس کے بعد حتمی طور پر بیماری کی نشاندھی ہو سکے گی۔ مشرق بعید کے ملکوں میں مرغیوں میں پھیلنے والی برڈ فلو نامی بیماری کی نوعیت مختلف ملکوں میں مختلف ہے۔ ان میں زیادہ سنگین بیماری کے جراثیم کچھ ملکوں میں لوگوں میں بھی پھیل گئے ہیں اور ان سے کچھ لوگوں کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ ویتنام میں اس بیماری میں مبتلا ہو کر اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ تھائی لینڈ میں بھی ایک شخص اس بیماری سے ہلاک ہو چکا ہے ۔ تاہم انڈونشیا میں حکام نے کہا ہے کہ انھیں اب تک اس بیماری سے کسی شخص کے ہلاک ہونے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ تھائی لینڈ کے دارالحکومت بینک کاک میں ایک چھ سالہ بچہ برڈ فلو نامی بیماری میں مبتلا ہوکر ہلاک ہو گیا ہے۔ text: چوہدری نثار علی خان اس حوالے سے رپورٹ وزیراعظم محمد نواز شریف کو پیش کریں گے وزیرِ اعظم ہاؤس سے جمعے کی شام جاری ہونے والے بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بھارت جانے یا نہ جانے کے بارے میں فیصلہ اس رپورٹ کی روشنی میں کیا جائے گا۔ بیان کے مطابق نواز شریف نے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کے دوران انھیں کہا کہ دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر سے رابطہ کر کے ٹیم کی فول پروف سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔ نواز شریف سے ملاقات سے قبل چوہدری نثار نے بھی کہا تھا کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم فول پروف سکیورٹی کی ضمانت ملنے پر ہی بھارت جائے گی۔ خیال رہے کہ گذشتہ ماہ وفاقی حکومت نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو رواں ماہ کھیلے جانے والے عالمی ٹی 20 کرکٹ ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے قومی ٹیم کو بھارت بھیجنے کی اجازت دے دی تھی۔ تاہم ہماچل پردیش کی ریاستی حکومت نے بھارت اور پاکستان کے درمیان 19 مارچ کو دھرم شالہ میں ہونے والے عالمی کپ کے میچ میں پاکستانی ٹیم کو سکیورٹی دینے سے معذرت کی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان 19 مارچ کو ہماچل پردیش کے شہر دھرم شالہ میں شیڈول کیا گیا ہے ہماچل پردیش میں کانگریس کی حکومت ہے اور پارٹی کے ایک سینیئر وزیر جی ایس بالی بھی یہ اعلان کرچکے ہیں کہ اگر دھرم شالہ سے میچ منتقل نہیں کیا گیا تو وہ اس کے خلاف تحریک شروع کریں گے۔ اس سے قبل ریاست کے وزیر اعلیٰ ویر بھدر سنگھ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس علاقے میں بڑی تعداد میں آباد سابق فوجی میچ کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ پٹھان کوٹ کی ایئر بیس پر شدت پسندوں کے حملے میں مارے جانے والے دو فوجیوں کا تعلق اسی علاقے سے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’علاقے میں بہت ناراضی ہے اور ہمارے لیے سکیورٹی فراہم کرنا بہت مشکل ہوگا۔۔۔اس علاقے میں رہنے والے فوجیوں کا مطالبہ ہے کہ پاکستان کا میچ یہاں نہ ہو۔‘ خیال رہے کہ یہ غیر معمولی صورتحال ہے کیونکہ یہ شاید پہلی مرتبہ ہے کہ کانگریس کی کوئی ریاستی حکومت بھارت اور پاکستان کے درمیان میچ کی مخالفت کر رہی ہے۔ بظاہر یہ فیصلہ آئی سی سی سے صلاح مشورے کے بعد بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ کو کرنا ہوگا، لیکن حتمی فیصلہ بھارتی وزارت داخلہ کی جانب سے ہی کیا جائے گا۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے وزارتِ داخلہ کو ایک ایڈوانس سکیورٹی ٹیم بھارت بھیجنے کی ہدایت کی ہے جو ورلڈ ٹی 20 مقابلوں کے دوران پاکستانی کرکٹ ٹیم کی سکیورٹی کے بارے میں رپورٹ تیار کرے گی۔ text: گزشتہ آٹھ دنوں میں یہ خلا میں دوسری چہل قدمی تھی اطالوی خلا باز لوکا پارمیتانو کے ہیلمٹ سے پانی کا اخراج اتنا نقصان دہ تھا کہ وہ خلا میں چہل قدمی کے دوران قوتِ سماعت اور گویائی سے محروم ہو گئے تھے۔ جس کے بعد انھوں نے اپنے ساتھی خلا باز کریسٹوفر کیسیڈی سے واپس خلائی سٹیشن کے اندر پہچنے کے لیے مدد مانگی۔ کیسیڈی نے زمین پر موجود کنٹرولر کو بتایا کہ ’وہ کافی پریشان دکھائی دے رہے تھے لیکن اب صحیح ہیں۔‘ ہیلمٹ سے نکلنے والے پانی کی وجہ فوری طور پر معلوم نہیں ہو سکی ہے لیکن خیال کیا جا رہا ہے کہ پانی ہیلمٹ کے ’ ڈرنک بیگ‘ سے نکلا ہے۔ پارمیتانو کے ساتھیوں نے جھٹکے سے اُن کا ہیلمٹ اتارا تو اُس میں پانی بہت زیادہ تھا۔ ناسا خلا میں چہل قدمی کا دورانیہ شاذ ونادر ہی کم کرتا ہے لیکن ہیملٹ میں پانی آنے سے اطالوی خلا باز کے لیے سانس لینا دشوار ہو گیا تھا۔ پارمیتانو نے بتایا کہ اُنھیں اپنے سر کے پیچھے بہت سا پانی محسوس ہو رہا ہے۔ پہلے تو اُن کا خیال تھا کہ نمی پسینے کی وجہ سے محسوس ہو رہی ہے لیکن بعد میں پانی بڑھتا ہوا اُن کی آنکھ تک پہنچ گیا۔ اس مسئلے کی وجہ سے خلائی سٹیشن کی معمول کی دیکھ بھال اور تاروں کے نیٹ ورک کے لیے خلا میں چھ گھنٹے تک کی چہل قدمی کا منصوبہ ایک گھنٹے کے بعد ہی روکنا پڑا۔ ابتدائی اندازے کے مطابق تقریباً آدھا لیٹر پانی خارج ہوا ہے۔ لوکا پارمیتانو ایک ماہ قبل سپیس سٹیشن پر آئے تھے اور وہ پہلے اطالوی خلا باز ہیں جنہوں نے خلا میں چہل قدمی کی ہے۔ خلائی ادارے ناسا کے بین الااقوامی خلائی سٹیشن پر ایک خلا باز کے ہیلمٹ سے پانی خارج ہونے کے بعد خلا میں چہل قدمی روک دی گئ ہے۔ text: انٹیلی جنس ادارے جو کچھ کرنے کے قابل ہیں ضروری نہیں کہ وہ سب کچھ کریں بھی: اوباما سینیٹر ڈائین فائن سٹائن نے پیر کو اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اپنے دوست ممالک کے رہنماؤں کی جاسوسی کیا جانا صحیح نہیں اور صدر کی اتحادی ممالک کے رہنماؤں کی جاسوسی کے آپریشنز سے لاعلمی بڑا مسئلہ ہے۔ ’اوباما کو میرکل کی نگرانی پر بریفنگ نہیں دی‘ ’امریکہ ہسپانوی شہریوں کی نگرانی کی تفصیلات دے‘ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وائٹ ہاؤس نے انہیں یقین دلایا ہے کہ اس قسم کی تمام جاسوسی روک دی جائے گی۔ یہ بیان سی آئی اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے افشا کی جانے والی نئی دستاویزات سے سامنے آیا ہے جن کے مطابق امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی جرمن چانسلر سمیت 34 عالمی رہنماؤں کی نگرانی کرتی رہی ہے۔ امریکہ میں صدارتی دفتر وائٹ ہاؤس پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ عالمی رہنماؤں کی جاسوسی کی اطلاعات اور صدر اوباما کی ان آپریشنز سے بظاہر لاعلمی کے معاملے پر وضاحت کرے۔ واشنگٹن میں موجود یورپی یونین کے وفد میں شامل ایک مندوب نے خفیہ معلومات کے حصول کی کوششوں کو ’اعتماد کا فقدان‘ قرار دیا ہے۔ امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی سربراہ کا کہنا تھا کہ امریکی صدر براک اوباما کو اس کارروائی کی اطلاع نہ ہونا بھی غلط ہے۔ بظاہر امریکی صدر رواں موسمِ گرما تک اس سے لاعلم تھے کہ امریکی خفیہ ادارے جرمنی کی چانسلر کے فون کی نگرانی کر رہے ہیں اور یہ عمل ایک دہائی سے جاری ہے۔ فائن سٹائن نے کہا کہ جہاں انٹیلی جنس کمیٹی کو ٹیلیفون ریکارڈز جمع کرنے جیسے معاملات کے بارے میں مطلع کیا جاتا رہا ہے، وہیں قومی سلامتی ایجنسی کے حکام نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ وہ عالمی رہنماؤں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ بیان میں ڈائین فائن سٹائن نے کہا کہ ’این ایس اے کی جانب سے فرانس، سپین، میکسیکو اور جرمنی جیسے امریکہ کے اتحادی ممالک کے رہنماؤں کے بارے میں خفیہ معلومات کے حصول کے تناظر میں، میں واضح کرنا چاہتی ہوں کہ میں اس کے بالکل خلاف ہوں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو ہنگامی حالات میں صدر کی مرضی کے بغیر ’دوست ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کی ٹیلیفون کالز اور ای میل جمع نہیں کرنی چاہییں۔‘ ادھر پیر کی شب ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں صدر اوباما نے بھی کہا ہے کہ قومی سلامتی کی کارروائیوں کا دوبارہ جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی جاسوسی کی تکنیکی صلاحیتیں حد میں رہیں۔ اے بی سی گروپ کے فیوژن نیٹ ورک سے بات کرتے ہوئے براک اوباما کا کہنا تھا کہ ’ہم انہیں پالیسی ہدایات فراہم کرتے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ’تاہم ہم نے گزشتہ چند برسوں میں دیکھا ہے کہ ان کی صلاحیتوں میں بہتری آئی ہے اور اضافہ ہوا ہے اور اسی لیے میں اب ایک جائزہ لینے کا عمل شروع کروا رہا ہوں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ جو کچھ کرنے کے قابل ہیں ضروری نہیں کہ وہ سب کچھ کریں بھی۔‘ براک اوباما نے اس بات چیت میں اتحادی ممالک کے رہنماؤں کی جاسوسی کے الزامات پر تبصرہ نہیں کیا۔ اوباما انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ نگرانی کے عمل میں انفرادی سطح پر تو تبدیلیاں ممکن ہیں لیکن اتحادیوں کے بارے میں خفیہ معلومات کے حصول کی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی۔ اس سے قبل وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا تھا کہ خفیہ معلومات کی حصول کے نظام کی ایک حد مقرر ہونی چاہیے۔ جے کارنی نے پیر کو واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملکی انٹیلی جنس پالیسی پر نظرِ ثانی جاری ہے اور اس میں دوسروں کی رازداری اور ذاتیات کے خدشات کو مد نظر رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ سمجھتی ہے کہ ’ہمیں انٹیلی جنس جمع کرنے اور اس کے استعمال کے لیے ایک حد مقرر کرنے کی ضرورت ہے‘۔ کارنی نے وضاحت کی کہ امریکہ نے اپنی انٹیلی جنس جمع کرنے کی صلاحیت کو کبھی اپنی معیشت کے مفاد کے لیے استعمال نہیں کیا۔ ترجمان نے کہا کہ ’ہمیں یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے انٹیلی جنس ذرائع ہماری خارجہ پالیسی اور قومی تحفظ کی پالیسیوں کے مقاصد سے ہم آہنگ ہوں۔ ہم اپنے اقدامات کے خطرات اور ثمرات کو زیادہ اچھی طرح جانچ رہے ہیں‘۔ جے کارنی نے مزید کہا کہ ’امریکہ کی انٹیلی جنس ذرائع پر جامع نظرِ ثانی کا عمل جاری ہے اور توقع ہے کہ اس میں انتظامیہ کا تعاون بھی رہے گا تاکہ ہمارے شہریوں اور اتحادیوں دونوں کے تحفّظ اور رازداری کے خدشات کو خیال رکھا جا سکے‘۔ دریں اثناء نگرانی کے معاملات پر یورپی پارلیمان کی شخصی آزادی کی کمیٹی کے ارکان نے بھی امریکی کانگریس کے ارکان سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں یورپی ارکانِ پارلیمان نے امریکی ارکان کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا اور وضاحت بھی طلب کی ہے۔ امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی سربراہ نے جاسوسی کی کارروائیوں کا مفصل جائزہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ text: اعتزاز احسن چیف جسٹس پاکستان مسٹرجسٹس افتخار محمد چودھری کے وکیل رہ چکے ہیں جبکہ ان دنوں صدر جنرل پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی کے خلاف وکلاء کے صدارتی امیدوار جسٹس (ر) وجیہہ الدین کی درخواست کی پیروی کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ارکان میں ملک بھر سے پندرہ سو بیس چوٹی کے وکلاء شامل ہیں جن میں ایک ہزار دو سودس وکلاء نے سپریم کورٹ بار کی نئی قیادت کے چناؤ کے لیے ووٹ ڈالے۔ سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات میں صدارت کے منصب کے لیے ہرسال چاروں صوبوں میں سے ایک صوبے کی باری ہوتی ہے اور اس مرتبہ پنجاب کی باری تھی۔ اعتزاز احسن آٹھ سو چونسٹھ ووٹوں کی تاریخ ساز برتری سے سپریم کورٹ بار کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ سینچر کو ہونے والے انتخابات میں معروف قانون دان حامد خان کی قیادت میں قائم پروفیشنل گروپ کے امیدوار اعتزاز احسن نے ایک ہزار انتالیس ہ ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مدمقابل امیدوار بیرسٹر ظفراللہ خان ایک سو پچھتر ووٹوں ملے۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق نو منتخب عہدیداروں میں صدر کے عہدے پر اعتزاز احسن جبکہ نائب صدر( پنجاب ) غلام نبی بھٹی، نائب صدر( سندھ ) امدار اعوان ، نائب صدر(سرحد )سعید اختر اور نائب صدر( بلوچستان ) سخی سلطان، سیکرٹری امین جاوید میاں، ایڈیشنل سیکرٹری عبدالرشید اعوان شامل ہیں۔ سیکرٹری خزانہ کے عہدے پر ظہیر قادری پہلے ہی بلا مقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر حامد خان کے پروفیشنل گروپ کے مخالف سرکردہ کسی بھی وکلاء گروپ نے صدارت کے عہدے پر اعتزاز احسن کے مدمقابل باضابطہ طور پر کوئی امیدوار نامزد نہیں کیا تھا۔ سپریم کورٹ بار کے سبکدوش ہونے صدر منیر اے ملک اور پاکستان بارکونسل کے سابق وائس چیئرمین علی احمد کرد کا تعلق بھی پروفیشنل گروپ سے ہے۔ اعتزاز احسن پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ہیں جبکہ پارٹی کے سربراہ بینظیر بھٹو نے اعتزاز احسن کو لاہور کے قومی اسمبلی کے انتخابی حلقہ ایک سو چوبیس پارٹی کاامیدوار نامزد کیا ہے۔ لاہور میں نتائج کے اعلان ہوتے ہی وکلاء نے گو مشرف گو کے نعرے لگائے۔ سپریم کورٹ بار کےنومنتخب صدر اعتزاز احسن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان نتائج سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انتخابات میں حکومت بری طرح ہار گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف میری جیت نہیں بلکہ صدر جنرل پرویز مشرف کی ایک پسپائی ہے۔ ان کے بقول حکومت نے انتخابات کے لیے جتنی کوشش کی تھی اس کے نتائج صدر مشرف کے لیے لحمہ فکریہ ہیں۔ پاکستان کے سینئر وکلاء کی نمائندہ تنظیم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے نامور قانون دان اور سابق وزیر داخلہ بیرسٹر اعتزاز احسن کو ایسوسی ایشن کا نیا صدر منتخب کرلیا ہے۔ text: پاکستان ٹینس فیڈریشن کے جوائنٹ سیکرٹری خالد رحمانی کے مطابق پہلا ٹورنامنٹ کلے کورٹ پر اسلام آباد میں ہوگا۔ اگلے دو ٹورنامنٹس لاہور میں گراس کورٹ پر کھیلے جائیں گے جبکہ کراچی میں ہارڈ کورٹ پر ماسٹر ٹورنامنٹ کھیلا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ہر ٹورنامنٹ کی انعامی رقم چھ ہزار دوسوپچاس ڈالرز ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان مقابلوں کے ذریعے پاکستانی کھلاڑیوں کو اپنی عالمی رینکنگ بہتر کرنے کا موقع ملے گا۔ سرکٹ کے ہر ٹورنامنٹ میں32 کھلاڑی حصہ لیں گے جن میں پاکستان کو چار وائلڈ کارڈ انٹریز دی گئی ہیں چار کھلاڑی کوالیفائنگ راؤنڈز میں شریک ہونگے جبکہ آئی ٹی ایف سیٹلائٹ سرکٹ میں پاکستان کے تین کھلاڑی اعصام الحق، عقیل خان اور شہزاد خان اپنی عمدہ کارکردگی کی بناء پر براہ راست حصہ لیں گے۔ عقیل خان نے حال ہی میں دہلی میں آئی ٹی ایف سرکٹ ٹورنامنٹ کا فائنل کھیلا ہے۔ پہلے تین ٹورنامنٹس کی کارکردگی کی بنیاد پر ماسٹر ٹورنامنٹ کے لئے24 کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جائے گا۔ بقیہ 8 کھلاڑی حسب معمول کوالیفائنگ راؤنڈز کے ذریعے فائنل راؤنڈز تک پہنچیں گے۔ پاکستان ٹینس فیڈریشن کو بھارت کے سات کھلاڑیوں کی انٹریز موصول ہوگئی ہیں انٹریز کی آخری تاریخ26 جولائی ہے۔ پاکستان کو آٹھ سال بعد آئی ٹی ایف سیٹلائٹ سرکٹ کی میزبانی ملی ہے۔1996 میں کراچی میں کھیلا گیا ماسٹر ٹینس ٹورنامنٹ اٹلی کے ٹلمین نے جیتا تھا۔ پاکستان ٹینس فیڈریشن اس سال ملک میں ان چار انٹرنیشنل ٹورنامنٹس کے علاوہ کراچی میں25 ستمبر سے4 اکتوبرتک آئی ٹی ایف کے دو انٹرنیشنل ٹورنامنٹس اور 15 سے20 ستمبرتک بین الاقوامی ویٹرنز ٹورنامنٹ کی بھی میزبانی کرے گی۔ انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن کا سیٹلائٹ سرکٹ آئندہ ماہ پاکستان میں منعقد ہوگا۔ سرکٹ کے چار ٹورنامنٹس جن میں ماسٹر ایونٹ بھی شامل ہے 8 اگست سے8 ستمبر تک کھیلے جائیں گے۔ text: نصیر ترابی 'وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی' یہ مقبول غزل تقریباً سب نے ہی سن رکھی ہو گی۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کے مصنف نصیر ترابی تھے۔ سنہ 2011 میں ہم ٹی وی پر نشر ہونے والے مقبول ڈرامے 'ہم سفر' نے زبردست مقبولیت حاصل کی جبکہ اس ڈرامے کا ساؤنڈ ٹریک آج بھی ہر کسی کو ذہن نشین ہو گا۔ نصیر ترابی کی اس غزل کو ڈرامے کے ساؤنڈ ٹریک کے حصے کے طور پر استعمال کیا گیا اور مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچا۔ وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت بچھٹرنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی اگر اس غزل کے الفاظ اور ڈرامہ سیریل ہم سفر کی کہانی کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ غزل اس ڈرامے کے لیے ہی لکھی گئی ہو، جو دو ایسے ہی کرداروں کی کہانی پر مشتمل تھا، جو ایک دوسرے کی زندگی کا حصہ تو تھے لیکن ان زندگی میں مشکلات اور غلط فہمیوں کے باعث وہ ایک دوسرے سے الگ ہونے پر مجبور ہوئے۔ یہ غزل بنگلہ دیش کے قیام کے پس منظر میں لکھی گئی تھی 'وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی' غزل مشہور ہونے کے بعد دیکھا گیا کہ جب بھی نصیر ترابی کسی تقریب میں شرکت کرتے تو شرکا ان سے یہ غزل پڑھنے کی فرمائش کیا کرتے تھے۔ جبکہ آج بھی بہت سے لوگ، خصوصاً نوجوانوں کے لیے اس کی پہچان ڈرامہ ’ہم سفر‘ ہی ہے۔ یہ بھی پڑھیے 'اردو میں سوائے محبت کے کچھ نہیں' شاعری کی نئی صنف عشرے کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سندھ کے انقلابی شاعر جنھیں انڈین وزیراعظم نے ’چندر شیکھر‘ کا لقب دیا تاہم اس کے پس منظر پر نظر ڈالی جائے تو نصیر ترابی نے یہ غزل بنگلہ دیش کے قیام کے بعد لکھی تھی۔ اس بارے میں تجزیہ کار وسعت اللہ خان کا کہنا تھا کہ غزل ہمیشہ اسی انداز میں لکھی جاتی ہے۔ براہ راست باتیں نظموں میں کی جاتی ہیں جبکہ غزل میں آپ اشاروں، قافیوں اور دیگر چیزوں سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’یہاں آپ فیض احمد فیص کی غزل کی مثال لے لیں، تو انھوں نے بھی مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر لکھا تھا کہ 'خون کے دھبے دھولیں گے کتنی برساتوں کے بعد' اس غزل کے بھی کئی مطلب نکالے جا سکتے ہیں کہ یہ تو محبوب کے لیے کہی گئی ہے۔ جبکہ غزل کا اپنا ایک برتاؤ ہوتا ہے اس لیے اسے ہمیشہ اسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ اسی طرح نصیر ترابی نے بھی یہ غزل قیام بنگلہ دیش کے پس منظر میں ہی لکھی تھی۔‘ 'اچھے شاعر کی پہچان یہی ہے کہ اس کی شاعری اس کے نام سے پہلے پہنچتی ہے' تاريخ دان عقل عباس جعفری نے بتایا کہ سنہ 1980 میں یہ غزل سب سے پہلے عابدہ پروین نے گائی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ عابدہ پروین نصیر ترابی صاحب کے محلے ہی میں رہتی تھیں اور ان ملنا جلنا تھا جس کے بعد اس غزل کو گائیکی کی شکل دی گئی۔ اس غزل کو ڈرامے 'ہم سفر' میں بطور ساؤنڈ ٹریک استعمال کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'مجھے یاد ہے کہ نصیر ترابی نے ایک مرتبہ اس ساؤنڈ ٹریک کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس غزل کو ڈرامے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا تو پروڈکشن ہاؤس والوں کو یہ پتا ہی نہیں تھا کہ اس کے مصنف کون ہیں۔ ’تحقيق کے بعد انھوں نے مجھ سے کاپی رائٹس کی اجازت لی۔' عقیل عباس جعفری کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں نصیر ترابی بہت اچھے شاعر اور بڑا نام تھے لیکن ان کے نام کو فوری طور پر اتنی مقبولیت نہیں ملی جس طرح دیگر چند شاعروں کو ملی۔ اس بات کا اندازہ یہاں سے لگا لیں کہ اچھے شاعر کی پہچان یہی ہے کہ اس کی شاعری اس کے نام سے پہلے لوگوں تک پہنچتی اور مقبول ہوتی ہے۔ نصير ترابی کون تھے؟ نصیر ترابی حیدرآباد دکن میں 15 جون 1945 کو مشہور عالم دین اور خطیب علامہ رشید ترابی کے ہاں پیدا ہوئے۔ پاکستان کے قیام کے بعد ان کے اہل خانہ پاکستان میں کراچی آ گئے، جہاں وہ بڑے ہوئے۔ انھوں نے سنہ 1968 میں کراچی یونیورسٹی سے صحافت میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ سنہ 2019 میں نصیر ترابی نے ڈان نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اپنی شاعری کی ابتدا کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ 'جب میں سکول میں پڑھتا تھا تو میں نے اپنا سفر مباحثے اور مناظرے سے شروع کیا۔ ’ایسے ہی ایک مقابلے میں، میری تیسری پوزیشن آئی۔ جس پر میرے ایک استاد نے مجھے کہا کہ 'اگلی مرتبہ اپنے باپ سے اچھی تقریر لکھوا کے لے کر آنا۔' جس کے بعد میں مباحثے کو ترک کردیا۔ ’جس پر میرے سکول کے پرنسپل نے وجہ پوچھی تو میں نے جواب دیا کہ اگر میں پہلی پوزیشن لوں تو میرے باپ کو کریڈٹ دیا جاتا ہے اور اگر میں تیسری پوزیشن لوں تو بھی میرے باپ کے نام کی بدنامی ہوتی ہے۔ اس لیے میں اپنا نام بنانا چاہتا ہوں۔ جس کے بعد میں شاعری کی طرف چلا گیا۔' ان کی شخصیت کے اس پہلو کے بارے میں ان کے قریبی دوست ڈاکٹر خورشید عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی انفرادی شخصیت بنانے کے حوالے سے شروع ہی سے سوچتے تھے۔ ’ان کے لیے زندگی بہت آسان تھی کہ وہ اپنے والد کے کام کو آگے بڑھاتے کیونکہ ان میں خطابت کے بہت جوہر تھے۔‘ ’وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اتبے بڑے پیڑ کے نیچے چھوٹا سا پودا سانس بھی نہیں لے سکتا۔' انھوں نے مزيد کہا کہ ادب اور شاعری کے حوالے سے انھوں نے جو بھی کام کیے ہیں آج وہ سب کے سامنے ہیں۔ ’اگر انھیں کسی کا کوئی شعر یا کام پسند آتا تھا تو وہ اسے پروموٹ کرتے تھے۔ لوگوں کا خیال رکھنا، ان کی مدد اور فکر کرنا ان کی ذات کا حصہ تھا۔ اس لیے وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ انسانوں سے محبت کیجئے اور چیزوں کو استعمال کیجیئے۔' تاہم ان کی شخصت کے حوالے سے کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ان کی شخصیت میں تضاد پایا جاتا تھا اور کام کے حوالے سے ان کی تنقیدی نظر کچھ لوگوں سے اختلاف کا باعث بنتی تھی۔ انھوں نے اپنی نظموں کا پہلا مجموعہ عکس فریادی سنه 2000 میں شائع کیا۔ عارف وقار کی بی بی سی اردو پر لکھی گئی 2012 کی ایک تحریر کے مطابق نصیر ترابی کی تصنیف، شعر کی تعریف سے شروع ہوتی ہے۔ ’وہ شعر کہنے کےلیے پانچ عناصر کو ضروری قرار دیتے تھے: 1 ) موزونیِ طبع 2 ) شعری مطالعہ 3 ) زبان آشنائی 4 ) خیال بندی 5 ) مشقِ سخن اس کے بعد وہ شاعر کی چار قسمیں گنواتے ہیں 1 ) بڑا شاعر 2 ) اہم شاعر 3) خوشگوار شاعر 4 ) محض شاعر اُردو میں بڑے شاعر اُن کے نزدیک صرف پانچ ہیں: میر، غالب، انیس، اقبال اور جوش۔ جبکہ اہم شاعروں میں وہ آٹھ نام گِنواتے ہیں: یگانہ، فراق، فیض، راشد، میراجی، عزیز حامد مدنی، ناصر کاظمی اور مجید امجد۔ عارف وقار نے مزید لکھا کہ شعر و ادب کے ناقدین اس فہرست کو مسترد کر سکتے ہیں یا اس کی ترتیب بدل کر اس میں ترمیم و اضافہ کر سکتے ہیں۔ لیکن زبان و بیان کے ایک مبتدی اور شعر و سخن کے ایک نو آموز طالبِ علم کے لیے اس طرح کی واضح درجہ بندی اور دو ٹوک تقسیم بڑی حوصلہ بخش اور کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ ’کتاب کے دیگر ابواب میں بھی مروجہ اصنافِ سخن، متروکہ اصناف، درست املا، تلفظ، تذکیرو ثانیت، واحد جمع، ُمنافات، مشابہ الفاظ، سابقے لاحقے، غلط العام الفاظ اور نافذہ اصطلاحات کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے اور نصیر ترابی نے اپنے مخصوص خوشگوار اور چُلبلے انداز میں ان خشک قواعدی موضوعات کو بھی اتنا دلچسپ بنا دیا ہے کہ گرامر سے بیزار کسی شخص کو بھی یہ کتاب تھما دی جائے تو ختم کئے بغیر اُٹھ نہیں سکے گا۔‘ اردو کے نامور شاعر نصیر ترابی 74 سال کی عمر میں اتوار کی شام دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے جس کے بعد آج انھیں کراچی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ text: جمال الدین نقوی گذشتہ کئی سالوں سے علیل تھے۔ پروفیسر جمال نقوی نے نہ صرف خود بائیں بازوں کی سیاست کی بلکہ نوجوانوں کی بھی ایک بڑی تعداد کو اس طرح راغب کیا۔ ان کا شمار کمیونسٹ پارٹی کے سخت گیر رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ جمال الدین نقوی کی پیدائش 1932 میں انڈیا کے شہر الہ آباد میں ہوئی، ان کے والد سید نہال الدین الہ آباد یونیورسٹی میں لیکچرر تھے۔ پروفیسر جمال نقوی دوسری جنگ عظیم کے بعد بائیں بازو کی سیاست میں شامل ہوئے، اس کی وجہ ان کے کزن شفیق نقوی بنے جو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اتر پردیش کے عہدیدار تھے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے پاکستان کے قیام کی حمایت کی تھی اور سنہ 1948 میں کلکتہ میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔ پروفیسر جمال نقوی سنہ 1949 میں پاکستان آگئے، یہاں انھوں نے کراچی میں اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا، جہاں انھوں نے ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کی جو کمیونسٹ پارٹی کی ذیلی تنظیم تھی۔ سابق سیاسی کارکن اور پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ ان دنوں تعلیمی ادارے کئی مسائل کا شکار تھے، یونیورسٹی فعال نہیں تھی، کالج کم اور فیس زیادہ تھی جبکہ ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کے برابر تھی، جن کے حل کے لیے ڈی ایس یف نے آٹھ جنوری 1953 کو پاکستان میں پہلی طلبہ تحریک چلائی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ان دنوں خواجہ ناظم الدین وزیراعظم تھے، انھوں نے اس تحریک کو طاقت سے کچلا نتیجے میں آٹھ طالب علموں سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے۔ پروفیسر جمال نقوی سمیت کئی طلبہ رہنما گرفتار کر لیے گئے، بالاخر خواجہ ناظم الدین نے طالب علموں کے ساتھ معاہدہ کیا جس کے نتیجے میں فیسیں ختم کردی گئیں، نئے تعلیمی ادارے بھی بنے اور ٹرانپسورٹ میں طالب علموں کےلیے رعایت کی گئی۔ اس وقت طالب علموں کی قیادت میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، ڈاکٹر ہارون احمد، ڈاکٹر سرور کے ساتھ پروفیسر جمال نقوی بھی شامل تھے۔‘ 1960 کی دہائی میں جب کمیونسٹ پارٹی پر کریک ڈاؤن ہوا تو پروفیسر جمال نقوی انڈر گراونڈ چلے گئے۔ پروفیسر توصیف احمد کے بعد پروفیسر جمال نقوی کمیونسٹ پارٹی آف مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے رابطہ کار تھے۔ یحییٰ خان کے دور میں بنگلادیش میں قتل عام ہوا اور کمیونسٹ پارٹی نے احتجاج کیا، انھیں ایک بار پھر انڈر گراؤنڈ ہونا پڑا اور انھیں نامور بلوچ رہنما میر غوث بخش بزنجو نے اپنے گاؤں میں پناہ دی۔ پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی جب سنہ 1966 میں چین اور ماسکو کی حمایت میں نظریاتی طور پر تقسیم ہوگئی تو پروفیسر جمال نے نازش امروہی کے ساتھ مل کر ماسکو کی حمایت جاری رکھی۔ صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ جب سنہ 1973 کا آئین بن رہا تھا اس وقت پروفیسر جمال نقوی اور کمیونسٹ پارٹی نیشنل عوامی پارٹی کا حصہ تھی۔ جب نیپ نے آئین سازی کے دوران بائیکاٹ کیا تو اس میں پروفیسر جمال نقوی کا بڑا اہم کردار تھا، بعد میں میر غوث بخش بزنجو نے بھی اس کا اعتراف کیا تھا اور کہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں کہا تھا کہ اگر نیپ بائیکاٹ نہیں کرتی تو 1973 کے آئین کی شکل بلکل مختلف ہوتی۔ جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں سنہ 1980 میں پروفیسر جمال نقوی کو گرفتار کیا گیا اس وقت وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے قائم مقام سیکریٹری جنرل تھے، ان دنوں گرفتار ہونے والوں جام ساقی، سہیل سانگی، امر لال، کمال وارثی، بدر ابڑو ، شبیر شر اور نذیر عباسی شامل تھے۔ جن میں سے نذیر عباسی دوران تشدد ہلاک ہوگئے۔ فوجی عدالت میں زیر سماعت مقدمہ جام ساقی کیس کے نام سے مشہور ہے، تجزیہ نگار مظہر عباس کے مطابق پاکستان کی تاریح کا یہ واحد مقدمہ ہے ا جس میں اس وقت کے چوٹی کے سیاست دانوں نے کمیونسٹ رہنماوں کا دفاع کیا تھا ،ان میں بینظیر بھٹو بھی شامل تھیں جو نظربندی کے بعد پہلی بار اس مقدمے میں منظر عام پر آئی تھیں۔ جب 1981 میں پی آئی اے کا طیارہ اغوا کیا گیا تو ہائی جیکرز نے بہت سے سیاسی کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ان میں جمال نقوی سمیت یہ ساتوں کمیونسٹ رہنما شامل تھے لیکن انھوں نے یہ کہہ کر یہاں سے جانے سے انکار کردیا کہ وہ ملک کے اندر سیاست کرنا چاہتے ہیں اور تشدد کی سیاست کے خلاف ہیں۔ پروفیسر جمال نقوی نے رہائی کے بعد سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی، چند سال قبل انھوں نے ’لیونگ دی لیف بیہائینڈ‘ کے نام سے کتاب تحریر کی جس سے انھوں نے اپنے سیاسی نظریے کو مسترد کیا۔ تجزیہ نگار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ایسا کم ہی دیکھا گیا ہے کہ کسی سیاست نے عوامی سطح پر یہ اعتراف کیا کہ انھوں نے جو سیاست کی وہ غلط سیاست تھی۔ ان کے اس اعتراف پر بڑی تنقید بھی ہوئی، لیکن انھوں نے جو جدوجہد کی اس کو کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں کمیونسٹ تحریک کے مرکزی کردار اور معلم پروفیسر جمال الدین نقوی انتقال کر گئے ہیں، ان کی عمر 85 سال تھی۔ text: تمام افراد کو پاسپورٹ واپس کر دیے جائیں گے اس خاتون نے جب دعویٰ کیا تھا کہ اس کو دو برطانوی مردوں نے ریپ کیا تو ان کا ان کا پاسپورٹ ضبط کرکے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ دبئی کے پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر کا کہنا ہے کہ ہے انھوں نے 'شواہد کے انتہائی احتیاط کے ساتھ معائنے' کے بعد یہ مقدمہ ختم کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 'یہ عمل تینوں مذکورہ اشخاص کی رضامندی سے ہوا تھا۔' حکام کا کہنا ہے ان میں سے ایک شخص کی موبائل میں موجود ویڈیو کے 'کلیدی ثبوت' تھا اور ان تینوں میں کسی کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ ان تمام افراد کو پاسپورٹ واپس کر دیے جائیں گے اور انھیں متحدہ عرب امات چھوڑ کر جانے کی بھی آزادی ہوگی۔ خاتون کے والد کا کہنا تھا کہ انھیں 'متضاد کہانیاں' سننے کو ملیں کہ ان کی بیٹی کو رہا کر دیا گیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ دفترخارجہ نے تاحال تصدیق نہیں کی۔ پراسیکیوٹر کے دفتر کی طرف سے جاری کردہ پیغام میں کہا گیا ہے کہ 20 سال کی عمر سے اوپر ایک خاتون نے اکتوبر کے اواخر میں ایک پولیس سٹیشن میں مبینہ ریپ کی رپورٹ درج کروائی تھی۔ اطلاعات کے مطابق وہ اس وقت چھٹیاں گزارنے دبئی آئی تھیں۔ دونوں مبینہ حملہ آوروں کے پاسپورٹ ضبط کر لیے گئے تھے لیکن ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا تھا۔ برطانوی تنبظیم گروپ ڈیٹینڈ اِن دبئی کے مطابق انھیں اس فیصلے سے خوشی ہوئی ہے۔ دبئی میں شادی کے بغیر اذدواجی تعلقات غیرقانونی ہیں تنظیم کی طرف سے جاری کردہ پیغام میں کہا گیا ہے کہ 'ہم امید کرتے ہیں کہ یہ مقدمہ جو عالمی توجہ کا مستحق تھا، اس کو ختم کرنے میں انتظامیہ پر اثرانداز ہوا ہے، اور متحدہ عرب امارات اس قسم کی منفی اطلاعات سے بچ گیا ہے۔ ماضی میں دیگر کئی اتنے خوش قسمت نہیں رہے لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ یہ عمل مستقبل میں اس قسم کے مقدمات کے لیے ایک تاریخ ساز ثابت ہوگا۔' پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر کا کہنا ہے کہ دبئی کا قانونی نظام جرائم کے تمام مقدمات کو 'بہت سنجیدگی سے لیتا ہے، خاص طور پر خواتین کے خلاف تشدد کو اور تمام واقعات کی مکمل تحقیقات کرتا ہے۔' خیال رہے کہ دبئی میں شادی کے بغیر اذدواجی تعلقات غیرقانونی ہیں۔ اگر حکام کو جنسی تعلقات کے بارے میں علم ہو جائے تو مقدمہ بازی، جیل، جرمانے یا ملک بدری کا سامنا ہوسکتا ہے۔ دبئی موجود اس برطانوی خاتون کی خلاف تمام مقدمات ختم کر دیے گئے جس کو اس وقت غیر ازدواجی تعلقات رکھنے کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا تھا جب انھوں نے یہ بتایا کہ انھیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ text: اگر سہواگ نے 201 رنز ناٹ آؤٹ بنائے اور پوری اننگز میں بیٹ کیری کرنے کا سنیل گواسکر کا ریکارڈ برابر کیا تو سری لنکا کے وارناپورا اور سنگاکارا نے بالاترتیب 66 اور 68 رنز بنائے۔ اور جہاں اجنتھا مینڈیس نے 117 رنز دے کر چھ کلاڑی آؤٹ کیے تو وہیں ہربھجن سنگھ 71 رنز دے کر چار کھلاڑی آؤٹ کیے۔ دوسرے دن جب انڈیا نے اپنی پہلی اننگز چار وکٹوں کے نقصان پر دو سو چودہ رنز سے شروع کی تو لگتا تھا کہ انڈیا ایک بڑا سکور کر پائے گا۔ اس وقت وریندر سہواگ اور وی وی ایس لکشمن 100 رنز کی پارٹنرشپ بنانے کے بعد کریز پر تھے۔ مینڈس نے یہ پارٹنرشپ توڑی اور 278 کے مجموعی سکور پر لکشمن کو آؤٹ کر دیا۔ لکشمن 39 رنز بنا سکے۔ اس کے بعد انڈیا کی پانچ وکٹیں محض 51 رنز پر گر گئیں اور انڈیا کی پوری ٹیم 329 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ سری لنکا کی طرف سے مینڈس نے چھ وکٹ لیے جبکہ مرلی دھرن اور واس دو دو وکٹیں حاصل کر سکے۔ انڈیا کو اننگز کے آغاز میں ہی پہلی کامیابی اس وقت ملی جب چار کے سکور وینڈورٹ چار رنز بنا کر ظہیر خان کی گیند پر آؤٹ ہوئے۔ اس کے بعد ورنا پورا اور سنگاکارا سکور کو 137 پر لے گئے۔ اسی سکور پر ہربھجن نے ورناپورا کو آؤٹ کیا اور اس کے بعد لگاتار مزید تین وکٹیں حاصل کر لیں۔ کھیل کے دوسرے کے اختتام پر سری لنکا نے پانچ وکٹ کے نقصان پر 215 رنز بنائےتھے۔ یاد رہے کہ انڈیا کولمبو میں پہلا ٹیسٹ میچ ایک اننگز اور دو سو انتالیس رن سے ہار گیا تھا۔ سری لنکا اور انڈیا کے درمیان گالے میں ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میچ کے دوسرے دن کبھی سری لنکا کا پلڑا بھاری رہا تو کبھی انڈیا کا۔ text: ترکی کے سکولوں میں ستمبر سے نیا نصاب پڑھایا جائے گا ان متنازع تبدیلیوں میں جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک کی زندگی کے بارے میں پڑھائے جانے کے اوقات میں کمی کی گئی ہے جبکہ جہاد کے بارے میں ابتدائی تعلیم کو نصاب شامل کیا گیا ہے اور مذہبی تعلیم دینے کے لیے کلاسوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ * ’اس رات لوگوں کے پاس بندوقیں نہیں پرچم تھے‘ گذشتہ سال جولائی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بارے میں بھی باب نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ ترکی کی سیکولر حزب مخالف نے ان تبدیلیوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور ان کی حکمران جماعت ان مروجہ تبدیلیوں سے ترکی کو کو مذہب اور اسلام پسندی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ترکی کے صدر متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی خواہش ہے کہ ملک کی آنے والی نسلیں نیک اور پرہیزگار ہوں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وزیر تعلیم عصمت یلماز نے کہا کہ 'ہم نے غیر ضروری، تکرار سے بھرپور اور فرسودہ مضامین کو نصاب سے نکال دیا ہے اور یہ مناسب نہیں کہ ہم ان معمولی تبدیلوں پر بات کریں جبکہ ہم نے ایک لاکھ سے زیادہ تبدیلیاں کی ہیں۔' چارلس ڈارون کے پیش کیے گئے نظریہ ارتقا کے ابتدائی ابواب نصاب سے حذف کر دیے گئے ہیں 'ڈارون کے بغیر نصاب' وزیر تعلیم نے اس بات سے انکار کیا کہ چارلس ڈارون کا نظریہ ارتقا سکولوں کے نصاب سے مکمل طور پر نکال دیا گیا ہے۔ 'ہم ارتقا کے خلاف نہیں ہیں۔ اگر سائنس کے مطابق کوئی بات کہی جائے تو اس کی نفی کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے مزید کئی ابواب ہیں جو ارتقا سے متعلق ہیں اور وہ تمام نظریہ ارتقا کے زمرے میں آتے ہیں۔ عصمت یلماز کے مطابق 'ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ اس مضمون کو سکولوں میں پڑھانے کے بجائے یونیورسٹی کی سطح پر پڑھایا جائے۔' ان کے دلائل کے برخلاف ناقدین کا کہنا ہے کہ سکولوں میں نظریہ ارتقا کے ابتدائی ابواب کو حذف کر دیا گیا ہے اور ان کے بغیر اگلے درجے کے ابواب پڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ تعلیمی نصاب کی ترویج اور بہتری کی تنظیم ایجوکیشن ریفارم انیشی ایٹیو کی آئیسل مدرا نے کہا کہ 'طلبہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ نظریہ ارتقا کے بنیادی اصولوں کو پڑھیں اور سمجھیں۔ اس کے بغیر دشوار درجے کے ابواب سے ان کو مضمون کے بارے میں سمجھنا مشکل ہوگا۔' ترکی کے اساتذہ کی ایک اہم ترین یونین ایگتم از کے نمائندے اورہان یلدرم نے کہا کہ 'نظریہ ارتقا کے اہم ترین باب کو حذف کر دیا گیا ہے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نظریہ ارتقا ویسے پڑھایا جائے جیسے الہامی کتابوں میں ہے کہ ہم آدم اور حوا کی اولاد ہیں۔' ترکی کے وزیر تعلیم عصمت یلماز 'جہاد کی تعلیم' اورہان یلدرم نے سکولوں کے نصاب میں جہاد کی تعلیم شامل کرنے کے فیصلے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا کہ 'آپ مسجد سے نکلنے والے کسی بھی شخص سے پوچھ لیں کہ جہاد کا مطلب کیا ہے، 99 فیصد لوگ آپ کو بتائیں گے کہ مشرق وسطی میں ہونے والی جنگ کی اصل وجہ جہاد ہے۔ ہم حکومت کو جہاد کے لفظ کے معنی بدلنے نہیں دیں گے اور نہ ہی اسے عام استعمال کرنے دیں گے۔' دوسری جانب عصمت یلماز نے کہا کہ جہاد کے معنی کو توڑ مروڑ کے پیش کیا گیا ہے جبکہ اس کے اصل معنی ہیں معاشرے کی مدد کرنا اور امن پھیلانا۔ انھوں نے کہا کہ نصاب میں تبدیلیاں تقریباً دو لاکھ افراد کی مشاورت سے کیا گیا ہے۔ لیکن اساتذہ کی تنظیم نے کہا ہے کہ ان سے نصاب میں تبدیلیوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔ اورہان یلدریم نے اصرار کیا کہ یہ تبدیلیاں نظریاتی بنیادوں پر کی گئی ہیں۔ 'یہ تبدیلیاں ترکی کے نصاب پر حملہ ہیں۔ اگر آپ کسی ملک کے نصاب تعلیم کو تباہ کر دیں تو اس ملک کا ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہونا ناممکن ہو جائے گا۔' اس سال ستمبر سے ترکی کے سکولوں میں نیا نصاب پڑھایا جائے گا جس میں کی گئی مختلف تبدیلیوں میں سے سب سے اہم تبدیلی سیکنڈری ایجوکیشن کے نصاب میں کی گئی ہے جس میں سے نظریہ ارتقا کا باب نکال دیا گیا ہے۔ text: سٹیڈیم میں بیٹھ کر فٹبال ورلڈ کپ کے میچ دیکھنے کے احساسات ناقابلِ بیان ہیں:چیتالی چیٹر جی یہ الفاظ ہیں بھارتی شہر کولکاتہ کے 81 سالہ پنّا لال چیٹرجی کے جو اپنی بزرگ اہلیہ چیتالی چیٹرجی کے ساتھ نویں بار فٹ بال ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے برازیل جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ بزرگ جوڑا اب سے 32 برس قبل پہلی بار فٹ بال کا ورلڈ کپ دیکھنے سپین گیا تھا اور تب سے اب تک جتنے بھی ورلڈ کپ ہوئے ہیں اس میں شرکت کے لیے امریکہ، اٹلی، جرمنی، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک کا سفر کر چکا ہے۔ کولکاتہ میں اپنی رہائش گاہ پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ہوئے پنّا لال چیٹر جی نے کہا ’سنہ 1982 میں جب ہم نے پہلی بار سٹیڈیم میں بیٹھ کر میچ دیکھا تو اس کے حسین مناظر کے تجربات نے ہمیں دم بخود کر دیا۔ تبھی ہم نے ہر ورلڈ کپ میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا۔‘ چیتالی چیٹرجی کہتی ہیں ہر چار برس میں سٹیڈیم میں بیٹھ کر فٹبال ورلڈ کپ کے میچ دیکھنے کے احساسات ناقابلِ بیان ہیں: ’بہت اچھا لگتا ہے۔ ٹی وی پر کیمرہ صرف گیند کے پیچھے رہتا ہے، کھلاڑیوں کی حکمت عملی یا ان کی چال کی پوری تصویر نہیں مل پاتی۔‘ صرف ورلڈ کپ ہی نہیں بلکہ فٹبال سے اس جوڑے کا لگاؤ ایسا ہے کہ مقامی سطح پر بھی وہ کوئی میچ نہیں چھوڑتے اور دور دور تک پیدل چل کر بھی میچ دیکھنے جاتے ہیں۔ برازیل میں جاری ٹورنامنٹ اس بزرگ جوڑے کا سٹیڈیم میں بیٹھ کر ورلڈ کپ دیکھنے کا نواں تجربہ ہوگا جس کے لیے وہ چار برس انتظار اور تیاری کرتے ہیں۔ چیتالی کہتی ہیں ’ہم اس کے لیے پیسہ بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ کئی بار تو ہم مہینہ بھر تک مچھلی نہیں کھاتے اور کھانے کی جگہ متبادل اشیاء استعمال کرتے ہیں۔ کئی بار ہم صرف چائے سے ہی کام چلا لیتے ہیں۔‘ پنّا لال کا کہنا ہے کہ ’کھانا ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہے، بس کھیل دیکھنے کا جنون سوار رہتا ہے۔‘ چیتالی کی ورلڈ کپ کے مقابلوں سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’سنہ 1986 میں میکسیکو میں میراڈونا کو دیکھ کر حیران رہ گئی کہ کس طرح وہ تن تنہا ایک پوری ٹیم کے مضبوط دفاع کو توڑ سکتا ہے۔‘ دونوں میاں بیوی فٹ بال کے شوقین ہیں اور دونوں کی پسند بھی الگ الگ ہے۔ بی بی سی سے بات چیت میں جب چیتالی میراڈونا کی تعریف کر رہی تھیں تو پنّا لال بول پڑے: ’میرے خیال میں زیدان بہت بہتر ہے۔‘ اس پر چیتالی نے کہا ’نہیں، نہیں میراڈونا ہی سب سے اچھا ہے، اس کا کوئی جواب نہیں۔‘ ’لوگوں کو طرح طرح کے شوق ہوتے ہیں، بعض شراب پینے کا شوق رکھتے ہیں تو بعض ٹی وی اور فلم کے رسیا ہوتے ہیں۔ ہمیں تو بس فٹ بال کا جنون ہے جس کے لیے ہم کھانا پینا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔‘ text: انڈیا کی سپریم کورٹ نے بابری مسجد اور رام مندر کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین پر مندر کی تعمیر اور مسلمانوں کو مسجد کے لیے متبادل جگہ دینے کا حکم دیا تھا دلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے شعبہ فن تعمیرات کے ڈین پروفیسر ایس ایم اختر کو نئی مسجد کے نقشے اور تعمیرات سے متعلق ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ نومبر 2019 میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد اور رام مندر کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین پر مندر کی تعمیر اور مسلمانوں کو مسجد کے لیے متبادل جگہ دینے کا حکم دیا تھا۔ اتر پردیش حکومت نے عدالت عظمیٰ کے حکم کے تحت ایودھیا سے تقریباً 25 کلومیٹر دور دھنی پور گاؤں میں مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ اراضی سُنی وقف بورڈ کو دی ہے۔ پروفیسر اختر نے بتایا کہ اُن کا کام صرف مسجد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس زمین پر ایک کمپلیکس کی تعمیر بھی ہو گی جس میں عوام کے لیے ایسی سہولیات ہوں گی جو ’خدمت خلق کے لیے اہم ہوں گی۔‘ یہ بھی پڑھیے مسجد کے لیے مجوزہ زمین پر مسلمانوں کو اعتراض کیوں؟ ایودھیا، جہاں رامائن اور اذان کی صدائیں بیک وقت بلند ہوتی ہیں ایودھیا اور استنبول، دو عبادت گاہوں کی ’سیکولر‘ کہانی ایودھیا: مندر کی تیاری عروج پر، مسجد سست روی کا شکار اس کمپلیکس کو ’انڈو اسلامک کلچرل کمپلیکس‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس میں ہسپتال، انڈو اسلامک ریسرچ سینٹر اور لائبریری جیسی سہولیات شامل ہوں گی۔ دھنی پور گاؤں میں جو جگہ مسجد کی تعمیر کے لیے دی گئی ہے وہاں پہلے ہی ایک بزرگ کی درگاہ ہے ان کا کہنا ہے کہ ’اس کمپلیکس کا بنیادی مقصد خدمتِ خلق ہے جو کہ کسی بھی مذہب کی بنیادی تعلیم ہے، خاص طور پر اسلام کی۔ خدمت خلق کے لیے جن بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے مثال کے طور پر علاج اور تعلیم، انھیں اس کمپلیکس میں شامل کیا جا رہا ہے اور اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ قدیم دور میں بھی مساجد میں ایسی سہولیات ہوا کرتی تھیں جن سے عام لوگ فیض یاب ہوتے تھے۔‘ پروفیسر اختر نے بتایا کہ پانچ ایکڑ میں سے مسجد کی تعمیر پندرہ ہزار مربع فٹ پر ہو گی۔ تاہم انھوں نے کہا ہے کہ وہ اس وقت یہ نہیں بتا سکتے کہ مسجد میں ایک ساتھ کتنے لوگ بیک وقت نماز ادا کر سکیں گے۔ کیا نئی مسجد بابری مسجد جیسی ہوگی؟ سنہ 2019 میں سپریم کورٹ کی جانب سے متنازع زمین مندر کو دیے جانے کے حکم کے بعد سے مسلمانوں کو متبادل زمین پر نئی مسجد کی تعمیر کا انتظار ہے۔ ایسے میں نئی مسجد سے عوام کی کس قسم کی توقعات وابستہ ہو سکتی ہیں؟ اس سوال پر پروفیسر اختر کہتے ہیں کہ اگر کوئی نئی مسجد کی ماضی سے مشابہت کی توقع رکھتا ہے تو اس کی وجہ جذباتی لگاؤ نہیں بلکہ اسلامی فن تعمیر کے بارے میں ’غلط فہمی‘ ہے۔ نئی مسجد کے ڈیزائن کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ ’ہر دور کا اپنا مختلف فن تعمیر‘ رہا ہے۔ پروفیسر اختر کا خیال ہے کہ جس طرح آپ ماضی کو کبھی اپنا حال نہیں بنا سکتے ہیں، اسی طرح فن تعمیرات میں پرانی چیزوں کو دہرایا نہیں جاتا ہے۔ ’فن تعمیر کا استعمال آج کے سماج اور مستقبل کے سماج کے لیے ہونا چاہیے۔ ایک ماہر کا کام موجودہ دور کی سہولیات کو بہترین انداز سے استعمال کرنا اور موجودہ دور کے چیلینجیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمارت کی تعمیر کرنا ہوتا ہے۔‘ سنہ 1992 میں انہدام سے قبل بابری مسجد انھوں نے کہا 'اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جو طرز تعمیر قرون وسطیٰ میں تھا وہی اسلامک آرکیٹیکچر ہے تو یہ غلط فہمی ہے۔ وہ ایک دور تھا جو گزر گیا ہے لیکن اسلام تھوڑی گزرا ہے، وہ تو آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا۔ آپ انڈیا کے علاوہ یورپ اور مشرق وسطیٰ میں بھی نئی مساجد دیکھیں، ان میں نئے دور کے آرکیٹیکچر کا استعمال ہوا ہے۔ آرکیٹکچر کسی ایک دور سے بندھنے کا نام نہیں ہے۔' پروفیسر اختر کے بقول ماضی میں اگر ضرورت ’گھوڑے کھڑے کرنے کی جگہ کی رہی ہو گی تو آج ضرورت کار پارکنگ کی ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر دور میں آرکیٹکچر ضروریات کے تحت ہوتا ہے۔‘ ماضی کے بجائے حال اور مستقبل کو ترجیح پروفیسر اختر اسلامک آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر پر بین الاقوامی سطح پر ہونے والے چھ اجلاسوں میں حصہ لے چکے ہیں اور ان میں سے تین کا انعقاد انھوں نے خود کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ان اجلاسوں میں متعدد بار اس موضوع پر بات بھی ہو چکی ہے اور بڑے بڑے فن تعمیر کے ماہر اس میں اپنا کام پیش کر چکے ہیں۔ ان کے مطابق اس میں جنوبی انڈیا کی ایک ایسی مسجد بھی پیش کی گئی جسے ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے چیلنج کے پیش نظر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ’وہ مسجد ایک بھی یونٹ بجلی باہر سے نہیں لیتی ہے۔ ایسے ہی چیلینجز کو ہمیں دھیان میں رکھنا ہے ناکہ ماضی کی یاد کو۔‘ پروفیسر اختر نے کہا کہ ’نئی مسجد کے کمپلیکس کے ڈیزائن میں کن باتوں پر زور ہو گا یہ ابھی کہنا جلد بازی ہو گی، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس میں ماضی کی یاد نہیں بلکہ صرف جھلک ہو سکتی ہے۔ اس مسجد میں حال اور مستقبل کی ضروریات کو اہمیت دی جائے گی۔‘ مسجد کی تعمیر میں کتنا وقت لگے گا؟ انڈو اسلامک کلچرل سینٹر کو مکمل طور پر تیار ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔ یہ پراجیکٹ ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ پروفیسر اختر کہتے ہیں کہ ’طے شدہ مدت سرکاری منصوبوں میں ہوتی ہے جہاں ہر چیز مختص کر دی جاتی ہے، بجٹ سے لے کر سہولیات تک۔ مسجد کے کمپلیکس کے پراجیکٹ میں تو ابھی تمام مراحل باقی ہیں، جیسے جیسے پیسہ آئے گا پراجیکٹ آگے بڑھے گا۔‘ انھوں نے کہا کہ پہلا مرحلہ کمپلیکس کے ’کانسیپٹ‘ کا ہو گا جب یہ تیار ہو جائے گا تو پھر ڈیزائن اور تب جا کر تعمیر کا مرحلہ آئے گا۔ ابھی تو اس پراجیکٹ کے مکمل ہونے میں لگنے والا وقت، فنڈز کی فراہمی پر منحصر ہے۔‘ سنی وقف بورڈ نے اس کمپلیکس کے لیے ایک انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن تشکیل دی ہے جس کے زیر نگرانی کمپلیکس تیار ہو گا۔ اس دوران فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے فاوٴنڈیشن کی جانب سے دو علیحدہ بینک اکاؤنٹ کھولے جائیں گے۔ ان میں سے ایک اکاؤنٹ میں مسجد کے لیے اور دوسرے میں بقیہ عمارتوں کی تعمیر کے لیے عطیہ جمع کیا جائے گا۔ پروفیسر ایس ایم اختر کون ہیں؟ پروفیسر ایس ایم اختر گذشتہ بارہ برسوں سے دلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے شعبہ فن تعمیر کے ڈِین یعنی سربراہ ہیں۔ اس وقت وہ مسلسل پانچویں بار شعبے کے ڈِین کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ شعبے کے سربراہ کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ وہ جامعہ یونیورسٹی میں اس شعبے کے بانی بھی ہیں۔ انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں شعبہ فن تعمیرات میں ماسٹرز ڈگری کے چھ نئے کورسز متعارف کروائے ہیں۔ وہ متعدد بین الاقوامی اجلاسوں کے کنوینر بھی رہ چکے ہیں۔ پروفیسر اختر کا تعلق ریاست اتر پردیش کے شہر لکھنؤ سے ہے۔ انھوں نے لکھنؤ سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دلی کے پلاننگ اینڈ آرکیٹیکچر کالج سے فن تعمیر میں گریجوایشن اور پھر انسٹیٹیوٹ آف ٹاؤن پلینرز سے پوسٹ گریجوایشن کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے علاوہ وہ ’ڈی لِٹ‘ یعنی ڈاکٹریٹ آف لٹریچر کی ڈگری حاصل کرنے والے انڈیا میں پہلے آرکیٹیکٹ اور ’پلانر‘ ہیں۔ پروفیسر اختر نے بتایا کہ جب فاوٴنڈیشن نے ان سے رابطہ کیا اور بتایا کہ ان کی انڈو اسلامک کلچرل کمپلیکس سے کیا توقعات ہیں تو انھیں محسوس ہوا کہ فاؤنڈیشن ایک ایسے ہی کمپلیکس کا تصور کر رہی ہے جیسا پروفیسر اختر خود کرتے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے اس منصوبے پر کام کرنے کی رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان پر کسی قسم کا کوئی دباوٴ نہیں ہے۔ اور وہ ایسی جگہ کام ہی نہیں کرتے ہیں جہاں ان پر کسی قسم کا دباوٴ ہو۔ انڈیا میں بابری مسجد اور رام مندر کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سُنی وقف بورڈ کو دی جانے والی متبادل زمین پر مسجد کی تعمیر میں نئی پیشرفت سامنے آئی ہے۔ text: آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز کے بعد ایک روزہ میچوں کے مقابلوں میں بھی شکست کھانے کے بعد انضمام پاکستانی کرکٹ کے کھلاڑیوں کی کارکردگی سے مایوس نہیں۔آسٹریلیا کے دورے کے دوران پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کئی کھلاڑی زخمی ہو گئے۔ پاکستان کے تیز رفتار بالر شبیر احمد اور عمر گل پورے دورے کے دوران زخمی ہونے کے پاس کھیل نہیں پائے۔ محمد سمیع سیریز کو ادھورا چھوڑ کر واپس چلے گئے جب کہ شعیب اختر ایک روزہ سیریز میں حصہ نہیں لے پائے۔ اتنے کھلاڑیوں کے زخمی ہوجانے کے باوجود پاکستان نے وی بی سیریز کے دونوں فائنل مقابلوں میں آسٹریلیا کو ایک سو انتالیس رن تک محدود رکھا۔ تاہم بلے بازوں کی ناقص کارکردگی کی بنا پر وہ یہ دونوں میچ معمولی رن سے ہار گئے۔ انضمام نے کہا کہ وہ ٹیسٹ سیریز اچھی کارکردگی پیش نہ کر سکے لیکن ایک روزہ میچوں میں پاکستانی کھلاڑیوں نے بہت بہتر کھیل پیش کیا۔ انہوں نے کہا پاکستانی کھلاڑیوں نے ایک روزہ سیریز کے مقابلوں اور خاص طور پر آخری تین چار میچوں میں بہت اطمنان بحش کارکردگی پیش کی ہے۔ انہوں نے کہا کے تمام کھلاڑیوں نے بہت محنت کی اور اپنی پوری کوشش کی۔ انضمام نے کہا کہ بھارت کا دورہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے بہت اہم ہے اور اگر پاکستان کرکٹ ٹیم بہتر کارکردگی پیش کرتے رہی تو بہتر نتائج ضرور سامنے آئیں گے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان انضمام الحق دورہ بھارت سے پہلے پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کے بارے میں خاصے پر امید نظر آتے ہیں۔ text: پہلے ہی حل طلب مسئلے کیا کم تھے کہ اب بی جے پی نے بیف کی تان پھر سے چھیڑ دی ایسے ’بیفی‘ ملک میں سری نگر سے ممبئی تک بیف کی خرید و فروخت اور استعمال پر سر پھٹول باقی دنیا کے لیے عجیب سی بات ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت میں 22 فیصد آبادی ادنی ذاتوں ( شیڈول کاسٹ)، 16 فی صد آبادی مسلمانوں اور لگ بھگ دس فیصد آبادی قبائلیوں پر مشتمل ہے۔ یعنی کل ملا کے ان تینوں طبقات کی آبادی 48 فیصد بنتی ہے اور ان طبقات کو برہمنوں کے برعکس ماس خوری پر کوئی خاص اعتراض بھی نہیں۔( کئی اعلی ذاتیں بھی بیف خوری پر معترض نہیں جیسے سندھی ہندو کمیونٹی وغیرہ)۔ پورا شمال مشرقی بھارت، مغربی بنگال اور ارونا چل پردیش بیف ایٹنگ بیلٹ کہلاتا ہے جبکہ جنوب میں گوا اور کیرل جیسی ریاستوں میں بیف کھانےکی آزادی ہے اور تامل ناڈو ، ہما چل پردیش وغیرہ کا شمار ان ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں بیف کی خرید و فروخت، جانوروں کی عمر سمیت بعض قانونی شرائط کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ البتہ مہاراشٹر، گجرات، راجھستان، مدھیہ پردیش، اتر پردیش اور اڑیسہ سمیت لگ بھگ دس شمالی و وسطی ریاستوں میں بیف بالخصوص گائے کےگوشت کی خرید و فروخت کی کھلے عام ممانعت ہے اور انہی ریاستوں میں سب سے زیادہ غیرقانونی مذبہہ خانے بھی ہیں۔ شیو سینا کے کارکن پابندیوں والے دنوں میں خود گوشت بیچنے کے سٹال لگائیں گے مہاراشٹر میں تو گذشتہ برس سے قانون اتنا سخت کر دیا گیا ہے کہ چڑیا گھر میں شیر سمیت دیگر ماس خور جانوروں کا گزارہ بھی مرغی کے گوشت پر ہے۔ سینکڑوں قومیتوں، ثقافتوں اور ہندو مت کی بیسیوں مختلف تشریحات والے بھارت جیسے لمبے چوڑے ملک میں لوگوں کے کھانے پینے کی عادات پر پابندیوں کا کام مرکز نے ریاستی صوابدید پر چھوڑ رکھا ہے۔ چنانچہ جب مہاراشٹر ، راجستھان ، مدھیہ پردیش اور گجرات جیسی ریاستوں میں غیر بی جے پی حکومتیں آتی ہیں تو بیف کھانے والے اطمینان کا سانس لیتے ہیں اور جب بی جے پی سرکار بناتی ہے تو بیف کا استعمال عیب ہو جاتا ہے۔گویا مسئلہ مذہبی پابندی سے زیادہ سیاسی و نظریاتی پسند و ناپسند سے جڑا ہوا ہے۔ جب تک سرکار کسی نظریے کو نافذ کرنے کے لیے قانونی ڈنڈے کا سہارا نہیں لیتی تب تک مختلف فرقے ایک دوسرے کے احترام میں رضاکارانہ طور پر ایسے اقدامات سے پرہیز کرتے ہیں جن سے دوسرے طبقے کی دل آزاری ہو، لیکن جب بات زور زبردستی پر آجائے تو پھر فریقِ مخالف بھی ضد پکڑ لیتا ہے۔ اب جین مت کے تہواروں کو ہی لے لیجیے۔ جینیوں کی ایک بڑی تعداد راجھستان، مدھیہ پردیش،گجرات اور مہاراشٹر میں بستی ہے۔ کانگریس کے ترجمان اجے ماکھن نے بھی بیف کے کاروبار پر جبری پابندی کو کھانے پینے کی نجی آزادی میں بے جا مداخلت قرار دیا جینی کسی بھی طرح کے گوشت سے سختی سے پرہیز کرتے ہیں۔ چنانچہ صدیوں سے ان ریاستوں میں رواج ہے کہ جینیوں کے بڑے تہواروں کے موقع پر باقی برادریاں چند دن کے لیے گوشت کی خرید و فروخت سے پرہیز کرتی ہیں۔( حتیٰ کہ پاکستان کے ضلع عمر کوٹ اور تھرپارکر میں بھی مقامی مسلمان ہندو برادری کے احترام میں نامعلوم زمانے سے کھلے عام گائے ذبح کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔) اس سال پہلی بار ایسا ہوا کہ راجستھان، گجرات اور مہاراشٹر میں بی جے پی کی ریاستی حکومتوں نے بزورِ قانون گوشت کا کاروبار کہیں چار تو کہیں آٹھ دن بند کرانے کی کوشش کی۔ راجستھان میں تو حکومت نے مچھلی کی فروخت بھی رکوا دی۔ چنانچہ ماس خور برادریاں تو رہیں ایک طرف خود مہاراشٹر کی شیو سینا کو بھی غصہ آگیا۔ اس کے رہنما اودے ٹھاکرے اور ان کے حریف راج ٹھاکرے نے اعلان کیا کہ چونکہ یہ پابندی مذہبی سے زیادہ سیاسی موقع پرستی کے تحت لگائی گئی ہے لہذا ان کے کارکن پابندیوں والے دنوں میں خود گوشت بیچنے کے سٹال لگائیں گے۔ اس دوران ممبئی مٹن ڈیلرز ایسوسی ایشن نے ہائی کورٹ میں پابندی کو چیلنج کیا تو ہائی کورٹ نے بھی اپنی رولنگ میں کہا کہ ممبئی جیسے شہر میں جہاں طرح طرح کی برادریاں بستی ہیں گوشت کی خرید و فروخت پر پابندی نامناسب ہے۔ جبکہ دلی میں کانگریس کے ترجمان اجے ماکھن نے بھی بیف کے کاروبار پر جبری پابندی کو کھانے پینے کی نجی آزادی میں بے جا مداخلت قرار دیا۔ اس بار لگتا ہے کہ عید کے موقع پرگائے اور بیل زیادہ کٹ جائیں گے یہ کیا کم تھا کہ اوپر سے جموں و کشمیر کی ہائی کورٹ بھی عین موقع پر کود پڑی اور اس نے بی جے پی کے ایک متحرک وکیل ہری موکش سیٹھ کی درخواست پر سابق ڈوگرہ ریاست میں سنہ 1928 کے 87 برس پرانے رنبیر ایکٹ کو سوتے سے جگا دیا جس کے تحت گائے اور بیل وغیرہ کے ذبح پر دس برس قید اور جانور کی قیمت سے پانچ گنا زائد جرمانے کی سزا ہے۔ یہ فیصلہ کشمیر میں امن و امان کی نازک صورتحال کے تناظر میں گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے برابر ثابت ہوا ہے اور کشمیر کی سکھ برادری سے لے کر کیا حکمران پیپلز ڈیموکریٹک لیگ، کیا حزبِ اختلاف جماعتِ اسلامی، مسلم لیگ اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے دونوں دھڑے، سب ہی ایک ’بیف پیج‘ پر آگئے۔ آج پوری وادی مکمل بیف ہڑتال پر ہے۔ کشمیری بالخصوص وادی کے مسلمان طبعاً مٹن زیادہ پسند کرتے ہیں لیکن اس بار لگتا ہے کہ عید کے موقع پرگائے اور بیل زیادہ کٹ جائیں گے۔ سوائے بی جے پی اس وقت کوئی ملک گیر یا بڑی علاقائی جماعت ممبئی سے سری نگر تک ان پابندیوں کی وکالت نہیں کر رہی۔ پہلے ہی حل طلب مسئلے کیا کم تھے کہ اب بی جے پی نے بیف کی تان پھر سے چھیڑ دی۔بی جے پی کے اس طرح بیٹھے بٹھائے ’بیفیانے‘ پر اور کیا کہا جائے۔ یار سے چھیڑ چلی جائے اسد گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی ( غالب )۔ بھارت بیف کے دس بڑے عالمی برآمد کنندگان کی فہرست میں اول نمبر پر، بیف کی پیداوار کے لحاظ سے پانچویں اور بیف کے استعمال کے لحاظ سے ساتویں نمبر پر ہے۔ text: دلی میں بی بی سی کی نامہ نگار گیتا پانڈے نے دیپکا کی کاوش پر ایک نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ انڈیا میں ہر 15 منٹ کے بعد ریپ کا واقعہ سامنے آتا ہے، پر پانچ منٹ کے بعد گھریلو جھگڑے کی اطلاع ملتی ہے، ہر 69 سیکنڈز میں ایک دلہن کو جہیز نہ لانے پر ہلاک کر دیا جاتا ہے جب کہ ہر سال سینکڑوں خواتین کا اسقاط حمل کروا کر لڑکیوں کو مار دیا جاتا ہے۔ لڑکیوں اور خواتین کو امتیازی سلوک، تعصب اور تشدد کا سامنا ہے۔ انڈیا میں اس صورتِ حال کے باوجود 31 سالہ دیپکا نارائن بھردواج نے کچھ معقول سوالات پوچھے ہیں۔ وہ پوچھتی ہیں کیا مرد غیر محفوط نہیں ہیں، کیا انھیں امتیازی سلوک کا سامنا نہیں ہے اور کیا وہ متاثر نہیں ہو سکتے۔؟ دیپکا نارائن بھردواج کی لڑائی انڈیا کی دفعہ 498A کے خلاف ہے جو جہیز کے خلاف ایک سخت قانون ہے اور اس قانون کا اکثر غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ انڈیا میں سنہ 1983 میں دہلی اور دیگر حصوں میں جہیز نہ لانے کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کے بعد 498A کی شق متعارف کروائی گئی تھی۔ اس زمانے میں آئے روز یہ اطلاعات سامنے آتی تھیں کہ نئے نویلی دلہنوں کو ان کے خاوند اور سسرالیوں نے جہیز نہ لانے پر زندہ جلا دیا۔ ان واقعات کے بعد پارلیمان کی رکن خواتین اور کارکنوں نے اس کے خلاف مظاہرے کیے اور پارلیمان کو مجبور کیا کہ وہ اس حوالے سے نیا قانون سامنے لائے۔ بھردواج اس بات سے متفق ہیں کہ اس قانون کو اچھے ارادے کے ساتھ بنایا گیا تھا تاہم اس نے جان بچانے کے بجائے متعدد جانیں لے لیں۔ بھردواج اس شق کی اکیلی ناقد نہیں ہیں۔ سابق صحافی دیپکا نرائن بھردواج نے سنہ 2012 میں اس حوالے سے 'اپنے ایک ذاتی تجربے کو بیان کیا۔' ان کا کہنا ہے کہ سنہ 2011 میں ان کے ایک کزن کی شادی صرف تین ماہ بعد ہی ختم ہو گئی۔ ان کے کزن کی بیوی نے اپنے شوہر اور خاندان پر تشدد کرنے اور جہیز مانگنے کا الزام عائد کیا۔ بھردواج کے مطابق 'میرے کزن کی بیوی نے ہمارے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا اور اس میں مجھے بھی نامزد کیا کہ میں ان پر باقاعدگی سے تشدد کرتی ہوں۔' انھوں نے مزید بتایا 'میرے خاندان نے سکون خریدنے کے لیے ایک بڑی رقم خرچ کی' اگرچہ وہ مقدمہ ختم ہو گیا لیکن 'مجھے سکون نہیں مل سکا۔' بھردواج کا کہنا ہے 'یہ قانون انتہائی بلیک میلنگ اور بھتہ خوری کا ایک آلہ بن گیا۔' ان کی تحقیق انھیں پولیس سٹیشنز اور عدالتوں تک لے گئی یہاں تک کہ ان کا رابطہ 'سیو انڈین فیملی' نامی ایک این جی او کے ساتھ ہو گیا جو مردوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔ بھردواج نے چار سال کے عرصے میں ایک دستاویزی فلم بنائی جس میں مردوں کے خلاف جہیز مخالف قانون کے تحت الزام عائد کیا گیا، ایسے خاوند جنھوں نے برسوں جیل میں گزارے اور جنھیں بعد میں عدالتوں کی جانب سے رہا کر دیا گیا، ایسے نوجوان جنھوں نے اپنی بیویوں کی جانب سے انھیں ہراساں کرنے کے الزامات عائد ہونے کے بعد خود کشی کر لی ، خودکشی کرنے والے ایک خاوند کا ویڈیو پیغام اور ایک نوجوان بینکر کا خودکش نوٹ جس میں انھوں نے یک طرفہ قانون کے بارے میں سوال اٹھایا، جیسے موضوعات شامل تھے۔ انڈیا کے ایک سابق وزیرِ قانون نے اس بات کو تسلیم کیا کہ حکومت اس قانون سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک رکن کو یقین ہے کہ اس قانون میں ہر صورت میں ترمیم کی جانی چاہیے جب کہ ایک دوسری خاتون کا اصرار ہے کہ ایسے مقدمات کی تعداد کم ہے اور اسے تبدیل نہیں کرنا چاہیے۔ بھردواج اس بات پر مصر ہیں کہ اس قانون کا اطلاق صرف مردوں پر نہ ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ اس بات کی تردید نہیں کر سکتے کہ ایسے مقدمات کی تعداد کم ہے۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران ہزاروں لوگ میرے پاس مدد کے لیے آئے اور میں نے انھیں سیو انڈین فیملی نامی این جی او کی جانب بھیج دیا۔ بھردواج کے مطابق انھیں بتایا گیا ہے کہ صرف دہلی میں خواتین کے لیے قائم کی جانے والی ہیلپ لائنز پر 24 فیصد کالیں مصیبت میں پھنسے مردوں کی جانب سے آتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قانون کی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں تباہ ہو گئیں اور لوگوں نے خودکشیاں بھی کیں۔ بھردواج کے مطابق انھوں نے ججوں، پولیس اہلکاروں، مجسٹریٹوں، کارکنوں اور عام لوگوں کو یہ دستاویزی فلم دکھائی اور انھیں ناظرین کا بھرپور ردِ عمل ملا۔ بھردواج کا کہنا ہے 'میں اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اسے پارلیمان تک لے جانا چاہتی ہوں تاکہ اس میں تبدیلی لانے کے لیے دباؤ بڑھایا جا سکے۔' انڈیا میں جہاں خواتین کے خلاف جرائم روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں وہیں ایک خاتون کارکن دیپکا نارائن بھردواج نے اپنی دستاویزی فلم کے ذریعے مردوں کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ text: شہر یار خان کا کہنا تھا کہ فیلڈنگ کوچ کی بھی بہت ضرورت ہے۔ تاہم فیلڈنگ کوچ کی خدمات جون میں پاکستان کی ٹیم کے دورۂ انگلینڈ سے پہلے حاصل کی جائیں گی لیکن فیلڈنگ کوچ مستقل بنیادوں پر نہیں رکھا جائے گا۔ پی سی بی کے چئرمین نے بتایا کہ جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے فیلڈنگ کوچ جونٹی روڈز نے ان کی پیشکش سے معذرت کر لی ہے اور اب ٹریور پینی، ٹریور چیپل اور جان ینگ سے بات چیت جاری ہے۔ انگلینڈ کے دورے سے پہلے دو تین ہفتوں کے لیے ان میں سے کسی ایک کی خدمات حاصل کر لی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیلڈنگ کوچ نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت بھی کریں گےکیونکہ اس ٹونٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ میں کھلاڑیوں کی فیلڈنگ کے معیار اور فٹ نس سے انہیں مایوسی ہوئی ہے۔ شہر یار خان کے مطابق سری لنکا کے دورے کے لیے مینجر کا انتخاب دس تاریخ تک کر لیا جائے گا۔ دریافت کرنے پر شہر یار خان نے کہا کہ مینجر کے لیے ظہیر عباس کے علاوہ دو تین اور نام بھی زیر غور ہیں۔ سری لنکا کے دورے کے لیے پاکستان کی حتمی ٹیم کا اعلان بھی دس مارچ تک کر لیا جائے گا۔ صدر بش کی کرکٹ میچ دیکھنے کی خواہش کی بابت شہر یار خان کا کہنا تھا کہ لگتا نہیں ہے کہ صدر بش اپنی مصروفیات میں سے کرکٹ میچ کے لیے وقت نکال سکیں لیکن اگر ان کے خواہش ہوئی تو ایک معیاری کرکٹ میچ کا انعقاد ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ ادھر بدھ کے روز پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی نے سری لنکا کے لیے کنڈیشنگ کیمپ کے چوبیس کھلاڑیوں کا اعلان کردیا ہے۔ ان میں کچھ نوجوان کھلاڑی بھی شامل ہیں جبکہ انڈر 19 ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے تین کھلاڑیوں کو بھی کیمپ میں آنے کی دعوت دی گئی ہے۔ آٹھ مارچ سے شروع ہونے والےاس مختصر دورانیے کے کیمپ میں زیادہ تعداد میں کھلاڑیوں کو بلانے کی وجہ پی سی بی کے چئر مین نے یہ بتائی کہ اچھی کارکردگی دکھانے والے نوجوان کھلاڑیوں کا جائزہ لینے کے لیے کیمپ میں بلایا گیا ہے تاکہ کوئی ٹیلنٹ چھپا نہ رہ سکے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ شہر یار خان کے مطابق سری لنکا کے دورے سے قبل ہی پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے لیے بالنگ کوچ مقرر کر دیا جائے گا اور یہ تقرری مستقل بنیادوں پر ہو گی۔ text: ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اب راہول کا بلڈ پریشر نارمل ہے اور انہیں اب مصنوعی نظام تنفس کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم انہیں اب بھی انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رکھا گیا ہے اور اگلے بہتّرگھنٹوں تک ان کی صحت کی سخت نگرانی کی ضرورت ہے۔ ابتدائی خبروں میں کہا گیا تھا کہ راہول کی بیماری کی وجہ زیادہ مقدار میں نشیلی ادویات کا استعمال ہوسکتا ہے لیکن دلی کے اپالو ہسپتال کے ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ ان کے خون میں کوکین یا دوسری نشیلی ادویات کا سراغ نہیں ملا ہے۔ ڈاکٹروں کے انکشاف کے بعد معاملہ اور پیچیدہ ہوگیا ہے کہ آخر ان کی شدید بیماری اورآنجہانی پرمود مہاجن سیکریٹری موئترا کی موت کا سبب کیا ہے۔ راہول مہاجن کی بیماری اور ان کے ایک ساتھی کی پراسرار موت کے سلسلے میں پولیس نے کشمیر سے ایک نوجوان کو حراست میں بھی لیا ہے۔ اکیس سالہ ساحل زارو نے سری نگر میں اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کیا ہے۔ زارو ان تین لڑکوں کے ساتھ تھے جن پرمہاجن کو نشیلی ادیات فراہم کرنے کا الزام ہے۔ تاہم انہوں نے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ ادھر دلی پولیس ساحل کے والد غلام محمد سے اس سلسلے میں پوچھ گجھ کر رہی ہے ۔ مزید تفتیش کے سلسلے میں چھاپے مارنے کے غرض سے پولیس کی ایک ٹیم ممبئی بھی بھیجی گئی ہے۔ راہول کے پھوپھا اور مہاراشٹر کے سابق وزیراعلی گوپی ناتھ منڈے نے اس پورے معاملے میں سازش کا الزام عاد کیا ہے۔ انہوں نے شک ظاہر کیا ہے کہ شاید راہول کو زہر دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ گزشتہ روز راہول مہاجن کو انتہائی بیمار حالت میں دلّی کے اپالو ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ ان کے والد کے سیکریٹری ویویک موئترا کو بھی ان کے ساتھ ہی ہسپتال لے جایا گیا تھا لیکن ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق حادثے والی رات راہول سے ملنے جو تین نوجوان آئے تھے انہوں نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کردیا ہے اور معاملے کی تفتیش جاری ہے۔ ایک پرائیوٹ ٹی وی چینل سے بات چیت کے دوران ان نوجوانوں نے دعوٰی کیا ہے کہ راہول اور ان کے ساتھی ویویک نے رات میں نشہ آور اشیاء کا استعمال کیا تھا۔ پولیس اس سفید پاؤڈر کے حوالے سے بھی تفتیش کر رہی ہے جو راہول اور ویویک کے پاس سے بر آمد ہوا تھا۔ راہول کے والد پرمود مہاجن بی جے پی کے ایک اعلیٰ رہنما تھے اور انہیں اپریل کے اواخر میں مبینہ طور پر ان کے بھائی نےگولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ گزشتہ دنوں راہول مہاجن نے بی جے پی کی قومی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں شرکت کی تھی اور اطلاعات تھیں کہ وہ باضابطہ طور پر پارٹی میں شامل ہونے والے ہیں اور انہیں اپنے والد کی جگہ راجیہ سبھا کا ممبر بھی بنایا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ چند دن قبل راہول مہاجن نے اپنے فیملی ڈاکٹر کو بتایا تھا کہ وہ اپنے والد کی موت کے بعد بہت تنہا محسوس کر رہے ہیں اور انہیں’ڈپریشن‘ بھی محسوس ہوتا ہے اور وہ اس سلسلے میں کچھ دوائیا ں بھی کھا رہے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے آنجہانی رہنما پرمود مہاجن کے بیٹے راہول مہاجن کی حالت اب قدرے بہتر ہے تاہم ان کے خون کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد معاملہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔ text: بھارت کی جانب سے اچانک مذاکرات کو معطل کرنے اور پاکستان کی جانب سے انھیں بحال نہ کرنے کا عندیہ دینے کے بعد مبصرین اس دورے کو اہمیت دے رہے ہیں بھارتی سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر نے اسلام آباد پہنچنے کے فوراً بعد اپنے پاکستانی ہم منصب اعزاز چوہدری سے مذاکرات کے علاوہ پاکستان کی اعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں بھی کیں۔ اس دوران کیا کچھ زیر بحث آیا اس بارے میں میڈیا کو زیادہ نہیں بتایا گیا۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ نے ایک مختصر سا بیان تو جاری کیا لیکن صحافیوں کے سوالوں کے جواب نہیں دیے۔ لفظوں کی گنتی کے اعتبار سے تو نہیں البتہ بیانیے کے وزن کے اعتبار سے بھارتی سیکریٹری خارجہ کا بیان خاصا بھاری بھرکم تھا۔ جہاں انھوں نے سرحد پار دہشت گردی اور ممبئی حملوں کا ذکر کیا، وہیں مشترکہ سرحد پر امن قائم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنی اس تشویش سے پاکستان کو آگاہ کیا ہے جو سرحد پار دہشت گردی اور ممبئی حملوں کے بارے میں ہے۔ دونوں ملک یہ سمجھتے ہیں کہ سرحد پر امن کا قیام بہت ضروری ہے۔‘ پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے شام کے وقت علیحدہ پریس کانفرنس کی اور کم و بیش وہی باتیں دہرائیں جو اس سے پہلے بھی پاکستان کرتا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے نمائندوں نے اپنا اپنا موقف پیش کیا ہے جس پر غور و خوض کے بعد فیصلے کیے جائیں گے۔ ’ہم نے طے کیا ہے کہ ہم اپنی قیادت سے مشورے اور آپس کے مشورے کے بعد دوبارہ رابطہ کریں گے۔‘ مذاکرات سے قبل اور مودی سرکار کے دلی میں اقتدار میں آنے کے بعد مشترکہ اور متنازع دونوں سرحدوں پر کشیدگی میں اضافہ ہوا جس سے کئی فوجی اور سویلین جانوں سے گئے تاہم اعزاز چوہدری نے اس دوبارہ رابطے کے لیے کوئی تاریخ دینے سے انکار کیا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بھارتی سیکریٹری خارجہ نے اپنے وزیراعظم کی جانب سے ایک خط بھی وزیراعظم نواز شریف کے حوالے کیا ہے۔ بھارت کی جانب سے پچھلے سال مذاکرات معطل کرنے کے اعلان کے بعد، دونوں ملکوں کے درمیان یہ پہلا با ضابطہ رابطہ ہے۔ اس دوران متنازعہ سرحد پر فائرنگ کے تبادلے میں دونوں جانب سے درجنوں شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ دونوں ملک ان ہلاکتوں کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دیتے ہیں۔ بھارت کی جانب سے مذاکرات ختم کرنے کے اچانک فیصلے کے بعد پاکستان نے عالمی برادری اور خود بھارت پر واضح کر دیا تھا کہ اب پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی بحالی کی کوئی کوشش نہیں کی جائے گی۔ پھر اس دوران ایسا کیا ہوا کہ خود بھارتی وزیراعظم جنہوں نے پچھلے سال یکطرفہ طور پر مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا، پاکستانی وزیراعظم کو فون کیا اور سیکریٹری خارجہ کو پاکستان بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ بھارت میں سابق پاکستانی سفیر عزیز احمد خان کہتے ہیں کہ بھارت پر مذاکرات کے لیے امریکی دباؤ نے بھی کام دکھایا۔ اس کے علاوہ کچھ اندرونی عوامل بھی تھے جنھوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو پاکستان کے ساتھ رابطے قائم کرنے پر مجبور کیا۔ نواز شریف کے مودی کی حلف برداری کے لیے دہلی جانے سے تعلقات میں بہتری کی امیدیں کشیدگی میں اضافے کے ساتھ کچھ ہی عرصے میں دم توڑ گئی تھیں ’نریندر مودی کے سامنے کچھ ریاستی انتخابات تھے جن میں کشمیر میں انتخابات کا معاملہ بھی تھا۔ اس کے علاوہ وہ اپنے منشور کے مطابق پاکستان کو اپنی طاقت بھی دکھانا چاہتے تھے۔ اب جبکہ وہ سب ہو چکا ہے تو وہ اب حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام متنازعہ امور کا احاطہ کرنے والے جامع مذاکرات ممبئی حملوں کے بعد سے التوا کا شکار ہیں۔ پاکستان وہیں سے مذاکرات کی بحالی چاہتا ہے جہاں یہ سلسلہ ٹوٹا تھا، جبکہ دہلی سے ایسی اطلاعات آ رہی ہیں کہ نئی بھارتی حکومت نئے سرے سے بات شروع کرنے کی خواہاں ہے۔ سابق بھارتی خارجہ سیکریٹری کے سی سنگھ کہتے ہیں کہ اس بھارتی خواہش کی وجہ بھی اندونی اور بیرونی معاملات ہی ہیں۔ ’پاکستان اور بھارت خاص موضوعات پر بات کرتے رہے ہیں۔ یہ تنازعہ اور مسائل کئی سال پہلے ایجنڈے پر آئے تھے۔ اب حالات بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ نئے مسائل سامنے آئے ہیں جن میں افغانستان اور پانی جیسے تنازعات بھی شامل ہیں۔ تو یہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے کہ وہ ان مذاکرات کو نئی شکل دیں اور نئے سرے سے شروع کریں۔‘ جیسا کہ توقع تھی بھارتی خارجہ سیکریٹری ایس جے شنکر کا دورۂ پاکستان دونوں ملکوں کے تعلقات میں کسی بریک تھرو کا باعث نہیں بنا۔ لیکن سرکاری اور غیر سرکاری مبصرین اعلیٰ ترین بھارتی سفارت کار کی پاکستان آمد ہی کو بڑی خبر قرار دے رہے ہیں۔ text: لال مسجد کے سابق خطیب نے اپنی ریلی میں حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے وزارت داخلہ کی طرف سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ سویلین اور خفیہ فوجی اداروں کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لال مسجد کے سابق خطیب نے ملک میں تحریک نفاذ قرآن و سنت کے اعلان کے بعد ایسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اُن کی تحریک میں شمولت پر قائل کیا جا سکتا ہے۔ ’حکومت اپنی اسلام مخالف پالیسیاں ختم کرے‘ اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لال مسجد کے سابق خطیب وفاقی دارالحکومت میں امن وامان کی صورت حال خراب کرنے کی تاریخ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اُن کے عجیب وغریب رویے، بین الاقوامی برادری میں ملک کے تشخص کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مشکوک سرگرمیاں بھی شہر میں بدامنی کا باعث بن سکتی ہیں۔ وفاقی حکومت کے اس خط کے بعد لال مسجد کے سابق خطیب نے ایک تحریری اور آڈیو بیان جاری کیا ہے۔ جس میں انھوں نے کہا کہ تمام اداروں کے اہلکار شریعت کے منافی احکامات نہ مانیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ملک میں 30 سال سے نفاذ شریعت کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ ’میڈیا، فوج، رینجرز اور پولیس سمیت تمام اداروں پر لازم ہے کہ وہ حکامِ بالا کے صرف انھیں احکامات کو مانیں جو شریعت کے مطابق ہیں۔‘ مولانا عبدالعزیز کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’آج جو لوگ ہمیں دہشت گرد کہہ رہیں وہ خود لاکھوں جوانوں کو عقوبت خانے میں ڈالیں کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے؟ لال مسجد کو ملیامیٹ کر دیں، کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے؟‘ واضح رہے کہ مولانا عبدالعزیز کی زیر نگرانی خواتین کے مدرسے جامعہ سمیعہ (سابق جامعہ حفضہ) کی طالبات نے کچھ عرصہ قبل خود کو دولت اسلامیہ قرار دینے والی تنظیم کے سربراہ ابوبکر البغدادی کو ایک خط لکھا تھا جس میں ان سے پاکستان میں آ کر اپنی سرگرمیاں شروع کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ لال مسجد کے سابق خطیب کی وفاقی دارالحکومت میں امن وامان کی صورت حال خراب کرنے کی ایک تاریخ رکھتے ہیں: خط کا متن اس خط کے بعد اسلام آباد پولیس نے ان طالبات کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لیے وزارت قانون کو ایک مراسلہ بھیجا تھا تاہم اس پر ابھی تک حکومت کی طرف سے پولیس حکام کو کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ مولانا عبدالعزیز کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’نیشنل ایکشن پلان حکومت نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تیار کیا ہے اور اس پلان کو مدارس کا راستہ روکنے اور نفاذِ شریعت کی بات کرنےوالوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔‘ اسلام آباد کی انتظامیہ کی طرف سے مولانا عبدالعزیز کو دی جانے والی سکیورٹی کو واپس لینے پر لال مسجد کے سابق خطیب نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ انتظامیہ اُنھیں نجی سکیورٹی گارڈ رکھنے کی اجازت نہیں دے رہی۔ مولانا عبدالعزیز کا نام انسداد دہشت گردی ایکٹ کے فورتھ شیڈیول میں رکھا گیا ہے جس کے تحت اُن کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے شہر میں جانے کے لیے پہلے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو آگاہ کریں۔ وفاقی حکومت نے قانون نافد کرنے والے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں سے کہا ہے کہ وہ لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں کیونکہ ان کی سرگرمیاں امن وامان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے شدید خطرہ ہیں۔ text: تباہ ہونے والے دیہات میں شیرکانو شاہ کلے، غاغے، ماتوڑ، کوئیی کلے اور دیگر چھوٹے بڑے دیہات شامل ہیں باجوڑ ایجنسی کے تین تحصیل سالارزئی، ماموند اور صدر مقام خار میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایجنسی بھر میں اب تک 22 افراد ہلاک اور ڈیڑھ سو سے زائد کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے۔ تاہم علاقے میں جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ مالی نقصانات بھی وسیع پیمانے پر ہوئے ہیں۔ زلزلے کے باعث ایجنسی کا دور افتادہ سالارزئی تحصیل سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے جہاں بعض پہاڑی علاقوں میں پورے کے پورے گاؤں زلزلے کی زد میں آنے کے باعث مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ ان تباہ ہونے والے دیہات میں شیرکانو شاہ کلے، غاغے، ماتوڑ، کوئیی کلے اور دیگر چھوٹے بڑے دیہات شامل ہیں۔ تباہ ہونے والے زیادہ ترگھر مٹی کے بنے ہوئے تھے۔ تاہم ان میں بیشتر علاقوں میں سڑکوں کی حالت پہلے ہی سے انتہائی ناگفتہ بہ ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں امداد پہنچنے میں مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ گاؤں کے تقریباً ڈھائی سوگھر مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں جبکہ باقی ماندہ بیشتر مکانات میں دراڑیں پڑ چکی ہیں سالارزئی تحصیل کا گاؤں سانگو تقریباً پانچ سو مکانات پر مشتمل ہے۔ زلزلے کی وجہ سے اس گاؤں کے تقریباً ڈھائی سوگھر مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں جبکہ باقی ماندہ بیشتر مکانات میں دراڑیں پڑ چکی ہیں جو اب رہنے کے قابل نہیں رہے۔ اس گاؤں میں ابھی تک کوئی حکومتی اہلکار، سیاسی رہنما یا امدادی اداروں کے کوئی کارکن نہیں پہنچا ہے جس سے مقامی لوگ سخت مایوسی کا شکار ننظر آتے ہیں۔ زلزلے آنے کے بعد بی بی سی ذرائع ابلاغ کا پہلا ایسا ادارہ ہے جو اس گاؤں میں پہنچا ہے۔ اس گاؤں کی اکثریتی متاثرہ آبادی اپنی مدد آپ کے تحت تباہ شدہ مکانات سے ملبہ ہٹاتے ہوئے نظر آئے۔ گاؤں کے ایک باشندے نوشیر خان نے بی بی سی کو بتایا کہ مکانات کی تباہی کی وجہ سے علاقے کے زیادہ تر مکین گزشتہ تین دنوں سے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ انھوں نے کہا کہ علاقے میں فوری طورپر امداد کی اشد ضرورت ہے ورنہ لوگوں کے مشکلات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ ان کے مطابق ’ گاؤں میں شاید ہی ایسا کوئی گھر ہوگا جو رہنے کے قابل ہو، جن مکانات کو جزوی نقصان پہنچا ہے وہاں رہنا زیادہ خطرناک ہے کیونکہ زیادہ تر مکانات میں دراڑیں پڑچکی ہے جو بارش یا تیز آندھی کی صورت میں گر سکتے ہیں۔’ ان کے بقول ’ہمارے منتخب نمائندے اسلام آباد میں بیٹھ کر زندگی کے مزہ لے رہے ہیں انہیں ہم جیسے غریبوں کی کیا خبر۔‘ علاقے کے ایک اور باشندے گلاب شاہ نے کہا کہ علاقے میں مال مویشی بھی بڑی تعداد میں ہلاک ہوئے ہیں جس سے زیادہ تر غریب خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ ان کے بقول اس گاؤں میں بیشتر غریب خاندانوں کا انحصار مال مویشی پالنے پر تھا لیکن اب ایسے افراد مالی مسائل کا شکار ہوگئے ہیں۔ باجوڑ ایجنسی کے واحد ہیڈکوارٹر ہسپتال میں بدستور دور دراز علاقوں سے زخمیوں کو لایا جارہا ہے علاقے کے باشندوں نے کئی ایسے پہاڑی علاقوں کی نام گنوائے جو ان کے مطابق زلزلے کی وجہ زیادہ متاثر ہوئے لیکن رسائی میں مشکلات کے باعث وہاں تاحال کوئی حکومتی امداد نہیں پہنچی ہے۔ باجوڑ ایجنسی کے واحد ہیڈکوارٹر ہسپتال میں بدستور دور دراز علاقوں سے زخمیوں کو لایا جارہا ہے۔ ہسپتال کے ایک سنئیر ڈاکٹر عبدالہادی نے کہا کہ ہسپتال میں حادثات پر قابو پانے کے تمام تر سہولیات تو موجود ہیں تاہم سٹاف کی کمی کی وجہ سے بعض مسائل موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ماہر ڈاکٹروں بالخصوص ہڈیوں کی سپیشلسٹ کی کمی کی وجہ سے زلزلے میں زخمی ہونے والے بعض مریضوں کو پشاور یا ملک دیگر شہروں میں علاج کےلیے منتقل کرنا پڑا۔ باجوڑ ایجنسی میں سردی کا موسم شروع ہوچکا ہے اور اگر زلزلہ زدہ علاقوں میں فوری طورپر بحالی کا کام شروع نہیں کیا گیا تو زلزلے کے مارے ہوئے سینکڑوں متاثرین کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ خیبر پختونخوا میں جس طرح زلزلے کے بعد فوج اور حکومتی مشینری حرکت میں آئی اور جس طرح وزیر اعظم نوازشریف سمیت سیاسی رہنماؤں کی جانب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کئے گیے اور وہاں متاثرین اور بحالی کے ضمن میں اعلانات کیے گئے اس پر ملک بھر میں عمومی طورپر قدرے اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لیکن قبائلی علاقے بالخصوص باجوڑ ایجنسی میں زلزلے کی وجہ سے جس طرح نقصانات ہوئے اس طرح کی پھرتی یہاں دیکھنے میں نہیں آرہی بلکہ بظاہر ایسا لگ رہا ہے جیسے یہاں کسی حکومتی مشینری کا وجود ہی نہیں۔ پاکستان میں 26 اکتوبر کو آنے والے تباہ کن زلزلے کی وجہ سے خیبر پختونخوا اور فاٹا کے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں شامل باجوڑ ایجنسی میں تین دن گزرنے کے باوجود بھی نہ تو کوئی حکومتی امداد پہنچی ہے اور نہ کسی سرکاری اہلکار نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کی زحمت کی ہے۔ text: اتھیلیٹس کے جسم میں مائیکرو چپس نصب کرنے کے تجویز سامنے آئی ہے تاکہ قوت بخش ادویات کے استعمال کو روکا جا سکے مائک ملر کا کہنا ہے کہ مائیکرو چپس کو جسم کے اندر نصب کرنے سے معلوم ہو سکے گا کہ ممنوعہ ادویات کھیلوں کے دوران کارکردگی پر کس طرح اثرانداز ہوتی ہیں اور اسے کس حد تک بڑھاتی ہیں۔ * یوسین بولٹ کو آخری دوڑ میں خفت * ’ڈوپنگ کے جرم میں سزا کاٹنے والوں کے لیے وائلڈ کارڈ نہیں‘ لیکن برطانیہ میں قوت بخش ادویات کی روک تھام کے ادارے کی سربراہ نکول سیپسٹڈ کہتی ہیں کہ انھیں ڈر ہے کہ یہ قدم ذاتی زندگی میں مداخلت ہو گی اور اس میں دھوکہ دہی کا اندیشہ رہے گا۔ مائک ملر نے دعویٰ کیا ہے کہ قوت بخش ادویات کی روک تھام کے لیے انتہا پسندانہ طریقے اختیار کرنے ہوں گے، بشمول چپس کا نصب کیا جانا، تاکہ شفاف کھیل کو فروغ دیا جا سکے۔ مائک ملر سمجھتے ہیں کہ مائیکرو چپس نصب کرنے سے ٹیکنالوجی کو دھوکہ دینے کا مسئلہ حل ہو جائے گا ان کا کہناہے کہ 'چند لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے، ہم کتوں سے محبت کرنے والی قوم ہیں، ہم اپنے کتوں میں چپ نصب کراتے ہیں کیونکہ ایسا نہیں لگتا کہ اس سے انھیں نقصان پہنچے گا تو پھر ہم اپنے آپ میں کیوں چپ نصب کرانے کے لیے تیار نہیں؟' مائک ملر نے دعویٰ کیا ہے کہ مائیکرو چپ ٹیکنالوجی میں پیش رفت افق پر ہے اور اس کی جانچ کرنے والوں کو پیش رفت سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ انھیں اس بات کا ڈر ہے کہ دھوکہ دینے والے اپنا راز فاش ہونے سے بچنے کے لیے خود نگرانی کر کے اس ٹیکنالوجی کا استحصال کر سکتے ہیں۔ مائک ملر سمجھتے ہیں کہ'مائیکرو چپس نصب کرنے سے ٹیکنالوجی کو دھوکہ دینے کا مسئلہ حل ہو جائے گا کیونکہ لوگوں کو کسی آلے پر قابو نہیں ہے۔ موجودہ اینٹی ڈوپنگ نظام میں یہ خرابی ہے کہ وہ ایک خاص وقت کے دوران اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کسی نے قوت بخش ادویات استعمال نہیں کیں جبکہ ہمیں ایسے نظام کی ضرورت ہے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ کسی نے کبھی بھی یہ ادویات استعمال نہ کی ہوں'۔ ورلڈ اولمپیئنز ایسوسی ایشن دنیا بھر کی اولمپیئنز ایسوسی ایشنز کی نمائندہ تنظیم ہے جس کے ایک لاکھ سے زیادہ اولمپیئنز ممبران ہیں۔ ورلڈ اولمپیئنز ایسوسی ایشن کے چیف ایگزیکٹیو مائک ملر کا کہنا ہے کہ وہ ذاتی حیثیت میں ایتھلیٹس کے جسم میں مائیکرو چپس نصب کرنے کے حق میں ہیں تاکہ قوت بخش ادویات کے استعمال کو روکا جا سکے۔ text: یہ واقعہ اترانچل میں گڑھوال علاقے میں پیش آیا ہے۔ بس رشی کیش سے بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کی طرف جارہی تھی۔ بی بی سی کی نامہ نگار شالنی جوشی نے بتایا ہے کہ گڑھوال علاقے کے ایک پولیس افسر آر ایس مینا کے مطابق مسافروں سے بس کھچا کھچ بھری ہوئی تھی اور دریائے گنگا کے پاس ایک کھائی میں جا گری۔ امدادی ٹیمیں جائے حادثے پر پہنچ گئیں ہیں اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ مذکورہ سڑک نیشنل ہائی وے ہندوؤں کے ایک مقدس مقام بدری ناتھ کو دارالحکومت دلی سے جوڑتی ہے۔ ہندو زائرین کی آمدورفت کے سبب یہ سڑک تقریباً ہر وقت ہی مصروف رہتی ہے اور اس پر حادثے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دوماہ میں اس طرح کا یہ تیسرا بڑا حادثہ ہے۔ ہفتے کے روز حادثے میں ابتدائی طور پر بیس افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی جبکہ پچیس افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع تھی۔ شمالی بھارت کے پہاڑی علاقے میں بس کے ایک حادثے میں بیس افراد ہلاک اور تقریباً پچیس زخمی ہوگئے ہیں۔ text: پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تنخواہ اور وہ بھی اکثر اوقات ڈالروں میں پاکستانیوں کو جنگ سے تباہ حال ملک کھینچ لاتی ہے۔ عام پاکستانیوں کو افغانستان میں قیام کے لیے طویل مدتی ویزے نہیں ملتے اور بار بار پاکستان آ کر ویزوں کی توسیع وقت طلب اور مہنگا کام ہے جس سے بچنے کی خاطر اکثر پاکستانی ویزوں کے ختم ہونے کے باوجود غیرقانونی طورپر افغانستان ٹھہرے رہتے ہیں۔ شعیب نے بتایا کہ چونکہ وہ ہوٹل سے باہر جاتے ہیں نہیں اس لیے ’اب تک تو کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوا لیکن جن لوگوں کو افغان حکام ویزے ختم ہونے کی وجہ سے تنگ کرتے ہیں وہ اس کا کسی نہ کسی صورت کوئی حل نکال ہی لیتے ہیں۔‘ پاکستانیوں نے گزشتہ دہائی میں افغانستان کی تعمیر نو میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ ان کی اکثریت تعمیراتی شعبے سے منسلک ہے لیکن ایک بڑی تعداد ’وائٹ کالر‘ ملازمتیں بھی کر رہی ہے۔ سرکاری اندازوں کے مطابق افغانستان میں اس وقت لگ بھگ 80 ہزار پاکستانی مختلف شعبوں میں ملازمت کر رہے ہیں۔ یہ پاکستانی محض بڑے شہروں میں نہیں بلکہ قندھار، غزنی اور ہلمند تک پھیلے ہوئے ہیں۔ مواقع کم ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ بین الاقوامی تنظیموں کا یہاں سے چلے جانا ہے۔ اس سے یہاں پر ماضی کے مقابلے میں منصوبے کم ہوئے ہیں: آصف رشی ان میں سے کتنے قانونی اور کتنے غیرقانونی ہیں، کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن گزشتہ دنوں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد وہاں پاکستانیوں کے لیے روزگار کے مواقع کم ہوئے ہیں۔ کابل میں گزشتہ سات برس سے اقوام متحدہ سے منسلک پاکستانی آصف رشی کا بھی یہی خیال ہے: ’میں کہوں گا کہ مواقع کم ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ بین الاقوامی تنظیموں کا یہاں سے چلے جانا ہے۔ اس سے یہاں پر ماضی کے مقابلے میں منصوبے کم ہوئے ہیں۔‘ پاکستانی سرکاری حکام کے مطابق ایک وقت میں کابل میں سات ہزار تک پاکستانی مختلف ملازمتیں کر رہے تھے لیکن حامد کرزئی کی حکومت نے اس وقت ’نیشنلائزیشن‘ کے نعرے کے تحت ان کی تعداد میں کافی کمی کی۔ سرکاری اندازوں کے مطابق افغانستان میں اس وقت لگ بھگ 80 ہزار پاکستانی مختلف شعبوں میں ملازمت کر رہے ہیں بی بی سی اردو کے ساتھ گذشتہ دنوں ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے اس کمی کا اعتراف بھی کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہاں ان کی تعداد کو مناسب حد تک لانا ضروری تھا۔۔۔ہمیں اسے جائز تعداد تک لانا ہی تھا۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم پاکستانیوں کو اٹھا کر ملک سے باہر پھینک دیں۔‘ ڈاکٹر اشرف غنی کی قیادت میں نئی افغان حکومت کا اب کہنا ہے کہ افغانستان میں قیام امن سے لاکھوں پاکستانیوں کو معاشی فائدہ ہوسکتا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ خود افغانستان میں انھیں ملازمت کے نئے مواقع مل سکتے ہیں اور دونوں ممالک کے تعلقات کے درمیان حالیہ گرم جوشی اس بارے میں امید بندھاتی ہے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے شعیب خان (فرضی نام) پچھلے تین برسوں سے کابل کے ایک ریسٹورنٹ میں بیرے کے ملازمت کر رہے ہیں۔ text: یہ بات برطانوی پولیس نے پیر کی دو پہر ایک اخباری کانفرنس میں بتائی ہے۔ ان گیارہ میں سے آٹھ افراد پر اقدام قتل اور دہشت گردی کی تیاری کرنے کا الزام ہے جبکہ دو پر حکام کو متعلقہ معلومات ظاہر نہ کرنے کا الزام ہے۔ ایک سترہ سالہ ملزم پر دہشتگردی میں استعمال کی جانے والی اشیا رکھنے کا الزام ہے۔ ایک خاتون کو بغیر فرد جرم عائد کیے رہا کر دیا گیا ہے جبکہ مزید گیارہ افراد ابھی بھی ان کی حراست میں ہیں۔ پولیس کے سینیئر اہلکار پیٹر کلارک نے کہا کہ ’اب ہم اپنی تفتیش کی آپ کو کچھ تفصیل بتانے کی پوزیشن میں ہیں۔‘ انہوں نے بتایا کہ اب تک اس سلسلے میں 69 مقامات کی تلاشی لی گئی ہے، چار سو سے زیادہ کمپیوٹرز، دو سو سے زیادہ موبائل فون اور آٹھ ہزار سے زیادہ ڈسک،ڈّی وی ڈی وغیرہ کو قبضے میں لیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے قبضے میں ممکنہ ’خودکش حملہ آوروں‘ کے ویڈیو پیغامات اور بم تیار کرنے کا سامان بھی ہے۔ پولیس اہلکار کے مطابق یہ ایک وسیع تفتیش ہے اور ابھی جاری ہے لیکن ’دہشتگردوں سے خطرہ ایک حقیقت ہے۔‘ برطانیہ سے امریکہ جانے والے طیاروں کو تباہ کرنے کے مبینہ منصوبے میں گیارہ ملزمان پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ text: سمتمبر کے اواخر میں دارالحکومت دلی کے پاس دادری کے ایک گاؤں بسہاڑا میں رات کے وقت ہندوں کے مشتعل ہجوم نے محمد اخلاق اور ان کے بیٹے پر حملہ کیا تھا قومی اقلیتی کمیشن کے ارکان نے دادری کے بسہاڑا گاؤں، جہاں محمد اخلاق کو ہلاک کیا گيا تھا، دورہ کیا تھا۔ دادری، غلام علی جیسے واقعات افسوس ناک ہیں: مودی دادری: متاصرہ خاندان گاؤں چھوڑنا چاہتا ہے دادری واقعے نے بھارتی سیاسی شعور کی قلعی کھول دی اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اخلاق اور ان کی فیملی پر حملے کے لیے منصوبہ بندی سے ہندوؤں کے ایک مندر کا استعمال کیا گیا۔ اس کے برعکس حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور اس سے وابستہ مرکزی حکومت کے وزرا اس واقعے کو منصوبہ بندی کے بجائے فوری طور پر ہوئے غصے کا رد عمل قرار دیتے ہیں۔ بھارت میں حالیہ دنوں میں گائے کا گوشت کھانے یا گائے کی سمگلنگ کرنے کی محض افواہ پر تین مسلمانوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ خاندان پر حملے کے لیے ایک خاص برادری کے لوگوں کو جمع کرنے کے مقصد سے باقاعدہ گاؤں کے ایک مندر کا استعمال کیا گيا ستمبر کے اواخر میں دارالحکومت دلی کے پاس دادری کے ایک گاؤں بسہاڑا میں رات کے وقت ہندوں کے مشتعل ہجوم نے محمد اخلاق اور ان کے بیٹے پر حملہ کیا تھا۔ دونوں کو گھر سے باہر نکال کر اس قدر مارا پیٹا کی اخلاق کی موقعے پر ہی موت ہوگئی جبکہ ان کا بیٹا بری طرح زخمی ہوا تھا جس کا اب بھی علاج چل رہا ہے۔ قومی اقلیتی کمیشن کی تفتیشی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اخلاق پر ہجوم نے جو حملہ کیا اس کی پہلے سے پلاننگ کی گئی تھی اور ’اس خاندان پر حملے کے لیے ایک خاص برادری کے لوگوں کو جمع کرنے کے مقصد سے باقاعدہ ایک مندر کا استعمال کیا گيا۔‘ ٹیم کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ مندر سے یہ اعلان کرنا کہ گائے کے باقیات پائے گائے ہیں لوگوں کو مشتعل کرنے اور حملہ کرنے کا سبب بنا۔ رپورٹ میں کہا گيا ہے رات کو جس وقت یہ واقعہ پیش آیا ’اس وقت گاؤں کے بیشتر لوگ سو جانے کا دعویٰ کرتے ہیں اس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اتنے بڑے ہجوم کو اس وقت اتنی جلدی جمع کرنے کے لیے پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔‘ اس بارے میں ریاستی پولیس خود بھی تفتیش کر رہی ہے جس کی رپورٹ ابھی سامنے نہیں آئی ہے۔ البتہ گوشت سے متعلق فورینزک رپورٹ آگئی ہے جس کے مطابق اخلاق کے گھر سے دستیاب گوشت گائے کا نہیں بلکہ بکرے تھا۔ چونکہ ان پر گائے کا گوشت کھانے اور جمع کرنے کا الزام تھا اس لیے پولیس نے ان کے گھر کی فرج میں رکھے گے گوشت کو جانچ کے لیے لیباٹری بھیجا تھا۔ اور اس سرکاری رپورٹ کے مطابق وہ گوشت بکرے کا ہے۔ دہلی سے متصل دادری میں گائے کاگوشت کھانے کی افواہ پر ہلاکت کے واقعے کی تفتیش کرنے والے ایک کمیشن کا کہنا ہے کہ قتل کا یہ واقعہ ہجوم کا رد عمل نہیں بلکہ اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بنایا گیا تھا۔ text: فرانس میں بدھ کو’چارلی ایبڈو‘ کے دفتر پر تین مسلح افراد کے حملے میں آٹھ صحافیوں اور دو پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 12 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے مشتبہ حملہ آوروں کو پکڑنے کے لیے ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں نے بدھ کو آپریشن شروع کیا تھا۔ پولیس ولر کوتریت نامی قصبے کے نزدیکی علاقوں میں تلاش کر رہی ہے جہاں اطلاعات کے مطابق دونوں مشتبہ حملہ آوروں نے ایک پیٹرول پمپ لوٹا تھا۔ پولیس قریبی لونگ پورٹ گاؤں کا محاصرہ کر کے مشتبہ حملہ آوروں شریف اور سعید کوچی کو ڈھونڈنے کے لیے گھر گھر تلاشی لے رہی ہے جبکہ داخلی راستوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ حملہ آوروں کی تلاش جاری، پیرس میں دوبارہ فائرنگ ’ایک ایک سیکنڈ کی پلاننگ ہوئی تھی‘ پیرس میں سیاسی جریدے کے دفتر پر فائرنگ سے 12 ہلاکتیں فرانس کے وزیرِ داخلہ کے مطابق پیرس میں حملے کے بعد ملک میں حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانے کے لیے پولیس اور فوج کے اضافی 88 ہزار اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ فرانس میں بدھ کو’چارلی ایبڈو‘ کے دفتر پر تین مسلح افراد کے حملے میں آٹھ صحافیوں اور دو پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 12 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے بدھ کو چارلی ایبڈو کے دفتر پر تین مسلح افراد کے حملے میں آٹھ صحافیوں اور دو پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 12 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔ فرانسیسی حکام کا کہنا ہے کہ بدھ کو رسالے کے دفتر پر کیے جانے والے حملے اور جمعرات کو پیرس کے ایک میٹرو سٹیشن پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک خاتون پولیس اہلکار کی ہلاکت کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ حکام کے مطابق پیرس کے میٹرو سٹیشن پر حملہ کرنے والا مسلح شخص فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ فرانس کے حکام نے دارالحکومت پیرس کی سکیورٹی پہلے ہی سے ہائی الرٹ کر رکھی ہے جبکہ پولیس اور انسدادِ دہشت گردی کے خصوصی یونٹ ملک کے شمال میں چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملہ کرنے والے افراد کو تلاش کر رہے ہیں۔ فرانس میں لوگوں نے جمعرات کو بھی چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے میں ہلاک ہونے والے 12 افراد کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے شمعیں روشن کیں اور گرینج کے معیاری وقت کے مطابق شام سات بجے ایفل ٹاور کی بتیاں بجھا دی گئیں۔ فرانس میں جمعرات کو عوامی مقامات پر ایک منٹ کی خاموش اختیار کی گئی اور چارلی ایبڈو کے دفتر کے باہر سینکڑوں افراد نے اکٹھے ہو کر ہلاک ہونے والے افراد کو یاد کیا۔ اس کے علاوہ نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے 15 ارکان نے بھی کھڑے ہو کر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ ادھر فرانس میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ فرانس کے علاقے پوٹیئرز کی ایک مسجد جبکہ جنوبی حصےمیں واقعہ اوڈی میں ایک دوسری عبادت گاہ پر فائرنگ کی گئی۔ فرانس میں لوگوں نے جمعرات کو ’چارلی ایبڈو‘ کے دفتر پر حملے میں ہلاک ہونے والے 12 افراد کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے شمعیں روشن کیں اور گرینج کے معیاری وقت کے مطابق شام سات بجے ایفل ٹاور کی بتیاں بجھا دی گئیں فرانس کے وزیرِ داخلہ نے اس واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عبادت کرنے والی کسی بھی جگہ پر ایسی حرکت کو برداشت نہیں کریں گے۔ اس سے قبل فرانسیسی میڈیا کا کہنا تھا کہ چارلی ایبڈو پر فائرنگ کرنے والے دو مشتبہ حملہ آوروں نے آئن کے علاقے میں ولر کوتریت کے قریب واقع سروس سٹیشن لوٹا تھا۔ فرانسیسی میڈیا کے مطابق لوٹے گئے سروس سٹیشن کے مینیجر کے مطابق لوٹ مار کرنے والے دونوں افراد مشتبہ حملہ آوروں سے مشابہت رکھتے تھے اور وہ کلاشنکوفوں اور دستی بموں سے مسلح تھے۔ اس سے پہلے حکام نے کہا تھا کہ ایک مشتبہ حملہ آور نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا ہے جبکہ دیگر دو مشتبہ حملہ آوروں کی تلاش کے لیے جاری آپریشن کے دوران سات افراد کو حراست میں لیا گیا۔ پولیس حکام کا کہنا تھا کہ رسالے پر حملے کرنے والے تین مشتبہ حملہ آوروں کی شناخت ہو گئی ہے۔ ان میں ایک 32 سالہ شریف ہیں اور ان کے 34 سالہ بھائی سعید۔ تیسرے حملہ آور کا نام حمید مراد ہے اور ان کی عمر 18 سال ہے۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں مشہور رسالے ’چارلی ایبڈو‘ کے دفتر پر حملہ کرنے والے مشتبہ حملہ آوروں کی تلاش کے لیے پیرس کے شمال مشرقی دیہی علاقوں میں خصوصی فورسز کی مدد سے ایک بڑا سرچ آپریشن جاری ہے۔ text: پاکستانی ٹیم کا اسوقت سب سے بڑا مسئلہ غیرمستقل مزاج بیٹنگ ہے پانچ میچوں کی سیریز کا پہلا میچ بدھ کو شارجہ میں کھیلا جا رہا ہے لیکن دونوں ٹیموں کی توجہ عالمی رینکنگ پر زیادہ نہیں ہے کیونکہ سیریز کا نتیجہ کچھ بھی نکلے پاکستان کی چھٹی پوزیشن برقرار رہے گی البتہ کامیابی کی صورت میں سری لنکن ٹیم چوتھے سے تیسرے نمبر پر آجائے گی۔ پاکستانی ٹیم کی قیادت ایک بار پھر مصباح الحق کے ہاتھ میں ہے جو جنوبی افریقہ کی سرزمین پر ون ڈے سیریز جیتنے والے برصغیر کے پہلےکپتان بنے ہیں۔ مصباح الحق اس سال انفرادی کارکردگی میں بھی نمایاں رہے ہیں۔ وہ انتیس ون ڈے انٹرنیشنل میں تیرہ نصف سنچریوں کی مدد سے بارہ سو تیئس رنز بنا چکے ہیں اور اس سال ون ڈے میں ویرات کوہلی کے سب سے زیادہ بارہ سو اڑسٹھ رنز کے ریکارڈ سے آگے نکلنے کے لیے انہیں صرف چھیالیس رنز درکار ہیں۔ پاکستانی ٹیم کا اسوقت سب سے بڑا مسئلہ غیرمستقل مزاج بیٹنگ ہے۔ محمد حفیظ جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلتے ہوئے ڈیل اسٹین کے سامنے مسلسل بے بس دکھائی دیے ہیں ۔متحدہ عرب امارات میں کھیلی جانے والی سیریز کے پانچوں میچوں میں وہ ایک بھی نصف سنچری اسکور نہ کرسکے اور جنوبی افریقہ میں کھیلے گئے دو میچوں میں ناکامی کے بعد وہ تیسرے میچ سے باہر کردیے گئے۔ دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں نصف سنچری سےشرجیل خان میں اعتماد آیا صہیب مقصود اور شرجیل خان بیٹنگ لائن میں باصلاحیت بیٹسمین کے طور پر شامل ہوئے ہیں۔ ہے البتہ صہیب مقصود پہلے دو ون ڈے میچوں میں نصف سنچری کے بعد بڑے سکور کی تلاش میں ہیں۔ اسد شفیق اور عمراکمل ون ڈے میں بھی کب بڑی اننگز کھیلیں گے؟ یہ انتظار خاصا طویل ہوچکا ہے۔ اوپنر احمد شہزاد نے جنوبی افریقہ کے خلاف شارجہ اور دبئی میں نصف سنچریاں بنانے کے بعد پورٹ الزبتھ میں سنچری اسکور کی ہے پاکستانی ٹیم ایک بڑے اسکور کے لیے مصباح الحق کے بعد انہی کی طرف دیکھ رہی ہے۔ سری لنکن بیٹنگ لائن تجربہ کار کمارسنگاکارا اور مہیلا جے وردھنے کے ساتھ نوجوان کوشل پریرا۔ چندی مل اور کرونا رتنے پر مشتمل ہے۔ پاکستان کی بولنگ سری لنکا کے مقابلے میں زیادہ متنوع ہے لیکن سری لنکن بولرز لستھ مالنگا کولاسیکرا اور اجانتھا مینڈس پاکستانی بیٹسمینوں کی کمزوریوں سے پورا پورا فائدہ اٹھانا جانتے ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی عالمی رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنےکا موقع گنوانے کے بعد پاکستانی ٹیم اب ون ڈے سیریز میں سری لنکا کے مقابل ہے۔ text: اس فلم میں اسامہ بن لادن کی روپوشی سے ان کی دو ہزار گیارہ میں ہلاکت تک کے عرصے کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایتکارہ کیتھرین بِگلو نے اسامہ بن لادن کی روپوشی سے ان کی دو ہزار گیارہ میں ہلاکت تک کے عرصے کو ڈرامائی انداز میں فلم زیرو ڈارک تھرٹی میں پیش کیا ہے۔ اس فلم کا نام ایک فوجی اصطلاح ہے جسے رات کے نصف کے بارے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ وہی وقت ہے جب اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر امریکی بحریہ کے سیلز نے حملہ کیا تھا۔ تین امریکی سینیٹرز نے سی آئی کے قائم مقام ڈائریکٹر مائیکل موریل کو خط لکھ کر خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ممکن ہے کہ سی آئی اے نے فلمسازوں کو غلط معلومات فراہم کی ہوں۔ اس فلم کو چار گولڈن گلوب ایوارڈز کے لیے نامزد کیا گیا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ آسکر ایوارڈ کے لیے بھی نامزد ہوگی۔ امریکی صدر براک اوباما کے دوسری مدت کے لیے انتخاب سے پہلے اس فلم پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ الیکشن میں اوباما کی مدد کے لیے بنائی گئی تھی۔ اسی وجہ سے اس فلم کی امریکہ میں ریلیز کو مؤخر کر دیا گیا تھا اور اب یہ گیارہ جنوری کو عام نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔ اس فلم کی ہدایتکارہ کیتھرین بِگلو ہیں جنہوں نے دو ہزار دس میں اپنی فلم ہرٹ لاکر پر آسکر ایوارڈ حاصل کیا تھا۔ امریکی سینیٹرز نے اس خط میں مطالبہ کیا ہے کہ انہیں ان تمام دستاویزات کی نقول دی جائیں جو فلمسازوں کو سی آئی اے نے فراہم کی ہیں۔ اس خط کے لکھنے والے سینیٹرز ڈائین فینسٹن، کارل لیوِن اور سابق امریکی صدارتی امیدوار جان مکین ہیں جنہوں نے اس خط میں خدشات ظاہر کیے ہیں کہ اس فلم سے لوگوں میں سی آئی اے کی جانب سے تشدد کے ذریعے معلومات کے حصول کے بارے میں غلط تاثر جائے گا۔ اس خط میں لکھا گیا ہے کہ ’یہ بات جانتے ہوئے کہ سی آئی اے نے فلمسازوں کے ساتھ اس فلم کے لیے تعاون کیا ہے اور یہ کہ اس فلم کی کہانی ماضی میں سی آئی اے کے مختلف اعلیٰ افسران کی جانب سے کی گئی غلط بیانیوں سے مطابقت رکھتی ہے تو شاید سی آئی اے نے اس معاملے میں فلمسازوں کو ان معلومات کے ذریعے غلط رہنمائی کی ہے۔‘ اس خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ فلم کی کہانی سرکاری بیانات سے مطابقت نہیں رکھتی جیسا کہ سی آئی اے اسامہ بن لادن کے بارے میں ان کے ایک پیغام رساں کارندے سے جاننے میں ناکام رہی جن پر ’جابرانہ تشدد کے طریقے‘ استعمال کیے گئے تھے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سینیٹ ہی کے ایک اور جائزے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس پیغام رساں کارندے کے بارے میں بالکل صحیح معلومات سی آئی اے کے ایک اور قیدی سے بغیر تشدد کے پہلے ہی حاصل کی جا چکی تھیں۔ اس فلم کا نام ایک فوجی اصطلاح ہے جسے رات کے نصف کے بارے میں استعمال کیا جاتا ہے جس وقت اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر امریکی بحریہ کے سیلز نے حملہ کیا گیا تھا۔ انہی تین سینیٹرز نے سونی پکچرز انٹرٹینمنٹ کپمنی کے سربراہ کو بھی کرسمس سے پہلے خط لکھا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ فلم درست معلومات پر مبنی نہیں ہے۔ سینیٹرز کا دعویٰ ہے کہ زیرو ڈارک تھرٹی ’واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سی آئی اے کی جانب سے اسامہ بن لادن کے ایک پیغام رساں کارندے کے بارے میں معلومات اخذ کرنے کے لیے جابرانہ تشدد کے طریق کا استعمال بہت موثر تھا جو بالاخر ایجنسی کو اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ تک لے گیا تھا۔‘ ہدایتکارہ کیتھرین بِگلو اور منظر نگار مارک بوال جنہوں نے دو ہزار دس میں فلم ہرٹ لاکر پر آسکر ایوارڈز حاصل کیے تھے کہا ہے کہ ’فلم بہت مختلف نوعیت کے معلومات اخذ کرنے کے طریقے دکھاتی ہے۔‘ ان دونوں نے کہا کہ ’فلم یہ دکھاتی ہے کہ کوئی ایک طریقہ ایسا نہیں تھا جس سے اس تلاش میں فائدہ ہوا ہو نہ ہی ایسا کوئی سین پوری فلم کے انداز کا مظہر ہے۔‘ ہالی وڈ رپورٹر نامی ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ سینیٹ کی کمیٹی ان دستاویزات کا جائزہ لے رہی ہے جن میں سی آئی اے کے افسروں اور فلمسازوں کے دمیان بات چیت کا ریکارڈ ہے۔ اب یہ فلم گیارہ جنوری کو امریکہ میں اور پچیس جنوری کو برطانیہ میں نمائش میں پیش کی جائے گی اور بہت حد تک ممکن ہے یہ آسکر ایوارڈ حاصل کر لے۔ اسی طرح خبر رساں ادارے رائٹرز کا کہنا ہے کہ کمیٹی اس بات کا جائزہ لے گی کہ کیا سی آئی اے کے اہلکار اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ فلم میں تشدد کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کو مؤثر طریقہ دکھایا گیا ہے۔ امریکہ میں اس فلم کی تقسیم کار کمپنی سونی پکچرز نے ہالی وڈ رپورٹر کو بتایا کہ ’ہم جو اس فلم کو امریکہ میں تقسیم کر رہے ہیں اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ یہ ایک بہت اہم فلم ہے۔ کیتھرین بِگلو، مارک بوال اور ان کی ٹیم نے ایک بہترین فلم بنائی ہے اور ہم اس بات کی مکمل حمایت کرتے ہیں کہ اس زبردست کہانی کو سینما کی سکرین پر دکھایا جائے۔‘ اب یہ فلم گیارہ جنوری کو امریکہ میں اور پچیس جنوری کو برطانیہ میں نمائش میں پیش کی جائے گی اور بہت حد تک ممکن ہے یہ آسکر ایوارڈ حاصل کر لے۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات امریکی سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ اسے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے آپریشن پر مبنی ہالی وڈ فلم زیرو ڈارک تھرٹی بنانے والوں کے درمیان رابطوں کے بارے میں مزید تفصیلات بتائی جائیں۔ text: اس نو برس کے بلے کو جب انگلینڈ کی کاؤنٹی نورفوک میں بلیوں کے تحفظ کے سینٹر لایا گیا تو اس کا وزن اپنی عمر کے حساب سے تقریباً دگنا تھا۔ سینٹر نے کولن نامی اس بلے کو پرہیز والا کھانا دینا شروع کر دیا ہے جبکہ بلیوں کے کھلونوں سے کھیلنے کے ایک پروگرام میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس خیراتی ادارے نے کولن کو گھر دینے اور اس کے ’ذاتی ٹرینر کا کردار ادا کرنے‘ کی اپیل کی ہے۔ یہ بھی پڑھیے انٹرنیٹ کی مقبول ’ناراض بلی‘ چل بسی بلیوں کو شاید اپنے جذبات کا اظہار کرنا ہی نہیں آتا نیوزی لینڈ کی ’بلیِ اوّل‘ سینئیر کیٹ کیئر اسسٹنٹ بیکی پگگٹ نے کہا ہے کہ ’ہم کسی ایسے شخص کی تلاش میں ہیں جو کولن کی اس کا وزن برقرار رکھنے اور فٹ ہونے میں مدد کر سکے۔‘ ’وہ پیارا لیکن سست ہے، جو ورزش کرنا پسند نہیں کرتا۔‘ انھوں نے مزید کہا ’کولن کو کسی بھی ورزش کے لیے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہو گی تو ہم کسی ایسے مالک کی تلاش میں ہیں جو اسے وقت دے سکے۔‘ 17 اپریل کو جب کولن کو اس سینٹر میں لایا گیا تھا تو اس کا وزن 8.8 کلو تھا لیکن اس وقت اس کا وزن 6.5 کلو ہے۔ اس کے سابق مالکان کسی اور علاقے میں منتقل ہو گئے ہیں اور اسے اپنے ساتھ نہیں لے جا سکے۔ بیکی پگگٹ کہتی ہیں ’مجھے شک ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران زیادہ وقت گھر پر گزارنے کی وجہ سے وہ اسے کھانے پینے کے لیے کچھ زیادہ ہی دے رہے تھے۔‘ ’کولن کو کھانا بہت زیادہ پسند ہے تو وہ اس سے ناں نہیں کہہ سکا لیکن اگر کولن کا وزن کچھ کم ہو جائے تو وہ زیادہ صحت مند زندگی گزار سکے گا۔‘ ایک بلے کو، جس کا وزن لاک ڈاؤن کے دوران کافی زیادہ بڑھ گیا تھا، ورزش اور وزن کم کرنے کے ایک پروگرام میں شامل کیا گیا ہے۔ text: ’چاندنی بار‘ ’پیج تھری‘ اور ’ کارپوریٹ‘ جیسی فلموں کے خالق مدھر بھنڈارکر سے بی بی سی ہندی کے انڈیا ایڈیٹر سنجیو شریواستو نے ایک ملاقات کی اور ان کی زندگی کے نہاں پہلوؤں کو جانا۔۔۔ س: مدھر آپ رہنے والے کہاں کے ہیں؟ ج: میں ممبئی کے کھار علاقے کا رہنا والا ہوں۔ زندگي کی جدوجہد یہیں ممبئی میں شروع ہوئی۔ س: آپ نے شروعات کی ایک ویڈیو لائبریری سے اور اس کے بعد آپ سے کئی قومی فلم اعزاز پائے، کیسا رہا یہ سفر؟ ج: ویڈیو لائبریری تو بس یوں ہی کھل گئی تھی ۔ دراصل مجھے بچپن سے فلموں کا بہت شوق تھا۔ میرا تعلق ایک متوسط طبقے سے تھا اس لیے میں سنیماہال میں فلمیں نہیں دیکھ پاتا تھا۔ ان دنوں سڑکوں پر 16 ایم ایم کے پروجیکٹر پر فلمیں دکھائی جاتی تھیں اور وہاں میں نے بہت سے فلمیں دیکھیں۔ میں فلم شروع ہوتے ہی سبھی ناموں کو غور سے پڑھتا تھا اور سوچتا تھا کہ ہدایت کار بہت چھوٹا آدمی ہوتا ہوگا کیونکہ اس کا نام فلم کریڈٹس میں سب سے آخر میں آتا ہے۔ لیکن بعد میں کسی نے مجھے بتایا کہ ہدایت کار فلم بنانے والی ٹیم کا کپتان ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا نام بعد میں آتا ہے۔ ویڈیو کیسٹ کے دور کی آمد نے مجھے فلموں کا عادی بنا دیا۔ میں نے دس بارہ کیسٹوں سے اپنا کام شروع کیا۔ میں گھروں پر بھی فلم کیسٹس پہنچایا کرتا تھا۔ میرے پاس چار سالوں کی مدت میں 1800 سے 1900 کیسٹ اکھٹے ہوگئے تھے۔ س: پھر آپ فلموں سے جڑے، معاون ہدایت کار بنے اور ہاں آپ نے رام گوپال ورما کے ساتھ بھی کام کیا ہے؟ ج: جی ہاں اگر بالی ووڈ میں آپ کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہے تو دقتیں آتی ہیں۔ مجھے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ میں کئی فلم والوں کو بھی کیسٹس پہنچایا کرتا تھا۔ متھن چکرورتی آج مجھے کہتے ہیں کہ مدھر مجھے یقین نہیں ہوتا کہ تو وہی لڑکا ہے جو مجھے کیسٹ پہنچایا کرتا تھا۔ میں نے فلم سیٹس پر بہت چھوٹے چھوٹے کام کیے ہیں۔ مجھے روزانہ تیس روپے ملتے تھے۔ پھر میں نے رام گوپال ورما کے ساتھ چار پانچ سال کام کیا اور ’رنگیلا‘ میں نے معاون ہدایت کار کا کام کیا۔ س: آپ کی فلم ’چاندنی بار‘ کو پروڈیوسرز نے کیسے لیا؟ ج: فلم ’تریشکتی‘ کے بعد مجھ پر فلاپ ہدایت کار کی مہر لگ گئی تھی۔میرے خیال سے فلم ناقدوں نے میری فلم کے ’ریویوز‘ تک نہیں لکھے تھے۔ میں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ میں بس اور آٹو رکشہ سے جایا کرتا تھا۔ جو لوگ مجھ سے کبھی کام مانگنے آتے تھے میں انہیں کے ساتھ بس میں سفر کرنے لگا تھا۔ مجھے یہ بات بہت بری بھی لگتی تھی۔ فلمی پارٹیوں میں کسی نہ کسی طرح گھس جاتا تھا۔ س: یہ بتائیں کہ کیا جدوجہد کے دور میں انسان کو موٹی کھال والا بھی بننا پڑتا ہے؟ ج: بالکل! مجھے یہ بات بتانے میں شرم بھی نہیں ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگوں کو پتا چلے کہ یہاں تک کے سفر کے دوران مجھے کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک ناکام ہدایت کار قرار دیے جانے کے بعد مجھ سے لوگ منہ پھیرتے تھے۔ اسی دوران میرا ایک دوست مجھے ایک لیڈیز بار میں شراب پلانے لے گیا۔ وہاں لڑکیوں کو رقص کرتے ہوئے دیکھ کر مجھے اچھا نہیں لگا اور وہاں سے واپس آ کر میں پوری رات نہیں سو سکا۔ اسی دوران میں ممبئی کے کئی خواتین بار میں گيا اور ان خواتین کی زندگی کا اندازہ لگاتا رہا۔ میں نے اپنے دوست کو بتایا کہ میں ان خواتین کی زندگي پر فلم بنانا چاہتا ہوں۔ میرے دوست نے کہا کہ فلاپ فلم بنانے کے بعد ایسی فلم بنانا چاہتا ہے لیکن میں ان اس موضوع پر چھ مہینے ریسرچ کی۔ میں فلم کی کہانی لے کر کئی پروڈیوسرز کے پاس گیا۔ انہوں نے کہا فلم بنا‎‎ؤ لیکن اس میں مسالا ضرور ڈالنا تاکہ فلم بک سکے لیکن میں ایک سنجیدہ فلم بنانا چاہتا تھا۔ س: اور ’چاندنی بار‘ کے بعد بالی ووڈ میں مدھر کا نام ہوگيا؟ ج: مجھے یقین تھا کہ میں ایک بہتر فلم بناؤں گا چاہے لوگ اسے پسند کریں یا نہیں۔ ٹی وی سیریل بنانے میں میری کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ یہ سچ ہے کہ چاندنی بار نے مجھے ایک ہی دن میں سٹار بنا دیا۔ س: چاندنی بار کے بعد آپ نے کون سے فلم بنائی؟ ج: ’چاندنی بار‘ کے بعد میں نے ’ستّا‘ بنائی۔ باکس آفس پر فلم کامیاب نہیں ہوئی لیکن فلم ناقدین نے اس کو ایک بہتر فلم قرار دیا اور بہت سے ناقدین نے روینا ٹنڈن کی اداکاری کو بھی خوب پسند کیا۔ اس فلم میں روینا ایک عام لڑکی ہونے کے باوجود ایک سیاستدان کےگھر بہو بن کر جاتی ہے اور جب سیاستدان سیاست میں ان کا استعمال کرتے ہیں تو ان پر پلٹ کر وار کرتی ہیں۔ س: آپ کی سبھی فلموں میں خواتین مرکزی کرداروں میں کیوں ہوتی ہیں؟ ج: مجھ سے اکثر خواتین یہ سوال کرتی ہیں کہ میں خواتین کے مسائل کو اتنی بخوبی کیسا سمجھتا ہوں۔ میرے خیال سے ہمارے ملک میں کئی ایسے مسائل ہیں جنہیں خواتین کو مرکزی کردار میں رکھ کر اچھی فلمیں بنائی جا سکتی ہیں۔ میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں میں کہ تجرباتی سنیما بنانے میں یقین رکھتا ہوں نہ کہ کمرشل۔ میری فلمیں بڑے بجٹ کی نہیں ہوتی ہیں نہ وہ اربوں روپے کماتی ہیں لیکن اپنی لاگت کے حساب سے اچھا بزنس کرتی ہیں جس سے پروڈیوسرز بھی خوش رہتے ہیں۔ س:’پیج تھری‘ فلم میں آپ نے شان و شوکت کی زندگی بسر کرنے والوں پر طنز کیا تھا؟ ج: اس کے پیچھے ایک کہانی ہے، جب میری فلم ’چاندنی بار‘ ہٹ ہوئی اور میں راتوں رات سٹار بن گیا تو مجھے بڑی بڑي پارٹیوں کی دعوتیں آنے لگيں، ان پارٹیوں میں میں ان بڑے سیاست دانوں، فلم ہدایت کاروں اور تاجروں سے ملا جن کے بارے میں ملنے کے بارے میں خیال بھی نہیں کر سکتا تھا، مجھے لگا کہ یہ الگ طرح کا نشہ ہے لیکن میں نے یہ نشہ اپنے سر چڑھنے نہیں دیا، ان پارٹیوں میں لوگ ایک دو شراب کے پیگز پینے کے بعد لوگ دوسری دنیا میں چلے جاتے ہیں، میں نے سوچا کہ اس موضوع پر فلم بنائی جا سکتی ہے۔ س: کہتے ہيں مدھر بھنڈارکر بڑي شخصیات کی زندگی کا خلاصہ کرنے میں زيادہ دلچسپی رکھتے ہيں؟ ج: میں اس بات سے اتفاق نہيں رکھتا۔ میری فلمیں سماجی طور پر قابل اعتبار ہوتی ہيں۔ میں اپنی فلموں میں کوئی فیصلہ کن پیغام نہيں دیتا بلکہ سماج کی کسی ایک پریشانی کو عوام کے سامنے پیش کرتا ہوں میں ان موضوعات پر فلمیں بناتا ہوں جن کا تعلق عام انسان سے ہوتاہے۔ س: آپ کی فلموں خاص موضوعات پر مبنی ہوتی اس سے آپ کا دائرہ محدود نہیں ہو رہا ہے؟ ج: ہاں بعض لوگ کے کہتے ہیں کہ میں ایک ہی طرح کی فلمیں بناتا ہوں۔ میں مزاحیہ اور تھرلر فلمیں بنانا چاہتا ہوں لیکن یہ بات ضرور ہے ان فلموں میں بھی مدھر بھنڈارکر کا اثر صاف دکھنا چاہیے۔ س: آج کے دور میں آپکا پسندیدہ ہدایت کار کون ہے؟ ج: مجھے راج کمار ہرانی بہت پسند ہیں۔ میں نے ان کی ’منا بھائی ایم بی بی ایس‘ اور ’لگے رہو منا بھائی‘ دیکھی ہیں۔ بہت شاندار فلمیں بناتے ہیں اور ان کی فلموں‍ میں ایک پیغام بھی ہوتا ہے۔ س: اور اداکاروں میں کون پسند ہے؟ ج: پرانے زمانے کے اداکاروں میں دیوآنند، راجیش کھنا اور امیتابھ بچن جی پسند ہیں۔ کمل ہاسن اور نصیرالدین شاہ بھی اچھے لگتے ہیں۔ سنجیو کمار اور بلراج ساہنی کمال کے اداکار رہے ہیں۔ آج کے دور میں عامر خان اور ریتک روشن اچھے لگتے ہیں۔ س: دس سال بعد آپ اپنے آپ کو کہاں دیکھتے ہیں؟ج: آج سے چھ سال پہلے میں سڑک پر کھڑا ہوتا تھا۔ بعد میں ایک کامیاب ہدایت کار بنا لیکن کس مقام پر پہنچوں گا کہنا مشکل ہے۔ لیکن فلمیں بناتا رہوں گا۔ آج میں کامیاب فلمیں بنا رہا ہوں میں تو میرے پاس اداکار اور پروڈیوسرز آ رہے ہیں۔ نہ جانے کل کیا ہو۔ بالی وڈ کے مشہور فلم ہدایت کار مدھر بھنڈارکر کا شمار ان فلم ہدایت کاروں میں ہوتا ہے جو اپنی ہر فلم میں سماج کے حسّاس اور سنجیدہ پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ text: یہ علاقے دارالحکومت کوئٹہ سے ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہونے کے باوجود ابھی تک حکومت کے نظروں سے اوجھل ہے۔ یہاں انتیس اکتوبر کوآنے والے زلزلے سے ڈیڑھ سوسے زیادہ مکانات منہدم ہوچکے ہیں جبکہ اس سے کئی زیادہ مکانات کریک پڑنے کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہے ہیں جسکے نتیجے میں سنیکڑوں کی تعداد میں لوگ شدید سردی میں کھلے آسمان تلے راتیں گزارنے پر مجبورہیں اور یہاں دس ہزار سے زیادہ لوگ ابھی تک خیموں گرم کپڑوں، آٹا اور دیگر ضرورت کے چیزوں کے لیے منتظر ہیں۔ قبائلی شخص ابراہیم نے کہا کہ ابھی تک اس علاقے سے منتخب ہونے والے صوبائی وزیر سلطان ترین ضلع ناظم اور نہ ہی حکومت کے کسی اور نمائندے نے یہاں کا دورہ کیا ہے ان کے مطابق ان لوگوں کوفوری طور پر پانچ سو خیموں کی ضرورت ہے۔ زمیندار غلام سرور نے بتایا ہے کہ زلزلے کے بعد بچے خوف کی وجہ سے نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہرنائی اور زیارت سے تورشور کوملانے والی سڑک پر پہاڑی تودے گرنے سے بند ہیں اور تور شور کا زمینی راستہ کٹ چکاہے جسکی وجہ سے علاقے میں خوراک کی قلت پیداہوگئی ہے۔ اس موقع پر کوئٹہ میں یواین ایچ سی آر کی ترجمان متحرمہ دنیا اسلم خان نے بتایاکہ یواین ایچ سی آر زرغون کے متاثرہ علاقوں کیلئے مزید ضروری سامان روانہ کرے گی انکے مطابق اس وقت خواتین اور بچوں کو بیماریوں سے بچانے کیلئے ادویات کی ضرورت ہے۔ امدادی کام میں مصروف ریلیف پاکستان کے نمائندے محمدعلی نے بتایا کہ این جی اوز نے اپنی مد د آپ کے تحت انکی مدد کی ہے لیکن حکومت کوبھی فوری طور پراس علاقے میں امدادی کام کا آغازکرناچاہیے۔ درہ زرغون کے دامن میں واقع تورشور اور شابان میں کاکڑ قوم سے تعلق رکھنے والا دومڑ قبیلہ آباد ہے لیکن ابھی تک حکومت کی جانب سے بجلی گیس ٹیلی فون اور سڑک کی کوئی سہولت نہیں ہے جس کے باعث کوئٹہ سے صرف ساٹھ کلومیڑ پر ہونے کے باوجود توشورتک پہنچنے کیلئے تین سے چارگھنٹے لگ جاتے ہیں۔ صنوبرکے جنگلات کے حوالے سے مشہور زیارت کے بعد صنوبر کے دوسر ے بڑے جنگلات درہ زرغون میں واقع ہیں جوہزاروں سال پرانے ہیں کیونکہ اس جنگلی درخت کی خصوصیت یہ ہے کہ پانچ سال میں یہ درخت صرف ایک انچ بڑھتا ہے۔ لیکن حکومت کی جانب سے گیس کی عدم فراہمی کے باعث یہاں کے مقامی لوگ ان قیمتی درختوں کوسردیوں میں جلانے کیلئے کاٹنے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ شابان ایک تفریحی مقام ہونے کے باعث اعلی حکام اور فوجیوں نے اپنے لیے تو یہاں پلاٹ بھی الاٹ کیے ہیں لیکن یہاں لوگ پکے سڑک اور ٹیلی فون سے محروم رکھا ہے۔ زرغون میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کی معاش زراعت اورمال میویشی سے وابستہ ہے لیکن صحت کے حوالے سے یہاں صرف ایک بی ایچ یوہے جہاں کوئی ڈاکڑ نہیں ہے یہی صورتحاپرائمری سکول کاہے جہاں لوگوں کے مطابق اس سکول میں ٹیچرنہیں آتاہے جبکہ بچیوں کیلئے کوئی سکول نہیں ہے۔ بلوچستان میں زلزلے سے زیادہ تر متاثرہ علاقو ں میں حکومت کی جانب سے امدادی کام جاری ہیں مگر بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں ابھی تک فوج اور فرنٹئر کورکے ساتھ ساتھ کسی بھی سرکاری ادارے کے اہلکار نہیں پہنچ سکے ہیں ان علاقوں میں درہ زرغون کاعلاقہ تورشوراور شابان بھی شامل ہیں۔ text: مارچ سے یمن میں لڑائی شروع ہونے کے بعد سے تقریباً 70 ہزار افراد نے صومالیہ، سوڈان، جبوتی اور ایتھیوپیا کا رخ کیا ہے یہ رپورٹ بحیرۂ روم کے ساحل کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ ان ہزاروں افراد کے بارے میں ہے جو دوسری جانب جنگ زدہ علاقے یمن سے قرنِ افریقہ کا رخ کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کا اندازہ ہے کہ مارچ سے یمن میں لڑائی شروع ہونے کے بعد سے تقریباً 70 ہزار افراد نے صومالیہ، سوڈان، جبوتی اور ایتھیوپیا کا رخ کیا ہے۔ ان افراد کی اکثریت نے بحیرۂ احمر یا خلیج عدن کے کٹھن سفر کو کشتی کے ذریعے عبور کیا ہے۔ یہاں سب سے کم آبی سفر یمن اور جبوتی کے درمیان آبنائے عبور کرنا ہے، جیسے عام طور پر باب الحزن (دکھوں کا دروازہ) کہا جاتا ہے کہ کیونکہ اس سفر کے دوران پانی بہت تیز ہے اور سمندر میں مدوجزر بہت زیادہ ہے۔ پھر کچھ اور مسائل بھی ہیں، مثلاً قرنِ افریقہ کے ممالک اس قابل نہیں ہیں کہ وہ بڑی تعداد میں تارکینِ وطن کو اپنے ملک میں سمو سکیں۔ تارکینِ وطن کے بحران میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر افراد جو یمن چھوڑ کر آ رہے ہیں، وہ اپنے ملک میں مسائل سے تنگ آ کر دوسرے ملکوں کا رخ کر رہے ہیں۔ یمن میں خانہ جنگی شروع ہونے سے قبل یمن میں تقریباً ڈھائی لاکھ صومالی باشندوں نے پناہ لی تھی۔ یہ وہ افراد ہیں جو صومالیہ میں 1990 کی دہائی میں سرد جنگ سے تنگ آ کر سمندر عبور کر کے محفوظ مقام کی تلاش میں آئے تھے۔ لیکن اب یہ افراد صومالیہ واپس جا رہے ہیں کیونکہ اب یمن میں رہنے کے بجائے صومالیہ اُن کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ یمن کے دارالحکومت صنعا میں آئی او ایم کے سربراہ نے کہا کہ ستم ظریفی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور صورت حال کی سنگینی اندازے سے باہر ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ وہ تارکینِ وطن ہیں جو یمن میں سمگل ہو کر آئے لیکن اب 26 ہزار صومالی افراد اپنے ملک واپس جا رہے ہیں۔ اس سے صومالی حکومت کے لیے کئی بڑے مسائل پیدا ہوں گے اور وہ تارکینِ وطن کے بحران سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘ جبوتی جیسے چھوٹے سے ملک پر مہاجرین کی آمد کے اثرات کافی واضح ہوں گے اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سب سے اہم مسئلہ ان افراد کا صومالیہ میں دوبارہ ضم ہونا ہے۔ رپورٹ کے متن کے مطابق: ’صومالیہ میں بحران جاری ہے اور سیاسی عدم استحکام سے ملک کا بنیادی ڈھانچہ مفلوج ہو کر رہ گیا ہے، ملک کی تین چوتھائی آبادی بنیادی طبی سہولیات سے محروم ہے اور اُن کے پاس نکاسیِ آب کا نظام نہیں ہے اور نہ ہی پینے کا صاف پانی میسر ہے۔‘ صومالی حکام کا ایک وفد جلد یمن جائے گا تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ کیا آئندہ کچھ ماہ کے دوران مزید افراد واپس صومالیہ جائیں گے یا نہیں۔ جبوتی شاید صومالیہ سے زیادہ محفوظ ہے لیکن پھر بھی تارکینِ وطن کے بحران سے نمبرد آزما ہونے کے لیے اُسے بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ آنے والے مہینوں میں مزید 24 ہزار افراد صومالیہ آئیں گے، جن میں نصف یمنی بھی ہو سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگر یمن میں صورتحال خراب رہتی ہے تو سنہ 2016 کے اختتام تک 36 ہزار افراد کا جبوتی آنے کا امکان ہے۔ جبوتی جیسے چھوٹے سے ملک پر ان افراد کی آمد کے اثرات کافی واضح ہوں گے۔ صنعا میں آئی او ایم کی سربراہ کہتی ہیں: ’جبوتی نے تارکین وطن کو مناسب پناہ دینے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ مہاجرین کا کیمپ اوبوک میں بنایا گیا ہے لیکن یہ ایک خطرناک علاقہ ہے۔ موسم سخت اور صحرائی صورت حال ہے۔‘ اوبک میں ریت کے طوفان آتے ہیں اور درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ اوبوک کے رہائشیوں کے پاس بجلی نہیں ہے اور پانی کی بھی قلت ہے۔ وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں ہے حال ہی میں ایک دائی کو رکھا گیا ہے۔ درحقیقت اوبوک میں زندگی کٹھن ہے اور کئی یمنی افراد ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ وہ اوبوک نہ جائیں۔ امدادی ایجنسیوں کو خدشہ ہے کہ کئی مہاجرین اپنا اندراج نہیں کرواتے اور اپنے آپ اور خاندان کو مزید خطرات سے دوچار کر رہے ہیں۔ گذشتہ سات ماہ سے یمن میں لڑائی جاری ہے اور عام افراد کی ہلاکت کے علاوہ ملک میں اقتصادی مواقع کم ہو رہے ہیں، اسی وجہ سے لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ سرد موسم اور یمن کی بندرگاہ کے بند ہونے کے باعث خلیج عدن کو عبور کرنا عارضی طور پر کسی خودکشی کم نہیں ہے لیکن اقوام متحدہ کی پش گوئی کے مطابق ایک سال میں تقریباً دو لاکھ تارکینِ وطن قرنِ افریقہ کا رخ کریں گے اور عمومی طور پر یہ خطہ تارکینِ وطن کا بار اُٹھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی رپورٹ ’مہاجرین اور تارکینِ وطن‘ کے مطابق ’کئی تارکینِ وطن گھنٹوں سمندر میں سفر طے کرنے کے بعد تھکے ہوئے اور خوف زدہ ہیں۔ اُن کے پاس کوئی مال و اسباب نہیں ہے۔ انھیں فوری طور پر خوراک، پانی اور طبی امداد کی ضرورت ہے۔‘ text: مصری فوج نے اڑتالیس گھنٹے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر حکومت اور اس کے مخالفین ’عوام کے مطالبات‘ ماننے میں ناکام رہے تو فوج مداخلت کرے گی مگر صدر مرسی نے فوج کے الٹی میٹم کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مرتے دم تک اپنے آئینی عہدے کی حفاظت کریں گے۔ فوج کی جانب سے دی جانے والی مہلت گرینج کے معیاری وقت کے مطابق دو بج کی تیس منٹ پر ختم ہو گئی۔ دوسری جانب ملک بھر میں حکومت اور اپوزیشن کے حامیوں کی طرف سے جاری مظاہروں کے دوران منگل اور بدھ کی درمیانی شب جھڑپیں جاری رہیں۔ قاہرہ یونیورسٹی میں صدر مرسی کی حمایت میں ہونے والے مظاہرے میں سولہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ مصر: صدر مرسی نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا حزب اختلاف کا صدر مرسی پر دباؤ برقرار منگل کو رات گئے قوم سے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں صدر مرسی نے کہا کہ وہ صاف و شفاف انتخابات کے ذریعے ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں اور وہ مرتے دم تک اپنے آئینی عہدے کی حفاظت کریں گے۔ صدر مرسی کی تقریر کے بعد فوج کی جانب سے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ فیس بک پر ایک پیغام ’ فائنل آوور یعنی آخری گھنٹہ‘ شائع کیا گیا۔ بیان میں کہا گیا ہے’ ہم خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ ہم مصر اور اس کے لوگوں کی حفاظت کے لیے انہیں دہشت گردوں، بنیاد پرستوں اور بےوقوفوں سے بچانے کے لیے اپنا خون بھی دیں گے ‘۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق فوجی ذرائع نے ذرائع ابلاغ کی ان اطلاعات کو سختی سے مسترد کیا ہے کہ’ مصری فوج کا نئے صدارتی انتخابات کرانے،نئے آئین کو معطل کرنے اور پارلیمان کو تحلیل کرنے کا منصوبہ ہے‘۔ وزارت دفاع کے ایک افسر کے مطابق آرمی چیف نے اس ہفتے کے آغاز میں صدر مرسی سے ملاقات کی تھی اور اب وہ اعلیٰ فوجی قیادت سے مشاورت کر رہے ہیں۔مگر صدر مرسی کی جماعت اخوان المسلمین کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ فوج کو روڈ میپ پیش کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ خیال رہے کہ حزب اختلاف کی تحریک تمرد یعنی’باغی‘ نے پیر کو الٹی میٹم جاری کیا تھا کہ اگر صدر مرسی مقامی وقت کے مطابق منگل کی شام پانچ بجے تک اقتدار سے الگ نہیں ہوئے تو ان کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلائی جائے گی۔ اس کے بعد مصری فوج نے خبردار کیا تھا کہ اگر حکومت اور اس کے مخالفین ’عوام کے مطالبات‘ ماننے میں ناکام رہے تو فوج مداخلت کرے گی۔ صدر مرسی نے فوج کے بیان کی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا اس سے ابہام پیدا ہوگا۔ منگل کو صدر محمد مرسی نے ملک کے فوج کے سربراہ جنرل عبدالفاتح السیسی سے دن دونوں میں مسلسل دوسری ملاقات کی۔ دوسری ملاقات میں وزیراعظم ہاشم قندیل بھی شامل تھے تاہم اس ملاقات میں ہونے والی بات چیت کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ گذشتہ چند روز میں قاہرہ اور دوسرے شہروں میں لاکھوں مظاہرین نے صدر مرسی کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ صدر مرسی کے مخالفین کا دعویٰ ہے کہ فوری انتخابات کے مطالبے کی ایک پٹیشن پر دو کروڑ بیس لاکھ افراد نے دستخط کیے ہیں۔ مرسی 30 جون 2012 کو انتخاب میں کامیابی کے بعد مصر کے پہلے اسلامی صدر بنے تھے۔ان کی صدارت کا ایک سال سیاسی بے اطمینانی اور معیشت میں گراؤٹ کی زد میں رہا۔ مصر کی فوج کے اعلیٰ کمانڈروں کا اجلاس جاری ہے جبکہ فوج کی جانب سے صدر مرسی کو حالات کنٹرول کرنے کے لیے دی گئی مہلت ختم ہو گئی ہے۔ text: امریکہ اور بھارت لشکر طیبہ کو بھارت میں سنہ 2008 میں ہونے والے ممبئی حملوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں امریکی وزارتِ خزانہ کے مطابق لاہور کے رہائشی محمد اقبال اور ان کی کمپنی آسماں منی ایکسچینج پر مالی پابندیاں بھی لگا دی گئی ہیں۔ امریکہ اور بھارت لشکر طیبہ کو بھارت میں سنہ 2008 میں ہونے والے ممبئی حملوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، اس حملے میں 166 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ امریکی وزارتِ خزانہ کے افسران ڈیوڈ کوہن کے مطابق محمد اقبال لشکرِطیبہ اور اس سے منسلک تنظیموں کے لیے پیسہ اکٹھا کرنے اور لین دین کا کام کرتے ہیں۔ کوہن کا کہنا تھا: ’فوریکس کی لین دین کرنے والے اداروں کو ہوشیار رہنا ہوتا ہے جس سے دہشت گردوں کو بین الاقوامی مالیاتی نظام سے باہر رکھا جا سکے تاہم محمد اقبال نے اپنے کاروبار کے ذریعہ اس اعتماد کا غلط فائدہ اٹھایا۔‘ وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ محمد اقبال ’فلاحِ انسانیت‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے بانیوں میں سے ہیں۔ امریکہ نے سنہ 2010 میں اس ادارے کو لشکرِ طیبہ کا فرنٹ قرار دیا تھا۔ امریکہ نے جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو بھی دہشت قرار دے کر ان پر دس لاکھ ڈالر کے انعام کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔ امریکہ نے غیر ملکی کرنسی کا لین دین کرنے والے ایک پاکستانی شہری کو شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ کی مدد کرنے کے الزام میں دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ text: بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے جمعے کی صبح ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں کہا کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کو بتایا گیا ہے کہ قومی سلامتی کے مشیروں کی بات چیت سے قبل استقبالیہ میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے رہنماؤں کو مدعو کرنا مناسب نہیں ہے۔ اوفا کے بعد دہلی کا سفر ٹوئٹر پر ایک پیغام میں انھوں یہ بھی کہا کہ پاکستان کو مشورہ دیا گیا ہے کہ قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز حریت رہنماؤں سے نہ ملیں۔ ان کا مزید کہنا تھا پاکستانی قومی مشیر اور حریت رہنماؤں کے درمیان ملاقات ’اوفا میں دہشت گردوں کے خلاف مل کر کام کرنے کے حوالے سے ہونے والے اتفاق رائے کی روح اور نیت سے مطابقت نہیں رکھتی۔‘ وکاس سوروپ نے مزید کہا ہے کہ بھارت قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان مذاکرات کے ایجنڈے کی توثیق چاہتا ہے جو پاکستان کو 18 اگست کو بھجوایا گیا تھا۔ یاد رہے کہ بھارت میں پاکستان کے ہائی کمیشن نے دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی قومی سلامتی کے مشیروں کی بات چیت سے قبل ایک استقبالیہ میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے رہنماؤں کو مدعو کیا تھا۔ پاکستانی ہائی کمیشن کی جانب سے دعوت نامے پر مشاورت کے بعد حریت کانفرنس کے سینیئر رہنما سید علی شاہ گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے استقبالیے میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند کشمیری رہنما سید علی گیلانی کو نظر بند کر دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ اس سے ایک سال قبل جب پاکستان نے وزرائے خارجہ سطح کی بات چیت سے قبل کشمیر کے علیحدگی پسند رہنماؤں سے بات چیت کی بات کہی تھی تو بھارت نے امن مذاکرات کو منسوخ کر دیا تھا اور اس وقت بھارت نے پاکستان پر اندرونی معاملے میں دخل اندازی کا الزام لگایا تھا۔ ادھر بھارتی ترجمان کے بیان کے بعد پاکستانی دفترِ خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستانی قیادت ہمیشہ سے بھارت کے دورے کے دوران کشمیری اور حریت قیادت سے رابطے میں رہی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اس روایت سے انحراف کرے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت کا بات چیت کے ایجنڈے کو محدود کرنے پر اصرار اور شرائط لگانا اس بات کا مظہر ہے کہ وہ پاکستان سے بامعنی روابط کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز کو دورۂ بھارت کے دوران کشمیری رہنماؤں سے ملاقات نہیں کرنی چاہیے۔ text: دنیا کےبہترین فٹبال مینیجر سمجھے جانے والے جوزے میرینو اپنے پروفیشنل کریئر کے سخت ترین مرحلے سے گذر رہے ہیں میچ سے قبل برطانوی ذرائع ابلاغ میں افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ لیورپول کے ہاتھوں شکست کی صورت میں چیلسی کلب کے روسی ارب پتی مالک رومن ابراہمووچ جوزے میرینو کو بطور چیلسی مینیجر چھٹی کر دیں گے۔ جوزے میرینو چیلسی کلب کی تاریخ کے سب سے کامیاب مینیجر ہیں لیکن رواں برس ان کی ٹیم کو اوپر تلے ناکامیوں کا سامنا ہے۔ پریمیئر لیگ کے رواں سیزن میں چیلسی نے کھیلے گئے گیارہ میچوں میں صرف تین جیتے ہیں جبکہ چھ میچوں میں اسے شکست ہوئی ہے اور دو میچ برابری پر ختم ہوئے۔ پریمیئر لیگ ٹیبل پر چیلسی پندرہویں پوزیشن پر ہے۔ اسی طرح یورپی چیمپئن شپ میں بھی چیلسی کی کارکردگی اچھی نہیں ہے اور وہ تین میچوں میں صرف ایک جیت سکا۔ فلپ کوتینو نے لیور پول کےدو گول کیے سنیچر کو لیور پول کے خلاف میچ کے ابتدائی لمحات میں چیلسی کے برازیلی مڈفیلڈر رمیریز نے گول کر کے ٹیم کو برتری دلا دی لیکن اعتماد سے عاری اور گھبرائی ہوئی چیلسی ٹیم اس برتری کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی اور لیورپول نے اوپر تلے تین گول کر کے اپنی فتح کو یقینی بنا لیا۔ لیور پول کی جانب سے برازیلی کھلاڑی فلپ کوتینو نے دو گول کیے جبکہ سٹرایکر کرسچیئن بینٹکے نے ایک گول کیا۔ اس میچ میں جوزے میرینو نے گذشتہ برس کے فٹبالر آف دی ایئر کا اعزاز پانے والے ایڈن ہیزاڈ اور سیس فیبریگاس کو ٹیم میں شامل نہیں کیا تھا۔ خیال رہے کہ رواں برس ابتدائی گیارہ میچوں میں سے چھ میچ ہارنے والی چیلسی کی ٹیم گذشتہ سیزن میں اپنے کل 38 میچوں میں سے صرف تین میچ ہاری تھی۔ انگلش پریمیئر لیگ میں گذشتہ سال کے چیمپیئن کلب چیلسی کی خراب کارکردگی کا سلسلہ جاری ہے اور سنیچر کو اسے لیورپول کے ہاتھوں شکست کے بعد مینیجر جوزے میرینیو کو ہٹانے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ text: اگر جرم ثابت ہو گیا تو جیمز اینڈرسن پر چار ٹیسٹ میچوں کی پابندی عائد ہو سکتی ہے یہ واقعہ مبینہ طور پر ٹرینٹ بریج ٹیسٹ کے دوسرے دن اس وقت پیش آیا جب دونوں ٹیمیں کھانے کے لیے میدان سے باہر جا رہی تھیں۔ انگلینڈ اور ویلز کرکٹ بورڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جیمز اینڈرسن نے واضح طور پر ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے روندرا جڈیجا کے خلاف شکایت درج کروائی ہے۔ اگر 31 سالہ جیمز اینڈرسن پر جرم ثابت ہو گیا تو ان پر چار ٹیسٹ میچوں کی پابندی عائد ہو سکتی ہے۔ آئی سی سی کوڈ آف کنڈکٹ درجہ سوم کے تحت جرائم درجہ سوم کے الزامات ایک عدالتی کمشنر کے پاس فیصلے کے لیے بھیج دیے گئے ہیں جو 14 دنوں کے اندر اس کیس کی سماعت کرے گا۔ الزامات ثابت ہو جانے کی صورت میں چار سے آٹھ پوائنٹس تک کی معطلی ہوتی ہے اور دو پوائنٹس کی معطلی کا مطلب ایک ٹیسٹ میچ کی پابندی ہے۔ جیمز اینڈرسن اور روندرا جڈیجا کے درمیان یہ تلخ کلامی اس وقت ہوئی جب وہ میدان سے باہر سے جا رہے تھے۔ دوسری جانب انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے اس واقعے کو معمولی قرار دیا ہے۔ بی بی سی ریڈیو فائیو لائیو کے پیٹ مرفی کا کہنا ہے کہ انگلینڈ اور بھارتی کرکٹ بورڈوں نے اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے، تاہم ’میں سمجھتا ہوں کہ بھارتی کپتان مہندر سنگھ دھونی اس معاملے کو آگے لے جانا چاہتے ہیں۔‘ ادھر جیمز اینڈرسن کا کہنا ہے کہ روندرا جڈیجا ان کی جانب دھمکاتے ہوئے بڑھے اور انھوں نے صرف اپنے تحفظ کے لیے اپنے ہاتھ کھڑے کیے اور یہ سب کچھ صرف چند لمحوں کے دوران ہوا۔ درین اثنا بھارتی کرکٹ ٹیم کے مینیجر سنیل دیو کا کہنا ہے کہ جیمز اینڈرسن کے خلاف شکایت بھارتی کھلاڑیوں اور کوچ ڈنکن فلیچر کے مشورے کے بعد درج کی گئی ہے۔ سنیل دیو نے کرکٹ ویب سائٹ کرک انفو کو بتایا کہ سب نے شکایت کی ہے کہ اینڈرسن نے جڈیجا کو چھوا اور انھیں دھکا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک حساس معاملہ ہے اور آپ کسی کو دھکا نہیں دے سکتے اور اسی لیے میں نے میچ ریفری سے شکایت کی۔‘ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے انگلینڈ کے بولر جیمز اینڈرسن پر بھارتی آل راؤنڈر روندرا جڈیجا کو پہلے ٹیسٹ کے دوران گالی اور دھکا دینے پر بدتمیزی کا الزام عائد کر دیا ہے۔ text: اس اجلاس کا مقصد یہ تھا کہ عرب ممالک پورے طور پر لبنان کا ساتھ دیں اور اس بات کا مظاہرہ کریں کہ وہ اس کے ساتھ ہیں۔ اس کی ضرورت یوں پیش آئی کیونکہ کچھ شک سا آگیا تھا کہ عرب ممالک حزب اللہ کی حمایت نہیں کر رہے۔ کچھ اس لیئے کہ وہ اسے ایک شیعہ تنظیم سمجھتے ہیں۔ کچھ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ خطے میں ایران کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے۔ چنانچ اس بات کی شدید ضرورت تھی کہ عرب لیگ کا اجلاس ہو اور بیروت میں ہی ہو۔ اور اس میں لبنان کی کھل کی حمایت کی جائے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عرب لیگ کی حمایت قرارداد میں ترمیم کرانے میں کس حد تک موثر ثابت ہوگی، تو یہ بات سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ اس بات کی کنجی عرب لیگ کے پاس نہیں چین اور روس کے پاس ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان ہیں۔ البتہ بیروت کے اجلاس کے بعد عرب لیگ کو ایک بہت بڑی سیاسی فتح حاصل ہوئی ہے وہ یہ کہ منگل کو سلامتی کونسل کا جو اجلاس ہوگا وہ ایک کھلا اجلاس ہوگا۔ اب تک قرارداد پر جتنی بھی بحث ہوتی رہی ہے وہ بند کمرے کے اجلاس میں ہوتی رہی ہے۔ اب پہلی دفعہ بات بالکل سامنے ہوگی اور ساری دنیا دیکھے گی کہ کتنے مسلم ممالک کھلے اجلاس میں شریک ہوتے ہیں، کیا کہتے ہیں اور ان کی باتیں سننے کے بعد روس اور چین کیا رویہ اختیار کرتا ہے۔ جہاں تک جنگ بندی اور اس کے بعد امن فوج کی تعیناتی کا سوال ہے تو اس کا فوری طور پر امکان نظر نہیں آتا۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک حزب اللہ اور لبنان ایسی تعیناتی پر رضا مند نہیں ہوتے۔ اگر ان کی رضامندی کے بغیر ایسا کیا گیا تو امن فوج پر گولیاں چلیں گی اور جواب میں اسرائیل حملے کرتا رہے گا۔ جنگ بندی میں تاخیر کا نقصان لبنان اور مسلم ممالک کو ہوگا۔ لیکن اسرائیل کا اس میں کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ فائدہ ہی ہوگا۔ چنانچہ جتنی لمبی جنگ چلتی ہے اتنا ہی اسرائیل اور اس کے حامیوں کو موقع ملے گا کہ وہ ’نئے مشرق وسطیٰ‘ کے بارے میں اپنے خواب کو تعبیر کے اور قریب لے جائیں۔ اسرائیل اور اس کے حامیوں کا مقصد لمبی جنگ سے حاصل ہوتا ہے جنگ بندی سے نہیں۔ بیروت میں ہونے والے عرب لیگ کے اجلاس نے قرارداد پر بحث کو ایک نئی سطع پر پہنچا دیا ہے۔ text: کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں اتوار کو ہونے والے اس سمجھوتے میں کولمبیا کی دیہاتی علاقوں کو معاشی اور سماجی ترقی دینے اور غریب کسانوں کو زمین دینے کی بات کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ زمین کی جائز تقیسم اور دیہی ترقی کے مطالبات کولمبیا میں تنازع کی بڑی وجوہات تھیں۔ حکومت اور فارک باغیوں کے ایک مشترکہ بیان کے مطابق’یہ سمجھوتہ کولمبیا کی دیہاتی علاقوں میں زبردست تبدیلی کا باعث بنے گا۔‘ اس سمجھوتے کے تحت ایک لینڈ بینک قائم کیا جائے گا جس کے ذریعے زمین کی از سرِ نو تقیسم ہو گی جس میں غیر قانونی طور پر قبضہ شدہ زمین بھی شامل ہے۔ حکومت کی طرف سے مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ہوم برٹو ڈی لا کالی نے ہوانا میں صحافیوں کو بتایا کہ’آج ہمارے پاس مذاکرات کے ذریعے امن حاصل کرنے کے لیے حقیقی موقع ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’اس عمل کی حمایت کرنا کولمبیا پر یقین کرنے کے مترادف ہے۔‘ کولمبیا کا سب سے بڑا گوریلا گروپ سمجھے جانے والے فارک باغی گذشتہ نومبر سے حکومت کے ساتھ مذاکرات میں تھے۔ لاطینی امریکہ میں ایک لمبے عرصے تک جاری رہنے والے اس تنازع کو بات چیت کے ذریعے سلجھانے کے لیے یہ چوتھی کوشش ہے۔ حکومت اور فارک باغیوں کے درمیان دوبارہ مذاکرات گیارہ جون کو شروع ہونگے جس میں باغیوں کی سیاست میں شرکت پر بات چیت ہوگی۔ اس سمجھوتے سے غریب کسانوں کو فائدہ ہوگا معاہدے کے بعد کولمبیا کے صدر جوان مینئل سانتوس نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ’ہم اس بچاس سالہ تنازع کو ختم کرنے کے لیے اس اہم اقدام پر جشن مناتے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ’ہم امن کے اس عمل کو احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ جاری رکھیں گے۔‘ دونوں طرفین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جب تک مکمل امن معاہدہ نہیں ہو جاتا کوئی چیز حتمی نہیں ہے۔ حکومت اور باغیوں کے درمیان کشیدگی کے دوران ہلاکتوں کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن حکومتی اندازوں کے مطابق 1960 میں شروع ہونے والے اس تنازعے میں تقربیاً چھ لاکھ افراد ہلاک اور تقریباً تیس لاکھ بے گھر ہوگئے۔ کولمبیا کی حکومت اور فارک باغیوں کے درمیان چھ مہینوں تک جاری مذاکرات کے بعد زمینی اصلاحات پر سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ text: حکومت کا کہنا ہے کہ پارلیمان کی تلاشی مکمل ہو گئی ہے اور تلاشی کے بعد کہیں سے کچھ بھی نہیں ملا ہے اور خطرے کی بات نہیں ہے۔ پارلیمان کی تلاشی کے بعد وزیر داخلہ شیو راج پاٹل نے بتایا کہ ’پہلے مرحلے کی تلاشی مکمل ہوگئی ہے اور دوپہر بعد تین بجے دونوں ایوانوں کا اجلاس دوبارہ شروع ہوگا۔‘ پاٹل نے مزید بتایا کہ دوسرے مرحلے کی تلاشی جاری ہے اور سیکیورٹی ایجنسیز کے مطابق اب کوئی خوف وخطرے کی بات نہیں ہے۔ اس موقع پر پارلیمان کے باہر بہت سے ارکان جمع تھے۔ ایک رکن پارلمان کا کہنا تھا کہ شاید یہ اسی گروپ کی شرارت تھی جس نے دوہزار ایک میں پارلیمان پر حملہ کیا تھا۔ ’انکا مقصد خوف و ہراس پیدا کرنا ہوسکتا ہے لیکن وہ کامیاب نہیں ہونگے۔‘ نوجوان رکن لوک سبھا سچن پائلٹ نے اس پورے واقعے کو بیان کرتے ہوۓ کہا ’پارلیمان میں سوالات کا سیشن جاری تھا کہ اچانک لوک سبھا سپیکر سومناتھ چٹرجی نے دونوں ایوانوں کو ایک گھنٹے کے لیے ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔ سیکیورٹی کے خطرات کے سبب سبھی ارکان پارلیمنٹ کے باہر ایک میدان میں جمع ہوگۓ۔‘ ایک سوال کے جواب میں سچن پائلٹ کا کہنا تھا کہ ارکان ڈرے بالکل نہیں تھے لیکن چونکہ پارلیمان کا معاملہ ہے اس لیے احتیاط ضروری ہے۔ اطلاعات کے مطابق پارلیمنٹ میں بم ہونے کی خبر ریاست تمل ناڈو سے آئی تھی لیکن اسکے متعلق ابھی تک سرکاری کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ آج بھارتی پارلیمان میں مقامی وقت کے مطابق تقریبا پونے بارہ بجے سکیورٹی الرٹ کی وجہ سے لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے تک افراتفری کا ماحول رہا اور پارلیمان کو پوری طرح خالی کروالیا گیا۔ text: یوکرین کے صدر کے فرمان سے باغی علاقوں میں سرکاری خدمات معطل ہو جائیں گی صدر پیٹرو پوروشنکو نے ایک فرمان جاری کیا ہے جس میں پارلیمان سے کہا گيا ہے کہ وہ اس قانون کو منسوخ کردیں جو دونیتسک اور لوہانسک علاقوں کو ’خود مختار حکومت‘ کی اجازت دیتا ہے۔ واضح رہے کہ روس نواز علیحدگي پسندوں نے رواں ماہ کے اوائل میں وہاں انتخابات کرائے تھے جسے پوروشینکو نے غیر قانونی قرار دیا تھا۔ مشرقی یوکرین میں جاری تشدد کے نتیجے میں اب تک 4000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ روس نواز علیحدگي پسند یوکرین حکومت سے رواں سال اپریل سے برسرپیکار ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ فرمان میں پارلیمان سے کہا گيا ہے کہ وہ اس قانون کو منسوخ کردیں جو دونیتسک اور لوہانسک علاقوں کو ’خود مختار حکومت‘ کی اجازت دیتا ہے صدر پوروشینکو کے فرمان میں کہا گیا ہے کہ تمام سرکاری کمپنیاں اور ادارے دونیتسک اور لوہانسک میں ایک ہفتے کے اندر اپنا کام بند کردیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یوکرین کا سنٹرل بینک ایک ماہ کے اندر وہاں کے بعض علاقوں کے لیے اپنی خدمات بند کردے جس میں کارڈ کا نظام بھی شامل ہے۔ حکم میں کہا گيا ہے کہ ستمبر ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کے تحت ان علاقوں کو جو ’مخصوص حیثیت‘ دی گئی تھی اسے پارلیمان منسوخ کر دے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ حکم آسٹریلیا کے شہر برزبین میں جاری جی 20 ممالک کی سربراہی کانفرنس کے پیش نظر آیا ہے جس میں مغربی ممالک نے روسی صدر کو یوکرین کے معاملے پر آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ یوکرین اور مغربی ممالک نے روس پر ہتھیاروں اور فوج کے ذریعے علیحدگی پسندوں کی حمایت کا الزام لگایا ہے۔دوسری جانب روس ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ اپریل سے جاری جنگ کے نتیجے میں مشرقی یوکرین کا بعض علاقہ روس نواز علیحدگی پسندوں کے قبضے میں آ گیا ہے رواں ماہ دو نومبر کو ہونے والے انتخابات کو صدر پوروشینکو اور یورپی یونین دونوں نے ستمبر میں ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے غیر قانونی قرار دیا تھا۔ جبکہ باغیوں کا کہنا ہے کہ انتخابات میں الیکزینڈر زخارچینکو دونیتسک کے علاقائی سربراہ منتخب ہوئے ہیں جبکہ لوہانسک میں ایگور پلوٹنسکی فتح یاب ہوئے ہیں۔ اس ماہ کے اوائل میں ہی یوکرین کی حکومت نے یہ اشارہ دیا تھا کہ جو علاقے اس کے کنٹرول میں نہیں ہیں وہ وہاں دی جانے والی سرکاری مراعات کو بند کر دے گی۔ یوکرین کے صدر نے باغیوں کے زیرِ کنٹرول علاقوں سے تمام سرکاری سہولیات اور خدمات واپس لے لینے کا فرمان جاری کیا ہے جن میں ہسپتالوں اور سکولوں کے لیے مالی تعاون بھی شامل ہے۔ text: احمد شہزاد نے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچوں میں ملک کی نمائندگی کر چکی ہے پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان پہلا ٹیسٹ 14 اکتوبر سے ابوظہبی میں کھیلا جائے گا۔ محمد حفیظ ٹیسٹ ٹیم سے باہر یاد رہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی نے پانچ اکتوبر کو بارہ رکنی ٹیم کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ بقیہ تین کھلاڑیوں کو شارجہ میں پاکستان اے اور جنوبی افریقہ کے درمیان سہ روزہ میچ کی کارکردگی کی بنیاد پر ٹیم میں جگہ ملے گی۔ یہ بات طے تھی کہ اوپنرز احمد شہزاد اور شان مسعود حتمی اسکواڈ میں جگہ بنائیں گے کیونکہ بارہ رکنی ٹیم میں صرف ایک اوپنر خرم منظور کو شامل کیا گیا تھا البتہ ٹیم میں شامل ہونے کے لیے اصل مقابلہ اسد شفیق اور فیصل اقبال کے درمیان تھا۔ شارجہ کے سہ روزہ میچ میں فیصل اقبال متاثرکن کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے اور صرف دس رنز بناسکے تاہم اسد شفیق نے 42 رنز سکور کیے۔ اس میچ میں احمد شہزاد اور شان مسعود نے نصف سنچریاں سکور کیں اور پہلی وکٹ کی شراکت میں 106 رنز بنائے۔ اسد شفیق 21 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے تین سنچریوں اور سات نصف سنچریوں کی مدد سے 1136 رنز بناچکے ہیں لیکن گذشتہ چند میچز میں قابل ذکر کارکردگی نہ دکھانے پر ان کی ٹیم میں پوزیشن خطرے سے دوچار ہے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں نصف سنچری اور پھر دوسرے ٹیسٹ میں سنچری سکور کرنے کے بعد سے وہ سات اننگز میں صرف 74 رنز بنا پائے ہیں جن میں سب سے بڑا سکور 19 رنز ہے۔ فیصل اقبال کے لیے سلیکٹرز کو متاثر کرنے کا اچھا موقع تھا جو انہوں نے ضائع کردیا۔ فیصل اقبال نے آخری ٹیسٹ 2010 میں آسٹریلیا کے خلاف سڈنی میں کھیلا تھا جس میں وہ صرف 27 اور سات رنز بنا پائے تھے۔ اس کے بعد سے وہ ٹیم کے ساتھ مختلف دوروں پر جاتے رہے ہیں لیکن یونس خان مصباح الحق اسد شفیق اور اظہرعلی کی موجودگی میں انہیں کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا ہے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستانی ٹیم ان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔ مصباح الحق( کپتان)، خرم منظور، احمد شہزاد، شان مسعود، اظہرعلی، یونس خان، اسد شفیق، عمرامین، عدنان اکمل، محمد عرفان، جنید خان، عبدالرحمن، سعید اجمل اور راحت علی۔ اوپنرز احمد شہزاد۔ شان مسعود اور مڈل آرڈر بیٹسمین اسد شفیق کو جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ ٹیم میں شامل کر لیا گیا ہے۔احمد شہزاد اور شان مسعود ابھی تک کوئی ٹیسٹ میچ نہیں کھیلے ہیں۔ text: بدھ کے روز اسپیکر نے اس موضوع پر پیش کیے گئے بل پر غور کرنے کے لیے اسے ایک مجلس قائمہ کے سپرد کردیا جس میں پیپلز پارٹی کے ارکان بھی شامل کیے جائیں گے۔ منگل کے روز حکمران جماعت مسلم لیگ (ق) کی رکن صوبائی اسمبلی انجم امجد نے نجی حییثت میں گھریلو تشدد روکنے کے لیے ایک مسودہء قانون اسمبلی میں پیش کیا تو پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین اور مسلم لیگ(ن) کی خواتین ارکان اسمبلی نے اس کی حمایت کی۔ گو اس قانون میں ہر طرح کے گھریلو تشدد کے خلاف بات کی گئی ہے لیکن اس کا فائدہ زیادہ تر ظلم کا شکار ہونے والی عورتوں کو ہو گا۔ انسانی حقوق کمیشن براۓ پاکستان کے مطابق ملک میں گھریلو تشدد کے واقعات کی اکثریت میں عورتوں اور لڑکیوں کو تیزاب سے جلانا، ان کے جسم کو گرم جلتی ہوئی سلاخوں سے داغنا، ان کو اندھا کرنا، چولھا پھاڑ کر جلا دینا اور قتل کردینا شامل ہیں۔ اس قانون کے منظور ہونے سےگھرانے ٹوٹ جائیں گے ایم ایم اے کے احسان اللہ وقاص ابھی تک مسلم لیگ (ق)، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے مرد ارکان نے بھی عورتوں کے حقوق سے متعلق اس بل کی مخالفت نہیں کی۔البتہ متحدہ مجلس عمل کے رہنما احسان اللہ وقاص نے اس پر اعتراض کرتے ہوۓ کہا کہ اس قانون کے منظور ہونے سےگھرانے ٹوٹ جائیں گے۔ تاہم متحدہ مجلس عمل کی خواتین ارکان نے اس پر خاموشی اختیار کی اور مخالفت سے اجتناب کیا۔ بل کی محرک انجم امجد نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوۓ کہا کہ انہوں نے ایک مسودہ پیش کیا ہے جسے ممکنہ ترمیم کے بعد مجلس قائمہ اسمبلی میں پیش کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ بل صرف عورتوں کو گھریلو تشدد سے بچانے کے لیے نہیں ہے بلکہ اس سے بچوں، مردوں اور ان تمام افراد کو تحفظ دلانا مقصود ہے جن کی زندگی کا انحصار کسی اور پر ہو۔ گھریلو تشدد کو روکنا معاشرے کی بہتری کے لیے ضروری ہے کیونکہ جو بچے اپنےگھر میں تشدد کا ماحول دیکھتے ہیں وہ بڑے ہوکر اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ بھی جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں انجم امجد انجم امجد نے کہا کہ عورتوں پر تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ انیس سو ستانوے میں صوبے میں ایسے واقعات کی تعداد پندرہ سو تھی جبکہ سنہ دو ہزار دو میں یہ تعداد تقریباً دگنی ہو گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ریکارڈ پر نہ آنے والے واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ عام طور پر عورتیں اپنے خاوندوں کے ہاتھوں ہونے والے تشدد پرمقدمہ درج نہیں کراتیں۔ انجم امجد کا کہنا تھا کہ گھریلو تشدد کو روکنا معاشرے کی بہتری کے لیے ضروری ہے کیونکہ جو بچے اپنےگھر میں تشدد کا ماحول دیکھتے ہیں وہ بڑے ہوکر اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ بھی جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ ایسے ادارے قائم کیے جائیں جو گھریلو جھگڑوں کو سلجھانے میں مدد کریں اور اگر پھر بھی تشدد جاری رہے تو پہلے سے موجود قانون پر عمل کروائیں۔ حزب اختلاف کی ارکان اسمبلی نے اس مجوزہ بل کی حمایت کی ہے لیکن انہیں اس پر کچھ تحفظات ہیں۔ پیپلز پارٹی کی رکن صوبائی اسمبلی فائضہ ملک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوۓ کہا کہ اس بل میں حفاظتی افسر کا عہدہ قائم کرنے کا کہا گیا ہے لیکن اسے ہمارے معاشرے میں قبول نہیں کیا جاۓ گا۔ اسی طرح کچھ اور خامیاں ہیں جن کو دور کرنے کے لیے ان کی جماعت تجاویز پیش کرے گی اور اگر ان ترامیم کو قبول کیا گیا تو ان کی جماعت اسے منظور کروانے کے لیے ووٹ دے گی۔ اگر اس بل کو موجودہ شکل میں منظور کیا گیا تو فائدے کی بجاۓ نقصان ہوگا اس لئے اس میں ترمیم کی ضرورت ہے مسلم لیگ (ن) کی صبا صادق مسلم لیگ(ن) کی رکن اسمبلی صبا صادق نے کہا کہ وہ خود خاندانی معاملات سے متعلق مقدمات میں وکیل کے طور پر پیش ہوتی رہی ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس بل میں کچھ خامیاں ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اس بل کو موجودہ شکل میں منظور کیا گیا تو فائدے کی بجاۓ نقصان ہوگا اس لیے وہ اسمبلی میں اپنی جماعت کی طرف سے اس میں ترامیم پیش کریں گی۔ انسانی حقوق کمیشن براۓ پاکستان کے مطابق ملک میں اسی سے نوے فیصد خواتین کسی نہ کسی طرح کے گھریلو تشدد کا شکار ہیں جبکہ اس بارے میں بہت کم شکایات ریکارڈ پر آتی ہیں۔ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق جج گھریلو تشدد کے مقدمات کا فیصلہ کرتے ہوۓ مردوں کے حق میں تعصب اختیار کرتے ہیں اور تشدد کا شکار ہونے والی عورتوں کو ان پر مار پیٹ کرنے والے خاوندوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں حکومتی جماعت اور حزب اختلاف کی خواتین ارکان اسمبلی گھریلو تشدد کو روکنے کے لیے قانون سازی کرنے پر متحد ہوگئی ہیں۔ text: استاد رئیس خان انڈیا کے شہر اندور میں 1939 میں موسیقاروں کے خاندان میں پیدا ہوئے جہاں انھوں نے موسیقی کے ابتدائی تعلیم اپنے نانا استاد عنایت علی خان سے حاصل کی۔ مغلوں کے دور سے قائم میوتی گھرانے سے تعلق رکھنے والے استاد رئیس خان کو 'استاد' کا خطاب 15 برس کی عمر میں ملا اور 1955 میں انھوں نے انٹرنیشنل یوتھ فیسٹیول میں انڈیا کی 16 برس کی عمر می نمائندگی بھی کی۔ * کراچی زندہ ہونے کا احساس دلاتا ہے ڈان اخبار کو 2012 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ 1972 میں انھوں نے تین طبلہ نوازوں کے ساتھ مل کر 18 گھنٹے لگاتار ستار بجایا اور ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ ستر کی دہائی کے آخر میں استاد رئیس خان نے پاکستانی گلوکارہ بلقیس خانم کے ساتھ شادی کر لی اور اسی کی دہائی میں وہ پاکستان منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ ان کے ایک بیٹے فرحان رئیس خان بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ستار نواز بن گئے۔ استاد رئیس خان نے موسیقی کے مشہور پروگرام کوک سٹوڈیو کے ساتویں سیزن میں دو گانوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا جن میں سے عابدہ پروین کے ساتھ بنایا گیا گانا 'میں صوفی ہوں' بہت مشہور ہوا تھا۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کئی گلوکاروں اور موسیقاروں نے استاد رئیس خان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پاکستان کے گلوکار علی ظفر نے اپنی ٹویٹ میں اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا 'میں بےحد رنجیدہ ہوں۔ عظیم ستار نواز استاد رئیس خان صاحب کا انتقال ہو گیا۔ میری ان کے ساتھ بہت اچھی یادیں ہیں۔ ' انڈیا کی معروف گلوکارہ لتا منگیشکر نے بھی ٹویٹ کے ذریعے استاد رئیس خان کو ستار کا جادوگر کہا۔ 'ستار کے جادو گر استاد رئیس خان صاحب آج ہمارے بیچ نہیں رہے۔ یہ خبر سن کر مجھے بہت دکھ ہوا۔' پاکستانی موسیقار اور جنون گروپ کے گٹارسٹ سلمان احمد نے بھی اپنی ٹویٹ میں کہا کہ 'استاد رئیس خان، بہترین ستار نواز، خاندانی دوست اور کلاسیکی موسیقی کا ایک خزانہ جو ہم نے کھو دیا۔ پاکستان کے لیے ایک بڑا نقصان۔' انڈیا کے کلاسیکی موسیقی کے ماہر اور سرود نواز استاد امجد علی خان نے اپنی ٹویٹ میں رئیس خان کی تصویر کے ساتھ پیغام لکھا: 'استاد رئیس خان کی یاد میں۔ دنیا کے چند عظیم ترین ستار نوازوں میں سے ایک کو ہم نے آج کھو دیا۔' ٹوئٹر پر ایک اور صارف اور صحافی افتخار فردوس نے استاد رئیس خان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کو 'ہمارے عہد کے عظیم ترین ستار نواز' قرار دیا اور کہا کہ ان کی موت سے بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ برصغیر میں کلاسیکی موسیقی کا ایک بڑا نام، معروف ستار نواز استاد رئیس خان کراچی میں طویل علالت کے بعد 78 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔ text: دنیا کے پرامن ممالک میں سرفہرست آئسلینڈ ہے، دوسرے نمبر پر نیوزی لینڈ جبکہ پرتگال، آسٹریا اور ڈنمارک تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں۔ دنیا کے کم پرامن ممالک میں پہلے نمبر پر افغانستان، دوسرے نمبر پر شام جبکہ تیسرے اور چوتھے نمبر پر جنوبی سوڈان اور یمن ہیں۔ اس فہرست میں انڈیا کا شمار بائیسویں، ایران کا شمار چوبیسویں جبکہ امریکہ کا شمار دنیا کے کم پرامن ممالک میں پینتیسویں نمبر پر ہے۔ یہ بھی پڑھیے تارکینِ وطن کے لیے ’بہترین‘ ملک میں زندگی کیسی ہے؟ دو ہمسایوں کے درمیان امن کی بڑھتی خواہش سال 2018 میں اسی فہرست میں پاکستان کا شمار 151 یعنی بارہویں نمبر پر تھا۔ دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر ماریہ سلطان کے مطابق اس رپورٹ میں مختلف پہلوؤں کو بنیاد بنا کر درجہ بندی کی ہے، جس میں شدت پسندی پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ معاشی استحکام بھی ہیں۔ ’جو اُنہوں نے اشارے اُٹھائے ہیں، ان میں معاشی استحکام، شدت پسندی اور تیسری یہ کہ لوگ مثبت امن کو کتنی حد تک منفی امن کے تناسب میں دیکھتے ہیں۔‘ ڈاکٹر ماریہ کے مطابق اگرچہ پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی ہے، لیکن اسی سال پاکستان اور انڈیا کی جنگ سے بھی تصادم کا تناسب بڑھ گیا ہوگا۔ اس تازہ رپورٹ کے مطابق پچھلے پانچ برس میں پہلی مرتبہ دنیا سب سے زیادہ پرامن رہی، جس کی وجہ دنیا کے بڑے تنازعات کی شدت میں کمی بتائی گئی ہے جو زیادہ اموات کا سبب بن رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود دنیا اُتنی پرامن نہیں ہے جتنی دس سال پہلے تھی۔ افغانستان سب سے خطرناک ملک گلوبل پیس انڈکس میں افغانستان ایک ایسے وقت میں سب سے کم پرامن ممالک میں سرفہرست رہا ہے، جب وہاں امریکہ - طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے کئی سال سے کوششیں کر رہا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق امریکہ اور طالبان رہنماؤں کے درمیان افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمئی خلیل زاد کی سربراہی میں مذاکرات کا ساتواں دور جون کے آخر میں دوحہ میں شروع ہوگا۔ اُدھر پاکستان اور افغانستان کے لیے جرمنی کے خصوصی نمائندے مارکس پوتزل نے کابل کے حالیہ دورے میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا تھا کہ امریکہ اور طالبان رہنماؤں کے درمیان چھٹے دور کے مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور امریکہ نے افغان امن عمل میں جرمنی سے مدد کی اپیل کی ہے۔ ’خلیل زاد نے ہم سے اور یورپی یونین سے مدد کی اپیل کی ہے، کیوں کہ اُن کی طالبان رہنماؤں کے ساتھ چھٹے دور کی بات چیت تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔‘ اگرچہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں ابھی تک طالبان - افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے راضی نہیں ہوئے ہیں، تاہم افغان سیاستدانوں کے ساتھ طالبان رہنماؤں کی کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ آخری بین الافغان کانفرنس 29 مئی کو روس کے شہر ماسکو میں ہوئی تھی۔ بین الاقوامی تھنک ٹینک ’دی انسٹیٹویٹ آف اکانومک اینڈ پیس‘ نے 2019 کی رپورٹ میں دنیا کے 163 ملکوں کی امن کے لحاظ سے درجہ بندی کی ہے۔ اس رپورٹ میں کل 163 ممالک میں سے پاکستان کا شمار 153 نمبر پر ہے۔ text: فوجی قیادت جنسی تشدد کے واقعات کو روکنے کے بارے میں سنجیدہ نظر آنے کی کوشش کر رہی ہے بریگیڈیئر جنرل جیفری سنکلیئر کے وکلا کا کہنا ہے کہ ان کے موکل نے کوئی جنسی جرم نہیں کیا اور ان کا کورٹ مارشل صرف اس لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ فوجی قیادت فوج کے اندر جنسی تشدد کے واقعات کو روکنے کے بارے میں سنجیدہ نظر آنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بریگیڈیئر جنرل سنکلیئر کے وکیل نے کہا ہے کہ حکومت ایک شادی شدہ جنرل کو صرف ایک خاتون کپتان کے بیان پر نشانہ بنا رہی ہے جو اس نے جلن اور مایوسی میں دیا ہے، جس میں اس نے تین سال پر محیط جنسی تعلق کا انکشاف کیا تھا۔ سنکلیئر کے وکیل نے رچرڈ شیف سے کہا کہ استغاثہ کے پاس صرف ایک شخص کا بیان ہے جو اپنے زندگی کے ہر موڑ پر ناقابلِ اعتبار ثابت ہوا ہے۔ دونوں طرف سے وکیل جمعے کو فورٹ براگ نارتھ کیرولائنا کی ایک عدالت میں بیان دے کر اس مقدمے کی سمت کا تعین کریں گے۔ اس مقدمے کی سماعت کرنے والی جیوری میں پانچ ٹو سٹار جنرل شامل ہیں جو سنکلیئر پر لگائے جانے والے الزامات کا فیصلہ کریں گے۔ 51 سالہ سنکلیئر دو بچوں کے باپ ہیں اور اگر ان پر یہ الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو ان کو زنا بالجبر کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ امریکی فوج کے ایک جنرل کے خلاف امریکی حکومت کی جونیئر خاتون افسر کے ساتھ اس کی مرضی کے خلاف عوامی مقامات پر جنسی فعل کرنے اور دست درازی کے الزام میں مقدمہ عدالت میں پیش کرنے والی ہے۔ text: ایران کی جانب سے یہ بیان امریکہ کے ذرائع ابلاغ میں اس خبر کے شائع ہونے کے بعد آیا جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل نے ایران پر حملے کے لیے پیشگی مشق کی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئی رپورٹ میں امریکی اہلکاروں کا کہنا تھا کہ جون کے پہلے ہفتے میں سو سے زيادہ فوجی طیاروں نے بحیرۂ روم اور یونان کی فضائی حدود میں مشق میں حصہ لیا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن ہے لیکن اسرائیل ایران کی جانب سے جوہری پروگرام کی ترقی کو ایک خطرہ قرار دیتا ہے۔ ایران نے اقوام متحدہ کی جانب سے یورینیم کی افژودگی روکنے کی بات منظور نہیں کی ہے۔ اقوام متحدہ کے جوہری نگرانی سے متعلق شعبے آئی اے ای اے کے سربراہ محمد البردعی نے کہا ہے کہ اسرائیل اگر ایران پر حملہ کرتا ہے تو ایران جلد سے جلد جوہری ہتھیار بنانے پر مجبور ہوگا اور اس سے پورا خطہ ایک آگ کے گولے میں تبدیل ہوجائے گا۔ العریبیہ ٹیلی ویژن کو دیئے گئے ایک انٹریو میں البردعی نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف اگر کوئی بھی جنگی فیصلہ کیا گيا تو ان کے لیے آئی اے ای اے کے سربراہ کے عہدے پر رہنا مشکل ہوجائے گا۔ اقوام متحدہ نے اس برس مارچ ميں ایران پر تیسری مرتبہ پابندیاں عائد کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اخبارات میں امریکی اہلکاروں کے حوالے سے کہا گيا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے کی گئی مشق یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں کسی حد تک سنجیدہ ہے اور وہ اس سے اکیلے ہی نمٹنا چاہتا ہے۔ مشق میں ایسے ہیلی کاپٹروں نے بھی حصہ لیا جنہيں پائلٹوں کی مدد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان ہیلی کاپٹروں اور ایندھن بھرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے ٹینکروں نے 1400 کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ طے کیا۔ یہ فاصلہ اسرائیل اور ایران کے اہم یورینیم کی افزودگی کے پلانٹ کے درمیان کے فاصلے کے برابر ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اسرائیل نے اس مشق کی تفصیلات دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اسرائیل افواج کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ فضائیہ وقتاً فوقتاً مختلف مشنوں سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اس قسم کی تربیت دیتی رہتی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ایران نیم فوجی دستوں کے لیے چھ عالمی طاقتوں سے بات چیت کررہا ہے۔ بات چيت اس شرط پر ہورہی ہیں کہ اگر ایران کو نیم فوجی دستے چاہیں تو اسے چھ ہفتوں تک افژودگی کے معیار کو موجودہ سطح پر روکنا ہوگا۔ گزشتہ ہفتے تحران میں ایک میٹنگ میں یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے سربراہ خاویر سولانا نے اقوام متحدہ کے سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ممبران امریکہ، چين، روس، فرانس اور برطانیہ اور جرمنی کی جانب سے یہ مسودہ ایران کے سامنے رکھا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ چھ کے چھ کے ممالک اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ایران کا سول جوہری پروگرام حاصل کرنا اس کا حق ہے۔ ایران نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے اس کی جوہری سہولیات پرفوجی حملہ ناممکن ہے۔ ایران کے ایک فوجی ترجمان غلام حسین الہام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا ایران پر حملہ کرنے کی بات نا ممکن ہے۔ text: پنجاب کی حالیہ سیاسی کشمکش کا اکھاڑہ مسلم لیگ قاف بنی ہوئی ہے اور دونوں اس جماعت کے اراکین کو ساتھ ملانے کی کوشش کررہے ہیں۔ مسلم لیگ نواز صرف منحرف اراکین کو ساتھ ملانے کے لیے کوشاں ہے جبکہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ قاف کی قیادت سے براہ راست رابطے میں ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ پوری مسلم لیگ قاف اتحاد کرے تب ہی وہ پنجاب میں اپنی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔ اسی لیے جب مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ قاف نے اراکین پنجاب اسمبلی کے اعزاز میں ایک ہی روز الگ الگ افطار پارٹیاں رکھیں اور مقامی میڈیا نے اسے سیاسی طاقت کے اظہار کی تقریبات قراردیا تو فارووڈ بلاک کے وہ اراکین جو پیپلز پارٹی کے حامی ہیں اپنی اصل جماعت مسلم لیگ قاف کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ دونوں افطار پارٹیوں کے منتظمین نے شرکت کے لحاظ سے اراکین پنجاب اسمبلی کی تعداد کے متضاد دعوے کیے ہیں۔ تنازعہ اس پر ہے کہ مسلم لیگ قاف کے فارورڈ بلاک کہلائے جانے والے اراکین کی کتنی تعداد کس کے ساتھ ہے۔ فاروڈ بلاک کے ایک گروپ نے عطامانیکا کی سربراہی میں ن لیگ کی افطارپارٹی میں شرکت کی جبکہ پی پی کا حمایتی دوسرا گروپ نجف سیال کو قائد بنا کر اپنی اصل جماعت کے افطار ڈنر میں شریک ہوا۔ مسلم لیگ ن کا دعوی ہے کہ ان کی افطار پارٹی میں فاروروڈ بلاک کے چونتیس اراکین نے شرکت کی جبکہ مسلم لیگ قاف کا کہنا ہے کہ ان کی افطار پارٹی سے ان کے صرف بائیس اراکین غیرحاضر تھے۔ ان کا کہنا ہے مسلم لیگ ن کو حکومت برقرار رکھنی ہو یا پیپلز پارٹی اپنی حکومت بنانے کی کوشش کرے دونوں کو ہی مسلم لیگ قاف کے اراکین کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ جب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا اتحاد مکمل طور پر ختم ہوگا تو اس کےبعد وہ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن میں سے کسی ایک کا ساتھ دینے کا فیصلہ کریں گے۔ چودھری پرویز الہی نے دعوی کیا کہ ان کی پارلیمانی پارٹی کے چوراسی میں سے باسٹھ اراکین نے ان کی افطار پارٹی میں شرکت کی یعنی صرف بائیس غیر حاضر تھے۔ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے کہا کہ قاف کے چونتیس اراکین اپنی پارٹی کے اجلاس سے غیر حاضر ہوکر رائے ونڈ فارم پر مسلم لیگ ن کی افطار پارٹی میں شریک ہوئے ہیں۔اس افطار پارٹی کے میزبان نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر تھے۔ مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر سردار ذاوالفقار علی کھوسہ اور وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے اس موقع پر مشترکہ خطاب کیا اور کہا کہ ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وزیر قانون نے کہا کہ مسلم لیگ قاف کے اراکین کو مسلم لیگ قاف کے قائدین نے روکنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ نہیں رکے۔ مسلم لیگ قاف کے منحرف دھڑے کے ایک رکن عطامانیکا اور ڈاکٹر طاہر علی جاوید نے کہا کہ گورنر ہاؤس سے ٹیلی فون کرکے انہیں نواز لیگ کی افطار پارٹی میں شرکت سے روکنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ مسلم لیگ ن کے پنجاب میں ایک سو اکہتر اراکین ہیں اور سادہ اکثریت کی حکومت برقرار رکھنے کے لیے انہیں کم از کم ایک سوچھیاسی ووٹ درکار ہیں۔ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ مسلم لیگ قاف کے اراکین کی ایک تعداد اپنی پارٹی قیادت کو چھوڑ کر ان کے ساتھ آچکی ہے۔ مسلم لیگ قاف کے فارورڈ بلا ک کے ایک دھڑے کے رہنما نجف سیال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے پندرہ بیس روز میں مسلم لیگ قاف کا پیپلزپارٹی سے باقاعدہ اتحاد ہوجائے گا اور مسلم لیگ نون کا ساتھ دینے والے اراکین اپنی پارٹی کی جانب لوٹ آئیں گے۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہورمیں بدھ کو پانچ ایسی افطار پارٹیاں ہوئی ہیں جن میں صوبائی اراکین پارلیمان اور سیاسی جماعتوں کے رہمناؤں نے شرکت کی اور موضوع بحث پنجاب حکومت کا مستقبل رہا۔ لاہور میں تیسری سیاسی افطار پارٹی پیپلز پارٹی کی ہوئی جس کے مہمان خصوصی گورنر پنجاب سلمان تاثیر تھے۔اس پارٹی میں پیپلز پارٹی کے وزراء اور چند اراکین پنجاب اسمبلی شریک ہوئے۔ گورنر پنجاب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت نے کوئی فارورڈ بلاک نہیں بنایا اور وہ عوامی مینڈیٹ احترام کرتے ہیں تاہم انہوں نے صدر کے انتخاب کے موقع پر مسلم لیگ ن کی مخالفت کے عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔انہوں نے کہا کہ وہ لاہور کو پیپلز پارٹی کا قلعہ بنائیں گے اور بلال بھٹو کو لاہور سے الیکشن لڑوایا جائے گا۔ چوتھی افطار پارٹی انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے عہدیداروں نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے لیے منعقد کی تھی جبکہ پانچویں افطاری جماعت اسلامی کےمرکزی نائب امیر لیاقت بلوچ کی جانب سے سینئر صحافیوں کےاعزاز میں دی گئی۔ پنجاب میں حکمران مسلم لیگ ن اور اپوزیشن جماعت مسلم لیگ قاف کے درمیان سیاسی قوت کے اظہار کے لیے ایک ہی روز میں دو الگ الگ افطار پارٹیاں ہوئیں۔ text: ملٹری کالج جہلم سے پڑھنے کے بعد جنرل کیانی نے انیس سو اکہتر میں بلوچ رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ وہ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ اور امریکہ کے جنرل سٹاف کالج فورٹ لیونورتھ کے فارغ التحصیل ہیں۔ نئے نامزد آرمی چیف کو انفینٹری بٹالین سے کور کمانڈنگ تک کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔ سن دو ہزار ایک اور دو میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیاں سخت کشیدگی تھی اس وقت وہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز تعینات رہے۔ سابق نان کمیشنڈ فوجی افسر کے بیٹے اشفاق پرویز کیانی کو فوج میں ایک پیشہ ور جنرل کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے سیاسی جماعتوں کے کلیدی رہنماؤں سے ان کا قریبی رابطہ رہا۔ گولف کے شوقین جنرل اشفاق پرویز کیانی تواتر کے ساتھ تو گولف نہیں کھیلتے لیکن پاکستان گولف فیڈریشن کے موجودہ چیئرمین بھی ہیں۔ پاکستان کے نئے نامزد آرمی چیف امریکہ میں بھی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کے سلسلے میں تعینات رہے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ امریکی فوج میں ان کی خاصی جان پہچان ہے۔ بعض سیاسی مبصرین سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو صدر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے ہٹائے جانے اور اس کے بعد پیدا ہونے والے بحران سے بطور آئی ایس آئی کے سربراہ نمٹنے کو جنرل کیانی کی پہلی بڑی ناکامی سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن اشفاق پرویز کیانی کے قریبی ساتھیوں کا دعویٰ ہے کہ اس بحران میں اشفاق پرویز کیانی کی رائے مختلف تھی اور جب جسٹس افتخار کو آرمی ہاؤس بلاکر استعفیٰ طلب کیا گیا اور بعض جرنیل انہیں دھمکا رہے تھے تو اس وقت جنرل کیانی خاموش رہے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے بطور آئی ایس آئی کے سربراہ چیف جسٹس کے خلاف بیان حلفی دینے سے گریز کیا تھا جبکہ ملٹری انٹیلیجنس اور انٹیلیجنس بیورو کے سربراہان نے اپنا اپنا بیان حلفی دیا تھا۔ امریکی میگزین نیوز ویک کے مطابق جنرل اشفاق پرویز کیانی چین سموکر ہیں۔ ان کے آئی ایس آئی کے سربراہی کے دنوں میں ابو فراج اللبی سمیت القائدہ کے بعض سرکردہ کمانڈروں کو گرفتار کیا گیا اور پاکستان میں ان کا نیٹ ورک انتہائی محدود کر دیا گیا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی شادی شدہ ہیں اور وہ ایک بیٹے اور ایک بیٹی کے والد ہیں۔ جنرل احسان الحق کی جگہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بننے والے جنرل طارق مجید انیس سو پچاس میں پیدا ہوئے اور انیس سو اکہتر میں انہوں نے بھی بلوچ رجمینٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ انہوں نے جنگی تعلیمات میں ماسٹرز کر رکھا ہے اور ملائیشیا اور امریکہ کے فوجی تعلیمی اداروں سے بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ جنرل طارق مجید نے انیس سو اکہتر کی پاکستان بھارت جنگ میں بھی حصہ لیا تھا۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ تو سب سے بڑا ہے لیکن عملی طور پر یہ ایک غیر فعال یا سیریمونیل پوسٹ سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان آرمی کے نئے نامزد سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اہم فوجی عہدوں کے ساتھ ساتھ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں نائب ملٹری سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ text: دونوں خلابازوں نے بین الاقوامی خلائی سٹیشن (آئی ایس ایس) میں 340 دن گزارے دونوں خلابازوں کا بین الاقوامی خلائی سٹیشن (آئی ایس ایس) میں 340 دنوں پر محیط قیام معمول کی مدت سے دگنا تھا۔ ان کا توسیعی دورہ طویل خلائی سفر کے جسم پر پڑنے والے اثرات کا مطالعہ کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔ تاہم اس بابت سائنسداں زیادہ گہرائی سے تحقیق سکاٹ کیلی کے زمین پر رہ جانے والے جڑواں بھائی مارک سے ان کا تقابلی تجزیہ کرنے کے بعد کرپائیں گے۔ سویز کیپسول، کیلی، کورنینکو، اور روسی عملے کے رکن سرگے وُولکو کو لے کر قزاقستان میں وہاں کے مقامی وقت کے مطابق 04:26 بجے صبح پیراشوٹ کے ذریعے اترا ہے۔ یہ مشن بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے لیے ایک ریکارڈ تھا جس میں چار پروازوں کے بعد خلا میں کیلی کے قیام کی مدت مجموعی طور پر 520 دن ہوجاتی ہے۔ کمانڈر کیلی خلا سے اپنے ساتھ سلاد کے لیے استعمال ہونے والی پالک کی قسم ’راکٹ‘ کے بیج بھی واپس لائے ہیں جو کہ گذشتہ سال دسمبر میں برطانوی خلاباز ٹم پیک اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ راکٹ کے یہ بیج سکولوں میں تقسیم کیے جائیں گے تاکہ طالب علم ان کا زمین پر اگائے گئے راکٹ کے پودوں سے تقابل کرسکیں۔ اس جڑواں تحقیق کا مقصد ایک سال کے دورانیے میں جینیاتی طور پر جڑواں افراد میں مختلف ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینا اور ان پر اثرانداز ہونے والے بیرونی عوامل کا عمل دخل کم کرنا ہے۔ کمانڈر کیلی کا کہنا ہے کہ انھیں کئی اقسام کی جسمانی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے خلا کے سخت ماحول کے باعث خلا بازوں کو جسم کے پٹھوں کا کمزورہونا، نیند پوری نہ ہونا، ہڈیوں کی کمزوری، بینائی کمزور ہونا اور تابکاری اثرات کی زد میں ہونا جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ سب سے زیادہ گہرے اثرات دماغی صحت پر مرتب ہوتے ہیں۔ زمین پر واپسی سے قبل کمانڈر کیلی نے اپ لنک کے ذریعے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’جسمانی طور پر میں خود کو بالکل صحت مند محسوس کرتا ہوں۔ لیکن جو سب سے مشکل ہوتا ہے وہ زمین پر موجود اپنے پیاروں سے دور ہونے اور اکیلے پن کا احساس ہے۔ یہاں دوری بڑھ گئی ہے۔‘ کیلی قزاقستان سے امریکہ شہر ہیوسٹن پہنچیں گے جہاں امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے سائنسدان سائنٹفک چیک اپ کے سلسلے کا آغاز کریں گے۔ سکاٹ کے جڑواں بھائی مارک کیلی خود بھی ریٹائرڈ خلا باز ہیں اور ان کے بھائی کے آئی ایس ایس پہ عارضی قیام کے دوران زمین پر ان کے بھی کئی ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔ جڑواں بھائیوں پر ہونے والی تقابلی تحقیق کے ذریعے سائنسدانوں کو مدار میں طویل عرصے قیام کے دوران بتدریج پیش آنے والی جسمانی اور نفسیاتی تبدیلیوں کو سمجھنےمیں مدد ملے گی۔ ناسا کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے سامنے آنے والی معلومات کی روشنی میں ایک دن مریخ پر انسانوں کو بھیجنے میں کامیابی ممکن ہوسکے گی۔ خلا کے بے وزن ماحول میں طویل وقت گزار کے واپس آنے کے بعد کئی خلا بازوں کو زمین پر بغیر کسی مدد کے چلنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زمین پر واپسی کے فوری بعد کیلی، کورنینکو، اور وُولکو کو ایک طبی کیمپ میں اپنا توازن برقرار رکھنے، باہمی ربط، اور چلنے کی مشق کرنے میں مدد فراہم کی جائے گی۔ کیلی اور کورنینکو نے خلا سے بہت پرکشش تصاویر بھیجی ہیں آئی ایس ایس سے واپس آنے والے عملے کے پاس فوری طبی امداد کی سہولت میسر ہے تاہم مستقبل میں مریخ پر پہنچنے والے عملے کے پاس سرخ سیارے پر پہنچنے کے بعد جسمانی نقل وحرکت معمول پر لانے کے لیے زیادہ وقت نہیں ہوگا۔ سائنسدان ایسا طریقہ وضع کرنے کی کوشش کرہے ہیں جس کے زریعے زخمی ہونے سے بچا جاسکے اور صحتیابی کا عمل تیز کیا جاسکے۔ کمانڈر کیلی کا کہنا ہے کہ ’ہمیں کئی اقسام کی جسمانی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ٹیسٹ کے دوران آپ کو بھاگنا ہوتا ہے، بیٹھی ہوئی حالت سے کھڑے ہونا اور چھلانگ لگانا ہوتا ہے۔‘ طویل خلائی مشن کے باوجود کیلی اور کورنینکو اب بھی خلا میں طویل ترین قیام کے ریکارڈ سے دور ہیں۔ یہ ریکارڈ 90 کی دہائی میں روسی خلاباز ولیری پولیکوف نے خلا میں مسلسل 437 دن قیام کرکے قائم کیا تھا۔ رواں ہفتے پیر کے روز سکاٹ کیلی نے خلائی سٹیشن کی کمانڈ اپنے امریکی ساتھی ٹموتھی کوپرا کے حوالے کردی تھی۔ ٹموتھی کوپرا کے ہمراہ خلا میں ٹم پیک اور روسی خلا باز یوری ملاشنکو موجود ہیں۔ بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر جانے والے اگلے مشن میں امریکی خلاباز جیفری ولیمز، روسی خلاباز الیکسی آفچینین، اور آلف کری پوشکا شامل ہیں۔ یہ مشن رواں سال 18 مارچ کو قزاقستان میں بائیکانور سے روانہ ہوگا۔ امریکی خلا باز سکاٹ کیلی اور روسی خلاباز میخائیل کورنینکو تقریباً ایک سال خلا میں گزارنے کے بعد زمین پر واپس پہنچ گئے ہیں۔ text: دنیا بھر میں ہیکرز ویڈیو گیمز کے چیٹ کوڈز پیشہ وارانہ طور پر تیار کر رہے ہیں اور اسے ویڈیو گیمز کھیلنے والوں کو بیچ رہے ہیں۔ یہ چیٹس ایسے کوڈز ہوتے ہیں جو ویڈیو گیم کھیلنے والی کھلاڑی کی گیم میں صلاحیتوں کو بڑھا دیتے ہیں۔ اب ان چیٹ کوڈز کا استعمال ویڈیو گیمز کے پیشہ وارانہ مقابلوں میں بھی ہو رہا ہے۔ ایک نو عمر ہیکر نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ کمپیوٹر گیمز کو ہیک کر کے اور ان کے چیٹ کوڈز آن لائن بیچ کر ماہانہ ہزاروں ڈالر کما سکتا ہے۔ یہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گذشتہ ہفتے چین میں چار پیکرز کو کمپیوٹر گیمز کے چیٹ کوڈز بنانے اور بیچنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ بھی پڑھیے کھیلو کمپیوٹر گیمز، بنو نواب فٹبال سے زیادہ ویڈیو گیمز میں کمائی وہ کوچ جس نے کئی نوجوانوں کو کروڑ پتی بنایا مائن کرافٹ گیم پر زیادہ پر تشدد ہونے کے الزامات لوکاس (یہ ان کا اصل نام نہیں) کا تعلق ہالینڈ سے ہے اور وہ برسوں سے مختلف کمپیوٹر گیمز کے کوڈز ہیک کر رہے ہیں۔ 17 سالہ ہیکر آج کل ایک نہایت مقبول کمپیوٹر گیم ٹوم کلانسی رینبو سکس سیج کے چیٹ کوڈز فروخت کر رہے ہیں۔ اس کمپیوٹر گیم کے دنیا بھر میں 50 ملین کھلاڑی ہیں جبکہ دن کے ایک مصروف حصہ میں اس آن لائن گیم کو تقریباً ڈیڑھ لاکھ صارفین کھیل رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے نام نہاد ’فرسٹ پرسن شوٹرز‘ کی طرح یہ ویڈیو گیمز انتہائی مسابقتی ہیں اور ان میں ٹیموں کی صورت میں ایک دوسرے کو ختم کرنے کے لیے لڑنا ہوتا ہے۔ اس کھیل میں بہت کچھ داؤ پر ہے اور گیمنگ انڈسٹری ان مقابلوں میں چیٹ کوڈز کی روک تھام کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے لوکاس کے چیٹ کوڈز خریداروں کو کمپیوٹر گیم میں موجود دیواروں کے پار اپنے دشمنوں کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ انھیں اضافی طاقت سے گولی مارنے اور گیم میں ان کی بہتر گرفت بنانے کی صلاحیت دیتے ہیں۔ ’جب میں نے پہلی مرتبہ چیٹ کوڈز تیار کیے مجھے لگا یہ تو بہت اچھا ہے۔ پہلے میں یہ صرف شوقیہ کرتا تھا لیکن بعد میں مجھے یہ احساس ہوا کہ میں اس سے بہت پیسے کما سکتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ ہمارے بہت سے خریدار ہمارے چیٹ کوڈز استعمال کرنے کی وجہ سے اس کمپیوٹر گیم کے بڑے کھلاڑیوں کی صف میں شامل ہیں۔ میں نے چند ویڈیو گیمز کے کھلاڑیوں کی جانب سے ہماری تیار کردہ چیٹ کوڈز کو بڑے مقابلوں میں استعمال کرنے کے متعلق کہانیاں سنی ہیں۔‘ یہ دعویٰ اس وقت سامنے آیا ہے جب الیکٹرانک سپورٹس کی صنعت تیزی سے ترقی کرتے ہوئے کمپیوٹر گیمز کے بڑے مقابلوں میں کھلاڑیوں کو باقاعدہ طور پر بڑی انعامی رقوم دے کر انھیں ارب پتی بنا رہی ہے۔ اس کھیل میں بہت کچھ داؤ پر ہے اور گیمنگ انڈسٹری ان مقابلوں میں چیٹ کوڈز کی روک تھام کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ اکتوبر 2018 میں کمپیوٹر گیم کاؤنٹر سٹرائیک کے عالمی مقابلے کے دوران ایک پیشہ ور کھلاڑی چیٹ کوڈ استعمال کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔ لیوکاس کہتے ہیں ’ظاہر ہے جب کھلاڑی ان مقابلوں میں ہمارے چیٹ کوڈز استعمال کرتے ہیں تو ہم اس کی حمایت تو نہیں کرتے لیکن ہم ان کو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ آپ ہمارے خریداروں کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔‘ لوکاس کے پاس سینکڑوں ایسے خریدار ہیں جو ان کے چیٹ کوڈز کے پیکجز روزانہ، ہفتہ وار یا ماہانہ کے بنیاد پر خریدتے ہیں۔ چیٹ کوڈز کے ماہانہ پیکج کی قیمت تقریباً 70 ڈالر ہے۔ درجنوں خریدار کھلاڑی، ان سے چیٹ کوڈز خریدنے کے لیے قطار میں لگے ہوئے ہیں لیکن وہ اپنے متحرک کھلاڑیوں کی تعداد کم رکھتے ہیں تاکہ اس کمپیوٹر گیم کمپنی اور اس کے مصنوعی ذہانت کے نظام سے بچ سکیں جو ہر وقت ہیکرز اور چیٹ کوڈز بنانے والوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ سنہ 2018 میں کیے گیے گیمرز کے بین الاقوامی سروے کے مطابق چیٹ کوڈز نے متعدد مواقع پر 60 فیصد صارفین کے کھیل کے تجربے پر منفی اثر ڈالا ہے جون میں ایک چیٹ کوڈز بنانے والی کمپنی کو بند ہونا پڑا تھا جب پوکے مون گو بنانے والی کمپنی نیانٹک نے اس کے خلاف کاپی رائٹس خلاف ورزی پر قانونی مقدمہ دائر کیا تھا۔ کمپیوٹر گیم رینبو سکس بنانے والی کمپنی اوبی سافٹ کا کہنا ہے ’وہ چیٹ کوڈز کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے پرعزم ہیں تاکہ ان کی گیم کھیلنے والے کھلاڑیوں کو گیم کھیلنے کا بہترین تجربہ فراہم کر سکیں۔ ہم نے مختلف طریقے کار استعمال کیے ہیں تاکہ ممکنہ چیٹ کوڈز بنانے والوں کا علم ہو سکے اور انھیں ان کوڈز کو استعمال کرنے پر قرار واقعی سزا دی جا سکے۔‘ دیگر کمپیوٹر گیمز بنانے والے جیسا کہ برائنا وو جو امریکہ میں جائنٹ سپیس کیٹ سٹوڈیو چلاتی ہیں کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر گیمز میں چیٹ کوڈز کا استعمال ان کا کام مزید مشکل بنا رہا ہے۔ ’یہ بہت پریشان کن ہے۔ وہ لوگ جو چیٹ کوڈز بنا رہے ہیں وہ گیمز بنانے والوں سے ان گیمز کے نئے درجوں اور کھیل کے تجربے کو بہتر بنانے کے لیے استعمال ہونے والا تخلیقی وقت اور وسائل چھین رہے ہیں۔‘ اور ان چیٹ کوڈز سے صرف بڑی گیمز ہی متاثر نہیں ہوئی ہیں۔ ارڈیتو کی جانب سے سنہ 2018 میں کیے گیے گیمرز کے بین الاقوامی سروے کے مطابق چیٹ کوڈز نے متعدد مواقع پر 60 فیصد صارفین کے کھیل کے تجربے پر منفی اثر ڈالا ہے۔ اسی سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ 37 فیصد کھلاڑیوں نے آن لائن گیمز میں چیٹ کوڈز استعمال کرنے کا اعتراف کیا۔ ان چیٹ کوڈز سے صرف بڑی گیمز ہی متاثر نہیں ہوئی ہیں آن لائن گیمز کھیلنے والے ایک پیشہ ور کھلاڑی ایمی، جن کا آن لائن نام بیمی لیف ہے کا کہنا تھا کہ چیٹ کوڈز لاکھوں کھلاڑیوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ ’ان کے لیے ممکن ہے کہ یہ ہلکی پھلکی تفریح ہو لیکن باقی سب ہار رہے ہیں۔ باقیوں کو اس کھیل میں بالکل بھی مناسب موقع نہیں مل رہا۔ اور بعض اوقات ان افراد کے لیے ایک گیم کی کوئی سٹیج مکمل کرنے میں 30 منٹ بھی لگ جاتے ہیں، بنیادی طور پر کھیل کے وہ 30 منٹ جو ضائع ہو گئے۔‘ لوکاس کا کہنا ہے کہ ان کا اور ان کی ٹیم کا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ چیٹ کوڈز بنانا اور بیچنا بند کر دیں گے۔ وہ دیگر کمپیوٹر گیمز کے چیٹ کوڈز بھی بنانا چاہتے ہیں جب تک کہ وہ پکڑے نہ جائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے گاہگ ان کا اور اس جیسے دیگر افراد کا کاروبار بنائے رکھیں گے۔ آج کل ویڈیو گیمز میں چیٹ کوڈز کا استعمال ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے اور یہ بہت زیادہ منافع بخش بنتا جا رہا ہے۔ text: سرکاری رکارڈ کے مطابق تھر میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد انہتر ہوگئی سرکاری ریکارڈ کے مطابق تھر میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد انہتر ہوگئی ہے، جبکہ مقامی میڈیا یہ تعداد 140 بتاتی ہے۔ معصوم چونو اور سکینہ سول ہسپتال مٹھی میں زیر علاج تھے جہاں انھیں نمونیا اور خون کی کمی کی تشخیص کی گئی تھی بدھ کی شب دونوں ہلاک ہوگئے۔ مٹھی ہپستال کے ایک ڈاکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ سکینہ خون کی عدم دستیابی کے باعث انتقال کر گئیں۔ انھوں نے بتایا کہ سکینہ کے والدین کو خون کا بندوبست کرنے کے لیے کہا گیا تھا لیکن وہ ڈونر کا انتظام نہیں کرسکے۔ واضح رہے کہ پندرہ لاکھ کی آبادی میں کوئی بھی ایسا انتظام نہیں جس کے تحت بلڈ بینک میں ایمرجنسی کے لیے خون دستیاب ہو، مٹھی ضلعی ہپستال میں بھی مریض اپنے ساتھ ڈونر لاتے ہیں اور صرف خون کی منتقلی کی جاتی ہے۔ سول ہپستال مٹھی میں دو بچے مردہ حالات میں لائے گئے، جن میں چھ ماہ کے رام چند کولھی کو ننگر پارکر کے گاؤں چوڑیو اور دو ماہ کے آصف کو سنتورو فارم سے لایا گیا تھا، جو راستہ میں ہی دم توڑ گئے تھے۔ متاثرین نے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ ان کے پاس ابھی تک میڈیکل ٹیمیں نہیں پہنچ سکیں ہیں اسی لیے وہ بچوں کو مٹھی لائے۔ دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ میں سندھ کے چیف سیکریٹری کی جانب سے کمنٹس دائر کیے گئے ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ساڑھے ستاسی ہزار بیگس متعلقہ حکام کے حوالے کردیے گئے ہیں، جبکہ تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی پولیس ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی گئی جس کی روشنی میں مثالی سزائیں دی جائیں گی۔ ہائی کورٹ میں تھر کی صورتحال پر ازخود نوٹس کیس کی اگلی سماعت 18 مارچ کو ہوگی۔ دریں اثنا سندھ کے رلیف کشمنر تاج حیدر کا کہنا ہے کہ تھر کے متاثرین میں 52 ہزار گندم کی بوریاں تقسیم کردی گئی ہیں، ضلعے میں ایک لاکھ بیس ہزار بوریاں تقسیم کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ محکمۂ خوراک کے دوسرے سینٹروں کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ گندم تھر منقتل کی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ کنویں کے قریب جانوروں کی تقسیم کا بھی بندوست کیا جا رہا ہے اور جن چراگاہوں پر قبضے کی شکایت ملی ہیں ان سے قبضہ ختم کرایا جائے گا۔ ادھر خیبر پختون خواہ سے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم بھی کراچی پہنچ گئی ہے، جس میں پانچ لیڈی ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔ پاکستان کے صحرائی علاقے تھر میں خوراک کی قلت کے بعد اب بچے خون کی عدم دستیابی کے باعث بھی موت کا شکار ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے بدھ کی شب مزید چار بچے ہلاک ہوگئے ہیں۔ text: کرائمیا میں پندرہ لاکھ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں اور ریفرینڈم کے ابتدائی نتائج کا اعلان ووٹنگ کے خاتمے کے کچھ دیر بعد ہی متوقع ہے کرائمیا کے عوام اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے ریفرینڈم میں حصہ لے رہے ہیں کہ آیا یہ خطہ روس سے دوبارہ الحاق کر لے یا پھر مزید خودمختاری کے ساتھ یوکرین کا ہی حصہ رہے۔ اس ریفرینڈم کو مغربی ممالک اور یوکرین نے ’غیر قانونی‘ قرار دیا ہے جبکہ روس اس کی حمایت کر رہا ہے۔ ریفرینڈم کے لیے ووٹنگ کا آغاز مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے ہوا اور یہ رات آٹھ بجے(برطانوی وقت کے مطابق شام چھ بجے) تک جاری رہی۔ کرائمیا میں پندرہ لاکھ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں اور ریفرینڈم کے ابتدائی نتائج آئندہ چند گھنٹوں میں آنے کی امید ہے۔ کرائمیا میں انتخابی کمیشن کے رکن میخائل ملیشیو نے کہا ہے کہ ووٹنگ کے ابتدائی چھ گھنٹے میں تقریباً ’44 اعشاریہ تین فیصد‘ ووٹ ڈال دیے گئے تھے جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس خطے میں روسی نسل کے افراد کی اکثریت ہے اور ان میں سے بیشتر کے روس سے الحاق کے حق میں ووٹ دینے کی توقع ہے یوکرین میں روس نواز صدر وکٹر یونوکوچ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے نسلی اعتبار سے روسی اکثریت والے کرائمیا میں روسی فوج نے زمینی کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ یہ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ یہاں کے لوگ یوکرین کو چھوڑنے اور روس سے الحاق کے حق میں ووٹ دیں گے۔ کرائمیا کی تاتاری آبادی نے ریفرینڈم کا بائیکاٹ کیا۔ کرائمیا کے دارالحکومت سمفروپول اور تاتار اکثریت والے شہر بخش سرائے میں پولنگ مراکز پر بڑی تعداد میں لوگ ووٹ ڈالنے پہنچے تاہم بی بی سی نے جس تاتاری فرد سے بھی بات کی اس کا کہنا تھا کہ وہ ووٹنگ میں شریک نہیں ہوگا۔ بیلٹ پیپر پر عوام سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا وہ کرائمیا کا روس سے الحاق چاہتے ہیں؟ ایک اور سوال میں یہ بھی دریافت کیا گیا ہے کہ آیا یوکرین میں سنہ 1992 کی آئینی شکل بحال ہونی چاہیے کیونکہ اس صورت میں خطے میں کو مزید خودمختاری مل سکتی ہے۔ اس خطے میں روسی نسل کے افراد کی اکثریت ہے اور ان میں سے بیشتر کے روس سے الحاق کے حق میں ووٹ دینے کی توقع ہے۔ کرائمیا کے روس نواز وزیراعظم سرگئی اکسیونوف نے ووٹ ڈالنے کے بعد انٹرفیکس نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا ’جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ آزادانہ طریقے سے ووٹ دے رہے ہیں۔ پولنگ مراکز میں کوئی مسائل نہیں ہیں اور مجھے نہیں دکھائی دے رہا کہ کسی پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔‘ سواستوپول میں ایک مصروف پولنگ مرکز میں موجود ایک معمر خاتون نے ریفرینڈم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اپنے وطن روس جانا چاہتی ہوں۔ مجھے اپنی ماں سے ملے ایک طویل عرصہ ہوگیا۔‘ تاہم ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو کرائمیا کو یوکرین کے ساتھ مگر مزید خودمختار صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص سرہی رشتنک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں کرائمیا کے پاس مکمل خودمختاری ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنے مالی معاملات کی خود دیکھ بھال کر سکے۔ میں تو آزادی کا حامی ہوں۔‘ یوکرین کے نیم خودمختار علاقے کرائمیا میں اتوار کو عوام نے روس سے الحاق کے سوال پر ہونے والے ریفرینڈم میں بہت بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے ہیں۔ text: ایک اندازے کے مطابق چار کروڑ ٹیلی ویژن ناظرین نے یہ خطاب دیکھا کانگریس سے خطاب میں انھوں نے کہا: ’امریکی خواب کو پورا کرنے کا اس سے بہتر لمحہ کبھی نہیں آیا۔‘ انھوں نے کہا کہ وہ اپنی حریف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی ارکان کی طرف کھلا ہاتھ بڑھا رہے ہیں تاکہ دونوں مل کر کام کر سکیں۔ یہ بھی پڑھیں فائر اینڈ فیوری پڑھنے پر ٹرمپ کےحامیوں کا غم و غصہ ’سمارٹ نہیں جینیئس ہوں‘ ’ٹرمپ دماغی اور جسمانی لحاظ سے مکمل طور پر صحت مند ہیں‘ انھوں نے کہا کہ وہ گوانتانامو بے کو بند نہیں کر رہے۔ ان کے پیش رو صدر اوباما اس متنازع جیل کو بند کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے۔ امریکی معیشت تو ترقی کر رہی ہے لیکن صدر ٹرمپ کی مقبولیت کا گراف نیچے آ رہا ہے۔ ایک سال قبل اپنی اولین تقریر میں انھوں نے 'تباہی' کا منظرنامہ پیش کیا تھا لیکن اس بار وہ زیادہ پرجوش نظر آئے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی انتظامیہ ایک 'محفوظ، طاقتور اور پروقار امریکہ تعمیر کر رہی ہے۔' انھوں نے پوری قوم کو ’بطور ایک ٹیم، ایک امریکی خاندان‘ اکٹھے ہونے کا درس دیا۔ ایک اندازے کے مطابق چار کروڑ ٹیلی ویژن ناظرین نے یہ خطاب دیکھا۔ خارجہ پالیسی انھوں نے شمالی کوریا کو ’بگڑا ہوا‘ کہتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ انھوں نے خبردار کیا کہ پیانگ یانگ کی جانب سے ’ایٹمی میزائلوں کی تیاری کے اندھادھند پروگرام سے بہت جلد ہمارے ملک کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ہم اسے روکنے کے لیے زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی مہم شروع کر رہے ہیں۔‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ شام اور عراق میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ سے تقریباً تمام علاقہ لے لیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا: ’ہم اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک دولتِ اسلامیہ کو شکست نہیں ہو جاتی۔‘ ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنما کینیڈی نے امریکہ کو 'ٹوٹا پھوٹا' ملک کہا اور ٹرمپ کی صدارت کو 'انتشار' قرار دیا ڈیموکریٹ پارٹی کا ردِ عمل؟ ریاست میساچوسٹس سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رکن جوزف کینیڈی سوم نے صدر ٹرمپ کی تقریر کا جواب دیا۔ انھوں نے امریکہ کو ’ٹوٹا پھوٹا‘ ملک کہا اور ٹرمپ کی صدارت کو ’انتشار‘ قرار دیا۔ 37 سالہ کینیڈی نے کہا کہ 'بہت سے لوگوں نے گذشتہ سال پریشانی، غصے اور خوف میں گزارا ہے۔' انھوں نے کہا: ’پچھلے سال کو انتشار کہہ کر گزرنا آسان ہے۔ پارٹی بازی، سیاست۔ لیکن اصل بات کہیں بڑی ہے۔ یہ انتظامیہ نہ صرف ان قوانین کو نشانہ بنا رہی ہے جو ہمارا تحفظ کرتے ہیں، بلکہ یہ تصور ہی اس کے نشانے پر ہے کہ ہم سب کو تحفظ کی ضرورت ہے۔‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کی رات اپنے پہلے سٹیٹ آف یونین خطاب میں ’نئے امریکی لمحے‘ کی آمد کا دعویٰ کیا ہے۔ text: سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے ان افراد کو غداری، ایران کی انٹیلیجنس ایجنسی کے لیے جاسوسی کا نیٹ ورک چلانا اور فوجی علاقوں کے حوالے سے حساس معلومات فراہم کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔ ان افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق سعودی عرب سے ہے جبکہ ایک ایرانی اور ایک افغان باشندہ شامل ہے۔ سعودی عرب کے میڈیا کے مطابق ان افراد پر خصوصی کرمنل کورٹ میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ ان پر مقدمے کا آغاز اتوار کو ہوا جبکہ ان کو 2013 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق جن افراد پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے ان میں کئی معروف شیعہ شخصیات شامل ہیں جو سیاست میں سرگرم نہیں۔ ان کے علاوہ یونیورسٹی کے ایک بزرگ پروفیسر، ماہر امراض بچگان، ایک بنکر اور دو مولوی شامل ہیں۔ واضح رہے کہ قاطف کے علاقے میں زیادہ تر شیعہ آباد ہیں۔ سعودی عرب کی کُل آبادی میں سے 15 فیصد آبادی شیعہ ہے۔ سعودی عرب میں میں اختلاف رائے کو برداشت نہیں کیا جاتا اور 2011 اور 2013 کے درمیان سکیورٹی فورسز نے 20 افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کیا تھا اور سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا تھا۔ اس عرصے میں فائرنگ اور پیٹرول بموں کے حملوں میں کئی پولیس افسر بھی ہلاک ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ حالیہ عرصے میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ سعودی عرب نےرواں سال جنوری میں اس وقت ایران سے سفارتی تعلقات کر لیے تھے جب سعودی عرب میں شیعہ رہنما شیخ نمر النمر کو پھانسی پر چڑھائے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین نے اس کے سفارخانے پر حملہ کیا تھا۔ سعودی عرب کےذرائع ابلاغ کےمطابق حکومت 32 شیعہ افراد کے خلاف ایران کےلیے جاسوسی کرنے کےالزام مقدمہ چلا رہی ہے۔ text: پروفیسر کو پوچھ گچھ کے بعد جانے کی اجازت دے دی گئی گوریڈو مینزیو کو اس واقعے کے بعد جہاز سے اتار دیا گیا اور سکیورٹی حکام نے ان سے پوچھ گچھ کی۔ گوریڈو مینزیو نے سکیورٹی اہلکاروں کو دیکھایا کہ وہ کیا کر رہے تھے جس کے بعد انھیں جہاز میں دوبارہ سوار ہونے کی اجازت دی گئی لیکن اس دوران پرواز میں دو گھنٹے کی تاخیر ہو چکی تھی۔ گوریڈو مینزیو نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا ہے کہ انھیں جہاز سے نکالنے پر پائلٹ شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔ انھوں نے فیس بک پر لکھا:’ یہ تجربہ ناقابل یقین تھا اور انھیں اس پر ہنسی آئی۔‘ مینزیو یونیورسٹی آف پنسلوانیا میں پروفیسر ہیں اور وہ ایک لیکچر دینے انٹاریو جا رہے تھے۔ جہاز روانہ ہونے سے پہلے ان کے برابر میں بیٹھی خاتون نے عملے کے ایک رکن کو کاغذ پرپیغام دیا۔ انھوں نے پہلے کہا کہ وہ بیمار محسوس کر رہی ہیں تاہم بعد میں مینزیو کی سرگرمی کے بارے میں بتایا۔ مینزیو نے فیس بک پر مزید لکھا:’یہ تھوڑا مزاحیہ تھا اور تھوڑا پریشان کن۔ خاتون نے صرف میری طرف دیکھا، لکھے ہوئے پراسرار فارمولے کو دیکھا اور نتیجہ اخد کر لیا کہ یہ کچھ اچھا نہیں۔ اور اس کی وجہ سے پرواز میں تاخیر ہو گئی۔‘ انھوں نے امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کو بتایا ہے کہ عملے کو پرواز میں تاخیر کا فیصلہ کرنے سے پہلے اضافی جانچ پڑتال کرنی چاہیے۔ مینزیو نے کہا:’مشکوک سرگرمی کی اطلاع ملنے پر اضافی معلومات حاصل نہ کرنے کی صورت میں بہت زیادہ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، خاص کر غیر ملکیوں سے نفرت پر مبنی رویہ پیدا ہو سکتا ہے۔‘ ایئر وسکونسن ایئر کی علاقائی شراکت دار امریکی ایئر لائن نے کہا ہے کہ عملے نے بیمار مسافر کی دیکھ بھال سے متعلق قواعد و ضابط پر عمل کیا اور اس کے بعد اس کے الزامات کی تفتیش کی۔ اس سے معلومات ہوا کہ یہ درست نہیں۔‘ پروفیسر کی شکایت کرنے والی خاتون کو بعد میں ایک دوسرے پرواز پر روانہ کیا گیا۔ اٹلی کے ایک ماہر اقتصادیات کو اس وقت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب وہ جہاز میں ریاضی کا ایک سوال حل کر رہے تھے تو ساتھ بیٹھی مسافر خاتون نے اسے مشکوک سرگرمی سمجھتے ہوئے عملے کو آگاہ کر دیا۔ text: چین میں آٹھ نمبر کو خوش بختی کی علامت یا مبارک نمبر مانا جاتا ہے اور سنہ 2008 کے آٹھویں مہینے کی آٹھ تاریخ خاص طور پر بہت ہی مبارک سمجھی جا رہی ہے۔ افسران نے تمام جوڑوں کو شادی کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔اس ماہ کے اوائیل میں چین میں بہت سے نوزائیدہ بچوں کے نام آؤیون رکھے جانے کی اطلاعات ملی ہیں جس کا مطلب ہے ’اولمپکس گیمز‘۔ اس نام کی اتنی مقبولیت کو اولمپکس کھیلوں کی حمایت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ آٹھ اگست کے دن شادی کرنے کی پہلی درخواست جمعہ کو منظور کی گئی۔ خبر رساں ادارے ژنہوا کے مطابق اس دن شادی کے لیے بیجنگ میں تقریباً ایک ہزار جوڑے درخواست جمع کروانے کی قطار میں گھنٹوں کھڑے رہے۔ اطلاعات ہیں کہ آئندہ ہفتوں میں مجموعی طور پر نو ہزار جؤڑے شادی کی درخواست دیں گے۔ چین میں ہزاروں جوڑوں نے آٹھ اگست کو اولمپکس کے افتتاح کا جشن منانے کے لیے اسی دن شادی کرنےکی درخواست دی ہے۔ text: ایک ہفتے کے دوران جنوب اور مغربی ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد کی نسلی منافرت کے نتیجے میں ہلاکت کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے چالیس سالہ مقتول ڈرائیور مشرف بھٹی کے بھائی نے بتایا کہ ان کے بھائی کو کچھ مسلح افراد نے اس وقت ہلاک کیا جو وہ اپنی ملازمت سے چھٹی کے بعد نجی ٹرک میں بیٹھ کر کیلیفورنیا کے علاقے رچمنڈ کی طرف آ رہے تھے۔ مشرف کا تعلق پاکستان کے علاقے میاں چنوں سے ہے۔ مسلح افراد نے ان کے ٹرک کی ونڈ سکرین پر گولیاں ماریں۔ اس واقعے کے بعد کسی کی باقاعدہ گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے تاہم پولیس نے ایک شخص کو پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا ہے۔ متقول ڈرائیور کے بھائی کے مطابق ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ ان کے بھائی کے قتل کے پیچھے کیا محرکات تھے تاہم جنوب ایشیائی خاص کر پاکستانی اس ہلاکت کے پیچھے نسلی منافرت کے شبہے کو نظر انداز نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے قبل بھی ایک شخص کو نسلی منافرت کی بنیاد پر اسی علاقے میں ہلاک کیا جا چکا ہے۔ دونوں واقعات میں تاحال کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ اس سے قبل چھ بچوں کی ماں اور ایک باپردہ خاتون عالیہ انصاری کو فری مونٹ کےعلاقے میں گولی مار کر اس وقت ہلاک کیا گیا تھا جب وہ اپنے بچوں کو سکول سے لے کر گھر کی طرف آ رہیں تھیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ ہفتے سری لنکا سے تعلق رکھنے والے ایک شخص روہن رام بوکیولا کو لاس اینجلس میں بیس بال کے ڈنڈے سے ہلاک کیا گیا تھا۔ مشرف بھٹی رچمنڈ کے علاقے میں گزشتہ بیس سال سے رہ رہے تھے۔ بی وے علاقے میں پاکستانی کمیونٹی کے ایک رکن سید اعجاز کا کہنا تھا کہ انہیں اس ہلاکت سے گہرا صدمہ پہنچا ہے۔ آسیہ انصاری اور مشرف بھٹی کی ہلاکت سے اس علاقے میں آباد جنوب ایشیائی کمیونٹی گہرے صدمے کا شکار ہے۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ نسلی منافرت کو ان ہلاکتوں کی وجہ بیان کرنا درست نہیں ہے۔ متقول ڈرائیور کے بھائی کے بقول پولیس نے انہیں بتایا تھا کہ ایک شخص نے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، پولیس کو ٹیلی فون کرکے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ مشرف بھٹی کے قتل کے بارے میں کچھ جانتا ہے۔ امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کی ہلاکت کونسلی منافرت کی کارروائی کا نام دیا جا رہا ہے۔ text: جمرات کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے قائم مقام صدر امداد اعوان ، سیکرٹری امین جاوید اور نائب صدر غلام بنی بھٹی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی بحالی کے معاملہ پر کل جماعتی کانفرنس بلائے گی اور اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں سے رابطہ مکمل ہونے پر اس کانفرنس کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ بار نے حزب مخالف کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد اے پی ڈی ایم اور اے آر ڈی سے مطالبہ کیا ہے کہ چارٹر آف ڈیمانڈز میں ججوں کی بحالی کے معاملے کو سرفہرست رکھا جائے۔ ’اس کے بغیر یہ چارٹر وکلاء برادری کو قبول نہیں ہوگا۔‘ انہوں نے کہا کہ ججوں کی بحالی کے معاملے پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ بار کا وفد پاکستان میں مقیم تمام ممالک کے سفیروں سے ملاقات کر کے ان کو اصل حقائق کے بارے میں بتائے گا۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کے سامنے پیش ہونے والے وکلاء کے بارے میں امین جاوید نے کہا کہ سپریم کورٹ بار وکلاء تنظیموں کے فیصلے کے برعکس پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کے روبرو پیش ہونے والے وکلاء کے خلاف کارروائی کرے گی اور ان وکلاء کے لائسنس منسوخ کیے جائیں گے۔ انہوں نے پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والوں ججوں سے رہائش گاہیں خالی کرانے کی مذمت کی اور کہا کہ یہ کارروائی فوری طور پر بند کی جائے ۔ان کا کہنا تھا کہ وکلاء خود ججوں کا تحفظ کریں اور ان سےگھر خالی کرانے کی غیرقانونی کارروائی کی بھر پور مزاحمت کریں۔ امین جاوید نے سپریم کورٹ بار کے نظر بند صدر اعتزاز احسن کی جانب سے بار ایسوسی ایشنوں کو لکھی گئی چٹھی کا حوالہ دیا اور کہا کہ اعتزاز احسن آئندہ ماہ جنوری کے آخری ہفتے میں ججوں کی بحالی کے لیے ’جوڈیشل بس‘ کے ذریعے ملک گیر تحریک چلائیں گے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی بحالی کے معاملہ پر کل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے اور حزب مخالف کی سیاسی جماعتوں کے اتحادوں سے مطالبہ کیا ہے کہ چارٹر آف ڈیمانڈز میں ججوں کی بحالی کے نکتہ کو سرفہرست رکھیں۔ text: بی بی سی کے نامہ نگار جِم مِیور کے مطابق عراق میں جاری لڑائی کے بارے میں امریکی فوج کے ترجمانوں اور مقامی لوگوں کے بیانات میں تضاد کی یہ تازہ ترین مثال ہے۔ بائیس جون کو امریکی فوج نے کہا تھا کہ اس نے بعقوبہ کے شمال میں واقع الخالص نامی گاؤں پر میزائلوں سے لیس ہیلی کاپٹروں سے جو حملہ کیا تھا اس میں القاعدہ کے سترہ بندوق بردار دہشتگرد ہلاک ہوئے تھے۔ فوج کے بقول یہ حملہ علاقے میں تین روز سے جاری آپریشن کا حصہ تھا جس کا نشانہ القاعدہ کے لوگ ہیں۔ امریکی فوج کا یہی بیان بی بی سی سمیت دنیا بھر میں ذرائع ابلاغ نے شائع کیا۔ لیکن شیعہ اکثریتی گاؤں الخالص کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ جو افراد مارے گئے ہیں ان کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ان کے مطابق مارے جانے والے افراد اصل میں گاؤں کے پہرے دار تھے جو درحقیقت ایسے ہی مزاحمت کاروں کے خلاف پہرہ دے رہے تھے جن کو مارنے کا دعوٰی امریکی فوج نے کیا ہے۔ دیہاتیوں کا کہنا تھا کہ جب امریکی ہیلی کاپٹروں نے ان پر راکٹ برسائے اور مشین گنوں کا استعمال کیا تو سولہ میں سے گیارہ محافظ مارے گئے جبکہ پانچ زخمی ہوگئے، جن میں سے دو شدید زخمی ہوئے۔ اس واقعہ کے بارے میں امریکہ کی قیادت میں لڑنے والی بین الاقوامی فوج کا کہنا تھا کہ ’ جب اتحادی فوج کے ہیلی کاپٹروں اور تھری بریگیڈ کے زمینی دستے نے پندرہ کے قریب افراد کو گاؤں کے اندر داخل ہوتے دیکھا اس وقت عراقی پولیس کے اہلکار گاؤں کے ارد گرد اور اس کے اندر ایک سکیورٹی آپریشن میں مصروف تھے۔ اس موقع پر اتحادی ہیلی کاپٹروں نے میزائیلوں سے مسلح القاعدہ کے سترہ افراد کو دیکھا اور وہ جو گاڑی استعمال کر رہے تھے اسے ہیلی کاپٹر سے میزائل مار کر تباہ کر دیا۔‘ اب حملے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین الخالص کی کونسل کے سربراہ سے ملاقات کے خواہاں ہیں۔ یہ لوگ اس بات پر شدید برہم ہیں کہ ان کے گاؤں کے پہرے داروں کو القاعدہ کے کارکن بتایا گیا ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں دو سنّی تھے جبکہ باقی تمام شیعہ تھے اور انہیں نجف میں دفن کیا گیا ہے۔ بین الاقوامی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ الخالص کے رہائشیوں کے الزامات کی روشنی میں واقعہ کی دوبارہ تفتیش کی جا رہی ہے۔ اگر اس سلسلے میں گاؤں والوں کے بیان کو صحیح سمجھا جاتا ہے تو پھر کئی سوالات جنم لیتے ہیں، مثلاً یہ کہ بین الاقوامی فوج نے بائیس جون کی رات جو حملہ کیا اس کی بنیاد کیا تھی اور یہ کہ ’القاعدہ کے جنگجوؤں‘ کے خلاف اتحادی فوج کی کئی دیگر کامیابیوں کے دعوؤں کی حقیقت کیا ہے۔ خاص طور پر وہاں جہاں بین الاقوامی فوج دو بدو لڑائی نہیں کرتی بلکہ ایسے افراد کو دور سے نشانہ بناتی ہے۔ مقامی لوگوں اور اتحادی فوج کے بیانات میں یہ تضاد اس مسئلے کی نشاندہی بھی کرتا ہے جس کا سامنا آج کل ذرائع ابلاغ کو ہے، یعنی ایسے دور دراز علاقوں سے خبروں کی تصدیق کیسے کی جائے جہاں واقعہ کی براہ راست تصدیق کرنا مشکل ہو۔ ایسے علاقوں تک ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی رسائی میں جان کا خطرہ ہو سکتا ہے اور ان واقعات کے بارے میں صرف سرکاری بیان پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ عراق میں ایک گاؤں کے رہائشیوں نے بائیس جون کو اپنے گاؤں پر حملے کے بارے میں امریکی بیان کو بری طرح رد کیا ہے۔ text: والدین کے جائے پیدائش اور دیگر مقامات میں ان کی زیادہ دلچسپی نظر آئی۔ ان کے اہل خانہ ایک بار پھر پاکستان آنا چاہتے ہیں۔ بیگم اڈوانی کا تعلق بھی کراچی سے ہے۔ بیگم کملا اڈوانی نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سولہ برس کی تھیں جب یہاں سےگئیں۔ وہ ہندوگرلز اسکول میں پڑھتی تھیں۔ کملا اڈوانی کا کہنا تھا کہ وہ بٹوارے کی وجہ سے یہاں سےگئے تھےاور ان کا جانے کا فیصلہ درست تھا۔ بیگم اڈوانی نے بتایا کہ حیدرآباد، سکھر، روہڑی دیکھا ہوا ہے۔ لیکن انہیں دوبارہ دیکھنے کی خواہش ہے۔ اسکول کے زمانے میں ان کی مسلمان سہیلیاں بھی تھیں مگر اب ان کو ان کے نام یاد نہیں رہے۔ انہوں نے کہا کہ جائے پیدایش پر واپس آنا اچھا لگ رہا ہے اور دونوں ممالک میں تعلقات مزید بہتر ہونے چاہیں۔ جئے انت نے کہا کہ وہ اس سے قبل بھی آنا چاہتےتھے مگر حالات کی وجہ سے نہیں آسکے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کچھ عرصہ قبل کراچی میں پاک بھارت کرکٹ میچ کے موقع پر بھی آنا چاہتے تھے۔ ’اب صورتحال بہتر ہے اور حالات بھی بہتر ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لوگ بہت اچھے ہیں۔ اڈوانی کی بیٹی پرتیبیا بھارتی ٹی وی چینلز گھومتا آئینہ اور دوسرے پروگراموں کی میزبان ہیں۔ وہ اپنے والد کے ہر پروگرام کی ریکارڈنگ میں مصروف تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں آکر بہت اچھا محسوس ہورہا ہے۔ وہ کوشش کرینگی کہ ان مقامات پر جائیں جہاں ان کے والد کا بچپن اور جوانی گذرے ہیں۔ ایل کے اڈوانی خود بھی دوبارہ پاکستان آنے کے خواہشمند ہیں۔ اے آر ڈی کے سربراہ مخدوم امین فہیم سے ملاقات کے موقع پر انہوں نے کہا کہ جب بھی دوبارہ آئیں گے تو ہالہ ضرور جائیں گے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ ایل کے اڈوانی کے پاکستان کے دورے کے سیاسی مقاصد ہو سکتے ہیں لیکن ان کے بچوں اپنے والد اور والدہ کے بچپن کا دیس دیکھنا چاہتے تھے۔ text: بطلیموس کے زمانے کے اس تابوت کا وزن 27 ٹن ہے اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں ایک افواہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ کیا اس تابوت کے اندر کوئی خوفناک بلا چھپی ہے جو نکل کر سارے ملک یا پھر ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی؟ دو ہزار سال پرانے تابوت سے کیا نکلا؟ جن ماہرین نے اسے کھولا ہے وہ کہتے ہیں کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس کی بجائے تابوت سے تین ڈھانچے برآمد ہوئے اور ساتھ ہی ایک ناقابلِ برداشت بدبو۔ مصر کے محکمۂ آثارِ قدیمہ نے تابوت کشائی کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی مقرر کی تھی۔ مصری اخبار الوطن کے مطابق انھوں نے تابوت کا ڈھکن دو انچ بھی نہیں اٹھایا تھا کہ تیز بدبو نے انھیں وہاں سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ بعد میں تابوت کھولنے کے لیے فوج کی خدمات حاصل کی گئیں اور فوجی انجینیئروں نے تابوت کا بھاری ڈھکن اٹھایا۔ محکمۂ آثارِ قدیمہ کے سیکریٹری جنرل مصطفیٰ وزیری نے کہا: 'تابوت کے اندر سے تین لوگوں کی ہڈیاں نکلیں، یہ بظاہر ایک خاندان کی مشترکہ تدفین لگتی ہے۔ بدقسمتی سے ممیاں اچھی حالت میں نہیں ہیں اور صرف ان کی ہڈیاں بچی ہیں۔' میڈیا میں آنے والے خدشات کے بارے میں کہ تابوت کھولنے سے فرعونوں کے زمانے کی کوئی آفت پھیل جائے گی، انھوں نے کہا کہ 'ہم نے اسے کھول لیا ہے، اور الحمدللہ دنیا ابھی تک اندھیروں میں نہیں ڈوبی۔ 'سب سے پہلے میں نے اپنا سر تابوت کے اندر داخل کیا تھا اور اب میں آپ کے سامنے صحیح سلامت کھڑا ہوں۔' تابوت سے تین آدمیوں کی ہڈیاں نکلیں جو بظاہر سپاہی ہیں اس کے باوجود تابوت کھولتے وقت علاقے کو لوگوں سے خالی کروا لیا گیا تھا۔ کسی آفت کے ڈر سے نہیں، بلکہ اس خدشے کے پیشِ نظر کہ تابوت میں کوئی خطرناک گیس نہ ہو۔ ماہرین نے کہا ہے کہ تابوت کے اندر موجود تین افراد بظاہر فرعونوں کے زمانے کے فوجی لگتے ہیں۔ ان میں سے ایک کی کھوپڑی میں تیر کی چوٹ کا نشان ہے۔ یہ تابوت ساڑھے چھ فٹ لمبا ہے اور اب تک مصر میں سے نکلنے والے تابوتوں میں سب سے لمبا ہے، جب کہ اس کا وزن 27 ٹن ہے۔ یہ تابوت بطلیموس کے زمانے کا ہے، جو 323 قبل مسیح میں سکندر اعظم کی موت کے بعد شروع ہوا تھا۔ اب ماہرین اس کے اندر موجود ہڈیوں پر تحقیق کر کے یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ یہ کون لوگ تھے، کس حال میں زندہ رہے اور کیسے مرے۔ دو ہفتے پہلے مصر میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے اسکندریہ سے سنگِ سیاہ سے تراشا گیا ایک بہت بڑا تابوت کھود نکالا تھا جس کی عمر کا تخمینہ دو ہزار سال لگایا گیا تھا۔ text: حکومتِ پاکستان کو ملک میں ڈی این اے لیبارٹریز کی قلت کے سبب بیرونی ممالک پر انحصار کرنا پڑتا ہے نادرا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ داخلہ کے مطابق پاکستان میں ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے کوئی بڑی لیبارٹری موجود نہیں ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے آئندہ چھ سے سات ماہ میں نادرا میں لیب بنائی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ٹیسٹوں کے لیے نادرا تمام صوبائی اور قانونی اداروں کی رہنمائی کرے گی۔ وزیرِ داخلہ کے مطابق صرف صوبہ پنجاب میں محدود پیمانے پر ڈی این اے ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے اور حکومت کو ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے بیرونی ممالک سے مدد لینی پڑتی ہے۔ ڈاکٹر خالد رانجھا وفاقی وزیرِ قانون کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈی این اے لیبارٹری کا قیام ایک اچھی پیش رفت ہے تاہم اس میں مستند ٹیسٹ یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے قانونِ شہادت میں واقعاتی شہادتوں کی بہت جگہ ہے۔ ’جیسے کہ فورینسک ٹیسٹ، بلڈ ٹیسٹ وغیرہ لیکن ہم ان پر اعتماد نہیں کرتے۔‘ اعتماد نہ کرنے کی کیا وجوہات ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مسئلہ طریقہ کار نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو نتائج کے حصول کے لیے متعلقہ ’ڈیٹا فیڈ‘ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت چاہتی ہے تو انھیں اس تمام طریقہ کار پر کنٹرول کرنا ہو گا جن کے ذریعے ٹیسٹ کی مشینوں میں درست معلومات ڈالی جائیں۔ خالد رانجھا نے بتایا کہ ہمارا مسئلہ شواہد اکٹھا کرنا نہیں ہے بلکہ استغاثہ کی جانب سے ’شواہد پیدا‘ کیا جانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ واقعاتی شہادتیں اسلام کے عین مطابق ہیں تاہم ان کے حصول کے طریقۂ کار پر اعتماد نہیں کیا جاتا اور اس پر اعتماد تب ہی ہو گا جب اسے صحیح لوگ کریں گے۔ دوسری جانب اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کے مطابق جنسی زیادتی کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو واحد اور بنیادی ثبوت کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی وفاقی حکومت نے نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی یعنی نادرا کے ماتحت ڈی این اے لیبارٹری قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ text: امریکہ میں تعینات ہونے والے نئے سعودی سفیر شہزادہ ترکی الفیصل چوبیس سالہ تک ملک کی انٹیلینجس سروسز کے سربراہ رہے ہیں۔ شہزادہ ترکی الفیصل اس وقت برطانیہ اور ریپبلک آف آئرلینڈ میں ملک کے سفیر ہیں لیکن وہ جلد ہی واشنگٹن جانے والے ہیں۔ برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے چند القاعدہ سیلوں نے انفرادی حیثیت سے شدت پسند کارروائیاں کی ہوں لیکن اسامہ بن لادن زیادہ تر مواقع پر کمانڈ رول میں نظر آئے ہیں۔ ’گزشتہ اڑھائی سال میں سعودی عرب میں ہونے والی زیادہ تر القاعدہ کارروائیاں تنظیم کی مرکزی قیادت بالخصوص اسامہ بن لادن کے حکم پر ہوئے‘۔ ’جہاں تک انفرادی القاعدہ یونٹوں کی سوال ہے، ان کے سلسلے میں کارروائی کے وقت، جگہ اور طریقہ کار کا فیصلہ ان کے سربراہوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن نے اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کی ہے لیکن جنگِ عراق اور فلسطین کے مسئلے پر مسلمانوں میں پائے جانے والے غصے کی وجہ سے اسامہ بن لادن کو پیروکار مل رہے ہیں۔ پرنس ترکی الفیصل کے مطابق اسامہ بن لادن نے جان بوجھ کر گیارہ ستمبر کے انیس میں پندرہ ہائی جیکروں کو سعودی عرب سے لیا تاکہ اس کے امریکہ سے تعلقات خراب ہو جائیں۔ سعودی سفارتکار کے مطابق اسامہ بن لادن سعودیہ میں حملوں کے براہِ راست احکامات دیتے ہیں۔ text: پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں پہلے بھی میچ فکسنگ کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ یہ تنازعہ اس وقت پیدا ہوا تھا جب سابق ٹیسٹ کرکٹر باسط علی نے میچ کی کمنٹری کے دوران اور پھر ایک ٹی وی چینل پر سیالکوٹ اسٹالینز اور کراچی ڈولفنز کا میچ فکسڈ ہونے کا شک ظاہر کیا اور یہ بھی کہا کہ سیالکوٹ اسٹالینز کے کوچ اعجاز جونیئر نے بھی اسی شک وشبے کا اظہار ان سے گفتگو کے دوران کیا لیکن اعجاز جونیئر نے اس کی تردید کردی اور کہا کہ انھوں نے یہ بات لوگوں کے حوالے سے کہی تھی کہ وہ اس میچ پر شک کر رہے ہیں۔ یہ میچ اتوار کو سیالکوٹ اسٹالینز اور کراچی ڈولفنز کے درمیان کھیلا گیا تھا جس میں سیالکوٹ کی ٹیم اکانوے رنز بناکر آؤٹ ہوگئی تھی اور کراچی نے چھ وکٹوں سے میچ جیتا تھا۔اس شکست کا سیالکوٹ کی ٹیم پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا جو پہلے ہی کوارٹرفائنل میں پہنچ چکی تھی۔ باسط علی کی جانب سے میچ پر شک وشبے کے اظہار پر سیالکوٹ اسٹالینز کے کپتان شعیب ملک نے سخت احتجاج کیا تھا اور جمعرات کے روز سیالکوٹ اور اسلام آباد لیپرڈز کے میچ میں سیالکوٹ کے کھلاڑیوں نے بازؤں پر سیاہ پٹیاں باندھیں جبکہ اسی احتجاج کے نتیجے میں باسط علی کو سیالکوٹ کے میچ کی کمنٹری سے ہٹا دیا گیا تھا۔ شعیب ملک نے جمعرات کے روز میچ کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پاکستان کرکٹ بورڈ نے یقین دلا دیا تھا کہ وہ اس معاملے کو دیکھ رہا ہے اور سیالکوٹ کی ٹیم کے ساتھ انصاف ہوگا۔ شعیب ملک نے کہا کہ وہ اس معاملے میں بہت کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن وہ ملک کی بدنامی نہیں چاہتے۔ دوسری جانب سابق ٹیسٹ کرکٹر راشد لطیف کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو جسٹس قیوم کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد سے اب تک تمام فرسٹ کلاس میچوں کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں پہلے بھی میچ فکسنگ کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دو ہزار پانچ میں منعقدہ قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں بھی میچ فکسنگ کے الزامات سامنے آئے تھے اور شعیب ملک پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک ٹیسٹ میچ کی پابندی عائد کی تھی جنہوں نے کراچی زیبرا کے خلاف سیالکوٹ کو جان بوجھ کر ہرایا تھا کیونکہ وہ لاہور کی ٹیم کو ٹورنامنٹ سے باہر دیکھناچاہتے تھے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کا اس وقت یہ کہنا تھا کہ شعیب ملک نے پیسے کے لیے میچ نہیں ہارا بلکہ وہ ٹورنامنٹ میں اپنی ٹیم کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک اور فیصلوں پر خفا تھے تاہم ان کی اس حرکت سے ملک کی بدنامی ہوئی تھی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے قومی ٹی ٹوئنٹی کپ میں میچ فکسنگ کے الزام کو سختی سے مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ بورڈ کا اینٹی کرپشن یونٹ ہر میچ پر کڑی نظر رکھتا ہے اور اس قسم کا کوئی بھی واقعہ نہیں ہوا۔ text: سعودی قونصل خانے اور قونصل جنرل کی رہائش گاہ سے رواں ہفیے نمونے لیے گئے جن کا موازنہ جمال خاشقجی کے ڈی این اے سے کیا جائے گا۔ ترک حکام کا کہنا ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ ان کی لاش کو قریبی جنگل یا کھیتوں میں ٹھکانے لگایا گیا ہو۔ جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں گئے تھے اور اس کے بعد سے لاپتہ ہیں‌ جبکہ ترک حکام کا الزام ہے کہ انھیں قتل کر دیا گیا ہے۔ سعودی عرب ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے جمال خاشقجی کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتا ہے۔ رواں ہفتے سعودی قونصل خانے اور قونصل جنرل کی رہائش گاہ سے حاصل کیے گئے نمونوں کا موازنہ جمال خاشقجی کے ڈی این اے سے کیا جائے گا۔ دوسری جانب جمعرات کو سینیئر ترک حکام نے اے بی سی نیوز کو امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے صحافی کے مبینہ قتل کے ایک آڈیو ریکارڈنگ سنی ہے۔ اسی بارے میں مزید پڑھیں! جمال خاشقجی کا آخری کالم لاپتہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کون ہیں؟ جمال خاشقجی کا ’قتل‘ اور علاقائی سیاست کیا سعودی عرب کی امریکہ کو دھمکی کام کر گئی؟ ترکی کا اس سے پہلے کہنا تھا کہ اس کے پاس جمال خاشقجی کے قتل کے آڈیو اور ویڈیو ثبوت موجود ہیں تاہم تاحال یہ سامنے نہیں لائے گئے۔ ترک ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے انھوں نے مشتبہ سعودی ایجنٹس کی 15 رکنی ٹیم کی شناخت کر لی ہے حکومت کے قریب سمجھے جانے والے ترک میڈیا نے اس مبینہ آڈیو کے بارے میں دلخراش تفصیلات شائع کی ہیں۔ ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق اس ریکارڈنگ میں کونسل جنرل محمد ال اُطیبی کے چلانے کی آواز سنی جا سکتی ہے۔ ترک حکومت نواز اخبار ینی شفق کے مطابق سعودی قونصل استنبول بھیجے جانے والے مبینہ سعودی ایجنٹس کو کہتے ہیں کہ 'یہ باہر جا کر کرو۔ تم مجھے مشکل میں ڈال دو گے۔' ترک ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے انھوں نے مشتبہ سعودی ایجنٹس کی اس 15 رکنی ٹیم کی شناخت کر لی ہے جو جمال خاشقجی کی گمشدگی کے روز استنبول آئے اور واپس گئے تھے۔ دوسری جانب سعودی عرب کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی کی موت کے بارے میں میں رپورٹس 'بالکل جھوٹ اور بے بنیاد' ہیں اور وہ حقائق کا کھوج لگانے کے لیے 'تعاون کے لیے تیار ہے۔' خیال رہے کہ انسانی حقوق کی اہم تنظیموں نے بھی ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جمال خاشقجی کے ممکنہ قتل کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ سے مطالبہ کرے۔ عالمی ردِعمل صدر ٹرمپ کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد امریکی وزیرِ خزانہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس سعودی کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔ جمال خاشقجی کی گمشدگی سے ریاض اور اس کے مغربی اتحادیوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ امریکی وزیرِ خزانہ سٹیون منوچن اور برطانوی وزیر برائے بین الاقوامی تجارت لیئم فاکس دونوں نے اعلان کیے ہیں کہ وہ سعودی عرب میں ایک سرمایہ کاری کے حوالے منعقدہ کانفرنس میں اب شرکت نہیں کریں گے۔ فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹیوو نامی یہ کانفرنس 23 سے 25 اکتوبر تک سعودی دارالحکومت ریاض میں منعقد ہوگی۔ واضح رہے کہ پاکستانی دفترِ خارجہ کی جانب سے جمعے کے روز جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی وزیرِاعظم عمران خان اس کانفرنس میں شرکت کے لیے منگل کے روز سعودی عرب جائیں گے۔ اس دورے میں وہ شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔ اس کی میزبانی سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن محمد کر رہے ہیں اور اس کا مقصد ملک میں اصلاحات کے ایجنڈے کو مقبول کرنا ہے۔ محمد بن سلمان کا سعودی عرب کے لیے اصلاحات کے ایجنڈے کا نام ویژن 2030 رکھا گیا ہے، اس میں معاشی اور سماجی جدت کے پروگرام ہیں اور اس کا ہدف سعودی عرب کے تیل پر انحصار کو کم کرنا اور نئی نوکریاں فراہم کرنا ہے۔ سٹیون منوچن کا اس کانفرنس میں نہ آنا اسے بطور ایک اہم نقصان کے دیکھا جا رہا ہے۔ اس سے قبل انویسٹمنٹ بینک گولڈ مین سیکس نے اعلان کیا تھا کہ وہ کسی کو بھی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے نہیں بھیجیس گے۔ تاہم پیپسی اور ای ڈی ایف جیسی بڑی کمپنیاں ابھی بھی اس کانفرنس میں شریک ہوں گی۔ اس سے پہلے ہالینڈ اور فرانس کے وزرائے خزانہ اور آئی ایم ایف کے سربراہ بھی اس کانفرنس کا بائیکاٹ کر چکے ہیں۔ جعلی اکاؤنٹس کا استعمال ادھر سماجی روابط کی ویٹ سائٹوں پر بظاہر مشکوک بوٹ اکاؤنٹس صحافی جمال خاشقجی کے مبینہ قتل اور گمشدگی کے حوالے سے عوامی رائے کو شکل دینے میں مصروف ہیں۔ ملک کے ولی عہد محمد بن سلمان کی حمایت اور قطر کے ٹی وی چینل الجزیرہ مخالفت کرنے والے عربی کے ہیش ٹیگ مقبول کرنے میں اصلی صارفین کے علاوہ بوٹ نیٹ ورکس کے شواہد بھی سامنے آ رہے ہیں۔ 14 اکتوبر کو عربی ہیش ٹیگ 'ہمیں محمد بن سلمان ہر اعتماد ہے' عالمی ٹرینڈز میں سے ایک تھا اسے ڈھائی لاکھ ٹوئیٹس میں استعمال کیا گیا۔ اس کے علاوہ 'ہم اپنے رہنما کے ساتھ کھڑے ہیں' ساٹھ ہزار دفعہ استعمال کیا گیا۔ اس کے علاوہ استعمال ہونے والے ٹیگز میں 'قوم کے دشمنوں کو ان فالو کرو' اور 'الجزیرہ کو بند کرو، دھوکے کا چینل' بھی شامل ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ترکی میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے مبینہ قتل کی تحقیقات کرنے والی پولیس نے تلاش کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔ text: وقفے وقفے سے گرنے والی وکٹوں نے پاکستان کی جیت کو مشکل بنادیا۔ جب کامران اکمل اورعمران نذیر نے ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کیا اس وقت صرف چھ گیندیں باقی رہتی تھیں۔ شاہد آفریدی جنہوں نے اس ٹورنامنٹ میں پہلی مرتبہ اننگز کاآغاز کیا انتالیس رنز کے ساتھ ٹاپ سکورر رہے عمران نذیر جو ’ریٹائرڈ ہرٹ‘ ہونے کے سبب بیٹنگ ادھوری چھوڑ کر چلے گئے تھے آخری لمحات میں ستائیس رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہے۔ سلمان بٹ لاپروائی کا شکار ہوکر بیس رنز پر رن آؤٹ ہوئے شعیب ملک اکیس رنز بناسکے۔ حفیظ نے تیئس اور یونس خان نے ایک رن پر وکٹ گنوائیں۔ اسپن بالنگ کے قابو میں آ تے ہوئے بنگلہ دیشی ٹیم ٹاس ہارنے کے بعد ایک سو اکتالیس رنز پر آؤٹ ہوگئی۔ اوپنر جنید صدیقی نے پاکستانی بالرز کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے شاندار بیٹنگ سے شائقین کے دل موہ لئے انہوں نے اپنے پہلے بین الاقوامی میچ میں تین چھکوں اور چھ چوکوں کی مدد سے اکہتر رنز بنائے۔ شعیب ملک نے اس ٹورنامنٹ میں پہلی مرتبہ بالنگ کی اور اپنے پہلے ہی اوور میں دو وکٹیں حاصل کرڈالیں۔ محمد حفیظ نے بھی دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ شاہد آفریدی کے حصے میں ایک وکٹ آئی۔ پاکستانی فیلڈنگ آج خلاف توقع سست روی کا شکار رہی۔پاکستانی ٹیم جو پہلے ہی سیمی فائنل میں پہنچ چکی ہے اس جیت کے نتیجے میں گروپ ایف میں سرفہرست ہوگئی ہے۔ سیمی فائنل میں اس کا مقابلہ گروپ ای کی نمبر دو ٹیم سے ہونا ہے گروپ ای کی سیمی فائنل ٹیموں کی پوزیشن جنوبی افریقہ اور بھارت کے میچ کے بعد واضح ہوگی۔ ٹوئنٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان نے غیرمتاثر کن بیٹنگ کے بعد بنگلہ دیش کو چار وکٹوں سے زیر کرلیا۔ text: پولیس نے سریاب روڈ تھانے میں مقدمہ درج کر لیا ہے جس میں کچھ معلوم اور کچھ نامعلوم افراد کو نامزد کیا گیا گیا ہے۔ سینیئر سپرانٹنڈنٹ پولیس پرویز ظہور نے کہا ہے کہ بیس افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں دو افراد اہم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گرفتارشدگان میں سے ایک کو حملے کے وقت شناخت کر لیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا ہے کہ تفتیشی ٹیمیں مزید تحقیقات کر رہی ہیں۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ کل ایک نامعلوم شخص نے ٹیلیفون پر اپنا نام میرک بلوچ بتایا تھا اور کہا تھا کہ بلوچ لبریشن آرمی اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتی ہے تو انہوں نے کہا ہے کہ اس بارے میں تفتیش کی جا رہی ہے۔ دریں اثناء قبائلی لیڈر ودود رئیسانی کی والدہ نے کوئٹہ میں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ روز مظاہرے کے وقت ان کے لوگ غیر مسلح تھے یہاں تک کہ کسی کے پاس ایک چاقو بھی نہیں تھا۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ انتظامیہ کی چال ہے تاکہ ودود رئیسانی کو دبایا جائے اور بے بنیاد مقدموں میں ملوث کیا جائے۔ انہوں نے کہا ہے کہ فائرنگ کے واقعے میں ان کا کوئی شخص نہ زخمی ہوا ہے اور نہ ہی کوئی اب تک گرفتار ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ضرور ہوا ہے کہ پولیس ان کے گھروں اور علاقے میں چھاپے مار رہی ہے جس سے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز سریاب روڈ پر ودود رئیسانی کی تین ایم پی او کے تحت گرفتاری کے خلاف رئیسانی قومی تحریک کے لوگوں نے احتجاجاً کوئٹہ کراچی روڈ بلاک کردی تھی۔ اسی دوران پولیس اور مظاہرین کے مابین مذاکرات جاری تھے کہ نامعلوم افراد نے دستی بم پھینکے اور فائرنگ شروع کردی جس سے تیس کے لگ بھگ افراد زخمی ہوئے تھے جن میں اٹھارہ پولیس اہلکار تھے۔ کوئٹہ میں سریاب روڈ پر فائرنگ کے واقعہ کے حوالے سے پولیس نے بیس افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ قبائلی لیڈر ودود رئیسانی کی والدہ نے کہا ہے کہ احتجاج کے دوران ان کے بندے مسلح نہیں تھے اور یہ کہ ان کا کوئی بندہ اب تک گرفتار نہیں ہوا ہے۔ text: جب بورس جانس سے سوال ہوا کہ آیا انھوں نے پارلیمان کی معطلی کی وجوہات بیان کرتے وقت ملکہ سے جھوٹ بولا تھا تو ان کا جواب تھا 'بالکل نہیں' بورس جانسن کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سکاٹ لینڈ کی اعلی ترین عدالت نے پارلیمان کو معطل کرنے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم بورس جانسن نے پارلیمان کی معطلی کے حوالے سے ملکہ برطانیہ کو گمراہ کیا تھا۔ جب بورس جانس سے سوال ہوا کہ آیا انھوں نے معطلی کی وجوہات بیان کرتے وقت ملکہ سے جھوٹ بولا تھا تو ان کا جواب تھا 'بالکل نہیں۔' انھوں نے مزید کہا کہ 'انگلینڈ کی ہائی کورٹ واضح طور پر ہم سے متفق ہے، تاہم آخری فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہو گا۔' یہ بھی پڑھیے ’بریگزٹ میں تاخیر پر مجبور کیا گیا تو انتخابات ہوں گے‘ بریگزٹ: دارالعوام میں جانسن کی شکست، اب آگے کیا ہوگا؟ برطانوی پارلیمان کو آرڈر میں رکھنے والے جان برکاؤ کون ہیں؟ برطانوی قوانین کے تحت پارلیمان کو معطل کرنے کا اختیار ملکہ برطانیہ کے پاس ہے جو روائیتی طور پر اس حوالے سے وزیر اعظم کی جانب سے دیے گئے مشورے پر ہی عمل کرتی ہیں۔ بدھ کے روز ایڈن برگ کی کورٹ آف سیشن نے ایک متفقہ فیصلے میں قرار دیا تھا کہ وزیر اعظم کے اس فیصلے کے پیچھے 'پارلیمان کی ترقی کو روکنے کا نامناسب مقصد' کارفرما ہے۔ یہ فیصلہ 70 ممبران پارلیمان کی جانب سے پارلیمان کی معطلی کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی ایک درخواست پر آیا ہے۔ اس فیصلے پر بات کرتے ہوئے بورس جانسن کا کہنا تھا کہ ایسا کہنا 'نامعقول' ہو گا کہ یہ اقدام جمہوریت کو کمزور کرنے کی کوشش تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ نئے آنے والے وزیر اعظم کے لیے اس نوعیت کے اقدامات کرنا ایک عام کی بات ہے۔ برطانوی پارلیمان کی حالیہ پانچ ہفتوں کی معطلی منگل کی صبح سے شروع ہوئی ہے پارلیمان کی کارروائی کا دوبارہ آغاز اب 14 اکتوبر کو ہو گا گذشتہ ہفتے لندن کی ہائی کورٹ نے اسی نوعیت کی ایک پیٹیشن کو مسترد کر دیا تھا۔ یہ پیٹیشن جینا ملر نے دائر کی تھی۔ ہائی کورٹ کے ججوں نے یہ دلیل دی تھی کہ پارلیمان کی معطلی کا فیصلہ 'خالصتاً سیاسی' نوعیت کا ہے اور عدالت کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں۔ برطانوی پارلیمان کی حالیہ پانچ ہفتوں کی معطلی منگل کی صبح سے شروع ہوئی ہے پارلیمان کی کارروائی کا دوبارہ آغاز اب 14 اکتوبر کو ہو گا۔ لیبر پارٹی کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے 'ییلو ہیمر ڈاکومنٹ' کی اشاعت کے بعد 'اب یہ پہلے سے کہیں زیادہ اہم' ہو گیا ہے کہ پارلیمان کی کارروائی کو دوبارہ شروع کیا جائے۔ 'ییلو ہیمر ڈاکومنٹ' میں وضاحت کی گئی ہے کہ نو ڈیل بریگزٹ کی صورت میں زیادہ سے زیادہ بدترین صورتحال کیا ہو سکتی ہے۔ یہ دستاویز ممبران پارلیمان کے اصرار پر جاری کیا گیا ہے اور اس میں متنبہ کیا گیا ہے کہ نو ڈیل بریگزٹ کی صورت میں برطانیہ میں اشیائے خوردونوش اور ایندھن کی قلت ہو سکتی ہے۔ اس بات کا امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کا سب سے زیادہ اثر کم آمدن والے افراد پر ہو گا۔ اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ایسی صورتحال چھ ماہ تک رہ سکتی ہے جس کی وجہ سے ادویات کی رسد کم ہو سکتی ہے۔ پورے برطانیہ میں نو ڈیل بریگزٹ کے حق اور مخالفت میں مظاہرے ہو سکتے ہیں۔ دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئرلینڈ کے ساتھ برطانیہ کی سرحد کے ساتھ بندش کے باعث کچھ کاروبار اپنی تجارت روک کرسکتے ہیں جس سے بلیک مارکیٹ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اگرچہ پارلیمان کو ہر سال کچھ وقت کے لیے معطل کیا جاتا ہے مگر بریگزٹ کے تناظر میں موجودہ معطلی کو اس کی ٹائمنگ کی وجہ سے کافی تنقید کا سامنا ہے۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے وزیر اعظم پر الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے اس وقت میں معطلی صرف اس وجہ سے کی ہے تاکہ بریگزٹ پر ان کی حکمت عملی اور نو ڈیل بریگزٹ کے ان کے ارادے اور تیاریوں پر تنفید کو روکا جا سکے۔ دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئرلینڈ کے ساتھ برطانیہ کی سرحد کے ساتھ بندش کے باعث کچھ کاروبار اپنی تجارت روک کرسکتے ہیں جس سے بلیک مارکیٹ میں اضافہ ہو سکتا ہے دریں اثنا یورپی یونین کا کہا ہے کہ بورس جانسن کی جانب سے انکار کے باوجود وہ بریگزٹ پر ہونے والے ڈیڈ لاک کے خاتمے کے لیے شمالی 'آئرلینڈ بیک سٹاپ' کی تجویز پر نظر ثانی کرنے کو تیار ہیں۔ یورپین پارلیمان کے صدر ڈیوڈ سیسولی کا کہنا ہے 'بیک سٹاپ' کے بغیر کوئی معاہدہ نہیں ہو گا۔ بیک سٹاپ کا مقصد بریگزٹ کے بعد سخت آئرش بارڈر سے بچنا ہے۔ دوسری جانب یورپی یونین کی جانب سے متعین ثالث مشیل بارنئیر کا کہنا ہے کہ 'برطانیہ میں صورتحال سنجیدہ اور غیر یقینی کا شکار ہے۔ پرامید رہنے کے لیے ہمارے پاس کچھ وجوہات نہیں ہیں۔' انھوں نے متنبہ کیا کہ اگرچہ نو ڈیل بریگزٹ جیسی صورتحال سے بچاؤ کے لیے پارلیمان ایک قانون کی تیاری میں مصروف ہے مگر پھر بھی برطانیہ بغیر کسی ڈیل کے یورپی یونین سے نکل سکتا ہے۔ تاہم وزیر اعظم بورس جانسن کا اصرار ہے کہ برطانیہ 31 اکتوبر کی موجودہ ڈیڈ لائن تک یورپی یونین کو چھوڑنے کے لیے 'تیار' ہو گا۔ 'اگر ہمیں کسی ڈیل کے بغیر نکلنا پڑا تب بھی۔' ان کا کہنا تھا کہ 'آپ جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ بدترین صورتحال سے بچنے کی تیاریاں ہیں۔ اور آپ ہر حکومت سے اسی چیز کی توقع رکھتے ہیں۔' 'درحقیت ہم یقینی طور پر نو بریگزٹ ڈیل کے لیے تیار ہوں گے، اگر ایسا کرنا پڑا تو۔ اور میں ایک مرتبہ پھر واضح کرتا ہوں ہمارا مقصد اس طرح (نو ڈیل بریگزٹ) سے مسئلے کا اختتام نہیں۔' تاہم چانسلر جان میک ڈونل کا کہنا ہے کہ وہ اس بات پر 'ناراض' ہیں کہ پارلیمان کی معطلی کے دوران اس حوالے سے ہونے والی منصوبہ بندی پر ممبرانِ پارلیمان بات نہیں کر پائیں گے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے اس بات کی تردید کی ہے انھوں نے ملکہ برطانیہ کو ملک کی پارلیمان کو پانچ ہفتے تک معطل رکھنے کا مشورہ دیتے وقت جھوٹ کا سہارا لیا تھا۔ text: ٹرمپ کی مہم کی ترجمان کا کہنا ہے کہ کوری اب ٹرمپ کی مہم کے ساتھ کام نہیں کر رہے اور ٹرمپ کی پوری ٹیم ان کی محنت کے لیے شکر گزار ہے۔ کوری کا مستعفی ہونے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم صدارتی انتخابات کے حوالے سے مہم میں تبدیلیاں لا رہی ہے۔ کوری نے ایسے وقت استعفیٰ دیا ہے جب ٹرمپ کی سخت زبان اور سخت گیر امیگریشن پالیسی کے حوالے سے ٹرمپ کو رپبلکن جماعت کے سینیئر رہنماؤں کی سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ اورلینڈو کے نائٹ کلب پر ہونے والے حملے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے ردعمل پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ اس حملے میں 49 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کے بعد ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ بند کردیا جانا چاہیے۔ رپبلکن جماعت نے ٹرمپ سے اس وقت دوری اختیار کی جب انھوں نے ایک ہسپانوی جج پر تنقید کی جو ٹرمپ کے خلاف ہونے والے دو مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں۔ کوری لیونڈوسکی کے پریس کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں رہے۔ اس سال کے شروع میں ان پر ایک جلسے کے بعد ٹرمپ کے راستے سے ایک خاتون صحافی کو دھکا دے کر ہٹانے کی فرد جرم عائد ہوا تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس واقعے پر کوری کا بھرپور دفاع کیا اور آخر میں ان کے خلاف مقدمہ ختم کر دیا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم کے ایک ڈائریکٹر مائیکل کپوٹو نے کوری کے مستعفی ہونے کی خبر کے بعد ٹوئٹ کیا ’ڈنگ ڈونگ جادو گرنی مر گئی‘۔ ذرائع نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ کوری اور ٹرمپ کے چیف سٹیریٹیجسٹ پال منافورٹ کے درمیان اختلافات تھے اور کوری پال کے اقدامات کو روکنے کے لیے مزید سٹاف بھرتی کرتے تھے۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شہرت میں کمی واقع ہو رہی ہے اور ووٹروں کی اکثریت ان کے حق میں نہیں ہیں۔ امریکہ کی رپبلکن جماعت کی جانب سے ممکنہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم چلانے والے کوری لیونڈوسکی نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ text: پولیس کی ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ کنول اور کامران دونوں ہی کے والد سندھ ہاوس میں ملازم تھے اور دونوں نے اکٹھے پچپن گزارا پولیس کے مطابق لڑکی کی موت بظاہر خودکشی ہی لگ رہی ہے۔ یہ واقعہ سنیچر کی شام کو دیر سے پیش آیا۔ پولیس نے لڑکی کا نام کنول بتایا ہے جو کہ سندھ ہاؤس میں کام کرنے والے ایک خاکروب اسحاق مسیح کی بیٹی ہے۔ پولیس کے مطابق کنول وہ میریئٹ ہوٹل میں ملازمت کر رہی تھی اور غالباً وہ اپنی نوکری چھوڑ چکی تھی۔ ایس پی سٹی رضوان گوندل نے بتایا کہ ’ کنول کے کامران نامی شخص کے ساتھ مراسم تھے۔ جو کہ نادرا میں ملازم ہے۔ یہ شحض پہلے سے شادی شدہ تھا اور اس کے بچے بھی تھے۔ شاید اپنی محبت میں ناکامی ہی اس خودکشی کی وجہ بنی ہے۔‘ پولیس کے مطابق لڑکی کامران کے گھر آئی تھی جس پر کامران نے ان کے والد اور بھائی کو فون کر کے بلایا۔ واپس جاتے ہوئے گھر کی سیڑھیوں پر لڑکی نے خود کو گولی مار دی جس کے بعد انھیں ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکی۔ پولیس کی ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ کنول اور کامران دونوں ہی کے والد سندھ ہاوس میں ملازم تھے۔ دونوں خاندان گذشتہ 32، 33 سال سے ملازمین کی کالونی میں ساتھ رہ رہے ہیں جبکہ کامران اور کنول نے بھی پچپن اکٹھے گزارا تھا۔ پولیس اور اعلیٰ حکام معاملے کی مزید چھان بین کر رہے ہیں تاکہ اصل حقائق سامنے لائے جا سکیں۔ اور اس رخ سے بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ آیا یہ واقعی خودکشی ہے یا قتل۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے سندھ ہاؤس میں واقع ملازمین کی کالونی سے ایک جواں سال لڑکی کی لاش برآمد ہوئی ہے جس کی عمر 26 برس بتائی جا رہی ہے۔ text: پاکستان کے اٹارنی جنرل ملک قیوم نے صدر سے ملاقات کے بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے تو صدر نے یہ ہی کہا ہے کہ انہوں نے کوئی ایسا جرم نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ مستعفی ہوں۔‘ انہوں نے کہا کہ صدر مشرف نے عدالت سے رجوع کرنے کے بارے میں بھی اُن سے مشورہ کیا۔ ملک قیوم کا کہنا تھا کہ ان کی دانست میں تو اس سلسلے میں عدالت سے رجوع نہیں کیا جا سکتا۔ صدر کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کے بارے میں انہوں نے کہا ابھی تک کوئی الزام لگایا نہیں گیا اس لیے اس کا جواب دینا ممکن نہیں۔ انہوں نےکہا کہ ابھی صرف الزامات اخبارت کی حد تک ہی لگائے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت ریاست کے تین بڑے ستونوں میں اختیارت کا توازن فراہم کیا گیا اور کوئی ایک ادارہ دوسرے ادارے کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ آئین میں صدر کو ان کے عہدے سے علیحدہ کرنے کے بارے میں دیئے گئے طریقہ کار کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ صدر کو دو طرح سے ان کے عہدے سے علیحدہ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر صدر کا دماغی توازن بگڑ جائے اور وہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل نہ رہیں تو ان کے عہدے سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسری صورت میں اگر صدر پر آئین کی خلاف ورزی کرنے اور انتہائی غلط رویہ اختیار کریں تو ان کا پارلیمنٹ میں مواخذہ کیا جا سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے کسی صدر کا مواخذہ نہیں کیا گیا اور دنیا میں بھی اس کی کم مثالیں ملتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں اس کا طریقہ کار تو دیا گیا ہے لیکن اس بارے میں واضح قواعدہ و ضوابط موجود نہیں اور ان پر ابہام پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مواخذے کی تحریک قومی اسمبلی یا سینیٹ کے پچاس فیصد ارکان اپنے دستخطوں کے ساتھ سپیکر یا چیئرمین کو پیش کر سکتے ہیں۔ تحریک کے پیش ہو جانے کے بعد اس میں لگائے جانے والے الزامات سے تین سے سات دن کے اندر سپیکر یا چیئر مین سینٹ صدر کو مطلع کرتا ہے اور اس کے بعد سات سے چودہ دن کے اندر دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں صدر اپنے کسی نمائندے یا بذات خود اپنے خلاف لگائے جانے والے الزامات کا جواب دینے کا مجاز ہوتا ہے۔ ملک قیوم نے مزید کہا کہ ایوان خود یا اپنی کسی کمیٹی کے ذریعے ان الزامات کی تحقیقات یا تفتیش کرا سکتا ہے۔ جس کے بعد یہ تحریک ایوان میں پیش کی جاتی ہے اور اگر اس تحریک کے حق میں دو تہائی ارکان ووٹ دے دیں تو صدر کو فوری طور پر اپنے عہدے سے علیحدہ ہونا پڑتا ہے۔ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے قریبی مشیروں سے بات چیت میں کہا ہے کہ ان کے استعفیٰ دینے کی خبریں افواہیں ہیں اور انہوں نے کوئی ایسا جرم نہیں کیا کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوں۔ text: امریکی فوج کا کہنا ہے کہ حملہ آور اس حملے کے بعد ایک نزدیکی مسجد میں جا چھپے لیکن جب عراقی افواج نے علاقے کی تلاشی لی تو انہیں کچھ نہیں ملا۔ رمادی کا قصبہ انبار کے صوبے میں واقع ہے۔ صوبہ انبار میں امریکی اور عراقی افواج گزشتہ کئی ماہ سے مزاحمت کاروں کے خلاف آپریشن میں مصروف ہیں۔ ادھر عراقی اور امریکی افواج نے مدائن شہر میں یرغمال بنائے گئے افراد کی بازیابی کے لیے آپریشن کا آغاز کردیا ہے۔ عراقی اور امریکی افواج نے قصبے کے نزدیک پوزیشنیں سنبھال لی ہیں۔ بی بی سی کے نمائندے کا کہنا ہے کہ عراقی کمانڈوز نے شہر کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا ہے اور وہ امریکی فوج کی پشت پناہی میں شہر میں داخل ہونے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کا کہنا ہے کہ خود کار ہتھیاروں سے مسلح سینکڑوں عراقی فوجییوں اور فوجی گاڑیوں نے مدائن شہر میں داخل ہونے کی کوشش شروع کر دی ہے جبکہ امریکی افواج نے شہر میں داخل ہونے والے دو اہم پلوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ یاد رہے کہ مدائن شہر میں مسلح سنّیوں نے شہر میں رہنے والے کچھ شیعوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور شیعوں کے شہر نہ چھوڑنے کی صورت میں یرغمالیوں کو ہلاک کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ تاہم یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ کتنے افراد کو یرغمال بنایا گیا ہے۔ امریکی فوج کے ترجمان کے مطابق عراق کے مغربی قصبے رمادی میں امریکی فوجی اڈے کے نزدیک ایک مارٹر حملے میں تین امریکی فوجی ہلاک اور سات زخمی ہو گئے ہیں۔ text: سپریم کورٹ سابق فوجی صدر کے تین نومبر سنہ دو ہزار سات کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے اور عدالت کا کہنا ہے کہ اُن کے اقدامات آئین سے غداری کے زمرے میں آتے ہیں یہ بات انہوں نے اتوار کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق 26 جون کو تشکیل کی گئی انکوائری کمیٹی نے16 نومبر کو اپنی رپورٹ حکومتِ پاکستان کو بھیج دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے رپورٹ پر غور و فکر کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ حکومت پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ چلائے گی۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ حکومت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو کل ایک خط بھیجے گی جس میں اس کارروائی کے لیے تین رکنی کمیشن بنانے کی درخواست ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اب چیف جسٹس سپریم کورٹ نے نشاندہی کرنی ہے کہ کون سے ایسے تین ہائی کورٹ ہیں جہاں سے اس کمیشن کے لیے ارکان لیے جا سکتے ہیں اور پھر حکومت متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے رابطہ کرے گی تاکہ کمیشن کے ججوں کی نشاندہی کی جائے۔ وزیرِ داخلہ نے بتایا کہ اس کے ساتھ ساتھ پیر کے روز حکومت ایک پبلک پراسیکیوٹر (استغاثہ) کا اعلان بھی کرے گی جو کہ حکومت کی طرف سے اس کیس کی پیروی کریں گے۔ وزیرِ داخلہ نے کہا کہ گذشتہ پانچ ماہ کے اقتدار کے دوران ان کی حکومت کا کوئی بھی عمل ایسا نہیں تھا ’جس سے انتقام کی بو آئے‘۔ واضح رہے کہ اس سال جون میں ڈپٹی اٹارنی جنرل دل محمد خان علی زئی کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم نے سیکریٹری داخلہ سے کہا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سربراہ کو ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی ہدایت کریں جس میں ایسے پولیس افسران کو شامل کیا جائے جو کہ غیرجانبدارانہ اور آزادانہ تحقیقات کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ اس کے علاوہ یہ تحقیقاتی ٹیم سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے تین نومبر سنہ دو ہزار سات کے اقدامات سے متعلق شواہد اکھٹے کرے گی۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ سابق فوجی صدر کے تین نومبر سنہ دو ہزار سات کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے اور عدالت کا کہنا ہے کہ اُن کے اقدامات آئین سے غداری کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس سے قبل اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق وفاق کا جواب سپریم کورٹ میں پیش کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت اس ضمن میں عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرے گی۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اعلان کیا ہے کہ حکومت سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف پیر سے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمے کا آغاز کر رہی ہے۔ text: سوموار کے روز اسلام آباد میں پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ صدر زرداری کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیکر امریکہ جاتے اور وہاں پاکستان کے مفاد کی پالیسی پر اظہار خیال کرتے۔ ’لیکن یہ ایک انتہائی تشویشناک بات ہے کہ صدر زرداری کا امریکی صدر بش سے ملاقات میں ان کو کہنا کہ آپ کی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا محفوظ ہو گئی ہے، لگ رہا کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی طرح صدر زرداری بھی صدر بش کی ہی پالیسی دوبارہ لا کر پارلیمنٹ پر مسلط کر دیں گئے جس سے سوائے ملک کو مزید تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔‘ چوہدری نثار نے کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ عید کے بعد قومی اسمبلی یا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے جس میں اراکین قومی اسمبلی کو صدر زرداری دورہ امریکہ کے بارے میں بریفنگ دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو بطور قائد حزب مخالف وہ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی کو اجلاس طلب کرنے کا کہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صدر نئی قومی پالیسی وضع کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کو دیں۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے کہ اس موقع پر بیرونی امداد کیوں آ رہی ہے جب یہ کہا جا رہا ہے کہ اپنے لوگوں کو مارو اور ان پر بمباری کرو۔ چوہدرری نثار کے مطابق پاکستان کو ایک ایسا صدر چاہیے کہ جو عوام کو خوش کرے نہ کہ وہ جو امریکی صدر بش، افغان صدر حامد کرزئی اور بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کی خوشنودی کے لیے بیانات دے۔ چوہدری نثار نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم کو متحرک کرنا ہو گا لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ملک کے فیصلے امریکہ سے آتے رہیں گئے۔ انہوں نے کہا ’صدر بش کو خوش کرنے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے فیصلے پارلیمنٹ میں کرنے ہونگے کہ کون سا ملک ہمارا دشمن ہے اور کونسا ہمارا دوست ہے۔‘ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں ملک کو اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے ایران سمیت تمام دوست ممالک کے ساتھ دوبارہ سے مضبوط تعلقات قائم کرنے ہو نگے۔ ’صدر زرداری کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اپنے اعلان کے مطابق پہلا سرکاری دورہ چین کا کرتے لیکن یہ کوئی طریقہ نہیں کہ ساری دنیا کا چکر لگانے کے بعد وہ ایک ماہ کے بعد کہیں کہ اب وہ اپنے پہلے سرکاری دورے پر چین جا رہے ہیں۔‘ چوہدری نثار نے مشیر داخلہ رحمان ملک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ تمام تر وسائل کے باوجود عوام کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ میریئٹ خودکش حملے اور دیگر دہشت گردی کے واقعات میں کون سے غیر ملکی ہاتھ ملوث ہیں۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب مخالف اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما چوہدری نثار نے کہا ہے کہ صدر زرداری پارلیمنٹ کو قومی پالیسی بنانے کا مکمل اختیار دیں جبکہ صدر عید کے بعد اپنے دورہ امریکہ کے دوران دیئے گئے بیانات پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو بریفنگ دیں۔ text: سر جان چیلکوٹ نے سنہ 2009 میں جانچ کا آغاز کیاتھا واضح رہے کہ اس رپورٹ کا برطانیہ میں ایک عرصے سے انتظار کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں قائم کی جانے والی کمیٹی نے سنہ 2009 میں تحقیقات کا آغاز کیا تھا اور سنہ 2011 میں اس نے اپنی آخری عوامی سماعت کی تھی۔ بی بی سی کے سیاسی مدیر نک روبنسن کا کہنا ہے کہ اس تحقیقاتی کمیٹی کے چیئرمین سر جان چیلکوٹ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو ایک خط کے ذریعے یہ اطلاع دیں گے کہ اس کی اشاعت مئی میں ہونے والے انتخابات تک ملتوی کی جا رہی ہے۔ نائب وزیر اعظم نک کلیگ کا کہنا ہے کہ یہ تاخیر ’ناقابل فہم‘ ہے۔ اور لبرل ڈیموکریٹ رہنما نے کہا ہے کہ اس سے عوام میں یہ پیغام جائے گا کہ تاخیر ان کی جانب سے کرائی جا رہی ہے جن کو اس رپورٹ میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور وہ اس کے ساتھ ’چھیڑچھاڑ‘ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس میں امریکی قیادت میں عراق پر کیے جانے والے حملے میں برطانیہ کے شامل ہونے کی وجوہات کی تحقیقات کی گئی ہے۔ اس حملے کے نتیجے میں صدام حسین کی حکومت کو گرا دیا گيا تھا اور اس کے بعد تصادم جاری رہا جس کے سبب برطانوی افواج کو عراق میں سنہ 2009 تک قیام کرنا پڑا تھا۔ ارکان پارلیمان نے مطالبہ کیا ہے کہ رپورٹ مئی سات کو ہونے والے انتخابات سے قبل شائع کی جائے۔ ٹونی بلیئر ان 100 سے زیادہ گواہوں میں شامل ہیں جو جانچ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے بہرحال نک رابنسن نے کہا ہے کہ شاہدین کو اپنے خلاف الزامات کے جواب دینے کا عمل جو گذشتہ خزاں میں شروع ہوا تھا وہ وقت پر پورا نہیں ہو سکا ہے کہ رپورٹ کو شائع کیا جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ سر جان وقت پر رپورٹ نہ شائع کیے جانے کی وجوہات پیش کریں گے۔ اس معاملے پر پہلے گارڈیئن اخبار نے رپورٹ شائع کی تھی۔ وزیروں نے یہ واضح کردیا تھا کہ رپورٹ کو فروری کے اختتام تک مکمل کردیا جائے تاکہ انتخابات سے قبل مارچ میں جب ایوان کا اجلاس ہو تو اس پر کافی بحث کا موقع مل سکے۔ وزیراعظم کیمرون نے تحقیقات کی رفتار پر اپنی ’زبردست مایوسی‘ کا اظہار کیا ہے تاہم کہا ہے کہ اس کا کام آزادانہ ہے اور ان کا اس میں دخل دینا غلط ہوگا۔ ہرچندکہ تحقیقات کمیٹی نے کبھی بھی رپورٹ کی اشاعت کے لیے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی تھی تاہم اطلاعات کے مطابق ڈی کلاسیفائڈ دستاویزات کی رپورٹ میں شمولیت کے طویل اور صبر آزما مرحلوں کے سبب یہ تاخیر ہوئی۔ گذشتہ موسم گرما میں تحقیقات کمیٹی اور برطانوی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت اس رپورٹ میں سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے درمیان ذاتی گفتگو اور خط و کتابت کا ’لب لباب‘ شامل کرنے کی اجازت ہوگی۔ ٹونی بلیئر ان 100 سے زیادہ گواہوں میں شامل ہیں جو تحقیقات کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ بلیئر نے کہا ہے کہ وہ اس تاخیر کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اسے جلد از جلد عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ نک کلیگ کا کہنا ہے کہ اگر یہ برطانوی خارجہ پالیسی کے لیے حسب حال ہے تو ملک ’اب مزید اس کا انتظار نہیں کر سکتا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’عوام نے اس کا بہت انتظار کرلیا اور اس میں اب مزید تاخیر بعید از قیاس ہے۔۔۔ ہم عوامی طور پر زیادہ واضح اور طے نظام الاوقات دیکھنا چاہتے ہیں جس میں اشاعت کی ٹھوس تاریخ اور سخت ڈیڈ لائن ہو۔ اس رپورٹ میں سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے درمیان ذاتی گفتگو اور خط و کتابت کا لب لباب شامل کرنے کی اجازت ہوگی ’اگر تحقیقات رپورٹ کو جلدی شائع نہیں کیا جاتا تو اس بات کا خطرہ ہے کہ عوام یہ سوچے گی کہ رپورٹ کے ساتھ وہ لوگ چھیڑچھاڑ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن پر تحقیقات میں تنقید ہوئی ہے خواہ معاملہ ایسا ہو یا نہیں۔‘ اس سے قبل ٹونی بلیئر کے مواصلات کے ڈائرکٹر الیسٹیئر کیمبل پر ایک ڈوزیئر میں ’چھیڑ چھاڑ‘ کا الزام ہے جس میں صدام حسین کی جانب سے درپیش خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا لیکن کیمبل کا کہنا ہے کہ انھوں نے تحقیقات کمیٹی کے سامنے گواہی دیتے ہوئے اس کی شد و مد کے ساتھ تردید کی ہے۔ کنزرویٹیو پارٹی کے ایم پی برنارڈ جینکن نے کہا کہ’ کابینہ سیکریٹری جرمی ہےوڈ سے جانچ کے بارے میں آئندے ہفتے سوال کیا جائے گا جب وہ پبلک ایڈمنسٹریشن کی سلیکٹ کمیٹی کے ارکان پارلیمان کے سامنے ہوں گے۔‘ مسٹر جینکن نے کہا کہ ’میرے خیال میں ہم تمام لوگ یہ خیال کر رہے تھے کہ یہ آ رہی ہے۔ اس کے آنے کی خوشبو آ رہی تھی، ہے نا؟ میرے خیال میں ہمیں اس کی بابت وضاحت ملنی چاہیے۔‘ بی بی سی کے خیال میں سنہ 2003 کی عراقی جنگ کے متعلق کی جانے والی سرکاری تحقیقاتی رپورٹ برطانوی عام انتخابات سے قبل شائع نہیں ہو گی۔ text: اب بات چار حلقوں سے آگے نکل چکی ہے: عمران خان منگل کو پریس کانفرنس سے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ آزادی مارچ 14 اگست کی شام کو اسلام آباد پہنچےگا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے حکومت فوجی جوانوں کی زندگی خطرے میں ڈال رہی ہے۔ ’حکومت فوج کو پریڈ کے لیے کاکول سے بلوا کر اپنی ذات اور کرسی بچانے کے لیے خطرے میں ڈال رہی ہے۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’عوام کے سامنے الیکشن میں دھاندلی کے ثبوت پیش کریں گے، اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ حکومت نے دھاندلی کی ہے تو اس کا آئینی راستہ مڈٹرم الیکشن ہے۔‘ حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے مزاحمت کی صورت میں تحریکِ انصاف کا کیا لائحہ عمل ہوگا اور لوگوں کو اکھٹا کرنے کا اصل مقصد کیا ہے ؟ کیا وہ خود مستعفی ہوں گے یا استعفے مانگیں گے؟ ان سوالوں کے جواب تو عمران خان نے نہیں دیے، تاہم انھوں نے اتنا ضرور کہا کہ 14 اگست کو عوام ملک کو آزاد کرانے آئیں گے۔ پریس کانفرنس میں صحافیوں نے عمران خان سے پوچھا کہ اگر حکومت کا تختہ الٹ گیا تو کیا عمران خان اس کا سہرا اپنے سر لیں گے، تو تحریکِ انصاف کے سربراہ نے اس کا جواب دینے سے گریز کیا۔ عمران خان نے الزام عائد کیا کہ اسلام آباد کی کامسیٹس یونیورسٹی کے تہہ خانے میں نادرا کی ٹیم بیٹھ کر انتخابی نتائج میں تبدیلی کر رہی ہے۔ تحریکِ انصاف کے سربراہ نے بجلی، مہنگائی اور دیگر عوامی مسائل کے حل میں حکومت کو ناکام قرار دیا۔ اپنی گفتگو میں عمران خان نے متعدد بار سابق صدر آصف علی زرداری کا حوالہ دیا اور ان کی تعریف کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری کے دور میں بجلی کی صورت حال اس سے بہتر تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے سابق صدر کی جانب سے عمران خان کے انتخابی نتائج کے حوالے سے جانچ پڑتال کے مطالبے کو درست قرار دیا ہے۔ عمران خان نے قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ پر تنقید کی اور کہا ’وہ نہ تیتر ہیں اور نہ ہی بٹیر، اب مُک مُکا کی سیاست ختم ہونی چاہیے۔‘ انھوں نے کہا کہ خورشید شاہ کو فیصلہ کر لینا چاہیے کہ وہ حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں۔ تحریکِ انصاف کے سربراہ نے ہمسایہ ملک افغانستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں صدارتی انتخابات کے بعد ایک ایک ووٹ کی گنتی ہو رہی ہے لیکن حکومت پاکستان کے صرف چار حلقوں میں ووٹوں کی گنتی کرنے سے گریزاں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب بات چار حلقوں سے آگے نکل چکی ہے، لہذا افغانستان کی طرح تمام الیکشن کا آڈٹ کیا جائے۔ خیال رہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے گذشتہ ماہ یہ اعلان کیا گیا تھا کہ وہ 14 اگست کو پارلیمان کے سامنے ڈی چوک میں احتجاج کریں گے تاہم وفاقی حکومت نے اسی مقام پر جشنِ آزادی کی تقریبات منانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے 14 اگست کے موقع پر بلوایا گیا ’آزادی مارچ‘ مؤخر کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آزادی پریڈ صبح ہوگی جبکہ ان کا مارچ شام کو ہو گا اس لیے فوج سے کوئی تصادم نہیں ہوگا۔ text: گذشتہ ہفتے پیرس میں ہونے والے حملوں کے پیش نظر اس میچ کے لیے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے بارسیلونا کی جانب سے لوئیس سوریر اور نیمار نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ٹیم کی فتح میں اہم کردار ادا کیا ۔سوریز نے دو جبکہ نیمار اور انیئسٹا نے ایک ایک گول سکور کیا۔ بارسیلونا کی جانب سے کھیلنے والے ارجنٹائن کے سٹرائیکر لیونل میسی کی بھی اس میچ کے ذریعےدو ماہ کے وقفے کے بعد ٹیم میں واپسی ہوئی ہے۔ وہ گھٹنے کی چوٹ کے باعث کھیل سے دور تھے۔ تاہم اس میچ میں صرف 30 منٹ کے لیے میدان میں آئے اور سوریز کے دوسرے اور بارسیلونا کے چوتھے گول میں اہم کردار کیا۔ اس سے قبل کھیل کے آغاز سے قبل میدان میں پیرس میں ہونے والے حملوں کی یاد میں فرانسیسی قومی ترانہ پڑھا گیا اور ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔ سوریز نے دو گول سکور کیے گذشتہ ہفتے پیرس میں ہونے والے حملوں کے پیش نظر اس میچ کے لیے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور 81 ہزار تماشائیوں کی گنجائش والے سٹیڈیم کے اندر اور باہر تقریباً 3000 سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے تھے، یہ تعداد معمول سے چھ گنا زیادہ تھی۔ سٹیڈیم کے باہر بھی خصوصی سکیورٹی چوکیاں قائم کی گئی تھیں۔ ایک منٹ خاموشی کے دوران میڈرڈ کے مداحوں کی جانب سے ایک بڑے سائز کا فرانسیسی جھنڈا بھی لہرایا گیا۔ سپین کے شہر میڈرڈ میں کھیلنے گئے سپینش فٹبال لیگ لا لیگا کے ’ایل کلاسیکو‘ میچ میں بارسیلونا نے روایتی حریف ریئل میڈرڈ کو صفر کے مقابلے میں چار گول سے شکست دے دی ہے۔ text: امریکی فوجی کی یہ لاش بغداد کے جنوب میں مصائبہ کے علاقے میں دریائے فرات سے ملی ہے تاہم امریکی فوجی حکام نے اس کی شناخت کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں کہا ہے۔ یہ تینوں امریکی فوجی بغداد کے جنوبی علاقے میں مزاحمت کارروں کے ساتھ ہونے والی ایک جھڑپ میں لاپتہ ہو گئے تھے۔ عراق میں جاری تشدد کے ایک اور واقعہ میں بیس عراق شہری ہلاک ہو گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق یہ تازہ ہلاکتیں ایک کیفے پر خود کش حملے میں ہوئیں۔ دریں اثناء امریکی فوج نے نو مزید امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ کیفے پر ہونے والے خود کش حملہ مندیلہ کے قصبے میں ہوا جس میں شیعہ کرد آبادی کی اکثریت ہے اور یہ ایران کی سرحد پر واقع ہے۔ نو میں سے سات امریکی فوجی منگل کو چار مختلف بم دھماکوں اور فائرنگ میں ہلاک ہوئے۔ دو دوسرے امریکی میرین تھے جو صوبے انبار میں ہلاک ہوئے۔ فرات سے برآمد ہونے والی لاش امریکی فوج نے قبضے میں لے لی ہے اور وہ اس کی شناخت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ عراق پولیس نے کہا کہ فرآت سے برآمد ہونے والی لاش کے بدن پر امریکی فوجی کی پتلون اور پیروں میں فوجی جوتے تھے اور اس کے بازو پر ٹیٹو بھی بنا ہوا تھا۔ اس لاش کے سر اور سینے پر گولیوں کے نشانات تھے۔ ان لاپتہ فوجیوں کی تلاش میں چار ہزار امریکی فوجی اور دو ہزار عراقی فوجی شامل تھے۔ بغداد میں عراقی پولیس نے کہا کہ گزشتہ ہفتے اغواء ہونے والے تین امریکی فوجیوں میں ایک کی لاش دریائے فرات سے برآمد ہوئی ہے۔ text: قانونی نوٹس میں سعد چوہدری نے اپنے آپ کو شیخ حسینہ کا زبردست حامی قرار دیا ہے سوال یہ ہے آخر ایسا کیا ہو گیا کہ سینیما کے مالک کو مقدمے کی دھمکی ملی؟ دراصل سینیما میں شیخ حسینہ کے بارے میں دکھائی جانے والی فلم کے نام میں غلطی ہو گئی جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وزیراعظم کی ’دُم‘ ہے۔ دارالحکومت ڈھاکہ میں بلاک بسٹر نامی سینیما میں فلم ’حسینہ: اے ڈاٹرز ٹیل‘ (Hasina: A Daughter's Tale) کی نمائش جاری ہے۔ لیکن تشہیری بورڈ پر ’ٹیل‘ کی املا غلط ہو گئی ہے اور انگریزی میں tale یعنی کہانی کی جگہ tail یعنی دم لکھا گیا۔ شیخ حسینہ کے حمایتی سعد چوہدری نے بلاک بسٹر سینیما سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غلطی ٹھیک کریں اور معافی مانگیں نہیں تو نو کروڑ ڈالر ہرجانے کا مقدمہ دائر کر دیا جائے گا۔ سعد چوہدری بنگلہ دیش عوامی برٹش لا سٹوڈنٹس یونین کے سابق جنرل سیکریٹری رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے قانونی چارہ جوئی کی دھمکی جماعت کی طرف سے نہیں بلکہ ذاتی حیثیت میں دی ہے۔ سعد کے وکیل نوروز چوہدری کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد اس غلطی کو جلد سے جلد درست کرنا ہے۔ قانونی نوٹس میں سعد چوہدری نے اپنے آپ کو شیخ حسینہ کا زبردست حامی قرار دیا ہے۔ اس نوٹس کے بعد سینیما مالکان کی جانب سے فلم کی تشہیری مواد میں اس غلطی کی تصحیح بھی کر دی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ موضوع ٹرینڈ کر رہا ہے اور آرا بٹی ہوئی ہیں۔ فیس بک کے صارف مقبول حسین نے لکھا ’میں کیسے رد عمل کا اظہار کروں، ہنسوں یا آنسو بہاؤں؟ کہانی دم بن گئی جو کہ یقیناً ہتک آمیز ہے۔‘ ایک اور صارف ثقلین شمعون نے لکھا ’بھائی یہ محض املا کی غلطی ہے۔ لگتا ہے آپ ایک مچھر کو مارنے کے لیے توپوں کا استعمال کر رہے ہیں۔‘ ’حسینہ: اے ڈاٹرز ٹیل‘ شیخ حسینہ کی کہانی ہے جو بنگلہ دیش کے پہلے صدر شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی ہیں۔ اس فلم کو ڈھاکہ ٹریبیون اخبار نے دستاویزی ڈراما کہا ہے جس میں کہانی شیخ حسینہ کی بہن شیخ ریحانہ بیان کر رہی ہیں۔ اس فلم کے پریمیر کے بعد وزیر خزانہ عبدالمحیط نے ڈھاکہ ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک شاندار فلم ہے اور انھوں نے اس فلم سے بہت کچھ نیا سیکھا ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے ایک حمایتی نے اس سینیما پر مقدمہ کرنے کی دھمکی دی جس میں اس کی رہنما کے بارے میں فلم کی نمائش جاری ہے۔ text: پٹھان کوٹ میں ہونے والے حملے میں سات انڈین فوجی اور چھ حملہ آور ہلاک ہوگئے تھے گلڈ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پابندی کا فیصلہ واپس لے۔ وزارت کی ایک کمیٹی نے دو جنوری کو پٹھان کوٹ کے حملے کی نشریات کے تجزیے کے بعد این ڈی ٹی وی کے ہندی چینل پر نو نومبر کو ایک دن کی نشریات پر پابندی عائد کی ہے ۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ چینل نے حملے کے دوران فضائی اڈے سے متعلق انتہائی اہم عسکری معلومات نشر کیں جن سے حملہ آوروں کو مدد مل سکتی تھی ۔ حکومت کی طرف سے کسی نیوز چینل پر پابندی لگانے کا یا اپنی نوعیت کا پہلا واقع ہے ۔ این ڈی ٹی وی نے ایک بیان میں وزارت اطلاعات کے فیصلے کو ’شاکنگ ‘ قرار دیا ہے ۔ چینل نے وزارتی کمیٹی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس کی کوریج پوری طرح متوازن تھی اور وہ انھیں معلومات کو نشر کر رہا تھا جو دوسرے چینل اور اخبارت بتا رہے تھے۔ یہ سبھی معلومات پہلے سے موجود تھیں ۔‘ ایڈیٹرز گلڈ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ چینل کی نشریات پر ایک دن کی پابندی لگانا میڈیا کی آزادی اور اس کے ذریعے عوام کی آزادی کی براہ راست خلاف ورزی ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ’ اپنی نوعیت کے اس انفرادی فیصلے سے لگتا ہے کہ حکومت نے میڈیا کے کام میں دخل دینے اور ان سے اتفاق نہ کرنے پر انہیں سزائیں دینے کا اختیار حاصل کر لیا ہے ۔‘ مدیروں کی انجمن نے جینل پرلگائی گئی پابندی فورآ ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کہ غیر ذمے دارانہ کوریج کے خلاف کاروائی کے کئی قانونی راستے ہیں ۔ بغیر قانونی قدم اٹھائے ہوئے اس طرح کی من مانی پابندی لگانا انصاف اور آزادی کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے ۔ بھارت کے مدیروں کی ایسوسی ایشن ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے پٹھان کوٹ کے فضائی اڈے پر حملے کی کوریج کے لیے ملک کے سرکردہ چینل این ڈی ٹی وی پر ایک دن کے لیے پابندی لگانے کے مرکزی وزارت اطلاعات اور نشریات کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ text: چار اگست سے لے کر آئے دن تک علیم سید کی اپنے گھر والوں سے کوئی بات نہیں ہوئی وہ اپنے بھائی سے شادی کی باتیں کر ہی رہے تھے کہ اچانک رات 11 بجے ان کی کال کٹ گئی۔ اس دن چار اگست سے لے کر آئے دن تک علیم کی اپنے گھر والوں سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ پانچ اگست کی صبح انھیں معلوم ہوا کہ کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور آئین میں درج خصوصی حیثیت کا آرٹیکل 370 ختم ہو گیا ہے۔ اور یہ بھی کہ کشمیر میں موبائل سروس اور انٹرنیٹ سمیت تمام مواصلاتی نظام معطل کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ خبریں بھی موصول ہونا شروع ہو گئیں کہ کشمیر میں تشدد کے واقعات ہو رہے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے 'منقسم کشمیریوں کے لیے اچھی خبر' کشمیر: ’وہ تھوکتا رہا اور پھر اسے دل کا دورہ پڑ گیا‘ کشمیر:’سب ڈرے ہوئے ہیں،کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا‘ خصوصی ضمیمہ: انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ ایک ایسا شخص جو ہر روز اپنے خاندان والوں سے فون پر باتیں کرتا تھا اب کئی روز سے ان سے رابطے میں نہیں ہے۔ علیم سید کشمیر جانے کے خواہشمند ہیں تاکہ وہ اپنے خاندان والوں کی موجودہ صورتحال کے بارے میں جان سکیں مگر پابندیوں کے باعث وہ کشمیر نہیں جا سکتے۔ آخرکار انھوں نے اس مقصد کے لیے ایک پٹیشن کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ کشمیری طلبہ بدھ کو انڈیا کے چیف جسٹس رانجن گوگوئی کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے ان کی استدعا سنی اور ان کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی انتظامیہ کو حکم دیا کہ ان کی گھر واپسی اور سکیورٹی کا مناسب بندوبست کیا جائے۔ 24 سالہ علیم سید کشمیر کے علاقے اننت ناگ کے رہائشی ہیں اور انھوں نے دلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ ڈگری مکمل ہونے کے بعد علیم کو حال ہی میں ایک نوکری ملی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ وہ گھر جانے کے لیے بے قرار تھے لیکن آرٹیکل 370 کے خاتمے اور وادی کی بگڑتی صورتحال کے پیشِ نظر انھیں نہیں معلوم کہ وہ کشمیر میں اپنے گھر جا بھی پائیں گے یا نہیں۔ ’آخری مرتبہ میری گھر والوں سے چار اگست کی رات بات ہوئی تھی۔ اس وقت سے اب تک میں ان سے بات نہیں کر سکا ہوں۔‘ ’خبروں میں آ رہا تھا کہ کشمیر میں صورتحال اچھی نہیں ہے اور حالات سنگین ہیں۔ اور اس کے بعد اپنے گھر والوں کی حفاظت کے حوالے سے میری فکر مزید بڑھ گئی تھی۔ اسی وجہ سے میں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔ میں نے حال ہی میں قانون کی تعلیم مکمل کی تھی۔ میرا خیال تھا کہ سپریم کورٹ سے مدد لی جا سکتی ہے۔‘ علیم سید نے یونیورسٹی سے حال ہی میں قانون کی تعلیم مکمل کی ہے وہ بتاتے ہیں کہ ’انھوں (ان کے گھر والوں) نے پہلے سے ان حالات کے پیشِ نظر کوئی انتظام نہیں کر رکھا تھا۔ راشن کا بندوبست نہیں کیا گیا اور یہی بات میرے لیے سب سے زیادہ تشویش ناک تھی۔ اگر صرف فون کے ذریعے بات کرنے کی سہولت موجود ہوتی تو شاید میری فکر ختم ہو جاتی۔ لیکن جب میری بات نہیں ہو پائی تو میں فکرمند ہو گیا۔‘ بدھ کو انڈیا کی سپریم کورٹ نے کشمیر سے متعلق 14 درخواستوں کی سماعت کی جن میں سے ایک علیم کی تھی۔ ایک دوسری درخواست کمیونسٹ پارٹی (سی پی ایم) کے رہنما سیتارام یچوری کی تھی۔ سپریم کورٹ نے انھیں کشمیر میں اپنے ساتھی سے ملنے کی اجازت دے دی ہے۔ سیتارام یچوری نے اپنی سیاسی جماعت کے ایم ایل اے محمد یوسف تریگامی سے ملنے کی درخواست کی تھی۔ عدالت میں حکومت نے اس درخواست کی مخالفت کی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت سیتارام یچوری کو کشمیر جانے سے نہیں روک سکتی۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ’وہ اس ملک کے شہری ہیں اور اپنے دوست سے ملنا چاہتے ہیں۔‘ تاہم سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ کشمیر صرف اپنے دوست سے ملیں گے اور ان کی ہر طرح کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہو گی۔ جمعرات کو سیتارام یچوری سرینگر پہنچے لیکن انھیں ایئرپورٹ سے ہی واپس بھیج دیا گیا۔ انڈین سپریم کورٹ نے بدھ کے روز انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ وہ علیم سید کی بحفاظت گھر واپسی کو یقینی بنائیں علیم سید کو سپریم کورٹ کی طرف سے کشمیر جانے کی اجازت مل گئی ہے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ اگر کوئی کشمیر میں اپنے خاندان کے بارے میں فکرمند ہے تو اسے اپنے گھر ضرور جانا چاہیے۔ عدالت نے علیم کو یہ بھی کہا ہے کہ وہ کشمیر سے واپس دلی آکر اپنے مشاہدات پر مبنی ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں بھی جمع کروائیں۔ علیم کا گھر اننت ناگ میں ہے جو کہ سرینگر سے 55 کلومیٹر دور ہے۔ بگڑتے حالات کے پیش نظر انھیں معلوم نہیں کہ وہ سرینگر سے اننت ناگ اپنے گھر کیسے پہنچیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے 14 اگست کو سرینگر جانے کی ٹکٹ بک کروائی تھی جو بعدازاں منسوخ کر دی گئی۔ مجھے ٹکٹ کی منسوخی کی اطلاع بذریعہ ای میل دی گئی۔‘ ’اننت ناگ میں بھی حالات اتنے اچھے نہیں۔ علاقے میں بہت زیادہ تناؤ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میں سرینگر پہنچ جاؤں گا لیکن مجھے نہیں معلوم کہ وہاں سے آگے میں اپنے گھر کیسے پہنچوں گا۔‘ ’کشمر میں صورتحال پیچیدہ ہے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ سب ٹھیک ہیں جبکہ دوسرے کہہ رہے ہیں حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ آدھے لوگ ماحول کو پرتشدد بتا رہے ہیں جبکہ آدھے اسے معمول کے مطابق سمجھ رہے ہیں۔ ان حالات میں کس پر بھروسہ کیا جائے؟‘ علیم نے جمعرات کی صبح سرینگر کے لیے روانہ ہونا تھا۔ علیم سید نے جمعرات (آج) کو اپنے گھر اننت ناگ کے لیے روانہ ہونا تھا کشمیر پہنچ کر وہ اپنے والدین اور دو بڑے بھائیوں سے ملیں گے۔ ان کے والد سرکاری ملازم تھے لیکن اب وہ ریٹائر ہو چکے ہیں۔ انھوں نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا کہ وہ انڈیا کی حکومت کے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے فیصلے کو کیسے دیکھتے ہیں۔ ’میں ذاتی رائے نہیں دینا چاہتا۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ سب قانون کے مطابق ہو گا۔‘ وہ فی الحال اپنے خاندان کے لیے فکرمند ہیں اور ان سے جلد از جلد ملنا چاہتے ہیں۔ ’میرے جیسے کئی لوگ ہیں جو گھر والوں سے بات نہیں کر پا رہے۔ میرے کئی کشمیری دوستوں نے مجھ سے کہا ہے کہ میں ان کے پیغامات ان کے گھر والوں تک پہنچاؤں۔‘ چار اگست کی شب محمد علیم سید اپنے بھائی سے فون پر بات کر رہے تھے اور گفتگو کا موضوع ان کے بھائی کی شادی تھا جس کی تاریخ 17 اگست تھی۔ علیم سید نے جون میں ہی 14 اگست کی ایئر ٹکٹ بُک کروا لی تھی۔ text: چھ سال پہلے مولانا اعظم طارق پر ایک بڑا حملہ لاہور میں سیشن جج کی عدالت میں پیشی کے موقع پر بم دھماکہ کی صورت میں ہوا تھا جس میں ان کے ساتھی ضیاءالرحمان فاروقی سمیت کئی افراد ہلاک ہوگۓ تھے لیکن وہ خود شدید زخمی ہوئے تھے اور ان کے جسم کا نچلا حصہ شدید متاثر ہوا تھا۔ اس حملے کا ملزم محرم علی موت کی سزا پاچکا ہے۔ اس سے پہلے جھنگ جاتے ہوئے راستے میں ان کی کار پر گھات لگا کر بیٹھے ہوۓ افراد نے ایک راکٹ داغا تھا جو شانے پر نہیں لگا اور ان کی کار بچ کر کچے راستے کی طرف مڑ گئی تھی۔ اس حملے کے ملزم اور کالعدم شیعہ شدت پسند تنظیم سپاہ محمد کے سربراہ غلام رضا نقوی کئی برس گزر جانے کے بعد ابھی تک کئی جیل میں ہیں۔ دراصل اعظم طارق پر قاتلانہ حملے اس وقت شروع ہوئے جب اگست انیس سو ترانوے میں انھوں نے جھنگ میں ایک عوامی اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے اپنے مخالف شیعہ مسلک کے بارھویں امام مہدی کے بارے میں سخت اور برے الفاظ استعمال کیے جس سے پورے ملک میں شیعہ فرقہ میں اشتعال پھیل گیا اور ان کی تقاریر کی فوٹو کاپیاں ملک بھر میں تقسیم کی گئیں۔ دیو بندی مسلک سے تعلق رکھنے والے مولانا اعظم طارق کا تعلق کراچی سے تھا اور وہ سپاہ صحابہ تنظیم میں متحرک ہونے سے پہلے اوکاڑہ کی ایک مسجد میں خطیب تھے۔ وہ ان اولین افراد میں سے تھے جو پندرہ سال پہلے شیعہ فرقہ کے خلاف بننے والی انجمن سپاہ صحابہ میں شامل ہوئے اور کارکن کی سطح سے اس تنظیم کے اعلیٰ عہدے تک پہنچے۔ جب انیس سو ستاسی میں حق نواز جھنگوی نے شیعہ فرقہ کے خلاف ایک شدت پسند تنظیم انجمن سپاہ صحابہ پاکستان بنائی (جس کا نام بعد میں سپاہ صحابہ پاکستان رکھ دیا گیا) تو پنجاب کے ان قصبوں میں جہاں ہندوستان سے آئے ہوۓ مہاجرین بڑی تعداد میں رہتے ہیں اس کو خاصی پذیرائی ملی۔ ان مہاجرین میں بڑی تعداد رہتک اور حصار اضلاع کے لوگوں کی تھی۔ سپاہ صحابہ کی شیعہ مخالفت کا بڑا نکتہ یہ تھا کہ شعیہ مسلک کے لوگ اہل سنت کے نزدک بعض محترم صحابہ کے بارے میں بری زبان استعمال کرتے ہیں جس کی روک تھام ہونی چاہیے۔ ایران انقلاب کے بعد پاکستان کے شیعوں میں بڑھتی ہوئی سیاسی بیداری اور تنظیم ساز اور جنرل ضیاالحق کے شریعت کے نفاذ کے خلاف اہل تشیع کا کامیاب احتجاج فوجی حکومت کو بھی کھٹکنے لگا تھا جس کے باعث شیعہ فرقہ کی مخالف تنظیم کو ریاست کی حوصلہ افزائی بھی مل گئی۔ اس تنظیم کے قیام کے بعد سے فرقہ وارانہ قتلوں کا جو سلسلسہ شروع ہوا وہ اب تک جاری ہے۔ اس قتل و غارت میں سپاہ صحابہ کے تمام بڑے رہنما بھی کام آئے۔ پہلے حق نواز جھنگوی کو قتل کیا گیا، پھر تنظیم کے نۓ رہنما اور رکن قومی اسمبلی ایثارالحق قاسمی قتل ہوئے۔ ا سکے بعد ضیاء الرحمان فاروقی بم دھماکے میں مارے گئے اور اب مولانا اعظم طارق۔ دوسری طرف شیعہ رہنما عارف الحسین حسینی دوسرے شیعہ علما ، ڈاکٹر، وکلا اور اعلی سرکاری افسران بھی فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل کیے گۓ ہیں۔ مولانا اعظم طارق خود بھی قتل کی متعداد وارداتوں کے مقدموں میں نامزد ملزم تھے لیکن ہر بار ضمانت پر رہا ہوجاتے تھے۔ وہ پہلی بار انیس سو بانوے کے ضمنی انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوۓ تھے۔ وہ ایک عالم دین سے زیادہ ایک پرجوش کارکن کے طور پر جانے جاتے تھے۔ جب حکومت نے شیعہ اور سنی شدت پسند اور فرقہ وارانہ تنظیموں پر سختی شروع کی تو سپاہ صحابہ کے ایک شدت پسند ریاض بسرا نے ایک علیحدہ تنظیم لشکر جھنگوی کے نام سے بنا لی۔ مولانا اعظم طارق نے مولانا ضیاءالقاسمی کی وفات کے بعد سپاہ صحابہ کی صدارت سنبھالی اور وہ ہمیشہ فرقہ وارانہ وارداتوں اور لشکر جھنگوی سے لاتعلقی کا اعلان کرتے رہے۔ تاہم ان دونوں تنظیموں کا آپس میں گہرا تعلق رہا اور مولانا اعظم طارق کو جنرل مشرف کی حکومت نے ایک برس تک نظربند رکھا۔ سنہ دو ہزار دو کے عام انتخابات میں ریٹرننگ آفیسر نے مولانا کے کاغذات تسلیم نہیں کیے اور انھیں بعد میں لاہور ہائی کورٹ سے انتخابات لڑنے کی اجازت ملی اور اس طرح وہ آزاد امیدوار کے طور پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئے۔ جھنگ سے ایم این اے منتخب ہونے کے چند ماہ بعد ان کو عدالت نے رہا کرنے کاحکم جاری کیا۔ رہائی کے بعد انھوں نے ایک نئی جماعت ملت اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔ اس جماعت کے پلیٹ فارم سے انھوں نے جنرل پرویز مشرف کی حمایت کی اور وزیراعظم ظفراللہ جمالی کا ساتھ دیا۔ یہ خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ وہ متحدہ مجلس عمل کے توڑ کے لیے دوسری مذہبی تنظیموں سے مل کر حکومت کے حق میں کوئی اتحاد تشکیل دیں گے۔ گو کچھ عرصہ سے مولانا اعظم طارق یہی اعلان کرتے رہے کہ وہ فرقہ واریت کے مسئلہ کی مستقل بنیادوں پر روک تھام کے لیے اسمبلی میں کام کرنا چاہتے ہیں اور قانون سازی کروانا چاہتے ہیں لیکن ان کی بات پر کم ہی لوگوں کو اعتماد تھا۔ حالیہ دنوں میں پنجاب کے سی آئی ڈی محکمہ سے منسوب ایسی رپورٹیں بھی سامنے آئیں جن میں فرقہ وارانہ ہلاکتوں میں حالیہ اضافے کی ذمہ داری مولانا اعظم طارق پر ڈالی گئی تھی۔ حال میں کوئٹہ اور پھر کراچی میں شیعہ مسلک کے افراد کے متعدد افراد کے قتل کے بعد شیعہ فرقہ کے ردعمل کا اندیشہ سبھی کو تھا۔ مولانا اعظم طارق کے قتل کو عام آدمی اس پس منظر میں دیکھے گا۔ تاہم حکومت ہر فرقہ وارانہ قتل کے بعد ہندوستان کی خفیہ ایجنسی کی طرف اشارہ کرتی آئی ہے جو اس کےخیال میں پاکستان کو فرقہ واریت کے ذریعے غیرمستحکم کرنا چاہتی ہے۔ اب بھی شاید ایسا ہی کوئی بیان جاری ہوجائے۔ مولانا اعظم طارق کا نام پاکستان میں فرقہ واریت کی علامت تھا۔ ان کی ہلاکت سے ردعمل میں شیعہ فرقہ کے افراد کی ہلاکتوں کا ایک نیا دور شروع ہوسکتا ہے۔ ان کی موت بھی اتنی ہنگامہ پرور ہوسکتی ہے جتنی ان کی زندگی۔ کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان کے سربراہ ( جس نے پابندی لگنے پر اپنا نام تبدیل کرکے ملت اسلامیہ رکھ لیا) اعظم طارق پیر کے روز شام کو ایک قاتلانہ حملہ میں ہلاک ہوگئے۔ یہ گزشتہ دس سال میں ان کی زندگی پر ہونے والا تیسرا بڑا حملہ تھا۔ اس سے پہلے دونوں حملو ں میں وہ بچ گئے تھے۔ text: امریکی صحافی ڈینئل پرل کو جنوری دو ہزار دو میں کراچی میں اس وقت اغواء کر کے قتل کردیا گیا تھا جب وہ شدت پسندوں کے بارے میں ایک رپورٹ پر کام کر رہے تھے۔ روایتی موسیقی کی تھاپ پر جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں رقص کرتے رہے وہاں امریکی قونصل جنرل کے انکی بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئیں۔ پروگرام میں شریک طلبہ اور طالبات کا کہنا تھا کہ موسیقی سے محبت بڑہتی اور فاصلے کم ہوتے ہیں۔ انعم خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پروگرام سے بھرپور لطف لیا اس لیے نہ صرف لڑکوں بلکہ لڑکیوں نے بھی بھرپور انجوائے کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی، مسلم یا کسی بھی ملک کے لوگ ہوں سب انسان ہیں جو ہنستے اور روتے بھی ایک ہی زبان میں ہیں، تفریق لوگوں نے پیدا کی ہے اور انہوں نے ہی دور کرنی ہے۔ خورشید انور کا ماننا ہے کہ امریکہ کی اچھائیوں کو بھی سامنے رکھنا چاہئیے اور خاص طور پر امریکی عوام کی تعریف کرنی چاہیئے جن کی رقم سے پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے پروگرام جاری ہیں۔ طلحہ قریشی کہتے ہیں کہ منفی تاثر پھلانے سے کچھ نہیں ہوتا ہے لوگوں کا رویہ اچھا ہونا چاہیئے ’آج جیسے امریکن ہمارے ساتھ ناچے اور گائے، اس طرح سے تعلقات بڑھتے ہیں لوگوں کو بغیر دیکھے سمجھے اپنی طرف سے یہ کہنا ہے کہ وہ اچھا ہے وہ برا ہے یہ درست نہیں ہے کیونکہ اچھے برے ہر جگہ ہوتے ہیں‘۔ تقریب میں کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر مجید عزیز بھی شریک تھے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ تجارت میں پاکستان سے پندرہ سالہ معاہدہ کر رہا ہے اور فوجی تعلقات سے ہٹ کر معاشی تعلقات بڑھائے جارہے ہیں جس کی بنیاد تو دہشت گردی کی روک تھام کا منصوبہ ہے مگر بلوچستان اور سرحد میں ایسی زون بنائے جائیں گے جہاں تیار ہونے والی مصنوعات کو امریکہ درآمد کیا جائے گا۔ ڈینئل پرل کے مقدمے کی تحقیقات اور ملزمان کی عدالت میں زیر سماعت اپیلوں کے بارے میں امریکی قونصل جنرل کے انکی کا کہنا تھا کہ ’اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ڈینئل پرل کا قتل پاکستان میں ہوا اور اس کی تحقیقات بھی پاکستان کے اداروں نے کی اب یہ معاملہ عدالت میں ہے اورعدالت ہی ملزمان کی اپیلوں کے بارے میں بہتر فیصلہ کرسکتی ہے۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ڈینئل پرل کے قتل کے الزام میں احمد عمر شیخ کو سزائے موت جبکہ تین دیگر ملزمان شیخ عادل، سلمان ثاقب اور فہد نسیم کو عمر قید کا حکم سنایا تھا جس کے خلاف ملزمان نے سندھ ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔ کراچی میں امریکی صحافی ڈینئیل پرل کی یاد میں امریکی سفارتخانے کی جانب سے ایک میوزیکل پروگرام کیا گیا جس میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ اس شو میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی اور لوک موسیقی پر بھنگڑے ڈالے۔ text: انہوں نے اسلام آباد میں ایک اخباری کانفرنس میں بتایا کہ وہ غیر قانونی طور پر حراست میں رکھے جانے اور انہیں مشتبہ دہشت گردوں کی صف میں شامل کیے جانے پر کینیڈین حکام کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کرنے کے متعلق پاکستان میں اپنے وکلاء سے صلح مشورہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹورونٹو میں انہیں گرفتار کرنے کے بعد حکام نے ان کے ساتھ بہت برا برتاؤ کیا جو تین مہینے، جب تک وہ حراست میں رہے، جاری رہا۔ ایک شخص نے کہا کہ اسے مارا پیٹا گیا جبکہ دوسرے کا کہنا تھا کہ انہیں قانونی مدد تک رسائی سے انکار کیا گیا۔ حقوقِ انسانی کے کارکنوں کے مطابق ان اشخاص کو، جن کی کل تعداد انیس تھی، صرف اس بنیاد پر گرفتار کیا گیا کیونکہ وہ مسلمان تھے۔ ایک شخص محمد وحید نے بتایا کہ گرفتاری کے وقت چھ پولیس اہلکاروں نے اس پر مکوں اور لاتوں کی بارش کر دی اور اس کے بعد اسے قتل کے الزام میں قید ایک شخص کے ساتھ جیل میں بند کر دیا گیا۔ پانچوں طالبِ علموں نے کہا کہ تقریباً تین ماہ انہیں حراست میں رکھنے کے بعد جب حکام کو کچھ نہ ملا تو انہیں کسی امیگریشن کے قانون کی خلاف ورزی کے الزام میں ملک بدر کر دیا گیا۔ کینیڈا سے نکالے جانے والے یہ طالبِ علم کہتے ہیں کہ انہیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انہیں اصل میں کیوں ملک بدر کیا گیا، ماسوائے اس کے کہ وہ پاکستانی مسلمان تھے۔ حقوقِ انسانی کی معروف کارکن عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ مفصل اور باقاعدہ تحقیقات کے بعد پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ان اشخاص کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور انہیں غلط بدنام کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ مغربی ممالک میں دہشت گردی کے خلاف قوانین کو ناجائز اور غلط استعمال کرنے کا رواج سا پڑ گیا ہے اور اس کا بڑا نشانہ مسلمان ہی بنتے ہیں۔ القاعدہ سے تعلق رکھنے کے الزام میں کینیڈا سے ملک بدر کیے جانے والے پانچ پاکستانی طالبِ علم کینیڈین حکام پر ہرجانے کا دعویٰ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ text: اتوار کو امریکی محکمہ دفاع کی ایک ٹیم اس سلسلے میں مذاکرات کیلئے دہلی پہنچ رہی ہے۔ پیٹریاٹ سسٹم امریکہ کے علاوہ اب تک صرف اسرائیل جرمنی، جاپان اور سعودی عرب کے پاس ہے۔ بھارت کے معروف دفاعی تجزیہ نگار راہول بیدی کے مطابق ہندوستان کو پٹریاٹ نظام کی پیشکش کئی مہینے پہلے کی گئی تھی۔ امریکی حکومت نے اس آفر کو کلیئر کر دیا ہے۔ امریکہ نے بھارت کو پیٹریاٹ کے علاوہ اور جدید اسلحہ بیچنے کی آفر کی ہے جس میں میری ٹائم پیٹرول سسٹم ٰ130 Hercules جہاز شامل ہیں۔ پیٹریاٹ میزائیل کو نجی شعبے میں بنایا جاتا ہے لیکن بھارت کو یہ نظام حکومت کی سطح پر بیچا جا رہا ہے۔ راہول بیدی کے مطابق بھارت کو پیٹریاٹ فارن ملٹری سلیز کے تحت دیا جا رہا ہے۔ اس طرح یہ نظام کچھ سستا بھی ملتا ہے اور دونوں حکومتوں کے دو طرفہ فوجی تعلقات بھی بڑھتے ہیں۔ پیٹریاٹ اینٹی بلاسٹک میزائیل سسٹم ہے اور یہ کسی بھی آنے والے میزائیل کو گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ا اس کی رینج بیس سے چالیس کلومیٹر ہوتی ہے۔ راہول بیدی کے مطابق ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ امریکہ کتنا جدید پیٹریاٹ نظام بھارت کو بیچے گا۔ امریکہ کی طرف بھارت کو جدید ہتھیاروں کی فروخت سے علاقے میں دفاعی توازن خراب ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ پیٹریاٹ میزائیل سسٹم کے علاوہ بھارت اسرائیل سے ایواکس طیارے بھی حاصل کر رہا ہے۔ہندوستان روس سے ائر کرافٹ کیریر بھی خرید رہا ہے۔ امریکہ نے ہندوستان کو میزائیل شکن سسٹم، پیٹریاٹ فروخت کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔ text: یہ وڈیو اتوار کو انصار السنہ نامی گروپ کی ویب سائیٹ پر جاری کی گئی ہے۔ گزشتہ ہفتے منگل کو موصل میں ایک امریکی فوجی تنصیب پر کیے گئے حملے میں 22 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے سے فوجی اڈے پر نافڈ سکیورٹی کے بارے میں سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ انصارالسنہ کی جاری کردہ ٹیپ پر پیر کی تاریخ موجود ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تین حملہ آور، جو کالے کپڑوں میں ملبوس ہیں اور چہروں پر ماسک پہن رکھے ہیں، حملے کا منصوبہ بیان کررہے ہیں۔ ایک شخص نے کہا کہ گروپ کا ایک رکن گارڈز کی تبدیلی کے وقت اڈے میں گھس جائے گا۔ ’پھر شیر اپنے نشانے کی طرف بڑھے گا اور ہم کھانے کے وقفے کا فائدہ اٹھائیں گے‘۔ ’وہ ڈائننگ روم میں گھس جائے گا جہاں قابض فوج اور ان کے عراقی اتحادی جمع ہوں گے‘۔ اس کے بعد یہ منصوبہ بیان کرنے والے نے بظاہر خودکش حملہ کرنے کی ذمہ داری اٹھانے والے کو گلے لگایا جو پوری طرح سے مسلح تھا۔ بعد کے ایک منظر میں دکھایا گیا ہے کہ اڈے پر دھماکہ کیسے ہوا۔ اور پھر ٹوٹی ہوئی عمارت دکھائی گئی ہے۔ ابھی تک اس وڈیو کے اصلی ہونے کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ عسکریت پسند گروپ انصارالسنہ نے، جس نے گزشتہ ہفتہ عراق میں امریکی فوج پر حملے کا دعوٰی کیا ہے، اب ایک وڈیو ٹیپ جاری کیا ہے جس میں بظاہر بم حملے کی تیاریاں دکھائی گئی ہیں۔ text: ان کے منگیتر کا تعلق کسی شاہی خاندان سے نہیں ہے بلکہ وہ ایک عام آدمی ہیں اور ٹوکیو کی شہری انتظامیہ میں ملازم ہیں۔ ٹوکیو میں ہزاروں افراد نوبیاہتا جوڑے کو مبارکباد دینے کے لیے شاہی محل اور سٹی ہوٹل کے درمیان سڑکوں پر جمع ہوئے۔ سٹی ہوٹل میں ہی شادی کی تقریب منعقد ہوئی جو آدھےگھنٹے تک جاری رہی۔ چھتیس سالہ شہزادی نے چالیس سالہ کرودا سے شادی کے لیے اپنا شاہی خطاب اور الاؤنس چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سنہ 1947 کے ایک جاپانی قانون کے تحت شاہی خاندن کی خواتین کو عوام میں سے کسی شخص سے شادی کے بعد عوامی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ عوامی طرزِ زندگی اختیار کرنے کے لیے شہزادی سیاکو گاڑی چلانا اور اشیائے ضرورت کی خریداری سیکھ رہی ہیں۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر باقاعدہ طور پر شاہی خاندان کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ وہ جاپانی بادشاہ اکی ہیٹو کی اکلوتی صاحبزادی ہیں اور گزشتہ پنتالیس برس میں اپنا شاہی خطاب ترک کرنے والے پہلی شہزادی ہیں۔ اس سے قبل سنہ 1960 میں ان کی آنٹی ٹکاکو شمازو نے ایک عام شخص سے شادی کرنے کے لیے شاہی خطاب چھوڑ دیا تھا۔ یاد رہے کہ جاپان میں شاہی خاندان وراثت کے معاملے پر بحران کا شکار ہے کیونکہ گزشتہ چالیس برس میں شاہی خاندان میں کوئی لڑکا پیدا نہیں ہوا ہے اور اب اس بات پر بحث چل رہی ہے کہ شاہی خواتین کو تخت پر بیٹھنے کا حق دے دیا جائے۔ اپنا شاہی خطاب ترک کرنے کے بعد جاپان کی شہزادی سیاکو نے ٹوکیو میں اپنے منگیتر یوشیکی کرودا سے شادی کر لی ہے۔ text: منگل کے روز صحافیوں کے ایک گروپ سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس عرصہ کے دوران تین سو مقدمات کے چالان عدالتوں میں پیش کیے گئے اور چونسٹھ افراد کو سزائیں سنائی گئیں۔ انہوں نے حکومت کی جانب سے بچوں کی سمگلنگ روکنے کے لیے کیے گئے اقدامات کے متعلق بتایا کہ بیشتر لوگ ایران کے راستے دبئی جاتے ہیں۔ حکومت نے اس سرحد پر کافی سختی کردی ہے اور ایران حکومت سے بھی اس ضمن میں رابطہ کیا ہے۔ وزیر نے بتایا کہ فیڈرل انوسٹیشگین ایجنسی ’ایف آئی اے‘ کے صدر دفتر میں ایک خصوصی سیل بھی قائم کیا گیا ہے۔ جبکہ سن دوہزار دو میں ایک آرڈیننس بھی جاری کیا تھا جس کے تحت اس کاروبار میں ملوث افراد کو چودہ سال تک سزا دی جاسکتی ہے۔ ان کے مطابق بچوں کی سمگلنگ گزشتہ پینتیس برسوں سے جاری ہے لیکن موثر قانون سازی ان کی حکومت نے کی ہے۔ جس کے بعد بچوں کی سمگلنگ روکنے میں خاصی مدد ملی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات نے ایک قانون منظور کیا ہے، جس کے تحت اونٹوں کی دوڑ میں شرکت کے لیے بچے کی عمر کم از کم چودہ برس جبکہ وزن پینتالیس کلوگرام ہونا لازم ہے۔ وزیر مملکت نے کہا کہ جہاں زبردستی بچوں کو اونٹ دوڑ میں شرکت کی خاطر لے جایا جاتا ہے وہاں والدین غربت کی خاطر قانونی طریقہ کار کے مطابق دستاویزات پر بھی لے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق قانونی طور پر لے جانے والے بچوں کو روکنا قدرے مشکل ضرور ہے لیکن حکومت بچوں کے ہمراہ جائز سفری دستاویزات پر خلیجی ممالک جانے والوں سے واپسی پر بچوں کو ساتھ نہ لانے کے متعلق سختی اختیار کرے گی۔ ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ جب سے متعلقہ قانون نافذ کیا گیا ہے، اس دن سے اب تک ستر سے اسی بچے خلیجی ممالک اونٹوں کی دوڑ میں استعمال کی خاطر لے جائے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جن چھ سو سے زیادہ لوگوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ان میں اس کاربار میں ملوث ملزمان کے خلاف متعلقہ بچوں کے والدین اور قریبی عزیز و اقارب بھی شامل ہیں۔ پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ شہزاد وسیم نے کہا ہے کہ اونٹوں کی دوڑ کے لیے گزشتہ ڈھائی برسوں کے درمیان بچوں کی سمگلنگ میں ملوث چھ سو سے زیادہ ملزمان کے خلاف مقدمات داخل کیے گئے۔ text: میلے کے منتظمین اگلا میلہ نیویارک میں منعقد کرنا چاہتے ہیں اس کے علاوہ میلے میں میٹھی چیزیں کھاتے ہوئے بچوں کی خوشی اور آئس کریم، اور لوگوں کی حلال خوراک کی انفرادیت سے واقف ہونے پر سب ہی خوش دکھائی دے رہے ہیں۔ لندن کے ایکسل سینٹر میں دو روز تک جاری رہنے والے دنیا کے سب سے بڑے حلال خوراک کے میلے میں لوگوں کا جوش و خروش توقعات سے کہیں بڑے کر ہے۔ اس میلے میں چاکلیٹ کی مدد سے تیار کردہ میٹھا’چوکلیٹیئر‘ بھی دستیاب ہے اور اس میں شامل چاکلیٹ نہ صرف آپ کے منھ میں پگھل جائے گی بلکہ ساتھ دل کو بھی پگھلا دے گی۔ اس ڈش کے بانی انیش پوپٹ کا دعویٰ ہے کہ پانی کی مدد سے تیار کردہ چوکلیٹئر کے منفرد لذیذ ذائقے سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ کیا یہاں آنے والے تمام افراد حلال خوراک کھاتے ہیں؟ نہیں ایسا نہیں ہے، لیکن حلال خوراک کے شوقین افراد کی بڑی تعداد اس میلے میں طرح طرح کے کھانوں سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ میلے میں کلاسز کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے تاکہ لوگ منفرد حلال کھانے تیار کرنا سیکھ سکیں اس میلے کا انعقاد لندن میں اس لیے کیا گیا کیونکہ برطانیہ میں مقیم مسلم آبادی کا ایک تہائی لندن میں رہائش پذیر ہے اور یہاں حلال خوراک کا کاروبار دو لاکھ پاؤنڈ تک ہے، جب کہ مجموعی طور پر برطانیہ میں سالانہ سات لاکھ پاؤنڈ مالیت کی حلال خوراک فروخت کی جاتی ہے۔ اس میلے کے ایونٹ ڈائریکٹر نعمان خواجہ سابق ڈینٹسٹ (دانتوں کے ڈاکٹر) ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ سے چاہتے تھے کہ ڈینٹسٹری چھوڑ کر اپنا کاروبار شروع کریں لیکن اس میلے کا خیال ان کے ساتھی ڈاکٹر عمران کوثر کو آیا۔ ’ہم چاہتے تھے کہ ایک ایسے فیسٹول کا انعقاد کریں جہاں ہر چیز حلال ہو، دنیا بھر میں اسلام موجود ہے اور اس لیے طرح طرح کے حلال کھانے بنائے جاتے ہیں اور ہم نے کوشش کی ہے کہ ان تمام کو اس میلے میں پیش کیا جائے‘۔ اس میلے میں براہ راست کھانا پکانے کے فن کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور اس میں شریک مشہور باورچی جین کرسٹوفر نویلی بھی شامل ہیں۔ ’میری پرورش تمام مذاہب اور عقیدوں کے احترام کے ماحول میں ہوئی ہے، اس لیے اپنے دوستوں اور ہمسایوں کے لیے حلال کھانا تیار کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ سبزی کھانے والوں کے لیے سبزی تیار کرنا‘۔ اس کے علاوہ اس میلے میں ریستوران اور سڑکوں پر ملنے والے کھانوں کے سٹال موجود ہیں اور یہاں حلال کھانوں کے شوقین افراد کے لیے کلاسوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے تاکہ وہ کئی منفرد پکوان تیار کرنا کی ترکیبیں سیکھ سکیں۔ انیش پوپٹ کے مطابق ان کے’چوکلیٹئر‘ کے منفرد ذائقے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا 2012 میں بہترین باورچی قرار پانے والی شیلینا پرمالو کے مطابق ’یہ ایک انتہائی منفرد میلہ ہے جس میں سب کو بہترین کھانوں تک رسائی حاصل ہوئی ہے اور اس میں مذہب کی کوئی تفریق نہیں ہے‘۔ میلےکا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ لوگوں کو بتایا جا سکے کہ وہ کسی بھی اعلیٰ ریستوران سے حلال کھانا منگوا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ شرکت کنندگان کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اب برمنگھم پیلس، ڈاؤننگ سٹریٹ اور میئر ٹاؤن ہال میں مہمانوں کو حلال کھانا پیش کیا جاتا ہے لیکن منتظین کے مطابق ان کا اصل ہدف متوسط طبقے کے مسلمان ہیں جن کے برطانیہ بھر میں ریستورانوں میں جانے سے تبدیلی آ رہی ہے۔ اس میلے میں امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا سمیت دنیا بھر سے لوگوں نے دلچسپی ظاہر کی ہے اور منتظمین کے مطابق وہ اسی طرح کا اگلا میلہ امریکی شہر نیویارک میں منعقد کرنا چاہتے ہیں۔ میلے میں شامل سنِ مؤن ریستوران کے چیف شیف عبدالیاسین کے مطابق ’اس میلے نے تمام مسلمانوں کے لیے دروازے کھول دیے ہیں تاکہ وہ یہاں آ کر اپنے مذہب کی حدود میں رہتے ہوئے بہترین کھانوں سے لطف اندوز ہوں۔‘ اس میلے میں وائن بھی فروخت کی جا رہی تھی۔ اس پر وائن فروخت کرنے والے آصف چوہدری نے بتایا کہ وہ بغیر الکوحل والی وائن فروخت کر رہے ہیں۔ اس میلے نے تمام مسلمانوں کے لیے دروازے کھول دیے ہیں: عبدالیاسین ’ہمیں اعلیٰ قسم کی وائن چاہیے جسے مسلمان اپنے دوستوں کے ساتھ ملاقات کے دوران پی سکیں، اس وقت مارکیٹ میں الکوحل کے بغیر دستیاب وائن کی قلت ہے۔ اس طرح کی وائن شادی سمیت دیگر تقریبات میں استعمال ہو سکتی ہے‘۔ ’اس کی یہ اشتہاری مہم چلائی جا سکتی ہے کہ ایسی وائن جس میں الکوحل نہیں ہوتی ہے اس میں 50 فیصد کم کیلریز ہوتی ہیں اور خوبصورتی ہے کہ ’اگلے دن سر درد بھی نہیں ہوتا‘۔ اس میلے کے ایک منتظم عمران کوثر میلے میں شرکت کرنے والے افراد کی تعداد سے خوش تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ میلے کی اصل کامیابی کا اندازہ اتوار کو اس کے آخری روز ہی ہو سکے گا۔ برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں اپنی نوعیت کے پہلے حلال کھانوں کے میلے میں آپ کا واسطہ طرح طرح کے ذائقوں اور رنگوں کے پکوانوں سے پڑتا ہے، جن سے اٹھنے والی مہک انہیں چکھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ text: کہانی عموماً یوں ہوتی ہے کہ چھوٹو ایک امن پسند قبائلی یا کسان ہے۔جس کی کوئی تعلیم نہیں، شناخت نہیں۔اس کا ایک بھائی جزوقتی وارداتی ہے مگر وہ تو پولیس کے ہاتھ نہیں آتا۔ چھوٹو ہاتھ آجاتا ہے ۔پولیس اس پر ٹارچر کرتی ہے اور پرچہ کاٹ دیتی ہے اور پھر وہ ڈاکو بن جاتا ہے اور ایک دن انجام کو پہنچتا ہے۔ مگر یہ کہانی ہزار بار پٹ چکی ہے۔ چلیے پھر کوشش کرتے ہیں۔ایک عدد چھوٹو جس کی ایک بہن، بیٹی یا بیوی ہے۔کسی دن کسی بااثر بگڑے نوجوان کی اس پر نظر پڑ جاتی ہے۔ وہ عورت کو ہتھیانے کی کوشش کرتا ہے اور پھر بے بس عورت کا بے بس باپ، بھائی یا شوہر انتقام کی آگ میں اندھا ہو کر قتل، ڈاکے اور اغوا کے راستے پر چل نکلتا ہے ۔ لوگ ساتھ آتے جاتے ہیں اور کارواں بنتا جاتا ہے۔برسوں بعد کسی ایک دن خود پر ضرورت سے زیادہ اعتماد ، سازش یا بے احتیاطی کے سبب چھوٹو مارا جاتا ہے۔ زندہ رہنا بھی چاہے تو یوں نہیں رہ سکتا کہ سر پر دس بیس لاکھ روپے کا انعام ہے۔تائب اس لیے نہیں ہو سکتا کیونکہ بھانت بھانت کے سرپرستوں اور پولیس والوں کےلیے دودھ دینے والی گائے بن چکا ہے۔لہذا دودھ دیتے رہنا ہے یا پھر ذبح ہو جانا ہے۔ مگر اس کہانی میں بھی مزہ نہیں آ رہا۔ آج کے حساب سے اس میں کوئی خاص جدت ، کانسپریسی یا ایڈونچر نہیں ۔ چلیے پھر سے کوشش کرتے ہیں۔ ایک تھا چھوٹو ۔اب تک بیان کردہ کسی بھی وجہ سے وہ ایک بہت بڑا گینگ لیڈر بن گیا۔اتنا بڑا ڈان کہ دو صوبوں کے پانچ اضلاع کی ’پلس‘ سنگین وارداتوں کے چالیس پچاس مقدمات میں اس کے پیچھے ہے ۔اور وہ بھی ایسے مقدمے کہ جن میں سے کسی ایک کی سزا بھی موت یا عمر قید سے کم نہیں۔ لیکن چھوٹو جتنا بھی طاقتور ہوجائے اسے پناہ کےلیے محفوظ جگہ چاہیےاور یہ جگہ کسی مقامی بااثر کی خوشنودی سے ہی میسر آسکتی ہے۔ یہ خوشنودی تب ہی ممکن ہے جب چھوٹو اور اس بااثر میں کاروباری پارٹنر شپ ہو جائے۔ یعنی تاوان ہو کہ ڈاکہ کہ سمگلنگ ۔اس میں ایک حصہ چھوٹو اور اس کے ساتھیوں کو جگہ اور پناہ دینے والے کا لازمی ہے۔ اس کے بدلے جگہ دینے والا پشت پناہ اوپر سے آنے والے ہر انتظامی و سیاسی دباؤ کو خود پر جھیلے گا اور چھوٹو تک آنچ نہیں آنے دے گا۔ مگر چھوٹو اتنا بے وقوف بھی نہیں کہ سب انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھ دے۔اسے اچھے سے معلوم ہے کہ پشت پناہ کی طاقت بھی اپنے سے کہیں طاقتور لوگوں کی مرہونِ منت ہے ۔لہذا چھوٹو کو کسی ناگہانی یا آڑے وقت کےلیے آس پاس کے جرائمی بھائیوں اور پیشہ ور معززین سے بھی کچھ لو کچھ دو کا تعلق رکھنا ہے۔ کوئی سر پھرا افسر آجائے جو مقامی معززین کی بھی نہ سنے تو بچنے کےلیے محکمہ جاتی مخبری کا نیٹ ورک بھی بنانا ہے۔اور اس نیٹ ورک کی وقت بے وقت فرمائشوں کی بھی لاج رکھنی ہے۔ تاکہ اطلاعات، اسلحے اور افرادی قوت کی فراہمی بلا تعطل جاری رہے اور سونے کے انڈے دینے والی مغوی مرغیوں کی آمدورفت میں بھی کوئی اڑچن نہ رہے ۔ ویسے بھی ذہین کاروباری کسی سے بھی بگاڑ کے نہیں رکھتے اور یہاں تو چھوٹو کی بقا کا معاملہ ہے۔ اور پھر فلم کا کلائمکس آجاتا ہے۔ کسی بھی وجہ سے کاروباری پارٹنرز کو ایک دوسرے پر شبہہ ہونے لگتا ہے۔توازن ِ طاقت ایک بااثر لابی سے دوسری کی جانب شفٹ ہونے لگتا ہے۔ اوپر والے اپنی بقا کےلیے کچھ نہ کچھ کر دکھانے کےلیے شکار کی تلاش میں دیدے گھمانے لگتے ہیں ۔یوں دباؤ اوپر سے نیچے شفٹ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔اور سب سے نیچے ظاہر ہے چھوٹو ہی ہے۔ آخر میں چھوٹو کسی قریبی ساتھی کی مخبری یا کسی سازش کا نوالہ یا اس بااثر مقامی کی تبدیل شدہ سیاسی ترجیحات کا بکرا بن جاتا ہے جس نے کل تک چھوٹو کو ہتھیلی کے پھپھولے کی طرح سنبھال کے رکھا۔یوں چھوٹو اور اس کے ساتھیوں کا کام اتر جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد جب حالات نارمل ہو جاتے ہیں تو زندگی دوبارہ پرانے ڈھرے پر چڑھ جاتی ہے۔وہی یا اس جیسا کوئی اور مقامی بااثر ، وہی پولیس ، وہی خودغرض سیاسی شاطر ، وہی دائمی سادہ لباس والے اور انکی بدلی ہوئی ترجیحات ۔ اور ایک نئے چھوٹو کی مدد سے وہی پرانی میوزیکل چئیر کہ جس میں ہار ہمیشہ چھوٹو کا مقدر ہے ۔۔۔ کہیے یہ فلمی پلاٹ چلے گا؟ ( اگر مصالحہ کم زیادہ لگے تو حسبِ ذائقہ و ضرورت کم زیادہ کر لیجیے گا) چھوٹو کوئی ڈاکو، اغوا کار، قاتل نہیں بلکہ ایک فارمولا فلم ہے جو نام بدل بدل کے ریلیز ہوتی رہتی ہے۔ایسی اکثر فلمیں بوجوہ فلاپ ہوجاتی ہیں۔ کچھ یادگار بن جاتی ہیں۔ text: گولڈن ٹیمپل میں 30 سال قبل کی جانے والی کارروائی کی سالگرہ کے موقعے پر دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا امرتسر کے پولیس کمشنر جتندر سنگھ اولكھ نے یہ اطلاع دیتے ہوئے کہا ہے کہ شہر میں صورتِ حال قابو میں ہے۔ امرتسر میں گولڈن ٹیمپل میں آپریشن بلیو سٹار کے 30 سال مکمل ہونے پر خصوصی دعا کا اہتمام کیا گیا تھا۔ خبروں کے مطابق سکھ مذہب کے سب سے مقدس مقام میں اس بات پر جھڑپ ہوئی کہ پروگرام میں پہلے کون بولے گا۔ ٹی وی چینلوں پر جو ویڈیوز نشر ہوئی ہیں ان میں کچھ لوگوں کو ٹیمپل کی سیڑھیوں سے تلواریں لیے ہوئے اترتے اور جھگڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 1984 میں امرتسرمیں گولڈن ٹیمپل میں پناہ لینے والے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے دوران تقریباً ایک ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے اور اسے آپریشن بلیو سٹار نام دیا گیا تھا۔ امرتسر میں سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل میں دو گروپوں میں ہونے والی جھڑپ میں تین افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ text: ’نہ تو اوسان خطا ہونے والی کوئی بات ہے اور نہ ہی اس سے ہمیں فالج ہو جانا چاہیے۔‘ انھوں نے اس بات پر ضرور دیا کہ دیگر ممالک کو یورپی یونین چھوڑنے سے باز رکھنا بات چیت میں ترجیح نہیں ہونی چاہیے۔ جرمن چانسلر کا مزید کہنا تھا کہ وہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے اعلان کے بعد اس بات کے حق میں نہیں کہ اس پر جلد خروج کے لیے دباو ڈالا جائے۔ مسز میرکل نے یہ بیان جرمنی سمیت یورپی یونین کے رکن ممالک میں سے بیشتر کے وزرائے خارجہ کے ان بیانات کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے برطانیہ پر زور دیا ہے کہ وہ اس گروپ سے نکلنے کے لیے عملی اقدامات کو تیز کریں۔ خیال رہے کہ اس سے قبل جرمنی کے وزیر خارجہ فرینک والٹر سٹینمر نے برطانیہ پر زور دیا ہے کہ وہ جتنا جلدی ممکن ہو یورپی یونین سے نکل جانے کے عمل کا باقاعدہ آغاز کرے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے سنیچر کی صبح جرمنی کے دارالحکومت برلن میں یورپی یونین کے بانی رکن ممالک (جرمنی، فرانس، اٹلی، ہالینڈ، بلجیم اور لکسمبرگ) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد کیا تھا۔ فرینک والٹر سٹینمر کا کہنا تھا کہ (اگرچہ) برطانوی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک کے مستقبل کے بارے سوچیں، اسی طرح یورپی یونین کے رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اتحاد کے مستقبل کے بارے میں سوچیں۔* ان کا کہنا تھا کہ بانی ارکان کے لیے ضروری ہے کہ یورپی یونین کی شکل میں ’آزادی اور استحکام‘ کے جس منصوبے کی بنیاد انھوں نے رکھی تھی اسے بچایا جائے۔ فرینک والٹر سٹینمر کے بقول ’ہمیں جس صورتحال کا سامنا ہے اس میں نہ تو اوسان خطا ہونے والی کوئی بات ہے اور نہ ہی اس سے ہمیں فالج ہو جانا چاہیے۔‘ جرمن وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ یورپی اتحاد کے رہنماؤں کے لیے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کی نقل و حرکت، سکیورٹی اور بے روزگاری کے چیلنجوں پر توجہ دیں۔ ’ ہمیں اس سلسلے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے اور یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارے پاس تمام سوالوں کے جواب موجود ہیں، لیکن برطانیہ کے اخراج کے فیصلے کے بعد ہمارے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ ہم پریشانی میں نہ ڈوب جائیں اور کچھ بھی نہ کریں۔‘ اس معاملے میں اپنی مرضی چلانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: ژاں کلود ہنکر ادھر یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود ہنکر نے کہا ہے کہ اب برطانیہ کے لیے یہ فیصلہ کرنا ضروری ہوگیا کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ کس قسم کے تعلقات رکھنا چاہتا ہے کیونکہ برطانیہ یہ نہیں کر سکتا ہے کہ اپنی مرضی کی چیزوں میں تو شامل ہو اور باقی کو چھوڑ دے۔ جرمنی کے دارالحکومت برلن میں یورپی یونین کے چھ بانی رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے قبل ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے ژاں کلود ہنکر کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے میں اپنی مرضی چلانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا (کیونکہ) جو نکل گیا وہ نکل گیا۔‘ ’اب جو کام کرنے کا ہے وہ اس طلاق کو صاف ستھرے طریقے سے مکمل کرنا ہے کیونکہ شہریوں اور کاروباری دنیا کو اس فیصلے کی قانونی حیثیت معلوم ہونی چاہیے۔‘ بانی رکن ممالک کے اجلاس سے پہلے فرانس کے وزیر خارجہ نے بھی یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کے عمل کو جلد مکمل کرنے پر زور دیا۔ اجلاس کے لیے روانہ ہونے سے پہلے ژاں مارک ایرالت نے کہا کہ یہ بات یورپی یونین اور برطانیہ، دونوں کے مفاد میں ہے کہ برطانیہ کے ساتھ اتحاد سے نکلنے کے فیصلے پر جلد از جلد بات کی جائے کیونکہ اتحاد میں شامل دیگر 27 ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس اتحاد کو ایک نیا مقصد فراہم کریں ورنہ یہ اتحاد عوامیت کی نظر ہو جائے گا۔ ہماری ساری توجہ اس اتحاد کو لچکدار بنانے پر مرکوز نہیں ہونی چاہیے: فرانسیسی وزیر خارجہ فرانسیسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اجلاس میں ہماری ساری توجہ جرمنی اور فرانس کے سرکاری افسران کے تجویز کردہ اس خاکے کو حتمی شکل دینے پر نہیں صرف ہونی چاہیے ’جس میں رکن ممالک کو ’ایسی فضا‘ مہیا کی جائے کہ وہ جتنی شمولیت کرنا چاہتے ہیں کریں اور جب چاہیں اتحاد کے معاملات میں شامل نہ ہوں۔‘ اگلے ہفتے یورپی یونین میں شامل ممالک کے سربراہی اجلاس میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرن کے شمولیت کے حوالے سے فرانسیسی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ منگل کو اس اجلاس میں ’ڈیوڈ کیمرن پر شدید دباؤ ہوگا کہ وہ برطانیہ کے اخراج کو حتمی شکل دیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ہم 27 ارکان کو متفق ہونا پڑے گا کہ ایک طے شدہ تاریخ کے بعد برطانیہ کے اخراج والا معاملہ مکمل ہو جائے گا، لیکن مسٹر ایرالت نے یہ نہیں کہا کہ منگل کے اجلاس میں ایسی کوئی تاریخ طے کر دی جائے گی۔ واضح رہے کہ یورپی رہنما برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین کو جمعرات کو ہونے والے تاریخی ریفرینڈم کے بعد ’علیحدگی‘ کے مضمرات پر بحث کے لیے منگل اور بدھ کو سر جوڑ کر بیٹھیں گے۔ برطانوی عوام کی اکثریت نے یورپی یونین سے الگ ہونے کے حق میں ووٹ دیا ہے، جب کہ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ وہ اکتوبر میں عہدے سے الگ ہو جائیں گے۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کی خبروں کے بعد دنیا بھر میں بازارِ حصص میں مندی دیکھنے میں آئی اور برطانوی پاؤنڈ عشروں کی ریکارڈ سطح تک گر گیا۔ ڈونلڈ ٹسک نے کہا تھا کہ اس ’مبینہ طلاق کے عمل‘ پر برطانیہ کے علاوہ یورپی یونین کے تمام ملک بدھ کو بات چیت کریں گے۔ ادھر سنیچر کو فرانس کے مرکزی بینک کے صدر نے خبردار کیا ہے کہ اگر برطانیہ یورپ کی مشترکہ مارکیٹ میں شامل نہیں رہےگا تو برطانوی بینکوں کے لیے یہ ممکن نہیں رہے گا وہ اپنی سرحد سے باہر یورپی بینکنک کے مشترکہ نظام میں آزادنہ حصہ لے سکیں گے۔ سکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر (وزیر اعلیٰ) نکولا سٹرجن کا کہنا ہے کہ وہ برسلز میں یورپی اتحاد کے صدر دفتر سے ’فوری بات چیت‘ کے لیے رابطہ کرنے جا رہی ہیں تاکہ وہ برطانیہ کے اخراج کے فیصلے کے بعد یورپی اتحاد میں سکاٹ لینڈ کی شمولیت کو بچا سکیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ یورپی یونین کو اپنے بلاک میں سے برطانیہ کے خروج کے بعد اس کے ساتھ مذاکرات میں کسی بھی طور پر نامناسب رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ text: عراق اور افغانستان میں جاری شورش پسندانہ اقدامات سے ان مشتبہ افراد کے تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ افراد ایسے ’محفوظ علاقے‘ قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں سے وہ دوسری قوموں پر حملے کرسکیں۔ ریڈیو پر قوم سے ہفتہ وار خطاب میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ’برطانیہ میں دہشت گردی کا منصوبہ اس بات کی یاد دہانی تھا کہ دہشت گرد اب تک ہمارے لوگوں کو قتل کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔‘ بش کا کہنا تھا کہ دہشت گرد جہازوں میں سوار معصوم مردوں، عورتوں اور بچوں کوہلاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ عراق اور افغانستان میں شہریوں اور امریکی حکام پر حملے کرکے انہیں قتل کرتے ہیں۔ لبنان میں جان بوجھ کر شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور وہ اپنے مطلق العنانی نظریات دنیا بھر میں پھیلانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’برطانیہ میں دہشت گردی کا مبینہ منصوبہ، جس کے بارے میں برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ مشروبات کی بوتلوں میں موجود مائع دھماکہ خیز مواد کی مدد سے امریکہ جانے والے مسافر طیاروں کو تباہ کرنا تھا، اس بات کو مزید تقویت دیتا ہے کہ ہمارا مقابلہ انتہائی چالاک دہشت گردوں سے ہے جو تواتر کے ساتھ اپنی چالیں بدل رہے ہیں‘۔ امریکی حکام کے مطابق اگر مسافر طیاروں کو تباہ کرنے کی اس سازش کو بروقت بے نقاب نہیں کیا جاتا تو اس کے نتیجے میں گیارہ سمتبر کو واشنگٹن اور نیویارک پر حملوں سے بھی کہیں زیادہ تباہی ہوتی۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد سے امریکہ دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ بش کا کہنا تھا کہ امریکی شہریوں کے خلاف دہشت گردی کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے خفیہ اداروں کی کوششیں اور عراق اور افغانستان میں جاری فوجی آپریشن اسی جنگ کا ایک حصہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح اسرائیل کی لبنان کے ساتھ لڑائی بھی دشہت گردی کے خلاف جنگ ہے۔ امریکی صدر جارج بش کا کہنا ہے کہ حزب اللہ اور برطانیہ میں مسافر طیارے تباہ کرنے کی مبینہ سازش میں ملوث لوگوں کے درمیان قدرِ مشترک اس ’نظریۂ مطلق العنانیت‘ پر یقین ہے جسے وہ پھیلانا چاہتے ہیں۔ text: صوبے کے نائب گورنر نے بی بی سی کو بتایا کہ لڑائی میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب وہ اور سو کے قریب سپاہی جنگجوؤں کے گھیرے میں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اس لڑائی میں سولہ طالبان اور تین سپاہی ہلاک ہوگئے ہیں۔ حملہ برطانوی سیکریٹری دفاع جان ریڈ کے اس بیان کے محض چند روز بعد ہی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تین ہزار تین سو برطانوی فوجی تعمیر نو کے کاموں میں حصہ لینے کے لیے ہلمند بھیجے جائیں گے۔ نائب گورنر حاجی ملا میر نے بتایا کہ طالبان کے گھیرے سے انہیں اور فوجی دستوں کو رہائی باہر سے مدد کو آنے والے دوسو سپاہیوں نے دلائی ۔ انہوں نے کہا کہ لڑائی کا آغاز اس وقت ہوا کہ جب ایک مقامی پولیس کمانڈر طالبان فورسز کے تعاقب میں ہلمند کے سنگیر ضلع سے صوبائی دارالحکومت لشکرگاہ کی طرف آئے۔ ان کے مطابق دونوں طرف سے فائرنگ مقامی وقت کے مطابق سات بجے شروع ہوئی۔ میر نے بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی پولیس کمانڈر کی مدد کو آئے تھے لیکن جلد ہی انہیں محسوس ہوا کہ طالبان فورسز نے انہیں گھیر کر چاروں اطراف سے حملے شروع کرد یے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شہری جانوں کی ہلاکت کے خطرے کے پیش نظر ان کی جانب سے لڑائی روک دی گئی۔ اس ماہ کہ آغاز میں ایک امدادی افغان کارکن ہلمند میں مشتبہ طالبان کارکنوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند میں فوجی دستوں اور طالبان جنگوؤں کے درمیان ہونے والی لڑائی میں سولہ طالبان اور تین فوجی ہلاک ہوگئے ہیں۔ text: براک اباما کا کہنا ہے کہ کہ دولت اسلامیہ کے خلاف شدت سے کاروائی کی جاۓ گی امریکی صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنا آیا ہے جب گھنٹوں پہلے امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں نے دولت اسلامیہ کے خلاف پہلی فضائی کارروائی کی۔ شام سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق شام میں کیے گئے حملوں میں دولت اسلامیہ کے ستّر جبکہ القاعدہ سے منسلک پچاس شدت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔ امریکی صدر نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان حملوں میں سعودی عرب، عرب امارات، اردن، بحرین، اور قطر نے یا تو حصہ لیا اور یا امریکہ کو ان ممالک کا تعاون حاصل تھے۔ براک اوباما کا کہنا تھا کہ امریکہ کو فخر ہے کہ ان ممالک کے ساتھ مل کر دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ محکمۂ دفاع کے ترجمان ریئر ایڈمرل جان کربی کے مطابق پیر کی شام کی جانے والی کارروائی میں جنگی طیارے اور ٹاماہاک میزائل استعمال کیے گئے ہیں۔ اس سے قبل پینٹاگون کے ترجمان نے نے کہا تھا ’چونکہ یہ کارروائیاں جاری ہیں اس لیے ہم اس وقت مزید معلومات فراہم نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ شام میں کارروائی کرنے کا فیصلہ امریکی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل لائیڈ آسٹن نے اس اختیار کے تحت کیا جو انھیں کمانڈر ان چیف یعنی امریکی صدر نے دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان حملوں میں شام کے شمال مشرقی شہر رقہ کو نشانہ بنایا گیا ہے جو دولتِ اسلامیہ کا ہیڈکوارٹر ہے۔ شامی حکومت کی جانب سے سرکاری ٹی وی پر بھی کہا گیا ہے کہ اسے امریکی حکام نے رقہ کو نشانہ بنانے کے بارے میں مطلع کیا تھا۔ شام میں حقوقِ انسانی کی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ان حملوں میں کم از کم 20 شدت پسند مارے گئے ہیں۔ شام میں کارروائی میں ٹاماہاک میزائل بھی استعمال کیے گئے ہیں امریکی صدر براک اوباما نے 11 ستمبر کو دولتِ اسلامیہ کے خلاف امریکی کارروائی کا دائرہ عراق سے بڑھا کر شام تک پھیلانے کا اعلان کیا تھا۔ انھوں نے دولتِ اسلامیہ کو تباہ و برباد کر دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا ملک شام میں بھی دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائی سے نہیں ہچکچائے گا اور امریکہ کو دھمکی دینے والے کسی بھی گروپ کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ امریکی طیارے اگست سے اب تک عراق میں دولتِ اسلامیہ کے ٹھکانوں پر 190 حملے کر چکے ہیں۔ 19 ستمبر کو ان حملوں میں فرانسیسی طیارے بھی شامل ہوگئے ہیں جو اس سے قبل نگرانی کی کارروائیاں سرانجام دے رہے تھے۔ روس امریکہ کی جانب سے شام میں فضائی حملوں کے حق میں نہیں اور اس نے خبردار کیا ہے کہ جنگجوؤں کے خلاف کسی قسم کی امریکی فوجی کارروائی بین الاقوامی قوانین کی سخت خلاف ورزی ہو گی۔ روسی وزارت خارجہ کہہ چکی ہے کہ اقوام متحدہ کی حمایت حاصل کیے بغیر کسی قسم کی کارروائی کو کھلی جارحیت تصور کیا جائے گا۔ دولتِ اسلامیہ اس وقت شام اور عراق میں ایک بڑے علاقے پر قابض ہے جہاں اس نے خودساختہ خلافت قائم کی ہے۔ اس کے ارکان نے حال ہی میں دو امریکی اور ایک برطانوی شہری کو گلے کاٹ کر ہلاک کیا ہے۔ دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائی میں امریکہ کو دس عرب ممالک سمیت تقریباً 40 ممالک کا ساتھ حاصل ہے جنھوں نے امریکی قیادت میں ایک منصوبے پر دستخط کیے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت متعدد عرب ممالک نے دولتِ اسلامیہ کے خلاف فضائی کارروائیوں کا حصہ بننے کی بھی پیشکش کی ہے۔ امریکی صدر براک اوباما نے دولت اسلامیہ کے خلاف فضائی حملوں میں عرب ممالک کے تعاون کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ’جنگ صرف امریکہ کی نہیں ہے‘۔ text: ہجوم نے ان خاتون پر قرآن جلانے کا الزام لگایا تھا تاہم تفتیشی اہلکار کا کہنا ہے کہ اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں مل سکے فرخندہ نامی خاتون کو ہجوم نے ڈنڈے اور پتھر مار کر قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کو گاڑی سے باندھ کر گھسیٹا اور بعد میں جلا دیا تھا۔ مظاہرین نے انصاف کا مطالبہ کیا اور ایک یادگاری پودہ بھی لگایا۔ فرخندہ کے خاندان کے مطابق پولیس نے فرخندہ کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ فرخندہ کے والد کا کہنا ہے کہ جب انھیں مارا جارہا تھا تو پولیس ایک جانب کھڑی رہی۔ گذشتہ ہفتے پیش آنے والے اس واقعے کے بعد 13 پولیس اہلکاروں کو ان الزامات کے بعد معطل کر دیا گیا تھا کہ انھوں نے اس خاتون کو بچانے کی بالکل کوشش نہیں کی تھی۔ عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ ہجوم نے ان خاتون پر قرآن جلانے کا الزام لگایا تھا تاہم تفتیشی اہلکار کا کہنا ہے کہ اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں مل سکے۔ افغان وزارتِ داخلہ کے اعلی اہلکار جنرل محمد ظاہر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’گذشتہ رات میں نے تمام دستاویز اور ثبوتوں کا دوبارہ جائزہ لیا ہے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے ثابت ہو کہ فرخندہ نے قرآن جلایا تھا ‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’فرخندہ بالکل بے گناہ تھی۔‘ اس سے پہلے دعویٰ کیا گیا تھا کہ فرخندہ کا دماغی توازن درست نہیں تھا لیکن اس کے بھائی نے خبر رساں ادارے روائٹرز سے بات کرتے ہوئے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی بہن مذہبی استانی بننے کی تربیت حاصل کر رہیں تھیں۔ فرخندہ کے بھائی کا مزید کہنا تھا کہ ان کی موت کی خبر سننے کے بعد باقی خاندان کی حفاظت کے پیشِ نظر ان کے والد نے فرخندہ کو ذہنی مریض قرار دیا تھا۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں خاتون کی ہلاکت کے خلاف سینکڑوں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ text: محمد احمد کو السلام جہاز کے ڈوبنے کے بیس گھنٹے بعد کھلے سمندر سے نکالا گیا ہے اور اسے کے والد ، تین سالہ بہن رحما، والدہ اور ایک چند ماہ کا بھائی ان آٹھ سو افرادکی فہرست میں شامل ہے جن کے بارے میں مصری حکام کا کہنا ہے کہ وہ ہ لاپتہ ہیں۔ محمد احمد کے چچا ہارون محمد کا کہنا ہے کہ ان کے پانچ سالہ بھتیجے نے انہیں بتایا ہے کہ جہاز آگ لگنے کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا۔ محمد احمد کی کشتی ڈوب گئی جس میں اس کی تین سالہ بہن رحما بھی سوار تھی۔ محمد احمد اس کے بعد کوئی چیز یاد نہیں ہے۔ محمد احمد کا والد مکہ میں ایک سکول میں پڑھاتے تھے اور مڈ ٹرم کی چھٹیوں میں میں بچوں کے ساتھ واپس مصر جا رہے تھے۔محمد احمد کو ابھی تک یہ نہیں پتہ کہ ان کی امی ابو اور بہن بھائی کہاں ہیں۔ سینتیس سالہ محمد شریف مصطفیٰ بھی ان خوش قسمت لوگوں میں ہیں جن کو بچا لیا گیا ہے۔ محمد شریف مصطفیٰ نے بتایا کہ جب جہاز کے نچلے حصے میں آگ لگ گئی تو مسافر جہاز کے ڈیک پر اکھٹے ہو گئے۔ محمد شریف نے کہا کہ جہاز کا عملے نے کسی مسافر کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی حتکہ ان کو لائف جیکٹ پہننے کے لیے کو ئی مدد نہیں کی گئی۔ محمد شریف مصطفیٰ نے جو مدینہ میں انگلش ٹیچر ہیں، بتایا کہ جب ان کو یقین ہو گیا کہ جہاز ڈوب جائے گا تو انہوں نے لائف جیکٹ پہن کر سمندر میں چھلانگ لگا دی۔ خوش قسمتی محمد شریف مصطفیٰ ایک کشتی میں جا گرے جس میں پہلے سے ہی پندرہ لوگ سوار تھے۔ جس کشتی نے محمد شریف مصطفیٰ کی جان بچائی اس میں بھی سوراخ ہو چکے تھے اور اس پر سوار تمام لوگوں نے مل کر اس کے سوراخ بند کیے اور جوتوں کی مدد سے اسے اس وقت تک چلاتے رہے جب تک ایک مصری ہیلی کاپٹر نے ان کو دیکھ لیا اور پھر ان کی بچانے کے لیے کشتی پہنچ گئی۔ محمد شریف مصطفیٰ کو جہاز کمپنی کے مالکوں پر سخت غصہ ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ ان ’مجرموں‘ کو سزا دی جائے۔ پانچ سالہ محمد احمد نے اپنے والد احمد کو آخری بار اس وقت دیکھا جب بحیرہ احمر میں ڈوبنے والے جہاز میں آگ لگنے کے بعد اس نے محمد اور اس کی تین سالہ بہن کو ایک چھوٹی کشتی میں بٹھایا اور کہا کہ تم میرا انتظار کرو۔ text: دونوں جماعت کے درمیان زبردست انتخابی معرکہ متوقع ہے بن یامین نیتن یاہو کو جنہیں ان کے حامی ایک عالمی سیاست دان کے طور پر دیکھتے ہیں یا جنھیں ایک اسرائیلی اخبار نے گزشتہ ہفتے ایک سابق فرنیچر فروش کہہ کر رد کر دیا تھا اس ہفتے کے اختتام پر اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں معلوم ہو جائے گا۔ منگل کو ہونے والے عام انتخابات کا اعلان ان کے اس فیصلے کے بعد کیا گیا تھا کہ ان کی اتحادی حکومت چل نہیں پا رہی۔ یہ گزشتہ دو برس میں ہونے والے دوسرے نصف مدتی انتخابات ہیں۔ اسرائیل انتخابات یا نتین یاہو کے لیے ریفرنڈم ان کا ارادہ ایک نئے اتحاد کے ساتھ اقتدار میں جلد واپس آنے کا تھا۔ انتخابات میں ووٹ ڈالے جانے سے چند دن قبل ایسا لگ رہا تھا کہ یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ اسحاق ہرزوگ کی لیبر پارٹی اور سابق وزیر خارجہ زیپی لیونی کی اسرائیل ہیت نو جماعت کے درمیان صیہونی اتحاد (زاونسٹ یونین) کے نام سے بنے والے سیاسی اتحاد کو نیتن یاہو کی جماعت لیکود پارٹی پر واضح برتری حاصل ہونے کی بات کی جا رہی ہے۔ لیکود جماعت کی انتخابی مہم نتین یاہو کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے اس کے باوجود اس کا مطلب یہ نہیں کہ نیتن یاہو کی سیاست ختم ہوگئی ہے۔ ان انتخابات میں ان کی جماعت کو اکثریت نہ بھی حاصل ہوئی تو بھی اسرائیل کے صدر روون ریولن اگر دوسری جماعتوں کے سربراہان سے گفت و شیند کے بعد اس نتیجے پر پہنچیں کہ نیتن یاہو ہی حکومت بنا سکتے ہیں تو وہ انھیں حکومت تشکیل دینے کی دعوت دے سکتے ہیں۔ لیکود جماعت کی حمایت بے شک کم ہو رہی ہے لیکن ایسی بہت سے دوسری جماعتیں ہیں جن میں اسرائیل بیت نو، ہیت یہودی اور کولانو شامل ہیں جو نظریاتی طور پر لیکود سے بہت قریب ہیں۔ ان تینوں جماعتوں کے سربراہان، ایوگدر لائبرمین، نفتالی بینت اور موشے کالون تینوں ہی نیتن یاہو کے سائے تلے بڑھے ہیں اور ماضی میں ان کی کابینہ کا حصہ رہے ہیں۔ اگر لیکود پارٹی ان انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھا نہیں پاتی تب بھی دائیں بازو کی جماعتیں اقتدار میں آ سکتی ہیں لیکن وہ نیتن یاہو کے لیے بڑی ہزیمت کا باعث ہوگا۔ انتخاب سے قبل رائے عامہ کے جائزوں میں صیہونی اتحاد کو واضح اکثریت حاصل ہے۔ اس سے بدترین صورت حال یہ ہو سکتی ہے کہ دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں میں اس قدر کم فرق ہو کہ صدر ریولن کو یہ فیصلہ کرنا پڑے کے دونوں دھڑے کی جماعتیں مل کر قومی حکومت قائم کریں۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نیتن یاہو اور اسحاق دونوں آدھی آدھی مدت کے لیے وزیر اعظم کے عہدے پر فائر رہیں گے۔ یہ لیکود جماعت کے لیے کڑوی گولی ثابت ہو گی کیونکہ وہ کہہ چکی ہے کہ بائیں بازو کی حکومت قیامت خیز ڈرونا خواب ثابت ہو گی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ نیتن یاہو بھی شکست کے خوف کا شکار ہو تے نظر آ رہے ہیں۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ سیاسی دھارے میں یہ موڑ کب آیا اور یقینی طور پر کوئی ایک واقعہ یا کوئی شخص اس کا باعث نہیں بنا۔ کوئی براہ راست سیاسی مناظرہ بھی نہیں ہوا۔ تبدیلی کا ریفرنڈم اسرائیل میں انتخابات سے قبل نوے دن انتخابی مہم کے لیے دیے جاتے ہیں لیکن اس مرتبہ انتخابی مہم میں گرما گرمی ذرا دیر سے آئی۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر آپ لیکود پارٹی کے وزیر ہیں تو یہ صورت حال بڑی دلچسپ ہوتی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو پر یہ نتقید کی جا رہی ہے کہ وہ عوامی مناظروں میں اپنے مخالفین کا سامنا نہیں کر رہے اور اپنی انتخابی مہم میں مہنگائی جیسے مسائل پر بات نہیں کر رہے۔ جو بھی کوئی وزیر اعظم بنے گا اسے چھوٹی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا ہو گی۔ لیکود پارٹی کی انتخابی مہم میں نیتن یاہو کی شخصیت اس قدر چاہی ہوئی ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ صدارتی انتخاب ہوں۔ حزب اختلاف کے رہنما اسحاق ہرزوگ نے کہا یہ انتخاب بہت سے مسائل پر جو اسرائیل کے عوام کے لیے تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں ریفرنڈم ثابت ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ یہ حقیقت جو لوگ بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسرائیل کی جمہوریت ایک بہت متحرک نظام ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’ہاں یہ ریفرنڈم ہے کہ کیا ہم نیتن یاہو ہی وزیر اعظم رہیں گے یا تبدیلی آئے گی جس کا میں نمائندہ ہوں۔‘ رواں ہفتہ اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کی طویل سیاسی زندگی کا فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ text: گزشتہ دو ہفتوں کے دوران طالبان مخالف امن کمیٹیوں کے رہنماؤں اور قبائلی مشران پر حملوں میں تیزی دیکھی جارہی ہے اور اس سلسلے می پانچ حملے کیے گئے ہیں جس میں اب تک آٹھ کے قریب افراد مارے جاچکے ہیں باجوڑ کی پولیٹیکل انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ حملہ صدر مقام خار سے تقریباً دس کلومیٹر دور کوثر کے علاقے میں ہوا۔ انھوں نے کہا کہ قبائلی مشران خار کی جانب جا رہے تھے کہ ان کی گاڑی کو سڑک کے کنارے ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا گیا۔ اہلکار کے مطابق اس حملے میں گاڑی کا ڈرائیور ہلاک اور دونوں مشران اور ایک بچی زخمی ہوگئے۔ زخمیوں کو ایجنسی ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ مقامی صحافیوں نے بی بی سی کو بتایا کہ باجوڑ ایجنسی میں حالیہ دنوں میں حکومت کے حامی قبائلی مشران اور سکیورٹی فورسز پر حملوں میں تیزی آرہی ہے جس سے علاقے میں خوف و ہراس کی فضا پائی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان واقعات کے بعد سکیورٹی فورسز نے اس ضمن میں 14 کے قریب افراد کو گرفتار کیا ہے جن کے بارے میں شک ہے کہ وہ ان حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ خیال رہے کہ افغان سرحد سے ملحق باجوڑ ایجنسی میں گذشتہ دو ہفتوں کے دوران طالبان مخالف امن کمیٹیوں کے رہنماؤں اور قبائلی مشران پر پانچ حملے کیے گئے ہیں جس میں اب تک آٹھ افراد مارے جا چکے ہیں۔ ان حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیمیں تحریکِ طالبان پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان جماعت الحرار کی جانب سے وقتاً فوقتاً قبول کی جاتی رہی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ باجوڑ ایجنسی میں چند سال پہلے فوج کی طرف سے کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن کے بعد علاقے کو شدت پسندوں سے تقریباً صاف کر دیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ باجوڑ کے بیشتر شدت پسند مبینہ طور پر سرحد پار افغان علاقوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں جہاں سے وہ سکیورٹی فورسز پر حملے بھی کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں حکومت کے حامی قبائلی رہنماؤں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے اور پیر کو ہونے والے حملے میں دو قبائلی مشران زخمی جبکہ ان کا ڈرائیور ہلاک ہوگیا ہے۔ text: دبلے پتلے جسم کے مالک شیخ یاسین کی نظر بھی انتہائی کمزور تھی اور وہ انتہائی دھیمی آواز میں گفتگو کیا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ تمام فلسطینیوں کی امیدوں کا مرکز تھے جو اس تصور سے مایوس ہو چکے ہیں کہ امن ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی لا سکتا ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں بھی جب ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تو ہزاروں پُرجوش فلسطینی انتقام انتقام کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے اس واقعے میں حملہ آور انہیں زخمی کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اسرائیل، خاص طور پر اسرائیل کی موجودہ حکومت ان سے شدید نفرت کااظہار کرتی رہی ہے۔ اسرائیلی وزیرانہیں فلسطینیوں کا اسامہ بن لادن قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’ان کے ( شیخ احمد یاسین) ہاتھ ہزاروں اسرائیلی عورتوں اور بچوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے، اور ان کے قتل سے دنیا کو ایک بد ترین قصائی سے نجات مل گئی ہے ۔‘ بچپن میں ایک حادثہ کے نتیجہ میں وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے جس کے بعد انہوں نے اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے لئے وقف کر دی تھی۔ انہوں نے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں تعلیم حاصل۔ قاہرہ اس وقت ’اخوان المسلمون‘ کا مرکز تھا۔ یہ دنیائے عرب کی پہلی اسلامی سیاسی تحریک تھی۔ یہیں پر ان کا یہ عقیدہ راسخ ہوتا چلا گیا کہ فلسطین اسلامی سرزمین ہے اور کسی بھی عرب رہنما کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس کے کسی بھی حصہ سے دستبردار ہو۔ اگرچہ فلسطینی انتظامیہ سمیت عرب رہنماؤں سے ان کے تعلقات استوار رہے تاہم ان کا یہ راسخ عقیدہ تھا کہ ’نام نہاد امن کا راستہ امن نہیں ہے اور نہ ہی امن جہاد اور مزاحمت کا متبادل ہوسکتا ہے۔‘ شیخ یاسین کو سب سے پہلے سن انیس سو ستاسی میں عالمی شہرت ملی جب وہ پہلے انتفاضہ کے موقع پر سامنے آئے۔ سن انیس سو نواسی میں اسرائیلی فوج سے تعاون کرنے والے فلسطینیوں کے قتل کا حکم دینے کی پاداش میں اسرائیل نے انہیں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ اگرچہ سن ستانوے میں انہیں ان دو اسرائیلی ایجنٹوں کے بدلے رہا کر دیا گیا تھا جن پر اردن میں فلسطینی رہنماؤں کو قتل کرنے کا الزام تھا تاہم اسیری کے ان دنوں میں ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور وہ فلسطین کی جہادی مزاحمت کی علامت بن گئے۔ وہ اردن میں ہونے والی عقبہ سربراہ ملاقات اور مذاکرات کے نتائج سے بھی مطمعئن نہیں تھے۔ اس ملاقات میں امریکہ، اسرائیل اور فلسطینی رہنماؤں نے ایک دوسرے سے ملاقاتیں کی تھیں اور اس سربراہ کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں فلسینی وزیراعظم محمود عباس نے تشدد کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ شیخ احمد یاسین کی عمر سڑسٹھ برس تھی۔ وہ حماس کے بانی اور روحانی پیشوا تھے۔ text: ان افراد کو بدھ کو کچھ افراد پولیس کے یونیفارم میں اغواء کرکے لے گئے تھے۔ عراقی وزارت داخلہ کے حکام نے اس معاملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے اور اس آپریشن کو ’دہشت گردی کے عمل‘ کا نام دیا ہے۔ جمعرات کو حکام نے بتایا کہ سکیورٹی کمپنی ’الرفاوید‘ کے ملازمین کو بغداد کے زیونا علاقے سے اغواء کیا گیا اور وہ اس بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں۔ اغواء ہونے والے بعض ملازمین صدام دور میں عراقی سکیورٹی فورسز کے افسران رہے ہیں۔ پولیس کمانڈوز کے سربراہ جنرل راشد فلاح نے اس واقعے کے پیچھے فوجی دستوں کے ملوث ہونے کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو وزارت داخلہ نے ان افراد کی گرفتاری کے کوئی احکامات جاری نہیں کیے‘۔ وزارت داخلہ کے نائب وزیر علی غالب کا کہنا ہے کہ حکام اس بارے میں تمام امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم بڑے پیمانے پر اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں‘۔ اغواء کا یہ واقعہ اس وقت پیش آیا ہے جب عراق کے وزیر داخلہ بیان جبر نے ملک میں تیزی سے بڑھتی نجی سکیورٹی کمپنیوں پر کنٹرول سخت کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ اس بارے میں ایک اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان افراد کے اغواء کے پیچھے کہیں ملک میں سرگرم ملیشیا کا ہاتھ نہ ہو۔ اس سے قبل ایک اور واقعہ میں مغربی بغداد میں ایک منی بس سے اٹھارہ لاشیں برآمد ہوئی تھیں جنہیں یا تو گولی مار کر یا پھر گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا تھا۔ سمارا میں 22 فروری کو ایک شیعہ مسجد پر حملے کے بعد سے عراق میں فرقہ وارانہ فسادات میں کافی تیزی آگئی ہے تاہم ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ان حالیہ ہلاکتوں کا تعلق بھی فرقہ وارانہ کشیدگی سے ہے۔ عراق میں ایک نجی سکیورٹی ادارے کے سربراہ سمیت اغواء ہونے والے پچاس افراد کی قسمت کے بارے میں عجیب الجھن (کنفیوزن) پیدا ہو گئی ہے۔ text: یانومامی جنوبی وینیزویلا میں دریائے اورینوکو کے طاس میں اور شمالی برازیل کی رورائما ریاست میں کاتریمانی دریا کے آس پاس رہتے ہیں۔ یہ لوگ چھوٹے پیمانے پر زراعت کے لیے پودے اور درخت جلا کر زمین صاف کرتے ہیں، شکار کرتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے نیم مستقل دیہات میں رہتے ہیں۔ سوسی کوریہانا کی 1972 سے 1974 کے درمیان انفراریڈ فلم سے لی گئی تصویر اجتماعی گھر 'ملوکا' کی 1976 میں دریائے کاتریمانی پر کیتھولک مشن کے قریب انفراریڈ فلم سے لی گئی تصویر اندوخر کی پیدائش 1931 میں سوئٹزرلینڈ میں ہوئی اور وہ رومانیہ کے علاقے ٹرانسلوینیا میں پلی بڑھیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران ہنگری سے تعلق رکھنے والے ان کے یہودی والد کو داخاؤ کے حراستی مرکز میں بھیج دیا گیا جہاں وہ اپنے زیادہ تر رشتے داروں کے ساتھ قتل کر دیے گئے۔ اندوخر اپنی والدہ کے ساتھ سوئٹزرلینڈ اور پھر امریکہ فرار ہوگئیں جس کے بعد وہ 1955 میں بالآخر برازیل میں سکونت پذیر ہوگئیں جہاں انھوں نے فوٹوجرنلسٹ کے طور پر اپنا کریئر شروع کیا۔ انتونیو کوریہانا 1972 سے 1976 کے درمیان لی گئی اس تصویر میں روایتی نشہ آور مادے 'یاکوانا' کے زیرِ اثر۔ یانومامی برادری کے شامان مقامی درخت ویرولا کے تنے سے نکالے جانے والے سفوف یاکوانا کا استعمال خواب کی سی کیفیت میں داخل ہونے کے لیے کرتے ہیں اپنی ابتدائی تصاویر میں انھوں نے عکس منتشر کرنے اور رنگوں کو مزید گہرا کرنے کے لیے انفراریڈ فلم، لینس پر پیٹرولیئم جیلی اور روشنیوں کی تکنیکوں کا استعمال کیا۔ 1976 میں برازیل کی رورائما ریاست میں انفراریڈ فلم سے لی گئی اس تصویر میں یانومامی برادری کی جانب سے مردے جلائے جانے کے بعد راکھ محفوظ کرنے کی جگہ دکھائی گئی ہے اور اس کے علاوہ انھوں نے یانومامی برادری کی شامانی ثقافت کی عکس بندی کے لیے دستاویزی فلموں کا روایتی سٹائل اپنانے کے بجائے اسے ایسے رنگ میں پیش کیا جیسے یہ کسی اور ہی دنیا سے تعلق رکھتی ہو۔ جب یانومامی برادری کو ہجرت کرنی ہو، کسی وبا سے چھٹکارہ پانا ہو یا ان کا کوئی اہم رہنما ہلاک ہوجائے تو وہ ’ملوکا‘ کہلانے والے ان اجتماعی گھروں کو آگ لگا دیتے ہیں۔ 1976 میں انفراریڈ فلم سے لی گئی تصویر 1974 میں یانومامی برادری کے ارکان کاتریمانی کے علاقے میں برازیل کی فوجی حکومت کی جانب ایمازون کے خطے میں شروع کیے گئے ہائی وے منصوبے سے اس خطے میں جنگلات کی کٹائی بھی ہوئی تو ماحول کے لیے نقصان دہ زراعتی پروگرام بھی شروع ہوئے۔ 1976 میں خسرے کے شکار نوجوان وکاتھا کا علاج کیا جا رہا ہے۔ اس کام میں برادری کے شامانوں اور کیتھولک مشن کے ڈاکٹروں نے حصہ لیا اور غیر مقامی لوگوں سے زیادہ تعلق کی وجہ سے یانومامی افراد کو وہ بیماریاں لگنی شروع ہوئیں جن کے خلاف ان کی قوتِ مدافعت نہیں تھی۔ نتیجتاً ان کی دو پوری برادریاں ختم ہوگئیں۔ تصویر میں نظر آنے والے یانومامی شخص کی طرح برادری کے کئی لوگوں نے کاتریمانی میں 1975 میں نارتھ پیریمیٹر ہائی وے کی تعمیر میں کام کیا اس صورتحال نے اندوخر کے دل میں یورپ میں نسل کشی کی یاد تازہ کر دی اور 1978 میں وہ یانومامی کے آبائی علاقے کو محفوظ قبائلی علاقہ قرار دینے کی سیاسی مہم میں شامل ہوگئیں۔ انھوں نے اپنا آرٹ پراجیکٹ چھوڑ کر اپنی فوٹوگرافی کو یانومامی گروہ کے بارے میں آگاہی پھیلانے اور ان کی حفاظت کے مقصد کے لیے وقف کر دیا۔ برازیل میں ان کی زمینوں کو بالآخر 1992 میں محفوظ علاقہ قرار دے کر یانومامی پارک کا نام دیا گیا۔ 1976 میں لیا گیا ایک پورٹریٹ کلاڈیا اندوخر کی تصویری نمائش ’دی یانومامی سٹرگل‘ کی پیرس میں فاؤنڈیشن کاختیر میں 10 مئی 2020 تک دکھائی جائے گی۔ تمام تصاویر کلاڈیا اندوخر کی ملکیت ہیں، بشکریہ فاؤنڈیشن کاختیر پانچ دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے تک سوئس برازیلی فوٹوگرافر کلاڈیا اندوخر نے اپنی زندگی کا مقصد برازیل کے اصل مقامی باشندوں کے سب سے بڑے گروہ یانومامی کی فوٹوگرافی اور ان کی حفاظت کرنا بنا لیا ہے۔ text: آئی پی ایل سیزن دس کی فاتح ممبئی انڈیئنز کی ٹیم اس سے قبل کولکتہ نائٹ رائیڈرز اور چنئی سپر کنگز دو دو بار یہ ٹرافی جيت چکی ہے۔ اتوار کو کھیلے گئے انتہائی دلچسپ فائنل مقابلے میں ممبئی نے رائزنگ پونے سپرجائنٹس کو ایک رن سے شکست دی۔ ٭ کون ہوگا آئی پی ایل 2017 کا فاتح، ممبئی یا پونے؟ ٭ سٹوکس آئی پی ایل کے سب سے مہنگے غیرملکی کھلاڑی فائنل مقابلے میں 19 اوورز تک پونے ٹیم کا دبدبہ قائم تھا لیکن آخری اوور میں آسٹریلیا کے فاسٹ بولر مچل جانسن نے میچ کا رخ تبدیل کر دیا۔ جانسن نے 20 ویں اوور میں شاندار بولنگ کرتے ہوئے اپنی ٹیم کو جیت سے ہمکنار کیا۔ پونے کو آخری اوور میں 11 رنز بنانے تھے لیکن مچل جانسن کے اس اوور میں پونے کے بلے باز صرف نو رن ہی بنا سکے۔ اوور کی پہلی گیند پر منوج تیواری نے چار رنز حاصل کیے جبکہ دوسری گیند پر وہ آؤٹ ہو گئے۔ جیت کے بعد مچل جانسن کے تاثرات اس طرح تھے تیسری گیند پر کپتان سٹیون سمتھ آؤٹ ہو گئے۔ انھوں نے 51 رنز بنائے۔ چوتھی گیند پر ایک رن بنا۔ پانچویں گیند پر دو رنز بنے اور آخری گیند پر چوکا لگانے کی ضرورت آن پڑی ڈینیئل كرشچیئن دو رن ہی بنا سکے۔ آخری اوور میں دو وکٹ لے کر صرف نو رن دینے والے جانسن نے چار اوورز میں کل 26 رنز دیے اور تین وکٹیں حاصل کیں۔ اس سے قبل ممبئی انڈینز کے کپتان روہت شرما نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا لیکن ممبئی انڈینز کا آغاز اچھا نہیں رہا۔ کپتان روہت شرما نے ٹیم کو سنبھالا دینے کی کوشش کی لیکن وہ بھی آؤٹ ہو گئے پھر کرونل پانڈیا کے 47 رنز کی بدولت ممبئی انڈینز کسی طرح 20 اوورز میں 129 رنز بنانے میں کامیاب ہوئي اور پونے کو جیت کے لیے 130 رنز کا ہدف ملا جو کہ آئی پی ایل میں کوئی مشکل ہدف نہیں تھا۔ کرونل پانڈیا کو ان کی بہترین کارکردگی کے لیے مین آف دا میچ قرار دیا گیا لیکن ممبئی کے بولرز نے نپی تلی بولنگ کی اور پونے کے کھلاڑیوں کو کھل کر رنز بنانے کی اجازت نہیں دی۔ آخری تین اوورز میں جب 30 رنز درکار تھے تو ممبئی کو جیت کی ہلکی سی جھلک نظر آ رہی تھی۔ لیکن پونے کی جانب سے پچ پر مہندر سنگھ دھونی اور کپتان سٹیون سمتھ تھے اس لیے کسی کو یہ گمان نہیں تھا کہ وہ یہ رنز حاصل نہیں کر پائیں گے۔ ممبئی انڈینز کے کھلاڑی کرونل پانڈیا کو 38 گیندوں میں 47 رنز بنانے کے لیے مین آف دا میچ قرار دیا گيا۔ انھوں نے اپنی اننگز میں تین چوکے اور دو چھکے لگائے۔ دھونی اور سمتھ نے اچھی کرکٹ کھیلی لیکن ایک رن سے تاریخ رقم کرنے میں ناکام رہے پونے کے لیے جے دیو اناڈکٹ، زیمپا اور ڈین کرشچين نے دو دو وکٹیں حاصل کیں۔ موجودہ سیزن میں پونے نے ممبئی کو ليگ میں دو بار اور پلے آف میں ایک بار شکست دی تھی۔ دسویں سیزن میں سب سے زیادہ رنز سنرائزرس حیدرآباد کے کپتان ڈیوڈ وارنر نے بنائے۔ انھوں نے 14 میچون میں تین بار ناٹ آؤٹ رہتے ہوئے 641 رنز بنائے جس میں ایک سنچری اور چار نصف سنچریاں شامل تھیں۔ بولنگ میں سب سے زیادہ وکٹیں بھی سنرائزرس کے کھلاڑی کے حصے میں آئیں۔ بھونیشور کمار نے مجموعی طور پر 26 وکٹیں حاصل کیں۔ انڈیا کے شہر حیدرآباد میں کھیلے جانے والے فائنل میں ممبئی انڈینز نے آئی پی ایل 10 کی ٹرافی جیت کر سب سے زیادہ تین بار چیمپیئن بننے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ text: تربیلا ڈیم کی طرح بھاشا بھی دریائے سندھ پر بنایا جا رہا ہے۔ جب مشرف نے پہلا افتتاح کیا تھا تو اس وقت اس ڈیم کی تعمیری لاگت ساڑھے چھ ارب ڈالر بتائی گئی تھی اور یہ خوشخبری بھی سنائی گئی تھی کہ تعمیر دو ہزار پندرہ تک مکمل ہوجائے گی۔ لیکن یوسف رضا گیلانی نے کل فیتہ کاٹتے ہوئے کہا کہ ڈیم بارہ ارب ڈالر کی لاگت سے دو ہزار بائیس میں مکمل ہوگا اور اس سے ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔ اگرچہ یہ خبر خوش آئند ہے لیکن کیا کیا جائے کہ پاکستان کا توانائی کا خسارہ اس قدر زیادہ ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ ثابت ہوگا۔اس وقت پاکستان میں سرکاری کاغذ پر تو اٹھارہ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے لیکن عملاً پندرہ ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا نہیں ہو پا رہی۔اس میں سے بھی چالیس فیصد یا تو چوری ہوجاتی ہے یا ضائع ۔ پاکستان میں بجلی کی ضرورت میں دس فیصد سالانہ کا اضافہ ہو رہا ہے۔گویا جب تک دیامر بھاشا ڈیم مکمل ہوگا تب تک بجلی کی ضرورت موجودہ اٹھارہ ہزار میگاواٹ سے بڑھ کر چھتیس ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکی ہوگی۔ پاکستان جیسے ممالک کو اگر اپنی معیشت کا پہیہ آج کی گلا کاٹ مقابلے باز دنیا میں رواں رکھنا ہے تو اس کے لیے ہائڈرو اور تھرمل بجلی کی پیداوار کا تناسب ستر اور تیس فیصد ہونا چاہیے لیکن اس وقت پاکستان میں جتنی بھی بجلی پیدا ہورہی ہے اس میں پن بجلی کا تناسب پینتیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔ باقی بجلی تھرمل ذرائع (گیس ، تیل اور کوئلے ، ایٹم ) سے حاصل ہو رہی ہے۔گویا جتنا فائدہ سستی پن بجلی سے ہو رہا ہے اس سے دوگنا مالی بوجھ تھرمل بجلی سے پیدا ہو رہا ہے اور یہ اس ملک میں ہو رہا ہے جہاں دریاؤں سے کم ازکم پچاس ہزار میگاواٹ بجلی بنانے کی گنجائش موجود ہے لیکن اس وقت محض ساڑھے پانچ ہزار میگاواٹ پن بجلی ہی میسر ہے۔ واپڈا اور وزارتِ پانی و بجلی کی خوبصورت رپورٹیں دیکھیں تو سب کی سب زیرِ تعمیر یا مجوزہ منصوبوں کا چمن زار محسوس ہوتی ہیں لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ بجلی کی ضرورت اور گنجائش کا فرق سپر سانک سپیڈ اور انقلابی اقدامات کے بغیر دور ہونا محال ہے۔ لیکن توانائی کے سیکٹر میں آج بھی کچھوا خرگوش سے زیادہ تیز دوڑ رہا ہے۔ مثلاً جناح بیراج ہائیڈرو پاور پروجیکٹ جون دو ہزار گیارہ میں ، گومل زام ہائیڈرو پروجیکٹ اکتوبر دو ہزار گیارہ میں ، سد پارہ ڈیم نومبر دو ہزار گیارہ میں اور دبیر کھاوڑ کوہستان پروجیکٹ دسمبر دو ہزار گیارہ میں مکمل ہونا تھا۔اگر یہ منصوبے بروقت پیداوار شروع کردیتے تو قومی گرڈ میں لگ بھگ ایک ہزار میگاواٹ سستی پن بجلی کا اضافہ ہوجاتا ۔مگر حکومت ان منصوبوں کی تکمیل کی اگلی تاریخ بتانے سے بھی گریزاں ہے۔موجودہ حکومت کے دور میں اب تک محض ایک بڑا آبی منصوبہ منگلا ریزنگ پروجیکٹ مکمل ہوسکا ہے جس سے نیشنل گرڈ میں چند سو میگاواٹ بڑھ جائیں گے۔ دنیا میں بیشتر ممالک کے پاس اس وقت دریا کے سالانہ بہاؤ کا چالیس فیصد پانی آبپاشی اور بجلی کی ضروریات کے لیے زخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔لیکن پاکستان جو شدید غذائی اور توانائی کی قلت والے ممالک کی فہرست میں خاصا اوپر آچکا ہے اس کے پاس اس وقت صرف تیرہ فیصد دریائی پانی محفوظ کرنے کی گنجائش ہے۔اور حالت یہ ہے کہ تربیلا ، منگلا اور چشمہ ہائیڈل پروجیکٹ میں پانی زخیرہ کرنے کی گنجائش پینتیس فیصد تک کم ہوچکی ہے۔جب تک دیامر بھاشا پروجیکٹ مکمل ہوگا تب تک تربیلا ، منگلا اور چشمہ کے آبی زخیرے کی گنجائش پچپن سے ساٹھ فیصد تک کم ہوچکی ہوگی۔ آبی بجلی کے بعد پاکستان کی آخری امید تھر کے کوئلے سے وابستہ ہے جسے چوتھا بڑا عالمی زخیرہ بتایا جا رہا ہے۔حکومت کی خواہش ہے کہ دو ہزار تیس تک پاکستان کی کم ازکم اٹھارہ فیصد توانائی ضروریات کوئلے سے پوری ہوسکیں۔لیکن تھر کول پر جس طرح کی سیاسی و تجرباتی نشتر آزمائی ہو رہی ہے اور وقت سے جنگ ہا رنے کے باوجود رینٹل پاور جنریشن کے مردہ گھوڑے کو کمیشن کی آکسیجن سے زندہ کرنے کی جیسی کوششِ لاحاصل ہو رہی ہے اس کے ہوتے ہوئے کوئلے کا مستقبل بھی تاریک نظر آرہا ہے۔ دوسری جانب ایران پاکستان گیس پائپ لائن اور ترکمانستان پاکستان پائپ لائن منصوبے بھی خواب سے تعبیر کے سفر کے دوران کہیں اٹک گئے ہیں۔ ان حالات میں توانائی میں خود کفالت کا خواب اس گاجر کی طرح ہے جو گدھے کے سر پر یوں لٹکائی جاتی ہے کہ گدھا یہ گاجر کھانے کی آس میں اپنی توانائی کے بل پر بس چلتا رہے چلتا رہے چلتا رہے ، جہاں تک چل سکے۔ وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے اٹھارہ اکتوبر کو اُسی دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا پھر سے افتتاح کردیا جس کی تعمیر کا فیتہ ساڑھے چھ برس پہلے سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے کاٹا تھا۔ text: ویب پر انٹرنیٹ ایڈریسز اور ڈومینز کے ناموں سے متعلق امور سنبھالنے والی کمپنی آئیکین کا کہنا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں انٹرنیٹ کے سب سے زیادہ صارف ایشیائی باشندے ہوں گے۔ اگرچہ انٹرنیٹ کا پورا منصوبہ انگریزی زبان بولنے والے ممالک میں تیار کیا گیا تھا لیکن اب مشرقی ممالک انٹرنیٹ کا محور و مرکز بنتے جا رہے ہیں۔ آئیکین کا کہنا ہے کہ دنیا میں دس کروڑ سے زائد صارفین انٹرنیٹ کے استعمال کے لیے ہائی سپیڈ براڈ بینڈ کنیکشن استعمال کرتے ہیں جن کی تقریباً نصف تعداد ایشیائی ہے۔ کمپنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئندہ چند ہی برسوں میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی زیادہ تعداد کا تعلق ایشیائی ممالک سے ہو گا اور یہ صورت حال علاقے کے اقتصادی حالات پر گہرا اثر ڈالے گی۔ ایک طرف جہاں بیشتر مغربی حروف ایک ہی انداز میں لکھے جاتے ہیں وہیں چند زبانوں کے حروف تہجی ایسے بھی ہیں جو مختلف ممالک میں مختلف انداز میں لکھے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر چین، تائیوان، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک میں لکھے جانے والے حروف ایک سے نہیں ہیں حالانکہ ان کی شروعات ایک ہی جگہ سے ہوئی ہے۔ اس فرق کے سبب انٹرنیٹ کے ایڈریس لکھتے ہوئے مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں کیونکہ انٹرنیٹ ایڈریس میں کسی فرق کی گنجائش نہیں ہوتی۔ کوالالمپور میں جاری اجلاس میں شرکت کی غرض سے آئے ہوئے وفود مختلف زبانوں پر غور کرنے کے بعد یہ کوشش کریں گے کہ ہر حرف کے لیے ایک ہی سمبل استعمال کرنے پر اتفاق رائے ہو جائے۔ اجلاس میں یہ غور بھی کیا جائے گا کہ آیا انٹرنیٹ ڈومینز کے لیے نئے نام متعارف کرانا ممکن ہے یا نہیں۔ اس کانفرنس کی انعقاد کرنے والے ادارے آئیکین کا، جو انٹر نیٹ ایڈریسز کا انتظام بھی سنبھالتا ہے، کہنا ہے کہ یہ کانفرنس ویب پر سے انگریزی کی چھاپ کو ختم کرنے کے لیے ایک بڑا قدم ہو گا۔ ملائشیا میں ایسے صارفین کے لیے انٹرنیٹ کی سہولت کو بہتر بنانے کے لیے ایک کانفرنس ہو رہی ہے جن کی زبان میں غیر مغربی حروف استعمال ہوتے ہیں۔ text: عراق نے ترکی کی فوج کا عراق میں در اندازی کو خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ ترکی نے کہا ہے کہ اس کی فوج عراقی کردستان سے اپنے مقاصد کی کامیابی کے بعد واپس ہوئی ہے اور یہ واپسی کسی دباؤ کا نتیجہ نہیں ہے۔ امریکہ نے ایک روز پہلے ہی ترکی کو کہا تھا کہ جلد سے جلد عراقی علاقے سے نکل جائے۔ ترکی نے کہا کہ اس آپریشن میں دو سو چالیس کرد باغیوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ ترکی کی فوج نے تسلیم کیا کہ اس کے ستائیس فوجی بھی اس آپریشن میں مارے گئے ہیں۔ ترکی نے کہا کہ وہ مستقبل میں بھی عراقی علاقے پر نظر رکھیں گے تاکہ دہشت گردوں پر نظر رکھی جا سکے۔ عراق کے وزیرِ خارجہ ہشیار زبیری نے ترک فوج کے انخلاء کو مثبت اقدام قرار دیا ہے۔ ترکی کے دورے پر آئے ہوئے امریکی وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس نے ترکی کی حکومت کو صدر جارج بش کا پیغام پہنچایا جس میں ترکی کو کہا گیا ہے کہ وہ عراق سے فوراً نکل جائے۔ ترکی کی فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ شمالی عراق میں مقاصد کے حصول کے بعد وہاں سے نکل آئی ہے۔ text: شازیہ مبشر کے وکیل حشمت حبیب نے بدھ کے روز بی بی سی کو بتایا کہ راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے اڈیالہ جیل کی انتظامیہ سے ملزمہ کو حراست میں رکھنے کے متعلق اٹھائیس اگست تک جواب طلب کیا ہے۔ وکیل نے بتایا کہ پانچ اگست کو عدالت نے ملزمہ کو رشتے داروں سے ملنے، قید تنہائی میں نہ رکھنے اور گھر سے کھانا وغیرہ منگوانے کی سہولیات فراہم کرنے کا حکم دیا تھا جس پر عمل نہیں ہوا۔ ان کے مطابق وہ جب یہ معاملہ عدالت کے علم میں لائے تو انسداد دہشت گردی کے خصوصی جج نے جیل انتظامیہ کو ہدایت کی کہ ملزمہ کو فوری طور پر سہولیات فراہم کی جائیں۔ وکیل نے مزید بتایا کہ انہوں نے ایک اور درخواست دائر کرتے ہوئے اپنی موکلہ کے خلاف تمام الزامات مسترد کرکے فوری رہا کرنے کی استدعا کی ہے اور عدالت اٹھائیس اگست کو اس کی سماعت کرے گی۔ واضح رہے کہ شازیہ مبشر ان نو افراد میں شامل تھیں جنہیں صدر جنرل مشرف پر پچیس دسمبر کو راولپنڈی میں ہونے والے قاتلانہ حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر ایک فوجی اہلکار لانس نائیک ارشد کو بغاوت پر اکسانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اٹک میں ایک فوجی عدالت میں شازیہ اور دیگر ملزمان پر دو سال تک مقدمہ چلا جس کے نتیجے میں ان کے شوہر رانا نوید سمیت آٹھ ملزمان کو جولائی دو ہزار پانچ میں سزا سنائی گئی جبکہ شازیہ کو فوجی عدالت نے باعزت بری کرنے کا حکم دیا تھا۔ وکیل نے بتایا کہ فوجی عدالت سے بری کیئے جانے کے بعد فوج نے شازیہ مبشر کو ان کے کمسن بچے سمیت چوبیس جولائی سن دو ہزار پانچ کو سول لائن پولیس سٹیشن کے عملے کے حوالے کر دیا۔ حشمت حبیب کے مطابق سول لائن پولیس نے شازیہ مبشر کو رہا کرنے کی بجائے انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت سے چودہ دن کا جوڈیشل ریمانڈ حاصل کر کے انہیں جیل بھیج دیا۔ حشمت حبیب کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک سال سے شازیہ مبشر کا جوڈیشل ریمانڈ ہر چودہ روز بعد دوبارہ جاری کر دیا جاتا ہے حالانکہ پولیس اور جیل حکام کے پاس شازیہ کو قید میں رکھنے کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے کے مقدمے سے بری ہونے والی شازیہ مبشر کو مبینہ طور پر غیر قانونی قید میں رکھنے کے خلاف خصوصی عدالت کے جج نے جیل انتظامیہ سے جواب طلب کرلیا ہے۔ text: ماہرین نے جسم کے مختلف حصوں میں پیغام بھیجنے کا ایسا سسٹم ایجاد کیا ہے جو حقیقت سے قریب تر ہے۔ اس نظام کے ذریعے یہ جدید روبوٹک ٹانگ پٹھوں کے ذریعے چلنے کو کنٹرول کرے گا۔ یونیورسٹی آف ایریزونا سے تعلق رکھنے والی ٹیم نے سینٹرل پیٹرن جینریٹر (سی پی جی) کی طرز پر ایک نیٹ ورک بنایا جو ریڑھ کی ہڈی کے ذریعے پٹھوں کو سگنل بھیجتا ہے۔ سی پی جی سسٹم ان سگنلز کو پیدا کرنے کے بعد انہیں کنٹرول کر کے جسم کے مختلف حصوں سے معلومات اکھٹی کرتا ہے جس سے چلنے میں مدد ملتی ہے۔ اس سسٹم کے ذریعے لوگوں کو عام روبوٹک ٹانگوں کی طرح ہر ایک حرکت کے بارے میں سوچے بغیر چلنے میں مدد ملتی ہے۔ یونیورسٹی آف ایری زونا کی ٹیم نے تجویز پیش کی ہے کہ اس سسٹم کے ذریعے ریڑھ کی ہڈی کے علاج میں مبتلا بچے چلنا شروع کر سکتے ہیں۔ ٹیم میں شامل ڈاکٹر تھریسا کا کہنا ہے کہ ہم نے انسانوں کی طرح چلنے والے ایک روبوٹ کو تخلیق کیا ہے جو متوازن ہے۔ امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے روبوٹک ٹانگیں تخلیق کی ہیں جس سے ریڑھ کی ہڈی کے علاج میں مبتلا بچوں کو چلنے میں ملے گی۔ text: اطلاعات کے مطابق اس سمندری طوفان نے کئی بہامس سمیت کئی جزائر کو اپنی لپٹ میں لے لیا ہے اور اب یہ تیزی سے فلوریڈا کے مشرقی ساحل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ موسمیاتی ماہرین کے مطابق یہ سمندری طوفان ہفتے کے روز کسی وقت فلوریڈا کے ساحل سے ٹکرائے گا۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سمندری طوفان کی رفتار میں کچھ کمی واقعہ ہوئی ہے لیکن ساحل تک پہنچنے میں اس کی رفتار دوبارہ تیز ہوسکتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ طوفان کی رفتار کم ہوجانے سے زیادہ نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ میامی سے بی بی سی کے نامہ نگار ڈینیل لیک نے اطلاع دی ہے کہ سمندری طوفان کی ہوائیں جس قطر میں چل رہی ہیں وہ پوری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ فلوریڈا کے گورنر جیب بش نے ریاست میں ہنگامی صورت حال کا اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے لوگوں کو ہوواں کی کم رفتار کی وجہ سے مطمئن نہیں ہو جانا چاہیے اور پوری احتیاطی تدابیر کر لینی چاہیں۔ امریکی ریاست فلوریڈا میں سمندری طوفان ’فرانسیس‘ کے باعث پچیس لاکھ افراد کو گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر پناہ لینے کے لیے کہا گیا ہے۔ text: عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ اکتالیس سالہ محمد پرویز کا قتل ناقابلِ یقین حد تک بہیمانہ ہے۔ جن ایشیائی نوجوانوں سے سکوٹر والے نوجوان کا تصادم ہوا تھا وہ محمد پرویز کی ٹیکسی میں کہیں جا رہے تھے۔ ہلاکت میں ملوث چار میں سے دو کی عمریں سترہ اور اٹھارہ سال ہیں اور عدالت نے کہا کہ انہیں لازماً سترہ سال قید کی سزا کاٹنی چاہیے۔ جب کے دوسرے دو نوجوانوں کو، جن کی عمریں انیس انیس سال ہیں اکیس اور پچیس سال کی سزائیں کاٹنی ہوں گی۔ اکتالیس سالہ محمد پرویز تین بچوں کے والد تھے۔ سزائیں پانے والوں میں گریمی سلاون اور اور کرسٹوفر مرفی کی عمریں انیس انیس سال سال ہیں۔ ان پر فردِ جرم پہلے ہی ثابت ہو چکی ہے۔ دیگر ملزمان میں سے انیس سالہ مائیکل ہینڈ نے ابتدائی سماعت ہی میں قتل کا اعتراف کر لیا تھا۔ جب کہ سولہ سالہ مائیکل بی بی اور سترہ سالہ جیسقن ہیرس قتل کے الزام کا مرتکب نہیں پایا گیا۔ انگلینڈ کے شمالی شہر لیڈز میں ایک ایشیائی ڈرائیور کو مار مار کر ہلاک کرنے پر چار سفید فام نوجوانوں کو قید کی سزائیں دی گئی ہیں۔ text: پاکستان میں اس وقت سونے کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے (فائل فوٹو) پاکستان میں ایک تولہ سونے کی قیمت اس وقت ایک لاکھ نو ہزار روپے تک جا پہنچی ہے۔ سونے کی قیمت میں بے تحاشا اضافے کا معاملہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے اور سونے کی عالمی منڈی میں فی اونس قیمت اٹھارہ سو ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان اور عالمی سطح پر سونے کی قیمتوں میں اضافہ اس وقت دیکھنے میں آ رہا ہے جب کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے مکمل لاک ڈاون اور سمارٹ لاک ڈاون کا نفاذ کیا گیا جس نے معیشت کو شدید متاثر کیا اور اس کے نتیجے میں بیروزگاری اور غربت میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یہ بھی پڑھیے سون بھدر: انڈیا کا وہ شہر جو سونا اگلتا ہے سیندک کا سونا بلوچوں کی زندگی بدلنے میں مددگار کیوں نہیں؟ وینزویلا کا برطانیہ کے خلاف اپنا سونا واپس لینے کے لیے مقدمہ پاکستان میں لاک ڈاون کی وجہ سے جہاں معاشی سرگرمیاں سست ہوئیں تو وہیں حکومت نے دوسرے بہت سارے شعبوں جیسا کہ شادی ہالز اور کیٹرنگ سروسز بھی بند کر دیں۔ شادی ہالز کے بند ہونے کی وجہ سے شادیوں کی تقریبات میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ عام صارف کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ جب شادی تقریبات موخر ہو چکی ہیں اور زیورات کی طلب میں کمی ہے تو سونے کی قیمت میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ سونے میں سرمایہ کاری محفوظ کیوں ہے؟ پاکستان میں سونے کے کاروبار سے وابستہ افراد کے مطابق سونے کی قیمتوں میں اضافے کی اصل وجہ اس قیمتی دھات میں عالمی سطح پر بھاری سرمایہ کاری ہے، جسے موجودہ غیر یقینی معاشی صورت حال میں سب سے محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق دوسرے لفظوں میں ’سونے کی ذخیرہ اندوزی‘ عالمی اور مقامی سطح پر زور و شور سے جاری ہے جس نے اس کی قمیت میں بے پناہ اضافے کو جنم دیا ہے۔ سونے میں سرمایہ کاری کو اس وقت دنیا بھر میں محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں عارف حبیب کموڈٹیز کے چیف ایگزیکٹیو احسن محنتی کا کہنا ہے کہ دنیا میں جب بھی معاشی طور پر غیر یقینی صورتحال ابھری ہے تو سونے میں سرمایہ کاری کو محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سونے میں سرمایہ کاری سے دو فائدے ہوتے ہیں ایک تو سرمایہ کاری محفوظ رہتی ہے اور دوسرا سرمائے کی قدر بھی بڑھتی ہی رہتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ شرح سود پاکستان سمیت دنیا بھر میں کم ہوا ہے جس کی وجہ سے بنکوں میں پیسے رکھنے سے کوئی خاص منافع حاصل نہیں ہوتا اور اس طرح سٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ سرمایہ کار کو خوف میں مبتلا رکھتا ہے۔ ’اس صورت حال میں سونے میں سرمایہ کاری سب سے محفوظ ہے کہ جس میں منافع بھی اچھا ملتا ہے اور کوئی نمایاں خدشہ بھی نہیں جس کی وجہ سے یہ فی الحال دنیا بھر میں سرمایہ کاروں کے نزدیک سب سے پُرکشش اور محفوظ سرمایہ کاری ہے۔‘ ڈارسن سکیورٹیز میں معاشی امور کے تجزیہ کار یوسف سعید نے بتایا کہ اس وقت سونے میں زیادہ سرمایہ امریکی اور یورپی سرمایہ کاروں کی جانب سے لگایا جا رہا ہے۔ یوسف نے مطابق انفرادی سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر کام کرنے والے ایکسچینج ٹریڈ فنڈز بھی اپنے سرمائے کو سونے میں لگا رہے ہیں کیونکہ سٹاک مارکیٹ اور اجناس میں سرمایہ کاری کو موجودہ حالات میں زیادہ محفوظ نہیں سمجھا جا رہا۔ پاکستان میں سونے کی قیمت عالمی سطح سے بھی زیادہ کیوں ہے؟ سونے کی عالمی منڈی میں فی اونس قیمت اٹھارہ سو ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے (فائل فوٹو) پاکستان میں سونے کی قیمت میں اضافے کی شرح عالمی مارکیٹ سے بھی زیادہ ہے۔ احسن محنتی کے مطابق رواں برس کے پہلے چھ مہینوں میں عالمی سطح پر سونے کی قیمت میں 23 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اگر پاکستان میں ان چھ مہینوں میں سونے کی قیمت میں اضافے کا جائزہ لیا جائے تو یہ 34 فیصد ہے۔ انھوں نے کہا کہ عالمی سطح پر قیمت میں اضافے کے ساتھ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی نے مقامی سطح پر سونے کی قیمت کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ ’ہمارے تجارتی خسارے اور ادائیگیوں میں عدم توازن کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور اس میں فی الحال کسی کمی کا کوئی امکان نہیں جس کی وجہ سے سونے کی قیمت میں اضافے کا رجحان دیکھنے میں آتا رہے گا۔‘ یوسف سعید کہتے ہیں کہ پاکستان میں سونے کی قیمت تو عالمی سطح پر قیمتوں سے منسلک ہے مگر دوسری جانب ایکسچینج ریٹ میں بہت عدم توازن ہے اور ساتھ ساتھ سونے میں سرمایہ کاری کی شرح بھی بہت زیادہ بلند ہے جس نے طلب کو بڑھا دیا ہے جس کے نتیجے میں اضافے کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں سٹاک، پراپرٹی اور سونا تین ایسے شعبے ہیں جن میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ ’اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے پراپرٹی کے شعبے میں کوئی خاص سرگرمی دیکھنے میں نہیں آ رہی تو دوسری جانب سٹاک مارکیٹ کارکردگی تو اچھی دکھا رہی ہے لیکن معیشت کی بری صورتحال کی وجہ سے اس میں سرمایہ کاری کو بھی محفوظ نہیں سمجھا جا رہا۔‘ ’ایسے حالات میں اب سونے میں سرمایہ کاری کا واحد راستہ بچتا ہے اور جس میں سرمایہ کار اپنا پیسہ لگا رہے ہیں۔‘ یوسف کے مطابق پاکستان میں سونے کی خرید پر کوئی پابندی نہیں اور آپ جتنا سونا خریدنا چاہیں خرید سکتے ہیں۔ انھوں نے بتایا ملک میں پاکستان مرکنٹائل ایکسچینج میں دوسری دھاتوں کے علاوہ سونے کی خرید و فروخت بھی کی جا سکتی ہے تاہم اس وقت زیادہ تر سرمایہ کاری انفرادی سطح پر ہو رہی ہے جس میں بڑے بڑے سرمایہ کار شامل ہیں۔ سونے کی قیمت میں مزید اضافہ متوقع ہے؟ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بیشتر کاروباری سرگرمیاں بند ہیں (فائل فوٹو) آل سندھ صرافہ جیولرز ایسوی ایشن کے صدر حاجی ہارون رشید چاند کا کہنا ہے کہ اس وقت سونے کی عالمی قمیت فی اونس اٹھارہ سو ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں بہت سے ملک اور عالمی مالیاتی اداروں کا بھی سونے میں سرمایہ کاری کرنے کا امکان ہے۔ ان کے مطابق آنے والے چند مہینوں سونے کی عالمی سطح پر قیمت دو ہزار ڈالر سے تجاوز کر سکتی ہے اور اسی بنیاد پر پاکستان میں بھی اس کی قیمت میں اضافہ ہو گا۔ یوسف سعید کہتے ہیں کہ اگر آنے والے دنوں میں چین اور انڈیا کی جانب سے سونے کی مانگ میں اضافے دیکھنے میں آیا تو اس کی قیمت میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ محنتی کہتے ہیں کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق رواں برس سونے میں سرمایہ کاری سے ایک سال میں پچیس فیصد تک منافع ملنے کا امکان ہے جو موجودہ صورت حال میں کسی اور شعبے میں سرمایہ کاری سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ سونے کی مقامی مارکیٹ کی صورتحال پاکستان میں سونے کی مانگ تو پورے ملک میں ہے تاہم کراچی اور لاہور سونے کی سب سے بڑی منڈیاں ہیں جہاں سے پورے ملک کو خام سونے اور زیورات کی سپلائی کی جاتی ہے۔ پاکستان میں نوے فیصد سے زائد خام سونا اور زیورات ان بڑے شہروں سے سپلائی کیے جاتے ہیں۔ حاجی ہارون چاند نے اس سلسلے میں بتایا کہ اگرسونے کی قیمت یونہی بڑھتی رہی تو سونے کے کاروبار سے وابستہ درمیانے درجے کے تاجر کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ ’ایک جانب کورونا وائرس کی وجہ سے زیورات کی طلب میں کمی ہے تو دوسری جانب سونے کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق سونے میں سرمایہ کار تو پیسہ لگا رہے ہیں لیکن درمیانے درجے کا سونے کا تاجر اس سے بُری طرح متاثر ہوا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ اگر یہی صورت حال رہی تو کاریگر طبقہ فارغ ہو جائے گا جس کا روزگار زیورات بنانے سے جڑا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ جولائی 2018 میں سونے کی عالمی منڈی میں فی اونس قیمت تیرہ سو ڈالر تھی جو صرف دو سال کے عرصے میں پانچ سو ڈالر بڑھ کر اٹھارہ سو ڈالر سے تجاوز کر گئی۔ پاکستان میں سونے کی قیمت میں اضافے کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت ملک میں اس قیمتی دھات کی قیمتیں تاریخ کی ریکارڈ بلند ترین سطح پر ہیں۔ text: دو روزہ بات چیت کے اختتام کے بعد ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بات چیت مفید رہی اور اس بات چیت کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا جائے گا تاکہ اس مسئلے کا ایسا حل تلاش کیا جائے جو دونوں ممالک کے باہمی مفاد میں ہو۔ ان مذاکرات میں پاکستانی وفد کی نمائندگی وزارت دفاع کے ایڈیشنل سیکریٹری احسان الحق چوہدری جبکہ بھارتی وفد کی نمائندگی ایڈیشنل سرویئر جنرل گوپال راؤ کر رہے تھے۔ یہ سرکریک پر دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی بات چیت کا آٹھواں راؤنڈ تھا۔ سرکریک کے علاقے میں سرحدی برجیاں لگانے کے لئے دونوں ممالک نے اس سال جنوری کے پہلے ہفتے میں ایک مشترکہ سروے کیا تھا ۔ سرکریک کا علاقہ بھارتی علاقے رن آف کچھ سے پاکستان کے صوبہ سندھ تک پھیلا ہوا ہے جس کی لمبائی ساٹھ میل ہے۔ اس علاقے کا تنازعہ 1960 کی دہائی میں سامنے آیا۔ 1969 سے اب تک اس مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کے سات راؤنڈ ہوئے ہیں مگر اس علاقے کی ملکیت کا تنازعہ حل نہیں ہو سکا۔ سر کریک کے تنازعے کی وجہ اس علاقے میں تیل اور گیس کے ذخائر ہیں اسی لئے اس سے دستبردار ہونے کے لئے نہ بھارت تیار ہے اور نہ پاکستان۔ دونوں ممالک کی حکومتیں اس علاقے میں مچھلیاں پکڑنے والے غریب مچھیروں کو بھی اکثر پکڑ لیتی ہیں۔ سرکریک سے پہلے دونوں ممالک کے حکام نے چھبیس اور ستائیس مئی کو سیاچن کے بارے میں مذاکرات کئے تھے۔ یہ مذاکرات بھی بغیر کسی نتیجے پر پہنچے ختم ہو گئے تھے۔ پاکستان اور بھارت کے فوجی حکام کے درمیان سر کریک کے مسئلے پر بات چیت بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئی ہے۔ text: امریکی وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس نے کہا ہے کہ لیتھوینیا میں نیٹو وزرائے دفاع کے اجلاس میں یورپی نمائندوں سے جو کچھ سنا ہے وہ حوصلہ افزاء ہے۔اس اجلاس میں افغانستان میں اتحادی ممالک کی جانب سے مزید فوج بھیجنے کے معاملے پر بات ہوئی۔ لیکن یکجہتی کے اس مظاہرے کے باوجود نیٹو اتحاد کے کسی رکن ملک نے بھی افغانستان میں مزید فوج بھیجنے کا وعدہ نہیں کیا۔ اس سے قبل افغان صدر حامد کرزئی نے افغانستان میں نیٹو ممالک کی کارروائیوں اور اس تناظر میں کشیدگی کی خبروں کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ افغانستان کے دورے پر آئی ہوئی امریکی وزیرِ خارجہ کونڈولیزا رائس اور برطانوی وزیرِ خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ سے مذاکرات کے بعد، حامد کرزئی نے اس بات کی تردید کی کہ انہوں نے طالبان کے خلاف جنگ میں برطانوی امداد پر نکتہ چینی کی ہے۔ نیٹو کے اتحادی ممالک میں ان کے اس بیان کے بعد سے کشیدگی پائی جاتی ہے کہ برطانیہ کی کوششوں کے باوجود ہیلمند کے صوبے میں حالات خراب تر ہوئے ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے برطانوی امیدوار پیڈی ایشڈاؤن کی تقرری کو بھی مسترد کیا تھا۔ برطانوی وزیرِ دفاع نے کہا کہ طالبان کو شکست ہو رہی ہے لیکن یہ ایک طویل المدت کام ہے جبکہ امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا اگرچہ کامیابی مکمل نہیں ہوئی لیکن معاملات آگے بڑھ رہے ہیں۔ لیتھوینیا میں ہونے والے اجلاس میں نیٹو کے وزرائے خارجہ کا اصرار تھا کہ نیٹو کی سربراہی میں افغانستان میں موجود فوج ایساف ناکام نہیں ہو رہی اور یہ کہ اتحاد کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں۔ ان مذاکرات کے بعد نیٹو کے سیکریٹری جنرل جیپ ڈی ہوپ شیفر نے کہا کہ افغانستان میں ہونے والی کارروائیوں سے انہیں کافی حوصلہ ملا ہے۔ امریکی وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ اس بحث کو ضرورت سے زیادہ معانی پہنائے گئے ہیں کہ آیا نیٹو کے اتحادی ممالک جنوبی افغانستان میں مزید فوج بھیج رہے ہیں یا نہیں۔ ’میں نہیں سمجھتا کہ اس قسم کا کوئی بحران ہے یا نیٹو کی ناکامی کا کوئی خطرہ ہے‘۔ رابرٹ گیٹس کا کہنا تھا: ’مجھے نیٹو اتحاد کے بارے میں بہت فکر ہے کہ کہیں یہ دو صفوں والا اتحاد نہ بن جائے جس میں ایک طرف کے اتحادی لوگوں کی حفاظت کے لیے لڑنے اور جان دینے پر رضا مند ہوں اور دوسری طرف کے اتحادی ایسا نہ کریں‘۔ افغانستان کے جنوب میں نیٹو کے تحت لڑائی میں زیادہ تر امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور نیدرلینڈ کے فوجی شامل ہیں۔ امریکی وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب جرمنی نے کہا ہے کہ وہ شمالی افغانستان میں دو سو فوجی بھیجے گا۔جرمنی کے وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ جرمن فوجی اگلے چند ماہ میں مزارِ شریف میں بھیجے جائیں گے لیکن کسی ہنگامی حالت میں انہیں کہیں بھی تعینات کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی حکومت نے یورپی ممالک کو خطوط لکھے تھے اور انہیں کہا تھا کہ وہ جنوبی افغانستان میں اپنے فوجی بھیجیں۔’تاہم جرمنی کے وزیرِ دفاع کا کہنا تھا: میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم نے اپنی ذمہ داریاں شمال سے جنوب کی طرف مرکوز کر دیں تو یہ ایک بہت بڑی غلطی ہوگی‘۔ نیٹو نے افغانستان میں اپنی کارروائی کے حوالے سے بحران کی بحث کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اتحاد نے وہاں اچھی پیش رفت کی ہے۔ text: بچوں کا بار بار بیمار ہونا اور مختلف قسم کے انفیکشن ہونے سے وائرس پولیو سے بچاو کی ویکسین کو بے اثر کر دیتا ہے۔ چند روز پہلے بھی چار میں سے دو ایسے بچے تھے جو پولیو سے بچاؤ کے قطرے لے چکے تھے۔ پاکستان میں اس سال اب تک انتیس بچے پولیو وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ ضلع چارسدہ کی سفینہ کی عمر انیس ماہ ہے اور انھیں سات مرتبہ پولیو کے قطرے پلائے جا چکے ہیں۔ آٹھ ماہ کا بسم اللہ عمر پشاور کے مضافاتی علاقے متنی کا رہائشی بچہ ہے جو چھ مرتبہ پولیو سے بچاؤ کے قطرے لے چکا ہے لیکن اس کے باوجود ان دونوں بچوں میں پولیو کے پی ون وائرس کی تصدیق ہو گئی ہے۔ چند روز پہلے خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں سے چار بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہو ئی تھی جن میں سے دو بچے ایسے ہیں جنھوں نے پولیو سے بچاؤ کے قطرے بار بار لیے تھے۔ پشاور سے نامہ نگارعزیزاللہ خان کا کہنا ہے کہ پولیو سے بچاؤ کے قطرے بار بار لینے کے باوجود پولیو کے وائرس کے حملے سے والدین اور عوام میں تشویش پائی جاتی ہے لیکن انسداد پولیو کی مہم کے سربراہ ڈاکٹر جانباز آفریدی کا کہنا ہے کہ بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے جس کی مختلف وجوہات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کے قطرے لینے والے بچوں پر پولیو وائرس کا حملہ شدید نہیں ہوتا بلکہ قطرے نہ لینے والے بچوں پر پولیو وائرس کا حملہ زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بچوں کا بار بار بیمار ہونا اور مختلف قسم کے انفیکشن ہونے سے وائرس پولیو سے بچاؤ کی ویکسین کو بے اثر کر دیتا ہے جس سے بچوں پر پولیو کے وائرس کا حملہ ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر جانباز آفریدی کا کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ بچوں کو خارج المعیاد ویکسین دی گئی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں ایک سٹور سے خارج المعیاد ویکسین کا علم ہوا تھا جسے تلف کر دیا گیا ہے اور متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔ پاکستان میں پولیو کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے ترجمان ڈاکٹر محمد رفیق سے جب رابطہ قائم کیا تو ان کا کہنا تھا کہ پولیو سے بچاؤ کے قطرے سو فیصد بچوں کو دینا انتہائی ضروری ہے اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پولیو کا مکمل خاتمہ مشکل ہو سکتا ہے اور اس کے لیے والدین اور معاشرے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ بعض علاقوں میں امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے مشکلات ضرور ہیں لیکن اس قدر نہیں کہ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہ پلائے جا سکیں۔ انھوں نے کہا کہ بھارت ، افریقہ اور سری لنکا میں اس سے زیادہ مشکل حالات میں پولیو کے مرض پر کافی حد تک قابو پایا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر رفیق کے بقول ایسا نہیں ہے کہ پولیو سے بچاؤ کی ویکسین بے اثر ثابت ہو رہی ہے بلکہ اس کی وجوہات میں بچوں مے مدافعتی نظام میں کمزوری اور دست کی بیماریاں شامل ہیں جس سے بچے کے جسم میں پولیو سے بچاؤ کی ویکسین ضائع ہو جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کے حالات حوصلہ افزا ہیں کیونکہ گزشتہ سال اس عرصے میں ستر سے زیادہ پولیو کے کیس سامنے آئے تھے اور اس سال اب تک صرف انتیس بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جو پچھلے سال کی نسبت کافی کم ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور اور چارسدہ میں ایسے دو بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جنھیں بار بار پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جا چکے ہیں۔ text: کراچی میں جمعہ کے روز پولیس افسران کے ساتھ ایک پریس بریفنگ میں سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ خودکش بمبار نے ایک اندازے کے مطابق پندرہ کلو وزنی دھماکہ خیز مادہ کی جیکٹ پہنی ہوئی تھی، جس میں بال بیئرنگ اور پیچ بھرے ہوئے تھے جن کا نشانہ ہلاک شدگان اور زخمی بنے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے روسی ساخت کا دستی بم پھینکا گیا جس کے بعد خودکش بمبار نے حملہ کیا تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا دستی بم خودکش بمبار نے پھینکا یا کسی اور نے۔غلام محمد محترم کا کہنا تھا کہ پولیس کی موبائل گاڑی خودکش بمبار اور بینظیر بھٹو کے ٹرک کے بیچ میں آ گئی تھی جس وجہ سے ٹرک کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے سکیورٹی کے جو انتظامات مانگےگئے تھے وہ کیے گئے اور سترہ اکتوبر کو انہوں نے ’جیمر‘ لگانے کو کہا تو اس کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تمام خدشات سے پاکستان پیپلزپارٹی کو آگاہ کیا گیا تھا اور انہیں کہا گیا تھا کہ مغرب سے پہلے جلسہ گاہ پہنچ جائیں کیونکہ رات کو سکیورٹی کی فراہمی میں مسائل پیش آسکتے ہیں مگر انہوں نے ان کی بات نہیں مانی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صدر اور وزیراعظم کو جو سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے اس سے کہیں زیادہ سکیورٹی بینظیر بھٹو کو فراہم کی گئی تھی۔ غلام محمد محترم نے کہا کہ آج کل یہ رواج ہوگیا ہے کہ اگر کتا بھی مرجاتا ہے تو ایجنسیوں پر الزام عائد کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ کیا ہم اپنے لوگوں کو ماریں گے‘۔ انہوں نے بتایا کہ خودکش بمبار کی شناخت تاحال نہیں ہو سکی ہے اور اس کی تصاویر بنا کر جاری کی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان دھماکوں کے بارے میں معلومات دینے والوں کے لیے پچاس لاکھ رپے انعام رکھا گیا ہے جبکہ ہلاک شدگان کے ورثاء کو بھی معاوضہ دیا جائےگا۔ اس سوال پر کہ اس کارروائی میں کون سا گروہ ملوث ہو سکتا ہے سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ یہ فی الحال نہیں بتایا جا سکتا مگر اس میں بیت اللہ محسود اور طالبان بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔ سندھ کے سیکرٹری داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ غلام محمد محترم نے کہا ہے کہ خودکش بمبار کا ہدف بینظیر بھٹو تھیں اور دھماکہ ان کے ٹرک سے صرف دس فٹ دور ہوا۔ text: كھوبرا گاڑے پر ویزا میں دھوکہ دہی اور غلط بیان دینے کے الزام میں مقدمہ درج ہوا ہے امریکہ کے شہر نیویارک میں حکام کے مطابق بھارتی قونصل خانے کی نائب قونصل جنرل دیویانی کھوبراگاڑے کو اپنے گھریلو ملازم کے لیے غلط دستاویزات اور غلط بياني کے ذریعے ویزا حاصل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ جمعے کو بھارت کی سیکریٹری خارجہ سوجیتا سنگھ نے امریکی سفیر نیلسی پاؤل کو طلب کر کے نائب قونصل جنرل کی’توہین آمیز‘گرفتاری پر احتجاج کیا۔ بھارت کی وزارتِ خارجہ کے مطابق نائب قونصل جنرل کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنے بچوں کو سکول چھوڑنے جا رہی تھیں۔ وزارِت خارجہ کے ترجمان سید اکبرالدین نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’جس طرح سے نائب قونصل جنرل کو توہین آمیز انداز میں گرفتار کیا گیا اس پر ہمیں صدمہ ہوا ہے۔‘ ترجمان کے مطابق دو بچوں کی ماں بھارتی سفارت کار سے اس قسم کا رویہ بالکل ناقابل قبول ہے۔ اس سے پہلے امریکی حکام نے کہا تھا کہ نائب قونصل کھوبراگاڑے پر الزام ہے کہ انھوں نے ایک ہندوستانی شہری کے لیے غلط دستاویزات اور جان بوجھ کر غلط معلومات پیش کر کے ویزا حاصل کیا۔ امریکی سرکاری وکیل پریت بھرارا کا کہنا ہے کہ گھریلو ملازمین کے طور پر امریکہ لائے جانے والے غیر ملکی شہریوں کو بھی استحصال کے خلاف وہی حقوق حاصل ہیں جو کسی امریکی شہری کو ملتے ہیں۔ امریکی حکام کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق كھوبراگاڑے کو ڈھائی لاکھ ڈالر کے ذاتی بانڈ پر رہا کر دیا گیا ہے اور انھیں تمام سفری دستاویزات عدالت میں جمع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان پر گھریلو ملازمین یا اس کے خاندان کے کسی رکن کے ساتھ رابطہ قائم کرنے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کی طرف سے عدالت میں پیش کی جانے والی دستاویز کے مطابق 2012 میں ملازمین کے لیے ویزا حاصل کرنے کے لیے جو دستاویزات پیش کی گئیں ان میں کہا گیا تھا کہ امریکی قانون کے مطابق ان کے ملازم کی تنخواہ 9.75 ڈالر فی گھنٹہ ہو گی۔ لیکن دستاویزات کے مطابق كھوبرا گاڑے نے گھریلو ملازم کے ساتھ ایک اور معاہدہ کیا جس میں اس کی ماہانہ آمدنی 25 ہزار روپے اور پانچ ہزار روپے اوور ٹام مقرر کیا گیا۔ ویزا درخواست کے وقت امریکی ڈالروں میں یہ رقم فی گھنٹے کے حساب سے 3.31 ڈالر بنتی ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی دستاویز کے مطابق ’كھوبرا گاڑے نے اس ملازم کو ہدایت کی کہ وہ ویزا انٹرویو کے دوران اپنی آمدنی 9.75 ڈالر فی گھنٹے ہی بتائے اور 30 ہزار روپے کی تنخواہ کا ذکر نہ کرے۔‘ كھوبرا گاڑے پر یہ الزام بھی ہے کہ انھوں نے امریکی قانون کے تحت مزدوروں کو دی جانے والي دوسری مراعات کی بھی خلاف ورزی کی۔ ان پر ویزا میں دھوکہ دہی اور غلط بیان دینے کے الزام میں مقدمہ درج ہوا ہے اور اگر الزام ثابت ہو جاتے ہیں تو پہلے الزام کے تحت دس سال اور دوسرے الزام میں پانچ سال کی سزا ہو سکتی ہے۔ بھارت نے دہلی میں امریکہ کے سفیر کو طلب کر نیویارک میں بھارتی قونصل خانے کی اہل کار کی گرفتاری پر احتجاج کیا ہے۔ text: متاثرہ علاقوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق کئی علاقوں میں جغرافیہ ہی بدل گیا ہے دوسری طرف وزیر اعلٰی بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے بی بی سی اردو سروس کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کی از سر نو آباد کاری کے لیے عالمی اداروں کو کام کرنے کی اجازت دیں۔ دریں اثنا صحت کے عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او کے شعبۂ ایمرجنسی کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر فواد خان نے بی بی سی کو بتایا ڈبلیو ایچ او ، یونیسیف اور ورلڈ فوڈ پروگرام سمیت اقوام متحدہ کے تمام ہی اداروں کے نمائندے کوئٹہ سے کراچی پہنچے تھے اور یہاں سے انہیں بذریعہ سڑک آواران جانا تھا لیکن نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نے انہیں اجازت نہیں دی، اس لیے مشن کو مؤخر کردیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے یہ ادارے صحت، غذائیت، شیلٹر، خوراک اور واش کلسٹر کی صورت میں کام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فواد خان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے مشن مقامی ضلعی انتظامیہ سے ملاقات کرتے ہیں پھر متاثرہ علاقوں میں جاتے ہیں اور ضروریات کا جائزہ لیتے ہیں جن کی بنیاد پر امدادی کام شروع کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صحت کے عالمی ادارے کے جو مقامی لوگ پولیو مہم میں کام کرتے ہیں اب وہی ان کی آنکھیں اور کان ہیں، یہ لوگ متاثرہ علاقے میں آسانی سے سفر کر رہے ہیں اور انہیں اب تک کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ پاکستان کی حکومت نے اس سے پہلے فرانس کے ڈاکٹروں کی بین الاقوامی تنظیم ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کو بھی زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دینے انکار کردیا تھا۔ پاکستان کے نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان ادریس محسود کا کہنا ہے کہ حکومت نے بین الاقوامی اداروں یا ممالک سے مدد کی اپیل نہیں کی ہے کیونکہ حکومت سمجھتی ہے کہ متاثرین کی مدد اور بحالی کے لیے اس کے پاس وسائل، اہلیت اور قابلیت موجود ہے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ نے بین الاقومی اداروں سے مدد کی اپیل کی تھی، ان کا کہنا تھا کہ جس پیمانے کی تباہی ہوئی ہے وہ اکیلے اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ این ڈی ایم کے ترجمان نے اس ایپل سے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ وزیر اعلیٰ نے قومی اداروں اور مخیر حضرات سے مدد کی اپیل کی ہوگی، کیونکہ بین الاقوامی مدد کا فیصلہ وفاقی حکومت کرتی ہے۔ بلوچستان کے صوبائی ڈزاسٹر مینجنمنٹ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ زلزلے سے آواران اور کیچ کی پونے دو لاکھ آْبادی متاثر ہوئی ہے، جبکہ قومی ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کا دعویٰ ہے کہ متاثرین کی تعداد سوا لاکھ ہے۔ پاکستان کی نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان ادریس محسود کا کہنا ہے کہ حکومت نے متاثرین کو کافی حد تک امدادی سامان مہیا کیا ہے، جن میں 50 ہزار سے زائد خوراک کے تھیلے شامل ہیں، ایک تھیلے میں 50 سے 53 کلو گرام سامان موجود ہے جو چھ سے سات افراد پر مشتمل خاندان کے 15 روز کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ’خوراک کے یہ 50 ہزار تھیلے بلوچستان، پنجاب اور سندھ کی حکومتوں، ایدھی فاؤنڈیشن، پاکستان ہلال احمر اور دیگر اداروں کی طرف سے فراہم کیے گئے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ متاثرین کو 40 ہزار خیمے بھی فراہم کیے گئے ہیں، ایک خاندان کے لیے دو خیموں کا بندوبست کیا گیا ہے۔ بقول ان کے متاثرہ علاقے پسماندہ ہیں لیکن وہ زیادہ سے زیادہ متاثرین تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے اداروں کو بلوچستان میں زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے اور منگل کو بذریعہ سڑک آواران روانگی کے لیے کراچی پہنچنے والے اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کے ارکان کو روک دیا گیا ہے۔ text: نیپلز میں ایک امن اجلاس کے موقع پر پوپ کا کہنا تھا کہ ’مذاہب کو کبھی بھی نفرت کا آلۂ کار نہیں بننا چاہیے‘۔ ایک کیتھولک تنظیم کی جانب سے منعقدہ اس تین روزہ اجلاس میں مسلمان، عیسائی، یہودی، بدھ، ہندو اور زرتشت مذاہب کے علماء اور پیشوا شریک ہیں۔ اس اجلاس میں شرکت کرنے والوں میں آرچ بشپ آف کنٹربری رووان ولیمز، اسرائیل کے سب سے بڑے ربّی یونا مزگر اور متحدہ عرب امارات کے امام ابراہیم عزالدین بھی شامل ہیں۔ اجلاس سے خطاب میں پوپ بینیڈکٹ کا کہنا تھا کہ’ ایک ایسی دنیا میں، جو لڑائیوں کا نشانہ ہے،جہاں خدا کا نام تشدد کو جائز قرار دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، یہ بہت ضروری ہے کہ اس بات کو دہرایا جائے کہ کوئی بھی مذہب کبھی بھی نفرت کا آلۂ کار نہیں بن سکتا اور اسے کبھی بھی تشدد کو جائز قرار دینے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا‘۔ انہوں نے کہا کہ’اس کے برعکس مذاہب کو ایک امن پسند انسانیت کی تشکیل کے لیے اپنی تعلیمات پیش کرنی چاہیئیں کیونکہ وہ انسان کے اطمینانِ قلب کی بات کرتے ہیں‘۔ پوپ نے کہا کہ مختلف مذاہب کے درمیان موجود اختلافات کا احترام کرتے ہوئے قیامِ امن اور باہمی اتفاق کے لیے کام کیا جانا چاہیے۔ رومن کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ بینیڈکٹ XVI نے دنیا بھر کے مذہبی پیشواؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ خدا کا نام تشدد کو صحیح ثابت کرنے کے لیے استعمال نہ ہونے دیں۔ text: یہ سوچ اس لئے بھی ذہن پر حاوی ہے کہ ان کے والد اس مسجد کے مؤذن بھی ہیں جن کی آواز دن میں پانچ بار فضا میں گونجتی ہے: ’حئی علی الصلوۃ‘۔ محمود خان کے دونوں بچوں یوسف اور عرفان کی دین سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر نماز سے قبل وہ مسجد میں جھاڑو لگاتے ہیں اور اس کی صفائی کرتے ہیں۔ پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب عرفان کرکٹ کے سفر میں مانڈوی گیٹ سے نکل کر قومی دھارے میں شامل ہوجاتا ہے اور آج یہ نوجوان عرفان پٹھان کے نام سے بھارتی کرکٹ کے افق پر چھایا ہوا ہے۔ ہرماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا نیک بنے اور ترقی کرے۔ عرفان پٹھان کے والدین کی یہ دعا اللہ نے پوری کی ہے جس پران کی خوشی بجا لیکن ساتھ ہی وہ خدا کا شکر بھی بجالاتے ہیں۔ عرفان پٹھان کے والدین دوسرا ٹیسٹ دیکھنے کے لئے اسوقت لاہور میں ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ بیٹے کی کامیابی دیکھ کر کیسا لگتا ہے تو انکساری اور سادگی کے پیکر محمود خان نے کہا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کا دیا ہوا ہے۔ بچپن میں کرکٹ سے اس کا والہانہ لگاؤ دیکھ کر انہیں یقین تھا کہ وہ ایک دن ضرور بھارت کی طرف سے کھیلے گا اسی لئے انہوں نے اسے کرکٹ سے بالکل نہیں روکا۔ محمود خان کا کہنا ہے: ’عرفان مسجد کی صفائی کرتا اور جھاڑو لگاتا یہ اللہ کے گھر کو صاف ستھرا رکھنے کا ہی انعام ہے جو اسے ملا ہے۔‘ محمود خان کے والد اور نانا بھی مؤذن تھے۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ عرفان کے ساتھ خان کے بجائے پٹھان کا لفظ اخبار والوں نے لگادیا ہے۔ عرفان کی والدہ شمیم بانو برقعہ میں ملبوس تھیں اور چہرے پر نقاب تھا۔ پرنم آنکھوں کے ساتھ انہوں نے اپنے بیٹے کی کامیابی پر خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ عرفان کی کرکٹ مصروفیات نے اسے گھر اور گھر والوں سے دور کردیا ہے لیکن وہ اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ عرفان نے بچپن میں آپ کو تنگ تو نہیں کیا؟ وہ بولیں: ’وہ بچہ ہی کیا جو بچپن میں شرارت نہ کرے۔‘ عرفان پٹھان کے والدین پاکستان آکر بہت خوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں کے لوگ بڑے مہمان نواز ہیں انہوں نے جو پذیرائی کی ہے وہ اسے کبھی نہیں بھول سکتے۔ بڑودہ شہر کے علاقے مانڈوی گیٹ کی مسجد کے سائے میں دو بھائی کرکٹ کھیلنے میں مصروف ہیں لیکن اس بات کو بھی وہ ذہن میں رکھے ہوئے ہیں کہ مسجد کا تقدس برقرار رہے اور نمازیوں کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ text: متاثرہ افراد کی فوری مدد کے لیئے ان چھ اضلاع کے کلکٹرز کو پچاس لاکھ روپے بھی دینے کا اعلان کیاگيا ہے۔ ودربھ کے دو روزہ دورے کے دوران وزیر اعظم نے پیکیج کے اعلان کے ساتھ کسانوں کو نصیحت بھی کی کہ وہ کھیتی کے علاوہ اس کے متبادل کام جیسے پولٹری، ڈیری، مچھلی فارم اور کپاس کے علاوہ دیگر فصلیں اگانے کی بھی کوششیں کریں ۔ اس مالی امداد سے وردھا، امراؤتی، یوت مال، واشم اور آکولہ کے کسانوں کو فائدہ ہو گا۔ وزیر اعظم نے سات سو بارہ کروڑ روپے قرضہ معاف کرنے کے لیئے مختص کیئے ہیں۔ کسانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ بیج اور فصل کے لیئے نئے سرے سے قرض لے سکتے ہیں اس کے لیئے ایک سو اسی کروڑ روپے دیئے گئے ہیں۔ وزیر اعظم نے کسانوں کو خبردار کیا کہ وہ ساہوکار کے چنگل میں نہ پھنسیں اور سرکاری بینکوں سے قرض لیں۔ ریاست میں آبپاشی کے کئی چھوٹے بڑے منصوبے ہیں۔ وزیر اعظم نے ریاستی حکومت کو ان کی جلد از جلد تکمیل کی ہدایت دی ہے اور اس کے لیئے اس پیکج سے دو سو چالیس کروڑ روپے دیئے جانے کا اعلان کیاہے۔ کسانوں کو فصل اگانے اور کاشت کاری کے علاوہ متبادل کام کرنے کے لیئے تین سو پندرہ کروڑ روپے کا فنڈ مختص کیا گیا ہے جو کسانوں میں پانچ سال کے عرصہ میں تقسیم ہو گا۔ مہاراشٹر کے ودربھ میں سینکڑوں کسانوں کی خودکشیاں روکنے کے لیئے دو روزہ دورے پر آئے ہوئے وزیر اعظم کو انڈیا کی حزب اختلاف جماعت کے کارکنان کا غصہ بھی جھیلنا پڑا اور ساتھ ہی کئی کسانوں نے وزیر اعظم کے دورے کا بائیکاٹ بھی کیا۔ وزیر اعظم کو پروگرام کے مطابق کولجھرے گاؤں کے کسانوں کے گھروں میں جا کر ان کے حالات کا اندازہ لگانا تھا لیکن موسم کی خرابی کی وجہ سے وہ وہاں نہیں گئے اور ان سے ملاقات کے لیئے انہیں گاؤں سے باہر اپنے طیارہ کے پاس ملنے کے لیئے بلایا۔ ناراض کسانوں نے منموہن سنگھ کے اس بلاوے کو ٹھکرا دیا۔ ریاستی حکومت میں حزب اختلاف کی جماعت شیو سینا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے اراکین نے مظاہرے بھی کیئے اور پولیس کو ایک ایم ایل اے سنجے سنگھ راٹھور سمیت کئی افراد کو گرفتار بھی کرنا پڑا۔ وزیر اعظم کے اس امدادی پیکج کو ودربھ جن آندولن سمیتی کے صدر کشور تیواری نے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’فوری طور پر کسانوں کو کوئی مدد نہیں دی گئی ہے۔ ان کے قرض معاف کرنے کے بجائے صرف ان کا سود معاف کیا گیا ہے اس لیئے قرض تو جوں کا توں ہی رہے گا‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’ زیادہ تر کسان تو ساہوکاروں کے چنگل میں ہیں اور حکومت نے بینک سے لیئے قرض پر سود معاف کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس پیکج میں حکومت نے کپاس کی خریداری پر کوئی رعایت نہیں دی اگر کسان کسی طرح فصل اگا بھی لیتے ہیں تو پھر انہیں بازار میں کم داموں پر فروخت کرنا پڑے گا اور غیر ممالک سے کپاس پر درآمدی ڈیوٹی پر بھی اضافہ کا مطالبہ نظر انداز کر دیا گیا ہے‘۔ جس وقت وزیر اعظم گاؤں میں کسانوں کی تکالیف سن رہے تھے اس وقت بھی آکولہ اور ایک گاؤں سے دو کسانوں کی خود کشی کی اطلاعات آئی تھیں۔ اس طرح ایک سال میں صرف ودربھ میں خودکشی کرنے والے کسانوں کی تعداد بڑھ کر چھ سو آٹھ ہو چکی ہے۔ وزیر اعظم نے جو پیکج دینے کا اعلان کیا ہے اس میں زیادہ رقم طویل مدتی پروگرام کے لیئے ہے اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ کسانوں کی قرض کی رقم فوری طور پر معاف نہیں ہوئی تو یہ خودکشیوں کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے مہاراشٹر میں ودربھ کے چھ اضلاع کے کسانوں کے لیئے سینتیس ارب پچاس کروڑ روپے کے امدادی پیکج کا اعلان کیاہے۔ text: ترجمان محمد صادق نے دفترِ خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا ’پاکستان کی اجازت کے بغیر ملک کے اندر جو بھی غیر ملکی فوجی کارروائی ہوئی اسے حملہ تصور کیا جائے گا اور اس کا اسی طرح جواب دیاجائے گا۔‘ وزارت خارجہ کے ترجمان ایک سوال کے جواب میں خبردار کیا کہ پاکستان کے جوہری اثاثے بالکل محفوظ ہیں اور یہ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ انہیں کس طرح محفوظ رکھا جائے۔ غیرملکی صحافی نکولس شمڈل کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ صحافی نہیں تھا بلکہ ریسرچ ویزے پر پاکستان آیا تھا اوراسے بےدخل بھی نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ الزام بے بنیاد ہے کہ شمڈل کو پاکستان کے بارے میں کوئی تنقیدی مضمون لکھنے پر بے دخل کیا گیا ہے بلکہ انہیں ان کے غیر ذمہ دارانہ رویے کے باعث ملک چھوڑنے کے لیے کہا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ نکولس شمڈل نے پاکستانی حکام کو اطلاع دیے بغیر شدت پسندوں کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور ایسے لوگوں سے ملاقات کی جن کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات تھے۔ ترجمان نے کہا کہ ’ڈینیئل پرل واقعہ کے بعد حکومت پاکستان کسی کو بھی اس طرح کے ایڈونچر کی اجازت نہیں دے سکتی‘۔ صدر بش کے ایران سے متعلق حالیہ بیان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس مسئلے پر پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے کہ وہ خطے میں مزید کشیدگی نہیں چاہتا اور نہ ہی کوئی ایسا بحران چاہتا ہے جس سے خطے کے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہو۔ ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ صدر پرویز مشرف بیس جنوری سے یورپ کے آٹھ روزہ دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔ اس دورے کے دوران صدر نگران کابینہ کے اراکین اور دیگر اہلکاروں کے ہمراہ برسلز، پیرس، ڈیووس اور لندن کا دورہ کریں گے۔ صدر برسلز میں یورپی یونین کی خارجہ اور سیکورٹی پالیسی کے سربراہ ہاویئر سولانا سمیت یونین کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔ اس کے علاوہ وہ یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی سے خطاب بھی کریں گے۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حدود کے اندر کسی بھی غیر ملکی فوجی کارروائی کو حملہ تصور کیا جائے گا۔ text: کئی درجن مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ مصر کے شہر سوئز میں تقریباً 200 کے قریب مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ مظاہرین مصر کے صدر کے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کئی درجن مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ ان مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز آنسو گیس کا استعمال بھی کر رہی ہیں۔ صدر سیسی کی حکومت کی ’بدعنوانی` کے خلاف جمعے کو شہریوں کی بڑی تعداد قاہرہ کے مشہور تحریر سکوائر پر بھی جمع ہو گئی۔ صدر سیسی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں جھوٹ قرار دیا ہے۔ یہ بھی پڑھیے ’صدر سیسی 2030 تک اقتدار میں رہ سکتے ہیں‘ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کو رہا کر دیا گیا مصر: صحافیوں کی یونین کے سربراہ کو دو سال قید مظاہرے کیوں ہو رہے ہیں؟ سنہ 2014 میں مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت کو ختم کر کے ملک کے فوجی سربراہ عبدالفتح سیسی اقتدار میں آئے تو اس وقت سے ان کے خلاف مظاہرے ہونا بہت غیرمعمولی تصور کیا جاتا رہا ہے۔ حالیہ مظاہروں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب مصر کے مشہور اداکار اور کاروباری شخصیت محمد علی نے سوشل میڈیا پر صدر سیسی اور ان کی حکومت کے خلاف متعدد ویڈیوز شئیر کیں۔ مظاہرین کی جانب سے صدر سیسی کی حکومت پر بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ آن لائن شیئر کی گئیں ان ویڈیوز میں کہا گیا کہ جہاں ملک میں غربت سے عام آدمی کا جینا محال ہوچکا ہے تو وہیں مصری حکمران عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ملین ڈالرز کے بڑے بڑے بنگلے خرید رہے ہیں اور قومی خزانے سے رقم کو اپنی عیاشیوں پر لٹا رہے ہیں۔ مصر میں حالیہ برسوں میں معاشی بچت سے متعلق مہم بھی شروع کی گئی تھی۔ جہاں ملک میں مختلف حصوں میں احتجاج کا یہ سلسلہ جاری ہے وہیں جمعے کو مظاہرین کی بڑی تعداد 2011 سے مظاہروں کے لیے مشہور قاہرہ کے تحریر سکوائر میں بھی جمع ہوئے اور انھوں نے صدر سیسی کے خلاف نعرے لگائے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اب تک 74 مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ تاہم اس سے متعلق ابھی تک سرکاری سطح پر کچھ نھیں بتایا گیا ہے۔ سنیچر کے روز کیا ہوا تھا؟ سنیچر کو مصر کے شہر سوئز میں تقریباً 200 کے قریب مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے جہاں جمعے کو بھی احتجاج ہوا تھا۔ ان مظاہروں کے دوران آنسو گیس کے شیل فائر کرنے پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم بھی ہوا۔ سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین صدر سیسی کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں اور فوجی صدر کو خدا کا دشمن قرار دے رہے ہیں۔ سنیچر کو محمد علی نے مصر میں مظاہروں کی اپیل کرتے ہوئے مصری شہریوں سے کہا کہ وہ ملین مارچ میں شریک ہوں اور ملک کے تمام بڑے سکوائرز پر احتجاج کریں۔ مصر کے صدر عبدالفتح السیسی کے خلاف مسلسل دوسری رات کو بھی ملک میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، جن میں سکیورٹی فورسز نے اب تک کئی درجن مظاہرین کو گرفتار کرلیا ہے۔ text: اس سے قبل پاکستان کی ٹیم اپنی پہلی اننگز میں 231 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی تھی۔ پہلے روز کی ہی طرح دوسرے دن کا کھیل بھی خراب روشنی کی وجہ سے وقت سے پہلے روک دیا گیا۔ دوسرے دن کے کھیل کے خاتمے پر بھارت کو پاکستان کی پہلی اننگز کی برتری ختم کرنے کے لیے مزید پانچ رن درکار ہیں اور وی وی ایس لکشمن ستاون جبکہ انیل کمبلے سات رنز کے انفرادی سکور پر ناٹ آؤٹ ہیں۔ بھارتی اننگز کی خاص بات نائب کپتان مہندر سنگھ دھونی اور لکشمن کی عمدہ نصف سنچریاں تھیں۔ ان دونوں بلے بازوں کے درمیان سو رن سے زائد کی شراکت ہوئی۔ پاکستان کی جانب سے شعیب اختر اور سہیل تنویر نے دو، دو جبکہ دانش کنیریا نے ایک وکٹ حاصل کی جبکہ ایک کھلاڑی رن آؤٹ ہوا۔ اس سے قبل دوسرے دن کا کھیل شروع ہونے پر پاکستان نے اپنی پہلی اننگز دوبارہ شروع کی اور اس کی پوری ٹیم 231 رن بنا کر آؤٹ ہوگئی۔ پاکستان کی جانب سے مصباح الحق نے ذمہ دارانہ اننگز کھیلتے ہوئے بیاسی رن بنائے۔ ان کے علاوہ کوئی بھی بلے باز قابلِ ذکر کارکردگی نہ دکھا سکا۔ انڈیا کی جانب سے انیل کمبلے کامیاب ترین بالر رہے۔ انہوں نے چار جبکہ ظہیر خان نے دو وکٹیں حاصل کیں۔ جواب میں بھارتی اننگز کا آغاز بھی اچھا نہ تھا اور پہلی بھارتی وکٹ صرف پندرہ رن پر اس وقت گری جب شعیب اختر نے دنیش کارتک کو کامران اکمل کے ہاتھوں کیچ کروا دیا۔ دوسری وکٹ کے لیے وسیم جعفر اور راہول ڈراوڈ کے درمیان پچاس رن سے زائد کی شراکت ہوئی اور جب بھارت کا سکور اکہتر پر پہنچا تو وسیم جعفر بتیس رن بنا کر شعیب اختر کا دوسرا شکار بنے۔ مجموعی سکور میں صرف ایک رن کے اضافے کے بعد ہی بھارت کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا جب سچن تندولکر پہلی ہی گیند پر رن آؤٹ ہوگئے۔ بھارت کی چوتھی وکٹ اٹھاسی کے سکور پر گری جب گنگولی کو سہیل تنویر نے آؤٹ کر دیا۔ ڈراوڈ آؤٹ ہونے والے پانچویں بھارت کھلاڑی تھے جو آٹھ رن بنا کر سہیل تنویر ہی گیند پر بولڈ ہوئے۔ اس وقت بھارت کا سکور ترانوے رن تھا۔ اس موقع پر دھونی اور لکشمن نے بھارتی اننگز کو سہارا دیا اور ٹیم کا سکور 208رن تک لے گئے۔ اس موقع پر دھونی 57 رنز بنا کر دانش کنیریا کی گیند پر سٹمپ ہوئے۔ مایہ ناز لیگ سپنر انیل کمبلے نے دلی کے فیروز شاہ کوٹلہ میدان پر پاکستان کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ سے قومی ٹیم کی کپتانی کا آغاز کیا ہے۔ یہ وہی میدان ہے جہاں 1999 میں انہوں نے پاکستان کے خلاف ایک ہی اننگز میں دس وکٹیں لے کر جم لیکر کا عالمی ریکارڈ برابر کیا تھا۔ یاد رہے کہ گزشتہ ستائیس برسوں ميں ہندوستان نے اپنی سرزمین پر پاکستان کے خلاف ایک بھی ٹیسٹ سریز نہیں جیتی ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان دِلی میں ہونے والے پہلے ٹیسٹ کے دوسرے دن کھیل کے اختتام پر انڈیا نے اپنی پہلی اننگز میں چھ وکٹوں کے نقصان پر 228 رنز بنا لیے ہیں۔ text: خیال رہے کہ تقریباً تین ہفتے قبل امریکہ کی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلمان ملکوں پر سفری پابندیوں کے قانون کو جزوی طور پر بحال کر دیا تھا۔ اس حکم نامے میں چھ مسلمان ممالک پر 90 روز کی سفری پابندی اور پناہ گزینوں پر بھی 120 روزہ پابندی عائد کرنے کا کہا گیا تھا۔ صدر ٹرمپ کی سفری پابندیاں جزوی طور پر بحال چھ مسلم ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیاں نافذالعمل حکومتی اپیل مسترد، سفری پابندیوں کی معطلی برقرار جمعرات کو ریاست ہوائی کے ضلعی جج ڈیرک واٹسن کی جانب دیا جانے والا یہ فیصلہ صدر ٹرمپ کے امیگریشن کریک ڈاؤن کے مقابلے میں تازہ کارروائی ہے۔ گذشتہ ماہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ فقط انتہائی قریبی رشتے دار ہی امریکہ میں آ سکیں گے۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے فیصلہ کیا تھا کہ ان میں وہاں کے رہائشیوں کے دادا دادی یا نانا نانی، پوتے پوتیاں یا نواسے نواسیاں، بھائیوں یا بہنوں کی اولاد، شوہر اور بیوی کے بہن بھائی یا کزن وغیرہ شامل نہیں۔ تاہم جج نے قریبی رشتے داروں سے متعلق حکومتی وضاحت کو 'بہت محدود' قرار دیا ہے۔ اپنے فیصلے میں جج ڈیرک واٹسن کا کہنا تھا کہ 'مثال کے طور پر عقل سلیم یہ کہتی ہے قریبی خاندان کے افراد میں دادا اور دادی بھی شامل ہیں۔ بے شک دادا اور دادی قریبی خاندان کے افراد میں سب سے اہم ہوتے ہیں۔' جج واٹسن کے فیصلے کے نہ صرف ہوائی بلکہ پورے امریکہ میں دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ وہ ضلعی عدالتوں کے 700 ججوں میں سے ایک ہیں جو مقامی ریاستی عدالتوں کے بجائے وفاقی نظام کا حصہ ہیں۔ ان کا کام یہ ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی طرف سے حاصل کردہ اختیارات کے تحت وفاقی معاملات کی قانونی وضاحت کریں۔ اس سے قبل امریکی اپیل کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چھ مسلم ممالک کے افراد پر 'سفری پابندی' کے ترمیم شدہ حکم نامے کو متعصبانہ قرار دیتے ہوئے معطلی کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ پابندیاں امریکی شہریوں کے تحفظ اور دہشت گردی کے حملوں سے بچنے کے لیے ضروری تھیں۔ تاہم ان پابندیوں کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی برتاؤ ہیں۔ امریکی ریاست ہوائی کے ایک جج نے کہا ہے کہ امریکہ میں مقیم افراد کے دادا، دادی، نانا، نانی اور دیگر عزیز و اقارب کو صدر ٹرمپ کی سفری پابندیوں کے تحت ملک میں داخلے سے نہیں روکا جا سکتا۔ text: برطانیہ نے سفارتکاروں کو ملک سے نکل جانے کا حکم اس وقت دیا ہے جب روس نے گزشتہ برس لندن میں قتل کیے جانے والے الیگزینڈر لیتوینینکو کے قتل میں مطلوب سابق کے جی بی کے ایجنٹ کو برطانیہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ وزیرِ اعظم گوورڈن براؤن نے کہا کیونکہ ’کوئی تعاون نظر نہیں آ رہا، اس لیے کارروائی کرنا ضروری تھا۔‘ تاہم گورڈن براؤن نے کہا کہ برطانیہ روس سے اچھے تعلقات چاہتا ہے۔ کے جی بی کے سابق ایجنٹ الیگزینڈر لیتوینینکو کو نومبر 2006 میں تابکاری مادے پولونیم۔210 کے ذریعے ہلاک کیا گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق پولونیم۔210 ایک انتہائی تیز تابکاری مادہ ہے اور اگر یہ خوراک یا سانس کے ذریعے انسانی معدے میں چلا جائے تو یہ پورے جسم میں سرعت کے ساتھ پھیل جاتا ہے۔ لیتوینینکو کے قتل میں ملوث ہونے کا شبہ کے جی بی کے ایک سابق ایجنٹ ایندرے لگووئے پر کیا جا رہا ہے اور ماسکو نے اس کو برطانیہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا ہے۔ برطانوی وزارتِ خارجہ نے نکالے جانے والے روسی سفارتکاروں کے نام جاری نہیں کیے ہیں لیکن بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ یہ سب انٹیلیجنس کے اہلکار ہیں۔ برطانیہ کے وزیرِ اعظم گورڈن براؤن نے کہا ہے کہ برطانیہ چار روسی سفارتکاروں کو ملک سے نکل جانے کا حکم دینے پر کوئی ’معافی‘ نہیں مانگے گا۔ text: عامر خان کی طرح کرکٹ کے لیجنڈ سچن کو بھی مسٹر پرفیکشنسٹ کہا جاتا ہے انڈسٹری کے اند اور باہر لوگوں نے عامر کی تعریفوں کے پل باندھنے شروع کر دیے۔ ان لوگوں میں فلمساز رام گوپال ورما بھی شامل تھے جو فلم 'شعلے' کو 'آگ' لگانے کے بعد آج کل فلموں سے فری اور سوشل میڈیا پر بہت مصروف ہیں اور اکثر مختلف موضوعات پر اپنی قیمتی رائے سے لوگوں کو فیض پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اب وہ 'دنگل' کی زبردست کامیابی پر کیسے خاموش رہ سکتے تھے۔ رامو جی نے 'دنگل' کی تعریف کرتے ہوئے عامر خان کے پیر چھونے کی خواہش ظاہر کی۔ خیال رہے کہ یہ وہی عامر ہیں جن کے ساتھ رامو کام نہ کرنے کی قسم کھا چکے تھے۔ بہرحال تعریف تک تو ٹھیک تھا اب رامو نے انتہائی بھونڈے انداز میں دوسرے خانوں کا مذاق اڑانے کی کوشش بھی کی۔ خانوں کا تو پتہ نہیں ہاں سوشل میڈیا پر اب رام گوپال ورما ضرور مذاق کا موضوع بن گئے ہیں۔ گووندا اور سلمان کی دوستی سلمان خان اور گووندا ایک دوسرے کے اچھے دوست کہے جاتے ہیں خانوں سے یاد آیا کے سلمان خان نے اسی ہفتے اپنی 51ویں سالگرہ منائی اور اپنے تمام دوستوں کو مدعو بھی کیا۔ یوں تو انڈسٹری میں سلمان کے دوستوں کی کمی نہیں لیکن کچھ دوست ان کے لیے خاص ہیں اور گوندا بھی اسی فہرست میں آتے ہیں۔ حالانکہ ایسی خبریں تھیں کہ گوندا سلمان سے کچھ ناراض تھے۔ لیکن سلمان نے ان کی آنے والی فلم 'آگیا ہیرو' کے ٹریلر کی تعریف کرتے ہوئے لکھا 'آگیا میرا ہیرو میرا پارٹنر' جس پر 53 سالہ گوندا نے بھی اپنی اور سلمان کی ایک پرانی تصویر کے ساتھ شکریہ ادا کیا۔ گوندا اور سلمان کی فلم 'پارٹنر' ان کی کامیاب ترین فلموں میں سے ایک ہے۔ سنہ 1986 میں فلم 'الزام' سے ڈیبیو کرنے والے گوندا کو انڈسٹری میں 30 سال ہو گئے۔ اب اس فلم کے رائٹر، پروڈیوسراور ایکٹرسب گوندا ہی ہیں۔ چلیں دیکھتے ہیں کہ یہ ون مین شو کیسا رہے گا؟ انوشکا اور وراٹ کی منگنی کی تردید وراٹ کوہلی اور انوشکا شرما کے بارے میں سوشل میڈیا ایک بار پھر سرگرم نظر آ رہی ہے اس ہفتے ایک بار پھرانوشکا شرما اور وراٹ کوہلی میڈیا میں سرخیاں بٹورتے نظر آئے اور ہر طرف ان کی منگنی کی خبریں دکھائی دیں۔ پہلے دونوں کے بریک اپ کی باتیں ہو رہی تھیں۔ لیکن بھارتی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے کپتان کوہلی نے ٹویٹ کر کے واضح کر دیا ہے کہ وہ اور انوشکا شرما منگنی نہیں کر رہے ہیں۔ انھوں نے ٹویٹ کیا: 'ہم منگنی نہیں کر رہے ہیں اور اگر کرتے تو یہ بات چھپاتے نہیں۔ سمپل' کوہلی نے مزید لکھا: 'کیونکہ نیوز چینل افواہ پھیلانے سے باز نہیں آ رہے ہیں اور آپ سب کو كنفيوژ کر رہے ہیں، ایسے میں ہم یہ كنفيوژن دور کر رہے ہیں۔' کوہلی کے دونوں ٹویٹ انوشکا شرما نے ری ٹویٹ کر اس بات کی تصدیق بھی کی۔ اس سے پہلے بھی کئی بار کوہلی اور انوشکا کے تعلقات پر سوشل میڈیا پر خاصی بحث ہوتی رہی ہے۔ عامر خان نے فلم 'دنگل' سے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ واقعی 'مسٹر پرفیکشنسٹ' ہیں۔ فلم نے ایک ہی ہفتے میں 200 کروڑ کا ہندسہ پار کر لیا ہے۔ text: مگر ایسا ہوا۔ اسرائیل نے پھر سے بیروت پر بم گرائے۔ مرکزی بیروت میں ایک سکول کے احاطے میں موجود بے گھر ہونے والے درجنوں بچوں نے آدھی رات کو خوفناک دھماکے سنے۔ ایک رات چار بڑے دھماکے، اور اس سے اگلی رات چھ بم ہر جگہ گرے۔ بچوں کی پناہ گاہوں پر بھی۔ بیشتر لوگ جون کے وسط میں اسرائیلی بمباری سے پہلے شہر کے نواح میں موجود اپنے رہائشی فلیٹ چھوڑ کر یہاں آگئے تھے۔یہ لوگ اب بھی یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کے فلیٹ سلامت ہوں گے اور یہ ان میں واپس جاسکیں گے۔لوگ مجھ سے کہتے ہیں ’ہم حزب اللہ نہیں ہیں پھر ہمارے گھروں پر کیوں بمباری کی جارہی ہے؟‘ اسرائیل کا کہنا ہے کہ بیروت پر دوبارہ حملے بلا جواز نہیں کیونکہ وہ حزب اللہ کو ٹارگٹ کررہے ہیں۔ تاہم شہر میں موجود وہ ہزاروں افراد جو حزب اللہ کے حمایتی نہیں ہیں، ان حملوں کو اجتماعی سزا تصور کررہے ہیں۔ اسرائیل کے طاقتور اسلحہ کے جواب میں حزب اللہ کے کتیوشہ میزائل بھی اسرائیلی شہری آبادی میں گر رہے ہیں لیکن لبنان کے مقابلے میں اسرائیل کا جانی نقصان معمولی ہی ہے۔ کئی لبنانی اتفاق کرتے ہیں کہ حزب اللہ کو اسرائیلی فوجی پکڑتے وقت اسرائیل کے رد عمل کا اندازہ نہیں تھا۔ تاہم اب بیشتر لوگوں کا یہی کہنا ہے ’ہم کبھی بھی حزب اللہ کے ساتھ نہیں تھے لیکن اب ہم سب حزب اللہ ہیں۔ اسرائیل کا رد عمل بالکل بلا جواز ہے۔ وہ جتنی زیادہ تباہی پھیلائیں گے، حزب اللہ کی حمایت اتنی ہی بڑھے گی‘۔ چند لوگ حزب اللہ کو برا بھلا بھی کہتے ہیں اور یہ بھی کہ اسرائیل کا رد عمل وہ سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ بجلی کی فراہمی رکنے سے بیروت کی گلیاں رات کو اندھیرے میں ڈوب جاتی ہیں۔ شہر کا کاروبار بمشکل چل رہا ہے۔ ٹیکسی والے سواری بٹھانے سے پہلے ہی معذرت کرلیتے ہیں کہ ممکن ہے کہ منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی پٹرول ختم ہوجائے۔ چہروں پر تناؤ اور مسلسل بمباری کے خوف سے تھکاوٹ اور پریشانی کے تاثرات عیاں ہیں۔ ایک کیفے میں کافی لوگوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ یکدم ہی بمبار طیاروں کی گونج سنائی دی۔ میرے ساتھ والی میز پر بیٹھے نوجوان نے کھڑکی سے باہر اشارہ کرتے ہوئے کہا ’یہ بھی تو دہشتگردی ہے‘۔ مجھ سے لوگ پوچھتے ہیں’آپ کو پتہ ہے کہ بمباری کب رکے گی؟‘ اور میں انہیں کہتا ہوں کہ جتنا اندازہ آپ کو ہے اتنا ہی مجھے بھی ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں ’لیکن کیا وہ بیروت پر پھر سے بم برسائیں گے؟‘ اور میرا جواب: ’ایسا کرنے کا بظاہر تو کوئی مقصد نہیں لگتا‘۔ text: سیلاب اور ژالہ باری سے متاثرہ علاقوں کے کاشت کاروں نے حکومت سے مدد کی اپیل کی ہے۔ اتحاد کاشتکاران، صوبہ سرحد کے صدر عارف علی خان نے بدھ کے روز پشاور میں ایک اخباری کانفرنس میں بتایا کہ ضلع صوابی، مردان اور چارسدہ میں حالیہ سیلاب اور ژالہ باری سے فصلوں کو خصوصا تمباکو کی فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس سلسلے میں ان کے پاس کوئی ٹھوس اعدادوشمار تو نہیں تھے تاہم انہوں نے اس نقصان کو کروڑوں روپے میں بتایا۔عارف خان کا کہنا تھا کہ ان کی حالت اتنی خراب ہے کہ ان کے پاس پیٹ بھرنے کے لیے آٹے کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ ایسے متاثرہ کاشت کاروں کی تعداد بھی انہوں نے ہزاروں میں بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سیلابی پانی فصلوں میں کھڑا ہوگیا جس سے تمباکو جل گیا ہے‘۔ ان کاشت کاروں نے مرکزی حکومت سے جو ان کے بقول ان سے ہر سال تیس ارب روپے کا ٹیکس وصول کرتی ہے ان کے نقصان کا ازالہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے تمباکو خریدنے والی کمپنیوں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ اُن کی فصلوں کے بیمے کا بندوبست کیا کریں تاکہ ان کو مالی مشکلات سے بچایا جاسکے۔ مطالبات پر غور نہ کرنے کی صورت میں کاشتکاروں نے احتجاج کی دھمکی دی ہے۔ صوبہ سرحد میں کاشتکاروں خصوصاً تمباکو اگانے والوں کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب سے ان کی پچاس فی صد فصل تباہ ہوگئی ہے۔ text: وزیرِ کالونیز مناظر علی رانجھا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لیز ختم ہوجانے کے باوجود ملٹری فارم لاہور کی زمین کا قبضہ فوج کے پاس ہے اور وہاں سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی فوج کو ہی جاتی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ مزارعین کا پنجاب حکومت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور زمیندار فوج ہے اور ان کو اگر کوئی مسئلہ ہے تو وہ ان کا زمیندار (فوج) ہی حل کر سکتا ہے۔ صوبہ میں اس وقت حکومتِ پنجاب کی اراضی پر واقع ملٹری فارم برکی روڈ لاہور، اوکاڑہ ملٹری فارم اور رینالہ سٹیٹ ملٹری فارم مزارعین اور فوج کے درمیان تنازعہ کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔ اوکاڑہ ملٹری فارم کے مزارعین نے فوج اور رینجرز کی جانب سے مبینہ طور بے دخل کیے جانے کے خلاف سنہ دو ہزار سے تحریک شروع کر رکھی ہے۔ ان کی تحریک کے نتیجے میں دو ہزار پانچ میں رینجزر کو حکومت نے مداخلت سے روک دیا اور آہستہ آہستہ وہاں قائم رینجرز کی چوکیاں بھی ختم کر دی گئیں۔جس کے بعد مزارعین اوکاڑہ اور رینالہ میں نہ صرف کاشت کاری کر رہے ہیں بلکہ پوری پیداوار بھی خود ہی لے رہے ہیں ۔ تاہم صوبائی حکومت نے مالکانہ حقوق دینے والا ان کا مطالبہ تاحال تسلیم نہیں کیا۔ اوکاڑہ ملٹری فارم ساڑھے آٹھ ہزار ایکڑ سے زیادہ اراضی پر قائم ہے۔ جبکہ رینالہ سٹیٹ کے اراضی تین ہزار ایکڑ سے زیادہ ہے۔ ملٹری فارم لاہور کے مزارعین بھی فوج کی لیز ختم ہو جانے کے باوجود ان کو مالکانہ حقوق نہ ملنے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ فوج کی لیز دو ہزار پانچ میں ختم ہو چکی ہے لیکن وہ اب بھی تیرہ ہزار ایکڑ زرعی زمین پر قابض ہے اور مزارعین کو بے دخل کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔جبکہ یہ زمین پنجاب حکومت کی ملکیت ہے ۔ مزارعین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس زمین پر ایک سو تین سال سے کھیتی کررہے ہیں اور اب ان کا قانونی طور پر یہ حق بن گیا ہے کہ اس زمین کے مالکانہ حقوق ان کہ دیے جائیں۔ اور فوج کی لیز میں توسیع نہ کی جائے۔ مزارعین کا دعویٰ ہے کہ بورڈ آف ریونیو سے لے کر سپریم کورٹ تک سب نے ان کے حق میں فیصلہ دیا ہے لیکن فوج کے قبضے کی وجہ سے صوبائی حکومت بھی بے بس ہے اور ان کو مالکانہ حقوق نہیں دیئے جا رہے۔ اب نئی لیزنگ پالیسی کے بعد ہی متنازعہ سرکاری اراضی اور مزارعین کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے کہ آیا حکومتِ پنجاب سرکاری اراضی کے مالکانہ حقوق مزارعین کو دیتی ہے کہ فوج کو یہ زمین دوبارہ لیز پر دی جاتی ہے۔اس صورت میں فوج مزارعین سے کاشتکاری کروائے گی یا کہ ان کو بے دخل کر دیا جائے گا۔ مناظر حسین رانجھا کے مطابق نئی لیزنگ پالیسی کی تشکیل کے بعد ملٹری فارمز سمیت تمام سرکاری اراضی کے حوالے سے فیصلے کئے جائیں گے۔ حکومت جو پالیسی تشکیل دے رہی ہے وہ عام شہریوں اور فوج کےلیے یکساں ہوگی۔ مزارعین کے مطالبے کے حوالے سے متعلقہ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ مزارعین ہمارے پاس کبھی نہیں آئے ۔ان کے مطابق ’مجھے نہیں پتہ کہ مزارعین کون سی عدالت میں گئے ہیں اور کس عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ کیا ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبہ کے وزیراعلیٰ نے لیز پر پابندی عائد کر رکھی ہے جو کہ ان کا صوابدیدی اختیار ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ لیزنگ کی نئی پالیسی آنے کے بعد فوج کو اگر یہ اراضی دوبارہ لیز پر دینے کا فیصلہ کیا گیا تو لیز کی توسیع دو ہزار پانچ سے ہی نافذِالعمل ہوگی۔ لیز کی میعاد بڑھانے کے بعد ہی فوج کے ساتھ لیز کی رقم اور دیگر شرائط طے کی جائیں گے۔ لیز دوبارہ فوج کو دینے اور مزارعین کے مستقبل سے متعلق جب ان سے پوچھا گیا تو صوبائی وزیر نے کہا ’یہ مزارعین اور فوج کا آپس کا معاملہ ہے فوج زمیندار ہے اور زمین کاشت کرنے والے اس کے مزارعے ہیں لہذا اس معاملے سے حکومتِ پنجاب کا کوئی لینا دینا نہیں ہے‘۔ ملٹری فارم لاہور کے مزارعین ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی لاہور پر بھی الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ فیز پانچ، چھ اور سات میں توسیع کرنے کے لیے ان سے یہ زمین خالی کرانا چاہتی ہے۔ جبکہ ڈی ایچ اے نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ ڈی ایچ اے کے ترجمان تجمل حسین نے چیئرمین کے حوالے سے بتایا کہ نہ تو ڈی ایچ اے کا اُس طرف ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کا کوئی ارادہ ہے اور نہ ہی مزارعین کو کسی نے ڈرایا دھمکایا ہے۔ جبکہ اوکاڑہ فارم کی لیزکے متعلق کئی بار لاہور سے بورڈ آف ریونیو فارم کی انتظامیہ کو نوٹس بھیج چکی ہے کہ بتایا جائے کہ ان کو سرکاری اراضی کی لیزنگ کس نے اور کن شرائط پردی۔ مزارعین کے اس رہنما (جوکہ رینالہ خورد کی یونین کونسل نمبر پینتیس کے ناظم بھی ہیں) کے مطابق ایک بار بھی ملٹری فارم انتظامیہ نے بورڈ کے نوٹس کا جواب نہیں دیا۔ انہوں نے بتایا کہ مزارعین کی تحریک کے بعد اب وہاں پر فوج نہیں آتی نہ ہی بٹائی میں فوج کو حصہ دیا جاتا ہے۔ ’ہم نے حکومت پنجاب کو بٹائی سے حصہ لینے کا کہا تھا لیکن حکومت نے ہماری اس پیشکش کا کوئی بھی جواب نہیں دیا‘۔ ان کا کہنا تھا کہ مزارعین تین نسلوں سے کاشتکاری کرتے آ رہے ہیں۔ ٹیننسی ایکٹ کہ مطابق اگر کوئی مزارع پانچ سال تک سرکاری اراضی کاشت کرتا ہے تو اس اراضی پر مزارع کا حق بن جاتا ہے۔ پہلے یہ مدت پندرہ اور پینتیس سال بھی رہی ہے لیکن نواز شریف کے دور میں اس میں ترمیم کر کے یہ مدت پانچ سال کر دی گئی تھی۔ پنجاب کی حکومت سرکاری اراضی لیز پر دینے کے لیے نئی پالیسی تشکیل دے رہی ہے۔ جبکہ فی الوقت سرکاری اراضی کسی کو بھی لیز پر دینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ text: وزارت داخلہ حکام کا کہنا ہے کہ دستیاب معلومات کے مطابق شرپسندوں نے پہلے ہی سے اے ایف آئی سی ہسپتال سے خصوصی عدالت جانے والے تمام ممکنہ راستوں کی ریکی کر لی ہے اس خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ: ’ایسا لگتا ہے کہ شدت پسندوں کے ہمدرد مشرف کے سکیورٹی قافلے میں موجود ہیں تاکہ انھیں قتل کیا جا سکے۔‘ یہ خط جس کا عکس نجی ٹی وی چینل دنیا ٹی وی پر دکھایا جا رہا وزارت داخلہ اور نیشل کرائسس مینجمنٹ سیل کے سرکاری لیٹر ہیڈ پر جاری کیا گیا ہے اور اس کے اوپر’سیکریٹ‘ کا لفظ لکھا ہوا ہے۔ اس میں کہا ہے گیا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی جان کو القاعدہ یا کالعدم تحریک طالبان سے خطرہ ہے جبکہ سابق صدر کے وکیل کہتے ہیں کہ عدالت نے تحفظ کی یقین دہانی کروائی تو ہی مشرف منگل کو عدالت میں حاضری دیں گے۔ وزارت داخلہ کے حکام کا کہنا ہے کہ دستیاب معلومات کے مطابق شرپسندوں نے پہلے ہی سے اے ایف آئی سی ہسپتال سے خصوصی عدالت جانے والے تمام ممکنہ راستوں کی ریکی کر لی ہے اور سخت گیر جنگجوؤں کو جنرل (ر) پرویز مشرف کے حفاظتی دستے کا پیچھا کرنے پر معمور کیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کے اس خط میں ہوم سیکرٹری پنجاب، پی پی او پنجاب، چیف کمشنر اسلام آباد، انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد، ڈی آئی جی سکیورٹی اسلام آباد اور آر پی او راولپنڈی کو مخاطب کیا گیا ہے ۔ خط میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف پر کورٹ کے اندر یا کورٹ کے باہر حملہ ہو سکتا ہے یا پھر ان کے قافلے کے راستے میں دیسی ساخت کے بم نصب کیے جا سکتے ہیں۔ دوسری جانب پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر محمد علی سیف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزارت داخلہ کے خط کے بارے میں معلوم ہوا ہے اور اب عدالت کی جانب سے سابق صدر مشرف کی جان کےتحفظ کی یقین دہانی کے بعد ہی عدالت جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ’صحت کا معاملہ اپنی جگہ لیکن اب یہ تو سکیورٹی کا بھی مسئلہ ہے۔ یہ ایک نئی پیش رفت ہے جو بہت سیریئس معاملہ ہے اس کو عدالت اور حکومت دونوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔‘ صدر مشرف کی منگل کو خصوصی عدالت میں پیشی کے حوالے سے بیرسٹر سیف کہا کہ ’منگل کے روز بھی ہم وہیں طریقہ کار اختیار کریں گے جو ہم پہلے کرتے تھے۔‘ انھوں نے کہا کہ پہلے بھی عدالت جب انھیں طلب کرتی تھی تو ہم پہلے ان کے تحفظ کی ضمانت مانگتے تھے اور پھر تسلی کے بعد انھیں عدالت میں پیش کیا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ 5 مارچ کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے کہا تھا کہ حالات جیسے بھی ہوں ملزم کو 11 مارچ کو عدالت میں پیش ہونا پڑے گا اور اُس دن اُن پر فرد جُرم عائد کی جائے گی۔ تاہم اسی پیشی پر سابق صدر کی وکلا ٹیم میں شامل احمد رضا قصوری نے عدالت میں شدت پسندوں کی طرف سے لکھا گیا ایک مبینہ خط بھی عدالت میں پڑھ کر سُنایا جس میں اُن سمیت وکلا ٹیم میں شامل شریف الدین پیرزادہ اور انور منصور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی پیروی چھوڑ دیں ورنہ اُنھیں اور اُن کے خاندان کے دیگر افراد کو نشانہ بنایا جائے گا۔ وزارت داخلہ کی جانب سے پیر کے روز جاری ہونے والے خط کی کاپیاں وزیراعظم ہاوس، ایوان صدر اور وزارت دفاع کو بھی ارسال کی گئی ہیں اور اس کے آخر میں ’خفیہ‘ لکھا ہے۔ تاہم وزارت داخلہ اور وزیراعظم ہاؤس سے رابطہ کیا گیا تاہم متعلقہ انتظامیہ نے اس کی تصدیق کرنے سے معذوری کا اظہار کیا۔ پاکستان کی وزارت داخلہ کو خفیہ اداروں سے موصول ہونے والی معلومات میں اس خطرے کی نشاندہی کی گئی ہے کہ سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو سابق گورنر سلمان تاثیر کی طرح سکیورٹی اداروں کے اندر موجود شدت پسند عناصر کی طرف سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ text: 'میں ایسا کر سکتا ہوں۔ ہم قومی ہنگامی صورت حال کا اعلان کرتے ہوئے اسے بہت تیزی سے تعمیر کر سکتے ہیں۔ یہ اس کی تعمیر کا دوسرا طریقہ ہے' انھوں نے یہ بات سینیئر ڈیموکریٹ رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کے بعد کہی جنھوں نے میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے فنڈنگ کی منظوری سے انکار کر دیا ہے۔ اس تعطل کے نتیجے میں صدر ٹرمپ نے حکومت کو پوری طرح فنڈ کرنے والے بل کی منظوری اس وقت تک روک دی ہے جب تک انھیں سرحد پر دیوار بنانے کے لیے پیسے نہیں مل جاتے۔ انھوں نے کہا کہ وہ ’گورنمنٹ شٹ ڈاؤن‘ یا حکومت کی جزوی بندش کے لیے تیار ہیں جبکہ یہ تعطل تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ بھی پڑھیے امریکہ میں حکومتی نظام جزوی طور پر ٹھپ اخراجات کا بل پاس نہ ہو سکا، وفاقی حکومت کا شٹ ڈاؤن اور اس کے نتیجے میں تقریبا آٹھ لاکھ وفاقی ملازمین گذشتہ 22 دسمبر سے بغیر تنخواہ کے ہیں۔ ڈیموکریٹ کی سپیکر نینسی پلوسی اور سینیٹ میں اقلیت کے رہنما چک شومر ویسٹ ونگ سے باہر نکلتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں ڈیموکریٹس کے ساتھ جمعے کی میٹنگ میں کیا ہوا؟ ریپبلکن صدر نے ابتدا میں 90 منٹ تک جاری رہنے والی میٹنگ کے بارے میں مثبت خیال ظاہر کیا اور اسے 'بہت سودمند' قرار دیا۔ لیکن جب ان سے کانگریس کی منظوری کو نظر انداز کرتے ہوئے صدر کے ہنگامی اختیارات کے استعمال پر غور کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ انھوں نے اس پر غور کیا ہے۔ 'میں ایسا کر سکتا ہوں۔ ہم قومی ہنگامی صورت حال کا اعلان کرتے ہوئے اسے بہت تیزی سے تعمیر کر سکتے ہیں۔ یہ اس کی تعمیر کا دوسرا طریقہ ہے۔' انھوں نے مزید کہا: 'جو کچھ کہ میں کر رہا ہوں مجھے اس پر فخر ہے۔ میں اسے بند کرنا نہیں کہتا میں اسے اپنے ملک کی حفاظت اور فائدہ کے لیے کام کرنا کہتا ہوں۔' ایوان کی سپیکر نینسی پیلوسی نے کہا کہ جمعے کی میٹنگ 'متنازع' تھی جبکہ سینیٹ کے ڈیموکریٹک رہنما چک شومر نے کہا: 'ہم نے صدر سے کہا کہ ہمیں حکومت کو کھلا رکھنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے اس کی مخالفت کی۔' صدر ٹرمپ اور نائب صدر مائک پینس نے ریپبلکن اور ڈیموکریٹ رہنماؤں سے بدھ کو ملاقات کی اس کا بیک گراؤنڈ کیا ہے؟ ایوان میں ڈیموکریٹس کو اکثریت حاصل ہے۔ انھوں نے حکومت کا کام کاج دوبارہ شروع ہونے کے لیے جمعرات کو اخراجات کے بل کی منظوری دی جس میں سرحد کی حفاظت کے لیے ایک ارب 30 کروڑ ڈالر بھی شامل ہیں۔ لیکن یہ اس وقت تک عمل میں نہیں لایا جا سکتا جب تک کہ ریپبلکن کی اکثریت والی سینیٹ میں یہ منظور نہیں ہوتا اور سینیٹ کے رہنما مچ میکوننل نے کہا کہ ان کی پارٹی کسی بھی اقدام کی حمایت بغیر صدر کی منظوری کے نہیں کرے گی۔ کینٹکی کے سینیٹر نے ڈیموکریٹس کے بجٹ کو 'وقت برباد کرنے کا سیاسی انداز' قرار دیا۔ تھائی لینڈ کی ایک سیاح نے جزوی بندش کے نتیجے میں چڑیا گھر کے بند ہونے کی نوٹس کے ساتھ اپنی تصویر لی جمعے کی نیوز کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے میڈیا سے کہا کہ وہ کابینہ کی تنخواہ میں دس ہزار ڈالر کے اضافے کو مسترد کرنے پر غور کر سکتے ہیں کیونکہ حکومت کی بندش کے نتیجے میں تنخواہ کے منجمد کیے جانے کی تاریخ جا چکی ہے۔ خیال رہے کہ دسمبر میں کانگریس اور مسٹر ٹرمپ کے درمیان کسی معاہدے پر نہ پہنچنے کی صورت میں یہ مالی انتشار پیدا ہوا تھا۔ اس سے قبل جب ریپبلیکنز کی ایوان میں اکثریت تھی تو انھوں نے ابتدائی فنڈنگ منظور کی تھی جس میں پانچ ارب ڈالر دیوار کی تعمیر کے لیے تھے لیکن بعد میں انھیں سینیٹ کی 100 سیٹ میں سے 60 لازمی ووٹ نہیں مل سکے۔ ڈیموکریٹ خواتین کے ساتھ نینسی پلوسی کو مرکزمیں دیکھا جا سکتا ہے جزوی شٹ ڈاؤن کا مطلب کیا ہے؟ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ کانگریس کی منظوری کے بغیر وہ امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے قومی ہنگامی صورت حال کا اعلان کر سکتے ہیں۔ text: محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کو ان معلومات پر غور کرنا چاہیے لندن کی کوین میری یونیورسٹی کے محققوں کا کہنا ہے کہ جن مریضوں نے سرجری کے دوران موسیقی سنی تھی، سرجری کے بعد ان میں کم بے چینی پائی گئی اور انھیں درد دور کرنے کی کم ضرورت پڑی۔ برطانوی طبی جریدے لانسٹ میں لکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ موسیقی مریضوں کی بےہوشی کے دوران بھی موثر ثابت ہوئی ہے۔ محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کو ان معلومات پر غور کرنا چاہیے۔ تحقیق کاروں کے خیال میں ہسپتالوں کو نیشنل ہیلتھ سروسز کے معلوماتی اشتہاروں میں مریضوں کو ہسپتال میں موسیقی سننے کے آلات اور پلے لسٹ ساتھ لانے کی تجویز دینی چاہیے۔ محققوں کی ایک ٹیم نے سرجری کے دوران سات ہزار مریضوں پر مشتمل 70 تجربات کا جائزہ لیا جن میں مختلف موسیقی جس میں زیادہ تر ’سکون بخش‘ موسیقی شامل تھی، کا بیڈ ریسٹ، بنا موسیقی کے ہیڈ فونز، وائیٹ نوئس (مسلسل سکون بخش شور) اور معمول کی دیکھ بھال کے ساتھ موازنہ کیا گیا۔ تاہم اس سے بے چینی اور درد پر تو اثر پڑا لیکن موسیقی نے ان کے ہسپتال میں رہنے کے دورانیے میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ مرکزی مصنف ڈاکٹر کیتھرین میڈز کا کہنا ہے کہ اپریل میں کولھے کی سرجری کے تین گھنٹے بعد پنک فلوئیڈ کی البم ’ڈارک سائیڈ آف دی مون‘ نے ان کے درد میں کمی میں مدد دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’موسیقی ایک آسان، سستا اور محفوظ طریقہ ہے اور سرجری کرانے والے یہ ہر شخص کو میسر ہونا چاہیے۔‘ ڈاکٹر کیتھرین نے بتایا کہ ’ابھی سرجری کے بعد مریضوں کی صحتیابی کے لیے موسیقی کا معمول کے مطابق استعمال نہیں کیا جا رہا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’یہ بہت ہی حیران کن تھا کہ موسیقی مریضوں کو بےہوش کرنے کے دوران بھی کارآمد ثابت ہوئی۔‘ تقریباً 40 خواتین کے سیزیرین یا ہیسٹروسکوپی کے آپریشن کے دوران انھیں موقع دیا جائے گا کہ وہ اپنی پسند کی موسیقی کو تکیے میں لگے ہوئے سپیکروں کے ذریعے سن سکیں۔ محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ ’یہ بہت ہی دلچسپ تحقیق ہے، اور ہم امید کرتے ہیں کہ ڈاکٹر اس تحقیق پر غور کریں گے۔ کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ مریض سرجری کے بعد جلد اور بہتر انداز میں صحتیاب ہو سکیں۔‘ ایک تحقیق کے مطابق آپریشن سے پہلے، اس کے دوران یا اس کے بعد موسیقی سننے سے درد میں کمی ہوتی ہے۔ text: اس اجلاس میں ایف آئی اے، پولیس، انٹیلی جنس بیورو ، رینجرز اور فرنٹیئر کور سمیت قانون نافذ کرنے والے دیگر وفاقی اور صوبائی اداروں کے سربراہ اور وزارت داخلہ کے حکام شرکت کریں گے۔وفاقی وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ اجلاس کی صدارت کریں گے۔ محکمہ داخلہ کے ترجمان نے بتایاکہ اجلاس میں دہشت گردی کے انسداد کے حوالے سے اہم معاملات زیر بحث آئیں گے۔ یہ اجلاس اس بات کا جائزہ لے گا کہ اس سال کتنے دہشت گرد پکڑے گئے اور کون کون سے اہم دہشت گرد اب بھی حکومت کومطلوب ہیں اور انہیں پکڑنے کے لیے کیا نئے طریقے اپنائے جانے چاہیں۔ اجلاس میں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ دینی مدارس کے معاملات پر بھی اظہار خیال کیا جائےگااور ان طریقوں پر بات ہوگی جن کو اپنا کر تمام مدرسوں کی رجسٹریشن یقینی بنائی جاسکے۔ ترجمان نے بتایا کہ اس اجلاس میں پولیس ریفارمز اور اس پر عملدرآمد کے بارے میں بات ہوگی۔ وفاقی وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ نے کہا ہے کہ اس اجلاس میں بلوچستان کے علاقے تربت میں ہونے والے تشدد کے حالیہ واقعہ پر بھی بات ہوگی۔ تربت میں پرسوں فرنٹیر کور کے گاڑی پر نامعلوم افراد نے حملہ کرکے کم از کم چار فوجیوں کو ہلاک اور کئی دیگر کو زخمی کر دیا تھا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کہ فرنٹیر کور پر حملہ کرنے والے لوگ کون تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے جلد ہی اصل مجرموں تک پہنچ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ لاہور میں آج سے شروع ہونے والے اس اجلاس میں اہم فیصلے ہونگے انہوں نے بتایاکہ بلو چستان اور ان علاقوں میں جہاں ترقیاتی کام کیے جا رہے ہیں وہاں مزید چیک پوسٹیں قائم کیے جائیں گی اور ان تک جانے والے تمام راستوں کو مزید محفوظ بنایا جائےگا۔ پنجاب سول سیکرٹریٹ کے دربار ہال میں ہونے والے اس دو روزہ اجلاس میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی لیکن ترجمان کا کہنا ہے کہ اجلاس کے اختتام پر وفاقی وزیر داخلہ ایک پریس کانفرنس میں اجلاس میں کیے جانے والے فیصلے بتائیں گے۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں آج بین الصوبائی کمیٹی برائے امن و امان کا ایک اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس میں ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر کر نے کے لیےاہم فیصلے کیے جانے کی توقع ہے۔ text: برطانیہ میں ہر چار لوگوں میں سے ایک کو ہائی بلڈ پریشر ہوتا ہے حالانکہ اس کے لیے بہت اچھی دوائیں پہلے ہی موجود ہیں لیکن چند ہی لوگ اپنے بلڈ پریشر کو قابو میں رکھ پاتے ہیں۔ جریدہ سائنس کے مطابق لندن کے کنگز کالج میں کی گئی تحقیق میں آکسیڈیشن نام کے عمل کو شامل کیا گیا۔ ابھی تک آکسیڈیشن کو فائدے سے کم اور نقصان سے زیادہ وابستہ کیا جاتا تھا۔ یہ درست ہے کہ ہائیڈروجن جیسے آکسیڈنٹس خلیوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں لیکن ساتھ ہی خلیوں کے معمول کے کام کاج میں اہم رول بھی ادا کرتے ہیں۔پروٹین کناسے جی (پی کے جی) تمام خلیوں میں ایک اہم پروٹین ہے لیکن قلب کی شریانوں کے نظام میں بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں بہت اہم رول ادا کرتا ہے۔ خون کی شریانوں میں پیدا ہونے والا نٹرک آکسائیڈ اس عمل میں اہم سمجھا جاتا ہے۔ لیکن کنگز کالج کے جوزف برگوئین اور ان کےساتھیوں نے پی کے جی کے استعمال کا ایک انوکھا طریقہ نکالا ہے جس کے تحت نائٹرک اکسائیڈ کو آزادانہ طور پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے پتہ لگایا کہ ہائیڈروجن جیسے آکسیڈنٹس دو امینو ایسڈز کو جوڑتا ہے جو پی کے جی پروٹین کو سرگرم کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں بلڈ پریشر کم ہوتا ہے۔ اس ٹیم کی قیادت کرنے والے ڈاکٹر فلپ ایٹن کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے ایک نئی دوا ایجاد ہونے کی امید پیدا ہوئی ہے اب تحقیق کار اس نئے طریقے کے ذریعے ہارٹ اٹیک کو کنٹرول کرنے کی سمت کام کر رہے ہیں۔ برطانوی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بلڈ پریشر کو ریگیو لیٹ کرنے کا ایک نیا طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے اورسٹروک اور ہارٹ اٹیک سے مقابلے کے لیے نئی ادویات کی امید ظاہر کی ہے۔ text: ترک نائب وزیراعظم بلند آرنچ کی معذرت کو وزیراعظم رجب طیب اردگان کے سخت گیر رویے سے مختلف نظر سے دیکھا جا رہا ہے بلند آرنچ نے مظاہروں کے منتظمین سے ملنے کی پیشکش کی اور کہا کہ اس پارک کی تعمیر کے خلاف شروع کیے گئے اصل مظاہرے ’درست اور جائز‘ تھے۔ ترک نائب وزیر اعظم نے کہا کہ اب مظاہرے ختم کر دیے جانے چاہیں کیونکہ اب ان پر ’دہشت گرد عناصر‘ حاوی ہو گئے ہیں۔ گزشتہ پانچ دنوں سے جاری ان مظاہروں کا سلسلہ استنبول سے شروع ہونے کا بعد ملک کے کئی شہروں میں پھیل گیا ہے۔ بلند آرنچ نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسے افراد جو ماحول کو بچانے کی نیت سے احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے ان کے خلاف طاقت کا استعمال غلط تھا۔ یہ بہت نا مناسب بات تھی۔ اس لیے میں ان شہریوں سے معذرت چاہتا ہوں۔‘ اس کے بعد انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ ہمیں ایسے لوگوں سے معذرت کی ضرورت ہے جنہوں نے سڑکوں پر عوامی سہولیات اور اشیا کو نقصان پہنچایا ہے اور جنہوں نے لوگوں کی آزادی کو مجروح کیا ہے۔‘ ترک نائب وزیر اعظم نے اپنے بیان میں مظاہرین سے بات چیت کی پیشکش کی ہے ترک نائب وزیر اعظم کی معذرت کے گھنٹوں بعد بھی ہزاروں افراد استنبول کے تقسیم سکوئر میں جمع ہوئے جو کہ ان مظاہروں کا مرکز ہے۔ یاد رہے کہ ان مظاہروں کا آغاز استنبول میں ایک عوامی باغ کی جگہ پر سلطنتِ عثمانیہ دور کی بیرکس اور اس میں ایک شاپنگ سینٹر کی تعمیر کا منصوبہ سامنے آنے کے بعد ہوا تھا اور ان کا دائرہ انقرہ سمیت دیگر علاقوں تک پھیل گیا تھا۔ یہ گزشتہ کئی سالوں میں ترکی میں سب سے بڑے اور منظم حکومت مخالف مظاہرے ہیں۔ اس سے قبل ملک کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین فیڈریشن کیسک نے بھی احتجاج میں شریک ہونے کا اعلان کیا ہے اور کہا کہ وہ دو روز تک احتجاج میں حصہ لے گی۔ گیارہ مختلف ٹریڈ یونین پر مشتمل فیڈریشن کیسک کے ممبران کی تعداد دو لاکھ چالیس ہزار بتائی جاتی ہے۔ ترکی میں گزشتہ کئی روز سے مظاہرے جاری ہیں جس میں اب تک دو افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ سترہ سو افراد کو گرفتار کرنے کی تصدیق کی گئی ہے۔گرفتار کیے جانے والے مظاہرین میں سے بعض کو رہا کیا جا چکا ہے۔ ٹریڈ یونین فیڈریشن کیسک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ترک حکومت پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کر کے ’ریاستی دہشتگردی‘ کی مرتکب ہو رہی ہے جس سے لوگوں کو زندگیوں کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ کیسک نے کہا کہ حکومت ملک میں جمہوریت کے مستقبل کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ البتہ ترکی کے وزیر اعظم طیب اردوگان پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق مراکش کے دورے پر روانہ ہو گئے ہیں۔ رجب طیب ارگان کی حکومت 2002 سے ترکی میں برسرِ اقتدار ہے ترک وزیر اعظم نے مراکش روانگی سے پہلے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ترکی میں حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ ترکی میں جاری احتجاج میں اب تک دو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ انقرہ کے گورنر کے دفتر سے بائیس سالہ عبداللہ کومرٹ کی موت کی تصدیق کی گئی ہے۔ عبداللہ کومرٹ کا تعلق ریپبلیکن پیپلز پارٹی سے ہے۔اس سے پہلے بیس سالہ محمت ایولیٹس کی موت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ترکی میں مظاہرے پھوٹنے کے بعد صدر عبد اللہ گل اور وزیر اعظم طیب اردوگان کے مابین اختلافات سامنے آئے ہیں۔ ترک صدر نے زیادہ مصالحتی رویے کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ ترک وزیر اعظم سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔ ترکی کے وزیر اعظم طیب اردگان کا کہنا ہے کہ حکومت کے خلاف چار روز سے جاری مظاہرے ’ترک سپرنگ‘ کا عندیہ نہیں دیتے اور یہ مظاہرے شدت پسند عناصر کرا رہے ہیں۔انہوں نے حزبِ اختلاف پر الزام لگایا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا’شدت پسند عناصر یہ مظاہرے کرا رہے ہیں۔ یہ مظاہرے استنبول کے پارک کے حوالے سے اب نہیں رہے۔ حزب اختلاف کی جماعت سی ایچ پی میرے معصوم شہریوں کو ورغلا رہی ہے۔ وہ لوگ جو اس کو ترک سپرنگ کا نام دے رہے ہیں وہ ترکی کو نہیں جانتے۔‘ نامہ نگاروں کے مطابق یہ مظاہرے اب حکومت کی جانب سے ترکی کی ’اسلامائزیشن‘ کی کوششوں کے خلاف احتجاج کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ رجب طیب ارگان کی حکومت 2002 سے ترکی میں برسرِ اقتدار ہے۔ ان کی جماعت اے کے پارٹی کی سیاسی جڑیں اسلام میں ہیں لیکن اردگان کہتے رہے ہیں کہ وہ ترکی میں سیکولر ازم کے حامی ہیں۔ ترک نائب وزیر اعظم بلند آرنچ نے ملک میں جاری مظاہروں کے دوران زخمی ہونے والے مظاہرین سے معذرت کی ہے جو استنبول میں ایک پارک کی تعمیر کے خلاف مظاہروں میں شریک ہیں۔ text: اگر اجلاس میں نئے ضابطہ اخلاق پر اتفاق ہوگیا تو اس کے تحت ٹیسٹ میچ کھیلنے والے ممالک کو اجازت ہوگی کہ میدان سے ان تماشائیوں کو نکلوا سکیں جو نسلی جرم کا ارتکاب کریں گے۔ ایسے تماشائیوں پر زندگی بھر میچ نہ دیکھنے کی پابندی بھی عائد کی جاسکتی ہے۔ اگر میزبان ملک نے اس ضابطے کو لاگو نہ کیا تو اسے انٹرنیشنل ٹیموں کی فہرست سے خارج کردیا جائے گا ۔ اس کے علاوہ بھی نسلی تعصب کے خاتمے کے لیئے کئی اقدامات پر غور کیا جارہا ہے۔ امکان ہے کہ نئے اقدامات کی منظوری کی صورت میں میدان میں موجود شائقین ٹیکسٹ پیغام یا ٹیلیفون ہاٹ لائن کے ذریعے حکام کو وہاں ہونے والے کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کے بارے میں مطلع کرسکیں گے۔ آئی سی سی نے سب سے پہلے 2003 میں نسلی تعصب سے متعلق ضابطہ متعارف کروایا تھا جس کے بعد 2005 میں اس میں ترمیم کی گئی تھی۔ گزشتہ سرما میں جنوبی افریقی ٹیم کے آسٹریلیا کے دورے کے بعد ضرورت محسوس کی گئی کہ اس ضابطے میں مزید توسیع کی جائے۔ میچ کے دوران جنوبی افریقی کھلاڑیوں نے تماشائیوں کی جانب سے نسلی تعصب کے واقعات کی شکایت کی تھی۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل آئی سی سی دبئی میں دو روزہ اجلاس کے دوران نسلی تعصب کے انسداد سے متعلق ضابطے میں توسیع کرنے پر غور کرے گی۔ یہ اجلاس پیر کو ختم ہوگا۔ text: پروجیکشنسٹ ایک وقت تھا جب پاکستان میں کوئی بڑی فلم چلتی تو شہروں میں رونق ہو جاتی تھی۔ تانگوں پر لاؤڈ سپیکر نصب کر کے فلم کی تشہیر کی جاتی اور شہر بھر میں پوسٹر اور ہورڈنگز کی بھرمار ہوتی۔ سنیما گھروں کے باہر میلے کا سماں ہوتا جہاں دیگر اشیا کے ساتھ ٹکٹ بلیک میں بکا کرتے تھے اور سنیما کے اندر کی تو دنیا ہی الگ ہوتی تھی۔ 29 برس تک راولپنڈی کے سنیما گھروں میں پروجیکشنسٹ کی ذمہ داری نبھانے والے مظہر خان اس منظر کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں ’بڑے سنیما کی کیا ہی بات تھی۔ اس میں فلم دیکھنے کا الگ ہی مزا تھا۔ جب محمد علی سکرین پر نمودار ہوتا تو ہال میں اتنی سیٹیاں بجتیں کہ مزا آ جاتا۔ ہم بھی خوب مزے لے کر فلم چلاتے اور بار بار خود بھی دیکھتے۔‘ یہ بھی پڑھیے پاکستانی سنیما کی بڑھتی پختگی کی علامت سعودی عرب میں یک دم سنیما جائز کیسے ہوگیا؟ کلچر کلیش ، مردانگی اور پاکستانی سنیما کی نئی ہِٹ اب پاکستانی فلم انڈسٹری کے زوال اور ڈیجیٹل سکرینز آنے کی وجہ سے جہاں بڑے سنیما گھروں کا ماحول وہیں مظہر خان جیسے پروجیکشنسٹ کی زندگی بھی بدل گئی ہے۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کے زوال کے ساتھ جہاں پر کئی مصنفین، اداکاروں، ہدایتکاروں اور سنیما مالکان نے فلمی دنیا کو چھوڑ کر دیگر پیشے اپنائے وہیں شاید بہت کم لوگوں نے جاننا گوارا کیا کہ وہ لوگ جنھوں نے پروجیکشن روم کے اندھیروں میں اپنی زندگیاں گزار دی ہیں ان پر کیا گزری۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے پاکستانی سنیما کا سنہری دور اپنی آنکھوں سے زنگ آلود ہوتے دیکھا اور جنھیں شاید آپ اور میں نہیں جانتے۔ شاید بہت کم لوگوں نے جاننا گوارا کیا کہ جنھوں نے پروجیکشن روم کے اندھیروں میں اپنی زندگیاں گزار دیں ان پر کیا گزری پردہ سیمیں پر 29 سال سے فلمیں دکھانے والے مظہر خان سنہ1983 میں مظفر گڑھ سے راولپنڈی آئے اور 1990 میں راولپنڈی کے صدر علاقے میں واقع سیروز سنیما میں بطور آپریٹر فلمیں چلانے کا کام شروع کیا۔ مظہر خان اپنے زمانہِ شاگردی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’یہاں پر میرا دوست سجاد کام کرتا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ میں روز تم سے ملنے آتا ہوں، کیوں نہ مجھے یہ کام سکھا دو۔ اس نے آگے سے کہا کہ اس کام میں کچھ نہیں پڑا، ہم بھی سیکھ کر پچھتا ہی رہے ہیں۔‘ اگرچہ مظہر خان ماضی کے 35 ایم ایم کے پروجیکٹر پر چلنے والی فلموں کے زمانے سے شاکی نظر آتے ہیں کہ کس طرح کم تنخواہ میں خاندان کو پالنا اور بچوں کو تعلیم دلانا ان کے لیے نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن تھا تاہم ساتھ ہی وہ حالیہ دور کے ڈیجیٹل پروجیکٹر سے پُرامید ہیں کیوںکہ اب آپریٹرز کی تنخواہیں ماضی سے قدرے بہتر ہیں۔ مظہر خان نے 1990 میں راولپنڈی کے صدر علاقے میں واقع سیروز سنیما میں بطور آپریٹر فلمیں چلانے کا کام شروع کیا پاکستانی فلم انڈسٹری کے سنہری دور کو یاد کرتے ہوئے مظہر خان نے بتایا کہ ’ایک وقت یہاں پر ندیم ،محمد علی اور وحید مراد کی فلمیں چلتی تھیں تو سنیما ہال بھر جایا کرتے تھے۔ اتنی تعداد میں لوگ فلمیں دیکھنے آتے تھے کہ ٹریفک سے سڑکیں بلاک ہو جاتی تھیں۔ لیکن اب نہ وہ لوگ رہے، نہ وہ اداکار، نہ ہدایتکار یا گلوکار رہے۔‘ مظہر کہتے ہیں کہ اگر اب وہ کسی سے پوچھتے ہیں کہ آپ فلم دیکھنے کیوں نہیں آتے تو وہ جواب میں کہتا ہے ’میں اپنے موبائل پر فلم ڈاؤن لوڈ کر کے کیوں نہ دیکھوں۔‘ مظہر خان سنیما کی ویرانیوں کی وجہ پاکستانی فلموں کے ’غیر معیاری‘ ہونے کو بھی قرار دیتے ہیں۔ ’پرانی فلموں کی کہانی بہت اچھی تھی لیکن آج کل کی فلموں میں جان ہی نہیں ہے۔ اچھی فلمیں نہیں بنیں گی، اچھا ماحول اور گانے نہیں ہوں گے تو پاکستان کے تمام سنیما کھنڈر بن جائیں گے جیسے کہ پہلے ہی شبستان، موتی محل، ریالٹو، تصویر محل، ناز سنیما، نادر سنیما ٹوٹ گئے ہیں۔‘ مظہر خان پُرامید ہیں کہ اگر پاکستانی ہدایتکار اچھی فلمیں بنائیں گے تو عوام بھی پھر سے سنیما گھروں کا رخ کرے گی تاہم پاکستانی فلم انڈسٹری کے ماضی اور حال کی تمام مشکلات کے باوجود مظہر خان پُرامید ہیں کہ اگر پاکستانی ہدایتکار اچھی فلمیں بنائیں گے تو عوام بھی پھر سے سنیما گھروں کا رخ کرے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اسی امید کے ساتھ میں خواب دکھانے کے اس شعبے سے ابھی تک وابستہ ہوں۔‘ سنیما ہماری زندگی کا ایک ایسا حصہ ہے جہاں ہم پردۂ سیمیں پر زندگی سے بڑی کہانیاں دیکھتے ہیں، ایسی کہانیاں جس کی شاید ہم اپنی زندگی میں کمی یا خواہش محسوس کرتے ہیں۔ text: اوکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بالغ افراد کو بچوں کی نسبت نئی باتیں سیکھنے میں زیادہ مشکل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بالغ افراد کے دماغ نئی چیزوں کو مختلف طریقے سے محفوظ کرتے ہیں۔ نیوران نامی جریدے کے اس مطالعہ میں سیل کی حرکات پر غور کیا گیا ہے جو کہ چوہوں میں سیکھنے اور یادیں محفوظ کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ محقیقین، جنھیں ’میڈیکل ریسرچ کونسل‘ اور ’ویلکم ٹرسٹ‘ کی مدد حاصل تھی، نے جوان اور بوڑھے چوہوں میں اعصابی سیل کے عمل کا تجزیہ کیا۔ یہ تحقیق ڈاکٹر نیجل ایمٹیج کی سرکردگی میں کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے ملنے والے نتائج سے یہ معلوم کیا جا سکے گا کہ جوانوں اور بوڑھوں کے سیکھنے کے عمل میں کیا کیا فرق ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کم عمر دماغ نئی چیزیں زیادہ جلدی سیکھ جاتے ہیں، جبکہ بالغ دماغ معلومات کو زیادہ اچھے طریقے سے محفوظ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اسی فرق کی وجہ سے بہت کم عمر بچے نئی معلومات اپنی دماغوں میں محفوظ کر لیتے ہیں جیسا کہ نئی زبان سیکھنا ان کے لیے بہت آسان ہوتا ہے‘۔ ڈاکٹر نیجل ایمٹیج کا کہنا ہے کہ’ بڑے ہو کر ہمارے لیے نئی چیزیں سیکھنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جس طریقے سے ہمیں معلومات محفوظ کرنی ہوتی ہیں وہ مختلف ہوتا ہے اور وہ انسانی دماغ کا وہ سسٹم استعمال کرتا ہے جو کہ پہلے سے استعمال ہو چکا ہوتا ہے‘۔ ’یادیں کیسے بنتی ہیں‘ پر ایک مطالعاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بالغ افراد کے لیے نئی چالیں اور نئی زبانیں سیکھنا مشکل ہوتا ہے۔ text: میاں محمد شریف اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ سعودی عرب میں گزشتہ چار سال سے جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ سعودی عرب میں صحافی راشد حسین نے بتایا کہ میاں شریف کی تدفین کے بارے میں ابھی کچھ طے نہیں ہے۔ راشد حسین نے پاکستانی سفیر سے بات کر کے بتایا کہ پاکستانی سفارتخانے کو ابھی تک شریف خاندان کی طرف سے کوئی درخواست نہیں ملی ہے۔ راشد حسین نے شریف خاندان کی رہائش گاہ پر بھی فون کیا جہاں انہیں بتایا گیا کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف اپنے والد کی تدفین پاکستان یا سعودی عرب میں کرنے کے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ میاں شریف کچھ عرصے سے علیل تھے اور انہیں وہیل چیئر بھی استعمال کرنا پڑتی تھی۔ کچھ اطلاعات کے مطا بق ہفتے کو ان کا دِل کا آپریشن بھی طے تھا لیکن وہ اس سے پہلے ہی انتقال کر گئے۔ راشد حسین نے بتایا کہ ان کی طبعیت خراب ہونے پر انہیں ان کے گھر کے قریب ہی یونائٹڈ ڈاکٹرز ہسپتال لے جایا گیا۔ 1999 میں میاں نواز شریف کی قیادت میں قائم پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے خاتمے کے بعد شریف خاندان کو ملک چھوڑنا پڑا تھا۔ ان کی جلا وطنی کے حالات کے بارے میں حکومت اور شریف خاندان کی طرف سے مختلف بیانات جاری ہوتے رہے ہیں لیکن اصل صورتحال کے بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ میاں محمد شریف کا انتقال سعودی عرب کے معیاری وقت کے مطابق جمعہ کی رات آٹھ بجے کے قریب ہوا۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے والد اور شریف خاندان کے سربراہ میاں محمد شریف جمعہ کی شب سعودی عرب میں جدہ کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے۔ text: اطلاعات کے مطابق یہ حادثہ پلیٹ فارم نمبر تین پر پیش آیا جہاں جن سادھرڑ ایکسپریس ٹرین پر سوار ہونے والوں کی زبردست بھیڑ تھی۔ حادثے کے بعد پورے اسٹیشن پر افرا تفری مچ گئی ۔ پولیس لوگوں کو پلیٹ فارم سے ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی۔ زخمی مسافروں کو قریبی اسپتالوں میں داخل کیا گيا ہے جن میں سے بعض کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔۔ ریلوے کے وزیر لالو پرساد یادو نے اسٹیشن اور اسپتال کا دورہ کیا ہے اور اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے لیے ایک ایک لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ریلوے حکام کے مطابق اس پورے واقعے کی تفتیش کے بھی احکامات دے دیۓ گیۓ ہیں۔ جن سادھرڑ ایکسپریس ٹرین دِلّی سے ریاست بہار کی دارلحکومت پٹنہ جاتی ہے ۔ بہار میں دیوالی کے بعد ’چھٹ پوجا‘ کا بڑا تہوار ہوتا ہے اور ساتھ میں عید کا بھی موسم ہے۔ مسافروں کی بڑی تعداد انہیں تہواروں میں شرکت کے لیے گھر جانے کی تیاری میں آئے تھے۔ بہار کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد دلی میں محنت مزدوری کرتی ہے اور اس حادثے میں تقریبا سبھی متاءثرین کا تعلق اسی مزدور طبقے سے ہے۔ ریل انتظامیہ اکثر یہ دعوئی کرتی رہتی ہے کہ کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے اسکے پاس تمام بندو بست ہیں لیکن دلی کے اہم اسٹیشن پر اس طرح کا حادثے سے پتہ چلتا ہے کہ انتظامات میں کتنی کمیاں ہیں۔ ہندوستان کی دارالحکومت دلی کے ’نئی دِلّی ریلوے اسٹیشن‘ پر بھگدڑ سے پانچ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگۓ ہیں۔ بھگدڑ کا شکار ہونے والی پانچوں خواتین تھیں۔ text: یو سی آئی سنیما کی طرف سے کیے جانے والے سروے میں 1200 بچوں سے فیری ٹیل کے مطابق پوچھا گیا۔ 36 فیصد نے سنڈریلا کے حق میں ووٹ دیا۔ سلیپنگ بیوٹی دوسرے اور ہینسل اینڈ گریٹل تیسرے نمبر پر آئیں۔ یو سی آئی کی ترجمان لیانے بٹرفیلڈ نے کہا کہ ’کلاسِک فیری ٹیلز وقت کی قید سے آزاد کہانیاں ہیں جن کا ابھی بھی ہماری زندگیوں میں ایک خاص کردار ہے‘۔ سنڈریلا ایک لڑکی کی کہانی ہے جو اپنی سوتیلی ماں کے حکم کے برخلاف ایک شاہی تقریب میں اپنے شہزادے کو ملتی ہے۔ 17 ویں صدی کے مصنف چارلس پیرالٹ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ کہانی لکھی تھی۔ تاہم ایسی مثالیں بھی ہیں کہ 850 بعد از مسیح اسی طرح کی کہانیاں چینی ادب میں بھی لکھی گئی ہیں۔ سروے میں دوسرے نمبر پر آنے والی کہانی سلیپنگ بیوٹی کو 17 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ 1950 میں ڈزنی نے اس پر ایک کارٹون فلم بنائی تھی اور دو سال قبل سنڈریلا ٹو کے نام سے بھی اس پر ایک فلم بنائی گئی تھی۔ بچوں کے ایک حالیہ سروے میں تین سو سال پہلے لکھی گئی کہانی سنڈریلا کو اب بھی سب سے مشہور فیری ٹیل یا بچوں کی کہانی کہا گیا ہے۔ text: پاکستان چین دوستی کو اس سال 63 سال مکمل ہو رہے ہیں پاکستان چین اقتصادی راہداری کی بات گذشتہ کافی عرصے سے ہو رہی ہے مگر اس منصوبے کے حوالے سے موجود داخلی اور خارجی خدشات اور تحفظات اپنی جگہ ہیں اور ان سب کی موجودگی میں کیا گوادر کو سنگاپور بنانے کا خواب یا بلوچستان کی قسمت بدلنے کا خواب حقیقت بن سکے گا؟ پاکستان چین اقتصادی راہداری (پی سی ای سی) چین کے شمال مغربی شہر کاشغر کو پاکستان کے جنوبی حصے سے ملاتی ہے، جس کے ذریعے چین کا رابطہ گلگت بلتستان سے ہو کر بلوچستان میں موجود گوادر کی گہرے پانی کی بندرگاہ کے ذریعے بحیرۂ عرب تک ہو سکتا ہے۔ پی سی ای سی منصوبے کا مقصد مواصلات کے علاوہ سمندری اور زمینی تجارت میں اضافہ کرنا ہے۔ گوادر بندرگاہ کا انتظام ان دنوں ایک چینی سرکاری کمپنی کے پاس ہے اور یہ ایرانی سرحد کے قریب واقع ہے جو آبنائے ہرمز کی جانب جاتا ہے۔ آبنائے ہرمز خود تیل کی سمندر کے ذریعے نقل و حمل کا اہم راستہ ہے۔ یہ کوریڈور چین کو مغربی اور وسطی ایشیا سے اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی سہولت دیتا ہے اور ساتھ ہی اس سے پاکستان کے مالی حالات میں بہتری کی توقع بھی کی جا رہی ہے۔ پاک چین اقتصادی کوریڈور کا مقصد پاکستان کی سڑکوں، ریلوے اور پائپ لائنوں کی تعمیر نو کرنا ہے تاکہ سمندر کے ذریعے سامان کی ترسیل ہو سکے۔ اسی کے حصے کے طور پر اقتصادی زون، صنعتی پارک، بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ چین اور پاکستان کے درمیان تجارتی تعاون اس وقت 12 ارب ڈالر ہے جو چین کے دیگر ملکوں (جیسا کہ بھارت) کے ساتھ تجارتی تعلق کے مقابلے میں کم ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی توازن اس وقت چین کے حق میں ہے جو پاکستان کے ساتھ چین کی دور رس تعلقات کی سمت کی نشاندہی کرتا ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین جو اسلام آباد میں قائم پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ (پی سی آئی) کے سربراہ بھی ہیں، کہتے ہیں کہ چین پاکستان میں اس وقت 120 منصوبوں پر کام کر رہا ہے جس کی وجہ سے ملک میں 15 ہزار تک چینی انجینیئر اور تکنیکی ماہرین موجود ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ دس ہزار پاکستانی طلبہ چین میں زیرِ تعلیم ہیں اور اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں چینی پاکستانی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہیں، جیسے کہ اسلامک یونیورسٹی اور نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوجز، جہاں ایک کنفیوشس سینٹر بھی قائم ہے۔ پی سی ای سی منصوبے کا مقصد مواصلات کے علاوہ سمندری اور زمینی تجارت میں اضافہ کرنا ہے اور یہ پاکستان کو چینی علاقے کاشغر سے ملائے گا۔ سینیٹر مشاہد کے مطابق پاکستان اور چین کے درمیان ثقافتی اور عوامی سطح پر روابط فی الحال کم ہیں لیکن بتدریج اس تعاون میں بھی ’معیاری پیش رفت‘ ہو رہی ہے۔ پی سی آئی کا ایک اہم مقصد پاکستانی اور چینی لوگوں کے درمیان ثقافتی تبادلہ بڑھانا ہے۔ یہ اپنی قسم کا پہلا ادارہ ہے جس نے چینی زبان کو پاکستانی تعلیمی اداروں کے نصاب میں متعارف کیا ہے۔ پی سی آئی کے مطابق ملک میں تین ہزار طالب علم چینی سیکھ رہے ہیں۔ چین میں سابق پاکستانی سفیر اور انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) کے موجودہ چیئرمین خالد محمود کا کہنا ہے لوگوں کے درمیان باہمی تعامل اب بھی پاکستان چین تعلقات کا کمزور پہلو ہے اور اس کی ایک وجہ زبان کا فرق ہے۔ تاہم تھنک ٹینکس اور نوجوانوں کے تبادلے کے پروگرام اس سطح پر تعاون کو فروغ دینے کے لیے چل رہے ہیں۔ دفاعی تعاون کے علاوہ اس معاہدے کے بعد گذشتہ ایک سال کے دوران توجہ اب ثقافتی اور اقتصادی تعاون پر ہے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ایک تہائی چینی پاکستان کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں جبکہ 23 فیصد بھارت کے بارے میں اور 42 فیصد امریکہ کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں۔ دوسری جانب 2013 میں تحقیقاتی تنظیم پیو کی جانب سے کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق 81 فیصد پاکستانی چین کو پسند کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فرق کس بات کی وضاحت کرتا ہے؟ کیا اس کی وجہ پاکستان میں سلامتی کے حوالے سے غیر پائیدار صورت حال ہو سکتی ہے، جس سے ماضی میں چینی بھی متاثر ہوچکے ہیں؟ گذشتہ سال جون کے مہینے میں دو چینی اور ایک چینی نژاد امریکی باشندے پاکستان میں مارے گئے تھے۔ اس سے ایک سال قبل ایک چینی خاتون کو مبینہ طور پر تحریکِ طالبان پاکستان نے ہلاک کیا تھا۔ اس کے علاوہ چین کے شمال مغربی علاقے میں جاری عسکریت پسندی کو بھی پاکستان میں موجود شدت پسندوں کی پناہ گاہوں سے جوڑا گیا ہے۔ سینیٹر مشاہد کے مطابق پاک چین کے درمیان ثقافتی اور عوامی سطح پر روابط فی الحال کم ہیں لیکن بتدریج اس تعاون میں بھی ’مقداری اور معیاری پیش رفت‘ ہو رہی ہے۔ پاکستان چین کی اس ’محبت بھری‘ دوستی کی داستان میں ایک کانٹا سکیورٹی کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے پی سی ای سی میں بھی رکاوٹ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ کیا اس کا حل خصوصی سیکورٹی فورسز کی تعیناتی ہے؟ سینیٹر مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ ایک خصوصی سیکورٹی فورس جسے فوجی تربیت حاصل ہے، وہ چینی منصوبوں کو ’فول پروف‘ تحفظ فراہم کرسکے گی، اسے بلوچستان اور گلگت بلتستان تعینات کیا جانے کے منصوبے پر کام ہور ہا ہے۔ خالد محمود کا کہنا ہے کہ چین اور پاکستان اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان میں چینی مفادات کی سلامتی کے تحفظ کے حوالے سے پاکستان ہر ممکنہ کوشش کر رہا ہے اور چین پاکستان کی کوششوں سے ’مطمئن‘ ہے۔ یاد رہے کہ چین کا پاکستان کی فوجی خود انحصاری میں نمایاں کردار رہا ہے اور 2008 سے 2013 کے درمیان آدھے سے زیادہ چینی ہتھیاروں کا وصول کنندہ پاکستان تھا۔ پاکستان چین اقتصادی تعلقات میں رکاوٹ ڈالنے میں ’بیرونی عناصر‘ کے ممکنہ کردار کے بارے میں سوال کے جواب میں سینیٹر مشاہد نے کہا کہ ایسا ممکن ہے مگر چین اس بات کو سمجھتا ہے اور پاکستان پر اعتبار رکھتا ہے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کے اس منصوبے پر ممکنہ اثرات یا رکاوٹ کے بارے میں سینیٹر مشاہد حسین کا دعویٰ ہے کہ گوادر کے اردگرد علاقے پرامن ہیں اور ان کے متاثر ہونے کے امکانات کم ہیں۔ گوادر کی بندرگاہ کا انتظام ان دنوں ایک چینی سرکاری کمپنی چلا رہی ہے مئی 2014 میں جہاں نواز حکومت نے اپنا پہلا سال مکمل کیا ہے وہیں چین پاکستان تعلقات کو 63 سال پورے ہو رہے ہیں اور پی سی ای سی جیسے بڑے منصوبوں پر کام آگے بڑھ رہا ہے۔ اس حوالے سے سکیورٹی خدشات پر بھی بظاہر قابو پانے کی حکمتِ عملی نظر آتی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خطے کے بدلتے حالات میں یہ ’حکمتِ عملی‘ کس حد تک کارآمد ہو گی اور پاکستان جہاں اپنے داخلی سلامتی کے خطرات سے دوچار ہے کیا وہ ایک ’دوست ملک‘ کے مفادات کی حفاظت کر پائے گا؟ پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف حال ہی میں گوادر گئے اور انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ گوادر ’فری پورٹ‘ بنے اور پاکستان چین اقتصادی راہداری کے نتیجے میں گوادر دبئی، سنگاپور اور ہانگ کانگ کی طرح فری پورٹ بن سکتا ہے۔ text: ملبے کے نیچے دبے ہوئے افراد کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے جن میں سے سینکڑوں ابھی بھی زندہ ہیں۔ حکام کے مطابق وہ اس وقت تک مرنے والوں کی تعداد کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہ سکتے کیونکہ جب تک ان ہزاروں لوگوں کی گنتی نہیں ہو سکتی جو ملبے تلے پھنسے ہوئے ہیں۔ تاہم مرنے والوں کی تعداد پچاس ہزار سے زائد بتائی جا رہی ہےجبکہ زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہونے کا دعوی کیا گیا ہے۔ اسی طرح اخبارات میں زلزلے سے متاثرہ افراد اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ کیونکہ بیشتر متاثرہ علاقوں میں بجلی اور مواصلات کا نظام نہیں ہے لہذا ان علاقوں کی رپورٹیں مرکز تک نہیں پہنچی ہیں اور اب تک لگائے جانے والے تمام اندازے صرف ابتدائی اطلاعات پر مبنی ہیں۔ ادھر اطلاعات کے مطابق بالاکوٹ تک جانے والی سڑک دوبارہ بند ہوگئی ہے۔ علاقے میں منگل کی صبح دوبارہ زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے اور جس سے مانسہرہ کے قریب سڑک پر گڑھے پڑ گئے اور راستہ بند ہو گیا۔ بالاکوٹ میں طوفانی بارش زلزلے سے بچ جانے والوں کی تلاش کے کام میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہے۔ وہاں موجود بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ بارش کی وجہ سے مٹی کے تودے گرنے کا خطرہ بڑھ جانے کی وجہ سے غیرملکی ماہرین اور فوج کے جوانوں کے لیے ملبہ ہٹانے کا کام مشکل ہوگیا ہے۔ شہری اب ہاتھوں سے ملبے ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن انہیں اب تک زیادہ تر لاشیں ہی مل رہی ہیں۔ آج صبح اسلام آباد سے مظفرآباد کے لیے امدادی سامان کے تیس ٹرک روانہ کیے گئے جس میں خیمے، سلیپنگ بیگ اور کمبل شامل ہیں۔ پیر کو بھیجا جانے والا امدادی سامان منگل کی صبح مظفرآباد پہنچ گیا ہے۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں خوراک بھی روانہ کی گئی جبکہ بالاکوٹ کے لیے بھی کئی ٹرک روانہ کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ پینتالیس سے زائد ہیلی کاپٹر جن میں امریکی چنوک بھی شامل ہیں امدادی کاروائی میں حصہ لے رہے ہیں تاہم متاثرہ علاقوں میں ہموار زمین نہ ہونے کی وجہ سے یہ ہیلی کاپٹر صرف یہ سامان اوپر سے گرا رہےہیں۔ زلزلے سے متاثرہ سڑکوں کے متعلق تازہ ترین صورتحال کے مطابق بالاکوٹ - کاغان روڈ بری طرح تباہ ہوئی ہے اور اس کو کھولنے میں خاصا عرصہ لگ سکتا ہے۔ کاغان اور مضافات میں زلزلے نے بڑی تباہی مچائی ہے اور زلزلے سے بچ جانے والے لوگ سینکڑوں میل کا سفر پیدل طے کر کے بالا کوٹ پہنچ رہے ہیں۔ گڑھی حبیب اللہ ۔ مظفرآاباد روڈ عام ٹریفک کے لیے کھول دی گئی ہے جبکہ پتن ۔چلاس روڈ ابھی تک بند ہے۔ مری ۔ کوہالہ روڈ کو بھی کھول دیا گیا ہے جبکہ کوہالہ ۔ مظفرآباد روڈ کا پندرہ کلومیٹر کا حصہ مکمل تباہ ہو گیا ہے اور اس کو دوبارہ بنانے میں کافی وقت لگے گا۔ آزاد ۔ پٹن فارورڈ کہوٹہ روڈ اور کلیار ۔ راولا کوٹ روڈ ٹریفک کے لیے کھول دی گئیں ہیں۔ وزیر اعظم شوکت عزیز کے مطابق پیر کو زلزلے سے متاثرہ علاقوں تک جانے والی تمام سڑکیں کھول دی گئی تھیں اور اس طرح وہاں امدادی سامان پہنچانا آسان ہو گیا ہے۔ان کے مطابق تمام متاثرہ علاقوں تک امدادی ٹیموں کی رسائی ہو گئی ہے۔ اسکے علاوہ متاثرہ علاقوں میں فیلڈ ہسپتال اور سرجیکل یونٹ قائم کئے جائیں گے تاکہ زخمی افراد کو وہیں علاج کی سہولت مہیا کی جائے۔اس سلسلے میں پاکستان بھر سے ڈاکٹروں اور نرسوں کی ٹیمیں متاثرہ علاقوں تک پہنچ رہی ہیں۔ وزیرِ داخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے بتایا ہے کہ اب تک زلزلے سے ہلاک شدگان کی تعداد تینتیس ہزار ہوچکی ہے اور خدشہ ہے کہ یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے جبکہ تقریباً پچاس ہزار افراد زخمی ہیں۔ text: امریکی صدر سے بات چیت سے پہلے غازی یاور نے کہا کہ انتخابات میں کسی قسم کا التوا عراقی عوام کی مصیبت میں اضافہ کرے گا اور ملک میں مزید بےچینی کے پھیلاؤ کا باعث ہو گا۔ غازی یاور نے واشنگٹن میں این بی سی کے ’میٹ دی پریس‘ پروگرام میں کہا کہ ’ ہمارے خیال میں انتخابات کے ملتوی ہونے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا‘۔ عراقی صدر کے بیان میں عراق کے عبوری وزیرِ خارجہ ہوشیار زبیری کے بیان کی بازگشت سنائی دیتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ’ انتخابات کا انعقاد مشکل ضرور ہے مگر قابلِ عمل ہے‘۔ غازی یاور نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ عراق سے امریکی افواج ایک برس کے عرصے میں نکل جائیں گی اور ان کی ذمہ داریاں عراقی سکیورٹی فوج سنبھال لیں گی۔ ادھر اتوار کو عراق میں مختلف واقعات میں شدت پسندوں نے ا کیس عراقیوں کو ہلاک کر دیا۔تشدد کے تازہ ترین واقعات میں عراق میں دو دن میں اڑسٹھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ عراق کے عبوری صدر غازی یاور نے شدت پسندوں کی جانب سے مسلسل مداخلت کے باوجود تیس جنوری کو منعقد ہونے والے عراقی انتخابات کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔ text: ادھر پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں مقامی جنگجوؤں کے رہنما بیت اللہ محسود نے بدھ کے روز ہونے والی ایک بیان میں دھمکی دی ہے کہ وہ ایک روز قبل ان کے علاقے میں فوجی کارروائی کا انتقام ضرور لیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ پاکستان سے جنگ نہیں کرنا چاہتے لیکن فوج کی کارروائی انہیں ایسا کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ جنوبی وزیرستان میں میں قبائل اور حکومت کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کا کیا ہوگا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ فوج اور ان کے ترجمان شوکت سلطان کے ہاتھ میں ہے۔ ’ہم پاکستان کے خلاف لڑنا نہیں چاہتے۔ اس میں نہ ہمارا نہ پاکستان کا فائدہ ہے صرف امریکہ کا ہے جو ہمیں آپس میں لڑانا چاہتا ہے‘۔ پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل شوکت سلطان نے بتایا تھا کہ فوج نے منگل کو جنگی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے جنوبی وزیرستان کے ہمزوالہ گڑیوم کے علاقے میں یہ کارروائی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مقام پر موجود متعدد مقامی اور غیر ملکی جنگجو مارے گئے تھے۔ تاہم بیت اللہ کا دعوی تھا کہ مارے جانے والے بچے اور مزدور تھے۔ ’ہم ذرائع ابلاغ کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور خود دیکھ کر فیصلہ کریں یہاں کون لوگ ہیں۔ ہمیں ان کا جو بھی فیصلہ ہوگا قبول ہوگا۔‘ بیت اللہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ گزشتہ دنوں پاک افغان سرحد پر صوبے پکتیکا میں پاکستان اور اتحادی افواج کی مشترکہ کارروائی میں ان کے چھبیس افراد مارے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک بات جہاد کی ہے تو وہ اسے جاری رکھیں گے۔ ہم وہ کام کریں گے جس سے اسلام کو فائدہ ہو۔‘ ایک سوال کے جواب میں کہ افغانستان میں جاری لڑائی پاکستان یا افغانستان کا مسلہ ہے تو ان کا کہنا تھا کہ مذہب میں کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ ’ہماری پالیسی کے مطابق سب سے پہلے اسلام اس کے بعد پاکستان۔‘ اگرچہ بیت اللہ محسود نے حکومت سے امن معاہدے کے خاتمے کا اعلان تو نہیں کیا لیکن ان کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے اور حکومت کے درمیان تعلقات ایک مرتبہ پھر تناؤ کا شکار ہوگئے ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کے ساتھ سرحد پر واقعے صوبہ سرحد کے شہر ٹانک میں بدھ کو دوسرے روز بھی فوجی کارروائی کے خلاف احتجاج ہوا ہے اور قبائلی طلبہ اور مقامی افراد نے اس احتجاج میں بڑی تعداد میں شرکت کی اور سڑکوں کو کئی گھنٹے بند رکھا۔ text: پہلے پانچ بیٹسمینوں کا 80 یا اس سے زائد رنز سکور کرنے کا ٹیسٹ کرکٹ میں یہ پہلا موقع ہے پہلے ٹیسٹ کے دوسرے دن پاکستان نے صرف تین وکٹوں کے نقصان پر 566 رنز بناکر پہلی اننگز ڈکلیئر کر دی۔ اس اننگز میں جو پاکستانی بیٹسمین بھی کریز پر آیا، اس نے رنز کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ میں کسی بھی ٹیم کے پہلے پانچ بیٹسمینوں کا 80 یا اس سے زائد رنز سکور کرنے کا پہلا موقع ہے۔ اوپنر احمد شہزاد کی کریئر بیسٹ اننگز کے بعد یونس خان اور کپتان مصباح الحق نے بھی سنچریاں بنا ڈالیں۔ یونس خان کی یہ پانچویں اننگز میں چوتھی سنچری ہے جبکہ کپتان مصباح الحق کی یہ مسلسل تیسری سنچری ہے۔ ایک ایسی وکٹ پر جس میں بولروں کے لیے کچھ بھی نہیں، نیوزی لینڈ کی بولنگ کے حوصلے پست ہوگئے لیکن آسٹریلیا کی طرح نیوزی لینڈ کی ناقص فیلڈنگ نے بھی پاکستانی بیٹسمینوں کو مکمل تعاون فراہم کیا، اور کمال فراخدلی سے انھیں کئی زندگیاں عطا کیں۔ آج صبح احمد شہزاد اور اظہرعلی نے 269 رنز ایک کھلاڑی آؤٹ پر اننگز شروع کی۔ کھانے کے وقفے سے قبل آخری اوور میں احمد شہزاد کورے اینڈرسن کے باؤنسر پر کنپٹی پر گیند لگنے سے لڑکھڑائے اور بلا وکٹوں میں جا لگا۔ سکین رپورٹ کے مطابق احمد شہزاد کی کھوپڑی میں معمولی سا فریکچر ہوا ہے۔ احمد شہزاد نے 17 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 176 رنز سکور کیے جو ان کے ٹیسٹ کریئر کا بہترین انفرادی سکور ہے۔ احمد شہزاد اور اظہرعلی نے دوسری وکٹ کی شراکت میں169 رنز کا اضافہ کیا۔ اظہرعلی نے اسی میدان میں آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچریاں سکور کی تھیں، لیکن آج انھوں اور سنچری کا موقع گنوا دیا۔ وہ 87 رنز بناکر لیگ اسپنر سودی کی گیند پر بولڈ ہوگئے۔ یونس خان اور مصباح الحق کی شراکت نے سکور میں 193 رنز کا اضافہ کیا۔ یونس خان نے ٹیسٹ میچوں میں 28 ویں سنچری 99 کے سکور پر ٹم ساؤدی کے ڈراپ کیچ کی بدولت دس چوکوں کی مدد سے مکمل کی۔ مصباح الحق کے دو کیچ 17 اور 20 رنز پر مارک کریگ اور نیشام نے ڈراپ کیے۔ دونوں مرتبہ بد قسمت بولر ساؤدی تھے۔ مصباح الحق نے اپنی آٹھویں ٹیسٹ سنچری نو چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے مکمل ہوتے ہی اننگز ڈکلیئر کر دی۔ نیوزی لینڈ کے اوپنرز برینڈن مکلم اور ٹام لیتھم سات اوورز کھیل کر 15 رنز بنا گئے لیکن مہمان ٹیم کا اصل امتحان ابھی باقی ہے۔ ابوظہبی کے شیخ زید سٹیڈیم میں چند روز قبل آسٹریلوی بولنگ پاکستانی بیٹسمینوں کے سامنے بے بس نظر آئی تھی اور اب نیوزی لینڈ کی بولنگ کو انھیں قابو کرنے کا کوئی طریقہ نہیں سوجھ رہا۔ text: سعودی عرب میں دی جانے والی سخت سزاؤں پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اعتراضات کرتی رہتی ہیں سعودی عرب میں رواں برس 58 افراد کے سرقلم کیے جا چکے ہیں۔ منگل کے روز موت کی سزا پانے والے شخص کا نام باز محمد گل محمد تھا اور اس پر الزام تھا کہ اس نے سعودی عرب میں منشیات سمگل کرنے کی کوشش کی تھی۔ باز محمد گل محمد کو سعودی عرب کے مشرقی شہر خوبار میں سزا دی گئی۔ اقوام متحدہ کے ایک ماہر نے ستمبر میں سعودی عرب میں پھانسی کی سزا پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔ ماورائے عدالت ہلاکتوں کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر کرسٹوف ہینز نے سعودی عرب میں مقدموں کی سماعت کو انتہائی غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بعض اوقات تو ملزموں کو اپنے دفاع کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ملزمان سے تشدد کے ذریعے اعتراف جرم کرایا جاتا ہے۔ سعودی عرب کے شرعی نظام میں ریپ، قتل، مسلح ڈکیتی، مرتد ہونے اور منشیات کی سمگلنگ پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب میں گذشتہ سال 78 افراد کے سر قلم کیے گئے تھے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2012 میں بھی سعودی عرب کی اسلامی مملکت میں 78 افراد کے سر قلم کر کے موت کی سزا دی گئی تھی۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم نے 2000 میں سر قلم کیے جانے والے افراد کی تعداد 79 بتائی تھی۔ سعودی عرب میں منگل کو منشیات کی سمگلنگ کے جرم میں ایک پاکستانی شہری کا سر قلم کر دیا گیا ہے۔ text: جب لڑائی جاری تھی تو بہت سے عالمی رہنماؤں نے جنگ بندی کے بعد نہ صرف انسانی امداد بلکہ تعمیر نو میں بھی مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اب انہیں یہ وعدہ کو پورا کرنے کےلیئے کہا جائے گا۔ تیونس کے صدر نے عرب رہنماؤں کا ہنگامی اجلاس بلانے کی اپیل کی ہے اور لبنان کی تعمیر نو کے لیئے اجتماعی کاوش پر زور دیا ہے۔ سویڈن نے اکتیس اگست کو امدادی اجلاس طلب کر کے جس میں ساٹھ ممالک اور امدادی تنظیموں کی شرکت متوقع ہے مغربی دنیا میں پہل کی ہے۔ ابھی تک لبنان میں تعمیر نو کے لیئے اخراجات کا معتبر تخمینہ موجود نہیں۔ لیکن ایک بات بہرحال سب کو معلوم ہے کہ انیس سو پچھتر اور انیس سو نواسی کے درمیان تعمیر نو کے لیئے پچاس ارب ڈالر لبنان میں سڑکوں، پلوں، ہسپتالوں، سکولوں اور ہوائی اڈوں پر خرچ ہوئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر تعمیرات اب ملبے کا ڈھیر بن چکی ہے۔ کرسچن ایڈ کے گراہم مکے کا کہنا ہے کہ جنوبی لبنان اور بیروت کا وسیع علاقہ برابر ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھ سو کلومیٹر لمبی سڑکیں اور ایک سو پچاس پُل تباہ جنہیں دوبارہ بنانے کے لیئے بہت پیسہ درکار ہے۔ لبنان کی حکومت کا اندازہ ہے کہ صرف ڈھانچہ دوبارہ بنانے کے لیئے ڈھائی ارب ڈالر چاہیں۔ اقتصادی اخراجات کے علاوہ تعمیر نو کے لیئے افرادی قوت کا حصول اور اس پر عملدرآمد کروانا کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ اس کام کے لیئے توانائی درکار ہے لیکن بہت سے مقامات پر بجلی کی فراہمی ابھی بحال نہیں ہوئی۔ وسیع پیمانے پر تعمیر نو کے علاوہ فوری طور پر لوگوں کو ٹھہرانے کے لیئے مکانات اور عمارات کی تعمیر کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ لبنان میں معیشت کے وزیر نے کہا ہے دس لاکھ پناہ گزینوں میں سے ہر پانچواں شخص لڑائی کے دوران بے گھر ہوا ہے۔ گزشتہ چند ہفتے کے دوران لڑائی میں درجنوں فیکٹریاں تباہ ہوئی ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کار غائب ہیں۔ سیاحت کی صنعت سولہ لاکھ غیر ملکی سیاحوں کی آمد کی توقع کر رہی تھی لیکن اب اس کی بحالی کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ لبنان پر پینتیس ارب ڈالر کے قرضے ہیں۔ بہت کم لوگوں کو توقع ہے کہ انیس سو ستر کی دہائی کے اوائل کے دن واپس آ سکتے ہیں جب لبنان مشرق وسطیٰ میں بنکاری اور تجارت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ لبنان میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کے بعد توجہ اب ملک کی تعمیر نو اور اس کام کے لیئے وسائل حاصل کرنے پر مرکوز ہو رہی ہے۔ text: مگر کراچی کے شہریوں کو اس بات کا عملی تجربہ کہ حاکم کے پندرہ منٹ عوام کے کتنے گھنٹے ہوتے ہیں، کل رات اور آج ہوا۔ اور یہ ایک تلخ تجربہ تھا۔ صدرجنرل پرویز مشرف کل کسی اعلان کے بغیر اچانک کراچی آ وارد ہوئے۔ اُن کی آمد سے کئی گھنٹے پہلے ہوائی اڈے سے آرمی ہاؤس تک جانے والی سڑک شارع فیصل پر حفاظتی انتظامات شروع کردیئے گئے تھے۔ سروس روڈ بند کردی گئی تھیں اور پیٹرول پمپوں پر تالے ڈال دیئے گئے تھے۔ شارع فیصل کے دونوں جانب شہر کے کئی علاقوں سے آنے والی سڑکوں پر گاڑیاں روک دی گئیں اور چھوٹی سڑکوں پر پانی کے ٹینکر کھڑے کرکے انہیں بھی بند کردیا گیا۔ ٹینکروں کا یہ استعمال شہریوں کے لئے حیرانی، تعجب اور غصہ کا باعث تھا کہ ٹینکر پیاسوں کو پانی فراہم کرنے کی بجائے ٹریفک روکنے کے لئے استعمال کئے جارہے تھے۔ صدر صاحب کی کراچی ائیر پورٹ پر آمد سے کوئی ڈیڑھ گھنٹے پہلے چودہ، پندرہ کلو میٹر لمبی شارع فیصل ہر قسم کے لئے ٹریفک کے لئے بند کردی گئی اور وہاں غیر اعلانیہ مگر عملاً کرفیو نافذ کردیا گیا۔ آس پاس کی سڑکوں پر ہزاروں گاڑیوں کو روک کے رکھا گیا۔ اِن گاڑیوں میں بچے، بوڑھے اور جوان سب ہی سوار تھے۔ کوئی گھر جارہا تھا اور کوئی شادی میں شریک ہونےاور کئی باراتیں بھی ان حفاظتی اقدامات کا شکار ہوئیں۔ انہیں دیر ہورہی تھی مگر اس سے شاید اتنا فرق نہیں پڑتا۔ سب سے زیادہ متاثر تو ایک درجن سے زائد ایمبولینسوں میں پھنسے ہوئے وہ مریض ہوئے جو اسپتال جانا چاہتے تھے۔ مگر اسپتالوں کے راستے بھی ٹینکر کھڑے کر کے بند کردیئے گئے تھے۔ ایک فرد کی سیکیورٹی کئی افراد کی جان سے زیادہ قیمتی تصور کی جارہی تھی۔ شارع فیصل پر کرفیو غیر اعلانیہ ہی سہی، اتنا سخت تھا کہ پیدل بھی کسی کو سڑک پار کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اُس ماں کو بھی نہیں جس کا سات ماہ کا بچہ اسپتال میں دم توڑ گیا تھا اور جو اسے گھر لے جانا چاہتی تھی۔ شارع فیصل اور اس کے آس پاس کی سڑکیں صدر کے احکامات کے مطابق پندرہ منٹ بند نہیں رہیں۔ ایک گھنٹہ بھی نہیں۔ یہ سڑکیں ڈیڑھ گھنٹے سے زائد تو اس طرح بند رہیں کہ اس اہم شارع پر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا اور آس پاس کی سڑکوں پر ہزاروں گاڑیاں پھنسی رہیں۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد جب جنرل مشرف اس سڑک سے محفوظ گزرگئے تو لوگوں کو ہلنے جلنے کی اجازت دی گئی۔ ٹریفک جام سے نکلنے اور اپنی منزلوں تک پہچنے میں انہیں مزید کافی وقت لگا۔ جنرل مشرف اور اُن کی حفاظت پر مامور عملے اور حکام نے بادشاہ اور نمک کی وہ روایت یاتو سنی ہی نہیں اور اگر سنی تو اس کا کوئی اثر نہیں لیا کہ اگر حاکم لوگوں کا نمک مفت لے لے گا تو اُس کے اہلکار عوام کو لوٹ کھائیں گے۔ کان تو اُسی وقت کھڑے ہوگئے تھے جب جنرل پرویز مشرف نے یہ اعلان کیا کہ اُن کی آمدورفت کے وقت ٹریفک کو پندرہ منٹ سے زیادہ عرصہ کے لئے بند نہ کیا جائے۔ text: تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود نے گذشتہ دنوں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ حکومت نے مذاکرات میڈیا کے حوالے کر دیے ہیں ایک دن پہلے جمعرات کو وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے اور وہ امید اور دعا کرتے ہیں کہ یہ مذاکرات آئین کے دائرۂ کار کے اندر ہوں۔ تحریک طالبان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد نے بی بی سی کے نامہ نگار عزیز اللہ خان سے نامعلوم مقام سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سے مذاکرات کا آغاز نہیں ہوا ہے اور ابھی تک ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ہے۔ طالبان سے مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے: نواز شریف ’حکومت نے مذاکرات میڈیا کے حوالے کر دیے‘ ’افسوس حکومت، عوام کی سوچ آگے بڑھنے سے قاصر‘ طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کے بقول’ابھی کسی بھی سطح پر مذاکرات نہیں ہو رہے ہیں اور نہ ہی کوئی جرگہ ہو رہا ہے۔‘ اس سے پہلے جمعرات کو وزیراعظم نواز شریف نے لندن میں برطانیہ کے نائب وزیراعظم نک کلیگ سے ملاقات میں طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی فورسز اور خفیہ ہتھیاروں کی استعداد بڑھائی جا رہی ہے تاکہ ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت یہ نہیں چاہتی کہ ملک کی گلیوں میں معصوم شہریوں کا خون بہے اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار گلیوں میں مارے جائیں۔ وزیراعظم نے برطانیہ کے دورے پر جانے سے پہلے وزیر داخلہ چوہدی نثار علی خان کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا اختیار دیا تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق وزیراعظم نے وزیر داخلہ کو ہدایت کی تھی کہ اس ضمن میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو اعتماد میں لینے کے لیے رابطے کیے جائیں۔ رواں ماہ وزیراعظم نواز شریف نے امریکہ کے دورے پر جاتے ہوئے لندن میں مختصر قیام کے دوران صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’تمام پارٹیوں نے طالبان سے مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا تھا جس کے بعد ہم نے مذاکرات شروع کیے لیکن پھر تشدد بھڑک اٹھا اور مذاکرات میں رکاوٹ پیدا ہوگئی۔‘ وزیراعظم کے بقول پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے اوردوسرے فریق کی طرف سے بھی اسی طرح کی کوششیں ہونی چاہییں۔ ستمبر میں کل جماعتی کانفرنس میں حکمراں جماعت کو طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کا اختیار دیا گیا تھا تاہم اس فیصلے کے فوری بعد بری فوج کے میجر جنرل کی ہلاکت، تحریک طالبان کی مذاکرات شروع کرنے سے پہلے تمام قیدیوں کی رہائی اور قبائلی علاقوں سے فوج نکالنے سمیت متعدد ’شرائط‘، اور پشاور میں حملے سمیت تشدد کے متعدد واقعات پیش آنے کے بعد مذاکرات کا عمل کھٹائی میں پڑتا ہوا دکھائی دیا جبکہ کالعدم تحریک طالبان کے مطابق حکومت نے مذاکرات میڈیا کے حوالے کر دیے تھے۔ شدت پسند کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے مطابق حکومت نے مذاکرات کے لیے ابھی تک ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔ text: ٹریسا مے نے واقعے کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے اب تک حکام نے اس حادثے میں 30 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے اور خدشہ ہے کہ یہ تعداد 70 سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ لندن کی عمارت میں آتشزدگی سے 12 افراد ہلاک آگ لگ جائے تو کیا کریں؟ بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ لاپتہ افراد کی تعداد 76 ہے اور آگ بجھانے والے ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ انھیں کسی کے بھی زندہ بچ جانے کی امید نہیں ہے۔ ایمرجنسی سروسز تیسرے روز بھی جلی ہوئی عمارت میں لاشوں کی تلاش کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ملکہ برطانیہ کی ملکہ الزبتھ اور شہزادہ ولیم نے جمعے کو اس آتشزدگی سے متاثر ہونے والے افراد سے ملاقات کی ہے۔ شمالی کینزنگٹن میں واقع ایک 24 منزلہ رہائشی عمارت میں منگل کی شب سوا ایک بجے کے قریب آگ لگی اور آگ بجھانے والا عملہ کئی گھنٹے تک اس پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا۔ برطانوی وزیراعظم ٹریزا مے نے اس واقعے کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں مجرمانہ عمل کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ وزیراعظم مے کا کہنا تھا کہ ’متاثرین کا حق ہے کہ انہیں جواب دیا جائے۔‘ ان کا یہ بیان ان کے جائے حادثہ کے دورے کے دوران بچ جانے والوں سے ملاقات نہ کرنے پر ہونے والی تنقید کے بعد سامنے آیا ہے۔ میٹروپولیٹن پولیس کے کمانڈر سٹورٹ کنڈی نے امید ظاہر کی ہے کہ مرنے والوں کی تعداد 100 سے تجاوز نہیں کرے گی تاہم انھوں نے کہا کہ ’ہمیں افسوس ہے شاید ہر شخص کی شناخت نہیں ہو پائے گی۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تاحال ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جن سے یہ کہا جا سکے کہ آگ دانستہ طور پر لگائی گئی تھی۔ حکام کو اب مزید کسی کے بھی زندہ بچ جانے کی امید نہیں ہے عمارت کی مالک کونسل کے سربراہ نے بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ کو بتایا حکام نے گرینفل ٹاور کا ڈھانچہ ویسا نہیں بنایا گیا تھا جیسا کہ بورو میں موجود دوسری عمارتوں کا تھا۔ متاثرہ عمارت کے باہر حال ہی میں تزئین و آرائش کے لیے لگائی گئی پرت کی بھی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے کیونکہ ماہرین کے بقول اس کی آگ سے بچاؤ والی بہتر قسم استعمال کی جا سکتی تھی۔ لندن میں پولیس کا کہنا ہے کہ شہر کے مغربی علاقے میں واقع بلند رہائشی عمارت گرینفل ٹاور میں آتشزدگی سے ہلاک ہونے والے تمام افراد کی شناخت شاید کبھی نہ ہو سکے۔ text: فوجی حکام کا کہنا ہے کہ اس عورت نے چھرا نکالا اور خاتون فوجی پر حملہ کر دیا جس سے فوجی خاتون کے چہرے پر معمولی سا زخم آگیا۔ انہوں نے بتایا کہ آس پاس کھڑے فوجیوں نے اس کے پیروں میں گولی ماری۔ دونوں خواتین کو موقع پر طبی امداد فراہم کی گئی لیکن فلسطینی عورت نے بعد میں دم توڑ دیا۔ یہ واقعہ نابلس کے قریب حوارہ کے مقام پر پیش آیا۔ جہاں اس سے قبل بھی کئی حملے ہو چکے ہیں۔ اس حملہ آور عورت کے رشتہ داروں نے بتایا کہ تیس سالہ حملہ آور فلسطینی عورت کانام حیفہ حندیا تھا۔ وہ پانچ بچوں کی ماں تھی۔ اس حملے کی کسی مزاحمت کار گروہ نے ذمہ داری قبل نہیں کی ہے۔ فلسطینی عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ آور خاتون کو ریڈ کریسنٹ کے طبی عملے نے طبی امداد فراہم کی۔ اسرائیل کے فوجی حکام کا کہنا ہے کہ حملہ آور عورت نے جب فوجی خاتون پر حملہ کیا تو اسے چھرے سمیت پکڑ کر زمین پرگرا لیا گیا اور اس کے بعد اسے اس وقت گولی ماری گئی جب اس نے دوبارہ حملہ کرنے کی کوشش کی۔ خبر رساں ادارے رائٹر نے ایک عینی شاہد کے حوالے سے بتایا ہے کہ حملہ آور عورت کو زمین پر لیٹی ہوئی حالت میں گولی ماری گئی۔ ’دو فوجیوں نے اس پر اس وقت گولی چلائی جب وہ دوبارہ اٹھنا چاہتی تھی اور اسے مار ڈالا‘۔ اسرائیل کی فوج نےمغربی اردن کے شمال میں واقع ایک چیک پوسٹ پرایک خاتون فوجی پر حملہ کرنے والی فلسطینی عورت کوگولی مار دی ہے۔ text: ترجمان اریے شالیکار کے مطابق یسرائیل کاٹز نے یہ بات بدھ کے روز ایلاف نامی نیوز ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے کی۔ تاہم شائع کیے جانے والے انٹرویو میں ان کی اس خواہش کو شامل نہیں کیا گیا۔ اسرائیلی وزیر کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ شائع کیے جانے والے انٹرویو میں یہ بات شامل کیوں نہیں کی گئی تاہم وہ اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ یسرائیل کاٹز نے یہ بات کی تھی۔ واضح رہے کہ ایلاف ویب سائٹ کے مالک ایک سعودی کاروباری شخصیت ہیں۔ یاد رہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور ایسا دورہ اگر عمل میں آتا ہے تو یہ انتہائی بےمثال نوعیت کا ہوگا۔ یہ بھی پڑھیے حزب اللہ پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے: اسرائیل کیا محمد سلمان سعودی عرب کی سب سے طاقتور شخصیت بن چکے ہیں؟ ’سعودی عرب نے لبنانی وزیر اعظم کو قید کر رکھا ہے‘ وہ جنگ جس نے مشرقِ وسطیٰ کو بدل کر رکھ دیا یاد رہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور ایسا دورہ اگر عمل میں آتا ہے تو یہ انتہائی بےمثال نوعیت کا ہوگا۔ ماضی میں اسرائیلی حکام عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی جانب اشارہ کرتے رہے ہیں اور اس بات کے بھی اشارے دیتے رہے ہیں کہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان پسِ پردہ تعاون ہوتا ہے، خاص طور پر ایران کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے حوالے سے۔ اریے شالیکار نے یسرائیل کاٹز کے حوالے سے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ شاہ سلمان وزیراعظم نیتن یاہو کو سرکاری طور پر ریاض آنے کی دعوت دیں اور وہ محمد بن سلمان کو اسرائیلی دورے کی دعوت دیتے ہیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ کاٹز نے یہ ہاتھ اس لیے بڑھایا ہے کیونکہ وہ علاقائی امن چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ گذشتہ ماہ اسرائیل کی فوج کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل گیڈی ائزنکوٹ نے کہا تھا کہ اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ خفیہ معلومات کے تبادلے کے لیے تیار ہے کیونکہ دونوں ملک کا مشترکہ مفاد ایران کو روکنے سے وابستہ ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث بہت سے تجزیہ کاروں کے خیال میں ایران سے مشترکہ دشمنی کی وجہ سے سعودی عرب اور اسرائیل میں اشتراک پیدا ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب نے حالیہ دنوں میں ایران پر دباؤ بڑھاتے ہوئے ایران پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ عرب ملکوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے حزب اللہ سمیت مختلف جنگجو گروپوں کو استعمال کر رہا ہے۔ چند دنوں قبل یمن سے ریاض کے ہوائی اڈے پر راکٹ کے ناکام حملے کی ذمہ داری بھی سعودی عرب نے ایران پر عائد کی تھی اور اسے ایران کی طرف سے سعودی عرب کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا تھا۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ اسرائیل سے کسی قسم کے تعلقات صرف اسی صورت قائم ہو سکتے ہیں کہ اسرائیل سنہ انیس سو اڑسٹھ میں قبضہ کیے گئے عرب علاقوں کو خالی کر دے۔ اسرائیلی وزیر برائے انٹیلیجنس کے ترجمان کے مطابق یسرائیل کاٹز نے خواہش ظاہر کی ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اسرائیل کا دورہ کریں جبکہ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ سعودی شاہ سلمان اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو سرکاری طور پر ریاض آنے کی دعوت دیں۔ text: لوگوں کو امید ہے کہ نریندر مودی جلدی ہی ٹھوس اقدامات کریں گے لوگوں کو امید ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی ملک میں گذشتہ کئی برسوں سے مسلسل بڑھتی مہنگائی اور قابل رحم اقتصادی حالت کو جلد ہی درست کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے۔ غیر ملکی سرمایہ کار، جو پچھلی مرکزی حکومت کی حکمرانی کے دوران التوا کے شکار بے شمار منصوبوں اور مبینہ کرپشن کی وجہ سے مایوس بیٹھے تھے، اب خوش ہیں کہ بھارت کی صنعتی ترقی میں تیزی آئے گی۔ یقینی طور پر مرکزی حکومت میں اتنے طویل عرصے کے بعد ایک بڑی تبدیلی ہونے سے یہ جوش فطری ہے، لیکن کیا صرف وزیر اعظم اور کابینہ بدل جانے سے بھارتی معیشت کی اصل كمزورياں اتنی جلدی دور کی جا سکتی ہیں؟ عالمی بینک جیسی کئی بین الاقوامی تنظیموں نے آگاہ کیا ہے کہ ہندوستانی معیشت نازک موڑ پر کھڑی ہے اور آنے والے سالوں میں اس نئی حکومت کو انتہائی محتاط اور نازک حالات کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ شیئر بازار کا انڈیکس نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے بھارت بمقابلہ چین ورلڈ اكنامك فورم کی حالیہ رپورٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ قوموں کی معیشت کو پرکھنے کے کئی پیرامیٹرز یا معیار ہوتے ہیں اور اس سلسلے میں بھارت بہت پسماندہ ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت کی معیشت ہنگامی دور سے گزر رہی ہے۔ اس رپورٹ نے 144 ملکوں کی اقتصادی حالت اور مستقبل میں ان کی ترقی کی شرح کے امکانات کو کے بارے میں اندازے لگائے ہیں۔ بھارت ان ممالک میں 71 ویں مقام پر ہے، جو اسی رپورٹ کے پچھلے ورژن سے 11 نمبر نیچے چلا گیا ہے۔ یہی نہیں، گذشتہ چھ برسوں سے بھارت مسلسل ان پیرامیٹرز میں نیچے پھسلتا جا رہا ہے۔ بھارت میں کام کرنے والوں کی کمی نہیں لیکن ان کا استعمال نہیں کیا جا رہا ایشیا کے دو بڑے ملک چین اور بھارت کی اقتصادی ترقی کو اکثر ایک مقابلے کی طرح دیکھا جاتا ہے۔ 2007 میں بھارت چین سے صرف 14 مقام پیچھے تھا اور اب یہ فاصلہ 43 ہو گیا ہے اور اب چین بھارت سے چار گنا زیادہ امیر ملک ہے۔ تو ایسی کون سے وجوہات ہیں جو بھارت کو مسلسل پیچھے دھکیل رہی ہیں؟ اچھی ترقی کی شرح ضروری ورلڈ اكنامك فورم کے مطابق کسی ملک کی معیشت کو ترقی کی بہتر شرح کو برقرار رکھنے کے لیے تین مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلا اصول ہے بنیادی سہولیات، یعنی صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات۔ ان کے ساتھ ہی ضروری ہے کہ مہنگائی، مالی خسارہ اور درآمدات اور برآمدات کے نظام کو بھی مضبوط بنایا جانا چاہیے۔ اس وقت بھارت کی معیشت ہنگامی دور سے گزر رہی ہے ان دونوں ہی معیارات پر بھارت کی پوزیشن قابلِ رحم ہے۔ اس کو تبدیل کرنے کے لیے سرکاری و نجی تنظیموں کی سرگرمیاں، باہمی تال میل اور نوکرشاہی نظام کا فعال ہونا ضروری ہے۔ اس بنیادی ڈھانچے کے کمزور ہونے سے کوئی بھی معیشت جلد یا بدیر ضرور لڑکھڑا جائے گی۔ بھارت کی بدنام زمانہ لال فيتہ شاہی اور سیاسی رسا کشی کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ملک کی معیشت کی بنیاد ہی اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ زرعی ٹیکنالوجی میں اضافہ مثال کے طور پر ورلڈ بینک کے تجزیے کے مطابق بھارت میں کوئی منصوبہ یا کاروبار شروع کرنے کے لیے اوسطاً 12 اصول و ضوابط اور ایک مہینے کا وقت لگتا ہے۔ ورلڈ اكنامك فورم کی 144 ممالک کی درجہ بندی میں اس معیار میں بھارت تقریباً تمام ممالک سے پیچھے ہے۔ زراعت پر منحصر اس ملک کی 54 فیصد عوام کو گزشتہ کئی دہائیوں سے انتہائی اہم سہولیات دستیاب نہیں کرا پایا ایک اور بڑی خامی یہ ہے کہ بھارت کی اتنی بڑی آبادی کے باوجود مختلف علاقوں میں اہلکاروں کی تعداد غیر مساوی ہے۔ تقریباً ہر زرعی ملک آہستہ آہستہ دیگر صنعتوں اور پیداوار کی سمت بڑھتا ہے۔ یہ عمل بڑھتی آبادی اور تکنیکی ترقی کی دین ہے۔ بھارت کا پہلا مسئلہ یہ ہے کہ وہ زراعت پر منحصر اس ملک کے 54 فیصد عوام کو گذشتہ کئی دہائیوں سے انتہائی اہم سہولیات دستیاب نہیں کرا پایا۔ یہی وجہ ہے کہ جی ڈی پی میں ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کا حصہ صرف 14 فیصدہے۔ دوسری طرف، کم آمدنی سے پریشان نوجوانوں کو مناسب تعلیم اور تربیت مہیا نہیں کی جا رہی اور اس وجہ سے نئی صنعتوں کو قابل انجینیئر اور میکینک وغیرہ نہیں ملتے۔ بنیادی ڈھانچے کی کمی بھارت میں نئی صنعت لگانے کے لیے بہت سے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے بجلی، پانی، اور صنعتی توانائی جیسی بنیادی چیزیں بھارت میں ویسے بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جو نئے منصوبوں کو شروع کرنے میں بڑی رکاوٹ بنتی ہیں۔ بھارت کے پاس کام کرنے والوں کی کمی نہیں ہے، لیکن ان کو كھپانے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے وسائل کافی نہیں ہیں۔ نتیجتاً ہنرمند افرادی قوت کے اعداد و شمار میں بھارت 144 ممالک میں 121 ویں نمبر پر ہے۔ ملک میں آمدنی میں عدم مساوات اور امیر و غریب کے درمیان مسلسل چوڑی ہوتی خلیج کی یہ بھی ایک وجہ ہے۔ نریندر مودی سے امیدیں ہیں کہ وہ’اچھے دنوں‘ کو جلد ہی لے آئیں گے۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر انھوں نے ریاست میں ترقی کی سمت میں بہت کام کیے، لیکن پورے ملک کی معیشت کے ڈھانچے کو تبدیل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ صرف نئی سکیمیں بنانا کافی نہیں، ان کو نافِذ کرنے کے لیے ان کی اصل مسائل پر توجہ دینا زیادہ ضروری ہے۔ سرمایہ کاروں میں جوش مرکز میں حکومت تبدیل کرنے کے بعد سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کے کچھ اشارہ دکھائی دینے لگے ہیں اور حصص بازار کا اشاریہ نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھنا ہوگا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری، جو اس اضافہ کا ایک بڑا سبب ہے، امریکہ اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک کی اقتصادی حالت پر منحصر ہے۔ ابھی ان ممالک کی کرنسی پالیسی نرم ہے اور سود کی شرح بھی بہت کم ہے جس وجہ سے سرمایہ کاروں اور صارفین دونوں کو پیسہ آسانی سے دستیاب ہے۔ جیسے جیسے عالمی معیشت اس طویل اقتصادی کساد بازاری کے دور سے ابھرےگی، ترقی یافتہ ممالک میں سود کی شرحوں میں اضافہ ہوگا اس وقت سرمایہ کار یقینا بھارت کی اصل کمزوریوں پر زیادہ توجہ دیں گے۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ بھارت اپنے معاشی بحران سے نکل رہا ہے، لیکن ملک کی ترقی، صلاحیت اور استحکام کا اصل امتحان ابھی باقی ہے۔ بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مکمل اکثریت والی مرکزی حکومت بننے کے بعد ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایک امید کی لہر دوڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ text: اسحٰق ڈار کے پیش کردہ پانچواں بجٹ میں بھی ماضی کے چار بجٹس کی طرح کسانوں کے لیے مراعاتی پیکج اور غریب لوگوں کی مالی مدد کے لیے رقوم مختص کی گئی ہیں۔ اسحٰق ڈار کے پیش کردہ پانچواں بجٹ میں بھی ماضی کے چار بجٹس کی طرح کسانوں کے لیے مراعاتی پیکج اور غریب لوگوں کی مالی مدد کے لیے رقوم مختص کی گئی ہیں۔ ’ایسا نہیں ہوسکتا کہ بجٹ ہر مہینے پیش ہو‘ پاکستان کا بجٹ 18-2017: کب کیا ہوا؟ پاکستان کے ٹیکس نظام میں بہتری یا مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لیے اس بار بھی بجٹ میں کوئی نمایاں اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ ترقیاتی بجٹ حکومت نے 1001 ارب روپے ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کیے ہیں جن کا ایک بڑا حصہ یعنی 401 ارب روپے توانائی کے شعبے کے لیے رکھے گئے ہیں جن میں بڑا حصہ بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لیے خرچ کیا جائے گا۔ اس رقم کو خرچ کر کے حکومت کا خیال ہے کہ وہ اگلے سال تک بجلی کی پیداوار میں 10 ہزار میگا واٹ تک کا اضافہ کر سکے گی۔ اس کے علاوہ 320 ارب روپے شاہراہوں اور پلوں کی تعمیر پر خرچ ہوں گے۔ ان میں سی پیک کے تحت بننے والی شاہراہیں بھی شامل ہیں۔ ریلیف اقدامات حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن اس کا اثر اس سے کہیں زیادہ ہوگا کیونکہ حکومت نے 2009 اور 2010 میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں دیے جانے والے ایڈہاک ریلیف الاؤنس بنیادی تنخواہ میں شامل کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس اضافہ شدہ تنخواہ کے دس فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی دس فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ فوجی افسروں اور جوانوں کی خدمات کے پیش نظر ان کی تنخواہوں میں مزید دس فیصد کا عبوری الاؤنس شامل کیا گیا ہے۔ دفاعی بجٹ حکومت نے دفاعی بجٹ میں قریباً 9 فیصد اضافہ کر کے اسے 920 ارب روپے کرنے کی تجویز دی ہے۔ پچھلے سال یہ اضافہ 11 فیصد تک تھا۔ حکومت کئی برس سے ملکی دفاعی بجٹ میں افراط زر کے تناسب سے اضافہ کرتی رہی ہے اور اس بار بھی یہ روایت برقرار رکھی گئی ہے۔ زراعت زرعی شعبے کی ترقی کے لیے وفاقی حکومت نے تین برس قبل جو کسان پیکج دیا تھا حالیہ بجٹ میں اسی پیکج کو آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ نئے اقدامات میں ساڑھے بارہ ایکڑ زمین کے مالک کسانوں کے لیے 50 ہزار روپے تک کے قرضوں کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ وزیر خزانہ نے کسانوں کو یقین دلایا کہ اس سال کے دوران کھاد کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ٹیکس وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر میں ٹیکس نظام میں اصلاحات یا نئے لوگوں کو ٹیکس نظام میں لانے کے لیے اقدمات کا ذکر نہیں ہے لیکن انھوں نے موبائل فونز پر ٹیکسوں میں کمی اور سگریٹ میں ٹیکسوں میں اضافے کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے بعض اقدامات کا اعلان کیا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت سٹاک مارکیٹ سے مزید آمدن کی توقع کر رہی ہے۔ جو لوگ ٹیکس گوشوارے جمیع نہیں کرواتے ان کے لیے بلواسطہ ٹیکسوں کی شرح میں بھی اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے جمعے کی شام پارلیمان کے سامنے اپنی حکومت کا پانچواں اور ممکنہ طور پر آخری بجٹ پیش کیا جس میں گذشتہ چار بجٹس کی طرح اس بار بھی زیادہ توجہ مواصلات کے نظام اور توانائی کے شعبے پر مرکوز دکھائی دیتی ہے۔ text: آسٹریلیا کی کوئینز لینڈ یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق اس بات کے بہت کم امکانات ہیں کہ یہ سمندری مونگے اگلے پچاس برس میں درجہ حرارت میں ہونے والے متوقع دو ڈگری کے اضافے کو برداشت کر سکے گی۔ اس کے علاوہ ماہی گیری میں اضافے اور پانی میں گندگی کی وجہ سے بھی کورل ریف بہت متاثر ہورہی ہے اور پچاس برس میں اس کا صرف پانچ فیصد حصہ باقی بچ پا ئے گا۔ اس تبدیلی کے ساتھ ہی وہ ساری حسین اور نایاب آبی حیات بھی تباہ ہو جائے گی جس کے لئے یہ مونگے یا کورل ریف مشہور ہیں۔ کوئینز لینڈ یونیورسٹی میں کی جانے والی اس تحقیق کا اہتمام ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر نے کیا تھا اور اس کے لئے کچھ رقم آسٹریلوی حکومت نے بھی ادا کی ہے۔ تحقیق کے مطابق اگر حالات بہت برے رہے تو اس صدی کے آخر تک مونگے مکمل طور پر تباہ ہوجائیں گے اور پھر دوبارہ سے ان کی نشو نما میں دو سو سے پانچ سو سال تک لگ سکتے ہیں۔ یہ مونگے درجہ حرارت میں معمولی سے اضافے سےبھی بہت زیادہ متاثر ہوجاتے ہیں اور اس علاقے میں سمندر کا درجہ حرارت اگلے سو برس میں چھ ڈگری تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔ آسٹریلیا کے مشرقی ساحل کے قریب عظیم زیرِآب سمندری مونگے یا کورل ریف کو سمندری درجہ حرارت میں اضافے کے باعث اگلے پچاس برس میں بڑے پیمانے پر نقصان پہنچےگا۔ text: سبی شہر اور اس کے ریلوے سٹیشن پر بم دھماکوں کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں مقامی پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ جمعرات کو نامعلوم افراد نے موٹر سائیکل پر دھماکہ خیز مواد نصب کر کے اسے ترین چوک پر کھڑا کر دیا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ دھماکہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کیا گیا اور اس کے نتیجے میں دو گاڑیوں اور قریبی دکانوں کو نقصان پہنچا ہے۔ حکام کے مطابق دھماکے کے نتیجے میں چھ افراد زخمی ہو گئے۔ زخمیوں کو علاج کے لیے مقامی سرکاری ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ پولیس اہلکار کے مطابق زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ دھماکے کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی ہے۔ سبی کوئٹہ کے جنوب مشرق میں تقریباً 150کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس سے قبل بھی سبی شہر اور اس کے ریلوے سٹیشن پر بم دھماکوں کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ صوبہ بلوچستان میں گذشتہ کئی سالوں سے امن و امان کی صورت حال خراب ہے۔ صوبے میں سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر حملوں کے علاوہ تشدد زدہ لاشیں ملنے کے واقعات اکثر اوقات سامنے آتے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے سبی میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کے نتیجے میں چھ افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ text: کوبرا پوسٹ اس سے قبل بھی کئی سٹنگ آپریشن کر چکا ہے انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے چند ٹی چینلوں، بعض اخباروں اور ویب سائٹوں کے نمائندوں کے ساتھ سٹنگ آپریشن میں یہ باتیں معلوم کی ہیں۔ انھوں نےاس سٹنگ آپریشن کا نام 'آپریشن 136' رکھا ہے جو سنہ 2017 کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں انڈیا کی 136 ویں پوزیشن کے حوالے سے ہے۔ انڈین میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں میں سٹنگ آپریشن کے حوالے سے بتایا گيا ہے کہ ملک میں 'پیڈ نیوز' یعنی پیسے لے کر خبریں شائع کرنا بڑے پیمانے پر قابل قبول ہے۔ یہ بھی پڑھیے ٭ کس کی صحافت زیادہ آزاد، انڈیا یا پاکستان؟ ٭ کیا انڈیا اور پاکستان میں صحافت آزاد ہے؟ ٭ صحافتی آزادی کے خلاف سرگرم 'پریس شکاری' کوبرا پوسٹ کا دعویٰ ہے کہ اس نے سات ٹی وی چینلوں، چھ اخبارات، تین ویب پورٹلز اور ایک نیوز ایجنسی کے عملے کے ساتھ سٹنگ آپریشن کیا ہے۔ کوبرا پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ انڈیا کے بہت سے نیوز چینل نے ہندوتوا کے نظریے کے فروغ کی مہم چلانے اور حزب اختلاف کے بہت سے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے بعض رہنماؤں کے خلاف الزام تراشی کرنے کے لیے چھ کروڑ روپے سے لے کر 50 کروڑ رو پے تک کی پیشکش کو قبول کیا۔ کوبرا پوسٹ کا کہنا ہے کہ ابھی اس نے اس سٹنگ آپریش کا پہلا حصہ ہی جاری کیا ہے اور اس کا اگلا حصہ اگلے ماہ اپریل میں جاری کیا جائے گا۔ سٹنگ آپریشن میں کوبرا پوسٹ کے صحافیوں نے میڈیا ہاؤس کے نمائندوں کے ساتھ ہندوتوا کو فروغ دینے اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کے خلاف الزام تراشی کے لیے نقد رقم دینے کی پیشکش کی جسے انھوں نے قبول کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے کسانوں کو ماؤ نواز قرار دینے، عدالتی فیصلوں پر سوال اٹھانے، انصاف کے شعبے سے منسلک بعض لوگوں کو بدنام کرنے کے لیے بھی مخصوص میڈیا والوں کو پیسوں کی پیشکش کی۔ کوبرا پوسٹ کا کہنا ہے کہ انھوں نے جن میڈیا ہاؤسز کے نمائندوں کو پیسوں کی پیشکش کی ان سب نے ان کی پیشکش کو قبول کیا اور انھیں نادر طریقے بھی بتائے۔ سٹنگ آپریشن میں ایک نیوز چینل انڈیا ٹی وی کا بھی نام لیا گیا ہے جس کے بارے میں نیوز پورٹل 'دا کوئنٹ' نے لکھا ہے کہ انڈیا ٹی وی میں سیلز کے صدر سدپتو چوہدری نے کوبرا پوسٹ کے تمام الزامات کو مسترد کیا ہے اور فوٹیج کو قابل اعتراض بتایا ہے۔ معروف صحافی آشوتوش جو اب عام آدمی پارٹی کے رہنما ہیں نے ایک ٹویٹ میں کوبرا پوسٹ کے سٹنگ آپریشن کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ '۔۔۔ یہ سنسنی خیزی نہیں بلکہ میڈیا کا سچ ہے۔ پیڈ میڈیا کے خلاف کارروائی کا پیش خیمہ بننا چاہیے۔ جن جن کے نام آئے ہیں وہ سب ٹی وی اخبار جانچ کے بعد بند ہونے چاہییں۔' انڈیا میں تحقیقاتی صحافت کی ویب سائٹ 'کوبرا پوسٹ' نے چند میڈیا اداروں پر الزام لگایا ہے کہ وہ پیسے لے کر خبریں کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ text: تھرایکسپریس چھ ماہ کے وقفے کے بعدگزشتہ ہفتے دوبارہ شروع ہوئی ہے۔ بارش اور سیلاب کی وجہ سےاس ٹرین کی پٹریاں کئی مقامات پر خراب ہوگئی تھیں۔ شمال مغربی ریلوے کے ترجمان ایس بی گاندھی نے بی بی سی کو بتایا’مشتبہ افراد اور ان کے سامانوں کی تلاشی کے لیے سراغ رساں کتوں کی مدد لی جائےگی اور تھر ایکسپریس کو روانہ کرنے سے صرف نصف گھنٹے پہلے پلیٹ فارم پر لایا جائےگا۔‘ اس سے قبل ٹرین کافی دیر پہلے پلیٹ فارم پر آجایا کرتی تھی۔ مسٹر گاندھی کا کہنا تھا کہ ریلوے حکام سمجھوتہ ایکسپریس میں بم دھماکوں کے پیش نظر حفاظتی انتظامات کا از سر نو جائزہ لے رہے ہیں اور ٹرین کی حفاظت کے لیے پولیس اہلکاروں کی تعداد میں بھی اضافے کا فیصلہ کیاگيا ہے۔ ان کا کہنا تھا’ ہم لوگ امن کی اس ٹرین میں پختہ حفاظتی انتظامات کو یقینی بنارہے ہیں۔‘تھر ایکسپریس اٹھارہ فروری کو دوبارہ شروع ہوئی ہے اور سفر کے پہلے مرحلے میں 71 مسافر پاکستان گئے تھے اور پاکستان سے ہندوستان آنے والے مسافروں کی تعداد ایک سو انسٹھ تھی۔ حکام کا کہنا ہے کہ عوام کو اس ٹرین کے دوبارہ شروع ہونے کی اطلاع نہیں ہے اس وجہ سے ابھی کم مسافر اس ٹرین سے سفر کر رہے ہیں۔ تھرایکسپریس کا نام ’تھر ریگستان‘ کے نام پر رکھا گیا ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان واقع ہے۔ یہ ٹرین ہفتے میں ایک بار ہندوستان کی ریاست راجستھان میں موناباؤ سے پاکستان کے صوبہ سندھ کے کھوکھراپار قصبے کےدرمیان چلتی ہے۔اس کے آغاز کے چھ ماہ میں اس ٹرین سے تقریبا 31 ہزار مسافروں نے سفر کیا ہے۔ ہندوستان میں ریلوے کے حکام کا کہنا ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکوں کے بعد بھارت اور پاکستان کےدرمیان چلنے والی ایک دیگر ٹرین تھر ایکسپریس میں حفاظتی انتظامات سخت کر دیۓ گئے ہیں۔ text: بی بی سی ہندی کے سنجیو سریواستو کے ساتھ ایک غیر رسمی انٹرویو کے دوران کیلاش کا کہنا تھا کہ موسیقی ایسی چيز ہے جو آپ کو کوئی سکھا نہیں سکتا بلکہ یہ ہنر پیدائشی ہوتا ہے ۔ آپ سے سب سے پہلا سوال؛ آپ کی آواز سن کرایسا لگتا ہے جیسے یہ سیدھے دل اور روح سے نکل کر آرہی ہے۔ کیسے پائی یہ آواز؟ آواز قدرت کی دین ہوتی ہے لیکن زندگی سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے زندگی میں بہت تھپیڑے کھائے اور بہت تجربہ حاصل کیا۔ ان تجربات سے جو کچھ بچا ہے وہ روح سے جڑ ا ہوا ہے۔ اس لیے جب بھی گاتا ہوں تو لگتا ہے کہ بالکل روح سے گارہا ہوں، میرے زندگی کے کھٹے میٹھے تجربات کا نچوڑ میرے گانے ہیں۔ ایسا لگتا ہےکہ آپ کی زندگی کے کھٹے میٹھے اور سکھ ُدکھ کے تجربات میں دکھ کے تجربات زيادہ ہیں؟ ایسی بات نہیں ہے،کسی بھی آدمی کی زندگی میں دکھ تھوڑی دیر کے لیے بھی آئے تو زیادہ لگتا ہے۔ لیکن میں تکلیف اور آرام کو یکساں طور پر لیتا ہوں۔ گزشتہ برس میرا ایک ایلبم ’ کیلاشا‘ آیا تو میں اسی وقت بیمار پڑ گيا تھا۔ مجھے اے آر رحمان کا فون آیا کہ ’تم سچ میں بیمار ہو یا آنا نہیں چاہتے ، مجھے لگا کہ جب آپ کا وقت ہوتا ہے تو ہر طرف آپ کے نام کی لوٹ مچی رہتی ہے، نہیں تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ آپ کی قسمت کیسے بدلی؟میں ریاست اترپردیش کے شہر میرٹھ کا رہنے والا ہوں، دلی کے ایک محلے میور وہار میں میری پرورش ہوئي ۔ میں نے دلی یونیوریسٹی سے کرسپونڈینٹ سے پڑھائي کی اور ساتھ ہی موسیقی کی تعیلم حاصل کرتا رہا۔ سنگیت بھارتی، گندھروں مہاودھالیہ جیسے اداروں سے میں نے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ لیکن میں یہاں بھی کہنا چاہتاہوں کہ موسیقی ایسی چيز ہے جو آپ کو کوئی ادارہ نہیں سکھا سکتا موسیقی پیدائشی ہوتی ہے۔ یہ فن آپ کو پیدائش کے ساتھ آتا ہے اور بس ریاض کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں بچپن سے فلمی موسیقی کے بجائے کچھ دوسری طرح کی موسیقی سیکھنا چاہتا تھا ، جو ملک کے مختلف حصوں میں گایا جاتا ہے۔ جس پر لوگوں کا بہت زيادہ دھیان نہیں جاتا ہو۔ میں نے چھوٹے شہروں اور قصبوں کے مقامی گیتوں پر اپنا دھیان بڑھایا اور ایسی موسیقی سیکھنے کا جذبہ میں ہمشہ اپنے اندر رکھتا تھا۔ آپ کے جد وجہد کے زمانے میں کون سا ساتھی آپ کا سب سے قریبی رہا؟مجھے لگتا ہےکہ وہ ساتھی پروردگار تھا جس نے ہمارا ہر وقت ساتھ دیا، میرا گھر جس نے اس وقت مجھے سمجھا اور ساتھ دیا، جب میں سماج میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کررہا تھا۔ ماں آپ کو ایسا حوصلہ دیتی ہے اور یہی حوصلہ آپ کو طاقت دیتا ہے، بھائی مہیش اور بہن نوتن کی بھی بہت مددر ہی ہے۔ آپ کو کب لگا کی آپ کی آواز دوسروں سے الگ ہے؟جب میں موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لوگو ں کے پاس گيا تو ان کا کہنا تھا کہ میری آواز اچھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں موسیقی کے میدان میں آنا چاہوں تو کوئی ساز بجانا سیکھوں اور گانے کا ارادہ چھوڑ دوں، میں نے بہت دنوں تک بجانا سیکھا، قریب دو سال تک گٹار سیکھتا رہا، کھبی تبلہ سیکھا، لیکن کچھ بھی نہیں سیکھ پایا۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ آپ جس طرح کی موسیقی گاتے ہیں اس میں ’ہیلنگ ٹچ‘ ہے۔ اگر آدمی سن لے تو اسے بہت راحت ملتی ہے۔ ہاں! یہ بالکل صحیح بات ہے، نیویارک میں میرے ایک ڈاکٹر دوست نے بتایا کہ دنیا میں ایسی کئی بیماریاں ہیں جس کا علاج صرف موسیقی سے ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مجھے اس بات کی شاباش دی کہ میری موسیقی کچھ اسی طریقے کی ہے۔ میری موسیقی اور الفاظ کا ایک ایسا سنگم ہے کہ لگتا ہےکہ کوئی آپ کو بلا رہا ہے۔ آپ صوفی موسیقی زیادہ گاتے ہیں، تو صوفی موسیقی گانے کا فیصلہ کیسے کیا؟میں پہلے شاستریہ موسیقی کی تعلیم حاصل کرتا تھا ، مجھے لگا کہ میں شاستریہ موسیقی ٹھیک سے نہیں سیکھ پاؤں گا۔ میں ایسے کسی شخص کو نہیں جانتا جس نے اپنی جوانی میں شاستریہ موسیقی کی بنیاد پر بڑا نام حاصل کیا ہو، اور مجھ پر اپنے والدین کے سامنے کچھ کرنے کی ذمہ داری تھی، ان حالات میں میں نے صوفی موسیقی کو انتخاب کیا۔ آپ کو سب سے پہلا بریک کب ملا؟میں اپنی ایلبم ریکارڈ کرنے ممبئی گیا تھا وہیں مجھے نریش اور پریش نام کے دو کمپوزر ملے،ان کے ساتھ مل کر میں نے گانے ریکارڈ کیے۔ لیکن میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ میں اپنا ایلبم پروڈیوس کرپاتا، میرا ایلبم نہیں نکل پایا ، لیکن نریش اور پریش نے میرے ریکارڈ گانوں کو کئي لوگوں کو سنایا، لوگوں نے بہت تعریف کی اور مجھے اشتہار میں گانے کاموقع مل گیا۔ میں اشتہار کے گانوں میں بہت چلا، پھر وشال شیکھر نے میری آواز سنی اور مجھے ٹرائل کے لیے بلایا، وہ گانا تھ 'االلہ کے بندے' وہ فلم کا نغمہ جب ایک برس بعد بازار میں آیا تو بہت مقبول ہوا اور بہت سے انعامات ملے، اس کے بعد میں تھوڑا بہت بہتر پوزيشن میں آگيا۔ آپ کا پسندیدہ موسیقا ر کون ہے؟شنکر- احسان، وشال- شیکھراور وشال بھاردواج کا کام بہت آچھاہے۔ آج کل سلیم – سلیمان بہب بہتر موسیقی دے رہے ہیں۔ نریش پریش بھی مجھے بہت پسند ہیں،جنہوں نے میرے دونوں ایلبم بنائے، آج ان ایلبمز کے سبھی گانوں کی مانگ صرف ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بہت ہوتی ہے۔ آپ نے جو بھی فلمی گیت گائے ہیں ان میں آپ کا سب سے پسندیدہ گانا کون سا ہے۔ اداکاری کرنے کادل نہیں چاہتا؟نہیں بلکل نہیں، پروردگار ہمشہ کچھ نہ کچھ کراہی رہا ہے۔ میرا خيال ہے کہ جب سے میں بالی ووڈ میں آیا ہوں تب سے پروردگار مجھ سے کام لے رہا ہے۔ موسیقی کے علاوہ کون سی چیزیں آپ کو پسند ہے؟میں لکھتا ہوں، مجھے چہرے پڑھنے کی بہت عادت ہے، میں لوگوں کی حرکتیں دیکھتا ہوں، لوگ اخباروں کے شوقین ہوتے ہیں، ورنہ چہروں پر کیا نہیں لکھا ہوتا۔ آپ کو عجیب نہیں لگتا کہ پہلے جد و جہد کرو بعد میں ذمہ داری پوری کرو؟ یہی سچ ہے صاحب، یہی زندگي کا مطلب ہے۔ آپ کی شادی ہوچکی ہے؟میری شادی اب تک نہیں ہوئی ہے اس بارے میں گھر کے بڑے ہی سوچتے ہیں۔ آپ کی پسندیدہ اداکارہ؟مجھے رانی مکھرجی کی فلمیں اچھی لگتی ہیں۔ آپ کی آنے والی فلمیں کون سی ہیں؟میں جن فلموں ميں نغمہ گانے جارہا ہوں وہ ہے نچ لے ، تیرا نام، بھول بھولیا اور ون ٹو تھری۔ ہندوستان کے مشہور گلوکار کیلاش کیھر کا کہنا ہےکہ ان کےگانےان کی زندگی کی عکاسی کرتے ہیں اور زندگی نے جو کچھ انہیں دیا ہے وہ انہیں تجربات کا نچوڑ اپنےگانوں میں سماج کو لوٹا رہے ہیں۔ text: کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نہ نصیرالدین حقانی کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی وزارتِ داخلہ کے ترجمان عمر حمید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وزیر داخلہ نے پولیس حکام کو اس واقعے کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ نصیر الدین حقانی کو گزشتہ اتوار کو اسلام آباد میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ترجمان کے مطابق پولیس حکام کو اس بات کی ہدایت کی گئی ہے کہ تحقیقات جلد از جلد کی جائیں۔ حقانی کے قتل پر حکام کی لاعلمی ایک سوال کے آیا اس پہلو پر تفتیش کی جا رہی کہ نصیرالدین حقانی کی لاش جائے وقوعہ سے کس طرح غائب ہوئی اور اس کو لیجانے والے کون افراد تھے تو اس پر ترجمان عمیر حمید کا کہنا تھا کہ کسی خاص پہلو پر رپورٹ نہیں مانگی گئی’ کوئی سنجیدہ معاملہ ہو تو اس پر رپورٹ مانگی جاتی ہے۔‘ اس ضمن میں اسلام آباد پولیس کے سربراہ سے بات کرنے کی متعدد بار کوشش کی گئی لیکن ہر بار بتایا گیا کہ ’صاحب مصروف ہیں‘۔ خیال رہے کہ اس واقعے کے ایک عینی شاہد محمد واصف نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’میں نے دیکھا کہ وہاں ایک شخص زخمی پڑا ہے لوگ اس کے اردگرد کھڑے تھے اور اس کےدس منٹ بعد ایک اور گاڑی شاہ پور کی جانب سے وہاں آئی اور پھر وہ اس زخمی شخص کو لے کر چلے گئے۔‘ نصیر الدین الدین حقانی کو اتوار کی شب دارالحکومت کے مضافاتی علاقے بارہ کہو میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا لیکن اہم بات یہ ہے کہ پولیس نے اس واقعے میں صرف ایک زخمی شخص کی رپورٹ درج کی کیونکہ پولیس کے مطابق انھیں جائے وقوعہ سے کوئی لاش نہیں ملی۔ اس واقعے کے تقریباً پانچ روز بعد جمعہ کو تھانہ بارہ کہو کے ایس ایچ او چوہدری اسلم سے رابط کر کے ان سے جب پوچھا گیا کہ انھیں نصیرالدین حقانی کے قتل کی تحقیقات کے حوالے سے کوئی ہدایت ملی ہے تو ان کا جواب تھا’ میرے علم میں کچھ نہیں ہے کیونکہ میرا تبادلہ دو دن پہلے ہی اس تھانے میں ہوا ہے اور سابق ایس ایچ او فیاض رانجھا اس ضمن میں کچھ جانتے ہوں گے۔‘ جب تھانہ بارہ کہو کے اہلکار سے پوچھا گیا کہ فائرنگ کے واقعے میں قتل کی تفتیش کوئی اہلکار کر رہا ہے تو اس پر متعلقہ اہلکار نے جواب دیا’ جو قتل ہوا ہی نہیں تو تحقیقات کس بات کی‘۔ وزارتِ داخلہ میں ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ’نصیرالدین حقانی کے قتل کا واقعہ بہت پرسرار ہے اور اس کی وجہ سے اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہہ رہے ہیں‘۔ خیال رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نہ نصیرالدین حقانی کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ نصیرالدین حقانی کو امریکہ کے کہنے پر پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے قتل کیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں قتل حقانی نیٹ ورک اور پاکستان کا نقصان ہے اور اس کے راستے سے ہٹ جانے کا فائدہ امریکہ اور افغان حکومت کو ہے۔ پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے دارالحکومت اسلام آباد کے مضافات میں حقانی نیٹ ورک کے رہنما نصیر الدین حقانی کی ہلاکت کے واقعے کی جامع تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ text: حکام کے مطابق 2002 میں کراچی میں فرانسیسی انجنیئرز پر ہونے والے بم حملے کے پیچھے طے شدہ رشوت کی عدم ادائیگی کارفرما ہو سکتی ہے یہ کیس 1990 کی دہائی میں پاکستان کے ساتھ بحری آبدوزوں کے حوالے سے طے پانے والی ایک ڈیل سے متعلق ہے جس میں مبینہ طور پر خفیہ ’کِک بیکس‘ یا رشوت ادا کی گئی تھیں۔ 90 سالہ سابق وزیرِ اعظم بالادور پر الزام ہے کہ انھوں نے اس ڈیل کے تحت ملنے والی رقم 1995 میں اپنی الیکشن مہم پر خرچ کی تھی۔ تاہم بالادور یہ الیکشن ہار گئے تھے۔ یہ بھی پڑھیے پاکستان کا آبدوز سے کروز میزائل کا کامیاب تجربہ آگسٹا آبدوز کیس: جمیل انصاری کی درخواست مسترد آگسٹا کمیشن: سرکوزی کےساتھی پر فرد جرم عائد ان کے اس وقت کے وزیرِ دفاع فرانسوا لیوٹارڈ کو بھی اسی کیس میں طلب کیا گیا ہے۔ دونوں افراد اس معاملے میں لگائے گئے بدعنوانی کے الزامات سے انکار کرتے ہیں۔ سنہ 2002 میں کراچی کے ایک مشہور ہوٹل کے باہر ہونے والے کار بم حملے میں 11 فرانسیسی انجنیئر ہلاک ہوئے اور ایک بس تباہ ہو گئی تھی۔ اُن دنوں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم بھی اِسی ہوٹل میں قیام پزیر تھی۔ تفتیش کاروں کو خدشہ ہے کہ یہ حملہ رشوت کا پیسہ رکنے کے بدلے میں کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ اس وقت کے فرانس کے صدر ژاق شیراق نے اقتدار سنبھالنے کے بعد خفیہ کِک بیکس کی ادائیگی روک دی تھی۔ فرانس کے اٹارنی جنرل فرانسوا مولینز نے اعلان کیا ہے کہ دونوں سابق عہدیداروں کو ایک خصوصی ٹرائیبیونل کے سامنے پیش کیا جائے گا جو سابق حکومتی اہلکاروں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمے سنتا ہے۔ فرانس کے سابق وزیر دفاع فرانسوا لیوٹارڈ (دائیں) اور سابق فرانسیسی وزیرِ اعظم بالادور بالادور پر الزام ہے کہ انھوں نے پاکستان کے ساتھ آبدوزوں کا سودہ طے کرانے والوں کو خفیہ کمیشن کی ادائیگی کی اجازت دی تھی اور ان لوگوں سے وصول ہونے والی رقم انھوں نے اپنی ناکام صدارتی مہم پر خرچ کی۔ یہ رقم آج کے حساب سے تقریباً ایک کروڑ 30 لاکھ فرینک یا دو کروڑ یورو بنتی ہے۔ بالادور 1993 سے 1995 تک فرانس کے وزیر اعظم رہے۔ مئی 2017 میں اس ڈیل میں بالادور اور فرانسوا لیوٹارڈ پر ’کارپوریٹ اثاثوں کے غلط استعمال اور چھپانے کی ساز باز‘ کے باقاعدہ الزامات عائد کیے گئے تھے۔ پاکستانی حکام نے سنہ 2002 کے بم حملے کا الزام شدت پسندوں پر عائد کیا تھا۔ اس حملے میں 15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والے 11 فرانسیسی انجینئرز آبدوز آگسٹا-کلاس کے پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے۔ اس واقعے کی طویل عرصے سے ہونے والی تفتیش اب بھی جاری ہے۔ اس کیس میں فرانس کے سابق صدر نیکولس سارکوزی، جو کہ بالادور کے قریب سمجھے جاتے تھے، بھی زیرِ تفتیش رہے۔ تاہم انھوں نے اس ڈیل میں اپنے کسی بھی کردار کی تردید کی تھی۔ سابق فرانسیسی وزیرِ اعظم ایدوارڈ بالادور اور فرانس کی کابینہ کے ایک سابق رکن کو ’کراچی افیئر‘ نامی ایک بدعنوانی سکینڈل میں عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا ہو گا۔ text: اجلاس کو بتایا گیا کہ فوجی عدالتوں کو یہ توسیع ایک محدود مدت کے لیے دی جائے گی جس کا تعین سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد طے کیا جائے گا یہ فوجی عدالتیں دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گرد حملے کے پس منظر میں قائم کی گئی تھیں۔ اس کے حامیوں کا کہنا تھا کہ ہمارے عدالتی نظام میں خامیاں موجود ہیں جن کے باعث وہ دہشت گردوں کو قرار واقعی سزائیں دینے سے قاصر ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے قانونی امور بیرسٹر ظفر اللہ نے فوجی عدالتوں کا جواز پیش کرتے ہوئے چند روز قبل کہا تھا کہ 'انتہا پسندی کے مقدمات میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ جج، وکیل اور گواہاں کو جان کا خوف ہوتا ہے۔ اہم مقدمے کامیاب نہیں ہوتے، کیونکہ کوئی سامنے نہیں آتا۔ اسی لیے ایسے مقدمات سے نمنٹے کے لیے فوجی عدالتیں بنائی گئیں۔' لیکن دوسری جانب ماہرِ قانون جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت اصل مسئلے سے آنکھیں چرا رہی ہے، اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری پولیس کی تفتیش درست نہیں ہے، مختلف اداروں کے درمیان خفیہ معلومات کا تبادلہ ٹھیک نہیں ہے، گواہوں کے تحفظ کا مسئلہ ہے، استغاثہ ٹھیک نہیں ہے، لیکن حکومت بجائے ان معاملات کو حل کرنے کے لیے آسان حل کی جانب جا رہی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ 'یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ دو سال قبل تمام پارٹیوں نے فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ دیا، لیکن ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ یہ دو سال چٹکی بجاتے ہی گزر جائیں گے۔' انھوں نے کہا کہ 'آج ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں دو سال پہلے کھڑے تھے اور اس کی وجہ صرف اور صرف سیاست دانوں کی کوتاہی اور نالائقی ہے۔' آئی ایس پی آر کے مطابق پچھلے دو برس میں فوجی عدالتوں نے 274 مقدمات کی سماعت مکمل کر کے فیصلے سنائے، جن میں سے161 مقدمات میں مجرموں کو سزائے موت، جب کہ 113 مقدمات میں قید کی سزائیں دی گئیں۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد حکومت کو غیر معمولی اقدامات کرنے پڑے تھے سزائے موت پانے والے 161 میں سے اب تک 12 مجرموں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ لیکن سوال یہ ہےکہ کیا یہ ایسا کام ہے جو عام عدالتوں کے بس سے یکسر باہر تھا؟ مزید یہ کہ حکومت نے یہ تو کہہ دیا ہے کہ توسیع کی نئی مدت کا فیصلہ باہمی مشاورت سے کیا جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟ دفاعی امور کے ماہر ایاز گل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'بلاشبہ فوجی عدالتوں کو بیساکھی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان میں 20 نمبر شق یہی تھی کہ پاکستان کے تعزیری نظام کو بہتر کرنے کی کوششیں کی جائیں گی، پولیس میں اصلاحات کی جائیں گی، لیکن اس کی بجائے فوجی عدالتیں مسلط کر دی گئیں جو بین الاقوامی طور پاکستان کے تشخص کے لیے اچھا نہیں ہے۔' انھوں نے کہا کہ 'کسی بھی سیاسی حکومت کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام میں تعاون کرنا سوچنا بھی رجعت پسندانہ عمل ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ایسے اقدامات نہیں کرنا چاہتی جو اس کے اختیارات میں ہیں لیکن اسے خدشہ ہے کہ اس کی بدنامی کا سبب بن سکتے ہیں۔' انھوں نے کہا کہ ’فوجی عدالتوں سے بہتر ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کی جو 52 عدالتیں موجود ہیں ان کو وہی اختیارات دیے جائیں جو فوجی عدالتوں کو دیے گئے ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے۔‘ کیا اس فیصلے کے پیچھے کہیں فوج کا دباؤ تو نہیں کہ وہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ایاز گل نے کہا کہ 'میرا نہیں خیال کہ فوج کا دباؤ ہے، البتہ فوج کے دباؤ کا بہانہ ضرور ہو سکتا ہے، لیکن اگر دباؤ ہو بھی تو اس کی مزاحمت بھی کی جا سکتی ہے۔' دوسری جانب خود حکومت کے بعض ارکان اس عمل کو پسندیدہ نہیں سمجھتے۔ چند روز قبل بیرسٹر ظفر اللہ نے بھی تسلیم کیا تھا کہ 'فوجی عدالتیں بنانا اچھا اقدام نہیں ہے۔'جمہوری معاشرہ ہے، ہماری سیاسی جماعت ہے، ہم الیکشن لڑ کر آئے ہیں ہم تو فوجی عدالتوں کے متحمل نہیں ہو سکتے۔' اس کے علاوہ پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثنااللہ نے بھی میڈیا سے بات کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو نکتہ چینی کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ' ملٹری کورٹس کوئی حل نہیں ہے، وہ دو سال رہی ہیں، لیکن ان کی کارکردگی بھی کوئی اتنی زیادہ بہتر نہیں رہی ہے جس کے اوپر کہا جا سکے کہ اس کے بغیر سسٹم چل نہیں سکتا۔' تاہم اس پر وزیرِ اطلاعات مریم اورنگ زیب کو رانا ثنا اللہ کے اس بیان سے لاتعلقی کا اعلان کرنا پڑا جس کے بعد رانا ثنااللہ نے یو ٹرن لیتے ہوئے کہا کہ 'یہ ہنگامی اقدام تھا جس سے فائدہ ہوا۔' حکومتِ پاکستان نے فوجی عدالتوں کی میعاد ختم ہونے کے دو روز بعد ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کے بعد اعلان کیا کہ ان عدالتوں کو مزید توسیع دینے کی خاطر آئینی ترمیم متعارف کروائی جائے گی جس کے لیے دوسری سیاسی جماعتوں سے مشاورت جاری ہے۔ text: سلمان رشدی کی اس کتاب پر پابندی عائد ہے اور مسلم تنظیمیں ان کے آنے کے خلاف ہیں ان کی آمد کی مخالفت کے سبب وہ فیسٹیول میں شریک نہیں ہوسکے تھے اس لیے ویڈیو لنک کا انتظام کیا گيا تھا۔ جے پور میں ادبی فیسٹیول ’ دگّی پیلیس‘ میں ہورہا ہے اور جب ویڈیو لنک کا وقت قریب آيا تو اس کے مالک رام پرتاپ سنگھ نے کہا کہ پولیس کے مشورہ پر انہوں نے ویڈیو لنک کے پروگرام کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بات کے خدشات ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو ہنگامہ بر پا ہوسکتا ہے۔ ’اس جگہ کی حفاظت اور میری اپنی اور سب کی سلامتی کے لیے یہ فیصلہ کیا گيا ہے۔‘ اس ادبی میلے کے منتظم سنجے رائے نے اس فیصلے کو بہت افسوس ناک قرار دیا لیکن کہا کہ تشدد سے بچنے کے لیے وہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے انہیں آگاہ کیا ہے کہ سلمان رشدی کے مخالفین شہر میں جگہ جگہ جمع ہورہے ہیں اور اگر انہیں پروگرام میں شامل کیا گيا تو تشدد کا خطرہ ہے اور لوگ فیسٹیول کے احاطے میں بھی ہنگامہ کر سکتے ہیں۔ اس پروگرام سے پہلے مسلم تنظیموں، پولیس اور میلے کے منتظمین کے درمیان کئی مرتبہ بات چیت ہوئی تھی لیکن وہ بے نتیجہ رہی اور اس کے بعد ہی ویڈیو لنک پروگرام منسوخ کیا گيا۔ منگل کی شام جے پور ادبی فسٹیول اپنے اختتام کو پہنچا سلمان رشدي جے پور کے سالانہ ادبی میلے میں مدعو تھے اور میلے میں افتتاحی لیکچر دینے والے تھے لیکن میلے کے انعقاد سے پہلے ہی سلمان رشدی نے بعض مسلم اداروں کی مخالفت کے بعد جے پور کے سالانہ ادبی میلے میں شرکت کرنے سے معذرت کی تھی۔ لیکن ادیب روچر جوشی، ہری کنجرو، جیت تھیل اور امیتاو کمار جیسے ادیب سلمان رشدی کے نا آنے سے ناراض تھے اور بطور احتجاج ان کی کتاب کے اقتباسات پڑھے تھے۔ ان کے خلاف پولیس نے مقدمہ درج کیا تھا اور یہ افراد ادبی میلہ چھوڑ کر چلے آئے تھے۔ بھارت میں سلمان رشدی کی متنازعہ کتاب سیٹینک ورسز پر پابندی عائد ہے اور بعض مسلم تنظیموں نے ان کے آنے پر اعتراض کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر وہ آئیں گے تو ان کے خلاف احتجاج ہوگا۔ تاہم ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ خبریں بے بنیاد ہیں کہ مسلم تنظیمیں تشدد کا راستہ اختیار کریں گی۔ جماعت اسلامی ہند کے سیکریٹری محمد سلیم انجینیئر نے بی بی سی سے بات چیت میں کہا کہ اگر سلمان رشدی آتے تو ان کے خلاف پر امن مظاہر ہوتا اور کوئی بھی غیر قانونی کام نہیں کیا جاتا۔ اس سے پہلے سلمان رشدی سنہ دو ہزار سات میں جے پور کے ادبی میلے میں شرکت کر چکے ہیں لیکن اس وقت کوئی تنازعہ نہیں ہوا تھا۔ ان کے دورے کی منسوخی پر ادبی حلقوں کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا ہے اور ملک میں اظہار خیال کی آزادی کے حق اور اس کی حدود پر بحث دوبارہ گرم ہوگئی ہے۔ بھارتی شہر جے پور میں جاری ادبی فیسٹیول میں منگل کو برطانوی مصنف سلمان رشدی ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرنے والے تھے لیکن ہنگامے کے بعد انہیں اس کا بھی موقع نہیں مل پایا۔ text: اپنی نوعیت کے ان انوکھے مگر خطرناک ڈاکوؤں کے گینگ کے سرغنہ غلام النبی چاچڑ اور ان کے بھائی غلام قادر عرف قادری چاچڑ ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کے چالیس سے پچاس ڈاکو ان کے ٹولے میں شامل ہیں۔ انہوں نے دریائے سندھ کے بائیں کنارے گیمڑو پولیس سٹیشن کی حدود میں محکمہ جنگلات کی چار سو ایکڑ کے قریب زمین سے درخت کاٹ کر کاشت شروع کردی ہے۔ ان دنوں جنگلات میں تاحد نظر کپاس کے لہلاتے کھیت نظر آتے ہیں۔ ان کی کاشت کسان کرتے ہیں جن میں مقامی لوگوں کے علاوہ پنجاب سے آئے ہوئے بھٹی قبیلے کے افراد بھی شامل ہیں۔ ایک کسان عالم شیر کے مطابق زمین ڈاکوؤں کی اور محنت ان کی ہے اور منافع میں وہ ففٹی ففٹی حصہ دار ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان لوگوں کو سالانہ بیس سے پچیس لاکھ سالانہ گندم جبکہ چالیس سے پینتالیس لاکھ روپے کپاس سےآمدن ہوتی ہے۔ قادری چاچڑ نے بتایا کہ سن پچیانوے میں ان پر صرف ایک مقدمہ تھا اور جب انہیں انتیس مبینہ جرائم پیشہ افراد کے ہمراہ پولیس عدالت میں پیش کرنے کے بعد واپس گھوٹکی لارہی تھی تو اچانک راستے میں اس وقت کے بدنام ڈاکو احمدو جاگیرانی نےحملہ کر کے کئی جرائم پیشہ افراد کو چھڑالیا تھا۔ قادری کے مطابق ان کے بڑے بھائی غلام النبی چاچڑ سن انیس سو چھیانوے میں سکھر جیل کی انتظامیہ سے ساز باز کر کے جیل کے اندر سے سرنگ کھود کر چار ساتھیوں سمیت فرار ہوگئے تھے۔ ان کے مطابق ابتدا میں وہ رضن چاچڑ کے گینگ میں شامل ہوئے لیکن بعد میں اپنا ٹولا بنایا اور غلام النبی اس ٹولے کا سرغنہ بن گیا۔انہوں نے بتایا کہ ان کا ایک بھائی فوج میں تھے لیکن پولیس چھاپوں کے بعد وہ بھی ملازمت چھوڑ کر ڈاکو بن گئے۔ پانچ چاچڑ بھائیوں میں سے تین اب بھی ڈاکو ہیں۔ قادری چاچڑ کا کہنا ہے کہ سن انیس سو چھیانوے کے آخر سے سن دو ہزار ایک تک انہوں نے ضلع گھوٹکی میں اغوا برائے تاوان، قومی شاہراہ بلاک کرکے بسوں اور ٹرکوں کے قافلے لوٹنے، قتل اور دیگر جرائم کا بازار گرم کیا ہوا تھا۔ ان کے مطابق انہوں نے یہ عرصہ بالائی سندھ کے چار اضلاع گھوٹکی، جیکب آباد، سکھر اور شکارپور کے کچے کے علاقے میں واقع جنگلات میں گزارا۔ ان کے پاس آج بھی جدید اسلحہ ہے۔ جب میں نے ان ڈاکووں سے پوچھا کہ اتنا جدید اسلحہ کہاں سے آتا ہے تو قادری چاچڑ نے بتایا کہ پٹھان سمگلر جنگل میں جی تھری رائفل، کلاشنکوف، گرنیڈ، راکٹ لانچر، اینٹی ایئر کرافٹ گنیں اور دیگر ہتھیار لاتے ہیں۔ ’پیسے دیں اور جو چاہیں لے لیں‘۔ غلام النبی کے مطابق وہ اپنے بچوں کو ڈاکو نہیں بلکہ پڑھا لکھا کر پولیس افسر بنانا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر انگلینڈ میں داخلہ ملے تو بھی وہ خرچ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بغیر کسی سردار کو ملوث کیے ہوئے انہوں نے براہ راست گھوٹکی پولیس کے سربراہ کے ساتھ غیر اعلانیہ سمجھوتہ کر رکھا ہے کہ وہ جرائم نہیں کریں گے اور پولیس انہیں تنگ نہیں کرے گی۔ ان کے اس دعوے کے متعلق جب میں نےگھوٹکی کے ضلعی پولیس چیف آفتاب ھالیپوتہ سے دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ڈاکوؤں سے ان کا کوئی سمجھوتہ نہیں۔ البتہ ان کے مطابق پولیس ایسے جرائم پیشہ افراد جو اب جرم نہیں کرتےان کے خلاف کاروائی نہیں کرتی چاہے ماضی میں وہ کتنے بھی بڑے ڈاکو ہی کیوں نہ ہوں۔ انہوں نے تجربے کی بنیاد پر کہا کہ جتنے بھی بدنام ڈاکو بنے وہ پولیس یا زمینداروں کے مظالم سے بنے۔ ڈاکو پولیس کے ساتھ سمجھوتے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی کبھی غیر مسلح ہوکر نہیں چلتے۔ جمعہ کی نماز بھی باقاعدگی کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ انہوں نے موبائل فون رکھے ہیں اور یہ ہی ان کا آپس میں موثر رابطے کا ذریعہ بھی ہے۔ ڈاکو وڈیروں کے اس علاقے میں حکومت نے بجلی بھی فراہم کر رکھی ہے جس کا بل نہ ڈاکو دیتے ہیں اور نہ حکومت مانگتی ہے۔ مفت بجلی سے وہ ٹیوب ویل چلا کر فصلوں کے لیے پانی حاصل کرتے ہیں۔ یہ ڈاکو علاقے کے لوگوں کے تنازعات کا تصفیہ بھی کراتے ہیں۔ علاقے کے جدی پشتی سرداروں کے بعض فیصلے لوگ نہیں بھی مانتے لیکن ان ڈاکو سرداروں کا فیصلہ نہ ماننے کی کوئی جرآت نہیں کرتا۔ چاچڑ ڈاکوؤں کے اس گینگ کے سرغنہ غلام النبی نے حال ہی میں بیٹوں کے ختنے کے موقع پر دعوت دی جس میں ان کے بقول آٹھ ہزار مہمان شریک ہوئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ شاید ہی علاقے کا کوئی زمیندار، افسر یا ڈاکو شریک نہ ہوا ہو۔ان کے مطابق انہیں بیٹوں کے ختنوں کی تقریب کے موقع پر تیرہ لاکھ روپے سلامی ملی۔ پاکستان کے صوبہ سندھ کے بالائی ضلع گھوٹکی کے بدنام زمانہ ڈاکوؤں کے ایک گینگ نے جرائم چھوڑ کر زمینداری شروع کردی ہے اور اب وہ خود کو ’شریف اور زمیندار ڈاکو‘ کہتے ہیں۔ text: رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آج کا پاکستان دنیا کے لیے عراق اور افغانستان سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام، اسلامی انتہاپسندوں کا قابلِ اعتماد نیٹ ورک، مغرب کے خلاف جذبات سے بھرپور نوجوان طبقہ، محفوظ تربیتی مراکز، بہترین الیکٹرانک ٹیکنالوجی تک رسائی، مغرب تک آسان فضائی رسائی اور ایسی سکیورٹی ایجنسیاں جو ہمیشہ وہ کام نہیں کرتیں جو انہیں کرنے چاہیئیں، وہ عناصر ہیں جو اسے اسامہ بن لادن جیسے شخص کی کارروائیوں کے لیے موزوں ترین بناتے ہیں۔ نیوز ویک کے مطابق ان تمام عناصر کے بعد سونے پر سہاگے کے موافق پاکستان کا جوہری پروگرام ہے۔ جریدے نے امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل کے سابق سینئر ڈائریکٹر بروس ریڈل کے حوالے سے کہا ہے کہ’دنیا میں وہ جگہ جہاں سے القاعدہ جوہری بم حاصل کر سکتی ہے خود انہی کے پچھواڑے میں ہے‘۔ رپورٹ کے مطابق وہ انتہاپسند جو خود پاکستانی رہنماؤں اور خفیہ ایجنسیوں کی تخلیق ہیں آج خود اسلام آباد کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ یہی وہ اسلامی انتہاپسند ہیں جو اب تک ان جنرل مشرف پر متعدد قاتلانہ حملے کر چکے ہیں جو کسی زمانے میں ان کے حلیف ہوا کرتے تھے اور یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے گزشتہ چھ برس کے دوران ایک ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا متزلزل جوہری پروگرام اور قبائلی علاقوں میں دہشتگردوں کی موجودگی تو پرانی بات ہوگئی ہے لیکن اس حوالے سے تازہ ترین اور خوفزدہ کر دینے والی حقیقت یہ ہے کہ طالبان اور القاعدہ عناصر نے کچھ شہروں سمیت بیشتر پاکستانی علاقے کو ایک ایسے اڈے میں تبدیل کر دیا ہے جو ’جہادیوں‘ کو پاکستان اور اس سے باہر نقل و حرکت کے لیے سہولیات فراہم کرتا ہے۔ نیوزویک کا کہنا ہے کہ سنہ 2001 کے اواخر سے القاعدہ کے رہنماؤں کو پناہ دینے والے یہ پاکستان میں پلے بڑھے جنگجو اب دشوارگزار پہاڑی دیہات تک محدود نہیں بلکہ ان کی کارروائیوں کا دائرہ اب کراچی جیسے شہروں تک پھیل گیا ہے جبکہ ایسا لگتا ہے کہ خود کش حملوں کا شکار اور اپنے ہم وطنوں کے خلاف کارروائی سے گریزاں پاکستان کی فوج ان جہادیوں کی کارروائیاں روکنے میں ناکام رہی ہے۔ امریکی جریدے سے بات کرتے ہوئے افغانستان میں برطانوی فوج کے ساتھ جھڑپ میں زخمی ہونے کے بعد کراچی میں صحت یابی کے عمل سے گزرنے والے طالبان کمانڈر عبدالماجد کا کہنا ہے کہ ’میں جب تک محاذ پر واپس نہیں چلا جاتا پاکستان میں خود کو محفوظ اور پر سکون محسوس کرتا ہوں‘۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی صورت میں طالبان شدت پسندوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ کی موجودگی ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف برسرِ پیکار امریکی اور نیٹو افواج کی مہم کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ یہ طالبان شدت پسند آزادانہ طور پر پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں اور ان کے زخمیوں اور بیماروں کا علاج پاکستان کے نجی ہسپتالوں میں ہی ہوتا ہے۔ ایک طالبان کمانڈر ملا مومن احمد نے نیوز ویک کو بتایا کہ’پاکستان ہمارے لیے اس کندھے کی مانند ہے جس پر ہم گرینیڈ پھینکنے کے لیے اپنا راکٹ لانچر رکھتے ہیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ’پاکستان کے بناء ہم لڑ نہیں سکتے اور خدا کا شکر ہے کہ پاکستان ہمارے خلاف نہیں‘۔ امریکی جریدے کے مطابق پاکستان میں طالبان کی آزادنہ سرگرمیاں ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں اور اگر اس کا تقابل سنہ 2002 سے کیا جائے تو واضح فرق نظر آتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سنہ 2002 میں جب مشرف حکومت نے شدت پسندوں کے خلاف پہلا کریک ڈاؤن کیا تھا تو پاکستان میں موجود طالبان کمانڈروں کو گرفتاری کے خوف سے ہر دوسرے دن اپنی پناہ گاہ بدلنی پڑتی تھی لیکن آج وہی طالبان کمانڈر جب افغانستان میں بر سرِ پیکار نہیں ہوتے تو پاکستان میں اپنے گھروں میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ نیوز ویک کے مطابق پاکستان میں موجود طالبان شدت پسندوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے میزبانوں کو خفا نہیں کرنا چاہتے اور ان کے مطابق پاکستان میں فوجیوں کے خلاف کارروائیوں میں پاکستان کے قبائلی ملوث ہیں جنہیں کبھی کبھار القاعدہ عناصر کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ تاہم اس حوالے سے انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا ثمینہ احمد کا کہنا ہے کہ’اگر پاکستان کے سرحدی علاقوں کےباشندے طالبان کی حمایت ترک کر دیں تو امریکہ، نیٹو اور افغان حکومت کے لیے ان سے افغانستان میں نمٹنا آسان ہو جائےگا‘۔ پاکستان میں موجود شدت پسند اب قبائلی علاقوں تک محدود نہیں بلکہ وادی سوات جیسی جگہیں بھی ان کے اثر سے محفوظ نہیں جہاں ملا فضل اللہ جیسے ’جہادی‘ اپنے سینکڑوں حامیوں سمیت پاکستانی فوج کی ناک تلے کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ نیوز ویک کے مطابق جنرل مشرف کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کی فوج پاکستان میں جہادیوں کے پھیلاؤ کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ پاکستانی صدر نے یہ ثابت بھی کیا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو بروقت کارروائی کر سکتے ہیں۔گزشتہ فروری میں جب امریکی نائب صدر ڈک چینی مبینہ طور شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ ڈالنے پاکستان آئے تھے تو پاکستان کی ملٹری انٹیلیجنس نے اچانک کوئٹہ سے طالبان کے وزیرِ دفاع اور مّلا عمر کے نائبین میں سے ایک ملا عبیداللہ اخوند کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس سے قبل پاکستانی حکام کی اطلاع پر ہی افغان علاقے میں امریکی فضائی کارروائی میں طالبان رہنما ملا اختر عثمانی مارے گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طالبان کی مدد ان کے وہ حمایتی بھی کرتے ہیں جو پہلے تو ان کے شانہ بشانہ جنگ میں شریک تھے لیکن بعد ازاں پاکستانی شہریت اختیار کر کے پاکستان میں رہائش پذیر ہوگئے۔ تاہم ان افراد کا بھی ماننا ہے کہ ان کی کوئی بھی حرکت پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے پنہاں نہیں۔ پاکستان میں رہائش پذیر سابق طالب کمانڈر ملا شبیر احمد کا کہنا ہے کہ’ پاکستانی یہاں تک جانتے ہیں کہ ہم دوپہر اور رات کے کھانے میں کیا کھانے والے ہیں‘۔ پاکستان کے سابق لیفٹیننٹ جنرل اور عسکری تجزیہ کار طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف’ سرحد کے دونوں جانب موجود شدت پسندی کے خطرے کو سمجھنے اور اس سے نمٹنے کے لیے پاکستانی عوام کو ساتھ لے کر چلنے میں ناکام رہے ہیں‘۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنرل مشرف کی پالیسیوں نے پاکستانی عوام کویہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف لڑائی جنرل مشرف اور امریکہ کا دردِ سر ہے نا کہ ان کا۔ امریکی جریدے نیوز ویک کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں آج کی دنیا میں پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ text: ترکی میں رواں برس جولائی میں ایک کارروائی کے دوران کم سے کم 67 پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا تھا پولیس کے خلاف فون ریکارڈنگ کے یہ الزامات حکومت کے خلاف بدعنوانی کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات کے دوران سامنے آئے ہیں جس میں مبینہ طور پر ترک وزیرِ اعظم طیب اردگان کے قریبی ساتھی شامل ہیں۔ خیال رہے کہ ترکی میں رواں برس جولائی میں ایک کارروائی کے دوران کم سے کم 67 پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ترکی کے سرکاری میڈیا کے مطابق یہ کارروائی ملک کے 13 صوبوں میں کی گئی۔ ترکی میں گذشتہ سال دسمبر میں اعلیٰ سطح کی مبینہ بدعنوانی کے خلاف یہ تحقیقات سامنے آئی تھیں۔ ان تحقیقات کے بعد ترکی کے تین وزرا کے بیٹوں کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ چار وزرا کو اپنی وزارت چھوڑنا پڑی تھی۔ یہ ریکارڈنگ فروری میں سامنے آئی تھی جس میں وزیرِ اعظم طیب اردگان مبینہ طور پر اپنے بیٹے بلال سے دسیوں لاکھ یوروز کو ٹھکانے لگانے کا کہہ رہے تھے۔ ترک وزیرِاعظم طیب اردگان نے اس ریکارڈنگ کو جھوٹ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ ترکی کی حکومت کو یقین ہے کہ گرفتار ہونے والے پولیس اہلکار حزمت تحریک کے ساتھ وابستہ ہیں جو مبینہ طور پر حکومت کو گرانا چاہتی ہے۔ ترکی میں جاسوسی اور فون ریکارڈ کرنے کے الزامات کے تحت 25 پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ text: رواں سال نے گزشتہ سالوں کی اس کمی کو کسی حد تک پورا کر دیا ہے۔ پہلے چھ ماہ میں بالی وڈ کی کئی فلموں نے کامیاب بزنس کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں ابھی بڑے بینرز اور بڑے ستاروں کی کئی اہم فلمیں ریلیز ہونے والی ہیں۔ باکس آفس پر گہری نظر رکھنے والے اور ’فلم انفارمیشن‘ نامی رسالے کے مدیر کومل ناہٹا گزشتہ ماہ کے دوران فلموں کے اس مظاہرے کو لا جواب کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بالی وڈ کی تاریخ میں چھ ماہ کے عرصے میں اتنی کامیاب فلمیں بہت کم ہی دیکھنے میں آتی ہیں۔ کومل کہتے ہیں کہ اسی (80) کی دہائی میں کبھی کبھار ایسا ہوتا تھا کہ ایک ساتھ کئی فلمیں کامیابی حاصل کرتی تھیں۔ اعداد و شمار یر نظر ڈالیں تو عامر خان کی ’رنگ دے بسنتی‘ سے اس سال کی شروعات ہو ئی۔ راکیش مہرا کی اس فلم نے زبردست کامیابی حاصل کی اور باکس آفس پر بھی دھوم مچائی۔ کومل کا کہنا ہے کہ فلموں کی کامیابی کی جو شروعات رنگ دے بسنتی سے ہوئی وہ ابھی تک قائم ہے۔ ’کرش‘ اور’ فنا‘ نے اس کامیابی میں چار چاند لگا دیئے ہیں۔ عامر خان کی’ فنا‘، ’رنگ دے بسنتی‘ اور راکیش روشن کی ’ کرش‘ نے ریکارڈ بزنس کیا ہے۔ کومل ناہٹا کے مطابق اس سال کی کامیاب ترین فلم ’کرش‘ ہے۔ فنا، رنگ دے بسنتی اور کرش کے علاوہ جس فلم نے شاندار کامیابی حاصل کی وہ تھی’ پھر ہیرا پھیری‘۔ اچھا بزنس کرنے والی فلموں میں مالا مال ویکلی، گینگسٹر، ٹیکسی نمبر 9211 اور اکشر شامل ہیں۔ کومل کہتے ہیں کہ گزشتہ کئی سالوں کی ناکامی سے فلم سازوں نے سبق سیکھا ہے۔ کومل نے بتایا کہ فلم ساز اور ہدایت کار اب یہ سمجھ گئے ہیں کہ جب تک کہانی اور مکالمے پر محنت نہیں کی جائے گی فلم کامیاب نہیں اور محض سٹار لینے سے بھی کام نہیں چلے گا۔ درمیانے درجے کا بزنس کرنے والوں میں ’ ڈرنا منع ہے، فیملی، ساون، پیارے موہن اور زندہ بھی ہیں جو اگرچہ بہت زیادہ کامیابی حاصل نہ کرسکیں۔ اداکاری کے لحاظ سے عامر خان کی’ رنگ دے بسنتی‘ اور’ فنا‘ سوپر ہٹ رہیں۔ کومل کے مطابق اکشے کمار اور رتھک روشن نے اپنی اداکاری سے یہ بات ثابت کردی کہ ان کا جادو اب بھی قائم ہے۔ کئی فلموں جیسے کرن جوہر کی’ کبھی الوداع نہ کہنا‘یش چوپڑا کی دھوم- 2 ، وشال بھاردواج کی ’اومکارا‘ اور فرحان اختر کی ’ڈان‘ کے علاوہ ساجد ناڈیاڈ والا کی ’جان من‘ پر ناظرین کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ سال دوہزار چھ کے پہلے چھ ماہ ریگستان میں ہریالی کی طرح رہے ہیں۔ گزشتہ پانچ چھ سال کے دوران سے بالی ووڈ میں اچھی اور کامیاب فلموں کی تعداد میں مسلسل کمی کی وجہ سے تشویش پائی جاتی تھی۔ text: تقریباً ایک ماہ قبل مقامی جنگجوؤں نے سوات کی تین تحصیلوں خوازہ خیلہ، مٹہ، مدئن اور ضلع شانگلہ کے صدر مقام الپوری پر بغیر کسی مزاحمت کے قبضہ کر کے وہاں قائم تمام پولیس تھانوں اور دیگر سرکاری عمارات کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ حکومت نے اس قبضے سے پہلے سوات میں ڈھائی ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات کئے تھے تاہم اس کے باوجود مولانا فضل اللہ کی حامیوں کو سرکاری عمارات کا کنٹرول حاصل کرنے میں کسی قسم کی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعی عسکریت پسند اس قابل نہیں تھے کہ سوات کی تین تحصیلوں اور شانگلہ کے کچھ علاقوں کا کنٹرول ایک لمبے عرصہ تک اپنے پاس رکھ سکیں تو پھر انہوں نے ان علاقوں پر قبضہ کیوں کیا؟ کیا انہیں معلوم نہیں تھا کہ آخر اس قبضے کی انہیں بھاری قیمت ادا نہیں کرنا پڑے گی اور کیا عسکریت پسندوں کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ حکومت کو چیلنج کرنا بچوں کا کھیل نہیں؟ مقامی لوگ بھی جنگجوؤں کے جانے کے بعد اب ان کے خلاف مظاہرے اور جلسے جلوس کررہے ہیں اور ان کو علاقے میں ہونے والی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ پہلے بظاہر یہی لوگ ان کے حمایتی نظر آتے تھے اور اس کی وجہ شاید خوف تھی۔ تاہم سوات میڈیا سنٹر کے ترجمان میجر امجد اقبال کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کے راتوں رات علاقے چھوڑنے کی سب سے بڑی وجہ سکیورٹی فورسز کا ناجیہ ٹاپ اور سیگرام کی پہاڑوں پر قبضہ ہے۔ ان کے بقول ’یہ وہ اہم پہاڑی علاقے ہیں جو مٹہ اور خوازہ خیلہ کو آپس میں ملانے کے علاوہ عسکریت پسندوں کے لیے رسد کی فراہمی کا اہم ذریعہ بھی تھے، جس سے شدت پسندوں کے مورچے بالکل محفوظ تھے اور ان کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں تھا‘۔ میجر امجد اقبال کے مطابق ناجیہ ٹاپ اور سیگرام پر حکومتی فورسز کا قبضہ ہوجانے کے بعد عسکریت پسندوں کےلئے اپنے مورچوں کی حفاظت کرنا مشکل ہوگیا تھا لہذا وہ فرار ہوگئے۔ سوات میں تقریباً ایک ماہ سے جاری آپریشن میں اطلاعات کے مطابق زیادہ تر شہری نشانہ بنے ہیں جبکہ ان کاروائیوں میں ویسے حکومت تو ایک سو بیس عسکریت پسندوں کے مارنے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن ہلاک ہونے والوں میں مٹہ کے کمانڈر خان خطاب کے علاوہ عسکریت پسندوں کا کوئی قابل ذکر کمانڈر نہیں تھا۔ گن شپ ہیلی کاپٹروں سے بھی محدود پیمانے پر کارروائیاں کی گئیں جبکہ ان میں استعمال ہونے والے بم بھی بظاہر زیادہ تباہ کن نہیں تھے۔ اس آپریشن میں توپ خانے کا ویسے تو بے دریغ استعمال کیا گیا لیکن ان سے بھی زیادہ جانی نقصان دیکھنے میں نہیں آیا۔ رات کے وقت عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر کئی اطراف سے شدید گولہ بھاری ہوتی تھی اور اس کی شدت سے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے سارا علاقہ تباہ و برباد ہوا ہوگا لیکن صبح جاتے تو ایک آدھے علاقے سے ایک ہلاکت کی اطلاع ملتی اور چار پانچ زخمی ہوتے۔ رات کے وقت زیادہ تر پہاڑی علاقوں کو نشانہ بنایا جاتا حالانکہ عسکریت پسند شہری علاقوں میں ہوتے تھے۔ عسکریت پسندوں کی طرف سے علاقے خالی کرنے کے بعد تاحال وہاں سکیورٹی فورسز کے اہلکار داخل نہیں ہوئے ہیں۔ وہاں تھانے اور دیگر سرکاری عمارات خالی ہیں۔ نہ تو وہاں اب پولیس اور نہ سکیورٹی اہلکار ہیں اور نہ ہی شدت پسند، شاید پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ملک کے کسی علاقے میں عوام بغیر حکومت کے رہ رہے ہیں۔ پاکستان کی وادی سوات میں تین تحصیلوں اور ملحقہ ضلع شانگلہ کے صدر مقام الپوری سے مولانا فضل اللہ کے حامی عسکریت پسندوں کی طرف سے راتوں رات تمام علاقوں کا کنٹرول چھوڑ کر نامعلوم مقام کی طرف روپوشی نے ایک بار پھر کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ text: تکریت عراق کے سابق صدر صدام حسین کا آبائی قصبہ ہے جس پر دولتِ اسلامیہ نے جون سنہ 2014 میں قبضہ کر لیا تھا مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق عراقی فوج نے شہر پر حملہ کیا ہے اور اس آپریشن میں عراق کی فضائیہ کے جیٹ طیارے بھی حصہ لے رہے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ شمالی صوبے صلاح الدین کے دارالحکومت تکریت میں ہونے والی کارروائی میں 30,000 فوجی حصہ لے رہے ہیں جن میں دو ہزار سنّی، شیعہ اور کرد ملیشیا رضاکار بھی شامل ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ فوجی دستے تکریت شہر کے مرکز سے 10 کلومیٹر اندر تک پہنچ چکے ہیں۔ بڑا حملہ خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو میں عراق کے ایک فوجی افسر نے بتایا کہ فوجی دستے سمارا سے 45 کلومیٹر شمال کی جانب الدور نامی قصبے میں بڑھ رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وزیراعظم نے تکریت میں دولتِ اسلامیہ سے الگ ہونے کی صورت میں تمام سنّی قبائل کو معافی کی پیشکش کی ہے اور اسے ان کے لیے ’آخری موقع‘ قرار دیا ہے۔ عراقی وزیرِ اعظم نے اتوار کو رات گئے اپنے بیان میں کا تھا کہ فوجی دستے اور ملیشیا سمارا صوبے میں اس حملے کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔ عراق کے فوجی دستوں کی تکریت کی جانب پیش قدمی سے قبل صوبہ صلاح الدین کے فوجی رہنماؤوں نے وزیراعظم حیدر العابدی سے ملاقات کی۔ تکریت عراق کے دارالحکومت بغداد سے 150 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جس پردولتِ اسلامیہ نے جون سنہ 2014 میں قبضہ کر لیا تھا۔ العراقیہ ٹی وی نےایک غیرتصدیق شدہ خبر کے حوالے سے کہا ہے کہ تکریت کے بیرونی حصوں سے دولتِ اسلامیہ کو نکال دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ تکریت عراق کے ان متعدد اور اہم سنّی علاقوں میں سے ایک ہے جہاں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ قابض ہے۔ تکریت عراق کے سابق صدر صدام حسین کا آبائی قصبہ ہے جس پر دولتِ اسلامیہ نے جون سنہ 2014 میں قبضہ کر لیا تھا۔ عراق کے ٹی وی کے مطابق فوج نے سابق صدر صدام حسین کے آبائی علاقے تکریت کا قبضہ واپس لینے کے لیے دولتِ اسلامیہ کے خلاف زمینی اور فضائی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ text: ادھر بغداد میں پُرتشدد واقعات بدستور جاری ہیں۔ ان واقعات کے دوران ایک مسلح شخص نے بغداد یونیورسٹی کے سکول آف ڈنٹسٹری کے ڈین یا سربراہ حسن الرباعی کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا جب وہ اپنی گاڑی میں سوار دریائے دجلہ کے کنارے کہیں جا رہے تھے۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس حملے کا مقصد واضح نہیں ہو سکا البتہ عراق کے متعدد دانشوروں کو ان کے سیاسی نظریات اور انتظامی فیصلوں کے نتیجے میں ہلاک کیا یا دھمکایا جا چکا ہے۔ ایک اور واقعہ میں صوبہ دیالا کے گورنر اپنی گاڑی کے قریب سڑک کے کنارے نصب بم پھٹنے کے باوجود محفوظ رہے جبکہ بعقوبہ اور بغداد کے دریان واقع شہر خان بنی سعد کے قریب ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں چار محافظ زخمی ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ جمعہ کو بغداد میں ہونے والے دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اب آٹھ ہو گئی ہے۔ یہ دھماکہ امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ کے دورہ بغداد کے اختتام کے چند گھنٹے بعد ہوا تھا۔ اس واقعہ کے سبب متعدد افراد زخمی اور مغربی ضلع منصور میں واقع کئی گھر منہدم ہو گئے تھے۔ امدادی کارکن ملبے میں دب جانے والوں کو نکالنےکی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ادھر موصل شہر کے نواح میں منگل کو امریکی فوجی اڈے پر کیے گئے خودکش حملے کے بعد امریکی فوج نے علاقے سے چونتیس افراد کو گرفتار کرنے کے علاوہ گاڑی میں نصب ایک بم کو بھی ناکارہ بنا دیا ہے۔ امریکی کمان نے ایک سینیئر فوجی افسر بریگیڈیئر جنرل رچرڈ فارمیکا کو اس معاملے کی چھان بین کے لیے نامزد کر دیا ہے کہ حملہ آور بمبار فوجی اڈے میں کیسے داخل ہوا؟ بغداد کے قریب واقع جیل ابو غریب میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قیدیوں کے ساتھ کی گئی بدسلوکیوں کے معاملے کی چھان بین بھی بریگیڈیئر جنرل رچرڈ فارمیکا ہی نے کی تھی۔ عراق میں مذہبی اہمیت کے حامل شہروں نجف اور کربلا کے درمیان واقع خان ال نس نامی قصبے میں ہونے والے ایک کار بم دھماکے میں تین عراقی شہری ہلاک اور دو زخمی ہو گئے ہیں۔ text: 29 دسمبر کو پیش آنے والے حادثے میں شوماکر کے سر پر شدید چوٹیں آئی تھیں ان کے ہیلمٹ پر لگے کیمرے سے حاصل ہونے والی فوٹیج سے پتا چلا ہے کہ جس وقت انھیں حادثہ پیش آیا اور وہ ایک چٹان سے ٹکرا کر گرے تو وہ ’ایک ماہر اور اچھے سکیئر کی رفتار پر جا رہے تھے۔‘ شوماکر کی صحت کے بارے میں خبروں پر تنبیہ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ حادثے سے قبل وہ مقرر کردہ راستے سے آٹھ میٹر باہر جا رہے تھے۔ ان کے مطابق 45 سالہ شوماکر نے راستے سے ہٹنے پر اپنی رفتار کم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ 29 دسمبر کو پیش آنے والے حادثے میں شوماکر کے سر پر شدید چوٹیں آئی تھیں۔ فارمولا ون کار ریسنگ کی تاریخ کے کامیاب ترین ڈرائیور شوماکر فرانس میں گذشتہ ہفتے سکیئنگ کے دوران شدید زخمی ہونے کے بعد گرینوبل کے ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں اور ڈاکٹروں نے انھیں کوما میں رکھا ہوا ہے۔ شوماکر کی 45ویں سالگرہ کے موقع پر ان کے مداحوں نے گرینوبل میں ہسپتال کے باہر دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے مائیکل شوماکر نے سنہ 2012 میں دوسری بار ریٹائرمنٹ لی تھی۔ انھیں فرنچ ایلپس کے پہاڑی سلسلے میں واقع میربل کے الپائن تفریحی مقام میں سکیئنگ کے دوران ان کا سر ایک چٹان سے ٹکرا گیا تھا۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں ان کا ہیلمٹ ٹوٹ گیا تھا۔ اس ہیلمٹ پر نصب کیمرا فرانسیسی پولیس کے حوالے کیا گیا ہے تاکہ وہ مائیکل کو پیش آنے والے حادثے کی وجوہات جان سکے۔ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ’ایف ون فارمولا کار‘ کے کامیاب ترین ڈرائیور مائیکل شوماکر حادثے کے وقت ایک ماہر سکیئنگ کرنے والے کی رفتار سے سکیئنگ کر رہے تھے۔ text: سیکسٹنگ کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے برطانیہ کے شہر روہمپٹن کے پیروری ہسپتال سے وابستہ ڈاکٹر بجلانی کا کہنا ہے کہ ان کو خدشہ ہے کہ آن لائن بُلینگ کی وجہ سے آنے والے سالوں میں نوجوانوں اور بالغوں میں خود کو نقصان پہنچانے کے رجحان میں اضافہ ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے اکثر اپنے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کے بارے میں کسی کو بتاتے نہیں ہیں اور اس وجہ سے بعد کی زندگی میں وہ ذہنی امراض کا شکار ہوسکتے ہیں۔ بچوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنے والے ایک خیراتی ادارے ’این ایس پی سی سی‘ کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں بچوں کو فوراً مدد فراہم کی جانی چاہیے۔ ڈاکٹر بجلانی کا کہنا ہے کہ سیکسٹنگ کو کچھ لوگ پیار کے نئے طریقے کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن اس کے اور آن لائن بلینگ کے دور رس اور تباہ کن نتائج ہوسکتے ہیں۔ ’اس بارے میں توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کیسے نوجوانوں کو دوسروں کو اپنی قابلِ اعتراض تصاویر بھجوانے کے خطرات سے آگاہ کیا جائے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ سیکسٹنگ کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہمیں پتہ نہیں ہے کہ اس کے دور رس نتائج کیا نکلیں گے۔ ڈاکٹر بجلانی کے بیانات اس حالیہ تحقیق پر مبنی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ذہنی امراض سے متاثر بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق سنہ 2014 میں 17 ہزار سے زیادہ بچوں کو نفسیاتی امراض کی وجہ سے ہسپتالوں میں داخل کیا گیا جو گزشتہ چار سالوں کے مقابلے میں سو گناہ اضافہ ہے۔ 15 ہزار سے زیادہ نوجوان لڑکیوں کو خود کو نقصان پہنچانے کی وجہ سے ہسپتالوں میں داخل کیا گیا جبکہ سنہ 2004 میں ایسے کیسز کی تعداد تقریباً 9 ہزار کے قریب تھی۔ برطانیہ کے قومی شماریات کے دفتر سے جاری کیے گئے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق 16 سے 24 سال کے ہر پانچ میں سے ایک نوجوان میں ڈپریشن، بے چینی یا سٹریس کی علامات دیکھی گئی ہیں۔ ڈاکٹر بجلانی کا کہنا ہے کہ یہ وہ نوجوان ہیں جن کا شمار سوشل میڈیا کے پہلے صارفین میں ہوتا ہے۔ این ایس پی سی سی سے وابستہ پیٹر وانلیس کا کہنا ہے کہ ’نفسیاتی امراض سے متاثر بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد چائلڈ لائن نامی ہاٹ لائن سے رابطہ کر رہی ہے اور یہ کافی پریشان کن ہے کہ ان کی مدد کے لیے کوئی مناسب سرکاری انتظامات نہیں ہیں۔‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اگر ہم اس مسئلے کو نظر انداز کرتے رہے تو خدشہ ہے کہ آنے والی ایک پوری نسل اس سے متاثر ہو سکتی ہے۔‘ ماہرِ نفسیات نیتاشا بجلانی کا کہنا ہے کہ سائبر بُلینگ (ڈرانا دھمکانہ) اور سیکسٹنگ (اپنی فحش تصاویر ایک دوسرے کو میسج کرنا) سے نوجوانوں کی ذہنی صحت متاثر ہوسکتی ہے اور وہ ڈپریشن کا شکار ہوسکتے ہیں۔ text: غزہ میں ایک بڑے شدت پسند کمانڈر عبدالکریم القوقا کی ہلاکت کے بعد فلسطینیوں میں آپس میں لڑائی شروع ہوگئی تھی جس میں تین افراد ہلاک ہوگئے۔ ایک ہنگامی میٹنگ کے بعد حکومت نے کہا ہے کہ عبدالکریم القوقا کی ہلاکت کی تحقیقات کی جائیں گی۔ شدت پسندوں نے فلسطینی سکیورٹی فوج پر الزام لگایا کہ اسرائیلیوں کے ساتھ ساز باز کرکے انہوں نے عبدالکریم القوقا کو ہلاک کیا ہے۔ اسرائیل اس بات انکاری ہے کہ اس کا کوئی ہاتھ تھا۔ غزہ سے بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حماس کی حکومت مختلف فلسطینی سکیورٹی ایجنسیوں کو کس حد تک قابو میں لاسکے گی جو فتح تحریک کی وفادار رہی ہیں۔ نامہ نگار کا کہنا ہے کہ حماس کو بین الاقوامی سطح پر جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان کا ذکر تو بار بار ہوتا رہا ہے لیکن اندرون خانہ وہ فلسطینی شدت پسندی کی لگامیں کیسے کھینچے گی یہ کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔ اور خاص طور سے اس وقت حماس کیا کرے گی جب فلسطینی شدت پسند اسرائیلی حملوں پر جوابی کارروائی کریں گے۔ کیونکہ حماس کا نظریہ بھی یہی ہے کہ اسرائیلی حملے کا جواب دینا ہمارا حق ہے۔ جب دوسری فلسطینی تنظیمیں اس کا بیڑا اٹھائیں گی تو حماس ان کو کس طرح روک سکے گی۔ حماس فی الحال عارضی فائر بندی پر عمل کر رہی ہے۔ لیکن دوسرے گروپ مثلاً اسلامی جہاد اور شہدائے الاقصیٰ بریگیڈ اب بھی اسرائیلیوں پر حملے کر رہے ہیں۔ حماس فائر بندی میں شریک نہ ہونے والوں سے کس طرح نمٹتی ہے اس سے معلوم ہوگا کہ حکومت کے تقاضوں کے پیش نظر اس نے کہاں تک اعتدال کا راستہ پکڑا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد حماس کو بھی اُسی مشکل کا سامنا ہے جس سے محمود عباس گز رچکے ہیں یعنی یہ کہ شدت پسندوں سے کیسے نمٹے۔ ان سے نمٹنے کے معنی ہونگے فلسطینیوں میں آپس میں لڑائی۔ دوسری طرف حماس کے پاس یہ راستہ بھی نہیں ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہے۔ فلسطینی علاقوں میں حماس کی نئی حکومت نے حکم جاری کیا ہے کہ غزہ میں تمام شدت پسند گلیاں اور سڑکیں خالی کردیں۔ text: ضمانت کی تصدیق ہونے کے بعد وکلا ملزم کو اپنے حصار میں نامعلوم مقام پر لے گئے سماعت سے پہلے کمرہ عدالت اور عدالت کے باہر جہاں بھی نظر جاتی وہاں وکیل ہی وکیل نظر آتے۔ اتنے وکیل تو اس وقت نظر نہیں آئے جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی نظربندی کے کیس میں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ طیبہ کیس: والد کی معافی پر ملزمان کی ضمانت منظور * طیبہ تشدد کیس: سیشن جج کو کام سے روک دیا گیا * ’بچوں کی حفاظت کے لیے قانون کا نہ ہونا قابل افسوس ہے‘ اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج راجہ آصف علی جب کمرہ عدالت میں پہنچے تو کمرہ پہلے سے ہی وکلا سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کمرہ عدالت میں صرف دو ہی پولیس اہلکار تھے جن میں سے ایک عدالت کا اہلمد اور دوسرا اس مقدمے کا تفتیشی افسر تھا۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والے دو تین افراد ہی کمرہ عدالت میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور جب وکلا کو ان کے بارے میں معلوم ہوا تو اُنھوں نے عدالتی اہلمد سے کہا کہ اُنھیں فوری طور پر کمرہ عدالت سے نکال دیں تاہم پولیس اہلکار نے ان وکلا کی بات پر کوئی کان نہیں دھرا۔ اس مقدمے کے مدعی اور متاثرہ لڑکی طیبہ کے والد محمد اعظم اور اس مقدمے کے ملزم راجہ خرم علی کو بھی وکلا اپنے حصار میں کمرہ عدالت میں لیکر آئے۔ محمد اعظم کے چہرے سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسا کہ ان پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔ عدالت نے لڑکی کے والد سے پوچھا کہ ہاں بھائی کیا کہنا چاہتے ہو جس پر اُنھوں نے کہا کہ اس مقدمے میں نامزد کیے گئے ملزمان نے ان کی بیٹی پر تشدد نہیں کیا اور اگر ایسا ہوا بھی ہے تو پھر بھی وہ اُنھیں ’اللہ کے واسطے‘معاف کرتا ہے۔ اُنھوں نے اس بارے میں ایک بیان حلفی بھی جمع کروایا جس پر جج کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں تو اُنھوں نے کہا تھا کہ پہلا بیان حلفی اُن سے دباؤ میں لیا گیا تھا جس پر طیبہ کے والد کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں اُن کی طرف سے دیا گیا بیان دباؤ کا نتیجہ تھا۔ تاہم عدالت نے اُنھیں اپنے بیان حلفی کے بارے میں سوچنے کے لیے دو گھنٹے کا وقت بھی دیا۔ لڑکی کے والد نے کہا کہ اس مقدمے میں نامزد کیے گئے ملزمان نے ان کی بیٹی پر تشدد نہیں کیا اور اگر ایسا ہوا بھی ہے تو پھر بھی وہ اُنھیں 'اللہ کے واسطے'معاف کرتا ہے گھریلو ملازمہ کے والد محمد اعظم وکلا کے سکواڈ میں ایک بار پھر جب عدالت میں پیش ہوئے تو اُنھوں نے فاضل جج کی طرف سے پوچھے گئے زیادہ تر سوالات کے جواب صرف سر ہلا کر دیے۔ سابق ایڈیشنل سیشن جج اور اُن کی اہلیہ کو معاف کرنے سے متعلق تین بیان حلفی متعلقہ عدالت میں جمع کروائے گئے جن میں سے ایک طیبہ کے والد کی طرف سے جبکہ دوسرا طیبہ کی دادی اور تیسرا بیان حلفی طیبہ کی پھوپھی کی طرف سے دیا گیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اُنھیں صرف طیبہ کے والد کا ہی بیان حلفی چاہیے لیکن وکلا کا کہنا تھا کہ عدالت تمام بیان حلفی کو ریکارڈ کا حصہ بنائے۔ سماعت کے دوران اس بات کا پتا چلانا بہت مشکل تھا کہ مدعی کے وکیل کون ہیں اور ملزمان کے وکیل کون کیونکہ دونوں ایک دوسرے کو سپورٹ کر رہے تھے۔ مدعی مقدمہ کی وکالت راجہ ظہور نامی وکیل کررہے تھے جن کے بارے میں سپریم کورٹ میں اس واقعہ سے متعلق ازخود نوٹس کے سماعت کے دوران اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل نے کہا تھا کہ راجہ ظہور اس مقدمے کے ملزم راجہ خرم علی کے رشتہ دار ہیں۔ فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل سلمان چوہدری کا کہنا ہے کہ ضمانت کے معاملے پر کسی بھی مقدمے کے مدعی کو بُلانے کی کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ صلح نامے کی وجہ سے اگرچہ اس مقدمے میں سابق ایڈیشنل سیشن جج کی ضمانت منظور ہو گئی ہے لیکن چائلڈ لیبر کے قوانین کے تحت اُنھیں قابل گرفت بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں لیبر قوانین کے تحت 16 سال سے کمسن بچوں سے جبری مشقت قابل گرفت جرم ہے جبکہ طیبہ کی عمر دس سال کے قریب ہے۔ اس مقدمے کی کوریج کے لیے میڈیا کے نمائمدوں کی ایک قابل ذکر تعداد موجود تھی۔ ٹی وی کیمروں کو دیکھ کر وکلا کی ایک بڑی تعداد اُن کی طرف بڑھی اور دھمکی دی کہ آگے اکر معزز جج کی فلم نہیں بنانی۔ کچھ کیمرہ مینوں نے آگے جانے کی کوشش کی تو ملزم کے حمایتی وکلا کا رویہ مزید سخت ہو گیا اور کہا کہ’ہٹ جاو کیونکہ یہ جج کی عزت کا معاملہ ہے۔‘ عدالت کے طرف سے ضمانت کی تصدیق ہونے کے بعد وکلا ملزم کو اپنے حصار میں نامعلوم مقام پر لے گئے۔ دس سالہ کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کے مقدمے میں نامزد ملزمان سابق ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی اور اُن کی اہلیہ ماہین ظفر کی عبوری ضمانت میں توسیع کے معاملے پر جمعے کے روز اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت میں سماعت تھی۔ text: نواز شریف کا خصوصی طیارہ جب جدہ ائر پورٹ پر اترا تو انہیں جدہ میں شریف خاندان کی ذاتی رہائش گاہ ’شریف محل‘ میں منتقل کر دیا گیا۔ نواز شریف کی جلا وطنی پر ملک کی کئی سیاسی جماعتوں نے اظہارِ مذمت کیا ہے اور منگل کو ہڑتال کی کال اور وکلاء کی جانب سے عدالتوں کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سے قبل پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے کہا تھا کہ نواز شریف اپنی مرضی سے واپس سعودی عرب گئے ہیں جبکہ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور اعجازالحق کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا پاسپورٹ اب سعودی حکام کے پاس رہے گا کیونکہ وہ ایک معاہدے کے پابند ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی سربراہ عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ ’یہ سعودی عرب کے ڈکٹیٹر بادشاہ کی دوسرے ملک کے آمر کی مدد ہے۔‘ پیر کی صبح جب نواز شریف کا طیارہ اسلام آباد پہنچا تو سعودی عرب اور پاکستان کے حکام پر مشتمل وفد نے میاں نواز شریف سے ملاقات کی اور ڈیڑھ گھنٹے سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد وہ طیارے سے باہر آئے۔ جہاز میں نواز شریف اور حکام کے درمیان تقریباً نوے منٹ تک مذاکرات ہوئے جہاں سابق وزیرِ اعظم سے ان کا پاسپورٹ بھی طلب کیا گیا لیکن انہوں نے اپنا پاسپورٹ حکام کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ بعد میں انہیں راول لاؤنج میں لایا گیا جہاں نیب کے ایک اہلکار نے کرپشن کے ایک مقدمے میں انہیں گرفتاری کا وارنٹ دکھایا جو نواز شریف نے واپس کر دیا۔ ہمارے نامہ نگاروں کے مطابق ایئرپورٹ کے اطراف میں سکیورٹی انتہائی سخت رہی اور وہاں مسافروں کے علاوہ کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ادھر مسلم لیگ نواز گروپ نے سپریم کورٹ میں آئین کی دفعہ دو سو چار کے تحت حکومت کے خلاف توہینِ عدالت کی پیٹیشن بھی دائر کر دی تھی۔ پٹیشن میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ نواز شریف کی پاکستان آمد میں کوئی رکاوٹیں نہ پیدا کی جائیں لیکن حکومت نے اس حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس سے قبل نواز شریف کی وطن آمد کے کچھ دیر بعد وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس چار پانچ آپشنز موجود ہیں ان میں نظر بندی اور گرفتاری اور ڈی پورٹیشن اہم آپشنز ہیں۔ نواز شریف کی پاکستان آمد سے قبل پولیس نے مسلم لیگ نواز کے ان رہنماؤں کو گرفتار کر لیا جو مختلف ٹولیوں کی صورت میں ائرپورٹ جانا چاہتے تھے۔ پولیس نے راولپنڈی اور اسلام آباد ائرپورٹ کی طرف جانے والے دوسرے راستوں پر بھی مسلم لیگ کے کارکنوں کے خلاف کارروائی کی۔ شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز نے مقامی ٹیلی وژن چینل کو بتایا کہ پارٹی کے کئی اہم رہنما پولیس کی حراست میں ہیں۔ خبررساں ادارے اے پی کے مطابق سفر کے دوران طیارے پر موجود نواز شریف کے حامی ’گو مشرف گو‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ پاکستان کے سکیورٹی حکام نے اتوار سے ہی اسلام آباد ایئرپورٹ کے علاقے کو ممنوعہ قرار دیدیا تھا اور ایئرپورٹ جانے والی تمام سڑکوں پر سکیورٹی سخت کردی گئی تھی۔ صرف ایسے لوگوں کو ان راستوں سے ایئرپورٹ کی جانب دیا گیا جن کے پاس بیرون ملک سفر کے ٹکٹ موجود تھے۔ اسلام آباد ایئرپورٹ کے قریب موجود ہمارے نامہ نگار ذوالفقار علی نے بتایا کہ علاقے میں سکیورٹی اتنی سخت تھی کہ پیر کی صبح سات بجے تک دور دور تک کوئی سیاسی کارکن دکھائی نہیں دیئے۔ اتوار کی شام سابق وزیراعظم نواز شریف لندن کے ہییتھرو ہوائی اڈے سے پی آئی اے کی فلائٹ 786 سے روانہ ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے بھائی شہباز شریف کو بھی پاکستان جانا تھا لیکن آخری وقت میں بتایا گیا کہ وہ پارٹی قیادت کے مشورے پر پاکستان نہیں جارہے ہیں۔ شہباز شریف نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو پاکستان جانے کے لیے بے چین تھے لیکن پارٹی رہنما نے انہیں آخری وقت کہا ہے کہ وہ ابھی نہ جائیں۔ بی بی سی کے نامہ نگاروں کے مطابق اس لیے شہباز شریف اور اسحاق ڈار طیارے میں سوار نہیں ہوئے تھے۔ ان کے ہمراہ جانےوالے صحافیوں نے بتایا کہ جلاوطن وزیراعظم کے لئے پاکستان کے سرکاری طیارے پر ایک عرصے کے بعد سفر کرنا جذباتی موقع تھا۔ نواز شریف دسمبر سنہ دو ہزار میں سعودی حکومت کی مداخلت کے نتیجے میں ایک ’معاہدے‘ کے تحت اپنے تمام خاندان سمیت جدہ چلے گئے تھے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ معاہدے کے تحت نواز شریف دس سال تک پاکستان میں سیاست کر سکتے ہیں نہ واپس آ سکتے ہیں۔ تاہم نواز شریف کا کہنا ہے کہ یہ مدت دس سال کی نہیں بلکہ پانچ برس کی تھی جو پوری ہو چکی ہے۔ ہیتھرو سے روانہ ہونے سے قبل خود سابق وزیرِاعظم نے یہ عندیہ نہیں دیا ہے کہ اگر انہیں وطن واپس جانے دیا جاتا ہے تو انتخابی مہم کے علاوہ ان کی سیاسی حکمتِ عملی کس نوعیت کی ہوگی۔ وزیرِ اطلاعات محمد علی درانی گزشتہ چند دنوں میں یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت اعلانات کی بجائے نواز شریف کے کسی عملی اقدام پر ردِ عمل کا اظہار کرے گی۔ پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف جو سات سال تک جلاوطن رہنے کے بعد پیر کی صبح پی آئی اے کی ایک پرواز کے ذریعے لندن سے اسلام آباد پہنچے تھے، انہیں ایک بار پھر سعودی عرب واپس بھیج دیا گیا۔ text: آسٹریلیا سپورٹس کو مزید منافع بخش بنانے کے لیے اس میں خواتین کی شمولیت میں اضافے کا خواہاں ہے گذشتہ ہفتے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں منعقدہ ایک کانفرنس میں یہ بات سامنے آئی کہ آسٹریلیا میں کھیل کی بقا اور اس کے فروغ اور اسے منافع بخش بنانے کے لیے خواتین کا شامل کیا جانا ضروری ہے، خواہ وہ کھلاڑی کی حیثیت سے ہو، ناظرین کی حیثیت سے یا کلب اور مقابلہ جاتی مقابلوں کے اہلکار کی حیثیت سے۔ کرکٹ کو مثال کے طور پر پیش کیا گیا کہ اگر اسے نئے اور زیادہ ناظرین نہیں ملے تو اس کھیل کے مر جانے کا خطرہ ہے۔ کرکٹ آسٹریلیا کی بگ بیش لیگ (بی بی ایل) کے اینتھنی ایورارڈ نے ایشیا پیسیفک سپورٹس اینڈ ویمن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرکٹ کا مختصر روپ ٹی20 ، جو کہ آسٹریلیا کا پسندیدہ کھیل کہلاتا ہے، بطور خاص خواتین اور بچوں اور مختلف قسم کے نسلی طبقوں کو کرکٹ کی جانب متوجہ کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ اسٹریلیا میں سپورٹس کے شعبے کے سربرہان کا خیال ہے کہ خواتین کی شمولیت سے سپورٹس کے فروغ میں اضافہ ہوگا انھوں نے کہا کہ بی بی ایل کے پس پشت یہ مقصد تھا کہ ایسی خواتین جنھوں نے کبھی کرکٹ میچ نہیں دیکھا ہو ان کی دلچسپی حاصل کرکے ’اسے اہل خانہ کا پسندیدہ کھیل بنا دیا جائے۔‘ آسٹریلوی فٹبال کو بھی خواتین کی ضرورت آن پڑی ہے۔ فٹبال فیڈریشن آسٹریلیا (ایف ایف اے) کے چیف ایگزیکٹو ڈیوڈ گیلپ کا کہنا ہے کہ 35 سال سے زیادہ عمر کی خواتین فٹبالر کی زبردست کمی ہے۔ انھوں نے کہا کہ خواتین فٹبال میں اس لیے دلچسپی لیتی ہیں کہ ’اس میں گیند کو کھیلا جاتا ہے نہ کہ کھلاڑی کو‘ اور اس میں جانے کے لیے جسمانی وضع قطع کو کوئی دخل نہیں۔ بی بی ایل کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ٹی20 کو خواتین اور بچوں کو متوجہ کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا گیلپ نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ خواتین اور لڑکیاں بھی اسی طرح محسوس کریں جیسے مرد محسوس کرتے ہیں۔‘ آسٹریلیا رگبی یونین کے سربراہ بل پلور نے تسلیم کیا کہ کھیل کے میدان میں ہر سطح پر مردوں کا تسلط ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کی رگبی ٹیم سیونز کامیاب ترین ٹیم ہے اور دنیا میں دوسرے نمبر پے لیکن اس کی تشہیر اچھی طرح نہیں کی گئی۔ سڈنی ایف سی میں اے لیگ کلب کے بورڈ میں واحد خاتون اور ریبل کمپنی کی سربراہ ایریکا برچ کا کہنا ہے کہ سپورٹس کی بقا کے لیے خواتین اور ڈالر کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ آسٹریلیا نے دولت مشترکہ کے بورڈ میں سنہ 2015 تک کم از کم 40 فی صد خواتین کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے انھوں نے کہا کہ ’خواتین کو اس میں شامل کیا جانا معقول ہے کیونکہ وہ گھریلو خرچوں اور گھر سے باہر جانے کے بارے میں اہم فیصلے لیتی ہیں۔‘ آسٹریلیا نے دولت مشترکہ کے بورڈ میں سنہ 2015 تک کم از کم 40 فی صد خواتین کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس کی طرز پر آسٹریلوی سپورٹس کمیشن نے اسی مدت میں اپنے یہاں بھی 40 فی صد خواتین کی نمائندگی کا ہدف رکھا ہے۔ آسٹریلیا کے پیشہ ور سپورٹس کو ناظرین کی تعداد اور فنڈنگ میں اضافے کے لیے خواتین کی ضرورت ہے۔ text: علاء عبدالفتاح نے سنہ 2011 میں حسنی مبارک کے خلاف انقلاب میں اہم کردار ادا کیا تھا ان پر غیر قانونی مظاہرے منعقد کرنے اور ایک پولیس افسر پر حملہ کرنے کا الزام ہے۔ علاء عبدالفتاح نے سنہ 2011 میں حسنی مبارک کے خلاف انقلاب میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ سزا ایسے وقت سنائی گئی ہے جب تین روز قبل ہی سابق فوجی سربراہ عبدالفتح السیسی نے بطور صدر عہدہ سنبھالا ہے۔ جولائی 2013 میں سابق صدر مرسی کی فوج کے ہاتھوں معزولی کے بعد حکام نے اسلامی اور سیکیولر کارکنوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن شروع کیا تھا جس کے دوران سینکڑوں کارکن ہلاک ہوئے اور ہزاروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ علاء عبدالفتاح کوگذشتہ برس نومبر میں گرفتار کیا گیا تھا جب وہ بغیر اجازت کیے جانے والے مظاہروں کے خلاف بنائے گئے قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ بدھ کو ان کی والدہ لیلیٰ صوئف نے بی بی سی کو بتایا کہ علاء عبدالفتاح کو عدالت اپنا موقف دینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان کا کہنا تھا ’علاء اور ان کے وکلا عدالت کے باہر تھے، انھیں اندر ہی نہیں جانے دیاگیا۔‘ علاء کی والدہ لیلیٰ صوئف نے بی بی سی کو بتایا کہ عدالت نے علاء عبدالفتاح کو عدالت نے اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت نہیں دی انھوں نے مزید کہا کہ ’جج کے پاس کوئی توجیہہ نہیں ہے کہ وہ ملزم کی غیرموجودگی میں فیصلے سنائے۔ ہم ایک ایسے مقدمے کی توقع کرتے ہیں جس میں استغاثہ اور گواہ دونوں بات کریں۔ ’مجھے لگتا ہے کہ مصر میں عدالتی نظام کا قانون اور انصاف کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ان کا خاندان اس فیصلے کو چیلنج کرے گا۔ قاہرہ میں بی بی کی نامہ نگار اورلا گوئرن کا کہنا ہے کہ اتنی سخت سزا سے مصر میں جمہوریت اور اظہارِ رائے کی آزادی کے بارے میں خدشات جنم لیں گے۔ بی بی سی کی کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں علاء عبدالفتاح نے کہا تھا کہ حکام طویل عرصے سے انھیں جیل بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور حالیہ حکومت مبارک کی حکومت سے بھی بدتر ہے۔ نئے صدر السیسی نے مئی میں ہونے والے انتخابات میں 96 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے، گو کے ٹرن آوٹ 50 فیصد سے بھی کم تھا کیونکہ اخوان المسلمین اور سیکولر جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ مصر کی ایک عدالت نے ملک کے مقبول ترین جمہوریت پسند کارکن علاء عبدالفتاح کو 15 برس قید کی سزا سنائی ہے۔ text: فوجی ذرائع کے مطابق تازہ حملے پیر کی صبح تحصیل خار اور نواگئی کے علاقوں پر کیے گئے ہیں۔ ایک سرکاری اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ صبح کے وقت توپ بردار ہیلی کاپٹروں اور لڑاکا طیاروں نے تحصیل خار اور نواگئی کے علاقوں شوہ، تنگی، چارمنگ، لوئی سم اور زور بندر میں مشتبہ طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس میں سات عسکریت پسند ہلاک ہوگئے۔ تاہم مقامی ذرائع سے ان ہلاکتوں کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ اہلکار کے مطابق تقریباً دو ماہ سے جاری اپریشن میں اب تک تحصیل خار کے تمام علاقوں کو شدت پسندوں سے صاف کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز کا اگلہ ہدف نواگئی تحصیل ہے جہاں مقامی طالبان کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ تازہ حملوں میں شدت پسندوں کے کئی ٹھکانوں کو تباہ کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں طالبان کا موقف معلوم کرنے کےلیے ان کے ترجمان مولوی عمر سے بار بار رابطے کی کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہیں ہوسکی۔ باجوڑ ایجنسی میں سکیورٹی فورسز نے مقامی عسکریت پسندوں کے خلاف اگست میں کارروائیاں شروع کی تھیں۔ حکومت کا دعوی ہے کہ اس آپریشن میں اب تک سینکڑوں جنگجوؤں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔ اس کے علاوہ عام شہری بھی بڑی تعداد میں ہلاک ہوئے جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ آپریشن کی وجہ سے باجوڑ سے لاکھوں لوگوں نے محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کی ہوئی ہے۔ نقل مکانی کرنے والے یہ خاندان بدستور دیر، مردان اور پشاور میں عارضی پناہ گاہوں میں رہائش پزیر ہیں۔ قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں حکام کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر گن شپ ہیلی کاپٹروں اور لڑاکا طیاروں نے تازہ حملے کیے ہیں جس میں کم سے کم سات عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔ text: انہوں نے کہا کہ’ ہمیں دوسری اننگز میں سائمن جونز کی مدد حاصل نہ تھی لیکن جو بولر میدان میں اترے، ان کی کارکردگی شاندار رہی‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ’ بالروں نے جس طرح ایک سیدھی وکٹ پر گیند کی، وہ حیرت انگیز تھا۔ ہم زیادہ بڑا ہدف نہیں چاہتے تھے کیونکہ وکٹ کی حالت خراب ہو رہی تھی اور شین وارن کا جادو چل سکتا تھا‘۔ مائیکل وان نے کہا کہ اب ان کی ٹیم کو یقیناً ایشز سیریز جیتنی چاہیے اور وہ اوول کے آخری ٹیسٹ میں اچھا کھیل پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ برطانوی کپتان کا کہنا تھا کہ’ ہم نے گزشتہ تین میچوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اوول میں بھی ایسا ہی ہو گا‘۔ وان نے اس میچ کو سنسنی خیز بنانے میں آسٹریلیا کی ٹیم کی بھی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ ’ میچ بہت سنسنی خیز تھا اور اس کا کریڈٹ آسٹریلیا کو جاتا ہے۔ لیکن برطانوی ٹیم کو کریڈٹ نہ دینا بھی زیادتی ہوگی۔ ہم گزشتہ ایک برس میں متعدد چیلنجوں کا سامنا کر چکے ہیں اور پچھلے کئی ہفتوں میں بھی ہمیں سخت مقابلے کا سامنا رہا ہے‘۔ برطانوی کپتان مائیکل وان نے ایشز کے چوتھے ٹیسٹ میں فتح کا سہرا انگلینڈ کے بولروں کے سر باندھا ہے۔ text: انٹسیٹیوٹ فارسائنس اینڈ انٹر نیشنل سکیورٹی نامی ادارے کے بقول خوشاب میں واقع اس ریئکٹر میں سالانہ چالیس سے پچاس ہتھیاروں کے لیئے پلوٹونیم پیدا کی جا سکتی ہے۔ ادارے کے مطابق اگر اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار بنانے کی اہلیت میں بہت بڑے پیمانے پر اضافہ ہو جائے گا جس سے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ میں مزید تیزی آ جائے گی۔ واشنگٹن کے تحقیقی ادارے کے ماہرین کے مطابق خوشاب کی جوہری تنصیبات کی سیارے سے لی گئی تصاویر میں جو نامکمل عمارت نظر آتی ہے وہ بھاری پانی کا ایک ریئکٹر ہے جس میں سالانہ چالیس سے پچاس جوہری ہتھیار بنائے جا سکیں گے، یعنی پاکستان کی موجودہ صلاحیت سے بیس گنا زیادہ۔ یہ نامکمل عمارت پاکستان کے واحد پلوٹونیم بنانے والے ریئکٹر سے ملحق ہے۔ معمولی صلاحیت کا حامل پچاس میگا یونٹ کا یہ ریئکٹر سنہ انیس سو اٹھانوے سے کام کر رہا ہے۔تاہم تحقیقی ادارے کے ماہرین کے مطابق نئے ریئکٹر کے حدود اربعہ سے لگتا ہے کہ اس کی پیداواری صلاحیت ایک ہزار میگا واٹ یا اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت پاکستان کے پاس تیس سے پچاس تک یورینیم والے ہتھیار ہیں۔’یورینیم وار ہیڈز‘ زیادہ بھاری ہوتے ہیں جبکہ پلوٹونیٹ والے ہلکے ہوتے ہیں اس لیے ’پلوٹونیم وار ہیڈز‘ کو میزائل پر لگانا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ تاحال پاکستان نے مذکورہ رپورٹ پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے تاہم امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ ایک سینئر پاکستانی افسر نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ پاکستان اپنی جوہری صلاحیت میں اضافہ کر رہا ہے۔ افسر کا کہنا تھا ’پاکستان کا جوہری پروگرام اس سطح پر پہنچ چکا ہے جہاں سے ہم اسے آگے بڑھا کر مستحکم کر رہے ہیں۔‘ مذکورہ رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان گزشتہ دہائی سے جاری جوہری ہتھیاروں کی مسابقت کے بارے میں نئے سوالات جنم لے سکتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق سیارے سے حاصل کی جانے والی تصاویر کی بنیاد پر امریکی تحقیقی ادارے نے جو اندازے لگائے ہیں ان کی تصدیق دو غیر جانبدار جوھری ماہرین نے بھی ہے۔ ان ماہرین نے جو تصاویر دیکھی ہیں وہ ’ڈیجیٹل گلوب‘ نامی ایک پرائیویٹ ادارے سے خریدی جا سکتی ہیں۔ سلسلہ وار تصاویر کے مطالعے کے بعد تحقیقی ادارے کے ماہرین نے تخمینہ لگایا ہے کہ مذکورہ ریئکٹر کی تکمیل ہونے میں ’چند سال‘ لگ سکتے ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عمارت میں موجود سٹیل کے ڈھانچے کی ساخت سے لگتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑا ریئکٹر ہوگا۔ ایک امریکی تحقیقی ادارے نے سیارے سے لی گئی تصاویر شائع کی ہیں جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے یہ پاکستان کا ایک زیر تعمیر جوہری ریئکٹر کی ہیں۔ text: دوسرے ٹیسٹ کے آخری دن جنوبی افریقہ کی ٹیم اپنی دوسری اننگز میں صرف 181 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔ آسٹریلیا نے اسے جیت کے لیے 366 رنز کا ہدف دیا تھا۔ آج کی کامیابی کے ساتھ آسٹریلیا نے اس تین روزہ سیریز میں صفر کے مقابلے ایک سے برتری حاصل کرلی ہے۔ پہلا ٹیسٹ میچ ڈرا ہوگیا تھا۔ جنوبی افریقہ کی دوسری اننگز میں آسٹریلیا کے لیے شین وارن نے سب سے زیادہ چار وکٹ حاصل کیے اور گلین میکگرا کو تین وکٹ ملے۔ آسٹریلیا نے پہلی اننگز میں 355 رنز بنائے تھے جبکہ دوسری اننگز میں اس نے سات وکٹ پر 321 رنز بناکر اپنی اننگز ڈیکلیئر کردی تھی۔ جنوبی افریقہ نے پہلی اننگز میں 311 رنز بنائے تھے۔ دوسری اننگز میں جنوبی افریقہ کے لیے شان پولک نے سب سے زیادہ 67 رنز بنائے اور آؤٹ نہیں ہوئے۔ آسٹریلیا کے لیے پہلی اننگز میں سنچری بنانے والے بیٹسمین مائیک ہوسی مین آف دی میچ قرار پائے۔ دونوں ٹیمیں دو جنوری سے سِڈنی میں آخری ٹیسٹ میچ کھیلیں گیں۔ میلبورن کرکٹ گراؤنڈ پر کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میچ میں کھیل کے آخری دن آسٹریلیا نے جنوبی افریقہ کو 184 رن سے ہرا دیا ہے۔ text: شمالی کوریا کے سرکاری خبر رساں ادارے ’کے سی این اے‘ نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کے ملک کے ساتھ عالمی برادری کا یہ رویہ اس کی خود مختاری پر حملہ ہے۔ ایک اور جوہری تجربے کی تیاریاں؟جنوبی کوریا کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ شمالی کوریا میں پچھلے ہفتے کے جوہری تجربے کے مقام سے ملنے والی اطلاعات کا جائزہ لے رہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شمالی کوریا ایک اور ایٹمی تجربے کی تیاری کر رہا ہے۔ امریکہ میں وائٹ ہاؤس نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شمالی کوریا کے اس علاقے سے ٹرکوں اور بڑی گاڑیوں کے آنے جانے کی اطلاعات ملی ہیں۔ فرانس اور چین نے شمالی کوریا کو خبردار کیا ہے کہ اب وہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے جس سے اس کی جانب سے کیئے جانے والے ایٹمی دھماکے سے پیدا ہونے والی صورتحال مزید بگڑنے کا امکان ہو۔ فرانسیسی اور چینی قیادت کے درمیان اگلے ہفتے بیجنگ میں ملاقات ہونے والی ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے اگر کوئی مزید ’جارحانہ‘ اقدام اٹھایا تو وہ اسے تیل اور غلے کی فراہمی بند کر دے گا۔ جبکہ فرانس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا کی طرف سے دوسرے ایٹمی دھماکے کا مطلب انتہائی غیر ذمہ داری ہوگا، جس کے نتیجے میں اس پر مزید پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔ ادھر جنوبی کوریا کے ایک اہلکار کے مطابق ایک اور ایٹمی تجربے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ یہ جلد ہوگا یا نہیں۔ سیول میں بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق یہاں یہ رائے عام ہے کہ شمالی کوریا نے ماضی میں اپنے جوہری مقامات پر سرگرمی میں اضافہ ہمیشہ اس وقت کیا ہے جب وہ سفارتی سطح پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی کوریا کا پچھلے ہفتے کے دھماکے کی شدت پیونگ یینگ کے توقعات سے کم ہوا ہو ارو اب وہ مزید تجربات کرنا چاہے۔ امریکہ کی انتباہامریکہ کی وزیر خارجہ نے شمالی کوریا کو دوسرا جوہری تجربہ کرنے سے خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسے تجربہ کو ایک اشتعال انگیز حرکت تصور کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے کرنے سے شمالی کوریا عالمی برادری سے مزید کٹ جائے گا۔ یہ بات امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس منگل کو جاپان، جنوبی کوریا، چین اور روس کے دورے پر روانہ ہونے سے پہلے کہی۔ وزیر خارجہ منگل کے روز اس دورہ پر روانہ ہو رہی ہیں۔ شمالی کوریا کے ذرائع ابلاغ کے مطابق اقوام متحدہ کی طرف سے عائد پابندیاں ’جنگ کا اعلان ہیں۔‘ text: عامر خان خان کے اس نیکر کی بیلٹ 24 قیراط سونے کے تاروں سے بنا ہے عامر خان خان کے اس نیکر کی بیلٹ 24 قیراط سونے کے تاروں سے بنا ہے۔ عامر حان نے یہ نیکر ڈیون الیگزینڈر کے خلاف میچ میں پہنا تھا جس میں وہ فاتح رہے تھے۔ 28 سالہ عامر خان کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت افسوس ناک ہے کہ معصوم بچوں کو مارا گیا۔‘ ’میں پشاور کے لیے یہ نیکر عطیہ کرنا چاہتا ہوں تاکہ سکول کی تعمیرِنو اور اس کے اردگرد کے علاقے کی سکیورٹی کے کاموں میں مدد مل سکے۔‘ عامر خان خود مئی میں باپ بنے ہیں اور بی بی سی ریڈیو 5 لائیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم برطانیہ میں بہت خوش قسمت ہیں یہاں بہت اچھی سکیورٹی ہے۔ یہاں میں اپنی بیٹی کو اس اطمینان سے سکول بھیج سکتا ہوں کہ وہ وہاں محفوظ ہے۔ لیکن پاکستان میں آپ ایسا نہیں کر سکتے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ’یہ جان کر بہت افسوس ہوا کہ پاکستان میں والدین بچوں کو سکول بھیجتے تو ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ یہ واپس بھی آئیں گے یا نہیں۔‘ عامر حان نے یہ نیکر ڈیون الیگزینڈر کے خلاف میچ میں پہنا تھا جس میں وہ فاتح رہے تھے پاکستانی نژاد برطانوی باکسر عامر خان نے اپنی 30 ہزار پاؤنڈ مالیت کی نیکر پشاور سکول کی تعمیرِنو کے لیے عطیہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ text: سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں دونوں ملک اپنے سفارتی اور سٹریٹیجک تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی سمت کام کر رہے تھے۔ پاکستان اور چین کے متعلق تنازعے میں انڈیا کو مسلسل امریکہ کا ساتھ حاصل رہا۔ ان معاملات پر انڈیا کو امریکہ کی حمایت کی امید ہے لیکن وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں انڈیا میں مذہبی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کے معاملے پر امریکہ کا مختلف رخ ہو سکتا ہے۔ تجارتی امور پر بھی دونوں ملکوں کے مابین اختلافات کا امکان ہے۔ مودی حکومت پر دباؤ عام طور پر امریکہ ایک مضبوط انڈیا کو چین کے خلاف ’توازن‘ کے طور پر دیکھتا ہے۔ بائیڈن کے دور حکومت میں بھی اس میں تبدیلی مشکل نظر آتی ہے کیونکہ چین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات مزید تلخ ہو گئے ہیں لیکن اس کے باوجود بائیڈن شائد ٹرمپ سے زیادہ انڈیا پر جمہوریت کا پابند ہونے کے لیے اصرار کریں گے۔ یہ بھی پڑھیے بائیڈن کی جیت کا دنیا کے باقی ممالک پر کیا اثر پڑے گا؟ خفیہ امریکی رپورٹ میں انڈیا کو چین کے مقابل کھڑا کرنے کی بات پر چین کا سخت ردعمل کیا کملا ہیرس کے نائب صدر بننے سے انڈین شہری مزید بااختیار ہو جائيں گے؟ بائیڈن کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم مقصد جمہوریت کو فروغ دینا ہے اور دنیا بھر میں سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ وہ اپنے دور حکومت کے پہلے سال میں ہی ایک عالمی سربراہی اجلاس کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جو ’لبرل دنیا کے جذبے کو فروغ دینے‘ کے مقصد سے منعقد کیا جائے گا۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے ناطے انڈیا فطری طور پر اس تقریب کا ایک حصہ ہو گا لیکن مبینہ طور پر کچھ ناقدین ہندو اکثریت پسندی کے حکومتی ایجنڈے کو ملکی جمہوری روایات میں بگاڑ کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس کے بارے میں فکر مند ہیں۔ انگریزی اخبار دی ٹیلی گراف کے ایک سیاسی تجزیہ کار عاصم علی کا کہنا ہے کہ ’کوئی بھی جمہوریت اتنی تیزی سے تنزلی کی طرف نہیں جا رہی جس تیزی سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت جا رہی ہے۔‘ وہ لکھتے ہیں ’بائیڈن انتظامیہ کے پاس بہت سارے آپشن موجود ہیں جو انڈیا کو بغیر کسی سفارتی جھگڑے کے جمہوریت کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔‘ مودی کے کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ ان کی حکومت ملک کی جمہوری اور سیکولر بنیادوں کو مسلسل تباہ کر رہی ہے۔ وہ میڈیا اور عدالتی نظام میں موجود اپنے حامیوں کی وجہ سے ایسا کر پا رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار پرتاپ بھانو مہتا نے اسے ’عدالتی بربریت میں اترنے‘ سے تعبیر کیا ہے۔ حکومت اور اس کے ناقدین کے مابین تکرار کا سب سے حالیہ معاملہ تین زرعی قوانین کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ حکمران بی جے پی کے حامی کچھ لیڈرز ان قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کو ’غدار‘ اور ’دہشت گرد‘ کہہ کر برانڈ کر رہے ہیں۔ حکمراں جماعت اپنی تنقید کو روکنے کے لیے اکثر ایسے طریقوں کا استعمال کرتی ہے۔ انڈیا میں امریکی سفارتخانے نے چار فروری کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہمیں یقین ہے کہ پرامن مظاہرے کسی بھی جمہوریت کی پہچان ہیں۔۔۔ ہم مختلف جماعتوں کے مابین کسی بھی طرح کے اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کیے جانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔‘ مسئلہ کشمیر پر انڈین رویے پر نظر اگست 2019 میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خود مختاری کے خاتمے کے بعد انڈین حکومت نے سکیورٹی سے متعلق سخت اقدامات کیے۔ حکومت نے ٹیلی مواصلات کے تمام ذرائع کو بند کردیا تھا اور پچھلے سال ہی انٹرنیٹ کو یہاں دوبارہ بحال کیا گیا ہے۔ انڈین حکومت کے اس طرز عمل پر بائیڈن سمیت ڈیموکریٹک پارٹی کے متعدد رہنماؤں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن انڈیا نے اسے مثبت انداز میں نہیں لیا۔ کشمیر کے بارے میں امریکی رکن پارلیمنٹ پرمیلا جیپال کے اعتراضات کے بعد وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے دسمبر سنہ 2019 میں امریکی اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ ہونے والی ملاقات کو منسوخ کر دیا تھا۔ پرمیلا جیپال اب بائیڈن انتظامیہ کی ایک اہم رکن ہیں۔ وہ کانگریس کے ترقی پسند گروپ(کاکس) کی صدر بھی ہیں۔ یہاں بہت بڑی تعداد میں ایسے ڈیموکریٹس ہیں جنھوں نے انسانی حقوق کی پامالیوں کے معاملے پر کھلے طور پر تنقید کی ہے۔ عاصم علی لکھتے ہیں: ’کسی کو بڑے پیمانے پر تنقید کی توقع نہیں۔ بائیڈن کو بہت لطیف انداز میں یا پھر سخت طریقے سے مودی کو اپنے زیر اثر لانا ہے تاکہ مودی رضاکارانہ طور پر اس کا نوٹس لیں۔‘ یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ آگے کیا ہو گا، کیوںکہ امریکہ اکثر جمہوری اقدار کی نافرمانی پر چین اور روس کی مذمت کرتا ہے، تو کیا وہ انڈیا کے ساتھ بھی یہی طرز عمل اختیار کرے گا۔ کاروباری اختلافات تجارت کے میدان میں بھی انڈیا اور امریکہ کے مابین اختلافات سامنے آ سکتے ہیں۔ گذشتہ چند دہائیوں سے ان دونوں ممالک کے مابین تجارت میں مستقل اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود دانشورانہ املاک کے حقوق اور ورک ویزا وغیرہ جیسے کچھ حل طلب مسائل ابھی بھی موجود ہیں۔ معیشت کے معاملے میں مودی کے خود کفیل ہونے کا اعلان اس فہرست میں ایک اضافہ ہو گا۔ بہت سے لوگ مودی حکومت کی تحفظ پسندانہ پالیسی سے خوفزدہ ہیں۔ اس کے تحت حکومت کا زور مقامی طور پر پیدا کرنے اور اسے گھریلو سطح پر ہی استعمال کرنے پر ہے۔ اس سے غیر ملکی کمپنیوں کا انڈیا میں کاروبار کرنا مشکل ہو جائے گا اور بیرونی ممالک تک انڈین کاروبار کی رسائی پر دباؤ ہو گا۔ جنوری میں ڈیلی منٹ نے انڈیا میں سابق امریکی سفیر کینتھ جسٹر کے حوالے سے لکھا کہ ’اس سے عالمی سطح پر انڈیا کی صلاحیت کو ایک زنجیر سے جوڑنے کا عمل متاثر ہو گا، اس کی وجہ انڈین صارفین کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘ دونوں ممالک کے مابین تجارتی معاہدہ اسی وجہ سے رکا ہوا ہے کہ انڈیا امریکی کمپنیوں کے لیے بڑے پیمانے پر اپنا بازار کھولنے کے لئے تیار نہیں۔ دوسری طرف بائیڈن نے کہا ہے کہ جب تک وہ اپنے ملک میں معاملات درست نہیں کر لیتے اس وقت تک وہ کوئی بین الاقوامی معاہدہ نہیں کریں گے۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ کوئی معاہدہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔ خارجہ امور کی ماہر اپرنا پانڈے کا کہنا ہے کہ ’کاروباری معاہدوں سے سفارتی تعلقات متاثر ہوں گے۔‘ اپرنا پانڈے نیوز ویب سائٹ دی پرنٹ میں لکھتی ہیں: ’سرمایہ کاری کے معاملے میں امریکی کمپنیوں کو ترجیح دینے کی انڈین خواہش اور امریکہ کی جانب سے انڈیا میں سرمایہ کاری کے عزم کی حوصلہ افزائی سے چین کے چیلنجز سے نمٹنے میں اںڈیا کی صلاحیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘ چین کے ساتھ مقابلہ دونوں ممالک کے مابین مشترکہ عنصر انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے معاملے پر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے گذشتہ ہفتے چینی وزیر خارجہ یانگ جی چی کو ایک سفارتی بیان دیا تھا اور اس کے ساتھ ہی انڈیا کی حمایت بھی کی تھی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نئی امریکی حکومت چین کے حوالے سے ٹرمپ کی سخت پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے جا رہی ہے اور اس میں کوئی فرق آنے والا نہیں۔ انگریزی اخبار دکن ہیرالڈ میں ایس رگوتھم لکھتے ہیں کہ اگر مودی انڈیا کی جمہوریت میں ہونے والے زوال کو روک سکتے ہیں تو ان کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہو سکتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے ابتدائی پیغامات سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ انڈیا اور امریکہ کے تعلقات شاید مزید مضبوط ہوں گے لیکن کچھ ایسے حقائق بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو ایک امتحان سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔ text: اس کارروائی میں افغان نیشنل آرمی کے ساتھ ساتھ دوہزار سے زائد امریکی فوجی بھی حصہ لے رہے ہیں۔ امریکی فوج کے ترجمان کے مطابق یہ کارروائی مشرقی اور جنوبی افغانستان میں کی جا رہی ہے اور اس کا بنیادی مقصد ان علاقوں میں چھپے ہوئے طالبان اور القاعدہ جنگجوؤں کو نکال باہر کرنا اور ان کی مسلح کارروائیوں کو روکنا ہے۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ طالبان ملک کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں دوبارہ قوت پکڑ رہے ہیں۔ ان علاقوں میں امریکی اور افغان فوجیوں، سرکاری اہلکاروں اور امدادی کارکنوں پر حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ درایں اثناء امریکی فوج ابھی تک اس بات کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ عزنی میں ان کی بمباری کا نشانہ بننے والے طالبان رہنماء ملا وزیر ہی تھے۔ اس حملے میں نو بچے بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ ابتدائی طور پر امریکی فوج نے کہا تھا کہ بمباری سے ہلاک ہونے والے ملا وزیر ہی تھے لیکن اب امریکی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ اس بات کی تصدیق کرنے کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کئے جا رہے ہیں۔ ہفتے کے روز قندھار میں ہونے والے بم دھماکے کے سلسلے میں آٹھ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بی بی سی کے ایک انٹرویو میں قندھار کے سیکیورٹی کے اعلیٰ اہلکار سلیم خان نے ان گرفتاریوں کی تصدیق کی ہے۔ اس بم دھماکے میں بیس افراد زخمی ہوئے تھے۔ امریکی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ان کی فوجوں نے افغانستان میں سب سے بڑی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ text: دو لڑکیاں اور ایک لڑکا جن کے نام وینا چودھری ، یوگیتا گڈوانی اورعمران بتائے گئے ہیں ایک کار مین سوار وزیراعظم کی رہائش گاہ کے احاطے میں داخل ہو گئے اور سخت سکیورٹی کے حلقے کو پار کرتے ہوئے آخری بیرئیرتک پہنچ گئے۔ وینا اور یوگیتا ایک ائر لائنزکی ائر ہوسٹس بتا‎ئی جاتی ہیں اور ان کا تعلق جے پور سے ہے ۔ ان کے ساتھ عمران نام کا ایک نوجوان بھی تھا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق تینوں نشے کی حالت میں تھے۔ وہاں موجود خصوصی فورس کے کمانڈوز نے جب ان سے وہاں آنے کا سبب پوچھا تو بظاہر لڑکیوں نے بتابا کہ وہ وزیراعظم سے ملنا جاہتی ہیں۔ بعد میں حفاظتی عملے نے انہیں وہاں سے جانے کی اجازت دے دی لیکن تقریباً دس منٹ بعد انہیں وزیر اعظم کی رہائش گاہ سے تقریبً چھ کلومیٹرکی دوری پر سروجنی نگر کے نزدیک حراست میں لے لیا گیا۔ نصف رات گئے تینوں سے پوچھ گچھ کے بعد میڈیکل جانچ کے لیے اسپتال لے جایا گیا۔ وزیر اعظم کے حفاظتی انتظامات میں یہ در اندازی اس وقت ہوئی جب وہاں سلامتی سے متعلق کابینہ کی کمیٹی کا اجالاس ہو رہا تھا۔ جس کی صدارت خود وزیر عظم کر رہے تھے۔ حزب اختلاف کی جماعت بی جے پی نے اس واقعے پر سخت تشویش ظاہر کی ہے ۔ پارٹی کے رہنما روی شنکر پرساد نے کہا کہ ’انہیں وزیر اعظم کے حفاظتی انتظامات کے بارے میں اب شبہ ہے۔ تین غیر متعلقہ لوگ بغیر روک ٹوک وزیراعظم کے گھر کے دروازے تک پہنچ جائیں، یہ فکر کی بات ہے‘۔ ادھر پولیس نے متعلقہ کار کی تلاشی لی ہے لیکن کوئی قابل اعتراض چیز نہین ملی ہے۔ جس وقت سکیورٹی کی خلاف ورزی ہوئی اس وقت یہ کار یوگیتا گڈوانی چلا رہی تھیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ کار دلی کے کسی زاہد نامی شخص کے نام رجسٹرڈ ہے۔ بظاہر یہ لوگ موج مستی کے عالم میں وزیراعظم کی رہائش گاہ تک یہ اندازہ لگانے کے لیے پہنچ گئے کہ وہ کہاں تک جا سکتے ہیں۔ اطلا عات ہیں کہ دونوں لڑکیوں کو ان کی ائر لا ئنز نے ملازمت سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کار میں سوار تیسرا شخص عمران ائر کنڈیشنرز کا بزنس کرتا ہے وزیر اعظم منمہوہن کی رہائش گاہ پر جمعرات کی رات تین نوجوان بلا اجازت داخل ہوگئے ۔انہیں پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔ text: ایمنسٹی انرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں پاکستان میں انسانی حقوق سے تحفظات کا اظہار کیا ہے انسانی حقوق کے امور کے بارے میں وفاقی وزیر زاہد حامد نے جمعرات کو میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کمیٹی کے ارکان نہ صرف انسانی حقوق کے بارے میں رائج قوانین کا جائزہ لے سکیں گے بلکہ ان قوانین میں بہتری لانے کے لیے قانون سازی کے لیے تجاویز بھی دے سکیں گے۔ واضح رہے کہ انسانی حقوق سے متعلق عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں پاکستان میں انسانی حقوق سے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے قومی سطح پر کمیشن تو تشکیل دیا ہے مگر اسے خفیہ اداروں پر لگنے والے انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات کی تحقیقات نہیں کرنے دی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق حکومتی اعداد و شمار کے مطابق قومی ایکشن پلان کے تحت نفرت پھیلانے کے الزام میں نو ہزار سے زیادہ افراد کوگرفتار کیا گیا ہے تاہم بعض پبلشرز اور دکانداروں کا دعویٰ ہے کہ پولیس انھیں ناجائز تنگ کر رہی ہے اور انھیں دباؤ میں آ کر پکڑا گیا ہے۔ زاہد حامد کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی جائے گی رپورٹ میں انسانی حقوق کے کارکنان سے متعلق بھی بات کی گئی ہے اور ایمنسٹی نے کہا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنان کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ زاہد حامد کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی جائے گی ۔ اُنھوں نے کہا کہ فوری اور سستے انصاف کے لیے متاثرہ اشخاص کو لیگل ایڈ فراہم کرنے کے لیے محتلف شہروں میں سینٹرز بنائے جا رہے ہیں اور اس بارے میں دس کروڑ روپے کی رقم بھی جاری کردی گئی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ خواتین ، بچوں، پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں اور خصوصی افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جا رہی ہے۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ جیلوں میں اصلاحات لانے کے لیے بھی تجاویز طلب کی گئی ہیں جن کو جلد ہی حتمی شکل دی جائے گی۔ اُنھوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے بارے میں آگہی کے مضامین کو بھی تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے گا۔ پاکستان کی وفاقی حکومت نے ملک میں انسانی حقوق کے قوانین کا ازسرنو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس بارے میں ایک مشترکہ کمیٹی بنائی جائے گی جس میں وفاقی حکومت کے علاوہ چاروں صوبائی حکومتوں کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ text: اس حادثے میں اب تک سات افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ آندھرا پردیش کی وزیر داخلہ میکاتھوٹی سوچریتا نے بتایا کہ بظاہر آگ لگنے کا سبب شارٹ سرکٹ ہو سکتا ہے۔ صبح پانچ بجر کر نو منٹ پر پولیس کو آگ لگنے کی خبر دی گئی تھی۔ یہ بھی پڑھیے پاکستان، انڈیا میں کورونا کی صورتحال اتنی مختلف کیوں احمد آباد کے ہسپتال میں آتشزدگی، یورپ میں وبا کی نئی لہر کے خدشات پولیس کے مطابق تقریبا نصف گھنٹے میں آگ پر قابو پا لیا گیا تھا۔ آندھرا پردیش حکومت کے مشیر نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ وزیر اعلی نے متاثرین کے علاج اور ان کی امداد کا وعدہ کیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنے اپنے ٹویٹ کے ذریعے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ بتایا جا تا ہے کہ آتشزدگی کے وقت وہاں تقریبا 30 افراد موجود تھے۔ وجئے واڑہ پولیس کمشنر نے کہا ہے کہ محکمہ فائر بریگیڈ کے مطابق حادثے میں اب تک سات افراد کی موت ہوچکی ہے۔ خیال رہے کہ تین دن قبل گجرات کے شہر احمد آباد میں بھی ایک ہسپتال میں آگ لگنے سے آٹھ افراد کی موت ہو گئی تھی۔ دریں اثنا انڈیا کی وزرات صحت نے کہا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں اب تک کے سب سے زیادہ نئے کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ سنیچر کو اگر کورنا کے پازیٹو نتائج 62 ہزار سے زیادہ آئے تھے تو اتوار کو مثبت کیسز 64 ہزار 399 ہیں۔ اس طرح انڈیا میں کورونا کے مجموعی کیسز کی تعداد ساڑھے 21 لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ وزارت داخلہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 861 افراد اس وبائی بیماری سے ہلاک ہو گئے ہیں اور اس کے بعد مرنے والوں کی مجموعی تعداد 43 ہزار 379 ہو گئی ہے۔ اس سے قبل وزارت صحت نے کہا تھا کہ انڈیا میں ایک دن میں تقریبا 50 ہزار افراد ٹھیک ہو گئے تھے۔ وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں زیر علاج مریضوں کی تعداد چھ لاکھ 28 ہزار سے زیادہ ہے جبکہ 14 لاکھ 80 ہزار سے زیادہ افراد مکمل طور پر یا جزوی طور پر صحتیاب ہو چکے ہیں۔ دریں اثنا انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ نے بتایا ہے کہ آٹھ اگست کو کل سات لاکھ 19 ہزار 364 ٹیسٹ کیے گئے اور اب تک مجموعی طور پر دو کروڑ 41 لاکھ ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں۔ ادھر عالمی اعداد و شمار دیکھیں تو جان ہاپکنس یونیورسٹی کے مطابق امریکہ میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 50 لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے جبکہ دنیا بھر میں کورونا سے متاثرین کی تعداد تقریبا دو کروڑ ہو چکی ہے اور سات لاکھ 29 ہزار سے زیادہ افراد اس کی زد میں آ کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ انڈیا کے مؤقر اخبار دی ٹائمز آف انڈیا کی گذشتہ روز کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف اگست میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ کیسز انڈیا میں ہوئے ہیں۔ اس سے کہا ہے کہ اگست میں پہلے چھ دنوں کے اندر انڈیا میں تین لاکھ 28 ہزرا 903 کیسز رپورٹ کیے گئے جبکہ اس دورانیہ میں امریکہ میں تین لاکھ 26 ہزار 111 کیسز رپورٹ کیے گئے جبکہ برازیل میں دو لاکھ 51 ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ کیے گئے۔ خیا رہے کہ سب سے زیادہ کورونا متاثرین کے معاملے میں امریکہ اور برازیل کے بعد انڈیا تیسرے نمبر پر ہے جبکہ اموات کے معاملے میں یہ امریکہ، برازیل، میکسیکو اور برطانیہ کے بعد پانچویں نمبر پر ہے۔ انڈیا میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد میں روزانہ ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے جبکہ اتوار کی صبح جنوبی ریاست آندھراپردیش کے وجئے واڑہ میں سوورن پیلس نامی ایک ہوٹل میں آگ لگ گئی ہے جسے کووڈ 19 سے متاثرہ افراد کے علاج کی غرض سے ایک پرائیوٹ ہسپتال کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ text: محمد شہاب الدین ہی کو لے لیں جو کانگریس پارٹی کی اتحادی اور برسرِ اقتدار راشٹریہ جنتا دل کے رکن اسمبلی ہیں اور جیل قرار دیے گئے ہسپتال سے گردآلود شہر سیوان سے اپنی نششت کا دفاع کر رہے ہیں۔ شہاب الدین گزشتہ آٹھ ماہ سے جیل میں ہیں اور اپنے خلاف مقدمہ شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ مقامی پولیس نے انہیں ایک مقامی حریف جماعت کے ایک کارکن کو اغواء کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کارکن ہلاک ہو چکا ہے۔ شہاب الدین پر اس کے علاوہ قتل، بنک ڈکیتی اور اغواء کے تیس واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ بھارتی قانون کے ایک ایسے ووٹر کو تو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں دیتا جس کے خلاف کوئی مقدمہ زیرِ سماعت ہو تاہم سیاستدانوں کں یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ ایک نہیں متعدد مقدمات ہونے کے باوجود انتخاب لڑ سکتے ہیں اور منتخب ہو سکتے ہیں اور جس تک انہیں عدالت سے سزا نہ ہو جائے رکن اسمبلی ہونے کے تمام فوائد اٹھا سکتے ہیں۔ ایکشن کمیشن نے تمام امیدواروں کو ہدایت کی تھی کہ اگر ان کے خلاف کوئی مقدمہ یا مقدمات ہوں تو وہ اس کی تمام تفصیل فراہم کریں۔ اپنے حلقے میں لوگ شہاب الدین سے ڈرتے بھی ہیں اور ان کا احترام بھی کرتے ہیں۔ ان کے حریف ان پر ریاستی انتظامیہ کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ ہسپتال جیل میں روزانہ سیکنڑوں لوگ شہاب الدین سے ملنے اور اپنے مسائل پر ان کا مشثورہ لینے کے لیے آتے ہیں۔ اور ان میں ایسے طالبِ علم بھی ہوتے ہیں جو میلوں سفر کر کے صرف یہ پوچھنے آتے ہیں کہ ان کے ہیڈ ماسٹر نے انہیں سالانہ امتحان میں بیٹھنے سے روک دیا ہے تو اب انہیں کیا کرنا چاہیے۔ جرائم اور لاقانونیت کے لیے بھی بدنام بھارت کی ریاست بہار میں الیکشن لڑنا اور پولیس کے ہتھے نہ چڑھنا ایک ہنر تصور کیا جاتا ہے لیکن بہار کی پولیس بھی سیاستدانوں سے نمٹنے کے ہنر میں یکتا ہے۔ text: اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے تیار کی جانے والی سمری حتمی منظوری کے لیے وزرات پارلیمانی امور کو بھجوا دی گئی ہے جس میں الیکشن کمیشن نے حکومت کو تجویز کیا ہے کہ وہ اُس قانون میں ترمیم کرے جس کے تحت ووٹر لسٹوں میں انداج کے لیے نادرا سے جاری ہونے والے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کا ہونا ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ قاضی محمد فاروق کے زیرصدارت ہونے والے ایک اجلاس میں، سپریم کورٹ کی جانب سے حق رائے دہی سے محروم تین کروڑ سے زائد ووٹروں کے بارے میں الیکشن کمیشن کو دی جانے والی ہدایات کا جائزہ لیا گیا اور سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں یہ سمری تیار کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ تین کروڑ ووٹروں کو حق رائے دہی سے محروم نہیں ہونے دیا جائے گا اور الیکشن کمیشن صدر پاکستان کو بتائے کہ شہریوں کو ان کے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ الیکشن کمشن کی جانب سے تیار کی جانے والی اس سمری کی منظوری کی بعد اٹھارہ سال سے زائد عمر کے کسی بھی پاکستانی کو کوئی بھی شناختی دستاویز دکھانے پر ووٹ ڈالنے کا حق دے دیا جائےگا۔ ووٹر لسٹوں کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بینظیر بھٹو کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی ایک آئینی درخواست میں الزام لگایا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری ہونے والی کمپیوٹرائزڈ ووٹر لسٹ میں سے تین کروڑ اہل ووٹر غائب ہیں اور الیکشن کمیشن ووٹر لسٹوں میں ایسے شہریوں کا اندراج کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جن کے پاس نادرا کا شناختی کارڈ نہیں ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری، جسٹس رانا بھگوان داس اور جسٹس غلام ربانی پر مشتمل سپریم کورٹ کا تین رکنی پنچ اس کیس کی سماعت کر رہا تھا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ حکومت اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے ان لوگوں کے حق رائے دہی کا انتظام کرے جن کے پاس نادرا کا شناختی نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے حکومت کے وکیل کی درخواست پر اس مقدمے کی سماعت دس اگست تک ملتوی کر دی تھی لیکن یہ بھی واضح کیا تھا کہ یہ وقت الیکشن کمشن کو ایسے انتظامات کرنے کے لیے دیا جا رہا ہے کہ وہ لوگوں کے آئینی حق دینے کا انتظام کرے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ووٹر لسٹوں میں اندارج کے لیے نادرا کی جانب سے جاری کیے جانے والے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کی شرط کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ text: جمعرات کو دیے جانے والی ایک فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ بینکوں کا ٹیکس جمع کرنے والے اداروں کو اپنے کھاتے داروں کے بارے میں اطلاعات دینا غیر قانونی ہے۔ ہائی کورٹ کے جج محمد غنی نے سٹیٹ بینک کے اس سرکلر کو بھی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے منسوخ کردیا جس میں بینکوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنے ایسے کھاتے داروں کے کھاتوں کے بارے میں معلومات سینٹرل بورڈ آف ریوینیو (سی بی آر) کو دیں جن کو یہ بینک دس ہزار روپے سے زیادہ سالانہ منافع دیتے ہیں۔ جج نے اس سرکلر کے خلاف وکیل ایم ڈی طاہر کی ایک رٹ درخواست کو منظور کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا۔ جج نے کہا کہ پاکستان کے لوگوں کا حق ہے کہ انھوں نے بینکوں کو اپنے مادی معلومات کے متعلق جو معلومات اچھی نیت سے دی ہیں انھیں ٹیکس اکٹھا کرنے والی ایجنسیوں کی شکاری نگاہوں کے سامنے نہ لایا جائے خاص طور پر اجس صورت میں جب کہ بینکوں کے پاس اس کھاتے دار کی طرف سے کسی غلط کام کرنے کا کوئی الزام بھی نہ ہو۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایسا کرنے کے بارے میں سٹیٹ بینک کا جاری کیا ہوا سرکلر بینک کے خود اپنے قانون مجریہ انیس سو چھپن کے بھی خلاف ہے، کیونکہ یہ اسٹیٹ بینک کو ایسی ہدایات جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیتا۔ جج نے یہ بھی کہا کہ یہ سرکلر بینکنگ کمپنیز آرڈیننس انیس سو باسٹھ کے بھی خلاف ہے۔ جج نے کہا کہ یہ سرکلر آئین کے آرٹیکل چار، نو، چودہ اور پچیس کے بھی خلاف ہے۔ عدالت عالیہ نے اسٹیٹ بینک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اس سرکلر کے ذریعے لاکھوں لوگوں خاص طور پر بوڑھے لوگوں اور بیواؤں کی قسمت سی بی آر کے ہاتھ میں دے دی تھی جو ایک کوڑے مارنے والے شخص کی طرح ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے کھاتے داروں کے بارے میں معلومات بینکوں سے مرکزی ریوینیو بورڈ کو فراہم کیے جانے کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ text: اسرائیل نے فلسطین کو رقوم کی منتقلی دو ہفتے قبل شروع کی تھی صدر محمود عباس نے ٹیکسوں آمدن میں کٹوتی کی وجہ سے ٹیکس سے حاصل آمدن وصول کرنے سے انکار کیا ہے۔ فلسطینی بین الاقوامی عدالت کے باقاعدہ رکن بن گئے انھوں نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے مکمل رقم فراہم نہ کرنے پر وہ جرائم کی عالمی عدالت سے رجوع کریں گے۔ فلسطینی اتھارٹی کا ٹیکس اسرائیل وصول کرتا ہے لیکن رواں سال جنوری سے اسرئیل نے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدن کی منتقلی روک دی تھی۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ جرائم کی عالمی عدالت میں فلسطین کی رکنیت کے بعد احتجاجاً رقم منجمد کی گئی۔ جرائم کی عالمی عدالت کا رکن بننے کے بعد فلسطین اسرائیل کے خلاف مبینہ جنگی جرائم کے تحت قانونی چارہ جوئی کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اُس نے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدن میں سے پانی، بجلی سمیت دیگر فراہم کی گئی خدمات کی کٹوتیاں کی ہیں۔ اسرائیل نے فلسطین کو رقوم کی منتقلی دو ہفتے قبل شروع کی تھی۔ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ’مشرق وسطیٰ میں خراب ہوتی صورتحال‘ اور انتہا پسندی بڑھنے پر ’ذمہ درانہ اقدامات‘ کرنے کی ضرورت ہے۔ ادھر راملہ میں ایک ریلی سے خطاب میں صدر محمود عباس نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ بغیر کٹوتی کے ٹیکس آمدن دے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم رقم واپس کر رہے ہیں یا تو وہ ہمیں تمام رقم دیں، نہیں تو ہم ثالثی کے لیے جرائم کی عالمی عدالت کا رخ کریں گے، ہم کسی اور چیز پر متفق نہیں ہوں گے۔‘ اسرائیل کے وزیراعظم ہاوس کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے رایئٹرز کو بتایا کہ ’اگر فلسطینی اتھارٹی کہے گی، تو وہ واپس کی گئی رقم کسی بھی وقت دوبارہ منتقل کرنے کو تیار ہیں۔‘ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی اتھارتی کے ٹیکسوں سے حاصل رقوم کو منجمد کرنے کے فیصلے سے فلسطین کی دو تہائی آمدن ختم ہو گئی تھی اور حکومت کو ہزاروں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 40 فیصد تک کٹوتی کرنا پڑی تھی۔ اسرائیل نے گزشتہ دہائی میں تین مرتبہ ٹیکس آمدن کی منتقلی روکی ہے۔ لیکن رواں سال جنوری میں ٹیکس آمدن مجنمد کرنے سے فلسطین کا اقتصادی خسارہ 15 فیصد تک پہنچ گیا ہے جبکہ بےروزگاری کی شرح 25 فیصد تک ہو گئی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اسرائیل کی جانب سے ملنے والی ٹیکس آمدن وصول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس سے قبل اسرائیل نے فلسطین کے لیے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی ہزاروں ڈالر مالیت کی منجمد رقم دینے کا اعلان کیا تھا۔ text: اس ضمن میں آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹیو میلکم سپیڈ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی ایڈہاک کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر نسیم اشرف کے الفاظ منظر عام پر آئے ہیں۔ واضح رہے کہ آئی سی سی نے ورلڈ کپ میں رینڈم ڈوپ ٹیسٹ کے ساتھ ساتھ ٹارگٹ ڈوپ ٹیسٹ کا طریقہ کار بھی اختیار کیا ہے جس کے تحت کسی بھی کھلاڑی کو ڈوپ ٹیسٹ کے لئے کہا جاسکے گا۔ عام خیال یہ ہے کہ آئی سی سی نے یہ طریقہ شعیب اختر اور محمد آصف کو گرفت میں لینے کے لیے اختیار کیا تھا تاہم دونوں بولرز ورلڈ کپ کے لیے اعلان کردہ ٹیم سے باہر ہوچکے ہیں۔ اس کی وجہ ان کی فٹنس بتائی گئی ہے لیکن اکثر سینیئرکھلاڑی اسے ڈوپنگ قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کےسربراہ ڈاکٹر نسیم اشرف کا کہنا ہے کہ شعیب اختر اور محمد آصف کے بارے میں میلکم سپیڈ کا بیان غیرضروری اور غیرذمہ دارانہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنی اینٹی ڈوپنگ پالیسی کے تحت ان بولرز کو ممنوعہ ادویات کے استعمال پر پابندی کی سزا دی تھی۔ ان دونوں کو اپیل کا حق دیاگیا تھا اور ایک غیرجانبدار اپیل ٹریبونل نے ان کی سزا ختم کی۔ خود آئی سی سی شعیب اختر اور محمد آصف کو بری کیے جانے کی قانونی حیثیت تسلیم کرچکی ہے۔‘ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس سلسلے میں آئی سی سی کے صدر پرسی سون کو خط تحریر کیا ہے جس میں میلکم سپیڈ کے ریمارکس پر احتجاج کیا گیا ہے۔ اوول ٹیسٹ کے معاملے پر پاکستان کرکٹ بورڈ اور آئی سی سی کے کشیدہ تعلقات کسی سے پوشیدہ نہیں جو ایلیٹ پینل سے امپائر ڈیرل ہیئر کے اخراج پر منتج ہوئے تھے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اور آئی سی سی کے درمیان کشیدہ تعلقات ایک بار پھر منظرعام پر آگئے ہیں اور اس مرتبہ اس کا سبب شعیب اختر اور محمد آصف کا ڈوپنگ معاملہ بنا ہے۔ text: یاسر عرفات کی پارٹی الفتح کے شدت پسند گروہ، العقصی شہدا برگیڈ نے اس تعیناتی پر سخت احتجاج کیا اور ملٹری انٹیلیجنس کے دفتر پر حملہ کر کے دفتر کو آگ لگا دی۔ العقصی نے کہا ہے کہ جب تک جنرل موسی عرفات کوہٹھایا نہ گیا تو وہ پر تشدد کاروائیاں جاری رکھیں گے۔ موسی عرفات فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے قریبی عزیز ہیں اور ان کی بطور فلسطینی سیکیورٹی کے سربراہ کے تعیناتی کے بعد فلسطین میں مظاہرے ہوئے ہیں۔ اس بحران کی وجہ سے فلسطینی وزیر اعظم احمد قریع نے استعفی دے دیا تھا جس کو فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے منظور کرنے سے انکار کر دیا ۔ لیکن وزیر اعظم احمد قریع نے اپنا استعفی واپس لینے سے انکار کر دیا ہے جب کہ فسلطینی صدر یاسر عرفات اس استعفی کو منظور کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ فلسطینی ترجمان صاحب ارکات نے کہا کہ یاسر عرفات کی طرف سے اغواء کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کو روکنے کے لیے سیکیورٹی کے عملے میں کی جانے والی تبدیلیوں کو ایک موقع دیا جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی کے ڈھانچے کی ازسرنو تعمیر اور نئے بھرتی شدہ عملے کی تربیت میں کافی وقت درکار ہے۔ انتظامیہ کی مبینہ بدعنوانیوں اور حالیہ تبدلیوں کی مخالفت میں کئے جانے مظاہروں میں خان یونس کے پناہ گزیں کیمپ میں واقع ایک سیکیورٹی چیک پوسٹ پر مظاہرین نے حملے کر دیا اور اس چیک پوسٹ کو آگ لگا دی۔ اتوار کو مقبوضہ فلسطینی علاقے غزہ کی پٹی میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے باوجود ہزاروں افراد نے سیکیورٹی اداروں میں یاسر عرفات کی جانب سے کی گئی تبدیلیوں کے خلاف مظاہرہ کیا۔ غزہ سے بی بی سی کے نامہ نگار ایلن جونسٹن اپنے مراسلے میں بتایا کہ مقبوضہ غزہ شہر کی احتجاجی ریلی میں درجنوں نقاب پوش شدت پسندوں نے شرکت کی۔ اغواء ہونے والوں میں غزہ شہر میں پولیس کے سربراہ بھی شامل تھے۔ یہ بحران جیسے جیسے بڑھا، اس کے ساتھ ہی یاسر عرفات کے سیکیورٹی اداروں کے دو سینیئر اہلکاروں اور سب سے بڑھ کر وزیراعظم احمد قریع نے استعفٰے دے دیا۔ یاسر عرفات نے اپنے سیکیورٹی اداروں میں اصلاحات سے بھی اتفاق کیا ہے اور اب سیکیورٹی کے کام پر مامور آٹھ علیحدہ اداروں کی جگہ صرف تین ادارے ہوں گے۔ غزہ میں عام لوگ ان تمام حالات کو تشویش سے دیکھ رہے ہیں۔ فلسطینی سیکیورٹی کے نئے سربراہ موسی عرفات نے اپنے عہدے کا حلف لے لیا ہے۔ اور کہا ہے کہ کسی صورت بھی اپنے عہدہ نہیں چھوڑیں گے ۔ text: ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے صدارتی اُمیدواروں کی نامزدگی کی دوڑ میں شامل برنی سینڈرز نے بھی وسط مغربی ریاستوں میں ہلیری کلنٹن پر واضح برتری حاصل کرلی ہے۔ مسٹر ٹرمپ اِس دوڑ میں آگے ہیں، لیکن رپبلکن پارٹی کی جانب سے نامزدگی حاصل کرنے کے لیے اُنھیں جتنے مندوبین کی ضرورت ہے، کل تعداد اس سے کم پڑ سکتی ہے۔ ٹرمپ کے مخالفین نے ثالثی کنونشن سے اُمیدیں لگا رکھی ہیں، جہاں اُمیدواروں کے درمیان ووٹنگ کا آغاز اُس وقت ہوگا جب اُن کے مدمقابل باہر ہو جائیں گے۔ جمعرات کو مسٹر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ نقصان کے باوجود وہ فتح حاصل کریں گے اور اُن کی نظریں مرکزی حریف پر ہیں۔ اپنے بیان میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ٹیڈ کروز کٹھ پتلی سے بھی بدتر ہیں۔ وہ ٹروجن گھوڑے جیسے ہیں، جنھیں پارٹی کے کرتا دھرتا صدارتی نامزدگی کی کرسی چرانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘ پارٹی کے رہنماؤں کو اِس بات کا خدشہ ہے کہ ٹرمپ صدارتی انتخابات میں کمزور اُمیدوار ثابت ہ وسکتے ہیں اور اِس سے دیگر رپبلکن اُمیدواروں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ حالیہ نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ جائیدار کی خرید و فروخت کرنے والے بڑے سرمایہ کار ٹرمپ لاطینی امریکیوں، خواتین اور نوجون افراد میں غیر معمولی حد تک غیر مقبول ہیں۔ اگر ڈیموکریٹ پارٹی کی بات کی جائے تو نیویارک اور پنسلوینیا کے انتخابات سے قبل وسِکونسِن میں حاصل ہونے والی جیت نے ورمونٹ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سینڈر کی خوب مدد کی ہے۔ سینڈر نے ملواکی کے سوا ریاست کی ہر کاؤنٹی میں فتح حاصل کی ہے، لیکن مندوبین بھی متناسب نمائندگی کے طریقہ کار سے طے کیا جاتے ہیں، اس وجہ سے وہ اِس معاملے میں مِسز کلنٹن سے آگے نہیں نکل سکتے۔ وسکوسن کے تقریباً 86 مندوبین میں سے سینڈر کو کم سے کم 44 کی حمایت حاصل کرنے کی امید ہے، لیکن مِسز کلنٹن کے پاس کم سے کم 28 مندوبین ہوں گے۔ مِسز کلنٹن کو اب بھی کافی برتری حاصل ہے اور زیادہ تر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ حالیہ نقصانات کے باوجود ڈیموکریٹ امیدوار بن جائیں گی۔ منگل کو ہونے والی شکست ٹرمپ کے لیے بڑا دھچکہ تھی، تاہم اُن کے پاس اب بھی مہم میں واپس آنے کا وقت موجود ہے۔ نامزدگی کی مہم کا رخ اب بڑی شمال مشرقی ریاستوں میں ہوگا، جہاں ٹرمپ کو واضح برتری حاصل ہے۔ نیویارک سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیت نے متعدد بار اسقاط حمل پر اپنا موقف واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُنھوں نے اسقاطِ حمل کرانے والی خواتین کو سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا لیکن بعد میں اُنھوں نے اِس حوالے سے اپنا ذہن تبدیل کر لیا۔ اُن کی انتخابی مہم کے منتظم کوری لیوان ڈوسکی کو خاتون صحافی سے بدتمیزی کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ کروز ٹرمپ کی لڑائی پر امریکی ذرائع ابلاغ کا موقف نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ واضح کامیابح سے کروز ’نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ سخت گیر اور مذہبی قدامت پسند رپبلکنز کے علاوہ بھی لوگوں کو اپنی جانب مائل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،‘ لیکن معتدل رپبلکنز کو قابو کرنا اور ٹرمپ مخالف ووٹ کو یکجا کرنا ’مشکل کام‘ ہو گا۔ واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے کہ وسِکونسن پرائمری کی وجہ سے رپبلکن ’نامزدگی کی جنگ نئے اور نازک دور میں داخل ہوگئی ہے۔‘ یو ایس اے ٹو ڈے لکھتا ہے کہ اب کروز ’کئی رپبلکن ووٹروں کے لیے بہت طاقتور چیز کی نمائندگی کرتے ہیں: ٹرمپ کو نامزدگی کی دوڑ سے باہر کرنے کے لیے یہ اُن کی آخری اُمید ہیں۔‘ لاس اینجلس ٹائمز کا کہنا ہے کہ وسکونسن نے مسٹر ٹرمپ کی برتری پر ’ضرب‘ لگائی ہے، لیکن صدارتی اُمیدوار کی دوڑ میں سب سے آگے رہنے والے ٹرمپ نے ’متعدد تکنیکی غلطیاں کی ہیں‘ جس میں ریاست کے مقبول گورنر سکاٹ واکر اور مسٹر کروز کی اہلیہ ہائِڈی کی بے عزتی شامل ہے۔ تجزیہ کرنے والی ویب سائٹ واکس کا کہنا ہے کہ اگر مسٹر کروز وِسکونس کے تمام مندوبین کی حمایت حاصل کر بھی لیتے ہیں، تب بھی وہ ٹرمپ سے تقریباً 240 مندوبین پیچھے ہوں گے۔ رپبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی اُمیدوار کی نامزدگی حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ٹیڈکروز نے وسِکونسِن پرائمری کے انتخابات میں فیصلہ کُن کامیابی میں حاصل کر کے مدمقابل اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ text: آسٹریلیا کی جانب سے دونوں اوپنرز جو برنز اور ڈیوڈ وارنر نے سنچریاں بنائیں تیسرے دن لنچ کے بعد نیوزی لینڈ کی پوری ٹیم 317 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی اور آسٹریلیا نے پہلی اننگز میں 239 رنز کی اہم سبقت حاصل کی تاہم اس نے فالو آن نہیں دینے کا فیصلہ کیا۔ آسٹریلیا کی جانب سے دونوں اوپنرز جو برنز (129) اور ڈیوڈ وارنر (114) نے سنچریاں بنائیں۔ اس سے قبل پہلی اننگز میں بھی وارنر سنچری بنا چکے ہیں۔ کھیل کے اختتام پر عثمان خواجہ نو اور ایڈم ووگز ایک رن پر کھیل رہے تھے۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے مارک کريگ نے تین وکٹیں لیں جبکہ ایک وکٹ بولٹ کے حصے میں آئی۔ تازہ سکور جاننے کے لیے کلک کریں چائے کے وقفے پر آسٹریلیا نے بغیر کسی نقصان کے 86 رنز بنا لیے تھے۔ ڈیوڈ وارنر 46 اور جو برنز 36 رنز پر کھیل رہے تھے جبکہ آسٹریلیا کی مجموعی برتری 315 رنز ہو گئی تھی۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے کین ولیمسن کا آخری وکٹ گرا اور انھوں نے 140 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی۔ ایک وقت نیوزی لینڈ کی پانچ وکٹیں محض 118 رنز پر گر گئی تھی۔ دوسرے نمایاں سکورر لیتھم رہے جنھوں نے 47 رنز بنائے۔ راس ٹیلر صفر پر جبکہ کپتان برینڈم میکلم چھ رنز بناکر جانسن کا شکار ہو گئے۔ آسٹریلیا کی جانب سے میچل سٹارک نے چا اور میچل جانسن نے تین وکٹیں لیں جبکہ ایک ایک وکٹ ہیزل وڈ، ناتھن لیئن اور میچل مارش کے حصے میں آئی۔ آسٹریلیا کے بلے باز عثمان خواجہ نے پہلی اننگز میں اپنے کریئر کی پہلی سنچری بنائی اس سے قبل میزبان ٹیم آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تھا اور اوپنر ڈیوڈ وارنر اور عثمان خواجہ کی سنچریوں کی بدولت چار وکٹ پر 556 رنز بناکر اننگز کے خاتمے کا اعلان کیا۔ ڈیوڈ وارنر نے 19 چوکے اور ایک چھکے کی مدد سے 163 رنز بنائے جبکہ عثمان خواجہ نے 16 چوکے اور دو چھکوں کی مدد سے 174 رنز بنائے۔ اوپنر برنز نے 71 رنز بنائے جبکہ کپتان سمتھ نے اور ایڈم ووگز نے بالترتیب 48 اور 71 رنز بنائے۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے ٹم ساؤدی، ٹرینٹ بولٹ، نیشم اور ویلمسن نے ایک ایک وکٹ لیں۔ اس سیریز میں تین ٹیسٹ میچ ہوں گے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان برزبین میں جاری پہلے ٹیسٹ میچ کے تیسرے دن کھیل کے اختتام پر آسٹریلیا نے چار وکٹوں کے نقصان پر 264 رنز بنا لیے تھے اور اس کی مجموعی برتری 503 رنز ہو چکی ہے۔ text: گذشتہ 16ہفتوں سے مسلسل ہر جمعے کو جامع مسجد کو سیل کیا جاتا ہے کشمیر میں گذشتہ 16 ہفتے سے مسلسل ہر جمعے کو جامع مسجد کو سیل کیا جاتا ہے، اور 600 سال پرانی اس تاریخی مسجد کی طرف جانے والے ہر راستے کی ناکہ بندی کی جاتی ہے۔ ٭ جائیں تو جائیں کہاں؟ ٭ کشمیر میں انڈین فوج کا 'جرنیلی بندوبست' عیدالاضحیٰ کے روز بھی جامع مسجد اور دوسری بڑی خانقاہوں کو مقفل کیا گیا تھا، کیونکہ علیحدگی پسندوں نے اس روز بھی ان مقامات پر عوامی اجتماعات کی کال دی تھی۔ گذشتہ روز جامع مسجد کے خطیب اور حریت رہنما میرواعظ عمر فاروق نے دو ماہ کی قید سے رہائی کے فوراً بعد اعلان کیا تھا کہ ’اس جمعے کو اگر حکومت کرفیو نافذ کرے گی تو ہم کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جامع مسجد جائیں گے۔‘ بعد میں میرواعظ عمر فاروق، سید علی گیلانی اور یاسین ملک نے مشترکہ بیان میں لوگوں سے اپیل کی تھی کہ جمعے کے روز تحریک آزادی کے حق میں تجدید عہد کے لئے وادی بھر سے لوگ جامع مسجد کی طرف مارچ کریں گے۔ جامع مسجد کے خطیب اور حریت رہنما میرواعظ عمر فاروق نے دو ماہ کی قید سے رہائی کے فوراً بعد اعلان کیا تھا کہ 'اس جمعے کو اگر حکومت کرفیو نافذ کرے گی تو ہم کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جامع مسجد جائیں گے۔' ایک ایسے وقت میں جب سابق بھارتی وزیر اور بی جے پی کے رہنما یشونت سنہا کی قیادت میں پانچ رکنی وفد علیحدگی پسندوں اور دوسرے حلقوں کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے اور حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ مظاہروں کی شدت کم ہوئی ہے، جامع مسجد کو پھر ایک بار مقفل کرنے سے عوامی حلقوں میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ واضح رہے سرینگر کی جامع مسجد تاریخی طور پر کشمیریوں کی مزاحمت کا مرکز رہی ہے۔ میرواعظ عمر فاروق کے آباواجداد اسی مسجد میں لوگوں سے خطاب کرتے تھے، اور ان کے بنیادی حقوق کی پامالی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے تھے۔ حکومت کا موقف ہے کہ مساجد اور عبادت گاہوں کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکتا، تاہم میرواعظ عمرفاروق کہتے ہیں : ’جب ہمارے مذہبی حقوق پامال کیے جارہے ہوں تو ہم اس کا رونا کہاں پر روئیں۔‘ کشمیر میں پولیس کا کہنا ہے کہ گذشتہ 110روز کے دوران کشمیر میں کُل ملاکر ہند مخالف مظاہروں کے 2249 واقعات رونما ہوئے جن میں سے صرف جمعے کے موقعے پر 700 واقعات رونما ہوئے ہیں۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران احتجاجی تحریک کا زور ٹوٹ گیا ہے، اور پچھلے تین ہفتوں سے جمعے کے روز حالات مجموعی طور پرسکون رہتے ہیں۔ لیکن اس اعتراف کے باوجود تاریخی جامع مسجد میں جمعے کے اجتماع کو اب بھی امن و قانون کے لئے خطرہ تصور کیا جارہا ہے۔ واضح رہے 8 جولائی کو پولیس کے ہاتھوں 22 سالہ برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ان کے جنازے میں شرکت کے لئے مختلف علاقوں سے جو جلوس نکلے ان پر فورسز نے براہ راست فائرنگ کردی تھی۔ اس کے نتیجے میں پہلے دو روز کے دوران 44 افراد ہلاک اور 2000 زخمی ہوگئے تھے۔ احتجاجی تحریک کے خلاف سرکاری کارروائیوں میں اب تک 6000 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ان ہلاکتوں کے خلاف وادی بھر میں جو احتجاجی تحریک بھڑک اُٹھی اُسے دبانے کے لیے پولیس اور انڈیا کی مرکزی پولیس، سی آر پی ایف نے چھرّوں اور مرچوں سے بھری گیس کا بے تحاشا استعمال کیا۔ ان کارروائیوں میں اب تک 100سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ ہسپتال ریکارڈ کے مطابق 15 ہزار زخمی ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ احتجاجی تحریک کے خلاف سرکاری کارروائیوں میں اب تک 6000 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے 450 کو حبس بے جا کے قانون، پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کشمیر سے باہر کی جیلوں میں قید کیا گیا ہے۔ اس دوران علیحدگی پسند رہنما میرواعظ عمر فاروق کو جیل سے رہا کرکے ان کے اپنے گھر میں ہی نظر بند کیا گیا ہے جبکہ 88 سالہ حریت رہنما سید علی گیلانی بھی طویل عرصے سے گھر میں نظر بند ہیں۔ یاسین ملک کی طبعیت جیل میں خراب ہوگئی تو انھیں ایک ہفتے تک ہسپتال میں داخل کیا گیا اور بعد میں دوبارہ جیل بھیج دیا گیا۔ وائرلیس انٹرنیٹ کی سہولت ابھی بھی معطل ہے جبکہ انگریزی روزنامہ کشمیر ریڈر پر بھی پابندی بدستور قائم ہے۔ علیحدگی پسندوں کی طرف سے ہر جمعرات کو ہفتہ وار احتجاج کا شیڈیول جاری کیا جاتا ہے، جس کے مطابق مسلسل ہڑتال ہوتی ہے تاہم چند دنوں کے لئے شام پانچ بجے کے بعد ضروری خریداری کے لئے ہڑتال میں ’نرمی‘ کی جاتی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ گذشتہ تین ماہ کی احتجاجی تحریک کے دوران 19 سکول، 44 سرکاری عمارتیں، 10 دکانیں اور 63 نجی گاڑیاں نذرآتش کی گئیں۔ آتشزنی کی ان وارداتوں سے متعلق حریت رہنماوں نے بار بار عوام سے اپیل کی ہے وہ ’ایسے عناصر کی نشاندہی کریں جو تحریک کو بدنام کرتے ہیں۔‘ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ ہڑتال کو نافذ کرنے کے لئے علیحدگی پسند کارکن ہی ان وارداتوں میں ملوث ہیں۔ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں پولیس نے جمعے کو ایک بار پھر دارالحکومت سرینگر کے بیشتر مقامات پر کرفیو نافذ کر دیا ہے جس کا مقصد علیحدگی پسندوں کی طرف سے ’جامع مسجد مارچ‘ کو ناکام بنانا تھا۔ text: فوج کے مطابق ہلاک شدگان میں کم از کم تیرہ باغی اور دو فوجی شامل ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ تازہ جھڑپیں شمالی ضلع واوونیا اور پلونا رووا میں ہوئی ہیں۔جبکہ شمال مغربی ضلع منّار سے بھی لڑائی کی اطلاع ہے ۔ اس ماہ حکومت نے رسمی طور پر جنگ بندی ختم کردی تھی جو تشدد کے بڑھتے واقعات سے پہلے ہی متاثر تھی۔دونوں فریقوں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ سنہ 2002 میں ہوا تھا۔ باغیوں کی حمایت کرنے والے نیٹ کا کہنا ہے کہ اتوار کو منّار میں سری لنکا کے پندرہ فوجی ہلاک اور تیس سے زائد زخمی ہوئے ہیں فوج نے باغیوں کی اس خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے فوج کا کوئی اہلکار ہلاک یا زخمی نہیں ہوا ہے۔ ہلاکتوں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ تمل باغیوں اور سری لنکا کی فوج کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔حال ہی میں سری لنکا کی فضائیہ نے باغیوں کے رہنما ویلوپلاّئی کے اڈے کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن باغیوں کا کہنا تھا کہ وہ دراصل ایک شہری علاقہ تھا۔ گزشتہ ہفتے حکومت کے کنٹرول والے علاقے انورادھا ضلع کے جنگل سے سولہ لاشیں برآمد ہوئی تھیں فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو تمل باغیوں نے ہلاک کیاہے۔ جنگ بندی کے باوجود بھی گزشتہ دو سالوں سے ملک کےشمالی اور مشرقی علاقوں میں لڑائی جاری ہے ۔ فوج کے مطابق شمالی سری لنکا میں فوج اور تمل باغیوں کے درمیان لڑائی میں کم از کم پچپن افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ text: پیر کو تہران میں محسن فخری زادہ کے جنازے کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قومی سلامتی کے امور کے سربراہ علی شامخانی کا کہنا تھا کہ حملہ آور جائے وقوع پر موجود نہیں تھے اور انھوں نے حملے میں ’الیکٹرانک آلات استعمال‘ کیے۔ علی شامخانی نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔ اس سے پہلے ایران کی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ جمعہ کو فخری زادہ کی گاڑی پر حملہ کئی بندوق بردار حملہ آوروں نے کیا تھا۔ اسرائیل نے ایران کے اس الزام پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ یاد رہے کہ 2000 کے عشرے میں محسن فخری زادہ نے ایران کے جوہری پروگرام میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور اسرائیل کا الزام رہا ہے کہ حالیہ عرصے میں وہ خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے میں ایران کی مدد کر رہے تھے۔ ایران کا اصرار ہے کہ اس کی تمام جوہری سرگرمیاں پرامن مقاصد کے لیے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے محسن فخری زادہ کے قتل کے پیچھے کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ محسن فخری زادہ کے قتل کے پیچھے کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ ایرانی جنرل کو مارنے کا فیصلہ ’جنگ روکنے‘ کے لیے کیا محسن فخری زادہ کی نماز جنازہ کا اہتمام تہران میں وزارت دفاع کی عمارت میں کیا گیا تھا۔ بعد میں ان کی میت کو تدفین کے لیے دارالحکومت کے شمالی علاقے میں واقع ایک قبرستان لے جایا گیا۔ جنازے کے مناظر براہ راست سرکاری ٹی وی پر نشر کیے گئے۔ جوہری سائنسدان کا تابوت قومی پرچم میں لپٹا ہوا تھا جسے فوجی اہلکاروں نے اٹھایا ہوا تھا۔ اس موقع پر دیگر سینیئر سرکاری حکام کے علاوہ انٹیلیجنس کے وزیر محمود علوی، پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر جنرل حسین سلامی اور ملک کے جوہری امور کے موجودہ سربراہ علی اکبر صالحی بھی موجود تھے۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری ریئر ایڈمرل شامخانی نے بتایا کہ ایرانی خفیہ اداروں اور قومی سلامتی کے اداروں کو محسن فخری زادہ کے قتل کے منصوبے کا علم تھا بلکہ انھوں نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ فخری زادہ پر حملہ کہاں ہو سکتا ہے۔ علی شامخانی کا کہنا تھا کہ محسن فخری زادہ کی حفاظت کے لیے انتظامات بہتر کر دیے گئے تھے لیکن دشمن نے انھیں ہلاک کرنے کے لیے ایک بالکل نیا، پیشہ ورانہ اور خاص طریقہ استعمال کیا اور بدقسمتی سے دشمن اس میں کامیاب رہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ایک پیچیدہ کارروائی تھی جس میں الیکٹرانک آلات کا استعمال کیا گیا۔ جائے وقوعہ پر کوئی (حملہ آور) موجود نہیں تھا۔‘ ایڈمرل شامخانی نے کہا کہ اس جرم کا ’ارتکاب کرنے والوں کی شناخت کے بارے میں کچھ اشارے موجود ہیں لیکن اس میں صہیونی حکومت اور (اسرائیل کی خفیہ ایجنسی) موساد کے ساتھ ساتھ مجاہدینِ خلق (وہ جلاوطن ایرانی گروپ جو ملک میں مذہبی طبقے کی حمکرانی کے خلاف ہے) کے ارکان یقیناً شامل تھے‘۔ ایڈمرل شامخانی کے اس بیان سے قبل اتوار کو پاسدانِ انقلاب سے منسلک، ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی فارس نے کہا تھا کہ محسن فخری زادہ کو ’ریموٹ کنٹرول مشین گن‘ کے ذریعے ہلاک کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ عربی ٹی وی چینل العالم نے بھی کہا تھا کہ اس حملے میں جو ہتھیار استعمال کیے گئے انھیں ’مصنوعی سیارے کے ذریعے کنٹرول‘ کیا جا رہا تھا۔ ایران نے کہا ہے کہ اس کے خیال میں ملک کے معروف جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو اسرائیل اور ایک جلاوطن ایرانی گروہ نے مل کر ریموٹ کنٹرول ہتھیار کے ذریعے ہلاک کیا ہے۔ text: نداراجا گروپران جو ایف ایم ریڈیو سریان کے لیے کام کرتے تھے کو منگل کے روز اغو کر لیا تھا اور ان کو بدھ کی صبح رہا کردیا گیا ہے۔ نداراجا گروپران نے اپنی رہائی کے ریڈیو پر بتایا کہ ان کے اغوا کار سنہالی زبان بول رہے تھے۔ نداراجا نے کہا کہ ان کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا لیکن اغوا کارروں کے پاس کچھ سوالات تھے جن کا وہ جواب مانگ رہے تھے۔ نداراجا کومنگل کے روز گھر سے دفتر جاتے ہوئے اغوا کیا گیا تھا اور پھر پولیس کو ان کی گاڑی ملی تھی جس کا انجن سٹارٹ تھا اور ان کا موبائل فون گاڑی میں ہی پڑا تھا۔ نداراجا کے دوستوں کا کہنا ہے کہ ان کو کچھ عرصے کچھ گروہوں کی طرف سے دھمکیاں مل رہی تھیں جس کی وجہ سے وہ پریشان تھے۔ سریام ایف ایم ریڈیو سٹیشن تامل ٹائیگڑز اور سری لنکا کی حکومت کے درمیان جاری لڑائی کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے خصوصی رپورٹیں نشر کرتا رہا ہے۔ سری لنکا میں بی بی سی کی نمائندہ دومیتھا لوتھرا کا کہنا ہے کہ سریام ریڈیو کے بارے میں عام تاثر ہے کہ وہ تامل سنہالہ جھگڑے میں غیر جانبدار ہے۔ صحافیوں کی تنظیم رپورٹر سانز فرنٹیر نے کہا ہے ندا راجا کا اغوا اس بات کی دلیل ہے کہ سری لنکا میں صحافتی آزادی کو کتنے خطرات لاحق ہیں۔ صحافیوں کی تنظیم نے کہا کہ سری لنکا میں عام طور اور اس کے شمالی علاقوں میں خاص طور پر قتل، گرفتاریاں، دھمکیاں اور بم دھماکے روز کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔ سری لنکا کے صحافیوں نے دارالحکومت کولمبو میں صحافی نے نداراجا کے اغوا کے بارے میں احتجاج کیا ہے۔ سری لنکا میں پہلے بھی کئی بار صحافیوں، اخباروں کے دفاتر اور اخبار فروشوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور موجودہ سال میں اخباری صنعت سے منسلک پانچ لوگ ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں منگل کے روز اغو کیے جانے والے تامل صحافی کو رہا کر دیا گیا ہے۔ text: شہر میں امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے جگہ جگہ ایسی رکاوٹیں نظر آتی ہیں پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے مسلم آْباد کے رہائشی ساٹھ سالہ عبدالغفار نے بازار سے سبزی خرید کر گھر جاتے ہوئے ان خدشات کا اظہار کیا۔ عبدالغفار کے مطابق وہ انیس سو تیراسی میں جب کوئٹہ منتقل ہوئے تھے تو اس وقت یہاں کوئی خوف و خطرہ نہیں تھا۔ ’ایک وقت تھا جب کوئٹہ ایک پرامن اور پرفضا شہر کے طور پر جانا جاتا تھا، یہاں لوگ تفریح اور موسم گرما گذارنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن اب یہ نوگو ایریا بن گیا ہے، جبری گمشدگیاں، مسخ شدہ لاشیں ملنے کے واقعات، دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ اس شہر کی نئی پہچان ہیں‘۔ بلوچستان میں محرومیاں، سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل تو کئی سال سے تھے لیکن سنہ دو ہزار چھ میں صورتحال اس وقت سنگین ہوئی جب ایک فوجی آپریشن میں بزرگ بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی ہلاک ہوگئے اور نفرت اور انتقام کی آگ پورے صوبے میں پھیل گئی۔ اس نقصان کا خمیازہ یہاں کے پنجابی آبادکاروں کو بھگتنا پڑا، مسلم آباد کی گلیاں پہلے اس قدر ویران نہ تھیں، صوبائی وزیر تعلیم شفیق احمد اسی مسلم آباد کے رہائشی تھے، جو ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے۔حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد کئی پنجابی اپنا کاروبار اور گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے، جو بچ گئے ہیں ان کی زندگی محدود ہوگئی۔ پولیس کے ریٹائرڈ سب انسپکٹر عبدالغفار کے مطابق پنجاب کے وہ لوگ جن کا کوئی ٹھکانہ تھا وہ تو واپس پنجاب چلے گئے، جن کا وہاں کوئی ٹھکانہ نہیں وہ بس یہاں ہی اپنا وقت گذار رہے ہیں۔ باچا خان چوک کبھی پرہجوم تجارتی مرکز تھا، جہاں پاکستان کے دیگر علاقوں سے آنے والے مقامی سوغات خریدنے میں دلچسپی رکھتے تھے، لیکن بم دھماکوں کے بعد یہاں خوف کا سایہ اور ایف سی فورس کا پہرا رہتا ہے۔ ماضی میں خشک میوہ جات کی مارکیٹ خریداروں سے بھری ہوتی تھی، لیکن اب صرف دکانیں ہی بھری ہیں لیکن خریدار غائب ہیں۔ ایک دکاندار نے بتایا کہ پہلے کراچی، لاہور اور دوسرے شہروں سے لوگ آتے تھے اور خشک میوہ جات کی خریداری کرتے تھے کیونکہ کوئٹہ کے لوگ تو اتنا میوہ استعمال نہیں کرتے لیکن اب باہر سے لوگ نہیں آتے۔ باچا خان چوک میں اب خوف کا سایہ اور ایف سی فورس کا پہرہ رہتا ہے ایران کی کراکری بھی کوئٹہ سے کم قیمت میں دستیاب تھی، لیکن برتنوں کے دکاندار کے حالات خشک میوہ جات کے دکانداروں سے مختلف نہیں ہیں۔ کوئٹہ جہاں سال کے زیادہ تر حصے میں موسم سرد رہتا ہے وہاں سیاسی گرمی بڑھنے کے بعد دلوں میں رنجش آ گئی اور علاقوں میں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں، شہر لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہوگیا، جو رشتے صدیوں سے بنے تھے وہ انجان ہوگئے۔ شہر میں سرکاری اہلکاروں یا آبادکاروں پر کسی بھی حملے کے بعد ایف سی اور پولیس کی کارروائیوں کا مرکز سریاب روڈ ہوتا ہے، جہاں سے کئی نوجوان لاپتہ بھی ہوئے، یہ کارروائیاں یہاں کے نوجوانوں کو مزید باغی بنا دیتی ہیں۔ کچھ نوجوانوں نے بتایا کہ عام لوگوں اور مزدوروں کو سڑکوں پر تلاشی کے بہانے گھنٹوں روکا جاتا اور تنگ کیا جاتا ہے جبکہ وارداتیں کرنے والے نکل جاتے ہیں۔ بلوچ آبادی والے علاقے پسماندگی میں سب سے آگے ہیں، یہاں بلوچستان لبریشن آرمی کی وال چاکنگ واضح طور پر نظر آتی ہے، اس قدر کے وزیراعلیٰ ہاؤس کے قریب بل بورڈز پر بھی آزاد بلوچستان تحریر ہے۔ سریاب روڈ کے علاقے میں کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے تعلیم اور صحت کے منصوبے بنائے لیکن انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں مل سکی۔ بلوچستان کی امن و امان کی ابتر صورتحال فرقہ ورانہ تنظیموں کے پھلنے پھولنے کا سبب بنیں۔ جس کے نتیجے میں کوئٹہ کی شیعہ ہزارہ قوم پر حملوں کا بظاہر نہ رکنے والا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہزارہ نوجوان جو ہر کھیل میں دلچسپی رکھتے تھے اب ان کی قابلیت محدود کر دی گئی ہے۔ مری آباد میں ایک عمارت کے اندر کچھ نوجوان سنوکر کھیلتے ہوئے نظر آئے، ایک نوجوان سے جو پوچھا کہ اب وہ باہر کیوں نہیں کھیلتے ہیں تو اس پر انہوں نے کہا کہ’حالات کی وجہ سے وہ کہیں نہیں جا سکتے، ہزارہ کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکے ہو رہے ہیں، نوجوان کام کاج سے فارغ ہونے کے بعد اپنا وقت یہاں گذارتے ہیں‘۔ کوئٹہ میں کسی بھی سیاسی اور سماجی مسئلے پر بات کرنے سے اکثر لوگ ڈرتے ہیں، یہ ڈر انہیں ایف سی، انٹلیجنس اداروں، فرقہ وارانہ تنظیموں یا علیحدگی پسند تنظیموں سے ہوتا ہے۔ معاشرے میں آنے والی تبدیلی سے میڈیا بھی خود کو کہاں محفوظ رکھ سکا، حقائق بتانے کی پاداش میں پچھلے پانچ سالوں میں بیس سے زائد صحافی ہلاک ہوئے۔ سینیئر صحافی سلیم شاہد کہتے ہیں کہ صحافیوں پر ریاستی اور غیر ریاستی عناصر دونوں کا دباؤ ہے۔’یہ تنازعے والا خطہ ہے یہاں ریاست اور دوسرے عناصر میں تکرار ہے، جس کی وجہ سے ریاستی ادارے دباؤ ڈالتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں یہ ہی رویہ عسکریت پسندوں اور مذہبی جماعتوں کا بھی ہے‘۔ بلوچ ہو، پنجابی یا ہزارہ سب کی ایک بات مشترکہ ہے وہ یہ کہ سب دکھی ہیں، کوئٹہ میں بھی ان دنوں انتخابات کی تیاریوں کا زور و شور ہے، کس کا کیا منشور ہے اس سے لوگوں کو دلچسپی کہاں، ان کا یک نکاتی مطالبہ ہے کہ کوئٹہ کا امن واپس کرو۔ ’اب یہاں سکون نہیں ہے، گھر سےآدمی نہیں نکل سکتا کیونکہ یہ خوف رہتا ہے کہ کوئی مار نہ دے‘۔ text: انسٹی ٹیوٹ فار فِسکل سٹڈیز نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ معیشت کی کمزور نمو کی وجہ سے توقع سے کم ٹیکس وصول ہوں گے، جس سے 2019 تا 2020 25 ارب پاؤنڈ مزید قرض لینا پڑ سکتا ہے۔ ادارے نے کہا ہے کہ کمزور معیشت کی پیشن گوئی کی وجہ سے 'خسارے میں خاصا اضافہ' ہو سکتا ہے۔ یہ پیشن گوئی معیشت کے بارے میں خزاں میں پیش کی جانے والی سرکاری رپورٹ سے پہلے آئی ہے۔ یہ رپورٹ 23 نومبر کو پیش کی جائے گی۔ فلپ ہیمنڈ کے چانسلر بننے کے بعد سے ان کا پہلا اہم امتحان ہو گا۔ آئی ایف ایس کے تحقیق کار ٹامس پوپ نے کہا: 'نئے چانسلر کا پہلا مالیاتی ایونٹ آسان نہیں ہو گا۔ یہ بات یقینی ہے کہ نمو کی پیشن گوئی میں کمی لائی جائے گی، جس سے خسارے میں کافی اضافہ ہو گا، چاہے وہ اس کے لیے اخراجات میں مجوزہ کمی لے بھی آئیں۔' ہیمنڈ نے پہلے ہی کہہ رکھا ہے کہ وہ اپنے پیش رو جارج اوزبورن کی جانب سے 2020 تک کھاتے متوازن کرنے کے ہدف کی بجائے نئے گھروں اور ٹرانسپورٹ پر خرچ کو ترجیح دیں گے۔ آئی ایف ایس کے مطابق انھیں اب بڑے فیصلے کرنا پڑیں گے۔ ایک تو یہ کہ وہ معیشت کو تقویت دینے کے لیے اخراجات میں اضافہ یا ٹیکسوں میں کمی لائیں، دوسرے یہ کہ نئے مالیاتی اہداف کا اعلان کیا جائے۔ پوپ نے کہا کہ موجودہ معاشی صورتِ حال میں فلپ ہیمنڈ کو 'پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے، اور نئے مالیاتی اہداف کو خاصا لچکدار ہونا چاہیے۔' اس کے علاوہ کئی اور اداروں نے بھی بریکسٹ کے بعد سے برطانیہ کی نمو کی پیشن گوئیوں میں کمی اور افراطِ زر میں اضافے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ گذشتہ ماہ آئی ایم ایف نے برطانیہ کی 2017 کی نمو میں 1.1 فیصد کی کمی کی پیشن گوئی کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ معیشت کی بحالی 'کمزور اور پرخطر ہو گی۔' پچھلے ہفتے بینک آف انگلینڈ نے اس سال کے نمو کی پیشن گوئی میں ترمیم کرتے ہوئے اسے 1.8فیصد سے کم کر کے 1.5 فیصد کر دیا تھا۔ برطانیہ کے ایک بااثر تھنک ٹینک نے خبردار کیا ہے کہ رواں برس مارچ میں پیش ہونے والے بجٹ کے بعد سے برطانیہ کی عوامی مالیات میں کمی کے آثار ظاہر ہوئے ہیں جو 2020 تک 25 ارب پاؤنڈ تک بڑھ سکتے ہیں۔ text: وزیراعظم نوری المالکی نے بغداد میں ترک وزیرِ خارجہ علی بباجان سے ملاقات کے بعد کہا کہ وہ کردستان ورکرز پارٹی کی’عراق اور ترکی کے لیے خطرہ بننے والی دہشتگرد سرگرمیوں پر قابو پانے کے لیے کام کریں گے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ’ پی کے کے ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور ہمیں ان کے دفاتر بند کرنے کا فیصلہ کرنا ہوگا اور انہیں عراقی سرزمین پر کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘۔ ان کا کہنا تھا کہ عراقی سرزمین سے باغیانہ سرگرمیاں ناقابلِ قبول ہیں۔ اس سے قبل ترک وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ترکی اس مسئلے کا سفارتی حل چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست، مذاکرات، سفارتکاری، ثقافت اور معیشت ہی وہ ذرائع ہیں جو اس بحران سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ تاہم انہوں نے ’پی کے کے‘ کیساتھ جنگ بندی کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ’ کسی دہشتگرد تنظیم سے جنگ بندی کا معاہدہ ممکن نہیں‘۔ ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان نے بھی لندن میں اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ ترکی عراق کو برآمد کی جانے والی اشیاء پر پابندی لگا سکتا ہے۔ انہوں نے اشیاء کی نشاندہی تو نہیں کی تاہم اس بات کا ذکر کیا کہ ترکی عراق کو پانی، ایندھن اور خوراک کی فراہمی میں مدد کرتا ہے۔ ادھر ترکی میں قریباً دس ہزار افراد نے منگل کو ان دو فوجیوں کے جنازوں میں شرکت کی جو اتوار کو کرد علیحدگی پسندوں سے جھڑپ میں مارے گئے تھے جبکہ خبر رساں ادارے اناطولیہ کے مطابق ترکی کے مغربی شہر ایدن میں پچاس ہزار افراد نے ان ہلاکتوں کے خلاف جلوس بھی نکالا۔ دریں اثناء بی بی سی عالمی سروس سے بات کرتے ہوئے عراق میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل پیٹریس نے کہا ہے کہ شمالی عراق میں ترک عراق سرحد ایک تہرا سرحدی علاقہ ہے جہاں ترک، عراقی اور ایرانی سرحدیں ملتی ہیں اور یہ کسی قسم کی فوجی کارروائی کے لحاظ سے ایک مشکل علاقہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شمالی عراق کے کردوں کے ’پی کے کے‘ سے روابط رہے ہیں اور انہی رابطوں کو استعمال کرتے ہوئے علیحدگی پسند کردوں کو مزید حملوں سے باز رکھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ جنرل پیٹریس نے کہا کہ اسی طریقے سے’ انہیں(پی کے کے) کو کگر سے پیچھے ہٹایا جا سکتا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ وہ مشکل حالات کو مزید مشکلبنانے سے باز رہیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اس وقت’ بہت مشکل حالت‘ میں ہے کیونکہ ایک جانب نیٹو اتحادی ترکی ہے تو دوسری جانب مزاحمت کاروں کے خلاف اس کی اتحادی عراقی حکومت۔ یاد رہے کہ پیر کو وائٹ ہاؤس کے ترجمان ٹونی فراٹو نے ایک بیان میں کہا تھا کہ کہ’ ہم چاہتے ہیں کہ عراقی حکومت پی کے کے کی کارروائیاں روکنے کے لیے سرعت سے کارروائی کرے۔ ہم شمالی سرحد پر بڑی فوجی کارروائی دیکھنے کے خواہاں نہیں‘۔ عراق کے وزیراعظم نوری المالکی کا کہنا ہے کہ کرد علیحدگی پسند تنظیم ’پی کے کے‘ ایک دہشتگرد تنظیم ہے اور اسے عراقی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ text: اس کے ساتھ ہی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں لوڈ شیڈنگ شروع ہو گئی ہے۔ گیارہ گرڈ سٹیشنوں سے بجلی کی سپلائی بند ہو گئی ہے جبکہ دیگر علاقوں میں چھ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ شروع کر دی گئی ہے۔ نوشکی میں بھی دو بم دھماکے ہوئے ہیں جس سے کوئٹہ اور زاہدان کو ملانے والی شاہراہ آر سی ڈی پر ایک پل کو نقصان پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ کوئٹہ میں بھی ایک گرنیڈ دھماکہ ہوا ہے لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ یہ گرنیڈ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کے گھر میں پھینکا گیا تھا۔ کاہان سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق بمباری میں آٹھ سے دس افراد ہلاک ہو گئے ہیں تاہم اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ مری قبائل کا کہنا ہے کہ آج ایف سی کی جانب سے دن بھر راکٹ داغے جاتے رہے جس کے نتیجے میں ان کے گیارہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ آزارد ذرائع نے یہ تعداد آٹھ بتائی ہے۔ انتظامیہ نے کسی قسم کی ہلاکتوں کی تصدیق نہیں کی ہے۔ ایف سی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مری قبائل کے لوگوں نے ایف سی کے قلعے پر آج 45 راکٹ پھینکے تاہم انہوں نے اس کے نتیجے میں کسی ممکنہ نقصان کی تفصیل نہیں بتائی۔ بلوچستان سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اوچھ پاور پلانٹ کی طرف جانے والی گیس پائپ لائن کو دھماکے سے اڑا دیا گیا ہے۔ یہ دھماکہ اتوار کی رات تقریباً نو بجے کیا گیا۔ text: سندھ کے ضلع میرپورخاص میں کنری میں تعینات ایس ڈی او نور فاطمہ کے بھائیوں عزیزالرحمان اور استاد عبدالحق کے بیٹوں اور بیٹیوں کی شادی پچیس ستمبر کو منعقد ہوئی تھی- اس شادی کے دعوت نامے پر روایتی انداز میں السلامُ علیکم ورحمۃ اللہ، انشاءاللہ اور عزیزالرحمان کو مرحوم لکھا گیا تھا۔ اس کے خلاف عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کنری کے صدر عبدالواحد نے کنری تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 سی کے تحت مقدمہ درج کروایا ہے-مقدمے میں تین دولہا عبدالکریم، ذوالفقار گورایا، عامر محمود، اور تین دلہنوں عائشہ، قدسیہ اور عاطفہ عزیز، سیکنڈری ٹیچر عبدالحق، ریاست علی باجوہ، سعید طاہر، وارث علی، عتیق الرحمان، ناصر محمود، نفیس الرحمان، شفیق الرحمان، ایس ڈی اور فیمیل کنری نور فاطمہ ملزم قرار دیئے گئے ہیں- مدعو کرنے والےاور استقبال کرنے والے جن جن افراد کا نام شادی کارڈ میں لکھا گیا تھا سب شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ان تمام افراد کا ایک ہی خاندان سے تعلق ہے- ایف آئی آر داخل ہونے کے بعد کنری پولیس نے عامر محمود اور ان کے والد ماسٹر عبدالحق کو گرفتار کرلیا ہے- مدعی نے الزام عائد کیا ہے کہ ملزمان احمدیہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے انہیں اسلامی الفاظ اور اصطلاح استعمال کرنے کا قانونی حق حاصل نہیں ہے، اس کے باوجود ملزمان نے شادی کارڈ پر السلام علیکم، ورحمۃ اللہ، انشاءاللہ اور مرحوم جیسے الفاظ لکھے ہیں- احمدی جماعت کنری کے عہدیدار چوہدری ناصر حسین نے اس مقدمے کے بارے میں بی بی سی اردو آن لائن کو بتایا کہ ’السلامُ علیکم عربی لفظ ہے جس کا مطلب ہے اللہ کی تم پر سلامتی ہو، ایسا کہنا کوئی گناہ نہیں ہے۔ معاشرے میں ہر شخص السلام علیکم کہتا ہے- اسی طرح سے مرحوم کا مطلب ہے ’اللہ کی رحمت ہو۔‘ انہوں نے کہا کہ کارڈ میں جو کچھ بھی لکھا گیا ہے اس میں پیغمبر یا قرآنی آیات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ غلط اور انسانیت کے خلاف ہے- انہوں نے کہا کہ کنری کے علاقے میں ’چار پانچ ہزار احمدی آباد ہیں- لیکن ان کو کوئی دھمکی وغیرہ نہیں ملی ہے- یہ مقدمہ کچھ شر پسندوں کا کام ہے- ‘ کنری تھانے کے ہیڈ محرر اکبر علی نے بتایا کہ دو ملزمان عبدالحق اور عامر محمود گرفتار ہیں، یہ باپ بیٹے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مقدمہ قانون کے مطابق چالان کیا جائےگا- نامور قانون دان اور سابق سول جج ظفر راجپوت نے بتایا کہ کوئی بھی احمدی مسلمان ہونے کا دعوی کرے گا یا مسلمان ہونے کا تاثر دےگا تو اس کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 سی کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے جس کی سزا تین سال تک ہے- آئین کے تحت احمدی یا قادیانی غیر مسلم ہیں جنہیں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا- ظفر راجپوت نے بتایا کہ اس قانون کے تحت احمدی فرقے کے لوگ مسلمانوں جیسا کلمہ نہیں پڑھ سکتے ہیں اور نہ ان جیسی عبادت گاہ یعنی مسجد بنا سکتے ہیں- اسی طرح سے وہ کوئی بھی ایسا مذہبی عمل نہیں کرسکتے جو مسلمان کرتے ہیں- واضح رہے کہ میرپورخاص ضلع میں خاصی تعداد میں احمدی آباد ہیں جو کہ بڑے زمیندار سمجھے جاتے ہیں- شادی کارڈ پر السلام علیکم، انشاء اللہ اور مرحوم لکھنے پر احمدی جماعت کے پندرہ افراد کے خلاف توہین اسلام کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے- ملزمان میں تین دولہا اور تین دلہنیں شامل ہیں جن میں سے ایک دولہا اور اس کے والد کو حراست میں لیا گیا ہے- text: بارشوں سے قبائلی علاقوں کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا کے بیشتر علاقوں میں بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں بارشوں اور سیلابی ریلوں سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں۔ پشاور میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے کے مطابق حالیہ بارشوں اور سیلابی ریلوں سے صوبے بھر میں 73 افراد ہلاک اور 31 زخمی ہوئے ہیں۔ بارشوں سے قبائلی علاقوں کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا کے بیشتر علاقوں میں بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں۔ جنوبی ضلع کرک میں بڑے پیمانے پر مکان گرے ہیں۔ کرک سے پولیس اہلکار شاہ نواز نے بتایا کہ ایک مکان میں چار افراد ملبے تلے دب گئے جبکہ دوسرے مکان میں بزرگ خاتون اپنے دو پوتوں کے ساتھ موجود تھی جب مکان کی دیوار گر گئی۔ اسی طرح ایک مکان کی چھت گرنے سے ایک نوجوان ہلاک ہوا ۔ کرک میں ہلاکتوں کی کل تعداد نو ہو گئی ہے۔ پی ڈی ایم ایک کے مطابق بارشوں اور سیلاب سے اب تک چترال کے مختلف علاقوں میں 34 افراد ہلاک اور دو زخمی ہوئے ہیں۔ چترال میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور حکام کے مطابق ضلع بھر میں350 مکان مکمل تباہ ہوئے ہیں جبکہ 80 مکانات کو جزوی نقصان پہنچا ہے ۔ تحصیل شوغور سے چند روز پہلے پیدل سفر کرکے چترال پہنچنے والے عبدالمجید خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے علاقے میں تمام پن چکیاں سیلابی پانی میں بہہ گئی ہیں جس سے علاقے میں خوراک کی کمی کا سامنا ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ علاقے میں بیماریاں پھیل رہی ہیں اور ادویات دستیاب نہیں ہیں جس سے مزید پر نقصانات ہو سکتا ہے۔ ادھر خیبر پختونخوا کےجنوبی ضلع لکی مروت میں بھی بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں جہاں پی ڈی ایم اے کے حکام کے مطابق 50 مکان مکمل تباہ ہوئے ہیں جبکہ 250 مکانات کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ لکی مروت میں دلو خیل کی جانب سے آنے والے ریلے میں ایک رضا کار بہہ گیا تھا جبکہ سڑکوں پلوں اور دیگر عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ بارشوں سے بالائئ دیر میں بھی بھی بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں جہاں ہلاکتوں کے علاوہ مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ لینڈ سلائڈنگ سے رابطہ سڑکیں اور پل بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی اور خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں بارشوں اور سیلابی ریلوں میں دو روز کے اندر 15 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ text: اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما عمار راشد اور دیگر زیر حراست افراد کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کر رہے تھے۔ گذشتہ سماعت پر عدالت نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ اور ڈپٹی کمشنر کو وضاحت دینے طلب کیا تھا۔ یہ بھی پڑھیے ’اگر کوئی ملک کا قانون توڑے گا تو گرفتار کیا جائے گا‘ محسن داوڑ چند گھنٹے کی حراست کے بعد رات گئے رہا پشتین کی خاطر جیل جانے والے ’انقلابی‘ کون پیر کی سماعت میں عدالت نے تمام ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے ملزمان کے خلاف درج مقدمے پر اسلام آباد کے آئی جی اور ڈپٹی کمشنر کو رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی۔ مقدمے کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ یاد رہے کہ گذشتہ پیر کو اسلام آباد پریس کلب کے باہر قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ سمیت 29 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن پر غداری اور بغاوت کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں عدالت کی جانب سے رہائی کا حکم دینے کے بعد ملزمان کے وکلا اور ساتھی عدالت کے باہر موجود ہیں محسن داوڑ اور تین خواتین سمیت چھ ملزمان کو چند گھنٹوں بعد رات گئے رہا کر دیا گیا تھا جبکہ دیگر کو اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا۔ اس سے قبل سیشن جج نے ملزمان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی جس کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ منظور پشتین کی حراست کے خلاف لندن میں احتجاج پشتونوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر کے دفتر کے باہر مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اس مظاہرے میں پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں سمیت دیگر جماعتوں کے سے تعلق رکھنے والے افراد اور افغان شہریوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی اور منظور پشتین کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ منظور پشتین کے مطالبات انسانی بنیادوں پر ہیں اور ان کی گرفتاری بے بنیاد وجوہات پر عمل میں لائی گئی ہے۔ لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر کے باہر مظاہرے میں سینکڑوں افراد نے منظور پشتین کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے واضح رہے کہ منظور پشتین کو پولیس نے 26 جنوری کی شب صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں تہکال کے علاقے سے گرفتار کیا تھا۔ پولیس کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ منظور پشتین نے 18 جنوری کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے آئین کو ماننے سے انکار کیا اور ریاست کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر صوابی سے تعلق رکھنے والے یوسف علی خان جو برطانیہ میں پی ٹی ایم کے آرگنائزر ہیں، بھی اس مظاہرے میں شریک تھے۔ بی بی سی بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ منظور پشتین کو بغیر کسی قصور کے گرفتار کیا گیا ہے اور اگر ان کو رہا نہ کیا گیا تو وہ ویک ڈیز میں بھی پاکستانی ہائی کمشنر کے سامنے آ کر مظاہرہ کریں گے۔ ’ہم کامن ویلتھ کے سامنے بھی جائیں گے لیکن پھر بھی منظور پشتین کو رہا نہ کیا گیا تو ہم برطانیہ کے پارلیمنٹ کے سامنے جائیں گے، ہم اقوام متحدہ کے سامنے جائیں گے، ہم منظور پشتین کی رہائی کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں، ہمارے نوجوان چاہتے ہیں کہ یہاں دھرنا دیا جائے۔‘ برطانیہ میں پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے آرگنائزر فلک نیاز خان کا کہنا تھا کہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے منظور پشتین کی گرفتاری دنیا کے کسی بھی قانون میں ناجائز ہے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ منظور پشتین کے مطالبات انسانی بنیادوں پر ہیں اور ان کی گرفتاری بے بنیاد وجوہات پر عمل میں لائی گئی ہے ’ہمارا مطالبہ ہے کہ منظور پشتین اور ان کے ساتھیوں کو فوری رہا کیا جائے اور آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جو مطالبات ہیں ان کو فوری پورا کیا جائے۔‘ پاکستان سے تعلق رکھنے والی عائشہ صدیقہ نے بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہاں منظور پشتین کی فوری رہائی کا مطالبہ کرنے آئی ہیں۔ ’منظور پشتین سمیت گرفتار ہونے والے کئی افراد کی آزادی کے لیے آواز اٹھانے آئی ہوں۔ یہ بہت ضروری ہے کیونکہ پاکستان میں ہم سب کا حصہ ہے اور کوئی ہمیں ہمارے حق کے لیے آواز اٹھانے کے لیے نہیں روک سکتا۔‘ واضح رہے کہ 28 جنوری کو اسلام آباد میں پریس کلب کے سامنے منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں حصہ لینے والے درجنوں افراد کو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ان میں قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ سمیت پی ٹی ایم کے متعدد کارکن، عوامی ورکرز پارٹی کے کارکن اور چند طلبا شامل تھے جبکہ رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کو چند گھنٹوں بعد رہا کر دیا گیا تھا۔ پاکستان میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے گذشتہ پیر کو پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کو رہا کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ text: چین کے نائب صدر شی جنپنگ نے متانزع جزائر کے معاملے پر جاپان کو خبرادار کرکے کہا کہ چین کے خودمختاری میں مداخلت نہ کرے چین کے سرکاری خبر رساں ایجنسی زنہوا کے مطابق شی جنپنگ نے ٹوکیو کی طرف سے نجی مالکان سے جزیروں کی خرید کو مضحکہ خیز قرار دیا۔ چین میں ان متنازع جزائر کے معاملے پر جاپان کے خلاف پر تشدد احتجاج ہو ئے ہیں۔ انیس سو اکتیس میں جاپان کا شمال مشرقی چین پر قبضے کی یاد کے موقع پر منگل کو بعض شہروں میں جاپانی دوکانوں اور کاروباروں پر حملے کیے گئے۔ ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین نے بیجنگ میں جاپان کے سفارت خانے کے باہر نعربازی کی جبکہ سکیورٹی حالات کو کنٹرول کرنے کے لے پولیس بھی تعنات تھی۔ جاپان میں سینکاکو اور چین میں ڈیائیو کے نام سےپہچانے جانے والے ان جزیروں کی ملکیت پر دونوں ممالک دعویٰ ہے اور یہ باعث تنازع رہے ہیں۔حال ہی میں ان جزیروں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان بحری جنگ چڑھ جانے کا خدشہ پیدا ہوا۔ شی جنپنگ نے بیجنگ کے دورے پر امریکہ کے وزیر دفاع لیون پنیٹا سے ملاقات کے موقع پر متنازع جزائر کے معاملے پر جاپان کو خبردار کیا۔ چینی حکام نے امریکہ سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ چین اور جاپان کے درمیان زمینی تنازعات میں غیرجانبدار رہے۔ لیون پنیٹا نے بدھ کے چین حکام کو یقین دلایا کہ وہ چین کی طاقت کو کم نہیں کرنا چاہتے بلکہ خطے میں چین کے کردار کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ آرمی انجنیئرنگ کالج میں کیڈٹوں سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ دنیا کے بڑے معاشی طاقت ہونے کے ناطے دونوں ملکوں کے افواج کے مابین قریبی تعلقات ہونے چاہیے تاکہ غیر ضروری تنازعات پیدا نہ ہو۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کی کوشش ہے کہ چین کے پیپلز لبریشن آرمی کے ساتھ مراسم بڑھائے۔ اس سے پہلے چین امریکہ کے ساتھ اعلیٰ سطح پر عسکری تعلقات قائم کرنے سے کتراتا تھا۔ . اسی بارے میں متعلقہ عنوانات چین کی سرکاری میڈیا کے مطابق ملک کے نائب صدر اور کمیونسٹ پارٹی کے ممکنہ سربراہ شی جنپنگ نے مشرقی بحیرہ چین میں متنازع جزائر کے معاملے پر جاپان کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنا رویہ ٹھیک کرے اور چین کی خود مختاری میں مداخلت نہ کرے۔ text: ان کا کہنا تھا کہ اگر خدا ہوتا تو اتنے بڑے پیمانے پر تباہی کی اجازت نہ دیتا۔ لیکن بری طرح متاثر ہونے والے علاقوں میں بہت سے افراد کا کہنا کہ ان کا ایمان متزنزل نہیں ہوا۔ ایک ہندو استانی گیتا مہیشورم کے دوست اور خاندان کے افراد سونامی میں ہلاک ہو گئے۔ سری لنکا میں ان کے ادارے کے پچانوے بچے بھی اس طوفان میں بہہ گئے لیکن وہ کہتی ہیں کہ یہ ہونا ہی تھا اور اس کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہونے والی تباہی سمجھ سے باہر ہے لیکن ہم خدا کو اس کا قصوروار نہیں ٹھہرا سکتے۔ گیتا نے کہا کہ یہ تباہی لکھی جا چکی تھی اور اب اہم سوال یہ کہ ہم جو ہو چکا ہے اس سے کیسے نمٹتے ہیں۔ گیتا نے کہا کہ ہندومت میں بنانے والے اور تباہ کرنے والے خدا کا تصور موجود ہے اور اسی لیے ہندوؤں نے مذہب کے بارے میں سوالات نہیں اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ اس زندگی کا خاتمہ ہندوؤں کے نزدیک مکمل خاتمہ نہیں ہےاور ان کا ایمان ہے کہ ابھی بہت سی زندگیاں باقی ہیں۔ ایک اور شخص جن کا قدرتی آفت کا سامنا کرنے کے بعد ایمان نہیں ڈولا پانچ بچوں کے باپ اکسٹھ سالہ اکبر ہیں۔ اکبر ایران کے شہر بام کے باسی ہیں جہاں گزشتہ سال زلزلے میں تیس ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا زلزلے میں بچ جانا معجزا تھا لیکن اگر وہ ہلاک بھی ہو جاتے تو ان کے خاندان والے اسے خدا کی مرضی قرار دیتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ مسلمان ہیں اور مسلمان خدا کی مرضی کا تابع ہوتا ہے۔ اکبر نے کہا کہ بام میں زلزلے کے بعد لوگوں نہ سوچا کہ شاید خدا نے انہیں بھلا دیا ہے لیکن کچھ ہی دنوں میں ان کا خدا پر ایمان پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ زلزلے کے بعد بام میں مذہبی تقریبات میں لوگوں کی حاضری پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے۔ ایک عیسائی تنظیم یونائٹڈ سوسائٹی کے ایڈگر رُوڈاک نے عیسائیوں پر زور دیا کہ انہیں اپنا ایمان نہیں چھوڑنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آرچبشپ رووان ولیمز نے بھی کہا کہ اس صورتحال میں ذہن میں سوال اٹھنا فطری بات ہے۔ روڈاک نے کہا کہ یہ ٹیکٹانک پلیٹوں کا اٹھنا ہی تھا کہ زمین پانی سے باہر آئی اور زندگی ممکن ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ مسیح نے بھی صلیب پر خدا کو پکارا تھا کہ اس نے ان کو چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے کہا عیسائیت کے مطابق خدا انسانوں کے ساتھ مل کر مشکل کا سامنا کرتا ہے، ان کے ساتھ روتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانوں کو مشکل کو بھلا کر بہتر مستقبل کی طرف بڑھنے کی دعوت بھی دیتا ہے۔ بحر ہند میں سونامی کی تباہی کو لا مذہب افراد خدا کے نہ ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کر ہے ہیں۔ text: امریکی جاسوس طیارہ گلوبل ہاک ہتھیاروں سے لیس نہیں ہے لیکن اس کے بارے میں راز داری برتری جا رہی ہے پائلٹ کے بغیر اڑنے والا گلوبل ہاک طیارہ تیل کے ایک ٹینک میں آدھی دنیا کے گرد چکر لگا سکتا ہے اور 60 ہزار فٹ بلندی سے کسی شخص کی نگرانی کر سکتا ہے چاہے اس وقت بادل ہی کیوں نہ چھائے ہوئے ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ بین الاقوامی فضائی حدود میں رہتے ہوئے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی نشاندہی کر سکتا ہے یا شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کی نگرانی کر سکتا ہے۔ گرینڈ فوکس فوجی اڈے میں ڈرون آپریشنز کے سربراہ کرنل لارنس سپینٹا کے مطابق ہاک 24 گھنٹے روزانہ کی بنیاد پر اعلیٰ فیصلہ سازوں کو بہت ہی زبردست انٹیلی جنس معلومات فراہم کر سکتا ہے۔ تاہم ان معلومات کے بارے میں تفصیل نہیں بتائی گئی۔ بعض امریکیوں کو اپنے ملک میں جاسوسی کے لیے ڈرون طیاروں کے استعمال پر تشویش ہے۔ امریکہ میں 17 ریاستوں نے ڈرون طیاروں کے استعمال کو محدود کرنے کے بارے میں قانون سازی کی ہے تاہم کم گنجان آباد ریاست شمالی ڈکوٹا کی پالیسی ڈرون طیاروں کے بارے میں نرم ہے اور یونیورسٹی آف نارتھ ڈکوٹا امریکہ کی پہلی درس گاہ ہے جس نے ڈرون طیاروں کو کنٹرول کرنے کا کورس متعارف کرایا ہے۔ گلوبل ہاک ہتھیاروں سے مسلح نہیں ہے لیکن پھر بھی اس کے استعمال پر بہت راز داری برتری جا رہی ہے۔ اس فوجی اڈے پر بہت ہی کم شواہد ہیں کہ امریکی فوج رازداری کو ختم کرنے والی ہے حتیٰ کہ امریکی فضائیہ کے عملے نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کے لیے اپنے نام کے بیج بھی ہٹا دیے۔ ہمیں کہا گیا ہے کہ اپنے ریکارڈنگ آلات، کمیرے، موبائل فون ایک طرف رکھ دیں کیونکہ ہمیں وہ جگہ دکھائی جانی تھی جہاں سے گلوبل ہاک طیارے اڑائے جاتے ہیں۔ باہر سے یہ کسی کنٹینر کی طرح دکھائی دیتی ہے لیکن اندر سے یہ بڑی سکرینز نصب تھیں لیکن ہماری آمد پر ان سکرینز کو بند کر دیا گیا۔ اس آپریشنل روم کے باہر ایک آہنی دروازہ تھا اور اس میں کوڈ کے اندراج کے بعد اندر جا سکتے ہیں۔ تاہم ہمیں ایک مشن کو دیکھنے کی اجازت دی گئی جو ایک پائلٹ اپنے ڈیسک سے سرانجام دے رہا تھا۔ وہاں موجود پائلٹس میں سے ایک نے تسلیم کیا کہ یہاں بیٹھ کر آپ ایسا محسوس نہیں کر سکتے جیسا کہ ایک جہاز میں بیٹھا ہوا پائلٹ کرتا ہے لیکن یہاں بیٹھنے کے دیگر فائدے ہیں۔ فضائی عملے کی اس بارے میں رائے مثبت تھی کہ وہ گھر میں رہنے کی سہولت یا خاندان کو اپنے پیچھے چھوڑے بغیر دنیا میں کسی بھی جگہ سے کوئی مشن اڑا سکتے ہیں۔تاہم اگر کسی پائلٹ کی اپنے مشن پر پوری توجہ ہوتی ہے لیکن پھر بھی وہ کسی حد تک اس سے اپنے آپ کو الگ محسوس کرتے ہیں۔ بغیر پائلٹ کےڈرن طیاروں کا مستقبل نیٹو کے ممبر ممالک ایک ارب ستر کروڑ ڈالر مالیت کے پانچ گلوبل ہاک طیارے خرید رہے ہیں جو دو ہزار سترہ میں یہ امریکہ سے پرواز کرتے ہوئے اٹلی کے جزیرے سسلی پہنچیں گے جہاں ان کو سمندری نگرانی اور زمین پر موجود فوجیوں کی مدد کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔ ڈرون تیار کرنے والے چاہتے ہیں کہ وہ ان خصوصیات کو اجاگر کریں کہ ان ڈرون طیاروں کو میدان جنگ کے علاوہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ گلوبل ہاک پروگرام کو چلانے میں مدد فراہم کرنے والے بوب زویسر کے مطابق یہ ڈرون قدرتی آفات کے بعد کے حالات سے نمٹنے میں استعمال ہوا ہے۔ مسلح ڈرون حملوں کا استعمال پرسرار ہلاکتوں کی وجہ سے بہت ہی متنازع ہے سال دو ہزار دس میں ہیٹی میں آنے والے زلزلے کے بعد ایک طیارے نے علاقے میں نقصان کا جائزہ لیتے ہوئے امدادی سرگرمیوں کی رہنمائی کی تھی۔ ’یہ کیلی فورنیا سے پرواز کرتے ہوئے واپس آنے سے پہلے اس ملک کا تین بار جائزہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ابھی حال ہی میں ایک گلوبل ہاک جاپان کے زلزلے اور سونامی سے متاثرہ جوہری بجلی گھر فوکوشیما کا جائزہ لینے کے لیے استعمال کیا گیا‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ابھی عوام میں ان ڈرون طیاروں کے استعمال کی حمایت حاصل کرنے کے حوالے سے چیلنجنز درپیش ہیں تاہم ان کے بارے میں منفی رائے پر اس طرح سے قابو پایا جا سکتا ہے کہ لوگوں کو دکھایا جائے کہ ڈرون طیارے محفوظ ہیں اور لوگوں کو نقصان پہنچائے بغیر اچھے کاموں میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ تاہم اس بارے میں اب بھی بہت سارے سوالات موجود ہیں کہ ڈرون طیارے کس طرح سے شہری فضائی حدود میں محفوظ طریقے سے کام کر سکتے ہیں اور ہمارے جیسے لوگ کیا محسوس کریں گے کہ آسمان سے ایک نا جھپکنے والی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے۔ بی بی سی کو امریکی ریاست شمالی ڈکوٹا میں واقع گرینڈ فوکس ایئربیس میں امریکی فوج کے جدید ترین جاسوس طیارے گلوبل ہاک کو دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ text: کوفی عنان کا یہ بیان ایک رپورٹ کا حصہ ہے جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں گزشتہ ماہ منظور ہونے والی قرارداد کے بعد تیار کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غرب اردن میں فصیل کی تعمیر کے بعد فلسطینی کئی قطعات زمین، ہسپتالوں اور اسکولوں سے محروم ہو گئے ہیں۔ کوفی عنان کا کہنا ہے کہ باڑوں، دیواروں خاردار تاروں اور خندقوں کی تعمیر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور اس سے طویل مدت تک قیام امن کی کوششوں کو زک پہنچے گی۔ ’اب جبکہ نقشہ راہ پر کام ہو رہا اور فریقین کو اعتماد کی بحالی کے لئے خیرسگالی کے اقدامات اٹھانے چاہئے تھے، غرب اردن میں فصیل کی تعمیر کو ایک ایسے فعل کی طرح دیکھا جانا چاہیے جس کے اثرات برے ہی ہوں گے۔‘ اسرائیل کا کہنا ہے کہ چھ سو کلو میٹر لمبی فصیل اس کے شہریوں کو خودکش بمباروں سے بچانے کے لئے بہت ضروری ہے۔ جمعرات کے روز اسرائیل کے وزیرِ اعظم ایریل شیرون نے کہا تھا کہ وہ غربِ اردن میں متنازعہ حفاظتی فصیل پر کام جاری رکھیں گے۔ اسرائیل اخبارات کو دیئے گئے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ حفاظتی فصیل ’ریاست کی سیکورٹی کے لیئے ضروری ہے‘۔ اس سے قبل ایک اعلیٰ اسرائیلی اہلکار نے کہا تھا کہ اسرائیل غربِ اردن میں کچھ نئی بستیاں تعمیر کرنے کے منصوبے کو منظور کرنے والا ہے۔ واضح رہے کہ یہ بستیاں واشنگٹن کے حمایت یافتہ امن منصوبے کی خلاف ورزی ہیں۔ امریکہ نے پہلے ہی کہا ہے کہ وہ بستیوں کی تعمیرات کے جاری رہنے کی وجہ سے اسرائیل کو دیے جانے والے قرضوں کی گارنٹی میں کمی کرنے والا ہے۔ شیرون نے کہا کہ اسرائیل امن کے نقشۂ راہ کے تحت کچھ فلسطینی علاقے خالی کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا: ’میں ماضی میں بھی تکلیف دہ رعایات کی ضرورت کی بات کرتا رہا ہوں۔ یہ صاف ہے کہ مستقبل میں ہم ان جگہوں پر نہیں ہوں گے جن پر ہم اب موجود ہیں۔‘ نقشۂ راہ کے مطابق اسرائیل کو 2001 سے غربِ اردن میں قائم درجنوں ناجائز چوکیاں خالی کرنا پڑیں گی اور نئی بستیوں میں تعمیر کا کام روکنا ہو گا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے کہا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں حفاظتی فصیل کی تعمیر سے برے نتائج سامنے آئیں گے۔ text: علیحدگی پسند تنظیم کل جماعتی حریت کانفرنس کے سخت گير دھڑے کے رہنما سید علی شاہ گيلانی نے اس حوالے سے جمعہ کی نماز کے بعد پوری وادی میں احتجاجی مظاہروں کی اپیل کی ہے ۔ حریت کانفرنس نے عوام کی رضاکارانہ مدد سے سے مسجد کی از سرنو تعمیر کی پیش کش بھی کی ہے۔ یہ قلعہ سری نگر شہر کے قلب میں کوہِ ماراں نامی پہاڑی پر واقع ہے اور اسے مغل بادشاہ اکبر نے تعمیر کرایا تھا۔ آثارِ قدیمہ کے محکمے کے ماہرین نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مسجد بہت بوسیدہ اور خستہ حال ہو چکی ہے ۔ مقامی باشندوں میں ناراضگی اس لیے زیادہ ہے کہ یہ تاریخی قلعہ گزشتہ سترہ برسوں سے نیم فوجی دستوں کے قبضے میں رہا ہے ۔ اسے ایک ہفتے قبل عالمی یوم وراثت کے موقعہ پر عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا لیکن جب مسجد کی بوسیدہ حالی عوام کی توجہ اپنی طرف کھینچنے لگي تو قلعہ ایک بار پھر بند کر دیا گیا ۔ محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر خورشید قادری نے بی بی سی کو بتایا ’ قلعے کو اس کی پرانی حالت ميں بحال کیا جائےگا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسجد بھی ازسرنو تعمیر کی جائے گي‘۔ انہوں نے بتایا کہ قلعے کی بحالی اور مرمت گزشتہ ایک برس سے جاری ہے’ہم لوگوں نے اوپری منزل سے کام کا آغاز کیا ہے جبکہ مسجد نچلی منزل پر ہے‘۔ ہندوستان کے زیرِانتظام جموں و کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں واقع سولہویں صدی کے قلعے کے اندر موجود ایک مسجد کی تباہ حالی پر کشمیری عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ text: پاکستان کو انگلینڈ کے خلاف تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں ایک صفر سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ تین ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں کی سیریز ایک ایک سے برابر رہی تھی۔ لیکن مصباح سمجھتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم کو ٹیسٹ سیریز ایک صفر سے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز دو صفر سے جیتنی چاہیے تھی۔ یہ بھی پڑھیے ڈریسنگ روم سے مشورے، پیغامات نہیں آتے: بابر اعظم کچھ چیزیں تجربے سے ہی آتی ہیں! حیدر علی: ’یہ سپیشل ٹیلنٹ معلوم ہوتا ہے‘ مصباح: بابراعظم اپنے فیصلے خود کررہے ہیں مصباح الحق نے پیر کو لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں سب سے زیادہ تکلیف اس بات پر ہے کہ پاکستانی ٹیم پہلے ٹیسٹ میں انگلینڈ کی پانچ وکٹیں حاصل کرنے کے بعد جیتنے کی پوزیشن میں آگئی تھی لیکن اس پوزیشن میں سے ٹیسٹ کا ہاتھ سے نکل جانا ان کے لیے سب سے تکلیف دہ بات ہے جس کا انھیں ہمیشہ افسوس رہے گا۔ مصباح الحق نے کہا کہ ’جب آپ جیتی ہوئی پوزیشن میں آکر ٹیسٹ ہارتے ہیں تو پھر ٹیم کے لیے فوری طور پر کم بیک کرنا آسان نہیں ہوتا لیکن ٹیم اس سے فوری طور پر سنبھلی اسی طرح ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بھی ایک میچ ہارنے کے بعد اس نے اگلے میچ میں کامیابی حاصل کی۔ مصباح الحق نے کہا کہ ممکن ہے کہ اب بھی وہ نتائج سامنے نہیں آئے ’جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود وہ مطمئن ہیں کہ ٹیم صحیح سمت میں جا رہی ہے۔ 'صرف عمر کی بنیاد پر کرکٹرز کو نظر انداز نہیں کرسکتے' مصباح الحق نے ٹی ٹوئنٹی ٹیم کے بارے میں کہا کہ جب وہ ہیڈ کوچ بنے اس وقت بھی ٹیم عالمی رینکنگ میں نیچے آرہی تھی اور ہار رہی تھی اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹیم کو عالمی نمبر ایک بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والے فخرزمان، شاداب خان اور حسن علی کی کارکردگی میں فرق آگیا تھا۔ ’یہ تینوں آؤٹ آف فارم تھے لیکن انگلینڈ کے دورے میں ٹیم جس طرح دونوں ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹیم دوبارہ تیار ہو رہی ہے اور ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ ٹیم کو اوپر لانا ہے۔‘ انگلینڈ میں ٹی ٹوئنٹی میچرز کے دوران سوشل میڈیا پر پاکستانی صارفین کی جانب سے شعیب ملک کی عمر اور کارکردگی کا کافی ذکر رہا مصباح الحق کا کہنا ہے کہ اس دورے میں کئی پہلو حوصلہ افزا رہے ہیں۔ ان کی نوجوان کھلاڑیوں پر توجہ ہے اور انھیں یقین ہے کہ سینیئر اور نوجوان کھلاڑیوں کے امتزاج سے ایک اچھا کامبی نیشن تیار ہوجائے گا۔ ’نوجوان کھلاڑیوں کو مستقبل میں بھی مواقع دینے کا سلسلہ جاری رہے گا‘ مصباح الحق کا کہنا ہے کہ پاکستانی ٹیم نے جس طرح دونوں ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں ایک سو نوے سے اوپر سکور کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیم صحیح سمت میں جارہی ہے۔ مصباح الحق کا کہنا ہے کہ نوجوان بولرز پر صحیح انویسٹمنٹ ہو رہی ہے۔ ’وقت کے ساتھ ساتھ ان بولرز میں تجربہ اور پختگی آتی جائے گی۔ یہ ایک عمل ہے جس کے لیے صبر و تحمل کی ضرورت ہے۔‘ انھوں نے نسیم شاہ کے بارے میں کہا کہ اس نوجوان بولر نے ڈومیسٹک کرکٹ میں بہت اچھی کارکردگی دکھائی اسی لیے وہ اوپر آئے ہیں۔ ’وہ اس وقت موجود فاسٹ بولرز میں سب سے اچھے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’نسیم شاہ اور شاہین آفریدی کو اینڈرسن اور براڈ جیسی پرفارمنس دینے میں وقت لگے گا۔ ہمیں اس بارے میں کنفیوژ نہیں ہونا۔‘ مصباح الحق نے سینیئر کھلاڑیوں کے بارے میں کہا کہ کسی بھی کھلاڑی کو صرف عمر کی بنیاد پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی پڑھیے وہاب ریاض وہ بولر نہیں جنھیں بھلا دیا جائے ’جانی جتنا بتاتے وہ میرے بارے میں اتنا برا بھی نہیں ہوں۔۔۔‘ ’لیکن تب تک سبھی محمد عامر بن چکے تھے‘ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر کے مطابق ’اس وقت نمبر ایک وکٹ کیپر رضوان کے بعد دوسرے نمبر کے وکٹ کیپر سرفراز ہیں‘ ’محمد حفیظ، شعیب ملک اور وہاب ریاض کو مواقع دیے جارہے ہیں اور اگلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کو ذہن میں رکھتے ہوئے مختلف کامبی نیشن دیکھے جارہے ہیں اور ورلڈ کپ تک تصویر واضح ہوجائے گی کہ بہترین پندرہ کھلاڑی کونسے ہوں گے۔۔۔ محدود اوورز کی کرکٹ میں وہاب ریاض کا اب بھی کردار موجود ہے اور انھوں نے آخری ٹی ٹوئنٹی میں بہت ہی عمدہ بولنگ کی۔‘ سرفراز احمد بھی پلان کا حصہ ہیں ’اس وقت نمبر ایک وکٹ کیپر رضوان کے بعد دوسرے نمبر کے وکٹ کیپر سرفراز ہیں۔ انگلینڈ کے دورے میں سرفراز احمد کو صرف برائے نام موقع نہیں دیا گیا اور نہ ہی آپ صرف ایک میچ کی بنیاد پر کسی بھی کھلاڑی کے بارے میں نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں۔‘ مصباح الحق نے بابراعظم کے بارے میں کہا کہ ’باہر سے ان پر فیصلے مسلط نہیں کیے جارہے۔ بابراعظم اپنے فیصلے خود کر رہے ہیں اور جب تک وہ اپنے فیصلے خود نہیں کریں گے وہ نہیں سیکھیں گے۔‘ مصباح الحق نے یہ بات واضح کر دی کہ ٹیم مینیجمنٹ سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید اور تبصروں کے دباؤ میں آکر فیصلے نہیں کرتی۔ بڑی تعداد میں کوچنگ سٹاف کے بارے میں مصباح الحق کا کہنا ہے کہ اس دورے میں 29 کھلاڑیوں کی موجودگی کی وجہ سے یہ ضروری تھا۔ ’ماضی میں یہ ہوتا رہا ہے کہ پہلے چھ نمبر کے بلے بازوں کو بیٹنگ پریکٹس کرا دی اور بس۔ ’لیکن اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ گیارہویں نمبر کے بلے بازوں کو بھی بیٹنگ کی مناسب پریکٹس کرائی جائے۔ دیگر ڈرلز کے لیے ٹیم میں مناسب تعداد میں کوچنگ سٹاف کا ہونا اب ضروری ہوگیا ہے۔‘ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق کا کہنا ہے کہ انھیں انگلینڈ کے دورے میں ٹیسٹ سیریز اور ٹی ٹوئنٹی سیریز نہ جیتنے کا بہت زیادہ افسوس ہے۔ text: دونوں ملکوں نے مشرق وسطی میں دیرپا امن کے قیام کا اور کشمیر کے مسئلے کے منصفانہ حل کی ضرورت پر زور دیا۔ اپنے دو روزہ دورہ پاکستان کے دوران اسلام آباد میں پاکستان حکام سے بات چیت کے بعد سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ عبداللہ نے دہشت گردوں کو اسلام کے دشمن قرار دیا جو، ان کی رائے میں، اسلامی تہذیب اور تقافت کو نقصان پہنچانے کے در پے ہیں۔ اس موقع پر پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معاملہ فہمی اور دروں بینی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ عراق کے مسئلے پر پاکستان اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ نے کہا ہے کہ ان کے ملک فوجیں بھیجنے کے لئے عراق عوام کی طرف سے درخواست کا انتظار کریں گے۔ پاکستان اور سعودی عرب نےاس عزم کا اظہار کیا ہے کہ دونوں ملک مل کر دہشت گردی کا خاتمہ کریں گے۔ text: ٹاؤنز وِل میں سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے گھروں کا ایک منظر 'صدی میں ایک بار آنے والے' اس سیلاب کے نتیجے میں متاثرہ قصبے سے 1100 سے زائد افراد کو نکالا جا چکا ہے۔ اتوار کو حکام نے ایک ڈیم کے بند کھول دیے جو کہ ایک ہفتے پر محیط ریکارڈ بارشوں کی وجہ سے اپنی گنجائش سے دوگنا بھر گیا تھا۔ حکام کے مطابق آئندہ دنوں میں مزید تیز بارشیں متوقع ہیں جبکہ 20 ہزار سے زائد گھروں کے زیرِ آب آنے کا خدشہ ہے۔ یہ بھی پڑھیے آسٹریلیا کے موسموں کی دلفریب عکس بندی آسٹریلیا میں طوفان کے بعد سیلاب آسٹریلیا میں ’ڈیبی‘ کی تباہ کاریاں امدادی کارکنوں اور فوج کا کہنا ہے کہ انھیں ایک ہزار سے زائد مدد کے منتظر افراد کی کالز آئی ہیں۔ کوئنزلینڈ کے وزیرِ ماحولیات لیانی اینوچ کا کہنا ہے کہ 'مگرمچھ سڑک عبور کرتے ہوئے نظر آ سکتے ہیں اور جب سیلاب کم ہو گا تو یہ غیر متوقع جگہوں جیسا کہ زیرِ کاشت رقبوں، ڈیموں یا پانی کے گڑھوں میں بھی آ سکتے ہیں۔' ٹاؤنز وِل نامی قصبے میں موجود سیلابی پانی میں سڑک پر مگرمچھ دیکھا گیا ہے ان کے مطابق 'اسی طرح سانپ بہت اچھے تیراک ہوتے ہیں اور وہ بھی غیر متوقع جگہوں پر اچانک ظاہر ہو سکتے ہیں۔' ایک مقامی شخص ایرن ہان نے ایک مگرمچھ کی تصاویر شیئر کی ہیں جن میں وہ ان کے والد کے گھر کے صحن میں موجود کم گہرے پانی میں بیٹھا ہے۔ ایک اور مگرمچھ کی سیلابی پانی میں ایک درخت پر چڑھتے ہوئے تصاویر لی گئی تھیں۔ مقامی پولیس نے بھی لوگوں کو سیلابی پانی میں موجود دوسرے خطرات جیسا کہ گٹروں کے پانی کے رساؤ سے بھی متنبہ کیا ہے۔ گذشتۃ ہفتے ٹاؤنز ول میں ایک میٹر (یا 3.3 فٹ) بارش ہوئی جو کہ سال کے اس دورانیے میں ہونے والی بارشوں سے 20 گنا زیادہ ہے۔ کوئنزلینڈ کی وزیرِاعلیٰ اینسٹاکیا پیلا شے کہتی ہیں کہ 'ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا، ہم نے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔' لوگ اسے طوفانِ نوح کا نام دیے رہے ہیں انھوں نے کہا: 'بنیادی طور پر یہ صرف دو دہائیوں میں نہیں بلکہ ایک صدی میں صرف ایک دفعہ رونما ہونے والا واقعہ ہے۔' پانی کی سطح کم کرنے کے لیے اتوار کی شام حکام راس رِیور ڈیم کے بند کھولنے پر مجبور ہو گئے تھے جس سے 1900 مکعب میٹر پانی فی سیکنڈ خارج ہوا تھا۔ ٹاؤنز وِل کے نواحی علاقے اڈیلیا میں گاڑیاں جزوی طور پر سیلابی پانی میں ڈوبی ہوئی دیکھی جا سکتی ہیں شمالی کوئنزلینڈ کی گرم مرطوب آب و ہوا ہے اور یہاں مون سون کی بارشیں دسمبر سے اپریل تک ہوتی ہیں۔ تاہم ٹاؤنزوِل میں موجودہ موسمی صورتحال انتہائی غیر معمولی ہے۔ آسٹریلیا کے محکمہ موسمیات کے مطابق مون سون کی بارشیں ریاست کے ان حصوں میں نہیں برسیں جو کہ سخت خشک سالی کا شکار ہیں۔ آسٹریلیا میں جنوری کا مہینہ سب سے گرم تھا۔ جنوبی شہر ایڈیلیڈ میں درجہ حرارت پہلے 47.7ٰٰ سیلسیس اور پھر 49.5 ریکارڈ ہوا جس سے اس شہر نے زیادہ درجہ حرارت کا اپنا ہی پرانا ریکارڈ ایک ماہ میں دو مرتبہ توڑا۔ امدادی ٹیمیں لوگوں کی مدد کر رہی ہیں گرمی کی وجہ سے جھاڑیوں میں آگ لگنے کے واقعات بھی پیش آئے۔ جزیرہ نما ریاست تسمانیا جو کہ گذشتہ دو ہفتوں سے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے میں آتش زدگی کے ایسے 40 واقعات رونما ہوئے۔ شدید موسمی حالات کی وجہ سے ہسپتالوں میں داخلے، بجلی کی بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ اور بڑے پیمانے پر جنگلی جانوروں کی اموات واقع ہوئی ہیں۔ آسٹریلیا میں ٹاؤنزوِل کے حکام نے علاقہ مکینوں کو سیلابی پانی میں مگرمچھوں اور سانپوں کی موجودگی سے خبردار کیا ہے۔ text: حکام کا کہنا ہے کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب کو شمالی عراق میں پیش آنے والے اس حادثے کا سبب ہیلی کاپٹر میں فنی خرابی تھی اور اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ اسے نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ اس سال جنوری میں دیالہ کے صوبہ میں بلیک ہاک کے گرنے کے بعد سے امریکی فوجی ہیلی کاپٹر کا سب سے بڑا حادثہ ہے۔ عراق میں کسی ہیلی کاپٹر کی تباہی کا سب سے بڑا حادثہ جنوری دو ہزار پانچ میں پیش آیا تھا جب اردن کے ساتھ سرحد کے قریب ایک سپر سٹالین گر گیا تھا۔ اس حادثے میں تیس میرین فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ فوجی حکام کا کہنا تھا کہ بدھ کو علی الصبح کی جا رہی کارروائی میں دو بلیک ہاک ہیلی کاپٹر حصہ لے رہے تھے۔ تباہ ہونے والے ہیلی کاپٹر میں عملے کے چار ارکان کے علاوہ دس دیگر فوجی بھی سوار تھے جن کا تعلق اتحادی ٹاسک فورس سے تھا۔ اگرچہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ حادثہ تکنیکی خرابی کے باعث پیش آیا تاہم فوجی حکام کا کہنا ہے کہ واقعہ کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ ابھی تک حتمی طور پر معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ ہیلی کاپٹر کس جگہ گِرا تاہم حادثے کے بارے میں جاری ہونے والا بیان تکریت میں مقیم کثیرالاالقوامی فوج کی شمالی ڈویژن کی طرف آیا ہے۔ بغداد میں بی بی سی کے نامہ نگار مائیک وولرج کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ہیلی کاپٹروں کے یکے بعد دیگرے حادثات سے یہ ظاہر ہوتا ہے ان پر امریکی فوج کا دار و مدار بہت زیادہ ہے اور یہ کہ اس کے ہیلی کاپٹر زیادہ قابل بھروسہ نہیں ہیں۔ عراق میں امریکی فوج نے کہا ہے کہ منگل اور بدھ کی درمیانی رات میں ایک کارروائی کے دوران ’بلیک ہاک‘ قسم کے ہیلی کاپٹر کی تباہی سے اس کے چودہ فوجی ہلاک ہوگئے ہیں۔ text: اصل جہاز کو ہارلینڈ اور وولف نے بیلفاسٹ میں تیار کیا تھا جو بحر اوقیانوس میں حادثے کا شکار ہو گیا تھا 269 میٹر لمبے بحری جہاز کی نقل تیار کرنے کا کام منگل کو چین کے شیچوان صوبے کے ایک دیہی علاقے میں شروع کر دیا گيا ہے۔ یہ جہاز مستقل طور پر وہاں پانی کے اندر رہے گا۔ چین میں روسی تھیم پارک 'نوح کی کشتی' تھیم پارک میں خیال رہے کہ اصل بحری جہاز کو ہارلینڈ اور وولف کمپنی نے آئرلینڈ کے شہر بیلفاسٹ میں تیار کیا تھا جو اپنے پہلے سفر پر ہی بحر اوقیانوس میں حادثے کا شکار ہو گیا تھا اور اس پر سوار 1500 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ جہاز اپنے پہلے سفر پر ساؤتھیمپٹن سے نیویارک کے لیے روانہ ہوا تھا کہ وہ برفانی تودے سے ٹکرا کر غرق ہو گیا۔ ٹائٹینک کی نقل والا جہاز مستقل طور پر شیوشوان صوبے کے ایک آبی زخیرے میں رہے گا اس جہاز کی کہانی میں چین کے بہت سے لوگوں کی زبردست دلچسپی ہے۔ اس دلچسپی میں سنہ 1997 میں اداکارہ کیٹ ونسلیٹ اور اداکار لیونار.و ڈی کیپریو کی فلم کے بعد سے خصوصی اضافہ ہوا اور یہ فلم وہاں بہت مقبول ہوئی تھی۔ فلم کے ہدایت کار جیمز کیمرون نے اس جہاز کی 90 فیصد نقل تیار کی تھی لیکن آج تک اس کی مکمل نقل تیار نہیں کی گئی ہے۔ آسٹریلیا کے ارب پتی کلائیو پامر نے سنہ 2012 میں اس کی ہو بہو نقل تیار کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن وہ منصوبہ ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔ کمپنی نے پہلے پہل سنہ 2014 میں اس ایک ارب یوان کے منصوبے کا اعلان کیا تھا چینی نقل میں اصل جہاز کے اندر پرتعیش آرائش و آسائش اور جاہ جلال کے مظاہرے نظر آئيں گے جن میں بال روم، تھیئٹر، سوئمنگ پول، اور فرسٹ کلاس کیبن شامل ہیں۔ اس میں وائی فائی اضافی سہولت ہو گی اور یہ چین کے ساحل سے سینکڑول میل دور ایک تھیم پارک میں لوگوں کی توجہ کا مرکز ہو گا۔ خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کمپنی نے پہلے پہل سنہ 2014 میں اس ایک ارب یوان کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ یہ جہاز اپنے پہلے ہی سفر پر ساؤتھمپٹن سے نیویارک کے لیے روانہ ہوا تھا کہ برفانی تودے سے ٹکرا کر غرق ہو گیا خیال رہے کہ چین میں اندرون ملک سیاحت فروغ پر ہے کیونکہ حکومت ترقی کے پرانے ماڈل سرمایہ کاری اور صنعت کے بجائے صارفین کی بنیاد پر ترقی پر زور صرف کر رہی ہے۔ چین کے ایک تھیم پارک میں معروف بحری جہاز ٹائٹینک کی ہو بہو نقل سیاحوں کی توجہ کا اہم مرکز ہونے جا رہی ہے۔ text: لیڈی گاگا ماہر پیشہ ور ڈاکٹروں کی نگرانی میں ہیں تکلیف کے باعث برازیل کے شہر ریو میں ہونے والے راک فیسٹیول میں ان کا موسیقی کا پروگرام منسوخ ہو گيا ہے۔ انسٹاگرام پر اپنے مداحوں کے نام ایک پیغام میں لیڈی گاگا نے لکھا ہے: 'میں آپ کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتی ہوں لیکن فی الوقت مجھے اپنے جسم کا خیال رکھنا ہو گا۔' حال ہی میں 31 سالہ فنکارہ نے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ وہ فائبرومائیلجیا مرض میں مبتلا ہیں، یہ ایک ایسی بیماری ہے جس سے پورے بدن میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ ان کے انسٹاگرام کے صفحے پر ایک بیان میں کہا گيا ہے: 'لیڈی گاگا کے بدن میں شدید قسم کا درد ہے جس کی وجہ سے ان کی پرفارم کرنے صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔ نتیجتاً انھیں ریو میں جمعے کو ہونے والے 'راک ان ریو' کے پروگرام سے افسوس کے ساتھ الگ ہونا پڑا ہے۔ 'لیڈی گاگا ماہر پیشہ ور ڈاکٹروں کی نگرانی میں ہیں۔ وہ ریو میں اپنے تمام مداحوں کو پیار بھیجتی ہیں اور ان کی حمایت کے لیے ان کی شکر گزار ہیں۔' گلوکارہ نے اس سلسلے میں اپنی ایک تصویر بھی پوسٹ کی ہے جس میں ان کے بازو میں لگی ہوئی ڈرپ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے: 'برازیل، مجھے اس بات کا سخت صدمہ ہے کہ میں 'راک ان ریو' ميں شرکت کے لیے پوری طرح فٹ نہیں ہوں۔' 'میں اس موقع پر آپ کی شفقت اور سمجھ داری کی متمنی ہوں اور وعدہ کرتی ہوں کہ میں جلد ہی واپس آ کر آپ کے لیے پرفارم کروں گی۔ مجھے بہت افسوس ہے، اور ہمیں آپ سے بہت پیار ہے۔' لیڈی گاگا نے اس ماہ کے اوائل میں بیماری کے سبب کینیڈا کے شہر مونٹریال میں ہونے والے اپنے ایک شو کو منسوخ کر دیا تھا۔ اکتوبر میں ان کا ایک برطانیہ کا دورہ بھی طے ہے جبکہ حالیہ دنوں میں وہ ایک دستاویزی فلم 'گاگا: فائیو فٹ ٹو' کے پروموشن میں بھی مصروف رہی ہیں۔ یہ فلم امریکہ میں تو پہلے ہی ریلیز ہو چکی ہے جبکہ برطانیہ میں یہ 22 ستمبر کو ریلیز ہونے والی ہے۔ یہ فلم لیڈی گاگا کی زندگی پر مبنی ہے جس میں ان کی موسیقی کے کریئرکا احاطہ کیا گيا ہے۔ معروف پاپ گلوکارہ لیڈی گاگا کو جسم میں شدید درد کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کر دیا گیا ہے۔ text: فٹبال کے عالمی ادارے فیفا کی اس تین رکنی ٹیم میں فیفا کے ڈویلپمنٹ مینیجر، دستاویزی فلم کی انچارج لیسلی لٹل اور ایک کیمرہ پرسن سوسن بارٹ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے اس دورے میں انہوں نے کراچی میں کچھ فٹبالر خواتین کے گھر جا کر ان کے والدین سے انٹرویو کیا۔ ’ان کھلاڑی خواتین کا تعلق غریب گھرانوں سے تھا اور ہم نے دیکھا کہ فٹبال کھیلنے اور اس کی تربیت کے لیئے ان خواتین کو کافی کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے‘۔ محسن گیلانی نے کہا کہ مسلمان ممالک میں خواتین کو کھیلوں میں آنے کے لیئے جن پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے لیئے مختلف کھلاڑیوں سے بھی انٹرویو کیے جا رہے ہیں۔ محسن گیلانی نے کہا کہ اس فلم کے لیئے آٹھ مسلم ممالک کو چنا گیا ہے اور یہ فلم ورلڈ کپ کے دوران دکھائی جائے گی۔ اس ٹیم نے اپنے کام کے پہلے مرحلے میں اکیس مئی کو کراچی میں سندھ کی وومین فٹ بال اسوسی ایشن کی سیکرٹری سعدیہ شیخ سے ملاقات کی۔ سعدیہ شیخ نے فلم بنانے کے لیئے ایک وومن فٹبال میچ کا انعقاد کیا تھا۔ اپنے دورے کے دوسرے مرحلے میں یہ وفد پیر کو اسلام آباد میں خاتون اول بیگم صہبا مشرف سےانٹرویو کرے گا اور پاکستان فٹبال فیڈریشن کے صدر وفاقی وزیر برائے ماحولیات فیصل صالح حیات سے بھی ملاقات کرے گا۔ اس موقع پر دینا شریف جو کہ 11 سے پندرہ مئی کو اردن میں ہونے والے وومن فسٹل فٹبال ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے والی پاکستان ٹیم کی مینجر ہیں اس دورے سے متعلق اپنی رپورٹ پیش کریں گی۔ یاد رہے کہ اپنے اس پہلے بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں پاکستان کی ٹیم نے حریف ٹیموں سے پندرہ سترہ اور بائیس بائیس گولوں سے مات کھائی تھی۔ اس فیفا ٹیم کے لیئے ایک انڈور میچ پنجاب کی وومن فٹبال ٹیم اور واپڈا کی فٹبال ٹیم کے درمیان 24 مئی کو واپڈا سپورٹس کمپلکس میں منعقد کیا جائے گا اور یہ ٹیم اس میچ کو عکسبند کرکے اپنا تین روزہ دورہ مکمل کرلے گی۔ پاکستان میں وومن فٹ بال کو شروع ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا اور گزشتہ برس پاکستان میں پہلی قومی فٹبال چیمپئن شپ منعقد کی گئی تھی۔ پاکستان فٹبال فیڈریشن نے گراس روٹ پر لڑکیوں میں اس کھیل کو متعارف کروانے اور وومن فٹبال کی ترقی کے لیئے سکولوں اور کالجوں میں وومن فٹبال ٹیمیں بنانے کے بجائے ناتجربہ کار ٹیم کو اردن بین الاقوامی ٹورنامنٹ کھیلنے کے لیئے بھجوادیا تھا جس کا نتیجہ بری ترین شکست کی صورت میں نکلا۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف فٹبال کا ایک تین رکنی وفد پاکستان ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہے۔ یہ وفد پاکستان میں وومن فٹبال کی ترقی اور سرگرمیوں پر ایک دستاویزی فلم بنا رہا ہے۔ text: یہ گرفتاری ریاست اتر پردیش میں حال ہی میں متعارف کروائے گئے متنازع ’لو جہاد‘ قانون کے تحت کی گئی پہلی گرفتاری ہے۔ ’لو جہاد‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جو قدامت پسند ہندو تنظیمیں استعمال کرتی ہیں اور اس سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مبینہ طور پر مسلمان لڑکے پیار محبت اور شادی کے چکر میں پھنسا کر ہندو لڑکیوں کا مذہب جبراً یا دھوکہ دہی کے ذریعے تبدیل کرواتے ہیں۔ لو جہاد کے حوالے سے بنائے گئے قانون کے خلاف کافی غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا کیونکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون کو اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انڈیا میں کم از کم چار اور ریاستیں بھی لو جہاد کے حوالے سے قوانین تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ بھی پڑھیے ہادیہ کا اسلام ’لو جہاد‘ کی مثال؟ ’لڑکیوں کے مذہب کی تبدیلی کے واقعات عشق نہیں ’لو جہاد‘ ہے‘ اشتہار میں مسلمان گھرانے میں ہندو بہو دکھانے پر ایک بار پھر لو جہاد پر بحث اتر پردیش میں پولیس نے بدھ کے روز ٹوئٹر پر مسلمان لڑکے کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔ لڑکی کے والد نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ انھوں نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی ہے کیونکہ لڑکے نے ان کی بیٹی پر مذہب تبدیل کرنے کے لیے 'دباؤ ڈالا' اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں اسے دھمکیاں بھی دیں۔ مذکورہ لڑکی کے مبینہ طور پر ملزم کے ساتھ رومانوی تعلقات تھے تاہم اس سال کے آغاز میں لڑکی کی کسی اور شخص سے شادی کر دی گئی تھی۔ پولیس نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ لڑکی کے خاندان نے گذشتہ برس بھی اس مسلمان لڑکے کے خلاف مبینہ اغوا کا کیس درج کروایا تھا تاہم لڑکی کی بازیابی اور اس کی جانب سے الزام مسترد کیے جانے کے بعد یہ کیس خارج کر دیا گیا تھا۔ بدھ کے روز ملزم کی گرفتاری کے بعد اسے چودہ روزہ عدالتی ریمانڈ پر بھیج دیا گیا ہے۔ ملزم نے رپورٹرز کو بتایا تھا کہ وہ بے گناہ ہے اور اس کا لڑکی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ ’لو جہاد قانون‘ کیا ہے؟ نومبر میں ریاست اتر پردیش انڈیا کی وہ پہلی ریاست بن گئی تھی جس نے ’جبر‘ یا ’دھوکہ دہی‘ کے ذریعے مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون منظور کیا تھا۔ ’لو جہاد‘ قانون کے تحت جرم ثابت ہونے پر ملزم کو دس قید تک کی سزا ہو سکتی ہے جبکہ یہ جرائم ناقابلِ ضمانت ہیں۔ تاہم یہ ریاست شاید اس نوعیت کا قانون لاگو کرنے والی آخری نہ ہو کیونکہ کم از کم مزید چار انڈین ریاستوں، مدھیا پردیش، ہریانہ، کرناٹکا اور آسام، میں اسی نوعیت کے قوانین بنائے جانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ان پانچوں ریاستوں میں انڈیا کی برسراقتدار جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی، کی حکومت ہے۔ اس جماعت پر مبینہ طور پر مسلمان مخالف جذبات کو عام کرتے رہنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون کے غلط استعمال کرنے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ اگرچہ لو جہاد کی اصطلاح انڈین قانون میں موجود نہیں ہے تاہم سخت گیر قدامت پسند ہندو گروہ اس قانون کے لیے یہی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ گذشتہ چند ماہ میں یہ اصطلاح شہ سرخیوں میں رہی ہے۔ اکتوبر میں ایک معروف جیولری برانڈ کو ایک اشتہار منسوخ کیا تھا جس میں بین المذہب شادی (ایک مسلمان لڑکے کی ایک ہندو لڑکی) دکھائی گئی تھی۔ دائیں بازو کی ہندو جماعتوں کی طرف سے یہ الزام عائد کیا گیا کہ یہ اشتہار لو جہاد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ نومبر میں حکام نے نیٹ فلیکس پر بھی یہی الزام لگایا تھا جس میں ایک ٹی وی سیریز ’اے سوٹیبل بوائے‘ میں ایک مسلمان لڑکے اور ایک ہندو لڑکی کی ایک مندر کے سامنے کھڑے بوسے کی عکس بندی کی گئی تھی۔ مدھیا پردیش کے وزیرِ داخلہ ناروتم مشرا کا کہنا تھا کہ اس منظر نے مذہبی جذبات کو مجروح کیا ہے اور حکام سے کہا کہ اس کے خلاف کارروائی جائے۔ بی جے پی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ سنہ 2014 میں نریدر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک میں مذہبی منافرت میں اضافہ ہوا ہے۔ انڈیا میں ہندو مسلم شادیوں پر تنقید تو ہمیشہ سے ہی رہی ہے تاہم اس کے پیچھے دیگر منفی عزائم ہونے کا دعوی قدرے نیا ہے۔ انڈیا کی ریاست اُتر پردیش میں پولیس نے ایک مسلمان لڑکے کو ایک ہندو لڑکی کو اسلام قبول کروانے کے الزام کے تحت گرفتار کر لیا ہے۔ text: برطانوی جریدے سائیکیٹری میں شائع تحقیق کےمطابق وہ نوزائیدہ بچے جن کا وزن ساڑھے پانچ پاؤنڈ سے کم ہوتا ہے ان میں بالغ ہوکر پریشانی اور ڈپریشن کا شکار ہونے کا خطرہ 50 فیصد بڑھ جاتا ہے۔ کم وزن والے بچوں میں کئی طرح کی بیماریوں کا خطرہ رہتا ہے جن میں پڑھنے لکھنے اورسجھنے میں دقت بھی شامل ہے اور اب ایسے شواہد ملے ہیں کہ ان کا مزاج بھی مختلف ہوتا ہے۔ تحقیق کار ڈاکٹر نکولا وائلز کا کہنا ہے کہ ہم ان عورتوں میں افرا تفری نہیں پھیلانا چاہتے جن کو اس بات کا خدشہ ہے کہ ان کے یہاں پیداہونے والے بچے کا وزن کم ہو سکتا ہے۔ برسٹل میں ان کے ساتھ کام کرنے والی ٹیم نے 1950 کی دہائی میں کئے گئے مطالعےمیں شرکت کرنے والے 5،572 افراد کی اطلاعات کا استعمال کیا۔ اس ٹیم نےکم وزن کے پیدا ہونے والے بچوں کے 51 برس کی عمر تک پہنچنےپر ان میں ڈپریشن کی شرح کا موازنہ بچپن میں ان کی ذہنی نشو نمااور نفسیاتی روئیے سے کیا۔ ڈاکٹر وائلز کا کہنا ہے ہو سکتا ہےکہ کم شرح پیدایش اور بالغ ہونے پر ڈپریشن کا تعلق رحم میں بچے کی دماغی نشو نما ٹھیک ڈنگ سے نہ ہونےسے ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ بچے کی زیادہ تر دماغی نشو نما ماں کے رحم میں ہوتی ہے۔ہو سکتا ہے کہ عمر کے اس حصے میں یہ پہلو انسان کو اس طرح متاثر کرتا ہو ۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ لوگ ان انکشافات سے پریشان نہ ہوں ہو سکتا کہ ڈپریشن کی اور بھی کئی وجوہات ہوں یہ تو صرف ایک اور پہلو ہے جس پر غور کیا جا رہا ہے۔ پہلے بھی اس طرح کی رپورٹیں آچکی ہیں کہ ایک عمر میں ڈپریشن کا شکار ہونے کا تعلق پیدائش کے وقت کم وزن سے ہے۔ 2004 میں میڈیکل ریسرچ کو نسل کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بھی اسی طرح کے رجحان کا ذکر کیا گیا تھا جس میں 5000 لوگوں نے حصہ لیا تھا۔ اس ریسرچ میں بھی کہا گیا تھا کہ حاملہ عورتوں میں ایک خاص وقت میں ذہنی تناؤ سے بچے کا ذہن متاثر ہو سکتا ہے۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق پیدائش کے وقت جن بچوں کا وزن کم ہوتا ہے ان میں آگے چل کر ڈپریشن کا شکار ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ text: دھماکہ ڈیرہ غازی خان کے ایک نسبتاً چھوٹے ریلوے سٹیشن درویش لاشاری کے قریب ہوا۔ حکام کے مطابق دھماکے میں دیسی ساخت کا کم طاقت رکھنے والا بم استعمال کیا گیا جس سے زیادہ نقصان نہیں ہوا اور پٹڑی کا صرف ڈیڑھ فٹ کے قریب حصہ ہی متاثر ہوا۔ ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ پٹڑی کے متاثرہ حصے کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب تین بجے کے قریب مرمت کر کے ریل گاڑیوں کی آمدورفت کے لیئے بحال کردیا گیا ہے۔ ڈیرہ غازی خان سے چلتن ایکسپریس اور خوشحال ایکسپریس سمیت روزانہ چار ریل گاڑیاں گذرتی ہیں۔ چھ ماہ قبل فروری کے مہینے میں درویش لاشاری ریلوے سٹیشن کے قریب ریلوے لائن کو اس وقت تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا تھا جب کوئٹہ جانے والی چلتن ایکسپریس کچھ ہی دیر میں وہاں سے گذرنے والی تھی۔ اس بم دھماکے کی ذمہ داری مبینہ طور پر زیر زمین کام کرنے والی تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔ بلوچستان سے ملحقہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں نا معلوم افراد نے منگل کی شب ریلوے لائن کو بارود سے اڑا دیا۔ تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ text: لتا منگیشکر نے ساٹھ سال سے زیادہ عرصے تک بالی وڈ کی پلے بیک گلوکاری کی سلطنت پر حکمرانی کی انھوں نے یہ باتیں دینا ناتھ منگیشکر ایوارڈ کے فاتحین کے ناموں کا اعلان کرتے ہوئے کہیں۔ واضح رہے کہ دینا ناتھ لتا منگیشکر کے والد تھے اور ان کے نام پر ہر سال یہ ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ انعامات 24 اپریل کو ممبئی میں ہی دیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ اس دن ممبئی میں پولنگ بھی ہو رہی ہے۔ موسیقی کے شعبے میں طبلہ نواز ذاکر حسین اور گلوکار پندھاري ناتھ كولہاپوری، فن اور سنیما کے شعبے میں اداکار رشی کپور کو اور سماجی کاموں کے لیے سماجی کارکن انا ہزارے کو اس ایوارڈ سے نوازا جائے گا۔ پریس کانفرنس میں لتا منگیشکر نے سیاست اور نغمہ نگارگلزار پر بھی بات کی۔ گلزار کو اس سال سینیما کا سب سے باوقار اعزاز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔ بھارت میں انتخابی سرگرمیوں کے تحت لتا منگیشکر سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ وہ وزیر اعظم کے طور پر کس رہنما کو دیکھنا چاہیں گی تو لتا نے کہا کہ ان کی نظر میں ایسا کوئی نام نہیں ہے۔ یہ الگ بات کہ گذشتہ دنوں وہ نریندر مودی کے ساتھ ایک پروگرام میں نظر آئی تھیں۔ لتا منگیشکر امیتابھ بچن کو بہت عزیز رکھتی ہیں تاہم ووٹ ڈالنے کے بارے میں لتا منگیشکر کا کہنا تھا: ’ووٹ تو ڈالنا پڑے گا۔ یہ ضروری ہے۔ حکومت میں اسے ہی آنا چاہیے جو ملک کو سنبھال سکے اور اس کا سر بلند کر سکے۔‘ سیاست کے بارے میں انھوں نے کہا: ’سیاست میں میری دلچسپی کم ہے کیونکہ میری سیاسی سمجھ بھی اتنی نہیں ہے۔ میں اس سے دور ہی رہتی ہوں اور کوئی نظر میں بھی نہیں ہے۔ جو بھی آئے بس وہ اچھا ہو۔‘ فلم ساز ہدایت کار اور نغمہ نگار گلزار کے بعد کسے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ ملنا چاہیے؟ اس کے جواب میں لتا منگیشکر نے کہا کہ ان کے خیال میں امیتابھ بچن کو یہ ایوارڈ ملنا چاہیے۔ لتا منگیشکر نے کہا: ’گلزار کو دادا صاحب پھالکے ملنے سے میں بہت خوش ہوں۔ میں نے ٹی وی پر بھی کہا ہے اور ان کو بہت مبارک باد دی ہے۔ انڈسٹری میں لوگوں کو انعام ملنا اچھا ہے لیکن میں یہ ضرور کہوں گی کہ دادا صاحب پھالکے ایوارڈ امیتابھ بچن کو بھی ملنا چاہیے۔‘ واضح رہے کہ لتا منگیشکر کو پہلے ہی دادا صاحب پھالکے ایوارڈ مل چکا ہے۔ اس کے علاوہ انھیں بھارت کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز بھارت رتن سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ بھارت کی معروف گلوکارہ لتا منگیشکر نے ممبئی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ سیاست سے دور ہی اچھی ہیں، اور یہ کہ امیتابھ بچن کو بھی دادا صاحب پھالکے ایوارڈ ملنا چاہیے۔ text: ان دونوں ارکان کو ان کی بی اے کی ڈگریاں جعلی ثابت ہونے پر نااہل قرار دیا گیا ہے- سابق سینیٹر اور معروف سیاستدان شاہنواز جونیجو کے فرزند محمد خان جونیجو کے خلاف ان کے مخالف پیپلز پارٹی کے امیدوار فدا حسین ڈیرو نے انتخابی عذرداری دائر کر رکھی تھی- درخواست گزار فدا ڈیرو نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ محمد خان جونیجو کی جانب سے کاغذات نامزدگی کے ساتھ پیش کی گئی گریجوئیشن کی ڈگریاں جعلی ہیں- تاہم سیکریٹ لیجر (خفیہ کھاتے) پر ایک کاغذ چسپاں کرکے محمد خان کا نام درج کیا گیا ہے- الیکشن ٹربیونل کے جسٹس مسلم ہانی نے جمعہ کو اپنے فیصلے میں ڈگری کو جعلی قرار دیتے ہوئے محمد خان جونیجو کو نا اہل قرار دیا- اور اکتوبر دو ہزار دو میں سانگھڑ کے قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر دو سو چھتیس پر ہونے وال انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس حلقے میں از سرنو انتخابات کرانے کی ہدایت کی ہے- فیصلے کے وقت محمد خان اور ان کے وکیل نواب مرزا عدالت میں موجود نہیں تھے- فداحسین ڈیرو نے الیکشن ٹربیونل میں تیس نومبر کو درخواست دائر کی تھی- محمد خان جونیجو سندھ کے ممتاز اور اپنے منفرد سٹائل کے حوالے سے مشہور سیاستدان شاہنواز جونیجو کے بیٹے اور ضلع ناظم سانگھڑ روشن الدین جونیجو کے چھوٹے بھائی ہیں- شاہنواز جونیجو ایک عرصے تک پیپلز پارٹی سے منسلک رہے اور بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں وفاقی وزیر بھی رہے اور بعد میں پی پی پی کے ٹکٹ پر سینیٹر بھی منتخب ہوئے- گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں شاہنواز جونیجو نے پیپلز پارٹی کو خیرباد کہہ کر پیر پگاڑا سے اتحاد کیا اور اپنے ایک بیٹے کے لئے ضلع ناظم کا عہدہ اور دوسرے بیٹے کے لئے قومی اسمبلی کی رکنیت حاصل کی- الیکشن ٹربیونل نے خیرپور کے صوبائی حلقہ نمبر اکتیس سے مسلم لیگ فنکشنل کے منتخب ہونے والے امیدوار بشیر بانبھن کو بھی نا اہل قرار دیا ہے- ان کی ڈگری بھی جعلی ثابت ہوئی تھی- ان کے خلاف ان کے مخالف پیپلز پارٹی کے امیدوار شوکت راجپر نے درخواست دائر کر رکھی تھی- عدالت نے بشیر بانبھن کی رکنیت ختم کرنے اور انہیں نااہل قرار دینے کے ساتھ پچیس ہزار روپے ہرجانہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا ہے- یہ رقم درخواست گذار شوکت راجپر کو ادا کی جائے گی- عدالت نے مقدمے کی فائل الیکشن کمیشن کو بھیجی ہے اور کہا ہے کہ اس حلقے پر درخواست گذار شوکت راجپر کو کامیاب قرار دینے یا از سرنو انتخابات کرانے کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرے- سندھ ہائی کورٹ کے الیکشن ٹربیونل نے پیر پگاڑا کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے ایم این اے محمد خان جونیجو اور سندھ اسیمبلی کے ممبر بشیر بانبھن کی اسمبلی رکنیت ختم کرکے انہیں نااہل قراردے دیا ہے- text: انڈیا میں دو غیر شادی شدہ بالغ اگر جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں تو یہ پہلے سے ہی جرم نہیں ہے عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے جمعرات کو اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ دستور ہند کی 158 سال قدیم دفعہ 497، جس کے تحت کسی شادی شدہ عورت کے ساتھ اس کے شوہر کی مرضی کے بغیر کسی مرد کے جنسی تعلقات کو جرم مانا جاتا تھا آئین کے منافی ہے۔ اس قانون کے تحت سزا صرف مرد کو ہی دی جا سکتی تھی اور عورتوں کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کی گنجائش نہیں تھی۔ درخواست گزار نے قانون کو امتیازی اور صوابدیدی قرار دیتے ہوئے چیلنج کیا تھا۔ یہ بھی پڑھیے ایڈلٹری جرم نہیں، ٹوئیٹر پر خوشی انڈیا میں زنا کا پیچیدہ قانون، اصل مجرم ہے کون؟ انڈیا میں ہم جنس پرستوں کے لیے نئی امید انڈیا میں نابالغ بیوی سے سیکس جرم کیوں؟ نامہ نگار سہیل حلیم نے بتایا کہ اب دو بالغوں کے درمیان جنسی تعلق، بشرطیکہ اس میں دونوں کی مرضی شامل ہو، جرم نہیں مانا جائے گا چاہے وہ دونوں شادی شدہ ہی کیوں نہ ہوں لیکن پہلے کی طرح طلاق حاصل کرنے کے لیے ایڈلٹری کو بنیاد بنایا جا سکے گا۔ خیال رہے کہ انڈیا میں دو غیر شادی شدہ بالغ اگر جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں تو یہ پہلے سے ہی جرم نہیں ہے اور حال ہی میں سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کو بھی جرم کے زمرے سے نکال دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکن بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عورت کو مرد کی ملکیت نہیں مانا جاسکتا اور آج کے دور میں اس طرح کے فرسودہ قانون کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کہا کہ یہ قانون دستور کے آرٹیکل 14 اور 21 کے منافی ہے جو زندگی، آزادی اور مساوات کے حق کی ضمانت دیتے ہیں۔ ایڈلٹری کے قانون کے تحت سزا صرف مرد کو ہی دی جا سکتی تھی اور عورتوں کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کی گنجائش نہیں تھی متنازع شق کیا تھی؟ حذف کی جانے والی شق میں کہا گیا ہے اس کے مطابق 'اگر کوئی بھی (شخص) کسی ایسی عورت سے جنسی تعلقات قائم کرتا ہے، جس کے بارے میں اسے معلوم ہو کہ وہ کسی اور کی بیوی ہے، یا اس کا یہ خیال ہو کہ وہ کسی اور کی بیوی ہے، اور اس (جنسی) عمل میں اس کے شوہر کی مرضی یا معاونت شامل نہ ہو، اور اگر یہ عمل ریپ کے زمرے میں نہ آتا ہو، تو پھر وہ شخص زنا کے جرم کا مرتکب ہے اور اسے یا تو زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید یا جرمانے یا دونوں کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ لیکن بیوی کسی جرم کی مرتکب نہیں ہوگی۔‘ بحث اس سوال پر تھی کہ کیا شادی کے بعد بیوی شوہر کی املاک یا جاگیر بن جاتی ہے؟ اور اگر شادی شدہ عورت سے زنا جرم ہے، تو سزا صرف مرد کو ہی کیوں ملے، دونوں کو کیوں نہیں؟ لیکن عدالت نے کہا کہ عورت اور مرد کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی اور دونوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ بنچ میں شامل واحد خاتون جج جسٹس اندو ملہوترا نے کہا کہ زنا اخلاقی طور پر غلط ہے لیکن جسٹس چندرچور نے کہا کہ شادی کے بعد مرد اور عورت اپنی ’جنسی خود مختاری‘ ایک دوسرے کے پاس گروی نہیں رکھ دیتے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران حکومت کا موقف تھا کہ اگر زنا کی اجازت دے دی جاتی ہے تو اس سے ’ہندوستانی اقدار اور شادی کی پاکیزگی‘ کو زک پہنچے گی۔ انڈیا کی سپریم کورٹ نے ملک میں ’ایڈلٹری‘ یا شادی شدہ افراد کے اپنے ساتھی کے علاوہ کسی دوسرے فرد سے جنسی تعلق رکھنے کے عمل کو جرم کے دائرے سے خارج کر دیا ہے۔ text: نیو اورلینز میں اپنے ایک خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ تعمیر پر اربوں ڈالر خرچے کیے جائیں گے جو کہ ’بلا نظیر بحران کا بلا نظیر ردِ عمل ہے‘۔ نیو اورلینز کے میئر رے نیگن نے کہا ہے کہ شہر کی تین ڈسٹرکٹ اگلے ہفتے کھول دی جائیں گی جبکہ اس کے ایک ہفتے کے بعد تاریخی فرینچ کوارٹر کو بھی کھول دیا جائے گا۔ تاہم سمندری طوفان کترینا سے 792 ہلاکتوں کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ صدر بش نے فرینچ کوارٹر سے یہ تقریر متاثرہ علاقے کے اپنے چوتھے دورے کے دوران کی۔ انہوں نے کہا کہ سارے متاثرہ علاقے میں ہمیں جو کچھ بھی کرنا پڑا ہم کریں گے۔ ’ہم اس وقت تک یہاں رہیں گے جب تک شہری اپنی زندگیاں اور آبادیاں ازسرِ نو بسا نہیں لیتے‘۔ انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ان کی حکومت نے کترینا سے ہونے والی تباہی کے بعد مستعدی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے کابینہ کے ہر رکن سے کہا ہے کہ وہ ازسرِ نو جائزہ لینے کے عمل میں شرکت کرے۔ انہوں نے کہا کہ وہ عام سمندری طوفان نہیں تھا اور اس سے نمٹنے کے لیے عام سسٹم کافی نہیں تھا۔ امریکہ کے صدر جارج بش نے وعدہ کیا ہے کہ امریکی حکومت سمندری طوفان سے متاثرہ علاقوں کو ازسرِ نو تعمیر کرنے کے لیے جو کچھ بھی اسے کرنا پڑا کرے گی۔ text: تین مارچ دو ہزار نو کو لاہور میں قذافی سٹیڈیم سے کچھ ہی فاصلے پر سری لنکا کی ٹیم پر حملہ ہوا تھا عدالت نے ملزم کو رہائی کے لیے پانچ ، پانچ لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے ملک اسحاق پر لاہور میں سری لنکن کرکٹ پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام ہے اور لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے ملزم کی درخواست ضمانت مسترد کی تھی۔ تین مارچ دو ہزار نو لاہور میں قذافی سٹیڈیم سے کچھ ہی فاصلے پر لبرٹی چوک میں دہشت گردوں نے اُس بس پرحملہ کر دیا تھا جو سری لنکن ٹیم کے ارکان کو سٹیڈیم لے کر جا رہی تھی۔ اس واقعہ میں سری لنکن ٹیم کے سات کھلاڑی زخمی اور چھ پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس ایم اے شاہد صدیقی اور جسٹس آصف سعید کھوسہ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ لاہور سے بی بی سی کے نامہ نگار عبادالحق کا کہنا ہے کہ کارروائی کے دوران ملک اسحاق کے وکیل قاضی مصباح الحسن نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل انیس سو ستانوے سے جیل میں ہیں اور ان کے خلاف سری لنکن کرکٹ پر حملہ کی منصوبہ کے الزام میں مقدمہ درج ہے اور بقول وکیل کے یہ مقدمہ بدنیتی کی بنیاد پر درج کیاگیا تاکہ انہیں جیل میں قید رکھا جاسکے۔ وکیل کاکہنا ہے کہ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ایک شخص جو ایک طویل عرصے سے جیل میں ہے وہ کس وسیلے یا ذریعے سے کرکٹ ٹیم پر حملے کی منصوبہ بندی کرسکتا ہے۔ ملزم کے وکیل قاضی مبصاح الحسن نے کہا کہ پولیس نے کوئی ایسے شواہد پیش نہیں کیے جس سے یہ ثابت ہو کہ ان کے موکل کا اس واقعہ میں کوئی کردار ہے۔ وکیل کا کہنا ہے کہ ملک اسحاق کا نہ تو اس واقعہ میں کوئی کردار ہے اور نہ ہی وہ براہ راست اس میں ملوث ہیں۔ وکیل کے بقول پولیس کی طرف سے پیش کردہ شواہد انتہائی کمزور ہیں اور پولیس کی تفتیش سے ملزم ملک اسحاق پر کرکٹ ٹیم پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام ثابت نہیں ہوتا۔ عدالت کے روبرو سرکاری وکیل نے درخواست ضمانت کی مخالف کی اور کہا کہ ملک اسحاق کے خلاف تین گواہوں نے بیانات دیے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس مقدمہ میں ملوث ہیں۔ سرکاری وکیل نے استدعا کی کہ مقدمہ کا چالان عدالت میں پیش کیا جاچکا ہے اس لیے ماتحت عدالت کو مقدمہ کی جلد سماعت کا حکم دیا اور درخواست ضمانت کو مسترد کردیا جائے۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے سرکاری وکیل کی استدعا رد کرتے ہوئے ملزم اسحاق کی ضمانت منظور کرلی۔ ملک اسحاق کے وکیل قاضی مصباح الحسن نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم کے خلاف چوالیس مقدمات درج تھے جس میں دو مقدمات میں ان کے اقبالی بیان پر سزا سنائی جبکہ پیتیس مقدمات میں وہ بری ہوچکے ہیں اور ایک مقدمے میں ان کو ڈسچارج کردیا گیاہے۔ وکیل کے مطابق ملک اسحاق کے خلاف ابھی چھ مقدمے زیر سماعت ہیں اور ان مقدمات میں ان کی ضمانت ہوچکی ہے اس لیے اب ان کی رہائی مکمن ہوسکتی۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ کے الزام میں کالعدم تنظیم کے ملک اسحاق کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ text: حال ہی میں ہندوستان کے شیعہ مسلمان ملک میں اس کمیونٹی کے سب سے طاقتور ادارے یعنی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے علیحدہ ہوگئے اور خواتین کا ایک گروپ بھی اپنے لئے زیادہ نمائندگی کی خواہش لئے کوشاں ہے۔ انڈیا کے آئین کے مطابق مسلمانوں کو شادی بیاہ، طلاق، جائیداد وغیرہ کے معاملات میں علیحدہ قوانین سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہے اور بورڈ کے ایک رکن خالد رشید کے مطابق اسِ بورڈ کا کام مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو اسلامی قوانین کے تحت متحد رکھنا ہے۔ لیکن اب انڈیا کے شیعہ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ 1972 میں قائم کئے گئے اس بورڈ میں انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ انڈیا میں تقریباً ساڑھے چودہ کروڑ مسلمانوں میں سے دو کروڑ شیعہ ہیں۔ شعیہ مسلمانوں کا الگ پرسنل لاء بورڈ بنانا ایک طرح سے تبدیلی کی اُس لہر کا حصہ جو انڈیا کی مسلمان آبادی میں چل نکلی ہے۔ فروری کے اوائل میں مسلمان خواتین نے بھی بورڈ پر یہ الزام لگاتے ہوئے آل انڈیا خواتین مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام کیا کہ خواتین کے حقوق کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اس پیش رفت پر مسلم لاء بورڈ کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آیا اور انہوں نے اسے ایک مذاق قرار دیا۔ لیکن علیحدہ ہونے والے یہ دونوں گروپ عام لوگوں کی کتنی حمایت حاصل کرسکتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ہندوستان کی مسلمان آبادی کو، جو انڈونیشیا کے بعد دنیا میں تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہے، اہم سماجی تبدیلیوں کا سامنا ہے۔ text: آئی پی ایل ٹی ٹوئنٹی مقابلوں کی سب سے مہنگی لیگ ہے رواں برس جولائی میں سپریم کورٹ نے انڈین پریمیئر لیگ میں سپاٹ فکسنگ اور سٹے بازی کے الزامات کے معاملے میں لیگ میں شامل دو ٹیموں چنّئی سپر کنگز اور راجستھان رائلز پر دو سال کی پابندی عائد کر دی تھی۔ پابندی کے بعد ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی مہنگی ترین آئی پی ایل لیگ میں چھ ٹیمیں رہ گئی تھیں اور اب اس میں دو نئی ٹیموں کو شامل کیا جا رہا ہے۔ چنّئی سپر کنگز اور راجستھان رائلز پر دو سال کی پابندی آئی پی ایل فکسنگ میں بڑے ناموں کا انکشاف دوسری جانب آئی پی ایل کے نئے سپانسر کا اعلان بھی کیا گیا ہے اور آئندہ سیزن میں پیپسی کی جگہ چین کی موبائل فون بنانے والی کمپنی ویوو نئی سپانسر ہو گی۔ آئی پی ایل میں سپاٹ فکسنگ کے الزامات 2013 کے چھٹے ایڈیشن میں اس وقت سامنے آئے تھے جب اس ٹورنامنٹ میں شریک ٹیم راجستھان رائلز کے تین کھلاڑیوں سری سانت، انکت چوہان اور اجیت چڈيلا کو دہلی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ان کے ساتھ 16 سٹے بازوں کو بھی حراست میں لیا گیا تھا اور ان کے خلاف دفعہ 420 اور 120 بی کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔ بعدازاں اسی معاملے میں ممبئی پولیس نے گروناتھ ميّپن اور اداکار ودو دارا سنگھ کو بھی گرفتار کیا تھا جبکہ دہلی پولیس نے راجستھان رائلز کے مالک راج کندرا کا نام بھی اسی کیس میں لیا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں راج کندرا اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے سربراہ سری نواسن کے داماد اور چنّئی سپر کنگز کے عہدیدار گروناتھ میّپن پر بھی تاحیات پابندی لگائی گئی تھی۔ اس سلسلے میں بی سی سی آئی نے راجستھان رائلز کے فاسٹ بالر سری سانت اور ان کے ساتھی کھلاڑی انکت چوہان پر ستمبر 2013 میں تاحیات پابندی لگا دی تھی۔ جولائی میں دہلی کی ایک عدالت نے ان دونوں کرکٹرز کو سپاٹ فکسنگ کے الزامات سے بری کر دیا تھا۔ انڈین پریمیئر لیگ کرکٹ مقابلوں کے منتظمین نے لیگ میں دو نئی ٹیموں کے لیے بولی لگانے کی دعوت دی ہے۔ text: یونس خان اور محمد یوسف نے ایک سو چھیاسٹھ کی ناقابل شکست شراکت بنا کر ٹیم کا سکور 202 تک پہنچا دیا۔ محمد یوسف اکانوے کے سکور پر اور یونس خان چونسٹھ رنز پر ناٹ آؤٹ ہیں۔ اس سے پہلے انگلینڈ کی ٹیم پانچ سو پندرہ رنز بنا کر آوٹ ہو گئی۔انگلینڈ کی ٹیم کو مضبوط پوزیشن میں لانے کا سہرا مڈل آرڈر بیٹسمین کیون پیٹرسن اور این بیل کے سر جنہوں نے سینچریاں سکور کیں۔ این بیل نے لارڈز ، اولڈ ٹریفورڈ کے بعد ہیڈنگلے کے میدان پر بھی سینچری سکور کر ڈالی۔ انگلینڈ کے لوئر آرڈر کے بیٹسمینوں نے عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا اور ٹیم کے سکور میں تیزی کے ساتھ قیمتی رنز کا اضافہ کیا۔ ساجد محمود اور سٹیو ہارمیسن نے بالترتیب چونتیس اور چھتیس رنز کا اضافہ کیا۔ پاکستان کی جانب سے عمر گل نے عمدہ بولنگ کرتے ہوئے انگلینڈ کے پانچ کھلاڑی آؤٹ کیے۔ محمد سمیع اور دانش کنیریا نے دو دو جبکہ شاہد نذیر نے ایک وکٹ حاصل کی۔ پاکستان کی ٹیم: انضمام الحق، یونس خان، محمد یوسف، سلمان بٹ، فیصل اقبال، کامران اکمل، توفیق عمر، شاہد نذیر، محمد سمیع، عمر گل، دانش کنیریا۔انگلینڈ کی ٹیم: اینڈریو سٹراس، مارکس ٹریسکوتھک، الیسٹر کک، کیون پیٹرسن، این بیل، پال کالنگ وڈ، کرس ریڈ، سٹیو ہارمیسن، میتھیو ہوگارڈ، مونٹی پنیسر، ساجد محمود لیڈز کے کرکٹ گراونڈ ہیڈنگلے میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ میں پاکستان نے دوسرے روز کے کھیل کے اختتام پردو وکٹوں کے نقصان پر 202 رنز بنائے ہیں۔ text: سلمان خان نے پروگرام میں اپنی سابق دوست خواتین کا ذکر کیا شاہ رخ خان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں انھوں نے کہا: ’میں نے اور شاہ رخ نے کافی وقت ساتھ گزارا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اب ہم پہلے جیسے دوست کبھی نہیں بن پائیں گے۔‘ تنہا سونا پسند ہے: سلمان خان تاہم سلمان خان نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ شاہ رخ خان کی بہت عزت کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا: ’شاہ رخ آج جس مقام پر ہیں، اپنی محنت کی وجہ سے ہیں۔ جو لوگ سوچتے ہیں کہ شاہ رخ خان کو گالی دینے سے یا انھیں برا بھلا کہنے سے وہ میرے قریب پہنچ جائیں گے، میں بتاتا ہوں کہ ان کا ایسا سوچنا غلط ہے۔ شاہ رخ کے بارے میں برا بولنے والوں کو میں چپ کرا دیتا ہوں۔‘ کرن جوہر کے ایک سوال کے جواب میں سلمان خان نے بتایا: ’میں ایک دو بار شادی کے قریب پہنچ گیا تھا۔ سنگیتا بجلاني کے ساتھ تو کارڈ بھی چھپ گئے تھے، لیکن بات جمی نہیں۔ شاید میری گرل فرینڈز کو لگتا ہے کہ افیئر تو ٹھیک ہے لیکن اس شخص کے ساتھ زندگی بھر کس طرح گزار پاؤں گی۔‘ جب پرانی دوست خواتین سے آمنا سامنا ہوتا ہے تو کیا کرتے ہیں؟ سلمان نے بتایا کہ وہ دور چلے جاتے ہیں تاکہ آمنا سامنا ہونے کی نوبت ہی نہ آئے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی پرانی دوستوں میں سے سنگیتا بجلاني اب بھی ان کے رابطے میں ہیں اور ان کے خاندان کی اچھی دوست ہیں۔ سلمان خود کو کیسا ایکٹر سمجھتے ہیں، اس پر انھوں نے کہا: ’میں اوسط سے بھی نیچے ہوں، میرے حساب سے دوسرے اداکار مجھ سے زیادہ اچھے ہیں۔ رومانٹک انداز میں شاہ رخ خان کا کوئی مقابلہ نہیں، عامر جیسی لگن اور پرفیكشن کسی میں نہیں ہے، اکشے کمار بطور آرٹسٹ کافی اوپر ہیں۔ ان کی کامک ٹائمنگ زبردست ہے۔‘ ہیروئینوں میں سلمان خان کو دیپیکا پاڈوکون، سوناکشی سنہا اور پرینکا چوپڑا بہت پسند ہیں انھوں نے ایشوریہ رائے بچن کو کمال کی اداکارہ بتایا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اپنی کس شریک اداکارہ کے ساتھ شادی کرنا چاہیں گے، تو انھوں نے پریتی زنٹا کا نام لیا۔ کرن جوہر کے پروگرام کافی وِد کرن میں فلم سٹار سلمان خان نے شاہ رخ خان سے مبینہ تلخ تعلقات سے لے کر ایشوریہ رائے بچن اور قطرینہ کیف جیسی اپنی پرانی دوست خواتین کے علاوہ کئی موضوعات کے ساتھ ساتھ اپنی شادی کے بارے میں بھی بات کی ہے۔ text: سینیئر امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس انکوائری میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ یہ مواد عراق پر حملے کا کس حد تک منصفانہ جواز فراہم کرتا تھا۔ امریکی معائنہ کاروں کے سابق سربراہ ڈیوڈ کے کے اس بیان کے بعد کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیار تھے ہی نہیں، بش انتظامیہ پر انکوائر کے لیے دباؤ بڑھ گیا ہے۔ صدر بش اس سے پہلے اس نوع کی کوئی آزادانہ انکوائری کرانے کی مخالفت کر چکے ہیں تاہم اب انہیں کانگریس میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں کے زیادہ دباؤ کا سامنا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ انکوائر وارن کمیشن کی طرز پر کرائی جائے گی۔ وارن کمیشن نے صدر کینیڈی کے قتل کی تحقیقات کی تھیں۔ حکومت سے باہر کے ماہرین کےعلاوہ اس تحقیقاتی کمیشن میں دونوں طرف کے سینیٹرز ہوں گے۔ اور انہیں تحقیقات مکمل کرنے کے لیے اگلے سال تک کا وقت دیا جائے گا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں اس نوع کی انکوائری کے بعد برطانیہ میں بھی ایسی ہی انکوائری کے لیے دباؤ میں اضافہ ہو گا۔ بش انتظامیہ جاسوس اداروں کے ذریعے حاصل ہونے والی ان معلومات کی آزادانہ انکوائری کرنے کا اعلان کرنے والی ہے جنہیں عراق پر حملے کا جواز بنایا گیا۔ text: ملک میں خودکش حملوں کی ابتدا کراچی سے سن دو ہزار دو میں اس وقت ہوئی جب آبدوز بنانے کے لیئے آنے والے فرانسیسیوں پر حملہ کیا گیا۔ اس حملے میں نو فرانسیسی اور پانچ پاکستانی ہلاک ہوگئے تھے۔ ان حملوں کی ابتدا جہادی تنظیموں نے کی مگر یہ رجحان فرقہ وارانہ شدت پسند تنظیموں میں زیادہ مقبول ہوا، جنہوں نے چار جولائی سن دو ہزار تین کو کوئٹہ میں ایک شیعہ مسجد پر خودکش حملہ کر کے اس رحجان کو مزید ہوا دی۔ بعد میں راولپنڈی، کراچی، سیالکوٹ، لاہور، جھل مگسی اور اسلام آباد میں مساجد اور مزاروں پرخودکش حملے کیئے گئے۔ دوہزار دو سے لے کر رواں سال کے ماہ جولائی تک صرف کراچی میں خودکش بم حملوں کے آٹھ واقعات ہوچکے ہیں جن میں پانچ فرقہ وارانہ ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیر داخلہ معین الدین حیدر ملک میں شدت پسندی کا بنیاد انقلاب ایران اور افغانستان میں روسی حملے کو سمجھتے ہیں کیونکہ ایران میں شیعہ اور افغانستان میں سنی آبادی زیادہ ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کی سرزمین پر فرقہ کی بنیاد پر کچھ ممالک جن میں مسلم ممالک بھی شامل ہیں کچھ گروہوں کی سرپرستی کرتے ہیں اور انہیں پیسے فراہم کرتے تھے۔ معین الدین حیدر کہتے ہیں کہ اپنے لوگوں کو مارنا خودکشی کے مترادف ہے، اس کو جہاد نہیں کہا جاسکتا۔ فرقہ واریت میں القاعدہ کا عنصر نظر نہیں آتا کیونکہ القاعدہ کے مقاصد واضح ہیں جبکہ فرقہ واریت محدود ہے۔ سابق وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ القاعدہ کا ایجنڈا پاکستان سے باہر ہے، جس سے مغرب خطرہ محسوس کرتے ہوئے دباؤ ڈالتا ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کا گریبان پکڑیں گے اس سے ان کے کسی مفاد کو نقصان نہیں ہے، اس لئے ایسے واقعات کے خلاف اقدامات ہماری اولیت ہونی چاہئے۔ عالمی دباؤ کے بعد صدر پرویز مشرف نے جہادی تنظیموں کے ساتھ مبینہ فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں ملوث تنظیموں پر بھی پابندی کی اور گزشتہ سال بھی ان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔ تاہم دہشتگردی کے واقعات میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ مگر اس اعلان کے بعد بھی کراچی میں تین خودکش حملے ہوچکے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن کے جنرل سیکریٹری اقبال حیدر کا کہنا ہے ’ کیا کہ دنیا کے ستاون مسلم ممالک میں سے کسی اور میں فرقہ واریت نہیں ہے؟ وہاں کیوں مذہبی تعصب اور ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے جاری نہیں کیئے جاتے‘۔ان کا کہنا ہے کہ ملکی قانون اور آئین کے تحت فرقے کی بنیاد پر سیاست اور الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہے مگر یہاں پر ان تنظیموں کو رجسٹر کیا گیا اور الیکشن میں حصہ لینے کی اجازی دی گئی ہے۔ پولیس حکام کے مطابق پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشتگردی کی بڑی وارداتوں میں کچھ لوگ گرفتار بھی کیئے گئے ہیں مگر شہادتیں کمزور ہونے کی وجہ سے عدالت ان کو بری کرتی رہی ہے۔ کراچی میں ایسی وارداتوں میں ملوث بعض ملزمان اہم مقدمات سے بری ہوچکے ہیں۔ معین الدین حیدر کا کہنا ہے کہ عدالتیں کہتی ہیں کہ ثبوت ناکافی ہیں۔ اس کے علاوہ عدالتوں، وکیلوں اور پولیس میں خوف کا عنصر بھی ہے۔ انہیں دھمکی دی جاتی ہے کہ ’ تم ہمارے گرد گھیراؤ تنگ کروگے، ہم تمہارے خاندان کو اڑادیں گے‘۔ انسانی حقوق کے رہنما خوکش بمباروں کی بھرتی کے لیئے غربت، بیروزگاری اور ناخواندگی کو اہم سبب قرار دیتے ہیں۔ اقبال حیدر کے مطابق مذہبی جنونیت میں اس مقصد کے لیئے لوگ بھرتی کرنا کوئی بڑی بات نہیں، جب بیروزگاری اور غربت سے لوگ خودکشی کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ کا برین واش کرکے جنت کے خواب دکھاکر یہ کام کرایا جاتا ہے۔ جبکہ معین حیدر اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ اور کہتے ہیں کہ یہ تاثر غلط ہے جب پاکستان بنا تھا، اس وقت اس سے کہیں زیادہ غربت اور بیروزگاری تھی مگر اس وقت ایسی کوئی صورتحال نہیں بنی تھی۔ پاکستان سے شدت پسندی خاتمے کے بارے میں معین الدین حیدر کہتے ہیں کہ یہاں قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہے، لوگوں سے غیرقانونی اسلحہ واپس لیا جائے ، اور یہ واضح کردیا جائے کہ جو بھی نفرت پھیلانے کے لئے تنظیم بنائےگا اس سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ پاکستان میں خودکش بم حملوں کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے، جس میں فرقہ واریت کا عنصر حاوی نظر آتا ہے۔ text: سرحد بند ہونے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے شہریوں کو یکساں مشکلات کا سامنا ہے جمعے کے روز بھی تاجر، مزدوری کے غرض سے آنے جانے والے اور مریض سرحد کے دونوں اطراف پھنسے رہے اور انتظامیہ کی عدم توجہ کا شکوہ کرتے رہے۔ سکیورٹی کے اقدامات کے تحت چمن اُس سے آس پاس کے علاقوں میں موبائل تھری جی اور فور جی کی سہولت بھی معطل رہی۔ ٭ ’دیکھو یہ تین دن پرانی روٹی ہے‘ آٹھ سالہ زینت کو کینسر کا موذی مرض لاحق ہے۔ یہ چمن کی سرحد پر اپنے والد نصیر احمد کے ساتھ منہ پر ماسک پہنے بیٹھی ہیں۔ زینت کے والد نے بی بی سی کو بتایا: 'ڈاکٹر نے بیٹی کو تیز ہوا اور گرد سے بچانے کا کہا ہے لیکن یہاں تو گرد کے طوفان چل رہےہیں۔' سعید خان بھی افغان شہری ہیں۔ اِن کی 12 سالہ بیٹی کو ہیپاٹائٹس ہے وہ کراچی میں علاج مکمل کرکے واپس جانا چاہتے ہیں لیکن ایسا فی الحال ممکن نہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کے روزانہ 15 سے 20 ہزار مزدور سرحد پار کر کے افغانستان جاتے ہیں اور وہاں کام کاج کر کے واپس پاکستان آتے ہیں۔ ولی محمد پاکستانی شہری ہیں اور افغانستان جانے والے کنٹینر کے ڈرائیور ہیں۔ وہ آج بھی مایوس بیٹھے اور اُنھیں عنقریب سرحد کا معاملہ حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اُن کا کہنا ہے: 'گاڑی یہاں سے کسٹم سے کلیئر ہو کر وہاں کھڑی تھی ہم اپنے گھر واپس جانے لگے تو سرحد بند ہو گئی۔' آج افغانستان اور پاکستان کے درمیان چمن سرحد پر ہونے والی جھڑپ کو آٹھ دن ہو گئے ہیں لیکن علاقے میں خوف و ہراس اب بھی قائم ہے۔ سکیورٹی فورسز نے آج صرف ان افغان شہریوں کو افغانستان جانے کی اجازت دی ہے جن کے پاس پاسپورٹ موجود ہیں۔ سرحد کے دونوں جانب رابطے صرف ٹیلی فون پر ہو رہے ہیں کیونکہ چمن کے علاقے میں تھری جی اور فور جی کو بند ہوئے آج ایک ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے۔ سرحدی جھڑپ کے آٹھ دن بعد بھی بابِ دوستی بند ہے پاک افغان جھڑپ کے دوران چمن کے علاقے کلی لقمان اور کلی جہانگیر سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ یہ دونوں علاقے مکینوں سے خالی کرا لیے گئے ہیں۔ کلی لقمان کے سربراہ عبدالجبار اچکزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کی ملاقات فرنٹیئر کور اور فوج کے اعلیٰ افسران سے ہوئی ہے اور اُنھیں اگلے ایک دو دن میں علاقے میں جانے کی اجازت ملنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا: 'کرنل صاحب سے بات ہوئی ہے۔ کہہ رہے ہیں کہ ابھی خطرہ ہے لیکن انشا اللہ ایک دو دن میں آپ کو گھروں کو جانےکی اجازت مل جائے گی۔' عبدالجبار اچکزئی نے بتایا کہ یہ علاقہ قبائلی ہے اور یہاں سمگلنگ عام ہے۔ اُن کے علاقے میں بھی سمگلنگ کا سامان موجود ہے۔ آج کلی لقمان اور کلی جہانگیر کے مشران کی ایف سی کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات ہوئی ہے۔ سرحدی اُمور کے ماہرین اور سابق فوجی افسران کا کہناہے کہ معاملہ صرف سرحد کی کشیدگی کا نہیں بلکہ اِس سے زیادہ اُس کالے دھن کا ہے جو سرحد کے دونوں اطراف کی جانے والی سمگلنگ سے حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان کے افغانستان سے متصل سرحدی علاقے چمن میں جمعے کے روز بھی سرحد مکمل طور پر بند رہی اور سرحد کے دونوں اطراف آمد و رفت معطل رہی۔ text: اٹلی میں ہونے والا یہ سترواں فیسٹیول ہے جو گیارہ روز چلے گا۔ اٹلی میں ہونے والا یہ سترواں فیسٹیول ہے جو گیارہ روز چلے گا۔ اس فیسٹیول میں شریک ہونے والوں میں نکولس کیج، میٹ ڈیمن، زیک ایفرون اور سکارلِٹ جوہانسن شامل ہیں۔ اس سال کی جیوری کے سربراہ ڈائریکٹر برنارڈو برٹولوچی ہونگے۔ جبکہ سٹار وار کی اداکارہ کیری فشر اور برطانوی فلمساز اینڈریا آرنلڈ ان لوگوں میں شامل ہونگے جو اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ اس سال گولڈن لائن ایوارڈ کس کو دیا جائے۔ ان میں ٹیری گلیم کی ڈارک فینٹسی دی زیرہ تھیورم شامل ہے جس میں ڈیمن کے ساتھ دو مرتبہ آسکر ایوارڈ یافتہ کرسٹوفر والٹز ہیں۔ گولڈن ڈئن ایوارڈ کے لیے پہلی مرتبہ دو دستاویزی فلمیں بھی شامل ہوئی ہیں۔جن میں ’لائف اینڈ ٹائمز آف ڈونلڈ رمسفلڈ‘ بھی شامل ہے۔ برطانیہ کی نظریں گلیمز کی فلم انڈر دی سکن پر لگی ہوئی ہیں۔ ہالی ووڈ سٹار جارج کلونی اور سینڈرا بُلک وینس پہنچ گئے ہیں جہاں وہ اپنے سائنس تھرلر ’گریوٹی‘ کے ساتھ سٹی فلم فیسٹیول کا افتتاح کریں گے۔ text: کرائسٹ چرچ میں ہونے والے تیسرے ایک روزہ میچ میں نیوزی لینڈ نے پانچ وکٹوں کے نقصان پر دو سو چھپن رن بنائے۔ دوسری جانب سری لنکا کی ٹیم سات وکٹوں کے نقصان پر صرف دو سو پچپن رن سکور کرسکی۔ دوسری جانب سری لنکا کے اپل تھرنگا نے کمار سگاکارا کے ساتھ پارٹنر شپ میں ایک سو نو رن بنائے۔ نیو زی لینڈ کے کرس کیرنز نے تلکارتنے کو آؤٹ کرکے اپنی دو سوویں وکٹ لی ہے۔ یہ میچ دو ہزار چار کی اس سیریز ک باقی سلسلہ تھا جوکہ سونامی کے باعث سری لنکن کھلاڑی بیچ ہی میں چھوڑ کر وطن واپس چلے گئے تھے۔ سری لنکن کپتان مارون اتاپتو نے سکور میں باون رنز کا اضافہ کیا۔تاہم تھرنگا کی کارکردگی متاثرکن رہی۔ بیس سالہ کھلاڑی نے اپنے بارہویں ایک روزہ میچ میں زبردست شارٹس کھیلتے ہوئے ایک سو تین رن بنائے۔ لیکن تھرنگا کے بعد سری لنکا کی وکٹیں گرتی چلی گئیں اور کوئی بھی کھلاڑی جم کر نہ کھیل سکا۔ انچاسویں اوور میں قسمت نے سری لنکا کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اس اوور میں رسل آرنلڈ نے لگا تار تین چوکے لگائے اور یوں سری لنکا کی ٹیم دو سو پچپن رن بنا سکی۔ نیوزی لینڈی نے سری لنکا کے خلاف ایک روزہ میچوں کی سیریز تین صفر سے جیت لی ہے۔ text: اصغر خان گذشتہ سال جنوری میں 97 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ انصاف کے نام پر انتقام کی فصل بوئی جائے، احتساب من پسند کیا جائے اور ’چیخیں‘ نہ نکلیں۔ کیا یہ فیصلہ اب نہیں ہونا چاہیے کہ یا تو واقعی بلا تفریق احتساب کیا جائے اور انصاف کیا جائے یا پھر ماضی کو فراموش کر کے آگے بڑھا جائے جیسے اصغر خان کیس میں کیا جا رہا ہے۔ ہمارے موجودہ وزیراعظم کی ایک سے زیادہ تقاریر ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں انھوں نے بار بار اصغر خان کیس پر انصاف کا مطالبہ کیا، مگر یہ کیا؟ جب اصغر خان کیس کے اس حصے پر عملدرآمد کا وہ مرحلہ آیا کہ جب مقتدر اداروں اور افراد کے خلاف کارروائی ہونا تھی تو فائلیں بند کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ بتایا گیا کہ 90 کی دہائی میں بننے والی آئی جے آئی کو آئی ایس آئی کی جانب سے دیے گئے پیسوں کا ریکارڈ ایف آئی اے کے پاس موجود نہیں ہے۔ عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے ’میاں صاحب، اب کیا ہو گا؟‘ چند اور سخت فیصلے؟ چُپ کا موسم ہائے ہماری مجبوریاں !!! اب کی بار چال کس کی؟ وفاقی حکومت نے جعلی اکاؤنٹ کے الزام میں ملک کے سابق صدر آصف علی زرداری کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا خیر یہ بات تو معلوم تھی کہ مقتدر اداروں کے افراد، بھلے وہ باغی ہی کیوں نہ ہوں، کو ہاتھ نہیں لگایا جا سکتا۔ تاہم ایف آئی اے ہاتھ اٹھا لے گا اور وہ بھی انصافی حکومت اور انصافی وزیراعظم کی ناک کے نیچے، اس کی بہرحال توقع نہ تھی۔ حیران کُن بات یہ ہے کہ بجائے حکومت اپنی کارکردگی پر توجہ دے، سنگین تر ہوتے معاشی بحران کے حل پر غور کرے، فعال پارلیمان اور موثر جمہوری نظام کی تکمیل کرے، محض اپوزیشن کے خلاف کاروائیوں پر اکتفا کیے ہوئے ہے۔ عدد نہ ہونے کے باوجود سندھ میں حکومت کی تبدیلی اور گورنر راج کی خبریں نامعلوم ایجنڈے کی عکاس ہیں۔ سندھ سے اٹھتی آوازیں بلاشبہ مفاداتی سیاست کا شاخسانہ ہو سکتی ہیں۔ لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی برسی کے روز سندھ کی پوری قیادت کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کے فیصلے کے اعلان نے بڑے بڑے سیاسی جگا دریوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ حکومت کے اصل مقاصد کیا ہیں؟ بلاشبہ حکومتی اقدامات نے بلاول بھٹو کو سندھ کا ’باغی‘ رہنما بنانے کی راہ ہموار کر دی ہے۔ بلاول کا پی ٹی ایم اور ناراض بلوچوں کے ساتھ اظہار یکجہتی آنے والے دنوں میں کسی قومی تحریک کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ مریم نواز کو مصلحت کا لبادہ اتارنا ہو گا اور بلاول کو بھی سیاسی بوجھ سے چھٹکارا چاہیے مصلحت پسند اپوزیشن اپنے مفاد کے لیے ہی سہی مگر چنیدہ احتساب کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار کر سکتی ہے۔ احتساب محض سیاست دانوں اور وہ بھی جمہوریت پسند سیاست دانوں کا؟ یہ سوال ضرور اٹھا رہا ہے کہ 40 سال بلا شرکت غیرے حکمرانی کرنے والے آمروں کا احتساب کیوں نہیں ہونا چاہیے؟ یہ چنیدہ احتساب اور بڑھتی معاشی بے چینی عوام کو کسی بھی مصنوعی انقلاب یا کم از کم احتجاج پر تیار کر سکتی ہے۔ نئے سال میں بلاول اور مریم نئی قیادت کے طور پر ابھریں گے۔ مریم نواز کو مصلحت کا لبادہ اتارنا ہو گا اور بلاول کو بھی سیاسی بوجھ سے چھٹکارا چاہیے۔ اصل قیادت عوام سے دور ہوئی تو ایسا سیاسی خلا پیدا ہو جائے گا جو مقتدروں کے گلے پڑ سکتا ہے۔ کیا ’اہل اقتدار‘ سنہ 2019 میں کسی سیاسی بھونچال کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ بہر حال سیاست اور معیشت کے اصل فیصلے اگلے چھ ماہ میں ہوں گے جب جناب وزیراعظم کو اہم تعیناتیوں کے فیصلے کرنا ہیں۔ دیکھیے اور انتظار کیجیے! پانی پر تصویریں بنانے سے شاہکار تخلیق نہیں ہوتے۔ ریت پر قدموں کے نشان چھوڑنے کے لیے پانی کا سہارا ضروری ہے اور بُلبلوں کو دوام دینے کے خواب تنفس کو امتحان میں ڈال سکتے ہیں۔ text: زینتھ عرفان اپنے موٹرسائیکل پر پاکستان کے شمالی علاقوں کا سفر کرتی ہیں اور ان کی ویڈیو ڈائریز بناتی ہیں زینتھ نہ صرف اپنی موٹرسائیکل پر پاکستان کے دوردراز اور خوبصورت علاقوں کا سفر کرتی ہیں بلکہ ویڈیو ڈائری کی شکل میں ان لمحوں کو قید بھی کرتی ہیں۔ انھوں نے 18 سال کی عمر میں اپنے چھوٹے بھائی سے موٹر سائیکل چلانا سیکھی اور اس کی وجہ ان کے والد کا ادھورا خواب تھی۔ پاکستانی خواتین بائیکرز کی کہانیاں ’میرے لیے سکوٹی آزادی ہے، زندگی ہے‘ فاصلہ رکھیں، آپ ایک خاتون کے ساتھ سوار ہیں! ’ہمت اور گھر والوں کا ساتھ ہو تو کچھ ناممکن نہیں‘ ’ہراساں کیے جانے سے تنگ آ کر بائیک چلائی‘ ’میں نے بائیک چنی کیونکہ میرے ابو کا یہ شوق تھا کہ وہ بائیک پر پوری دنیا کی سیر کر سکیں۔ میں دس ماہ کی تھی جب وہ وفات پا گئے۔ میری امی نے مجھے ان کی اس خواہش کہ بارے میں بتایا۔ بائیکنگ کے ذریعے میرا ابو کے ساتھ روحانی کنکشن ہے۔‘ زینتھ نے 2015 میں گلگت بلتستان میں موٹر سائیکل پر اپنا پہلا ٹور کیا، اور تب سے اب تک ان تین سالوں میں وہ 20 ہزار کلومیٹر مکمل کرتے ہوئے متعدد ٹریول ڈائریز بنا چکی ہیں۔ لوگ سوچتے ہیں کہ شاید زینتھ یہ ٹرپ اکیلے ہی کرتی ہیں لیکن یہ ایسا نہیں ہے۔ 'میں سولو رائیڈر نہیں ہوں۔ میرا ایک باقاعدہ گروپ بنا ہے، اس گروپ میں میرا بھائی ہر ٹرپ پر میرے ساتھ ہوتا ہے، اپنی موٹرسائیکل پر۔ پھر میرے کچھ قریبی دوست بھی ہیں، جیسے میرے استاد عدنان بھائی۔ عام طور پر ہم تین یا چار لوگوں کا گروپ ٹور پر جاتا ہے۔ ’میرا سب سے پہلا ٹور گلگت بلتستان کا تھا، جہاں ہم خنجراب پاس، ہنزہ اور سکردو گئے۔ میں نے دوسرا ٹور کیا 2016 میں خیبر پختونخوا کے علاقوں کا، جن میں سوات، چترال اور شندور شامل ہیں۔' موٹرسائیکل پر پاکستان کے شمالی علاقوں کا سفر دیکھنے اور سننے میں بہت اچھا لگتا ہے لیکن یہ آسان کام نہیں۔ کئی بار بائیک سے گرنے اور زخمی ہونے کے باوجود، زینتھ نہ تو گھبرائیں اور نہ ہی ان کا شوق کم ہوا۔ 'بہت دفعہ گر چکی ہوں، اب تو گنتی بھی بھول گئی ہے۔ ایک دفعہ کالام اور سوات کے پاس ایک گاؤں ہے، اترور، وہاں پر ایک پل پار کر رہی تھی کہ اچانک بائیک سمیت دریا میں گر گئی۔ اسی طرح بائیکنگ کے لیے جھیل سیف الملوک کا علاقہ بھی مشکل ہے کیونکہ وہ کافی پتھریلا ہے۔ وہاں تو جیپ کا گزرنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے ۔ ایسے میں ایک دفعہ جب میں وہاں بائیک پر گئی تو راستے میں اچانک موٹر سائیکل پر کنٹرول ختم ہوا اور میں گر گئی۔ بائیک کی بریک اور کلچ بھی ٹوٹ گئی تھی۔ پھر میرے بھائی نے مجھے موٹرسائیکل کے نیچے سے نکالا۔' تو میدانی اور دور دراز پہاڑی علاقوں کے مقابلے میں لاہور میں بائیک چلانا کتنا مشکل ہے؟ 'یہ دونوں بہت مختلف ہیں۔ میں جب شہر میں موٹرسائیکل پر سفر کرتی ہوں تو مجھے بہت محتاط رہنا پڑتا ہے۔ جب لوگوں کو پتا چلتا ہے کہ ایک لڑکی بائیک چلا رہی ہے تو وہ اکثر میری بائیک کے راستے میں آجاتے ہیں۔ تنگ کرتے ہیں، جملے کستے ہیں لیکن میری توقع سے مختلف، پہاڑی علاقوں میں لوگ بہت گرمجوشی اور پیار سے ملے۔ انھیں تجسس بھی تھا کہ میں کیا کر رہی ہوں۔ پہلے تو انھیں یقین ہی نہیں آیا کہ میں پاکستانی لڑکی ہوں پھر جب انھیں یقین آیا کہ میں واقعی لاہور کی رہنے والی ایک لڑکی ہوں تب انھوں نے مجھے خود مشورے دیے کہ وہاں جاؤں، وہ علاقہ دیکھو، وہ وادی دیکھو۔' زینتھ لاہور سکول آف اکنامکس سے مارکیٹنگ اور فنانس میں گریجویشن کر رہی ہیں اور باقاعدگی سے اپنی موٹرسائیکل ٹریول ڈائریز بنا رہی ہیں۔ انھوں نے 2015 میں اپنا پہلا ٹور کرنے کے بعد فیس بک پر 'زینتھ عرفان: ون گرل، ٹو ویلز' کے نام اپنا صفحہ بنایا، جہاں وہ اپنی روزانہ کی اپ ڈیٹ کی ویڈیو پوسٹ کرتی ہیں کہ وہ کہاں جا رہی ہیں، کس سے مل رہیں ہیں، پہاڑی علاقوں میں کونسے ثقافتی رنگ دیکھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کا مقصد دنیا کو پاکستان کے خوبصورت چہرے اور مثبت پہلو سے آشنا کروانا ہے۔ زینتھ اپنی انفرادیت اور ہمت کی وجہ سے ایک سٹار بن گئی ہیں اور جلد ہی ان کی زندگی پر مبنی ایک پاکستانی فلم بھی ریلیز ہو رہی ہے۔ 'میں بہت خوش قسمت ہوں کہ مجھ پر بائیوپک فلم بن رہی ہے جس کا نام ہے موٹرسائیکل گرل۔ فلم اسی سال 20 اپریل کو ریلیز ہو گی۔ یہ فلم مجھ پر نہیں بلکہ ہر اس لڑکی پر مبنی ہے جو اپنے خواب پورے کرنا چاہتی ہے۔' زینتھ خود کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہیں کیونکہ ان کے دوست اور خاندان اُن کے خواب کی تکمیل میں اُن کے ساتھ ہے۔ مستقبل میں زینتھ کی خواہش ہے کہ وہ پورے پاکستان کا بائیک پر سفر کریں۔ 'اب میں پروفیشنل ٹوئرنگ کی طرف جانا چاہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ میں پورا پاکستان دیکھوں کیونکہ اب تک میں نے صرف شمالی علاقے دیکھے ہیں۔ تو اب میں چاہتی ہوں کہ میں سندھ کا بھی سفر کروں۔' ٭ بی بی سی اردو کچھ ایسی پاکستانی خواتین بائیکرز کی کہانیاں پیش کر رہا ہے جنھوں نے موٹر بائیک کو اپنے زندگی بدلنے کے لیے استعمال کیا۔ ان کہانیوں کو آپ بی بی سی اردو کی ویب سائٹ کے علاوہ ٹی وی اور ریڈیو پروگرامز میں دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ ‫اس کے علاوہ آپ اس سیریز کو بی بی سی اردو کی ویب سائٹ، فیس بُک، ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر ہیش ٹیگ #BBCURDUWomenBikers کے ساتھ فالو کر سکتے ہیں۔ کالے بوٹ اور لال جیکٹ پہنے،زینتھ عرفان ایک پاکستانی بائیک ٹوئرسٹ ہیں۔ text: ماہرینِ نفسیات میں اس بات پر اختلافات ہیں کہ ویڈیو گیمز کی وجہ سے لوگ تشدد پسند ہو جاتے ہیں ویڈیو گیمز کی لت اور تشدد کے سبب بننے کے الزامات اکثر اوقات سامنے آتے ہیں لیکن تین دہائیوں پر محیط تحقیق کے بعد بھی سائنس دان کسی متفقہ رائے پر نہیں پہنچ سکے۔ بچوں پر ویڈیو گیمز کے مثبت اثرات تجربہ گاہوں میں کی گئی تحقیقات میں بعض سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ تشدد سے بھرپور گیم کھیلنے والے افراد کے غصے میں چار فیصد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔ لیکن محققین کے ایک دوسرے گروپ کی رائے کے مطابق خاندانی پس منظر، ذہنی صحت اور مرد ہونے جیسے عوامل غصے کی معیار کو جانچنے میں زیادہ قابل ذکر ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ سائنس ویڈیو گیمز اور حقیقی زندگی میں تشدد کے رویے کے درمیان رسمی تعلق نہیں تلاش کر سکی۔ لیکن اس تنازعے سے الگ ایک اور تحقیق میں دکھایا گیا ہے کہ ان ویڈیو گیمز کے بارے میں مختلف آرا سامنے آئی ہے۔ ماہرِ نفسیات میں اس بات پر اختلافات ہیں کہ ویڈیو گیمز کی وجہ سے لوگ تشدد پسند ہو جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں دیگر محققین ویڈیو گیمز میں پوشیدہ فوائد کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جنیوا یونیورسٹی کی پروفیسر ڈیفن بیولیر نے ویڈیو گیمز کھیلنے اور نہ کھیلنے والوں کی بصری خصوصیات کا موازنہ کیا ہے۔ ایک ٹیسٹ میں شامل افراد کو حرکت کرتی مختلف چیزوں پر ہر صورت نظر رکھنا تھی۔ پروفیسر ڈیفن بیولیر کے مطابق ان کے مشاہدے میں یہ سامنے آیا کہ یہ کام ایکشن ویڈیو گیمز کھیلنے والوں نے گیمز نہ کھیلنے والوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں کیا۔ دماغی ورزش کی ویڈیو گیمز ایک عرصے سے بے انتہا مقبول رہی ہیں لیکن اس بات کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے کہ سے کوئی دماغی فائدہ پہنچ سکتا ہے پروفیسر بیولیر کے نظریے کے مطابق تیز گیمز کھیلنے والوں کو سکرین پر نظر آنے والی چیزوں پر مسلسل ایک کے بعد ایک پر توجہ مرکوز کرنا ہوتی ہے جبکہ اس کے علاوہ گیم کے ماحول کے مطابق انھیں کسی بھی تبدیلی کے حوالے سے چوکس رہنا پڑتا ہے۔ یہ سب دماغ کے لیے چیلنج ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے سامنے آنے والی بصری معلومات کو زیادہ بہتر انداز میں پروسیس کرتا ہے۔ برلن میں انسانی رویوں پر کام کرنے والے میکس پلینک انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر سائمن کوہن نے بھی ویڈیو گیمز کے دماغ پر مرتب ہونے والے اثرات پر تحقیق کی ہے۔ ایک تحقیق میں انھوں نے فنکشنل ایم آر آئی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔ تحقیق میں شامل افراد نے سپر ماریو 64 ڈی ایس گیم دو ماہ تک کھیلی اور اس دوران ان کے دماغ کا مشاہدہ کیا گیا۔ انھوں نے مشاہدہ کیا کہ حیرت انگیز طور پر دماغ کے تین ایسے حصے بڑھ گئے ہیں جو نیویگیشن اور موٹر کنٹرول سے متعلق ہیں۔ یہ ویڈیو گیم اس حوالے سے بھی منفرد تھی کہ اس کی ٹاپ سکرین پر مناظر تھری ڈی میں نظر آتے تھے جبکہ سکرین کے نچلے حصے میں مناظر ٹو ڈی میں نظر آتے ہیں۔ پروفیسر کوہن کے خیال میں مختلف طریقوں سے ایک ہی وقت میں سمتوں کا تعین کرنے کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ دماغ کی نشوونما کو بڑھا دیا ہو۔ اس وقت جس تحقیق میں سب سے زیادہ جوش و جذبہ پایا جاتا ہے جس میں یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آیا ویڈیو گیمز بڑھاپے میں دماغ کے کمزور ہونے کے عمل کو روک سکتی ہے۔ دماغی ورزش کی ویڈیو گیمز ایک عرصے سے بے انتہا مقبول رہی ہیں لیکن اس بات کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے کہ سے کوئی دماغی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ تاہم یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر ایڈم گزیلے اور ویڈیو گیمز ڈیزائن کرنے والی ایک ٹیم نے مختلف گیم نیورو ریسر (neuroracer) تیار کی۔ نیورو ریسر کھیلنے والوں کو ایک گاڑی پر نظر رکھنے کے علاوہ دیگر امور سرانجام دینے تھے اس گیم کو بڑی عمر کے افراد کے لیے تیار کیا گیا تھا جس میں کھیلنے والوں کو ایک گاڑی کی رہنمائی کرنا ہوتی ہے اور اس کے ساتھ دیگر دی گئی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ 12 گھنٹے تک گیم کھیلنے والے بڑی عمر کے افراد کے مشاہدے سے پروفیسر گزیلے کو معلوم ہوا کہ ان افراد کی پرفارمنس میں بہتری آئی ہے اور انھوں نے پہلی بار یہ گیم کھیلنے والے 20 سالہ کھلاڑیوں کو ہرا دیا۔ انھوں نے بھی مشاہدہ کیا کہ ان کی ورکنگ یادداشت میں بھی بہتری آئی ہے اور توجہ دینے کے دورانیے میں اضافہ ہوا ہے۔ قطعی طور پر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ویڈیو گیمز کھیلنے کی خوصیات کو حقیقی دنیا میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ ویڈیو گیمز کی انڈسٹری دنیا بھر میں ہے اور اس وقت گیمز کھیلنے والوں کی تعداد ایک ارب 20 کروڑ ہے اور ایک اندازے کے مطابق جلد ہی گیمز کی سالانہ فروخت ایک کھرب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ text: وفد کا کہنا تھا کہ وہ اس نیم خود مختار علاقے میں گزشتہ دنوں القاعدہ کے خلاف کاروائی کے بارے میں حقائق اکٹھے کرنا چاہتے تھے۔ متحدہ مجلس عمل کے ڈپٹی پارلیمانی رہنما لیاقت بلوچ کے سربراہی میں جنوبی وزیرستان جانے والے اس وفد کو جنڈولہ کے مقام پر حکام نے روک لیا۔ اس موقعے پر سخت حفاظتی اقدامات کئے گئے تھے۔ انہیں بتایا گیا کہ قانون کے مطابق قبائلی علاقے میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہے لہذا انہیں جانے کی اجازت نہیں۔ اس موقع پر موجود لوگوں سے خطاب میں ایم ایم اے کے رہنماؤں نے حکومتی فیصلے کی مذمت کی۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ ایک جانب منتخب اراکین کو قبائلی علاقے جانے کی اجازت نہیں جبکہ امریکی ایف بی آئی کو کھلی چھٹی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے وزیرِ اطلاعات شیخ رشید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ایم ایم اے کا ایک وفد وزیرستان جا رہا ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی تھی کہ گزشتہ دنوں وزیرستان میں آپریشن میں القاعدہ کا ایک اہم رکن ہلاک ہو گیا تھا جو ایف بھی آئی کو مطلوبہ افراد کی لسٹ میں شامل تھا۔ پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کے حکام نے متحدہ مجلس عمل کے ایک سات رکنی وفد کو علاقے میں داخل ہونے نہیں دیا۔ text: صوبہ سسکاچون کے قصبے شیلبروک کے ایک رہائشی نے بجلی کمپنی کو ریچھ کے بارے میں اطلاع دی تو کمپنی نے فوراً اپنے عملے کو وہاں روانہ کر دیا۔ کپمنی کے ترجمان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ جب عملے کے لوگ شیلبروک پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ ریچھ کھمبے کے اوپر چڑھ چکا ہے۔ ’شروع شروع میں وہ جاگ رہا تھا، لیکن لگتا ہے بعد میں اسے یہ جگہ آرام دہ محسوس ہوئی اور اس نے سوچا کیوں نہ کھمبے پر ہی تھوڑی دیر سو لُوں۔‘ فیس بُک پر ایک پیغام میں کمپنی کا کہنا ہے کہ انھیں خدشہ تھا کہ ریچھ نیچے اترتے ہوئے کہیں خود کو زخمی نہ کر لے اس لیے وہ سوچ رہے تھے کہ کیوں نہ علاقے کی بجلی منقطع کر کے ریچھ کو نیچے اتارنے کا بندوبست کیا جائے۔ لیکن تھوڑی دیر ’پاور نیپ‘ لینے کے بعد ریچھ خود ہی جاگ گیا اور کھمبے سے پھسلتا ہوا نیچے آگیا۔ ’جہاں تک ہمارا خیال ہے، اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا اور اس نے نیچے اتر کر اپنی راہ لے لی۔‘ ترجمان کا کہنا تھا کہ ریچھ نا صرف خود کو نقصان پہنچائے بغیر نیچے اتر آیا بلکہ اس نے کھمبے پر بھی توڑ پھوڑ نہ کی اور نہ ہی بجلی بند کی۔‘ سسکاچون کے صوبے کی آبادی بہت کم ہے اور یہاں ریچھ مزے سے گھومتے پھرتے رہتے ہیں، تاہم وہ بجلی کے کھمبوں پر روز روز نہیں چڑھتے۔ صوبائی حکومت نے لوگوں کو تفصیلی ہدایات فراہم کر رکھی ہیں کہ وہ سیاہ ریچھوں کے رستے میں آنے سے کیسے پرہیز کر سکتے ہیں۔ کینیڈا میں ایک ریچھ نے بجلی کپمنی کے ملازمین کو اس وقت حیران کر دیا جب انھوں نے دیکھا کہ ریچھ مزے سے بجلی کے کھمبے پر سو رہا ہے۔ text: ایف سی کے ترجمان نے بتایا ہے کہ فرنٹیئر کور کا ایک قافلہ کاہان سے کوہلو واپس آرہا تھا کے راستے میں سوری کور نالہ کے قریب آگے جانے والی گاڑی ایک اینٹی ٹینک مائن سے ٹکرا گئی ہے جس میس چار اہلکار شدید زخمی ہوئے ہیں جبکہ دو کو معمولی چوٹیں آئی ہیں۔ یہ بارودی سرنگ نا معلوم افراد نے راستے میں نصب کر رکھی تھی۔ ترجمان نے کہا ہے کہ زخمیوں کو سوئی ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ کوہلو کے علاقے میں راکٹ باری کے واقعات معمول سے ہو تے رہتے ہیں۔ اس علاقے میں بارودی سرنگوں سے دھماکوں کے واقاع ت اس سے پہلے بھی رونما ہو چکے ہیں جن میں ایف سی کے اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔ گزشتہ دنوں کوہلو سے کچھ دور بارکھان کے علاقے میں نا معلوم افراد نے دس سے زیادہ راکٹ داغ دیے تھے جس میں تین ایف سی کے اہلکار زخمی ہو ۔یے تھے ۔ اسی طرح اس علاقے میں بجلی کے کھمبوں اور ٹیلیفون کی تنصیبات پر بھی صوبہ بلوچستان کے شہر کوہلو کے قریب فرنٹیئر کور کی ایک گاڑی بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی ہے جس میں چار اہلکار شدید زخمی ہو ئے ہیں۔ text: یہ بات فن لینڈ کے وزیر خارجہ نے اپنے ہم منصب سے ہیلسکنی میں ملاقات کے باع کہی ہے۔ اس سے پہلے شام کے صدر بشارالاسد نے کہا ہے کہ لبنان کی سرحد کے ساتھ عالمی فوج کی تعیناتی ایک جارحانہ قدم ہوگا۔ عرب ٹی وی کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں بشارالاسد نے کہا کہ یہ لبنان کی سالمیت کی خلاف ورزی اور ایک جارحانہ پوزیشن لینے کے مترادف ہوگا۔ صدر اسد نے کہا کہ عالمی فوج کی تعیناتی سے لبنان اور شام کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگی۔ ’سب سے پہلے تو یہ لبنان کی سالمیت کی خلاف ورزی ہوگی کیونکہ دنیا کی کوئی بھی ریاست اس وقت تک اپنی سر زمین پر غیر ملکی فوج کی تعیناتی قبول نہیں کرے گی جب تک وہ کسی دوسری ریاست کے ساتھ جنگ کی حالت میں نہ ہو اور دوسرے یہ کہ یہ قدم شام کی طرف ایک جارحانہ قدم تصور کیا جائے گا۔‘ شام کے وزیر خارجہ نے اس بیان کے بعد کہا ہے کہ اگر اقوام متحدہ کی فوج کو سرحد پر تعینات کیا گیا تو ان کا ملک سرحد بند کردے گا۔ اس بیان سے پہلے اسرائیل کے وزیر خارجہ نے’خطرناک صورتحال‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لبنان میں اقوام متحدہ کی وسیع تر امن فوج کی فوری تعیناتی پر زور دیا تھا۔ دمشق میں بی بی سی کے نامہ نگار مائیکل ووس کے مطابق لبنان ایک مرتبہ پھر شام اور اسرائیل کے درمیان پھنسا ہوا نظر آرہا ہے لبنان میں تعینات کی جانے والی فوج کی تشکیل میں خاصی مشکلات کا سامنا ہے اور اقوام متحدہ نے یورپی ممالک کی طرف سے اس سلسلے میں ابھی تک مایوس ردعمل پر تشویش ظاہر کی ہے۔ کئی ممالک اس وقت تک امن فوج میں اپنے فوجی بھیجنے پر مکمل طور تیار نہیں ہورہے جب تک اس فوج کا مینڈیٹ خاص طور پر حزب اللہ کا غیر مسلح کرنے کا عمل واضح نہیں ہوتا۔ لبنان میں پچھلے دس روز سے جاری جنگ بندی کے دوران پہلے ہی کئی جھڑپیں اور اسرائیل کی طرف سے لبنان کے اندر کمانڈو آپریشن جیسے واقعات ہوچکے ہیں۔ شام نے خبردار کیا ہے کہ اگر لبنان کی سرحد کے ساتھ عالمی فوج تعینات کی گئی تو وہ اپنی سرحد بند کردے گا۔ text: نام: ذوالفقار احمد، عمر 32 سال، دو سال پہلے راولپنڈی کے ہسپتال میں گردہ بیچا۔ ’میں بچہ کلاں کا رہائشی ہوں اور ہمارے گاؤں اور اس کے اردگرد کے علاقے کے تقریباً تین سو افراد اپنے گردے بیچ چکے ہیں۔ میرے خاندان کے کئی افراد نے بھی گردے بیچے ہیں۔ ’میں قرض کی وجہ سے بہت مجبور تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ راولپنڈی میں ایک ہسپتال ہے جہاں گردہ بیچا جا سکتا ہے۔ میں وہاں چلا گیا اور نوے ہزار کا سودا ہوا۔ لیکن خرچہ وغیرہ ڈال کر میں صرف ساٹھ ہزار کے قریب گھر لے جا سکا۔ میرے خاندان کے سبھی افراد نے اس ہسپتال میں گردہ بیچا۔ ’میں نے اپنا گردہ ایک پاکستانی کو بیچا تھا۔ پیسے آپریشن کے بعد گھر جاتے ہوئے دیے جاتے ہیں۔ ’ہم تو یہ کام کر بیٹھے ہیں لیکن اب جب سنتے ہیں کہ کوئی اور بھی گردہ بیچنے جا رہا ہے تو اسے منع کرتے ہیں۔ ہمیں تو کسی نے نہیں بتایا تھا لیکن ہم بتانا چاہتے ہیں۔ ’لیکن غربت بہت ہے کوئی نہیں رکتا۔ چلا جاتا ہے۔ ’میری صحت بہت خراب رہتی ہے، مشقت کا کام نہیں ہوتا۔ ہم بہت غریب ہیں۔ ہماری عورتیں ہمیں کہتی ہیں کہ اب غربت بہت ہو گئی اب ہم بھی اپنے گردے بیچ دیں گی۔ کچھ عورتوں نے تو بیچ بھی دیے ہیں۔ ’بس ہم آزاد بیٹھ کر روٹی کھانا چاہتے ہیں، ایک چھت چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں۔ کوئی ہماری فریاد سن لے۔‘ بات ذوالفقار تک آ کے رک جاتی تو شاید غربت کے ہاتھوں انسانی بیچارگی کی یہ کہانی تمام ہو جاتی۔ لیکن ذوالفقار احمد کے علاقے میں ایک دو نہیں، تین سو کے قریب افراد غربت کو اپنے گردوں کی بھینٹ دے چکے ہیں۔ اعضائے انسانی کی تجارت شاید بے بسی کی ایک انتہائی حد ہے۔ اس سلسلے میں آپ ہمیں اپنی آراء بھی انہی صفحات کے ذریعے بھیج سکتے ہیں۔ آپ کی آراء اطہر راجہ، کراچی:میرے خیال میں ہم اپنے مذہب سے دور چلے گئے ہیں۔ ہمیں اپنے غریب عوام کی مدد کرنی چاہیے۔ ہمیں مذہبی احکامات کے مطابق غریب لوگوں کی امداد کے لیے زکاۃ دینی چاہیے۔ شہزاد اورکزئی، کوہاٹ، پاکستان:میری گزارش ہے کہ صرف اس ذات سے مانگیں جو کسی کا محتاج نہیں اور اسی پر بھروسہ رکھیں۔ وہ آپ کے سب قرضے معاف کر دے گا۔ شاہدہ اکرم، عرب امارات:یہ مسئلہ کسی ایک آدھ شخص کی مالی مدد سے حل ہونے والا نہیں۔ آپ کے اس کالم سے کیا فرق پڑے گا۔ کیا اس کے بعد اس مد میں عملی قدم بھی اٹھائیں گے یا میں اپنی آراء لکھ کر کیا کر لوں گی جسے آپ پڑھ کر شائع بھی کرنا مناسب نہ سمجھیں۔ ہم آپ اور ہم جیسے اور بہت سے لوگ بس صرف کاغذ کالے کرنا جانتے ہیں یا پھر اب نیٹ پر اپنی بات لکھ کر سمجھتے ہیں بہت بڑا کارنامہ کر لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے کام ایسے ہو بھی نہیں سکتے۔ ہمارے کچھ ہزاروں سے غربت ختم نہیں ہو سکتی۔ حکومت کو ہی نہیں بلکہ تمام سماجی تنظیموں کو عملی اقدام اٹھانیں ہوں گے۔ بدر شریف، جرمنی:میں انسانی اعضا کی تجارت کی مذمت کرتا ہوں۔ چونکہ تمام اشیاء اللہ نے پیدا کی ہیں اور کوئی بھی چیز فضول نہیں اس لیے اپنے اعضا کو بیچنا گناہ ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص کسی کی زندگی بچانے کے لیے اعضا عطیہ کے طور پر دیتا ہے تو اللہ اس کا بڑا اجر دے گا۔ عثمان مغل، میانوالی، پاکستان:یہ ایک بہت ہی برا فعل ہے۔ اسلام بھی صرف انسانی ہمدردی کے تحت اس طرح کے فعل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ جہاں تک غربت کا سوال ہے اس بارے میں واقع ہی حکومت کو سنجیدگی سے کچھ کرنا ہوگا ورنہ ناجانے کتنے ہی لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ محمد فیصل، رحیم یار خان، پاکستان:میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروںکہ سارے شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے مرزا افضل، پاکستان:بہت دکھ ہوا کہ غربت کی وجہ سے سارے گاؤں کو اپنے گردے بیچنے پڑے پھر بھی قرض کی ادائیگی نہ ہوئی۔ لعنت ہے پاکستانی حکومت پر جو معصوم غریبوں کا خون چوس کر اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں اور بے روزگاروں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہی۔آج ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر نہیں بلکہ افسوس کرتے ہیں۔ مرتضیٰ آرائیں، پاکستان:عوام تو ان پڑھ ہیں اصل مجرم تو ہسپتالوں کے کرتا دھرتا ہیں جو ان کم علم لوگوں کو صحیح مشورہ دینے کی بجائے آپریشن کر دیتے ہیں۔ یقیناً یہ لوگ ان گردوں کو بہت مہنگے داموں پر بیچتے ہوں گے۔ بچارے غریب اپنا گردہ بھی سستا بیچ آتے ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ آپ ان ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے نام بھی شائع کریں۔ سید عتیق احمد، کراچی، پاکستان:انسان کتنا مجبور ہے اور ظالم حکومت کو غربت کا مسلہ حل کرنا ہوگا۔ کیا کوئی سیاستدان اتنا غریب ہے کہ اسے اپنے گردے بیچنے پڑے ہوں۔ اگر کوئی سیاستدان اپنا گردہ بیچتا ہے تو وہ ہی حقیقت میں عوام کا رہنما ہے۔ سمیع اللہ، برطانیہ:افسوس کی بات ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں کہ جہاں بھوک اور غربت سے تنگ آکر لوگ اپنے جسمانی اعضا تک بیچ رہے ہیں۔ حکومت کس منہ سے قیامت کے دن اللہ کا سامنا کریں گے۔افسوس کہ حکومت اور اپوزیشن کو وردی کے مسئلے سے نجات نہیں۔ حکومت اگر عوام کو بنیادی سہولتیں مہیا نہیں کر سکتی تو چاہیے کہ ملک کو برطانیہ یا امریکہ کے ہاتھوں بیچ دیں۔ نور نبی شاہ، سوات، پاکستان:اب لوگ غربت کی وجہ سے گردہ بیچ رہے ہیں لیکن وہ وقت دور نہیں جب لوگ اپنی جان قربان کریں گے۔ محمد اشرف، برطانیہ:اس بے بسی کے ذمہ دار ہمارے رہنما ہیں اور رہی سہی کسر بہادر فوج نے نکال دی۔ کاش اللہ ان کو بھی ایسے دن دکھائے۔ اعضا کی تجارت کی بی بی سی اردو سروس کی خصوصی رپورٹ کے سلسلے کی اس کڑی میں پڑھیئے کہانی اس مرد کی جو قرضے سے تنگ آکر کچھ روپوں کے لیے اپنا گردہ تو بیچ آیا لیکن قرضے سے پھر بھی نجات حاصل نہ کر سکا۔ text: سکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم کی مہم جاری ہے علیحدگی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ہوا کا رخ ان کے ساتھ ہے جب کہ مخالفین کا خیال ہے کہ وہ بازی لے جائیں گے۔ ریفرنڈم میں دو ہفتے قبل عوامی رائے عامہ کے جائزے کے مطابق علیحدگی پسندوں کو اس دوڑ میں معمولی برتری حاصل ہے۔ اس جائزے کے سامنے آنے کے بعد برطانوی وزیرِ خزانہ جارج اوسبرون نے وعدہ کیا ہے کہ اگلے چند دنوں میں سکاٹ لینڈ کی پارلیمان کو مزید اختیارات دینے کے منصوبے کا اعلان کیا جائے گا۔ سکاٹ لینڈ کے وزیر اعلی ایلکس سالمنوڈ نے جارج اوسبرون کے بیان کو افراتفری میں پیش کی جانے والی رشوت قرار دیا ہے جب ہزاروں لوگوں نے پوسٹل بیلٹ کے ذریعے پہلے ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کر لیا ہے۔ ریفرنڈم میں پولنگ 18 ستمبر کو ہوگی ریفرنڈم کی مہم ختم ہونے سے گیارہ دن پہلے فریقین غیر یقینی کا شکار ووٹروں کو قائل کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ ستمبر کی 18 تاریخ کو سکاٹ لینڈ کے شہری سکاٹ لینڈ کی آزادی کے بارے میں سوال کا ہاں یا نہ میں بیلٹ کے ذریعے جواب دیں گے۔ برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کے لیے کیے گئے ایک جائزے کے نتائج کے مطابق 51 فیصد افراد نے اپنا ذہن بنا لیا اور وہ آزادی یا علیحدگی کے حق میں ہیں جب 49 فیصد نہ میں ووٹ دینے کی نیت رکھتے ہیں۔ اس جائزے میں 1084 افراد سے ستمبر کی دو سے پانچ تاریخ کے درمیان بات کی گئی اور یہ پہلا سروے ہے جس میں علیحدگی کے حامیوں کی برتری ظاہر ہوئی ہے۔ ’سانجھے میں بہتری‘ کے نام سے علیحدگی کے خلاف چلائی جانے والی کثیر الجماعتی مہم کو اس سے قبل کیے جانے والے سروں میں برتری حاصل تھی۔ ایک اور سروے کے نتائج کے مطابق علیحدگی کے مخالفین 52 فیصد ہیں جب کے علیحدگی کے حق میں 48 فیصد لوگ ہیں۔ سکاٹ لینڈ کے مستقبل کے بارے میں ریفرنڈم کی مہم میں شامل سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ برطانیہ سے علیحدگی کے حامیوں اور مخالفین میں اس قدر شدید مقابلہ ہے کہ ریفرنڈم کے نتیجے کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا محال ہے۔ text: مظاہرین جنوبی کوریا میں امریکی فوجوں کی موجودگی اور عراق پر امریکی حملے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ رمسفیلڈ کی سیئول آمد کے موقع پر پولیس کی بھاری نفری کو سڑکوں پر تعینات کیا گیا تھا۔ مشرقی ایشیاء کے دورے کے اس مرحلے میں امریکی وزیر خارجہ جنوبی کوریا کے رہنماؤں کے ساتھ امریکی اڈوں، عراق میں اتحادی فوجوں میں جنوبی کوریا کی شمولیت اور شمالی کوریا کے ساتھ کشیدگی کے موضوع پر بات چیت کرنے والے ہیں۔ رمسفیلڈ مذاکرات کے دوران ملک میں موجود سینتالیس ہزار امریکی فوجیوں کی ازسرنو تعیناتی کے معاملے پر بھی بات چیت کریں گے۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں قائم اڈوں کو ملک کے جنوبی حصے میں منتقل کر دیا جائے۔ اپنے دورے کے دوران رمسفیلڈ جنوبی کوریا کے صدر روہموہیون سے ملاقات کریں گے اور شمالی کوریا کے ساتھ کشیدگی کے معاملے پر بات چیت کریں گے۔ بات چیت کے دوران جنوبی کوریا کی فوج کو عراق بھیجنے کا معاملے بھی زیر بحث آنے کی توقع ہے۔ جنوبی کوریا نے گزشتہ ہفتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ عراق میں صرف تین ہزار فوجی بھیجے گا۔ دوسری طرف امریکہ جنوبی کوریا پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ زیادہ تعداد میں فوجی عراق بھیجنے کا اعلان کرے۔ جنوبی کوریا میں عوامی سطع پر ان معاملات پر سخت اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمسفیلڈ کی جنوبی کوریا آمد کے موقع پر امریکہ مخالف مظاہرے ہوئے ہیں۔ text: کلاچی تحصیل میں مڈی علاقے کے رہائشی انعام اللہ خان گنڈاپور نے مقامی تھانے میں رپورٹ درج کرائی ہے جس میں تحصیل مڈی میں واقعے گورنمٹ ہائی سکول میں عربی کے استاد قاری ضیاء الدین قریشی پر اپنے طلبہ کی سوچ و خیالات تبدیل کرنے کا الزام لگایا ہے۔ انعام اللہ کا رپورٹ میں کہنا ہے کہ اس کے بیٹے محمد ذکریا کو جو نویں جماعت کا طالب علم تھا اور سولہ فروری سے لاپتہ ہے قاری ضیاء الدین نے جہاد کے لیے اُکسا کر افغانستان بھیج دیا ہے۔ انہوں نے اسی طرح ایک اور شخص محمد ابراہیم کے بیٹے کو بھی ’جہاد‘ کے لیے بھیجا ہے۔ ان کا الزام تھا کہ ان کے بیٹے کو عربی کے پرچے والے دن ورغلا کر بھیجوا دیا گیا۔ تھانہ کلاچی کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ رپورٹ درج کرنے کے بعد تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں تاہم ابھی کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ محرر اللہ داد کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے میں ابھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔‘ قاری ضیاء الدین مڈی کی جامع مسجد ابو بکر صدیق میں امام کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔ انہوں نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق ان طالب علموں کے والدین کو صوبہ پنجاب کے علاقے ڈوڈیاں سے احسان اللہ ولد ثناء اللہ نامی کسی شخص نے پیغام بھیجا ہے کہ یہ لڑکے ان کے پاس ہیں اور قاری ضیاء کو اس سلسلے میں کچھ نہ کہا جائے۔ تاہم اس شخص کے ان لڑکوں کو رکھنے کا مقصد ابھی واضح نہیں۔ غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق ان کا تعلق بھی کسی ’جہادی تنظیم‘ سے بتایا جاتا ہے۔ پاکستان میں تشویشناک حد تک بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کے واقعات کے تناظر میں یہ غالباً پہلی مرتبہ ہے کہ کسی شخص نے کسی استاد پر اس قسم کا باقاعدہ الزام لگایا ہو۔ صوبہ سرحد کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی میں ایک شخص نے سرکاری سکول کے ایک استاد پر اپنے بیٹے اور دیگر شاگردوں کو ’زبردستی جہاد‘ پر بھجوانے کا الزام لگایا ہے۔ text: جنرل بپن راوت چیف آف ڈیفنس سٹاف کےطور پر نیو کلیر کمانڈ اتھارٹی کے فوجی مشیر ہوں گے ان کی تقرری کا اعلان ان کی سبکدوشی سے محض ایک روز پہلے کیا گیا۔ حالانکہ ان کے نئے عہدے کے بارے میں میڈیا میں پہلے سے ہی چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔ لیفٹیننٹ جنرل منوج موکند ناراونے بری فوج کے نئے سربراہ ہوں گے۔ چیف آف ڈیفنس کا یہ عہدہ فور سٹار کا ہے اور سٹار کے لحاظ سے یہ تینوں افواج کے سربراہوں کے برابر ہے۔ تینوں افواج کے سربراہ انھیں رپورٹ نہیں کریں گے بلکہ وہ بدستور وزیر دفاع کے ہی تابع ہوں گے لیکن چیف آف ڈیفنس سٹاف ان سے صلاح و مشورے کرے گا اور اپنی رائے وزیر دفاع کو دے گا۔ یہ بھی پڑھیے انڈین آرمی چیف کا پاکستان کو سیکولر ہونے کا مشورہ پاکستان مہم جوئی سے باز رہے: انڈین آرمی چیف ’کیا جنرل راوت انڈیا کو پاکستان بنانا چاہتے ہیں‘ انڈین فوج میں چیف آف ڈیفنس سٹاف کا عہدہ حال ہی میں قائم کیا گیا ہے۔ جنرل بپن راوت اس عہدے پر فائز ہونے والے پہلے فوجی سربراہ ہوں گے۔ چیف آف ڈیفنس سٹاف کے طور پر بری فوج، بحریہ اور فضائیہ سے متعلق سبھی معاملوں میں وہ وزیر دفاع کے کلیدی مشیر ہوں گے۔ وزارت دفاع کے بیان کے مطابق چیف آف سٹاف کی ایک اہم ذمے داری یہ ہوگی کہ وہ تینوں افواج کا اس طرح کا ڈھانچہ تیار کرنے میں مدد کریں کہ ایک مشترکہ کمانڈ کے ذریعے فوج کا بہتر اور موثر استعمال کیا جا سکے۔ سائبر اور سپیس سے متعلق تینوں فوجوں کی تنظیمیں، ایجنسیاں اور کمانڈز اب سی ڈی ایس کے ماتحت ہوں گی۔ جنرل بپن راوت چیف آف ڈیفنس سٹاف کے طور پر نیو کلیئر کمانڈ اتھارٹی کے فوجی مشیر ہوں گے۔ بپن راوت 24 دسمبر کو حکومت نے وزارت دفاع کے اندر فوجی امور کا ایک محکمہ قائم کرنے کی منظوری دی تھی۔ اس محکمے میں فوجی افسروں کے ساتھ ساتھ سویلین افسر بھی کام کریں گے۔ جنرل راوت اس محمکے کے سربراہ ہوں گے۔ یہ اپنی نوعیت کا نیا محکمہ ہے۔ چیف آف ڈیفنس سٹاف کی تقرری کے بارے میں دفاعی حلقوں میں برسوں سے بحث چل رہی تھی۔ یہ بحث 1999 میں کارگل کی لڑائی کے بعد ایک جائزہ کمیٹی کی رپورٹ کے بعد شروع ہوئی تھی۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ کارگل کی لڑائی کے دوران بالخصوص ابتدائی دنوں میں بری فوج اور فضائیہ کے درمیان رابطے کی شدید کمی تھی اور دونوں افواج ایک مشترکہ لائحہ عمل کے بجائے الگ الگ کمانڈ پر کام کر رہی تھیں جس سے کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ جائزہ کمیٹی نے تینوں افواج کی ایک مشترکہ اور مربوط کمانڈ کے لیے چیف آف سٹاف کا عہدہ قائم کرنے کی سفارش کی تھی۔ لیکن کارگل کمیٹی کی سفارشات کو سیاسی نا اتفاقی اور تینوں افواج میں اس کی مخالفت کے سبب عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔ گذشتہ اگست میں یوم آزادی کے اپنے خطاب میں وزیر اعظم نریندر مودی نے چیف آف ڈیفنس سٹاف کے عہدے کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ پیر کو ملک کے پہلے سی ڈی ایس کی تقرری کا اعلان کیا گیا۔ گذشتہ اتوار کو حکومت نے تینوں افواج کے ضابطوں میں بھی تبدیلی کی۔ نئے ضابطے کے تحت تینوں افواج کے سربراہوں کی سبکدوشی کی عمر 62 سال سے بڑھا کر 65 سال کر دی گئی ہے۔ جنرل بپن راوت کو چیف آف سٹاف مقرر کرنے کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب حزب اختلاف کی جماعتیں شہریت قانون کی مخالفت کرنے والوں کے بارے میں ان کے ایک بیان پر نکتہ چینی کر رہی ہیں۔ جنرل راوت نے گذشتہ ہفتے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہریت قانون کے خلاف احتجاج کی قیادت کرنے والوں پر نکتہ چینی کی تھی اور کہا تھا یہ لیڈر عوام اور طلبہ کو شہروں میں آتشزدگی اور تشدد کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ جنرل راوت نے یہ بیان حکومت کی ایما پر دیا ہے اور اس کی نوعیت سیاسی ہے۔ کانگریس کے ایک رکن پارلیمان ٹی این پراتھپن نے پیر کو صدر مملکت کو ایک خط لکھ کر ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنرل راوت کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیں کیونکہ انھوں نے سیاسی بیان دے کرفوج کے ضابطہء اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے۔ انڈیا کی بری فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت کو ملک کا پہلا چیف آف ڈیفنس سٹاف مقرر کیا گیا ہے۔ جنرل راوت بری فوج کے سربراہ کے طور پر آج سبکدوش ہو رہے ہیں۔ وہ چیف آف ڈیفنس سٹاف یعنی سی ڈی ایس کا عہدہ بدھ سے سنبھالیں گے۔ text: ڈیرن براوو نے ایک مشکل موقع پر عمدہ بیٹنگ کرتے ہوئے اپنی سنچری سکور کی ویسٹ انڈیز کو دبئی کا ڈے نائٹ ٹیسٹ جیتنے کے لیے 346 رنز کا ہدف ملا تھا لیکن وہ 289 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔ ٭ میچ کا تفصیلی سکور کارڈ دیکھنے کے لیے کلک کریں میچ کے مین آف دی میچ 302 رنز کی اننگز کھیلنے والے پاکستانی بلے باز اظہر علی رہے۔ دوسری اننگز میں ڈیرن براوو نے اپنے ٹیسٹ کریئر کی آٹھویں سنچری سکور کی۔ وہ دس چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 116 رنزکی شاندار اننگز کھیل کر اپنی ٹیم کو ممکنہ شکست سے بچاتے ہوئے اسے اس پوزیشن میں بھی لے آئے جہاں سے وہ یہ ٹیسٹ جیت بھی سکتی تھی لیکن یاسر شاہ نے اپنی ہی گیند پر شاندار کیچ لے کر انھیں آؤٹ کر کے پاکستان کی جیت کی راہ ہموار کر دی۔ ویسٹ انڈیز نے پانچویں دن اپنی دوسری اننگز کا آغاز 95 رنز دو کھلاڑی آوٹ پر کیا تو اسے جیت کے لیے 251 رنز دکار تھے۔ یاسر شاہ نے پاکستان کو ایک اہم موقع پر وکٹ دلائی لیکن دن کی پہلی ہی گیند پر ویسٹ انڈین ٹیم سکتے میں آگئی جب مارلن سیمیولز کو محمد عامر نے سرفراز احمد کے ہاتھوں کیچ کروا کر پویلین کی راہ دکھا دی۔ پہلی اننگز میں 76 رنز بنانے والے سیمیولز دوسری اننگز میں صرف 4 رنز بنا پائے۔ یہ اس اننگز میں محمد عامر کی تیسری وکٹ تھی۔ بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ انھوں نے کسی ٹیسٹ کی ایک اننگز میں تین وکٹیں حاصل کی ہیں۔ 21 رنز کے اضافے پر ویسٹ انڈیز کی چوتھی وکٹ گری جب محمد نواز نے 15 کے انفرادی سکور پر بلیک ووڈ کو ایل بی ڈبلیو کردیا۔ امپائر پال رائفل نے بلیک ووڈ کو ناٹ آؤٹ قرار دیا تھا لیکن ریویو پر ٹی وی امپائر کا فیصلہ پاکستانی ٹیم کے حق میں گیا۔ ڈیرن براوو جنھوں نے پہلی اننگز میں 87 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی تھی انھوں نے دوسری اننگز میں بھی ذمہ داری سے بیٹنگ کی اور ہر بولر کو بڑے اعتماد سے کھیلا۔ انھوں نے اپنی نصف سنچری ایک سو انتالیس گیندوں پر ایک چھکے اور تین چوکوں کی مدد سے مکمل کی۔ ان کی آٹھویں ٹیسٹ سنچری دو سو گیارہ گیندوں پر مکمل ہوئی جس میں نو چوکے اور ایک چھکا شامل تھا۔ براوو نے اپنی آٹھ میں سے سات سنچریاں ویسٹ انڈیز سے باہر بنائی ہیں اور ان میں سے پانچ ایشیا میں بنی ہیں۔ روسٹن چیس جنھوں نے اس سال جولائی میں بھارت کے خلاف کنگسٹن ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں ناقابل شکست سنچری بنا کر ویسٹ انڈیز کو شکست سے بچایا تھا اس اننگز میں بھی بڑی ذمہ داری سے بیٹنگ کر رہے تھے لیکن 35 کے انفرادی سکور پر یاسر شاہ نے انھیں بولڈ کر دیا۔ یہ اس اننگز میں یاسر شاہ کی پہلی وکٹ تھی جو انھیں ان کے اٹھائیسویں اوور میں ملی۔ براوو اور چیس نے پانچویں وکٹ کی شراکت میں 77 رنز کا اضافہ 170 گیندوں پر کیا۔ اس شراکت کے ٹوٹنے سے پاکستانی کھلاڑیوں کو جیسے نیا حوصلہ مل گیا اور اگلے ہی اوور میں وہاب ریاض نے وکٹ کیپر ڈاؤرچ کو صفر پر بولڈ کر دیا لیکن اس کے بعد ڈیرن براوو ایک اینڈ پر ثابت قدمی سے بیٹنگ کرتے ہوئے پاکستانی کھلاڑیوں کی فرسٹریشن میں اضافہ کرتے رہے۔ دوسری اننگز میں ابتدائی تینوں وکٹیں محمد عامر نے حاصل کیں کپتان جیسن ہولڈر نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان دونوں کی شراکت میں قیمتی 69 رنز بنے۔ براوو کی وکٹ 263 کے سکور پر گری جس کا مطلب یہ تھا کہ ویسٹ انڈیز کو جیتنے کے لیے ستائیس اوورز میں مزید 83 رنز درکار تھے۔ محمد نواز نے بشو کو تین کے انفرادی سکور پر ایل بی ڈبلیو کر دیا۔ بشو نے ریویو لینے میں تاخیر کی اور جب ریویو لینے کا فیصلہ کیا تو امپائر النگورتھ نے انھیں بتایا کہ پندرہ سیکنڈز کا وقت گزر چکا ہے۔ میگوئل کمنز ایک رن بنا کر مصباح الحق کے ہاتھوں رن آؤٹ ہوگئے۔ ویسٹ انڈیز کی آخری وکٹ بھی رن آؤٹ کی صورت میں گری جب گیبریئل بھی ایک رن بنا کر رن آؤٹ ہوئے۔ اس وقت بارہ اوورز باقی رہتے تھے۔ محمد عامر تین وکٹوں کے ساتھ سب سے کامیاب بولر رہے جبکہ محمد نواز اور یاسر شاہ نے دو دو وکٹیں حاصل کیں۔ اس سے قبل اتوار کو میچ کے چوتھے دن ویسٹ انڈیز نے کھیل کا اختتام 96 رنز دو کھلاڑی آؤٹ کے ساتھ کیا تھا۔ ویسٹ انڈیز کی جانب سے لیگ سپنر بشو نے عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کیا چوتھا دن اس ٹیسٹ کا سب سے دلچسپ اور ڈرامائی دن ثابت ہوا جس میں مجموعی طور پر16 وکٹیں گریں۔ پہلے ویسٹ انڈیز کی پہلی اننگز میں چار وکٹیں گریں اس کے بعد پاکستانی ٹیم اپنی دوسری اننگز میں صرف 123 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔ دیویندرا بشو نے اپنے کریئر کی بہترین بولنگ کرتے ہوئے 49 رنز دے کر8 وکٹیں حاصل کیں۔ اس طرح میچ میں انھوں نے دس وکٹیں حاصل کیں۔ ویسٹ انڈیز نے اپنی پہلی اننگز 315 رنز 6 کھلاڑی آؤٹ پر شروع کی لیکن یاسر شاہ کی عمدہ بولنگ نے اس کی بساط 357 رنز پر لپیٹ دی۔ اسے فالو آن پر مجبور ہونا پڑا لیکن کپتان مصباح الحق نے فالوآن نہیں کرایا۔ یہ چوتھا موقع ہے کہ مصباح الحق نے حریف ٹیم کو فالو آن نہیں کرایا اور دوبارہ بیٹنگ کو ترجیح دی۔ یاسر شاہ نے 121 رنز دے کر5 وکٹیں حاصل کیں اور ٹیسٹ میچوں میں اپنی سو وکٹیں بھی مکمل کرلیں۔ دبئی میں پہلے ٹیسٹ میچ کے پانچویں اور آخری دن پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو 56 رنز سے ہرا دیا کر اپنے 400 ویں ٹیسٹ کو 56 رنز کی جیت سے یادگار بنا دیا ہے۔ text: زرداری کے ترجمان نے ان کے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ امارات کی فلائٹ EK 603 سے اپنی چھوٹی بیٹی آصفہ کے ہمراہ دوبئی روانہ ہوئے ہیں۔ زرداری کے بچے بختاوراور بلاول جو پچھلے چند روز سے اپنے والد سے ملنے آئے ہوئے تھے جمعرات کی صبح ہی دبئی کے لئے روانہ ہو گئے تھے۔ زرداری کو منگل کے روز وزارت داخلہ کی ہدایت پر نیا پاسپورٹ جاری کیا گیا تھا اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال کر انھیں بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ زرداری کو اس سال نومبر میں سپریم کورٹ سے بی ایم ڈبلیو کیس میں ضمانت کے بعد رہا کیا گیا تھا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جسٹس نظام قتل کیس میں اکیس دسمبر کو زرداری کی ضمانت منسوخ کر دی تھی جس کے بعد انھیں کراچی سے اسلام آباد پہنچنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ مگر اگلے ہی روز سندھ ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت بحال کر کے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ زرداری کی بیرون ملک روانگی کو سیاسی حلقے حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان کسی قسم کی سیاسی مفاہمت کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ زرداری شائد مستقبل قریب میں واپس نہ آئیں۔ تاہم زرداری کا کہنا ہے کہ دبئی میں مختصر قیام کے بعد وطن واپس آئیں گے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری جمعرات کی رات دبئی کے لئے روانہ ہو گئے ہیں جہاں وہ اپنی اہلیہ سے آٹھ برس کی اسیری کے بعد ملیں گے۔ text: بینظیر بھٹو کے بیس سالہ ہنگامہ خیز سیاسی دور کے دوران ان کی شخصیت کے بہت سے پہلو میرے سامنے آئے جس کا میں یہاں تذکرہ کروں گی، ایک ولولہ انگیز عوامی شخصیت جو کئی گھنٹوں تک اردو زبان میں اپنی سخن گوئی سے پرجوش مجمع کو باندھ سکتی ہو، بطور وزیراعظم لمبے ڈگ بھرتی طاقت کے ایوانوں سے گزرتی، اپنے سر کی جنبش سے راستے میں آنے والوں کو ’اسلام علیکم‘ کہتی ہوئی بینظیر اور کبھی اپنےتینوں بچوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنے والی ایک بالکل نادان ماں۔ ان برسوں کے دوران ہم نے جمہوریت سے لے کر ان کی غذا، ان کے اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف چلنے والے کرپشن کے الزامات اور انہیں سیاسی زندگی میں درپش سخت مشکلات تک، تقریباً ہر موضوع پر بات کی ہے۔ دو مرتبہ وزیراعظم بننے کی مدت کے دورران انہوں نے کئی لوگوں کو مایوس کیا تاہم ان کی جوبھی خامیاں ہوں، وہ بڑی باہمت خاتون تھیں۔ سیاسی کھیل ان کے خون میں تھا۔ ان کے بارے میں ایک عام تاثر یہی تھا کہ ایک بھٹو ہونے کی حیثیت سے وہ ’پیدا ہی حکومت کرنے کے لیے‘ ہوئی تھیں اور یہ کہ ان کی اور پاکستان کی قسمت ایک ہے۔ اس سال اکتوبر میں خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے شاندار واپسی کے عمل کے دوران میں نے بینظیر بھٹو کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ نومبر میں اسلام آباد سے باہر ہماری آخری ملاقات میں ہونے والی گفتگو کے دوران ان کی آنکھوں میں پاکستان، اپنے گھر لوٹنے کی خوشی دیدنی تھی۔ اس انٹرویو کے دوران ہمارے درمیان کئی سخت سیاسی سوالات زیر بحث آئے۔ اس انٹرویو کے دوران میں نےایک لمحے کے لیے اس عورت کو جو کہ ابھی تک اپنی پرجوش واپسی کے جذبات سے ملغوب تھی، رونما ہونے والے پرتشدد واقعات پر خوف زدہ اور وطن واپسی کے لیے اپنے متنازعہ فیصلوں کی وجہ سے دباؤ میں محسوس کیا۔ اس دوران ان کی آنکھیں آنسوؤں سے چھلک پڑیں تاہم اگلے ہی لمحے انہوں نے اپنے حواس کو جمع کیا اور بغیر کسی توقف کے اپنی اگلی مصروفیات میں شرکت کے لیے روانہ ہو گئیں۔ روایتی سفید دوپٹہ اوڑھے پاکستان پیپلز پارٹی کے جاننثاروں کے جلو میں انہوں نے جس انداز میں پاکستان بھر کے دورے کیے، اس کے بعد ان کی شخصیت کے اندر پنہاں توانائی اور ولولے پر کسی شک کی گنجائش نہیں ہے، یہ بینظیر کا ایک الگ انداز تھا، ہم گزشتہ کئی برسوں کے دوران ان کے اسی قسم کے سیاسی جلسوں کی رپورٹنگ کرتے رہے جس میں ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتیں اور ’جئے بھٹو‘ کے نعرے لگائے جاتے تھے۔ 1988 میں پہلی مرتبہ میں پاکستان جانے کے بعد یہ جاننا میرے لیے ایک معمہ تھا کہ ایک قدامت پسند اسلامی ملک میں انہیں کتنے لوگ ووٹ دیں گے۔ میں نے جب اپنا یہی سوال لوگوں کے سامنے رکھا تو بہت سے افراد نے مجھے بتایا کہ درحقیقت وہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے ولولہ انگیز شخص کی بیٹی ہونے کے ناطے بینظیر کو ووٹ دے رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے حکم پر پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔ وہ اپنے والد کی بیٹی اور ان کی سیاسی جانشین تھیں۔ان کا مزاج تحکمانہ کہا جا سکتا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ان کا تعلق ایک روایتی جاگیردارنہ خاندان سے تھا۔ دوسری طرف پالیسی سازی کا معاملہ ہو یا اپنے اطراف لوگوں کے انتخاب کا معاملہ، انہوں نے ہمیشہ سیاسی بصیرت پر مبنی فیصلے نہیں کیے۔ اپنے دوستوں کے لیے وہ ’بی بی‘ جبکہ قریبی ساتھیوں کے لیے ’پنکی‘ تھیں۔ گزشتہ برسوں کے دوران ان کے بعض قریبی سیاسی حلیفوں نے ان پر سیاسی اصولوں سے روگردانی کا الزام لگایا تاہم انہیں تاحال ان گنت ساتھیوں کی اندھی وفاداری حاصل تھی۔ اپنے پہلے دور اقتدار کے دوران انہیں ایسی پہلی وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا کہ جو اپنے عہدے پر رہتے ہوئے ماں بنیں اس دوران انہوں نے سیاست دانوں کے ان چھبتے فقروں کو برداشت کیا جن کا کہنا تھا کہ آئین میں وزیراعظم کو زچگی کی چھٹیاں لینے کی اجازت حاصل نہیں ہے۔ اپنی یاداشتوں میں انڈیا کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کو ’نرم اور سخت‘ کے الفاظ سے یاد کرنے والی بھی بینظیر ہی تھیں۔ لِز ڈیوسِٹ نے 1988 میں پاکستان سے بی بی سی کے لیے رپورٹنگ کی، بعد ازاں 1989 سے 1993 کے دوران انہوں نے نامہ نگار کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ اس کے بعد سے وہ پاکستان کے حالات حاضرہ کے بارے میں مسلسل رپورٹنگ کرتی رہی ہیں۔ بینظیر بھٹو، نہ صرف مسلم دنیا کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم تھیں بلکہ عمر کے اعتبار سے بھی وہ پہلی وزیراعظم تھیں جو صرف پینتیس برس کی عمر میں اس عہدے پر فائز ہوئیں۔ text: پولیس کے مطابق پہلا دھماکہ ریڈ کراس کے دفتر کے باہر ہوا جبکہ دوسرے دھماکہ پشتخرہ کے علاقے میں ایک کھیت میں ہوا ہے۔ ان دھماکوں کے بعدگزشتہ چوبیس گھنٹوں میں پشاور میں ہونے والے دھماکوں کی تعداد تین ہو گئی ہے۔ یاد رہے کہ پیر کی رات پشاور کے علاقے صدر میں موٹر سائیکل پر نصب بم پھٹنے سے عوامی نیشنل پارٹی کے ایک صوبائی رہنما سمیت چار افراد زخمی ہوئے تھے۔ اسلام آباد میں ’آئی سی آر سی‘ کے ترجمان رضا ہمدانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی تنظیم کے پشاور میں واقع دفتر کی دیوار کے قریب رکھے دھماکہ خیز مواد سے دھماکہ صبح ساڑھے چار بجے کے قریب ہوا۔ ان کے مطابق اس دھماکے سے دفتر کی دیوار کو نقصان پہنچا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ گزشتہ فروری کے وسط میں بھی ریڈ کراس کے دفتر کے اندر ایک دھماکے میں چارگاڑیاں تباہ ہوگئی تھیں۔ تاہم اس کی وجہ بھی آج تک سرکاری سطح پر نہیں بتائی گئی ہے۔ پشاور صدر میں گرین ہوٹل کے قریب ایک بینک کے سامنے ہونے والے موٹر سائیکل دھماکے کے بارے میں پولیس حکام کا اب کہنا ہے کہ یہ ریمورٹ کنٹرول دھماکہ تھا۔ تاہم اس حوالے سے ابھی تک کسی گرفتاری کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ صوبہ سرحد کے دارالحکومت پشاور میں منگل کی صبح دو دھماکے ہوئے ہیں تاہم ان میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ text: یہ دھماکے اس وقت ہوئے ہیں جب پاکستان میں امن و عامہ اور قبائلی علاقوں میں بدامنی پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہو رہا ہے اور فوج کے سربراہان دارالحکومت میں موجود ہیں۔ پشاور میں ہمارے نامہ نگار عبدالحئی کاکڑ کے مطابق صوبہ سرحد کے ضلع دیر میں قیدیوں کی ایک وین پر ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ ہوا جس میں دس افراد ہلاک اور آٹھ زخمی ہوگئے۔ہلاک ہونے والوں میں سکول کی چار بچیاں، دو پولیس اہلکار اور چار قیدی شامل ہیں۔ اس سے قبل اسلام آباد میں واقع پولیس لائنز میں انسداد دہشت گردی سکواّڈ کے دفتر کے باہر دھماکہ ہوا تھا جس میں تیرہ پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ اسلام آباد میں بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ زخمیوں میں سے چار پولیس اہلکاروں کی حالت تشویشناک ہے۔ پولیس لائنز اسلام آباد کے سیکٹر ایچ گیارہ میں واقع ہے۔دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس عمارت کا ایک حصہ بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایک بائیس سالہ نوجوان جمعرات کو مقامی وقت کے مطابق پونے ایک بجے کے قریب پولیس لائنز آیا اور اُس نے گیٹ پر موجود پولیس اہلکار سے کہا کہ اُس نے انسداد دہشت گردی سکواڈ کے محرر سے ملنا ہے جس کے بعد اُسے عمارت کے اندر جانے کی اجازت دی گئی۔ اسلام آباد پولیس کے سربراہ اصغر رضا نے جائے حادثہ پر صحافیوں کو بتایا کہ دھماکے سے چند لمحے قبل ایک آدمی سفید رنگ کی کرولا پر بیرک کے سامنے آیا اور اتر کر عمارت کے اندر گیا جہاں اس نے ریسیپشن پر موجود اہلکار کو مٹھائی کے دو ڈبے پکڑائے اور اس دوران دھماکہ ہو گیا۔ عینی شاہد کانسٹیبل جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ دھماکے میں معمولی نوعیت کے زخمیوں کو پولیس لائنز ہی میں واقع ڈسپنسری لے جایا گیا ہے جب کہ چار شدید زخمیوں کو قریبی ہسپتال لے بھیجا گیا ہے۔ آئی جی اسلام آباد کا کہنا ہے کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کہ یہ خودکش حملہ ہے یا کار بم دھماکہ۔ انہوں نے کہا کہ حالات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دھماکہ خیز مواد گاڑی میں رکھا گیا ہے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ تفتیشی ٹیم کو گاڑی کا نمبر بھی مل گیا ہے۔ جس جگہ یہ دھماکہ ہوا ہے وہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی پولیس کے دستوں کی رہائش کے لیے استمعال ہوتی ہے اور دھماکے میں کم افراد اس لیے زخمی ہوئے کیونکہ وہاں پر رہائش پذیر پولیس اہلکار پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ڈیوٹی پر تعینات تھے جہاں پر ارکان پارلیمنٹ کو ملک میں امن وامان کی صورتحال کے بارے میں بریفنگ دی جا رہی ہے۔ اسلام آباد میں ذیشان حیدر کے مطابق اسلام آباد کے سب سے بڑے ہسپتال پمز میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہاں تین خمیوں کو لایا گیا ہے اور ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ دیر بالا کے ضلعی رابطہ آفسر شیر بہادر نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ واقعہ جمعرات کی دوپہر پیش آیا ہے۔ ان کے بقول پولیس کی ایک وین پیشی کے لیے آنے قیدیوں کو واپس تیمرہ گرہ سینٹرل جیل لیجا رہی تھی کہ خوگہ اوبہ کے مقام پر سڑک کے کنارے نصب بم کا نشانہ بنی ہے۔ ان کے مطابق سکول کے بچیاں چھٹی کے بعد اپنے گھروں کو لوٹ رہی تھیں کہ وہ حملے کی زد میں آگئیں۔ ضلعی رابطہ آفیسر شیر بہادر نے مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ دیر ہسپتال کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت ان کے پاس آٹھ کے قریب زخمی لائے گئے ہیں جن میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ دھماکے کی وجہ سے پولیس وین ایک گہرے کھڈ میں جاگری ہے۔ ابھی تک کسی نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پولیس لائن ہیڈ کورٹر میں شدت پسندوں کا داخل ہونا خود اسلام آباد پولیس کی کارکردگی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد اور پشاور کے نزدیک دیر کے علاقے میں بم حملوں سے کم از کم دس افراد ہلاک اور اکیس کے قریب زخمی ہو گئے ہیں۔ text: ایران کے نئے صدر حسن روحانی ملک میں موجود سنسرشپ میں کمی کا وعدہ کر چکے ہیں 2009 میں اس وقت کی ایرانی حکومت نے ملک میں حزبِ اختلاف کے مظاہروں کا اثر کم کرنے کے لیے ان ویب سائٹس کو بلاک کر دیا تھا۔ ایران میں انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے والی کئی کمپنیوں کے صارفین کا کہنا ہے کہ انہوں نے پیر کو کسی مخصوص سافٹ ویئر کی مدد کے بغیر ان ویب سائٹس تک رسائی پائی۔ ایرانی حکومت کی جانب سے ان ویب سائٹس پر عائد پابندی کے خاتمے کے حوالے سے سرکاری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا اور نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ آزادانہ رسائی کسی تکنیکی خرابی کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم شہری حقوق کے لیے سرگرم تنظیم الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن میں انٹرنیشنل فریڈم آف ایکسپریشن کی ڈائریکٹر جلیئن یارک نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا ہے کہ انہیں ایسی کئی اطلاعات ملی ہیں کہ بظاہر یہ پابندی ختم کر دی گئی ہے۔ ان کے مطابق ایران میں صرف فیس بک اور ٹوئٹر ہی نہیں بلکہ کچھ دیگر ویب سائٹس تک بھی رسائی ممکن ہوئی ہے جن میں نیشنل ایرانین امریکن کونسل جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ خیال رہے کہ ایران کے نئے صدر حسن روحانی ملک میں موجود سنسرشپ میں کمی کا وعدہ کر چکے ہیں۔ ان کی کابینہ کے کئی ارکان نے بھی فیس بک پر صفحات اور ٹوئٹر پر اپنے اکاؤنٹ بنائے ہیں۔ خود ایرانی صدر اور ان کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے رواں ماہ کے آغاز میں ٹوئٹر پر یہودیوں کو ان کے نئے سال کے آغاز پر مبارکباد دی تھی۔ ایران میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ وہ سنہ 2009 کے بعد پہلی مرتبہ آزادانہ طور پر فیس بک اور ٹوئٹر جیسی سوشل میڈیا ویب سائٹس استعمال کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ text: اس بار یہ تنازع جمعہ کے روزسوشل میڈیا پر ایسی رپورٹ سامنے آنے کے بعد شروع ہوا کہ یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں ’بیف بریانی‘ فروخت ہو رہی ہے۔ رپورٹ میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ بریانی میں استعمال ہونے والا گوشت گائے کا ہے اور اس رپورٹ کے ساتھ یونیورسٹی کی کینٹین کے مینیو کی ایک تصویر بھی شائع کی گئی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ یونیورسٹی نے گائے کے گوشت کے الزام کو رد کرتے ہوئے کہا کہ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی وہ واحد ادارہ ہے جہاں ایک سو سال پہلے گائے کا گوشت بیچنے پر پابندی عائد کی گئی ہے جو اب بھی برقرار ہے۔ علیگڑہ شہر کی میئر شکونتکہ بھارتی نے، جن کا تعلق حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہے، سنیچر کے روز بی جے پی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے ہمراہ پولیس سربراہ کےدفتر کے سامنے مظاہرہ کیا ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ پولیس یونیورسٹی کی کینٹین کے ٹھیکیدار کے خلاف مقدمہ درج کرے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ معاملے کی ابتدائی تحقیقات کر رہی ہے۔ جب یہ خبر سوشل میڈیا پر چلی تو یونیورسٹی کے پراکٹر محسن خان نے یونیورسٹی کے میڈیکل کالج کی کینٹین کا دورہ کیا اور ابتدائی تحقیقات کیں۔ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی کے ترجمان راحت ابرار نے واضح کیا کہ بیف بریانی میں گائے کےگوشت کے استعمال کا الزام اس گھناؤنی سازش کا حصہ ہے جو یونیورسٹی کے تشخص کو خراب کرنےکے لیے تیار کی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ بریانی میں جس بیف کا ذکر ہے وہ دراصل بھینس کا کوشش ہے نہ کہ گائے کا۔ یونیورسٹی کے ترجمان نے کہا کہ یہ الزام ادارے کو بدنام کرنے کی سازش کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور جس بیف بریانی کا ذکر ہے وہ دراصل بھینس کے گوشت سے تیار کی گئی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ یونیورسٹی کی کینیٹن کےٹھیکے کی معیاد 23 فرروی کو ختم ہو رہی ہے کچھ لوگ یہ اس ٹھیکے کو لینے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ اسی لیے جان بوجھ کر تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی جو پہلے ہی اپنے اقلیتی تشخص کو برقرار رکھنے کےلیے کوشاں ہے، ایک اور تنازعے میں پھنس گئی ہے۔ text: بھارت کی نئی آبدوزوں کے لیے جوہری توانائی پیدا کرنا شامل ہیں۔ واشنگٹن سے شائع ہونے والے جریدے ’فارن پالیسی‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ مرکز بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹکہ میں تعمیر کیا جا رہا ہے اس مرکز کا اختیار بھارتی فوج کے پاس ہوگا اور یہاں سینٹری فیوجز، جوہری تحقیق کی لیبارٹریاں اور جوہری ہتھیاروں اور جنگی جہازوں کو ٹیسٹ کرنے کی سہولیات دستیاب ہوں گی۔ جریدے کا کہنا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق کرناٹکہ کے چلاکیرے کے علاقے میں زیر تعمیر یہ ’نیوکلئیر سٹی‘ یا جوہری شہر 2017 تک مکمل ہو جائے گا اور حکومت کا منصوبہ ہے کہ یہاں نئے ہائیڈروجن بم بنانے کے لیے یورنینیم کی افزودگی کی جائے گی جس سے بھارت کے جوہری ہتھیاروں میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا۔ تفصیلات کے مطابق خفیہ جوہری مرکز کی تعمیر کا منصوبہ پہلی مرتبہ سنہ 2012 کے آغاز میں اس وقت منظر عام پر آنا شروع ہوا جب کرناٹکہ کے مذکورہ علاقے میں مزدوروں نے ہرے بھرے کھیتوں میں اچانک کھدائی شروع کر دی جسے دیکھ کر یہاں کے خانہ بدوش ’لمبانی‘ قبیلے کے لوگ حیران ہو گئے۔ علاقے کے لوگوں کو اس منصوبے کی جوہری نوعیت کا علم اس وقت ہوا جب مذکورہ مقام پر تعمیراتی کام کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس کی نگرانی ملک کے دو خفیہ ادارے کر رہے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ برصغیر میں اپنی نوعیت کے اس سب سے بڑے جوہری مرکز پر جاری کام سنہ 2017 کے آغاز تک مکمل ہو جائے گا اور اس منصوبے کے مقاصد میں ملک میں سرکاری سطح پر جوہری تحقیق میں اضافہ کرنا، بھارت کے ایٹمی ریئکٹروں کے لیے ایندھن فراہم کرنا اور بھارت کی نئی آبدوزوں کے لیے جوہری توانائی پیدا کرنا شامل ہیں۔ لندن اور واشنگٹن میں مقیم بھارتی حکومت کے ریٹائرڈ افسران اور غیر جانبدار ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے مندرجہ بالا مقاصد کے علاوہ اس جوہری منصوبے کا ایک بڑا مقصد افزودہ یورینیم کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہے جس سے نئے ہائیڈوجن بم بنائے جا سکیں گے۔ عرف عام میں ایسے ہائیڈروجن بموں کو ’تھرمو نیوکلیئر‘ ہتھیار کہا جاتا ہے۔ جریدے ’فارن پالیسی‘ کا مزید کہنا تھا کہ چین اور پاکستان میں بھارت کے اس نئے منصوبے کی وجہ سے بےچینی پیدا ہو گی اور بھارت کے یہ دونوں پڑوسی اسے اشتعال انگیزی سمجھیں گے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس کے جواب میں چین اور خاص طور پر پاکستان بھی اپنے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ کرنا شروع کر دے گا۔ اگرچہ بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ سنہ 1974 میں کیا تھا، تاہم بھارت نے کبھی بھی اپنے جوہری منصوبوں اور عزائم کے بارے میں تفیصلات شائع نہیں کی ہیں اور خاص طور ملک سے باہر عام لوگ چلاکیرے کی جوہری تنصیبات اور ان کے مقاصد کے بارے زیادہ نہیں جانتے۔ بھارتی حکومت اپنے اس منصوبے کے بارے میں زیادہ تر خاموش ہی ہے اور اس نے عوامی سطح پر بھی کبھی ایسا وعدہ نہیں کیا کہ مذکورہ منصوبے سے عام لوگوں کو کیا فوائد حاصل ہوں گے۔ چونکہ یہ جوہری تنصیبات فوج کے زیر انتظام ہیں اس لیے بین الاقوامی اداروں کو بھی ان تک رسائی حاصل نہیں ہو سکتی۔ فارن پالیسی کے بقول چلاکیرے کے دیہاتیوں کی طرح بھارتی پارلیمان کے کئی اہم ارکان بھی اس منصوبوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ دو مرتبہ ملک کی مرکزی کابینہ میں خدمات سرانجام دینے والے ایک معروف سیاستدان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ بھارت میں ارکان اسمبلی کو شاز و نادر ہی ملک کے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے کچھ بتایا جاتا ہے۔ ’سچ پوچھیں تو ہمیں پارلیمنٹ میں زیادہ معلومات نہیں دی جاتیں، اور اگر ہمیں اس قسم کی خبروں کا علم ہوتا بھی ہے تو وہ مغربی ممالک کے اخبارات سے ہوتا ہے۔‘ جولائی سنہ 2003 میں سابق رکن اسمبلی اور بعد میں وزیر ماحولیات بننے والی سیاستدان، جیانتھی نتارنجن‘ نے بھارتی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اور بھارتی پارلیمان کے دیگر اراکین ’اسمبلی میں بارہا جوہری امور پر سوالات اٹھا چکے ہیں، لیکن ہمیں کبھی کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی۔‘ ایک امریکی جریدے نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت خفیہ طور پر ایک ایسا جوہری مرکز تعمیر کر رہا ہے جو برصغیر میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا مرکز ہوگا جس کا مقصد ملک کی ہائیڈروجن بم بنانے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے۔ text: مستعفی ہونے والے اراکین میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے علاوہ حکمران جماعت مسلم لیگ(ق) کے چھ ارکان بھی شامل ہیں۔ لاہور سے بی بی سی اردو کے نمائندے علی سلمان کے مطابق اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے چالیس جبکہ مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے چھ اراکینِ صوبائی اسمبلی نے اپنے استعفے سیکرٹری پنجاب اسمبلی کو پیش کر دیے ہیں۔مستعفی ہونے والے اراکین میں مسلم لیگ (ن) کے بتیس، جماعتِ اسلامی کے آٹھ جبکہ مسلم لیگ(ق) کے چھ ارکان شامل ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی جانب سے رانا ثناء اللہ نے جبکہ جماعت ِ اسلامی کی جانب سے اصغر علی گجر نے استعفے سیکرٹری پنجاب اسمبلی کے پاس جمع کروائے۔ حکمران مسلم لیگ کے تین اراکین ایسے تھے جو موقع پر موجود نہیں تھے اور رانا ثناءاللہ نے ان تحریری استعفے ان کے مختار ناموں سمیت جمع کرائے۔ مسلم لیگی قائد رانا ثناءاللہ نے کہا کہ لیلی مقدس، عامر سہوترااور خالد کلیار کو پولیس تنگ کر رہی ہے اور اس لیے انہوں نے اپنے مختار نامے دیے ہیں۔ دیگر تمام تینتالیس اراکین استعفے دیے جانے کے موقع پر موجود رہے اور اونچی آواز میں’گو مشرف گو‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ حکمران مسلم لیگ کے جو تین اراکین استعفوں کے موقع پر موجود تھے ان میں رب نواز لک،اکرم گجر اور اظہر ندیم شامل ہیں۔ سیکرٹری اسمبلی سعید احمد نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ محض ڈاکخانے کا کام اداکر رہے ہیں اور وہ یہ استعفے سپیکر پنجاب اسمبلی کو پہنچا دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ استعفوں کو منظور یا نامنظور کرنا سپیکر پنجاب اسمبلی کا کام ہے اور جب وہ ذاتی طور پر مطمئن ہونگے کہ اراکین اسمبلی نے رضاکارانہ طور پر کسی دباؤ میں آئے بغیر ذاتی طور پر استعفی دیا ہے تو وہ اسے منظور کریں گے۔ایک سوال کے جواب سیکرٹری اسمبلی نے کہا کہ قواعد کے مطابق استعفی منظور کرنے کی کوئی مدت مقرر نہیں ہے البتہ استعفی جب بھی منظور ہوا وہ اس تاریخ سے نافذ العمل ہوگا جس تاریخ کو جمع کرایا جائے گا۔ قبل ازیں پنجاب اسمبلی سے اپوزیشن کے مذکورہ اراکین پریس کلب سے مارچ کرتے ہوئے اسمبلی تک پہنچے۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صوبائی صدر سردار ذوالفقار علی کھوسہ اور کارکنوں کی ایک تعداد بھی موجود تھی۔ سیاسی کارکن اور اراکین اسمبلی نے مسلم لیگ نواز، جماعت اسلامی کے جھنڈے اور نواز شریف، شہباز شریف کی تصویریں اٹھا رکھی تھیں اور’گو مشرف گو‘، ’امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘ اور’وزیراعظم نواز شریف‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری بھی موجود تھی لیکن انہوں نے مظاہرین کو نہیں روکا۔ کوئٹہ سے بی بی سی کے نمائندے عزیز اللہ کے مطابق آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کی اپیل پر بلوچستان اسمبلی کے پچیس اراکین اسمبلی نے منگل کو اپنے استعفے سپیکر جمال شاہ کاکڑ کو پیش کر دیے۔ کوئٹہ میں ایم پی اے ہاسٹل سے اراکین اسمبلی کارکنوں کے ساتھ جلوس کی صورت میں بلوچستان اسمبلی پہنچے۔ اس موقع پر کارکنوں نے اپنی اپنی جماعتوں کے جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے اور حکومت کے خلاف سخت نعرہ بازی کرتے رہے۔ مستعفی ہونے والے اراکین میں متحدہ مجلس عمل کے سولہ، نیشنل پارٹی کے پانچ اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے چار اراکین شامل تھے۔ متحدہ مجلس عمل کے تین اراکین خود موجود نہیں تھے اس لیے ان کے استعفے پارلیمانی لیڈر مولانا عبدالواسع نے پیش کیے۔ بلوچستان اسمبلی کے سپیکر جمال شاہ کاکڑ کا تعلق جمعیت علماء اسلام سے ہے تاہم انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت وہ مستعفی نہیں ہو سکتے۔ بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کچکول علی ایڈووکیٹ نے کہا ہے آج ملک بھر میں اسمبلیوں سے بیک وقت استعفے دینے سے ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ہے اور اس سے آمریت کو جڑ سے اکھاڑنے میں مدد ملے گی۔ کراچی سے بی بی سی کے نمائندے احمد رضا کے مطابق سندھ اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کے کل آٹھ اراکینِ اسمبلی میں سے سات کے استعفے سپیکر کے پاس جمع کروائے گئے ہیں جبکہ ایم ایم اے کے مطابق حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ایک رکن اسمبلی عبدالرحمان راجپوت بروقت ایوان میں نہ پہنچ سکے اور یوں ان کا استعفی جمع نہ کروایا جا سکا۔ استعفٰی دینے والے سات میں سے بھی صرف تین ارکان اسمبلی میں پیش ہو سکے۔ سپیکر سندھ اسمبلی سید مظفر حسین شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں سات استعفے پیش کیے گئے ہیں۔ ان میں حمید اللہ خان، مولانا عمر صادق اور نصر اللہ شجیع ان کے روبرو پیش ہوئے جبکہ باقی چار مولانا احسان اللہ ہزاروی، حافظ محمد نعیم، محمد یونس بارائی اور کلثوم نظامانی خود پیش نہیں ہوئے لیکن ان کے استعفے پیش کیے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ مولانا احسان اللہ اور حافظ نعیم کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ عمرے پر گئے ہوئے ہیں جبکہ یونس بارائی کے استعفے کے ساتھ ایک خط بھی منسلک ہے جس میں انہوں نے نصراللہ شجیع کو جو ایم ایم اے کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر ہیں استعفی پیش کرنے کی اتھارٹی دی ہے لیکن کلثوم نظامانی ملک میں ہیں وہ خود پیش نہیں ہوئیں۔ سپیکر سندھ اسمبلی نے کہا کہ یہ استعفے جانچ پڑتال کے لیے اسمبلی سیکرٹریٹ میں بھیجے جا رہے ہیں اور دو تین دن میں ان کے بارے میں قواعد کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ استعفوں کے سلسلے میں سپیکر کو اس بات کا اطمینان کرنا ہوتا ہے کہ استعفے رضاکارانہ طور پر دیے گئے ہیں۔ منگل کی صبح سے ہی سندھ اسمبلی کو جانے والی شاہراہ کو دونوں طرف سے رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردیا گیا تھا اور وہاں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔ قبل ازیں استعفی پیش کرنے کے لئے آنے والے ایم ایم اے کے ارکان اسمبلی لگ بھگ سو کارکنان کے ساتھ اسمبلی پہنچے تو انہوں نے جنرل پرویز مشرف اور امریکہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ اسمبلی گیٹ پر تعینات پولیس اہلکاروں سے ایم ایم اے کے ارکان اسمبلی کی تلخ کلامی اور کھینچا تانی بھی ہوئی جب انہوں نے اپنے ساتھ کارکنوں کو اسمبلی کے اندر لے جانے کی کوشش کی اور پولیس نے اس کی اجازت نہیں دی تاہم کئی کارکن اسمبلی کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے اور انہوں نے اسمبلی کے احاطے اور عمارت کے اندر بھی جنرل مشرف اور موجودہ حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔ ایم ایم اے کے ارکان اسمبلی کے عمارت کے اندر داخل ہونے کے بعد باہر رہ جانے والے کارکنوں پر پولیس اہلکاروں نے لاٹھی چارج کیا اور ان میں سے بعض کو حراست میں لے لیا۔ دریں اثناء پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درجن بھر کارکن بھی اسمبلی کی عمارت کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں انہوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور جنرل مشرف، بے نظیر بھٹو اور امریکہ کے خلاف نعرے لگائے۔ قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تین صوبائی اسمبلیوں سے بھی اٹھہتر اراکینِ اسمبلی نے استعفٰے دیے ہیں۔ text: فیصل آباد مرکزی پنجاب کا یہ ضلع کپڑے کی صنعت کے لیے مشہور ہے۔ اس ضلعے میں نام نہاد غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کرنے کا رجحان ملک کے باقی اضلاع کی نسبت زیادہ ہےاور یہاں سنہ 2008 سے 2014 کے درمیان 200 ایسے واقعات پیش آئے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 2014 میں فیصل آباد میں نام نہاد غیرت کے نام پر پورے ملک میں سب سے زیادہ یعنی 45 قتل ہوئے۔ اس سے ایک سال پہلے یعنی 2013 میں یہاں اس قتل کی وارداتوں کی تعداد 28 تھی جو ملک بھر میں دوسرے نمبر پر رہی۔ گذشتہ پانچ برسوں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائِے تو فیصل آباد کا ذکر غیرت کے نام قتل کی وارداتوں کی تعداد کے لحاظ سے ہمیشہ ملک کے پہلے پانچ شہروں میں رہا ہے۔ لاہور صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں کی تعداد کے لحاظ سے ملک کے چند اہم شہروں میں شامل ہے۔ لاہور میں شہر کے علاوہ اردگرد کے مضافاتی دیہات بھی شامل ہیں لیکن خواتین کے خلاف اس جرم کے زیادہ تر واقعات شہری علاقوں ہی سے رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہاں سنہ 2008 سے 2014 کے درمیان نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے 163 سے زیادہ ایسے واقعات پیش آئے۔ 2014 میں تو یہ شہر وارداتوں کی تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر تھا لیکن اس سے ایک سال پہلے لاہور 29 واقعات کے ساتھ اس بدنام فہرست میں سب سے پہلے نمبر پر رہا۔ اس سے پہلے کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ لاہور میں ہمیشہ سے ہی ان وارداتوں کا چلن رہا ہے اوریہ ہمیشہ ان دس شہروں میں شامل رہا ہے جن میں ایسی وارداتیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔ جیکب آباد صوبہ سندھ اور بلوچستان کا سرحدی ضلع جیکب آباد بھی ملک کے ان شہروں میں شامل ہے جہاں نام نہاد غیرت کے نام پر عورتوں کو قتل کرنے کی وارداتیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔ سنہ 2008 سے 2014 کے دوران یہاں 222 ایسے واقعات پیش آئے۔ 2014 میں 33 قتال کے ساتھ یہ ضلع ان واقعات کے لحاظ سے ملک کا چوتھا بڑا شہر تھا۔ 2012 میں یہ اس بدنام فہرست میں دوسرے جبکہ 2011 میں تیسرے نمبر پر رہا۔ 2010 اور 2009 میں ملک بھر میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی سب سے زیادہ وارداتیں جیکب آباد میں ہی رپورٹ کی گئی تھیں اور یہ تعداد بالترتیب 42 اور 36 تھی۔ ’قتل میں کوئی غیرت نہیں ہے‘ لاڑکانہ صوبہ سندھ کا ضلع لاڑکانہ سیاسی لحاظ سے ملک کا اہم ضلع ہے۔ نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی جس قدر وارداتیں اس علاقے میں ہوتی ہیں ان کے پیش نظر انسانی حقوق کے کارکنوں کا یہ شکوہ بے جا نہیں ہے کہ سیاسی شعور کے تناسب سے اس علاقے میں خواتین کے حقوق کا شعور اجاگر کرنے کے اثرات دکھائی نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ لاڑکانہ میں نام نہاد غیرت کے نام پر ہر سال درجنوں خواتین قتل کی جاتی ہیں اور سنہ 2008 سے سنہ 2014 کے درمیان یہ تعداد 158 سے زیادہ تھی۔ 2014 میں یہ تعداد 27 تھی جس کی وجہ سے لاڑکانہ کا نمبر نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کرنے والے شہروں میں چوتھے نمبر پر رہا۔ 2013 ایک ایسا سال تھا جب یہاں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں کمی دیکھی گئی اور یہ تعداد 13 تھی۔ 2012 کے دوران لاڑکانہ میں ایسی وارداتوں کی تعداد 20 تھی جبکہ 2011 میں یہاں 22 اور 2010 میں 33 خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ کشمور کشمور سندھ کا ایسا ضلع ہے جہاں قبائلی اثرات آج بھی شدت سے پائے جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکن اس علاقے میں خواتین کے خلاف جرائم کو انھی روایات سے جوڑنے پر بضد ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کشمور کا ضلع گزشتہ کم از کم چار برسوں سے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے لحاظ سے ان پانچ شہروں میں شامل ہے جہاں یہ جرم سب سے زیادہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ 2014 میں ضلع کشمور میں 25 خواتین قتل کی گئیں۔ 2013 میں یہ تعداد 18 تھی جبکہ اس سے پچھلے سال ان وارداتوں میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا اور یہ تعداد 31 تھی۔ نصیر آباد بلوچستان کا ضلع نصیر آباد صوبے کے ان چند اضلاع میں شامل ہے جہاں سے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی وارداتیں مسلسل رپورٹ ہوتی ہیں۔ صوبہ سندھ کی سرحد کے قریب واقع اس ضلعے میں متعدد پشتون اور سندھی قبائل بھی آباد ہیں۔ یہ بات انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے حیرت کا باعث ہے کہ گزشتہ تین سے چار برسوں کے دوران اس علاقے سے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی اتنی زیادہ وارداتیں رپورٹ نہیں ہو رہیں جتنی اس سے پہلے کئی برسوں تک ہوتی رہی ہیں۔ مثلاً 2011 میں نصیر آباد میں 39 خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جبکہ 2008 میں یہ تعداد 36 ریکارڈ کی گئی تھی۔ رحیم یار خان رحیم یار خان جنوبی پنجاب کا ضلع ہے جو دریائی، بارانی اور صحرائی زرعی علاقے پر مشتمل ہے۔ یہاں رہنے والوں کی اکثریت کا ذریعہ معاش زراعت ہے اور یہاں خواتین کے کھیتی باڑی میں حصہ لینے کا رواج عام ہے۔ اس کے ساتھ ہی نام نہاد غیرت کے نام پر ان کے خلاف جرائم کے واقعات بھی اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ 2014 میں اس ضلعے میں نام نہاد غیرت کے نام پر 20 خواتین قتل کی گئیں جبکہ ایک سال پہلے یہ تعداد 15 تھی۔ شکارپور صوبہ سندھ کا یہ ضلع بلوچستان کی سرحد کے قریب واقع ہے اس لیے یہاں بلوچ قبائل بھی بڑی تعداد میں بستے ہیں۔ شکارپور میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی وارداتیں معمول کا حصہ تو نہیں ہیں لیکن دستیاب اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہر کچھ سال بعد یہاں خواتین کے خلاف اس جرم میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ مثال کے طور پر 2008 اور 2009 میں یہاں سے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے زیادہ واقعات رپورٹ نہیں ہوئے لیکن 2010 میں 17 خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی گئیں۔ اگلے دو سال پھر اس جرم میں کمی دیکھنے میں آئی لیکن 2013 میں یہاں 24 اور 2014 میں 19 خواتین کے قتل کی رپورٹس سامنے آئیں۔ گھوٹکی صوبہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے سنگم پر واقع ضلع گھوٹکی میں نام نہاد غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کرنے کے واقعات میں گذشتہ کئی سالوں سے مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔ 2008 میں گھوٹکی 34 واقعات کے ساتھ اس جرم کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان بھر میں اول نمبر پر تھا۔ اس سے اگلے سال یعنی 2009 میں یہاں 24 خواتین نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی گئیں۔ 2010 میں یہ تعداد بڑھ کر 37 تک جا پہنچی تاہم پھر اس میں بتدریج کمی آئی اور 2011 میں یہاں 21 اور 2012 میں 14 خواتین موت کی بھینٹ چڑھائی گئیں۔ سکھر صوبہ سندھ کے ضلع سکھر میں خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کرنے کے واقعات میں کمی بیشی سال بہ سال دیکھنے میں آتی ہے۔ 2009 میں سکھر نام نہاد غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی تعداد کے لحاظ سے 32 قتل کے ساتھ ملک بھر میں دوسرے نمبر پر تھا۔ 2011 میں سکھر میں 21، 2012 میں 20 اور 2013 میں 19 خواتین نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی گئیں۔ پشاور خیبر پختونخوا کا شہر پشاور قبائلی علاقے سے منسلک اور صوبے کا سب سے بڑا شہری علاقہ ہے۔ اسی تناسب سے یہ شہر جہاں جدید اور قدیم روایات کا امین ہے وہیں اسے تضادات کا مجموعہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ رسوم و روایات اور رہن سہن میں پائے جانے والے یہ تضادات تنازعات اور جرائم کا باعث بھی بنتے ہیں۔ نام نہاد غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے رپورٹ شدہ واقعات میں پشاور کا اس صوبے میں پہلا نمبر ہے۔ سنہ 2014 میں پشاور میں نام نہاد غیرت کے نام پر 12 خواتین کو قتل کیا گیا۔ سوات ملک بھر سیاحتی مقام کے طور پر مشہور سوات کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہاں خواتین کے خلاف جرائم بھی بڑی تعداد میں وقوع پذیر ہوتے ہیں جن میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل بھی شامل ہیں۔ تاہم یہاں رپورٹ ہونے والے واقعات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں خواتین میں خودکشی کے رجحانات میں بہت اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پاکستان کی غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی تحقیق کے مطابق سنہ 2015 میں ملک میں 1096 خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جبکہ 2014 میں غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی خواتین کی تعداد 1005 تھی۔ اس سے ایک سال پہلے یعنی 2013 میں قتل ہونے والی خواتین کی تعداد 869 تھی۔ text: پاکستانی فوج نے جس کی اس کارروائی میں گن شپ ہیلی کاپٹر بھی شریک ہیں، جنوبی وزیرستان کے گاؤں انگور اڈہ پر حملہ کیا۔ فوجی ترجمان میجر جنرل شوکت سلطان نے اس کارروائی کو جاری عمل کا حصہ قرار دیا ہے۔ اتوار کو پاکستانی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے پانچ دن کی کارروائی کے دوران پچپن افراد کو جنہیں وہ مشتبہ شدت پسند قرار دیتے ہیں، ہلاک کیا ہے۔ نئی کارروائی افغان سرحد کے قریب ایک پاکستانی فوجی چوکی پر کیے جانے والے حملے کے ایک روز بعد شروع کی گئی ہے۔ اس حملے کے نتیجے میں کم از کم ایک فوجی کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔ دریں اثنا بتایا گیا ہے کہ اس حملے سے کچھ روز پہلے ایک شخص فوجی کارروائی کے نتیجے میں زخمی ہونے کے بعد ہلاک ہو گیا اس شخص کی لاش جب کوہاٹ پہنچی تو طالبان کے حامی گروہوں نے مطالبہ کیا کہ ہلاک ہونے والے کی لاش ان کے حوالے کی جائے۔ پاک افغان سرحد کے قریب پاکستانی فوج نے ایک بار پھر مبینہ القاعدہ عناصر کا صفایا کرنے کی کارروائی شروع کر دی ہے۔ text: آتنا فرقدانی پر اعلیٰ رہنما کی توہین کرنے کا بھی الزام ہے آتنا فرقدانی نے اپنے بنائے گئے ایک کارٹون میں اس قانون کے حق میں ووٹ ڈالنے والے ممبر پارلیمان کو جانور دکھایا تھا۔ 28 سالہ آتنا فرقدانی کو پروپیگنڈا کرنے، ممبر پارلیمان اور اعلیٰ رہنما کی توہین کرنے جیسے الزامات کا سامنا ہے۔ اس قانون سے ایران میں کئی دہائیوں سے جاری خاندانی منصوبہ بندی ختم ہو جائے گی، قطع قنات یا عورتوں میں نس بندی غیر قانونی قرار دی جائے گی اور مانع حمل کی چیزوں پر ممانعت ہو گی۔ آتنا فرقدانی کو پہلی مرتبہ اگست 2014 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ایران کے پاسداران انقلاب ان کے گھر پر چھاپہ مارنے کے بعد انھیں گھر سے جیل لے گئے تھے۔ ان کو دسمبر میں رہا کر دیا گیا تھا لیکن پھر جنوری میں ایک آن لائن ویڈیو کے منظر عام آنے کے بعد جس میں انھوں نے الزام لگایا تھا کہ جیل میں گارڈز نے ان پر تشدد کیا تھا اور ہر دن ان سے تقریباً نو گھنٹے تک تفتیش کی جاتی تھی، انھیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے تین ہفتوں کے بعد آتنا فرقدانی جیل میں برے حالات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بھوک ہڑتال پر چلی گئیں۔ فروری میں انھیں دل کا دورہ پڑنے اور تھوڑی دیر تک اپنا ہوش کھو دینے کے بعد ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے انھیں تہران کی ایون جیل میں قیدِ تنہائی میں رکھا ہوا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے لیے ایران پر تحقیق کرنے والی رھا بحرینی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں آتنا پر مقدمہ چلانے پر بہت تشویش ہے۔‘ ’وہ ضمیر کی قیدی ہیں اور انھیں ان کے نظریات اور آزادئ اظہار کا حق استعمال کرنے کی وجہ سے قیدِ تنہائی میں رکھا گیا ہے۔‘ ’ہمارے نقطۂ نظر کے مطابق انھیں فوراً اور غیر مشروط طور پر رہا کر دینا چاہیے۔‘ رھا بحرینی کہتی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ان کا مقدمہ صرف ایک دن کا ہو۔ ’اگر ان پر جرم ثابت ہوتا ہے تو انھیں دو سال قید تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔‘ آتنا فرقدانی کے کارٹون میں ارکانِ پارلیمان کو جانور دکھایا گیا تھا جس قانون کے مسودے کا آتنا نے مذاق اڑایا اس کے تحت مردوں میں نس اور عورتوں میں رضاکارانہ طور پر قطع قنات کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور عورتوں کی ضبط تولید کے مواد تک رسائی روک دی جائے گی۔ جب مارچ میں اس قانون کا اعلان کیا گیا تھا تو اس وقت اس پر بہت تنقید ہوئی تھی۔ ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ اگر پارلیمان نے اسے منظور کر دیا تو عورتوں کے حقوق کئی دہائیاں پیچھے چلے جائیں گے۔ عورتوں کے حقوق کے گروہوں نے خبردار کیا ہے کہ ضبط تولید تک رسائی کو روکنے سے عورتیں غیر محفوظ اسقاط حمل کی طرف مجبور ہو جائیں گی۔ آتنا فرقدانی کے کارٹون کو ان کی گرفتاری کے بعد ٹوئٹر اور فیس بک پر بہت شیئر کیا گیا ہے اور ان کے مقدمے کے متعلق بنائے گئے فیس بک کے صفحے پر دنیا بھر سے حمایت کے پیغامات آئے ہیں۔ ایران کی ایک آرٹسٹ اور سرگرم سیاسی کارکن پر خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں تک رسائی روکنے کے لیے بنائے گئے قوانین کے مسودوں کا مذاق اڑانے پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ text: ’ساؤتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن، کے زیر اہتمام چھ روزہ ’ساؤتھ ایشین پارلیمینٹ، کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ بطور صدر ان کی اور بطور وزیراعظم من موہن سنگھ کی مدت کے دوران مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ’ٹائم فریم، طئے کرنا ہوگا۔ صدر نے اس موقع پر تفصیل سے تمام امور پر کھل کر باتیں کیں اور کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے نیت صاف اور سچی رکھنی ہوگی اور محض مشترکہ اعلامیوں سے مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف بیان آتا ہے کہ سرحدوں کی نئے سرے سے حد بندی نہیں ہوسکتی دوسری طرف سے کہتے ہیں کہ کنٹرول لائن مستقل سرحد نہیں بن سکتی۔ ایسے میں صدر نے کہا کہ ایک اور بھی بات ہوتی ہے کہ سرحدوں کو غیرمتعلقہ بنادیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ تیسری رائے پر سمجھوتہ کرکے ہی کوئی حل نکالا جاسکتا ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ کشمیر سے اگر ہندوستان فوج واپس بلائے تو شدت پسندی از خود ختم ہوجائے گی لیکن پڑوسی ملک والے کہتے ہیں کہ پہلے شدت پسندی ختم ہو۔ ان کے مطابق وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مرغی اور انڈے والا مسئلہ ہے۔ کشمیر پر بات کرتے ہوئے انہوں نے آخر میں قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا جو وہ حل جانتے ہیں انہوں نے وہ بتایا ہی نہیں۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ بہت حساس مسئلہ ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اب مسئلہ کشمیر کے حل کا وقت آگیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ من موہن سنگھ نے اپنے اور ان کے (صدر) بارے میں ایک بار کہا تھا کہ دونوں اتفاقیہ لیڈر ہیں۔ صدر کے مطابق انہیں نہیں پتہ ہے کہ وہ اتفاقیہ ہیں یا حادثاتی لیڈر، لیکن اب ان رہنماؤں کو مسئلہ کشمیر حل کرنا ہوگا۔ صدر نے یہ بھی کہا کہ ان کی من موہن سنگھ سے خاصی ہم آہنگی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ صدر نے اس موقع پر کہا کہ وہ پاک بھارت مزاکرات کے عمل کو ناقابل واپسی اس لیے کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کی عوام اب اس کو واپس نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کا کہا وہ فوجی وردی میں ہیں لیکن جمھوریت کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں کہ دنیا کے اہم ممالک میں جمہوریت فوجیوں نے دی ہیں۔ انہوں نے کرام ویل ہوں اور نیپولین بوناپارٹ کا نام لیا۔ انہوں نے پاکستان میں دی گئی جمہوریت کا ذکر کیا اور کہا کہ کسی ملک کے لیے جمہوریت کا کوئی مخصوص فارمولا نہیں چل سکتا۔ اس پر جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پھر یہ سمجھا جائے کہ نیپال میں ابھی جمھوریت کا آغاز ہونے والا ہے۔ اس پر حال میں بہت بڑا قہقہہ پڑ گیا اور صدر خود بھی بے ساختہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ نیپال کے بادشاہ سے ان کے قریبی تعلقات ہیں اور وہ کسی ملک کے اندرونی معاملات میں نہیں پڑنا چاہتے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے اس موقع پر جہاں جنوبی ایشیا کے صحافیوں کو پاکستان میں آزادانہ طریقے سے گھومنے پھرنے کی اجازت کے بارے میں متعلقہ وزارت کو ہدایات جاری کرنے کا یقین دلایا وہاں میڈیا پر زور دیا کہ وہ بامقصد اور غیر متعصبانہ رپورٹنگ کریں اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے نئی ممکنہ تجاویز پیش کرے۔ ایک موقع پرصدر نے کہا کہ وہ جنوبی ایشیا میں اسلحہ کی دوڑ ختم کرنے اور جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی پیشکش پر اب بھی قائم ہیں۔ صدر نے تقریر کے بعد سوالات کی اجازت بھی دی اور ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بطور صدر وہ اپنی مدت سن دوہزار سات تک سمجھتے ہیں اور اس کے بعد کے بارے میں انہوں نے ابھی سوچا ہی نہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ دو ہزار سات میں وردی اتار دیں گے تو صدر نے ایک قہقہ لگاتے ہوئے کہا ’ہاں اور نہیں‘۔ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا وہ ایسا حل جانتے ہیں جو بھارت کو بھی قابل قبول ہوسکتا ہے۔ text: ھنگامی صورتِ حال کے پیش ِ نظر فوج کو امدادی کاموں میں مدد کے لئے طلب کر لیا گیا ہے۔ خبروں کے مطابق الحسیمہ کا علاقہ جہاں کثیر تعداد میں سیاح آتے ہیں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اس شہر میں زیادہ تر مکانات کچی اینٹوں کے بنے ہوئے تھے۔ وہاں کے ایک بچ جانے والے رہائشی نے بی بی سی کو ٹیلی فون پر بتایا کہ گلیوں اور سڑکوں پر ہر جگہ لاشیں ہی لاشیں تھیں اور زخمیوں کو ایمبولینسوں کے ذریعے ہسپتالوں میں لے جایا جا رہا تھا۔ ایک خدشہ یہ ہے کہ الحسیمہ کے قرب میں واقع تین دیہات شاید شدید زلزلے کے اثر کو برداشت نہ کر پائیں۔ ان دیہات میں تقریباً تیس ہزار افراد رہتے ہیں۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ زلزلے کی شدت تنجیئر کے ساحلی علاقے تک محسوس کی گئی۔ اس کے علاوہ زلزلے کے مقام سے ایک سو پچاس کلو میٹر دور تک جھٹکے محسوس کئے جانے کی اطلاع ہے۔ مراکش کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ زلزلے سے چالیس افراد ہلاک جبکہ چالیس زخمی ہوئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ مراکش کے ہسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ رائٹرز نے ایک ترجمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ کمارا کے علاقے سے پندرہ لاشیں ملیں ہیں۔ یہ علاقہ زلزلے میں مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جس مقام پر زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے وہاں فوج اور نیم فوجی دستوں کے علاوہ ہیلی کاپٹروں کو بھی روانہ کیا گیا ہے تا کہ وہ زندہ بچ جانے والوں کو فوری امداد مہیا کریں۔ امریکی ارضیاتی سروے کے مطابق زلزلے کی شدت ریکٹر سیکل پر چھ اعشاریہ پانچ تھی جبکہ یورپی ادارے کہتے ہیں کہ زلزلے کی شدت چھ اعشاریہ ایک سے چھ اعشاریہ تین تک تھی۔ منگل کا زلزلہ مراکش کے ہمسایہ ملک الجیریا کے خوفناک زلزلے کے نو ماہ بعد آیا ہے جہاں دو ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ انیس سو ساٹھ میں مراکش میں زلزلے سے بارہ ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ شمالی مراکش میں منگل کی صبح آنے والے شدید زلزلے میں مرنے والوں کی تعداد پانچ سو ساٹھ ہو گئی ہےاور اندیشہ ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد مزید بڑھ جائے گی۔ text: مبصرین کے مطابق کشمیر میں حالیہ دنوں میں تشدد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے تین روز تک مظاہروں، ہڑتال اور کرفیو کے بعد اتوار کو جب حکام نے سرینگر اور بعض دوسرے قصبوں سے کرفیو ہٹایا تو مظاہروں کی لہر دوسری علاقوں میں پھیل گئی۔ کئی مقامات پر خواتین نے بھی مظاہرے کیے جس کے بعد بعض حساس علاقوں میں دوبارہ کرفیو نافذ کیا گیا۔ اس دوران بھارتی پنجاب کے سکھ رہنماؤں اور پاکستانی زیرانتظام کشمیر کے سیاسی حلقوں نے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اعلان کیا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو روز کے دوران پتھراؤ کے الزام میں درجنوں کمسن لڑکوں کو رات کے دوران گھروں سے گرفتار کیا گیا ہے۔ اٹھارہ جولائی کی صبح اُس وقت حالات کشیدہ ہوگئے جب سری نگر سے جنوب کی جانب 250 سو کلومیٹر دور رام بن ضلع کے گول گاؤں میں مقامی لوگوں نے مسجد اور درسگاہ میں بھارتی بارڈر سکیورٹی فور‎سز کے اہلکاروں کی مبینہ زیادتیوں کے خلاف گول میں ہی جلوس نکالا۔ وہاں موجود بی ایس ایف اہلکاروں نے جلوس پر فائرنگ کی جس میں چار افراد ہلاک اور چالیس سے زائد زخمی ہوگئے۔ گزشتہ تین روز سے جاری احتجاجی تحریک کے دوران متعدد مظاہرین اور پولیس اہلکار زخمی ہوگئے ہیں۔ اتوار کو بھی مختلف مقامات پر پولیس نے کالی مرچ کی گیس اور ربر کی گولیوں کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں کئی کمسن لڑکے زخمی ہوگئے۔ کشمیر میں جگہ جگہ مظاہرے جاری ہیں گزشتہ کئی برسوں میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ جموں میں ہلاکتوں کی وجہ سے پورا کشمیر متاثر ہوا اور ہندؤں کی سالانہ امرناتھ یاترا بھی متاثر ہوئی۔ علیحدگی پسند گروپوں نے جمعہ، سنیچر اور اتوار کو اجتماعی مظاہروں کی کال دی تھی، لیکن حکام نے حساس آبادیوں کی سخت ناکہ بندی کی اور پوری وادی میں کرفیو نافذ کردیا۔ علیحدگی پسند رہنماوں کو اپنے ہی گھروں یا تھانوں میں نظربند کیا گیا۔ دریں اثناء پنجاب کے معروف سکھ رہنما سمرن جیت سنگھ مان نے اتوار کو وادی کا ہنگامی دورہ کیا۔ انہوں نے کئی علیحدگی پسند رہنماوں کے ساتھ ملاقات کے دوران کشمیر کو متنازع خطہ قرار دیا اور کہا کہ رائے شماری کے انعقاد تک امن کا قیام ناممکن ہے۔ سمرنجیت سنگھ مان پنجاب کے سابق پولیس افسر ہیں۔ انہوں نے 1984 میں امرتسر کے گولڈن ٹیمپل پر فوجی یلغار کے خلاف سرکاری نوکری سے استعفی دے دیا تھا۔ 68 سالہ سمرنجیت سنگھ مان پر سابق بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کی سازش کا الزام ہے اور وہ کئی بار جیل جاچکے ہیں۔ سمرنجیت سنگھ مان کا کہنا تھا: ’پنجاب اور کشمیر دو صوبے ہِِیں جن پرحکومت ہند نے قبضہ کیا ہے۔ کشمیریوں اور سکھوں کو کبھی انصاف نہیں ملا۔ سنہ دو ہزار میں بھی چالیس سے زائد سکھ باشندوں کو بھارتی فوج نے ہلاک کیا، لیکن ابھی اس کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔‘ انہوں نے پنجاب اور کشمیر دونوں خطوں کے لیے رائے شماری کا مطالبہ کیا۔ علیحدگی پسند رہنماؤں نے کشمیر اور پنجاب کے لیے حق خود ارادیت کی بات کی ہے علیحدگی پسند رہنما شبیر احمد شاہ نے سمرنجیت سنگھ مان کے دورے کا خیر مقدم کیا اور پنجاب کے لیے بھی رائے شماری کی حمایت کی۔سید علی گیلانی نے پیر کے روز ’یوم تقدس قران‘ منانے کی اپیل کی ہے۔ ادھر حکام نے دو روز تک معطل امرناتھ یاترا کو بحال کر دیا ہے اور جموں میں سینکڑوں یاتریوں کو کشمیر کی طرف پیش قدمی کی اجازت دی گئی ہے۔ تاہم تعلیمی اور کاروباری نظام ٹھپ ہے۔ قابل ذکر ہے کشمیر میں سنہ دو ہزار آٹھ سے دو ہزار دس تک بڑے پیمانے پر ہند مخالف عوامی تحریک چلی تھی۔ دو سال تک حالات بظاہر پرسکون رہے، لیکن اس سال فروری میں سابق عسکریت پسند افضل گورو کو دہلی کی تہاڑ جیل میں خفیہ پھانسی دی گئی اور وہیں دفن کیا گیا۔ اس کے بعد کشمیر میں مسلح حملوں اور غیرمسلح احتجاج کی لہر تیز ہوگئی۔ بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے چار مظاہرین کی ہلاکت کے بعد حالات مسلسل کشیدہ ہیں اور مختلف مقامات پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ text: یوراج سنگھ کو وقفے کے بعد ٹیم میں دوبارہ شامل کیا گیا ہے بھارت کے شہر راج کوٹ میں کھیلے جانے والے اس میچ میں بھارت نے ٹاس جیت کر آسٹریلیا کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی۔ آسٹریلیا نے مقررہ 20 اوورز میں سات وکٹوں کے نقصان پر 201 رنز بنائے۔ جواب میں بھارت نے 202 رنز کا ہدف انیس اعشارہ چار اوورز میں چار وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر لیا۔ میچ کا تفصیلی سکور کارڈ یوراج سنگھ کی ٹیم میں واپسی آسٹریلیا کے برعکس بھارت کی اننگز کا آغاز اچھا نہیں تھا اور 12 کے سکور پر اسے پہلا نقصان شرما کی صورت میں اٹھانا پڑا جو آٹھ رنز پر کیچ آؤٹ ہو گئے۔ اس کے بعد 50 پر رائنا 19 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے اور 80 کے سکور پر دھاون 30 رنز بنا کر کیچ آؤٹ ہو گئے۔ بھارت کی اننگز کے 100 رنز مکمل ہوتے ہی کوہلی 29 رنز پر کیچ آؤٹ ہو گئے۔ اس کے بعد یوراج اور کپتان دھونی کے درمیان 102 رنز کی شراکت داری کی وجہ سے یہ میچ بھارت نے چھ وکٹوں سے جیت لیا۔ بھارت کی جانب سے یوراج سنگھ نے 8 چوکوں اور 5 چھکوں کی مدد سے 77 رنز بنائے اور مین آف دی میچ کے حق دار ٹھہرے۔ اس سے پہلے آسٹریلیا کی اننگز میں فنچ نے 89 رنز بنائے جبکہ بھارت کی جانب سے ونئے کمار اور بھونیشور کمار نے تین تین وکٹیں حاصل کیں۔ آسٹریلیا اور بھارت کے مابین 7 ایک روزہ میچوں کی سیریز کا پہلا میچ تیرہ اکتوبر کو پونے میں کھیلا جائے گا۔ یوراج سنگھ کو کینسر کے مرض سے صحتیاب ہونے کے بعد اس سے قبل بھی ٹیم میں شامل کیا گیا تھا لیکن پھر بعد میں انہیں ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا تھا۔ انھوں نے حالیہ سیزن میں ملک کے اندر کھیلے جانے والے میچوں میں اور انڈیا اے کی جانب سے اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا جس کے باعث انھیں دوبارہ ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔ بھارت اور آسٹریلیا کے مابین کرکٹ سیریز میں کھیلا جانے والا واحد ٹی ٹوئنٹی میچ بھارت نے چھ وکٹوں سے جیت لیا ہے۔ text: جنوبی افریقہ کے کونٹن ڈی کاک کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا بھارت کی پوری ٹیم 281 رنز کے ہدف کے تعاقب میں 34.1 اوورز میں پویلین لوٹ گئی۔ میچ کا تفصلی سکور کارڈ بھارت کے پانچ بلے بازووں کا سکور دوہرے ہندے میں بھی داخل نہ ہو سکا اور اس کے دو کھلاڑی صفر پر آؤٹ ہوئے۔ بھارت کی جانب سے سریش رائنا نے 36 اور رویندر جڈیجا نے 26 رنز بنائے۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے ٹسوبے نے چار، سٹین نے تین اور مورنی مورکل نے دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ اس سے پہلے جنوبی افریقہ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 49 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 280 رنز بنائے۔ جنوبی افریقہ کی اننگز کی خاص بات ہاشم آملہ اور کونٹن ڈی کاک کی شاندار بلے بازی تھی۔ دونوں کھلاڑیوں نے پہلی وکٹ کی شراکت میں 194 رنز بنائے۔ ہاشم آملہ نے آٹھ چوکوں کی مدد سے 100 جب کہ کوئنٹن ڈی کاک نے نو چوکوں کی مدد سے 106 رنز بنائے۔ بھارت کی جانب سے محمد شامی نے تین، ایشون اور رویندر جڈیجا نے ایک ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ جنوبی افریقہ کے کونٹن ڈی کاک کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ اتوار کو کھیلے جانے والے اس میچ میں بھارت نے ٹاس جیت کر فیلڈنگ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جوہانسبرگ میں کھیلے گئے پہلے ایک روزہ میچ میں جنوبی افریقہ نے بھارت کو 141 رنز سے شکست دے تھی۔ ڈربن میں کھیلے جانے والے دوسرے ایک روزہ میچ میں جنوبی افریقہ نے بھارت کو 134 رنز سے شکست دے کر تین مچیوں پر مشتمل سیریز دو صفر سے جیت لی۔ text: مقامی انتظامیہ نے تلاشی کے عمل کے ساتھ ساتھ جوابی کارروائی بھی شروع کی ہے جس میں مشکوک ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے۔ مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ منگل کو تحصیل لدھا میں دیر سکاؤٹس فورس کے چار اہلکار قلعہ کے قریب ایک چیک پوسٹ سے پیدل سکاؤٹس قلعہ لدھا آ رہے تھے کہ ایک پہاڑی نالےمیں مسلح نقاب پوشوں نے ان پر حملہ کیا اور چاروں اہلکاروں کو اغواء کر کے نامعوم مقام پر منتقل ہوگئے۔ حکام کے مطابق اہلکاروں کے اغواء کے بعد سکیورٹی فورس نے جوابی کارروائی میں توپخانے کا بھی استعمال کیا ہے۔ حکام کے مطابق دیر سکاؤٹس فورس کے چاروں اہلکار وردی میں تھے جن کے پاس اسلحہ بھی موجود تھا۔ مقامی انتظامیہ کے تلاشی کے عمل میں تاحال کسی قسم کی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اس واقعہ کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان میں طالبان کافی سرگرم ہيں اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چئیرپرسن بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام حکومت نے بیت اللہ محسود پر لگایا ہے لیکن تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان مولا عمر نے اس الزام کا سختی سے تردید کیا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں حکومت خود ملوث ہے۔ دوسری جانب حکومت کی جانب سے یہ اشارے بھی ملے ہیں کہ حکومت نے بیت اللہ محسود کے خلاف ایک بڑے آپریشن کی تیاری مکمل کی ہے۔ پاکستان کے قبائلی جنوبی وزیرستان میں نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی نامعلوم افراد نے دیرسکاؤٹس فورس کے چار اہلکاروں کو تحصیل لدھا کے علاقے سے اغواء کر لیا ہے۔ text: ترک وزیراعظم اس بیان سے ایک ہی روز قبل ترک پارلیمنٹ سے فوج کو یہ اجازت دینے کی درخواست کر چکے ہیں کہ وہ سرحد پار نیم خود مختار ترک علاقے میں فوجی کارروائی کر سکے۔ ادھر عراق میں وزیراعظم نوری المالکی ترکی کے عزائم پر غور کے لیے کابینہ کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کر چکے ہیں۔ ترکی ایک عرصہ سے یہ کہتا رہا ہے کہ ترک علیحدگی پسند مذکورہ علاقے کو ترکی پر حملوں اور ان کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عراق نے حال ہی میں ترکی کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں لیکن وہ اپنے علاقوں میں کسی قسم کی فوجی دراندازی کے خلاف ہے۔ علیحدگی پسند کردوں کی جانب سے حالیہ چند دنوں کے دوران مختلف حملوں میں پندرہ ترک فوجیوں کی ہلاکت کے بعد وزیراعظم طیب اردگان پر علیحدگی پسند کردوں کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ منگل کو بھی طیب اردگان نے اعلٰی حکام کے ایک اجلاس میں علیحدگی پسند کردستان ورکرز پارٹی کے خلاف سخت اقدامات پر غور کیا جن میں شمالی عراق میں فوجی آپریشن بھی شامل تھا۔ ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردگان نے عراق سے کہا ہے کہ وہ اپنے اور دہشت گرد تنظیموں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کرے۔ ان کا اشارہ شمالی عراق میں آباد کرد علیحدگی پسندوں سے ہے۔ text: میئر کن لوینگسٹن کی ڈیپٹی نکی گیوران نے کہا مئیر یہودی کیمونٹی کے جذبات کو ٹھیس پہچانے پر معافی مانگیں گے۔ لندن کے مئیر نے ایک مقامی اخبار کے رپوٹر کو نازی کیمپ کے گارڈ کہہ کر پکارا تھا۔ جب لندن کے میئر سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیاگیا پہلے انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ بعد میں وزیر اعظم ٹونی بلئیر نے بھی لندن مئیر کو یہودیوں سے معافی مانگنے کے لیے کہا ہے۔ مئیر کے ڈیپٹی نکی گیورن نے کہا بی بی سی کو بتایا ہے کہ کن لوینگسٹن منگل کے روز یہودیوں سے ’سوری‘ کریں گے۔ ادھر یہودیوں نے مقامی حکومتوں کو مانیٹر کرنے والے ادارے’ دی سٹینڈرڈ بورڈ‘ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ لندن کے مئیر کے خلاف ایکشن لے۔ دی سٹینڈرڈ بورڈ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی مقامی حکومت کے نمائندے کو اپنے فرائض انجام دینے سے روک دے۔ لندن کے میئرلوینگسٹن ایک یہودی رپوٹر کو نازی گارڈ کہ کر پکارنے پر یہودیوں سے معافی مانگیں گے۔ text: احتجاج کا سلسلہ اکتوبر 2019 کے اوئل میں کئی جنوبی صوبوں میں شروع ہوا۔ یہ احتجاج کچھ ہفتوں کے لیے تھم گیا لیکن پھر اچانک 25 اکتوبر کو شدت سے واپس آیا اور جنوبی صوبوں سے نکل کر ملک کے دوسرے حصوں تک پھیل گیا۔ احتجاج کا یہ سلسلہ کئی ماہ بغیر کسی وقفے کے جاری رہا۔ ابتدائی دنوں میں احتجاجی مظاہرین کی ساری توجہ بدعنوانی اور سہولتوں کی عدم دستیابی پر تھی۔ اسی احتجاج کی وجہ سے وزیر اعظم ادل عبدل مہدی کو اپنی کابینہ کے ہمراہ مستعفیٰ ہونا پڑا اور ان کی جگہ نئے وزیر اعظم نے عہدہ سنبھال لیا ہے۔ پھر کورونا کی عالمی وبا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا اور ملک میں لاک ڈاؤن کا نفاد عمل میں آیا۔ یہ بھی پڑھیے عراق کی بس یہی کہانی ہے عراق میں حکومت مخالف مظاہرے، بغداد میں کرفیو امریکہ کی عراق سے فوج نکالنے کے ’خط‘ کی تردید عراق میں اہم فوجی اڈوں سے امریکی فوجیوں کی واپسی لاک ڈاؤن کے اٹھائے جانے کے بعد احتجاج کا سلسلہ ایک پھر شروع ہو گیا ہے اور اب یہ سلسلہ بغداد سے لے کر جنوبی شہر نصریہ تک پھیل چکا ہے۔ نئے احتجاج میں انھیں مطالبات کو پھر سے دہرایا جا رہا ہے۔ احتجاجی مظاہرین ملک کی سیاسی اشرافیہ کو ملک میں اصلاحات کی راہ میں روڑے اٹکانے کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ احتجاجی تحریک کے رہنماؤں اور نوجوانوں میں اختلافات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ احتجاجی تحریک کہاں پہنچی ہے؟ احتحاجی تحریک کے شروع ہونے کے ایک سال مکمل ہونے پر 25 اکتوبر کو ایک بار احتجاج کی کال دی گئی۔ لیکن حالیہ احتجاج کے دوران مظاہرین نے اپنی توجہ مخصوص مطالبات پر رکھی ہے جن میں بجلی کی عدم فراہمی اور تنخواہوں کی عدم ادئیگی بہت نمایاں ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے عراق کی آمدنی میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ تیل کی آمدن عراق کا سب بڑا ذریعہ آمدن ہے۔ احتجاج کے تازہ سلسلے میں اس یگانگت کی کمی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہےجو احتجاج کے ابتدائی مہینوں میں دیکھی گئی تھی۔ اس احتجاجی تحریک کو اپنی صفوں میں ایسے مسلح عناصر کو گھسنے سے روکنا ہو گا جنھوں نے گذشتہ برس کئی متحرک کارکنوں کو نشانہ بنایا تھا۔ مظاہرین پر حملوں کے پیچھے کون ہے؟ مظاہرین کے خلاف تشدد کی وجہ سے احتجاج کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا اظہار رواں ماہ کے اوئل میں کربلا اور نصریہ میں ہونے والے مظاہروں میں سامنے آیا۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ کچھ نامعلوم افراد مظاہرین کی صفوں میں داخل ہو گئے اور انھوں نے پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا جس کی وجہ سے جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں۔ کربلا میں مظاہرین پر تشدد کے خلاف نصریہ میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اسی وجہ سے شیعہ رہنما مقتدی الصدر نے قبائل پر زور دیا کہ وہ ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو روکیں۔ احتجاجی تحریک کے رہنما پہلے ہی مقتدی الصدر سے ناراض ہیں۔ مقتدی الصدر کی مسلح تنظیم بلیو ہیٹس جو مظاہرین کے تحفظ کے لیے بنائی گئی تھی، پر الزام ہے کہ اس نے احتجاجی مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ اب تک کیا بدلا ہے؟ احتجاجی تحریک کی وجہ سے ادل عبدل مہدی کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا ہے لیکن نئی حکومت کی تشکیل میں کئی ماہ لگ گئے۔ کئی ماہ کے بعد بالآخر سابق انٹیلجس سربراہ مصطفی ال خدیمی ایک متفقہ امیدوار کے طور سامنے آئے اور انھوں نے مئی میں نئی حکومت قائم کر لی تھی۔ نئے وزیر اعظم مصطفی خدیمی عہدہ سنبھالتے ہی اس طاقتور مسلح ملیشیا کو قابو میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے شیعہ پیرا ملٹری فورس پی ایم ایف کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم خدیمی نے وقت سے پہلے انتخابات اور مظاہرین کے خلاف تشدد میں ملوث لوگوں کے احتساب کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن وزیر اعظم کو ان دونوں محاذوں پر مزاحمت کا سامنا ہے۔ ملک کی سیاسی اشرافیہ ان مراعات کو کھونا نہیں چاہتی جو اس نے پچھلے کئی سالوں میں حاصل کی ہیں۔ کیا کچھ نہیں بدل سکا؟ نئی حکومت کی تشکیل اور اگلے برس کے اوئل میں نئے انتخابات کے وعدے کے باوجود عراق میں وہی سیاسی صورتحال برقرار ہے جو احتجاج سے پہلے تھی۔ امریکہ اور ایران عراق میں اپنے اثر ر رسوخ کی کشمکش میں مصروف ہیں۔ تحریک کے ابتدائی دنوں میں لگایا جانے والا نعرہ، ’ہم ایک قوم چاہتے ہیں، اب کہیں گم ہو گیا ہے۔ عراق میں 2020 اس بحث میں گذر گیا ہے کہ امریکی فوجوں کو عراقی سرزمین سے چلے جانے چاہیے یا نہیں۔ نئے وزیر اعظم مصطفی خدیمی طاقتور شیعہ ملیشیا کو قابو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ملک میں بغیر کسی روک ٹوک کے کارروائیاں کرتی ہے۔ وزیر اعظم نے جون میں خطیب حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر پر چھاپہ مارنے کی اجازت دی۔ اس چھاپے میں کئی افراد کو گرفتار کیا جو مبینہ طور پر دہشگردی کا کارروائیوں کی تیاری کر رہے تھے۔ لیکن جب اس کا ردعمل سامنے آیا تو گرفتار افراد کو رہا کر دیا گیا۔ جون میں مظاہروں کا سلسلہ جن وجوہات کی وجہ سے شروع ہوا تھا، یعنی شہری سہولتوں کی عدم دستیابی اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی، وہ مسائل اب بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ کووڈ 19 کی وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی بحران نے ان مسائل کے حل کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ احتجاجی تحریک کے خلاف حملے جاری ہیں اور کووڈ 19 کے بحران کے باوجود پچھلے برس میں احتجاج کی وجہ عراق میں کئی اہم سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں لیکن وہ تمام حقیقتیں جن کی وجہ سے 2019 میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو ا تھا، اپنی جگہ برقرار ہیں۔. عراق میں ایک برس پہلے احتجاج کی ایک ایسی بے مثال لہر اٹھی جس نے ایک تحریک کا روپ دھار لیا۔ اس احتجاجی تحریک کے مطالبات میں ملک میں سیاسی اصلاحات، بدعنوانی اور اقرابا پروری کا خاتمہ اور غیر ملکی طاقتوں کی غلامی سے چھٹکارا سرفہرست تھے۔ text: پولیس کے مطابق دھماکہ جمعرات کی شب اس وقت ہوا جب لوگوں کی بڑی تعداد ہوٹل میں بیٹھی تھی۔ زخمی ہونے والے افراد کو جناح اسپتال پہنچایا گیا جہاں دو زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ ابتدائی طور پر پانچ زخمیوں کو اسپتال لایا گیا جس کے بعد یکے بعد دیگرے زخمیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ شدید زخمی ایک شخص کو لیاقت نیشنل اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ ڈی آئی جی (ایسٹ) میر زبیر محمود کا کہنا ہے کہ ابتدائی تفتیش کے بعد یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ دھماکہ کسی کم شدت والے دستی بم کا تھا۔ انہوں نے بتایا ہے کہ حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بم کسی نے پھینکا ہے یا بم اس جگہ پہلے سے رکھا تھا۔ دھماکے کے مقام پر پہنچنے والے پولیس آفیسر محمد ندیم نے بتایا کہ جس جگہ دھماکہ ہوا وہاں معمولی نوعیت کا گڑھا پڑگیا ہے اور زخمی ہونے والوں کا سامان بکھرا تھا۔ مذکورہ پولیس افسر نے کسی زخمی کے واقعہ میں ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ زخمی ہونے والے ایک شخص نے اسپتال کے عملے اور صحافیوں کو بتایا کہ جس جگہ دھماکہ ہوا وہاں نوجوانوں کا ایک گروپ اپنے دوست سے الوداعی ملاقات کے لئے جمع ہوا تھا جسے جمعہ کو بیرونِ ملک جانا تھا جبکہ دستی بم ایک گاڑی سے پھینکا گیا تھا۔ واقعہ کے بعد شہر بھر میں سیکورٹی کے انتظامات سخت کردیے گئے اور پولیس نے گاڑیوں کی تلاشی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ واضع رہے کہ جمعرات کو یومِ دفاع کے باعث شہر میں سیکورٹی پہلے ہی سخت تھی۔ پاکستان کے یومِ دفاع کے موقع پر کراچی کے قائدِ اعظم انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ہوٹل میں بم دھماکے کے نتیجے میں سولہ افراد زخمی ہوگئے۔ text: نئے کھلاڑی ہاردک پانڈیا کو ٹیسٹ ٹیم میں شامل کیا گیا ہے انڈیا اور انگلینڈ کے درمیان پانچ میچوں کی یہ سیریز نو نومبر سے انڈیا کے شہر راج کوٹ میں شروع ہو رہی ہے۔ انڈیا کے اہم بلے باز روہت شرما کو زخمی ہونے کے سبب ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ وہ وزاگ میں نیوزی لینڈ کے خلاف سنیچر کو کھیلے جانے والے میچ کے دوران زخمی ہو گئے تھے۔ ان کے علاوہ سیلیکشن کمیٹی نے زخمی شیکھر دھون اور لوکیش راہل کو بھی منتخب نہیں کیا ہے جبکہ ایک عرصے کے بعد ٹیم میں شامل کیے جانے والے اوپنر گوتم گمبھیر ٹیم میں اپنی جگہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انگلینڈ کے خلاف فاسٹ بولر ایشانت شرما نے ٹیم میں واپسی کی ہے جبکہ آل راؤنڈر ہاردک پانڈیا ٹیم میں شامل ہونے والے نئے کھلاڑی ہیں۔ اس سے قبل وہ ون ڈے ٹیم کا حصہ تھے لیکن انھوں نے ابھی تک ٹیسٹ میچز میں انڈیا کی نمائندگی نہیں کی ہے۔ انڈیا کی ٹیم کو منتخب کرنے کے لیے بدھ کی صبح ممبئی میں میٹنگ ہوئی جس میں پانچوں سلیکٹروں کے علاوہ بورڈ کے سیکریٹری اجے شرکے اور فیزیو پیٹرک فرہارٹ نے شرکت کی جبکہ کپتان وراٹ کوہلی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے شرکت کی۔ واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کے خلاف تین صفر سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد انڈیا ٹیسٹ میچز میں نمبر ایک پر ہے جبکہ پاکستان اس کے بعد دوسرے نمبر پر چلی گئی ہے۔ دو ٹیسٹ میچز کے لیے انڈیا کی ٹیم : وراٹ کوہلی (کپتان)، گوتم گمبھیر، مرلی وجے، چیتیشور پچارا، اجنکیا رہانے، آر ایشون، وریدیمان ساہا (وکٹ کیپر)، امت مشرا، محمد شامی، امیش یادو، ہاردک پانڈیا، جینت، روندر جڈیجا، ایشانت شرما اور کرون نایر۔ پہلا ٹیسٹ راجکوٹ میں نو نومبر سے کھیلا جائے گا جبکہ دوسرا 17 نومبر سے وشاکھاپٹنم میں ہوگا۔ انڈیا میں کرکٹ کے نگران ادارے بی سی سی آئی نے انگلینڈ کے خلاف سیریز کے پہلے دو ٹیسٹ میچوں کے لیے اپنی 15 رکنی ٹیم کا اعلان کر دیا ہے۔ text: کوئٹہ کے بگٹی ہاؤس میں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمیل اکبر بگٹی نے کہا ہے کہ ایف آئی آر میں صدر جنرل پرویز مشرف کے علاوہ وزیر اعظم شوکت عزیز، گورنر اور وزیر اعلی، بلوچستان، کور کمانڈر اور انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور شامل کیئے جائیں۔ جمیل اکبر بگٹی نے کہا کہ وہ یہ بیان ایف ائی آر کے لیے سامنے لارہے ہیں جس میں کچھ عرصہ پہلے جنرل پرویز مشرف نے نواب اکبر بگٹی کا نام لے کر دھمکی دی تھی کہ ’ان تین سرداروں کو ایسا ہٹ کروں گا کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا کیونکہ یہ انیس سو اکہتر کا زمانہ نہیں ہے۔‘ اس کے علاوہ انہوں نے اخبارات اور دیگر میڈیا کے ذریعے ستائیس اگست دو ہزار چھ کو نواب اکبر بگٹی کے قتل میں حصہ لینے والی ٹیم کو مبارکباد دی تھی۔ جمیل بگٹی نے کہا: ’ہمارے والد کو ہماری غیر موجودگی میں ڈیرہ بگٹی میں سپرد خاک کرنے کا اعلان یکم ستمبر دو ہزار چھ کو میڈیا میں کیا گیا۔ انہیں غسل کفن کے بغیر دفنا کر اسلامی اصولوں کی پامالی کی گئی ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ان کے والد کے جسم پر آنے والے زخموں کو چھپا کر حکومت نے ’ہمارے والد کے قتل ے اسباب کو بھی دفنا دیا ہے جبکہ یہ جاننا ہمارا قانونی اور آئینی حق ہے۔‘ جمیل بگٹی نے کہا ’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کے ادارے اپنی نگرانی میں قبر کشائی کرکے بین الاقوامی میڈیکل بورڈ کے ذریعے ان کی موت کے اسباب معلوم کرکے قانون کے تقاضے پورے کریں۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ تھانے کیوں نہیں گئے تو انہوں نے کہا کہ سب کو پتہ ہے کہ پولیس اہلکار ایک پولیس افسر کے خلاف رپورٹ درج نہیں کرتے تو ان کے والد کے بارے میں رپورٹ کب درج ہو سکے گی۔ نواب اکبر بگٹی کے پوتوں براہمدغ بگٹی اور میر عالی بگٹی کے بارے میں ایک سوال پر بتایاگیا کہ کہا کہ وہ خیریت سے ہیں۔ جمہوری وطن پارٹی کے جنرل سیکرٹری آغا شاہد بگٹی سے جب اراکین اسمبلی کے استعفوں کے حوالے سے پوچھا گیا تو سیکرٹری اطلاعات امان اللہ کنرانی نے بتایا کہ اس وقت فاتحہ خوانی کا سلسلہ جاری ہے ۔اس سے فارغ ہو کر کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ جمہوری وطن پارٹی اے آر ڈی کا حصہ ہے اور مستقبل کا فیصلہ اتحاد میں شامل جماعتیں کریں گی۔ نواب اکبر بگٹی کے صاحبزادوں جمیل اکبر بگٹی اور طلال اکبر بگٹی نے کہا ہے کہ ان کے والد نواب اکبر بگٹی کو صدر جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کی ایما پر قتل کیا گیا ہے۔ اس بارے میں ایف آئی آر درج کرکے متعلقہ حکام اور عالمی ادارے تفتیش کو یقینی بنا کر ملزمان کے خلاف کارروائی کریں۔ text: ماہرہ خان کی فلم پر پابندی سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہے۔ جہاں ریاست چند سو افراد کے سامنے بے بس نظر آئی وہیں ریپ کے موضوع پر بننے والی فلم ’ورنہ‘ پر پابندی اور پھر اسے اٹھانے کے فیصلے پر لوگوں نے شدید غصے کا اظہار کیا اور اس ہفتے اسی موضوع پر بات کریں گے۔ 'پرابلم ریپ سے ہے یا سیاستدان کے بیٹے سے‘ شعیب منصور کی فلم ’ورنہ‘ کو مرکزی فلم سنسر بورڈ نے نمائش کی اجازت دینے سے انکار کیا اور بعد میں خبر آئی کہ فلم کچھ مناظر کاٹنے کے بعد نمائش کے لیے پیش کی جائے گی، اور آخری خبر یہ کہ فلم کاٹ پیٹ کے بغیر نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والی رکن پنجاب اسمبلی حنا بٹ نے لکھا کہ 'سنسر بورڈ کو مسئلہ اس بات سے ہے کہ ریپ کے موضوع کو اتنے بے باک طریقے سے سامنے لایا گیا اور ریپ کرنے والا گورنر کا بیٹا ہے۔' اس فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والی اداکارہ ماہرہ خان نے اس پر ٹویٹ کی کہ 'لوگوں کی آواز کی طاقت مزید بڑھے ان چند افراد کی آواز سے جو بااثر ہیں۔' سیرت خان نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے لکھا 'خواتین کے 'خلاف چین آئے نا' یا 'پنجاب نہیں جاؤں گی' فلموں میں دکھائے گئے تشدد پر سنسر بورڈ کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا مگر اس ملک میں ایک فلم جو ریپ کے موضوع اور اس سے متاثر ہونے والے کے مسائل پر بات کرتی ہے پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔' تجزیہ کار حسن زیدی نے سنسر بورڈ کے اراکین کے بارے میں لکھا ’انہی نے فلم ’ورنہ‘ پر پابندی لگائی جو بظاہر یہ سوچتے ہیں کہ ریپ جیسے موضوع پر بات نہیں ہونی چاہیے۔' لبنیٰ نے فلموں میں خواتین کے کرداروں کے حوالے سے لکھا کہ ’ورنہ‘ پر 'شاید اس لیے پابندی لگا دی گئی کیونکہ اس میں آئٹم گانے نہیں تھے، یا فحش ڈائیلاگ نہیں تھے یا دوسری گھٹیا چیزیں نہیں ہوں گی۔ اتنے معیاری کام سے یقیناً کچھ لوگوں کو تکلیف ہوئی ہو گی۔' ماہرہ خان کی ٹویٹ عمر جو منین نے نام سے ٹویٹ کرتے ہیں لکھا 'حیرت کی بات ہے کہ 'خدا کے لیے' نے ایک آمر کے دور میں ریکارڈ کاروبار کیا جب ملا بریگیڈ ویڈیو کی دکانوں اور ٹی وی سیٹس توڑ رہی تھی مگر آج کے دور میں عورتوں کے موضوع پر بننے والی ایک سماجی فلم پر پابندی ایک جمہوری حکومت کے دور میں لگ رہی ہے۔' ابرار ابراہیم نے لکھا کہ 'ملا کھلے عام ہمارے ہیرو جیسا کہ ایدھی کے خلاف نفرت کا پرچار کر رہے ہیں اور ملک کے دارالحکومت کا گھیراؤ کیے بیٹھے ہیں مگر حکومت کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں۔ مگر دوسری جانب ایک سنجیدہ موضوع پر بننے والی فلم پابندی کا شکار ہو جاتی ہے۔' ثمر من اللہ خان نے اس مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ 'اگر پابندی لگانی ہے تو کم عمری کی شادیوں پر لگائیں، ونی یا وحشیانہ جرگوں پر لگائیں جو معصوم لڑکیوں کے ریپ کے فیصلے صادر کرتے ہیں یا ان کی تذلیل کرواتے ہیں۔ نہ کہ ورنہ جیسی فلموں پر۔ ایسی فلمیں سوچ بدلنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔' مہوش اعجاز نے ٹویٹ کی کہ 'ورنہ خواتین کے خلاف تشدد کے بارے میں ہے۔ کیا آپ توقع کر رہے تھے کہ ماہرہ، ہارون کے ساتھ شادی پر رقص کر کے اس موضوع پر رائے عامہ اجاگر کرتی؟ یا یہ لوگ واقعی یہ توقع کرتے ہیں کہ خواتین کے خلاف تشدد کے بارے میں فلم خواتین پر تشدد دکھائے بغیر بن سکتی ہے؟' مگر سب ایسے نہیں جنہیں اعتراض ہو کیونکہ ہنزلہ طیب نے ٹویٹ کی کہ 'پاکستان کی سالمیت، اسلامی روایات اور اقدار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس فلم پر پابندی لگنی چاہیے اگر اس نے حدود سے تجاوز کیا ہے۔' فارض کریم انصاری نے ٹویٹ کی کہ 'حد ہے!! ورنہ پر پابندی لگائی جانی چاہیے اور اسے اجازت نہیں ملنی چاہیے کیونکہ اس میں سندھیوں کو غلط رنگ میں دکھایا جا رہا ہے۔‘ احمد محمد نے لکھا کہ 'ورنہ پر پابندی عاد کی جانے چاہیے اور اس طرح کی دوسری ساری فلموں پر کیونکہ یہ لوگوں کے دماغ میں غلاظت ڈالتی ہیں۔ اس ہفتے کی تصاویر سموگ کے جانے کے بعد سردی کی آمد اور لاہور میں ایک خاندان سرد موسم میں آگ تاپ رہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں ہری پور کے قریب آثارِ قدیمہ کی دریافت ہوئی جس میں یہ بدھا کا مجسمہ بھی شامل ہے۔ سوشسلتان میں لوگوں نے سُکھ کا سانس لیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دھرنا دینے والے مذہبی رہنماؤں کو واپسی کا باعزت راستہ فراہم کیا کیونکہ لوگوں کے بقول ’دن بدن دھرنے میں لوگ کم ہو رہے تھے اور بارش اور سردی کی آمد نے رہی سہی کسر پوری کر دی تھی۔‘ text: لارس ولکس نے کہا ہے کہ اختتامِ ہفتہ کے موقع پر جب وہ جرمنی سے واپس سویڈن آئے تو پولیس نے انہیں صرف چند ایک اشیاء اٹھانے کی مہلت ہی دی اور گھر سے کہیں لے گئی۔ ’عراق میں القاعدہ‘ کےمبینہ سربراہ نے لارس ولکس کے قتل کے لیے انعام کی رقم مقرر کر رکھی ہے۔ انٹرنیٹ پر جاری ہونے والے ایک پیغام میں ابو عمر البغدادی نام کے اس شخص کہا کہ ’اگر لارس ولکس کو قتل کیا گیا توایک لاکھ ڈالر کی رقم انعام میں دی جائے گی’ ساتھ ہی اخبار کے مدیر کو قتل کرنے کے لیے انعام کی رقم میں پچاس فیصد کا اضافہ کر دیا جائےگا‘۔ لارس ولکس نے کہا ہے کہ سویڈن کی پولیس سمجھتی ہے کہ ان کی جان کو بہت زیادہ خطرہ ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو ٹیلیفون کے ذریعے انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے پولیس گارڈ نہ ہونے کے برابر تھے مگر اب سو فیصد ہے۔ گزشتہ برس پیغمبر اسلام کے کارٹون پر فسادات دیکھنے میں آئے تھے۔ مسلمان پیغمبرِ اسلام کی کسی بھی طرح کی شبیہ بنانے کو توہینِ اسلام سمجھتے ہیں۔ یہ نیا کارٹون اٹھارہ اگست کو نیرکس الیہندہ نام کے اخبار میں شائع کیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے سوئڈن کے وزیر اعظم فریڈرک رائنفیلڈ نے اس معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بائیس مسلم ممالک کےسفارت کاروں سے ملاقات کی تھی۔ انٹرنیٹ پر جاری ایک بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’سوئڈن کی حکومت اس سلسلے میں معافی مانگے ورنہ عراق میں القاعدہ ان کی معیشت اور بڑی بڑی کمپنیوں کو نشانہ بنائے گی جن میں اِرکسن ، وولوو، آئیکیا اور سکینیا شامل ہیں۔ کارٹون بنانے والے کا کہنا ہے کہ یہ ایک فن کا نمونہ ہے اور اس پر ضرورت سے زیادہ ردِ عمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ پیغمبر اسلام کا کارٹون بنانے والے سویڈن کے کارٹونسٹ نے کہا ہے کہ پولیس نے حفاظت کے پیشِ نظر انہیں کسی خفیہ مقام پر منتقل کر دیا ہے۔ text: زیادہ ذہین کون: بچے یا بچیاں؟ ان کے مطابق تحقیق کے مایوس کن نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ ان بچیوں کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ یہ تحقیق جریدے سائنس میں شائع ہوئی ہے اور اس میں 400 بچے شامل تھے۔ محقیقین کا تعلق امریکہ کی نامور جامعات سے ہے جن میں پرنسٹن یونیورسٹی، نیو یارک یونیورسٹی، اور یونیورسٹی آف الینوائے شامل ہیں۔ اس کے مطابق پانچ سال کی عمر تک بچے اور بچیاں اپنے صنف کے لوگوں کو زیادہ ذہین سمجھتے تھے لیکن صرف ایک سال کے بعد ان کے خیالات میں تبدیلی آگئی۔ تحقیقی ٹیم کے مطابق میڈیا، دوسرے اساتذہ اور والدین کے رویے کے سبب بچوں کے خیالات میں تبدیلی آتی ہے۔ اس تحقیق کے ایک تجربے میں پانچ، چھ اور سات سال کے بچے اور بچیوں کو ایک کہانی سنائی گئی جس کا مرکزی کردار بہت ذہین تھا لیکن اس کردار کی صنف واضح نہیں کی گئی۔ اس کے بعد ان بچوں کو دو مردوں اور دو خواتین کی تصاویر دکھائی گئیں اور پوچھا کہ ان میں سے کون اس کہانی کا مرکزی کردار تھا۔ پانچ سال کے عمر والے بچوں نے 75 فیصد دفع کسی مرد کو چنا جبکہ اسی تناسب سی بچیوں نے عورت کو۔ چھ سال کے بچوں میں یہ تناسب وہی رہا لیکن چھ سال کی بچیوں نے بھی خواتین کے مقابلے میں زیادہ مردوں کو ذہین سمجھ کر چنا۔ ’کم عمری میں بچوں کو ایسا تاثر ملتا ہے کہ ذہانت ایک مردانہ خصوصیت ہے۔‘ تحقیقی ٹیم میں شامل پروفیسر آندرئی سمپین نے کہا: 'اس تحقیقی کے مشاہدات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کم عمر کے بچوں کو بڑے ہوتے ہوئے ایسا تاثر ملتا ہے جس سے وہ سمجھتے ہیں کہ ذہانت ایک مردانہ خصوصیت ہے۔ یہ بہت ہی مایوس کن بات ہے کہ اتنی چھوٹی عمر سے بچیاں خود کو کم قابل سمجھتی ہیں۔' انھوں نے مزید کہا: 'اس عمر میں بچے اپنے مستقبل کے بارے میں نہیں سوچ رہے ہوتے لیکن وہ یہ ضرور سوچ رہے ہوتے ہیں کہ وہ کونسا مضمون پڑھنا پسند کرتے ہیں یا کونسی غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا پسند کرتے ہیں۔اور اس طرح کے خیالات ان کے مستقبل کے فیصلوں کو دشوار کر دیتے ہیں۔' ٹیم کی ایک اور رکن ڈاکٹر لن بین نے کہا کہ وہ والدین اور اساتذہ کو یہ پیغام دینگے کہ وہ بچوں کو محنت پر یقین دلایئں۔ انھوں نے کہا: 'محنت کرنا اور اس پر یقین رکھنا کامیابی کی ضمانت بنتا ہے۔ ہماری تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بچیوں کو اگر محنت کرنے کا پیغام دیا جائے تو وہ کوئی کھیل کھیلنے میں لڑکوں جتنی ہی محنت کرتی ہیں۔' امریکی محقیقین کے مطابق چھ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بچیاں لڑکوں کے مقابلے میں خود کو قابلیت اور صلاحیت میں کم سمجھتی ہیں۔ text: امریکہ نے معاہدے کے تحت، 135 دن کے اندر افغانستان میں اپنی فوج کو 12 ہزار سے کم کرکے 8600 کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ افغانستان سے امریکی فوجیوں کو واپس بھیجنا امریکہ اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو ہونے والے تاریخی امن معاہدے کی ایک شرط تھی۔ افغان حکومت نے اس معاہدے میں حصہ نہیں لیا تاہم یہ توقع ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ابتدا میں کہا تھا کہ وہ عسکریت پسند گروپ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی شرط کے طور پر طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کے معاہدے پر عمل نہیں کریں گے۔ لیکن اطلاعات کے مطابق، افغان صدر اشرف غنی جنھوں نے 9 مارچ کو دوسری مدت کے لیے صدر کے عہد کا حلف اٹھایا ہے کی جانب سے رواں ہفتے کم از کم ایک ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کا حکم جاری کرنے کا امکان ہے۔ یہ بھی پڑھیے طالبان کا افغان افواج پر حملے دوبارہ شروع کرنے کا اعلان امریکہ کے ساتھ معاہدے کے بعد طالبان کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟ امریکہ طالبان مذاکرات: ’اہم پیشرفت‘ کا دعویٰ گذشتہ ہفتے امریکہ کی جانب سے افغان صوبے ہلمند میں افغان فورسز پر طالبان جنگجوؤں کے حملے کے جواب میں ایک فضائی حملہ کے بعد امن معاہدہ ٹوٹتا دکھائی دیا تھا۔ طالبان نے جنگی کاروائیوں میں کمی کا مطالبہ کیا تھا اور سوموار کو افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان کرنل سونی لیگٹ نے امریکی فوجیوں کے انخلا کے پہلے مرحلے کا اعلان کیا۔ کرنل لیگٹ نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ نے فوجیوں کی واپسی کے باوجود افغانستان میں ’اپنے تمام مقاصد کے حصول کے لیے تمام فوجی وسائل اور حکام کو برقرار رکھا ہے۔‘ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے عسکریت پسندوں کی جانب سے معاہدے کو برقرار رکھنے کی صورت میں 14 ماہ کے اندر تمام فوج واپس بلانے پر اتفاق کیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ، افغان عسکریت پسندوں نے حملوں سے باز رہنے کے ساتھ ساتھ القاعدہ یا کسی اور شدت پسند گروہ کو اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں آپریشن کرنے کی اجازت نہ دینے پر اتفاق کیا ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ نے ستمبر 2001 میں نیویارک میں القاعدہ کے حملوں کے بعد افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ طالبان کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا لیکن وہ ایک شورش پسند قوت بن گئے اور سنہ 2018 تک ملک کے دوتہائی سے زائد حصے پر متحرک رہے۔ اس جنگ کے دوران امریکی فوج کے 2400 سے زیادہ فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ جب سوموار کو افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا آغاز ہوا، اسی وقت ملک میں تازہ سیاسی عدم استحکام نے تمام فریقوں کے مابین مذاکرات کے کسی بھی امکان کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ گذشتہ برس متنازع افغان انتخابات کے بعد سوموار کو دو مختلف سیاستدانوں کے لیے الگ الگ حلف برداری کی تقریبات ہوئی۔ افغانستان کے الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ موجودہ صدر اشرف غنی نے گذشتہ برس ستمبر کا انتخاب معمولی اکثریت سے جیتا تھا مگر عبداللہ عبد اللہ نے الزام عائد کیا کہ یہ نتیجہ جعلی ہے۔ ماہرین نے متنبہ کیا کہ موجودہ سیاسی دشمنی ’منگل سے شروع ہونے والے بین الافغان مذاکرات میں حکومت کے مؤقف کو بری طرح متاثر کرے گی۔‘ امریکی انتظامیہ نےافغان صدر اشرف غنی کی بطور صدر، بظاہر حمایت کرتے ہوئے ملک میں ’متوازی حکومت کے قیام کے اقدام‘ کی مخالفت کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے سوموار کو ایک بیان میں کہا کہ ’ایک حکومت اور متفقہ افغانستان کو ترجیح دینا ملک کے مستقبل اور خاص طور پر امن کے مقصد کے لیے اہم ہے۔‘ امریکہ نے طالبان سے افغان امن معاہدے کے تحت افغانستان سے فوج کا انخلاء شروع کر دیا ہے جس کا مقصد ملک میں امن قائم کرنا ہے۔ text: کاکوپاتھر کے رہائشی اجیت مہتا کو علیحدگی پسند گروپ کا رکن ہونے کے شبے میں فوج نے گرفتار کر لیا تھا۔ اگلے دن مہتا کی بوری میں بند لاش قریبی علاقے دیبروگرتھ سے ملی۔اس پر فوج نے کہا کہ مہتا بچ کر بھاگنے کے دوران مارے گئے۔ سوموار کو فوجی عدالت نے اجے مہتا کو قتل کرنے کے جرم میں نشاط شرما اور سندیپ گرنگ کو سزا سنائی۔ شرما کی ایک سال کی سروس کاٹ لی گئی جبکہ گرنگ کو فوج کی جیل میں دو ماہ کی سزا کاٹنی ہو گی۔ لیکن آسام کے انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ یہ سزا اتنے بھیانک جرم کے لئے نا کافی ہے۔ آسام کے انسانی حقوق گروپ مناب ادیھکارسنگرام سمیتی کے لیڈر لچیت بردولی کا کہنا ہے کہ قتل کے جرم میں اس طرح کی سزا نہیں دی جاتی اور مہتا کو بہت ہی سرد مہری سے قتل کیا گیا ہے۔ مہتا کی موت پر کاکوپاتھر میں کافی احتجاج ہوا تھا۔ احتجاج کرنیوالے آٹھ لوگوں کو سکیورٹی فورسز نے موت کی گھاٹ اتار دیا۔ احتجاجیوں نے ایک سپاہی کو بھی قتل کر دیا۔ ہندوستان کی ریاست آسام میں ایک دیہاتی کو قتل کرنے کے جرم میں دو سپاہیوں کو سزا سنائی گئی ہے۔ text: ماضی کی طرف اب بھی ونڈوز کو اپ ڈیٹ کیا جاتا رہے گا: مائیکروسافٹ اس بات کا اعلان مائیکروسافٹ میں ترقیاتی عمل کے شعبے کے ایگزیکٹو جیری نکسن نے اس ہفتے شکاگو میں ’مائیکروسافٹ اگنائٹ کانفرنس‘ کے دوران تقریر کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز پر پر عرصے سے چلنے والے ونڈوز آپریٹنگ سسٹم کے لیے ونڈوز 10 ’آخری ورژن‘ ہوگا۔ مائیکروسافٹ کا کہنا ہے کہ نکسن کا بیان اس تبدیلی کا عکاس ہے جو اس سافٹ ویئر کی تیاری کے سلسلے میں آنے والی ہے۔ کمپنی خود بھی پہلے ہی ایسی ہی بات کر چکی ہے تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ ونڈوز کو مستقبل میں اپ ڈیٹ کرے گی جیسے کہ ونڈوز ماضی میں بھی ’اپ ڈیٹ ہوتی رہی ہے۔‘ فرم کے مطابق ونڈوز 10 کے بعد ایک نیا ورژن پیش کرنے کی بجائے اسی ورژن کو باقاعدگی سے بہتر بنایا جاتا رہے گا۔ ایک بیان میں مائیکروسافٹ کا کہنا ہے کہ ’ونڈوز کو بطور ایک خدمت کے پیش کیا جائے گا جس میں نت نئی چیزیں ہوں گی اور جیسے اس کے اپ ڈیٹ جاری کیے جاتے ہیں ویسے ہی اپ ڈیٹس ہوں گے۔‘ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ’فرم کو توقع ہے کہ ونڈوز کا مستقبل طویل عرصے پر محیط ہوگا۔‘ کمپنی کے مطابق ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ ونڈوز 10 کے بعد سے اس آپریٹنگ سسٹم کو کیا پکارا جائے گا۔ مائیکروسافٹ پر نگاہ رکھنے والی تجزیے کی کمپنی’گارٹنر‘ کے تحقیق پر مامور نائب صدر سٹیو کلین ہینس کے مطابق ’ونڈوز 11 نہیں آئے گی۔‘ انھوں نے کہا کہ مائیکروسافٹ نے ماضی میں ونڈوز نائن کے نام سے ارادتاً گریز کیا تھا اور ماضی کی ڈگر سے ہٹنے کے لیے ونڈوز 10 کا نام استعمال کیا تھا۔ تاہم انھوں نے کہا کہ ایسا کرنے سے مائیکروسافٹ اور اس کے صارفین کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہوئیں۔ ’ہر تیسرے سال مائیکروسافٹ کو سوچنا پڑتا تھا اور اپنا اگلا اہم آپریٹنگ سسٹم تیار کرنا پڑتا تھا۔ ڈیویلپر ایک جگہ بند ہو جاتے اور تین برس پہلے صارفین نے جو چاہا ہوتا تھا ویسا ہی کوئی ورژن تیار ہو کر سامنے آ جاتا۔‘ انھوں نے کہا کہ مائیکروسافٹ کو لوگوں کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ انھیں اس نئے ورژن کی ضرورت ہے بہت محنت کے ساتھ مارکٹینگ کرنی پڑتی اور بہت زیادہ پیسہ لگانا پڑتا۔ انھیں یہ بھی کہنا پڑتا کہ اس سے بہتر چیز پہلے کبھی تیار نہیں ہوئی۔ سٹیو کلین ہینس نے بتایا کہ مائیکروسافٹ کو ونڈوز کے وجہ سے ملنے والی آمدن کا بہت زیادہ حصہ نئے ذاتی کمپیوٹروں (پی سیز) کی فروخت سے حاصل ہوتا تھا اور کمپنی اب جو تبدیلی لا رہی ہے اس سے آمدن متاثر نہیں ہوگی۔ ’مجموعی طور پر یہ ایک مثبت قدم ہے لیکن اس میں کچھ خطرات بھی ہیں۔‘ بی بی سی بات کرتے ہوئے سٹیو کلین ہینس کا کہنا تھا کہ ’مائیکروسافٹ کو اپ ڈیٹس جاری رکھنے اور نئے نمایاں اوصاف بنانے کے لیے بہت محنت کرنا ہو گی۔ اور یہ سوال باقی رہے گا کہ تجارتی صارف کس طرح تبدیلی قبول کریں گے اور مائیکروسافٹ نئی تبدیلی کے لیے مدد کس طرح فراہم کرے گی۔‘ تاہم انھوں یہ بھی کہا کہ ’اس کا مطلب یہ نہیں کہ ونڈوز اب رک گئی ہے اور آئندہ کبھی آگے نہیں جائے گی۔ بلکہ اس کے برعکس ہوگا اور ونڈوز کے اپ ڈیٹ اب جلدی جلدی جاری کیے جائیں گے۔‘ دنیا بھر میں پرسنل کمپیوٹرز میں استعمال ہونے والے آپریٹنگ نظام ونڈوز کا آخری ورژن ونڈوز 10 ہوگا۔ text: کچھ اہکاروں کی باضابطہ سرزنش کی گئی ہے جبکہ دیگر کو ڈیوٹی سے معطل کر دیا گیا ہے گذشتہ سال ہونے والے اس حملے میں 42 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ جمعرات کو پینٹاگون نے تسلیم کیا کہ ہسپتال کو غلطی سے نشانہ بنایا گیا تھا تاہم کوئی اہکار مجرمانہ مقدمے کا سامنا نہیں کرے گا۔ امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ اہلکاروں پر انتظامی نوعیت کی پابندیاں عائد کی گئی ہیں تاہم ان کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ کچھ اہکاروں کی باضابطہ سرزنش کی گئی ہے جبکہ دیگر کو ڈیوٹی سے معطل کر دیا گیا ہے۔ افسروں اور اہکاروں کو انضباطی کارروائی کا سامنا ہے تاہم کسی جنرل کو سزا نہیں دی گئی ہے۔ دوسری جانب امدادی طبی تنظیم میڈیسنز سانز فرنٹیئرز کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ پیٹاگون کی جانب سے تفصیلات سے عوام کو آگاہ کرنے تک اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرے گا۔ یہ انضباطی کارروائی پینٹاگون کی جانب سے حملے کی تحقیقات کے بعد کی گئی ہے۔ ان تحقیقات کے بارے میں توقع ظاہر کی گئی ہے کہ آئندہ ہفتے تک ایک رپورٹ منظر عام پر لائی جائے گی۔ افغان حکام کا کہنا تھا کہ اس عمارت پر طالبان جنگجؤں نے قبضہ کر لیا تھا تاہم اس حوالے سے کوئی شواہد نہیں ملے واضح رہے کہ گذشتہ سال اکتوبر میں ایک امریکی گن شپ نے افغانستان کے شہر قندوز میں قائم ایک ہسپتال پر گولہ باری کی تھی۔ اس وقت طالبان جنگجوؤں نے سنہ 2001 کے بعد اس شہر پر دوبارہ قبضہ کیا تھا۔ افغان حکام کا کہنا تھا کہ اس عمارت پر طالبان جنگجؤں نے قبضہ کر لیا تھا تاہم اس حوالے سے کوئی شواہد نہیں ملے۔ ایم ایس ایف نے اپنے ہسپتال پر حملے کو جنگی جرم قرار دیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ طبی عملے کو جنگجوؤں کا علاج کرنے کی سزا نہیں دی جا سکتی اور اس بات پر اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے کہ جنگ زدہ علاقوں میں موجود ہسپتالوں پر حملے نہ کیے جائیں اور جنگجوؤں کو بلا امتیاز علاج فراہم کیا جائے۔ اس وقت افغانستان میں امریکی فوج کے جنرل جان کیمبل نے کہا تھا کہ ہسپتال پر بمباری ایک ’غلطی‘ تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کبھی بھی دانستہ طور پر ایک محفوظ ہسپتال کو نشانہ نہیں بناتی۔ ہسپتال پر بمباری پر امریکی صدر براک اوباما نے بھی معذرت طلب کی تھی۔ امریکی فوج نے افغانستان کے شہر قندوز میں فلاحی تنظیم میڈیسنز سانز فرنٹیئرز کے ہسپتال پر فضائی حملے میں ملوث ایک درجن سے زائد اہلکاروں کے خلاف انضباطی کارروائی کی ہے۔ text: منگل کے روز اسلام آباد میں انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان نے مختلف شدت پسند گروہوں کا سامنا کیا اور امن بحال کرنے کی بھاری قیمت ادا کی ہے اور یہ گروہ اب بھی معاملات کو خراب کرنے کو کوششوں میں مصروف ہیں۔ ’ہمیں ایسے عناصر/گروپس کے خلاف ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔‘ عبد اللہ عبد اللہ کا کہنا تھا کہ افغانستان کسی بھی شدت پسند تنظیم کو کسی دوسری قوم یا ملک کے لیے خطرات پیدا کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کا آغاز ایک اہم موقع ہے، یہ وہ موقع ہے جس کی مدد سے ہم جنگ کو قصہ پارینہ بنا سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ افغان حکومت نے اپنی مذاکراتی ٹیم کو صبر کرنے اور سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار رہنے کو کہا ہے۔ یہ بھی پڑھیے پاک-افغان سفارتی تعلقات میں اتنا تناؤ کیوں؟ ’خراب تعلقات کے ذمہ دار پاکستان اور افغانستان دونوں ہیں‘ افغانستان میں پاکستان کے کردار کا اعتراف کیا جانا چاہیے: چین عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کو مشترکہ خطرات اور چیلنجوں کا سامنا ہے، جن میں دہشت گردی، انتہا پسندی، عدم رواداری اور حال ہی میں کوڈ 19 کی وبا میں شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے مابین سکیورٹی، سیاسی اور معاشی تعاون کی بہت بڑی صلاحیت موجود ہے۔ مصالحتی کونسل کے سربراہ نے پُرامن اور خوشحال بقائے باہمی کے لیے باہمی رابطوں پر بھی زور دیا ہے۔ عبداللہ عبداللہ نے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے پر پاکستان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان امن عمل میں پاکستان کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان کی خودمختاری، آزادی اور سرحدی سالمیت کا احترام کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے افغانستان میں کوئی ’فیورٹس‘ (پسندیدہ گروہ یا شخصیات) نہیں ہیں اور اسی لیے پاکستان کبھی بھی افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرے گا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے عوام کی مرضی کو قبول کرے گا کیونکہ پاکستان کو یقین ہے کہ صرف افغان عوام اپنا مستقبل طے کر سکتے ہیں اور ان پر زور زبردستی کسی کو مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پُرامن، خوشحال اور مستحکم افغانستان کے لیے تمام فریقوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کا آغاز افغانستان میں امن کے لیے ایک نادر اور تاریخی موقع ہے اور اسے افغان قیادت کو اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ وزیر خارجہ نے مشترکہ مستقبل کی تعمیر کے لیے دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں زیادہ سے زیادہ تعاون کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں برسوں سے جاری مسائل کا کوئی فوجی حل نہیں نکلا اور اب سب متفق ہیں کہ افغان بحران کا واحد حل بات چیت ہے۔ ان کے بقول اگرچہ بہت سے افغان امن چاہتے ہیں لیکن اس عمل میں تخریب کار عناصر بھی موجود ہیں: ’ہمیں ایسے تخریب کاروں سے آگاہ رہنا پڑے گا۔ ایسے عناصر جنگ سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے مفادات افغان عوام کے مفادات سے مختلف ہو سکتے ہیں۔‘ افغانستان کی اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے افغانستان میں امن پاکستان میں موجود استحکام کو مزید تقویت فراہم کرے گا لیکن اگر افغانستان میں تشدد کم نہ ہوا تو افغان امن عمل میں پیشرفت کو یقینی بنانا مشکل ہو گا۔ text: لاہور پولیس کے ایک سے زائد افسران نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ چھاپے راولپنڈی میں صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملوں کی تفتیش کے سلسلہ کی ایک کڑی ہیں اور ان چھاپوں کی ہدایت انہیں اسلام آباد سے ملی تھی۔ یہ چھاپے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب لاہور کے علاقہ سبزہ زار میں واقع الحافظ چوک میں ساتھ ساتھ قائم مدرسہ باقیات الشہداء، خانقاہ ومسجد سید احمد شہید اور خواتین کے ہاسٹل دارالعلوم مدینہ ابن مسلمات پر مارے گئے۔ اس چھاپے میں ایس ایس آپریشن لاہور اور ایس ایس پی انوسٹی گیشن لاہور کے علاوہ خفیہ تحقیقاتی ایجنسیوں کے افسران اور پولیس کی بھاری نفری بھی شامل تھی ۔ مذکورہ اداروں کے ایک منتظم محب النبی نے کہا کہ ’ان مدارس میں جہاد کشمیر اور جہاد افغانستان میں شہید ہونے والوں کے بچوں اور اہلخانہ کو پناہ اور ہر ممکن تعلیمی علاج معالجہ کی اور دیگر امداد فراہم کی جاتی ہے۔‘ مدرسہ باقیات الشہداء میں تیس کے قریب طالب علم مقیم ہیں۔ پاکستان میں کشمیر اور افغانستان میں ہونے والی جھڑپوں کو ایک مقدس لڑائی سمجھا جاتا ہے اور ایک طبقہ اسے جہاد قرار دیتا ہے اور ان جھڑپوں میں جاں بحق ہونے والوں کو شہید کہا جاتا ہے۔ محب النبی نے بتایا کہ پولیس نے ان مدارس کے ایک پچاسی سالہ منتظم نفیس الحسینی کو کریم پارک راوی روڈ پر ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کے گرفتار کیا تھا لیکن انہیں ان کی پیرانہ سالی کے پیش نظر تھانہ سبزہ زار میں مختصر تفتیش کے بعد چھوڑ دیا ۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس افسران نفیس الحسینی کو ایک شخص کی تصویر دکھا کر اور اس کا نام احسان بتا کر اس کے بارے میں پوچھتے رہے۔ پولیس افسران نے انہیں بتایا تھا کہ یہ شخص بہاولپور کا رہائشی ہے۔ تاہم نفیس الحسینی نے اس کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا ۔ لاہور پولیس کے ایک افسر نے اس بات کی تصدیق کی کہ انہیں مطلوبہ مبینہ شدت پسند کی گرفتاری میں ناکامی ہوئی ہے تاہم زیر حراست افراد سے اس کے بارے میں پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔ مدارس کی انتظامیہ کے مطابق ان میں مدرسہ کے استاد مولانا محمد اسمعیل، نگران محمد یعقوب، دارالعلوم مدینہ ابن مسلمات کے ناظم حبیب احمد، ملتان روڈ پر واقع ایک دوسرے مدرسہ کے باورچی اعجاز احمد، ایک محلہ دار عبدالرزاق، مسجد کے امام خدابخش اور مسجد کے خادم فیاض بھی شامل ہیں ۔ محب النبی نے بتایا کہ پولیس نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ ان افراد کو چھوڑ دیا جاۓ گا لیکن چوبیس گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی تمام افراد تھانہ سبزہ زار میں ہیں ۔ وفاقی وزیر داخلہ فیصل صالح حیات نے بی بی سی ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملوں کے ملزموں کا پتہ لگایا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ان کی حکومت کی مہم چودہ ماہ سے جاری ہے اور چھاپے اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہیں۔انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ چھاپے خفیہ اطلاعات پر مارے جاتے ہیں اس لیے کبھی کامیابی حاصل ہوتی ہے کبھی اس سطح کی کامیابی نہیں ہو پاتی۔ ان کا کہنا تھا کہ جو شخص بھی گرفتار ہوتا ہے وہ اگر واقعی ملزم ہو بھی تو بھی وہ فوری طور پر سب کچھ نہیں اگلتا۔ اس لیے ان چھاپوں کے بارے میں فوری طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لاہور میں پولیس کی بھاری نفری نے دو دینی مدارس پر چھاپہ مار کر دس افراد کو حراست میں لے لیا ہے اور ان سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔ تاہم اطلاعات کے مطابق مطلوبہ ملزم موقعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ text: ایسی ہی شکایت بالی وڈ کے سابق ہیرو شتروگھن سنہا نے بھی کی جنھوں نے اپنی ٹویٹ میں امیتابھ بچن، شاہ رخ خان اور عامر خان کو ٹیگ کرتے ہوئے کہا کہ 'پدما وتی' کا تنازع خوفناک ہوتا جا رہا ہے لیکن وزیراعظم نریندر مودی سمیت بالی وڈ کے بڑے سٹارز خاموش ہیں جن میں امیتابھ بچن، شاہ رخ اور عامر شامل ہیں۔ شترو جی کا غصہ اپنی جگہ لیکن وہ امیتابھ جی کو کیوں پریشان کر رہے ہیں؟ بالی وڈ کی مزید خبریں علاؤالدین خلجی کی پریم کہانی! ’پدماوتی‘ کی جان اور عزت ایک بار پھر خطرے میں کیا رانی پدماوتی کا کردار حقیقی ہے 'انڈین فلم انڈسٹری ہے نشانے پر' کیا ماضی میں کسی بھی تنازع میں انھوں نے اپنی رائے دینے کی زحمت کی ہے؟ رہی بات شاہ رخ اور عامر کی تو انھیں اپنی رائے دیکر کیا پاکستان کا ٹکٹ کٹوانا ہے؟ گذشتہ برس 'عدم برداشت' کے موضوع پر بول کر وہ پاکستان جاتے جاتے بچ گئے اور رائے دینے کے بعد ان کی فلموں کو ریلیز کروا کر دیکھیں لیکن آپ اس بات کو نہیں سمجھیں گے کیوں کہ آپ کی کونسی کوئی فلم ریلیز ہونی ہے۔ تو ان بیچارے خانوں کو بخش دیں۔ سینسر بورڈ کے سابق چیئرمین اور موجودہ فلسماز پہلاج نہلانی کی پہلی فلم 'جولی ٹو' ریلیز سے پہلے خبروں میں ہے۔ سینسر بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے پہلاج دوسرے فلمسازوں کو شرم دلوانے میں پیش پیش رہتے تھے۔ ان کی فلم 'جولی ٹو' کا ٹریلر دیکھ کر ہی اندازہ ہوتا ہے کہ پہلاج کس طرح کی سنسنی پھیلانا چاہتے ہیں؟ یہ فلم خبروں میں ہے کیونکہ ریلیز کے وقت یہ شوشا چھوڑا گیا کہ یہ فلم اداکارہ نغمہ کی زندگی پر بنائی گئی ہے، حالانکہ پہلاج جی نے نغمہ کا نام نہیں لیا۔ بالی وڈ کے بارے میں مزید پڑھیے 'پدماوتی میں اصل ناانصافی خلجی کے ساتھ ہوئی' 'دپیکا کی ناک اور کرنی سینا کی عزت' کیا بالی وڈ بدل رہا ہے؟ ’بالی وڈ کے فنکار بے خوف نہیں ہیں‘ ان کا کہنا تھا کہ فلم ایک سچی کہانی پر بنائی گئی ہے۔ جب نغمہ سے اس بارے میں سوال کیے گئے تو ان کا کہنا تھا کہ ویسے تو انھوں نے ابھی فلم دیکھی نہیں، ہاں اس بارے میں سنا ضرور ہے۔ اب چونکہ اس وقت بالی وڈ میں ہر کوئی پدماوتی کی بات کر رہا ہے ایسے میں سستی شہرت کے لیے شاید ان کا نام کا استعمال کیا جا رہا ہو۔ 41 سال کے وویک اوبرائے آخر کار اپنے کریئر کا گراف نیچے جانے پر بول ہی پڑے۔ فلم 'کمپنی'، 'اوم کارہ' اور 'ساتھیا' جیسی فلموں سے بالی وڈ میں پہچان بنانے والے وویک اوبرائے کا کہنا تھا زندگی میں اتار چڑھاؤ انھیں زیادہ متاثر نہیں کرتے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ وویک کا کہنا تھا کہ چاہے آپ جو بھی ہوں آخر میں آپ کی صلاحیتیں ہی آپ کو کامیابی دلواتی ہیں۔ وویک کے مطابق انڈسٹری میں کئی بڑے بڑے سٹارز کے بچے نا کام رہے۔ پتہ نہیں وویک کا اشارہ کس کی جانب تھا، ابھشیک بچن نے تو اچھی خاصی فلمیں کی ہیں۔ انڈین فلم 'پدما وتی' پر تنازع جاری ہے۔ اگرچہ بالی وڈ کی کچھ شخصیات نے سنجے لیلا بھنسالی کے حق میں بات تو کی تاہم بڑے فنکار ابھی تک کھل کر اس بارے میں بولنے سے کترا رہے ہیں۔ text: اطلاعات کے مطابق لیبیا کی پولیس نے سترہ سالہ محمد یوسری یاسین کو ایک گھر سے گرفتار کیا جو ایک مصری نے کرائے پر لے رکھا تھا۔لیبیا پولیس نے محمد یوسری یاسین کو مصری پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ گرفتار ہونے والے محمد یوسری یاسین کا بھائی احاب اس وقت قاہرہ میوزیم کے سامنے ہلاک ہو گیا تھا جب پولیس نے اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی۔ مصری پولیس کے مطابق احاب نے دیسی ساخت کا ایک گرینیڈ اپنی جیب میں چھپا رکھا تھا جو اس نے پولیس کی گرفتار سے بچنے کے لیے پھاڑ دیا جس میں نہ صرف وہ خود مارا گیا بلکہ سات دیگر افراد بھی زخمی ہوئے تھے جن میں غیر ملکی سیاح بھی شامل ہیں۔ تھوڑی دیر بعد دو خواتین نے، جن میں ایک احاب کی بہن اور دوسری اس کی منگیتر تھی ، اسرائیلی سیاحوں سے بھری ہوئی ایک بس پر گولیاں چلا دیں تھیں ۔ بس پر فائرنگ کرنے کے بعد ایک خاتون نے دوسری کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے بعد خود کشی کر لی۔ مصری اخباروں کے مطابق محمد یوسری یاسین نے حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کو شامل تفتیش کرنا چاہتے ہیں۔ لیبیا نے مصر میں پچھلے ہفتے سیاحوں پر حملہ کرنے والے مرد اور عورت کے بھائی کو مصر کے حوالے کر دیا ہے۔ text: وہ بدھ کو لاہور کے ایوانِ اقبال میں پاکستان تحریکِ انصاف سے وابستہ ڈاکٹروں کی تنظیم ’انصاف ڈاکٹرز فورم‘ کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے اس موقع پر کورونا کی دوسری لہر، خیبر پختونخوا کے ہسپتالوں میں اصلاحات، صحت کارڈز، سنہ 1970 میں ادارے قومیانے کی پالیسی اور اپوزیشن کی احتجاجی تحریک سمیت متعدد معاملات پر اظہارِ خیال کیا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل انصاف لائیرز فورم، تحریک انصاف کا شعبہ وکلا، سے خطاب کرنے پر سپریم کورٹ نے وزیر اعظم عمران خان کو نوٹس جاری کر رکھا ہے۔ پاکستان میں صحت اور تعلیم کے زبوں حال ڈھانچے اور اصلاحات پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ابھی 26 مہینے ہوئے ہیں اور لوگ کہتے ہیں عمران صاحب کدھر گیا نیا پاکستان۔ میں انھیں سمجھاتا ہوں کہ نیا پاکستان کوئی سوئچ نہیں ہے، حکومت آئی، سوئچ آن ہوا اور نیا پاکستان بن گیا۔ پریوں کی کہانی میں ایسا ہوتا ہے لیکن اصل زندگی میں اصلاحات ایک جدوجہد کا نام ہے، ایک قوم جدوجہد کرتی ہے، تبدیلی کے لیے پوری قوم مل کر جدوجہد کرتی ہے تب تبدیلی آتی ہے۔‘ یہ بھی پڑھیے سپریم کورٹ: انصاف لائرز فورم کی تقریب میں شرکت پر وزیراعظم کو نوٹس انصاف کارڈ کے لیے مختص 10 لاکھ روپے کیسے اور کہاں خرچ ہو سکیں گے؟ پاکستان میں حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کا نظام کتنا مؤثر عمران خان کا کہنا تھا کہ سرکاری اداروں میں موجود مافیاز تبدیلی کی مخالفت کرتے ہیں۔ انھوں نے اداروں میں موجود ’چھوٹے مافیاز‘ سے متعلق اپنی بات کو حزبِ اختلاف کے احتجاج سے منسلک کرتے ہوئے کہا کہ سارے ’جیب کترے‘ ایک ہی سٹیچ پر کھڑے ہو کر شور مچاتے ہیں کیونکہ انھیں نظر آ رہا ہے کہ اب ان کا احتساب ہونا ہے اور انھیں جیلوں میں جانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ پاکستان کے لیے فیصلہ کُن وقت ہے۔‘ عمران خان نے کہا کہ ’یہ سارے جنھوں نے 30، 30 سال سے باریاں لی ہیں، یہ اسی طرح اکٹھے ہیں جیسے ہسپتالوں کا مافیا اکھٹا ہوتا ہے، جو تبدیلی نہیں آنے دینا چاہتا۔‘ عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے طبی عملے نے نہایت قابلِ فخر انداز میں کورونا کی پہلی لہر کا مقابلہ کیا لیکن اب ملک میں دوسری لہر کے اشارے مل رہے ہیں۔ ’ایک وقت پر جون کے وسط میں جب ہسپتالوں پر دباؤ تھا تو بڑا فخر ہوا جس طرح ڈاکٹروں نرسوں اور طبی عملے نے اس مشکل کا وقت کا سامنا کیا۔‘ انھوں نے کہا کہ ابھی بھی خدشہ ہے کہ کورونا کی دوسری لہر آ سکتی ہے اور تھوڑے تھوڑے اشارے ہیں کہ کیسز تھوڑے بڑھ رہے ہیں۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’مجھے زیادہ خوف ہمارے اُن شہروں میں ہے جہاں آلودگی اور سموگ زیادہ ہے، اگلے دو مہینے اگر ہم نے یہ صحیح طریقے سے گزار لیے تو زیادہ خطرہ نہیں رہے گا لیکن لاہور میں خاص طور پر اب سے لے کر نومبر کے اختتام تک جب سموگ آئی ہوئی ہوتی ہے تو احتیاط کرنی پڑے گی۔‘ عمران خان نے کہا کہ کراچی، فیصل آباد، گجرانوالہ اور پشاور میں بھی زیادہ خطرہ ہے اور پاکستان کے عوام سے درخواست کی کہ وہ اگلے دو ماہ ’دیکھ کر‘ گزاریں۔ ادارے قومیانے کی پالیسی پر تنقید وزیرِ اعظم عمران نے 1970 کی دہائی میں اُس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی ادارے قومیانے کی پالیسی کو اُن کا نام لیے بغیر تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا کہ اداروں کو قومیانے سے سرکار سکولوں اور ہسپتالوں کا معیار نیچے گیا جس کے بعد نجی سکولوں اور ہسپتالوں نے اُن کی جگہ لینی شروع کر دی۔ ’اس کی وجہ یہ تھی کہ سزا اور جزا ختم ہو گئی، جس جگہ سزا اور جزا ختم ہو جائے وہاں سسٹم تنزلی کا شکار ہوجاتا ہے، وہ سسٹم کبھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔‘ انھوں نے کہا کہ جب یہ سسٹم سرکاری اداروں میں آیا تو سب کی تنخواہیں بڑھ جاتیں اور پروموشن ہو جاتیں یہ دیکھے بغیر کہ کون کام کر رہا ہے اور کون نہیں، جس سے ہسپتالوں اور سکولوں کے معیار میں تنزلی آنی شروع ہوئی۔ ہمیں اب ان تمام اداروں کو ٹھیک کرنا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ وہ اپنے لوگوں کو ریاستِ مدینہ کے بارے میں پڑھنے کے لیے کہتے ہیں کیونکہ یہ ایک بہت ہی منفرد واقعہ ہے، ایسی چیز دنیا کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی۔ ادارہ جاتی اصلاحات وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ ایک ادارہ جو خراب ہو جائے، اس کو ٹھیک کرنا نیا ادارہ کھڑا کرنے کی بانسبت زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شوکت خانم کینسر ہسپتال پونے تین سال کی مدت میں بن گیا تھا اور ایسا کرنا آسان تھا مگر جب ان کی حکومت نے خیبر پختونخوا کے پرانے سرکاری ہسپتالوں میں اصلاحات لانے کی کوشش کی تو انھیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال، خیبر میڈیکل کالج وغیرہ کے حوالے سے بتایا کہ وہاں اصلاحات کے لیے انھیں عدالتوں میں جانا پڑا کیونکہ جب کسی شخص کو کام نہ کرنے کی وجہ سے نکالا جاتا تو وہ ہائی کورٹ سے حکمِ امتناع لے لیتے۔‘ عمران خان نے میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوٹس اصلاحات کے بارے میں کہا کہ ان کا مطلب ہسپتالوں کی نجکاری نہیں بلکہ انھیں خود مختار بنانا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے ’کہ وہ ہسپتال میرٹ پر چلے، وہاں میرٹ پر سیلیکشن ہو، سزا جزا ہو، جو کام کرے وہ اوپر آئے اور جو کام نہیں کرتا وہ نکالا جائے۔‘ عمران خان نے ہسپتالوں کے بارے میں کہا کہ وہاں چھوٹے چھوٹے مافیا بیٹھے ہیں جو تبدیلی نہیں آنے دینا چاہتے کیونکہ وہ اس کرپٹ سسٹم سے فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ ’ان کی ہائی کورٹ کے ججز تک پہنچ تھی، ایک ہی وکیل ہوتا تھا وہ ان کی نمائندگی کرتا تھا، وہ جا کر حکمِ امتناع لے لیتے تھے، تو ہر جگہ رکاوٹیں ہوئیں لیکن تبدیلی آ گئی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ آج آپ حیات آباد اور خیبر میڈیکل کالج میں، لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں دیکھیں تو نئی عمارات اعلیٰ معیار کی ہیں، اسی طرح سارے پاکستان کے سارے سرکاری ہسپتالوں میں اصلاحات لانی ہیں۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نیا پاکستان کوئی سوئچ نہیں ہے کہ حکومت آئی، سوئچ آن ہوا اور نیا پاکستان بن گیا، بلکہ ادارہ جاتی اصلاحات ایک طویل جدوجہد کا نام ہے۔ text: ورلڈ فوڈ پروگرام یا خوراک کے عالمی پروگرام نے 38 ٹن امداد تقسیم کی ہے اور اس کے ساتھ ہی خبردار کیا ہے کہ ابھی بہت امداد پہنچنا باقی ہے۔ امدادی کاموں کو ایک بڑا دھچکا اس وقت لگا جب ریڈ کراس کی امداد سے بھری ہوئی کشتی اراوادی ڈیلٹا میں ڈوب گئی۔ سرکاری ٹی وی نے طوفان میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 28458 بتائی ہے جبکہ 33416 افراد لاپتہ ہیں۔ تاہم امدادای اداروں کا کہنا ہے کہ ایک لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ تعداد پندرہ لاکھ تک جا سکتی ہے۔ آکسفیم کے مطابق ابھی تک اس طوفان میں ہلاک ہو نے والوں کی تعداد تقریباًایک لاکھ ہے لیکن اگر صاف پانی اور صحتِ عامہ کی سہولیات فراہم نہ کی گئیں تو یہ تعداد پندرہ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ عالمی بچاؤ کمیٹی کا کہنا ہے کہ اگر بڑے پیمانے پر امداد مہیا نہ کی گئی تو برما میں ایک بڑا سانحہ ہو سکتا ہے۔ ریڈ کراس اور دیگر امدادی ایجنسیوں کے مطابق ہزاروں لوگ بے گھر ہیں اور انتہائی خراب حالات میں سکولوں ہسپتالوں اور بڑی بڑی عمارتوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق طوفان کے آٹھ دن گزرنے کے باوجود متاثرہ لوگوں میں سے صرف ایک تہائی تک ہی امداد پہنچ سکی ہے۔ آکسفیم کی ایسٹ ایشیا ڈائریکٹر سارہ آئر لینڈ کا کہنا ہے کہ برما میں بڑے پیمانے پر تباہی کا خطرہ ہے۔ اقوامِ متحدہ نے 96 ملین پاؤنڈز کی امداد کی اپیل کی ہے۔ادارے کا کہنا ہے کہ برما کے شدید متاثرہ علاقوں میں فوری طور پر خوراک ادویات اور خیموں کی ضرورت ہے۔ تین مئی کو آنے والے طوفان کے بعد سے ہی ملک میں پہلے سے موجود امدادی ایجنسیوں نے مقامی ذرائع سے سامان خرید کر کام کرنا شروع کر دیا تھا لیکن ان کا کہنا ہے کہ اگر ملک میں مزید امداد جلدی ہی نہ پہنچی تو موجودہ سپلائی ختم ہو جائے گی۔ برما کے آفت زدہ علاقوں میں امداد پہنچنا شروع ہو گئی ہے جو بظاہر اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومت نے غیر ممالک کی امداد پر لگائی گئی پابندیوں میں کمی کی ہے اور اب امدادی سامان قدرے تیزی سے ہوائی اڈوں سے نکل کر تقسیم ہونا شروع ہو گیا ہے۔ text: ادھر جنوبی وزیرستان میں حکام کا کہنا ہے کہ نامعلوم افراد کی فائرنگ سے دو افراد ہلاک جبکہ تین زخمی ہوئے ہیں۔ شمالی وزیرستان کے قبائل کا کہنا ہے کہ یہ اقدام گزشتہ دنوں حکومت کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کا نتیجہ ہے۔ اس نئے انتظام کے تحت درپہ خیل، بورا خیل اور میران اقوام پر مشتمل تقریباً 80 مسلح قبائلی بازار میں جگہ جگہ تعینات ہوں گے تاکہ امن عامہ برقرار رکھا جا سکے۔ اطلاعات کے مطابق اس سلسلے میں رزمک اڈے پر ایک دفتر بھی قائم کیا گیا ہے۔ ان قبائلیوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ اقدام صرف اغوا، قتل اور ڈکیتی کی وارداتوں کو روکنے کے لیئے اٹھایا گیا ہے۔ اس فیصلے سے آگاہ کرنے کی غرض سے شہر میں آج پمفلٹ بھی تقسیم کیئے گئے اور دیواروں پر پوسٹر بھی لگائے گئے۔ ’اعلان مسرت‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے اس پیغام میں لوگوں سے کہا گیا ہے کہ علاقے میں کسی بھی نقاب پوش مشتبہ شخص کی اطلاع انہیں دی جائے اور اگر اس کا وقت نہ ہو تو وہ خود بھی ان کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں۔ اشتہار میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ نقاب پوش مقامی طالبان نہیں بلکہ چور یا ڈاکو ہوسکتے ہیں۔ اس سے قبل جنوبی وزیرستان میں بھی مقامی قبائل نےاسی طرح کے اقدامات کیئے تھے ۔ تاہم آج کے اس تازہ فیصلے سے واضح نہیں کہ حکومت کی عمل داری کہاں تک برقرار رہے گی۔ پانچ ستمبر کو مقامی طالبان کے ساتھ طے پانے والے معاہدے میں واضع طور پر کہا گیا ہے کہ علاقے میں عمل داری حکومت کی ہوگی۔ یہ واضح نہیں کہ مقامی قبائل نے یہ اقدام حکومت کی رضامندی سے لیا ہے یا نہیں۔ مقامی انتظامیہ سے اس سلسلے میں رابطے کی کوشش بارآور ثابت نہیں ہوئی۔ ادھر جنوبی وزیرستان میں آج سہہ پہر نامعلوم افراد نے تعاقب کر کے ایک گاڑی میں جا رہے افراد پر تیارزہ کے مقام پر گولی چلا کر دو افراد کو ہلاک جبکہ تین کو زخمی کر دیا ہے۔ ہلاک ہونے والے افراد شکئی کے ملک خانان کے رشتہ دار بتائے جاتے ہیں۔ ملک خانان اور ان لوگوں نے گزشتہ دنوں علاقے میں مبینہ طور پر موجود ازبک شدت پسندوں کو علاقہ بدر کرنے کی ایک ناکام مہم چلائی تھی۔ ملک خانان بھی اسی طرح کے ایک حملے میں زخمی ہوچکے ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں مسلح قبائلیوں نے جن میں مقامی طالبان بھی شامل ہیں امن عامہ برقرار رکھنے کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ text: وزارت داخلہ نے اس ضمن میں ملزم کی تصویر کی شناحت کرنے والے کو پانچ لاکھ روپے جبکہ تحقیقات میں مدد کرنے والے کے لیے بیس لاکھ روپے کا انعام مقرر کیا ہے۔ جمعہ کے روز بری امام کے مزار کے پانچ روزہ سالانہ عرس کی آخری تقریبات کے موقع پر خود کش بم حملے میں کم از کم اٹھارہ افراد ہلاک اور اسی سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔ سنیچر کے روز جہاں وزیر داخلہ آفتاب احمد شیرپاؤ نے اعلیٰ پولیس حکام کے ہمراہ جائے وقوعہ کا معائنہ کیا۔ تفتیش کاروں نے بھی دوبارہ اس جگہ کا دورہ کیا۔ وزیر داخلہ نے اس موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مزار پر ہونے والا دھماکہ خود کش حملہ تھا اور ایسے بم حملوں کو روکنا بہت مشکل ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایسے حملوں کو روکنے کی ہرممکن کوشش جاری رکھے گی۔ وزیر داخلہ نے بتایا کہ مبینہ خود کش بمبار کے جسم سے نمونے لے کر ڈی این اے کے لیے بھجوا دیئے ہیں۔ متعلقہ جگہ پر چاروں طرف سے رسیاں باندھ دی گئی ہیں اور وہاں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے جوتوں کا ڈھیر اب بھی موجود ہے۔ پولیس کے دستے بھی علاقے میں گشت کرتے دیکھے گئے لیکن مزار کے آس پاس حالات معمول کے مطابق ہیں۔ مقامی لوگوں میں اس واقعہ کے خلاف غم و غصہ تو اب بھی ہے لیکن کوئی کشیدگی نہیں پائی جاتی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والے بیشتر افراد کا تعلق مقامی آبادی سے نہیں بلکہ آس پاس کے شہروں سے ہے۔ امام بری کے مزار پر خود کش بم حملے میں کم سے کم اٹھارہ افراد ہلاک اور چھیاسی زخمی ہوگئے تھے۔ ابتدائی طور پر ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا اندازہ بیس لگایا گیا تھا۔ دھماکہ جمعہ کی صبح گیارہ بجے کے قریب اس وقت ہوا جب پانچ روزہ عرس کے آخری دن کی تقریبات جاری تھیں۔ پاکستان میں کسی صوفی بزرگ کی درگاہ پر خودکش بم حملے کا تو یہ پہلا واقعہ ہے۔ البتہ کچھ عرصہ قبل صوبہ بلوچستان کی ایک درگاہ پر ایک بم دھماکہ ہوا تھا جس کی وجہ سے کئی لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ بری امام کا مزار وزیراعظم ہاؤس اور قائداعظم یونیورسٹی کے درمیان واقع ہے اور سفارتی علاقہ، ایوانِ صدر، پارلیمنٹ کی عمارت اور سپریم کورٹ بھی اس جگہ سے بہت زیادہ دور نہیں ہیں۔ آئی جی پولیس کے مطابق فی الوقت یہ کہنا ہے کہ یہ فرقہ وارانہ دہشت گردی ہے یا نہیں، قبل از وقت ہوگا۔ صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم نے اس کو دہشت گردی کا عمل قرار دیتے ہوئے واقعہ پر افسوس ظاہر کیا۔ وزیراعظم نے ہلاک ہونے والے ہر فرد کے ورثا کے لیے ایک لاکھ روپے امداد کا اعلان بھی کیا ہے۔ حملے کے بعد درگاہ کی چار دیواری کے اندر صدر دروازے کی دائیں جانب لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ اسلام آباد میں واقع بری امام کے مزار پر ہونے والے بم دھماکے کے مشتبہ خود کش بمبار کی حکومت نے تصویر جاری کرتے ہوئے اس کی شناخت اور تحقیقات میں مدد کرنے والے کو انعام دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ text: امام مسجد کو اتوار کو اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا پیش امام پر بچی کو پھنسانے کے لیے شواہد کو تبدیل کرنے اور اس کے لیے قرآن کی توہین کرنے کے الزام ہے۔ اسلام آباد کے نواحی گاؤں میرا جعفر کی مقامی مسجد کے امام حافظ خالد جدون کو پولیس نے سنیچر کی شب گرفتار کیا تھا۔ اسی گاؤں کی میرا جعفر کی رہائشی رمشاء نامی چودہ سالہ عیسائی بچی کو توہینِ مذہب کے الزامات کا سامنا ہے۔ انہیں تقریباً دو ہفتے قبل مبینہ طور پر قرآنی آیات پر مبنی کاغذ جلانے پر حراست میں لیا گیا تھا۔ اسلام آباد میں ہمارے نامہ نگار ذوالفقار علی سے رمنا پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او قاسم نیازی نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حافظ خالد جدون کا نام توہینِ مذہب کی دفعہ دس سو پچانوے بی کے تحت درج اسی ایف آئی آر میں شامل کیا گیا ہے جس کے تحت رمشاء کو حراست میں لیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ حافظ خالد جدون پر رمشاء کی گرفتاری کو ممکن بنانے کے لیے شواہد تبدیل کرنے کا الزام بھی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ خالد جدون کی گرفتاری انہی کی مسجد کے نائب امام اور منتظم حافظ ملک محمد زبیر کی جانب سے ایک مقامی مجسٹریٹ کے سامنے سنیچر کو دیے گئے حلفیہ بیان کے نتیجے میں عمل میں آئی ہے۔پولیس کے مطابق محمد زبیر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مسجد کے پیش امام جدون نے راکھ سے بھرے ہوئے شاپنگ بیگ میں خود ہی قرآنی اوراق ڈال دیے تھے۔ گرفتاری کے بعد امام مسجد کو اتوار کو سخت سکیورٹی میں اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جس نے انہیں چودہ دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا۔ پیشی کے موقع پر خالد جدون نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک شخص کے بیان پرانھیں پھنسایا گیا ہے اور یہ کہ وہ بے گناہ ہیں۔ "یہ معاملہ پاکستان کے لیے ایک ’ٹیسٹ کیس‘ ہے اور اس میں کسی قسم کی ناانصافی نہیں ہونی چاہیے۔" آل پاکستان علماء کونسل مقدمے کے تفتیشی افسر منیر حسین جعفری نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس بیان حلفی کے بعد مزید دو افراد نے بھی بیانِات حلفی دیے ہیں جس میں اس الزام کو دہرایا گیا ہے۔ اس سے پہلے ایک حکومتی طبی بورڈ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ رمشاء کی عمر چودہ برس ہے تاہم ذہنی لحاظ سے وہ اس سے کم عمر ہیں۔ اس بچی کی گرفتاری کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔ اس ہفتے کے آغاز میں اسلام آباد کی مقامی عدالت نے رمشاء کے جوڈیشل ریمانڈ میں چودہ دن کی توسیع کر کے اُنہیں واپس جیل بھجوا دیا تھا۔ رمشاء کی ضمانت کی درخواست ایک مقامی سیشن کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا تھا کہ انٹیلیجنس بیورو اور اسلام آباد پولیس کے ادارے سپیشل برانچ کی جانب سے بھیجی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ رمشاء کی ضمانت ہونے کی صورت میں اُس کی اور اُس کے اہلخانہ کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔ اہلکار کے مطابق رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی تھی کہ رمشاء جیل میں زیادہ محفوظ ہیں اس لیے جب تک یہ معاملہ مکمل طور پر حل نہیں ہوجاتا اور لوگوں کے جذبات ٹھنڈے نہیں پڑتے اُس وقت تک ملزمہ کو جیل میں ہی رکھا جائے۔ دریں اثناء پاکستانی علماء اور مشائخ کے نمائندہ گروپ آل پاکستان علماء کونسل نے ملزمہ مسیحی لڑکی کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ معاملہ پاکستان کے لیے ایک ’ٹیسٹ کیس‘ ہے اور اس میں کسی قسم کی ناانصافی نہیں ہونی چاہیے۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں عدالت نے ایک عیسائی بچی پر قرآنی قاعدہ جلانے کا الزام لگانے والوں میں شامل مسجد کے پیش امام کو بھی توہین مذہب کے الزام میں جیل بھجوا دیا ہے۔ text: فٹبال کے عالمی کپ میں شرکت کے لئیے کوشش کرنے والی دیگر تمام بین الاقوامی ٹیموں کے مقابلے میں فلسطین کی قومی ٹیم کے مسائل ذرا مختلف قسم کے ہیں۔ مقبوضہ علاقوں، لبنان، کویت، چلی اور امریکہ کے رہائشی کھلاڑیوں پر مشتمل فلسطینی ٹیم کو’فیفا‘نے سنہ 1996 میں باقاعدہ طور پر تسلیم کیا اور یہ ٹیم اب تک کسی اہم بین لاقوامی ٹورنامنٹ کے لیئے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ’ورلڈ کپ انشااللہ‘ کی ہدایتکار مایا سنبار کا کہنا ہے کہ’ کھیل ہی وہ واحد شعبہ ہے جس میں سرکاری طور پر’فلسطین‘ کا نام لیا جاتا ہے۔ فٹبال اور اولمپکس میں ہی آپ فلسطین کا نام سنتے ہیں ورنہ اقوامِ متحدہ تک میں اسے ’فلسطینی اتھارٹی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے‘۔ مایا سنبار کے مطابق انہوں نے فلسطینی فٹبال ٹیم پر فلم بنانے کا فیصلہ ٹیم کی کہانی سنانے اور یہ بتانے کے لیئے کیا کہ اس ٹیم میں مختلف قسم کے فلسطینی کس طرح ایک ساتھ کھیلتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر ان کا خیال تھا کہ اس فلم میں سیاست کا عمل دخل نہیں ہوگا تاہم ایسا نہ ہو سکا۔ مایا کہتی ہیں کہ’ جب آپ فلسطین کے بارے میں کچھ بھی کرتے ہیں تو آپ سیاست سے دور نہیں رہ سکتے۔ یہ ہمیشہ کسی نہ کسی طریقے سے سیاست سے جڑاہوتا ہے‘۔ امریکی نژاد فلسطینی کھلاڑی مراد فرید کا کہنا ہے کہ’ صرف فٹبال کے کھیل پر توجہ دینا بہت مشکل ہے۔ آپ اس کی کوشش تو کرتے ہیں مگر آپ کے اردگرد ہمیشہ بہت کچھ ہو رہا ہوتا ہے‘۔ مراد جیسے کھلاڑیوں کو فلسطینی قومی ٹیم میں شمولیت سے یہ موقع ملا ہے کہ وہ اس ماحول میں رہ سکیں جس کے بارے میں انہوں نے اپنے والدین سے صرف سنا ہی تھا۔ فلم میں فلسطینی ٹیم کے کھلاڑیوں کو درپیش مشکلات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح غزہ سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کو اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ مصر میں تربیت حاصل کرنے کے لیئے ہفتوں رفاہ کی سرحد کھلنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ فلم میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایک قومی ٹیم کس طرح اپنا ’ذاتی میدان‘ نہ ہونے کی وجہ سے’ہوم میچ‘ قطر کے ایک خالی سٹیڈیم میں کھیلتی ہے۔ فلم میں کھلاڑیوں کی میدان سے باہر کی زندگی کے بارے میں بھی ذکر کیا گیا ہے اور ایک منظر میں غزہ سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی بتاتے ہیں کس طرح ان کے پانچ دوست اسرائیل کے فضائی حملے میں مارے گئے۔ لندن میں’ورلڈ کپ انشااللہ‘ کی نمائش کے ساتھ ہی اس فلم کا ’فیچرفلم ورژن‘ امریکی شہر نیوآرلینز میں’گول ڈریمز‘ کے نام سے دکھایا جائے گا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اسے مغربی کنارے میں اسرائیل کی جانب سے تعمیر کردہ حفاظتی دیوار پر بھی بذریعہ پروجیکٹر دکھایا جائے گا۔ فلسطینی فٹبال ٹیم کی تشکیل، تربیت اور عالمی کپ کے لئیے کوالیفائی کرنے کی ناکام کوششوں کے بارے میں بننے والی فلم ’ورلڈ کپ انشااللہ‘ کو آج یعنی جمعرات آٹھ جون کو لندن میں نمائش کے لیئے پیش کیا جا رہا ہے۔ text: خبر رساں ادارے اے ایف پی نے عرب ٹی وی اور فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے یہ جھڑپ جنوبی لبنان کے علاقے بنتِ جبیل میں ہوئی۔ دریں اثناء پبلک ورکس کے لبنانی وزیر کا کہنا ہے اسرائیلی بمباری سے زخمی ہونے والے ایک سو پچاس شدید زخمیوں کو اردن کے ایک فوجی طیارے کی مدد سے بدھ کو بیروت سے بھیجا جا رہا ہے۔ ادھر لبنان میں شدت پسند تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے خبردار کیا ہے کہ ان کی تنظیم حیفہ سے آگے اسرائیل کے مزید علاقوں کو نشانہ بنائے گی۔اپنی ایک نشری تقریر میں انہوں نے خبردار کیا کہ ان کی تنظیم انسانی مصائب کی بحرانی صورت حال کو آڑ بناتے ہوئے کی جانے والی کسی جنگ بندی کو قبول نہیں کرے گی۔ دوسری طرف اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے لبنانی گاؤں مارون الراس کے قریب لڑائی میں سینچر کو پکڑے جانے والے حزب اللہ کے ایک سینئر کمانڈر کو ہلاک کر دیا ہے۔ اسرائیل نے ہلاک ہونے والے شخص کی شاخت ابو جعفر بتائی ہے اور اس کے مطابق مرنے والا شخص سرحدی علاقے میں برسرپیکار حزب اللہ کے دستے کا اہم رکن تھا۔ منگل کو اقوام متحدہ نےتصدیق کی تھی کہ اسرائیلی فوج نے بنت جبیل کے قریب حزب اللہ کے زیر اثر علاقے پر قبضہ کر لیا ہے تاہم حسن نصر اللہ نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے۔ منگل کی رات بھی جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں۔ اسرائیل نے اس علاقے پر گزشتہ رات ساٹھ فضائی حملے کیئے ہیں۔ جوابی کارروائی کرتے ہوئے حزب اللہ نے بھی بدھ کو اسرائیلی سرحد ہر راکٹ حملے کیئے ہیں۔ بارہ جولائی سے جاری اس لڑائی میں اسرائیلی حملوں میں اب تک تقریبًاچار سو لبنانی شہری جبکہ حزب اللہ کی جانب سے حملوں میں بیالیس اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق لبنان میں حزب اللہ اور اسرائیلی فوجیوں کے مابین تازہ جھڑپوں میں نو اسرائیلی فوجی ہلاک ہو گئے ہیں۔ text: افغانستان کی قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ مذاکرات 'مشکل' ہوں گے چونکہ ابھی تک مذاکراتی ٹیموں، افغان حکومت کے نمائندوں اور طالبان کے درمیان متنازع اُمور پر کوئی تصفیہ نہیں ہو پایا ہے، اسی لیے امن مذاکرات کے اصل مرحلے کا آغاز بھی نہیں ہوا ہے۔ افغانستان کے ذرائع ابلاغ کے مطابق کوئی بڑی پیشرفت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ فریقین کے درمیان اس بات پر نظریاتی اختلافات ابھی تک ختم نہیں ہوئے ہیں کہ امن مذاکرات کن اصول و ضوابط کے تحت ہوں گے اور ان کا طریقہ کار کیا ہو گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ فریقین کے درمیان بات چیت کے مزید دور ہوں گے جن میں مذاکرات کے طریقہ کار کو حتمی شکل دی جائے گی، جس کے بعد فریقین مذاکرات کے مرکزی نکات یا ایجنڈا طے کریں گے۔ اب تک کیا ہوا؟ طویل انتظار کے بعد جب ستمبر کے دوسرے ہفتے میں بین الافغان بات چیت کا آغاز ہوا تو دونوں فریقوں نے امن مذاکرات کے اصل دور کی تفصیلات طے کرنے کے لیے دو، دو نمائندوں کا تقرر کیا تھا۔ یہ بھی پڑھیے قیدیوں کی رہائی میں تاخیر، افغان طالبان نے بات چیت معطل کر دی افغان امن مذاکرات کی کامیابی ’کابل اور دلی کو اور قریب لے آئے گی‘ ’نظر ملا کر بات نہ کریں‘، دوحا میں طالبان سے ملاقات اور رابطے کا تجربہ لیکن چھوٹی موٹی پیشرفت کے سوا، یہ نمائندے امن مذاکرات کے طریقہ کار کو حتمی شکل دینے میں ناکام رہے۔ تولو نیوز ایجنسی کے مطابق افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے رکن، محمد رسول طالب کا کہنا تھا کہ ’ہم نے مذاکرات کے اصول و ضوابط کے حوالے سے پیشرفت کی ہے، تاہم ابھی ایک، دو معاملات طے ہونا باقی ہیں۔‘ فریقین کے درمیان ایک اختلافی مسئلہ یہ تھا کہ طالبان چاہتے تھے کہ امن مذاکرات کی بنیاد فقہ حنفی پر ہونی چاہیے (فائل فوٹو) افغان ذرائع ابلاغ کی خبروں سے لگتا ہے کہ مذاکرات کے طریقہ کار کے حوالے سے جو 20 نکاتی ایجنڈا طے پایا تھا، دونوں فریق ان میں سے کچھ پر متفق ہو چکے ہیں۔ افغانستان کے اخبار ’اطلاعاتِ روز‘ کے مطابق ایک مشترکہ سیکریٹریٹ اور اختلافی مسائل پر بات چیت کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی کے قیام پر اتفاق کے علاوہ فریقین اس بات پر بھی رضامند ہو گئے ہیں کہ اگر امن مذاکرات میں کوئی رکاوٹ آ جاتی ہے تو بات چیت کو معطل بھی کیا جا سکتا ہے۔ پیشرفت میں سست روی کیوں؟ تولو نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ بین الافغان مذاکرات کی تیاری کے لیے جاری ابتدائی مرحلے میں تیزی سے پیشرفت نہ ہونے کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ اطلاعات کے مطابق طالبان کا اصرار تھا کہ افغاننستان میں جنگ کو ’جہاد‘ کے نام سے پکارا جائے، تاہم ممکن ہے کہ حال ہی میں دونوں فریق ملک میں جاری موجودہ لڑائی کو ایک بڑا ’مسئلہ‘ کہنے پر متفق ہو گئے ہوں۔ دونوں کے درمیان ایک اور اختلافی مسئلے کا تعلق طالبان کے اس مطالبے سے ہے کہ امن مذاکرات کی بنیاد فقہ حنفی پر ہونی چاہیے۔ تاہم، طالبان کا یہ مطالبہ افغان آئین کی شق نمبر 130 اور 131 کی نفی کرتا ہے کیونکہ ان شقوں کے مطابق ملک کی شیعہ برادری کے نجی مقدمات کا فیصلہ شیعہ فقہ کے تحت ہونا چاہیے جبکہ ایسے مقدمات جن میں کوئی واضح شرعی ہدایت دستیاب نہیں ان میں فقہ حنفی کو ہی قانون کا عمومی ماخذ تسلیم کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ مذاکراتی ٹیمیں اصل مسائل پر بات کریں، دونوں کے درمیان بہت سے اُمور پر اتفاق رائے ہونا باقی ہے اسی تنازع کی روشنی میں روزنامہ ’ارمانِ ملّی‘ نے اپنے ایک اداریے میں کہا ہے کہ طالبان کا یہ اصرار کہ فقہ حنفی پر عمل کیا جائے دراصل ایک ایسا ’ہتھیار‘ ہے جس کا مقصد ’ملک میں فرقہ وارانہ اختلافات‘ کو ہوا دینا ہے۔ اس حوالے سے افغانستان کے نائب صدر نے 21 ستمبر کو کہا تھا کہ ’شیعہ افغانستان کی جانب سے میں طالبان سے پُرزور مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ افغانستان کے عوام کی آپس میں دوستی اور اتحاد کو تہہ و بالا کرنے کی کوشش نہ کریں۔‘ ابتدائی مرحلے میں سست روی کی تیسری اور آخری وجہ طالبان کا یہ مطالبہ ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان 21 فروری کو جس معاہدے پر دستخط ہوئے تھے، اسے حالیہ مذاکرات کی بنیاد تسلیم کیا جائے۔ شاید طالبان سمجھتے ہیں کہ اگر امریکہ اور ان کے درمیان ہونے والے معاہدے سے روگردانی کی جاتی ہے تو بین الافغان مذاکرات کھٹائی میں پڑ سکتے ہیں۔ مذاکرات کی راہ میں حائل ان مسائل سے قطع نظر افغان عوام ملک میں جاری پُرتشدد کارروائیوں سے پریشان ہیں اور جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے کہا ہے کہ جب تک کچھ دوسرے مسائل پر بات چیت نہیں ہو جاتی، وہ جنگ بندی پر رضامند نہیں ہوں گے۔ آگے کیا ہوگا؟ ابتدائی مراحل میں سامنے آنے والے مسائل سے لگتا ہے کہ فریقین کے درمیان امن مذاکرات کا باقاعدہ آغاز مقررہ وقت پر نہیں ہو گا۔ افغانستان کی قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ مذاکرات ’مشکل‘ ہوں گے۔ ان کے علاوہ کئی افغان تجزیہ کار بھی اس حوالے سے اپنی ناامیدی کا اظہار کر چکے ہیں اور انھیں بھی مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کی امید کم ہی ہے۔ افغانستان کے سابق وزیر دفاع اور ایک تھنک ٹینک سے منسلک تمیم آسی نے تولو نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے چند دن پہلے کہا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ مذاکرات کا عمل طویل اور پیچیدہ ہو گا۔ افغان جنگ کی پیچیدگیوں کی وجہ سے، ہم یہاں راتوں رات امن نہیں لا سکتے۔‘ اس سے پہلے کہ مذاکراتی ٹیمیں اصل مسائل پر بات کریں، دونوں کے درمیان بہت سے اُمور پر اتفاق رائے ہونا ہے، اور ان مسائل پر اتفاق طالبان اور امریکہ کے معاہدے کی روشنی میں ہونا ہے۔ ان مسائل میں نہ صرف جنگ بندی شامل ہے بلکہ یہ بھی شامل ہے کہ مستقبل میں افغانستان میں سیاسی انتظامیہ کی شکل کیا ہو گی۔ اگر دونوں فریق مذاکرات کے طریقہ کار پر متفق ہو بھی جاتے ہیں تو اس کے بعد ہی وہ امن مذاکرات کے اصل دور کے ایجنڈے پر بات چیت کر سکیں گے، اور یہ اگلا مرحلہ بھی اپنے حصے کی پیچیدگیاں لے کر آئے گا۔ 12 ستمبر کو قطر میں بین الافغان مذاکرات کے آغاز کے بعد سے افغانستان میں قیامِ امن کے حوالے سے کسی معقول پیشرفت کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ text: حزب اختلاف نے چیئرمین سینٹ پر جانبداری کا الزام بھی عائد کیا جس پر ایوان میں شور شرابہ ہوگیا اور اجلاس کی کارروائی معطل کرنی پڑی۔ اجلاس شروع ہوا تو متحدہ مجلس عمل کے پروفیسر خورشید احمد نے نکتہ اعتراض پر حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تین منٹ میں بل منظور کر کے آئین، جمہوریت، ایوان اور قوم کے ساتھ مذاق کیا گیا ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے رکن سینیٹ ثناء اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کونسل کا بل انیس سو تہتر کے متفقہ آئین کی روح کے خلاف ہے۔ انہوں نے چیئرمین سینٹ کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ حکومتی ارکان نے تو جو کیا وہ ان کو کرنا تھا لیکن انہوں نے جانبداری کا مظاہرہ کر کے اس ایوان کے ساتھ سنگین مذاق کیا ہے۔ حزب اختلاف کے اراکین نے جب چیئرمین سینٹ پر جانبداری اور ایوان کو بلڈوز کرنے کے الزامات عائد کیے تو ایوان میں شدید شور شرابہ شروع ہوگیا۔ چیئرمین سینیٹ حکومت اور حزب اختلاف کے اراکین کو بلا اجازت بولنے سے منع کرتے رہے لیکن کسی نے ان کی ایک نہ سنی جس پر مجبور ہو کر انہوں نے اجلاس کی کاروائی معطل کردی۔ کارروائی کی معطلی کے دوران دونوں جانب کے نمائندوں نے مذاکرات کئے اور ایوان میں سب کو بولنے کی اجازت پر اتفاق کیا گیا۔ جب اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو قائد ایوان وسیم سجاد نے کہا کہ حزب اختلاف کے ارکان نے ان کو بتایا ہے کہ انہوں نے بل کی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا تھا بلکہ قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ انہوں نہ کہا لہٰذا حکومت اپنی کوتاہی تسلیم کرتی ہے کیوں کہ ان کو حزب اختلاف کو منانا چاہیے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کوتاہی پر حزب اختلاف سے معذرت خواہ ہیں۔ حکومت اور حزب اختلاف میں اختلافات کی وجہ سے ایجنڈے کے مطابق کارروائی نہ چل سکی اور اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا گیا۔ حزب اقتدار کی جانب سے جلد بازی میں قومی سلامتی کونسل کا متنازعہ بل منظور کرنے کے خلاف جمعہ کے روز ایوان بالا سینیٹ میں حزب اختلاف نے شدید احتجاج کیا۔ text: رپورٹ کے مطابق ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکہ کی حیثیت اب کلیدی نہیں رہی اور قوموں کی ترقی میں ٹیکنالوجی کے کردار کے حوالے سے کی گئی درجہ بندی میں اس کا نمبر اب ساتواں ہے، جو سال دو ہزار پانچ تک پہلا ہوا کرتا تھا۔ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ میں سیاسی اور ریگولیٹری ماحول میں ابتری کو امریکہ کے زوال کی وجہ بتایا گیا ہے۔ ڈنمارک پہلی دفعہ اس درجہ بندی میں سرفہرست ہو گیا ہے، جبکہ سویڈن اور سنگاپور باالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ ٹیکنالوجی میں ترقی کو کاروبار، میسر انفراسٹرکچر اور معاشی بہتری کے لیے حکومت کی طرف سے متعارف کرائے گئے قوانین و ضابطوں اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مسابقت کی روشنی میں جانچا جاتا ہے۔ اس سالانہ درجہ بندی کو ’نیٹ ورک ریڈینیس انڈکس‘ کا نام دیا گیا ہے اور ورلڈ اکنامک فورم پیرس کے ایک بزنس سکول ’انسیڈ‘ کے تعاون سے پچھلے چھ سال سے اسے شائع کر رہا ہے۔ پہلے نمبر سے ساتویں نمبر پر آ جانے کے باوجود امریکہ میں اب بھی ٹیکنالوجیکل اختراع پر بہت توجہ دی جاتی ہے، جس کی بنیاد دنیا میں بہترین سمجھے جانے والے اس کے اعلیٰ تعلیمی نظام کے صنعتی شعبے سے منسلک ہونے پر رکھی گئی ہے۔ ڈنمارک کے سرفہرست ہو جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے ورلڈ اکنامک فورم کی سینئر معیشت دان ارنی میا کا کہنا تھا کہ اس میں کارفرما جو عوامل ہیں ان میں ڈنمارک میں حکومت کی متاثرکن ’ای لیڈرشپ‘ یعنی الیکٹرانک قیادت، ٹیلی کیمیونیکیشن سیکٹر کی لبرلائزیشن اور معاشی ترقی کے لیے اعلیٰ درجے کا موافق ماحول قابل ذکر ہیں۔ ایشیا اور بحرالکاہل کے ساتھ واقع ممالک میں ترقی جاری ہے لیکن معاشی ترقی کے گڑھ چین اور بھارت دونوں نے اس حوالے سے تنزلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بھارت جو پچھلے سال چالیسویں نمبر پر تھا، اس سال چوالیسویں نمبر پر ہے۔ اس کی بڑی وجہ ناکافی انفراسٹرکچر اور انفرادی سطح پر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا بہت کم استعمال بتایا گیا ہے۔ چین پچاس سے انسٹھ نمبر پر آ گیا ہے اور اس کی وجہ چینی کاروباری اداروں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کم استعمال بتایا گیا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ٹیکنالوجیکل اختراعات کے میدان میں امریکہ کی ’بادشاہت‘ کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ text: پولیس اور عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا کہ منگل کے روز مقامی ایک خاتون کے ساتھ ایک فوجی کی مبینہ جنسی زیادتی پر سینکڑوں نوجوان سڑکوں پر آگئے اور ہندوارہ چوک میں قائم فوجی بنکر کی طرف مارچ کرنے لگے۔ فوج نے مشتعل نوجوانوں پر فائرنگ کی جس سے سات نوجوان زخمی ہوگئے۔ ٭ کشمیر پولیس کی حب الوطنی ہر شکوک ٭ کشمیری پنڈتوں کو مسلمان ہمسائے یاد آتے ہیں زخمیوں کو ہندوارہ کے ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹر رؤف کے مطابق دو نوجوانوں محمد نعیم اور اقبال کی موت ہوگئی۔ دیگر نوجوانوں کی حالت تشویش ناک ہے۔ اس واقعے کے بعد فوج بنکر چھوڑ کر چلی گئی اور مشتعل نوجوانوں نے بنکر پر سے انڈین پرچم اتار کر اور انڈیا مخالف نعرے بازی کی۔ قصبے میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور پولیس و نیم فوجی اہلکاروں کی بھاری تعداد کو صورت حال پر قابو پانے کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔ قانون ساز اسمبلی کے رکن انجینیئر رشید جب ہندوارہ پہنچے تو وہاں ہزاروں لوگ دو نوجوانوں کی لاشوں کے ہمراہ مظاہرہ کر رہے تھے۔ انجینیئر رشید نے بی بی سی کو بتایا: ’یہاں جو ظلم ہورہا ہے، وہ نازی جرمنی میں یہودیوں پر بھی نہیں ہوا۔ ہم تحقیقات کا اعلان سننا نہیں چاہتے، ہم چاہتے ہیں کہ قصورواروں کو اسی طرح پھانسی پر لٹکایا جائے جس طرح مقبول بٹ اور افضل گورو کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔‘ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز کے مطابق ہندوارہ چوک میں 26 سال سے قائم بنکر پر مظاہرین نے دھاوا بول دیا تو فوج وہاں سے نکل گئی۔ ڈویژنل کمشنر اصغر حسین سامون نے کہا ہے کہ اس واقعے کی مجسٹریٹ سطح پر تحقیقات ہوں گی۔ لیکن عوامی اور سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سالہا سال سے ایسے واقعات میں درجنوں تحقیقاتی کمیشن قائم کیے گئے لیکن آج تک ایک بھی واقعے میں قصورواروں کو سزا نہیں ملی۔ دریں اثنا علیحدگی پسند رہنما سید علی گیلانی نے اس واقعے کے خلاف بدھوار کو کشمیر اور جموں کے مسلم اکثریتی خطوں میں ہمہ گیر ہڑتال کی اپیل کی ہے۔ واضح رہے منگل کے روز وادی کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی کال پر ہڑتال کی جا رہی تھی۔ یہ ہڑتال کشمیر سے باہر مختلف انڈین تعلیمی اداروں میں کشمیری طلبہ پر ہندوقوم پرست تنظیموں کی طرف سے کیے گئے تشدد کے خلاف تھی۔ دوسری جانب براہ راست حکومت ہند کے کنٹرول والے کشمیر کے انجینئیرنگ کالج این آئی ٹی میں دس روزہ احتجاج ختم ہوگیا کیونکہ کالج انتظامیہ نے غیرمقامی طلبہ کے مطالبات کو پورا کر دیا۔ ان میں امتحانات کی تاریخ میں تاخیر، لڑکیوں کو دیر رات تک کیمپس میں نقل و حرکت کی آزادی، کالج کے اندر مذہبی تہوار منانے کی اجازت اور بجلی اور انٹرنیٹ کی دن رات فراہمی جیسے مطالبات شامل تھے۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے شمالی قصبے ہندوارہ میں فوج کی فائرنگ میں دو طالب علموں کی ہلاکت کے بعد ہندوارہ اور دوسرے قصبوں میں کشیدگی کی لہر پھیل گئی ہے۔ text: اس حادثے نے چین میں عمارتوں کی حفاظت کے حوالے سے بنائے گئے قواعد وضوابط پر عمل درآمد کے فقدان کے مسئلے کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے سرکاری میڈیا کے مطابق یہ حادثہ ’بیودو‘ نامی قصبے میں پیش آیا ہے اور امدادی کارکن ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکام کے مطابق زخمیوں کو ہسپتال میں طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے اور ان میں سے نو کی حالت نازک ہے۔ چینی حکام کا مزید کہنا ہے کہ یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب ایک عمارت کی بنیادوں کی مرمت کا کام کیا جا رہا تھا۔ مقامی حکومت نے جعمے کو پیش آنے والے اس حادثے کی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا ہے۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس حادثے نے چین میں عمارتوں کی حفاظت کے حوالے سے بنائے گئے قواعد وضوابط پر عمل درآمد کے فقدان کے مسئلے کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے۔ خیال رہے کہ رواں برس مئی میں ہینن صوبے میں ہی واقع ایک نرسنگ ہوم میں آگ لگنے سے 38 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور بعد میں کی جانے والی تحقیقات سے پتہ چلا تھا کے عمارت کو بناتے وقت حفاظتی قواعد و ضوابط کو نظر انداز کیا گیا تھا۔ اس حالیہ حادثے میں زخمی ہونے والے ایک شخص ’فنگ قیونگ‘ نے سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عمارت میں کام کرنے والے اکثر مزدوروں کو مناسب تربیت فراہم نہیں کی گئی تھی۔ فنگ کا مزید کہنا تھا کہ اس کے اکثر ساتھی دھاتوں سے یہاں مزدوری کرنے آئے ہوئے تھے اور ان کو عمارتی کام کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس عمارت کو نوے کی دھائی میں بنایا گیا تھا۔ چین کے صوبے ہینن میں ایک عمارت گرنے کے نتیجے میں 17 مزدور ہلاک اور 23 زخمی ہوگئے ہیں۔ text: عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کے ترجمان نےکہا ہے کہ وہ رپورٹ جس میں امریکی فوجیوں کو بری الذمہ قرار دیا گیا ہے، غیر منصفانہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عراقی حکومت ان ہلاکتوں پر معافی اور ہرجانے کا مطالبہ کرے گی۔ امریکہ کے محکمۂ دفاع کے اہلکاروں نے کہا تھا کہ تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ اسحاقی میں شہریوں کی ہلاکت میں امریکی فوجیوں کا قصور نہیں تھا۔ عراقی رپورٹ میں امریکی فوجیوں پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے مارچ میں ایک چھاپے کے دوران جان بوجھ کر گیارہ شہریوں کو گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔ بغداد کے شمال میں اسحاقی میں ہونے والا یہ واقعہ اس سلسلے کی کڑی ہے جس میں امریکی فوجیوں پر مظالم کے الزامات گئے ہیں۔ ایک تازہ ترین واقعے میں حدیثہ میں مبینہ قتل عام کے بعد امریکی فوجیوں کے لیے اخلاقی تربیت کے پروگرام شروع کیے جا رہے ہیں۔ حدیثہ میں امریکی میرین نے بم حملے کے بعد مبینہ طور پر چوبیس عراقی شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ عراق کے وزیر اعظم نوری المالکی بھی ’اتحادی فوج‘ پر تنقید کی ہے کہ شہریوں پر حملے کرنے کا ان کا معمول بن گیا ہے۔ امریکی فوجی حکام نے جمعہ کے روز بی بی سی کو بتایا کہ اسحاقی کے واقعہ کی تفتیش کے دوران امریکی فوجیوں کی طرف سے کسی زیادتی کا ثبوت نہیں ملا۔ حکام نے کہا کہ فوجیوں نے ایک گھر میں داخلے کی کوشش کے دوران فائرنگ کے جواب میں قواعد کے مطابق کارروائی کی تھی۔ تفتیش کی مکمل رپورٹ ابھی جاری نہیں کی گئی۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ واقعے میں بھاری گولہ باری کی وجہ سے مکان کی چھت گر گئی تھی جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ پینٹاگون کی طرف سے تفتیش کے نتائج سامنے آنے سے ایک روز قبل بی بی سی نے ایک وڈیو فِلم جاری کی تھی جس میں کئی بڑوں اور بچوں کی لاشیں دکھائی گئی تھیں۔ بی بی سی کے عالمی امور کے نامہ نگار جان سمپسن کے مطابق یہ لوگ واضح طور پر گولیوں کا نشانہ بنے تھے۔ یہ فِلم امریکی فوج کی مخالف ایک سنی تنظیم سے حاصل کی گئی تھیں۔ عراقی حکومت نے ملج کے جنوبی شہر اسحاق میں گیارہ شہریوں کی ہلاکت کے بارے میں امریکی رپورٹ رد کردی ہے جس میں امریکی فوجیوں کو بے قصور قرار دیا گیا تھا۔ text: پشاور میں ایگری کلچر یونیورسٹی ڈائریکٹوریٹ میں حملے میں کم از کم نو افراد ہلاک ہوئے ہیں جمرود روڈ پر پشاور یونیورسٹی کی عمارت کے سامنے واقع زرعی تربیتی ادارے پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے قبول کی گئی ہے۔ تنظیم کی طرف سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو اس واقعے کی ایک ویڈیو بھی بھیجی گئی ہے۔ تقریباً دو منٹ پر مشتمل اس وڈیو میں حملہ آواروں کو طلبا پر فائرنگ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جبکہ ویڈیو میں بعض طالب علموں کو بھاگتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ بھی پڑھیے ’لکڑیاں بیچ کر پڑھایا کہ بڑھاپے کا سہارا بنے‘ ’جو کوئی کمرے سے باہر آتا وہ مارا جاتا‘ پشاور حملہ: خون، گولیوں کے نشانات اور بکھرے بستر پشاور میں برقع پوشوں کا حملہ، تصاویر میں بی بی سی اردو کے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق پولیس اور تفتیشی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ایک حملہ آور کے کپڑوں سے ایک موبائل فون لگا ہوا ملا ہے جس سے لگتا ہے کہ اسی فون سے حملے کی ریکارڈنگ کی گئی ہے۔ تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ یہ ریکارڈنگ کیسے کی گئی۔ بعض اہلکاروں کا خیال ہے کہ فیس بک لائیو کے ذریعے حملے کی ریکارڈنگ کی گئی ہے یا کسی مخصوص ایپ کے ذریعے بھی ایسا ممکن ہے۔ عمر میڈیا کی طرف سے جاری کردہ اس ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ حملہ آور فائرنگ کرتے ہوئے طلبا کے ایک کمرے میں داخل ہوتے ہیں جہاں ایک حملہ آور اور طالب علم کے درمیان پشتو زبان میں مختصر بات بھی ہوتی ہے۔ حملہ آور طالب علم سے کہتا ہے کہ ’آپ کو کچھ نہیں کہوں گا لیکن یہ بتاؤ کہ کیا یہ خفیہ ادارے آئی ایس آئی کا مرکز ہے؟‘۔ خوف کے عالم میں جواب دیتے ہوئے طالب علم کے منہ سے 'ہاں' نکلتا ہے۔ تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ جس طالب علم سے حملہ آور کی بات ہوئے انھیں بعد چھوڑ دیا گیا یا نہیں۔ کالعدم تنظیم کے ترجمان عمر خراسانی کی طرف سے جاری کردہ بیان میں بھی کہا گیا ہے کہ حملہ خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے مرکز پر کیا گیا ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ زرعی تربیتی ادارے میں واقع طلبہ کا ایک ہاسٹل ہے جہاں حملے کے وقت 30 کے قریب طلبہ موجود تھے۔ سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ویڈیو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ منصوبہ سازوں نے حملہ آواروں کو دھوکہ میں رکھا اور شاید انھیں بتایا گیا تھا کہ وہ انھیں خفیہ ادارے کے مرکز کو نشانہ بنانے کے لیے بھیج رہے ہیں لیکن درحقیقت وہاں خفیہ ادارے کا کوئی مرکز یا دفتر موجود نہیں ہے۔ ادھر زرعی تربیتی ادارے کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ چھ ماہ پہلے ان کی طرف سے صوبائی حکومت کو دو خطوط بھیجے گئے تھے جس میں ادارے کو سکیورٹی فراہم کرنے کی درخواست کی گئی تھی لیکن حکومت کی طرف سے اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ انھوں نے کہا کہ ادارے کی حفاظت کے لیے بوڑھے چوکیداروں کو تعینات کیا گیا ہے جن کی نہ صرف عمریں زیادہ ہیں بلکہ ان کے پاس حفاظت کے لیے موجود اسلحہ بھی پرانا ہے جس میں بیشتر بندوقیں کام نہیں کرتیں۔ ان کے مطابق ادارے کی عمارت میں جو سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں ان میں زیادہ تر یا تو خراب ہیں یا ان میں کئی دنوں تک ریکارڈنگ اور ڈیٹا جمع کرنے کی سہولت موجود نہیں۔ یاد دہے کہ خیبر روڈ پشاور پر واقع زرعی تربیتی مرکز ایک بڑی عمارت پر مشتمل ہے جہاں تربیتی ادارے اور ہاسٹلوں کے علاوہ گیارہ دیگر سرکاری محکموں کے دفاتر بھی واقع ہیں۔ اس عمارت سے متصل مشہور طبی ادارے خیبر ٹیچنگ ہپستال کی نرسوں اور ڈاکٹروں کے ہاسٹلز ہیں۔ خیال رہے کہ جمعہ کو زرعی تربیتی ادارے پر تین برقع پوش مسلح افراد نے حملہ کیا تھا جس میں کم سے کم نو افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ بعد میں سکیورٹی فورسز اور پولیس کے مشترکہ آپریشن میں تینوں شدت پسند مارے گئے تھے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی سرحد پار افغانستان میں کی گئی تھی۔ تاہم افغان حکومت کا اس ضمن میں تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ پشاور میں جمعے کو زرعی تربیتی ادارے پر ہونے والے حملے کے بعد شدت پسندوں کی طرف سے جاری کی گئی وڈیو سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حملے کے منصوبہ سازوں نے خودکش حملہ آواروں کو ہدف کے بارے میں صحیح نہیں بتایا تھا۔ text: اس رپورٹ میں بہت سی ایسی سفارشات کی ہیں جن سے انکے خیال میں جموں و کشمیر میں حالات کو معمول پر لایا جاسکتا ہے وفاقی قوانین اور آئینی ترامیم پر نظر ثانی کے لیے ایک آئینی کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ یہ کمیٹی انیس سو باون کے بعد وضع کیے جانے والےتمام قوانین پر نظرثانی کرے گی تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ آیا ان قوانین اور ترامیم سے ریاست کی خود مختاری متاثر ہوئی ہے اور اگر ہاں تو کس حد تک۔ رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ بھارتی پارلیمان اس وقت تک کشمیر کے لیے کوئی قانون نہ بنائے جب تک اس کا تعلق ملک کی داخلی سلامتی، دفاع یا کلیدی اقتصادی مفادات سے نہ ہو (خاص طور پر آبی وسائل اور توانائی کے شعبے میں)۔ سینیئر صحافی دلیپ پڈگاؤنکر، ماہر تعلیم رادھا کمار اور سابق سرکاری افسر ایم ایم انصاری نے اپنی رپورٹ میں بہت سی ایسی سفارشات تیار کی ہیں جن سے ان کے خیال میں جموں و کشمیر میں حالات کو معمول پر لایا جاسکتا ہے۔ بنیادی طور پر وہ ریاست کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دینے کے حق میں ہیں۔ کمیٹی نے چند ماہ قبل اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کی تھی جسے وزارت داخلہ نے آج اپنی ویب سائٹ پر جاری کیا ہے۔ مذاکراتکاروں کا کہنا ہے کہ مسئلہ کا حل صرف سیاسی مذاکرات کے ذریعہ ہی ممکن ہے جس میں علیحدگی پسند حریت کانفرنس کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ ’جیسے وزیر اعظم من موہن سنگھ بھی کہہ چکے ہیں، نصب العین یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول کو غیر موزوں بنا دیا جائے۔۔۔ اور مسئلہ کشمیر کے حل کی تلاش بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کی محتاج نہ رہے، اگر جموں و کشمیر میں فریق کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے لیے تیار ہیں تو پاکستان کے لیے بعد میں بات چیت میں شامل ہونے کا راستہ کھلا رکھا جاسکتا ہے۔‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’وفاقی حکومت اور حریت کانفرنس کے درمیان مذاکرات جتنا جلدی ممکن ہو، دوبارہ شروع کیے جانے چاہئیں اور وفاقی قوانین پر نظرثانی اور حریت سے بات چیت کے دوران جو نکات سامنے آئیں ان پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور حکومت پاکستان سے مذاکرات کیے جانے چاہئیں۔‘ کمیٹی نے کشمیر میں مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں سے بات چیت کی بنیاد پر اپنی رپورٹ تیار کی ہے لیکن علیحدگی پسند رہنماؤں نے اس سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ مذاکرات کاروں نے انسانی حقوق کی پاسداری، ’اور سنگ بازوں اور ان سیاسی رہنماؤں کی فوری رہائی کا بھی مطالبہ کیا ہے جن کے خلاف سنگین الزامات نہیں ہیں۔‘ مذاکراتکاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے’ جو سیاسی حل تجویز کیا ہے وہ وادی کشمیر کے عوام کے اس تاثر کو پوری طرح مد نظر رکھتے ہوئے کیا ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ مخلتلف حلقوں سے بات چیت کرنے کے بعد کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وادی کےعوام عزت کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ انہیں ایک موثر حکومت ملے اور ان کے حقوق کا احترام کیا جائے۔ رپورٹ جاری کرنے کے فوراً بعد وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ مذاکرات کاروں کے نظریات ہیں جن پر حکومت نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے لیکن وہ ان پر بحث کے حق میں ہے۔ کمیٹی نے ریاست کے گورنر کے تقرر کے لیے بھی طریقہ کار تجویز کیا ہے۔ اس کا کہنا ہےکہ ریاستی حکومت حزب اختلاف سے صلاح مشورے کےبعد تین ناموں کی فہرست صدر جمہوریہ کو بھیجے لیکن ضرورت محسوس کیے جانے پر صدر کی جانب سے مزید نام مانگے جاسکتے ہیں۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیرکا حل تجویزکرنے کے لیے بھارتی حکومت کے مقرر کردہ مذاکرات کاروں کی کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ ریاست کو دستور ہند کے تحت حاصل خصوصی درجہ برقرار رکھا جائے اور اس کی خود مختاری کو ممکنہ طور پر زک پہنچانے والے تمام وفاقی قوانین پر نظرثانی کی جائے۔ text: ہڑتال کے موقع پر مختلف واقعات میں ایک پولیس اہلکار سمیت پانچ افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ بلدیہ ٹاؤن کے علاقے میں سڑکوں پر ٹائر جلائے گئے اور سڑک پر چلنے والی گاڑیوں کو توڑا پھوڑا گیا۔ پولیس نے مشتعل افراد کو منتشر کرنے کے لئے شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی جس پر انہوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔ شہر میں کاروبار زندگی معطل ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے جس کے باعث عام افراد کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ بہت سے افراد کراچی سے حیدرآباد جانے والی مین سپر ہائی وے یا شاہراہ پاکستان پر دھرنا دیکر بیٹھ گئے جس کے بعد شہر سے باہر جانے والا ٹریفک بھی معطل ہوگیا۔ مشتعل افراد نے سڑک کو ٹائر جلا کر بند کردیا تھا، پولیس اور رینجرز کے اہکاروں نے سڑکوں پر نکلے ہوئے لوگوں پر شیلنگ کی اور انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی۔ لیاقت آباد، ملیر، کورنگی، راشد منہاس روڈ، بنارس چوک اور بہت سے علاقوں میں صبح ہی سے ٹریفک کو روکنے کے لئے سڑکوں پر ٹائر جلا دئیے گئے تھے۔ امدادی کارروائی کرنے والے ایدھی کے رضاکار رضوان ایدھی نے بتایا کہ اِن کی ایمبولینس کو بھی توڑا گیا ہے، اور اِنہیں زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ ڈی آئی جی کراچی طارق جمیل نے بی بی سی کو بتایا کہ شہر میں چند علاقوں میں سخت مزاحمت کا سامنا ہے جبکہ شہر کے باقی علاقے پرُامن ہیں۔ جماعتِ اسلامی کے نشر و اشاعت کے انچارج سرفراز احمد نے الزام لگایا کہ مخالف جماعت کے کارکن، لوگوں کو گھر سے نکالنے کے لئے زبردستی کر رہے ہیں جبکہ عوام نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہڑتال پُرامن رہی ہے مگر کہیں کہیں پولیس کی زیادتیوں کے بعد پتھراؤ بھی کیا گیا ہے۔ متحدہ مجلس عمل نے گزشتہ روز اپنے کارکنوں کی نمازِ جنازہ کے موقع پر ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔ بدھ کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے موقع پر متحدہ مجلس عمل کے سات افراد مختلف علاقوں میں فائرنگ سے ہلاک ہوگئے تھے۔ ضمنی انتخابات کے موقع پر سات افراد کی ہلاکتوں کے سبب متحدہ مجلسِ عمل کی ہڑتال کی اپیل پر کراچی میں تمام چھوٹے بڑے بازار بند رہے جبکہ سڑکوں پر ٹریفک معطل رہی۔ text: 'انسوسینٹ وکٹمز' نامی اس مجسمے کی نقاب کشائی سنہ 2005 میں کی گئی تھی ان مجسمے کو مغربی لندن میں واقع اس سٹور کے سابق مالک اور ڈوڈی کے والد محمد الفائد کو لوٹایا جائے گا جنھوں نے سنہ 1997 میں ان دونوں کی ہلاکت کے بعد ان کی یاد میں یہ بنوایا تھا۔ کینسنگٹن پیلس کی جانب سے نئی یادگار کے اعلان کے بعد ہیرڈز کا کہنا ہے کہ یہ مجمسمہ واپس کرنے کا صحیح وقت ہے۔ محمد الفائد نے سنہ 2010 میں ہیرڈز سٹور کو قطری شاہی خاندان کو ڈیڑھ ارب پاونڈ میں فروخت کر دیا تھا۔ ’انسوسینٹ وکٹمز‘ نامی اس مجسمے کی نقاب کشائی سنہ 2005 میں کی گئی تھی۔ ہیرڈز کے مینیجنگ ڈائریکٹر مائیکل وارڈ کا کہنا ہے انھیں فخر ہے کہ انھوں نے گذشتہ 20 برسوں میں دنیا بھر سے اس مجسمے کو دیکھنے کے لیے آنے والوں کا استقبال کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ یادگار الفائد کو لوٹانے اور محل میں خراج عقیدت کے لیے عوام کو مدعو کرنے کا صحیح وقت ہے۔‘ شہزادی ڈیانا کے بارے میں مزید پڑھیں! شہزادی ڈیانا کی زندگی پر ایک نظر ’مجھ سے ڈیانا کے جنازے کے بارے میں جھوٹ بولا گیا‘ ’دنیا کی سب سے شرارتی ماؤں میں سے ایک‘ ’ڈیانا کی نجی ویڈیوز نشر نہ کی جائیں‘ گذشتہ سال ڈیوک آگ کیمبرج اور پرنس ہیری نے کینسنگٹن پیلیس کے عوامی میدان پر اپنی والدہ کی یاد میں ایک نیا مجسمہ تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پرنسس آف ویلز ڈیانا کی ہلاکت 31 اگست 1997 کو اپنے ایک قریبی دوست ڈوڈی الفائد کے ہمراہ پیرس میں ایک کار حادثے میں ہوئی تھی۔ محمد الفائد کا موقف تھا کہ یہ ہلاکتیں کوئی حادثہ نہیں تھیں تاہم سرکاری تحقیقات میں اس ایسا کچھ ثابت نہیں ہوسکا۔ سنہ 2000 میں محمد الفائد نے ہیرڈز اور شاہی خاندان کے درمیان کاروباری روابط منطقع کر دیے تھے جب انھوں نے شاہی وارنٹس ختم کر دیے۔ پرنسس آف ویلز ڈیانا کی ہلاکت 31 اگست 1997 کو اپنے ایک قریبی دوست ڈوڈی الفائد کے ہمراہ پیرس میں ایک کار حادثے میں ہوئی تھی ٹائمز اخبار کو دیے گئے ایک بیان میں محمد الفائد کے خاندان نے اس یادگار کو اب تک ’محفوط‘ رکھنے پر قطر کا شکریہ ادا کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ ’اس کے باعث لاکھوں افراد نے ان دو شاندار افراد کو یاد رکھا اور خراج عقیدت پیش کر سکے۔‘ ’اب اس کو گھر لانے کا وقت ہے۔‘ سنہ 2011 میں الفائد جب فلہم فٹبال کلب کے مالک تھے تو انھوں نے مائیکل جیکسن کا ایک مجمسمہ لگایا تھا۔ کئی سال بعد ان کا دعویٰ تھا کہ کلب کی تنزلی اس لیے کی گئی کیونکہ نئے مالک نے یہ مجسمہ ہٹا دیا تھا۔ لندن کے مشہور لگژری ڈیپارٹمنٹ سٹور ہیرڈز سے شہزادی ڈیانا اور ڈوڈی الفائد کا ایک کانسی کا مجسمہ ہٹا لیا جائے گا۔ text: امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کےمطابق جمعہ کے روز وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اس میٹنگ میں امریکہ کے نائب صدر ڈک چینی، وزیر خارجہ کانڈولیزا رائس سمیت سیکورٹی کے اعلی مشیروں نے شرکت کی۔ اخبار کے مطابق اس میٹنگ میں پاکستانی سرزمین پر سی آئی اے اور امریکی فوج کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشگردوں کے خلاف جارحانہ مگر خفیہ کارروائی کرنے پرغور کیا گیا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکی سیکورٹی مشیروں کی میٹنگ اس پس منظر میں ہو رہی ہے جب القاعدہ نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے بعد پاکستان میں کارروائیاں بڑھا دی ہیں اور پاکستان کے سکیورٹی ادارے ان کے خلاف موثر کارروائی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اس میٹنگ میں پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد پاکستان میں پیدا ہونے والی صورتحال اور اٹھارہ فرروی کو ہونے والے انتخابات پر بھی غور کیا گیا۔ امریکی سیکورٹی مشیروں کی اس میٹنگ میں کئی مشیروں کا موقف تھا کہ اس وقت پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف انتہائی غیر مقبول ہو چکے ہیں اور انہیں امریکی فوج اور سی آئی اے کی طرف سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کاررائیوں کی کھلی چھٹی دینے پر اعتراض نہیں ہوگا۔ رپورٹ کےمطابق اس میٹنگ میں پاکستان میں آپریشنز سےمتعلق معاملات پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا اور اس میٹنگ میں شریک لوگوں نے آن دی ریکارڈ کچھ کہنے سے انکار کیا۔ امریکہ نے پاکستانی قبائیلی علاقوں میں امریکی کارروائی سےمتعلق ابھی تک صدر مشرف کو کوئی تجویز نہیں دی ہے۔ امریکہ کے پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ پاکستان کے نئے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی امریکی تحفظات پر زیادہ ہمدردانہ رویہ رکھیں گے۔ امریکی مشیروں کا خیال ہے کہ اس وقت پاکستان کے قبائلی علاقوں تک اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کا بہترین موقع ہے۔ایک امریکی مشیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیو یارک ٹائمز کو بتایا:’شدت پسند قوتیں کئی سالوں تک افغانستان پر توجہ دینے کے بعد اب افغانستان سے بھی بڑے انعام، پاکستان پر اپنی توجہ مرکوز کر چکی ہیں۔‘ اس وقت پچاس امریکی فوجی پاکستانی سر زمین پرموجود ہیں اور اگر سی آئی اے کو پاکستان میں آپریشنز کی اجازت دے دی گئی تو وہ امریکی فوج کی سپیشل آپریشن کمانڈ کی مدد حاصل کر سکی گی۔ امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس جو اس میٹنگ میں موجود نہیں تھے، کچھ ہفتے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ القاعدہ نے اپنی توجہ پاکستان پر موکوز کر لی ہے۔ ماضی میں عمومی طور پر امریکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آپریشن کرنے سے باز رہا ہے اور القاعدہ کے رہنماؤں پر اکا دکا حملوں کےعلاوہ اس نے پاکستانی علاقے میں کوئی بڑی کارروائی نہیں کی ہے۔امریکی ذرائع مانتے ہیں کہ انہوں نے پاکستانی ایجنسی باجوڑ کے ڈمہ ڈولا میں ایمن الظہوری کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔ امریکہ فوجی عہدیدران اور سفارت کار اس بات کو اب بھی مانتے ہیں کہ اگر پاکستان کے قبائلی علاقے میں امریکی فوج نے آپریشنز کیےتو اس سے نامقبول صدر مشرف پر مزید دباؤ بڑھ جائے گا اور پاکستانی فوج میں بھی امریکہ کے خلاف نفرت بڑھےگی اور شدت پسند مضبوط ہوں گے۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے سیکورٹی مشیروں نےخفیہ ادارے سی آئی آے اور امریکی فوج کو پاکستان میں خفیہ آپریشن کرنے کا اختیار دینے کے معاملے پر غور شروع کر دیا ہے۔ text: تبت کے " پاریچو" دریا میں چٹانیں گرنے سے پانی گزرنے کا راستہ بند ہو گیا ہے اور دریا کے ایک بڑے حصے نے گہری جھیل کی شکل اختیار کر لی ہےمسلسل بارش کے سبب اس مصنوعی جھیل کے پانی میں اضافہ ہوتاجا رہا ہے۔ ہندوستان میں وزارت خارجہ کے ترجمان نو تیج سرنا نے چینی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ جھیل کی مصنوعی دیواروں میں شگاف نہیں پڑے رہے ہیں اور پانی اب باندھ کے اوپر سے بہ رہا ہے لیکن ظاہر ہے بند محفوظ نہیں ہے ۔ ہندوستانی حکومت نے چین سے درخواست کی ہے کہ وہ اس سلسلےمیں مدد کرے لیکن چین نے کہا ہے کہ وہ علاقہ دور دراز کے پیچیدہ اور دشوار گزار خطے میں ہے ۔زبردست بارش اور چٹانیں ٹوٹنے کے سبب اس مرحلے پر وہاں پہنچنا مشکل ہے۔ تبت کا دریائے پاریچو ستلج ندی کا معاون ہے اور اگر اس پر بننے والی مصنوعی جھیل کا احاطہ ٹوٹ گیا تو سیلابی پانی سے ہماچل پردیش کے کئی خطوں میں سیلاب کی خطرناک صورت حال پیدا ہو جائے گی یہی وجہ ہے کہ فوج کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیۓ تیار رہنے کو کہا گیا ہے اور کئی مقامات پر وائرلیس دیۓ گئے ہیں اور خطے کے مختلف گاؤں کو خالی کرا لیا گيا ہے۔ سن دو ہزار میں بھی اسی طرح کے ایک واقعے میں متعدد گاؤں سیلاب کی زد میں آگئے تھے اور کم از کم سو افراد ہلاک ہوگۓ تھے۔ ہندوستان کی شمالی ریاست ہماچل پردیش میں تبت کے ایک دریا کی طغیانی سے زبردست خطرہ پیدا ہوگیا ہے جس سے نمٹنے کے لیۓ ہیلی کاپٹر اور فوج کو تیار رہنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ text: کراچی میں تحریکِ انصاف کے جلسے میں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی کراچی میں سینیٹری، ہارڈویئر اور پلاسٹک میٹریل کے کاروبار سے وابستہ بوہری برادری نے سیاست میں خود کو صرف انتخابات کے روز تک محدود رکھا ہے اور اپنی سیاسی وابستگی کا کبھی اظہار نہیں کیا۔ انھیں کبھی کسی سیاسی جلسے جلوس میں بھی نہیں دیکھا گیا۔ غلام مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ وہ تحریک انصاف کے جلسے کو جلسہ سمجھ کر نہیں بلکہ امید اور آزادی کا لشکر سمجھ کر آئے ہیں، وہ امن کی سیاست کرتے ہیں اور انھیں یقین ہے کہ عمران کا جلسہ پر امن ہوگا۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ عمران خان ہی وی آئی پی کلچر کی موت ہیں۔ بوہری جماعت سے تعلق رکھنے والے غلام مصطفیٰ اکیلے نہیں تھے جو روایت کو توڑ کر اہل خانہ کے ساتھ باہر نکلے تھے۔ ان کی جماعت کے کئی دیگر لوگ بھی نظر آئے جن میں فرسٹ ایئر کے طالب علم علی اصغر بھی شامل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ ہو اور وہ آزادی اور سکون سے جی سکیں جو اس وقت کراچی میں نہیں ہے۔ کراچی میں بڑے عرصے سے لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تحریک انصاف کے جلسے میں ایک طرف اہل تشیع اور بوہری جماعت موجود تھی تو دیوبندی اور بریلوی مکتب فکر کے لوگ بھی شریک تھے۔ کنواری کالونی منگھو پیر سے بھی نوجوان جلسے میں شرکت کے لیے پہنچے۔ یہ علاقہ طالبان کے زیر اثر سمجھا جاتا ہے۔ ایک نوجوان شاہ محمد کا کہنا تھا کہ کنواری کالونی میں رینجرز گھروں میں گھس جاتے ہیں، وہاں کوئی دہشت گرد نہیں یہ سب کچھ نواز شریف کر رہا ہے۔ شاہ محمد کا بھائی منصف بس کنڈیکٹر تھا، اس کو گرفتار کیا گیا۔ شاہ محمد نے بتایا کہ وہ انصاف کے لیے تحریک انصاف کے جلسے میں آئے ہیں۔ شہر کی متوسط طبقے کی آبادی والے علاقے گلشن اقبال کے نوجوانوں سے ملاقات ہوئی۔ فرسٹ ایئر کے طالب علم صدام حسین کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ نیا پاکستان ایسا ہو جہاں مہنگائی، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی نہ ہو، یہاں سیاسی جماعتوں کی دشمنیاں ہوگئی ہیں جو ایک دوسرے کے بندے مارتی ہیں۔ بزرگ رکشہ ڈرائیور علی اکبر، ناظم آباد مجاہد کالونی سے یہ سوچ کر جلسے میں آئے تھے کہ میڈیا ان کی بھی فریاد سنے گا۔ ریڈیو مائیک دیکھ کر وہ ہمارے پاس بھی آگئے اور بتایا کہ ان کے دو نوجوان بیٹے بیروزگاری کی وجہ سے ذہنی مریض بن چکے ہیں جن میں ایک 2007 میں کار ساز کے مقام پر بےنظیر بھٹو کے استقبالیہ میں دھماکے میں زخمی ہوگیا تھا۔ رکشہ ڈرائیور علی اکبر نے بتایا کہ ان کے دو بیٹے بےروزگاری کی وجہ سے ذہنی مریض بن چکے ہیں علی اکبر نے ٹیلی گرام کی رسید دکھائی اور بتایا کہ ایک سال پہلے انھوں نے وزیر اعظم نواز شریف کو تار بھیجا تھا لیکن ابھی تک کوئی مدد نہیں کی گئی۔ کراچی میں عام طور پر خواتین تفریح گاہوں اور بازاروں میں تو نظر آتی ہیں لیکن سیاسی جلسوں میں ان کی شرکت کم ہی ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کے جلسے میں کئی لوگ اپنے پورے خاندان کے ساتھ آئے تھے جن میں بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے۔ کرن ظفر پہلی بار کسی سیاسی جلسے میں آئی تھیں۔ ان کا اپنا بوتیک ہے وہ شاہراہ فیصل پر رہتی ہیں جہاں ایئرپورٹ کی وجہ سے اکثر وی آئی پی موومنٹ رہتی ہے، شاید اسی وجہ سے وہ وی آئی پی کلچر سے بیزار ہیں۔ کرن ظفر کا کہنا تھا کہ ’جب حکمران اپنا سارا پیسہ جا کر برطانیہ میں لگاتے ہیں تو وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ سرمایہ کار پاکستان میں آئیں۔ یہ سراسر دھوکہ ہے۔‘ شعیب خان ادویات کی ایک کمپنی میں ملازم ہیں۔ وہ ملیر کینٹ سے پورے خاندان کے ساتھ جلسے میں شریک تھے۔ انھوں نے بتایا زندگی میں صرف ایک بار ووٹ دیا ہے وہ بھی گذشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کو دیا تھا کیونکہ اس سے پہلے جس مقصد کے لیے وہ ووٹ دیتے تھے، وہ نظر نہیں آتا تھا۔ ان کے خیال میں تحریک انصاف واحد جماعت ہے جس میں کوئی لسانی تفریق نہیں۔ شعیب خان نے صرف ایک بار ووٹ دیا ہے اور وہ بھی تحریکِ انصاف کو شعیب خان کی صاحبزادی درشہوار کالج کی طالبہ ہیں۔ انھوں نے چہرے پر پینٹ کرا رکھا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ سوچ کر آئے تھے کہ عمران خان کو دیکھیں گے، تاکہ ان کا سامنے سے خطاب سن کر ان میں بھی جوش وہ جذبہ پیدا ہو اور وہ جاگیں۔ بقول ان کے پاکستان کے حالات اچھے ہوں تو ان کے حالات بھی اچھے ہو جائیں گے۔ زین احمد گلشن اقبال سے اپنے ساتھ دو کرسیاں بھی لائے تھے۔ وہ تحریک انصاف کے علاوہ کسی سیاسی جماعت کے جلسے میں نہیں گئے یہاں فیلمی کے ساتھ آئے تھے۔ انھوں نے کہا: ’یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ فوج نے پیسے دیے ہیں ہم تو اپنی مرضی سے آئے ہیں کسی نے ہمیں نہیں کہا، میں این ای ڈی یونیورسٹی کے شعبے آرکیٹیکچر کا طالب علم ہوں، کل پرچہ ہے پھر بھی یہاں آنا ضروری سمجھا ہے۔‘ تحریک انصاف میں کچھ ایسے شرکا سے بھی ملاقات ہوئی جو ماضی میں متحدہ قومی موومنٹ کے ووٹر رہے ہیں۔ ان میں جمال احمد بھی شامل تھے جو ڈیفنس سے اپنی بیگم کے ساتھ آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسری جماعتیں نظام کی تبدیلی میں سنجیدہ نہیں ہیں، وہ کرپٹ نظام کو جاری رکھنا چاہتی ہیں، لیکن عمران خان کافی فیئر آدمی لگ رہا ہے وہ کرپشن فری نظام دینا چاہتا ہے جس کے بغیر نوجوانوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ محمد زین ایم کیو ایم کے حمایتی تھے لیکن اب وہ تحریک انصاف کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق اب انھیں ایک اچھا لیڈر ملا ہے جو اس سے پہلے نہیں تھا، وہ اچھا کام کر رہا ہے اور لوگوں کو مطمئن کر رہا ہے اسی لیے لوگ خود سڑکوں پر آ رہے ہیں کوئی انھیں زبردستی نہیں نکال رہا۔ اسی طرح شعیب اختر بھی ماضی میں ایم کیو ایم کے ووٹر رہے ہیں لیکن اب وہ عمران خان کی اس وجہ سے حمایت کرتے ہیں کیونکہ وہ احتساب چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ عمران کو ایک موقع ملنا چاہیے۔ جسم پر سفید رنگ کا کرتا شلوار، چہرے پر ہلکی داڑھی اور سر پر گولڈن کڑھائی والی سفید ٹوپی۔ دور سے پتہ لگ جاتا ہے کہ اس شخص کا تعلق بوہری برادری سے ہے۔ غلام مصطفیٰ بھی اسی روایتی لباس میں خاندان کی چار خواتین کے ہمراہ تحریک انصاف کی جلسہ گاہ میں موجود تھے۔ text: جمہوری وطن پارٹی کے جنرل سیکرٹری آغا شاہد بگٹی نے کہا ہے کہ ایف سی کا نقصان ہوا ہے اور ان کی اطلاع کے مطابق دو زخمی اہلکاروں کو سوئی ہسپتال لایا گیا ہے جبکہ باقی کو ایف سی قلعہ پہنچایا گیا ہے جن میں معمولی زخمی اور شدید زخمی شامل ہیں اور یہ بھی خدشہ ہے کہ کچھ ہلاکتیں ہوئی ہوں لیکن اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ نیم فوجی دستے کے اہلکاروں اور بگٹی قبائل کے مابین آج بارہ بجے کے لگ بھگ جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ جھڑپیں سوئی ڈیرہ بگٹی روڈ اور شہر کے جنوبی علاقے سنگسیلہ کے مقام پر ہوئی ہیں۔ بعض مقامات پر جھڑپوں کا سلسلہ شام تک جاری تھا جہاں بھاری اسلحہ استعمال کیا گیا ہے۔ شاہد بگٹی نے کہا ہے کہ جھڑپیں مختلف علاقوں تک پھیل رہی ہیں اور اتوار کو رات ساڑھے سات بجے تک تیرہ مختلف مقامات پر جھڑپیں ہو رہی تھیں ان میں سوئی ڈیرہ بگٹی روڈ پر آٹھ مقامات کے علاوہ زین کوہ بیکڑ برزین ٹاپ کشک اور سنگسیلہ کے علاقے شامل ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ اب تک قبائل کوئی جوابی کارروائی نہیں کر رہے تھے لیکن آج سے قبائل حملوں کا جواب دے رہے ہیں۔ ڈیرہ بگٹی کے ضلعی رابطہ افسر عبدالصمد لاسی جمعہ کے روز شروع ہونے والی جھڑپوں سے پہلے ڈیرہ بگٹی سے سوئی چلے گئے تھے جہاں سے انھوں نے بتایا ہے کہ سوئی ڈیرہ بگٹی روڈ پر نواب اکبر بگٹی کی پرائیویٹ آرمی کے لوگوں نے ایف سی کی چوکیوں پر حملے کیے ہیں جس کے بعد ایف سی نے کارروائی کی ہے۔ انھوں نے ایف سی کے ایک اہلکار کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ اہلکار کو معمولی زخم آئے ہیں جس کی مرہم پٹی کر دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ نواب اکبر بگٹی اپنی رہائش گاہ سے گزشتہ روز چلے گئے تھے اور قبائلیوں نے شہر کے اندر سرکاری عمارتوں پر قائم مورچے خالی کر دیے تھے لیکن آج اتوار کے روز یہاں سوئی ڈیرہ بگٹی روڈ پر کارروائیاں کی ہیں۔ شاہد بگٹی نے کہا ہے کہ نواب اکبر بگٹی ڈیرہ بگٹی میں ہی ہیں اور اپنے لوگوں کے درمیان ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ ایف سی کی مسلسل کارروائیوں کے بعد آج قبائلیوں نے جوابی کارروائی کی ہے۔ علاقے میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔ ڈیرہ بگٹی سے بڑی تعداد میں لوگ دیگر علاقوں کو نقل مکانی کر چکے ہیں۔ صوبہ بلوچستان کے شہر ڈیرہ بگٹی میں قبائل اور نیم فوجی دستوں کے مابین مختلف مقامات پر جھڑپیں ہوئی ہیں جن میں اب تک فرنٹیئر کور کے ایک اہلکار کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ text: امریکہ نے شیخ حسن داہر اویس پر جنہیں مقننہ کا نیا سربراہ نامزد کیا گیا ہے، القاعدہ سے تعلق کا الزام لگایا ہے جسے وہ مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے اسلامی قانون کے نفاذ کی ضرورت پر زور دیا ہے لیکن بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق ان کے ساتھیوں نے ایسی یقین دہانیاں کروانے کی پیشکش کی ہے کہ یہ طالبان طرز کا اسلامی نظام نہیں ہو گا۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ شیخ اویس کے ساتھی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے لیئے تیار ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ انتظار کرے گا اور دیکھے گا کہ یہ نئی قیادت بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے پر کس حد تک آمادہ ہے۔ شیخ اویس کا گروپ اگلے ماہ کمزور قائم مقام حکومت کے ساتھ بھی مذاکرات کرے گا۔ قائم مقام صدر عبداللہ یوسف سیاسی اسلام کے سخت مخالف ہیں۔ دونوں گروپوں نے پچھلے ہفتے لڑائی نہ کرنے پر اتفاق کیا۔ صومالیہ میں پچھلے پندرہ سال سے کوئی مؤثر قومی حکومت نہیں بن سکی اور اس وقت بھی لڑائی کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ شیخ اویس کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کو اسلامی شریعت کے مطابق قوانین نافذ کرنے چاہئیں۔ انہوں نے خبر رساں ادارے اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’صومالیہ ایک مسلمان قوم ہے اور اس کے سو فیصد باشندے مسلمان ہیں۔ اس لیئے جس حکومت پر بھی ہم اتفاق کریں گے وہ قرآن اور پیغمبر اسلام کی تعلیمات پر مبنی ہو گی‘۔ وہ قانون ساز اسمبلی کے سربراہ نامزد کیئے جانے کے بعد پہلی دفعہ ذرائع ابلاغ سے گفتگو کر رہے تھے۔ اس قانون ساز ادارے کا نام یونین آف اسلامک کورٹس سے بدل کر صومالی سپریم اسلامک کورٹس کونسل رکھا گیا ہے۔ جوہر قصبے میں پانچ افراد پر مقدمہ شروع کیا گیا ہے جن پر زنا اور قتل جیسے سنگین الزامات ہیں جن کے نتیجے میں انہیں سنگسار کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی عدالتوں کے زیر انتظام چلنے والے علاقوں میں سنگسار کرنے اور اعضا کاٹنے کی سزائیں عام ہیں۔ شیخ اویس کو شیخ شریف شیخ احمد کی نسبت سخت گیر شخصیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ ان کے گروپ کے دارالحکومت موغادیشو پر قبضے کے بعد سے شیخ شریف ان کی قیادت کر رہے ہیں۔ اب شیخ شریف نئی ایگزیکٹیو کونسل کے سربراہ ہیں اور یہ واضح نہیں ہے کہ ان دونوں میں سے کون سا عہدہ زیادہ طاقتور ہے۔ کچھ نامہ نگاروں کے مطابق ان دونوں دھڑوں کے درمیان طاقت کی کشمکش جاری ہے۔ شیخ شریف احمد کا کہنا ہے کہ ان کا گروپ سیاسی طاقت کا خواہشمند نہیں ہے۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ صومالیہ میں اگر اسلامی گروپوں کی حکومت بنی تو انہیں القاعدہ استعمال کر سکتی ہے۔ ان خدشات میں اضافہ اس وقت ہو گیا ہے جب ایک ایسے شخص کو سربراہ بنا دیا گیا ہے جو الاتحاد الاسلامیہ نامی تنظیم چلا رہا تھا اور جسے امریکہ نے ’دہشت گرد‘ قرار دے رکھا تھا۔ امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان سین مک کورمک نے کہا ہے کہ اگر شیخ اویس کی ترقی اسلامی کورٹس کونسل کی سمت کا اظہار ہے تو امریکہ کو اس کے بارے میں پریشانی ہے۔ شیخ اویس نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے کبھی کسی کو قتل نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’میں دہشت گرد نہیں ہوں۔ لیکن اگر اپنے مذہب کی سختی سے پیروی اور اسلام سے محبت مجھے دہشت گرد بنا دیتی ہے تو مجھے یہ خطاب قبول ہے‘۔ صدر یوسف نے نوے کی دہائی میں الاتحاد کو شکست دے کر ان کے لوگوں کو شمالی خطے سے نکال دیا۔ عام خیال یہ ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں موغادیشو کے جنگجو سرداروں کی پشت پناہی کرتا رہا ہے۔ امریکہ نے ان الزامات کی نہ ہی کبھی تردید کی ہے اور نہ ہی تصدیق۔ لیکن اس کا کہنا ہے کہ وہ ان لوگوں کی مدد کرے گا جو ’دہشت گردوں‘ کو صومالیہ میں مضبوط بننے سے روکنے کے لیئے کام کر رہے ہیں۔ امریکہ نے کہا ہے کہ وہ صومالیہ کے نئے سربراہ سے بات نہیں کرے گا جن کے اسلامی گروپ کے کنٹرول میں صومالیہ کے جنوبی علاقے کا بیشتر حصہ ہے۔ text: مسٹر اوبامہ بیس جنوری کو امریکہ کے چوالیسویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے۔ واشنگٹن میں امریکہ کے سولہویں صدر ابراہم لنکن کی یاد میں تعمیر عمارت کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر موسیقی کے ایک کنسرٹ سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر اوبامہ نےکہا کہ’امریکہ کو کئی نسلوں کے سب سے سنگین چینلنجز کا سامنا ہے اور وہ پر امید ہیں کہ امریکہ ان مشکلات پر قابو پالے گا۔‘ ابراہم لنکن نے امریکہ میں غلامی کی روایت کا خاتمہ کیا تھا۔ اس کنسرٹ کا اہتمام مسٹر اوباما کی انتخابی کامیابی کا جشن منانے کےلیے کیا گیا ہے اور اس میں دنیا کے بہترین گلوکاروں نے حصہ لیا۔ لیکن ساتھ ہی مسٹر اوباما نے کہا کہ ملک کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں وقت لگےگا اور راستہ کٹھن ہوگا۔’ لیکن اس کے باوجود میں پر امید ہوں کہ اس ملک کے بانیوں کی خواب زندہ رہے گا‘۔ امریکہ عراق اور افغانستان کی جنگوں کے علاوہ ایک شدید مالیاتی بحران سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حلف برداری کی تقریب کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ منتظمین کا خیال ہے کہ اس تقریب میں بیس لاکھ لوگ شریک ہوں گے۔ پیر کو امریکہ میں مارٹن لوتھر کنگ ڈے کے حوالے سے قومی تعطیل ہے۔انسانی حقوق کے عظیم علم بردار سیاہ فام رہنما ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ پندرہ جنوری کو پیدا ہوئے تھے اور امریکہ میں ان کی پیدائش کے نزدیک پڑنے والے جنوری کے تیسرے اتوار کو ان کی سالگرہ کی خوشی میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ امریکہ کے نو منتخب صدر باراک اوبامہ کی حلف برداری سے قبل جشن کی تقریبات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور اتوار کی شام اپنے مداحوں کے ایک بڑے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’امریکہ میں کچھ بھی ممکن ہے‘۔ text: پولیس ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ بارود سے بھری ایک گاڑی کو عین اس وقت دھماکے سے اڑا دیا گیا جب امریکی فوجی گشت کرتے ہوئے اس کے قریب سے گزرے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس دھماکے میں ایک امریکی فوجی بھی ہلاک ہوگیا ہے تاہم امریکی فوجی ترجمان اس کی تصدیق نہیں کر رہے۔ بدھ کو جاری ہونے والے امریکی اعداد و شمار کے مطابق صرف اپریل کے مہینے میں بغداد میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد 49 ہے جو کہ گزشتہ سال ستمبر کے مہینے سے لے کر اب تک کی ایک مہینے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔ عراقی اعداد و شمار کے مطابق کہ گزشتہ مہینے مرنے والے شہریوں کی تعداد تقریبا نو سو چھیاسٹھ ہے، جس میں پولیس اہلکار شامل نہیں۔ عراقی پولیس کا کہنا ہے کہ وسطی بغداد میں ایک بم حملے میں کم از کم نو شہری ہلاک اور تئیس زخمی ہو گئے ہیں۔ text: سنہ2007 میں اپنے شوہر کیون فیڈرلائن سے طلاق اور اپنے دونوں بچوں کی تحویل کھونے پر برٹنی سپیئرز کا رویہ عجیب و غریب ہوگیا تھا۔ 'دا پرنسز آف پاپ' کا لقب دی جانے والی برٹنی سپیئرز کے کیرئیر اور اس سے متعلق تمام معاملات کا اختیار ان کے قانونی گارڈیئن یا سرپرست کے ہاتھوں میں ہے۔ عدالت کی جانب سے طے کیے گئے اس معاہدے کو 'کنزرویٹرشپ' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ برٹنی سپیئرز کو 12 سال پہلے ذہنی مشکلات پیش آئیں جس کے بعد اُن کی تمام تر ذمہ داریاں ان کے سرپرست نے سنبھال لی تھی۔ گوکہ برٹنی سپیئرز اور ان کے سرپرست کے درمیان جو شرائط اور ضوابط طے پائے تھے ان کو کبھی منظر عام پر نہیں لایا گیا لیکن یہ واضح ہے کہ وہ مکمل طور پر خودمختار نہیں ہیں۔ فری برٹنی سپیئرز نامی مہم کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ لاس اینجلس کی عدالت کے باہر مظاہرہ کریں گے۔ 'دا بلاسٹ' نامی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ 38 برس کی برٹنی سپیئرز بدھ کو انٹرنٹ کے ذریعے لاس اینجلس میں ہونے والی سماعت میں حصہ لے گیں جس میں ان کے مالی معاملات، ذاتی زندگی اور ذہنی صحت سے متعلق بحث ہوگی۔ کنزرویٹرشپ ہوتی کیا ہے؟ عدالت میں طے پائے جانے والے ایک معاہدے کے تحت برٹنی سپیئرز نے سنہ 2008 سے اپنے کرئیر اور مالی معاملات سے متعلق خود فیصلے نہیں کیے ہیں۔ عدالت کنزرویٹرشپ کی اجازت ان افراد کو دیتی ہے جو خود اپنے فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر ڈیمنشیا یا ذہنی طور پر بیمار افراد کے لیے اس طرح کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر گزشتہ تقریباً 12 برس سے برٹنی کے والد اور ان کے وکیل نے ان کے کرئیر، ذاتی زندگی اور مالی معاملات کو سنبھالا ہوا ہے۔ اس معاہدے میں یہ بات تک شامل ہے کہ وہ کتنے لوگوں سے ملاقات کرسکتی ہیں اور اپنے علاج کے لیے کب اور کس ڈاکٹر سے مشورہ یا بات کریں گی۔ ان کے مالی اثاثوں کی تفصیلات عدالت کے پاس موجود ہے۔ 'بزنس انسائڈر' نامی ویب سائٹ کے مطابق 2018 میں پاپ سٹار برٹنی سپیئرز کی مالیت 59 ملین امریکی ڈالر تھی جس میں سے انہوں نے 1 .1 ملین ڈالر اسی برس عدالتی کارروائی اور اپنے سرپرست کی فیس پر خرچ کردیئے تھے۔ مارچ 2019 میں ان کے وکیل اینڈریو والٹ اپنے عہدے سے یہ کہہ کر مستعفی ہوگئے تھے کہ ’برٹنی سپیئرز نے جس مدد کا مطالبہ کیا ہے اگر وہ ان کو یک طرفہ طور پر فراہم نہیں کرائی جاتی تو ان کو ذاتی طور پر خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور ان کے اثاثوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے'۔ گزشتہ ستمبر میں برٹنی سپیئرز کے والد جیمی سپیئرز نے ' اپنی صحت کے مسائل' کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے عہدے سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ اس کے بعد عدالت نے برٹنی سپیئرز کا خیال رکھنے کے لیے ان دونوں سرپرستوں کی جگہ جوڈی مونٹگومری کو ' کئیر مینیجر' مقرر کیا تھا۔ عدالت کے دستاویزات کے مطابق برٹنی کے والد اپنے عہدے سے علیحدگی کو ایک عبوری قدم سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک دن غصے میں اپنے نواسے کو پکڑ کر بری طرح جھنجھوڑا تھا۔ فی الحال جوڈی مونٹگومری 22 اگست تک برٹنی کے کنزرویٹر یا گارڈئین کے عہدے پر قائم رہیں گی۔ 22 اگست کو اُن کے عہدے میں توسیع سے متعلق فیصلہ ہونا ہے۔ برٹنی کو کنزرویٹر کے ضرورت کیوں پڑی؟ 2007 میں شوہر کیون فیڈرلائن سے طلاق کے بعد اور اپنے دونوں بچوں کی تحویل نہ ملنے پر برٹنی سپیئرز کا رویہ عجیب و غریب ہوگیا تھا۔ ان کے اس مبینہ عجیب و غریب رویے کی بعض مثالیں عوامی سطح پر بھی دیکھنے کو ملیں۔ ایک بار جب انہوں نے اپنا سر منڈوایا تو پوری دنیا کی میڈیا میں یہ خبر شہہ سرخی بنی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک بار ایک پاپارازی فوٹوگرافر کی کار پر اپنی چھتری سے حملہ کیا۔ اپنے اس رویے کی وجہ سے وہ کئی بار بحالی مراکز بھی گئی ہیں۔ اپنے دونوں بیٹوں کو پولیس کو حوالے نہ کرنے پر ہونے والی جھڑپ کے بعد انہیں ذہنی علاج کے لیے بھیج دیا گیا تھا۔ اس کے بعد 2008 میں عدالت نے ان کی ذمہ داری ان کے دو سرپرستوں کے حوالے کردی۔ لیکن اس دوران برٹنی سپیئرز باقاعدگی سے اپنا کام کرتی رہیں۔ انہوں نے تین میوزک ایلبم جاری کیں اور متعدد بار ٹی وی اٹنریو بھی دیے۔ فری برٹنی سپیئرز مہم آخر ہے کیا؟ برٹنی سپیئرز کے بعض مداحوں کا کہنا ہے کہ انہیں زبردستی اس معاہدے کے لیے مجبور کیا گیا۔ ان کا دعوی ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے مدد کی اپیل کر رہی ہیں۔ 'نیویارک ٹائمز' اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق 'فری برٹنی سپیئرز' کا نعرہ 2009 میں برٹنی سپیئرز کے مداحوں کی ایک ویب سائیٹ جو عدالت کے فیصلے سے اختلاف رکھتی تھی انہوں نے استعمال کرنا شروع کیا۔ اس مہم میں اُس وقت دوبارہ شدت آئی جب گزشتہ برس برٹنی سپیئرز ذہنی امراض کے مرکز میں داخل ہوئيں۔ اُس وقت اُن کی ذہنی حالت کی اہم وجہ ان کے والد کی صحت سے متعلق تشویش بتائی گئی تھی۔ 'فری برٹنی سپیئرز' مہم چلانے والے افراد اب امریکی صدر سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ برٹنی کی کنزرویٹرشپ کو ختم کیا جائے۔ وائٹ ہاؤس میں گزشتہ ماہ اس سے متعلق ایک پٹیشن یا عرضی داخل کی گئی جس میں 125،000 افراد نے دستخط کیے تھے۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ مہم جاری ہے۔ اس بارے میں برٹنی سپیئرز کا کیا کہنا ہے؟ اس مہم کے بارے میں خود گلوکارہ نے کچھ نہیں کہا ہے لیکن حال ہی میں وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے مداحوں کو یہ یقین دہانی کراتی رہی ہیں کہ وہ صحیح سلامت ہیں۔ انہوں نے اپنے مداحوں سے 'ہر کہی سنی بات' پر یقین نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ گزشتہ مئی میں انسٹاگرام پر اپنی ایک ویڈیو میں انہوں نے کہا تھا ' آپ میں سے جن لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ میں خود اپنی ویڈیو پوسٹ نہیں کرتی وہ غلط ہیں'۔ ان کے وکیل نے لاس اینجیلس ٹائمز کو بتایا تھا کہ برٹنی سپیئرز اپنے کیرئیر سے متعلق فیصلوں میں برابر شریک ہوتی ہیں۔ اس برس اپریل میں انہوں نے انسٹاگرام پر ایک پوسٹ میں بتایا تھا کہ غلطی سے انہوں نے اپنے گھر میں اپنا جم نظر آتش کردیا۔ اس کے بعد ان کے مداحوں میں تشویش پیدا ہوگئی تھی۔ ان کے قریبی ذرائع ان کے سرپرستوں سے متعلق متعدد سازشی قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے لیے کنزرویٹرشپ کا انتظام اس لیے کیا گیا تھا تاکہ وہ برٹنی سپیئرز کے طویل مدتی ذہنی مسائل کو حل کرنے میں مدد کرسکیں۔ اس ماہ پاپ گلوکارہ نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر لکھا تھا: 'مجھے اندازہ ہے کہ بعض لوگوں کو میرے پیغامات پسند نہ آئیں یا وہ ان کو سمجھ بھی نہ پائیں۔ لیکن یہ میں ہوں۔ بالکل خوش۔ یہ میں ہوں- اتنی ہی مستند اور اتنی ہی اصل جتنا ممکن ہے'۔ اس بارے میں اس وقت کیوں بات ہورہی ہے؟ کنزرویٹرشپ سے متعلق 22 جولائی کو ہونے والی عدالت کی سماعت کے موقع پر ایک بار پھر یہ معاہدہ اور 'فری برٹنی' مہم دونوں زیر بحث ہیں۔ 'دا بلاسٹ' نامی ویب سائٹ نے عدالت کے جو دستاویزات دیکھے ہیں ان کے مطابق برٹنی سپیئرز کی والدہ ان کے مالی معاملات کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہیں خاص طور سے اس فلاحی تنظیم کا جو برٹنی نے اپنے دونوں بیٹوں کے نام پر بنائی ہے۔ ایک گم نام ذرائع نے ' انٹرٹینمنٹ ٹونائٹ' نامی ویب سائٹ کو بتایا ہے کہ برٹنی سپیئرز کو 'واقعی اس بات پر یقین ہے کہ ان کی والدہ ان کی مدد کرنا چاہتی ہیں تاکہ اُن کا اپنے مالی معلامات پر زیادہ اختیار ہو'۔ معروف امریکی پاپ گلوکارہ برٹنی سپیئرز کے مداح یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ عدالت ان کو اپنے مالی اور ذاتی معاملات پر مکمل اختیار دے۔ text: ان میں سے ایک اسرائیلی عرب جنھیں اسرائیلی جاسوس تصور کیے جا رہے تھے، انھیں بھی رہا کر دیا گیا ہے۔ پچھلے ماہ تقریباً پچاس غیرملکیوں کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ جس میں سے اٹلی کے ایک باشندہ کو ہلاک کر دیا گیا ہے جبکہ ڈینمارک کے ایک باشندہ کی نعش مردہ حالت میں پائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ باقی یرغمالیوں کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا گیا ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے ٹرا|ئی اینگل انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ ان کے ایک کارکن ’نبیل جورج یعقوب رزوق‘ کو بھی رہا کر دیا گیا ہے جو آٹھ اپریل کو یرغمال بنائے گئے تھے۔ آر ٹی آئی کے نائب صدر سیلی جونسن کا کہنا ہے کہ نبیل جورج یعقوب رزوق جن کا تعلق فلسطین سے ہے اور وہ اسرائیلی شناختی کارڈ کے ہمراہ یرغمال بنائے گئے تھے، انھیں جمعرات کے روز رہا کر دیا گیا ہے۔ سوئٹزر لینڈ کی وزیرِ خارجہ مک لین کالمی رے نے کہا ہے کہ ایک شادی شدہ جوڑا جو غیر حکومتی ادارے کے لئیے کام کر رہا تھا اسے منگل کے روز ایک چھوٹے گروہ نے یرغمال بنایا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ سوئیس شادی شدہ جوڑے کو تقریباً اڑتالیس گھنٹے کی تاخیر کے بعد چھوڑا گیا ہے۔ اس جوڑے کو سوئیس حکومت بغداد میں کافی گفت و شنید کے بعد رہا کرانے میں کامیاب ہو گئی تھی اور ان دونوں نے عراق میں اپنا کام ایک بار پھر شروع کر دیا ہے۔ سیمنس اور جی ای جو عراق میں بجلی اور ٹیلی کمیونیکیشن کا کام کر رہی ہے، بغداد میں خراب حالات کی وجہ سے اپنا کام معمول کے مطابق نہیں کر پا رہی ہیں۔ اس وجہ سے دونوں اداروں نے اپنا کام کچھ عرصے کے لیئے معطل کر دیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بغداد کے ضلع ادہمیا میں خرایداری کرتے ہوئے ایک غیر ملکی ہلاک ہو گیا ہے۔ پولیس کے ایک اعلی افسر کا اس بارے میں مزید کہنا ہے کہ اس پر یہ حملہ اس وقت ہوا جب ایک نامعلوم دہشت گرد نے اچانک اس کے سامنے آ کر اپنی کلاشنکوف سے فائر کر دیا جس کے نتیجے میں غیر ملکی موقع پر ہلاک ہو گیا۔ گزشتہ ہفتے کے دوران اغواء ہونے والے غیر ملکی افراد میں سے تین یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ text: کیفے متوسط طبقے، سفارتی برادری اور غیر ملکیوں میں خاصا مقبول ہے شدت پسندوں نے جمعے کی شب دارالحکومت ڈھاکہ میں ہولے آرٹیسن بیکری کیفے پر حملہ کرکے متعدد افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔ حملے کے 12 گھنٹے بعد فوجی دستے کیفے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔ حکومتی ترجمان کے مطابق کمانڈوز کی کارروائی میں چھ شدت پسندوں کو ہلاک جب کہ ایک کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ حملے کی ذمہ داری دولتِ اسلامیہ نے قبول کی ہے۔ ٭ڈھاکہ میں غیر ملکیوں سمیت متعدد یرغمال: تصاویر ٭ بنگلہ دیش میں شدت پسندی عروج پر شدت پسندوں نے جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب دارالحکومت ڈھاکہ میں ایک کیفے پر حملہ کرکے کم از کم 20 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں کئی غیر ملکی باشندے بھی تھے بنگلہ دیش کی فوج کے بریگیڈئر جنرل نائم اشرف چوہدری کے مطابق 13 یرغمالیوں کو رہا کروا لیا گیا ہے۔ رہا ہونے والوں میں ایک جاپانی اور سری لنکا کے دو شہری شامل ہیں۔ ہولی آرٹیسین بیکری کیفے میں زیادہ تر افراد اطالوی تھے جبکہ کچھ جاپانی تھے۔ اٹلی کی نیوز ایجنسی انسا کے مطابق اس حملے میں اٹلی کے ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد دس کے قریب ہو سکتی ہے۔ حکومت بنگلہ دیش سے ہر قسم کی دہشت گردی اور شدت پسندی کو ختم کرنے کے لیے پر عزم ہے ادھر جاپانی کابینہ کے نائب سیکریٹری کوئچی ہیگودا کا کہنا ہے کہ حملے کے وقت کیفے میں سات جاپانی موجود تھے تاہم ابھی معلوم نہیں کہ ان میں سے کتنے زخمی یا ہلاک ہوئے ہیں۔ بھارتی وزیرِ خارجہ نے اس حملے میں ایک نوجوان بھارتی خاتون کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ رہا ہونے والے 13 یرغمالیوں میں دو سری لنکن بھی شامل ہیں۔ ابتدا میں بنگلہ دیشی فوج نے کہا تھا کہ ہلاک ہونے والے تمام 20 یرغمالی غیر ملکی تھے تاہم بعد میں یہ خبریں موصول ہوئیں کہ ہلاک شدگان میں بنگالی بھی شامل ہیں۔ خود کو دولت اسلامیہ کہنے والی شدت پسند تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے پویس کے ایک ترجمان نکے مطابق حملہ آوروں اور پولیس کے درمیان فائرنگ کے نتیجے میں دو پولیس افسر ہلاک جب کہ 30 کے قریب زخمی ہوئے۔ دولتِ اسلامیہ سے منسلک نیوز ایجنسی عماق کے مطابق تنظیم کے جنگجوؤں نے ایک ریستوران پر حملہ کیا جہاں اکثر اوقات غیر ملکی آتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ نے ٹی وی پر ایک بیان میں کہا ’یہ ایک وحشیانہ عمل تھا۔ یہ کیسے مسلمان ہیں؟ ان کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ حکومت بنگلہ دیش سے ہر قسم کی دہشت گردی اور شدت پسندی کو ختم کرنے کے لیے پر عزم ہے۔‘ دوسری جانب جاپان کی کابینہ کے نائب چیف سیکریٹری کا کہنا ہے کہ بنگہ دیشی کمانڈوز کی کارروائی میں ایک جاپانی شہری زخمی ہوا جب کہ کیفے میں سات جاپانی شہری موجود تھے۔ انھوں نے بتایا کہ حکومت کا اپنے شہریوں سے ابھی تک رابطہ نہیں ہوا۔ ادھر اٹلی کے میڈیا نے ڈھاکہ میں موجود اٹلی کے سفیر ماریو پالما کے حوالے سے بتایا ہے کہ کیفے پر حملے کے وقت اٹلی کے سات شہری موجود تھے۔ کیفے کے پاس رہائشیوں کا کہنا ہے کہ فوجیوں کی آمد کے بعد اس عمارت سے گولیوں کی آوازیں سنی بنگہ دیش کے حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ فوج اور نیوی کے کمانڈوز نے کیفے میں کارروائی کی اور انھیں پولیس اور بارڈر گارڈز کی مدد حاصل تھی۔ ڈھاکہ کیفے کے سپروائزر ثمن رضا کا کہنا ہے کہ جب حملہ ہوا تو وہ وہاں موجود تھے تاہم وہ بھاگ کر کیفے کی چھت پر چلے گئے۔ انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ جب شدت پسدووں نے دھماکہ خیز مواد استعمال کیا تو پوری عمارت لرز اٹھی اور وہ چھت سے کود کر بھاگ گئے۔ جائے وقوع سے بی بی سی کے نامہ نگار نے بتایا ہے کہ سنیچر کی صبح گولیاں چلنے کی آوازیں بھی سنی گئیں۔ نامہ نگار ولی الرحمن نے بتایا کہ پولیس اور بنگلہ دیش کے نیم فوجی دستوں کے ساتھ فوج اور بحریہ کے کمانڈوز نے اس آپریشن کی سربراہی کی۔ بنگلہ دیش کے اخبار ڈیلی سٹار کے مطابق کئی بندوق بردار ہولی آرٹیشن بیکری میں داخل ہوئے اور انھوں نے فائرنگ شروع کر دی ریپیڈ ایکشن بٹالین کے ایک کمانڈر محمد محسود نے خبر رساں ادارے اے کو بتایا ’جب مسلح افراد کو مذاکرات کی آفر کی گئی تو انھوں نے کوئی کوئی جواب نہیں دیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ گلشن ڈسٹرکٹ کے علاقے میں واقع کیفے میں آٹھ سے نو حملہ آوروں نے متعدد افراد کو یرغمال بنا لیا جن میں غیر ملکی بھی شامل تھے۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی نے اٹلی کی وزارتِ خارجہ کے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان کے خیال میں اٹلی کے شہری بھی یرغمال بنائے گئے افراد میں شامل ہیں۔ پویس کے ایک ترجمان کے مطابق حملہ آوروں اور پولیس کے درمیان فائرنگ کے نتیجے میں دو پولیس افسر ہلاک جب کہ 30 کے قریب زخمی ہوئے اطلاعات کے مطابق جس کیفے میں فائرنگ کی گئی ہے وہ متوسط طبقے، سفارتی برادری اور غیر ملکیوں میں خاصہ مقبول ہے۔ بنگلہ دیشی روزنامہ ڈیلی سٹار کے مطابق حملہ آوروں نے ہر اس شخص کو نشانہ بنایا جو قرآن نہیں پڑھ سکتا تھا۔ حملہ آوروں نے رات بھر صرف بنگالی افراد کو کھانا دیا۔ بنگلہ دیش کی فوج کا کہنا ہے کہ دارالحکومت ڈھاکہ کے کیفے پر مبینہ طور پر خود کو دولتِ اسلامیہ کہلانے والی تنظیم کے حملے میں ہلاک ہونے والے 20 یرغمالی افراد میں سے بیشترغیرملکی تھے۔ text: لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے اور اس بات کو ’معذوری کا تضاد‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جائزوں کے مطابق معذور لوگ مسلسل یہی بتاتے ہیں کہ وہ ایک اچھی زندگی گزار رہے ہیں اور اکثر عام لوگوں سے زیادہ خوش ہیں۔ جسمانی خرابی اکثر زندگی کے معیار پر بہت کم اثر انداز ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، ریسرچ کے مطابق جو لوگ ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ سے متاثر ہیں ان کی خوشی ان کی جسمانی صلاحیت سے منسلک نہیں ہے۔ انسان کی خوشی کمزور نظر، چلنے کی قوت یا دوسرے لوگوں پر انحصار کرنے سے منسلک نہیں ہوتی۔ اگر آپ ایک لمحے کے لیے اس کے بارے میں سوچتے ہیں تو آپ کو احساس ہوگا کہ معذور لوگوں کے پاس موازنہ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ جس کی نظر یا سماعت نہیں ہے اس نے کبھی موسیقی نہیں سنی یا قدرتی مناظر نہیں دیکھے۔ جب زندگی کبھی مشکل بھی ہو تو ہمیں اس میں جینے کی عادت ہو جاتی ہے۔ جو لوگ معذور ہو جاتے ہیں وہ اکثر بعد میں ایک جیسے ہی تجربے سے گزرتے ہیں اور یہ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ میں 2008 میں مفلوج ہوا تھا اور میں نے سیکھا کہ چوٹ یا بیماری کے فوراً بعد انسان غم کا شکار ہو سکتا ہے اور یہاں تک کہ خودکشی کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ وہ اپنی صورت حال اور اپنے رویے کا پھر سے جائزہ لیتے ہیں اور کبھی کبھی پہلے سے بھی زیادہ کامیابیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کو وہ حیرت انگیز اولمپک کھلاڑی یاد ہوں گے جوکسی نہ کسی جسمانی کمی کا شکار تھے ۔۔۔ حیاتیات اور اخلاقیات کے ماہرین کبھی کبھی دوسرے الفاظ میں ان لوگوں کو ’خوشی کا غلام‘ کہتے ہیں جن کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ وہ اس لیے خوش ہیں کیونکہ وہ کچھ اور نہیں جانتے۔ شاید معذور لوگ خود کو یا دوسروں کو دھوکا دے رہے ہیں۔ بہرحال ان لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خود سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ لیکن ایسی وضاحتیں لوگوں کو نیچا دکھاتی ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سب غلط ہیں۔تحقیق کے مطابق حادثے یا صدمے کے بعد اکثر لوگ اور ان کی زندگی کا معیار تقریباً وہی ہوجاتا ہے جو پہلے تھا۔ اگر معذور لوگوں کی خود کے بارے میں رائے درست ہے تو ہمیں ’معذوری کے تضاد‘ کو بہتر انداذ میں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سب سے پہلے تو معذور شخص کے ذہن میں ہونے والے نفسیاتی عمل کو سمجھنا ضروری ہے۔ انسان اپنےحالات کے مطابق بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے جیسے چھوٹی چیزوں میں تسلی اور خاندان اور دوستوں کے ساتھ تعلقات سے خوشی۔ شاید معذور لوگوں کے بارے میں ہمارے خیالات بھی خوف، کم معلومات یا تعصب پر مبنی ہیں۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ مشکلات کی وجہ سے لوگ ناخوش ہوتے ہیں۔ زندگی کے کئی پہلوؤں کی طرح کچھ بنیادی عوامل ہیں جن سے حقیقی فرق پڑتا ہے۔ بد قسمتی سے مختلف معاملات میں معذور افراد کی صورت حال بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ ایک فلاحی ادارے کے مطابق حکومت کے اخراجات میں کمی کے سبب معذور افراد کی زندگی پر ایک انتہائی غیر متناسب اثر پڑا ہے۔ کچھ بیماریوں اور نقائص سے کم یا زیادہ تکلیف ہوتی ہے جیسے کہ ڈیپریشن۔ یہ بھی سچ ہے کے عام طور پر معذور لوگوں کے پاس کم اختیارات ہوتے ہیں لیکن میرا کہنا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ معذور ہونے کو ہم المیہ کے طور پر سمجھیں۔ ایک بات یاد رکھیں کہ مسائل ہمارے وجود سے جڑے ہوئے ہیں۔ پیدا ہونے کے معنی ہی یہ ہیں کہ ایک دن موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کبھی کبھی ایک مشکل زندگی ہم کو احساس دلاتی ہے کے زندگی میں معنی رکھنے والی اصل جیزیں کیا ہیں۔ اگر ہم ہمیشہ یہ یاد رکھیں گے تو ہم معذورافراد کے بارے میں کم متعصب ہوں گے۔ یہ مضمون بی بی سی ریڈیو کے انگریزی پرورگام ’اے پوائنٹ آف ویو‘ یا ’ایک نکتہِ نظر‘ سے لیا گیا ہے۔ کیا آپ کو کبھی خیال آیا ہے کہ ’معذور ہونے سے بہتر ہے کہ میں مر ہی جاوں؟‘ یہ ایک عجیب سوچ نہیں ہے۔ عام طور پر معذوری کو ناکامی اور بیکاری کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔ ہم معذور افراد کے بارے میں اکثر افسوس کرتے ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی زندگی غمزدہ ہو گی۔ text: فائنل کا نتیجہ غیر متوقع تھا کیونکہ ہالینڈ کی ٹیم فائنل جیتنے کے لیے فیورٹ تھی۔ تاہم سپین کے کھلاڑیوں نے زبردست کھیل کا مظاہرہ کیا اور تمام میچ میں چھائے رہے۔ پہلے ہالف کے ختم ہونے پر سپین صفر کے مقابلے میں ایک گول سے جیت رہا تھا۔یہ گول پاء کیومادا نے اٹھارویں منٹ میں پینلٹی کارنر پر کیا۔ ہالینڈ نے دوسرے ہالف میں پینلٹی کارنر پر گول کر کے میچ برابر کر دیا۔ تاہم سپین ٹیم نے ہالینڈ کے گول پوسٹ پر حملے جاری رکھے۔ سپین نے دوسرا گول بیالیسویں منٹ میں پینلٹی کارنر پر کیا۔ یہ گول سینتی آگو فریکزا نے کیا۔ تیسرا گول وِکٹر سوجو نے کیا۔ یہ فیلڈ گول تھا۔ ساٹھویں منٹ میں ہالینڈ کے کیرل کلیور نے فیلڈ گول کر کے سپین کی برتری کم تو کی تاہم سپین کے فارورڈ سینتی آگو فریکزا نے ایک اور فیلڈ گول کر کے اپنی ٹیم کی فتح پر مہر ثبت کی۔ سپین اور ہالینڈ کے کھیل میں فرق پینلٹی کارنر کی تعداد سے بھی ظاہر ہے۔ ہسپانیہ نے چار جبکہ ہالینڈ نے صرف ایک پینلٹی کارنر حاصل کیا۔ سپین کے کوچ مورخ ہینڈرکس اور کپتان جون ایسکارا نے اپنی جیت کو ٹیم کی مجموعی کوشش قرار دیا۔ سپین کے کوچ کے مطابق ہالینڈ نے گول کرنے کے کئی مواقع ضائع کیے جس کی قیمت انہیں شکست کی صورت میں ادا کرنی پڑی۔ ہالینڈ فائنل تو ہار گیا لیکن مین آف دی ٹورنامنٹ ہالینڈ کے کھلاڑی کیرل کلیور کو قرار دیا گیا۔ سپین نے اتوار کو ہالینڈ کی ٹیم کو دو کے مقابلے میں چار گول سے ہرا کر پہلی مرتبہ چمپئنز ٹرافی جیت لی۔ text: خیال رہے کہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان رواں ماہ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ ایران کے معاہدے پر اسرائیل کی مذمت ایران کی امریکہ پر بےاعتباری کیوں ؟ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فیڈریکا موگیرینی ایران کے وزیراِ خارجہ جاوید ظریف اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کریں گی۔ گذشتہ روز وہ سعودی عرب میں موجود تھیں۔ جہاں انھوں نے اپنے بیان میں ایران کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کو مضبوط اور ٹھوس قرار دیا۔ تاہم سعودی وزیرِ خارجہ عادل الجبیری نے اس معاہدے پر تنقید کی۔ ادھر تہران میں ان کے بیان کو اشتعال انگیز بیان کہا جا رہا ہے۔ ایران کے حوالے سےسعودی حکومت کے یہ بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آرہے ہیں جب مغربی ممالک کے اعلیٰ حکام ایران اور خلیجی ممالک کا دورہ کر رہے ہیں۔ ایک روز قبل ہی ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے سعودی عرب کے اتحادی بحرین پر الزام لگایا تھا کہ ان کی جانب سے اس پر بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ بحرین کی وزارتِ داخلہ نے دو افراد کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا تھا جن پر الزام تھا کہ انھوں نے ایران سے اسلحہ سمگل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے جواب میں سعودی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ایسے بیانات ان ممالک کی ترجمانی نہیں کرتے جو دوستانہ روابط کے خواہاں ہوں۔ انھوں نے یہ بیان کویت میں دیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ ممالک خطے میں جنگ اور تصادم چاہتے ہیں۔ اس سے قبل امریکی سیکریٹری دفاع ایشٹن کارٹر نے بھی سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ اسی طرح فرانسیسی وزیرِ خارجہ بھی بدھ کو ایران پہنچ رہے ہیں۔ فیڈریکا موگیرینی کے مطابق ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں وقت کے ساتھ ساتھ کم ہو جائیں گی۔ سعودی عرب اور اس کے دیگر ہمسایہ سنّی ممالک ایران کے ساتھ عالمی طاقتوں کے معاہدے پر نالاں نظر آتے ہیں اور وہ ایران پر بحرین، عراق،شام، لبنان اور یمن میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ان سنّی ممالک کے تحفظات اسرائیل سے ملتے جلتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ایران اس معاہدے کی مدد سے خطے میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکے گا۔ بہت سے ایسے ممالک بھی ہیں جنھیں یہ خدشتہ ہے کہ ایران اب بھی ایٹم بم بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگیرینی عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عملدرآمد کے سلسلے میں بات چیت کے لیے ایران پہنچ گئی ہیں۔ text: ملائیشیا کی حکومت کہتی ہے کہ یہ تنظیم ملک کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے فرماں بردار بیویاں کے کلب کے نام سے بنائی گئی ایک تنظیم نے کتاب شائع کی ہے جس میں مسلمان عورتوں کو ازدواجی تعلقات کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں۔ یہ کتاب جسے اسلام میں مباشرت کے طریقے کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے، صرف چند سو افراد کی نظر سےگزری ہے۔ اس کتاب کو عورتوں کی تحقیر کرنے اور ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص فروخت کی غرض سے اس کی کاپیاں کرنے میں ملوث پایا گیا تو اسے تین سال قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ اس کلب کے ارکان نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ یہ کتاب صرف کلب کے ممبران کو روحانی ہدایت دینے کے لیے مرتب کی گئی ہے اور اس کا مقصد انھیں جنسیات کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہے۔ اس سے قبل اس کلب نے کہا تھا کہ عورتوں کو اپنے شوہروں سے خلوت میں ’اعلی درجے کی داشتاوں‘ کے طور پر پیش آنا چاہیے تاکہ وہ کسی دوسری عورت سے تعلقات اور تشدد سے باز رہیں۔ ملائیشیا کی حکومت کہتی ہے کہ یہ تنظیم ملک کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔ ملائیشیا کے حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر کسی کے پاس یہ کتاب ہوئی تو اسے سولہ سو امریکی ڈالر جرمانہ کیا جائے گی۔ ملائیشیا میں حکومت نے مسلمان خواتین کی ایک تنظیم کی جانب سے ازدواجی تعلقات کے بارے میں ہدایت پر مشتمل ایک متنازع کتاب کی اشاعت اور فروخت پر پابندی لگا دی ہے۔ text: پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کی جانب سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت تنقیدی بیانیہ سامنے آیا جس کے تانے بانے گزرے ہوئے برسوں کی سیاست سے جڑے واقعات سے جا کر ملتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے 20 ستمبر کو حزب اختلاف کی آل پارٹیز کانفرنس اور دو اکتوبر کو اپنی جماعت کے رہنماؤں سمیت ورکرز سے کیے گئے خطابات میں کچھ ایسے دعوے کیے جن پر مخالف حلقوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ ن نے یہ بیانیہ اس لیے اپنایا کیونکہ وہ احتساب کے عمل میں نرمی چاہتے ہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کے قائد کی طرف سے کیے جانے والے انکشافات اب اس لیے سامنے آ رہے ہیں کیونکہ ناانصافی اور پاکستانی سیاست میں ’پولیٹیکل انجنیئرنگ‘ کا دخل حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’یہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ سنہ 2013 میں ہمارے اقتدار میں آتے ہی شروع ہو گیا تھا۔ سیاست میں مداخلت کرنے والے چند طاقتور ملکی اداروں نے عمران کا 2014 کا جلسہ سٹیج کرنے کے بعد یہ سوچ لیا تھا کہ انھیں اگلے الیکشن میں وزیر اعظم لانا ہے۔‘ یہ بھی پڑھیے ’اداروں کے درمیان ٹویٹس پر بات نہیں ہوتی‘ ڈان لیکس میں کب کیا ہوا ’ڈان لیکس‘: طارق فاطمی نے الزامات مسترد کر دیے ڈان لیکس: حکومتی نوٹیفیکشن مسترد کرنے والی ٹویٹ واپس ’حکومت مریم کو بچانے میں کامیاب رہی‘ یاد رہے کہ میاں محمد نواز شریف پہلے ہی عمران خان کے سنہ 2014 کے دھرنوں اور ان کی حکومت کو گرانے کی ذمہ داری براہ راست اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی ظہیر الااسلام پر عائد کر چکے ہیں۔ دوسری جانب ماہرین کا خیال ہے کہ 2016 میں سامنے آنے والی ایک خبر جسے ’ڈان لیکس‘ کا نام دیا گیا، اس وقت کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو افشا کرنے کا سبب بنی۔ ڈان لیکس: کب کیا ہوا؟ ڈان لیکس اور پاکستانی سیاست مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید کا بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’سنہ 2016 سے لے کر اب تک ہونے والے واقعات کو دیکھا جائے تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ڈان لیکس پر ایکشن لینے کے باوجود بھی نواز شریف کے کسی عمل کو اچھے انداز میں نہیں دیکھا گیا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اس کے بعد ان کے لیے مزید مشکلات بڑھا دی گئیں۔ ان کے خلاف مقدمے چلائے گئے، انھیں عدالت نے دباؤ میں آ کر سزا سنائی، دو مرتبہ جیل بھیج دیا گیا، انھیں سیاست سے دور کرنے کی کوشش کے علاوہ، ان کی اپنی پارٹی کی صدارت ان سے چھین لی گئی۔ یہی نہیں 2018 کے انتخابات میں جعلسازی سے عمران خان کو لایا گیا۔‘ تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا اس معاملے پر کہنا ہے کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈان لیکس کے بعد سے اب تک پاکستانی سیاست کی شکل تبدیل ہوئی ہے لیکن ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ صرف ڈان لیکس ہی مسلم لیگ ن اور ان کی حکومت کے لیے مشکلات کا سبب بنی۔‘ ’اس خبر کے منظر عام پر آنے سے پہلے ہی سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کئی اختلافات پائے جاتے تھے۔ تاہم ڈان لیکس سے دونوں کے مابین پائی جانے والی محاذ آرائی کھل کر سامنے آ گئی۔ کیونکہ ایسی میٹنگز تو ہوتی رہتی ہیں لیکن یہاں مسئلہ یہ بنا کہ اس میٹنگ کی خبر لیک ہو گئی جس پر فوج نے یہ کہا کہ یہ خبر حکومت نے لیک کروائی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’شروع میں اس معاملے میں مریم نواز کا نام بھی سامنے آیا لیکن اس کے بعد چوہدری نثار اور جنرل راحیل شریف کے درمیان یہ طے ہو گیا تھا کہ ان کا نام نہیں لیا جائے گا اور بعد میں ان کا نام اسی وجہ سے نکال دیا گیا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ ڈان لیکس ایک ’ٹرگر پوائنٹ‘ یا چنگاری تھی۔ کیونکہ اس سے پہلے ہی نواز شریف اور فوج کے درمیان انڈیا کے معاملے پر اختلافات تھے، ملک کے اندرونی معاملات سمیت خارجہ امور پر بھی اختلافات تھے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’اس کے علاوہ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جب ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ بھی ہو گئی اور اس پر عمل بھی ہو گیا تب بھی ان کے معاملات درست نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ موجودہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے ساتھ بھی ڈان لیکس کے معاملے پر نواز شریف کا مسئلہ سامنے آیا۔‘ ’اس ساری محاذ آرائی کا نتیجہ 2018 کے الیکشن میں دیکھا گیا جو مسلم لیگ ن کا الزام ہے۔ لوگوں کی وفاداریاں بدلی گئیں، اس میں یقیناً کوئی نا کوئی تو خفیہ ہاتھ ملوث تھا۔‘ انھوں نے موجودہ سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آنے والے دنوں میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تصادم ہونے کا خدشہ ہے جبکہ اسے روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ ’یہاں اس بات کو بھی سمجھنا بہت ضروری ہے کہ آج کل جو ہو رہا ہے اس کی ٹائمنگ انتہائی معانی خیز ہے کیونکہ یہ ایسا پوائنٹ ہے کہ میاں نواز شریف حکومت کو زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‘ ’جس طرح وہ کھل کر سامنے آئے اور تنقید کی اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں شاید کوئی امید ہے یا پھر انھوں نے یہ سوچا کہ آگے سینیٹ کے الیکشن ہیں تو اس سے پہلے پہلے عمران خان کی پارٹی کو روکنا ضروری ہے۔‘ 'حکومت اور فوج کے درمیان تصادم ختم کرنے کے لیے استعفی دیا' ڈان لیکس کی خبر سامنے آنے کے بعد افواج پاکستان کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ جبکہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی انکوائری سامنے آنے بعد اس وقت کے افواج پاکستان کے ترجمان جنرل آصف غفور کی طرف سے ٹویٹ کی گئی، جس میں یہ کہا گیا کہ ہم اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ اس بارے میں مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید کا کہنا تھا ’مجھے عہدے سے ہٹا دیا گیا اس کے باوجود بھی فوج کی جانب سے اس قسم کا ردعمل آنا سمجھ سے بالاتر تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈان لیکس صرف کچھ مقاصد کے حصول کے لیے کی جا رہی تھی۔ جس میں سیاسی مقاصد کے ساتھ ساتھ جنرل راحیل کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ بھی شامل تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’وہ چاہتے تھے کہ انھیں مدت ملازمت میں توسیع دی جائے جس پر میں نے خود اپنی پارٹی کے سامنے یہ پیشکش کی کہ ڈان لیکس کے معاملے پر میں اپنے عہدے سے استعفی دیتا ہوں تاکہ یہ لوگ اپنے مقاصد میں کامیاب نا ہو سکیں۔‘ دوسری جانب سابق لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کا اس بارے میں کہنا ہے کہ یہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ جنرل راحیل شریف تو پہلے ہی یہ کہہ چکے تھے کہ میں مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتا ہوں۔ جبکہ یہ لوگ خود انھیں کہتے تھے کہ آپ نے بہت اچھے کام کیے ہیں اس لیے ہم آپ کو ترقی دینا چاہتے ہیں۔ کیا پاکستانی سیاست پر ڈان لیکس کے اثرات اب بھی موجود ہیں؟ مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید کے مطابق آج بھی موجودہ حکومت کے وزیر داخلہ یہ بات کہتے ہیں کہ نواز شریف تین چار لوگوں کی باتوں میں نا آجاتے تو چوتھی دفعہ وزیر اعظم ہوتے۔ ’وہ یہ بتا رہے ہیں کہ اس ملک میں وزیر اعظم کا بننا اور ان کا ہٹائے جانا اس لیے نہیں ہوتا تھا کہ لوگ آپ کو منتخب کرتے ہیں یا نہیں بلکہ اس لیے ہوتا ہے کہ آپ نے کسی کی بات مانی یا نہیں مانی۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے سیاسی معاملات اس وقت تک درست نہیں ہو سکتے ہیں جب تک اس بات کا عہد نہ کر لیا جائے کہ اس ملک کے انتخابات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جب تک یہ نہ مان لیا جائے کہ تمام سیاسی جماعتیں محب وطن ہیں اور پاکستان کی عوام کی خدمت اور ان کی ترجمانی کرتی ہیں، اس کے بعد پاکستانی عوام جسے چاہیں حق حکمرانی دے دیں۔‘ پاکستانی سیاست میں حالیہ دنوں میں ایک ایسا سیاسی ارتعاش پیدا ہوا ہے جو کم از کم گذشتہ دو برسوں کے دوران دیکھنے میں نہیں آیا۔ text: اس جزیرے کے بارے میں یہ تحفظات پائے جاتے ہیں کہ وہ محفوظ نہیں ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جمعے کے دن تقریباً 1600 پناہ گزینوں کو بھیسن چر جزیرے کی طرف لے جایا گیا۔ اس جزیرے پر سیلاب کے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں۔ تاہم بنگلہ دیش نے واضح کیا ہے کہ جن پناہ گزینوں کو اس جزیرے پر منتقل کیا گیا ہے ان سے پہلے کی اس کی پیشگی اجازت لی گئی تھی۔ روہنگیا کے پناہ گزین یہ بھی پڑھیے روہنگیا مسلمانوں کا درد روہنگیا جائیں تو جائیں کہاں؟ ’موجودہ بحران کے ذمہ دار روہنگیا ہیں‘ بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں نے اکتوبر میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ اس جزیرے پر منتقل نہیں ہونا چاہتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مؤقف ہے کہ جمعے کے دن بھی ان پناہ گزینوں کو اس 'غیر محفوظ‘ جزیرے پر ان کی مرضی کے بغیر لے جایا گیا ہے۔ بھیسن چر جزیرے میں بنائی گئیں 14 سو سے زائد رہائش گاہیں۔۔ جہاں کئی خاندان مشترکہ واش روم استعمال کریں گے ہیومن رائٹس واچ کے مطابق انھوں نے بنگلہ دیش میں مقیم 12 روہنگیا پناہ گزینوں کے خاندانوں سے بات کی ہے، جن کا نام جانے والوں کی فہرست میں شامل ہے تاہم ان کا مؤقف تھا کہ وہ اس جزیرے پر منتقل ہونے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کی منتقلی کے بارے میں اس کے ساتھ محدود اطلاعات شئیر کی گئی ہیں۔ بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ عبدالمومن نے جمعرات کو وضاحت دی ہے کہ ان کی حکومت نے کسی کو بھی بھیسن چر جزیرے پر زبردستی منتقل نہیں کیا ہے اور ہمارے عزم میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ میانمار سے بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں کی اقلیت اس وقت ملک چھوڑ کر چلی گئی جب میانمار کی فوج نے تین سال قبل بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا تھا، جس کے بارے میں اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ان فوجی کارروائیوں میں دس ہزار لوگوں کا قتل کیا گیا جبکہ 730,000 لوگوں کو زبردستی ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ بڑے پیمانے پر کی جانے والی ان فوجی کارروائیوں کے بعد سے اب تک روہنگیا پناہ گزینوں کی بڑی تعداد ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کے کاکس بازار کے کیمپس میں رہنے پر مجبور ہے۔ میانمار سے ہزاروں کی تعداد میں پناہ گزین بنگلہ دیش میں آ کر رہنا شروع ہو گئے ان پناہ گزینوں میں سے 55 سال کی راشدہ خاتون نے بی بی سی کو اکتوبر میں بتایا تھا کہ بھیسن چر کو بھیجے جانے والے 300 پناہ گزینوں میں ان کے بچے بھی شامل ہیں۔ ان کے مطابق اس سال کے آغاز میں انھوں نے بنگلہ دیش جانے کی کوشش میں کئی ماہ سمندر کے اندر ہی گزارے مگر اب انھیں ان کی مرضی کے بغیر اس جزیرے کی طرف بھیجا گیا ہے۔ جب بی بی سی کے نمائندے نے اکتوبر میں اس جزیرے کا دورہ کیا تھا تو بنگلہ دیشی حکام نے یہاں بسنے والے پناہ گزینوں تک رسائی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ جمعرات کو ایک 31 برس کے شخص نے فون پر روئٹرز کو بتایا کہ اسے کاکس کے بازار سے ایک بس پر سوار کیا جا چکا ہے۔ ان کے مطابق حکام انھیں یہاں سے زبردستی لے جا رہے ہیں۔ تین دن قبل جب میں نے سنا کہ میرا خاندان بھی اس فہرست میں شامل ہے تو میں اس علاقے سے بھاگ گیا تھا مگر گذشتہ روز میں پکڑا گیا اور حکام اب مجھے جزیرے کی طرف بھیجنے کے لیے یہاں لے آئے ہیں۔ پناہ گزین بچے محمد شمسود دوزا بنگلہ دیش کے ایک سرکاری افسر ہیں جو ان پناہ گزینوں کے نگران بھی ہیں کا کہنا ہے کہ یہ منتقلی رضاکارانہ طور پر کی جا رہی ہے۔ وہ (پناہ گزین) وہاں خوشی خوشی سے جا رہے ہیں۔ کسی پر کوئی زور زبردستی نہیں کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق حکومت کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھا رہی ہے بشمول اس جزیرے کے رہائشی پناہ گزینوں کی آرام دہ رہائش اور ضروریات کے لیے بھی تمام ذرائع بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ 1440 مکانوں کی تعمیر کا کام اس جزیرے پر 2018 میں شروع کیا گیا تھا بنگلہ دیشی حکام اس جزیرے پر تین سال سے 350 ملین ڈالر کی لاگت سے ان پناہ گزینوں کے لیے رہائش کا بندوبست کر رہے ہیں۔ ان حکام کا مقصد بنگلہ دیش کے اندر پناہ گزینوں کے کیمپس پر بوجھ کم کرنا ہے۔ اس سال کے آغاز میں پناہ گزینوں کو درپیش مسائل کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشل نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق 306 روہنگیا خاندان پہلے سے ہی اس جزیرے پر رہ رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں اس جزیرے پر بسنے والوں کے لیے غیر مناسب اور غیر صحت مندانہ حالات کے بارے میں الزامات عائد کیے گئے تھے۔ رپورٹ میں ان پناہ گزینوں کو محدود خوراک اور صحت کی سہولیات کا ذکر شامل ہے۔ ایمنسٹی نے لکھا ہے کہ ان خاندانوں کو اپنے رشتہ داروں سے رابطہ کرنے کے لیے فون تک کی بھی مناسب سہولت دستیاب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس جزیرے پر نیوی اور مقامی مزدوروں کی طرف سے ان پناہ گزینوں کو یہاں پر جنسی ہراسانی کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نیوی کے اہلکار اور مقامی مزدور ان پناہ گزینوں سے بھتہ بھی وصول کرتے ہیں۔ نیوی کے ترجمان کموڈور عبداللہ المعموم چوہدری نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم ان پناہ گزینوں کا اپنے مہمانوں کی طرح خیال رکھ رہے ہیں اور انھیں معیاری کھانے سمیت تمام سہولیات تک رسائی دی گئی ہے۔‘ انسانی حقوق سے متعلق کام کرنے والی تنظیموں نے بنگلہ دیش کے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جس کے تحت بنگلہ دیشی حکام نے ہزاروں روہنگیا پناہ گزینوں کو ان کی مرضی کے بغیر درو دراز ایک غیر محفوظ جزیرے میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔ text: عمران خان نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ 2013 کے عام انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کرے یہ عدالتی کمیشن عمران خان اور ان کی جماعت کی جانب سے ہی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ اب اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ عمران خان کی جانب سے انتخابی دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام کی درخواست مکمل طور پر بلاجواز نہیں تھی تاہم کمیشن کو دیے گئے شواہد سے یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ عام انتخابات میں منظم دھاندلی کی گئی۔ بہتان تراشی کا باب بند ہونا چاہیے کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر عمران حان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے عدالتی کمیشن کے قیام کے موقعے پر ہی کہہ دیا تھا کہ وہ عدالت کے ہر فیصلے کو تسلیم کریں گے اس لیے وہ رپورٹ کو تسلیم کرتے ہیں۔ تاہم انھوں نے اپنے نام سے موجود ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کمیشن کی رپورٹ کے بعد لکھے گئے واحد پیغام میں یہ شکوہ بھی کیا کہ کمیشن تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کی حکومت کی رضامندی کی وجہ سے قائم ہوا۔ اس کیس میں دو جماعتیں تھیں لیکن رپورٹ دونوں ( پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این) کو کیوں نہیں بھجوائی گئی۔ معافی مانگیں پاکستان تحریکِ انصاف کو خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ نشستیں ملیں اور اس موقع پر صوبے کی سابقہ حکمراں جماعت عوامی نیشنل پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اے این پی کے سینیئر رہنما حاجی عدیل نے کمیشن کی رپورٹ جاری ہونے کے بعد بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ یہ ایک بہت اچھی رپورٹ آئی ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ انتظامی خرابیاں ہوئی ہیں لیکن عدالتی کمیشن نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ ججز اور دیگر عملہ انتخابی دھاندلی میں ملوث تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’خیبر پختونخوا سے متعلق کمیشن کی رپورٹ میری نظر سے نہیں گزری تاہم طالبان خان نے ہمیں لڑنے نہیں دیا اور وہ جیت گئے اور ہم نے اس کے باوجود الیکشن کے فیصلوں کو تسلیم کیا۔‘ حاجی عدیل نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ دو سال بعد عمران خان کو کس نے اشارہ کیا کہ وہ انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگائیں۔ انھوں نے عمران خان سے مطالبہ کیا کہ وہ معافی مانگیں۔ تاہم انھوں نے مسلم لیگ نون کی حکومت کو بھی ناکام قرار دیا اور یہ مشورہ دیا کہ حکومت یہ نہ سمجھے کہ وہ جیت گئی ہے۔ اسے اب جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کا جائزہ لینا چاہیے۔ ہمارے خلاف درخواست واپس لیں عدالتی کمیشن کی رپورٹ پر ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر کا کہنا تھا کہ انھوں نے ابھی یہ رپورٹ تو نہیں دیکھی تاہم پی ٹی آئی جو الزامات لگاتی رہی ہے اب کمیشن کی رپورٹ کے بعد اس کا چہرہ بھی بے نقاب ہو چکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پر جماعتِ اسلامی اور پی ٹی آئی نے جو بھی الزامات لگائے وہ اب ان پر وہ معذرت کریں اور اس حوالے سے دائر اپنی درخواستیں بھی واپس لے۔ عدالتی کمیشن کی جانب سے سنہ 2013 کے عام انتخابات میں دھاندلی نہ ہونے کا فیصلہ دیے جانے پر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ کہہ چکے ہیں کہ انھیں عدالتی کمیشن کا ہر فیصلہ قبول ہے تاہم وہ مفصل رپورٹ پڑھنے کے بعد ہی اس پر تبصرہ کرنا چاہیں گے۔ text: پیونگ ینگ میں بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ اس پریڈ کا مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ یہاں متحد فوج موجود ہے کم یونگ ان نے یہ بات حکمراں جماعت ورکرز پارٹی کے 70 سال مکمل ہونے پر دارالحکومت پیونگ ینگ میں منعقدہ ایک بڑی تقریب کے دوران اپنے خطاب میں کہی۔ شمالی کوریا میں حکمراں جماعت کی 70 ویں سالگرہ پر جشن شمالی کوریا کا جوہری ری ایکٹر ’مکمل طور پر کام کر رہا ہے‘ مرکزی چوک میں ان کے سامنے ہزاروں فوجی سرخ رنگ کے بینرز اٹھائے مارچ کرتے ہوئے گزرے جبکہ ٹینکوں اور میزائلوں کی نمائش بھی کی گئی ہے۔ کئی ٹینک اس بلند مقام کے قریب سے گزرے جہاں کم یونگ ان نے خطاب کرنا تھا اور اس دوران لڑاکا طیاروں نے فلائنگ پاسٹ کرتے ہوئے فضا میں 70 کا ہندسہ بنایا۔ اس موقع پر کم یونگ ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری فوج کی متحد فورسز، عوام اور مضبوط جذبے کی وجہ سے تنہائی اور شاہی پابندیوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے جس کی وجہ سے دشمن شدید غصے اور خوف میں مبتلا ہو گیا ہے۔‘ طیاروں نے فلائنگ پاسٹ کے دوران فضا میں 70 کا ہندسہ بنایا ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پارٹی کے انقلابی فوجی ساز و سامان کا مطلب ہے کہ ہم امریکی شاہوں کی جانب سے شروع کی جانے والی کسی بھی جنگ کے لیے تیار ہیں۔‘ پریڈ کے دوران ہزاروں عام شہریوں جن میں سکول کے بچے بھی شامل تھے نے رقص کیا۔ سرکاری ٹی وی نے اس تقریب کو براہ راست نشر کیا اور اس دوران جذباتی تبصرے بھی کئے گئے۔ پیونگ ینگ میں بی بی سی کے نامہ نگار سٹیو ایوانز کا کہنا ہے کہ یہ پریڈ شمالی کوریا کے رہنما کے الفاظ کی طرح ایک پیغام ہے جس کا مطلب اس بات کی طرف توجہ دلانا ہے کہ یہاں ایک فوج ہے اور وہ متحد فوج ہے۔ یہ تقریبات مزید جاری رہنے کا امکان ہے اور پیونگ ینگ کے رہائشیوں کو شہر کے کئی چوکوں میں شمع کے ساتھ پریڈ کرنے کی تیاریاں کرتے دیکھا گیا ہے۔اس پریڈ کا آغاز شام کو ہوگا۔ شمالی کوریا کے رہبر اعلیٰ کم یونگ ان کا کہنا ہے کہ ان کا ملک امریکہ کی جانب سے شروع کی جانے والی کسی بھی جنگ میں اپنا دفاع کر سکتا ہے۔ text: بہار میں صرف گذشتہ ماہ آگ لگنے کے واقعات کے نتیجے میں 67 افراد ہلاک ہو گئے تھے آفات سے نمٹنے کے ادارے کی جانب سے یہ ہدایت آتشزدگی کے متعدد واقعات کے بعد ریاست کے وزیراعلیٰ کے حکم پر دی گئی۔ اس کے علاوہ لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ خشک فصلوں کو مذہبی رسومات کے لیے جلانے سے بھی اجتناب کریں۔ بہار میں صرف گذشتہ ماہ آگ لگنے کے واقعات کے نتیجے میں 67 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ آفات سے نمٹنے کے ادارے کے اہلکار ویاس نے بی بی سی کو بتایا’آگ لگنے کے واقعات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوا کہ زیادہ تر واقعات چولہے کی آگ سے نکلنے والی چنگاری سے پیش آئے ہیں۔اس لیے مشورہ دیا گیا کہ دیہات میں چولہے کی آگ سے کھانا بنانے والے صبح نو بجے سے پہلے کھانا بنا کر آگ بجھا دیں۔‘ آتشزدگی کے کئی واقعات خشک فصلوں کو جلانے کے نتیجے میں پیش آئے تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا کہ مذہبی رسومات کے لیے خشک فصلوں کو جلانے کی وجہ سے بھی آگ لگنے کے واقعات پیش آئے۔ بہار کے اورنگ آباد ضلع میں ایک مذہبی تہوار کے موقعے پر آتشزدگی کے ایک واقعے میں کم سے کم 13 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ہدایت کی خلاف ورزی کرنے پر آگ لگنے کے کسی واقعے کی تحقیقات میں ذمہ دار کو محکمے کے قوانین کے تحت جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے تاہم نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکام نے واضح نہیں کیا کہ ایک غریب دیہاتی اگر آگ میں سب کچھ کھو دیتا ہے تو اس سے جرمانہ کیسے لیا جائے گا۔ خیال رہے کہ بھارت میں بہار سمیت دیگر کئی علاقوں میں گرمی کی شدید لہر جاری ہے اور اس کے نتیجے میں آگ لگنے کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ بھارت کی ریاست بہار میں حکام نے دیہاتیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ موسم گرما کے دوران صبح نو بجے سے شام چھ بجے تک کھانے پکانے سے گریز کریں۔ text: الزرقاوی کی ہلاکت کا اعلان عراق کے وزیرِ اعظم نوری المالکی ایک پریس کانفرنس بلا کر کیا۔ ان کے ہمراہ اتحادی فوج کے سربراہ جنرل جارج کیسی اور عراق میں امریکہ کے سفیر زلمے خلیل زاد بھی تھے۔ جنرل جارج کیسی نےالزرقاوی کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ القاعدہ کے رہنما کو بدھ کی شام مقامی وقت کے مطابق سوا چھ بجے بعقوبہ سے آٹھ کلومیٹر دور ایک ’سیف ہاؤس‘ پر فضائی حملے میں ہلاک کیا گیا۔ عراق میں اتحادی افواج کے ترجمان میجر جنرل بل کارڈویل نے بعد میں ایک بریفنگ میں کہا کہ فضائی حملے سے پہلے انہیں خفیہ طور اطلاع ملی تھی کہ الزرقاوی اور ان کے ساتھ بعقوبہ کے شمال میں ایک مکان میں ہیں۔ اس علاقے میں گزشتہ شب حملے کیئے گئے جس میں الزرقاوی اور ان کے ساتھی مارے گئے۔ اس حملے میں ایک عورت اور بچہ بھی ہلاک ہوا ہے۔ جمعرات کو الزرقاوی کا ڈی این اے تجزیہ بھی کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ الزرقاوی کے بارے میں گزشتہ ایک ماہ سے اطلاعات مل رہی تھیں اور اتحادی افواج ان ان خفیہ اطلاعات پر کام کر رہی تھی۔ جنرل بل کے مطابق الزرقاوی کے ساتھیوں میں ان کے ایک روحانی پیشوا بھی مارے گئے۔ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عراقی وزیرِ اعظم نے کہا: ’ آج ہم نے القاعدہ کے لیڈر الزرقاوی کا خاتمہ کر دیا ہے۔ جو کچھ آج ہوا وہ عراقی عوام کے کامیاب تعاون کا نتیجہ تھا۔ الزرقاوی کی موت ہر اس شخص کے لیے ایک پیغام ہے جو تشدد کا علمبردار ہے‘۔ ابو مصعب الزرقاوی کی ہلاکت کو امریکی صدر، برطانوی وزیر اعظم اور کئی دوسرے رہنماؤں نے ایک اچھی خبر قرار دیا ہے۔امریکی صدر جارج بش نے الزرقاوی کی ہلاکت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم پیش رفت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ’ امریکیوں کو اپنی فوج پر فخر ہونا چاہیئے۔‘ برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر نے ابو مصعب الزرقاوی کی ہلاکت کو ایک ’شاندار خبر‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہلاکت عراق کے لیے بہت اہم ہے تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ اس ہلاکت کی صورت میں مزاحمت کار اپنی کارروائیاں بند نہیں کریں گے۔ الزرقاوی کے سر کی قیمت پچیس ملین امریکی ڈالر رکھی گئی تھی اور امریکہ کو مطلوب دہشتگردوں کی فہرست میں ان کا نام بہت اوپر تھا۔ عراق میں امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ الزرقاوی کی موت عراق اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ الزرقاوی فرقہ واریت کے ان داتا تھے اور اگرچہ الزرقاوی کے خاتمے سے عراق میں تشدد فوری طور پر ختم نہیں ہوگا لیکن عراق کے لیئے ان کی موت ایک اچھا شگون ہے۔ القاعدہ کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ابو مصعب الزرقاوی شہید ہو گئے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے الزرقاوی کی ہلاکت سے عراق میں مزاحمت کا خاتمہ نہیں ہوگا بلکہ ممکن ہے کہ الزرقاوی کے حواری ان کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیئے تشدد کی کارروائیاں تیز کر دیں۔ عراق میں القاعدہ کے سینئرترین رہنما ابو معصب الزرقاوی بعقوبہ کے شمال میں اتحادی فوج کے ایک فضائی حملے میں ہلاک ہوگئے ہیں۔ text: ایمرٹس ایئرلائن نے 123 اے تھری ایٹی طیارے آرڈر کیے، جن میں سے 14 اگلے دو برسوں میں ایمرٹس کو دیے جائیں گے۔ یہ تصویر اس موقع پر لی گئی جب ایمرٹس نے سوواں A380 وصول کیا تھا یہ اعلان ایمرٹس ایئرلائن اور ایئربس کی جانب سے جاری مشترکہ پریس ریلیز میں کیا گیا۔ ایئربس کے اس تاریخ ساز طیارے کو اکیلے سہارا دینے والی ایمرٹس ایئرلائن نے ہی اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکا اور گذشتہ سال آرڈر کیے گئے 39 طیاروں کی جگہ آج ایئربس سے اس کے جدید A350 اور NEO A330 لینے کا اعلان کیا۔ یہ بھی پڑھیے برٹش ایئرویز کا اسلام آباد کے لیے پروازیں بحال کرنے کا اعلان یونائیٹڈ ایئر لائنز کے سربراہ نے معافی مانگ لی مہینوں ایئرپورٹ میں رہنے والے کا سفر تمام ہوا ’ہائی فلائی‘ دنیا کی وہ واحد ایئرلائن ہے جس نے سنگاپور ایئرویز کے ایک سابق طیارے کو ویٹ لیز پر حاصل کیا اور اسے چارٹر پر چلا رہی ہے جہاں گذشتہ دنوں ملائیشین ایئرلائن نے اس طیارے کے ساتھ اپنی خصوصی حج اور عمرہ کی سفری سہولت 'امل' کا اعلان کیا، وہیں اس طیارے کو سب سے پہلے استعمال کرنے والی سنگاپور ایئرلائن نے دس سال ایک طیارہ استعمال کرنے کے بعد ریٹائر کر دیا ہے اور بعد میں اس کے پرزے علیحدہ کر کے سکریپ کر دیا گیا۔ برٹش ایئرویز اور کئی دوسری ایئرلائنز جہاں چالیس سال پرانے 747 اب تک چلا رہی ہیں، وہیں ایک دس سال پرانے طیارے کے ساتھ ایسا سلوک ہوابازی کی تاریخ میں انوکھا ہے۔ ایئربس A380 کو حال ہی میں حاصل کرنے والی جاپانی فضائی کمپنی آل نیپون ایئرویز نے دو طیارے حاصل کیے ہیں اس کی بنیادی وجہ اس طیارے کی سیکنڈ ہینڈ مارکیٹ کا نہ ہونا ہے۔ اگر ایمرٹس نہ ہوتی، جس کے پاس 123 ایسے طیارے ہوجائیں گے، تو شاید یہ طیارہ کبھی حقیقت ہی نہ بن سکتا۔ آخر ایسا کیا ہوا جس کی وجہ سے انجنیئرنگ کا شاہکار یہ عظیم الشان طیارہ اتنی جلدی اپنے انجام کو پہنچ گیا اور کیوں اسے خریدنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ فریکوئنسی یا کپیسٹی؟ دنیا میں فضائی سفر میں آسانی کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ روزانہ کی بنیاد پر سفر کرتے ہیں۔ ماضی کی طرح اب ایسا ممکن نہیں کہ آپ مہینوں پہلے اپنے سفر کی منصوبہ بندی کریں۔ مسافر اب مختصر نوٹس پر سفر کرنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے فضائی کمپنیاں بڑے طیاروں کے ساتھ ہفتے میں چند پروازیں چلانے کے بجائے اب روزانہ کی بنیاد پر چھوٹے طیاروں کے ساتھ پروازیں چلاتی ہیں ۔ پاکستان میں صرف اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ وہ واحد ہوائی اڈہ ہے جس پر A380 طیارے کے لیے درکار سہولیات دستیاب ہیں بڑے طیارے کے بڑے نخرے اے تھری ایٹی ایک بڑا طیارہ ہے جس کے پروں کی چوڑائی اور دو منزلہ ڈیک وغیرہ اس بات کو مشکل بناتے ہیں کہ یہ ہر ایئرپورٹ پر جا سکے۔ زیادہ سے زیادہ 650 مسافروں کو لے جانے والے اس طیارے کو خالی کرنے یا اس پر مسافروں کو سوار کرنے کے لیے بڑی جگہ درکار ہوتی ہے۔ کم از کم تین ایئر برج درکار ہوتے ہیں جو دونوں منزلوں سے منسلک کیے جا سکیں۔ اس کے علاوہ ان طیاروں کے لیے لمبا رن وے اور پارکنگ کے لیے بھی زیادہ جگہ درکار ہوتی ہے۔ پاکستان میں صرف اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ وہ واحد ہوائی اڈہ ہے جس پر اس طیارے کے لیے درکار سہولیات موجود ہیں۔ بوئنگ کا نیا 777X طیارہ جس کے آنے سے A380 کی مانگ میں شدید کمی واقع ہوئی دو انجن یا چار انجن؟ اے تھری ایٹی چار انجنوں کے ساتھ اڑنے والا طیارہ ہے جس کی وجہ سے اس طیارے کے اخراجات اسی طرح کے دوسرے طیاروں کی نسبت بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس طیارے کی آمد کے ساتھ ہی بوئنگ کے 777 اور 787 اور ایئربس کے اے350 کی آمد نے دو انجنوں کے ساتھ ہی اتنے مسافر لے جانے کو ممکن بنایا جتنے یہ طیارہ لے جا سکتا ہے۔ رہی سہی کسر 777X نے پوری کر دی ہے جو بہتر اور جدید سہولیات کے ساتھ اگلے چند برسوں میں پرواز کرے گا۔ یورپی طیارہ ساز کمپنی ایئربس نے اعلان کیا ہے کہ وہ 2021 سے اپنے سُپر جمبو طیارے کی ڈلیوری بند کر دے گی، جس کا مطلب ہے کہ یہ طیارہ اب مزید تیار نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس کی مانگ ختم ہو چکی ہے۔ text: امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ غزہ کے مسائل کے حل کے لیے نئے راہیں تلاش کر رہا ہے۔ غزہ کے مسئلے کے حل کے لیے یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب گزشتہ ہفتے اسرائیل نے غزہ کے امدادی بحری قافلے پر خونی حملہ کیا تھا مصر کے صدر کے ساتھ نوے منٹ طویل ملاقات کے بعد نائب امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ملاقات میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کی کوششوں، عراق اور افغانستان کی صورتحال، سوڈان کی سیاسی صورتحال اور ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے حوالے سے بات چیت کی گئی ہے۔ نائب امریکی صدر کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب عالمی برداری غزہ کے لیے امدادی سامان لیجانے والے بحری بیڑے پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کر رہی ہے۔ امدادی بیڑے پر اسرائیلی کے حملے کے نتیجے میں نو افراد ہلاک اور ساٹھ کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔ اسرائیل پر عالمی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے کہ وہ غزہ کی ناکہ بندی ختم کر دے۔ اسرائیل کے حملے کے بعد مصر کے صدر نے فوری طور پر غزہ کے ساتھ رفاہ کی سرحد کھولنے کا حکم دیا تھا تاکہ غزہ کے متاثرین کو طبی سہولیات فراہم کی جا سکیں اور اس ساتھ ایسے فلسطینی جو تعلیم کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں وہ جا سکیں۔ خیال رہے کہ غزہ کا اسرائیل کے علاوہ صرف مصر سے زمینی رابط ہے۔ مصر کے ایک اعلیٰ اہلکار کا کہنا ہے کہ رفاہ کی سرحد کے ذریعے غزہ میں صرف امدادی سامان اور طبی امداد لیجانے کی اجازت دی جائے گی۔ دریں اثناء فلسطین کے علاقے غزہ میں پیر کو اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے پانچ فلسطینیوں کی تدفین کردی گئی ہے۔ یہ افراد غزہ کے ساحل کے قریب، ایک چھوٹی کشتی میں سوار تھے جب اسرائیلی فوج نے اُن پر فائرنگ کردی۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ پانچوں افراد مسلح تھے اور وہ اسرائیلی فوج پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ تاہم فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق الاقصاء بریگیڈ سے تھا لیکن حملے کے وقت وہ نہتے تھے اور تیراکی کی تربیت لے رہے تھے۔ مصر کے تفریحی مقام شرم الشیخ میں صدر حسنی مبارک کے ساتھ ملاقات کے بعد امریکہ کے نائب صدرجو بائیڈن نے کہا کہ امریکہ مصر اور اپنے دیگر اتحادیوں سے مشورہ کررہا ہے کہ غزہ کی معاشی، سیاسی، سیکیورٹی اور انسانی بنیادوں پر کس طرح مدد کی جاسکتی ہے۔ text: جارج سورس 40 سال سے دنیا کے 120 ملکوں میں فلاحی کام کرنے والی تنظیم اوپن سوسائٹی فاونڈیشنز کے سربراہ ہیں ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جارج سوروس نے کہا کہ قوم پرستی کھلے معاشرے کی سب سے ’بڑی دشمن‘ ہے۔ انہوں نے انڈیا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جمہوری معاشروں کو سب سے بڑا خطرہ قوم پرستی سے ہے۔ سوروس ایک بہتر جمہوری نظام کے لیے ملکوں کے درمیان وسیع تر اشتراک کے حامی ہیں۔ وہ 40 سال سے دنیا کے 120 ملکوں میں فلاحی کام کرنے والی تنظیم اوپن سوسائٹی فاونڈیشنز کے سربراہ ہیں اور تنازعات کا شکار بھی رہے ہیں۔ ڈیووس میں دنیا کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا دھچکا انڈیا میں لگا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'سب سے بڑا اور خوفناک دھچکا انڈیا میں لگا ہے جہاں جمہوری طریقے سے منتخب نریندر مودی ایک ہندو قوم پرست مملکت ق‍ائم کر رہے ہیں، جنہوں نے مسلم آبادی والے (انڈیا کے زیر انتظام) کشمیر کو اجتماعی طور پر معتوب کر رکھا ہے اور جو ملک کے لاکھوں مسلمانوں کو ان کی شہریت سے محروم کرنے کی طرف گامزن ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ یہ تاریخ کی ایک ایسی منزل ہے جہاں ان مسائل سے انسانی تہذیب کا وجود خطرے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کے امکان کم ہیں کہ سیاسی رہنما ان چیلنجز کا سامنا کرنے میں عوام کی تمناؤں پر پورے اتریں گے کیونکہ یہ ’سیاسی رہنما موجودہ صورتحال کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں مایوسی کی فضا بنی ہوئی ہے‘۔ یہ بھی پڑھیے عمران خان سے ملنے والا ارب پتی کون تھا؟ ’شہریت کا قانون ان اقلیتوں کے لیے جن پر پاکستان میں مظالم ہوئے‘ امریکہ، چین تجارتی جنگ ’انٹرنیٹ کو تقسیم کر رہی ہے‘ ’صدر ٹرمپ پر لگائے گئے الزامات غیرقانونی اور شرمناک ہیں‘ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جمہوری معاشروں کی اپنی خامیوں کے باوجود ان کے بچ جانے کی امید ہے کیونکہ ’قوم پرست اور آمرانہ نظام کی بھی اپنی کمزوریاں ہیں۔ آمرانہ نظام کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ جب وہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو انہیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ انہیں کب اور کس طرح جبر پر روک لگانی ہے۔ ان کے نظام میں چیک اور بیلنس کی کمی ہوتی ہے اور یہی وہ طریقہ ہے جس سے جمہوریت کو استحکام حاصل ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں دبے ہوئے لوگ آمریت کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آج ہم یہ پوری دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔' جارج سوروس نے ماحولیاتی صورتحال اور عالمی بے چینی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ برس اور آئندہ چند برس صرف امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چین کے صدر شی جن پنگ کے ہی مستقبل کا نہیں پوری دنیا کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چین کے صدر شی جن پنگ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا ڈونلڈ ٹرمپ ایک ’نوسر باز اور انتہا کے نرگسیت پسند‘ شخص ہیں جو ’آئینی حدود کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں‘۔ جارج سوروس نے کہا کہ چینی صدر شی جن پنگ ’ٹیکنالوجی کے ذریعے لوگوں کی زندگیوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔’ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ دونوں شخص اقتدار میں نہ ہوتے تو دنیا ایک بہتر جگہ ہوتی۔‘ جارج سورس نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیچ دینے کے لیے تیار ہیں اور وہ اگلے انتخابات میں کامیابی کے لیے ’سب کچھ کریں گے‘۔ امریکہ کی معروف شخصیت ارب پتی جارج سوروس نے کہا ہے کہ دنیا تاریخ کے ایک ایسے مقام پر کھڑی ہے جہاں جمہوری معاشروں اور ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے انسانی تہذیب کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔ text: وفاقی شرعی عدالت نے یہ حکم جاری بھی کیا ہے کہ یہ کیس اب شرعی عدالت سنے گی۔عدالت کی طرف سے جاری ہونے والے ایک حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے پاس ان ملزمان کی اپیل کی سماعت کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ وفاقی شرعی عدالت نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیا ہے اور تین ججوں پر مشتمل بنچ جن میں جسٹس سعیدالرحمن فرخ،جسٹس ظفر پاشا چوہدری اور جسٹس ایس اے ربانی نے اس حکمنامے کو جاری کرتے ہوئے آیین کے آرٹیکلDD 203 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت حدود قوانین کے تحت کسی بھی مقدمے میں کسی بھی عدالت کے فیصلے کو معطل کر سکتی ہے اور اس کیس میں ریکارڈ کا نئے سرے سے جائزہ لے سکتی ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ ملزمان کی اپیلوں پر اس دوران کارروائی نہیں ہو سکے گی۔ لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ نے تین مارچ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کے طرف سے چھ میں سے پانچ ملزمان کو دی گئی سزا ختم کر کے انہیں بری کرنے کا حکم سنایا تھا۔اس فیصلے پر انسانی حقوق اور عورتوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ خود مختار مائی نے کہا تھا کہ انھیں اس فیصلے نے بہت دکھ پہنچایا ہے۔ مختار مائی نے گذشتہ ہفتے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان کیا تھا اور اپوزیشن پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے مختار کا کیس لڑنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ پاکستان کی حکومت نے بھی لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے جمعہ کو لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے پنچائت کے حکم پر اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والی مختار مائی کے ملزمان کی رہائی کے فیصلے کو معطل کر دیا ہے۔ text: مبصرین کا کہنا ہے کہ جہاز تک رسائی پوری طرح سے باغیوں کے کنٹرول میں ہے واضح رہے کہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ملائشیا ایئر لائن کے مسافر بردار جہاز کو میزائل مار کر گرایا گیا تھا جس میں 298 افراد سوار تھے۔ جس علاقے میں یہ یہ جہاز گرا وہ علاقہ روس کے حمایتی باغیوں کے کنٹرول میں ہے۔ اس سے قبل مغربی ممالک کا مطالبہ ہے کہ روس یوکرین میں باغیوں پر دباؤ ڈالے کہ وہ جمعرات کو گر کر تباہ ہو جانے والے ملائیشیا ایئرلائن کے طیارے کی جائے حادثہ تک مکمل رسائی فراہم کریں۔ ہالینڈ کے وزیراعظم مارک روٹ کا کہنا ہے کہ انھوں نے روسی صدر ولادمیر پوتن سے کہا ہے کہ اس بات کا وقت گزرتا جا رہا ہے کہ روس اس حوالے سے اپنی مدد کا مظاہرہ کر سکے۔ اس حادثے میں ہلاک ہونے والے زیادہ مسافروں کا تعلق ہالینڈ سے تھا۔ برطانیہ نے بھی روسی سفیر سے ایسا ہی مطالبہ کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بین الاقوامی مبصرین کی نقل و حرکت روس حامی باغیوں نے محدود کر رکھی ہے۔ یوکرین اور روس حامی باغی دونوں ہی اس طیارے کو مار گرانے کا الزام ایک دوسرے پر عائد کر رہے ہیں۔ ادھر یوکرین کی حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ روسی نواز یوکرینی باغی ملائیشیا کے تباہ شدہ طیارے کی تباہی کے ’عالمی جرم‘ کے شواہد کو مٹا رہے ہیں۔ یوکرینی حکومت کا کہنا ہے کہ روسی حمایت یافتہ باغی دوسرے روز بھی بین الاقوامی مبصرین کی ٹیم کو تباہ شدہ طیارے ایچ 17 تک رسائی نہیں دے رہے ہیں۔ ملائیشیا کا مسافر بردار طیارہ جمعرات کو یوکرین کی فضائی حدور میں تباہ ہوگیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ طیارہ زمین سے فضا میں مار کرنے والےمیزائل کی زد میں آ کر تباہ ہوا ہے۔ براک اوباما نے جمعے کو یوکرین میں فوری جنگی بندی کا مطالبہ کیا تاکہ وہاں طیارہ تباہ ہونے کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر تحقیقات ہوں یوکرین کی حکومت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ روسی نواز باغیوں نے 38 لاشوں کو باغی کے کنٹرول والے علاقے ڈونیسک کے مردہ خانے لے کر گئے ہیں۔ یوکرینی حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ روسی نواز باغی طیارے کے ملبے کو روس لیجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یوکرین نے کہا ہے کہ باغی او ایس سی ای کے ٹیم دوسرے روز بھی طیارہ کے ملبے تک پہنچے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ 25 ارکان پر مشتمل مبصروں کی ٹیم پہلے روز صرف ایک گھنٹے میں واپس آ گئی تھی۔ ملائشیا کی پرواز ایم ایچ 17 نیدرلینڈز کے شہر ایمسٹرڈیم سے کوالالمپور جا رہی تھی اور تباہ ہونے سے قبل روسی سرحد میں داخل ہونے والی تھی۔ یہ بوئنگ 777 جہاز لوہانسک کے علاقے کراسنی اور دونیتسک کے علاقے کے درمیان گر کر تباہ ہوا اور اس پر سوار تمام 298 افراد ہلاک ہو گئے۔ امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ یوکرین میں تباہ ہونے والے ملائشیا ائیر لائنز کے طیارے ایم ایچ 17 کو یوکرین میں باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقے میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔ صدر اوباما نے جمعے کو کہا کہ یوکرین میں روس نواز باغیوں کو روس کی طرف سے طیارہ شکن ہتھیاروں سمیت مسلسل دیگر امداد ملتی رہی ہے۔ امدادی کارکنوں نے جمعے کو کئی کلومیٹر پر پھیلے ہوئے طیارے کے ملبے کی تلاش کے دوران طیارہ کا بلیک باکس ڈھونڈ نکالا ہے یوکرین نے اس علاقے کو ’نو فلائی زون‘ قرار دے دیا ہے جبکہ دیگر ایئرلائنوں نے اعلان کیا ہے کہ ان کی پروازیں مشرقی یوکرین کے فضائی راستے سے ہو کر نہیں جائیں گی۔ یاد رہے کہ جمعرات کی شب ملائشیا کا ایک مسافر بردار طیارہ مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں 295 افراد سوار تھے۔ خدشہ ہے کہ طیارے کو مار گرایا گیا ہے۔ ملائشیا ایئر لائنز کی جانب سے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق طیارے پر 192 ولندیزی، 27 آسٹریلوی، 44 ملائیشیائی (جن میں 15 عملے کے ارکان بھی شامل ہیں)، 12 انڈونیشیائی اور 10 برطانوی مسافر سوار تھے۔ دیگر مسافروں کا تعلق جرمنی، بیلجیئم، فلپائن اور کینیڈا سے تھے۔ مشرقی یوکرین میں امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ملائشیا ایئر لائن کے جہاز کی جائے حادثہ سے کُل 196 لاشیں برآمد کر لی گئی ہیں۔ text: ممبئی کے بھیانک واقعے کے بعد اب ہر طرف الرٹ ہی الرٹ ہے ۔ خفیہ اداروں نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ کے دو کارکن انڈین فضائیہ میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ خفیہ رپورٹ قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹیریٹ نے تیار کی ہے جس کی قیادت قومی سلامتی کے معاملے پر وزیراعظم کے مشیر کرتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلح افواج کے متعلقہ اداروں کو فوراً چھان بین کرنی چاہیئے۔ فضائیہ کے ایک ترجمان نے بتایا ہے اس معاملے کی مکمل تفتیش کی گئی ہے اور لشکر کا کوئی بھی کارکن فضائیہ میں داخل ہونے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ قومی سلامتی کونسل کی یہ رپورٹ اگرچہ پرانی ہے اور اسے ریاستی حکومتوں کو بھی الرٹ کرنے کے لیئے بھیجا گیا تھا لیکن اس خفیہ دستاویز کو بظاہر خفیہ ایجنسیو ں کی ایما پر اخباروں کو جمعہ کے روز لیک کیا گیا۔ انڈین فوج میں مسلمانوں کی اوسط تقریباً دو فیصد ہے۔ فضائیہ میں بھی اعلٰی عہدوں پر گنتی کے مسلمان فائز ہیں اور خفیہ ایجینسیوں کی رپورٹ کے بعد یہ سبھی مسلمان شک کے گھیرے میں رہیں گے۔ صرف مسافر جائیں گے انڈیا کے ہوائی اڈوں کی اصل عمارت میں تو پہلے ہی ملاقاتیوں اور مسافروں کو الوداع کہنے والوں کے داخلے پر پابندی عائد ہے، اب ریلوے سٹیشنوں پر بھی مسافروں کے علاوہ کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ریل گاڑیوں میں کئی دھماکوں کے بعد سلامتی کے نقطۂ نظر سے ریلوے کا محکمہ مسافروں کو چھوڑنے کے لیئے آنے والے لوگوں کے پلیٹ فارموں پر جانے اور ٹرینوں پر سوارہونے پر پابندی لگانے کے سلسلے میں غور کر رہا ہے۔ ریلوے کے وزیر لالو پرساد یادو کا کہنا ہے کہ’جس کو ٹاٹا، بائے بائے کرنا ہے وہ باہر سے کرے گا اور جائے کیونکہ مسافروں کی سلامتی محکمے کی اولین ترجیح ہے‘۔ امیروں کی دلی سنہ 1857 کی بغاوت کے 150 سال 1857 کی بغاوت میرٹھ سے شروع ہوئی تھی اور وہاں سے فوجیوں نے دلی تک مارچ کیا اور بہادرشاہ ظفر کو ہندوستان کا بادشاہ مقرر کیا۔ اس بغاوت کے دوران دلی میں ہزاروں لوگ مارےگئے تھے۔ انگریزوں نے یہ بغاوت کچل دی تھی جس کے ساتھ ہی مغلیہ سلطنت کا سوا تین سو سال کا دورِ بادشاہت اختتام کو پہنچا تھا اور برصغیر پر انگریزوں کا مکمل تسلط قائم ہوگیا تھا۔ انڈیا میں اس واقعے کو بڑے پیمانے پر منانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ایک مرحلے پر انڈیا نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ مشترکہ طور پر سنہ1857 کے واقعہ کو منانے کی تجویز رکھی تھی لیکن یہ بات تجویز کے مرحلے سے آگے نہ بڑھ سکی۔ یہاں تھوکنا منع ہے میونسپل اہلکاروں کا کہنا ہے کہ جو لوگ سزا سے بچنا چاہیں گے ان کے لیئے پانچ سو روپے کے جرمانے کا متبادل ہے لیکن شہر کو صاف ستھرا رکھنے اور صفائی کا رحجان پیدا کرنے کے لیئے جرمانے کی رقم میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ایڈز کے مریضوں کےساتھ تفریق اس مطالعے سے یہ بھی پتہ جلا ہے کہ ان مریضوں کی ایک بڑی تعداد کو ہسپتالوں میں بھی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایچ آئی وی اور ایڈز سے متاثرہ افراد کے بچوں کو بھی گھر کے حالات کے سبب اکثرگھر چھوڑنا پڑتا ہے۔ مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ شوہرکے ایڈز سےمتاثر ہونے کی صورت میں بیوی بیشتر معاملوں میں ساتھ دیتی ہے جبکہ بیوی کے متاثر ہونے کی صورت میں شوہروں کا ساتھ دینے کا تناسب کم ہے۔ فضائیہ میں لشکر کے شدت پسندممبئی بم دھماکوں کے بعد خفیہ اداروں کی قلعی ایک بار پھر کھل گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گیارہ جولائی کو جس نوعیت کا حملہ سات مختلف مقامات پر ٹرینوں میں کیا گیا اگر خفیہ ایجنسیاں الرٹ ہوتیں تو وہ اس خونریز واقعہ کو ہونے سے پہلے ہی مجرموں تک پہنچ سکتی تھیں۔ text: عدالت نے یہ فیصلہ ایک مطلقہ خاتون کی مفاد عامہ کی ایک درخواست کے بعد سنایا ہے جس میں انہوں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ شادی کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا جائے۔ اس سلسلے میں عدالت نے خواتین کے قومی کمیشن سے بھی رائے مانگی تھی۔ کمیشن کی چیئر پرسن گرجا ویاس نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام سے بات چیت میں عدالت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ۔ ان کا کہنا تھا ’اس فیصلے سے کم عمری میں زبردستی کی شادیوں کی بہت حوصلہ شکنی ہوگی ۔اس کے علاوہ یہ فیصلہ ان بیواؤں کے لیئے بھی مدد گار ثابت ہوگا جو اپنے شوہر کے انتقال کے بعد زمین اور جائداد سمیت کئی قسم کے مسائل کا شکار ہیں‘۔ خواتین کے کمیشن نے اس معالے میں ایک بل بھی تیا رکیا ہے۔ اس بل میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ شادی کسی بھی طریقہ سے کی گئی ہو لیکن اسے رجسٹر کرانا لازمی ہونا چاہئے۔ ویاس نے بتایا کہ بل تیار کرتے وقت تمام مذاہب کے لوگوں کے جذبات کا خیال رکھا گیا ہے اور ان کے مشورے کی بنیاد پر ہی بل تیار کیا گیا تھا۔ لیکن ہندوستان متعدد مذاہب اور روایتوں کا ملک ہے۔ ایک عرصے پہلے یہاں پیدائش اور انتقال دونوں کی رجسٹریشن کے لیئے قانون بنایا گیا تھا لیکن اب تک اس کو صحیح طریقہ سے نافذ نہیں کیا جا سکا ہے۔ ان حالات میں پورے ملک میں شادویوں کی رجسٹریشن کس حد تک ممکن ہو سکے گی؟ اس بارے میں سماجی کارکن رنجنا کماری کا کہنا تھا کہ ’تین مہینے میں اس طرح کا قانون بنانا چاہئے کہ اسے پنچایتی سطح پر نافذ کیا جاسکے اس طرح اسے نافذ کرنا آسان ہو جائے گا‘۔ رنجنا کماری کا کہنا تھا کہ اس نئے قانون کی مدد سے ان مردوں کی شادیوں کی بھی حوصلہ شکنی میں مدد مل سکتی ہے جو ایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہيں۔‘ ہندوستان کی سپریم کورٹ نے مرکزي حکومت کوحکم دیا ہے کہ وہ شادیوں کی رجسٹریشن لازمی کرنے سے متعلق قانون سازی کرے۔ عدالت نے اس پر عملدرآمد کے لیئے مرکز اور ریاستوں کو تین مہینے کا وقت دیا ہے۔ text: واضح رہے کہ اس سال فروری میں کوہلو اور ڈیرہ بگٹی پر فورسز کی گولہ باری کے بعد دونوں علاقوں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نقل مکانی کرکے مختلف محفوظ مقامات کی طرف گئی تھی۔ یہ لوگ صوبہ سندھ کے مختلف علاقوں سمیت نصیر آباد، جعفر آباد، ڈیرا الہ یار، ڈیرہ مراد جمالی، صحبت پور،گورا ناڑی،جمعہ خان گوٹھ اور اکبر بگٹی گوٹھ میں رہائش پذیر ہیں۔ کچکول علی نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام کو بتایا کہ پارلیمانی کمیٹی میں ان کے ساتھ دو صوبائی وزراء عبدالرحمان، عبدالغفور لودھی، جےڈبلیو پی کے ایم پی اے سلیم خان کھوسہ بھی رکن تھے، انہوں نے ان علاقوں میں جا کر لوگوں کی حالت زار دیکھی۔ کچکول علی نے بتایا کہ جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے لوگوں کی حالت خراب ہو رہی ہے، اپنے علاقوں سے صرف ایک جوڑے کپڑے میں آنے والوں کے پاس جائے پناہ نہیں ہے جبکہ آلودہ پانی کے استعمال سے ان میں یرقان پھیل رہا ہے۔ان میں بوڑھے بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ ان کے ذہن پر خوف طاری ہے جب تک حالات بہتر نہیں ہونگے وہ واپس نہیں جائیں گے۔ بلوچستان کے قائد حزب اختلاف کچکول علی نے کراچی میں ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ نے عبدالستار ایدھی سے بھی ملاقات کی ۔ کچکول کے مطابق انہوں نے ایدھی سے اپیل کی کہ وہ نقل مکانی کرکے آنے والے لوگوں کی مدد کریں اور کم سے کم انہیں کھانا اور خیمے تو فراہم کیئے جائیں۔ ایک سوال کے جواب میں کچکول علی نے کہا کہ متاثرین جن علاقوں میں رہائش پذیر ہیں وہاں کی ضلعی حکومتیں بے حس ہیں جبکہ صوبائی حکومت مدد کے لیئے راغب نہیں ہے اس لیئے ہم دنیا کے جمہوری ممالک اور رضاکار تنظیموں سے مدد کی اپیل کر رہے ہیں۔ اپوزیشن رہنما نے بتایا کہ اس سے قبل صوبائی حکومت نقل مکانی کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھی جس کے بعد پندرہ اپریل کو سپیکر کی رولنگ پر پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی تھی۔ ان کے مطابق جون کو اسمبلی کا اجلاس متوقع ہے اور اس سے قبل رپورٹ سپیکر کے پاس جمع کروائی جائے گی۔ بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی اور کوہلو پر گولہ باری کے بعد نقل مکانی کے حقائق جاننے کے لئیے بلوچستان اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کے رکن اپوزیشن رہنما کچکول علی کا کہنا ہے کہ گولہ باری کے بعد ڈیرہ مراد بگٹی اور کوہلو سے ڈھائی لاکھ افراد نے نقل مکانی کی تھی۔ text: آسٹریلیا کی پارلیمان نے بھاری اکثریت سے میریج ایکٹ کو تبدیل کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ اس بل کی منظوری کے فوراً بعد آسٹریلیا کی پارلیمان میں جش منایا گیا یہاں تک کہ خوشی کا گیت بھی گایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی آسٹریلیا میں اس معاملے پر گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے پر محیط تلخ بحث کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ یہ بھی پڑھیے آسٹریلیا میں ہم جنس پرستوں کی شادیوں کے معاملے پر حکومت کو شکست آسٹریلیا: ہم جنس پرست شادی کا قانون کالعدم قرار آسٹریلیا کے وزیر اعظم میلکم ٹرنبل نے کہا ’محبت، مساوات اور احترام کے لیے یہ تاریخی دن ہے۔‘ ’آسٹریلیا نے یہ کر دکھایا۔‘ امید کی جا رہی ہے کہ آسٹریلیا کے گورنر جنرل آنے والے دنوں میں اس بل کی منظوری دیں گے جس کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔ بل کی منظوری کے بعد پرجوش ارکان پارلیمان نے عوامی گیلری میں اپنے حامیوں کے سامنے ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہوئے گیت گانا شروع کر دیا ’میں، آپ اور ہم آسٹریلین ہیں۔‘ اس بل کی منظوری سے پہلے اس کے متعدد حامی آسٹریلوی پارلیمان کے باہر لان میں اکھٹے ہوئے جن میں ہم جنس پرست شادیوں کی حمایت کرنے والے میں نمایاں سابق اولمپک تیراک ائین تھارپ اور مقامی کمیڈین مگدہ سبانسکی بھی شامل تھے۔ آسٹریلوی ایوانِ نمائندگان میں اس بل کو پیش کیے جانے کے بعد 100 سے زیادہ ارکانِ پارلیمان نے اس پر بحث کی تھی۔ متعدد سینیٹروں اور ارکان پارلیمان نے اس بل کی حمایت کرنے کی وجہ بتائی تاہم دوسرے سیاست دانوں نے اس کی مخالفت بھی کی۔ خیال رہے کہ آسٹریلیا میں شادی کے ایکٹ میں ترمیم کا بل ملک میں کیے جانے والے ایک قومی سروے جس میں 6 .1 6 فیصد افراد نے اس میں تبدیلی کی حمایت کی تھی کے فوری بعد گذشتہ ماہ سینیٹ میں متعارف کروایا تھا۔ اس بل میں رجسٹرڈ مذہبی افراد کے لیے استثنا شامل ہے جو اپنے عقائد کے مطابق ایک ہی جنس سے شادی کرنے سے انکار کر سکتے ہیں۔ آسٹریلیا میں ایوانِ نمائندگان کی جانب سے ہم جنس پرست شادیوں کے بارے میں تاریخی بل کی منظوری کے بعد ملک میں ہم جنس پرست شادیوں کو قانونی حیثیت حاصل ہو گی۔ text: پرویز مشرف کے وکلا نے حال ہی میں اقوامِ متحدہ سے بھی اس مقدمے میں مداخلت کی اپیل کی ہے وفاقی حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑنے اور تین نومبر سنہ 2007 کو ملک میں ایمرجنسی لگانے پر غداری کا مقدمہ شروع کرنے کی استدعا کی تھی۔ پاکستانی آئین کی دفعہ چھ کی خلاف ورزی کرنے کی سزا موت اور عمر قید ہے۔ غلطیوں پر معافی مانگتا ہوں: مشرف تین رکنی خصوصی عدالت نے منگل کو وزیراعظم سیکرٹریٹ سے ملحقہ نیشنل لائبریری میں پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کی اور اس موقع پر عمارت کے اردگرد سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ پرویز مشرف سماعت کے موقع پر عدالت میں پیش نہیں ہوئے جس پر استغاثہ نے ان کی گرفتاری کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری کرنے کی استدعا کی۔ اس پر سابق صدر کے وکیل انور منصور خان نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل کی جان کو شدید خطرہ ہے اور اسی لیے وہ عدالت میں نہیں آئے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ ملزم کو صرف ایک بار حاضری سے استثنیٰ دیا جا رہا ہے اور وہ یکم جنوری کو آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہوں جب ان کے خلاف فردِ جرم عدالت میں پیش کی جائے گی۔ عدالت نے آئندہ پیشی پر سابق فوجی صدر کو ضروری سکیورٹی فراہم کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ پولیس ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ منگل کو اس راستے سے دھماکہ خیز مواد اور دو پستول بھی برآمد ہوئے ہیں جہاں سے گزر کر پرویز مشرف کو عدالت آنا تھا۔ سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے پرویز مشرف کے وکلا کی ٹیم کے رکن احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ جب تک وزارت داخلہ کا کوئی ذمہ دار فرد سکیورٹی کی ذمہ داری نہیں لیتا اس وقت تک پرویز مشرف عدالت نہیں آئیں گے۔ پرویز مشرف کے وکلا نے سماعت کے آغاز پر خصوصی عدالت میں ایک اور درخواست دائر کی جس میں اس عدالت کے اختیارات اور ججوں پر اعتراضات کیے گئے ہیں۔ یہ تین رکنی خصوصی عدالت سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس فیصل عرب، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس یاور علی اور بلوچستان ہائی کورٹ کی جسٹس طاہرہ صفدر پر مشتمل ہے۔ جسٹس فیصل عرب کو اس عدالت کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ عدالت سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور وزیراعظم نواز شریف کی ملی بھگت سے بنائی گئی ہے اور یہاں ’پراسیکیوشن‘ نہیں بلکہ ’پرسکیوشن‘ ہوگی۔ خصوصی عدالت نے اس درخواست پر وفاق سے جواب طلب کر لیا ہے۔ پرویز مشرف کے وکیل خالد رانجھا نے سماعت کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ’ہمیں پراسیکیوٹرز کی تعیناتی پر بھی اعتراض ہے۔ پراسیکیوٹر وہ ہوتا ہے جو مکمل غیر جانبدار ہو اور اس کی سوچ کسی کو سزا دلوانا نہیں بلکہ انصاف ہوتی ہے لیکن جو پراسیکیوٹرز تعینات کئے گئے ہیں وہ پراسیکیوٹرز نہیں بلکہ پرسیکیوٹرز ہیں اس لیے یہ مقدمہ منصفانہ نہیں ہو سکتا۔‘ اس سے قبل پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق فوجی صدر کی طرف سے اُن کے خلاف مقدمہ صرف فوجی عدالت میں چلائے جانے کی درخواست سمیت خصوصی عدلت میں موجود ججوں اور اس مقدمے کے پراسیکوٹر کے خلاف دائر کی جانے والی تینوں درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔ پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑنے کے الزام میں غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے یکم جنوری کو ان پر فردِ جرم عائد کرنے کا حکم دیا ہے۔ text: 21ویں آئینی ترمیم میں فوجی عدالتوں کو دہشت گردی کے مقدمات میں عام شہریوں کے ٹرائل کرنے کی اجازت کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ فوجی عدالتوں کا مکمل ریکارڈ سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں سے موت کی سزا پانے والے 12 مجرموں کی طرف سے ان فیصلوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کی طرف سے ان مجرموں کے مقدموں اور عدالتی فیصلوں کا ریکارڈ بینچ کے سامنے رکھا گیا۔ بینچ کے سربراہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کی ان دستاویزات میں بہت سی حساس معلومات دی گئی ہیں جنھیں کسی طور پر بھی عام نہیں کیا جانا چاہیے۔ اُنھوں نے اشتر اوصاف سے کہا کہ ان مقدمات میں حساس نوعیت کی دستاویزات کی نشاندہی کریں۔ چار مجرموں کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ فوجی عدالتوں میں ان مقدمات کی سماعت کے دوران مجرموں کو اپنی مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت دی جاتی۔ اُنھوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان مجرموں کے ورثا کو اس وقت ہی معلوم ہو گا کہ اُن کے عزیزوں کو کس جرم میں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ان دستاویزات میں بعض مجرموں نے اپنے جرم کا اقرار بھی کیا ہوا ہے اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان مجرموں کو معلوم نہیں ہے کہ اُنھیں کس جرم میں سزائیں سنائی گئی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج کے نوجوان شدت پسندی کے خلاف جنگ میں اپنی جانیں قربان کرر ہے ہیں اور اُن کی قربانیوں کی کسی طور پر بھی رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔ عدالت نے حکم دیا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس میں ان مقدمات کے حوالے سے فوجی عدالتوں کا ریکارڈ مجرموں کے وکلا کو دکھانے کا بندوبست کیا جائے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ان دستاویزات کے نہ تو نوٹس لینے کی اجازت ہوگی اور نہ ہی اس کے مندرجات غیر متعقلہ شخص کو بتائے جاسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ان درخواستوں کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے موت کی سزا پانے والے 12 مجرموں کے وکلا کو فوجی عدالتی ریکارڈ تک مشروط اجازت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان مقدمات میں دی گئی معلومات حساس نوعیت کی ہیں جنھیں کسی طور پر بھی عام نہیں کیا جا سکتا۔ text: درانی نے کہا کہ حکومت نے الیکشن کمیشن کو زیادہ مضبوط بنایا ہے اور اگلے عام انتخابات ماضی کے مقابلہ میں زیادہ شفاف اور آزادانہ ہوں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے تسلیم کیا کہ سنہ 1977 کے بعد ملک میں کوئی الیکشن صاف شفاف اور منصفانہ نہیں ہوا لیکن اگلے عام انتخابات ماضی سے بہتر ہوں گے۔ انہوں نے حزب اختلاف کی جماعتوں کومشورہ دیا ہے کہ وہ قانون کے مطابق اپنی پارٹیوں میں انتخابات کرائیں ورنہ گلہ نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کے اندر یہ انتخابات صاف شفاف ہونے چاہئیں۔ ۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت کو حزب مخالف سے کوئی چیلنج درپیش نہیں اور نہ کسی تحریک کا سامنا ہے کیونکہ حزب اختلاف کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے تمام سیاسی جماعتوں سے رابطے ہیں جنہیں قائم رکھا جائے گا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ صدر، وزیراعظم اور حکومتی جماعت مل کر آگے بڑھ رہے ہیں اور کوئی مسئلہ درپیش ہو تو حکومت صدر جنرل پرویز مشرف سے رہنمائی لیتی ہے۔ انہوں نے حزب مخالف کے اتحاد برائے بحالی جمہوریت (اے آر ڈی) کو بھی دعوت دی کہ اگر وہ صدر مشرف سے ملے تو صدر اس کی بھی ایسی رہنمائی کریں گے جیسے وہ حکومتی جماعت کی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف کی جانب سے مثبت چیزیں سامنے آئی ہیں جیسے کہ اب انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ عام انتخابات سنہ 2007 میں ہوں گے اور وہ اس کی تیاریاں کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اسے خوش آمدید کہتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں درانی نے کہا کہ جماعت اسلامی اور متحدہ مجلس عمل کے سربراہ قاضی حسین احمد اسلام آباد میں دھرنے کی بات کرنے سے پہلے متحدہ مجلس عمل کے اندر اس معاملہ پر غور کرلیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات محمد علی درانی نے کہاہے کہ حکومت کو مہنگائی، امن و امان اور پانی کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے جن پر آئندہ بجٹ میں توجہ دی جائے گی۔مہنگائی کا زلزلہمحمد علی درانی سنیچر کو وزیر اطلاعات بننے کے بعد پہلی بار لاہور کے صحافیوں سے بات چیت کررہے تھے۔ text: یہ واقعہ اسرائیلی نگرانی میں کام کرنے والے ایک کراسنگ پوائنٹ پر اس وقت پیش آیا جب حماس سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں نے شدید دھند سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کریم شالوم کراسنگ پوائنٹ میں گھسنے کی کوشش کی۔ اس کوشش کے دوران عسکریت پسندوں نے اسرائیلی فوجیوں پر فائرنگ کی اور مارٹر گولے پھینکے اور اس دوران ان کی دوگاڑیوں میں موجود دھماکہ خیز مواد بھی پھٹ گیا۔ اسرائیلی فوج نے بھی حماس کے کارکنوں پر فائرنگ کی جس سے تین فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ حماس کے رہنما سمیع ابو زہری کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم اسرائیلی کراسنگ پوائنٹس پر مزید حملے کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ’ یہ آپریشن ان حملوں کا آغاز ہیں جن کی دھمکی حماس دے چکی ہے‘۔ یاد رہے کہ حماس کی جانب سے گزشتہ برس غزہ کا کنٹرول سنبھالے جانے کے بعد اسرائیل نے علاقے کے داخلی و خارجی راستوں پر کراسنگ پوائٹس بنا دیے تھے اور صرف انہی مقامات سے ہی غزہ میں محدود پیمانے پر اشیاء کی سپلائی ممکن ہے۔ غزہ میں سنیچر کو ایک کراسنگ پوائنٹ پر ہونے والی جھڑپوں میں تین فلسطینی عسکریت پسند ہلاک جبکہ تیرہ اسرائیلی فوجی زخمی ہوگئے ہیں۔ text: ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے اپنے خطاب میں عرفات نے ایک ایسی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ دوہرایا جس کا دارالحکومت یروشلم ہو یا بیت المقدس ہو۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی پناہ گزیں اسرائیل میں واقع اپنے سابق گھروں کو لوٹنے کے حق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ شرون کے متنازعہ امن منصوبہ میں غرب اردن کے بڑے حصہ کو قبضہ میں رکھتے ہوئے غزہ کی پٹی سے اسرائیل کا انخلا شامل ہے۔ عرفات نے اپنے خطاب میں صدر بش اور وزیراعظم شرون کے مابین بدھ کو ہونے والی ملاقات کا حوالہ نہیں دیا تاہم انہوں نے کہا: ’مشرق وسطی میں امن اسی صورت میں قائم ہوسکتا ہے جب خطے سے اسرائیل مکمل طور پر نکل جائے اور بحالی کا عمل شروع ہوجائے۔‘ شرون امن منصوبہ کے بارے میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کوفی عنان نے بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسئلہ کا پائیدار حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی نکل سکتا ہے۔ یہ نیا تنازعہ ایسے وقت میں اٹھ کھڑا ہوا ہے جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے جنوبی حصہ میں پھر سے حملے شروع کیے ہیں۔ فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کارروائی کے نتیجہ میں رفاہ کے پناہ گزیں کیمپ میں پندرہ فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ وہ کیمپ میں ان سرنگوں کو تلاش کر رہا ہے جن کے ذریعہ مصر سے ہتھیار سمگل کر کے لائے جاتے ہیں۔ فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے اس بات پر شدید ردعمل اور برہمی کا اظہار کیا ہے کہ امریکی صدر نے مشرق وسطی میں قیام امن کے لئے اسرائیلی وزیراعظم ایریئل شرون کے منصوبۂ امن کی حمایت کی ہے۔ text: گیا کے مگدھ میڈیکل کالج ہاسپیٹل کے ڈپٹی سپرینٹینڈینٹ ڈاکٹر شو چودھری نے بی بی سی کو بتایا کہ مریض سے ملنے والے کاغذات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پاکستان کے سندھ صوبہ کے لاڑکانہ شہر کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ اس مریض کا نام محمد صاحب جان خاں معلوم ہوتا ہے اور انکی عمر تقریباً ستر سال ہے۔ انکے والد کا نام محمد فیروز خان بتایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر چودھری کے مطابق اس مریض کو کبھی کبھی ہوش آتا ہے لیکن وہ کچھ بول پانے کی حالت میں نہیں ہیں۔ مریض کا دایاں ہاتھ ٹوٹا ہے جس پر پلاسٹر کیا گیا ہے۔ ہوش آنے پر کچھ پوچھنے کے بعد ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ اس مریض کو گیا ریلوے جنکشن سے بے ہوشی کی حالت میں اٹھا کر پہلے ریلوے کے ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ جب یہاں حالت نہیں سدھری تو اسے مگدھ میڈیکل کالج لایا گیا۔ ڈاکٹروں کو خدشہ ہے کہ اس بزرگ کو ریل گاڑیوں میں نشہ آور اشیاء کھلا کر لوٹنے والے گروہ نے اپنا شکار بنایا ہے۔ اس بزرگ کو ہسپتال میں داخل ہوئے کئی دن گزر چکے ہیں لیکن کسی نے انکی کوئی خبر لینے کی کوشش نہیں کی۔ مقامی طور پر کوئی انکی خیر خبر لینے والا نہیں۔ البتہ میڈیکل کالج کے نزدیک کے تھانے کے انچارج بی کے باگ ان کی نگہداشت کر رہے ہیں۔ ہندوستان کی ریاست بہار کے شہر گیا میں ایک ہسپتال کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ایک بزرگ پاکستانی مسافر گزشتہ ہفتے سے بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال میں داخل ہیں اور ان کی خیر خبر لینے والا کوئی نہیں۔ text: کوئٹہ پریس کلب میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’اگر کوئی ہمارے علاقے کی ثقافت اور تاریخ مسخ کرنے آئے تو کیا انھیں پھولوں کے ہار پہنائے جائیں گے‘۔ انھوں نے کہا کہ بلوچ اپنی دھرتی کے دفاع کے لیے کچھ بھی کریں گے۔ انھوں نے یہ الفاظ بھی استعمال کئے جیسے شاباش میرے لعل وغیرہ وغیرہ۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ گوادر میں دھماکے اور راکٹ فائر ہو رہے ہیں اور اکثر بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ اس کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں تو انھوں نے کہا ’میں یہ تو نہیں جانتا کہ یہ کون لوگ ہیں، اگر میر ے چچا زاد بھائی ہوتے تو وہ ضرور بتاتے اور بھی لوگ ہیں جو ایسے دھندے کرتے ہیں۔ میں ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ اپنی دھرتی کا دفاع کرنا ہر شخص کا فرض ہے‘۔ انھوں نے کہا کہ اس علاقے میں دیگر ممالک بشمول امریکہ، ایران، ہندوستان اور چین وغیرہ کے مفادات بھی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہو سکتا ہے کہ حال ہی میں ہونے والے دھماکے اور فائرنگ بااثر قوتیں خود کر رہی ہوں تاکہ جو آپریشن یا کارروائی انھوں نے بعد میں کرنی ہے پہلے کر لی جائے۔ آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں انھوں نے کہا ہے کہ فی الحال وہ رائے عامہ بنا رہے ہیں اور جب یہ کام مکمل ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی اعلان کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ عنقریب ایک بین الاقوامی سیمینار منعقد کیا جائے گا جس میں اعداد و شمار اور حقائق سے بلوچستان کے بارے میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور غیر ملکی سفارتکاروں کے نمائندوں کو آگاہ کیا جائے گا۔ پاکستان میں اپنے آپ کومحکوم کہلوانے والی قوم پرست جماعتوں کی تنظیم پونم کے سربراہ سردار عطاءاللہ مینگل نے کہا ہے کہ گوادر سمیت دیگر علاقوں میں بلوچ اگر اپنی دھرتی کا دفاع کرنے کے لیے کوئی اقدام کرتے ہیں تو وہ اس کی حمایت کرتے ہیں۔ text: مغل شہنشاہ اکبر کی بیٹے شہزادہ سلیم اور انارکلی کی محبت پر بنائی گئی یہ فلم انیس سو ساٹھ میں بھارت میں ریلیز کی گئی تھی۔ نو سال کے طویل عرصے میں مکمل ہونے والی اس فلم میں شہنشاہ اکبر کا کردار پرتھوی راج، شہزادہ سلیم کا کردار دلیپ کمار اور انارکلی کا کردار مدھو بالا نے ادا کیا تھا۔ کراچی میں جمعرات کی شام مانڈیوالا انٹرٹینمنٹ کےمینیجنگ ڈائریکٹر ندیم مانڈیوالا نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ جس طرح فلم ’مغل اعظم‘ ایک تاریخی اہمیت رکھتی ہے اسی طرح اس کی پاکستان میں نمائش بھی ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مغل اعظم‘ کی پاکستان میں نمائش سے مقامی سنیما گھروں کو فروغ ملے گا اور پاکستان سنیما گھر پھر سے آباد ہونگے۔ مغل اعظم کو رنگین بنانے کے پراجیکٹ کے ڈائریکٹر دیپش کا کہنا تھا کہکلر ہونے کے بعد اس فلم کی بھارت میں نمائش ان کی زندگی کے سب سے زیادہ یادگار لمحات تھے اور پاکستان میں اس کی نمائش جذباتی اہمیت رکھتی ہے۔ پاکستان سینسر بورڈ کے چیرمین ضیاالدین خٹک کا کہنا تھا کہ ’مغل اعظم‘ دونوں ممالک کے مشترکہ تاریخی ورثے کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انیس سو پینسٹھ میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی کے بعد ’مغل اعظم‘ پہلی فلم ہے جو پاکستان میں نمائش کے لیئے پیش کی جارہی ہے۔ ضیاالدین خٹک نے بتایا کہ پاکستان میں اسی کی دہائی تک ساڑہ چودہ سو سنیما گھر ہوا کرتے تھے جو اب کم ہوکر ڈھائی سو رہےگئے ہیں۔ سینسر بورڈ کے چئرمین نے بھارتی فلموں کی نمائش کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھارت سے آلو، پیاز اور گوشت منگواتے سکتے ہیں تو اچھی فلمیں منگوانے میں کیا قباحت ہے۔ بر صغیر کی تاریخی رومانوی داستان پر مبنی فلم ’مغل اعظم‘ کی پاکستان میں نمائش دو جون سے کی جا رہی ہے۔ text: وکیل نبی الوحش اس سے پہلے بھی متنازع بیانات دے چکے ہیں مصر کے نمایاں قدامت پسند وکیل نبی الوحش نے ایک بیان میں کہا تھا کہ جو خواتین چست یا نامناسب جینز پہنتی ہیں ان کا سزا کے طور پر ریپ کرنا چاہیے۔ ’جنسی ہراس کے معاملے سے منہ موڑ کر اسے بڑھاوا دیا‘ 'خواتین کے لیے فٹ رہنے کے انوکھے مشورے' انھوں نے یہ بیان اکتوبر میں جسم فروشی پر مجوزہ قانون کے مسودے پر ٹی وی شو میں ہونے والی بحث کے دوران دیا تھا۔ نبی الوحش نے کہا تھا کہ’ کیا آپ خوش ہوں گے جب گلی میں چلتی ہوئی ایک لڑکی کا پیچھے سے نصف جسم نظر آئے۔ میرا کہنا ہے کہ جب آپ کسی ایسی لڑکی کو پیدل چلتا ہوا دیکھیں تو یہ محب وطن ہونے پر ذمہ داری ہے کہ اس کو جنسی طور پر ہراساں کیا جائے اور قومی ذمہ داری ہے کہ اس کا ریپ کیا جائے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ’ باریک لباس پہننے والی خواتین مردوں کو دعوت دیتی ہیں کہ وہ ان کو ہراساں کریں اور اخلاقیات کا تحفظ سرحدوں کے تحفظ سے زیادہ اہم ہے۔‘ اس بیان پر عوام کے غصے کے بعد استغاثہ نے نبی الواح کے خلاف کارروائی شروع کی تھی۔ مصر میں حقوق نسواں کی نیشنل کونسل نے نبی الواح کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریپ کے لیے ’سنگین بیان‘ ہے اور یہ مصری آئین کی ہر طرح سے مکمل خلاف ورزی ہے۔ نبی الوحش نے اس سے پہلے ایک ٹی وی شو میں کہا تھا کہ’ اگر وہ کسی اسرائیلی کو دیکھیں گے تو اسے مار ڈالیں گے۔‘ اس کے علاوہ گذشتہ برس اکتوبر میں ٹی وی شو کے دوران ایک عالم دین کے ساتھ جھگڑ پڑے تھے جب عالم دین نے رائے دی کہ خواتین کے لیے سکارف لینا ضروری نہیں ہے۔ مصر میں ایک قدامت پسند وکیل کو خواتین کے ریپ پر اکسانے کے جرم میں تین سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔ text: ہمیں یقین ہے کہ دہشت گردی کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے میں پاکستان کی معاونت کرنا امریکہ کی قومی سلامتی کے حق میں ہے: ترجمان مارک ٹونٹر جمعرات کو امریکہ محکمۂ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن امریکہ اور پاکستان سمیت پورے خطے کے مفاد میں ہے۔ محکمۂ خارجہ میں یومیہ بریفنگ کے دوران پاکستان کی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لیے ایف 16 لڑاکا طیارے دینے کے مجوزہ منصوبے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہتھیاروں کی فروخت کے معاملے پر امریکہ سینیٹ میں ہونے والی کارروائی پر باقاعدہ نوٹیفکیشن آنے تک کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن انھوں نے واضح کیا کہ اپنے اتحادیوں کو سکیورٹی کے معاملات میں تعاون فراہم کرنے کے لیے ہم کانگریس کے ساتھ مل کر رہے ہیں۔ مارک ٹونر نے کہا کہ ’اتحادیوں کو درپیش چیلنجز میں اُن دفاعی صلاحیت کو بڑھانا امریکی خارجہ پالیسی کے مفاد میں ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن سے شدت پسندوں کے ٹھکانے متاثر ہوئے ہیں اور شدت پسندوں کی پاکستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں دہشت گرد حملے کرنے کی صلاحیت بھی کم ہوئی ہے۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ خطے میں سب سے زیادہ دہشت گردی سے پاکستان متاثر ہو ہے۔ ’ہمیں یقین ہے کہ دہشت گردی کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے میں پاکستان کی معاونت کرنا امریکہ کی قومی سلامتی کے حق میں ہے۔‘ امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ افغان میں قیامِ امن کے لیے پاکستان انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور امریکہ افغان مصالحتی عمل میں پاکستان کے کردار کا معترف ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنی سر زمین دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے والے شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کیا ہے۔ دہشت گردوں کے نیٹ ورک ختم کرنا اور انھیں تباہ کرنا خطے اور امریکی کی سکیورٹی کے مفاد میں ہے۔ اس سے قبل اوباما انتظامیہ نے 2016 کے لیے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے لیے ملنے والی رقم یعنی کولیشن سپورٹ فنڈ جاری رکھنے کے لیے کانگریس کے سامنے درخواست بھیج دی ہے لیکن اس کے بعد اس کے مستقبل پر کچھ بھی کہنے سے انکار کیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کا اہم اتحادی رہا ہے اور گذشتہ دہائی میں امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اربوں ڈالر کی امداد بھی دی ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون امریکہ کے مفاد میں ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان میں جاری آپریشن سےشدت پسندوں کو نقصان پہنچا ہے۔ text: جاوید شیخ کی فلم شکھر (اونچائی ) اگلے ماہ نمائش کے لیے پیش کر دی جائے گی۔ جاوید اس فلم میں شاہد کپور کے باپ کا کردار ادا کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ اس فلم میں اجے دیو گن ، بپاشا باسو اور امرتا راؤ بھی ہیں۔ جاوید شیخ کی اس فلم کے ہدایتکار جان میتیھو ہیں۔ جان کی پہلی فلم’سرفروش‘ تھی جس میں عامر خان نے اسسٹنٹ پولیس کمشنر کا کردار ادا کیا تھا اور فلم باکس آفس ہٹ تھی اور اسی لیے لوگوں کو اس فلم سے کافی توقعات ہیں۔ جاوید کا کہنا ہے کہ فلم میں ان کا کردار مختلف رنگ لیے ہوئے ہے اور اسی لیے انہیں اداکاری کے جوہر دکھانے کے کافی مواقع ملے۔ جاوید جب حال ہی میں ممبئی آئے تو انہوں نے بھارت پاکستان رشتوں کے بارے میں کھل کر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ فنکار جذباتی ہوتے ہیں اور اب جذبات کے ان رشتوں کی وجہ سے ہی دونوں ممالک کے قریب آنے کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ جاوید شیخ بھارت میں فلم ’کھلے آسمان کے نیچے‘ بنانے کی تیاری کر رہے ہیں اور اس کے لئے دو گیتوں کی ریکارڈنگ ہو چکی ہے۔ اس فلم کے لیے کسی ہیروئین کا نام فائنل نہیں ہو سکا ہے۔ پرینکا چوپڑہ ، کرینہ کپور تو ملی نہیں اس لیے جاوید اب کسی نئے چہرے کے ساتھ فلم کا اعلان اگلے سال جنوری میں کریں گے ۔ ایسا نہیں ہے کہ جاوید کی یہ پہلی بھارتی فلم ہے۔ اس سے قبل بھی انہوں نے فلموں میں کام کیا مگر یا تو فلم ریلیز نہیں ہو سکی یا اگر کام کیا بھی تو وہ مکمل نہیں ہو سکا۔ پاکستان میں لولی وڈ کے دلیپ کمار کے نام سے مشہور و معروف اداکار محمد علی نے اپنی بیوی زیبا کے ہمراہ منوج کمار کی فلم کلرک میں کام کیا تھا۔ فلم زیادہ نہیں چلی اس لیے لوگ اس کردار کو یاد نہیں رکھ سکے۔ کرکٹر محسن خان نے دو فلموں میں کام کیا۔ ان میں ایک فلم تھی’بٹوارہ‘ اور دوسری ’ساتھی‘۔ ساتھی میں ان کے مدمقابل آدتیہ پنچولی تھے۔ فلم میں محسن خان کی اداکاری کو شائقین نے کافی سراہا بھی تھا لیکن بولی وڈ کی اندرونی چپقلش کی وجہ سے محسن واپس پاکستان چلے گئے۔ اس وقت محسن خان کی بیوی بولی وڈ اداکارہ رینا رائے تھیں ۔اب حالات مختلف ہیں اور دونوں ممالک کی جانب سے فنکاروں کی شمولیت کا والہانہ استقبال ہو رہا ہے ۔ میرا اور ثناء مرزا سے قبل ہیروئین سلمی آغا ، زیبا بختیار ، سومی علی اور انیتا ایوب نے بولی وڈ میں قسمت آزمائی کی لیکن وہ کوئی اثر چھوڑنے میں ناکام رہیں یا دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو انہیں کچھ نامساعد حالات میں یہاں سے جانا پڑا لیکن اب حالات مختلف ہیں ۔ بالی وڈ میں اب پاکستان کے نامور اداکار محمد علی ، کرکٹر محسن خان کے بعد فلمساز اور اداکار جاوید شیخ کی باری ہے۔ text: سوات میں پولیس اور مقامی ذرائع نے ایف سی اہلکاروں کی اغواء کی تصدیق کی ہے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل ارشد وحید نے تصدیق کی ہے کہ سکیورٹی فورسز کی ایک گاڑی مالاکنڈ سے سوات جاتے وقت کسی نامعلوم مقام سے لاپتہ ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ اس میں فوجی تھے یا ایف سی کے اہلکار۔ سوات میں مقامی طالبان کے ترجمان سراج الدین نے بی بی سی کو ٹیلی فون پر بتایا کہ سنیچر کو تحصیل کبل کے علاقے شموزو سڑک پر فرنیٹر کور کے کچھ اہلکار ایک گاڑی میں گشت کررہے تھے کہ وہاں موجود ’مجاہدین‘ نے انہیں گرے میں لیکر یرغمال بنالیا۔ ان کے مطابق یرغمالی اہلکاروں میں ایک میجر، کیپٹن، دو لانس نائیک اور تین جوان شامل ہیں۔ سراج الدین کے بقول اہلکاروں کو کسی نامعلوم مقام پر منتقل کرکے ان سے پوچھ گوچھ کی جارہی ہے۔ ترجمان نے الزام لگایا کہ سوات میں تعینات سکیورٹی اہلکار ان کے حامیوں، لمبے بالوں اور داڑھی رکھنے والوں کو گاڑیوں سے اتار کر ان کے بال نوچتے ہیں اور انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر سکیورٹی اہلکاروں نے اپنا رویہ درست نہیں کیا تو مزید اہلکاروں کو یرغمال بنایا جائے گا۔ سوات میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران سکیورٹی فورسز کے دو سو سے زائد اہلکاروں نے مقامی طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالے ہیں۔ ان میں فرنٹیر کور کے وہ اڑتالیس اہلکار بھی شامل ہیں جنھیں تقریباً ایک ہفتہ قبل چارباغ کے علاقے میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ سوات میں عسکریت پسندوں کے خلاف حکومتی کاروائی شروع ہونے کے کچھ روز بعد مقامی طالبان نے سکیورٹی فورسز کے اٹھ اہلکاروں کو گلا کاٹ کر ہلاک کیا تھا۔ واضح رہے کہ سوات میں دو ہفتے قبل سکیورٹی فورسز کے ڈھائی ہزار اہلکاروں کی تعیناتی کے بعد وہاں مزہبی رہنما مولانا فضل اللہ کے حامیوں اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں شروع ہوئی تھیں جس میں اب تک کئی افراد مارے جاچکے ہیں۔ صوبہ سرحد کے وادی سوات میں مقامی طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایک میجر اور کیپٹن سمیت فرنٹیر کور کے سات اہلکاروں کو اغواء کرلیا ہے۔ text: وزیراعظم ایاد علاوی کے ایک ترجمان نے بتایا کہ حکومت عوام سے اپیل کررہی ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں۔ وزیراعظم کے ترجمان کا بیان ایسے وقت آیا ہے جب سنی مسلم گرہوں اور کردوں کی سیاسی جماعتوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ سکیورٹی کے خدشات کی وجہ سے انتخابات چھ ماہ کے لئے مؤخر کردے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ شیعہ برادری کے رہنما عراق میں انتخابات جلد سے جلد کرانے کے حق میں ہیں۔ عراق کی آبادی میں شیعہ برادری کا حصہ ساٹھ فیصد ہے۔ تیس جنوری کے ووٹنگ میں ایک نئی پارلیمان کا انتخاب کیا جانا ہے۔ یہ نئی پارلیمان ایک نئی کابینہ منتخب کرے گی اور ایک نئے مسقتل آئین کا مسودہ تیار کرائے گی۔ سنیچر کے روز بغداد میں امریکی سفیر جان نیگروپونتے غیرمتوع طور پر فلوجہ پہنچے جہاں مزاحمت کاروں کے خلاف امریکی فوج نے شدید کارروائی کی ہے۔ فلوجہ پہنچنے پر امریکی سفیر نے بتایا کہ امریکہ عراق میں جمہوری نظام چاہتا ہے۔ امریکی سفیر نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ تیس جنوری کے انتخابات کے لئے مناسب سکیورٹی فراہم کی جائے گی تاکہ ووٹنگ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ بی بی سی کی نامہ نگار کیرولائن ہاؤلی نے بغداد سے اپنے مراسلے میں بتایا ہے کہ عراق کی غیر مستحکم سکیورٹی صورتِ حال انتخابات ملتوی کرانے کے مطالبوں کی واحد وجہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کے شمال میں کُرد گروپ اس خدشے کا شکار ہیں کہ جنوری میں شمالی علاقوں میں برف پڑے گی جس سے ان کے ووٹر متاثر ہوں گے اور شاید نتیجتاً انتخابات میں ووٹ نہ ڈال سکیں۔ سکیورٹی کے خدشات اور سیاسی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود عراق کی عبوری حکومت نے کہا ہے کہ وہ تیس جنوری کے انتخابات وقت پر کرانے کے اپنے ارادے پر قائم ہے۔ text: گذشتہ ہفتے کے آخر میں فائر بندی کے معاہدے کے باوجود لڑائی جاری ہے اور سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ آرمینیا کے وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ اس وقت اس مسئلے کا کوئی سفارتی حل نہیں۔ ناگورنو قرہباخ عالمی سطح پر آذربائیجان کا علاقہ مانا جاتا ہے تاہم یہ آرمینیا کے کنٹرول میں ہے۔ انفارمیشن کی جنگ ہماری تحقیق سے ہمیں ایسی ویڈیوز بھی ملی ہیں جو کہ بہت پرانی ہیں مگر انھیں دوبارہ ایڈیٹ کر کے اس تنازع کے حوالے سے حالیہ واقعات کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ تنازعات میں غلط معلومات پھیلانا کوئی نئی بات نہیں اور کیونکہ جنگ کے دوران حقائق کو جانچنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ یہ بھی پڑھیے آذربائیجان کے خلاف جنگ میں آرمینیا کے 700 سے زیادہ فوجی ہلاک آذربائیجان، آرمینیا تنازع: ’ہم سب مر بھی گئے تب بھی اپنی زمین کا ایک انچ نہیں چھوڑیں گے‘ بمباری، جنگ اور خوف: ناگورنو قرہباخ تنازع کا آنکھوں دیکھا حال اور اس تنازع میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے کیونکہ چند ہی صحافیوں کو فرنٹ لائنز تک رسائی حاصل ہے اور لوگوں کو حکومتی میڈیا پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور ایسے میں افواہیں سوشل میڈیا پر بہت پھیلتی ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ سیاسی ہیش ٹیگز اور پوسٹوں کو توقویت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میزائلوں کی جعلی ویڈیوز اگرچہ انٹرنیٹ پر شیئر کیا جانے والا زیادہ تر میڈیا یا تو نیوز رپورٹس ہیں یا سرکاری حکومتی معلومات ہیں تاہم تبدیل شدہ اور پرانی فوٹیج بھی کافی مقدار میں موجود ہے۔ سب سے زیادہ پھیلائی جانے والی معلومات میں میزائلوں کے تبادلے کے ڈرامائی مناظر ہیں جن کا موجودہ تنازع سے کوئی تعلق نہیں۔ ٹوئٹر پر ایک ویڈیو میں دیکھایا گیا ہے کہ ایرانی افراد آرمینیا اور آذربائیجان کی 2020 کی جنگ سرحد پر کھڑے دیکھ رہے ہیں اور اس ویڈیو کو 250000 مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ مگر اصل میں یہ ویڈیو روس میں نومبر 2019 میں ایک فوجی پریڈ کی ہے۔ ویڈیو میں لوگ روسی زبان بول رہے ہیں اور ایک شخص کی کمر پر روس لکھا ہوا ہے۔ اس ویڈیو کو شیئر کرنے والے صارف کو جب پتا چلا کہ یہ جعلی ہے تو انھوں نے معافی مانگی مگر یہ ویڈیو ابھی بھی ٹوئٹر پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ مقبول ویڈیو گیم آرما 3 کی فوٹیج بھی حالیہ جنگ کے طور پر پیش کی جا چکی ہے۔ اسے فیس بک، ٹوئٹر، ٹک ٹاک، اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز پر شیئر کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ایک انڈین ٹی وی چینل نے اسے جنگ کی خصوصی ویڈیو کے طور پر پیش کیا۔ یہ فوٹیج جسے جنگ کے اصل مناظر کی مدد سے ایڈیٹ کیا گیا ہے، اصل میں اگست 2020 میں ایک جاپانی چینل نے شیئر کی تھی جس کے آخر میں انھوں نے لکھا تھا کہ یہ حقیقی نہیں ہے۔ کیا غیر ملکی کرائے کے فوجی اس میں ملوث ہیں؟ اس تنازعے میں ایک سوال جو زیرِ بحث رہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا یہاں کرائے کے فوجی ملوث ہیں یا نہیں۔ دونوں جانب سے یہ دعوے کیے گئے ہیں کہ مخالف فوج نے کرائے کے فوجی منگوائے ہیں۔ مثال کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ عراق سے یزیدی لوگوں کو آرمینیا کی جانب سے لڑنے کے لیے بلایا گیا ہے۔ مگر اس دعوے کو فوٹیج دیکھ کر سچ یا جھوٹ ثابت کرنا مشکل ہے کیونکہ نسلی طور پر 30000 یزیدی آرمینیا میں رہتے ہیں اور ان میں سے کچھ آرمینیا کے لیے لڑ رہے ہیں۔ آرمینیا کے بہت سے ایسے اکاؤنٹس ہیں جہاں وہ فخر کے ساتھ یزیدی فوجیوں کے بارے میں معلومات شیئر کر رہے ہیں۔ ادھر ان دعوؤں کی بھی حقیقت جاننا مشکل ہے کہ آذربائیجان نے غیر ملکی کرائے کے فوجیوں کو اپنی فوج میں شامل کیا ہوا ہے۔ اس حوالے سے اکثر الزام ترکی پر لگتا ہے جو کہ اس تنازعے میں آذربائیجان کی حمایت کر رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ترکی نے شامی جنگجؤوں کو آذربائیجان کی فوج میں شامل کرنے میں مدد کی ہے۔ آرمینیا کے بہت سے ایسے اکاؤنٹس ہیں جہاں وہ فخر کے ساتھ یزیدی فوجیوں کے بارے میں معلومات شیئر کر رہے ہیں ترک حکومت نے ان الزامات سے انکار کیا ہے تاہم فرانسیسی صدر میکرون اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا ہے کہ ایسے شامی فوجی موجود ہیں۔ ترکی پر پہلے بھی ایک تنازعے میں ایسا ہی الزام لگا تھا کہ اس نے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ لیبیا کی حکومت کی مدد کے لیے شامی فوجی بھیجے تھے۔ بی بی سی عربی نے ایک ایسے شخص سے رابطہ بھی کیا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ اسے شمالی شام میں بھرتی کیا گیا تھا تاکہ وہ آذربائیجان میں فوجی چوکیوں کی حفاظت کرے۔ عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوشش اس تنازعے میں عالمی حمایت حاصل کرنے کے لیے دونوں جانب آن لائن پلیٹ فارمز پر شدید کاوشیں جاری ہیں۔ اس میں خطے کے باہر موجود لوگوں کی شمولیت بھی ہے۔ مثال کے طور پر کم کارڈیشیئن جو کہ آرمینیا نژاد ہیں اور دنیا میں سوشل میڈیا پر مقبول ترین لوگوں میں سے ایک ہیں۔ بی بی سی کی جانب سے سوشل میڈئا پر مقبول جملوں کے جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ اس تنازعے کے بارے میں بات چیت میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ فیس بک پر گذشتہ ہفتے میں لفظ آرمینیا اور آذربائیجان پر بالترتیب 20 اور 17 ملین انگیجمنٹس رہی ہیں۔ اس کے علاوہ #WeWillWin, #DontBelieveArmenia, اور #StopAzerbaijanAggression جیسے ہیش ٹیگ انگریزی کے علاوہ کئی زبانوں میں استعمال کیے جا رہے ہیں اور ان کوششوں میں دونوں جانب کی حکومتیں بھی شامل ہیں۔ اور اس آن لائن جنگ میں بڑے پیمانے پر ہم آہنگی کے ساتھ کوششوں کے شواہد بھی موجود ہیں۔ آرمینیا میں سوشل میڈیا صارفین اس پر بھی بحث کر رہے ہیں کہ انھوں نے سوشل میڈیا کو صحیح سے استعمال نہیں کیا اور گذشتہ چند ہفتوں میں ان کوششوں میں تیزی آئی ہے۔ اس کام کے لیے خصوصی فیس بک گروپس بنائے گئے ہیں جن کے شرکا کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ ادھر آذربائیجان کے لوگ بھی زیادہ سے زیادہ مواد شیئر کرنے لگے ہیں۔ مگر جہاں زیادہ تر مواد حقیقت پر مبنی ہے، جعلی اکاؤنٹس کے استعمال کے الزامات ہر طرف لگائے جا رہے ہیں۔ آذربائیجان آرمینیا کے درمیان ناگورنو قرہباخ تنازع پر کشیدگی کئی ہفتوں سے جاری ہے اور اس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ اطلاعات کا ایک انبار لگ چکا ہے۔ text: ہسپتال کی انتظامیہ نے یہ اطلاع دی ہے کہ جوابات ڈھائی لاکھ سے زائد صفحات پرمشتمل ہیں۔ پی ایم سی ایچ سے یہ جانکاری ’ہم لوگ‘ ٹرسٹ کی محترمہ پروین امان اللہ نے طلب کی ہے۔ محترمہ پروین ریاست کے داخلہ سیکریٹری افضل امان اللہ کی اہلیہ ہیں۔ محترمہ پروین نے پی ایم سی ایچ انتظامیہ سے جن امور کی جانکاری طلب کی تھی ان میں وہاں کام کر رہے ڈاکٹروں کی تعداد، انکے نام، آنے جانے کے اوقات اور انکی حاضری وغیرہ کی جانکاری طلب کی تھی۔ بہار میں بڑے پیمانے پر ڈاکٹر سرکاری نوکری میں رہتے ہوئے بھی نجی پریکٹس کرتے ہیں اور کئی بار ان کے وقت پر سرکاری ہسپتال میں نہ پہنچنے کی شکایات ملتی ہیں۔اس تناظر میں یہ جانکاری طلب کی گئی ہے۔ پروین امان اللہ نے یہ اطلاع مانگی ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں جونیئر ڈاکٹر کتنی بار ہڑتال پر گئے، دوران ہڑتال کیا ڈاکٹروں کو تنخواہیں دی گئیں، اگر ہاں تو اسکے لیے کون ذمہ دار ہے اور ہڑتال سے ہسپتال پر کیا اثر پڑا۔ انہوں نے یہ بھی پوچھا ہے کہ ہڑتال کے دوران علاج نہ ہونے کے سبب مرنے والے مریضوں کے اہل خانہ کو معاوضہ کون دیگا۔ ریاست میں بارہا ہسپتال کے ڈاکٹر ہڑتال پر چلے جاتے ہیں اور ان اوقات میں علاج کے بناء پر مریضوں کے اموات کی اطلاع ملتی ہے۔ پی ایم سی ایچ سے ایسی اطلاعات حاصل کرنے کی کوشش میں پروین امان اللہ کے ساتھ ساتھ نائب وزیراعلٰی سشیل کمار مودی کی کزن ریکھا مودی بھی پیش پیش رہی ہیں۔ بعض اوقات دونوں خواتین نے ہسپتال کا معائنہ بھی کیا تو انتظامیہ سے ان کی تلخ کلامی کی بھی اطلاعات ملی ہیں۔ اطلاعات تک رسائی کے حق کا استعمال کرتے ہوئے پروین امان اللہ نے پی ایم سی ایچ میں آپریشن تھیئٹر اور دیگر سامان کی بھی اطلاعات طلب کی ہیں۔ بہار میں ملک کے دیگر حصوں کی طرح رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت محض دس روپے میں اطلاعات حاصل کرنے کا قانون نافذ ہے لیکن اسکے لیے پانچ لاکھ کا بل بنانے پر لوگوں کو حیرت ہوئی ہے۔ مسز امان اللہ کا کہنا ہے کہ پی ایم سی ایچ انتظامیہ در اصل اطلاعات چھپانا چاہتی ہے اس لیے انتظامیہ نے ڈھائی لاکھ صفحات پر مبنی جواب تیار کرنے کی اطلاع بھجوائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ایم سی ایچ سوالات کا جواب نہ دیکر غیر واضح دستاویز کی عکسی کاپیاں لینے کو کہہ رہی ہے جسکا کوئی مطلب نہیں۔ دوسری جانب پی ایم سی ایچ کے پبلک انفارمیشن آفیسر ڈاکٹر آر کے سنگھ کا کہنا ہے کہ جو اطلاعات طلب کی گئی تھیں وہ ڈھائی لاکھ صفحات میں تیار ہوئی ہیں۔ مسز پروین نے اس جواب کو لینے سے انکار کر دیا ہے اور انہوں نے ریاستی انفارمیشن کمیشن میں اپیل داخل کر کےضروری اطلاعات مناسب طریقے سے فراہم کروانے کو کہا ہے۔اس اپیل پر جلد ہی سماعت ہونی ہے۔ پٹنہ میڈیکل کالج اینڈ ہاسپیٹل یعنی پی ایم سی ایچ کی جانب سے اطلاعات حاصل کرنے کے حق کے تحت طلب کی گئی بعض جانکاری کے لیے پانچ لاکھ روپے کا بل دیا گیا ہے۔ text: آسام میں کئی کلعدم تنظیم سرگرم ہیں اور وہاں کئی قسم کی تحریکیں جاری ہیں حکام کے مطابق یہ واقعہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب ریاست کے ضلع گوال پاڑہ میں اس وقت پیش آیا جب مسلح افراد نے جوا کھیلنے والے ایک گروپ پر فائرنگ کر دی۔ واضح رہے کہ دیوالی کے موقع پر بہت سے لوگ رسمی طور پر جوا کھیلتے ہیں۔ ابھی تک کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم بھارتی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق حکام کو شبہ ہے کہ اس حملے میں آسام سے متصل ریاست میگھالیہ کے مشتبہ شدت پسند گروپ ملوث ہو سکتے ہیں۔ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ حملہ آور خود کار اسلحے سے لیس تھے اور ان کا تعلق بظاہر کالعدم تنظیم گارو نیشنل لبریشن آرمی سے بتایا جا رہا ہے۔ جی این ایل اے بھارت کی شمال مشرقی ریاست میگھالیہ کے گارو جنگلات میں سرگرم ہے۔ یہ علاقہ آسام کے گوال پاڑہ سے متصل ہے اور وہاں سنہ 2009 سے علیحدہ ریاست کی مہم جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس حملے میں چھ افراد جائے حادثہ پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ زخمیوں کو گوال پاڑہ سول ہسپتال لے جایا گيا جہاں مزید ایک شخص نے دو توڑ دیا۔ بی بی سی کے نمائندے امیتابھ بھٹاشالی نے بتایا ہے کہ ہلاکتوں میں مزید اضافے کا بھی خدشہ ہے۔ زخمیوں نے پولیس کی آمد میں تاخیر کی شکایت بھی کی ہے۔ تاہم سینيئر پولیس حکام کا کہنا ہے کہ خبر ملتے ہی پولیس فوری طور پر وہاں پہنچی اور علاقے میں حفاظتی انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں۔ واضح رہے گوال پاڑہ میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ربھا ہسونگ آٹونومس کونسل کے آئندہ انتخابات کی وجہ سے تشدد کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ یہ انتخابات نومبر کے وسط میں 13 سے 25 تاریخ کے دوران ہونے والے ہیں اور کونسل کا مطالبہ ہے کہ غیر ربھا علاقوں کو کونسل سے خارج کیا جائے۔ بہرحال حکام کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کے اس واقعے کا تعلق انتخابات سے نہیں ہے۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں دیوالی کا تہوار منانے والوں پر حملے میں کم از کم سات افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔ text: سپیکر کے انتخاب پر اختلافات کی وجہ سے عراق میں حکومت سازی کے کام میں تاخیر ہو رہی تھی۔ عراق میں جنوری میں منتخب ہونے والے ارکان اتوار کو سنی فرقے سے تعلق رکھنے والے صنعت کے موجودہ وزیر حاجم الحسني کو پارلیمان کے سپیکر پر منتخب کرنے پر رضامند ہو گئے۔ حاجم الحسني امریکی فوج کے فالوجہ پر حملے کے بھی شدید مخالف تھے ۔ ابتدا میں وہ سپیکر کا عہدہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ جوہری سائنسدان حسين الشہرستاني جن کا تعلق اکثریتی شیعہ فرقے سے ہے اور ایک کرد سیاستدان عارف تیفور کوالحسینی کے نابین کے عہدوں پر منتخب کر لیا گیا ہے۔ پالیمان کے ارکان آج نئے صدر کا بھی انتخاب کرنے والی ہے اور اس عہدے کے لیے کرد رہنما جلال طالباني ایک مضبوط امیدوار ہیں۔ شیعہ حکام کے مطاق سپیکر کے انتخاب میں تاخیر اس وجہ سے ہوئی کہ وہ اس عہدے کے لیے کسی سنی امیداور کی تلاش کر رہے تھے جو کہ تمام لوگوں کے لیے قابل قبول ہو۔ تاہم کچھ سنی ارکان کا خیال ہے کہ سپیکر کے انتخاب میں تاخیر شیعہ اور کردوں میں حکومتی عہدوں کی تقسیم پر اختلافات کی وجہ سے ہوئی۔ پارلیمان کو اب پندرھ اگست تک نئے عراقی آئین کی تشکیل دینے کے چیلنج کا سامنا ہے۔ عراقی کی پارلیمان نے کئی ہفتوں تک جاری رہنے والے اختلاف کے بعد اتوار کو اپنے تیسرے اجلاس میں بالاخر سپیکر کا انتخاب کر لیا ہے۔ text: بینکاک میں تماشا کرنے والوں نے خنزیر کا روپ دھارا نئے سال کے آغاز پر چین میں کروڑوں افراد نے اپنے آبائی علاقوں کا رخ کیا ہے۔ اس عمل کو دنیا کی سب سے بڑی سالانہ نقل مکانی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بھی پڑھیے خنزیر کے سال سے مسلم جذبات مجروح ہوں گے؟ نیا قمری سال کا جشن ایشیا کے متعدد ممالک میں منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر آتش بازی کے مظاہرے ہوتے ہیں، لوگ زرق برق ملبوسات پہنتے ہیں، سرخ لالٹینیں روشن کی جاتی ہیں اور طرح طرح کے پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔ خنزیر چینی منقطع البروج یا راس چکر (زوڈیئیک) کے 12 بروج میں سے ایک ہے اور اسے پرامیدی، جوش اور محنت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس برس کی تقریبات کا محور خنزیر رہے گا جیسے ہانگ کانگ میں یہ بڑا مجسمہ نصب کیا گیا ہے بیجنگ کے ایک ٹیمپل میں رسومات کی ادائیگی کی ریہرسل کی جا رہی ہے نئے سال کے آغاز پر ہر برس چین میں کروڑوں افراد اپنے آبائی علاقوں کا رخ کرتے ہیں سڑکوں پر ٹریفک جام اور گاڑیوں کی میلوں لمبی قطاریں نئے سال کے موقع پر معمول کی بات ہیں جکارتہ کے سی ورلڈ میں غوطہ خور بچوں کو نئے سال اور جشنِ بہار کی مبارکباد دیتے ہوئے نئے قمری سال کا جشن آسٹریلیا میں بھی منایا جا رہا ہے اور سڈنی کے مشہور اوپرا ہاؤس کو اس موقع پر سرخ روشنیوں میں نہلا دیا گیا منیلا میں بچے سڑکوں پر ڈریگن ڈانس کرتے دکھائی دیے انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں ڈریگن ڈانس کا باقاعدہ اہتمام کیا گیا تھا ویت نام میں نئے سال کے جشن کے موقع پر سجاوٹ کا منظر ہانگ کانگ کے اس شاپنگ مال میں بنائے جانے والے اس نمونے کا نام گولڈن ایئر رکھا گیا ہے جشن کے ساتھ ساتھ لوگ نئے سال کے آغاز کے موقع پر عبادات کے لیے بھی جمع ہوئے تمام تصاویر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ افراد نے نئے چینی، قمری سال کا جشن منانا شروع کر دیا ہے۔ یہ سال خنزیر سے منسوب ہے۔ text: عراقی پولیس کا کہنا ہے کہ دو حملہ آوروں نے اپنے آپ کو بعقوبہ شہر میں ایک فوجی اڈے میں جمع ریکروٹوں کے بیچ میں اپنے آپ کو اڑا دیا۔ ایک حملہ آور کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس نے عراقی فوج کی وردی پہنی ہوئی تھی۔ بعقوبہ بغداد سے ساٹھ کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ بعقوبہ دیالہ صوبے کا دارالحکومت ہے جو عراق کا سب سے خطرناک علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ عراق میں پہلے کی نسبت تشدد کے واقعات میں کمی آئی ہے لیکن وہاں پھر بھی اس طرح کے واقعات جاری ہیں۔ منگل کو ہونے والا حملہ یکم مئی کے بعد سب سے بڑا حملہ ہے۔ اس وقت بھی دو خود کش حملوں میں پینتیس لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ عراق میں حالیہ برسوں میں ہزاروں ریکروٹ اس طرح کے پرتشدد حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود بڑی تعداد میں نوجوان اب بھی فوج میں بھرتی ہونا چاہتے جو ملک میں روزگار کے چند ذرائع میں سے ایک ہے۔ عراق میں فوجی بھرتی کے ایک مرکز پر دو خودکش حملوں میں کم سے کم پینتیس لوگ ہلاک ہو گئے ہیں۔ حملوں میں پچاس سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔ text: 45 سالہ مائیکل روس نے سزائے موت کے خلاف مہم چلانے والوں اور یہاں تک اپنے گھر والوں کی جانب سے اسے بچانے کی کوششوں کو مسترد کردیا تھا۔ مائیکل کو آج صبح زہریلا انجیکشن دے کر سزائے موت دی گئی۔ مائیکل روس نے 1980 کی دہائی میں آٹھ نوجوان لڑکیوں کی آبرو ریزی کے بعد انہیں ہلاک کیا تھا اس کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گناہوں کی سزا پانا چاہتا ہے۔ سزائے موت کے اس واقعہ سے ریاست میں تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے جہاں اس طرح کی سزا شاذو نادر ہی دی جاتی ہے۔ گزشتہ برس روس نےاپنے ہاتھوں قتل ہونے والی لڑکیوں میں سے ایک کی ماں کو ٹی وی پر دیکھنے کے بعد اپنی زندگی بچانے کی تمام اپیلوں کو مسترد کر دیا تھا۔ لیکن روس کے گھروالوں اور سزائے موت کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا تھا کہ روس 18 برس تک چلنے والی مقدمے کی کاروائی سے تھک گیا ہے اس لئے ایسا کہہ رہا ہے۔ جمعرات کو نیویارک کی اپیل کورٹ اور امریکی سپریم کورٹ نے روس کے والد کی جانب سے کی جانے والی اپیل کو مسترد کرتے ہوئہ کہا کہ اس سے قیدیوں میں خود کشی کے رجحانات میں اضافہ ہوگا۔ امریکی ریاست کنیکٹیکٹ میں ایک سیریل کلر کو سزائے موت دی گئی ہے۔ گزشتہ پیتالیس سال میں یہ بار ہوا ہے کہ یہاں کسی شخص کو سزائے موت دی گئی ہے۔ text: حکومتی تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ سیاہ فام نسل کے مردوں کے مقابلے میں خواتین کی پہچان میں اس میں مزید غلطیوں کے امکانات نظر آئے ہیں۔ تحقیق کے بعد اس معاملے میں مزید شبہات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس قسم کی ٹیکنالوجی استعمال کرنی چاہیے۔ یہ بھی پڑھیے جذبات جانچنے والی ٹیکنالوجی پر پابندی کا مطالبہ چین: 60 ہزار کے ہجوم میں ملزم کی شناخت 'بھیڑیں انسانی چہروں کو پہچان سکتی ہیں' نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹینڈرڈز اینڈ ٹکنالوجی (نسٹ) نے انٹیل، مائیکروسافٹ، توشیبا اور چینی کمپنیوں ٹینسینٹ اور ڈی ڈی چوشنگ سمیت 99 کمپنیوں کے 189 ایلگورتھمز کی جانچ کی ہے۔ ایمیزون کمپنی چہروں کو شناخت کرنے والی اپنی ٹیکنالوجی ’ریکگنیشن‘ امریکی پولیس فورسز کو فروخت کرتی ہے تاہم کمپنی نے اس تحقیق کے لیے اپنا نمونہ جانچ کے لیے نہیں پیش کیا تھا۔ ’ون ٹو ون میچنگ‘ اس سے قبل اس کمپنی نے میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ایک مطالعے کو ’گمراہ کن‘ قرار دیا تھا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ریکگنیشن کی کارکردگی سیاہ فام خواتین کے چہروں کی پہچان میں خاص طور پر خراب تھی۔ رپورٹ کے مطابق جب کسی خاص تصویر کو اسی شخص کی دوسری تصویر سے ملایا گیا (ون ٹو ون میچنگ یا ایک سے ایک کا میل کرایا گیا) تو بہت سے مصنوعی ذہانت پر مبنی ایلگورتھم نے سیاہ فام اور ایشیائی چہروں کو 10 سے لے کر 100 مرتبہ تک کوکیشین چہروں کے مقابلے میں غلط پہچانا۔ اور ایک سے ایک کی میچنگ میں سیاہ فام نسل کی خواتین کی غلط پہچان کے زیادہ امکانات نظر آئے جہاں کسی خاص تصویر کو ڈیٹابیس میں موجود بہت سے چہروں سے مشابہ قرار دیا جاتا ہے۔ کانگریس کے رکن اور ہوم لینڈ سکیورٹی کی یوایس ہاؤس کمیٹی کے چیئرمین بینی تھامسن نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’امریکی انتظامیہ کو چہروں کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کے نئے دہشت انگیز نتائج کی روشنی میں از سرِ نو ضرور جائزہ لینا چاہیے۔‘ کمپیوٹر سائنسدان اور ایلگورتھمک جسٹس لیگ کے بانی جوا بولاموینی نے ان دعوؤں کے خلاف اس رپورٹ کی ’جامع تردید‘ کی ہے اور کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئر میں تعصب کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ نسٹ کے مطالعے میں ایلگورتھمز میں دو اقسام کی غلطیوں کی جانچ کی گئی: سافٹ ویئر کی جانچ کے لیے وزارت خارجہ، ہوم لینڈ سکیورٹی کے محکمے اور ایف بی آئی کی جانب سے فراہم کردہ ڈیٹا بیس کی تصاویر کا استعمال کیا گیا۔ اس میں سوشل میڈیا یا ویڈیو کے ذریعے نگرانی سے کوئی تصویر استعمال نہیں کی گئی۔ نسٹ کے کمپیوٹر سائنسدان اور رپورٹ کے بنیادی مصنف پیٹرک گروتھر نے کہا کہ ’تمام ایلگورتھمز پر کوئی بات کہنا غلط ہو گا۔ لیکن ہم نے چہرے پہچاننے والے جن ایلگورتھم کا مطالعہ کیا ان میں سے زیادہ تر میں ہمیں آبادی کے اختلافات کے تعلق سے عملی شواہد ملے۔ ’اگرچہ ہم نے ان اختلافات کی وجوہات کو دریافت نہیں کیا لیکن یہ اعداد و شمار پالیسی سازوں، مصنوعی ذہانت بنانے والوں اور استعمال کرنے والوں کے لیے گراں قدر ہوں گے جو ان ایلگورتھمز کی حدود اور ان کے مناسب استعمال پر غور کریں گے۔‘ چین کی ایک کمپنی سینس ٹائم جس کی ایلگورتھم ناقص پائی گئی اس نے کہا کہ یہ ’بگز‘ کا نتیجہ ہے اور اب اسے درست کر لیا گيا ہے۔ ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا: ’یہ نتائج ہماری مصنوعات کی ترجمانی نہیں کرتے کیونکہ یہ بازار میں آنے سے قبل جانچ کے مرحلے میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے تمام کمرشل حل میں اول درجے کی درستی ہوتی ہے۔‘ سین فرانسسکو، اوکلینڈ، کیلیفورنیا، سمرویلے اور میساچوسیٹس سمیت مختلف امریکی شہروں نے چہروں کی شناخت والی ٹیکنالوجی پر پابندی لگا رکھی ہے۔ امریکہ کے ایک سرکاری جائزے کے مطابق انسانی چہروں کو پہچاننے والے ایلگورتھم سفید فام نسل کے چہروں کے مقابلے میں سیاہ فام اور ایشیائی باشندوں کے چہرے پہچاننے کے معاملے میں بہت ناقص ہیں۔ text: اکرم درانی 2002 سے 2007 تک صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ رہے تھے انتخابات کے اعلان کے بعد بنوں میں یہ امیدواروں پر یہ دوسرا حملہ ہے جبکہ دو روز پہلے پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی مہم میں حملے سے ہارون بلور سمیت 21 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ہمارے نامہ نگار عزیز اللہ کی رپورٹ کے مطابق ضلع بنوں میں آج صبح سابق وزیر اعلیٰ اکرم درانی شہر سے کوئی 15 کلومیٹر دور علاقہ ہوید میں جلسے سے خطاب کر کے واپس بنوں جا رہے تھے۔ بنوں سے پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ راستے میں موٹر سائیکل میں نصب باوردی مواد سے دھماکہ ہوا۔ پشاور: خودکش دھماکے میں 20 ہلاکتیں، شہر سوگوار پشاور: خودکش حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین اس دھماکے میں پولیس کے مطابق متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ دھماکے کے بعد علاقے سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔ اکرم درانی اس حملے میں محفوظ رہے ہیں۔ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال بنوں سے ڈاکٹر قاضی فیاض الدین نے بی بی سی کو بتایا کہ تین افراد ہلاک اور 39 زخمی ہوئے ہیں۔ زحمیوں میں تین کی حالت تشویش ناک بتائی گئی ہے۔ اکرم خان درانی بنوں کے قومی اسمبلی کے حلقہ سے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ بنوں کا یہ حلقہ اکرم خان درانی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے اور انھوں نے اس علاقے میں اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں متعدد ترقیاتی منصوبے شروع کیے تھے۔ دو روز پہلے پشاور کے علاقے یکہ توت میں عوامی نیشنل پارٹی کے جلسے میں خود کش حملے میں 31 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ حالیہ انتخابات کے لیے سیاست دانوں اور امیدواروں پر حملوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا اور سینیٹ میں وزارت داخلہ کے حوالے سے قائم کمیٹی کے سامنے انسداد دہشت گردی کے داارے نے یہ بات بتائی تھی کہ حالیہ انتخابات میں امیدواروں پر حملے ہو سکتے ہیں۔ جن سیاست دانوں پر حملوں کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے ان میں عمران خان، اسفندیار ولی، آفتاب شیرپاؤ کے علاوہ اکرم خان درانی کا نام بھی شامل ہے۔ خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں میں جمعیت علمائے اسلام ف کے امیدوار اکرم خان درانی کے قافلے پر حملے میں تین افراد ہلاک اور 39 زخمی ہوئے ہیں، البتہ سابق وزیر اعلیٰ اکرم درانی اس حملے میں محفوظ رہے ہیں۔ text: بلوچستان میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور سے حالات زیادہ خراب ہیں سیکریٹری داخلہ بلوچستان اکبر درانی نے بی بی سی کو بتایا کہ اتوار کی صبح نامعلوم مسلح افراد نے تحصیل وڈھ کے علاقے چوکر میں لیویز کی چیک پوسٹ پر حملہ کر دیا۔ خضدار شہر میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت سبی:انتخابی قافلے پر حملہ، 2 لیویز اہلکار ہلاک سیکریٹری داخلہ کے مطابق فائرنگ سے آٹھ لیویز اہل کار ہلاک جبکہ ایک زخمی ہو گیا۔ انھوں نے کہا کہ زخمی اہل کار کو قریبی ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے اور جب ان کی حالت سنبھلے گی تو ان سے مزید معلومات حاصل کی جائیں گی۔ انھوں نے بتایا کہ واقعہ کے بعد پولیس کی نفری نے علاقے کی ناکہ بندی کرتے ہوئے حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کے لیے کارروائی شروع کردی ہے۔ ایک مقامی انٹیلیجنس اہلکار نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا کہ ابھی تک کسی گروپ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور سے حالات زیادہ خراب ہیں اور ان میں شدت اس وقت آئی جب ایک مبینہ فوجی آپریشن میں بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی مارے گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد سے صوبے میں مزاحمتی تحریک جاری ہے اور پرتشدد واقعات معمول بن گئے ہیں جن میں لوگوں کا لاپتہ ہونا اور اس کے بعد ان کی لاشوں کے ملنے کے واقعات نمایاں ہیں۔ یہ شہر اگرچہ کوئٹہ کو کراچی سے منسلک کرنے والی اہم آر سی ڈی شاہراہ پر واقع ہے لیکن اس میں ترقیاتی منصوبے کم ہی شروع کیے گئے ہیں۔ پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے آٹھ لیویز اہل کار ہلاک ہو گئے ہیں۔ text: خطاب کے بعد صحافیوں نے دونوں رہنماؤں پر سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ دونوں رہنماؤں نے ترکی میں ہونے والے دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کے خاتمے تک اس کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ بش اور بلیئر نے عراق اور دہشتگردی کے معاملات پر متفقہ موقف کا اظہار کیا۔ بش نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد کم کرنے کا امکان نہیں ہے بلکہ اس میں اضافہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا ’عراق کو محفوظ بنانے کے لئے ہر ضروری اقدام اٹھایا جائے گا‘۔ دونوں رہنما بظاہر گوانتانامو بے میں قید نو برطانوی شہریوں کے معاملے پر صحافیوں کو سوالات کے اطمینان بخش جواب نہیں دے سکے۔ ان نو افراد کو کسی مقدمے کے بغیر قید میں رکھا گیا ہے۔ امید کی جارہی تھی کہ صدر بش کے دورے کے دوران اس معاملے کو حل کیا جائے گا تاہم بلیئر کا کہنا تھا کہ اس مسئلے پر کسی اور وقت غور کیا جائے گا جبکہ بش کا جواب کچھ مبہم ہی رہا اور انہوں نے کہا ’انصاف کیا جارہا ہے اور ان کے ساتھ انسانی سلوک روا رکھا گیا ہے‘۔ پریس کانفرنس کے ساتھ ساتھ برطانوی پارلیمان کے نواح میں تقریباً ایک لاکھ جنگ مخالف افراد احتجاج کررہے ہیں۔ اس احتجاج کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں بلیئر نے کہا ’یہ ہماری جمہوریت کا حصہ ہے۔ میرا صرف اتنا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو چاہئے کہ ہمارا موقف بھی سنیں‘۔ دونوں رہنماؤں نے مذاکرات کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ کئی برس بعد عراقی اس قابل ہوئے ہیں کہ وہ آزادی کا مزہ چکھ سکیں۔ امریکی صدر بش اور برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر نے لندن کی ڈاؤننگ سٹریٹ میں مذاکرات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا ہے۔ text: ’گمشدگی کے اگلے دن ایک مقامی ٹی وی چینل پر یہ خبر چلی کہ پون کمار ولد گوپال داس نے اپنی رضا و خوشی سے اسلام قبول کرلیا ہے‘ ٹنڈوالہیار پولیس کہتی ہے کہ خانقاہ کے نگراں کے بقول پندرہ سالہ پون کمار مقامی عدالت کے سامنے تبدیلی مذہب کی تصدیق کرچکا ہے اور یہ کہ وہ اس کی بازیابی کے لیے کوششیں کررہے ہیں۔ پون کے دادا کے چھوٹے بھائی 63 سالہ رتن لال لالوانی ٹنڈوالہیار کی ہندو پنچایت کے صدر ہیں۔ انھوں نے بی بی سی اردو سروس کو بتایا کہ پون 15 جون کو کرکٹ کھیلنے گیا تھا اور جب وہ شام تک واپس نہیں لوٹا تو گھر والوں نے اُسے کال کی مگر اس کا موبائل فون رات دس ساڑھے دس بجے تک بند مل رہا تھا۔ ’رات پونے گیارہ بجے اس کے نمبر سے کال آئی اور بولا کہ کچھ لوگ ہیں جو مجھے چھوڑتے نہیں ہیں۔ یہ کہہ کے اس نے کال بند کردی۔‘ رتن لال لالوانی نے کہا کہ انھوں نے اسی رات پولیس کو رپورٹ کی جس کے بعد پولیس نے کال کو ٹریس کرکے پتہ چلایا کہ پون ضلع عمرکوٹ کے علاقے سامارو کی ایک خانقاہ کے سجادہ نشین پیر ایوب جان سرہندی کی حویلی میں ہے۔ انھوں نے کہا کہ گمشدگی کے اگلے دن ایک مقامی ٹی وی چینل پر یہ خبر چلی کہ پون کمار ولد گوپال داس نے اپنی رضا و خوشی سے اسلام قبول کرلیا ہے۔ لالوانی نے کہا کہ ’اصل میں تو اغوا کی واردات ہوئی ہے جسے چھپانے کے لیے انھوں نے اسلام کا حوالہ دے کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی ہے کیونکہ مدرسے تو ہمارے ٹنڈوالہیار میں بہت ہیں۔ اگر اسے مسلمان ہونا تھا تو اپنے علاقے میں ہی ہوجاتا، وہ 70 سے 80 کلومیٹر دور جاکے مسلمان ہوگیا۔ یہ کیسے ممکن ہے؟‘ پون کے خاندان کا کہنا ہے کہ انھوں نے واقعے کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے پولیس کو درخواست دے رکھی ہے مگر اب تک مقدمہ درج نہیں ہوا جبکہ خانقاہ کے سجادہ نشین بچے سے ان کی ملاقات کرانے کے بجائے مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔ رتن لال لالوانی نے کہا کہ ’ہم نے کہا ملاقات کرالو۔ اگر آپ نے مسلمان کرلیا ہے تو اسے آزاد کرو تاکہ وہ جہاں چاہے چلا جائے۔ مسلمان کرنے کے بعد آپ کو قید کرکے رکھنے کا اختیار ہے کیا؟ تو اس پہ کہتے ہیں کہ بھئی ہم اس کے محافظ ہیں۔ چلو آپ محافظ بھی ہو تب بھی اس کے گھر والوں سے ملاقات تو کراو۔‘ پون نے حال ہی میں میٹرک پاس کرنے کے بعد علاقے کے ایک نجی سکول میں گیارہویں جماعت میں داخلہ لیا تھا۔ پیر ایوب جان سرہندی نے پون کو اغوا کرکے قید میں رکھنے اور جبراً اسلام قبول کرانے کے الزامات کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پون اُن کے پاس آنے سے پہلے ہی مسلمان ہوچکا تھا اور انھوں نے تو اسے محض مسلمان ہونے کی سند جاری کی تھی اور اب انھیں نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہے۔ ’ٹنڈوالہیار میں میرے مدارس ہیں اور میرے مرید ہیں۔ میں وہاں جلسوں میں آتا جاتا رہتا ہوں تو تقریباً پانچ آٹھ مہینوں سے ایک باریش نوجوان مسلسل میرے پاس آتا تھا اور کہتا کہ میں مسلمان ہوچکا ہوں اور مجھے مہربانی کرکے آپ اپنے پاس رکھیں اور مجھے دینی تربیت دیں۔‘ اصل میں تو اغوا کی واردات ہوئی ہے جسے چھپانے کے لیے انھوں نے اسلام کا حوالہ دے کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی ہے: لال رتن لالوانی ٹنڈوالہیار پولیس کے سربراہ جاوید بلوچ نے اس بات کی تصدیق کہ یہ معاملہ ان کے علم میں ہے اور وہ فریقین سے رابطے میں ہیں۔ ’میں نے یہ معاملہ ایک ڈی ایس پی کے سپرد کردیا ہے جو خود جاکے معاملے کو دیکھیں گے۔ ہماری طرف سے جتنی مدد ہوگی ہم کریں گے۔‘ انھوں نے کہا کہ سرہندی کا کہنا ہے کہ پون نے عمرکوٹ کی عدالت کے سامنے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت بیان ریکارڈ کرایا ہے کہ اب وہ مسلمان ہوچکا ہے مگر انھوں نے کہا کہ پاکستانی قانون کے تحت اٹھارہ برس سے کم عمر بچے کا دفعہ 164 کے تحت بیان ریکارڈ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ ’تو میں نے اُن سے کہا کہ یہ تو 15 سال کا بچہ ہے، اس میں اتنا سینس تھوڑی ہے کہ وہ اس طرح کا بیان دے۔‘ انھوں نے کہا کہ سرہندی نے خود ان کے ساتھ گفتگو میں اعتراف کیا ہے کہ پون ان کے پاس ہے اور اگر وہ جلد ہی لڑکے کو سامنے نہیں لائے تو پولیس ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے قانون کے مطابق کارروائی کرے گی۔ پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے ٹنڈو الہیار میں ایک ہندو خاندان کا دعویٰ ہے کہ ان کے ایک نوعمر لڑکے کو علاقے کی خانقاہ کے نگراں نے اغوا کرنے کے بعد جبراً مسلمان بنالیا ہے اور اسے اپنی قید میں رکھا ہوا ہے۔ text: اس نمائش میں لِتھوگراف، سکرین پرنٹ اور ایچنگز شامل ہیں اور یہ تمام فن پارے ایڈنبرا کے ڈوم کے مقام میں لگی ہوئی ہیں۔ اس نمائش کا نام سابق بیٹل کے ایک مشہور گیت ’جسٹ ایمیجِن‘ پر رکھا گیا ہے۔ تیس اکتوبر کو یہ نمائش لندن کی ’گیلری ون‘ منتقل ہو جائے گی۔ یہ فن پارے انیس سو اڑسٹھ اور انیس سو اسی کے درمیان بنائے گئے تھے اور یہ موسیقار کی زندگی کے مختلف واقعات کی عکاسی کرتے ہیں۔ لینن کو انیس سو اسی میں نیو یارک کی ان کی رہائش گاہ کے باہر قتل کر دیا گیا تھا۔ جون لینن نے اپنا نام موسیقی میں روشن کیا لیکن موسیقی سے پہلے وہ مصوری میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے انیس سو ستاون سے انیس سو ساٹھ تک لیورپول آرٹ سکول میں باقائدہ آرٹ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ انیس سو ساٹھ سے ان کا ’بیٹلز‘ پاپ گروپ کے ساتھ کام بہت بڑھ گیا اور اس دہائی میں یہ گروپ دنیا بھر میں مشہور ہوا۔ اس کے باوجود جون لینن کہا کرتے تھے کہ آرٹ ان کے لئے موسیقی سے زیادہ اہم ہے۔ ان فن پاروں کی قیمتیں چار سو سے لے کر چار ہزار پاؤنڈ تک رکھی گئی ہیں۔ مشہور پاپ گروپ ’بیٹلز‘سے تعلق رکھنے والے مقتول موسیقار جون لینن کے فن پاروں کی نمائش سکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا میں شروع ہوئی ہے۔ text: دستور کے مطابق حکومت کی آئینی مدت مکمل ہو جانے سے پہلے ہی نگراں وزیراعظم کا چناؤ کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ حکومت کی مدت 31 مئی کو ختم ہو رہی ہے جس کے بعد عبوری حکومت ملک میں عام انتخابات منعقد کروائے گی جو ممکنہ طور پر جولائی کے آخر یا اگست کے پہلے ہفتے میں ہوں گے۔ نگراں وزیر اعظم کی نامزدگی کا طریقۂ کار کیا ہے؟ پی ٹی آئی کے امیدوار عشرت حسین اور تصدق جیلانی پہلے مرحلے میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کو نگراں سیٹ اپ کے لیے ایک نام پر اتفاق کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان اب تک متعدد ملاقاتیں ہو چکی ہیں جو بظاہر بے نتیجہ ثابت ہوئی ہیں۔ سید خورشید شاہ کے مطابق ’جو حکومت کی جانب سے نام دیے گئے تھے وہ ابھی تک انھی پر قائم ہیں اس بات پر وزیراعظم نے کہا کہ چلو پھر ایک بار سوچ لیتے ہیں۔۔۔۔‘ اپوزیشن لیڈر کا کہنا ہے کہ کوشش ہے کہ معاملہ لیڈر آف ہاؤس اور اپوزیشن کے درمیان ہی طے ہو یہ پارلیمان کے لیے اچھا ہو گا۔ ایسا نہ ہونے پر معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا جائے گا۔ سنہ 2013 کے انتخابات کے موقع پر بھی صورتحال کچھ خوش آئند نہیں تھی جب پارلیمنٹ کے بجائے الیکشن کمیشن نے نگراں وزیراعظم کا نام چنا تھا۔ اس وقت پاکستانی میڈیا پر مختلف جماعتوں کے ذرائع کے حوالے سے مختلف ناموں کی باز گشت جاری ہے تاہم آن ریکارڈ حکمراں جماعت اور اپوزیشن کسی بھی نام کو سامنے لانے سے گریزاں ہے۔ ذرائع کے حوالے سے چلائے جانے والے ناموں میں کہا جا رہا ہے کہ پی پی پی کی جانب سے جلیل عباس جیلانی اور ذکا اشرف کا نام لیا جا رہا ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ن کی جانب سے جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی اور جسٹس (ر) ناصر الملک کا نام سامنے آیا ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نگراں وزیراعظم کی موجودگی آئینی ضرورت ہے لیکن انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوسکتا اور اس کے لیے آزاد الیکشن کمیشن پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں تک ناموں کی بات ہے وہ ہر نگراں سیٹ اپ سے پہلے سامنے آتے رہتے ہیں۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار راؤ خالد کہتے ہیں اس وقت نگراں وزیراعظم کے چناؤ کے لیے بظاہر کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آ رہی لیکن ایسے میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں جانب سے اندرون خانہ کوئی فیصلہ کیا جا چکا ہو۔ ’میری ذاتی اطلاعات کے مطابق اس وقت ڈاکٹر عشرت حسین کا نام نگراں وزیراعظم کے لیے فہرست میں سب سے اوپر ہے جس پر تقریباً تمام جماعتوں کا اتفاق ہے اور اسٹبلشمنٹ کو بھی قابل قبول ہے۔‘ راؤ خالد کہنا ہے کہ اس صورتحال میں پی ٹی آئی بھی پورا زور لگا رہی ہے کہ کوئی ایسا بندہ آ جائے جو ان کی نظر میں غیر جانبدار ہو چاہے دوسروں کی نظر میں نہ ہو۔ بی بی سی کے نامہ نگار آصف فاروقی کے مطابق جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی کے نام پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا تھا لیکن پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی جانب سے کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین ذکا اشرف کا نام سامنے آنے سے معاملہ رک گیا۔ خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر نعیم نے اس سے قبل بی بی سی سے گفتگو میں کہا تھا کہ نگران وزیراعظم کے لیے جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی اور ماہر معاشیات عشرت حسین کا نام تجویز کیا گیا ہے۔ نگراں سیٹ اپ میں چاروں صوبوں میں وزرائے اعلیٰ کے لیے کون سی شخصیات ہو سکتی ہیں اس بارے میں بھی ابھی کوئی نام سامنے نہیں آئے۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی، سندھ میں ایم کیو ایم اور پی پی پی، کے پی میں پی ٹی آئی اور جمعیت العمائے اسلام (ف) اور بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی اور بختونخوا ملی عوامی پارٹی نگراں سیٹ اپ کے لیے وزیرائے اعلی کا چناؤ کریں گی۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا خیال ہے کہ نگران وزیراعظم کے نام کے لیے ایک مرتبہ پھر سوچ لیتے ہیں شاید کوئی ایسا نام نظر آجائے جس پر ہم متفق ہو جائیں۔ text: مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہوا ہے گذشتہ برس جولائی میں انتخابات سے قبل ایک اہم اننگز کا آغاز کیا گیا۔ احتساب کی اس اننگز میں جناب عمران خان نے شاندار بولنگ کی۔ اپوزیشن کی اہم وکٹیں گرا دیں، جس جس نے چیلنج کیا اُسے پویلین میں بھیج دیا گیا، چوں چراں کرنے والی ہر آواز کا ناطقہ بند۔ قومی اسمبلی کی اولین دو قطاروں سے ناپسندیدہ چہرے غائب، یہاں تک کہ اگر میڈیا سے بھی اختلافی آوازیں آئیں تو خاموشی کا خود ساختہ بٹن آن ہو گیا۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، چور چور کی صدائیں، حزب اختلاف کی لوٹ مار کی کہانیاں زبان زد عام تھیں۔ اتنی خوش نصیب حکومت کہ اس کے تمام صفحے اور اس کی سب تحریریں ایک۔ نہ کوئی احتجاج، نہ کوئی للکار۔ یہ بھی پڑھیے جمہوریت بمقابلہ فسطائیت ’پیچھے نہیں، آگے دیکھو‘ عزیز ہم وطنو! ’حکومت مستعفی نہ ہوئی تو اکتوبر میں آزادی مارچ ہوگا‘ پھر کیا ہوا کہ ایک سال ہو گیا، آہستہ آہستہ انصاف حکومت کی حمایتی آوازوں کے پاس گذشتہ ایک سال میں کیا کارکردگی رہی جیسے سوالوں کا جواب تراشنا مشکل ہو گیا۔ حکومت کی معاشی کارکردگی نے ہر سوال کے جواب میں حکومت کے لیے سوال کھڑے کرنے شروع کر دیے۔ احتساب پر بات ہونے لگی کہ 'چوروں' کے خلاف ثبوت کب تک منظر عام پر آئیں گے؟ رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات کی ویڈیو جس کی گواہی بےحد ایماندار وزیر شہریار آفریدی نے ٹی وی پر دی تھی آج تک عدالت میں پیش نہیں ہو سکی۔ اور تو اور ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج صاحب نے یہ تک فرما دیا کہ یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ احتساب کا عمل سیاسی انجینیئرنگ کے لیے استعمال ہوا۔ سٹریٹ پاور کے حامل مولانا فضل الرحمان کو اخلاقی جواز ن لیگ اور پیپلز پارٹی فراہم کر سکتے ہیں اِدھر ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رہنے والے مولانا نے اکتوبر کی کال دی اُدھر نواز شریف کے ساتھ مبینہ بات چیت کا آغاز ہو گیا۔ مولانا فضل الرحمان گذشتہ تین سے چار دہائیوں سے پاکستان کی سیاست کی اہم ترین شخصیات میں سے ہیں۔ وہی ہتھیار استعمال کرنا جانتے ہیں جن کو اُن کے ہاتھ دیا جاتا رہا۔ اگرچہ اس وقت مولانا ہیں تو سیاست کے اس کھیل کے بارہویں کھلاڑی مگر اس میچ کی جگہ اور وقت کا تعین بظاہر وہی کریں گے۔ سٹریٹ پاور کے حامل مولانا کو اخلاقی جواز ن لیگ اور پیپلز پارٹی فراہم کر سکتے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ مولانا فضل الرحمن اُن تمام کھیلوں سے آشنا ہو چکے ہیں جن میں امپائر کا کردار انتہائی اہم ہو تا ہے۔ لہٰذا اب گیند مولانا کے ہاتھ آتی ہے۔ کھیل بنانے والوں نے سوچا نہیں تھا کہ وہ کھلاڑی بھی کھیل میں کود پڑیں گے جو نکال باہر کر دیے گئے یا ہو گئے۔ مولانا اسلام آباد آنے کی تیاریوں میں ہیں اور کسی قسم کی بات چیت کے لیے تیار نہیں سوائے اس کے کہ عام انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ مسلم لیگ نواز کی باگ ڈور شہباز شریف کے ہاتھ ہونے کے باوجود کھیل نواز شریف کے ہاتھ ہے۔ اس اننگز میں اُن کے ہم خیال شاید اُن کی ٹیم کے اہم رہنما تو نہیں البتہ تماشائی اور عوامی کھلاڑی اُن کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔ گذشتہ ایک ماہ سے کھلاڑی نو بال کرا رہے ہیں اور کوٹ لکھپت کا کھلاڑی شاٹ تو نہیں مار رہا البتہ کریز پر کھڑا ضرور ہے۔ گذشتہ روز شہباز شریف سے شیڈول سے ہٹ کر ہونے والی ملاقات میں نواز شریف ایک بار پھر مولانا فضل الرحمن کے حامی نظر آئے گو کہ شہباز شریف اور اُن کے ساتھی میاں صاحب کو یہ بات منوانا چاہتے ہیں کہ مذہب کارڈ پر ساتھ نہ دیا جائے تاہم میاں نواز شریف پُر امید ہیں کہ اس بارے میں مولانا کوئی راہ نکال سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری اس دور میں کہ جب رہنماؤں کی اکثریت جیل میں ہے سیاسی خلا پر کر سکتے ہیں مولانا کے آزادی مارچ میں اگر نون لیگ کی قیادت شریک نہیں بھی ہوتی تو بھی نون لیگ کا ورکر شریک ہو سکتا ہے۔ یوں بظاہر نواز شریف خود اور بیٹی کی دوبارہ قید کے بعد کسی قسم کی ڈیل میں دلچسپی نہیں رکھتے تاہم جوں جوں قید طویل ہو رہی ہے اُن کے پتے تعداد میں زیادہ اور مخالفین کم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ نواز شریف جیل میں بیٹھ کر بھی اہم میچ شروع کر چکے ہیں۔ اب آئیے پیپلز پارٹی کی جانب۔ بلاول بھٹو سندھ حکومت بچانا چاہتے ہیں مگر اخلاقی سیاست کا دامن بھی نہیں چھوڑنا چاہتے۔ آصف زرداری اور فریال تالپور جیل میں ہیں اور مراد علی شاہ کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ مذہبی کارڈ اور دھرنا سیاست سے دور رہنا چاہتے ہیں لیکن عام انتخابات کا انعقاد بھی چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی عوام کے نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے لیکن عوام کے جذ بات کے مطابق چلنا بھی مشکل ہے۔ بلاول بھٹو اس دور میں کہ جب رہنماؤں کی اکثریت جیل میں ہے سیاسی خلا کو پورا کر سکتے ہیں لیکن اُن کے ہاتھ لگی چند بیڑیاں فیصلہ سازی میں آڑے آ رہی ہیں۔ انھیں فیصلہ کر نا ہو گا کہ عوامی جذبات کے مخالف کھڑا ہونا ہے اور پیپلز پارٹی کا سیاسی مستقبل بچا نا ہے یا وقتی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ اور ہاں اکتوبر پت جھڑ کا موسم ہے۔ کھیل کھیلنے والوں کے لیے بھی اہم اور کھیل بنانے والوں کے لیے بھی۔ پاکستان کی سیاست کا میچ اہم مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اگلی سہ ماہی کا ٹوئنٹی ٹوئنٹی شروع ہو چکا ہے، نئی نئی ٹیمیں وجود میں آرہی ہیں، اُکھاڑ پچھاڑ کا بھی آغاز ہو چکا ہے۔ اپوزیشن اپنی صف بندیوں جبکہ حکومت احتساب کے تازہ دم دستوں کے لیے تیار ہے۔ text: یہ لاشیں بیٹھی ہوئی حالت میں ہیں، ان کے بدن پر مکمل لباس ہے اور یہ رسی میں لپٹے ہوئے ہیں دارالحکومت لیما میں ملنے والی یہ لاشیں ایک بالغ مرد اور ایک بچے کی ہیں اور بالکل درست حالت میں ہیں۔ یہ لاشیں ایک قدیم مذہبی مقام سے ملی ہیں جہاں 1981 سے آثارِ قدیمہ کی کھدائی کا کام جاری تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بالغ فرد کی موت کے وقت بچے کو دیوتاؤں کو نذرانے کے طور پر زندہ دفن کیا گیا۔ جس مقام سے یہ حنوط شدہ لاشیں ملیں، وہ واری نامی تہذیب کی عبادت گاہ تھی جس کا وجود سو سے چھ سو سال قبل مسیح کے درمیان بتایا جاتا ہے۔ محققین کو وہاں کچھ دیگر چیزیں بھی ملی ہیں جن میں گنی پِگز کی باقیات اور بلی کے نقوش والے مرتبان شامل ہیں۔ محقق گلیڈز پاز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’تیس سال کی کھدائی کے بعد یہ پہلی اہم ترین دریافت ہے کیونکہ یہ حنوط شدہ لاشیں مکمل ہیں۔‘ یہ لاشیں بیٹھی ہوئی حالت میں ہیں، ان کے بدن پر مکمل لباس ہے اور یہ رسی میں لپٹے ہوئے ہیں۔ یہ اس مقام سے سامنے آنے والے ستر مقبروں میں سے ملنے والی تیسری مکمل دریافت ہے۔ سنہ 2010 میں ماہرِ آثارِ قدیمہ نے چار بچوں کے ہمراہ ایک عورت کی باقیات دریافت کی تھیں اور سنہ 2008 میں یہاں سے ایک نو عمر لڑکی کی باقیات ملی تھیں۔ یہ مذہبی مقام ڈھائی ہیکٹر پر پھیلا ہوا ہے اور اس کے مینار بیس میٹر تک بلند ہیں۔ اب تک اس مقام کے صرف 40فیصد حصے کی کھدائی کی گئی ہے۔ واری تہذیب شمالی پیرو کے ساحلی علاقوں میں پانچ سو سے دسویں صدی عیسوی کے درمیان پھلی پھولی۔ تحریری ریکارڈ نہ ہونے کے باعث ان کے بارے میں بہت کم معلومات میسر ہیں۔ لاطینی امریکہ کے ملک پیرو میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو دو حنوط شدہ لاشیں ملی ہیں جو ایک ہزار سال سے بھی قدیم قرار دی جا رہی ہیں۔ text: K2 کی شکل مصر کے اہراموں سے ملتی جلتی ہے۔ پچھلے تین سال کی کوششوں کے دوران کئی کو پیما اسے سر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جن میں سپین کی ایک خاتوں ایدرونے پاسبان بھی ہیں۔ ان سے پہلے پانچ خواتین چوٹی سر کرنے کی کوشش کے دوران ہی ہلاک ہو گئی تھیں۔ پچاس سال پہلے دو اطالوی کوہ پیما اچیلے کیمپگ نونی اور لینو لیجیڈ یلی اسے پہلی بار سر کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اور پچاسویں سالگرہ کے موقعہ پر بھی اطالوی کوہ پیما پیش پیش رہے۔ ان میں سے پانچ پیر کے دن چوٹی پر پہنچے تھے۔ قراقرم کے سلسے کا یہ پہاڑ کوہ پیماؤں کے دلوں میں خوف پیدا کرتا ہے۔ جیسا پہلے ذکر آیا ہے اس کی شکل اہرام سے ملتی جلتی ہے، اس کی ڈھلواں اور خطرناک چڑھائی اور پھر چوٹی کے نزدیک خالص برف اسے ماؤنٹ ایورسٹ سے کہیں زیادہ پر خطر بنادیتی ہے۔ اسی لئے K2 پر چڑھنے والوں میں اموات کی شرح ایورسٹ سے زیادہ ہے۔پچاسویں سالگرہ منانے کے لئے پاکستان میں ڈاک کے یادگاری ٹکٹ جاری کئے گۓ ہیں اور سکردو میں ایک میوزیم کا افتتاح بھی کیا جارہا ہے۔ پاکستان اور چین کی سرحد پر واقع دنیا کی دوسری بڑی چوٹی K2 کو سر کرنے کی پچاسویں سالگرہ اس اختتام ہفتہ منائی جارہی ہے۔ اس موقع پر اسے دوبارہ سر کرنے کئی کوششیں گئی ہیں۔ text: منگل کو بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ انتخابات کے لیے نادرا نے جو ووٹر لسٹیں تیار کی تھیں انہیں سنہ 1998 کی مردم شماری فارمز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا تھا اور ان فہرستوں میں قریباً دو کروڑ ایسے افراد کے نام شامل تھے جن کا شناختی کارڈ نمبر موجود نہیں تھا۔ پاکستان کے الیکٹرول ایکٹ کے تحت کسی ایسے شخص کا نام انتخابی فہرست میں نہیں ہو سکتا جس کے پاس قومی شناختی کارڈ نہ ہو۔کنور محمد دلشاد کا کہنا تھا کہ آنےوالے انتخابات کے لیے پہلی بار پاکستان میں اس سال کمپیوٹرائزڈ ووٹر فہرستیں تیار ہوئی ہیں جس میں ایک ووٹ بھی غلط نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب ان فہرستوں کی تیاری کے سلسلے میں نادرا حکام سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس قومی شناختی کارڈ کے حامل قریباً پانچ کروڑ اکیس لاکھ ایسے افراد کا اندارج ہے اور اسی وجہ سے نئی کمپیوٹرائزڈ فہرست میں صرف انہی افراد کے نام شامل کیے گئے۔ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا ہے کہ گھر گھر جا کر جو نئی ووٹر فہرستیں مرتب کی ہیں ان میں کل ووٹرز کی تعداد پانچ کروڑ اکیس لاکھ دو ہزار چار سو اٹھائیس ہے جن میں سے دو کروڑ ایک لاکھ اٹھائیس ہزار ایک سو اڑتیس خواتین ووٹر ہیں۔ جبکہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق سنہ دو ہزار دو میں ہونے والے صدارتی ریفرنڈم اور عام انتخابات میں کل ووٹرز کی تعداد سات کروڑ انیس لاکھ کے قریب تھی۔ پاکستان میں آبادی کی شرح میں اضافے کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی اگر تجزیہ کیا جائے تو نئی ووٹر فہرست میں ووٹرز کی تعداد پہلے سے زیادہ ہونی چاہیے لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کے مطابق آنے والے انتخابات میں ہر وہ پاکستانی شہری ووٹ دینے کا اہل ہے جس کی عمر یکم جنوری 2007 کو اٹھارہ برس یا اس سے زائد ہے اور اسی حوالے سے ملک بھر میں قائم کردہ پینتالیس ہزار سے زائد ڈسپلے سینٹرز پر نئی ووٹر فہرستیں آویزاں کی جا رہی ہیں تاکہ وہ افراد جن کا نام لسٹ میں نہیں ہے لیکن وہ ووٹ ڈالنے کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور ان کے پاس شناختی کارڈ ہے تو وہ مجاز افسران کے پاس اپنا اعتراض جمع کرائیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق تیرہ جون سے تین جولائی تک اعتراضات داخل کیے جاسکتے ہیں جبکہ مجاز افسران ان پر چار سے تیرہ جولائی تک کارروائی نمٹائیں گے۔ الیکشن کمیشن متعلقہ افسران سے سولہ سے تئیس جولائی تک فہرستیں واپس لے کر اپ ڈیٹ کرے گا اور چھبیس جولائی کو حتمی ووٹر فہرست شایع کی جائے گی۔ پاکستان الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کنور محمد دلشاد نے انکشاف کیا ہے کہ سنہ دو ہزار دو کے عام انتخابات اور صدارتی ریفرنڈم کے لیے وقت تیار کردہ ووٹر فہرست میں شامل تیس فیصد ووٹرز ’بوگس‘ تھے۔ text: ہائی کمشنر نے کہا کہ جس وقت صومالیہ کی عبوری حکومت کی مدد کا وقت آیا اس وقت بین الاقوامی برادری پیچھے ہٹ گئی ہے۔ ان خدشات کا اظہار ایسے وقت ہوا ہے جب مشرقی افریقی ملک صومالیہ میں استحکام کے لیے عالمی تشویش بڑھ رہی اور امریکہ نے کہا ہے وہ اپنی ترجیحات کے تحت صومالیہ کو ایک اسلامی ریاست نہیں بننے دینا چاہتا۔ ادھر دارالحکومت موغادیشو پر حال ہی میں قبضہ کرنے والی اسلامی عدالتوں کی ملیشیا نے ایک بار پھر کہا ہے کہ صومالیہ میں استحکام کے لیے وہ عارضی انتظامیہ سمیت تمام فریقوں سے مذاکرات پر تیار ہیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار ڈیوڈ چزان کا کہنا ہے کہ ملک میں لڑائی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے اور خدشہ ہے کہ کشمکش جلد ہی پڑوسی ملک ایتھوپیا تک پہنچ جائے گی۔ صومالیہ میں بین الاقوامی مداخلت اس وقت بند ہوگیی تھی جب وہاں خدمات انجام دینے والے پاکستانی فوجیوں کو ہلاک کیا گیا اور پھر امریکی ہیلی کاپٹروں کو تباہ کرنے کے بعد دارالحکومت موگادیشو کی گلیوں میں گھسیٹا گیا تھا۔ تاثر یہ ہے کہ امریکہ در پردہ ان صومالی جنگجؤوں کی پشت پناہی کر رہا ہے جو اسلامی اتحاد کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اب جبکہ صومالی دارالحکومت اسلامی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں آ گیا ہے وہ امریکی حکمتِ عملی کا بھرپور جواب دے رہے ہیں۔ امریکہ اس کی تردید کرتا ہے۔ اس بارے میں افریقی امور کی نائب امریکی وزیر نے واضح طور پر کہا ہے کہ بعص وجوہات کے باعث امریکہ صومالیہ کو ایک اسلامی ریاست کی حیثیت سے دیکھنا نہیں چاہتا۔ صومالیہ کی اسلامی یونین اس بات کو جھٹلاتی ہے کہ وہ غیر ملکی عسکریت پسندوں کو پناہ دیتی ہے ۔ ادھر ایتھوپیا نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اس نے اپنے تین سو فوجیوں کو خفیہ طور پر صومالیہ کی سرحدوں میں داخل کیا ہے تاکہ وہاں لڑنے والی اسلامی قوتوں کو دبایا جا سکے۔ پناہ گزینوں کے لیئے اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر نے خبردار کیا ہے کہ صومالیہ میں اسلامی شدت پسندوں اور عبوری حکومت کی وفادار فوجوں کے درمیان ایک بڑی لڑائی چھڑجانے کا خدشہ ہے جس سے بڑی انسانی آفت آ سکتی ہے۔ text: ان ہلاکتوں سے گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران اسرائیلی کارروائی میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد گیارہ ہو گئی ہے۔ ہلاکتوں کی تازہ واقعہ بیت حنون کے علاقے میں پیش آیا جہاں اسرائیلی فوجیوں سے فائرنگ سے تبادلے میں القسام بریگیڈ کے دو ارکان ہلاک ہوئے۔ اسرائیلی فوجی حکام نے دونوں ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دونوں افراد فوجیوں پر حملہ کرنے کی کوشش میں تھے۔ اس سے قبل جمعرات کو مختلف واقعات میں کم از کم نو فلسطینی ہلاک ہوئے تھے جن میں چار مسلح مزاحمت کار اور پانچ عام شہری شامل ہیں۔ان واقعات میں بائیس افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر پتھراؤ کرنے والے بچے ہیں جو ربر کی گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔ زیادہ تر ہلاکتیں خان یونس کے مشرق میں اسرائیلی فوجیوں کی کارروائیوں میں ہوئیں۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ان کارروائیوں کا مقصد اسرائیلی علاقے پر ہونے والے راکٹ حملے روکنا ہے۔ اسرائیلی ٹینک اور فوجی خان یونس کے علاقے میں جمعرات کی صبح داخل ہوئے تھے جس کے بعد فلسطینی مزاحمت کاروں اور اسرائیلی فوجیوں میں فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوگیا تھا۔ فلسطینیوں کی ہلاکتوں کا سب سے بڑا واقعہ اس وقت پیش آیا جب ٹینک کا گولہ ایک گھر پر گرا جس سے چار فلسطینی مارے گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں دو مرد اور دو خواتین شامل ہیں۔ ہلاک شدگان میں سے ایک کا تعلق اسلامک جہاد سے بتایا جاتا ہے۔ بعدازاں ایک مقام پر پھنس جانے والے اسرائیلی فوجیوں کی مدد کے لیے آنے والے اسرائیلی طیاروں کی کارروائی میں دو مزید فلسطینی ہلاک ہوئے جبکہ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے طبی عملے کے حوالے سے بتایا ہے کہ گولہ باری سے تین فلسطینی بچے بھی زخمی ہوئے ہیں جن میں سے ایک چودہ سالہ بچے کی حالت نازک ہے۔ غزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے اور جمعہ کو ہونے والی ایک کارروائی میں حماس سے تعلق رکھنے والے مزید دو فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ text: شمال میں ریاست پنجاب سے لیکر جنوب میں زیریں ریاست کیرالہ تک کا مغربی مورچہ جس میں مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ شامل ہیں حکمراں اتحاد نیشنل ڈیموکریٹِک الائنس یعنی این ڈی اے کے لئے امکانات سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں اسے نہ صرف اچھے نتائج کی امید ہے بلکہ اس کے ووٹ اور پارلیمانی سیٹوں میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ انتخابات کے مشرقی مورچے میں شمال مشرق کی سات ریاستوں سمیت مغربی بنگال، بہار اور جھارکھنڈ سے لیکر تامل ناڈو شامل ہیں۔ گزشتہ چناؤ میں حکمراں اتحاد این ڈی اے کو یہاں جتنا ووٹ مل سکتا تھا مل چکا، اس سال کے انتخابات میں این ڈی اے کے لئے اس علاقے میں اپنے ممکنہ نقصانات کو کم سے کم رکھنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ شمالی مورچہ انتخابات کا تیسرا اکھاڑا ہے جس میں شمالی ریاست اتر پردیش، ہماچل پردیش، جموں اور کشمیر سمیت دیگر شمالی مغربی ریاستیں شامل ہیں۔ یہ علاقہ چھوٹا ہے لیکن یہاں سب سے زیادہ غیریقینی صورتحال ہے۔ اور دو ہزار چار کے انتخابات میں لڑائی یہیں ہونی ہے۔ مغربی مورچہ: بی جے پی بنام کانگریسمغربی مورچے پر تو انتخابی لڑائی بی جے پی بنام کانگریس ہے۔ انیس سو ننانوے کے انتخابات میں یہاں حکمراں اتحاد نے کل دو سو دو میں سے جو ایک سو آٹھ سیٹیں حاصل کی تھیں ان میں بی جے پی کو اٹھاسی ملی تھیں۔ ادھر حزب اختلاف کانگریس کو ستر اور اور اس کی اتحادی جماعتوں کو چار سیٹیں ملی تھیں۔ بی جے پی نے صرف پنجاب اور مہاراشٹر میں انتخابی اتحاد قائم کیا تھا۔ اس سال مہاراشٹر اور کیرالہ میں بی جے پی کا کانگریس سے براہ راست مقابلہ ہے۔ لہذا بی جے پی کی حالت بہتر لگتی ہے۔ پنجاب، مہاراشٹر، کرناٹک اور کیرالہ میں کانگریس کی پرانی حکومتیں ہیں اور ووٹروں نے ان کی غلطیاں گننی شروع کردی ہیں۔ دوسری جانب راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور کچھ حد تک گجرات میں بی جے پی کی حکومتیں نئی ہیں اور ان سے ووٹروں کا لگاؤ ابھی باقی ہے۔ پھر بھی حکمراں اتحاد ان ریاستوں میں انیس سو ننانوے کےمقابلے میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی امید نہیں کرسکتا۔ پنجاب اور کرناٹک کے علاوہ باقی ان سبھی ریاستوں میں حکمراں اتحاد این ڈی اے نے اچھے نتائج حاصل کیے تھے۔ اس بار مہاراشٹر میں جہاں کانگریس اور نیشلِسٹ کانگریس پارٹی کا اتحاد اقتدار میں ہے، این ڈی اے کی سیٹیں کم ہوسکتی ہیں۔ کیرالہ میں بی جے پی اپنی ووٹوں کو سیٹوں میں تبدیل کرنے کی اہلیت سے کافی دور ہے۔ مشرقی مورچہ: این ڈی اے کی دفاعی لڑائیمشرقی مورچے پر بی جے پی کا حکمراں اتحاد این ڈی اے ایک دفاعی لڑائی لڑے گا۔ اس علاقے میں بی جے پی اور اس کی علاقائی اتحادی جماعتیں میدان میں ہیں۔ جھارکھنڈ کے علاوہ اس علاقے کی کسی بھی دوسری ریاست میں کانگریس بنام بی جے پی کا مقابلہ نہیں ہے۔ اس علاقے میں گزشتہ انتخابات کے دوران این ڈی اے نے کل ایک سو اٹھانوے نشستوں میں سے ایک سو تینتیس سیٹیں حاصل کی تھیں جن میں بی جی پی کی حمایتی جماعتوں کے حصے میں ستاسی سیٹیں تھیں۔ اس بار یہاں این ڈی اے کو کافی نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔ پچھلی بار آندھر پردیش، اڑیسہ اور جھارکھنڈ میں این ڈی اے کی مواقفت میں ایک لہر سی تھی، اب کوئی چمتکار ہی اس کی مدد کرسکے گا۔ تامل ناڈو میں این ڈی اے مخالف جماعتوں کی حالت، اور بہار اور مغربی بنگال میں بی جے پی کی اتحادی جماعتوں کی حالت دیکھتے ہوئے نہیں لگتا کہ این ڈی اے شمالی مورچے پر انیس سو نناوے والی اپنی کامیابی دہرا پائے گا۔ صرف آسام اور شمال مشرقی ریاستوں میں ہی این ڈی اے اپنی حالت سدھارنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ لیکن ان آٹھوں ریاستوں میں پارلیمانی سیٹیں صرف پچیس ہیں۔ اگر این ڈی اے اپنے نقصان کو چالیس سیٹوں تک محدود رکھنے میں کامیابی حاصل کرلے تو یہ اس کی خوش قسمتی ہوگی۔ ہوسکتا ہے کہ اسے ساٹھ سے زیادہ سیٹوں کا نقصان ہو۔ لہذا لڑائی اب شمالی مورچے پر ہے۔ شمالی مورچہ: اتر پردیش اہمشمالی مورچے میں اترپردیش اور چھوٹی ریاستیں ہیں جن میں جموں و کشمیر، ہماچل پردیش، اترانچل، ہریانہ اور دہلی شامل ہیں۔ اترپردیش کو چھوڑ کر ان چھوٹی ریاستوں میں پارلیمانی سیٹوں کی تعداد تینتیس ہے۔ ان میں کانگریس کو پچھلی بار صرف دو سیٹیں ملی تھیں کیونکہ بی جے پی کے حق میں ایک لہر سی تھی۔ بی جے پی نے اکیس اور اس کی حامی جماعتوں نے چھ سیٹیں جیتی تھیں۔ بی جے پی کو اپنی کامیابی دہرانا بہت مشکل ہوگا، بالخصوص اس لئے بھی کہ ریاست ہریانہ کی اہم جماعت انڈین نیشنل لوک دل نے این ڈی اے سے اپنا رشتہ منقطع کرلیا ہے۔ اس علاقے کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں انتخابی منظر واضح نہیں ہے کیونکہ یہ طے نہیں ہوپایا ہے کہ کون سی جماعت این ڈی سے اتحاد کرے گی اور کون کانگریس کے ساتھ۔ ویسے اترپردیش کو تجزیے کے لئے ایک الگ علاقہ تصور کیا جانا چاہئے۔ اس بات کا امکان نہیں لگتا کہ بی جے پی کو یہاں بڑا فائدہ ہوگا۔ اترپردیش میں بی جے پی کو گزشتہ انتخابات میں پچیس نشستیں ملی تھیں، لیکن اگر اسے اس بار یہ سیٹیں دوبارہ مل جائیں تو یہ اس کی بڑی کامیابی ہوگی لیکن اس کا امکان نہیں لگتا۔ اگر کانگریس اور مِس مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی انتخابی سمجھوتہ نہیں کرتیں تو ملائم سِنگھ یادو کی جماعت سماجوادی پارٹی اس ریاست میں سب سے بڑی جماعت کی حیثیت سے ابھرے گی۔ باقی سبھی جماعتوں کو یہاں نقصان کا امکان ہے۔ اگر کانگریس اور بہوجن سماجوادی پارٹی اتحاد کرتی ہیں تو بی جے پی کے ساتھ ساتھ ملائم سِنگھ کی سماجوادی پارٹی کو بھی نقصان ہوگا۔ جس نظریے سے بھی دیکھا جائے حکمراں اتحاد این ڈی اے کو شمالی مورچے پر نقصانات کا سامنا ہے اور وہ اپنی سیٹیں بڑھا نہیں سکتا، بلکہ اسے بیس نشستوں کا نقصان ہوسکتا ہے۔ اس سب کے باوجود نتائج اس بات پر منحصر کریں گے کہ اس مورچے پر انتخابی مہم کیا رنگ لیتی ہے۔ امکاناتابھی نتائج کے لئے اٹکلیں لگانے کا وقت نہیں ہے۔ لیکن اوپر جن نکات پر میں نے بات کی ہے ان کی بنا پر تین نتائج ممکن ہوسکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ وزیراعظم واجپئی کا اتحاد این ڈی اے اقتدار میں واپس آئے لیکن کم نشستوں کے ساتھ۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ این ڈی اے بہت کم اکثریت سے پیچھے رہ جائے۔ مان لیجئیے کہ این ڈی اے بیس نشستوں سے پیچھے رہ جائے۔ اس صورت میں این ڈی اے کی مخالف جماعتیں اس سے کافی پیچھے ہونگیں جس کے نتیجے میں این ڈی اے ملائم سِنگھ یادو کی جماعت سماجوادی پارٹی جیسی کچھ چھوٹی جماعتوں کے ساتھ حکومت بنالے گا۔ لیکن تین میں سے دو مورچوں پر بھی اگر این ڈی اے کمزور پڑا، بالخصوص کانگرس۔بہوجن سماجوادی پارٹی کا گٹھ جوڑ بننے کی صورت میں، تو تیسرا امکان کھل جاتا ہے۔ تیسرا امکان یہ ہوگا کہ کانگریس، اس کی اتحادی جماعتیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کی ملی جلی طاقت اکثریت سے اوپر ہونگی۔ یہ تینوں امکانات بہت دور دور نہیں ہیں اور صرف پچاس سیٹوں کی ہیر پھیر میں یہ سب کچھ ممکن ہے۔ اور اس کے سیاسی نتائج بالکل الگ ہونگے۔ ریاستوں کے انفرادی زمینی حقائق کا جائزہ شروع کرنے سے پہلے آئیے ہم لوک سبھا کے لئے ہونیوالے انتخابات پر ایک مجموعی نظر ڈالیں۔ عام انتخابات کو کُشتی کے تین اکھاڑوں کی شکل میں دیکھنا ہوگا اور ہر ریاست کے زمینی حقائق کو انہی تین اکھاڑوں کی بنیاد پر سمجھنا ہوگا۔ text: مقامی غیر سرکاری تنظیموں اور دیگر ذرائع سے اکٹھے کیےگئے اعداد وشمار کے مطابق اپریل سے اب تک دیر کے دو اضلاع دیر پائین اور دیر بالہ میں غیرت کے نام پر چودہ واقعات ہوئے ہیں جن میں چودہ خواتین سمیت ستائیس افراد کو گولی مار کر یا کلہاڑی سے وار کرکے مارا گیا ہے۔ ضلع دیر پائین کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’انجمن بہبود خواتین تالاش‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور خاتون کونسلر شاد بیگم نے بی بی سی کو بتایا کہ کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا کہ علاقے میں غیرت کے نام پر ایک یا دو قتل نہ ہوتے ہوں۔’اس قسم کے واقعات تو اب یہاں پر معمول بن گئے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ بہت کم کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ ایک حساس مسئلہ ہے اور قبائلی معاشرہ بھی ہے، لوگ اس قسم کی وارداتوں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘ ان واقعات میں اضافے کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں تاہم اس کی ایک بڑی وجہ دیر بالہ کے دور افتادہ پہاڑی علاقے نہاگ درہ میں ایک جرگے کا انعقاد بھی ہے۔ اس جرگے میں مقامی قبائیلوں نے غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کو جائز قرار دیتے ہوئے اس کی رپورٹ درج نہ کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔ سیاستدانوں، ناظمین اور علاقے کے عمائدین پر مشتمل یہ جرگہ اپریل کے مہینے میں سلطان خیل اور پائندہ خیل قبیلے کے سردار اور دیر سے جماعت اسلامی کے رکن صوبائی اسمبلی ملک حیات کے بھائی ملک فیض محمد خان کی سربراہی میں منعقد ہوا تھا ۔ نہاگ درہ کی ایک بااثر شخصیت ملک فیض محمد خان سے جب پوچھا گیا کہ جرگے کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ کسی کے قتل کرنےکا فیصلہ صادر کرے تو انہوں نے کہا: ’ یہ ہماری روایات ہیں جو سالہا سال سے رائج ہیں۔ ہم ان کو ترک نہیں کرسکتے لیکن ہم اس بات کا خاص خیال رکھ رہے ہیں کہ کوئی بےگناہ نشانہ نہ بنے اور کافی تحقیق کے بعد ہی فیصلہ ہوتاہے۔‘ ملک فیض محمد خان نے اس بات کا اقرار کیا کہ الزامات ثابت ہونے ہر قتل ہونے والے مرد اور خاتون کی رپورٹ درج نہیں کرائی جاتی اور اگر کسی نے پولیس کو اطلاع دی تو علاقے کی روایات کے مطابق وہ ’چور‘ تصور ہوگا۔ دیر کے دونوں اضلاع پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہیں۔ مقامی لوگوں کا اہم ذریعہ معاش خلیجی ممالک میں محنت مزدوری ہے جس کی وجہ سے مرد حضرات کئی کئی سال ملک سے باہر رہتے ہیں ۔ مقامی صحافی حلیم اسد کا کہنا ہے کہ غیرت کے نام پر زیادہ تر واقعات میں شادی شدہ لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ’ میں نے اب تک جتنے بھی واقعات رپورٹ کیے ہیں ان میں اکثریت شادی شدہ لوگوں کی ہے اور یہ بھی محسوس ہوا ہے کہ جو خاتون نشانہ بنتی ہے اس کا خاوند بیرونی ممالک مزدوری کرنے گیا ہوا ہوتا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ان جرائم میں لوگ اسلام اور قرآن و حدیث کو نہیں دیکھتے بلکہ فرسودہ روایات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ’ شرعی لحاظ سے اسلام میں حد جاری کرنے کے لیئے جو شرائط مقرر کی گئی ہے اسے کون دیکھتا ہے ، یہ تو سب کلچرل چیزیں ہیں جو بالکل غیر اسلامی ہیں۔‘ دیر پائین کے ضلعی ناظم احمد حسن خان اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ علاقے میں غیرت کے نام پر قتل ہورہے ہیں لیکن بقول ان کے زیادہ تر واقعات دیر بالا میں ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان واقعات کی بڑی وجوہات تو تعلیم کی کمی اور قبائلی رسم ورواج ہیں تاہم ان کے مطابق وہ مایوس نہیں ہیں۔ ’ہم سب کو ان غلط رسومات اور روایات کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔‘ تیمرگرہ میں جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمان گروپ) کے سابق جنرل سیکرٹری محمد علی نے بی بی سی کو بتایا کہ غیرت کے نام پر قتل کو اسلام سے جوڑنا سراسر ایک غیر اسلامی فعل ہے۔ ’ پشتو بولنے والہ پشتون ہوتا ہے ، پشتو ایک نظام تو نہیں ہے۔ نظام تو اسلام ہے جس میں ہر چیز کے لیئے ایک مخصوص طریقہ کار دیا گیا ہے۔جو لوگ اسلام کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں وہ گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔’ واضع رہے کہ دیر صوبہ سرحد کا وہ پہلا علاقہ ہے جہاں تمام مذہبی اور سیکولر سیاسی جماعتوں نے دو ہزار پانچ کے بلدیاتی انتخابات میں خواتین کو انتخابات میں امیدوار نہ بنانے کا معاہدہ کیا تھا۔ سخت تنازعے کے بعد مرکزی حکومت کی مداخلت سے خواتین کو انتخاب لڑنے اور ووٹ ڈالنے کا حق مل گیا تھا لیکن اس کے باوجود ضلع دیر میں خواتین کی بیس نشستوں پر انتخابات نہ ہو سکے اور یہ نشستیں تاحال خالی پڑی ہیں۔ صوبہ سرحد کے قدامت پسند علاقے دیر میں گزشتہ چند ماہ میں نام نہاد ’غیرت’ کے نام پر قتل کی وراداتوں میں تیزی سے اضافہ ہو چکا ہے۔ اس عرصے میں غیرت کے نام پرستائیس افراد قتل کیئے جا چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین ہیں۔ text: پانچ پاکستانی تاجروں کی لاشیں بدھ کو پانچ افراد کی لاشیں افغانستان کے علاقے غنی خیل سے ملی تھیں وزارتِ خارجہ کی جانب سے جمعے کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق پاکستان میں تعینات افغان ڈپٹی ہیڈ آف مشن کو دفترِ خارجہ طلب کیا گیا اور انھیں پاکستانیوں کے بہیمانہ قتل پر تشویش سے آگاہ کیا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے افغان حکومت سے درخواست بھی کی ہے کہ وہ قتل کے اس واقعے کی تحقیقات کرے اور ذمہ داران کو قانون کے مطابق سزا دلوائے۔ حکومت نے ہلاک شدگان کے ورثا سے افسوس اور ہمدردی کا اظہار بھی کیا ہے۔ ہلاک ہونے والے پانچ پاکستانی چارسدہ سے تعلق رکھنے والے تاجر تھے جن کی لاشیں بدھ کو افغانستان کے علاقے غنی خیل سے ملی تھیں۔ یہ پانچوں افراد ان آٹھ تاجروں میں شامل تھے جنھیں دو ماہ پہلے مسلح افراد نے افغانستان میں مہمند مارکو کے علاقے سے اغوا کر لیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق ان افراد کو اس علاقے میں آنے سے منع کیا گیا تھا جہاں سے وہ اغوا ہوئے۔ یہ تمام افراد سرسوں کے تیل اور دیسی گھی کی تجارت کرتے تھے اور ان کے بقیہ تین ساتھی تاحال لاپتہ ہیں۔ پولیس حکام نے بتایا کہ ان کے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ ان لوگوں کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا تھا تاہم ایسی اطلاعات ضرور موصول ہوئی ہیں کہ بعض لوگوں نے ان تاجروں کے رشتہ داروں سے کہا تھا کہ وہ انھیں کچھ رقم دیں تاکہ ان افراد کی بازیابی کے لیے وہ افغانستان میں کوششیں کر سکیں۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ نے افغانستان میں پانچ پاکستانی شہریوں کی ہلاکت پر افغانستان کے سفارتی حکام سے احتجاج کیا ہے۔ text: یہ ایک روزہ مقابلوں میں آسٹریلیا کی آٹھویں لگاتار فتح ہے۔ سڈنی میں کھیلے گئے اس میچ میں مائیکل کلارک کا کیچ چھوڑنا اور ہسی کے رن آؤٹ کا موقع ضائع کرنا نیوزی لینڈ کے لیے مہنگا ثابت ہوا۔ نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر کریگ میکملن کے نواسی رن کی بدولت مقررہ پچاس اوورز میں دو سو اٹھارہ رنز بنائے۔ میکملن کے علاوہ کوئی بھی بلے باز آسٹریلوی بالروں کا مقابلہ نہ کر سکا اور پانچ کیوی بیٹسمین دوہرے ہندسوں میں بھی داخل نہ ہو سکے۔ آسٹریلیا کی جانب سے سٹیورٹ کلارک نے چار جبکہ میگراتھ نے تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ آسٹریلوی اننگز کا آغاز بھی اچھا نہ تھا اور اس کے ابتدائی تین کھلاڑی صرف سترہ کے مجموعی سکور پر پویلین لوٹ چکے تھے۔ تاہم مائیکل کلارک نے پہلے اینڈریو سمنڈز اور پھر مائیکل ہسی کے ساتھ مل کر ٹیم کو سنبھالا دیا۔ آسٹریلیا نے مطلوبہ ہدف انچاسویں اوور میں آٹھ وکٹوں کے نقصان پر پورا کر لیا۔ آسٹریلیا کی جانب سے مائیکل کلارک 75، سمنڈز 38 اور ہسی 65 رن بنا کر نمایاں رہے۔نیوزی لینڈ کی جانب سے ڈینئیل ویٹوری،گلسپی اور میسن نے دو، دو جبکہ میکملن اور فرینکلن نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔ سہ فریقی ون ڈے سیریز کے ایک میچ میں آسٹریلیا نے نیوزی لینڈ کو دو وکٹوں سے شکست دے دی ہے۔ text: جمیعت علماء ہند کی کانفرنس میں مسلمانوں اور اقلیت کے تحفظ کی بات اٹھائي گئی جمعیت العلماء ہند کے تحت دارالحکومت دہلی میں ایک کانفرنس میں ان رہنماؤں نے مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے مذہبی اداروں اور تشخص پر حملے سے خوفزدہ نہ ہوں۔ ان رہنماؤں نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ آئین کی سیکولر روح کی پاسداری کریں اور جارحیت و مذہبی اشتعال انگیزی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ بااثر مذہبی تنظیموں میں سے ایک جميعت علمائے ہند کے جنرل سکریٹری محمود مدنی نے کہا: ’یہ مٹھی بھر فرقہ پرست لوگ ہمیں ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری ہی زمین پر، ہمارے ہی وطن میں، ہماری ہی سرزمین پر ہمیں ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ڈرنے والے نہیں ہیں۔‘ گذشتہ چند ماہ میں مسلمانوں اور ان کی مذہبی اداروں کے خلاف کچھ لوگوں کے جارحانہ بیانات سے مسلمانوں میں بہت تشویش ہے۔ جمیعت کی کانفرنس میں دہلی اور اس کے نواح سے بڑی تعداد میں لوگ یکجا ہوئے مولانا مدنی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس ملک میں ہم کرایہ دار نہیں ہیں۔ ہم اس کے مالک ہیں۔ ہم ہندوستانی اتفاقی طور پر نہیں ہیں، ہم نے ہندوستانی ہونا پسند کیا ہے۔ ہم یہی اس حکومت کو بتانا چاہتے ہیں۔‘ گذشتہ دنوں دہلی میں جميعت علمائے ہند کی ایک کانفرنس ہوئی۔ اس میں ملک کے کئی سرکردہ مسلم رہنماؤں نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے نفرت انگیز بیانات اور مذہبی حملوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ شیعہ مذہبی رہنما مولانا کلب جواد نے کہا کہ ’کئی ہندو تنظیم مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت پھیلا رہی ہیں اور حکومت خاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مدرسوں کو دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے لیکن مسلمانوں کو صبر و تحمل دامن ہاتھ سے جانے دینے کی ضرورت نہیں ہے۔‘ حالیہ دنوں میں مذہبی اقلیت کے خلاف منافرت میں اضافہ ہوا ہے کانفرنس میں آچاریہ پرمود كرشنم اور سوامی اگنی ویش نے بھی فرقوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی مذمت کی۔ مسلم لیڈروں نے مودی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقلیتوں کے مذہبی اداروں کو تحفظ فراہم کرے اور بعض ہندو تنظیموں کی مذہبی جارحیت اور نفرت پھیلانے کی کوششوں پر روک لگائے۔ اگرچہ وزیر اعظم نریندر مودی گذشتہ مہینوں میں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ آئین کے تحفظ کے پابند ہیں لیکن گذشتہ دنوں اقلیتی فرقوں کے خلاف حملوں میں تیزی آئی ہے۔ بھارت کے سرکردہ مسلم مذہبی رہنماؤں نے بھارت میں مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت کی مہم پر سخت تشویش ظاہر کی ہے۔ text: انڈیا سے نامزد فلم ' رنگ دے بسنتی ' کو جیوری نے پہلے ہی باہر کر دیا۔ جیوری نے رنگ دے بسنتی میں نئی نسل کا بدعنوانی کے خلاف جنگ اور وطن دوستی کے جذبہ کے بجائے بیواؤں پر ہونے والے مظالم اور ان کی بے رنگ زندگی پر مبنی فلم کو ترجیح دی۔ یہ فلم بیواؤں کی زندگی پر مبنی ہے۔ ہندو دھرم میں آج بھی بیواؤں کو جینے کا حق نہیں دیا جاتا۔ آج بھی بہت سے دیہی علاقوں میں کم عمر میں لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی ہے ۔ اور اگر ان کا شوہر مر جاتا ہے تو انہیں بیواؤں کے آشرم میں لا کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جہاں ان کے بال کاٹ دیئے جاتے ہیں اور انہیں زمین پر سلا کر روکھا سوکھا کھانا دیا جاتا ہے تاکہ ان کے جذبات نہ ابھریں ایک طرح سے انہیں جیتے جی مارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دیپا مہتہ نے یہ فلم پہلے سن تین ہزار میں بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کے لئے انہوں نے شبانہ اعظمی اور نندیتا داس کو سائن کیا دونوں نے فلم کے لئے اپنے بال تک کٹوا لئے تھے اور فلم کی شوٹنگ کے لئے وہ بنارس پہنچ گئیں لیکن ہندو شدت پسند تنظیموں نے اس کی سخت مخالفت کی اور دیپا کو واپس آنا پڑا۔ سن دو ہزار چار میں ایک بار دیپا نے کوشش کی لیکن اس مرتبہ انہوں نے اس کے لئے اداکارہ لیزا رے ، اداکار جان ابراہام اور سیما بسواس کا انتخاب کیا اور اپنی فلم کو سری لنکا میں فلمانے کا فیصلہ کیا۔ فلم ڈھائی ماہ میں مکمل کر لی گئی۔گزشتہ برس ٹورنٹو فلم فیسٹیول میں یہ فلم دکھائی گئی جہاں لوگوں نے اس کی بہت تعریف کی۔ اس کے بعد کئی اور فلم فیسٹیول میں ناظرین نے اس فلم کودیکھا۔ انڈیا میں آج تک اس فلم کی نمائش نہیں ہو سکی۔ بتایا جاتا ہے کہ اب اس فلم کی نمائش انڈیا میں متوقع ہے لیکن یہاں ایک بار پھر ہندو فرقہ پرست تنظیموں کی مخالفت کا خطرہ درپیش ہے۔ بی بی سی نے اس فلم کے دو اداکاروں جان ابراہام اور سیما بسواس سے اسی سلسلہ میں گفتگو کی۔ جان کا کہنا ہے کہ انہیں اس خبر سے خوشی نہیں بلکہ فخر محسوس ہو رہا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ فلم دیپا کی ہے کیونکہ وہ ایک انتہائی سلجھی ہوئی اور ذہین ہدایت کار ہیں جنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ انہیں اپنے موضوع کے ساتھ کس طرح انصاف کرنا ہے۔ فلم میں جان کا نام نارائن ہے۔ جو ایک سیدھا سادا نوجوان ہے وہ بیوہ کلیانی سے پیار کرنے لگتا ہے۔ جسم ، دھوم ، زندہ ، گرم مسالہ جیسی فلموں میں کام کرنے کے بعد جان نے دیپا کی فلم کا انتخاب کیسے کیا۔ اس پر جان کا کہنا تھا کہ انہیں اس فلم کی سکرپٹ بہت پسند آئی تھی۔ جان کہتے ہیں کہ وہ ہر طرح کا کردار کرنا چاہتے ہیں اس لئے ایکشن ، کامیڈی کے ساتھ وہ سنجیدہ قسم کی فلم بھی کر رہے ہیں۔ جان کا کہنا ہے کہ ’ فلم کا انتخاب کرتے وقت ان کے ذہن میں یہ نہیں تھا کہ یہ فلم آسکر تک پہنچ جائے گی۔ انہیں افسوس ہے کہ فلم انڈیا سے نامزد نہیں ہوئی‘۔ جان دیپا کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ ان کے مطابق دیپا اداکاروں کو سمجھتی ہیں اور انہیں اداکاری کرنے کا کھل کر موقع دیتی ہیں۔ جان یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ اگر واٹر میں انہوں نے اداکاری کی ہے تو اس کا سہرا بھی دیپا کے سر ہی جاتا ہے۔ جان کمرشیل سنیما اور سنجیدہ سنیما کے درمیان کوئی لائن کھینچنا نہیں چاہتے۔ ان کے مطابق فلم اچھی ہوتی ہے یا بری بس۔ جان اس وقت نو اسموکنگ ، سلام عشق ، کے علاوہ امتیاز علی اور ناگیش ککنور کے ساتھ فلمیں کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ واٹر شاید ان کی اداکارانہ زندگی کا ایک اچھا موڑ ہے اور ایک نئے باب کی شروعات۔ جان کو اپنے پرستاروں پر بھروسہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فلم اچھی ہو یا بری ناظرین نے انہیں ہمیشہ سراہا ہے اور اسی لئے اب وہ ان کی توقعات پر پورا اترنے کے لئے اچھی اور بہترین کہانیوں کا ہی انتخاب کریں گے۔ پیر کی ہی صبح ازبکستان سے فلم نو اسموکنگ کی شوٹنگ کر کے واپس آئے جان ، آسکر ایوارڈ فنکشن میں جانے کی تیاریاں بھی کر رہے ہیں۔ سیما بسواس فلم واٹر میں شکنتلا نامی بیوہ کا اہم رول کر رہی ہیں فلم میں ان کی بہترین اداکاری کوکناڈا میں ' جمی ایوارڈ ' سے نوازا جا چکا ہے۔ شیکھر کپور کی فلم بینڈیت کوئین میں حقیقی ڈاکو پھولن دیوی کا کردار کرنے والی سیما بسواس نے بی بی سی سے طویل گفتگو میں بتایا کہ انہیں یہ رول کیسے ملا۔ سیما کہتی ہیں کہ دیپا جب سن دو ہزار تین میں شبانہ کے ساتھ فلم بنانے جا رہی تھیں تب انہوں نے ایک چھوٹے رول کی پیشکش کی تھی لیکن اس وقت میں تھیئٹر میں مصروف تھی اس لئے نہ کہہ دیا لیکن قسمت میں ایک اچھی اور کامیاب فلم میں کام کرنا لکھا تھا۔ فلم میں سیما نے بہت کم مکالمے کہے ہیں۔ سیما کہتی ہیں انہیں زیادہ تر اپنی آنکھوں اور چہرے کے تاثرات سے اپنے جذبات کا اظہار کرنا تھا۔ فلم کی بیوہ شکنتلا 'کرم ' میں بھروسہ رکھتی ہے اس لئے وہ آشرم کی تمام بیواؤں کا ساتھ دیتی ہے۔ سری لنکا میں ڈھائی مہینوں کی شوٹنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے سیما کہتی ہیں کہ پورا یونٹ ایک خاندان کی طرح رہتا تھا۔ سیما کا کہنا ہے کہ انہوں نے اب تک بیس یا اکیس فلمیں کی ہیں لیکن انہوں نے دیپا کی طرح ایسا کوئی ہدایت کار کو نہیں دیکھا جو بڑے سٹار اور جونیئر آرٹسٹ سب کو یکساں نظر سے دیکھتا ہو۔ سیما کے لئے تو ایوارڈ فلم کی شوٹنگ کے دوران دیپا نے انہیں دے دیا۔ سیما بتاتی ہیں کہ فلم کی شوٹنگ ختم ہونے کے بعد دیپا ان کے پاس آئیں اور کہا کہ ’تم نے تو میری شکنتلا کو زندہ کر دیا ‘۔ فلم واٹر کا وہ کون سے منظر سیما کو سب سے زیادہ پسند ہے اس پر سیما کہتی ہیں کہ فلم کا آخری منظر سب سے زیادہ دل کو چھو جاتا ہے اور شاید کہانی کا اختتام اس سے بہتر کوئی نہیں ہو سکتا۔ کلیانی یعنی لیزا رے جس سے جان محبت کرتا ہے فلم میں مر جاتی ہے اور فلم کے آخر میں جسن ٹرین میں بیٹھ کر جاتا ہے اور شکنتلا اسے وہ سات سالہ بیوہ ' سرلا ' اس کے ہاتھوں میں تھماتی ہے کہ وہ اسے اس روشنی بھری جگمگاتی دنیا میں لے جائے۔ دو ہاتھ آگے بڑھتے ہیں اور معصوم بچی کو اٹھا لیتے ہیں۔ سیما کو افسوس ہے کہ آج لوگ بم دھماکوں ، تشدد اور بدعنوانیوں کی تو بات کرتے ہیں لیکن کوئی ان زندہ درگور عورتوں کے مسائل کی بات نہیں کرتا۔ ’دیپا نے ایک کوشش کی ہے اور وہ اس میں کامیاب ہوئی ہیں لیکن اصل کامیابی تو تب ہو گی جب سماج میں بیواؤں کو انصاف ملے گا‘۔ دیپا مہتہ کی فلم ' واٹر ' کو آج آسکر ایوارڈ کی غیر ملکی زمرے کی ٹاپ پانچ فلموں میں جگہ مل گئی۔یہ فلم کناڈا سے نامزد ہوئی تھی۔ text: یہ واقعہ برازیل کی ریاست ماران ہاؤ میں ایک غیر پیشہ ورانہ فٹ بال میچ کے دوران پیش آيا اطلاعات کے مطابق جب کھلاڑی نے میدان چھوڑنے سے منع کر دیا تو ریفری نے انہیں چاقو مار دیا اور کھلاڑی کی ہسپتال پہنچنے سے قبل راستے میں ہی موت واقع ہو گئی۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے پر فٹبال شائقین مشتعل ہو گئے اور میدان میں گھس آئی۔ انھوں نے پہلے ریفری اوٹاویو دا سلوا کو پتھر مار مار کر ہلاک کردیا پھر ان کا سر تن سے جدا کر دیا۔ یہ واقعہ برازیل کی ریاست ماران ہاؤ میں ایک غیر پیشہ وارانہ فٹبال میچ کے دوران پیش آيا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ قتل ریفری سلو کے ذریعے کھلاڑی جوزینیر دوز سینٹوس کو چاقو مارنے کے ردعمل میں واقع ہوا۔ اس معاملے میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے اور اس معاملے میں تحقیقات جاری ہے۔ یہ واقعہ گزشتہ ماہ 30 جون کو ریاست کے شہر پیو XII میں پیش آیا لیکن اس واقعے کی خبر ذرا دیر سے باہر آئی۔ ریاست کے شہری تحفظ کے شعبے نے کہا کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ریفری اور سینٹوس کے درمیان کھلاڑی کے باہر کیے جانے پر ہاتھا پائی شروع ہو گئی۔ اس کے بعد سلوا نے چاقو نکال کر سینٹوس پر حملہ کر دیا اور سینٹوس زخموں کی تاب نہ لا کر ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں ہی دم توڑ گئے۔ شہری تحفظ کے شعبے کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کھلاڑی کے دوست احباب اور رشتے دار میدان کی جانب دوڑ پڑے اور ریفری کو پتھر مار کر ہلاک کر دیا اور پھر ان کا سر قلم کر دیا۔ اب تک پولیس نے اس واقعے میں ایک 27 سالہ شخص کو گرفتار کیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق پولیس سربراہ والٹر کوسٹا نے کہا ہے: ’ہم لوگ اس معاملے میں لوگوں کی شناخت کریں گے اور اس میں شامل افراد کے خلاف کارروائی کی جائے کیونکہ ایک جرم سے کبھی دوسرے جرم کا جواز پیدا نہیں ہوتا۔‘ حکام کا کہنا ہے کہ برازیل میں فٹبال کے ناظرین نے ایک ریفری کا اس وقت سرقلم کر دیا جب انھوں نے ایک کھلاڑی کو چاقو مارا دیا تھا۔ text: تاہم دوا کا استعمال ترک کرنے کے کچھ ہفتوں کے بعد یہ لوگ پھر سے اولاد پیدا کرنے کے قابل ہوگئے۔ اب تک مانع حمل کے لئے صرف عورتیں ہی گولیوں کا استعمال کرتی تھیں۔ مردوں کے لئے مانع حمل ٹیکے کی دریافت پر آپ کا کیا ردعمل ہے؟ کیا آپ اس کا استعمال کریں گے؟ --------------یہ فورم اب بندہوچکا ہے، قارئین کی آراء نیچے درج ہیں------------------------ مقبول نادر، کھچی والا، پاکستان یہ اسلام کے خلاف ہے۔ کسی بھی مسلمان کو یہ ٹیکہ نہیں استعمال کرنا چاہئے۔ سچِن، بھارت میں اپنے جسم میں کوئی ہارمون داخل نہیں کرنا چاہتا۔ ہر طرح سے کنڈوم بہتر ہیں، بالخصوص اگر ایڈز کے بارے میں غور کیا جائے۔ اسٹیو، انگلینڈ آج کل ہم کیسی دنیا میں رہ رہے ہیں؟ چونکہ عدالتیں باپ پر بچوں کے خرچ کی ذمہ داری عائد کرتی ہیں، اس لئے لاکھوں ایسے باپ ہونگے جن کے لئے مردوں کا مانع حمل بہتر ہوگا۔ رِچرڈ سویٹمین، انگلینڈ لیکن ایک عورت کو کیسے یقین ہوگا کہ مرد نے یہ ٹیکہ لگوالیا ہے؟ یہ میاں بیوی دونوں کو خاندانی منصوبہ بندی میں برابر شرکت کے قابل بناتا ہے اکرام عبّاسی اکرام عبّاسی، مری اگر یہ ٹیکہ اچھی طرح ٹیسٹ کر لیا گیا ہے اور اس کے کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہیں جیسے کہ نامردی وغیرہ تو یہ میاں بیوی دونوں کو خاندانی منصوبہ بندی میں برابر شرکت کے قابل بناتا ہے۔ اس سے پہلے صرف عورتوں پر ہی زور دیا جا رہا تھا کہ وہ ایسی ادویات استعمال کریں۔ انفاردی طور اِسے غیر فطری یا مسلمانوں کے لئے ممنوع قرار دینا اچھی بات نہیں اور علماء کا فرض ہے کہ وہ اس ٹیکے کے استعمال کے بارے میں فتویٰ جاری کریں۔ نعیم سرور، سعودی عرب میں اسے ایک اچھی اور مفید ایجاد کہوں گا، بس یہ منحصر ہے کہ آپ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں اور کیسے استعمال کرتے ہیں۔ مخالفت کرنے والوں کو مخالفت کے لئے ایک اور چیز مل جائے گی اور استعمال کرنے والوں کی سہولت میں ایک اور اضافہ ہوجائے گا۔ اس طرح کے دعوے اکثر سامنے آتے اور غائب ہوتے رہتے ہیں شمس سومرو شمس سومرو، خان پور کسی بھی دوا کا محفوظ ہونا بار بار کی تحقیق کے بعد ثابت ہوتا ہے۔ اس طرح کے دعوے اکثر سامنے آتے اور غائب ہوتے رہتے ہیں۔ محمد سلیمان طاہر، کراچی یہ بالکل غلط بات ہے۔ میری نظر میں یہ حرام ہے۔ میری نظر میں یہ حرام ہے محمد سلیمان طاہر نائلہ یاسمین، کراچی اس کے نتائج دس سال کے بعد ہی معلوم ہونگے۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ مردوں کی قابلیتِ افزائش کے لئے خطرناک ہے۔ ٹام، امریکہ اگر وہ اس کے محفوظ اور مؤثر ہونے کا مجھے یقین دلا دیں تو میں بخوشی اسے استعمال کرنے کو تیار ہوں۔ خواتین جو گولیاں استعمال کرتی ہیں وہ مؤثر ہوتی ہیں لیکن حمل کا تھوڑا سا موقعہ بھی میرے لئے باعثِ فکر ہے۔ میں یہ بات یقینی بنانے کیلئے مزید اقدمات کرنے کو بخوشی تیار ہوں کہ میں تبھی باپ بنوں گا جب میں چاہوں۔ یہ اسلام کے خلاف ہے محمد عمران محمد عمران، ملتان اس مقصد کے حصول کے لئے یہ بہتر طریقہ نہیں ہے۔ یہ اسلام کے خلاف ہے۔ کسی کو بھی اس کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ حدیقہ خان، لاہور یہ بہت بری چیز ہے اور اسلامی قانون کے خلاف ہے۔ میرے خیال میں یہ یورپ اور امریکہ کا منصوبہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ روک دیا جائے۔ سید حسین، تامل ناڈو، بھارت یہ قیامت کے اشارے ہیں۔ یہ جہنم کا راستہ ہے اور قوانینِ الٰہی کو بدلنے کی کوشش ہے۔ یہ حرام ہے۔ یہ قیامت کی نشانیاں ہیں۔ یہ جہنم کا راستہ ہے اور قوانینِ الٰہی کو بدلنے کی کوشش ہے۔ یہ حرام ہے۔ سید حسین غازی بابا قیصر مجید، گجرانوالہ اس ٹیکے کی دریافت مغربی ممالک کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ اپنے تمام وسائل استعمال کر کے بھی مسلمانوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں اور اب مردوں کو بھی مانعِ حمل ٹیکہ لگوایا جائے گا۔ میرے خیال میں یہ ٹیکہ صرف یورپی یونین کے ملکوں میں استعمال ہونا چاہئے تاکہ ان کی آبادی مزید کم ہو اور ایشیا کے پسماندہ ممالک کے غریب نوجوان ان ملکوں کے وسائل سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ایشیا کے مرد اسے استعمال نہیں کریں گے کیوں کہ یہ خلافِ فطرت بھی ہے۔ میٹ، امریکہ بہت سے مرد قارئین اس دوا کے استعمال کے بعد ہارمونز کی تبدیلیوں سے خوف زدہ نظر آتے ہیں لیکن پھر ہم سب ایسا جنسی عمل بھی چاہتے ہیں جس میں فکر کوئی نہ ہو۔ مرد چاہتے ہیں کہ عورتیں گولیاں استعمال کریں تاکہ حمل سے بچا جا سکے۔ یہ انصاف نہیں ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ ان گولیوں کے استعمال سے میری گرل فرینڈ میں ایسی جسمانی تبدیلیاں آتی ہیں جن سے خاصی بیزاری بھی ہو جاتی ہے۔ اگر یہ بوجھ بانٹا جا سکتا ہے تو میں بخوشی مدد کرنے کو تیار ہوں۔ ہم باری باری یہ گولیاں استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم باری باری یہ گولیاں استعمال کر سکتے ہیں۔ میٹ شین، امریکہ سستی کا نیا دور، کون کونڈم پہنے۔ یہ زبردست گولی ہے لیکن یہ ایچ آئی وی کا تدارک نہیں کرے گی۔ شیریں ڈار، پاکستان میں اپنے شوہر کو یہ ٹیکہ ضرور لگواؤں گی۔ لیکن بات یہ ہے کہ خربوزہ چھری پر گرے یا۔۔۔۔حمل تو عورت کو ہی ہونا ہے۔ اس لئے مجھے نہیں لگتا کہ میں کبھی اپنے خاوند کی بات کا اعتبار کروں گی کہ انہوں نے ٹیکہ ٹھیک سے لگوایا ہے یا یہ طریقہ سو فیصد محفوظ ہے۔ میں خود تو کوئی انتظام کر ہی رکھوں گی لیکن خاوند کو بھی ٹیکہ ضرور لگوانے کا کہوں گی تاکہ انہیں ذمہ داری کا احساس تو ہو۔ میں اپنے شوہر کو یہ ٹیکہ ضرور لگواؤں گی شیریں ڈار کیٹ، انگلینڈ میں ذاتی طور پر اس کے حق میں نہیں ہوں۔ میں ایک عورت ہوں۔ لیکن چونکہ میرے شوہر بچہ نہیں چاہتے ہیں، اس لئے اس طرح کے ٹیکے ان کے لئے آسانی پیدا کرسکتے ہیں۔ میں انہیں فوری طور پر اس ٹیکے کے لئے مشورہ دے رہی ہوں۔ جہانگیر، ملتان معاف کیجئے گا، یہ بالکل صحیح نہیں ہے۔ یہ فطرت کے اصول کے خلاف ہے، اور اس کے خراب نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ صرف پچپن لوگوں پر تجربے کے بعد اس طرح کا طبی اعلان کرنا ٹھیک نہیں ہے انڈریو، انڈریو، انگلینڈ میں اس کا کبھی بھی استعمال نہیں کروں گا۔ ہارمون کے استعمال پر مبنی یہ ایک واحد مثال نہیں ہے جس کی وجہ سے کینسر جیس بیماریاں نہیں پھیلی ہیں۔ صرف پچپن لوگوں پر تجربے کے بعد اس طرح کا طبی اعلان کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ محمد عارف، بدوملہی، پنجاب پاکستان ہاں ظاہر مراد گلُو، ڈِگری سندھ میں سمجھتا ہوں کہ آبادی پر کنٹرول کرنے کے لئے یہ بہتر طریقہ ہے۔ اس کے استعمال کے ذریعے بچوں کی پیدائش کا وفقہ بہتر ہوسکتا ہے۔ کیتھرین او، انگلینڈ مجھے تعجب ہے کہ اس بات کی قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ مرد اس طرح کے ٹیکے کا استعمال نہیں کریں گے۔ آسٹریلوی ڈاکٹروں نے مردوں کے لئے ایک مانع حمل ٹیکہ ایجاد کیا ہے جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ سو فیصد کامیاب ہے۔ سِڈنی میں واقع انزاک ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سائنس دانوں نے ایک سال تک پچپن لوگوں کو یہ ٹیکہ لگایا جس کے نتیجے میں اس عرصے کے دوران ان کے یہاں اولاد نہیں ہوئی۔ text: سٹار گروپ کے سی ائی اؤ سمیر نائر نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ کون بنےگا کروڑ تپی یعنی کے بی سی اب شاہ رخ پیش کريں گے۔ مسٹر نائر نے امید ظاہر کی کہ شاہ رخ ایک نئے انداز میں یہ پروگرام پیش کريں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’شاہ رخ ایک سپر سٹار ہیں اور وہ شو کے دوران اپنا جادو ضرور جگائيں گے۔‘ اس معاملے میں شاہ رخ خان کے ترجمان نے بتایا کہ شاہ رخ خان یہ پروگرام پیش کرنے والے ہيں اور یہ ان کے لئے ایک بڑی ذمے داری ہوگی۔ مسٹر نائر نے یہ بھی کہا کہ شاہ رخ نے امیتابھ کی جگہ نہیں لی ہے بلکہ یہ پروگرام ایک مثال ہے جو اب ایک شخص کے ہاتھوں سے دوسرے کے ہاتھ میں گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آئندہ مہینے کے آخر ميں اس پروگرام کی شوٹنگ شروع ہو جائے گی اور اگلے برس جنوری کے آخری ہفتے سے یہ پروگرام نشر ہونا شروع ہو جائے گا۔ ’کے بی سی‘ پروگرام نے ہندوستان میں کافی مقبولیت حاصل کی ہے اور گزشتہ دو برسوں میں اس کی دو سیریز نشر کی جا چکی ہیں۔ لیکن پچھلے برس جنوری میں امیتابھ بچن نے اپنی خراب صحت کے سبب اس پروگرام کے مستقبل کے اپیسوڈز کرنے کے لئے منع کر دیا تھا۔ پروگرام کو سپر سٹار امیتابھ بچن نے پیش کرنا شروع کیا اور مسٹر بچن کے انوکھے انداز اور انکی مقبولیت نے اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کرنے والے ٹی وی شو ’ہو وانٹس ٹو بی آ ملینئر‘ کی طرز پر بنايا گیا ہندوستانی شو ’کون بنے گا کروڑ پتی‘ اب بالی ووڈ کے شہنشاہ امیتابھ بچن کے بجائے کنگ خان شاہ رخ خان پیش کریں گے۔ text: وفاقی حکومت ابھی تک اس کیس کے لیے وکیل مقرر نہیں کر پائی وزارت قانون کے ایک اہلکار کے مطابق اس ضمن میں وکلا کے ناموں کی ایک رپورٹ بھی موصول ہوگئی ہے تاہم اس بارے میں حمتی نام کا فیصلہ اعلیٰ حکام کریں گے۔ اہلکار کے مطابق اس فہرست میں تین وکلا کا تعلق لاہور سے، جبکہ دو کا راولپنڈی اور اسلام آباد سے ہے۔ اہلکار کے مطابق ایسے حساس مقدمات میں پیش ہونے والے سرکاری وکیل کو دوسرے مقدمات کی نسبت زیادہ معاوضہ دیا جاتا ہے۔ اہلکار کے مطابق وفاقی حکومت اس بات پر بھی غور کر رہی ہے کہ اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل میاں رؤف کو اس مقدمے میں بطور استغاثہ نامزد کیا جائے۔ تاہم یہ فیصلہ میاں رؤف کی رضامندی سے مشروط کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل آفس نے اس مقدمے میں سرکاری وکیل بننے کے لیے متعدد وکلا سے رابطہ کیا تھا جن میں سے اکثریت نے یہ ذمہ داری سنبھالنے کے انکار کر دیا تھا۔ اس ضمن میں جب ایڈووکیٹ جنرل میاں رؤف سے رابطہ کیا گیا تو اُنھوں نے گورنر پنجاب کے قتل کے مقدمے میں کسی بھی شخص کا بطور سرکاری وکیل تقرر کرنے کے بارے کسی کا نام نہیں بتایا۔ البتہ اُن کا یہ کہنا تھا کہ منگل کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کے دوران جو وکیل سرکار کی جانب سے پیش ہو گا اس کے بارے میں سب کو معلوم ہو جائے گا۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے میں موت کی سزا پانے والے ممتاز قادری نے انسداد دہشت گردی کے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ محمد شریف اور لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج میاں نذیر احمد مجرم ممتاز قادری کی درخواست کی پیروی کر رہے ہیں۔ اس درخواست کی گذشتہ سماعت کے دوران سرکار کی طرف سے پیش ہونے والے دو وکلا کی باڈی لینگویج سے بظاہر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اس مقدمے کی پیروی کرنے سےگریزاں ہیں اور اسی لیے اُنھوں نے یہ معاملہ عدالت پر ڈالنے کی کوشش کی کہ اگر عدالت چاہے تو وہ کسی کو اس مقدمے میں سرکاری وکیل مقرر کر سکتی ہے۔ تاہم عدالت عالیہ نے یہ ذمہ داری یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا تھا کہ سرکاری وکیل کی تعیناتی وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اُدھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ سے کہا ہے کہ منگل کے روز اس مقدمے کی سماعت کے دوران حفاظتی اقدامات کو سخت کریں اور کسی بھی غیر متعقلہ شخص کو عدالت کے احاطے میں جانے کی اجازت نہ دیں۔ وفاقی حکومت نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے میں سرکاری وکیل کے تقرر کو حتمی قرار دینے کے لیے پانچ وکلا کے ناموں پر مشتمل ایک فہرست وزارت قانون کو بھجوا دی ہے جن میں سے ایک کا انتخاب کیا جائے گا۔ text: کراچی پولیس کے سربراہ کے مطابق حملے میں دو موٹر سائیکل اور ایک کار استعمال کی گئی فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ بغیر کسی ثبوت آئی ایس آئی یا اس کے سربراہ کو حملے کا ذمہ دار قرار دینا ’افسوسناک‘ اور ’گمراہ کن‘ ہے۔ بیان میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے آزاد انکوائری کمیشن کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے حملے کی تحقیقات کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں کمیٹی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے گی اور ملزمان کو بے نقاب کیا جائے گا۔ ’میڈیا کی چپقلش، نتائج کارکن بھگتتے ہیں‘ ’میڈیا مالکان بے حس ہیں اور بک چکے ہیں‘ اطلاعات کے مطابق حامد میر سنیچر کی شام کراچی کے ہوائی اڈے سے اپنے دفتر کی جانب جا رہے تھے کہ راستے میں نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی جس سے وہ زخمی ہو گئے۔ ان کے ڈرائیور نے حملے کے بعد گاڑی کو نجی ہسپتال پہنچایا جہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد حامد میر کا آپریشن کیا گیا اور اب ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے۔ نیوز چینل جیو نے الزام عائد کیا ہے کہ حامد میر نے جنگ انتظامیہ، اپنے خاندان اور حکومت کے کچھ لوگوں کو تحریری طور پر آگاہ کر دیا تھا کہ اگر ان پر حملہ ہوا تو پاکستان کا خفیہ ادارہ آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام اس کے ذمے دار ہوں گے۔ جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے حامد کے بھائی عامر میر نے کہا کہ ان کے بھائی نے انھیں بتایا تھا کہ آئی ایس آئی نے ان کے قتل کا ایک منصوبہ بنا رکھا ہے۔ عامر میر کے مطابق حامد میر نے کمیٹی تو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے لیے ایک پیغام ریکارڈ کرا رکھا ہے جس میں انھوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ ظہیر السلام اور کچھ کرنل رینک کے افسران کو نامزد کیا ہے۔ جذباتی انداز میں بات کرتے ہوئے عامر میر کا کہنا تھا ’حامد میر کو دہشت گردوں سے زیادہ آئی ایس آئی سے خطرہ تھا، جس کی وجہ بلوچستان کے مسئلے اور پرویز مشرف کے حوالے سے اختلاف رائے تھا۔ یہ اختلافات آئی ایس آئی کے سابق سربراہ احمد شجاع پاشا کے دور سے تھے۔‘ ادھر پاکستان کے سرکاری ٹی وی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے اس معاملے پر آج اہم اجلاس طلب کر لیا ہے۔ اس اجلاس میں سیاسی اور حکومتی معاون شرکت کریں گے۔ حامد میر پر قاتلانہ حملے کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے آج ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے، جب کہ سنیچر کو بعض شہروں میں احتجاج بھی کیا گیا ادھر پاکستان کے سینیئر صحافیوں نے کہا ہے کہ پاکستانی میڈیا کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کے چیف ایڈیٹر ایم ضیاء الدین کے مطابق میڈیا اداروں کے مالکان بے حس اور کاروبار کے نام پر بک چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کے صحافتی اداروں میں اتحاد نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ صحافیوں کو چن چن کر مارا جا رہا ہے۔‘ انھوں نے کہا ’ہمارے ادارے پر کئی بار حملے ہوئے مگر ان کی رپورٹنگ اس طرح کی گئی کہ جیسے کسی اور جزیرے پر یہ واقع ہوا ہو۔‘ ایم ضیاالدین کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اس واقع کے بعد میڈیا متحد ہو پائےگا۔’اب بھی دیکھ لیں اے آر وائی نے جیو کے حوالے سے بلیک آؤٹ کیا ہوا ہے۔ تو یہ تھوڑے دن تک بات چلے گی۔‘ اس سے قبل کراچی پولیس کے چیف شاہد حیات نے جیو نیوز کو بتایا کہ حامد میر کے ساتھ ایک محافظ بھی موجود تھا لیکن ان کی گاڑی پر حملہ اتنا اچانک ہوا کہ وہ بھی کچھ نہ کر سکا۔ شاہد حیات کے مطابق حامد میر آغا خان ہسپتال میں موجود ہیں اور انھیں بتایا گیا ہے کہ جسم کے نچلے دھڑ میں تین گولیاں لگی ہیں اور انھیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ سے آپریشن تھیٹر منتقل کیا گیا۔ پولیس چیف کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حملہ آوروں کو حامد میر کی کراچی آمد کے بارے میں پہلے سے ہی علم تھا اور وہ ان کے منتظر تھے۔ پولیس چیف کے مطابق حملے میں دو موٹر سائیکل اور ایک کار استعمال کی گئی۔ حامد میر کے ڈرائیور نے جیو نیوز کو بتایا کہ وہ ایئرپورٹ سے باہر سڑک پر آئے تو موڑ پر گاڑی کی رفتار کم ہو گئی اور اس دوران سفید کپڑوں میں ملبوس موٹر سائیکل سواروں نے ان کا پیچھا کرتے ہوئے پستول سے فائرنگ کی۔ ڈرائیور نے بتایا کہ انھوں نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی لیکن حملہ آور پیچھا کرتے رہے۔ ایک ماہ پہلے ہی صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے اینکر پرسن اور بلاگر رضا رومی کی گاڑی پر فائرنگ سے ان کا ڈرائیور ہلاک ہوگیا تھا۔ اس سے پہلے سنہ 2012 میں بھی اسلام آباد میں حامد میر کی گاڑی میں بارودی مواد نصب کیا گیا تھا جسے بعد میں ناکارہ بنا دیا گیا۔ پاکستان کے صدر ممنون حسین، وزیرِ اعظم نواز شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار، وزیرِ اطلاعات پرویز رشید اور پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی جیو نیوز کے اینکر پرسن حامد میر پر حملے کی مذمت کی ہے۔ صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی ایک رپورٹ میں پاکستان کو دنیا میں صحافیوں کے لیے بدترین ملک قرار دیا جاتا ہے جہاں صحافیوں کو کسی قانونی گرفت کے خطرے سے بالاتر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ روں سال بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ساں فرنٹیئرز کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں طالبان اور فوج دونوں ہی صحافیوں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں اور منتخب حکومت ان دونوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ پاکستان کے سینیئر صحافی حامد میر کراچی میں ہونے والے ایک قاتلانہ حملے میں زخمی ہوگئے ہیں۔ ان کے ادارے جیو نیوز اور حامد میر کے بھائی نے پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دیا ہے جب کہ فوج کے ترجمان نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے آزادانہ انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ text: بھارت کی چھتیس گڑھ ریاست کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بعض جگہ ماؤ نواز باغیوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے بیجا پور ضلع میں مشتبہ ماؤ نواز باغیوں کے حملے میں چھ افراد کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔ یہ تمام لوگ 10 اپریل کو بستر کے علاقے میں ووٹنگ کرانے کے لیے گئے تھے جہاں سے سنیچر کو وہ ضلع ہیڈکوارٹر جگدل پور لوٹ رہے تھے۔ دوسرا حملہ بستر کے دربھا کے پاس محکمہ صحت کی ایمبولینس سنجیونی 108 پر ہوا ہے۔ اس حملے کے بارے میں بھی یہ کہا جا رہا کہ اسے کے پیچھے ماؤ نواز باغی ہیں۔ اس حملے میں پانچ پولیس اہلکاروں کے علاوہ ایمبولنس کے ڈرائیور کے مارے جانے کی اطلاع ہے۔ پولیس کے ترجمان دپانشو كابرا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بیجا پور کے تھانے كٹرو کے تحت آنے والے گاؤں تلنار کے پاس ایک پولنگ پارٹی بس میں سوار واپس آ رہی تھی کہ ایک تالاب کے پاس ماؤنواز باغیوں نے پہلے سے بم نصب کر رکھا تھا، جس کی زد میں پولنگ ٹیم کی گاڑی آ گئی۔‘ انھوں نے بتایا کہ اس دھماکے میں اب تک چھ لوگوں کی ہلاکت کے علاوہ کم از کم 12 افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ ماؤنواز باغی عام طور پر خوساختہ بموں کا استعمال کرتے ہیں پولیس کے مطابق ’راجستھان ٹریولز کی بس نمبر سی جی 17 کے 0321 میں دو پولنگ سٹیشنوں کے عملے بیس کیمپ واپس آ رہے تھے۔ ان پولنگ پارٹیوں کو 10 اپریل کی ووٹنگ کے بعد پاس کے ہی پولیس کیمپ میں ٹھہرایا گیا تھا۔ اس کے بعد آج دوپہر انھیں جگدل پور کے لیے روانہ کیا گیا تھا۔‘ دوسرے حملے میں دربھا کے پاس محکمہ صحت کی ایمبولنس سنجیونی 108 پر بھی ماؤ نواز باغیوں نے حملہ کیا ہے ، جس میں سی آر پی ایف کے پانچ جوان مارے گئے ہیں۔ اس ایمبولنس میں نو افراد سوار تھے۔ یاد رہے کہ 10 اپریل کو بستر میں لوک سبھا انتخابات کے لیے پولنگ ہوئی تھی۔ اس دوران سات مقامات پر ماؤنواز باغیوں نے فائرنگ کی تھی اور کچھ مقامات پر آئی ای ڈی سے دھماکے کیے گئے تھے جس میں کئی افراد زخمی ہوئے تھے۔ بیجا پور، دانتے واڑہ اور سكما کے بعض علاقوں میں سکیورٹی فورسز اور ماؤ نواز باغیوں کے درمیان تصادم کے واقعات سامنے آئے تھے۔ سکیورٹی فورسز نے دانتے واڑہ اور سكما میں کئی مقامات سے دھماکہ خیز مواد برآمد کیا تھا۔ ان علاقوں میں کئی مقامات پر ماؤنواز باغیوں نے سڑکوں پر ٹریفک متاثر کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔ بھارت کی وسطی ریاست چھتیس گڑھ میں سنیچر کو مشتبہ ماؤ نواز باغیوں کے دو حملوں میں مجموعی طور پر 12 افراد مارے گئے ہیں جبکہ متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ text: منتظمین نے اس دفعہ کارا فلم فیسٹیول کا عنوان رکھا ہے ’ تمنا کا چھٹا قدم ‘۔ یہ فلم فیسٹیول سترہ دسمبر تک جاری رہیگا۔ کراچی میں کارا فلم سوسائٹی کے آرگنائزر حسن زیدی نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ اس فیسٹیول میں چھتیس ممالک کی فلمیں نمائش کے لیئے پیش کی جارہی ہیں۔ان میں امریکہ، برطانیہ، اٹلی، بھارت، برازیل، سوڈان، چاڈ، فلسطین سے منتخب فلمیں شامل ہیں ۔ اس میں سے بیس ورلڈ پریمیئر ہیں جبکہ کے کچھ ایسی فلمیں بھی ہیں جن کی ایشیاء میں پہلی بار نمائش کی جائیگی۔ فیسٹیول میں بھارتی اور ایرانی فلمسازوں کے علاو اداکار اجے دیوگن، سیف علی خان، وشال بھارد واج، گلشن گروور، انوپم کھیر، مہیش بھٹ، شینی آہوجا، تنوجا چندرہ، طارق مسعود، جمیل دہلوی، موہت سوری، اسکاٹ پارڈو اس دس روزہ فیسٹیول میں شریک ہونگے۔ پاکستانی فلمسازوں اور اداکاروں میں سید نور، صائمہ، ہمایوں سعید، طلعت حسین ، ثمینہ پیرزادہ شریک ہونگی۔ حسن زیدی نے بتایا کہ فیسٹیول میں چالیس فیچر، چونتیس دستاویزی اور ایک سو کے قریب شارٹ فلمز دکھائی جائیں گی۔ ان فلموں میں اوم کارہ، کھوسلہ کا گھونسلا، دی ونڈس دیٹ شیکس دی بیرلی، دی روڈ ٹو گوانتانامو، چلڈرن آف دی مین، ہیری پورٹر اور امریکی صحافی ڈینیئل پرل کی کہانی پر مبنی فلم انفینٹ جسٹس کی بھی نمائش کی جائیگی ۔ حسن زیدی کے مطابق اس مرتبہ فیسٹیول میں بہترین شارٹ، ڈاکیومینٹریز اور فیچر فلموں کے لیئے ایک ہزار سے پانچ ہزار ڈالر انعام بھی رکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس فیسٹیول کے لیے دونوں حکومت پاکستان اور برٹش کونسل، قونصلیٹ جنرل آف اٹلی اور ہائی کمیشن آف انڈیا کا تعاون بھی حاصل ہے۔ کراچی میں سات دسمبر سے دس روزہ کارا فلم فیسٹیول منعقد کیا جارہا ہے، جس میں ایک سو ستر فلمیں نمائش کے لیے رکھی جائیں گی۔ text: غالباً وقار یونس نے بھی ہوا کا رخ دیکھ لیا ہے۔ شاہد آفریدی کے بارے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیرمین شہریار خان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد کپتان نہیں رہیں گے۔ خود شاہد آفریدی نے نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کے بعد کہا تھا کہ آسٹریلیا کے خلاف میچ ممکنہ طور پر ان کا آخری انٹرنیشنل میچ ہوگا۔ اگر پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کو ہرا دیتی ہے اور سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر شاہد آفریدی کے کیریئر کےمزید کچھ دن بڑھ جائیں گے۔ وقار یونس کے بارے میں بھی اطلاعات یہی ہیں کہ وہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد کوچ کے عہدے پر مزید کام کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ غالباً انہوں نے بھی ہوا کا رخ دیکھ لیا ہے۔ شہریار خان کو یہ مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ وہ غیرملکی کوچ لائیں انہوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کے بعد پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ وہ وطن واپس جاکر پاکستان کرکٹ بورڈ کے ارباب اختیار کو ورلڈ ٹوئنٹی میں پاکستانی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کی وجوہات سے آگاہ کریں گے اور اگر وہ ان کی نہیں سنتے تو یہ ان کی مرضی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیرمین شہریارخان نے وقار یونس کو انگلینڈ کے دورے تک کوچ برقرار رکھنے کا اعلان کیا تھا لیکن اب ان کے ارادے بھی بدل چکے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ وقاریونس کے مستقبل کا فیصلہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد کیا جائے گا۔ نئے کوچ کے طور پر عاقب جاوید کا نام لیا جا رہا ہے حالانکہ شہریار خان کو یہ مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ وہ غیرملکی کوچ لائیں اور اس سلسلے میں ٹام موڈی کا نام بھی سننے میں آیا ہے۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ چیف سلیکٹر ہارون رشید سلیکشن میں کیے گئے کئی غلط فیصلوں کے باوجود اپنی جگہ موجود ہیں اور ان کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہوسکا ہے، حالانکہ شہریار خان نے کہا تھا کہ یہ سلیکشن کمیٹی اب نہیں رہے گی۔ آئی سی سی ورلڈ ٹوئنٹی میں پاکستانی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد کپتان، کوچ اور چیف سلیکٹر، تین ایسے عہدے ہیں جن پر تبدیلیاں یقینی دکھائی دے رہی ہیں۔ text: گذشتہ کچھ عرصے میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے جب مولانا عبدالعزیز کے ورانٹ جاری ہوئے ہیں یہ بات اسلام آباد پولیس کے ایس ایس پی آپریشنز عصمت اللہ جونیجو نے بی بی سی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہی۔ ’مولانا عبدالعزیز نہ گرفتاری دیں گے اور نہ ہی ضمانت کرائیں گے‘ ان کا کہنا تھا ’ان کے نمائندوں نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ کہ وہ (مولانا عبدالعزیز) خود پولیس سٹیشن آکر اپنا بیان بھی ریکارڈ کروائیں گئے۔‘ عصمت اللہ جونیجو کا مزید کہنا تھا کہ جب بھی کسی کے خلاف ایف آئی آر درج ہوتی ہے تو ملزم کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ 14 دن کے اندر متعلقہ تھانے میں پیش ہو کر الزامات کے بارے میں وضاحت پیش کرے۔ مولانا عبدالعزیز کی جانب سے گرفتاری نہ دینے کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ جو بیانات ذرائع ابلاغ میں آ رہے ہیں ان کا حقیقت سے تعلق نہیں ہے۔ ’بیانات کے برعکس وہ ضمانتی مچلکے حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور وہ اس مقدمے کی تفتیش میں شامل ہو کر اپنی صفائی پیش کرنا چاہتے ہیں۔‘ عصمت اللہ جونیجو نے بتایا کہ قانون کے تحت کسی بھی ایف آر کی ابتدائی تفتیش کے لیے پولیس کے پاس چودہ دن کی مہلت ہوتی ہے اور پولیس کی کوشش ہوتی ہے کہ جلد از جلد اس کیس کو مکمل کریں۔ ایف آئی ار جھوٹی ہونے کے بیان پر ایس ایس پی آپریشن نے کہا’یہ قبل از وقت ہے کیونکہ اس بات کا فیصلہ تفتیش مکمل کرنے اور تمام فریقین کے بیانات کا جائزہ لینے کے بعدہی کیا جا سکتا ہے۔‘ ’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ ایک اہم مقدمہ ہے جس کی تفتیش صرف ایس ایچ او نہیں کر رہا بلکہ دیگر افسران بھی اس میں شامل ہیں اور مقدمے کا فیصلہ صرف میرٹ پر ہوگا۔‘ گذشتہ کچھ عرصے میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے جب مولانا عبدالعزیز کے ورانٹ جاری ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت یہ واضح کرنا چاہتی ہے جو بھی فرقہ ورایت اور دہشت گردی کی حمایت کرے گا اُس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔ جب ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو سے پوچھا گیا کہ مولانا عبدالعزیز کی گرفتاری کے حوالے سے ان کا موقف تھا کہ ’ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا‘۔ اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کے نمائندے پولیس سٹیشن آئے تھے اور انھوں نے یہ یقین دہانی کروائی کہ مولانا عبدالعزیز اس مقدمے میں شاملِ تفتیش ہوں گے اور قانون کے تحت جو بھی وضاحتیں درکار ہوں گی وہ دیں گے۔ text: بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کا اصرار ہے کہ دونوں سیاسی شخصیات کی ملاقات کی نوعیت غیر سیاسی تھی جس کا مقصد صرف نواز شریف کی بیماری کے باعث عیادت کرنا تھا۔ جیل کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہنے والے کو بہترین علاج کی سہولیات مہیا کی جائے۔ میاں نواز شریف کی ممکنہ ڈیل کے متعلق ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’کچھ لوگ ان کے خلاف سازش کر رہے ہیں، میاں صاحب خود متعدد بار اب نظریاتی سیاست کرنے کا دعویٰ کر چکے ہیں اور آج کی ملاقات میں مجھے کوئی ایسا تاثر یا اشارہ نہیں ملا کہ نواز شریف کوئی سمجھوتا کریں گے یا ڈیل کریں گے۔ وہ اپنے اصولوں پر قائم ہیں اور ان کی جماعت بھی ان اصولوں پر قائم رہے گی۔‘ یہ بھی پڑھیے! نواز شریف جیل میں رہنے پر بضد نواز شریف کی بیماری کی نوعیت کیا ہے؟ ’پی ٹی ایم کی نوجوان قیادت کو امید کی نظر سے دیکھتا ہوں‘ تاہم سیاسی تجزیہ کار اس ملاقات کے مفہوم کو محض تیمارداری سے زیادہ گردانتے ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل میں نواز شریف سے حزبِ اختلاف کی کسی بھی بڑی جماعت کے سربراہ کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے جانب سے ملاقات کے لیے ایسے وقت کا تعین کیا گیا ہے جب حال ہی میں پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے سندھ کے علاقے چھچھرو کے دورہ کے موقع پر اپنی تقریر میں بلاول بھٹو اور ان کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ دوسری جانب نواز شریف کی صحت کے حوالے سے ان کے خاندان اور جماعت کے اندر پائی جانے والی تشویش کے باوجود وہ ہسپتال منتقل نہ ہونے پر بضد ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل اور میاں نواز شریف کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سامنے تاریخ کی تلخ یادیں بھی موجود ہیں۔ بلاول بھٹو زرادری کے والد سابق صدر آصف زرداری کو نواز شریف کے دورِ حکومت میں کوٹ لکھپت جیل میں بھی قید رکھا جا چکا ہے۔ دونوں جماعتیں کئی سیاسی موضوعات پر متضاد خیالات بھی رکھتی ہیں۔ تاہم پاکستان کی ان دونوں پرانی سیاسی جماعتوں کی قیادت سیاست میں لچک کے نظریہ کی حمایت کرتی بھی نظر آئی ہے۔ دونوں جماعتوں کی قیادت کو قومی احتساب بیورو کی جانب سے مبینہ کرپشن پر کارروائی کا بھی سامنا ہے۔ تو کیا اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے جیل میں جا کر نواز شریف سے ان کی ملاقات کے نتیجے میں کوئی با معنی سیاسی اتحاد وجود میں آ سکتا ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیاست کے حالیہ منظر نامے پر اس بات کے زیادہ امکانات نظر نہیں آتے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑایچ کا کہنا تھا کہ دونوں سربراہان کی یہ ملاقات علامتی ہے۔ 'کوئی بڑی پیش رفت تو متوقع نہیں۔ اس کی حیثیت علامتی ہے۔ میرے خیال میں وہ پاکستان تحریکِ انصاف کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ ایک ہیں۔' تاہم سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے معاملے پر دونوں جماعتوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔' اس سے مراد اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رویہ ہے یعنی 'کس کو وہ زیادہ لفٹ کرواتے ہیں۔' پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لاہور میں کوٹ لکھپت جیل کے باہر میڈیا سے بات کر رہے ہیں کیا بلاول بھٹو زرادری اس تقسیم کو ختم کر پائیں گے جو اس سے قبل دونوں جماعتوں کے دوسری قیادت نہیں کر پائی؟ تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کا خود نواز شریف کے پاس جا کر ملاقات کرنا 'عمران خان کی چھچھرو میں کی جانے والی تقریر کا فوری جواب ہے۔' تاہم وہ نہیں سمجھتے کے اس ملاقات کے نتیجے میں حکومت کے خلاف کوئی اتحاد بن پائے گا یا تحریک چلنے جا رہی ہے۔ نواز شریف سے بلاول بھٹو زردراری کی ملاقات تقریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہی۔ ملاقات کے بعد جیل کے باہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہیں بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ نواز شریف سے ملاقات میں ان کا بنیادی مقصد ان کی عیادت تھا تاہم چارٹر آف ڈیموکریسی جیسے موضوعات پر بھی بات ہوئی۔ 'کسی اتحاد کی بات کرنا ذرا قبل از وقت ہو گا۔ تاہم ہماری چارٹر آف ڈیموکریسی اور جو حکومتی اقدامات ہو رہے ہیں ان پر بھی بات چیت ہوئی۔ امید ہے کہ چارٹر آف ڈیموکریسی کے حوالے سے مستقبل میں مزید پیش رفت ہوگی۔' بلاول بھٹو سے ان کی اس ملاقات کے نتیجے میں دونوں جماعتوں کے درمیان کسی ممکنہ اتحاد کے حوالے سے متعدد بار سوال کیا گیا۔ ہر سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ان کا بنیادی مقصد نواز شریف کی عیادت تھا تاہم ہر بار انھوں نے اس بات کا ذکر بھی کیا کہ ان کی چارٹر آف ڈیموکریسی جیسے موضوعات پر نواز شریف سے بات چیت ہوئی۔ 'پارلیمان کے اندر تو تمام حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے درمیان یہ اتحاد ہے کہ قومی اہمیت کے مسائل پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کے حوالے سے مجھے امید ہے کہ مستقبل میں مزید بات چیت ہو سکتی ہے۔' بلاول کا کہنا تھا کہ یہ ان کے لیے ایک تاریخی دن تھا۔ ان کے والد، نانا ذولفقار علی بھٹو اور جماعت کے دیگر کارکنان اسی جیل میں سیاسی قیدی رہ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ 'نواز شریف یا کسی بھی دوسری سیاسی لیڈر کو ان حالات میں نہیں دیکھنا چاہیں گے۔' صحافی اور تجزیہ کار راشد رحمان بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں فی الفور دونوں جماعتوں کے درمیان کسی سیاسی اتحاد کی توقع نہیں ہے۔ ان کے مطابق اس کی وجہ دونوں جماعتوں کے درمیان پائی جانے والی ماضی کی سیاسی تلخیاں ہیں۔ 'اور اس کی کوشش اس لیے بھی زیادہ سنجیدگی سے نہیں کی جائے گی کہ 'اس حوالے سے سیاسی عزم بھی نہیں پایا جاتا۔' تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان اور ان کی حکومت کی طرف سے ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو دیوار کے ساتھ لگانے کا سلسلہ جاری رہا تو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ شاید اتحاد بنانے پر مجبور ہو جائیں۔ 'عمران خان اور ان کے حامی ہی ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان مستقبل میں کسی ممکنہ سیاسی اتحاد کے اصل محرکات ہیں۔' پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف سے ملاقات اور عیادت کی ہے۔ جیل میں اس ملاقات کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر ممبران بھی موجود تھے۔ text: چراغ احمد کے قتل کا یہ واقعہ جمعے کو تربت کے علاقے بلیدہ میں پیش آیا جان محمد بلیدی کے بھتیجے چراغ احمد کے قتل کا یہ واقعہ جمعے کو تربت کے علاقے بلیدہ میں پیش آیا۔ لیویز فورس تربت کے ایک اہلکار نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے چراغ احمد کو بلیدہ میں فائرنگ کر کے ہلاک کیا۔ اہلکار کے مطابق مقتول چراغ احمد لیویز فورس میں ملازم تھے۔ دریں اثناء بلوچستان کے کالج اساتذہ نے ڈگری کالج خضدار کے اسسٹنٹ پروفیسر کے قتل کے خلاف جمعہ کو بلوچستان میں کلاسز کا بائیکاٹ کیا ۔ خیال رہے کہ جمعرات کو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے ڈگری کالج خضدار کالج کے دو اساتذہ پر فائرنگ کی تھی۔ اس حملے میں ڈگری کالج خضدرا کے معاشیات کے اسسٹنٹ پروفیسر عبدالرزاق ہلاک جبکہ دوسرے زخمی ہو گئے تھے۔ اس واقعہ کے خلاف خضدار سمیت دیگر علاقوں میں کالج اساتذ ہ نے بطور احتجاج جمعے کو کلاسز کا با ئیکاٹ کیا ۔ کالج اساتذہ کی تنظیم بلوچستان پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسو سی ایشن کے کوئٹہ میں ہونے والے ہنگامی اجلاس میں اسسٹنٹ پروفیسر کے قتل کے خلاف تین روزہ سوگ اور سنیچر کو بھی کلاسز کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ ادھر ڈیرہ بگٹی میں مقامی انتظامیہ نے امن لشکر سے تعلق رکھنے والے تین افراد کی لاشیں برآمد کر لیں۔ ان افراد کو رواں سال جنوری میں نامعلوم افراد نے ایک جھڑپ کے بعد اغوا کیا تھا۔ نامعلوم افراد نے ان افراد کو گزشتہ روز ہلاک کر کےان کی لاشیں نالے میں پھینک دی تھیں۔ پاکستان کے صوبے بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ کے ترجمان جان محمد بلیدی کے بھتیجے کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ text: مسلمان جہاد کی مختلف تشریح و تعبیر کرتے ہیں لیکن دنیا بھر میں اسے دہشت گردی کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق قانونی ذرائع نے بتایا ہے کہ جنوبی فرانس میں ججز اس معاملے کے متعلق فیصلہ دینے والے ہیں۔ اگست کے مہینے میں ایک بچے کو 'جہاد' نام سے تولوز شہر کے میئر کے دفتر میں رجسٹر کروایا گیا تھا جس کے بعد دفتر نے اس معاملے کو استغاثہ کے پاس بھیج دیا۔ ممکنہ طور پر والدین کو بچے کا نام تبدیل کرنے کے لیے کہا جائے گا۔ قانونی ذرا‏ئع نے بتایا: 'اس معاملے میں کارروائی جاری ہے۔' ٭ فرانس میں بھی بنیادپرست اسلام اور عالمگیریت کے خلاف لہر ٭ فرانس میں مسجد کے باہر فائرنگ، آٹھ افراد زخمی خیال رہے کہ دنیا میں 'جہاد' کو انتہا پسندوں کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے جنھوں نے حالیہ برسوں میں فرانس کو بار بار نشانہ بنایا ہے اور ایک اندازے کے مطابق حالیہ برسوں میں 200 سے زیادہ افراد ان کے حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ فرانس میں حالیہ برسوں میں کئی حملے ہوئے ہیں جن میں 200 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں فرانس میں اب کوئی کنبہ اپنے بچے کا پہلا نام رکھنے کے لیے آزاد ہے لیکن سنہ 1993 سے قبل انھیں ناموں کی منظور شدہ ایک فہرست سے ہی نام منتخب کرنا ہوتا تھا۔ بہر حال اب بھی مقامی حکام اگر یہ محسوس کریں کہ کوئی نام بچے کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے تو وہ اس معاملے کو استغاثہ کے پاس بھیج سکتے ہیں۔ نیس کے ریوائرا شہر کے میئر کے دفتر نے گذشتہ سال نومبر میں ایک بچے کا نام 'محمد میراہ' رکھنے پر معاملے کو استغاثہ کے سپرد کردیا تھا کیونکہ محمد میراہ نام کے بندوق بردار شخص نے سنہ 2012 میں سات افراد کو ہلاک کر دیا تھا جن میں تین یہودی سکول کے طلبہ بھی تھے۔ اس کے بعد والدین نے اس بچے کا دوسرا نام رکھنے کا فیصلہ کیا۔ حملے میں شامل لوگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسلام کے شدت پسند نظریات کے حامل رہے ہیں سنہ 2013 میں ایک فرانسیسی ماں اس وقت شہ سرخیوں میں آئی تھی جب انھوں نے جہاد نام کے اپنے بچے کو ایک ایسی ٹی شرٹ میں سکول بھیجا جس میں لکھا تھا: 'میں ایک بم ہوں' اور 'جہاد 11 ستمبر کو پیدا ہوا‘۔ فرانس میں ججز اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ آیا کوئی اپنے بچے کا نام 'جہاد' رکھ سکتا ہے یا نہیں۔ text: انہوں نے کہا کہ ویسٹ انڈیز ورلڈ کپ کے لیے کافی تیاری کر رہا ہے، سٹیڈیمز کو گرا کر نئے سٹیڈیم بنائے جا رہے ہیں لیکن وکٹس یہ ہی رہیں گی۔ ’میرے خیال میں ان میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہو گی‘۔ شہریار کہتے ہیں کہ ہماری ٹیم کے اگرچہ کھلاڑی نئے ہیں لیکن ان میں ٹیم سپرٹ بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا ’میں ابھی ویسٹ انڈیز کے گریٹ کھلاڑی ایورٹن ویکس سے بات کر رہا تھا اور ان کا بھی کہنا تھا کہ کرکٹ میں ٹیم سپرٹ کو بڑا ’انڈر ایسٹیمیٹ‘ کیا جاتا ہے جو کہ کافی غلط بات ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ بڑے پلیئرز کے نہ کھیلنے کے باوجود لڑکے سپرٹ سے کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’مجھے وہ وقت یاد ہے جب ورلڈ کپ کے دوران اکیلے انضمام ہی ذمہ دار بیٹسمین تھے اور ان پر اتنا بوجھ آ گیا تھا کہ وہ ڈبل فگر میں ہی نہیں آئے۔ جب میں نے ان سے کہا کہ انضمام تم پر سارا دارومدار ہے اور تم سکور نہیں کر رہے تو انہوں نے کہا کہ میں اکیلا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ پوری ٹیم اور ملک کا بوجھ میرے کندھوں پر ہے۔ اب یہ ہے ان لڑکوں کو بھی ذمہ دار ہونا ہے۔ بعض دفعہ بڑے کھلاڑی نہیں کھیل پائیں گے۔ انہیں ہی ذمہ داری سے کھیلنا ہو گا‘۔ ایک سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستان بولنگ کے شعبے میں ذرا کمزور نہیں ہے کرکٹ بورڈ کے چیف نے کہا کہ ’اس وقت ہمارے دو فاسٹ بولر نہیں کھیل رہے ہیں۔ ایک تو شعیب اور دوسرے سمیع تو ان کے آنے سے یہ خلا پورا ہو جائے گا۔ لیکن آپ کو بتاتا چلوں کہ ہماری اے ٹیم ابھی سری لنکا، زمبابوے اور نمبیا کھیل کر آئی ہے۔ تینوں جگہ وائٹ واش کر کے آئی ہے اور تینوں جگہ بہت اچھی فاسٹ بولنگ کی گئی ہے اور نئے فاسٹ بولر نکل رہے ہیں۔ دوسرا شعیب اور سمیع آ جائیں گے تو سپیشلسٹ بولروں کا خلا بھی پورا ہو جائے گا‘۔ ویسٹ انڈیز میں ورلڈ کپ 2007 کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ویسٹ انڈیز اس وقت تک تمام سہولتیں مہیا کر لے گا۔ ’لیکن اصل بات کرکٹ کی روایت کی ہے۔ ویسٹ انڈیز کے پاس کرکٹ کی عظیم روایت ہے۔ جو بھی کرکٹر یہاں آئیں گے انہیں یہ ضرور محسوس ہو گا کہ ہم بھی کرکٹ کی ان عظیم روایات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اب یہ ضرور ہے کہ ان کے پاس کلکتہ جیسے سٹیڈیم نہیں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے سٹیڈیم ہیں۔ اور سب سے بڑی مشکل جو کھلاڑیوں اور تماشائیوں کو ہو گی وہ ایک جزیرے سے دوسرے جزیرے تک جانے کی ہو گی‘۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئرمین شہریار خان کہتے ہیں کہ اس سیریز کا فائدہ یہ ہے کہ ہم ورلڈ کپ 2007 کے لیے اپنے آپ کو تیار کر لیں گے، وکٹ اور یہاں کا ماحول سمجھ لیں اور جب یہاں کھیلنے آئیں تو ان کے لیے تیار ہوں۔ text: امریکہ کے صدارتی امیدوار: ٹرمپ (بائیں)، بائیڈن (دائیں) صدر ٹرمپ نے رواں سال اپنی ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ تاثر دیا تھا کہ وہ کیو اینون کے سازشی نظریے سے منسلک تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ تحریک دنیا بھر میں، خاص کر امریکہ میں، انٹرنیٹ پر پھیل رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ یہ لوگ ’انھیں بہت پسند کرتے ہیں‘ اور ’ہمارے ملک سے پیار کرتے ہیں۔‘ اس مہم کو سوشل میڈیا کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹوئٹر کی جانب سے بڑے پیمانے پر روکا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں ہزاروں اکاؤنٹس اور ویب سائٹ لنکس کو بند کیا گیا ہے جو کیو اینون سے متعلق خیالات کی تشہیر کرتے ہیں۔ تو ’کیو اینون‘ کیا ہے اور اس پر کسے یقین ہے؟ بی بی سی کے مائیک وینڈلنگ کے مطابق کیو اینون ایک سازشی نظریہ ہے جس میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ صدر ٹرمپ حکومت، کاروبار اور ذرائع ابلاغ میں ’شیطان کو پوجنے والے پیڈو فائلز (بچوں کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بنانے والے افراد)‘ کے خلاف ایک خفیہ جنگ کا آغاز کرچکے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے لوگ بحرانی کیفیت میں سازشی نظریات کا زیادہ شکار کیوں ہوتے ہیں؟ مصر: 'اہرام مصر خلائی مخلوق نے تعمیر نہیں کیے تھے' بیروت دھماکوں سے متعلق سوشل میڈیا پر سازشی نظریات کیسے پھیلے؟ دنیا کے طاقتور افراد کے خفیہ گروہ ’الیومناٹی‘ کی کہانی کیسے شروع ہوئی؟ اس نظریے کو ماننے والے قیاس آرائی کرتے ہیں کہ اس جنگ کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایک دن ہیلری کلنٹن جیسی معروف شخصیات کو گرفتار کیا جائے گا اور انھیں سزا ملے گی۔ یہ مرکزی کہانی ہے جبکہ اس میں کیو اینون کے دعویداروں کے درمیان مختلف موضوعات پر اندرونی مباحثے بھی چلتے رہتے ہیں جو ایک دوسرے کے دعوؤں سے الگ ہوتے ہیں۔ اس نظریے کو ماننے والے نئی خبروں، تاریخی واقعات اور شماریات سے اپنے خود کے نتیجے اخذ کرتے ہیں تاکہ ان کے خیالات کو تقویت مل سکے۔ یہ کب شروع ہوا؟ اکتوبر 2017 میں فور چین نامی مسج بورڈ پر ایک نامعلوم صارف نے اس حوالے سے پوسٹ ڈالی۔ اس پیغام میں صارف نے اپنا نام ’کیو‘ لکھا اور دعویٰ کیا گیا کہ اسے امریکی سکیورٹی کی منظوری ’کیو کلیئرنس‘ مل چکی ہے۔ ان پیغامات کو ’کیو ڈراپس‘ یا ’بریڈ کرمبز‘ کے نام سے جانا جانے لگا۔ انھیں ٹرمپ کے بعض حامی اپنے نعروں میں خفیہ زبان میں لکھتے ہیں۔ کوئی ان نظریوں کو مانتا بھی ہے؟ دراصل اس نظریے کو ہزاروں لوگ مانتے ہیں۔ سنہ 2017 سے ان پوسٹس پر سوشل میڈیا کی بڑی ویب سائٹس جیسے فیس بک، ٹوئٹر، ریڈٹ اور یوٹیوب پر کئی افراد ردعمل دے چکے ہیں۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران اعداد و شمار مزید بڑھے ہیں۔ سوشل میڈیا کے اعتبار سے کیو اینون سے منسلک سازشی نظریوں پر ہزاروں لوگ یقین کرتے ہیں۔ اور ان کی پذیرائی ان حالات میں بھی کم نہیں ہوئی جب ایسے کئی واقعات پیش آئے جو ان نظریوں کی تردید کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ابتدائی کیو پیغامات خصوصی استغاثہ رابرٹ مولر کی تحقیقات پر مرکوز تھے۔ کیو اینون کی حمایت کرنے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ 2016 کے امریکی انتخابات میں روسی مداخلت پر مولر کی تحقیقات درحقیقت پیڈو فائلز پر ہوئی تھی جسے چھپایا گیا۔ جب اس تحقیقات میں کوئی واضح انکشاف نہ ہوا تو سازشی نظریے بنانے والوں کا دھیان کہیں اور چلا گیا۔ ان نظریوں کو ماننے والے سمجھتے ہیں کہ کیو کے پیغامات میں جان بوجھ کر غلط معلومات شامل کی جاتی ہے تاکہ سازشی نظریے کو غلط ثابت کرنا ناممکن بن جائے۔ اس سے کیا اثر پڑے گا؟ کیو اینون کے حمایتی ایک ساتھ ہیش ٹیگز بناتے ہیں اور اپنے دشمنوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں جن میں سیاستدان، فنکار اور صحافی شامل ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ افراد ’پیڈو فائلز کی پشت پناہی‘ کر رہے ہیں۔ بات صرف دھمکی آمیز آن لائن پیغامات کی نہیں۔ ٹوئٹر کا کہنا ہے کہ کیو اینون کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے کہ اس سے اردگرد کسی کو ممکنہ نقصان ہوسکتا ہے۔ دھمکی دینے یا آف لائن ایکشن لینے پر کئی حامیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سنہ 2018 کے ایک مشہور کیس میں ایک مسلح شخص نے ہوور ڈیم کے پُل کو بند کر دیا تھا۔ میتھیو رائٹ نے بعد میں دہشت گردی کے الزام میں جرم قبول کر لیا تھا۔ امریکی انتخابات پر اس کا کوئی اثر ہوگا؟ کئی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اکثر امریکیوں نے کیو اینون کے بارے میں نہیں سنا۔ لیکن کئی ماننے والے اسے صدر ٹرمپ کی حمایت کے لیے ایک بنیاد بناتے ہیں۔ ماضی میں صدر ٹرمپ میں کیو اینون حامیوں کو ری ٹویٹ کیا اور گذشتہ ماہ ان کے بیٹے ایرک ٹرمپ نے انسٹاگرام پر ایک کیو اینون کی میم پوسٹ کی۔ ٹرمپ کی حمایت میں سازشی نظریہ کتنا پر اثر ہوتا ہے؟ کیو اینون کے درجنوں حامی نومبر میں کانگریس کی دوڑ میں حصہ لے رہے ہیں۔ کچھ کے جیتنے کے امکانات کافی کم ہیں لیکن جورجیا کی مارجری ٹیلر گرین جیسے کچھ امیدواروں کے جیتنے کے اچھے امکانات نظر آ رہے ہیں۔ یہ کافی حد تک ممکن ہے کہ کیو اینون کا کوئی حامی، یا ایسا کوئی شخص جو اس سازشی نظریے کے بارے میں نرم گوشہ رکھتا ہو، اگلی امریکی کانگریس میں بیٹھے گا۔ یوٹیوب کی جانب سے کریک ڈاؤن یوٹیوب ان سوشل میڈیا ایپس میں سے ہے جس نے اس سازشی نظریے کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ کسی فرد یا کمپنی کو سازشی دعوؤں کا نشانہ بننے سے بچائیں گے، جیسے کیو اینون میں اس کے ذریعے پُرتشدد واقعات پر ابھارا جاتا ہے۔ اس سے قبل ٹوئٹر اور فیس بک بھی کیو اینون کی حمایت میں پوسٹس ہٹا چکے ہیں۔ ایف بی آر نے گذشتہ سال اسے ’سازش کی بنیاد پر ہونے والی گھریلو دہشت گردی‘ قرار دے کر کیو اینون کو ممکنہ خطرا تسلیم کیا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں فلوریڈا میں اپنی انتخابی مہم کے دوران ’کیو اینون‘ (QAnon) نامی سازشی نظریے کو رد کرنے سے انکار کیا۔ جب میامی میں ایک مباحثے کے دوران ان سے سوال ہوا کہ وہ ان بڑے دعوؤں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں تو انھوں نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ text: گذشتہ سال ستمبر میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو نادہندہ ہونے سے بچانے کے لیے ساڑھے چھ ارب ڈالر سے زائد کے قرجے کی منظوری دی تھی عالمی مالیاتی بینک کے مطابق سوائے بینک دولت پاکستان (سٹیٹ بینک آف پاکستان) سے قرض لینے کے ہدف کے، پاکستان نے تمام اہداف پورے کیے ہیں۔ اپنے اعلامیے میں آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے مرکزی بینک سے قرض لینے کے عمل کو بہتر اور اس کی حد معین کرنے کے لیے عملی اقدامات کا یقین دلایا گیا ہے۔ گذشتہ سال ستمبر میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو نادہندہ ہونے سے بچانے کے لیے ساڑھے چھ ارب ڈالر سے زائد کے قرجے کی منظوری دی تھی جسے تین سال کے دوران مختلف اقساط میں ملنا تھا۔ پاکستان کو اس سے پہلے گذشتہ سال نومبر اور دسمبر میں بالترتیب پہلی اور دوسری قسط مل چکی ہے۔ دبئی میں جاری دس روزہ مزاکرات کے بعد عالمی مالیاتی فنڈ کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت نے دسمبر دوہزار تیرہ کے آخر تک زیادہ تر اہداف حاصل کرلیے ہے سوائے سرکاری بینک سے قرضے لینے کے اور اس پر بھی کام ہورہا ہے۔ یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے مسلسل قرض لینے پر سٹیٹ بینک نے اپنی گزشتہ دونوں مالیاتی پالیسیز میں نکتہ چینی کی تھی جس کی وجہ سے حکومت ایک تناؤ بھی پیدا ہوگیا تھا جس کے بعد گورنر یاسین انور نے اپنے عہدے استعفٰی دے دیا تھا۔ اگرچہ انہوں نے استعفے کی نوعیت ذاتی وجوہات بتائیں تھی تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اس کی بڑی وجہ حکومت کے ساتھ داخلی قرضوں کی حد پر اختلافات ہی تھے۔ پاکستان میں حکومت اور سٹیٹ بینک کے درمیان عموماً داخلی قرضے کی حد کی وجہ سے رسا کشی جاری رہتی ہے جسے عرفِ عام میں نوٹ چھاپنا کہتے ہیں۔ گذشتہ سال ستمبر میں عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کے لیے تقریباًساڑھے چھ ارب ڈالر کے قرضے کی منظوری دی تھی جو اسے تین سال میں مختلف اقساط میں ملنا تھا، جس کے لیے پاکستان کو کچھ اہم اقدامت کرنے تھے جیسے نقصان میں جانے والے اداروں کی نجکاری اور بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ۔ آئی ایم ایف کے مطابق رواں مالی سال میں پاکستان کی شرح نمو تین اعشاریہ ایک فیصد رہنے کی توقع ہے جبکہ اس سے پہلے یہ اندازہ دواعشاریہ آٹھ فیصد لگایا گیا تھا۔ اس موقع پر وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان کے محاصل میں چھبیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے جس سے آئی ایم ایف بہت مطمئین ہے۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے اقتصادی معاملات بہتر کرنے کے عملی اقدامات کے بعد پاکستان کو عالمی مالیاتی فنڈ سے تقریباً پچپن کروڑ ڈالر قرض کی تیسری قسط ملنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ text: سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ اس نوعیت کے سگنل طاقتور مقناطیسی سطح والے نیوٹرون ستاروں سے آ سکتے ہیں ماہرین کے مطابق ان ریڈیو لہروں سے ملنے والے سگنلز ڈیڑھ ارب نوری سال کے فاصلے سے آنے والی ان لہروں کو جس رفتار سے بھیجا گیا تھا وہ بہت غیر معمولی تھا۔ ماضی میں اس نوعیت کا صرف ایک اور واقع رپورٹ کیا گیا ہے لیکن وہ مختلف ٹیلی سکوپ کے ذریعے آیا تھا۔ اس حوالے سے مزید پڑھیے لمبوترا مہمان سیارچہ یا خلائی مخلوق کا جہاز؟ ناسا کے خلائی جہاز ’نیو ہورائزن‘ کا زمین سے رابطہ خلائی مخلوق کی تلاش: دس دلچسپ حقائق یونی ورسٹی آف برٹش کولمبیا سے منسلک سائنسدان انگرڈ سٹئیرز نے بتایا کہ 'اس پیغام سے یہ لگتا ہے کہ شاید وہاں کوئی اور بھی موجود ہو۔ اور ایسا اگر بار بار ہو اور ہمارے پاس اس قسم کے پیغامات کو جانچنے کے ذرائع ہوں تو ہم شاید یہ گتھی سلجھانے میں کامیاب ہو جائیں کہ یہ کیا ہے اور یہ شروع کیسے ہوئی ہے۔' کینیڈا کے علاقے برٹش کولمبیا میں واقع 'چائم' نامی رصدگاہ میں سو میٹر لمبے چار انٹینا نصب ہیں جو آسمان کا معائنہ کرتے ہیں۔ کینیڈا کے علاقے برٹش کولمبیا میں واقع 'چائم' نامی رصدگاہ میں سو میٹر لمبے چار انٹینا نصب ہیں جو آسمان کا معائنہ کرتے ہیں گذشتہ سال کام کا آغاز کرنے والی اس ٹیلی سکوپ نے اپنے ابتدائی دنوں میں ہی یہ ریڈیو سگنل موصول کیے تھے اور اب ان کے بارے میں تحقیق موقر سائنسی جریدے 'نیچر' میں شائع ہوئی ہے۔ 'فاسٹ ریڈیو برسٹ' (ایف آر بی) کے نام سے موسوب یہ ریڈیو سگنل درحقیقت ایسی ریڈیائی لہریں ہوتی ہیں جو بہت کم وقت کے لیے پیدا ہوتی ہیں اور ان کے بارے میں گمان ہے کہ وہ کائنات کے دوسرے سرے سے آ رہی ہیں۔ سائنسدانوں نے اب تک اس نوعیت کے 60 ایف آر بی کا سراغ لگایا ہے جو ایک بار سگنل دیتے ہیں جبکہ دو سگنل ایسے تھے جو بار بار آئے تھے۔ ان ایف آر بی کی حقیقت کے بارے میں مختلف اندازے ہیں کہ وہ کیسے پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک خیال یہ ہے کہ ایک ایسا نیوٹرون ستارہ جس کی مقناطیسی سطح بہت طاقتور ہوتی ہے اور یہ بہت تیزی سے گھوم رہا ہوتا ہے۔ لیکن دوسری جانب قلیل تعداد میں کچھ ایسے بھی سائنسدان ہیں جن کا خیال ہے یہ سگنل کسی خلائی مخلوق کے خلائی جہاز سے آ رہا ہے۔ سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ خلا میں انتہائی فاصلے پر واقع کہکشاں سے بھیجے جانے والے سگنل کینیڈا کی ایک ٹیلی سکوپ کو موصول ہوئے ہیں لیکن ان ریڈیائی لہروں کے بارے میں تفصیل اور ان کے اصل مقام کے بارے میں ابھی کوئی وضاحت نہیں ہے۔ text: اس کے علاوہ ایک نئی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے عراق شام میں 2013 کے بعد سے خفیہ طریقے سے کم از کم 12 شامی باغی تنظیموں کو مسلح کیا ہے۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے لیے صحافی اور تجزیہ کار میثم بہروش نے لکھا ہے کہ اطلاعات کے مطابق جب بشار الاسد کی حکومت نے گولان کی پہاڑیوں کے مشرقی حصے پر کنٹرول حاصل کر لیا تو اسرائیل نے بھی شام میں اسلحے اور پیسے کی ترسیل بند کر دی۔ اسی بارے میں بی بی سی سے مزید ’ایران نے ہم پر حملہ کیا تو یہ شامی صدر کا اختتام ہو گا‘ ایران شام اور لبنان میں میزائل فیکٹریاں بنا رہا ہے: اسرائیل ’اسرائیل کا دمشق میں حزب اللہ کے اسلحہ ڈپو پر حملہ‘ اسرائیل کی اس حکمتِ عملی کا نام 'اچھا ہمسایہ آپریشن' ہے جس کا مقصد ایران مخالف شامی تنظیموں کو تقویت دینا ہے تاکہ ایران نواز دھڑوں کو اسرائیل کی سرحدوں کے قریب اڈے بنانے کا موقع نہ مل سکے۔ دوسری طرف اسرائیل شام کے اندر ایران اہداف پر فضائی حملوں میں تیزی لایا ہے۔ یہ اسرائیلی پالیسی میں نمایاں تبدیلی ہے۔ اس سے قبل اسرائیل شام میں ایرانی موجودگی کو کسی حد تک گوارا کرتا رہا تھا، لیکن اب اس نے 'صفر برداشت' کی حکمتِ عملی اختیار کی ہے۔ اس کے خطے پر دور رس اور دیر پا اثرات مرتب ہوں گے۔ اسرائیل کو ایک عرصے سے تشویش رہی ہے کہ اس کی سرحد کے قریب ایران سرگرم ہے اور وہ اسرائیل کے ازلی دشمن حزب اللہ کو جدید ترین ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ ایران شام میں میزائل فیکٹریاں تیار کر رہا ہے اس تشویش میں اس وقت اضافہ ہو گیا جب دسمبر 2016 میں بشار الاسد نے روس اور ایران کی مدد سے حلب شہر پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ اس سے دولتِ اسلامیہ کی جنگی صلاحیت کو سخت دھچکہ پہنچا اور ایران کو اپنی توجہ شام کے دوسرے علاقوں پر مرکوز کرنے اور اسرائیلی سرحد کے قریب اپنے فوجی موجودگی بڑھانے کا موقع مل گیا۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے فضائی کارروائیاں شروع کر دیں۔ اپریل میں شامی میڈیا نے خبر دی تھی کہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے حمص کے ہوائی اڈے پر حملہ کیا ہے جہاں مبینہ طور پر ایران کے پاسدارانِ انقلاب ایک ڈرون یونٹ چلا رہے تھے۔ اس حملے سے پاسدارانِ انقلاب کے سات فوجی ہلاک ہو گئے۔ اسرائیل نے اس حملے کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ مئی میں بن یامین نتن یاہو نے کہا تھا کہ 'ہم سمجھتے ہیں کہ شام میں کسی بھی جگہ ایران فوج کی موجودگی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔' گذشتہ برس اسرائیل نے دمشق کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا تھا جون میں ابو کمال کے علاقے میں ایک اور اسرائیلی حملے میں کئی ایران نواز جنگجو مارے گئے۔ اس حملے کا الزام پہلے امریکہ پر لگا تھا تاہم ایک امریکی عہدے دار نے سی این این کو بتایا تھا کہ اس کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ تھا۔ صحافی اور تجزیہ کار میثم بہروش کے مطابق اسرائیل کے اس جارحانہ ایران مخالف پالیسی کے تین بنیادی نکات ہیں: اول اسرائیل کو نہ تو ٹرمپ انتظامیہ پر اعتماد ہے کہ وہ شام میں ایرانی موجودگی کے بارے میں کچھ کر سکے گی اور نہ ہی وہ روس سے امید رکھ سکتا ہے کہ وہ شام میں ایران کو روکنے میں کوئی کردار ادا کرے گا۔ ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ شام سے امریکی فوجوں کو جلد از جلد نکالنا چاہتے ہیں۔ دوم شام میں ایرانی موجودگی سنی عرب ملکوں کے لیے بھی سخت تشویش کا باعث ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شام کے مسئلے پر اسرائیل اور سعودی عرب اور عرب امارات کے خیالات یکساں ہیں۔ یہ نئے تعلقات اسرائیل کے لیے بہت اہم ہیں اور انھیں نتن یاہو خوش آئند قرار دے چکے ہیں۔ سوم اسرائیلی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ ایران کے عزائم توسیع پسندانہ ہیں اور وہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی بالادستی چاہتا ہے۔ ایران کی جانب سے اسرائیل کی ’مکمل تباہی‘ کے اعلانات اور ایرانی حمایت یافتہ کمانڈروں کے اسرائیل لبنان سرحد پر پریڈ سے ان خدشوں کو مزید ہوا ملی ہے۔ اس کے جواب میں ایک رپورٹ کے مطابق ایران نے حالیہ مہینوں میں عراق میں شیعہ دھڑوں کو بیلسٹک میزائلوں سے لیس کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کے ایک عہدے دار نے روئٹرز کو بتایا تھا کہ اگر ایران پر حملہ ہوا تو اس کا 'بیک اپ پلان' ہے، البتہ ایران نے سرکاری طور پر اس کی تردید کی تھی۔ دوسری طرف امریکی پابندیوں کے بعد ایرانی معیشت کے مزید سکڑنے کا امکان ہے۔ اس ماحول میں اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزی سے ایرانی حکمران ملکی معیشت کی بدحالی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عوامی بےچینی سے توجہ ہٹانے کے لیے کوئی بھی انتہاپسندانہ قدم اٹھا سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر شام کا مسئلہ حل ہو بھی جائے تب بھی مشرقِ وسطیٰ پر چھائے کشیدگی کے بادل آسانی سے چھٹنے والے نہیں۔ اسرائیل نے اپنی 'نو کمنٹ' کی پالیسی توڑتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اس نے گذشتہ دو برسوں میں شام میں ایرانی اہداف پر دو سو سے زائد حملے کیے ہیں۔ text: ٹریزا مے کی جانب سے جیریمی کوربن کو مذاکرات کی پیشکش پر ٹوری پارٹی میں بریگزٹ کے حامیوں نے برہمی کا اظہار کیا لیبر پارٹی کے ایویٹ کوپر نے بدھ کو یہ تحریک پیش کی جسے دارالعوام نے اسی روز منظور کر لیا۔ اس تجویز کو قانون بننے کے لیے دارالامرا سے منظوری کی ضرورت ہو گی اور پھر یہ یورپی یونین پر منحصر ہو گا کہ آیا وہ توسیع دے یا نہیں۔ ایک حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ 'مایوس کن` تھا کہ اراکین پارلیمان نے اس بل کی حمایت کی۔ یہ بل ٹریزامے اور اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن کی بریگزٹ پر ہونے والی بات چیت کے بعد پیش کیا گیا تھا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو 'مثبت' کہا گیا تھا اور یہ امید ہے کہ مذاکرات جمعرات کو بھی جاری رہیں گے۔ دریں اثنا چانسلر فلپ ہیمنڈ نے کہا ہے کہ وہ امید رکھتے ہیں کہ برسلز ایک طویل توسیع پر زور دے گا ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حتمی معاہدے پر عوامی رائے دہی 'مکمل طور پر قابل اعتماد راستہ ہو گا۔' یہ بھی پڑھیے بنا معاہدے کے بریگزٹ سے اب بھی بچا جا سکتا ہے‘ بریگزٹ پر ٹریزامے کا معاہدہ تیسری بار مسترد بریگزٹ سے غیرملکیوں کے لیے کیا بدلے گا؟ بریگزٹ میں تاخیر کا بل کسی ڈیل کے بغیر یورپی یونین سے علیحدگی سے بچنے کے لیے ایویٹ کوپر کا پیش کیا جانے والا بل 313 ووٹوں سے پاس ہوا جبکہ اس کی مخالفت میں 312 ووٹ پڑے۔ مجوزہ قانون کی روشنی میں اب وزیر اعظم ٹریزا مے کو ایک قرارداد پیش کرنا ہو گی جس کے ذریعے وہ آرٹیکل 50 میں توسیع اور اپریل 12 سے آگے کی کسی بھی تاریخ کی منظوری کے لیے اراکینِ پارلیمان کی منظوری لیں گی۔ بریگزٹ کے حامی کنزرویٹو جماعت کے ارکان نے اس بل کے حوالے سے غیر معمولی طریقہ کار پر مایوسی کا اظہار کیا ہے جس میں صرف چند گھنٹوں میں اس بل نے دارالعوام میں تمام مرحلے طے کر لیے۔ اس بل کے اختیارات کو محدود کرنے کی حکومتی کوششوں کو 180 ووٹوں سے شکست ہوئی تھی۔ یہ حالیہ دور میں حکومت کو ہونے والی اس نوعیت کی دوسری بڑی شکست تھی۔ مجوزہ قانون کو اب جمعرات کو دارالامرا میں پیش کیا جائے گا۔ جیریمی کوربن نے تسلیم کیا کہ ٹریزا مے نے ان کی طرف قدم بڑھایا تھا اور اب ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ مذاکرات کے سلسلے میں ٹریزا سے بات چیت کریں۔ مثبت مذاکرات ادھر بریگزٹ معاملے پر ڈیڈلاک ختم کرنے کے لیے برطانوی وزیراعظم ٹریزامے اور اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو مثبت کہا جا رہا ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی اس ملاقات میں ارکان پارلیمان کو ووٹ دینے کے لیے رضامند کرنے پر اتفاق رائے ہوا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم کے دفتر کے ایک ترجمان کے مطابق فریقین نے اپنے اپنے موقف میں لچک دکھائی ہے اور ’بریگزٹ پر غیر یقینی کی صورتحال کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔‘ البتہ ملاقات کے بعد جیریمی کوربن نے بتایا کہ وزیراعظم کے مؤقف میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ملاقات 'مفید لیکن بےنتیجہ' تھی تاہم مذاکرات کو جاری رکھا جائے گا۔ جیریمی کوربن کے مطابق انھوں نے وزیر اعظم ٹریزا مے کے سامنے مستقبل کے کسٹم انتظامات، تجارتی معائدوں اوربریگزٹ پر ایک اور ریفرینڈم کرانے کے آپشن سمیت کئی معاملات اٹھائے ہیں۔ بی بی سی کی پولیٹکل ایڈیٹر لورا کوئنزبرگ کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کا مطلب شاید یہ ہے کہ ٹریزا مے یورپی یونین کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات رکھنے پر رضامند ہو جائیں گی یعنی ان کے ماضی کے دعووں کے برعکس، نرم شرائط پر مبنی بریگزٹ۔ برطانیہ کے پاس یورپی یونین کو بریگزٹ کا لائحہ عمل تجویز کرنے کے لیے 12 اپریل تک کا وقت ہے۔ منصوبہ قبول نہ ہونے کی صورت میں برطانیہ کسی معاہدے کے بغیر یورپی یونین سے نکل جائے گا۔ نومبر 2018 میں ٹریزا مے نے یورپی یونین کے ساتھ بریگزٹ معاہدے پر اتفاق کر لیا تھا مگر اس معاہدے کو دو مرتبہ برطانوی پارلیمنٹ میں مسترد کیا جا چکا ہے جبکہ جمعے کو صرف علیحدگی کے معاہدے کو 58 ووٹوں سے مسترد کر دیا گیا۔ پارلیمانی ارکان نے بریگزٹ پر آمادگی ظاہر کرنے کے لیے دو مرتبہ ووٹ بھی کروائے مگر کسی بھی معاہدے کو اکثریت نہ ملی۔ برطانیہ نے 29 مارچ کو یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرنی تھی لیکن ٹریزا مے نے یہ جانتے ہوئے مختصر توسیع پر اتفاق کیا کہ پارلیمان ڈیڈلائن تک معاہدے پر رضامند نہیں ہو گی۔ یہ بھی پڑھیے بریگزٹ: ٹریزا مے کا معاہدہ 149 ووٹوں سے مسترد بریگزٹ یا نیا وزیراعظم؟ ایک بیان میں وزیراعظم ٹریزا کا کہنا تھا کہ وہ چاہتی تھیں کہ مزید توسیع 'کم سے کم وقت کی ہو' اور 22 مئی سے پہلے تک ہو تا کہ برطانیہ کو یورپی انتخابات میں حصہ نہ لینا پڑے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ جیریمی کوربن کے ساتھ نئے منصوبے پر اتفاق کرنا چاہتی ہیں اور 10 اپریل سے پہلے پارلیمنٹ میں اس منصوبے پر ووٹنگ کروانا چاہتی ہیں۔ 10 اپریل کو یورپی یونین بریگزٹ پر ایمرجنسی میٹنگ کرے گا۔ بی بی سی یورپ کی ایڈیٹر کیٹیا ایڈلر نے تنبیہ کی ہے کہ ان کے مطالبات 'بالکل تبدیل نہیں ہوئے' اور وہ کسی بھی قسم کی مزید تاخیر سے نمٹنے کے لیے 'بہت سخت شرائط' تیار کر رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا 'حالانکہ ٹریزا مے کہتی ہیں کہ وہ ایسا نہیں کرنا چاہتیں، یورپی یونین کے رہنما ان سے کہیں گے کہ وہ برطانیہ کو مئی کے آخر میں ہونے والے یورپی پارلیمانی انتخابات کے لیے تیار کریں کیونکہ انھیں یقین نہیں ہے کہ وہ (ٹریزا مے) اس سے پہلے بریگزٹ پر کوئی لائحہ عمل طے کر پائیں گی۔' بریگزٹ سے متعلق اہم واقعات کی ٹائم لائن برطانوی اراکینِ پارلیمان نے ایک ووٹ کی برتری سے وزیر اعظم ٹریزا مے کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ بریگزٹ کی تاریخ میں توسیع کے لیے یورپی یونین سے رجوع کریں تاکہ ڈیل کے بغیر یورپی یونین سے علیحدگی سے بچا جا سکے۔ text: وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ کراچی میں گرمی سےتقریباً 1250 اموات ہوئی ہیں وزیرِ اعظم آج مختصر دورے پر کراچی پہنچے جہاں انھوں نے وزیرِاعلیٰ ہاؤس میں اہم اجلاس کی صدارت کی۔ اس موقعے پر وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ کراچی میں گرمی سےتقریباً 1250 اموات ہوئی ہیں جبکہ گرمی سے متاثر 65 ہزار افراد کو ہسپتالوں میں داخل کروایا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے کراچی میں شدید گرمی کے باعث ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اس موقعے پر پوری قوم کی ہمدردیاں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں۔‘ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین واقعہ ہے اور اس واقعے کے ذمہ دار اداروں کا شفاف انداز میں احتساب کیا جانا چاہیے۔ اجلاس کے دوران چیف سیکریٹری صالح فاروقی نے شرکا کو کراچی کے لیے ’گرین لائن بس سروس‘ کے بارے میں بریفنگ دی جسے وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ کو بطور تحفہ قرار دیا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ گرین لائن بس سروس 17.8 کلومیٹر طویل روٹ پر چلائی جائے گی۔ اس پروجیکٹ پر 16 ارب روپے کی لاگت آئے گی جس میں سے آٹھ ارب وفاقی حکومت ادا کرے گی۔ اجلاس میں کراچی کو اضافی 26 کروڑ گیلن پانی کی فراہمی کے منصوبے پر بھی بات ہوئی جس کے اخراجات کو وفاقی اور سندھ حکومت مل کر پورے کریں گے۔ وزیرِ اعظم کے ساتھ اس دورے میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار، وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید، سافران کے وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، وفاقی وزیر مملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ اور سینیٹر مشاہد اللہ بھی موجود تھے۔ وزیرِ اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے کراچی میں شدید گرمی سے ہونے والی ہلاکتوں کی ذمہ داری تمام متعلقہ اداروں پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے مستقبل میں ان سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہییں۔ text: سوات میں ایک اور واقعے میں چہار باغ پولیس سٹیشن کو خود کش حملے اور ایک اور پولیس چوکی کو بم سے اڑایا گیا ہے جس میں مجموعی طور پر دو پولیس اہلکاروں سمیت چھ افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔طالبان نےان واقعات کی ذمہ داری قبول کرلی۔ سوات میڈیا سنٹر کے ترجمان میجر ناصر علی نے بی بی سی کو بتایا کہ سنیچر کی صبح سکیورٹی فورسز نے کانجو اور تحصیل کبل میں کرفیو نافذ کرکے طالبان کے خلاف بھرپور کاروائی شروع کی ہے۔ انہوں دعوی کیا کہ جھڑپ کے دوران اب تک تیس سے زائد طالبان ہلاک ہوئے ہیں۔ انہوں نے سکیورٹی فورسز کے دو اہلکاروں کی ہلاکت اور تین کے زخمی ہونے کی تصدیق کی۔ انہوں نے گزشتہ رات تحصیل مٹہ میں طالبان کے ایک ’غیر قانونی‘ ایف ایم اسٹیشن کو بھی تباہ کرنے کا دعویٰ کیا۔ اس سلسلے میں جب طالبان ترجمان مسلم خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کے مارے جانے کی حکومت دعوے کی تردید کرتے ہوئے بیس اہلکاروں کی ہلاکت کا جوابی دعویٰ کیا۔ انہوں نے کہا کہ جھڑپ میں ان کا محض ایک ساتھی زخمی ہوا ہے۔ دوسری طرف سوات ہی میں پولیس کا کہنا ہے کہ سنیچر کی صبح بارود سے بھری ایک جیپ میں سوار خودکش حملہ آور نے چہار باغ پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا جس میں ان کے بقول دو اہلکار ہلاک جبکہ نو زخمی ہوگئے ہیں۔ تاہم سیدو شریف ہسپتال کے ایک اہلکار عمر طارق نے بی بی سی کو بتایا کہ ہسپتال میں اس واقعے میں ہلاک ہونے والے دو اہلکاروں اور دو شہریوں سمیت چار افراد کی لاشیں اور گیارہ اہلکاروں اور بارہ عام شہریوں سمیت تئیس زخمی لائے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ چہار باغ کے دھماکے میں زخمی ہونے والوں کے بشمول سوات میں گزشتہ شب ہونے والے مختلف واقعات میں زخمی ہونے والے سینتیس افراد ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ سوات کے تحصیل بری کوٹ کے علاقے ابوحہ میں بھی پولیس کے مطابق سنیچر کی صبح پولیس کی ایک خالی چوکی کو دھماکہ خیز مواد سے اڑایا گیا ہے جس کے قریب گزرنے والے دو بچے ہلاک جبکہ تین زخمی ہوگئے ہیں۔ پولیس نے مزید کہا کہ تحصیل کبل کے ڈیرو کے علاقے میں گھر پر مارٹر گولہ گرنے کے ایک اور واقعہ میں ایک بچہ ہلاک اور چھ دیگر افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ طالبان کے ترجمان مسلم خان نے چہار باغ پولیس سٹیشن پر ہونے والے خود کش حملے اور ابوحہ پولیس چوکی کو بم سے اڑانے کے واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ انہوں نے کہا کہ جب تک صوبائی حکومت ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر مکمل عملدرآمد نہیں کرتی طالبان علاقے میں امن کے قیام کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ ان کے بقول معاہدے کے مطابق حکومت علاقے میں شرعی نظام نافذ کرے اور سوات سے سکیورٹی فورسز کو نکال دے۔ یاد رہے صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ امیرحیدر خان ہوتی نے جمعہ کو کہا تھا کہ حکومت سوات میں طالبان سے کیے گئے معاہدے کی اب بھی پابند ہے۔ صوبۂ سرحد کے ضلع سوات میں حکام نے ایک جھڑپ کے دوران تیس سے زائد طالبان کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ طالبان نے اس دعوے کو رد کرتے ہوئے بیس اہلکاروں کے ہلاکت کا جوابی دعویٰ کیا ہے۔ text: اگر صوبے میں گورنر راج ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو وہ بھی سیاسی ہوگا: آئی ایس پی آر اُنہوں نے کہا کہ آئین کے تحت فوج حکومتِ وقت کے ماتحت ہے اور فوج کو جو بھی احکامات ملیں گے اُس پر عمل درآمد ہوگا۔ جمعرات کو مقامی میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج نے گُزشتہ پانچ سالوں سے جمہوری نظام کی حمایت کی ہے اور اس وقت جبکہ موجودہ جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے جا رہی ہے تو فوج کیونکر اپنی پالیسی تبدیل کرے گی۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا تھا کہ فوج تمام شدت پسند تنظیموں کے خلاف برسرپیکار ہے۔ ایک سوال کے جواب میں میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں گورنر راج لگانے کا فیصلہ سیاسی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر صوبے میں گورنر راج ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو وہ بھی سیاسی ہوگا۔ اُنہوں نے کہا کہ ہزارہ ٹاؤن واقعہ کے بعد فرنٹئیر کور نے انیس نئی چیک پوسٹیں قائم کی ہیں۔ ٹارگٹ آپریشن ایف سی کی کمانڈ میں کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں ٹارگٹ آپریشن جاری ہے جس میں خفیہ ایجنیسوں کے علاوہ پولیس کی مدد بھی حاصل ہے فوج کے شعبہ تعلقات عامۂ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ایف سی کی کمانڈ میں کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں ٹارگٹ آپریشن جاری ہے جس میں خفیہ ایجنیسوں کے علاوہ پولیس کی مدد بھی حاصل ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ انٹر سروسز انٹیلیجنس اپنی حدود میں رہتے ہوئے صوبے میں کارروائیاں کر رہی ہے۔ ہزارہ ٹاؤن واقعہ کے بعد مظاہرین کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ یاسین ملک نے سانحہ ہزارہ ٹاؤن سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ آئی ایس آئی نے علاقے میں ایک سو تیس آپریشن کیے جس سے اُن کے بقول علاقے میں شدت پسندی کے واقعات کو روکنے میں مدد ملی ہے۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات متعلقہ بی بی سی لنکس یہ مواد ممکنہ طور پر اردو میں نہیں ہے. پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کا کہنا ہے کہ عام انتخابات میں تاخیر کسی طور پر بھی فوج کے مفاد میں نہیں ہے۔ text: ایف ایس بی کے ڈائریکٹر نے سرکاری ٹی وی پر بتایا کہ دو افراد کو سنیچر کو حراست میں لیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر ولادیمیر پوتن کو اس پیش رفت سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ ایک نامعلوم حملہ آور نے گذشتہ جمعے کو اپوزیشن رہنما بورس نیمتسوو کو ماسکو میں چار گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ان کی آخری رسومات منگل کو ادا کی گئیں تھیں۔ بورس نیمتسوو روسی صدر کے بڑے ناقدین میں سے تھے اور حال ہی میں ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ انھیں خدشہ ہے کہ یوکرین میں جنگ کی مخالفت کی وجہ سے ولادیمیر پوتن انھیں مروا سکتے ہیں۔ نیمتسوو کی عمر 55 سال تھی اور سابق صدر بورس یلسن کے تحت نائب وزیراعظم رہ چکے تھے۔ معاشی اصلاحات کے ماہر کے طور پر انھوں نے روس کے سب سے بڑے شہر نزنی نووگروڈ کے گورنر کے طور پر کام بھی کیا۔ ان کے موجودہ صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ واضح اختلافات سامنے آئے اور وہ ان کے ایک بے باک مخالف کے طور پر ابھرے۔ عالمی برادی اور حقوق انسانی کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے ان کی ہلاکت کی فوری، غیر جانبدار اور موثر تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ روسی سکیورٹی سروس ایف ایس بی نے اپوزیشن رہنما بورس نیمتسوو کے قتل کے مقدمے میں افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ text: اس سلسلے میں صدر کاسترو کا بیان ان کے سیکرٹری نے قومی ٹیلی وژن پر پڑھ کر سنایا۔ بیان کے مطابق صدر کاسترو کی طبیعت ارجنٹائن کے دورے اور کیوبا کے انقلاب کی تقریبات کے بعد خراب ہوئی۔ وہ انتہائی تھکن کا شکار ہوئے اور ان کی آنت کے اندر زخموں سے خون بہنا شروع ہو گیا۔ فیدل کاسترو نے 1959 سے کیوبا میں اقتدار سنبھالا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے بعد اپنے بھائی اور ملک کے وزیرِ دفاع راؤل کاسترو کو صدر نامزد کیا ہوا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر کاسترو نے اپنے کچھ اختیارت وقتی طور پر اپنے بھائی کو منتقل کیئے ہیں۔ فیدل کاسترو کی عمر اس ماہ کی تیرہ تاریخ کو 80 برس ہو جائے گی اور اس موقع پر ملک بھر میں جشن منایا جانا تھا لیکن یہ تقریبات اب دسمبر تک ملتوی کر دی گئی ہیں۔ کیوبا کے صدر فیدل کاسترو کا ایک اور آپریشن ہوا ہے اور انہوں نے اپنے بھائی راؤل کو اقتدار منتقل کر دیا ہے۔ text: ان چھ مصنفوں میں سارہ ہال نامی صرف ایک خاتون شامل ہیں جنہیں ان کی کتاب ’دی الیکٹرک مائیکل اینجلو‘ کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے مصنف کولم ٹوئیبین کو ان کے کتاب ’دی ماسٹر‘ کے لیے فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ججوں نے بائیس مصنفوں میں سے چھ کے نام تجویز کیے ہیں جن میں بُکرز پرائز کے لیے ایک مصنف کا انتخاب کیا جائے گا۔ بکرز پرائز کا اعلان انیس اکتوبر کو کیا جائے گا اور انعام حاصل کرنے والے کو پچاس ہزار پاؤنڈ کا چیک دیا جائے گا۔ ڈیوڈ مچل کا نام سن دو ہزار ایک میں ان کے ناول ’نمبر نائن ڈریم‘ کے لیے تجویز کیا گیا تھا لیکن ’ٹرو ہسٹری آف دی کیلی گینگ‘ کے مصنف پیٹر کیری انہیں مات دے گئے تھے۔ ان کے علاوہ کولم ٹوئیبین کا نام انیa سو ننانوے میں بھی ان کی کتاب ’دی بلیک واٹر لائٹ شِپ‘ کے لیے تجویز کیا جا چکا ہے۔ بُکر پرائز جیتنے والے کے لئے شرطیں لگانے والی ایجنسی ولیم ہِل نے ڈیوڈ مچل کی کتاب ’ کلاؤڈ اٹلس‘ کو اب تک سب سے زیادہ پسند کی جانے والی کتاب کہہ کر اس پر شرط لگائی ہے۔ بُکر پرائم کے لیے تجویز کیے گئے چھ ناموں میں جرارڈ وڈورڈ کو کتاب ’آئی وِل گو ٹو بیڈ ایٹ نون‘، ایلن ہولنگ ہرسٹ کو کتاب ’دی لائن آف بیوٹی‘ اور اشمات ڈیگور کو کتاب ’بٹر فروٹ‘ کے لیے شامل کیا گیا ہے۔ دنیا میں لکھاریوں کو دیئے جانے والے مشہور بکرز پرائز کے لیے چھ مصنفین کے نام تجویز کیے گئے ہیں۔ ان میں کلاؤڈ ایٹلس نامی کتاب کے مصنف ڈیوڈ مچل بکیز کے پسندیدہ ہیں۔ text: پولیس حکام کا کہنا ہے کہ یہ سکیورٹی انتظامات پاکستان میں چینی باشندوں اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر خود کش حملوں کے تناظر میں کیے گئے ہیں۔حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسی اطلاعات ہیں کہ اس قسم کے واقعات پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی پیش آ سکتے ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پولیس کے قائم مقام سربراہ فہیم عباسی بی بی سی کو بتایا کہ تخریب کار اور شدت پسند عناصر کشمیر کے اس علاقے میں داخل ہو کر حملے کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’حملے کا خطرہ حقیقی ہے اور یہ کہ ہمیں اس ضمن میں مختلف ذرائع سے اطلاعات بھی آ رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے حفاظتی اقدامات کے طور پر سکیورٹی مزید بڑھا دی ہے‘۔ مظفرآباد میں نیو سیکرٹریٹ کو جانے والے دونوں راستوں پر ریت کی بوریوں پر مشتمل بنکرز قائم کیے گئے ہیں جہاں پر مسلح پولیس اہلکار پہرہ دے رہے ہیں اور پرائیویٹ گاڑیوں کے اندر جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس علاقے میں قانون ساز اسمبلی، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی عمارتوں کے علاوہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین اور سیکرٹریوں کے دفاتر ہیں اور اسی طرح سے مظفرآباد کے داخلی راستوں پر بھی نفری میں اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ صورت حال صرف دارالحکومت میں ہی نہیں بلکہ حکام کا کہنا ہے کہ کشمیر کے اس علاقے کے دیگر چھ اضلاع میں بھی عمومی طور پر سکیورٹی کے انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں اور اہم تنصیبات اور دفاتر کے ساتھ ساتھ غیر ملکیوں خاص طور پر چینی باشندوں کی بھی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پولیس کے قائم مقام سربراہ فہیم عباسی نے بی بی سی کو بتایا کہ حال ہی میں پاکستان میں غیر ملکیوں خاص طور پر چینی باشندوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کے تناظر میں کشمیر کے اس علاقے میں سکیورٹی مزید بڑھا دی گئی ہے۔ زلزلے کے بعد کشمیر کے اس علاقے میں کافی تعداد میں غیر ملکی کام کر رہے ہیں اور چینی باشندے جنوبی ضلع میر پور میں منگلا جھیل کو اونچا کرنے کے منصوبے پر پہلے سے ہی کام میں مصروف ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں غیر معمولی سکیورٹی انتظامات کیےگئے ہیں۔ text: برطانوی انڈیکس میں دو اعشاریہ ایک فیصد کی مندی کے ساتھ 5983.3 پوائنٹس کی کمی دیکھنے میں آئی جبکہ ایشیا اور وال سٹریٹ کے حصص بازاروں میں مزید مندی کا رحجان برقرار ہے۔ عالمی سطح پر بینکوں کے درمیان قرضوں کی عدم دستیابی کے خوف سے پیدا ہونیوالی صورتحال کے بعد امریکی ڈاؤ جونز انڈکس بدھ کو تیرہ ہزار کی حد سے کم پر بند ہوا۔ جاپان کے نِکی انڈکس میں دو فیصد کی کمی جبکہ ہانگ کانگ میں تین اعشاریہ سات فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ پیرس کی Cac شیئر انڈکس 2.2 فیصد اور جرمنی کی Dax شیئر انڈکس 1.8 فیصد تک گر گئی۔ لندن کا FTSE شیئر انڈکس اس سال مارچ میں حصص کے کاروبار کے دوران چھ ہزار کی حد سے نیچے نہیں گرا۔ آخری مرتبہ لندن شیئر انڈیکس اکتوبر 2006 میں چھ ہزار سے کم کی حد پر بند ہوا تھا۔ بدھ کو امریکہ میں ڈاؤ جونز انڈیکس ایک اعشاریہ تین فیصد کمی کے ساتھ 12,861.5 پوائنٹس کے ساتھ بند ہوا، چوبیس اپریل کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ انڈیکس بارہ ہزار کی حد سے کم پر بند ہوا ہے۔ حصص بازار میں عدم استحکام امریکی سب پرائم مورگیج سیکٹر کی بدولت پیدا ہوا ہے جو خراب کریڈٹ ہسٹری رکھنے والے افراد کو ہائیر رسک قرضوں کی پیشکش کرتا ہے۔ جیسے ہی امریکہ میں شرح سود میں اضافہ ہوا اور ہاؤسنگ کے غبارے سے ہوا نکلی ویسے ہی غیر مستحکم معاشی حالت والے صارفین اپنے قرض کی ادائیگی میں ناکام ہو گئے۔ اس صورت حال نے قرض فراہم کرنے والے کئی اداروں کے لیے شدید مشکلات کے ساتھ ساتھ شدید مالی بحران کے خدشات بھی پیدا ہو گئے۔ بعض تازہ اعداد وشمار کے مطابق خدشہ ہے کہ تین سو بلین ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی نہ ہو سکے گی مگر ان تمام مسائل سے بڑھ کر یہ کہ قرض فراہم کرنے والے ادارے اس مسئلے کی گہرائی سے واقف نہیں ہیں۔ جمعرات کو جاپان میں نِکی انڈیکس دو فیصد کمی کے ساتھ 16,148.49 پر بند ہوا جبکہ ایشیا کے دیگر حصوں، سنگاپور میں تین اعشاریہ سات فیصد اور سڈنی میں آسٹریلیا کے ایس اینڈ پی/ اے ایس ایکس 200 شیئر انڈکس ایک اعشاریہ سات فیصد کے ساتھ بند ہوا۔ ممبئی میں حصص بازار کے حجم میں تین اعشاریہ سات فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ عالمی سطح پر قرضوں کی عدم دستیابی کے خوف سے پیدا ہونیوالی صورتحال کو دنیا کے بڑے حصص (شیئرز) بازاروں میں شدید مندی کے رحجان کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکہ کے حصص بازار میں مسائل کا آغاز اس وقت ہوا جب میرل لنچ نے اپنے مؤکلوں کو کہا کہ وہ ملک کی سب سے بڑی قرض فراہم کرنے والی کمپنی ’کنٹری وائڈ فنانشل‘ کے سارے شیئرز فروخت کردیں۔ اس نے خبردار کیا کہ اگر مارکیٹ میں قرضوں کی دستیابی کی صورت حال خراب ہوتی ہے تو کمپنی ’کنٹری وائڈ‘ دیوالیہ ہو سکتی ہے۔ مارکیٹ میں اس قسم کی افواہیں بھی گردش میں تھیں کہ کمپنی ضرورت کے لیے درکار رقم کی فراہمی میں ناکام ہو گئی ہے۔ اس سے قبل سرمایہ کاروں پر امریکی حکومت کے جاری کردہ اعداد وشمار کے ذریعے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ جولائی میں صارفین کے افراط زر میں صفر اعشاریہ ایک فیصد کا اضافہ ہوا جو کہ توقعات سے ذرا سا ہی کم تھا۔ تاہم اب اس خبر پر شیئر مارکیٹ نے قدرے سکون کا سانس لیا ہے کہ فیڈرل ریزروز نے بینکوں کو مزید سات بلین ڈالر فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ یہ رقم جمعہ کو فراہم کیے گئے 38 بلین ڈالر کے مقابلے میں کم ہے تاہم یہ ایک طرح کی یقین دہانی ہے کہ اگر رقم کی ضرورت پڑی تو مرکزی بینک کی جانب سے فراہم کر دی جائے گی۔ امریکہ میں بڑے پیمانے پر غلط قرضوں کے اجراء کی وجہ سے حصص بازاوں میں مندی کا سلسلہ جاری ہے اور جمعرات کو لندن کا FTSE شیئر انڈکس چھ ہزار کی حد سے نیچے گر گیا۔ text: آئی پی سی ( انڈین پینل کوڈ ) کی اس دفعہ کے مطابق کسی کے مذہب، فرقے ، نسل و قوم کے خلاف اشتعال انگیز بیان دینا یا تحریری طور پر کہنا جرم ہے اس کے مرتکب شخص کو ناقابل ضمانت جرم کے تحت گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ ٹھاکرے کے خلاف پولیس میں دو ایف آئی آر درج ہیں لیکن پولیس نے ابھی تک انہیں گرفتار نہیں کیا ہے۔گزشتہ پانچ دنوں سے شہر میں ہو رہے تشدد پر ریاستی وزیراعلٰی ولاس راؤ دیشمکھ پر ٹھاکرے کی گرفتاری کے لیے دباؤ بڑھ گیا ہے۔ ریاستی وزیر داخلہ نے صحافیوں کے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت ٹھاکرے کی گرفتاری کے بعد ردعمل سے نہیں گھبراتی ہے۔ پولیس کے پاس شرپسندوں کو کچلنے کے لیے کافی عملہ ہے۔ انہوں نے صحافیوں کو اس سلسلہ میں دیے گئے بیان میں کہا تھا کہ ٹھاکرے کی گرفتاری کے لیے پولیس پختہ ثبوت اکٹھا کر رہی ہے اور اس کے علاوہ ایڈوکیٹ جنرل سے اس سلسلہ میں قانونی مشورہ لیا جا رہا ہے۔ حکومت نے ٹھاکرے کے اخبارات میں دیے گئے بیانات کے تراشے اور ٹی وی چینلز کے ویڈیو کی کلپنگ ایڈوکیٹ جنرل کو دی تھی۔ جوائنٹ پولیس کمشنر (نظم و نسق) کے ایل پرساد نے بی بی سی کو بتایا کہ ابھی ایڈوکیٹ جنرل کی رائے سامنے آئی ہے۔ اس سلسلہ میں اعلی پولیس افسران اور ریاستی اعلی عہدیداران کی میٹنگ کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ پرساد کا کہنا تھا’ اگر راج ٹھاکرے گرفتار ہوتے ہیں تو شہر میں کسی بھی طرح کے تشدد سے نمٹنے کے لیے پولیس پوری طرح تیار ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا’پولیس شرپسندوں کو بری طرح کچلنا جانتی ہے۔ویسے بھی شہر میں پولیس عملہ کے ساتھ سریع الحرکت فورس اور سٹیٹ ریزرو پولیس کا دستہ بھی متعین ہے‘۔ ٹھاکرے کے تحفظ پر مامور تمام پولیس عملہ کو بدل دیا گیا تھا۔ان کی حفاظت کے لیے ان کے گھر پر بیس پولیس اہلکار تعینات ہیں اور اچانک ان کی جگہ نئے پولیس اہلکاروں نے لے لی ہے۔ زیڈ سیکورٹی کے ساتھ ٹھاکرے اس وقت پونے میں ہیں جہاں وہ کسی پروگرام میں شرکت کریں گے۔ وہیں جمعرات کو ممبئی میں تشدد کے پانچویں دن شرپسندوں نے ٹیکسی یونین کے دفتر پر حملہ کر دیا۔اس حملہ کے بعد ٹیکسی مینس یونین کے جنرل سکریٹری کے ایل کدروس نے فوری طور پر ہڑتال کا اعلان کر دیا تھا۔لیکن ریاستی وزیر داخلہ آر آر پاٹل کے ساتھ ایک میٹنگ کے بعد یہ ہڑتال واپس لے لی گئی۔کدروس کے مطابق پاٹل نے انہیں ٹیکسی ڈرائیوروں کو تحفظ دینے اور ان کے نقصان کی بھرپائی کا بھی وعدہ کیا ہے۔ دریں اثناء ماٹونگا پولیس نے ایک بار پھر ایم این ایس کے تین لیڈران پروین دریکر، نتن سردیسائی اور امیت شیروڈکر کو حراست میں لے لیا ہے۔اس سے قبل پولیس نے شیشر شندے اور رکن اسمبلی بالاناندگاؤنکر کو گرفتار کیا تھا۔ گزشتہ چند دنوں سے ممبئی کے حالات کشیدہ ہیں۔ٹھاکرے کی بیان بازیوں کے بعد ممبئی نو نرمان سینا یعنی ایم این ایس کے کارکنان نے شمالی ہند کے باشندوں پر حملے شروع کر دیے تھے۔پولیس نے ایم این ایس اور سماج وادی ورکروں سمیت دو سو چھبیس افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ان میں ایم این ایس کے پانچ لیڈران بھی شامل ہیں۔ ریاستی ایڈوکیٹ جنرل نے مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے کی گرفتاری سے متعلق حکومت کو ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ٹھاکرے کو گرفتار کیے جانے سے متعلق کافی ثبوت ہیں اور انہیں تعزیرات ہند کی دفعہ 153(A) کے تحت گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ text: ساٹھ سالہ ادریس ربانی کے خلاف ملتان کے تھانہ ممتازآباد میں سال دو ہزارایک میں ناموسِ رسالت کی فوجداری دفعات دو سو پچانوے بی اور سی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ تیس مئی دو ہزار دو کو ایڈیشنل سیشن جج علی اکبر نے مقدمے کا فیصلہ سُناتے ہوۓ ملزم کو موت کی سزا سنائی تھی۔ ادریس ربانی تب سے سنٹرل جیل میں قید تھے جبکہ سزا کے خلاف اُن کی اپیل لاہور ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت تھی ۔ ادریس ربانی ذیا بیطس کے مریض تھےجبکہ جیل میں اُنہیں مُبینہ طور پر ہیپاٹائٹس سی کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا۔ تین جنوری کے روز ادریس ربانی کو ملتان کے نشتر ہسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں گیارہ جنوری تک زیرِ علاج رہنے کے بعد اُنہیں واپس جیل میں بند کردیا گیا تھا جہاں حُکام کے مطابق بدھ کی شام اُنہیں دِل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ ملتان کی سنٹرل جیل میں توہینِ رسالت میں سزا یافتہ ایک قیدی مُبینہ طور پر دِل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہو گیا ہے۔ text: ہلاک ہونے والوں میں اکثر بچے ہیں جو بموں کے ٹکڑے یا دھماکہ خیز مواد کی زد میں آنے کے باعث مارے گئے۔ اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 34 تک پہنچ گئی ہے۔ یہ دھماکے اس وقت ہوئے جب بغداد میں پانی کے ایک پلانٹ کا افتتاح ہو رہا تھا اور لوگ جن میں زیادہ تر بچے تھے اس تقریب کو دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ پہلے کار بم کا دھماکہ ہوا اور جیسے ہی امریکی فوجی زخمیوں کی مدد کے لیے وہاں پہنچے دو مزید دھماکے ہوگئے۔ اطلاعات کے مطابق دوسرا بم دھماکہ اس وقت ہوا جب امریکی فوجی پہلے دھماکے کی زد میں آنے والی فوجی گاڑیوں کی مدد کے لیے پہنچے۔ جمعرات کو ہونے والے دھماکے عراق میں تشدد کی لہر کا تازہ ترین حصہ ہیں۔ ان دھماکوں سے محض چند گھنٹے پہلے بغداد کے مغرب میں ایک خود کش حملے میں دو عراقی پولیس اہلکار اور ایک امریکی فوجی ہلاک ہوگئے تھے جبکہ ایک امریکی فوجی اس وقت مارا گیا جب امریکی فوجی اڈے پر راکٹ داغا گیا۔ تلفار میں ایک کار بم حملے میں کم از کم چار افراد مارے گئے جبکہ موصل میں دو افراد کی ہلاکت کی خبر ہے۔ اس سے پہلے گزشتہ رات فلوجہ شہر پر امریکی بمباری سے بھی کم از کم چار افراد مارے گئے تھے۔ عراق میں ہسپتال کے ذرائع کا کہنا ہے کہ فلوجہ پر امریکی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں دو خواتین اور ایک بچے سمیت کم از کم چار افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ امریکی فوج کے بقول حملے میں ابو مصعب الزرقاوی کے حامی شدت پسندوں کے زیر استعمال ایک گھر کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ حملے کے باعث یہ گھر تباہ ہو گیا ہے۔ بغداد میں یکے بعد دیگرے ہونے والی تین مختلف بم دھماکوں میں مزاحمت کاروں نے امریکی فوجی قافلے کو نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں درجنوں بچوں سمیت 41 افراد ہلاک اور 130 سے زیادہ زخمی ہوگئے ہیں۔ text: 1998 میں سلمان خان نے اپنی فلم 'ہم ساتھ ساتھ ہیں' کی شوٹنگ کے دوران ساتھی اداکاروں کے ہمراہ راجھستان میں شکار کیا اس سے پہلے مقدمے کی سماعت کرنے والے جج کا بھی تبادلہ ہونے کے بعد سلمان خان کی ضمانت منظور کر لی گئی۔ اس وقت بھی سلمان خان کے گھر کے باہر میڈیا کے نمائندوں اور ان کے مداحوں کا ہجوم ہے۔ پولیس اس مجمعے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سلمان خان نے اپنے گھر کی بالکونی میں آ کر مداحوں کو ہاتھ ہلا کر تسلی دی۔ سلمان خان کو جیل، ٹوئٹر پر ہلچل سلمان خان کو پانچ سال قید، جیل پہنچا دیا گیا کالا ہرن اتنا اہم کیوں ہے؟ اس موقعے پر سلمان خان کے ساتھ ان کے والد سلیم خان اور والدہ بھی موجود تھیں۔ ان کی بہن ارپتا بھی اپنے بیٹے کے ساتھ بالکونی میں نظر آئیں۔ سلمان خان نے اپنے بھانجے کو اٹھا کر مداحوں کو ہاتھ ہلایا۔ کچھ لمحے ٹھہرنے کے بعد سلمان خان نے مداحوں کو اشارے سے گھر جا کر سو جانے کی ہدایت کی۔ اس سے پہلے جب عدالت نے سلمان خان کی ضمانت منظور کی تو صبح سے ہی لوگوں کا ایک ہجوم عدالت کے باہر موجود تھا۔ جو انڈیا کے ہر دلعزیز اداکار کی قسمت کا فیصلہ جاننے کے منتظر تھے۔ خیال رہے کہ جمعرات عدالت نے کالے ہرن کے غیر قانونی شکار کے 20 سال پرانے اس مقدمے میں سلمان خان کو مجرم قرار دیتے ہوئے پانچ سال کی ‎سزا سنائی گئی تھی اور انھیں جودھپور کی سینٹرل جیل میں رکھا گیا تھا۔ جمعے کو سلمان خان کی ضمانت کی عرضی پر سماعت مکمل نہیں ہو سکی تھی۔ نایاب کالے ہرنوں کے شکار کا واقعہ 1998 میں پیش آیا جب سلمان خان نے اپنی فلم ’ہم ساتھ ساتھ ہیں‘ کی شوٹنگ کے دوران ساتھی اداکاروں کے ہمراہ راجھستان میں شکار کیا۔ ان کے خلاف مقامی برادری نے مقدمہ درج کروایا جو اس ہرن کو مقدس قرار دیتے ہیں اور ان کا شکار غیر قانونی ہے۔ سلمان خان کے مداحوں کی بڑی تعداد عدالت کے باہر موجود تھی دوسری جانب جمعے کو ہی راجستھان ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر ڈالے جانے والے ٹرانسفر آرڈر کے مطابق جودھپور کے ڈسٹرکٹ اور سیشن جج رویندر کمار جوشی کا تبادلہ سروہی کر دیا گیا ہے اور ان کی جگہ چندرشیکھر شرما کو جودھ پور بھیجا جا رہا ہے۔ اداکار سلمان خان کے وکیل مہیش بوڑا نے بتایا کہ عدالت میں ضمانت پر بحث مکمل ہو چکی ہے۔ اور سیشن کورٹ میں انھوں نے یہ دلیل پیش کی کہ ذیلی عدالت کا جمعرات کا فیصلہ بالکل غلط ہے اور اس میں بعض گواہ ایسے پیش کیے گئے تھے جن کی گواہی ایک متعلقہ معاملے میں مسترد کر دی گئی تھی۔ ریاستی ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر ڈالے جانے والے آرڈر نمبر 20 میں کل 87 ججوں کے تبادلے کیے گئے ہیں جن میں رویندر کمار جوشی بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر سلمان خان اور بلیک بک پوچنگ کیس ٹرینڈ کر رہا ہے اور اس کے تحت مختلف قسم کے ٹویٹ سامنے آ رہے ہیں۔ آئی پی ایس سنجیو بھٹ کے آفیشيئل ہینڈل سے لکھا گيا: 'سلمان خان کے کالے ہرن کو مارنے پر ملنے والی سزا سے سبق: 'آپ انڈیا میں کالے ہرن، گائے اور دوسرے تحفظ یافتہ یا مقدس جانور کو مار کر بچ نہیں سکتے۔ 'دلتوں، مسلمانوں، مسیحیوں۔۔۔ اور دیگر محروم اور مجبور انسانوں کا قتل بالکل مختلف معاملہ ہے۔' اداکار شتروگھن سنہا نے لکھا: 'شام پڑھے لکھے دانشور شخص سلیم خان کے ساتھ گزاری۔ وہ ایک لائق بیٹے سلمان خان کے لائق والد ہیں۔ سلمان خان ریل اور ریئل لائف دونوں کے ہیرو ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ انھیں جلد از جلد اس معاملے میں راحت ملے۔' انڈیا میں نایاب کالے ہرن کے غیر قانونی شکار کے مقدمے میں ضمانت منظور ہونے کے بعد بالی وڈ ادکار سلمان خان رہا ہو کر واپس ممبئی میں اپنے گھر پہنچ چکے ہیں۔ text: محکمہ تحفظ جنگلی حیات نے رابی پیرزادہ پر وائلڈ لائف ایکٹ نو اور بیس کے تحت چالان کیا تھا۔ جس میں دفعہ نو غیر قانونی شکار جبکہ دفعہ بیس ممنوعہ اور محفوظ قرار دیے گئے جانور رکھنے پر لگائی جاتی ہے۔ رابی پیرزادہ کے وکیل بیرسٹر حسن خالد رانجھا نے بی بی سی کو بتایا کہ چالان کی سماعت مجسٹریٹ ماڈل ٹاون کی عدالت میں ہوئی۔ جج حارث صدیقی نے دلائل سننے کے بعد وائلڈ لائف پنجاب کی جانب سے عائد کردہ تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے رابی پیر زادہ کو بری کرنے کا فیصلہ دیا۔ محکمہ وائلڈ لائف پنجاب کے ذرائع کے مطابق وہ کیس کا جائزہ لیں گے اور اس پر اپیل کی جائے گئی۔ یہ بھی پڑھیے گلوکارہ رابی پیرزادہ کا سانپ رکھنے کے الزام میں چالان رابی سے یکجہتی:’خود غرض معاشرہ سامنے لانا چاہتی تھی‘ رابی پیرزادہ ویڈیو لیک سے ہم نے کیا سیکھا؟ واضح رہے کہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب نے گزشتہ سال ستمبر میں رابی پیرزادہ پر چالان کیا تھا، جس میں درج تھا کہ رابی پیرزادہ نے غیر قانونی طور پر چار عدد اژدھے اور ایک عدد مگرمچھ اپنے سیلون میں رکھے ہوئے ہیں جو کہ وائلڈ لائف ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن رابی پیرزادہ نے وائلڈ لائف کے چالان میں عائد الزامات کی تردید کی تھی۔ ان کا مؤقف تھا کہ یہ مگر مچھ اور سانپ انھوں نے اپنے گھر کے قریب موجود سپیروں سے اپنی مختلف ریکارڈنگ کے لیے حاصل کیے تھے جو ان کو واپس بھی کر دیے تھے جبکہ ان کے سیلون کو بند ہوئے چار ماہ ہو چکے ہیں۔ عدالت کے فیصلے کے بعد رابی پیرزادہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب محکمہ وائلڈ لائف پنجاب نے چالان دیا تھا تو اس وقت انھوں نے بہت کچھ کہا تھا جس پر اب وہ معذرت خواہ ہیں۔ ’ان سے کہتی ہوں کہ یہ دشمنی ختم کرتے ہیں، مجھ سے اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو معافی مانگتی ہوں اور آئیں ملکر کام کرتے ہیں۔‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب شوبز کی دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور وہ کبھی بھی اس طرف واپس نہیں جائیں گی۔ ’میرے اب دو ہی شوق ہیں، ایک مصوری کرنا اور دوسرے جانداروں کی خدمت کرنا۔ مصوری میں کررہی ہوں جبکہ میرے دل میں خواہش ہے کہ انسانوں اور جانوروں کے لیے کچھ کروں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ چند دن قبل سفاری پارک گئی تھی۔ ’میں نے دیکھا کہ انھوں نے سانپوں کو انتہائی برے حالات میں رکھا ہوا تھا۔ اب لاہور کے اندر لوگوں نے جنگلی حیات رکھی ہوئی ہے۔ میں حکومت سے کہتی ہوں کہ وہ مجھے موقع دے، کوئی جگہ فراہم کرے اور تھوڑی بہت سہولتیں دے۔ سانپوں، اژدھا، مگر مچھوں اور جنگلی حیات کو کسی بہتر جگہ پر رکھتے ہیں۔‘ رابی پیر زادہ کا کہنا تھا کہ لاہور میں ایسی ایسی جنگلی حیات ہے کہ اگر وہ سامنے آجائے تو دنیا حیران رہ جائے گئی۔ انھوں نے کہا کہ ان میں سے کئی غیر قانونی بھی ہیں۔ ’ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو احساس دلایا جائے اور ان لوگوں کو کوئی راستہ دکھایا جائے تاکہ ان جنگلی حیات کے حقوق کا تحفظ ہو سکے اور اس سے فائدہ بھی اٹھایا جائے۔‘ انھوں نے مزید کہا ’ہم سانپوں، اژدھا اور دیگر جنگلی حیات کی بریڈنگ کر سکتے ہیں۔ ان کا بہت فائدہ ہے، ان کا زہر اور دیگر چیزیں ادوایات میں استعمال ہوتی ہے، اگر منصوبہ بندی سے کام کریں تو اس کے بہت سے فائدے ہو سکتے ہیں۔‘ شوبز کی دنیا کو خیر آباد کہنے والی سابق گلوگارہ اور ادکارہ رابی پیرزادہ کو اژدھے اور ایک مگر مچھ رکھنے کے الزام میں بری کر دیا گیا ہے۔ text: بھارت نے چین کے دعوں کو غلط قرار دیا ہے 15 صفحات کی ایک دستاویز کے ساتھ چینی وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈوكلام سرحد پر جہاں پہلے تقریباً 400 بھارتی فوجی تھے، وہاں اب ان کی تعداد گھٹ کر 40 رہ گئی ہے۔ دوسری طرف انڈیا نے چین کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین کی وزارت خارجہ کی طرف سے دی گئی معلومات غلط ہیں اور دونوں ممالک کے تقریباً 350 تا 400 فوجی ایک دوسرے کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ چینی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ جون 2017 کو چین ڈوکلام علاقے میں سڑک بنا رہا تھا کہ 18 جون کو 270 سے زیادہ انڈین فوجی ہتھیاروں سمیت دو بلڈوزر لے کر سکم سیکٹر سے ڈوکلام کے نزدیک سرحد پار پہنچے۔ انڈین فوجی سڑک بنانے کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے مقصد سے چینی علاقے میں 100 میٹر اندر تک گھس آئے۔ اس وقت وہاں انڈین فوجیوں کی تعداد 400 تک پہنچ گئی تھی۔‘ دستاویز میں دعوی کیا گیا ہے کہ 'انڈین فوجیوں نے وہاں تین خیمے گاڑ دیے اور چین کی سرحد میں 180 میٹر اندر تک گھس گئے۔ جولائی کے آخر تک اب بھی 40 بھارتی فوجی اور ایک بلڈوزر غیر قانونی طریقے سے چینی سرحد میں موجود ہے۔‘ چین کے دعووں کے برعکس انڈیا نے کہا ہے کہ اس کے تقریباً 350 جوان گذشتہ چھ ہفتوں سے ڈوكلام میں تعینات ہیں۔ اکنامک ٹائمز کے مطابق چین کی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈوكلام میں انڈیا نے اپنے فوجیوں کی تعداد کم کر دی ہے۔ text: گووندا اپنے بچوں کی کریئر کے متعلق بہت پرجوش نظر آتے ہیں پہلی فلم ’كِل دل‘ اور دوسری ’ہیپی اینڈنگ‘ ہے۔ لیکن ان کی خوشی کی اور بھی وجوہات ہیں اور وہ ان کے بچے ہیں۔ گووندا کے بیٹے یش وردھن اداکاری سیکھ رہے ہیں اور بیٹی نرمدا نے تو پہلی فلم کی شوٹنگ بھی شروع کر دی ہے۔ گووندا سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنی بیٹی نرمدا کے متعلق بہت پوزیسیو ہیں تو اس بات پر ان کا کہنا تھا: ’میں پوزیسیو نہیں ہوں، کیونکہ لڑکیاں بہت ذہین ہوتی ہیں۔ اس لیے پوزیسیو ہو کر ان کی تخلیقی صلاحیتوں پر روک نہیں لگانی چاہیے۔‘ انھوں نے کہا: ’باپ کے طور پر میں اپنی بیٹی پر کوئی پابندی نہیں لگانا چاہتا۔ اگر وہ بولڈ کردار میں بھی آئیں گی تو بھی مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘ فلم ’کل دل‘ میں گوندا نے ولن کا کردار ادا کیا ہے اس سے قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے گووندا نے اپنی بیٹی نرمدا کے بارے میں کہا تھا: ’انھوں نے پنجابی آرٹسٹ گپّی گریوال کےساتھ فلم سائن کی ہے۔ کسی بھی فلم کو منتخب کرنے میں انھوں نے کافی وقت لیا ہے۔ نئی نسل ہے ہر کام سوچ سمجھ کر کرتی ہے۔‘ واضح رہے کہ اس سے قبل اداکارہ عالیہ بھٹ نے اپنے والد فلم ساز مہیش بھٹ کے بارے میں ایسی ہی بات کہی تھی کہ ان کے والد کو پردۂ سیمیں پر ان کے بولڈ مناظر پر اعتراض نہیں ہوگا۔ مستقبل قریب میں ریلیز ہونے والی فلم ’کل دل‘ میں گوندا نے ولن کا کردار ادا کیا ہے۔ معروف اداکار گووندا ان دنوں بے حد خوش ہیں کیونکہ ان کی یکے بعد دیگرے دو فلمیں ریلیز ہو رہی ہیں۔ text: اس حکومتی منصوبے کے تحت جو وزیرِ اعظم ایریئل شیرون نے پیش کیا ہے چند چھوٹی بستیوں کو بھی خالی کرا لیا جائے گا۔ ایریئل شیرون روایتی طور پر یہودی بستیوں کے حامی رہے ہیں۔ اس مظاہرے میں شیرون کابینہ کے کئی ارکان بھی شامل تھے اور اندزوں کے مطابق تقریباً ایک لاکھ افراد حکومت منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ بی بی سی کے نامہ نگار کرس مورس نے کہا ہے کہ اس منصوبے کی وجہ سے اسرائیل میں ایک واضح تقسیم نظر آ رہی ہے۔ تا حال ایرئیل شیرون نے صرف یہ تجویز کیا ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں چند بستیور کو ختم کر دیا جائے لیکن یہودی آباد کار کہتے ہیں کہ ایک دفعہ یہ سلسلہ چل پڑا تو ختم نہیں ہوگا۔ وزیرِ اعظم شیرون کا کہنا ہے کہ فلسیطینیوں کے ساتھ بات چیت میں پیش رفت کے لئے ضروری ہے کہ کچھ یہودی بستیان ختم کر دی جائیں۔ اسرائیل میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں نے کہا کہ وہ کسی یہودی بستی کو ختم نہیں کرنے دیں گے جبکہ بائیں بازو والے کہتے ہیں کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم کی پیشکش مشرقِ وسطیٰ میں حقیقی امن کے فروغ کے لئے کافی نہیں ہے۔ ادھر وزیرِ اعظم شیرون نے کہا ہے کہ وہ شام سے بات چیت کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ کہ شام دہشت گردوں کی سرپرستی سے دستبراد ہو جائے۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہزاروں اسرائیلی باشندوں نے تل ابیب میں حکومت کے منصوبے کے خلاف مظاہرہ کیا جس کے تحت غربِ اردن کی کچھ یہودی بستیوں کو ختم کر دیا جائے گا۔ text: گورنر قندہار کے ترجمان احمد ضیا عبدالزئی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ سابق طالبان ترجمان کوجمعرات کی رات ساڑھے بارہ بجے جلال آباد شہر سے تقریباً بیس کلومیٹر دور واقع چپرہار کے للمہ گاؤں میں قتل کیا گیا ہے۔ ان کے بقول بعض نامعلوم افراد نے ان کے گھر پرحملہ کردیا جس میں ڈاکٹر حنیف اور ان کے تین چچازاد بھائی موقع پر ہلاک ہوگئے۔ احمد ضیا کا مزید کہنا ہے ڈاکٹر حنیف آج کل طالبان تحریک میں فعال نہیں تھے اور وہ اپنے آبائی گاؤں للمہ میں دینی مدرسہ میں درس و تدرییس کے کام میں مصروف تھے۔انہوں نے کہا کہ تحقیقات جاری ہیں اور سرِ دست کسی پر الزام نہیں لگایا جاسکتا۔ افغان طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر حنیف کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ تقریباً اٹھائیس سالہ ڈ اکٹر حنیف کا اصل نام عبدالحق حقیق تھا اور انہوں نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ پاکستان کے صوبہ سرحد کے دارالحکومت پشاور میں گزارا تھا جہاں انہوں نے ایک نجی ادارے سے کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کی تھی۔ سال دو ہزار پانچ میں انہیں طالبان کا ترجمان مقرر کیا گیا تھا اور دو سال تک اس عہدے پر کام کرنے کے بعد افغان سکیورٹی فورسز نے انہیں گرفتار کر لیا تھا۔ چودہ ماہ تک کابل جیل میں قید رکھنے کے بعد حکومت نے انہیں بنا کوئی وجہ بتائے رہا کردیا تھا۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کے ساتھ ان کی خفیہ مفاہمت ہوگئی تھی اور یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان نے انہیں مشکوک قرار دیا۔ تاہم طالبان ترجمان قاری یوسف نے اس تاثر کو رد کر دیا ہے کہ طالبان ان کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہوسکتے ہیں۔ دو دن قبل ہی انہوں نے جلال آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں حکام کا کہنا ہے کہ نامعلوم مسلح افراد نے طالبان کے سابق ترجمان ڈاکٹر حنیف کو ان کے تین رشتہ داروں سمیت قتل کردیا ہے۔ text: ہالی وڈ کا طنزح ومزا واقعی شمالی کوریا کے رہنما کو کمزور کر سکتا ہے ’دی انٹرویو‘ دو لڑکوں پر فلمائی گئی شور و غل والی ایک فلم ہے جس میں وہ ایک عجیب جگہ پر جاتے ہیں اور مزاح اور قتل وغارت میں مشغول ہوتے ہیں۔ میری نظر میں یہ سیاسی مزاح پر مبنی ایک اچھی فلم ہے۔ یہ موضوع کے لحاظ سے بہت زبردست ہے کیونکہ اس میں کم جونگ کو ایک ناقص انسان کے طور پر دکھایا گیا ہے جو جذباتی اور بے رحم ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ انھیں بات بات پر غصہ آ جاتا ہے اور خصوصاً کم جونگ کو اس وقت بہت غصہ آیا جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی حکومت جوہری ہتھیاروں کی ترقی پر لاکھوں ڈالر کیوں خرچ کر رہی ہے اور اقوام متحدہ سے امدادی خوراک بھی حاصل کر رہی ہے۔ کم جونگ کے ارد گرد کے لوگ ہر وقت خوف کے عالم میں رہتے ہیں کہ نہ جانے وہ کب ناراض ہو جائیں۔ شاید شمالی کوریا کی حکومت کا اس فلم سے ڈرنا صحیح تھا کیونکہ لوگ اگر کم جونگ کو مذاق سمجھنا شروع ہو جائیں تو ان کے لیے مسئلہ بن جائے گا۔ شمالی کوریا کے غدار اکثر جنوبی کوریا سے فلمیں اور ڈارامے اپنے ملک میں سمگل کرتے ہیں شمالی کوریا کے باغی اکثر جنوبی کوریا سے فلمیں اور ڈارامے سمگل کرتے ہیں اور جنوب میں ایک نقطۂ نظر ہے کہ پیانگ یانگ میں حکومت کو کمزور کرنے کے لیے یہ طاقتور ذرائع ہیں اس لیے کم جونگ کی حکومت کو ڈر ہے کہ کہیں یہ فلم بھی شمالی کوریا سمگل نہ کر دی جائے۔ شمالی کوریا کی حکومت نے اس کے ردِ عمل میں نسلی امتیاز پر مبنی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں صدر براک اوباما کو بندر کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔ شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ اس فلم نے ان کے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر کے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ پابندی کے باوجود چین میں اب تک اس فلم کی ہزاروں کاپیاں ڈاؤن لوڈ کی جا چکیں ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ فلم چین کے راستے شمالی کوریا پہنچ جائے گی۔ چین میں عام لوگوں نے اس فلم کو پسند کیا ہے تاہم حکمران طبقے نے اسے ناپسند کیا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق فلموں پر تبصرے شائع کرنے والی ایک چینی ویب سائٹ پر دس ہزار سے زائد لوگوں نے اس فلم کے بارے میں مثبت رائے دی ہے۔ دوسری جانب کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے شائع کیے جانے ایک اخبار کا کہنا ہے کہ ’دی انڑویو بے معنی ثقافتی تکبر کی نمائندگی کرتی ہے۔‘ ایک تازہ بیان میں شمالی کوریا نے امریکہ کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے اپنا طرز عمل برقرار رکھا تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا اس فلم کو آسکر کے لیے نامزد کیا جا سکتا ہے اور اگر اس کو بہترین فلم کا ایوارڈ مل گیا تو یہ ہمیشہ کے لیے شمالی کوریا کی حکومت کے لیے سر درد بن جائے گی۔ شمالی کوریا نے ایک بیان میں امریکہ کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے اپنا طرز عمل برقرار رکھا تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اس دھمکی کو سنجیدگی سے لینا چاہیے کیونکہ کم جونگ کی حکومت کے پاس جوہری ہتھیار اور ان کو لے جانے والے راکٹ بھی ہیں۔ اگرچہ شمالی کوریا کے راکٹ امریکہ تک تو نہیں پہنچ سکتے مگر خطے میں موجود اس کے فوجی اڈوں اور اتحادیوں کو ضرور نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ شمالی کوریا کے پاس ماہر ہیکرز بھی ہیں جو ماضی میں جنوبی کوریا کے بینکوں اور ٹی وی سٹیشنوں کی کمپیوٹر سسٹم پر کامیاب حملے کر چکے ہیں اور شاید سونی پکچرز کے نظام کو بھی انھوں نے ہی ہیک کیا تھا، تاہم بعض مستند ماہرین کو اس پر شک ہے۔ شمالی کوریا کی قیادت نے اگرچہ سونی کا ڈیٹا ہیک کر نے کی کارروائی کی تعریف کی ہے مگر اس کارروائی میں ملوث ہو نے سے نہ صرف انکار کیا ہے بلکہ امریکہ پر اپنے انٹرنیٹ کے نظام پر حملے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ فی الحال دونوں ممالک کے درمیان الفاظ کی جنگ جاری ہے۔ ’دی انٹرویو‘ سے کم جونگ کی حکومت کا فوری تختہ الٹنے کا تو کوئی امکان نہیں ہے مگر ہوسکتا ہے کہ ایک دن یہ اس ضمن میں مدد گار ثابت ہو۔ . کرسمس پر متنازعہ فلم ’دی انٹرویو‘ کی محدود ریلیز سے کچھ ناظرین کو فلم کا جائزہ لینے کا موقع ملا، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہالی وڈ کا طنز و مزاح واقعی شمالی کوریا کے رہنما کو کمزور کر سکتا ہے؟ text: لوک پال بل کے مسئلے پر منموہن سنگھ کو حزب اختلاف کی جماعتوں نے زبردست تنقید کانشانہ بنایا ہے نئے سال کے موقع پر قوم کے نام اپنے غیر معمولی طور پر تفصیلی پیغام میں وزیر اعظم نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ بدعنوانی کی روک تھام کے لیے حکومت کا پیش کردہ لوک پال بل پارلیمان کے ایوان بالا یا راجیہ سبھا میں منظور نہیں کرایا جاسکا۔ من موہن سنگھ کی حکومت کو گزشتہ تقریباً ڈیڑھ برس میں بدعنوانی کے کئی سنگین الزامات کا سامنا رہا ہے اور چند ماہ قبل وزیر اعظم نے خود یہ اعتراف کیا تھا کہ آزادی کے بعد سے ان کی حکومت کو سب سے بدعنوان تصور کیا جاتا ہے۔ راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کی سخت مخالفت کے باوجود لوک پال بل پر بحث بیچ میں ہی ختم کر دی گئی تھی کیونکہ ووٹنگ کی صورت میں حکومت کو یقینی شکست کا سامنا تھا۔ اس وقت ایوان میں وزیر اعظم اور وزیر خزانہ دونوں موجود تھے اور ان کی خاموشی پر زیادہ تر سیاسی حلقوں نے شخت تنقید کی ہے۔ اس کے بعد سے وزیر اعظم کی جانب سے یہ پہلا بیان ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت ایک موثر لوک پال بل منظور کرانے کے وعدے پر قائم ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اب یہ بل پارلیمان کے بجٹ اجلاس میں لایا جائے گا جو فروری میں شورع ہوگا۔ لیکن حزب اختلاف اور خود حکومت کی اتحادی جماعتوں کو بل کے موجودہ مسودے پر اعتراض ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس سے آئین کا وفاقی کردار کمزور ہوگا اور اس میں مرکزی تفتیشی بیورو کو حکومت کے کنٹرول سے آزاد کرنے کے لیے کوئی تدبیر نہیں کی گئی ہے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ ملک کو پانچ بڑے چینلجوں کا سامنا ہے جس میں غربت، بھوک اور ناخواندگی کا خاتمہ ، اقتصادی سکیورٹی، توانائی، ماحولیات اور قومی سلامتی کے مسائل شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک اقتصادی مسائل سے گزر رہا ہے اور معیشت کو واپس پٹری پر لانے کے لیے ہمہ جہت حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی ضمن میں انہوں نے کہا کہ’ بدعنوانی کے نئے طریقے سامنے آئے ہیں اور کاروبار کو فروغ دینے کے لیے لازمی ہے کہ بدعنوانی کا خاتمہ کیا جائے۔۔۔اور لوک پال اور لوک آیوکت (جو ریاستوں میں قائم کرنے کی تجویز ہے) مسئلہ کے حل کا اہم حصہ ہیں۔' وزیر اعظم نے اپنے پیغام میں ان دوسرے قوانین کا بھی ذکر کیا ہے جس کا مطالبہ سول سوسائٹی کے نمائندے کر رہے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر سماجی کارکن انا ہزارے اور ان کے ساتھیوں کی تنقید کا جواب دے رہے ہیں۔ ’ ان قوانین کا اثر سامنے آنے میں وقت لگے لہذا ہمیں صبر سے کام لینا چاہیے۔۔۔میرے خیال میں ان اقدامات سے بڑے پیمانے پر بتہری آئے گی۔' بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کہا ہے کہ ملک میں بدعنوانی کے سوال پر تشویش بڑھی ہے اور ’وہ خود ذاتی طور پر عوام کو ایک موثر اور ایماندار حکومت' فراہم کرنے کے لیے کام کریں گے۔ text: یہ تینوں خواتین جامعۃالبنات کی فارغ التحصیل ہیں جہاں کے ناظم مفتی مستان علی نے بتایا ہے کہ مفتی بننے کے لئے کسی خاتون کو عالمہ، فاضلہ اور کاملہ کا کورس کرنے کے علاوہ دو سال کا مفتیہ کا کورس بھی کرنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں اب تک کوئی ایسا ادارہ موجود نہ تھا جو شریعت کی روشنی میں مسلم خواتین کی رہنمائی کر سکے ، چنانچہ دارالافتاء کے قیام نے وقت کی ایک اہم ضرورت کو پوراکیا ہے۔ مفتی خواتین کے پینل نے اپنے پہلے فتوے میں کہا ہے کہ عورتوں کے لئے زیب و زینت تو جائز ہے لیکن سر کے سامنے والے بالوں کو کاٹنا، ابرو کے بالوں کو اکھاڑنا، بالوں کا رنگ اُڑانا اور آنکھوں پر رنگین کانٹیکٹ لینس لگانا جائز نہیں ہے۔ حیدرآباد کی ایک خاتون جویریہ فاطمہ کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان مفتی خواتین نے کہا کہ اسلام میں عورتوں کے لئے مردانہ لباس پہننا بھی جائز نہیں ہے۔ جامعۃالبنات میں اس وقت مزید پانچ طالبات مفتیہ کا کورس کر رہی ہیں اور وہ بھی آئندہ چند ماہ میں فتوے جاری کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔ مفتیہ رضوانہ زرّیں سے جب پوچھا گیا کہ جیّد علماۓ دین اور مستند مفتی حضرات کے ہوتے ہوئے اس شعبہ دین میں خواتین کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی تو انھوں نے جواب دیا کہ عورتوں کے کچھ ذاتی مسائل ایسے ہوتے ہیں جن پر وہ مردوں کے ساتھ کھُل کے بات نہیں کر سکتیں- عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبہ اسلامیات کے سابق سربراہ انور معظم نے خواتین کی جانب سے فتاویٰ کے اجراء کو ایک مثبت قدم قرار دیتے ہوۓ کہا کہ اس سے مسلم خواتین میں بہتر دینی شعور پیدا ہو سکے گا۔ بھارت کے شہر حیدرآباد میں تین خواتین مفتیہ فاطمہ عزیز، مفتیہ سیّدہ فاطمہ اور مفتیہ رضوانہ زرّیں پر مشتمل اولیّن دارالافتاء کا قیام عمل میں آیا ہے۔ عورتیں اپنے دینی اور فقہی مسائل پر اب ان مفتی خواتین سے رابطہ کر سکتی ہیں۔ text: بھارت کے متعدد غریب خاندان اپنے کم سے کم ایک بیٹے کو اس کھیل کی تربیت ضرور کرواتے ہیں بھارت کے متعدد غریب خاندان اپنے کم سے کم ایک بیٹے کو اس کھیل کی تربیت ضرور کرواتے ہیں جن میں سے چند خوش قسمت خاندانوں کے لیے یہ تربیت غربت اور ذات پات کے فرق والی زندگی سے فرار کا ایک راستہ بھی فراہم کرتی ہے۔ اگرچہ جدید بھارت میں چند ایسے مقامات ہیں جہاں خواتین جا نہیں سکتیں لیکن مہاراشٹر کے دیہی علاقوں میں ایسی ایک ہی جگہ ہے ’تالم ریسلنگ۔‘ امول ساتھی اکھاڑے میں کشتی کی تیاری کرتے ہوئے میں نے جیسے ہی صحن میں داخل ہونے کی کوشش کی جہاں نوجوان ایک دوسرے کے ساتھ تربیت حاصل کر رہے تھے تو ایک چھوٹے پہلون امول ساتھی نے مجھ سے کہا ’محترمہ، یہاں پر خواتین کو آنے کی اجازت نہیں ہے۔‘ امول نے مجھے مزید سمجھاتے ہوئے کہا کہ خواتین کے یہاں آنے سے ’توجہ‘ منتشر ہو جاتی ہے۔ تاہم امول اور اکھاڑے کے مالک کے درمیان کچھ دیر بات چیت کرنے کے بعد ایک خاتون صحافی کے لیے رعایت مل گئی اور میں اندر اکھاڑے میں داخل ہو گئی۔ نوجوان لنگوٹی پہن کر اکھاڑے میں اترنے کی تیاری کر رہے تھے کہ اسی دوران امول ساتھی نے جلدی ورزنش کرنے کے لیے اٹھک بیٹھک کرنے کا عمل شروع کر دیا اور اس کے بعد وہ دوسروں کےساتھ اکھاڑے میں اتر گیا۔ ان سب کے جسم ناریل کا تیل ملنے کی وجہ سے چمک رہے تھے اور وہ اپنی رانوں اور بازوؤں پر ہاتھ مار کر شور پیدا کرتے ہوئے اگلی موو کے لیے غورو غوض کر رہے تھے اور اگلے ہی لمحے وہ سب اکھاڑے کی سرخ مٹی میں داغدار ہو گئے۔ امول ساتھی کا کہنا ہے کہ اکھاڑے کی زمین ایک عام سی زمین نہیں ہے بلکہ اس میں لیموں، دودھ، مکھن، کافور، ہلدی اور بہت سی اشیا شامل ہوتی ہیں امول ساتھی کا کہنا ہے کہ اکھاڑے کی زمین ایک عام سی زمین نہیں ہے بلکہ اس میں لیموں، دودھ، مکھن، کافور، ہلدی اور بہت سی اشیا شامل ہوتی ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا : ’ہم اکھاڑے میں مشق کرتے ہیں اور اس کی زمین ہمیں توانائی فراہم کرتی ہے اور ہمیں گندگی سے دور لے جاتی ہے۔‘ امول ساتھی کا تعلق بھارت کی نچلی ذات ’دلت‘ سے ہے جسے اس سے پہلے ’اچھوت‘ سمجھا جاتا تھا۔ امول ساتھی اب بھارت کے شہر کراد میں ایک جدید فلیٹ میں رہتے ہیں تاہم وہ ماصولی کے ایک گاؤں میں پلے بڑھے ہیں۔ امول ساتھی کشتی لڑتے ہوئے امول ساتھی کے والد کا کہنا تھا کہ ہمارے گاؤں میں تعلیم حاصل کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے بچوں کو غربت کی زندگی میں قید نہیں کرنا چاہتے تھے اسی لیے انھوں نے اپنے بچوں کو اکھاڑے کی کشتی کی تربیت دلوائی۔ امول ساتھی نے بتایا کہ ایک دلت کے طور پر اس راستے پر چلتے ہوئے کامیابی حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔ انھوں نے چائے پیتے ہوئے مجھے بتایا ’میں نے کبھی یہ سوچا نہیں تھا کہ میں کشتی لڑنے والا مشہور پہلوان بن جاؤں گا کیونکہ پہلوانوں کو اچھی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم اس خرچے کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔‘ امول ساتھی اپنے والدین کے ساتھ امول کا کہنا تھا ’انھیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب وہ ورزش کے لیے جاتے تھے تو ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا تھا، مجھے ہمیشہ الگ بیٹھ کر دوپہر کا کھانا کھانا پڑتا تھا۔ ایک دلت ہونے کی وجہ سے لوگ میرے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیتے تھے کیونکہ کشتی کے کھیل میں دوسرے کو چھونا پڑتا ہے اور ایک دلت اونچی ذات کے لڑکے کو کیسے چھو سکتا ہے؟‘ امول ساتھی نے جلد ہی اپنی محنت اور دیسی کشتی سے شدید لگاؤ کے باعث اپنے مخالفین کا احترام حاصل کر لیا اور اب وہ ایک مشہور مقامی شخصیت ہیں جن کا آبائی گھر اب دیسی کشتیوں کے متعدد اعزازات سے بھرا پڑا ہے۔ بھارت کے دیہی علاقوں میں کسان فصلوں کی ناکامی کے بعد ادھار لیتے ہیں اور قرض واپس نہ کرنے کے باعث اکثر اوقات خود کشی بھی کر لیتے ہیں۔ ھارت کی ریاست مہاراشٹر میں روی گائیکود نامی ایک شخص نے ایک اندازے کے مطابق 50,000 غریب نوجوان پہلوانوں کو تربیت فراہم کرنے کے لیے ایک ادارہ قائم کیا ہے اس بارے میں امول ساتھی بتاتے ہیں دیسی کشتی مشکل میں پھنسے ہوئے خاندان کے لیے لائف لائن ثابت ہو سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کے ہر خاندان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ان کا کم سے کم ایک بیٹا اس کھیل میں مہارت حاصل کرے۔ بھارت کی ریاست مہاراشٹر میں روی گائیکود نامی ایک شخص نے ایک اندازے کے مطابق 50,000 غریب نوجوان پہلوانوں کو تربیت فراہم کرنے کے لیے ایک ادارہ قائم کیا ہے جس کا مقصد ان غریب نوجوانوں کو آنے والے وقت کا سٹار بنانا ہے۔ جب میں وہاں پہنچی اور اندر داخل ہونے کی کوشش کی تو وہاں لڑکوں کا ایک گروہ نہا رہا تھا اور مجھے وہاں دیکھ کر چھپنے کے لیے بھاگ گئے۔ روی گائیکود کے ادارے میں تقربیاً 100 نوجوان جن کی عمریں 10 سے 30 سال کے درمیان تھیں رہتے ہیں۔ نامدیو بڑے فخر سے ’لنگوٹی‘ پہنتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اکھاڑے کی کشتی ایک مہنگا کھیل ہے روی گائیکود کے اس ادارے کو مشہور سابق پہلوان نامدیو بدرے چلاتے ہیں۔ نامدیو بڑے فخر سے ’لنگوٹی‘ پہنتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اکھاڑے کی کشتی ایک مہنگا کھیل ہے اور صرف ایک بچے کے کھانے پر ہر ماہ 100 برطانوی پاؤنڈ خرچ ہوتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایک دس سالہ بچے کے ایک وقت کا کھانا چاول، تین سیب، تین کیلے، دو ابلے انڈے، آدھا لیٹر دودھ اور ڈرائی فروٹ پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ تمام لوازمات صرف ایک ٹائم کے ناشتے کے لیے ہوتے ہیں۔ نامدیو کے مطابق ادارے کے بل قریبی علاقوں اور دیہات کے لوگ جو کشتی کے شوقین ہوتے ہیں ادا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ان لڑکوں سے کوئی رقم نہیں لیتے کیونکہ زیادہ تر لڑکوں کا تعلق غریب گھرانوں سے ہوتا ہے اور وہ پیسے ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔ بھارت میں ُکشتی کے مقابلے کافی مقبول ہیں تاہم ریاست مہاراشٹر میں اس کھیل جسے دیسی کشتی یا اکھاڑے کی کشتی کہا جاتا ہے کے بارے میں ناقابلِ فراموش تصور پایا جاتا ہے۔ text: چین نے علیحدہ زمینی تلاش شروع کر دی ہے ادھر ملائیشیا میں حکام کا کہنا ہے کہ آٹھ روز قبل لاپتہ ہونے والے مسافر طیارے کی تلاش کے لیے وسیع پیمانے پر آپریشن جاری ہے جس میں 25 ممالک حصہ لے رہے ہیں۔ ملائیشیا نے اس طیارے کی تلاش کے لیے جن ممالک سے مدد مانگی ہے ان میں پاکستان بھی شامل ہے تاہم پاکستانی سول ایوی ایشن کا کہنا ہے کہ طیارے کی پاکستانی حدود میں داخلے کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔ ملائیشیا ایئر لائنز کی پرواز ایم ایچ 370 گذشتہ جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب کوالالمپور سے بیجنگ کے سفر کے دوران غائب ہوئی تھی اور اس کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔ اس لاپتہ طیارے پر 239 افراد سوار تھے جن میں سے بیشتر چینی تھے۔ چین کا کہنا ہے کہ تمام چینی مسافرین کی جانچ پڑتال کر کے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ ان میں سے کسی کا کسی بھی دہشتگرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ملائیشیا کےحکام کا کہنا ہے کہ طیارے کو دانستہ طور پر موڑا گیا۔ اس طیارے نے آخری مرتبہ ایئر ٹریفک کنٹرول سے ملائیشیا کے مشرق میں بحیرۂ جنوبی چین کی فضائی حدود میں رابطہ کیا تھا لیکن اس کے غائب ہونے کے سات گھنٹے بعد بھی طیارے سے سیٹیلائٹ کو خودکار طریقے سے سگنل ملتے رہے۔ ملائیشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق نے سنیچر کو کہا تھا کہ یہ طیارہ قزاقستان اور جنوبی بحر ہند کے درمیان کہیں بھی ہو سکتا ہے اور اتوار سے تلاشی کا عمل بھی وسط ایشیا سے بحرِ ہند تک زمینی اور سمندری علاقے میں پھیلا دیا گیا ہے۔ تلاشی کے عمل میں شریک تحقیق کار ان تمام ممالک سے ریڈار کا ڈیٹا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن پر سے ایم ایچ 370 نامی اس پرواز کے گزرنے کا امکان ہے۔ ملائیشیا کے وزیرِ ٹرانسپورٹ نے کہا ہے کہ تلاشی کا پہلے سے پیچیدہ عمل اب مزید مشکل ہوگیا ہے ملائیشیا کے وزیرِ ٹرانسپورٹ نے کہا ہے کہ تلاشی کا پہلے سے پیچیدہ عمل اب مزید مشکل ہوگیا ہے۔ طیارے کا مواصلاتی نظام دانستہ طور پر خراب کیے جانے اور اس کا راستہ جان بوجھ کر بدلے جانے کی تصدیق کے بعد اب پولیس جہاز کے عملے اور مسافروں کے بارے میں بھی تحقیقات کر رہی ہے۔ ملائیشیا کے ایک اعلیٰ پولیس اہلکار نے خبر رساں ادارے رؤئٹرز کو بتایا ہے کہ سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب کوالالمپور میں دونوں پائلٹوں کے گھروں کی تلاشی لی گئی۔ اطلاعات کے مطابق پولیس 53 سالہ پائلٹ زہری احمد شاہ اور 27 سالہ معاون پائلٹ فارق عبدالحمید کی معاشرتی زندگی اور نفسیاتی پہلوؤں پر بھی نظر ڈال رہی ہے۔ کوالالمپور میں بی بی سی کے جونا فشر کا کہنا ہے کہ زہری احمد شاہ کے جاننے والوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک عام سے گھریلو آدمی تھے۔ لاپتہ ہونے والے طیارے پر 153 چینی اور 38 ملائیشین شہریوں کے علاوہ، ایران، امریکہ، کینیڈا، انڈونیشیا، آسٹریلیا، بھارت، فرانس، نیوزی لینڈ، یوکرین، روس، تائیوان اور ہالینڈ کے باشندے سوار تھے۔ اس طیارے کی تلاش میں اب تک چودہ ممالک کے 43 بحری جہاز اور 58 طیارے حصہ لے چکے ہیں لیکن یہ تمام کوششیں تاحال ناکام رہی ہیں۔ چین میں ریاستی میڈیا کا کہنا ہے کہ چین نے ملائیشیا کے لاپتہ طیارے ایم ایچ 370 کے لیے بین الاقوامی تلاشی مہم کے ساتھ ساتھ چینی حدود میں علیحدہ سے تلاش شروع کر دی ہے۔ text: یوں ملت پارٹی کے قیام کے تقریبا چھے سال بعد اس کا باب باقاعدہ طور پر بند ہوگیا ہے۔ منگل کو پارٹی کے صدر فاروق لغاری نے لاہور میں پارٹی کی نیشنل کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی حکمران جماعت مسلم لیگ (ق) میں ضم نہیں ہورہی بلکہ صدر جنرل پرویز مشرف کے کہنے پر ایک نئی جماعت پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہو رہی ہے۔ ملت پارٹی کے مرکزی رہنما اور سینیٹر محمد علی درانی نے بی بی سی کو بتایا کہ آج نیشنل کونسل کے اجلاس میں اس کے تین سو ستر ارکان کے علاوہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز نے شرکت کی اور فاروق لغاری کو اختیار دیا کہ وہ ملت پارٹی کے پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کریں۔ اس سے پہلے ملت پارٹی کی نیشنل ایگزیکٹو کونسل نے پارٹی کے پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ آج نیشنل کونسل نے اس کو منظور کرتے ہوئے اعلان کا اختیار پارٹی کے صدر فاروق لغاری کو دے دیا۔ محمد علی درانی نے کہا کہ اب بدھ کے روز نیشنل الائنس کی نیشنل ایگزیکٹو کونسل اور پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوگا جس میں ملت پارٹی اور غلام مصطفٰے جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی اور کچھ دیگر جماعتیں شامل ہیں۔ نیشنل الائنس کے صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ارکان کی تعداد باون ہے۔ ملت پارٹی کے اجلاس میں فاروق لغاری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی کسی پارٹی میں ضم نہیں ہورہی اور ان کا کسی ق لیگ یا ن لیگ یا ج لیگ سے انضمام نہیں ہورہا بلکہ وہ ایک نئی پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں جس کا نام پاکستان مسلم لیگ ہے اور اس کا منشور وہی ہے جو ملت پارٹی کا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملت پارٹی جن اعلیٰ مقاصد کے لیے بنائی گئی تھی پاکستان مسلم لیگ کے بھی وہی مقاصد ہوں گے۔ فاروق لغاری نے اپنی تقریر میں بار بار جنرل پرویز مشرف کا حوالہ دیا اور کہا کہ انہوں نے ملت پارٹی کے مسلم لیگ میں شامل ہونے کا کہا تھا اور انہوں نے ملت پارٹی کی شرائط کو تسلیم کیا تھا۔ فاروق لغاری نے کہا کہ انہوں نے صدر مشرف سے کہا تھا کہ انہیں نئی جماعت میں کوئی عہدہ نہیں چاہئے لیکن ان کی پارٹی کے ورکروں کو اہلیت کے مطابق جائز مقام ملنا چاہئے۔ اس پر جنرل مشرف کا جواب تھا کہ ملت پارٹی کے کارکنوں سے ناانصافی نہیں ہوگی۔ جس طرح فاروق لغاری اپنی تقریر میں بار بار جنرل مشرف کا حوالہ دے رہے تھے اس سے یہ تاثر ابھر رہا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ کے اصل کرتا دھرتا صدر جنرل پرویز مشرف ہیں۔ ملت پارٹی سے پہلے مسلم لیگ کے نواز شریف کے دھڑے کے علاوہ تمام گروپ آپس میں ضم ہونے کا اعلان کرچکے ہیں اور مسلم لیگ(ق) کے چودھری شجاعت حسین کو اپنا صدر تسلیم کرچکے ہیں۔ فاروق لغاری نے وزیراعظم نوازشریف سے اختلافات پر صدر مملکت کے عہدے سے استعفی دینے کے بعد چودہ اگست انیس سو اٹھانوے میں ملت پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ اس سے پہلے وہ پیپلز پارٹی میں شامل تھے جس نے انہیں انیس سو ترانوے کے انتخابات کے بعد صدر منتخب کروایا تھا۔ لغاری نے انیس سو چھیانوے میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برخواست کرتے ہوئے پارلیمان کو تحلیل کیا تھا۔ ملت پارٹی کی نیشنل کونسل نے پارٹی کے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ میں باقاعدہ شامل ہونے کی منظوری دیتے ہوئے پارٹی کے صدر فاروق لغاری کو تمام اختیارات سونپ دیے ہیں۔ text: یانگون کے انتہائی مقبول اِن ڈور سکائی ڈائیونگ سینٹر میں آپ فضا میں گئے بغیر طیارے سے چھلانگ لگانے کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ مگر یہاں اس مصنوعی سکائی ڈائیونگ سے لطف اندوز ہوتے چند ہی لوگوں کو پتا ہوگا کہ یہ ملک کی فوج کی بزنس سلطنت کا حصہ ہے، ایک ایسی سلطنت جس کے حصے آپ کو عام زندگی کے ہر کونے میں نظر آئیں گے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہی بزنس نیٹ ورک ہے جو کہ فوجی بغاوت کو ممکن بناتا ہے اور فوج کے احتساب کو کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ عام کاروباری افراد ملک کے کاروباری ماحول کو ‘مافیا کے زیرِ اثر سسلی‘ سے تشبیہ دیتے ہیں جبکہ کارکنان کا کہنا ہے کہ ‘جمہوری اصلاحات تب ہی ممکن ہوں گی جب فوج بیرکس میں لوٹے گی۔‘ فوج کی دولت کا ذریعہ دو بڑی کمپنیاں میانمار کی افواج کا سرکاری نام ’ٹٹمادو‘ ہے۔ ملک کی افواج نے کاروباری دنیا میں 1962 کی سوشلسٹ بغاوت کے بعد قدم رکھا تھا۔ کئی برسوں تک فوجی بیٹالیئنز پر لازم تھا کہ وہ خود کفیل ہوں اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ مقامی کاروباروں میں حصہ ڈالیں اور اپنے آپریشنز کی مالی فنڈنگ خود کریں۔ یہ بھی پڑھیے میانمار میں منتخب حکومت گرا کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی سربراہ کون ہیں؟ میانمار میں فوجی بغاوت: فوج نے ایسا کیوں کیا اور اب مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟ آنگ سان سوچی کے خلاف غیر قانونی کمیونیکیشن آلات استعمال کرنے کا مقدمہ یانگون کے انتہائی مقبول اِن ڈور سکائی ڈائیونگ سینٹر بھی فوج کے کاوباروں میں سے ایک ہے (فائل فوٹو) اگرچہ اب یہ رحجان ختم ہو چکا ہے تاہم 1990 کی دہائی میں فوج نے ایک ایسی وقت پر دو کمپنیاں بنائیں جب حکومت ریاستی صنعتوں کی نجکاری کر رہی تھی۔ یہ دونوں کمپنیاں میانمار اکانومک کاروپریشن اور میانمار اکانومک ہولڈنگز لمیٹڈ اب فوج کے لیے دولت کا ایک اہم ذریعہ بن گئی ہیں اور ان کے بینکاری اور کان کنی سے لے کر تمباکو اور سیاحت سب میں حصہ ہے۔ میانمار اکانومک ہولڈنگز لمیٹڈ فوج کا پینشن فنڈ بھی چلاتی ہے۔ متعدد فوجی لیڈران اور ان کے خاندان والوں کے اپنے کاروباری مفادات ہیں اور ماضی میں ان پر پابندیاں بھی لگائی جا چکی ہیں۔ فوجی بغاوت کی قیادت کرنے والے جنرل من آنگ ہلینگ کے بیٹے آنگ پائے سونے متعدد کمپنیوں کے مالک ہیں جن میں ایک ساحلی ہوٹل کے علاوہ قومی ٹیلی کام کمپنی ’مائی ٹیل‘ میں نصف سے زیادہ شیئرز بھی شامل ہیں۔ تاہم ان تمام کاروباری مفادات کا مکمل اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فوج کا کاروباری اثر و رسوخ کافی زیادہ ہے حالانکہ ملک میں جمہوری اصلاحات کی جا چکی ہیں، اور ہوسکتا ہے کہ حالیہ بغاوت ان مفادات کے تحفظ کے لیے کی گئی ہو۔ ‘احتساب سے بالاتر‘ فوج کے کاروباری مفادات کے بارے میں ہمیں جو تھوڑا بہت پتا ہے یہ سب حال ہی میں منظرِ عام پر آیا ہے۔ میانمار میں روہنگیا برادری کے خلاف مظالم کے بعد اقوام متحدہ کی روہنگیا برادری کے حوالے سے 2019 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ کاروباری وسائل فوج کو بغیر کسی پکڑ کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اپنے خود کے کاروباری وسائل اور مفادات کے ذریعے فوج خود کو نگرانی اور احتساب سے دور رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ میانمار اکانومک ہولڈنگز لمیٹڈ کے داخلی ڈھانچے اور مالی معاملات کے بارے میں دو رپورٹیں بھی منظرِ عام پر آ چکی ہیں، ایک تو جنوری 2020 میں کمپنی نے خود شائع کی اور دوسری ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ’جسٹس فار برما‘ نامی گروہ نے لیک کی تھی۔ فوجی بغاوت کی قیادت کرنے والے جنرل من آنگ ہلینگ ان میں دیکھا گیا کہ یہ کمپنیاں فوج کے اعلیٰ حکام جن میں سے کچھ موجودہ بغاوت میں بھی ملوث ہیں، چلاتے ہیں۔ اس کمپنی کے تقریباً ایک تہائی شیئر فوجی یونٹس کے پاس ہیں اور باقی موجودہ اور سابق فوجی حکام کے پاس ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1990 اور 2011 کے درمیان میانمار اکانومک ہولڈنگز لمیٹڈ نے اپنے شیئر ہولڈرز کو 108 ارب کایاٹ جو کہ تقریباً 16.6 ارب ڈالر بنتے ہیں، ادا کیے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فوج اپنے لوگوں کو نوازنے یا سزا دینے کے لیے میانمار اکانومک ہولڈنگز لمیٹڈ کے شیئرز استعمال کرتی ہے۔ مثلاً 35 افراد کے منافعے اس لیے ہمیشہ کے لیے روک دیے گئے کیونکہ انھوں نے کوئی فوجی جرم کیا تھا۔ میانمار اکانومک ہولڈنگز لمیٹڈ نے اب تک اس رپورٹ کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ دوبارہ پابندیوں کے مطالبات حالیہ فوجی بغاوت کے بعد لوگوں کا کہنا ہے کہ فوج اور اس کے عالمی مالیاتی نظام تک رسائی پر پابندی لگائی جائے۔ بہت سے لوگ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان فوجی کمپنیوں کو ختم کر دیا جائے۔ بی بی سی کو دیے گئے ایک بیان میں جسٹس فار میانمار نامی تنظیم نے الزام لگایا کہ فوج ‘غیر قانونی مفادات کے تصادم‘ میں ملوث ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’فوج اور اس کے کاروباروں نے جو دولت لوٹی ہے وہ میانمار کے لوگوں کی ہے اور اسے لوٹایا جانا چاہیے۔‘ امریکہ نے میانمار کے اعلیٰ فوجی حکام اور چند حکومتی افراد سمیت کان کنی کی تین کمپنیوں کے خلاف نئی پابندیاں لگا دی ہیں۔ کینیڈا، نیوزی لینڈ اور برطانیہ نے بھی اپنی جانب سے اقدامات کیے ہیں تاہم کسی بھی ملک نے ان دو کمپنیوں کو براہِ راست نشانہ نہیں بنایا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ تاریخی طور پر نے کمزور پابندیوں کی وجہ سے فوج بغاوتیں کر سکی ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی کرتی رہی ہے۔ مگر ماہرین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان مغربی ممالک میں صحیح وقت پر ان پابندیوں میں سختی کرنے کا خیال ضرور موجود ہے۔ ایکسز ایشیا نامی رسک مینجمنٹ کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر جارج مکلوئڈ کا کہنا ہے کہ ‘اس وقت دیگر ممالک یہ دیکھ رہے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔‘ ادھر مقامی کاروباروں میں ان کمپنیوں کی بے پناہ طاقت کے حوالے سے ناراضی پائی جاتی ہے۔ مکلوئڈ بتاتے ہیں ’وہ اس بارے میں ایسے ہی بات کرتے ہیں جیسے کہ سسلی میں کوئی کاروباری مافیا کے بارے میں بات کرتا ہے۔ اگر آپ ان کے ریڈار سے گزریں تو آپ و ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن آپ ایسا نہیں کرنا چاہتے ہیں۔‘ ‘وہ ایک عالمی سطح کے کھلاڑی بننا چاہتے ہیں‘ فوج پر غیر ملکی سرمایہ کاروں کا دباؤ بھی بڑھنے لگا ہے۔ مشروبات بنانے والی جاپانی کمپنی کرن نے میانمار اکانومک ہولڈنگز لمیٹڈ کے ساتھ دو معاہدے ختم کیے ہیں جن کی مدد سے وہ میانمار کی بیئر کی مارکیٹ پر حاوی تھے۔ سنگاپور کے کاروباری شخصیت لم کالنگ نے میانمار کی تمباکو کی ایک کمپنی میں سرمایہ کاری روک دی ہے۔ ادھر مقامی مظاہرین فوجی حکومت کے زیر کنٹرول کمپنیوں کی اشیا کا بائیکاٹ کر رہے ہیں جن میں جیولری کی دکانوں سے لے کر سگریٹ کے برانڈ تک شامل ہیں۔ ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگرچہ پابندیاں اہم ہیں لیکن قانونی اور سفارتی دباؤ بھی ہونا چاہیے اور ملک کو ہتھیاروں کی فروخت پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ عالمی سطح پر پابندیوں کی گونج ہے لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر ممبران کی جانب سے میانمار کی فوج کی مذمت کرنے کی کوششوں کو چین اور روس نے فی الحال کامیاب نہیں ہونے دیا ہے۔ میانمار کی فوج کے نائب چیف نہ اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے عالمی دباؤ کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔ آگے جو بھی ہو، ناقدین کا کہنا ہے کہ فوج کی دولت کو کھینچنے اور ان کی کمپنیوں میں اصلاحات ہی ملک میں جمہوری اصلاحات کی راہ ہموار کریں گی۔ برما کیمپیئن یو کے کی ڈائریکٹر اینا رابرٹس کہتی ہیں کہ ‘یہی عوام چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ فوج واپس بیرکس میں جائے، سویلین معیشت ہو اور ایک ایسی وفاقی جمہوری حکومت ہو جو ان کی خواہشات کا احترام کرے۔‘ میانمار میں حال ہی میں حکومت کا تختہ الٹنے والی فوج کے حصے میں ملک کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ آتا ہے۔ مگر ملک کی مسلح افواجکو ایک وسیع اور خفیہ کاروباری سلطنت کے ذریعے بے تحاشہ دولت بھی حاصل ہوتی ہے: text: امریکہ کا کہنا ہے کہ اس خط سے ایران کے بارے میں دنیا کے خدشات ختم کرنے میں کوئی نہیں ملے گی۔ ایرانی حکومت کا کہنا ہے کہ ایران کےصدر محمود احمدی نژاد نےاپنے امریکی ہم منصب جارج بش کو ایک خط تحریر کیا ہے جس میں عالمی مسائل کے حل کی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ ایرانی صدر نے یہ خط تہران میں سوئٹزرلینڈ کے سفارت خانے کے ذریعے امریکہ کو بھیجا اور یہ 1979 کے بعد کسی ایرانی صدر کی طرف سے امریکی ہم منصب کے ساتھ پہلی خط و کتابت ہے۔ ایران نے کہا تھا کہ اس خط سے دنیا کےمعاملات کو ٹھیک کرنے میں مدد ملے گی لیکن ایران کے اس خیال کو فوراً مسترد کر دیا۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان سے جب پوچھا گیا کہ کیا امریکہ صدر نے خود ایرانی صدر کا خط پڑھا ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ صرف خط موصول ہونے کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ ایران کے حکومتی ترجمان غلام حسن الہام کے مطابق اس خط میں بین الاقوامی حالات کا جائزہ لیا گیا ہے اور دنیا کے موجودہ سیاسی حالات اور مسائل کے حل کی نئی تجاویز بھی دی گئی ہیں۔ تاہم ترجمان نے یہ نہیں بتایا کہ اس خط میں ایران کے جوہری تنازعے کا ذکر ہے یا نہیں کیونکہ یہی وہ مسئلہ ہے جو امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ تناؤ کی وجہ ہے۔ امریکہ ایران پر جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیئے کوشش کرنے کا الزام لگاتا ہے جسے ایران اب تک مسترد کرتا آیا ہے۔ امریکہ نے ایران سے اپنے سفارتی تعلقات 1980 میں تہران میں امریکی سفارت خانے پر ایرانی عوام کے قبضے اور باون امریکیوں کو یرغمال بنائے جانے کے بعد منقطع کر لیئے تھے۔ تہران میں بی بی سی کی نمائندہ فرانسس ہیریسن کا کہنا ہے کہ چاہے یہ صرف ایک خط ہے لیکن اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں ممالک کے درمیان تین عشروں میں ہونے والا پہلا اعلٰی سطحی رابطہ ہے۔ ایرانی صدر نے اس خط کے ذریعے یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ جوہری تنازعے کے حل کی خاطر امریکی صدر سمیت کسی سے بھی مذاکرات کر سکتے ہیں۔ امریکہ نے ایران کے صدر احمدی نژاد کی طرف سے امریکی ہم منصب جارج بش کو لکھے گئے خط کے موصول ہونے کی تصدیق کی ہے۔ text: فوجی حکام کے مطابق یہ افراد پاکستان سے ایل او سی عبور کر کے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ فوجی ترجمان کے مطابق راجوڑی ڈسٹرکٹ کے تراکنڈی گاؤں میں گشت میں مصروف فوجیوں نے کچھ افراد کو ایل او سی عبور کرنے کی کوشش کرتے دیکھا۔ ترجمان نے بتایا کہ فوجیوں کے للکارنے پر فریقین میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا جو تین گھنٹے تک جاری رہا اور اس دوران چار شدت پسند ہلاک ہوگئے جبکہ فوج کو کوئی جانی نقصان نہیں اٹھانا پڑا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارتی فوجیوں نے جائے وقوعہ سے ہتھیار اور گولیاں برآمد کی ہیں جبکہ ہلاک ہونے والے افراد کی تاحال شناخت نہیں ہو سکی ہے۔ بھارتی حکام نے یہ بھی دعوٰی کیا ہے کہ برف کے پگھلنے کے ساتھ ہی ایل او سی پر پاکستانی جانب سے دراندازی کی کارروائیوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور گزشتہ ماہ کے دوران اس قسم کے ہی چھ واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں اب تک دس دراندازوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کے علاقے راجوڑی میں فوج نے اتوار کو رات گئے چار مبینہ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوٰی کیا ہے۔ text: پیر کو ایک مختصر پریس کانفرنس میں البرٹو گونزالز نے کہا کہ’میرے لیے محکمۂ قانون کی سربراہی ایک اعزاز تھا‘۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے صدر بش سے اتوار کو ملاقات میں اپنا استعفٰی پیش کیا جو سترہ ستمبر سے نافذ العمل ہوگا۔ یاد رہے کہ کانگریس ممبران نے اٹارنی جنرل پر وفاقی وکلاء کی برطرفی کے معاملے میں اپنے عہدے کے ناجائز استعمال کے الزامات عائد کیے تھے اور ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔ البرٹو ان الزامات سے انکار کرتے آئے ہیں۔ امریکی صدر جارج بش نے پیر کو البرٹو گونزالز کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کئی ماہ تک غیر منصفانہ رویے کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے نام پر سیاسی وجوہات کی بناء پر کیچڑ اچھالی گئی۔صدر بش کا یہ بھی کہنا تھا کہ’ مسٹر گونزالز نے دہشتگردی کے خئلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا اور اپنے ملک کو محفوظ بنانے کے لیے انتھک کوشش کی۔ البرٹو گونزالز اس وقت سے صدر بش کے ساتھ ہیں جب وہ ٹیکساس کے گورنر تھے۔ واشنگٹن میں بی بی سی کے جیمز کمارسوامی کے مطابق گونزالز کا مشار صدر بش کے معتمد اور قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے تاہم ان کی شخصیت متعدد تنازعات کا شکار رہی ہے۔ وکلاء کی برطرفی کے علاوہ البرٹوگونزالز کا نام گوانتانامو بے کے قیدیوں کے حوالے سے اصول وضع کرنے اور ایک خفیہ فوٹ ٹیپنگ پروگرام کی اجازت دینے کے حوالے سے بھی لیا جاتا رہا ہے۔ گونزالز اس ماہ میں اپنے عہدے سے الگ ہونے والے دوسرےاہم امریکی عہدیدار ہیں ۔ اس سے قبل اگست کے اوائل میں صدر بش کے معتمد ترین مشیر کارل روو نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا جبکہ مئی میں ورلڈ بنک کے سربراہ پال ولفووٹز نے ایک سکینڈل کے بعد اپنے عہدے سے استعفٰی دے دیا تھا۔ امریکی اٹارنی جنرل البرٹوگونزالز نے آٹھ امریکی وکلاء کی برطرفی کے حوالے سے استعفٰی کے مطالبے پر باقاعدہ طور پر مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ text: ایک جیوری نے برمنگھم سے تعلق رکھنے والے زکریا بوفاسِل کو دہشت گردی کے عمل کی تیاری کے جرم میں سزا سنائی ہے۔ انھیں الزامات کا سامنا کرنے والے ایک دوسرے شحص محمد علی احمد نے اعترافِ جرم کر لیا ہے۔ برطانیہ میں کنگسٹن کراؤن کورٹ کو بتایا گیا کہ محمد ابرینی کو یہ رقم جولائی 2015 کو ادا کی گئی۔ دونوں افراد کو 12 دسمبر کو سزا سنائی جائے گی۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ یہ رقم ایک ایسے شخص کے بنک اکاؤنٹ سے نکلوائی گئی تھی جو پہلے ہی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے ساتھ لڑنے کے لیے برطانیہ سے شام روانہ ہو چکا تھا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ اس میں زیادہ تر رقم وہ تھی جو حکومت سے بینیفٹس کے مد میں وصول کی گئی تھی۔ جیوری کو بتایا گیا کہ ابرینی اس سال مارچ میں برسلز میں ائیر پورٹ اور ریلوے سٹیشن پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں ملوث ہے جس میں 32 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حملے کے بعد جاری ہونے ہونے والی سی سی ٹی وی فٹیج کے بعد اسے ’ہیٹ والے شخص‘ کے طور پر پہچانا جانے لگا۔ استغاثہ کے وکیل میکس ہِل نے عدالت کو بتایا کہ ابرینی پر مبینہ طور پر 13 نومبر 2015 کو پیرس میں ہونے والے حملوں میں ملوث ہونے کا الزام بھی ہے جس میں 130 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ انھوں نے جولائی 2015 کو ہونے والے میٹنگ کے بارے میں کہا کہ ’آپ کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ احمد، ابرینی اور مسٹر بوفاسِل میں اس دِن ملاقات ہوئے تھی -- اور یہ کہ اسی موقع پر ابرینی کو رقم کی ادائیگی کی گئی تھی۔‘ تاہم انھوں نے جیوری کو بتایا کہ ’ابرینی کو ادا کی گئی رقم کا اصل استعمال‘ کیس کا حصہ نہیں ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ اپریل میں برسلز سے گرفتار ہونے والے محمد ابرینی نے ترکی کے راستے شام سے برطانیہ تک کا سفر کیا تھا۔ ایک ہفتے پر محیط اس دورے کے دوران وہ برمنگھم اور مانچسٹر میں واقع کئی جوا خانوں اور شاپنگ سنٹروں میں گئے تھے۔ اس دورے میں انھوں نے مانچسٹر یونائیٹڈ کے اولڈ ٹریفورڈ فٹ بال سٹیڈیم کا بھی دورہ کیا تھا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ابرینی نے بیلجیئم کی پولیس کو ایک انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ ان کے برطانیہ کے دورے کا مقصد دہشت گرد حملوں کی تیاری کے لیے ریکی کرنا نہیں تھا۔ عدالتی کارروائی کے دوران بوفاسِل نے ابرینی سے پارک میں ملاقات کرنے کا اعتراف کیا لیکن اس بات سے انکار کیا کہ اس کا تعلق دہشت گردی اور اس کا فنڈنگ سے تھا۔ پیرس اور برسلز میں دہشت گرد حملوں کے اہم کردار محمد ابرینی کو برمنگھم کے ایک پارک میں تین ہزار پاؤنڈ دینے پر ایک چھبیس سالہ شحص کو مجرم قرار دیا گیا ہے۔ text: کپتان بھلے کتنا ہی باصلاحیت اور چاروں خانے فٹ کیوں نہ ہو، اکیلے میچ نہیں جیت سکتا انھوں نے اپنی سفارتی ٹیم کو بھی ایڑیوں پر رکھا اور ایک سپورٹس مین والی توانائی برقرار رکھتے ہوئے لائن اینڈ لینتھ کے ساتھ صرف ایک وکٹ کو نشانہ بناتے ہوئے مدلل گیند سے اچھی خاصی متاثر کن بولنگ کی۔ اگرچہ وکٹ تو نہیں اڑی مگر میڈن اوور نے مخالف بلے باز کو کشمیری پچ پر ایک رن بھی نہیں بنانے دیا اور وہ تیز رفتار گیند پر چوکا چھکا لگانے کے بجائے اِدھر اُدھر نکالتا رہا۔ مگر یہ کوئی ٹی ٹونٹی، ون ڈے یا ایک ٹیسٹ نہیں بلکہ پوری سیریز کا معاملہ ہے۔ وسعت اللہ خان کے دیگر کالم پڑھیے عوام اینڈ سنز آئین کھانستا ہوا بابا ہے اور جوتے نے کتاب کو دھکا دے دیا عالمی برادری کس ایڈریس پر رہتی ہے؟ سیریز جیتنے کے لیے ایک مؤثر گیم پلان، سپنرز، فاسٹ بولرز، اوپنرز اور مڈل آرڈر بیٹنگ کا متوازن کومبینیشن، میرٹ پر سلیکشن، گراؤنڈ کے حالات دیکھتے ہوئے حکمتِ عملی میں بروقت تبدیلی، مخالف ٹیم کی کمزوری و طاقت پر نظر اور اس سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش، جیتنے کے ارادے ظاہر کرنے والی باڈی لینگویج، باقاعدہ نیٹ پریکٹس، مضرِ صحت عادات و اشیا سے پرہیز، کھلاڑیوں کے مورال اور ذہنی و جسمانی ضروریات کا مسلسل خیال، فیورٹ ازم سے چھٹکارا اور مشکل حالات میں بھی جیت کے عزم کو برقرار رکھنا ازحد ضروری ہے۔ سیریز کیا میچ بھی نہیں جیتا جا سکتا اگر اپنی خامیوں کو دور کرنے کے بجائے بارش کی دعائیں مانگی جائیں، کھلاڑی دیر تلک جاگنے یا سونے، ہر اناپ شناپ کھانے پینے، یا سٹے بازوں اور حسیناؤں سے فون نمبرز کے تبادلے کو کوئی مسئلہ ہی نہ سمجھیں۔ پھر میدان میں آدھے جاگتے آدھے سوتے اتریں تو ہر فیصلے کے لیے تھرڈ امپائر کی طرف دیکھیں، فیصلہ مرضی کا نہ ہو تو بلا زمین یا وکٹ پر مارتے بکبکاتے پویلین کی طرف روانہ ہو جائیں۔ ٹیسٹ میچ کیا ٹی ٹونٹی بھی نہیں جیتا جا سکتا اگر ٹیم کی فتح و شکست کا دار و مدار صرف ایک آدھ بولر یا ایک دو بلے بازوں پر ہو۔ چل گئے تو چل گئے نہ چلے تو ٹیم کو بھی ساتھ باندھ لے گئے۔ اگرچہ وکٹ تو نہیں اڑی مگر میڈِن اوور نے مخالف بلے باز کو کشمیری پچ پر ایک رن بھی نہیں بنانے دیا اور وہ تیز رفتار گیند پر چوکا چھکا لگانے کے بجائے ادھر ادھر نکالتا رہا کپتان بھلے کتنا ہی باصلاحیت اور چاروں خانے فٹ کیوں نہ ہو، اکیلے میچ نہیں جیت سکتا۔ کپتان بھلے کتنا ہی پروفیشنل، بے داغ پرفارمنس والا یا ہر حالت میں پرعزم ہو، اپنی انفرادی پرفارمنس کے باوجود کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا اگر ٹیم بھی صلاحیت، عزم اور پروفیشنل اِزم میں کپتان کے ہم پلہ نہ سہی اس کی آدھی بھی نہ ہو۔ ایک دو ریلو کٹے تو کسی بھی ٹیم میں کھپ جاتے ہیں اگر باقی آٹھ یا نو معیاری ہوں۔ مگر جہاں کیمپ ہی بہت سے سفارشیوں، ماٹھوں، پرچی بازوں اور بھائی بھتیجوں سے بھرا ہو، اس کیمپ میں سے میرٹ کے اصول پر بھی جو ٹیم سلیکٹ ہو گی وہ دنیا کے بہترین کپتان کی قیادت میں بھی کیا کر لے گی۔ لہٰذا اگر واقعی کشمیر سمیت کوئی بھی بین الاقوامی کپ جیتنے کی نیت ہے تو پھر ڈومیسٹک کرکٹ کو پسند ناپسند کی نحوست سے نکالنا ہو گا۔ سلیکٹرز کو پروفیشنلز کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی جگہ خالی کرنی ہو گی۔ ٹیم منیجر اور بورڈ کو کپتان کو سنانی نہیں بلکہ اس کی سننی ہو گی۔ چلتی سیریز میں یا سیریز سے ذرا پہلے کپتان بدلنے کی عادت ختم کرنی ہو گی۔ اسے مکمل تعاون فراہم کرنا ہو گا اور سب سے اہم یہ کہ پھر ایسی ٹیم کو ہار اور جیت کے نفسیاتی دباؤ سے آزاد کرنا ہو گا۔ نیز کسی بھی میچ کے دوران کسی بھی غیر کھلاڑی کا، بھلے وہ کتنا ہی پھنے خان ہو، ڈریسنگ روم میں داخلہ بند کرنا پڑے گا اور میچ کے دوران کھلاڑیوں سے موبائل فون واپس لینے ہوں گے کیونکہ جدید موبائل فون میں سب سے خطرناک شے ’واٹس ایپ‘ ہے۔ کپتان کو میڈِن پرفارمنس کے بعد وطن واپسی مبارک ہو۔ مگر اب سیریز جیتنے کے لیے آگے کیا کرنا ہے؟ جذبات سے دھکا تو لگایا جا سکتا ہے البتہ ڈرائیونگ کے لیے عقل ہی کام آتی ہے۔ بلاشبہ گزرا ہفتہ وزیرِ اعظم عمران خان کا سب سے مصروف بین الاقوامی ہفتہ تھا، روزانہ اوسطاً دس ملاقاتیں، انٹرویوز اور خطابات۔ text: اورکزئی ایجنسی سے ملنے والی اطلاعات میں سرکاری ذرائع کے مطابق یہ واقعہ منگل کو اتمان خیل کے علاقے میں پیش آیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ خیبر ایجنسی کی دو مبینہ مخالف شدت پسند تنظیموں لشکر اسلام اور انصارالاسلام کے مسلح حامی باڑہ اور وادی تیراہ کے علاقوں سے گاڑیوں میں آ رہے تھے کہ اندارے کے مقام پر سڑک کے کنارے دونوں مسلح گروہوں نے آمنا سامنا ہوتے ہی ایک دوسرے پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ ان لوگوں کا کہنا ہے مسلح افراد نے ایک دوسرے کے خلاف بھاری اور خود کار ہتھیاروں کا آزادنہ استعمال کیا جس سے اتمان خیل کا علاقہ کئی گھنٹے تک میدان جنگ کا منظر پیش کرتا رہا۔ سرکاری ذرائع نے اس مسلح تصادم میں تین افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے جبکہ متعدد زخمی بتائے جا رہے ہیں تاہم مقامی ذرائع نے ہلاک شدگان کی تعداد آٹھ بتائی ہے۔ ہلاک ہونے والے افراد میں دو کا تعلق لشکر اسلام اور ایک کا انصارالاسلام سے بتایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ اورکزئی ایجنسی کا علاقہ اتمان خیل ایک اور قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے ملحق ہے۔ اس علاقے میں دونوں تنظیموں کے حامیوں کا اکثر اوقات آنا جانا رہتا ہے۔ خیبر ایجنسی کی ان دو شدت پسند تنظیموں لشکر اسلام اور انصارالاسلام کے حامیوں کے درمیان گزشتہ چند سالوں سے مسلکی اختلافات چلے آ رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے درمیان کئی بار جھڑپیں ہوچکی ہیں جن میں اب تک دونوں طرف درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقے اورکزئی ایجنسی میں حکام کا کہنا ہے کہ دو مبینہ شدت پسند تنظیموں کے مابین مسلح تصادم میں کم از کم تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں جبکہ مقامی ذرائع نے ہلاک شدگان کی تعداد آٹھ بتائی ہے۔ text: اسلام آباد میں جاری دو طرفہ مذاکرات کے پہلے روز بدھ کو فریقین نے کہا ہے کہ مختلف تجاویز پر بحث ہوئی ہے۔ بھارتی وفد کی قیادت ان کی وزارت خارجہ کے ایڈیشنل سیکریٹری کے سی سنگھ جب کہ پاکستانی وفد کی قیادت طارق عثمان حیدر کر رہے ہیں اور وفود میں خارجہ اور دفاع کی وزارتوں کے سینیئر حکام بھی شامل ہیں۔ مزید بات چیت بدھ کو ہو گی جس بعد مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوگا۔ جب کہ دونوں ممالک کے نمائندوں میں روایتی اسلحہ کے متعلق اعتماد کی بحالی کے اقدامات پر بات چیت جمعرات کو ہو گی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ’جوہری حادثات کے خطرات کم کرنے اور جوہری اسلحہ کے غیر قانونی استعمال، کو روکنے کے بارے میں معاہدے کے مسودے پر تفصیلی بات چیت ہوئی ہے اور اس ضمن میں پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ حکام کے مطابق بات چیت کے دوران پاکستان کی جانب سے پیش کردہ ’سٹریٹیجک ریسٹرینٹ رجیم‘ اور سمندری کے معاہدے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔ تاہم اس تجویز کے بارے میں پیش رفت کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ مشترکہ بیان کے بعد ہی اصل صورتحال کا اندازہ ہوسکے گا۔ مہمان وفد نے منگل کو وزیر مملکت برائے خارجہ مخدوم خسرو بختیار سے بھی ملاقات کی۔ ملاقات کے بارے میں جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ نائب وزیر نے کہا کہ دونوں ممالک میں جامع مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے اعتماد کی بحالی کے اقدامات ضروری ہیں۔ واضح رہے کہ دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے ہفتہ وار بریفنگ میں پیر کو بتایا تھا کہ پاکستان اس بات چیت میں نئی تجاویز بھارتی وفد کے سامنے غور کے لیے رکھےگا تاہم انہوں نے ان تجاویز کی تفصیلات نہیں بتائیں تھیں۔ اس بات چیت کے تیسرے دور میں گزشتہ برس دونوں ممالک نے بیلسٹک میزائل کے تجربوں کی پہلے سے ایک دوسرے کو آگاہی کے معاہدے اور جوہری معاملات پر فوری رابطوں کے لیے ہاٹ لائن قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ پاکستان اور بھارت نے کہا کہ جوہری اور روایتی ہتھیاروں کے حوالے سے اعتماد کی بحالی کے اقدامات پر مذاکرات مثبت ماحول میں چل رہے ہیں۔ text: وائٹ ہاؤس کے ترجمان شان سپائسر کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جنرل فلن کی روسی سفیر کے ساتھ بات چیت کے معاملے کا کئی ہفتوں سے علم تھا۔ روس سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن پابندیاں ہٹانے کی بات قبل ازوقت: صدر ٹرمپ ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ ماہ کے آخر میں وزارتِ قانون نے صدر ٹرمپ کو بتایا تھا کہ ممکن ہے جنرل فلن نے امریکی حکام سے جھوٹ بولا ہو۔ شان سپائسر کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا اب بھی یہی موقف ہے کہ جنرل فلن نے کچھ غلط نہیں کیا اور انھیں صرف اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی وجہ سے نکالا گیا ہے۔ اس سے قبل جنرل فلن کے معاملے پر وائٹ ہاؤس کے مشیر کیلی این کانوے نے کہا تھا کہ نائب صدر کو گمراہ کرنے کے بعد صدر ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی مائیکل فلن کو معلوم تھا کہ انھیں عہدہ چھوڑنا ہی ہوگا۔ کیلی این کانوے کا کہنا تھا کہ مائیکل فلن کو معلوم تھا کہ وہ اب ایسی شخصیت بن گئے ہیں جن کی حمایت کے لیے انتظامیہ کچھ نہیں کر سکتی اور انھوں نے اسی لیے یہ فیصلہ کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی جنرل مائیکل فلن نے گذشتہ روز امریکی پابندیوں کے بارے میں روسی حکام سے بات چیت کے الزامات پر استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کی جگہ عارضی طور پر یہ ذمہ داری ریٹائرڈ جنرل جوزف کیتھ کیلوگ نے سنبھالی ہے۔ ادھر کانگریس میں صدر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کے اراکین نے کانگریس کی جانب سے جنرل فلن کی مذکورہ بات چیت کی چھان بین کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ اگر جنرل فلن پر لگائے گئے الزامات درست ہیں تو ان کے اقدامات مجرمانہ ہوں گے۔ جنرل فلن پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے صدر ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل روسی سفیر کے ساتھ امریکی پابندیوں کے بارے میں بات کی تھی۔ کیلی این کانوے کا کہنا تھا کہ نائب صدر سے غلط بیانی کرنا ہی جنرل فلن کا وہ اقدام ہے جس کی وجہ سے بات انتظامیہ کے کنٹرول میں نہیں رہی۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان شان سپائسر نے اس بارے میں اپنی بریفنگ میں کہا کہ صدر ٹرمپ نے جنرل فلن سے استعفیٰ اس لیے مانگا کیونکہ ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی تھی۔ امریکی میڈیا میں یہ باتیں سامنے آئیں تھیں کہ وزارت انصاف نے وائٹ ہاؤس کو گذشتہ ماہ ہونے والے رابطوں کے بارے میں متنبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ فلن روس کی بلیک میلنگ سے متا‎‎ثر ہو سکتے ہیں۔ جنرل مائیکل فلن اس وقت شدید تنقید کا نشانہ بنے جب میڈیا میں ان کے بارے میں یہ اطلاعات آئیں کہ انھوں نے صدر ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل روسی سفیر کے ساتھ امریکی پابندیوں کے بارے میں بات کی۔ امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس نے جنرل فلن کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی تاہم اس تردید کے بعد مائیکل فلن نے حکام کو بتایا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ پابندیوں پر بات چیت کی گئی ہو۔ ادھر روس کے صدارتی ترجمان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ روسی سفیر اور جنرل فلن نے پابندیاں اٹھانے کے بارے میں بات نہیں کی۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکی حکام اور عوام کو گمراہ کرنے کے بعد صدر ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی مائیکل فلن کو معلوم تھا کہ انھیں اپنا عہدہ چھوڑنا ہی ہوگا۔ text: پچیس برس کے نارائن بسواس نے اپنی اسی برس کی نانی سے ہندو رسم و رواج کے مطابق کلکتہ سے ایک سو کلو میٹر دور گزشتہ ہفتے اپنے گاؤں میں شادی کر لی ہے۔ نارائن کا کہنا ہے کہ اس نے یہ رشتہ اپنی نانی کی خدمت کرنے کے لۓ جوڑا ہے۔ نارائن کی گزر بسر کا دارومدار اس کی نانی کی ملکیت والے چاول کے کھیتوں اور جزوقتی طور پر پڑھانے پر ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی نانی کی بہتر خدمت ایک نواسے سے زیادہ بحیثیت ایک شوہر کے کر سکتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اس رشتے سے اپنی نانی کے کشادہ گھر اور ان کے پانچ ایکڑ سے زائد رقبے پر پھیلے چاول کے کھیتوں کو ہتھیانےکا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہے۔ نارائن کے پڑوسیوں نے اس پر الزام لگاتے ہوۓ کہا ہے کہ اس طرح وہ اپنے باقی چار بہن بھائیوں کو جائداد سے بے دخل کر کے تمام جائداد کا اکیلا وارث بننا چاہتا ہے۔ نارائن کی نانی یعنی پریمودہ کے سابق شوہر اور نارائن کے نانا کا انتقال تیس برس پہلے ہو گیا تھا اور نارائن کے ماں باپ تو اس کے بچپن میں ہی چل بسے تھے۔ نارائن اور اس کی نانی کی اس انوکھی شادی سے پورا گاؤں ششدر ہے کیونکہ خونی رشتوں میں شادی کرنا ہندو میرج ایکٹ یا ہندو شادی کے قوانین کے خلاف ہے۔ لیکن مقامی حکام نے اس شادی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ ریاست مغربی بنگال میں انوکھی شادی کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل گزشتہ برس جون میں ایک نو برس کی بچی کی ایک کتے سے صرف اس لۓ شادی کی گئی تھی کیونکہ پنڈت کا کہنا تھا کہ اس طرح پورے خاندان پر سے شیطانی غلبے ختم کۓ جا سکیں گے۔ بھارتی ریاست مغربی بنگال میں ایک نواسے نےعمر رسیدہ نانی کی خدمت کرنے کے لۓ انہی سے شادی کر لی ہے۔ text: کراچی میں اہل سنت و الجماعت نے شہر کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر تبت سینٹر کے مقام پر جلسے کا اعلان کیا کراچی سے نامہ نگار ریاض سھیل کے مطابق اہل سنت و الجماعت نے شہر کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر تبت سینٹر کے مقام پر جلسے کا اعلان کیا تھا، اس کے علاوہ شیعہ تنظیموں نے بھی جمعے نماز کے بعد احتجاج کا اعلان کر رکھا جس کے بعث صورتحال میں تناؤ پیدا ہوگیا لیکن بعد میں شیعہ تنظیموں نے اپنا احتجاج اتوار تک موخر کردیا ہے۔ اہل سنت و الجماعت نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی درخواست پر اپنا جلسہ تبت سینٹر کے بجائے گرومندر چوک پر منقتل کردیا ہے جہاں صبح سے کنٹینر اور دیگر رکاوٹیں کھڑی کرکے کئی سڑکوں کو بند کردیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ جلسے گاہ کے قریب شیعہ کمیونٹی کے مرکزی امام بارگاہ شاہ خراساں بھی موجود ہے، جہاں پولیس اور رینجرز کی نفری میں اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ صوبائی حکومت نے موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔ کراچی میں سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر حفاظتی انتظامات سخت ہیں غیر یقینی کی صورتحال کے باعث آج سڑک پر پبلک ٹرانسپورٹ معمول سے کم ہے جبکہ کئی نجی اسکول بھی نہیں کھل سکے ہیں، گزشتہ شب پرائیوٹ اسکولوں کی ایک تنظیم نے اسکول بند رکھنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن صوبائی وزیر نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ تمام اسکول معمول کے مطابق کھلیں گے۔ کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کا کہنا ہے کہ شہر کی صورتحال کو دیکھ کر گاڑیاں چلانے کا فیصلہ کیا جائے گا، گزشتہ شب سے جمعے کی صبح تک ٹی وی چینلز شہر کی تاجر تنظیمیوں کے یہ اعلامیہ نشر کرتے رہے ہیں کہ آج بازار اور مارکیٹیں کھلی رہیں گی۔ دوسری جانب رینجرز کے اعلامیے میں اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ تمام مذہبی جماعتیں امن کے قیام میں امن کردار ادا کرتی رہیں گی، ترجمان کے مطابق اگر کسی کے پاس اسلحہ نظر آیا یا کوئی اسلحے سمیت گرفتار ہوا اس کے خلاف انسداد دہشت گردی کے نئے قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گزشتہ شب سے صورتحال کشیدہ ہے، وفاق المدراس لعربیہ نے عاشورہ کے روز راولپنڈی میں پیش آنے والے واقعے کے خلاف یوم احتجاج منانے کا اعلان کیا ہے۔ text: لاہور کے حلقہ این اے 122 میں انتخاب پر مقامی کمیشن کے سربراہ نے الیکشن کمیشن میں آج اپنا بیان دیا یہ بات انھوں نے الیکشن کمیشن میں اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہی۔ غلام حسین اعوان نے کہا کہ جانچ پڑتال میں کوئی دھاندلی نہیں نظر آئی اور نہ ہی کوئی جعلی ووٹ نکلا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اِس بات کا فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہے کہ بے ضابطگیاں غیر قانونی کے زمرے میں آتی ہیں کہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر بے ضابطگیاں غیر قانونی قرار دی گئیں تو پھر اِنتخاب متاثر ہو سکتا ہے۔ اِس سے پہلے غلام حسین اعوان سنیچر کو ٹریبونل کے سامنے پیش ہوئے اور اپنا بیان ریکارڈ کروایا اور کہا کہ انکوائری کے دوران جو بھی حقائق اُنہیں نظر آئے اُن کو رپورٹ میں تحریر کر دیا ہے۔ عمران خان اور ایاز صادق کے وکلانے غلام حسین اعوان کے بیان کے بعد ان پر باری باری جرح کی۔ الیکشن ٹربیونل نے اب 31 جنوری کو سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے گواہوں کو طلب کر لیا ہے۔ الیکشن ٹربیونل نے عمران خان اور ایاز صادق کی دو متفرق درخواستوں پر بھی کارروائی موخر کر دی ہے اور کہا کہ ایاز صادق کے گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے کے بعد اِن کا جائزہ لیا جائے گا۔ عمران خان کی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ دو رنگوں کے جو بیلٹ پیپرز برآمد ہوئے ہیں ٹربیونل اِس کا جائزہ لے۔ اِنتخابی عذرداری کے اس کیس پر مزید سماعت 31 جنوری کو ہو گی۔ یاد رہے کہ الیکشن ٹریبیونل نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 میں گذشتہ انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کے تھیلے کھولنے کا حکم دیا 4 دسمبر 2014 کو دیا تھا۔ اس سے قبل 29 نومبر 2014 کو الیکشن ٹریبیونل کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے بعد عمران خان نے کہا تھا کہ ’دھاندلی کے سارے ثبوت ووٹوں والے بیگوں میں موجود ہیں۔ اُن کو کھولا جائے گا تو سب سامنے آ جائے گا کہ گذشتہ اِنتخابات میں کس حد تک دھاندلی ہوئی ہے۔ لاہور کے حلقہ این اے 122 میں مبینہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے جج غلام حسین اعوان کا کہنا ہے کہ ووٹوں کی جانچ پڑتال میں کوئی جعلی ووٹ نہیں نکلا البتہ اِنتخابی بےضابطگیاں پائی گئی ہیں۔ text: شرجیل خان اور خالد لطیف اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم میں شامل تھے ان دونوں کھلاڑیوں کے خلاف یہ کارروائی ایک بین الاقوامی سنڈیکیٹ سے مبینہ طور پر ان کے رابطے کے بعد عمل میں آئی ہے جو پاکستان سپر لیگ کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پاکستان سپر لیگ، کس ٹیم میں کتنا دم؟ پاکستان کرکٹ بورڈ کے اینٹی کرپشن یونٹ نے یہ کارروائی پاکستان سپر لیگ کے پہلے میچ کے بعد کی۔ پاکستان سپر لیگ میں یہ اینٹی کرپشن کا پہلا کیس سامنے آیا ہے۔ پاکستان سپر لیگ کے چیئرمین نجم سیٹھی نے بتایا کہ شرجیل خان اور خالد لطیف کو عبوری طور پر معطل کر دیا گیا ہے تاہم دونوں کھلاڑیوں کو صفائی کا موقع دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سپر لیگ نے یہ اقدام ’لیگ کے تحفظ‘ کے لیے اٹھایا ہے۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان کے عوام ان کا ساتھ دیں گے کیونکہ یہ ’لیگ عوام کی لیگ‘ ہے۔ پی ٹی وی سپورٹس سے بات کرتے ہوئے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’لالچ انسانی فطرت کا ایک حصہ ہے اور بدقسمتی سے کچھ کھلاڑی اب بھی اس کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔‘ ادھر اسلام آباد یونائٹڈ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انھیں اس واقعے پر بہت افسوس ہوا ہے اور وہ ان کھلاڑیوں کے متبادل تلاش کر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی ٹیم کی جانب سے اس بات کی تائید کی کہ اسلام آباد یونائیٹڈ میں قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ چیئرمین نجم سیٹھی نے بتایا کہ شرجیل خان اور خالد لطیف کو صفائی کا موقع دیا جائے گا واضح رہے کہ پاکستان سپر لیگ کا آغاز جمعرات کو اسلام آباد یونائیٹڈ اور پشاور زلمی کے درمیان میچ سے ہوا تھا جس میں شرجیل خان اسلام آباد یونائٹڈ کی ٹیم میں شامل تھے۔ خالد لطیف یہ میچ نہیں کھیلے تھے۔ اس سے پہلے بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق پاکستان سپر لیگ کے سربراہ نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ وہ اس مرحلے پر اس کیس کے بارے میں کچھ نہیں کہیں گے لیکن یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اس کھیل میں کرپشن برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان کا کہنا ہے کہ کھیل میں اس طرح کی حرکت کو کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اسلام آباد یونائیٹڈ کے بیٹسمین شرجیل خان اور خالد لطیف کو معطل کر دیا ہے اور ان دونوں کو وطن واپس بھیج دیا گیا ہے۔ text: اس کارروائی کا آغاز پولیس اور فوج کی صوبے کے دارالحکومت بقوبہ میں صبح سویرے تعیناتی کے ساتھ ہوا اور صوبے بھر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ امریکی فوجی ترجمان کے مطابق اس کارروائی کا مقصد دہشت گردوں کا خاتمہ اور سمگلنگ روکنا ہے۔ بقوبہ کے علاوہ عراقی اور امریکی فوجیوں نے مضافات کے کئی علاقوں میں بھی چھاپے مارے اور کئی مطلوبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ بی بی سی کے بغداد میں نامہ نگار نے بتایا کہ ماضی میں بھی کئی کارروائیاں کی گئیں لیکن اس کا اتنا شور کیا جاتا ہے کہ جنگجو اس علاقے سے پہلے ہی نکال جاتے ہیں۔ تاہم منگل کو شروع کی گئی اس کارروائی کا وقت خفیہ رکھا گیا تھا۔ دوسری طرف بغداد میں سوموار کے روز شیعوں پر ہونے والے خودکش حملوں کے بعد بغداد میں گاڑیوں کی آمد و رفت پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ بغداد میں ہزاروں شیعہ افراد خامیا کی طرف امام موسیٰ الکاظم کے روزے کی طرف جا رہے ہیں۔ عراقی اور امریکی فوجوں نے القاعدہ کے گڑھ تصور کیے جانے والے دیالہ صوبے میں ایک بڑی کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ text: ان کا بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب برطانوی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ خلیج فارس کے قریب کچھ ایرانی کشتیوں نے ایک برطانوی تیل بردار بحری جہاز کو روکنے کی کوشش کی تاہم برطانوی بحریہ کے جہاز نے انھیں بھگا دیا۔ ٹیلی گراف میں لکھے گئے ایک آرٹیکل میں ہنٹ کا کہنا تھا کہ خلیج میں پیش آنے والا واقعہ سے پتا چلتا ہے کہ برطانوی بحریہ کو مضبوط دفاع کے لیے مزید کئی جنگی بحری جہاز درکار ہیں۔ یہ بھی پڑھیے کیا امریکہ ایران کے ساتھ جنگ کرنے جا رہا ہے؟ ’ایران کو دھونس جمانے والوں کو جواب دینا آتا ہے‘ ’ٹینکروں سے بارودی سرنگ ہٹانے کی ویڈیو‘، ایران کا انکار ٹوری رہنماؤں نے پہلے ہی یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ دفاعی بجٹ کو اگلے پانچ سال میں 15 بلین پاؤنڈز تک بڑھا دیں گے۔ ہنٹ کا کہنا ہے ایرانی اقدام کے پیچھے ناقابل یقین بدنیتی کا عنصر کار فرما ہے۔ ہنٹ کے سیاسی حریف بورس جانسن نے بھی برطانیہ کے دفاعی بجٹ بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس سے قبل برطانوی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ خلیج فارس کے قریب کچھ ایرانی کشتیوں نے ان کے ایک تیل کے ٹینکر کو روکنے کی کوشش کی تاہم برطانوی بحریہ کے جہاز نے انھیں بھگا دیا۔ ایک ترجمان کے مطابق برطانیہ کا ایچ ایم ایس مونٹروس نامی جہاز ان تین ایرانی کشتیوں اور بریٹش ہیرٹیج نامی برطانوی آئل ٹینکر کے بیچ میں آگیا تھا اور پھر ایرانی کشتیوں کو دور رہنے کے لیے زبانی طور پر متنبہ بھی کیا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ایران کا یہ اقدام ’بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے‘۔ ایران نے اپنے ایک ٹینکر کی ضبطگی کے خلاف جوابی کارروائی کی دھمکی دی تھی تاہم ایسے کسی اقدام کی مکمل تردید کی ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ اس واقعے میں ملوث کشتیاں ایرانی پاسداران انقلاب کی ہیں۔ اور ان کا مقصد برطانوی ٹینکر کا راستہ بند کر کے اسے آبنائے ہرمز میں داخل ہونے سے روکنا تھا۔ برطانوی بحری جہاز ایچ ایم ایس مونٹروس برطانوی آئل ٹینکر بریٹش ہیرٹیج کی حفاظت پر معمور تھا اور اطلاعات کے مطابق اس نے ایرانی کشتیوں پر اپنی بندوقیں تان لی تھیں۔ ایرانی کشتیوں کو تنبیہ کے بعد کوئی گولی نہیں چلائی گئی۔ بی بی سی کو یہ معلوم ہوا ہے کہ برطانوی ٹینکر ابو موسیٰ جزیرے کے قریب تھا جب اسے ایرانی کشتیوں کی جانب سے روکا گیا۔ یہ جزیرہ متنازعہ علاقائی پانیوں میں واقع ہے لیکن اطلاعات کے مطابق برطانوی جہاز ایچ ایم ایس مونٹروس اس تمام معاملے کے دوران بین الاقوامی پانیوں میں رہا۔ برطانوی حکومت کے ایک ترجمان کے مطابق ’تین ایرانی کشتیوں نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بریٹش ہریٹیج نامی کمرشل ٹینکر کو آبنائے ہرمز جانے سے روکا ہے۔ ’ہمیں اس اقدام پر تشویش ہے اور ہم ایرانی حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ علاقے میں کشیدگی کم کی جائے۔‘ ایران کا کیا موقف ہے؟ ایرانی خبر رساں ایجنسی فارس نے پاسدرانِ انقلاب کا موقف بیان کرتے ہوئے ٹوئٹر پر پیغام جاری کیا ہے کہ ایران امریکی ذرائع کے ان دعووں کی تردید کرتا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے برطانوی ٹینکر کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاسدرانِ انقلاب نے کہا ہے کہ ’گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران برطانوی سمیت کسی غیر ملکی جہاز کا راستہ نہیں روکا گیا۔‘ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ برطانیہ نے یہ دعوے ’کشیدگی پیدا کرنے کے لیے‘ کیے ہیں۔ وزیر خارجہ ظریف نے کہا ہے کہ ’ان دعووں کی کوئی اہمیت نہیں۔ ‘ علاقائی کشیدگی ایران اور امریکہ کے درمیان حالیہ کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کو رکوانے کے لیے بین الاقوامی معاہدے سے یکطرفہ طور پر علحیدہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اس معاہدے پر سنہ 2015 میں اقوامِ متحدہ سمیت امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے دستخط کیے تھے۔ معاہدے میں طے پایا تھا کہ ایران اپنے جوہری منصوبے کو کم تر درجے تک لے جائے گا اور صرف 3 فیصد یورینیم افزودہ کرسکے گا۔ تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہونے اور پابندیوں کی بحالی کے اعلان کے جواب میں ایران نے یورینیم کی افزودگی میں اضافہ کیا تھا۔ یہ یورینیم جوہری بجلی گھروں میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اسے جوہری بموں کی تیاری میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ گزشتہ ماہ آبنائے ہرمز میں آئل ٹینکروں کو پہچنے والے نقصان کا الزام ایران پر عائد کرتا ہے جبکہ ایران نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ ایران نے کچھ روز قبل فضائی حدود کی حلاف ورزی پر امریکہ کا بغیر پائلٹ کے ایک ڈرون بھی مار گرایا تھا۔ جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کی تھی کہ 'ایران نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔' برطانیہ کے اس بیان کے بعد کہ جون میں آئل ٹینکروں پر ہونے والے حملوں کی ذمہ دار یقینی طور پر ایرانی حکومت ہے، ایران اور برطانیہ کے درمیان بھی کشیدگی میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ برطانیہ ایران پر دوہری شہریت رکھنے والی نازنین زغاری ریٹکلف کی رہائی کے لیے بھی دباؤ ڈال رہا ہے جن کو سنہ 2016 میں جاسوسی کے الزامات میں پانچ سال جیل کی سزا سنائی گئی تھی تاہم وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات سے انکار کرتی ہیں۔ برطانیہ کے وزیرِ خارجہ جیرمی ہنٹ نے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ برطانیہ کے وزیرِاعظم بنے تو وہ برطانوی بحریہ کے بجٹ پر کٹوتی کے فیصلے کو واپس لیں گے۔ text: خیال رہے کہ دنیا بھر میں لاکھوں افراد یہ آن لائن گیمز کھیلتے ہیں میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ خفیہ ایجنٹ انٹرنیٹ پر ورلڈ آف وار کرافٹ جیسی گیمز کھیلتے ہیں تاکہ ان میں بھیجے جانے والے پیغامات کی نگرانی کر سکیں۔ امریکہ کی قومی سلامتی کی ایجنسی نے مبینہ طور پر خبردار کیا ہے کہ اس قسم کی آن لائن گیمز کی مدد سے دہشتگرد نظروں میں آئے بغیر پیغام رسانی کر سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ دنیا بھر میں لاکھوں افراد یہ آن لائن گیمز کھیلتے ہیں۔ اس آپریشن کی خبر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز اور برطانوی اخبار گاڈرین نے سابق امریکی خفیہ اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے افشا کی گئی دستاویزات سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر شائع کی ہے۔ ان خبروں میں کہا گیا ہے کہ سیکنڈ لائف سمیت دیگر آئن لائن گیموں کی امریکی اور برطانوی جاسوس کئی سالوں سے ممکنہ دہشتگرد سرگرمیوں کے حوالے سے نگرانی کر رہے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی جانب سے افشا کیے گئے ایک دستاویز کا دعویٰ ہے کہ ایسی گیموں کو نئے ممبران بنانے اور ہتھیاروں کی تربیت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ گارڈین کا کہنا ہے کہ امریکی ایجنسی این ایس اے نے گیم ورلڈ آف وار کرافٹ کے اکاؤنٹس کی معلومات حاصل کر کے انہیں اسلامی شدت پسندی سے منسلک کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس مقبول ترین گیم میں ایک وقت میں ایک کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ صارفین آن لائن ہوتے تھے جن میں سفارت خانوں کے اہلکار، سائنسدان، فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ملازمین بھی شامل ہیں۔ اس تفتیش کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا کہ قومی سلامتی کے اتنے ایجنٹ ویڈیو گیمز کھیل رہے تھے کہ ایک ایسا گروپ بنانا پڑا جس کا کام یہ تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کہیں یہ سب ایک دوسرے کی جاسوسی نہ کرتے رہیں۔ تاہم ان اطلاعات میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کیا کوئی دہشتگردی کا منصوبہ ان کوششوں سے روکا جا سکا ہے یا نہیں۔ گیم ورلڈ آف وار کرافٹ بنانے والی کمپنی بلیزرڈ اینٹرٹینمنٹ کے ترجمان نے گارڈین کو بتایا کہ وہ اس بات سے آگاہ نہیں کہ ان کی گیم کی کسی قسم کی جاسوسی کی جا رہی ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوا ہے تو یہ ان کی اجازت اور آگہی کے بغیر کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ اور برطانیہ کے جاسوس دہشتگردی کے منصوبوں کی نشاندہی کے لیے ویڈیو گیمنگ کی آن لائن دنیا پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ text: سونم کپور بالی وڈ میں اپنے سٹائل اور طرز آرائش و زیبائش کے لیے معروف ہیں اداکارہ ایشوریہ رائے کو ووگ کے دس سال پورا ہونے پر ووگ انفلوئنس آف دا ڈیکیڈ ایوارڈ سے نوازا گیا اور انھیں یہ ایوارڈ شاہ رخ خان کے ہاتھوں دیا گیا۔ ووگ انعامات کی تقریب اتوار کی شب کو منعقد ہوئی جس میں سب سے بڑا اعزاز ووگ وومن آف دا ایئر کیا ایوارڈ انوشکا شرما کو دیا گيا۔ شاہ رخ خان نے ایشوریہ رائے کو مخصوص ایوارڈ دیا اس کے علاوہ انوشکا شرما کو 'ووگ اور بی ایم ڈبلیو گیم چینجر آف دا ايئر' کا ایوارڈ بھی ملا جبکہ سونم کپور کو 'فیشن آئیکون آف دا ایئر' قرار دیا گيا۔ اداکارہ ٹوئنکل کھنہ کو 'اوپینئن میکر آف دا ایئر' کے انعام سے نوازا گیا۔ معروف فلم ساز اور ہدایت کار کرن جوہر کو 'ووگ مین آف دا ايئر' کا ایوارڈ دیا گیا۔ انوشکا شرما کو ووگ کے دس سالہ جشن میں دو ایوارڈز ملے انوشکا شرما نے ایوارڈ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے سوشل میڈیا انسٹا گرام کا سہارا لیا جبکہ سونم کپور نے ایوارڈ حاصل کرنے پر اپنی بہن ریا کپور کا بھی شکریہ ادا کیا۔ خیال رہے کہ سونم کپور کی بہن ریا کپور ہی ان کے فیشن اور سٹائل کا خیال رکھتی ہیں۔ کرن جوہر کو اپنے مخصوص انداز میں دیکھا گیا سونم کپور نے لکھا: 'ہر ایک فیشن ایوارڈ کے لیے ریا کپور تمہارا شکریہ کیونکہ جو بھی ایوارڈ جیتتی ہوں وہ تمہاری بے غرض محبت کا نتیجہ ہے۔ مجھے تم سے پیار ہے۔۔ تمہارا شکریہ ووگ انڈیا۔ خوشی کے دس سال مبارک۔' یہ ایوارڈ سونم کے لیے اس لیے بھی مخصوص رہا کہ اسے ان کے والد اداکار انیل کپور نے پیش کیا۔ بالی وڈ کے شہر ممبئی میں گذشتہ دنوں ووگ ویمن آف دا ایئر ایوارڈ کی دھوم رہی جس میں اگر ایک جانب شاہ رخ خان اپنا جلوہ بکھیرتے نظر آئے تو دوسری جانب اداکاراؤں کی ایک کہکشاں جلوہ افروز تھی۔ text: اسلام آباد ہائی کورٹ کی ڈویژن بینچ نے15 جنوری کو ذکا اشرف کی بحالی کا فیصلہ سنایا تھا بین الصوبائی رابطے کی وزارت کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیرِاعظم نے، جو اب پاکستان کرکٹ بورڈ کے سرپرستِ اعلیٰ بھی ہیں، اپیل دائر کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ اپیل عاصمہ جہانگیر کے توسط سے دائر کی جائے گی، جو اسلام آباد ہائی کورٹ کی ڈویژن بینچ میں دائر کی گئی پٹیشن میں بھی بین الصوبائی رابطے کی وزارت کی وکیل تھیں۔ اپیل میں استدعا کی جائے گی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی ڈویژن بینچ کی جانب سے ذکا اشرف کی بحالی کے فیصلے کو معطل کر کے نجم سیٹھی کی سربراہی میں قائم عبوری مینیجمنٹ کمیٹی کو بحال کیا جائے۔ یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے15 جنوری کو ذکا اشرف کی بحالی کا فیصلہ سنایا تھا جس کے ایک روز بعد انھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ دوبارہ سنبھال لیا تھا۔ ذکا اشرف کو گذشتہ سال اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ایک پٹیشن کا فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے طور پر کام کرنے سے روک دیا تھا۔ اس عدالتی فیصلے کے بعد حکومت نے نجم سیٹھی کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری سونپ دی تھی لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ وہ نگراں چیئرمین ہیں اور وہ کوئی بھی بڑا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اس عدالتی کارروائی کے سبب پچھلے کئی ماہ سے کئی اہم فیصلے کرنے سے قاصر رہا ہے، جن میں کوچ کی تقرری اور ٹی وی نشریاتی حقوق کے لیے براڈکاسٹر کا انتخاب قابلِ ذکر ہیں۔ حکومت نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے ذ کا اشرف کی بحالی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، اور اس ضمن میں جمعرات کے روز اپیل دائر کی جا رہی ہے۔ text: اگر پاکستان کے اقدامات سے ایف اے ٹی ایف مطمئن ہوئی تو اسے ’گرے ایریا‘ کی فہرست سے خارج کرنے کی کاروائی کا آغاز ہو سکتا ہے۔ 'ناکافی پیش رفت کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف پاکستان کے بارے اگلی سطح کے اقدامات لینے کے بارے میں غور کرے گی۔' ایف اے ٹی ایف کا اجلاس 13 اکتوبر سے شروع ہو گا اور 18 اکتوبر تک جاری رہے گا۔ اس میں 205 ممالک اور عالمی تنظیمیں شرکت کریں گیں۔ ان اجلاسوں میں کئی ممالک اور مختلف امور پر غور ہو گا۔ ایف اے ٹی ایف ’ورچؤل ایسیٹس‘ اور ’سٹیبل کوئنز‘ پر بھی غور کرے گا۔ اس کے علاوہ روس اور ترکی کے ان اقدامت پر بھی غور ہو گا جو انھوں نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد روکنے کے لیے کیے ہیں۔ پاکستان، ایران اور چند دیگر ممالک جو موجودہ عالمی مالی نظام کے لیے 'خطرہ' ہیں، ان کے اقدامات کی پیش رفت پر 14 اور 15 اکتوبر کو غور کیا جائے گا۔ یہ بھی پڑھیے ایف اے ٹی ایف: پاکستان پر لٹکتی بدنامی کی تلوار ایف اے ٹی ایف کا اجلاس اور پاکستان کی مشکلات پاکستان کی بلیک لسٹ ہونے سے بچنے کی جدوجہد احکامات کی تعمیل کی فہرست پاکستان کا ایک وفد اقتصادی امور کے وفاقی وزیر حماد اظہر کی قیادت میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں شرکت کر کے اجلاس کو آگاہ کرے گا کہ پاکستان نے ضروری تقاضوں اور اقدامات کی فہرست کی تعمیل کر لی ہے یعنی پاکستان ایف اے ٹی ایف کو اپنی ’کمپلائینس لسٹ‘ پیش کرے گا۔ اس اجلاس میں شرکت سے چند دن پہلے ہی پاکستان نے اپنے ایکشن پلان پر علمدرآمد کرتے ہوئے کالعدم تنظیم جمعیت الدعوۃ/ لشکرِ طیبہ کے چار رہنماؤں کو دہشت گردی کی مالی امداد کرنے کے جرم میں گرفتار کیا ہے۔ پاکستانی حکام نے پروفیسر ظفر اقبال، یحیٰ عزیز، محمد اشرف اور عبدالسلام کو گرفتار کیا ہے۔ ان پر دہشت گردی کی مالی امداد کرنے کے جرائم کے تحت مقدمات چلائے جائیں گے۔ اس کالعدم تنظیم کے سربراہ حافظ سعید پہلے ہی سے زیرِ حراست ہیں۔ کچھ دن پہلے چند اخبارات میں ایسی خبریں آئیں تھیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایف اے ٹی ایف پاکستان کی 'کمپلائینس لسٹ' سے غیر مطمئن ہے کیونکہ پاکستان نے 40 نکات میں سے صرف چھ پر علمدرآمد کیا تھا۔ تاہم بعد میں ایسی کسی خبر کی تصدیق نہ ہو سکی۔ پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے گذشتہ ماہ انڈیا پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی ’گرے ایریا‘ میں رکھنے اور بلیک لسٹ میں دھکیلنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ ’پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کرنے کی مکمل کوشش کی ہے۔‘ ’گرے ایریا لسٹ‘ ایف اے ٹی ایف کی ’گرے ایریا‘ اس فہرست کو کہتے ہیں جس میں ایسے ممالک کے نام درج کیے جاتے ہیں جن کے بارے میں یہ ادارہ طے کرتا ہے کہ ان ممالک کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی امداد روکنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس وقت ’گرے ایریا‘ کی فہرست میں بہاماز، بوٹسوانا، کمبوڈیا، ایتھوپیا، گھانا، پاکستان، پاناما، سری لنکا، شام، ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو، تیونس اور یمن کے نام شامل ہیں۔ سربیا کا بھی نام تھا لیکن اسے بہتر کارکردگی کی وجہ سے گرے ایریا سے خارج کردیا گیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے اب تک شمالی کوریا کے بارے میں یہ تجویز کیا ہے کہ شمالی کوریا سے مالی رابطے بند کیے جائیں جبکہ ایران کے اقدامات کو ناکافی قرار دیا گیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گذشتہ برس جون میں ایف اے ٹی ایف اور اس کے ایک ذیلی ادارے ایشیا پیسیفیک گروپ (اے پی جی) سے منی لانڈرنگ کی روک تھام اور دہشت گردی کی مالی امداد کے خلاف موثر اقدامات لینے کے لیے عزم کا اظہار کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ اپنی مالی نظام میں ان سٹریٹجک نقائص کا بھی خاتمہ کرے گا جو دہشت گردی کے خاتمے میں رکاوٹ ہیں۔ پاکستان نے ان وعدوں کے بعد منی لانڈرنگ کی روک تھام اور دہشت گردی کی مالی امداد کے خلاف موثر اقدامات کیے۔ اگرچہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے اضافی احکامات پر بھی عملدرآمد کیا لیکن رپورٹ کے مطابق ’پاکستان دہشت گردی کی مالی امداد کی بین الاقوامی سطح پر سنگینی کو سمجھ نہیں پایا۔‘ ایف اے ٹی ایف پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟ اس رپورٹ میں تجویز کیا گیا تھا کہ پاکستان اپنے سٹریٹجک نقائص پر قابو پانے کے لیے اپنے ایکشن پلان پر عمدرآمد ان تجاویز پر بھی عملدرآمد کرکے دکھائے: ’اب تک پاکستان ناکام رہا ہے‘ ایف اے ٹی ایف اپنی تشویش کا اظہار کرتی ہے کہ پاکستان نہ صرف جنوری کی حتمی تاریخ تک اپنے ایکشن پلان پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہا بلکہ یہ مئی 2019 میں ایکشن پلان کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ ’ایف اے ٹی ایف کا پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ اکتوبر سنہ 2019 تک جب ایکشن پلان کے تحت اقدامات کا آخری سیٹ پر علدرآمدگی کی میعاد ختم ہو رہی ہے، اسے تیزی سے مکمل کرے۔ دیگر صورت میں ایف اے ٹی ایف ناکافی پیش رفت کی وجہ سے پاکستان کے بارے میں اگلے اقدامات لینے پر غور کرے گی۔‘ منی لانڈرنگ سے متعلقہ بڑھتی ہوئی تشویش کے بعد اقتصادی لحاظ سے دنیا کے سات سب سے زیادہ طاقتور ممالک جی سیون نے سنہ 1989 میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس آن منی لانڈرنگ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب ایف اے ٹی ایف منی لانڈرنگ کی روک تھام اور دہشت گردی کی مالی امداد کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر معیار طے کرنے کا ایک ادارہ ہے جس کی قانونی حیثیت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے تسلیم کیا جا چکا ہے۔ دنیا میں بین الاقوامی مالیاتی نظام کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی امداد کے خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے اور منی لانڈرنگ کو روکنے اور دہشت گردی کی مالی امداد کے خاتمے کے لیے بہتر سے بہتر قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کرانے کے لیے ایف اے ٹی ایف ان ممالک اور اداروں کی نشاندہی کرتا ہے جن میں سٹریٹجک نقائص موجود ہیں اور پھر ان سے مل کر ان نقائص کو دور کرنے میں تعاون کرتا ہے جو بین الاقوامی مالیاتی نظام کے لیے خطرہ ہیں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا (ایف اے ٹی ایف) کا اہم اجلاس اتوار سے پیرس میں شروع ہو رہا ہے جس میں منی لانڈرنگ کی روک تھام اور دہشت گردی کی مالی امداد کے خاتمے کے لیے کیے گئے پاکستان کے اقدامت پر غور کیا جائے گا۔ text: ایسے میں فاسٹ بولر وہاب ریاض کو امید ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم اپنی حریف ٹیم سے نسبتاً زیادہ باصلاحیت ہونے کا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم اب تک پانچ میں سے صرف ایک میچ جیت کر تین پوائنٹس کے ساتھ ٹیبل پر نویں نمبر پر ہے جبکہ جنوبی افریقہ نے چھ میں سے ایک میچ جیتا ہے۔ اس کے بھی تین پوائنٹس ہیں لیکن بہتر رن ریٹ کی وجہ سے وہ آٹھویں نمبر پر ہے۔ وہاب ریاض کا کہنا ہے کہ پاکستانی ٹیم کے پاس جو ٹیلنٹ ہے وہ جنوبی افریقی ٹیم کے پاس نہیں ہے۔ ان کے بولرز بہت اچھے ہیں لیکن یہ دیکھا جاتا ہے کہ بحیثیت ٹیم آپ کی کارکردگی کیسی ہے؟ جنوبی افریقہ بھی کہیں نہ کہیں ناکام ہو رہی ہے اور پاکستانی ٹیم نے بھی میچ ہاتھ سے گنوائے ہیں لہذا اتوار کو جو بھی اچھا کھیلے اور دباؤ کو اچھے طریقے سے ہینڈل کرے گا وہ جیتے گا۔ یہ بھی پڑھیے ’کرکٹرز کے خاندانوں پر تنقید کا کوئی جواز نہیں‘ بڑی ٹیموں کے خلاف پاکستانی ٹیم کا مایوس کن ریکارڈ ’یہ غلطیاں انڈیا کے خلاف دہرائیں تو ہار جائیں گے‘ ’ایک دوسرے کو اپنی اچھی پرفارمنسز یاد دلائیں‘ وہاب ریاض نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے کہ پاکستانی ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی ٹیم اگر چاروں میچ جیت لیتی ہے اور انگلینڈ اور نیوزی لینڈ اگلے میچوں میں ہارتی ہیں تو پاکستانی ٹیم کا سیمی فائنل میں پہنچنے کا چانس بن سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آسٹریلیا کے میچ کی وکٹ 270 رنز سے زیادہ کی نہیں تھی لیکن بولرز نے اچھی بولنگ نہیں کی۔ بولرز نے کوشش ضرور کی لیکن وہ اچھی بولنگ نہیں کر سکے۔ بولرز نے وکٹیں ضرور لی ہیں لیکن ابتدائی اوورز میں وہ وکٹیں لینے میں ناکام رہے ہیں۔ یاد رہے کہ خود وہاب ریاض اب تک چار میچوں میں 47.40 رنز کی اوسط سے اب تک صرف پانچ وکٹیں حاصل کرسکے ہیں۔ وہاب ریاض کا کہنا ہے کہ انڈیا سے ہونے والا میچ یقیناً پریشر گیم تھا لیکن پاکستانی ٹیم جتنی اچھی ہے وہ اتنی اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکی۔ ٹیم پر ہونے والی تنقید کے بارے میں وہاب ریاض کا کہنا ہے کہ انڈیا کے خلاف شکست کے بعد ہونے والی تنقید میں اگر کارکردگی کو ہدف بنایا جاتا تو بہتر ہوتا لیکن اس میں ذاتیات حاوی رہی جو صحیح نہیں ہے۔ ہمارے لوگ انڈیا کے خلاف ہونے والے میچ کو جنگ بنا لیتے ہیں۔ کھلاڑیوں کو بہت زیادہ مایوسی ہے کہ وہ اپنی قوم کو خوشی نہیں دے سکے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کرکٹرز کے خاندانوں کے بارے میں نامناسب باتیں کی گئیں۔ انگلینڈ اور ویلز میں جاری کرکٹ کے ورلڈ کپ میں پاکستان اور جنوبی افریقہ کی حالت تقریباً ایک جیسی ہے۔ غیر مستقل مزاج کارکردگی نے ان دونوں ٹیموں کو عالمی کپ سے باہر ہونے کے دہانے پر کھڑا کررکھا ہے۔ text: پہلی بار جب انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا تھا تو ان کی عمر صرف سولہ سال تھی لیکن اب جب وہ پاکستان جانے والے ہیں تو وہ دنیا کے ایک مستند بیٹسمین بن چکے ہیں۔ انہوں ان قیاس آرائیوں کو بلاوجہ قرار دیا کہ یہ سریز دراصل ان کے اور پاکستان کے تیز رفتار بالر شعیب اختر کے درمیان ایک ’ڈول‘ یا ایک پر ایک کی لڑائی ہے۔ سچن نے کہا کہ اس سیریز میں دو ملک ایک دوسرے کے خلاف کھیل رہے ہیں نا کہ دو فرد۔ اس لیے ہماری کوشش ہو گی کہ ہم اپنے بہترین کھیل کا مظاہرہ کریں اور ہم کریں گے کیونکہ ’ہم جیتنے کے لیے جا رہے ہیں۔‘ سچن کے آغاز کی اس سیریز کے پندرہ سال بعد بھارتی ٹیم اب ایک بار پھر پاکستان جا رہی ہے اور دورے کے دوران دونوں ٹیموں کے درمیان پانچ ایک روزہ میچ اور تین ٹیسٹ ہونگے۔ سچن نے پاکستان کے اس دورے کے بعد مدراس میں اپنی پہلی سنچری بنائی اور اس کے بعد سے اب تک اپنے سینکڑوں کی تعداد بتیس اور مجموعی طور پر نو ہزار دو سو پینسٹھ رنز بنا چکے ہیں۔ تندولکر کو بھارت کے مایہ ناز اوپنر سنیل گواسکر کا چونتیس سنچریوں کا ریکارڈ برابر کرنے کے لیے اب صرف دو سنچریوں کی مزید ضرورت ہے۔ آئندہ سیریز میں گہری دلچسپی کے باوجود تندولکر نے شائقین اور ذرایع ابلاغ پر زور دیا ہے کہ وہ متوازن ذہن سے کام لیں اور کسی بھی طرح کی دیوانگی سے گریز کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں سبھی کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، صرف کھلاڑیوں ہی کو نہیں، شائقین کو، ذرائع ابلاغ کو اور ان تمام لوگوں کو جو اس بارے میں بات کرنا چاہتے ہوں انہیں پوری طرح سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے۔‘ انیس سو نواسی میں پاکستان کے دورے سے کرکٹ کریئر آغاز کرنے والے سچن تندولکر ایک بار پھر پاکستان جانے کے مشتاق ہیں۔ text: مسٹر رُوڈ لُبرز کے مطابق سن انیس سو پچھہتر میں سی آئی اے کے ہالینڈ کی حکومت سے کہا تھا کہ وہ ڈاکٹر قدیر کے خلاف مقدمہ نہ چلائے۔ ہالینڈ کی حکومت کو ڈاکٹر قدیر خان کی سرگرمیوں پر اس وقت پہلی بار شک ہوا تھا جب وہ ہالینڈ کی یورینیم فرم یورینکو میں کام کر رہے تھے۔ مسٹر لبرز کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے رابطوں کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اس وقت ڈاکٹر قدیر خان یورینکو میں ایک انجنیئر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ مسٹر لبرز نے ڈچ ریڈیو کو بتایا کہ امریکیوں کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر قدیر کی نگرانی کریں اور ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کریں۔ ڈاکٹر قدیر خان سن انیس سو چھہتر میں پاکستان آ گئے تھے اور انہوں نے ملک کا پہلا جوہری اسلحے کا پروگرام شروع کیا تھا۔ ہالینڈ میں ان کی عدم موجودگی میں ان پر جوہری راز چرانے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ لیکن ان کو سنائی گئی سزا بعد میں تیکنیکی بنیادوں ہر ختم ہو گئی۔ ڈاکٹر قدیر خان نے گزشتہ سال اقرار کیا تھا کہ انہوں نے شمالی کوریا، لیبیا اور ایران کو جوہری راز فراہم کئے۔ ان کے اس اقرار کے بعد سے انہیں اسلام آباد میں اپنے گھر میں سخت نگرانی میں رکھا جا رہا ہے۔ ہالینڈ کے سابق وزیر اعظم رُوڈ لُبرز نے کہا ہے کہ پاکستان کے جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر کو تیس سال پہلے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے گرفتاری سے بچایا تھا۔ text: گورنر سرحد لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ علی محمد جان اورکزئی نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام سے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ اب تک کی تفتیش سے ظاہر ہوتا ہے کہ پشاور میں گزشتہ ایک ماہ میں ہونے والے چار دھماکے ایک ہی گروپ کی کارروائی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دھماکوں کا مقصد صرف خوف اور دہشت پھیلانا تھا ناکہ نقصان پہنچانا۔ ’یہ انہوں نے قصداً ایسا کیا تھا وراننگ شاٹس کے طور پر۔ یہ جان بوجھ کر ایک منصوبہ بندی کے تحت تھا تاکہ بڑا جانی نقصان ہو، لوگوں میں خوف پھیلے اور دہشت طاری ہو جائے‘ گورنر نے بتایا کہ خفیہ اداروں کو مزید متحرک کر دیا گیا ہے اور وہ پرامید ہیں کہ جلد کسی نتیجے پر پہنچ سکیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں کہ آیا یہ لوگ پاکستان کے اندر کے ہیں یا باہر کے تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ان واقعات کا تجزیہ کیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ یہ اندرونی گروپ نہیں بلکہ اس کے پیچھے باہر کا ہاتھ ہے۔ ’لیکن چونکہ ہم دستیاب خفیہ معلومات کی بنیاد پر حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پائے ہیں لہذا وہ کسی ملک کا نام لینا پسند نہیں کریں گے۔ البتہ میں اس پر متفق ہوں کہ یہ بیرونی سازش تھی۔’ ادھر وزیر اعلیٰ سرحد اکرم خان نے بھی پشاور میں صحافیوں سے بات چیت میں انہیں خدشات کا اظہار کیا۔ تاہم ان کا دعویٰ تھا کہ ایک ہفتے کہ اندر حقائق سامنے لائے جائیں گے۔ صوبائی وزیر اطلاعات آصف اقبال نے دھماکے میں چند اہم شواہد ملنے کی بات کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی بنیاد پر وہ جلد مجرموں تک پہنچ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دھماکے کے بعد شہر میں سادہ لباس اور وردی میں مزید سکیورٹی اہلکار بازاروں اور دیگر اہم مقامات پر تعینات کر دیئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر کے علاقے میں تو سکیورٹی کیمرے بھی نصب کیئے گئے ہیں۔ صوبائی وزیر نے تاجروں اور عام لوگوں سے بھی ہوشیار رہنے کی اپیل کی ہے۔ پاکستان کے صوبہ سرحد میں حکام کا کہنا ہے کہ پشاور میں جمعے کے دھماکے میں غیرملکی ہاتھ ملوث تھا تاہم انہوں نے اس بابت کسی ملک کا نام لینے سے انکار کیا ہے۔ دھماکے کی تحقیقات جاری ہیں اور ابھی تک کسی گرفتاری کی اطلاع نہیں ملی۔ text: ’برازیل کی ٹیم جب وہ کھیلنے کے لیے میدان میں اترتی ہے تو ان سے صرف جیت کی توقع کی جاتی ہے‘ بی بی سی کے ٹی وی اور ریڈیو کے فٹ بال کے ماہرین کی ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے بارے میں آرا کچھ یوں ہیں: گیری لینیکر: میرے خیال میں لائنل میسی کا وقت آگیا ہے اور انھیں روکنا مشکل ہوگا۔ میرے خیال میں یہ ورلڈکپ ارجنٹینا کا ہے۔ ان کا دفاع ضرور کمزور ہے لیکن الیئاندرو سابیلا کی صورت میں انھیں ایک اچھے کوچ کا ساتھ ملا ہے اور ان کے پاس کئی بہترین فارورڈ کھلاڑی موجود ہیں۔ان کا گروپ بھی آسان ہے اور وہ آسانی سے ناک آؤٹ سٹیج تک پہنچ جائیں گے۔ کرس ویڈل: ارجنٹینا کے پاس میسی جیسا عظیم کھلاڑی موجود ہے سپین اور ارجنٹینا ورلڈ کپ جیتنےکے بہت قریب پہنچ جائیں گے، لیکن جیت برازیل کی ہوگی جن کے پاس بہت طاقتور سکواڈ ہے۔ ان کی ناکامیابی کی صورت میں ان سے بہت سے سوال پوچھے جائیں گے کیونکہ بہت سے لوگ برازیل میں ورلڈ کپ منعقد کروانے کے حق میں نہیں ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ پیسے کا زیاں ہے۔ ایلن شیئرا: میرے خیال میں جیت برازیل کی ہوگی۔ وہ کنفیڈریشن کپ کے بھی فاتح ہیں اور ان کے پاس لوئز فلپ سکولاری ہیں جو پہلے بھی ان کو ورلڈکپ جتوا چکے ہیں۔ اگر نیمار پچھلے سال کی طرح کارکردگی دکھاتے ہیں تو برازیل کے پاس جیتنے کا بہت اچھا موقع ہے۔ فل نیویل: مجھے لگتا ہے کہ اس بار حالات جنوبی امریکی ٹیموں کے حق میں ہیں اور اسی وجہ سے ارجینٹینا میری پسندیدہ ٹیم ہے۔ ان کی ٹیم متوازن ہے اور ان کے پاس میسی کی شکل میں ایک بہترین کھلاڑی موجود ہے۔ پئیٹ نیون: جنوبی امریکہ میں کھیلنے کا مقصد ہے کہ یورپی ٹیموں کو اپنے کھیلنے کا انداز بدلنا ہوگا۔ سپین نے کنفیڈریشن کپ میں یورپی انداز کا کھیل کھیلا جب ان کے لیے موثر ثابت نہیں ہوا۔ ان کو اس ٹورنامنٹ میں نیا انداز اپنانا ہوگا۔ برازیل بہت اچھی ٹیم ہے اور انھیں اپنے ملک میں کھیلنے کی وجہ سے برتری حاصل ہے ۔ اسی وجہ سے یہ میری پسندیدہ ٹیم ہے۔ روبی سیویج: میں صرف میسی کی وجہ سے ارجینٹینا کو سپورٹ نہیں کر رہا بلکہ ان کے پاس سرجیو اگویئرو کی صورت میں بھی بہت اچھا اٹیک ہے۔ دفاعی پوزیشنز میں بھی ان کے پاس اچھے کھلاڑی موجود ہیں اور وقت آنے پر وہ ٹیموں کو بہت نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ بریڈ فریڈیل: برازیل کی کامیابی کا دارو مدار نیمار پر ہوگا مجھے برازیل کے علاوہ کوئی دوسری ٹیم نظر نہیں آ رہی۔ مجھے پتہ ہے کہ یہ آسان انتخاب ہے لیکن برازیل کے پاس بہت باصلاحیت سکواڈ موجود ہے۔ وہ موسمی حالات کو بھی اچھے طریقے سے سمجھ سکتے ہیں اور ایک شہر سے دوسرے شہر جا کر کھیلنے میں بھی انھیں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ ان سے بہت سے لوگوں کی امیدیں وابستہ ہیں اور جب وہ کھیلنے کے لیے میدان میں اترتے ہیں تو ان سے صرف جیت کی توقع کی جاتی ہے۔ مارٹن کیئون: میں کنفیڈریشن کپ کے دوران برازیل کے کیمپ میں تھا اور مجھے وہاں ان کی ٹیم اور مداحوں کے درمیان بہت جذباتی رشتہ دیکھ کر حیرانی ہوئی۔ برازیل کے پاس بہت باصلاحیت ٹیم موجود ہے ۔نیمار اس ٹورنامنٹ کے نمایاں کھلاڑی ہوں گے۔ دنیا کے سب سے بڑے کھیلوں کے مقابلے کا آغاز جمعرات کو برازیل کے شہر ساؤ پاولو میں ہوگا اور 32 ٹیموں کی اس جنگ میں فاتح ٹیم 13 جولائی کو ریو ڈی جنیرو میں فیفا ورلڈ چیمپیئن کا تاج اپنے سر پر پہنےگی۔ text: سویڈن کے خلاف میچ کے دوسرے ہی منٹ میں چھبیس سالہ اوون کا گھٹنا مڑ گیا تھا اور انہیں میدان سے سٹریچر پر باہر لے جانا پڑا تھا۔ بدھ کو ان کے متاثرہ گھٹنے کا سکین کروایا گیا جس کے بعد انہیں واپس انگلستان بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مائیکل اوون کا کہنا تھا کہ’ زخمی ہونا اور ورلڈ کپ سے باہر ہو جانا بہت بڑا نقصان ہے۔ جیسے ہی چوٹ لگی، مجھے پتہ چل گیا تھا کہ میں مشکل میں ہوں‘۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز سویڈن کے خلاف میچ برابر کرنے کے بعد اخباری کانفرنس میں انگلش ٹیم کے گول کیپر پال رابنسن نے کہا تھا کہ ’مائیکل کی چوٹ خطرناک ہے اور وہ عالمی کپ میں مزید نہیں کھیل پائے گا‘۔ انگلینڈ کے کوچ نے بھی میچ کے بعد اسی قسم کے خدشات کا اظہار کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ’ شاید وہ ٹورنامنٹ سے ہی باہر ہو جائے۔ حالات کچھ اچھے نہیں لگ رہے‘۔ مائیکل اوون گزشتہ برس پاؤں کی چوٹ سے صحت یابی کے بعد اس برس صرف چھ گھنٹے کے لیئے فٹبال کھیل سکے ہیں اور عالمی کپ کے ابتدائی میچوں میں بھی ان کی کارکردگی پر سوال اٹھتا رہا تھا۔ انگلینڈ کی فٹبال ایسوسی ایشن نے اس امر کی تصدیق کر دی ہے کہ سٹرائیکر مائیکل اوون سویڈن کے خلاف میچ میں گھٹنے میں لگنے والی چوٹ کی وجہ سے عالمی کپ میں مزید حصہ نہیں لے سکیں گے۔ text: اس سینٹر میں ماہرین نفسیات اور لوگوں کو خون کا عطیہ دینے کے لیے ترغیب دینے والے عملے کو تعینات کیا گیا ہے یہ سینٹر حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے ساتھ قائم ہے جہاں خون کی باقاعدہ سکریننگ کی جاتی ہے ۔ اس سینٹر کے قیام کے لیے جرمنی نے تعاون کیا ہے اور اس کے دوسرے مرحلے میں اس طرح کے سینٹر ایبٹ آباد، ڈیرہ اسماعیل خان اور سوات میں قائم کیے جائیں گے ۔ اس سینٹر میں ماہرین نفسیات اور لوگوں کو خون کا عطیہ دینے کے لیے ترغیب دینے والے عملے کو تعینات کیا گیا ہے ۔ اس سینٹر سے مریض کو خون کی جس قدر مقدار اور اس خون کے جو اجزا ضرورت ہوں گے وہ فراہم کیے جائیں گے ۔ اس سینٹر کی انچارج ڈاکٹر شاہ تاج نے بی بی سی کو بتایا کہ بعض مریضوں کو خون کے سرخ خلیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض کو خون کے پلیٹلیٹس کی فراہمی ضروری ہوتی ہے اس لیے اس سینٹر سے ایک یونٹ سے تین قسم کے مریضوں کو علاج کے لیے خون فراہم کیا جا سکے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ خون کی اشد ضرورت پڑنے پر اکثر مریضوں کے لواحقین بیمار یا نشے کے عادی افراد سے خون لینے پر مجبور ہوتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہوگا ۔ ’اس سنٹر میں خون فراہم کرنے والے شخص کا معائنہ ہوگا اور خون کی باقاعدہ سکریننگ ہوگی اور ایک سافٹ ویئر کے زریعے یہ ریکارڈ بھی رکھا جاے گا کہ کس کا خون کس مریض کو دیا گیا ہے۔‘ یہ کہا جارہا ہے کہ سرکاری سطح پر اس سینٹر کے قیام سے صحت مند خون کی فراہمی کو اب یقینی بنایا جا سکے گا۔ حیات آباد میڈیکل کملپلیکس میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کو ماہانہ اٹھارہ ہزار یونٹس خون فراہم کر سکے گا جبکہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال، لیڈی ریڈنگ ہسپتال، سٹی ہسپتال اور گردوں کے ہسپتال میں مریضوں کو ضرورت کے مطابق خون فراہم کرسکے گا۔ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات کے بیشتر مریض پشاور لائے جاتے ہیں جہاں اکثر اوقات خون کی اشد ضرورت پڑ جاتی ہے ۔ پشاور اور دیگر علاقوں میں بم دھماکوں کے مریضوں کو جب ہسپتال لایا جاتا ہے تو اس وقت خون کے عطیے کے لیے بھی عوام سے اپیلیں کی جاتی ہیں۔ یہ کہا جارہا ہے کہ سرکاری سطح پر اس سینٹر کے قیام سے صحت مند خون کی فراہمی کو اب یقینی بنایا جا سکے گا۔ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں جرمنی کی حکومت کے تعاون سے پہلےعلاقائی بلڈ سینٹر کا افتتاح کر دیا گیا ہے جو ابتدائی طور پر پشاور کے پانچ ہسپتالوں کو ضرورت کے مطابق خون فراہم کرے گا ۔ text: مذاکرات میں تعطل کے خاتمے میں بڑی روکاوٹ حکومت کی جانب سے غیرعسکری طالبان قیدیوں کی رہائی بتائی جا رہی ہے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے گذشتہ ہفتے جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن خیبر پختونخوا میں آج کے پرتشدد واقعات کے علاوہ کوئی بڑا حملہ اب تک نہیں ہوا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے 47 روزہ جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ ان کے ابتدائی مطالبات کو مانے کو تیار نہ ہونے کے ساتھ ساتھ بااختیار اور سنجیدہ بھی نہیں۔ پشاور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جماعتِ اسلامی کے رہنما اور حکومت کے ساتھ طالبان کے مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم خان نے مذاکرات میں تعطل کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی بڑی وجہ غیرعسکری قیدیوں کی رہائی میں تاخیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے طالبان کمیٹی سے اب تک ملاقات بھی نہیں کی ہے جس کی وجہ سے بات چیت رکی ہوئی ہے۔ یہ ملاقات گذشتہ سنیچر ہونا متوقع تھی لیکن کوئی وجہ بتائے بغیر مؤخر کر دی گئی تھی۔ پروفیسر ابراہیم خان کا الزام تھا کہ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اخباری کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ قیدی جلد رہا کر دیے جائیں گے لیکن اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔ دوسری جانب مذاکرات میں مسائل کا اعتراف وزیر اعظم نواز شریف نے بھی میڈیا سے کراچی میں بات کرتے ہوئے کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کوششیں ابھی بھی جاری ہیں اور اس بابت اونچ نیچ ہوجاتی ہے اور کبھی کبھی معاملات دیگرگوں بھی ہو جاتے ہیں لیکن اپنی طرف سے ہم انتہائی خلوص کے ساتھ اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں سب کی بہتری ہے۔ حکومتی ترجمان اور وفاقی وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے صحافیوں سے گفتگو میں اس تعطل کو معمول کی بات ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ مذاکرات کے عمل کا حصہ ہوتے ہیں اور انشا اللہ معاملات درست سمت میں آگے بڑھیں گے۔‘ تعطل کے خاتمے میں بڑی روکاوٹ حکومت کی جانب سے غیرعسکری طالبان قیدیوں کی رہائی بتائی جا رہی ہے۔ تاہم پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر اعجاز خان قیدیوں کے مسئلے میں عسکری اور غیر عسکری تشبیہ کے خلاف ہیں۔ ’کسی نے بم رکھا ہے یا حوالے کیا یا کسی کو گھر میں رکھا تھا اس میں عسکری غیرعسکری نہیں ہوتا ہے۔ جس طرح حکومت اس پر طالبان سے بات کر رہی ہے وہ تو انہیں قبائلی عوام کا نمائندہ بنا رہی ہے۔ اگر وہ طالبان نہیں بھی ہیں تو وہ کہیں گے کہ پکڑا تو ہمیں حکومت نے تھا لیکن چھڑوایا طالبان نے ہے۔ تو اس پالیسی کے آگے چل کر انتہائی خطرناک نتائج ہوں گے۔‘ بعض عناصر کا کہنا ہے کہ قیدیوں کی رہائی کے فوج خلاف ہے اس لیے بات چیت رک گئی ہے۔ پروفیسر اعجاز خان تاہم کہتے ہیں کہ ایسے معاملات میں فوج کا بات وزن رکھتی ہے لیکن مسئلہ سیاسی قیادت کا مشکل فیصلے کرنے کی صلاحیت نہ ہونا ہے۔ ’غلط کریں یا درست کریں فیصلے کرنا قیادت کا کام ہوتا ہے۔ وہ فیصلے نہ کر کے چیزوں کو ابہام کی جانب افرا تفری کی جانب دھکیل رہی ہے جو زیادہ خطرناک بات ہے۔‘ اگرچہ بات چیت نہیں ہو رہی لیکن قوی خیال یہی ہے کہ فریقین میں پس منظر میں رابطے جاری ہیں۔ قیدیوں کی رہائی پہلی رکاوٹ ہیں، ان مذاکرات کو جاری رکھنے کے لیے۔ پاکستان میں حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہیں لیکن حکومت پر امید ہے کہ بات چیت جلد درست سمت میں آگے بڑھے گی۔ text: گزشتہ پیر کو صدر مشرف کے استعفے کے بعد ججوں کی بحالی کے حوالے سے حکمران اتحاد کا جو دو روزہ اجلاس ہوا تھا اس میں کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا تھا۔ اجلاس کے خاتمے پر کہا گیا کہ بات چیت میں شامل جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی اور قبائلی علاقے کے اراکین نے معزول ججوں کی بحالی اور دیگر معاملات پر پارٹی کے اندر اور ایک دوسرے سے مشاورت کے لیے تین دن کی مہلت مانگی ہے۔ یہ تین روزہ مہلت جمعہ کو ختم ہو رہی ہے اور بظاہر معاملہ حل ہوتے نظر نہیں آتا۔ دونوں جماعتوں میں اختلاف رائے ختم کرنے اور دونوں کے لیے قابل قبول کوئی حل تلاش کرنے کی خاطر جہاں اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمٰن سرگرم ہیں وہاں دوسرے فرنٹ پر اعتزاز احسن اور آصف علی زرداری کے بعض ’فرشتے‘ بھی کوششوں میں مصروف ہیں۔ میاں محمد نواز شریف نے امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کو انٹرویو میں کہا ہے کہ جمعہ تک ججوں کی بحالی کا معاملہ حل نہ ہونے کی صورت میں وہ حکومتی اتحاد سے علیحدگی اختیار کر کے اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ وزیر قانون فاروق نائیک کا افتخار محمد چوہدری سمیت تمام معزول ججوں کی بحالی کی حمایت کا مؤقف اپنی جگہ لیکن پیپلز پارٹی کے بعض سرکردہ رہنماؤں کے ایک گروپ کو افتخار محمد چوہدری کی بحالی پر تحفظات ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ججوں کی بحالی آئینی پیکیج کے ذریعے کی جائے۔ اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ ججوں کی بحالی سے پہلے تین نومبر دو ہزار سات سے لے کر اب تک کے سپریم کورٹ کے فیصلوں، صدر پرویز مشرف کے ایمرجنسی نافذ کرنے، میڈیا پر پابندیوں، آئین کی معطلی اور ججوں کی برطرفی کے علاوہ دیگر احکامات کو قانونی تحفظ دیا جائے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ افتخار محمد چوہدری اور عبدالحمید ڈوگر دونوں کو چیف جسٹس نہیں رہنا چاہیے اور دونوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد حکومتی عہدے دیئے جائیں۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں کا خیال ہے کہ افتخار محمد چوہدری متنازعہ بن چکے ہیں اور ان کا بطور چیف جسٹس رہنا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہوگا۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہنما جاوید ہاشمی، چوہدری نثار اور دیگر کچھ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام معزول جج فوری طور پر ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بحال کیے جائیں اور وہ صدر اور سپریم کورٹ کے احکامات کو قانونی تحفظ کے بھی سخت خلاف ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے بتایا کہ سسٹم کو چلانے کی خاطر سپریم کورٹ اور صدر مشرف کے بعض اقدامات کو قانونی تحفظ دینے کے سوال پر میاں شہباز شریف اور اسحٰق ڈار سمیت ایک گروپ حامی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ پہلے جج بحال ہوں اور بعد میں قانونی تحفظ کا معاملہ طے کیا جائے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ سسٹم کو چلانے کے لیے سپریم کورٹ اور صدر کے بعض فیصلوں کو قانونی تحفظ دینا لازم ہے۔ پیپلز پارٹی کی اس رائے کی حکومتی اتحاد کی دیگر جماعتیں عوامی نیشنل پارٹی، جمیعت علمائے اسلام (ف) اور فاٹا کے آزاد اراکین مکمل حامی ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر میاں نواز شریف نے حکومتی اتحاد چھوڑنے کا اگر کوئی اعلان کیا، جس کا امکان بہت کم ہے تو معزول ججوں کا ایک بڑا گروپ اپنی ذمہ داریاں سنبھال سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ بھی کوششیں ہورہی ہیں کہ کسی طور پر افتخار محمد چوہدری کو منایا جائے کہ وہ وسیع تر قومی مفاد میں بحالی کے فوری بعد رضاکارانہ طور پر مستعفی ہوجائیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں حکومتی اتحاد سے مسلم لیگ (ن) کی علیحدگی اختیار کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ کیونکہ موجودہ حالات میں مسلم لیگ (ن) کسی قیمت پر پنجاب حکومت کی قربانی نہیں دے سکتی۔ ویسے بھی صدر پرویز مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد عوام میں ججوں کی بحالی جیسے معاملات پر تصادم کی سیاست کو شاید پذیرائی نہ مل پائے۔ یہ رائے رکھنے والوں کا کہنا ہے مسلم لیگ (ن) نے اگر حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا کوئی فیصلہ کیا تو مسلم لیگ (ق) پیپلز پارٹی کی ممکنہ اتحادی بن سکتی ہے اور بکھرتی ہوئی مسلم لیگ (ق) مسلم لیگ (ن) کے سیاسی وجود کے لیے مستقبل میں ایک بڑا خطرہ بھی بن سکتی ہے۔ صدر پرویز مشرف کے استعفے کا جشن ابھی ختم نہیں ہوا کہ حکومتی اتحاد کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ججوں کی بحالی کے معاملے پر ایک بار پھر مورچہ بندی کر لی ہے۔ text: مبینہ روسی شہری اخلاص اخلاق احمد ان پانچ افراد میں شامل ہیں جن کو گذشتہ سال پاکستان کی فوجی سن دو ہزار تین میں جنرل پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی اور اب یہ ملزمان پاکستان کی جیل میں ہیں ۔ اخلاص کی والدہ ڈاکڑسویتلانا ویلنٹینونا جو بہت کم اردو بولتی ہیں نے روس میں وولگوگراڈ سے ٹیلیفون پر بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے تین چار ماہ قبل ماسکو میں پاکستانی سفارخانے میں ویزہ کے لیے درخواست دی تھی لیکن ابھی تک ان کو ویزہ جاری نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ جب بھی میں نے پاکستانی سفارتخانے سے ویزہ کے لیے رابطہ کیا تو ہر بار مجھے سے یہ کہا گیا کہ ہم اسلام آباد سے جواب کا انتظار کررہے ہیں‘۔ وہ کہتی ہیں ’مجھے حکومت پاکستان انسانی بنیادوں پر فوری ویزہ جاری کرے میں اپنے بیٹے سے ملاقات کرنے پاکستان جانا چاہتی ہوں ، پانچ سال ہوگئے ہیں میں نے اپنے بیٹے کی شکل دیکھی اور نہ ہی میں نے اس کی آواز سنی‘۔ لیکن اسلام آباد میں پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے کہا کہ ہمیں کوئی اطلاع نہیں کہ آیا اخلاص اخلاق کی والدہ نے ویزہ کے لیے کوئی درخواست دی ہے یا نہیں ۔البتہ ان کا کہنا تھا کہ وہ ماسکو میں اپنے سفارتحانے سے یہ معلوم کررہے ہیں کہ آیا ویزے کے لیے ان کی طرف سے کوئی درخواست موصول ہوئی ہے ۔ اخلاص کے والد اخلاق احمد نے جن کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے ہے، سن ستر کی دھائی میں روس کے ایک میڈیکل کالج میں پڑھائی کے دوران اپنی ہم جاعت سویتلانا ویلنٹینونا سے شادی کی تھی جن سے ان کو دو بچے اخلاص اور عبدالرحمان ہوئے۔ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اخلاق سن انیس سو تراسی میں اپنی اہلیہ اور دونوں بچوں کے ہمراہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر واپس آئے لیکن سن انیس سو ستانوے میں اخلاق کی اہلیہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ واپس روس چلی گئیں اور بعد ازاں میاں بیوی کے درمیان علحیٰدگی ہوگئی۔ اس دوران اخلاص احمد سن دو ہزار ایک میں اپنے والد سے ملنے کے لیے دوبارہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر آیا تھا۔ اور پچیس دسمبر سن دو ہزار تین کو پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف پر حملے کے بعد اخلاص اور دوسرے لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ وہ ان پانچ لوگوں میں شامل ہیں جن کو گذشتہ سال پاکستان کی فوجی عدالت نے سن دو ہزار تین میں جنرل پرویز مشرف پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے الزام میں موت کی سزا سنائی ہے۔ یہ ملزمان اب راولپنڈی کے قریب اٹک جیل میں ہیں۔ ان ملزمان نے فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف پاکستان کے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں قانونی نظرثانی کے لیے رٹ پٹیشنز دائر کی تھیں۔ لیکن اخلاص کے وکیل کرنل اکرم کا کہنا ہے کہ ان عدالتوں نے یہ رٹ پٹشینز اس بنیاد پر خارج کیں کہ وہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف سماعت کے مجاز نہیں ہیں ۔اب ان ملزمان کی طرف سے پاکستان کے سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دی گئی ہے جس میں عدالت سے اپنے گذشتہ فیصلے پر نظرثانی کی استدعا کی گئی ہے۔ لیکن اخلاص کی والداین یہ ماننے کے لئے بالکل تیار نہیں کہ ان کا بیٹا قصور وار ہے ۔ ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ میرا بیٹا بے گناہ ہے اور اس کو رہا کیا جائے ۔ وہ کہتی ہیں کہ میں اپنے بیٹے کے لئے بہت پریشان ہوں ، میں ہروقت روتی ہوں ، راتوں کو نیند نہیں آتی اور میری خوشیاں ہی لٹ گئی ہیں‘۔ اخلاص کو اپنی ماں سے سن دو ہزار تین میں اپنی گرفتاری تک خطوط کے ذریعے رابط رہا لیکن ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کو جیل سے اخلاص کی طرف سے صرف ایک خط ملا اور اس خط میں اس نے لکھا ہے کہ وہ بے قصور ہے۔ اسی دوران اسلام آباد میں روسی سفارتخانے میں سکینڈ سیکریڑی الشات مندییوف نے کہا کہ پاکستان نے انھیں اخلاص اخلاق تک سفارتی قوائد کے مطابق رسائی یا کونسلر ایکسس دینے سے یہ کہہ کر انکار کیا ہے کہ وہ روسی شہری نہیں بلکہ پاکستانی شہری ہیں۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ اخلاص کے پاس روسی پاسپورٹ ہے اور ان کے والدین کہتے ہیں کہ وہ پاکستانی نہیں روسی شہری ہے اور حکومت پاکستان نے بھی اس کی کبھی واضع طور پر تردید نہیں کی۔ سن دو ہزار تین میں پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے الزام میں سزائے موت پانے والے کشمیری نژاد مبینہ روسی شہری کی روسی والدہ نے حکومت پاکستان سے کہا ہے کہ وہ ان کو اپنے بیٹے سے ملاقات کرنے کے لئے انسانی بنیادوں پر ویزہ جاری کرے۔ text: یہ اجلاس اس عام خیال کو رد کرتا ہے کہ رومن کیتھولک کلیسا سائنس کا مخالف ہے کیتھولک کلیسا کے لیے ایمریونک سٹم سیلز کے مقابلے میں بالغ ’سٹم سیلز‘ سے بیماریوں کا علاج ایک قابلِ قبول طریقہ ہے۔ کلیسا کا کہنا ہے کہ ایمبریونک سٹم سیلز سے علاج کرنا اخلاقی طور پر صحیح نہیں کیوکہ اس عمل کے دوران انسانی ایمبریوز کو تباہ کیا جاتا ہے جو کہ ایک لحاظ سے انسانی جان کی ہلاکت جیسا ہے۔ ویٹیکن نے مئی دو ہزار دس میں ’نیو سٹم‘ نامی کمپنی کے ساتھ بالغ سٹم خلیوں پر تحقیق کے ایک پانچ سالہ مشترکہ منصوبے میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا تھا اور اب تک اس مقصد کے لیے ویٹیکن دس لاکھ ڈالر کی رقم فراہم کر چکا ہے۔ نیو سٹم کمپنی کے سربراہ رابن سمتھ کا کہنا ہے کہ ’ہمیں یقین ہے کہ ویٹیکن کی نیو سٹم کے ساتھ شراکت سے سٹم سیلز کی بنیاد پر بنائی جانے والی ادویات کی تیاری کا عمل تیز ہوجائےگا‘۔ رواں ہفتے کے آغاز میں ویٹیکن میں بالغ سٹم سیلز کے موضوع پر ایک تین روزہ کانفرنس بھی منعقد ہوئی ہے جس میں دنیا بھر سے ساڑھے تین سو ماہرین شریک ہوئے۔ پوپ کی اکیڈمی آف لائف کے سربراہ اگناکیو ڈی پاؤلا کا کہنا ہے کہ بالغ سٹم خلیوں کے موضوع پر یہ اجلاس اس عام خیال کو رد کرتا ہے کہ رومن کیتھولک کلیسا سائنس کا مخالف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ویٹیکن جانتا ہے کہ طبی تحقیق کے شعبے میں انسانوں پر تجربات کا کوئی متبادل نہیں لیکن اہم یہ ہے کہ انسان ایسے تجربات میں فاعل ہو نہ کہ مفعول۔ رومن کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ پینیڈکٹ سنیچر کو ایک ایسی امریکی بایو ٹیک کمپنی کے نمائندوں سے ملاقات کر رہے ہیں جو کہ بالغ ’سٹم سیلز‘ پر تحقیق میں مصروف ہے۔ text: پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل شوکت سلطان نے بتایا کہ انہوں نے جنگی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے جنوبی وزیرستان کے ہمزوالہ گڑیوم کے علاقے میں منگل کی صبح چھ بجکر پچپن منٹ پر یہ تازہ کارروائی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس علاقے میں غیرملکی شدت پسندوں اور ان کے مقامی حامیوں کی موجودگی کی پیشگی اطلاع تھی جس پر انہوں نے یہ کارروائی کر کے پانچ میں سے تین کمپاؤنڈ تباہ کر دیے۔ ان غیرملکیوں پر فوج کے مطابق کافی عرصے سے نظر رکھی جا رہی تھی۔ شوکت سلطان نے اس حملے میں ہلاکتوں کی تصدیق کی تاہم انہوں نے واضح تعداد بتانے سے گریز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حملے کے موقع پر پچیس سے تیس افراد وہاں موجود تھے جن میں سے کچھ شاید بچ بھی گئے ہوں۔ پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی مولانا معراج الدین کا کہنا ہے کہ منگل کی صبح پاکستانی فوج کی جانب سے کارروائی میں ان کی اطلاع کے مطابق صرف آٹھ لوگ مارے گئے ہیں جن میں سے تین مقامی محسود تھے اور پانچ خانہ بدوش تھے۔ ادھر علاقے سے موصول اطلاعات کے مطابق مقامی آبادی نے تباہ کیے جانے والے کچے مکانات کے ملبے سے دس لاشیں نکالیں ہیں جن میں سے تین مقامی محسود جبکہ باقی افغان بتائے جاتے ہیں۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے جعمیت علما اسلام (ف) کے حمایت یافتہ مولانا معراج الدین نے کہا کہ تین محسود قوم کے ہلاک ہونے والے اس کی ذیلی شاخ کیکڑے سے تعلق رکھتے تھے جبکہ خانہ بدوش لکڑیاں کاٹ کر گزارہ کرنے والے غریب لوگ تھے۔ ’یہ سب بے گناہ تھے نہ ملکی نہ غیرملکی تھے۔ ان کو بلکل ناجائز طریقے سے مارا گیا ہے جن کے بارے میں کہاگیا ہے کہ یہ عرب اور ازبک تھے۔ میری اطلاع کے مطابق یہ جھوٹ ہے اور میری اطلاع کے مطابق حقیقت کے انتہائی خلاف ہے۔’ فوج کے مطابق اس کارروائی میں انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ان کے مطابق حملے میں ہیلی کاپٹر استعمال کیے گئے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ابھی تک دس افرا دکی لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔ مرنے والے تین افراد کا تعلق محسود قبیلے سے جبکہ دوسروں کی تاحال شناخت نہیں ہو سکی ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اس حملے میں بظاہر آٹھ یا دس افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ شمالی وزیرستان کے کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرنے والے افغان مزدور تھے جبکہ عمومی رائے یہی ہے کہ یہ علاقہ مقامی طالبان اور ممکنہ غیرملکی شدت پسندوں کے چھپنے اور ان کی تربیت گاہ کے طور پر استمعال کیا جاتا تھا۔ جنوبی وزیرستان میں بھی حکومت نے مقامی جنگجوؤں نیک محمد سے دو ہزار چار اور بیت اللہ محسود کے ساتھ فروری دو ہزار پانچ میں امن معاہدے کیے تھے جن کے تحت مقامی قبائلی غیرملکیوں کو پناہ نہیں دے سکتے تھے۔ جواب میں حکومت نے کارروائیاں روکنے کا وعدہ کیا تھا۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس تازہ کارروائی کے بعد ان معاہدوں کی کیا صورت ہوگی۔ ہمزوالہ گڑیوم شمالی اور جنوبی وزیرستان کی درمیانی سرحد پر واقع دور افتادہ علاقہ ہے۔ یہاں زمین کی ملکیت پر ماضی میں احمد زئی وزیر اور محسود قبائل کے درمیان تنازعات بھی رہے ہیں۔ جنوبی وزیرستان سے سینٹ کے رکن سید صالح شاہ نے اپنے ردِ عمل میں حکومت پر قبائلی جنگجو بیت اللہ کے ساتھ کیے جانے والے امن معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔ انہوں نے بھی بی بی سی اردو ڈاٹ کام سے بات چیت میں فوجی کارروائی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد دس بتائی۔ ان کا بھی کہنا تھا کہ یہ بےگناہ لوگوں کے خلاف کارروائی تھی۔ پاکستان میں فوج کا کہنا ہے کہ اس نے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں منگل کی صبح ایک کارروائی میں مشتبہ شدت پسندوں کا ایک ٹھکانہ تباہ کر دیا ہے۔ اس حملے میں متعدد ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ text: پولیس کے مطابق بارودی سرنگ کو فلائی اوور کی اوبزرویشن پوسٹ میں نصب کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ جہانگیر چوک مصروف ہونے کے باوجود سیکورٹی اعتبار سے حساس ہے، کیونکہ وہاں سے صرف دو تین سو میٹر کے فاصلے پر حکومتی مرکز سِول سیکریٹیریٹ ، جموں کشمیر پولیس کا ہیڈکوارٹر، ریاستی ہائی کورٹ اور ضلع مجسٹریٹ کے علاوہ صوبائی انتظامیہ کا مرکزی دفتر بھی قائم ہے۔ ریاست کے وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کا کاروان کچھ دیر قبل اسی شاہراہ سے گزرا تھا۔ تاہم دھماکے کا ہدف واضح نہیں ہے اور کسی بھی عسکری گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ شہر کے پولیس چیف افہاد المجتبیٰ کے مطابق دھماکہ سے فلائی اوور کا ایک حصہ گر گیا اور ایک کار کو شدید نقصان پہنچا۔ فاروق کا کہنا ہے’میں نے پندرہ سال کے کیریئر میں اس قدر شدید دھماکہ نہیں سنا۔ مجھے صرف اتنا پتہ ہے کہ زوردار دھماکہ ہوا جس سے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا‘۔ جہانگیر چوک میں پچھلے سولہ سال سے میوہ بیچنے والے علی محمد نے، جو واقعہ میں زخمی ہونے کے بعد سرینگر کے صدر ہسپتال میں زیرعلاج ہیں، بتایا کہ دھماکہ سے جو دھواں اور غبار اُٹھا وہ پورے بازار میں پھیل گیا۔ چوک میں قائم چھہ منزلہ ہوٹل جہانگیر کے متعدد شیشے چکنا چور ہوگئے۔ شاہراہ پر تین گھنٹے تک ٹریفک متاثر رہی۔ پولیس نے اس موقع پر پورے علاقے کو سِیل کر دیا اور ایک مشکوک نوجوان کو حراست میں لے لیا، جس پر وہاں موجود خواتین نے احتجاج کیا۔ پولیس نے دھماکے کے فوراً بعد لال چوک مائسوما کے اویس احمد نامی نوجوان کو گرفتار کر لیا، جس پر مقامی خواتین نے احتجاج کیا۔ قابل ذکر ہے کہ چند سال قبل شہر میں متواتر حملوں کے بعد جہانگیر چوک سمیت تمام مصروف بازاروں میں خفیہ کیمرے نصب کئے گئے تھے۔ ایک مقامی پولیس افسر نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا’ویڈیو فوٹیج کی جانچ ہورہی ہے‘۔ بعض عینی شاہدین کا کہناہے کہ فلائی اوور پر نیم فوجی عملہ تعینات رہتا ہے، لیکن دھماکے کے وقت وہاں کوئی نہیں تھا۔ اس حوالے سے سی آر پی ایف کے ترجمان سُدھانشو سنگھ نے بی بی سی کو بتایا ’ڈیوٹی تو چوبیس گھنٹے نہیں رہتی ہے۔ پارٹی تھوڑی دیر پہلے شفٹ ختم کرکے نکلی تھی۔ لگتا ہے کہ شدت پسند موقعہ کی تلاش میں تھے اور اُس وقت حملہ کیا جب وہاں کوئی ڈیوٹی پر مامور نہ تھا‘۔ واضح رہے کہ دوردراز دیہات میں جنگجوؤں اور فوج و نیم فوجی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ برابر جاری ہے لیکن پچھلے چھہ ماہ سے سرینگر میں کوئی پرتشدد واقع نہیں ہوا تھا۔ یہ دھماکہ شمالی کشمیر کے سوپور علاقہ میں ہوئی ایک خونریز جھڑپ کے دو دن بعد ہوا، جس میں لشکر طیبہ کا ایک کمانڈر اور ایک فوجی لیفٹنٹ کرنل ہلاک ہوگئے تھے۔ ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر میں ایک زور دار بارودی دھماکے میں ایک شخص ہلاک جبکہ ایک درجن سے زائد شہری زخمی ہوگئے ہیں۔ text: سکیورٹی وجوہات کی بناء پر چیمپئنز ٹرافی کے التواء کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے کسی سیریز کے انعقاد کی یہ تیسری کوشش ہے۔ اس سے قبل جنوبی افریقہ نے پاکستان کے ساتھ ایک روزہ سیریز کھیلنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ سری لنکا کے ساتھ مجوزہ سیریز بھی نشریاتی اداروں کی عدم دلچسپی کی بناء پر کھٹائی میں پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ہفتۂ رواں میں ہی پی سی بی کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ سری لنکا کے ساتھ پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز کے انعقاد کے امکانات’نہ ہونے کے برابر ہیں‘۔ کرکٹ بورڈ کے اعلٰی افسر شفقت نغمی نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا ہے کہ’کسی ٹورنامنٹ کے التواء کے بعد عالمی کرکٹ کے موجودہ مصروف شیڈول میں سے وقت نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ تاہم ہم نے ویسٹ انڈین ٹیم کو دعوت دی ہے کہ وہ نومبر میں ابوظہبی میں ایک روزہ ٹورنامنٹ کے خاتمے کے فوراً بعد یہاں آ کر دو ٹیسٹ میچ کھیلیں‘۔ ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ کی جانب سے تاحال اس دعوت پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے رواں برس میں ایک بھی ٹیسٹ میچ نہیں کھیلا ہے اور حالیہ شیڈول کے مطابق وہ اپنا پہلا ٹیسٹ جنوری سنہ 2009 میں کھیلےگی جب بھارتی ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ویسٹ انڈیز کو نومبر میں پاکستان آ کر دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے کی دعوت دی ہے۔ text: خفیہ اداروں کے ایک ترجمان نے فرانسیسی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ کچھ شہریوں نے خفیہ اداروں کو اسلان مسخادوف کے بارے میں اہم اطلاعات فراہم کیں تھیں۔ روسی حکام کا کہنا ہے کہ مسخادوف کو گزشتہ ہفتے اس وقت ایک گوریلا کارروائی میں ہلاک کر دیا گیا تھا جب وہ ایک خفیہ بنکر میں چھپے ہوئے تھے۔ماسکو میں حکام مسخادوف پر روس میں ہونے والے کئی بم دھماکوں کی ذمہ داری اسلان مسخادوف پر عائد کرتے ہیں۔ تاہم مسخادوف جو چیچنا کے مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے کرانے کے حامی تھے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے تھے۔ خفیہ اداروں نے یہ نہیں بتایا کہ مسخادوف کے بارے میں کتنے لوگوں نے معلومات فراہم کی تھیں۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ ایک سے زیادہ لوگوں نے مسخادوف کی مخبری کی تھی۔ ترجمان نے کہا کہ ان مخبروں کو تمام رقم ادا کر دی گئی اور اگر ضرورت پڑی تو انہیں روس کے کسی دوسرے حصے یا پھر کسی دوسرے مسلمان ملک منتقل کرنے میں بھی مدد فراہم کی جائے گی۔ حکام نے مسخادوف کی لاش ان کے ورثا کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ روس کے قانون کے تحت مبینہ دہشت گردوں یا باغیوں کو بے نشان قبروں میں دفن کیا جاتا ہے۔ مسخادوف کی ہلاکت کو چیچنیا کے باغیوں کے خلاف روسی حکام نے ایک بڑی کامیابی قرار دیا تھا۔ تاہم روس میں ذرائع ابلاغ نے مسخادوف کی ہلاکت کے بارے میں مختلف سوالات اٹھانے شروع کر دیے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے جن ارکان نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا تھا ان کے خیال میں مسخادوف کی ہلاکت اس بنکر میں نہیں ہوئی۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ مسخادوف کو کہیں اور گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں تفتیش کے دوران جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ روس کے خفیہ اداروں نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے چیچنیا کے باغی رہمنا اسلان مسخادوف کی مخبری کرنے والوں کو ایک کروڑ ڈالر ادا کیے ہیں۔ text: بچے وسط تعلیمی سال میں اساتذہ کی تبدیلی سے ذہنی طور پر متاثر ہوتے ہیں اور اب ان اساتذہ کے بارے میں جو باتیں سامنے آئی ہیں بچوں کے ذہن پر اس کے اثرات پڑیں گے اساتذہ اور والدین کا کہنا تھا کہ ترک شہری استاد ہیں کوئی دہشت گرد نہیں کہ انھیں تین دن میں ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ٭ ’گولن کی تنظیم پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ‘ جمعرات کو پشاور پریس کلب میں اخباری کانفرنس میں 20 سے 25 اساتذہ، طلبا اور ان کے والدین موجود تھے۔ پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب میں پاک ترک سکول پشاور کی ہیڈ ٹیچر عشرت نے کہا کہ ترک اساتذہ نے یہاں اعلیٰ معیارِ تعلیم کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ہمیں ان اساتذہ کا احترام چاہیے،اس طرح انھیں ملک سے نکالنے کا فیصلہ مناسب نہیں ہے۔ پاکستان میں 108 ترک اساتذہ ہیں جبکہ دیگر ترک عملے اور ان کے خاندان کے افراد کی تعداد تقریباً 450 تک ہے۔ طلبا کے والدین اور اساتذہ کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے یہاں 15000 تک طلبا اور طالبات کی تعلیم متاثر ہوگی۔ ادھر ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی جنوبی ایشیا میں ڈائریکٹر چمپا پٹیل نے پاکستانی حکومت کے اس اقدام کو سیاسی فیصلہ قرار دیا ہے۔ ادارے کی جانب سے جاری تحریری بیان میں ترک اساتذہ کو پاکستان چھوڑنے کے حکم کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ 'دو کروڑ 40 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے، پاکستان میں پاک ترک انٹرنیشنل سکول اینڈ کالج کے اساتذہ کو ملک سے نکالنے کے فیصلے کا نقصان پاکستانی بچوں کو ہی ہوگا۔' فتح اللہ گولن کی تحريک کے زيرِانتظام سکولوں کے تُرک عملے کو پاکستان چھوڑ دينے کا حکم۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ 'پاکستان کو ترک حکومت کی خوشی کے لیے سیاسی مقاصد پر مبنی فیصلے کے تحت اساتذہ کو نکالنے کی نہیں زیادہ کلاس رومز اور اساتذہ کی ضرورت ہے۔' ہیڈ ٹیچر عشرت کا کہنا تھا کہ وہ اتنے عرصے سے یہاں کام کر رہے ہیں ان کے بچے اچھے ماحول میں پڑھ رہے ہیں انھوں نے کوئی ایسی نا مناسب حرکت نہیں دیکھی جس سے انھیں کوئی خطرہ محسوس ہوتا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر انھیں ایسا لگتا کہ یہ اساتذہ جہادی تنظیموں سے ہیں یا ان میں کوئی اور بات ہوتی تو وہ کبھی اس بارے میں کچھ نہ کہتے وہ حکومت کا فیصلہ تسلیم کرتے۔ انھوں نے کہا کہ 'ملک بدر کرنے کا کیا مطلب ہے کیا یہ لوگ کوئی دہشت گرد تھے کہ انھیں صرف تین دنوں میں ملک سے نکل جا نے کا کہا جا رہا ہے تو بتائیں اس کے اثرات ان بچوں اور اساتذہ پر کیا پڑیں گے ، ہم اساتذہ کا وقار چاہتے ہیں۔' اس کانفرنس میں موجود اس سکول سے وابستہ پاکستانی استاد وسیم اقبال کا کہنا تھا کہ پاک ترک سکول پاکستان بھر میں بہتر تعلیم فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اس طرح کے فیصلوں سے بچوں کے ذہن پر برے اثرات پڑیں گے۔ یوسف علی پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور تعلیم کے شعبے سے بھی منسلک ہیں۔ یوسف علی کے تین بچے پاک ترک سکول میں زیر تعلیم ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ بڑی تحقیق کے بعد انھوں نے اپنے بچوں کے لیے بہترین سکول کا انتخاب کیا تھا اور وہ اس فیصلے سے خوش تھے کیونکہ اس سکول میں ان کے بچوں تعلیم و تربیت اعلیٰ معیار کی رہی ہے۔ یوسف علی نے بتایا کہ ان سے جب کہا گیا کہ یہ ترک اساتذہ چلے جائیں گے تو اور آ جائیں گے انھیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بچے ہیں مشینیں نہیں ہیں کہ پرزے تبدیل کر دیے جائیں۔ بچے وسط تعلیمی سال میں اساتذہ کی تبدیلی سے ذہنی طور پر متاثر ہوتے ہیں اور اب ان اساتذہ کے بارے میں جو باتیں سامنے آئی ہیں بچوں کے ذہن پر اس کے اثرات پڑتے ہیں۔ ‘ پشاور میں پاک ترک سکول دو کنال کے مکان میں قائم کیا گیا تھا اور اب پشاور کے بڑے رہائشی علاقے حیات آباد میں پاک ترک سکول کا بڑا کیمپس ہے جہاں بڑی تعداد میں طلبا اور طالبات زیر تعلیم ہیں۔ پشاور میں اساتذہ اور والدین نے گذشتہ روز حکومت کے فیصلے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا جبکہ آج پشاور ہائی کورٹ میں اس حوالے سے ایک درخواست بھی پیش کی جانا تھی لیکن اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پاک ترک سکول میں زیر تعلیم بچوں کے والدین اور اساتذہ نے حکومتِ پاکستان سے اپیل کی ہے کہ ترک عملے کو پاکستان سے نکالے جانے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ text: پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کے چیرمئین راجہ ظفر الحق نے کہا کہ حکومت نے ڈاکٹر خان سے ’بلاوجہ کا اعترافی بیان دلواکر اپنے آپ کو مجرم بنالیا گیا ہے‘ ڈاکٹر عبدالقدیر کے اعترافی بیان پر انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی بڑائی کا ثبوت دیا ہے اور اپنے ناکردہ جرائم کا اعتراف کر کے اور اپنے ساتھیوں کی ذمہ داری قبول کر کے انہوں نے جوہری پروگرام کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کے جوہری پروگرام کو لاحق خطرات اور بیرونی دباؤ کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ جب سے یہ پروگرام شروع ہوا ہے اس وقت سے پاکستان پر بیرونی دباؤ رہا ہے لیکن اگر اس سارے معاملے سے بہتر انداز میں نمٹا جاتا تو سائنسدانوں کی بے عزتی بھی نہ ہوتی اور مخالفین کو بھی کوئی بات کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ انہوں نے اس ضمن میں بھارتی وزیر خارجہ یشونت سہنا کے بیان کا بھی حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اقبالی بیان سے معاملہ ختم نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا حکومت کو اس معاملے میں مشاورت اور سنجیدگی سے کام لینا چاہیے تھا۔ جاعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کے ساتھیوں کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا صدر مشرف نے ڈاکٹر خان سے اقبالی بیان دلوا کر پاکستان کے لیے زیادہ مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ انہوں نے کہا اسی باعث صدر مشرف جمعرات کے روز اپنی پریس کانفرنس میں پریشان نظر آ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اقبالی بیان دے کر پاکستان نے اپنے آپ کو ملزم کے کٹھرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ جوہری پروگرام کو بچانے کا راستہ نہیں اور اپنے آپ کو شکنجے میں ڈالنے کا راستہ ہے۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے ڈاکٹر خان کے اعترافی بیان کو ان کی حب الوطنی اور بڑائی قرار دیا ہے جب کہ اس سارے معاملے پر حکومت کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس سے ملک کے لیے آنے والے دنوں میں مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا۔ text: فنزبری پارک کے علاقے میں مسلمانوں پر ایک وین چڑھائے جانے کے واقعے کے بعد چار بچوں کے باپ 47 سالہ ڈیرن اوزبورن کو قتل کی کوشش اور مبینہ دہشت گردی کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔ ٭ لندن ’دہشت گردی‘: مسجد کے باہر وین نے لوگ کچل دیے میٹروپولیٹن پولیس کی سربراہ کریسیڈا ڈک اور مذہبی رہنماؤں نے پیر کی رات ماتمی تقریب میں شرکت کی۔ پولیس کے مطابق ایک وین اس وقت فٹ پاتھ پر چلنے والے لوگوں پر چڑھا دی گئی جب وہ نصف رات کے قریب سیون سسٹرز روڈ پر فنزبری پارک کی مسجد میں نماز پڑھ کر باہر نکل رہے تھے۔ اس حملے میں ایک شخص ہلاک اور کم از کم دس افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں مزید پولیس اور مسلح افسران کو تعینات کرنے کی بات کہی گئی ہے کریسیڈا ڈک نے کہا کہ 'یہ واقعہ واضح طور پر مسلمانوں پر حملہ ہے' اور اب اس برادری کی حفاظت کے لیے علاقے اور بطور خاص مذہبی مقامات پر مزید پولیس اور مسلح افسران تعینات ہوں گے۔ اوزبورن کی والدہ، بہن اور بھانجوں نے ایک بیان میں کہا: 'ہم لوگ بہت زیادہ صدمے میں ہیں۔ یہ ناقابل یقین ہے۔ ہم اس سے نمٹ نہیں پا رہے ہیں۔' انھوں نے مزید کہا: 'زخمیوں کے لیے ہمارا دل افسردہ ہے۔' دریں اثنا پولیس نے کارڈف کے علاقے میں ایک مکان کی تلاشی لی ہے۔ پولیس جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے وزیر سکیورٹی بین ویلیس کا کہنا ہے کہ مشتبہ شخص کا سکیورٹی سروسز میں ریکارڈ نہیں اور زیادہ امکان یہی ہے کہ اس نے تنہا ہی یہ کام انجام دیا ہے۔ میٹروپولیٹن پولیس نے کہا کہ مسٹر اوزبورن کو قتل اور قتل کی کوشش سمیت دہشت گردی کے واقعے اور اس کی تیاری کے شبے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس نے بتایا ہے کہ اس واقعے میں 11 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے نو کو ہسپتال لے جایا گیا ہے اور دو کا حملے کی جگہ ہی علاج کیا گیا ہے۔ بہت سے زخمیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی حالت تشویش ناک ہے۔ پیر کی شب مذہبی رہنماؤں نے فنز بری پارک مسجد کے پاس لوگوں سے خطاب کیا۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد مسجد کے چیئرمین محمد کوزبر نے کہا کہ 'یہ حملہ ہمارے خاندانوں، ہماری آزادی اور ہمارے وقار پر تھا۔' مسجد کے پاس ایک شب بیداری کی ماتمی تقریب منعقد کی گئی جس میں مذہبی رہنماؤں نے شرکت کی انھوں نے بتایا کہ اس حملے میں جو شخص ہلاک ہوا ہے اس کے چھ بچے ہیں۔ سٹیپنی کے بشپ ریو ایڈریئن نیومین نے کہا: 'کسی ایک عقیدے پر حملہ ہم سب پر حملہ ہے۔' خیال رہے کہ برطانیہ میں گذشتہ تین ماہ کے دوران ویسٹ منسٹر، مانچسٹر اور لندن برج کے بعد یہ چوتھا دہشت گردانہ حملہ ہے۔ شمالی لندن میں واقع ایک مسجد پر ہونے والے دہشت گردی کی کارروائی کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے شخص کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ صدمے کا شکار اور غم سے چور ہیں۔ text: صدر پوٹین کا یہ درینہ موقف ہے کہ شام کے مسئلے کا حل صرف سیاسی طریقے سے نکل سکتا ہے شام کے بحران پر اہم ممالک کیا موقف رکھتے؟ روس روس شامی صدر بشارالاسد کے سب سے اہم بین الاقوامی حامیوں میں سے ایک ہے اور صدر اسد کی حکومت کی بقا شام میں روسی مفادات کو برقرار رکھنےکے لیے اہم ہے۔ روس نے نہ صرف اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں شامی حکومت کے خلاف پیش کی جانے والے قراردادوں کو ویٹو کیا ہے بلکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے تنقید کے باوجود شام کو اسلحے کی فراہمی بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ماسکو شام کی بندرگاہ طرطوس میں موجود اپنے بحری اڈے کو کھونا نہیں چاہتا کیونکہ خطے میں یہ روس کا واحد بحری اڈہ ہے۔اس کے علاوہ لتاقیہ میں روس کا ایک فضائی اڈہ بھی ہے۔ روسی فضائیہ اگرچہ اس وقت شام میں داعش اور دیگر گروہوں کو نشانہ بنا رہی ہے لیکن صدر پوٹن کا یہ درینہ موقف ہے کہ شام کے مسئلے کا حل صرف سیاسی طریقے سے نکل سکتا ہے۔ روس کی شام میں فضائی کارروائی کس کے خلاف ہے؟ دولتِ اسلامیہ کے خلاف زمینی جنگ کے لیے 5 ہزار افراد کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرنے کا امریکی منصوبہ بری طرح ناکام ہوگیا ہے امریکہ امریکہ صدر بشار الاسد پر شام میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف وزیوں کا الزام لگاتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ شام کے مسئلے کے حل کے لیے صدر اسد کی حکومت کا خاتمہ ضروری ہے۔ اگرچہ امریکہ کا بھی یہ موقف ہے کہ شامی بحران کا سیاسی حل ہی نکل سکتا ہے لیکن بحران کے آغاز سے ہی امریکہ ’اعتدال پسند‘ باغیوں کو فوجی امداد فراہم کر رہا ہے۔ گزشتہ برس ستمبر سے شام میں امریکہ اپنی اتحادیوں کے ساتھ مل کر دولتِ اسلامیہ اور دیگر شدت پسند گرہوں کے خلاف فضائی کارروائی بھی کر رہا ہے۔ لیکن امریکہ نے شدت پسندوں کو ان علاقوں میں نشانہ نہیں بنایا جہاں وہ صدر بشار الاسد کی افواج سے لڑ رہے ہیں۔ دولتِ اسلامیہ کے خلاف زمینی جنگ کے لیے 5 ہزار افراد کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرنے کا امریکی منصوبہ بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ شام میں لڑنے والے بہت سے گروہوں کو مالی اور فوجی امداد سعودی عرب ہی فراہم کر رہا ہے سعودی عرب سعودی عرب کا موقف ہے کہ صدر بشار الاسد شام کے بحران کے حل کا کسی بھی طور پر حصہ نہیں ہوسکتے اور فوراً شامی حکومت کا خاتمہ کر کے اقتدار عبوری حکومت کے حوالے کیا جائے۔ شام میں لڑنے والے بہت سے گروہوں کو جن میں شدت پسند گروہ بھی ہیں، مالی اور فوجی امداد سعودی عرب ہی فراہم کر رہا ہے۔ سعودی عرب کی خواہش ہے کہ امریکہ شام میں براہ راست فوجی کارروائی کرے لیکن امریکہ ایسا کرنے کو تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے حالیہ برسوں میں دونوں اتحادیوں کے تعلقات سرد مہری کا شکار رہے ہیں۔ شام میں لڑنے والوں کے لیے امداد اور شدت پسند جہادی بھی ترکی کے راستے ہی ملک میں پہنچتے ہیں ترکی شام میں حکومت مخالف تحریک کے آغاز سے ہی ترکی بشارالاسد کی حکومت پر شدید تنقید کرتا آیا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کا کہنا ہے کہ شامی عوام کے لیے ایک ایسے آمر کو برداشت کرنا ممکن نہیں جس کی وجہ سے تین لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہوں۔ ترکی شامی حزبِ اختلاف کا ایک اہم حامی ہے اور اس وقت تقریباً 20 لاکھ شامی پناہ گزین ترکی میں مقیم ہیں۔ شام میں لڑنے والوں کے لیے امداد اور شدت پسند جہادی بھی ترکی کے راستے ہی ملک میں پہنچتے ہیں۔ رواں برس دولتِ اسلامیہ کی جانب سے ترکی میں کیے جانے والے ایک بم حملے کے بعد ترکی نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف جاری فضائی کارروائی کے لیے اپنے اڈے استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔ ایران نے شامی بحران کے حل کےلیے کثیر جماعتی انتخابات کی تجویز پیش کی ہے ایران ایران خطے میں صدر اسد کا سب سے اہم اتحادی ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ شامی حکومت کو اربوں ڈالر کی امداد، اسلحہ اور تیل فراہم کر رہا ہے۔ بشار الاسد کا اب تک حکومت میں رہنا ایران کی حمایت کے باعث ہی ممکن ہوسکا ہے۔ شام ایران کا درینہ اتحادی ہے اور دہائیوں سے لبنانی عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کو ایران اسلحہ شام کے راستے ہی پہنچاتا آیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حزب اللہ کی جانب سے شامی افواج کی مدد کے لیے جنگجو بھیجنے کا فیصلہ بھی ایرانی حکومت کی درخواست پر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایران اور عراق سے بھی لوگ آکر شامی افواج کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں اور ان افراد کا موقف ہے کہ وہ مقدس ہستیوں کے مزارات کی حفاظت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ایران نے شامی بحران کے حل کےلیے کثیر جماعتی انتخابات کی تجویز پیش کی ہے۔ شام میں جاری جنگ میں اہم عالمی طاقتوں میں سے کچھ صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہی ہیں تو کچھ ان کی حکومت کے خلاف لڑنے والے جنگجوگروہوں کو امداد فراہم کر رہی ہیں۔ text: ’ایدھی صاحب کی خدمات ہمشہ یاد رکھی جائیں گے۔‘ عبدالستار ایدھی کے انتقال کی خبر آنے کے بعد میڈیا چینلز کی لمحہ با لمحہ رپورٹنگ نے مجھے ماضی میں دھکیل دیا۔ زمانہ طالب علمی میں اکثر اوقات ہنسی مذاق میں دوست احباب کسی بات پر یہ کہہ کر چپ کروا دیتے تھے کہ ’زیادہ ایدھی بننے کے ضرورت نہیں ہے‘ اُس وقت میں اس جملے کا مطلب بھی ناپختہ سوچ کی طرح غیر واضح تھا بس یہی سمجھ میں آتا تھا کہ سامنے والا یہ کہہ رہا ہے کہ زیادہ اچھا بننے کی ضرورت نہیں۔ تعلیم مکمل ہوئی اور پیشہ ورانہ زندگی شروع ہوئی تو ایک مرتبہ جونیئر رپورٹر کی حیثیت سے ایدھی ہوم میں اجتماعی شادی کی تقریب کی رپورٹنگ کے لیے جانے کا اتفاق ہوا۔ وہیں پہلی مرتبہ عبدالستار ایدھی اور اُن کی اہلیہ بلقیس ایدھی سے ملاقات کا موقع ملا۔ ایدھی ہوم میں پروان چڑھنے والی لا وراث لڑکیوں کی شادی پر بلقیس ایدھی اور ایدھی صاحب جذبات بالکل ایسے تھے حقیقی ماں باپ کے ہوتے ہیں وہ لڑکیاں رخصتی کے وقت دونوں کو ممی اور پاپا کہہ کر گلے لگیں اور خوب روئیں۔ ایدھی صاحب کی آنکھیں بھی نم تھیں۔ یہ پہلی ملاقات بہت پراثر اور اپنایت سے بھرپور تھی۔شاید یہی وہ خصوصیت تھی جس نے خدمت خلق کے جذبے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو عبور کرنے میں ایدھی کی مدد دی۔ بظاہر ایک سادہ سا آدمی ہر نمود و نمائش سے پاک درحقیقت کتنا بڑا آدمی ہے۔ مرنے کے بعد گور اور کفن ملنا ہر انسان کا حق ہے لیکن جس ملک میں ایک بم دھماکے میں کئی افراد کے پرخچے اڑ جائیں تو ایسے میں میت کے قریب آتے ہوئے گھر والے بھی ہچکچاہتے ہوں لیکن ایدھی فاؤنڈیشن نہ جانے کتنی میتوں کو سٹرک سے اُٹھا کر آخری آرام گاہ تک لے جاتی ہے۔ ایمبولینس سروس، سرد خانے، میت رکھنے کے مراکز ہیں اور یہاں تک جب ماں کسی مجبوری کی بنا پر اپنے لختِ جگر ایدھی کی گود میں ڈال دیتی ہے، اپنوں کی محرومیوں کے شکار بزرگ بھی ایدھی کے سائبان تلے آ کر امان پاتے ہیں۔ ایدھی کی خدمات کو جہاں کئی افراد نے سراہا وہیں اُن کے خلاف مہم چلانے والوں نے اُن پر لاوارث لاشوں کے اعضا نکالنے اور لاشیں بیچنے کا بھی الزام لگایا۔ لیکن انسانیت کے جذبے کی رسی تھامے وہ آگے بڑھتے گئے اور مخالفتیں دم توڑتی گئی۔ تو جوں جوں نفسانفسی کے اس دور میں درندگی بڑھتی گئی ’زیادہ ایدھی نہ بنو‘ کا مطلب واضح ہونے لگا۔ انسانیت، ہمدردی، خیال، خدمتِ خلق کا جذبہ سادگی اور اچھائی جیسی صفات کو اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو شاید ’ایدھی‘ سے مناسب کوئی لفظ نہیں ہو گا۔ ایدھی ایک احساس کا نام تھا اُن کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد یہ احساس ہوا کہ وہ خود تو منوں مٹی تلے چلے جائیں گے لیکن اُن کا نام ہمیشہ مجھ جیسے افراد کو زندگی کا مقصد یاد دلانے کے ساتھ ساتھ اور یہ باور کرواتا رہے گا کہ ’ایدھی جیسا بنو‘ ’ایدھی صاحب ایک عظیم انسان تھے، عبدالستار ایدھی کے انتقال سے قوم یتیم ہو گئی۔‘ text: جمعہ کو نیوز بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گرفتار شدگاں سے سیکورٹی فورسز ابھی پوچھ گچھ کر رہی ہیں اور ابتدائی تفتیش سے اشارے ملے ہیں کہ ان کا تعلق القائدہ سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام گرفتار شدگاں پاکستانی ہیں اور ان میں ان میں کوئی بڑا فراری ملزم شامل نہیں۔ وزیر داخلہ نے بتایا کہ ایوب پارک راولپنڈی میں ایک راکٹ پھٹہ تھا لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ صدر جنرل پرویز مشرف کی فوجی رہائش گاہ کے قریب واقع ایوب پارک سے ان کے مطابق چار راکٹ برآمد کرکے انہیں ناکارہ بنایا گیا۔ جبکہ وزیر نے کہا کہ پارلیمان اور آئی ایس آئی کے دفتر کے سامنے سے ملنے والے دو دوراکٹ بھی ناکارہ بنائے گئے اور یہ سیکورٹی فورسز کی اہم کامیابی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان ملزمان کا ایک ہی گروہ ہے اور انہوں نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں راکٹ نصب کرنے کے لیے گاڑی بھی ایک ہی استعمال کی۔ ان کے بقول ملزمان کی گرفتاری ان کے موبائیل فونز کو ’ٹریس، کرنے سے عمل میں آئی۔ وزیر نے کہا کہ اسلام آباد، راولپنڈی اور صوبہ پنجاب کے دیگر شہروں سے ان ملزمان کو سیکورٹی فورسز نے چھاپے مارکر گرفتار کیا۔ ان کے مطابق گرفتار شدگاں سے اسلحہ اور بارود بھی برآمد ہوا ہے۔ ایک اور سوال پر آفتاب شیر پاو نے بتایا کہ ملزمان سے تاحال ہونے والی پوچھ گچھ اور راکٹ نصب کیے جانے کا تجزیہ کرنے سے اب تک جو صورتحال سامنے آئی ہے اس سے لگتا ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف کو نشانہ نہیں بنایا گیا تھا بلکہ تباہی پھیلانا اور انارکی پیدا کرنا ان کا مقصد تھا۔انہوں نے کہا کہ 107 mm کے یہ ٹینک شکن راکٹ روسی ساخت کے ہیں اور جس طرح نصب کیے گئے تھے وہ اگر چلتے تو کسی مخصوص حدف کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ جہاں گرتے وہاں پھٹ سکتے تھے۔ وزیر نے بتایا کہ پارلیمان کے سامنے جو دو راکٹ برآمد ہوئے وہ موبائیل فون سے جڑے تھے اور ریموٹ کنٹرول سے چلائے جانے تھے۔ ان کے مطابق جو موبائیل فون وہاں سے ملے ان کے مالکان تک رسائی کے بعد ملزمان کو پکڑا گیا۔ صوبہ پنجاب کے شہر منڈی بہاؤالدین سے ایک فراری فوجی علی احمد اور اسلام آباد کے علاقہ گولڑہ کے رہائشی طالبعلم ندیم احمد یوسف کو راولپنڈی سےگرفتار کیے جانے کے سوال پر وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ گرفتار شدگاں میں سے کسی کے نام کی تصدیق نہیں کرسکتے کیونکہ اس سے تفتیش متاثر ہوگی۔ ادھر انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ گرفتار شدگاں کا تعلق ایک ایسی کاالعدم جماعت سے ہے جس کے کچھ لوگ پہلے بھی صدر جنرل پرویز مشرف پر حملوں میں پکڑے جاچکے ہیں۔ واضح رہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف کی راولپنڈی میں واقع فوجی رہائش گاہ کے قریب ایوب پارک میں چار اکتوبر کو راکٹ دھماکہ ہوا تھا جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ اُس کے اگلے روز یعنی پانچ اکتوبر کو اسلام آباد میں پارلیمان اور ایوان صدر کے سامنے سیکورٹی فورسز نے دو راکٹ برآمد کیے تھے۔ جس بارے میں پولیس نے شبہہ ظاہر کیا تھا کہ موبائل فون سے جڑے وہ راکٹ صدر کے قافلے کو نشانہ بنانے کے لیے نصب کیے گئے تھے۔ جبکہ اس کے محض دو روز کے بعد پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے صدر دفتر کے سامنے دو مزید راکٹ ملے تھے۔ بم ڈسپوزل سکواڈ نے تمام برآمد ہونے والے راکٹ کو ناکارہ بنا دیا تھا۔ وزیر داخلہ نے بتایا کہ امریکہ زیر حراست آٹھ پاکستانیوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہوگیا ہے۔ ان کے مطابق گوانتانامو بے سے دو اور افغانستان کے شہر بگرام سے چھ پاکستانی رہا ہوکر آئندہ اتوار کو پاکستان پہنچ جائیں گے۔ ان کی رہائی کے بعد باقی قید پاکستانیوں کی تعداد گوانتانامو بے میں پانچ اور بگرام میں چودہ ہوگی۔ پاکستان کے وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے بتایا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں راکٹ دھماکے اور برآمد کیے جانے کے سلسلے میں آٹھ افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔ text: کانپور میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک روزہ میچ میں اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لیے خاصی تعداد میں پاکستانی شائقین گرین پارک میں موجود تھے۔ میچ کا آغاز کافی سنسنی خیز رہا اور جب نوید الحسن نے سہواگ کو بولڈ کیا تو وہ خوشی سے جھوم اٹھے۔ اور خوشی سے جھومتے ہوئے انہوں نے پہلے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے اور پھر نعرہ تکبیر کی صدا بلند کی۔لیکن جب جواب میں ہزاوں ہندوستانی شائقین نے پاکستان مردہ باد کے نعروں لگانے شروع کیے تو جلدی ہی انہیں احساس ہوگیا کہ سکون سے میچ دیکھنے میں ہی عافیت ہے۔ کانپور میں سابق کپتان ظہیر عباس اور پاکستان ریڈیو کے کمینٹریٹر مرزا اقبال کی بھی سسرال ہے۔ کانپور میں شادی کرنا تو ایسی کوئی بڑی کامیابی نہیں، لیکن مرزا اقبال نے ایک دلچسپ بات بتائی جس کا ذکر ضروری ہے۔ انیس سو چھیانوے میں شاہد آفریدی نے کینیا میں جس بیٹ سے سری لنکا کے خلاف صرف سینتیس بالز میں تاریخ کی سب سے تیز سنچری بنائی تھی، وہ سچن تندولکر کا تھا۔ یوں تو دونووں ٹیموں کے ڈریسنگ روم ہمیشہ الگ ہوتے ہیں، لیکن اس دن ٹیمیں ایک ہی ڈریسنگ روم استعمال کر رہی تھیں۔ آفریدی نے غلط فہمی میں بیٹ اٹھایا اور چند ہی لمحوں میں سنچری جما دی۔ بعد میں تندولکر نے انہیں وہ بیٹ تحفےمیں دیدیا۔ تو کیا یہ کہانی بالکل درست ہے؟ مجھے نہیں معلوم لیکن کرکٹ کے میدان پر ہند پاک شراکت کا مرکزی خیال بہت اچھا ہے۔ جب بات ہند پاک شراکت کی ہو تو ظہیر عباس کی سسرال کا ذکر بھی ضروری ہے۔ وہ لمبے عرصے سے دونوں ملکوں کو رشتہ ازدواج کے ذریعہ قریب لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے پچیس سال پہلے ایک ہندو لڑکی سے شادی کی تھی۔ ان کی اہلیہ ریٹا لوتھر نے بعد میں اپنا نام بدل کر ثمینہ رکھ لیا اور اپنی بیٹی سونیا کی شادی واپس ہندوستان میں کردی۔ ماں بیٹی دونوں انٹیرئیر ڈیزائنر ہیں اور شاید دونوں ملکوں کو اندر سے بدلنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ظہیر کا ڈائیلاگ تھوڑا فلمی لیکن اچھا ہے۔ ’پہلے میں نے ایک ہندوستانی سے شادی کی اور آج میری بیٹی ہندوستان کی بہو ہے۔ اس طرح اگر دو خاندان مل سکتے ہیں، تو دونوں ملک بھی ایک ہوسکتے ہیں، بس پہل کرنے کی ضرورت ہے‘۔ شاید صدر مشرف، جو خود ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے، ایسی ہی پہل کرنے دلی آرہے ہیں۔ کانپور سے پاکستانی ٹیم کے رشتوں کا ذکر ابھی ختم نہیں ہوا۔ ٹیم کے کوچ باب وولمر ستاون برس پہلے اسی شہر کے ایک اسپتال میں پیدا ہوئے تھے۔ جس کمرے میں انہوں نے پہلی مرتبہ آنکھ کھولی تھی، وہ اب ایک آپریشن تھیٹر ہے جس کا نام وولمر کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ یہ تو ہوئی پیار محبت اور رشتوں کی بات، لیکن جیسا میں نے پہلے کہا دوستی نئی بھی ہے اور نازک بھی۔ کانپور شہر بھی مذہبی تشدد کے تعلق سے کافی حساس ہے اور یہاں سڑکووں اور بازاروں میں ٹی وی پر میچ دیکھنے یا دکھانے تک پر پابندی عائد ہے۔ انضمام الحق کہتے ہیں کہ کرکٹ سے بڑھیا سی بی ایم ( اعتماد بڑھانے کے اقدام) کوئی نہیں اور موجودہ سیریز کوئی ہارے کوئی جیتے، ہم لاکھوں لوگوں کے دل ضرور جیت لیں گے۔ میں اس بات کو جب سچ مانوں گا جب ہندوستان میدانوں پر انضمام کے اترتے وقت’ آلو‘ نہیں ’انضی‘ کی آواز بلند ہوگی اور پاکستان زندہ باد کا جواب پاکستان مردہ باد سے نہیں ہندوستان زندہ باد سے دیا جائے گا ۔ کیونکہ میں نےبہت سے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ دونوں ملکوں کو ساتھ رہنا ہوگا اور امن سے رہنا ہوگا۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوستی نئی بھی ہے اور نازک بھی اور ذرا سے پریشر میں ہی یہ بکھرنے لگتی ہے۔ text: وائٹ ہاوس پر اس بات کی تفتیش کے لئے دباؤ بڑھ رہا ہے کہ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کیوں نہیں مل سکے۔ برطانوی حکومت پر بھی عراق کے خلاف جنگ سے پہلے خفیہ اداروں سے ملنے والی معلومات کی معتبری کے بارے میں تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ برطانوی وزیر اعظم جب منگل کو پارلیمنٹ کے اعلیٰ ارکان کی ایک کمیٹی کے سامنے پیش ہوں گے تو ان سے عراق میں مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کے دعوے کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ تاہم صدر بُش نے جمعہ کے روز اپنے خطاب میں اس طرح کی تفتیش کے بارے میں بات نہیں کی۔ عراق میں ہتھیاروں کی تلاش میں اب تک ناکامی کے بارے میں تفتیش کے مطالبے کی وجہ وائٹ ہاؤس کی طرف سے اس امکان کا اعتراف ہے کہ حملے سے قبل ملنے والی انٹیلی جنس غلط ہو سکتی ہیں۔ امریکہ میں قومی سلامتی کی مشیر کونڈولیزا رائس نے جمعرات کو کہا کہ عراق پر حملے کا جواز بننے والی کچھ اہم معلومات غلط ہو سکتی ہیں۔ خیال ہے کہ عراق میں مہلک ہتھیاروں کی تلاش کے بارے میں کام کرنے والی ٹیم کے سابق سربراہ ڈاکٹر ڈیوڈ کے کے عراق میں اسلحے کے ذخیرے کی عدم موجودگی کے بارے میں بیان کے بعد کونڈولیزا رائس کا بیان مجبوری بن گیا تھا۔ واشنگٹن میں بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ حکومت پر جنگ سے قبل ملنے والی معلومات کے بارے میں تحقیقات کے لئے دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ تاہم نامہ نگار کے مطابق عراق میں مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کے سوال کو عراق پر حملے کے فیصلے کے صحیح یا غلط ہونے سے الگ سمجھا جا رہا ہے۔ امریکی صدر جارج بُش نے جمعہ کو ہی کہا کہ عراق کے معزول صدر صدام حسین ’خطرہ‘ تھے جس سے انہوں نے نمٹا ہے اور اس کے نتیجے میں دنیا پہلے سے محفوظ جگہ ہے اور عراقی عوام کو آزادی ملی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم کے ترجمان نے تحقیقات کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے عراق میں ہتھیاروں کی تلاش میں مصروف عراق سروے گروپ کو مزید وقت دیا جانا چاہیے۔ ہتھیاروں کی تلاش کرنے والے معائنہ کاروں کے لئے کوئی ڈیڈلائن نہیں ہے۔ امریکہ کے صدر جارج بُش نے کہا ہے کہ وہ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کے بارے میں ’حقیقت جاننا چاہتے ہیں‘۔ text: ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’ آئین کے مطابق مجھے دو ہزار سات تک اس عہدے پر رہنے کی اجازت ہے تو میں رہونگا‘۔ مشرف کا کہنا تھا کہ وردی کے متعلق بہت طرح کی باتیں کہی جارہی ہیں۔ لیکن وہ اتنا جانتے ہیں کہ اگرانتخابات نومبر دو ہزار سات میں ہوئے تو وہ فوجی وردی میں ہونگے ۔ ’اس پر میں نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے اورہاں اسکے متعلق مجھے فیصلہ کرنا ہے‘۔ پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ ملک کے لیے یہ فیصلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جب ان سے یہ کہا گیا کہ شاید آپ اس عہدے پر برقرار رہنا چاہتے ہیں توانہوں نے کہا کہ 'مجھے نہیں معلوم، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔، بات چیت کے دوران پرویز مشرف نے یہ بھی کہا کہ عام انتخابات میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور بے نیظیر بھٹو کو حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ صدر مشرف نے کہا کہ اگر نواز شریف پاکستان آئے تو انہیں واپس سعودی عرب بھیج دیا جائیگا اور بے نظیر کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ ایک سوال کے جواب میں مشرف نے کہا کہ دونوں رہنماؤں کو مجرم ٹھرایاجاچکا ہے۔ ایک نے دس برس باہر رہنے کا عہد کیا ہے اور دوسرا بھی تب ہی سے ملک کے باہر ہے۔ جنرل مشرف نے کہا کہ انتخابات نومبر کے بعد اور جنوری دوہزار آٹھ سے پہلے ہونگے۔ انہوں نے امید ظاہر کی وہ ان انتخابات میں کامیاب ہونگے۔ پاکستان کے صدر جنرل پرویزمشرف نے بھارت کے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ دوہزار سات میں عام انتخابات ہونے تک وہ فوجی عہدے پر برقرار رہیں گے۔ text: نئے قانون کے تحت ہتھیار خریدنے کے لیے جانچ پڑتال کے نظام کو مضبوط بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے امریکہ: اسلحے کا غیر قانونی استعمال روکنے کے لیے صدارتی حکم نامہ قومی رائفل ایسوسی ایشن نے جمعرات کو امریکی ٹی وی پر اس سلسلے میں ہونے والے مباحثے کو تعلقاتِ عامہ کا تماشہ قرار دیتے ہوئے اس میں حصہ لینے سے انکار کیا ہے۔ تاہم امریکہ میں ریپبلکن پارٹی کے صدارتی اُمیدوار بننے کے خواہشمند ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر وہ صدر بنے تو وہ پہلے ہی دن سکولوں میں گن فری زونز ختم کردیں گے۔ امریکی ریاست ورجینیا میں جارج میسن یونیورسٹی میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے قومی رائفل ایسوسی ایشن اور دیگر کو یہ تاثر دینے پر موردِ الزام ٹھہرایا کہ ’کوئی اُن کی بندوقیں ضبط کرنے آرہا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ وہ تمام ہتھیار ضبط کرنے کے بجائے ان کے پس منظر کی جانچ پڑتال کے نظام کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدراتی اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ گن فری زونز کو ختم کر دیں گے نیویارک ٹائمز شائع ہونے والے ایک آرٹیکل صدر اوباما نے بندوق سے ہونے والے تشدد کو ایک قومی مسئلہ قرار دیا اور ہتھیار سازوں سے کہا کہ وہ اس کلچر کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کریں۔ صدر اوباما نے مزید کہا کہ وہ ڈیمو کریٹس کی مہم نہیں چلائیں گے، جنھوں نے بندوق کے نظام کے حوالے سے ہونے والی اصلاحات کی حمایت نہیں کی۔ اُن کے مطابق رہنماؤں کو اتنا بہادر ہونا چاہیے کہ وہ اس کے خلاف آواز اُٹھا ہوسکیں جسے وہ بندوق لابی والوں کا جھوٹ کہتے ہیں۔ این آر اے کے ترجمان اینڈریو ایرولننڈام کے مطابق اُن کے گروپ کو ’وائٹ ہاؤس کی جانب سے منعقد کرائے گئے اس عوامی مباحثے میں شرکت کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آئی۔‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے شمال مشرقی امریکہ کی ریاست میں ایک ریلی سے خطاب کے دوران گن فری زونز کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ انھوں نے مجمع سے پوچھا کہ ’آپ کو معلوم ہے کہ ایک ذہنی مریض شخص کے لیے گن فری زون کیا ہے؟ یہ اُسے ترغیب دینے کے مترادف ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے ملک میں ہتھیار رکھنے کی حامی لابی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ قومی رائفل ایسوسی ایشن اسلحے پر کنٹرول کے تجویز کردہ قانون سازی کو جان بوجھ کر غلط انداز میں پیش کیا ہے۔ text: جس وقت یہ سودا ہوا ، اس وقت بہت سے اعتراضات میں سے ایک یہ تھا کہ پاکستان سٹیل کی انیس ہزار ایکڑ زمین کی قیمت ہی سودے کی رقم سے کہیں زیادہ ہے۔ حکومتی اہلکاروں کا اصرار تھا کہ یہ اندازے درست نہیں ہیں اور یہ کہ پاکستان سٹیل کی ساری زمین یعنی انیس ہزار ایکڑ بیچی نہیں جا رہی بلکہ صرف پلانٹ اور اس کے زیر استعمال کوئی ساڑھے چار ہزار ایکڑ کا سودا کیا گیا ہے۔ زمین اور پلانٹ سب کی قیمت اکیس ارب روپے سے تھوڑی سی زیادہ تھی۔ اگر سپریم کورٹ مداخلت نہ کرتی تو ملک کو اربوں روپے کا نقصان تقریباً پہنچا ہی دیا گیا تھا۔ اب اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پاکستان سٹیل کی ’نان کور‘ زمین کی (یعنی وہ زمین جو پلانٹ سے وابستہ نہیں ہے) قیمت ستّر لاکھ روپے فی ایکڑ مقرّر کی ہے۔اس سرکاری حساب سے اگر انّیس ہزار ایکڑ زمین کی قیمت نکالی جائے تو یہ ایک کھرب تینتیس ارب روپے بنتی ہے ۔ لیکن اگر صرف پاکستان سٹیل کی نام نہاد نجکاری کے معاہدے کے مطابق چار ہزار چار سو ستاون ایکڑ زمین کی قیمت اقتصادی رابطہ کمیٹی کی اب مقرر کردہ نرخ سے لگائی جائے تو یہ بھی اکتّیس ارب انّیس کروڑ نوے لاکھ بنتی ہے جو مل کے سودے سے تقریباً ڈیڑھ گنا ہے اور اس میں مل کا پلانٹ شامل نہیں ہے جس کی اپنی قیمت اربوں میں ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے فی الحال ’ نان کور‘ زمین میں سے ایک ہزار چار سو تئیس ایکڑ بیچنے کا فیصلہ کیا ہے اس میں سے ایک ہزار ایکڑ کو ابھی قابل استعمال بنانا ہے۔ جبکہ پاکستان سٹیل کی جو کور زمین بیچ دی گئی تھی وہ ساری قابل استعمال ہے اور اس کی قیمت بھی سرکار کی اب مقرر کردہ قیمت سے زیادہ بتائی گئی تھی۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کے بعد یہ بات تو اب مزید واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان سٹیل مل کی نجکاری سپریم کورٹ کے مطابق ’جلدی میں اور غلط کی گئی تھی‘۔ بی بی سی نے اس وقت اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں یہ نشاندہی کی تھی کہ خریداری کے معاہدے کے مطابق کسی دوسرے ملک میں رجسٹرڈ غیر معروف کمپنیاں خریدار ہیں جبکہ کنسورشیم میں شامل کمپنیوں کے نام معاہدے میں خریدار کی حیثیت سے درج نہیں تھے۔ تو اب جب اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے سے یہ بات طے ہوگئی ہے کہ پاکستان سٹیل کی نجکاری اصل مالیت سے بہت کم رقم پر کی جارہی تھی تو کیا ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی جو اس مشتبہ سودے میں پوری طرح ملوث تھے؟ اصولاً تو متعقلہ وزیر کے خلاف یہ کام سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہی ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن اگر اس وقت نہیں ہوا تو وزیر اعظم کے زیر صدارت رابطہ کمیٹی کے فیصلے کے بعد تو ہوہی جانا چاہیے۔ مگر کیا ایسا ہوگا۔ شاید نہیں۔ تو بالآخرخود حکومت نے تسلیم کرلیا کہ پاکستان سٹیل کی نجکاری غلط ہوئی تھی۔ سٹیل مل کو گزشتہ سال کوئی اکیس ارب روپے میں ایک کنسورشیم کے حوالہ کرنے کا معاہدہ کیا گیا تھا ۔ بہت سے لوگوں کو اس پر اعتراض تھا اور یوں معاملہ ملک کی اعلٰی ترین عدالت میں گیا جہاں اس سودے کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ text: یہ کمپیوٹر وزنیئیک کے دستخط والے ایک مدربورڈ پر مشتمل ہے ایپل ون نامی یہ کمپیوٹر اپنی قسم کے ان چھ کمپیوٹروں میں سے ایک ہے جو اب بھی کارآمد حالت میں ہیں۔ ایپل ون ان پچاس کمپیوٹروں میں شامل ہے جنہیں کمپنی کے آنجہانی مالک سٹیو جابز اور ان کے ساتھی سٹیو وزنیئیک نے جابز کے والدین کے مکان کے گیراج میں تیار کیا تھا۔ سن 1976 میں اس کمپیوٹر کی قیمت صرف چھ سو پچاس ڈالرز تھی۔ جرمن شہر کولون میں ہونے والی نیلامی میں یہ کمپیوٹر جو صرف وزنیئیک کے دستخط والے ایک مدربورڈ پر مشتمل ہے، ایشیا سے تعلق رکھنے والے ایک گمنام خریدار نے حاصل کیا۔ گزشتہ برس ایک اور کارآمد ایپل ون چھ لاکھ تینتیس ہزار ڈالر میں فروخت ہوا تھا۔ سٹیو جابز اور وزنیئیک نے کل 200 ایپل ون تیار کیے تھے جن میں سے 46 اس وقت دنیا میں موجود ہیں اور ان میں سے صرف چھ ہی کارآمد ہیں۔ جرمنی میں ایک نیلامی میں 1976 میں تیار کیا جانے والا ایپل کمپنی کا کمپیوٹر ساڑھے چھ لاکھ ڈالر میں نیلام ہوا ہے۔ text: حکومت کا کہنا ہے کہ اُس نے بدخشاں صوبے کے ایک اور علاقے یمگان کو طالبان کے قبضے سے واپس لے لیا ہے حکومتی افواج نے قندوز میں واقع چاردرہ کا علاقہ طالبان کے قبصے سے چھڑوانے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا ہے۔ چاردرہ کا علاقے سے دارالحکومت کابل جانے والی سڑک گزرتی ہے اس لیے یہ علاقہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ طالبان کی ویب سائٹ پر جنگجوؤں کو علاقے میں واقع پولیس کی چیک پوسٹ پر گھومتے پھرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اُس نے بدخشاں صوبے کے ایک اور علاقے یمگان کو طالبان کے قبضے سے واپس لے لیا ہے۔ صوبہ بدخشاں کے پولیس کمانڈر جنرل بابا جان نے بی بی سی کو بتایا کہ شدید لڑائی کے بعد حکومتی سکیورٹی فورسز نے یمگان کے ضلع پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ ’ہماری فوری فورسز نے یمگان ضلع سے طالبان کا خاتمہ کر دیا ہے اور اب ضلع کے مرکز میں سرکاری فورسز موجود ہیں۔ اس کارروائی میں کسی شہری کو نقصان نہیں پہنچا۔‘ جنرل بابا جان کے مطابق اس لڑائی میں سو سے زیادہ طالبان مارے گئے ہیں اور مرنے والوں میں غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق چاردرے کے مقامی افسر محمد یوسف ایوبی کا کہنا ہے کہ کئی گھنٹوں کی لڑائی کے بعد چاردرے کا ڈسٹرکٹ بھی طالبان کے قبضے سے چھڑا لیا گیا ہے اور اس لڑائی میں12 فوجی ہلاک ہوئے ہیں اور 17 زخمی ہیں۔ گذشتہ مہینے اس علاقے میں طالبان کے قبضے کے بعد ہزاروں افراد نقل مکانی کر گئے تھے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ علاقے میں طالبان کے علاوہ کئی غیر ملکی جنگجو بھی موجود ہیں جو مبینہ طور پر دولتِ اسلامیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ افغانستان میں اتحادی افواج کے انخلا کے بعد سے شدت پسندوں کی جانب سے پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان کے شمالی صوبوں بدخشاں اور قندوز میں حکومتی سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔ text: رات گئے کوئٹہ شہر کو متبادل ذرائع سے، حبیب اللہ کوسٹل کمپنی، بجلی کی فراہمی بحال کر دی گئی تھی۔ رابطہ کرنے پر صوبائی حکومت کے ترجمان رازق بگٹی نے بتایا ہے کہ سبی کے قریب کہیں نقص پیدا ہوا ہے جس سے بیشتر اضلاع کو بجلی کی ترسیل متاثر ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تاہم یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ نقص پیدا کیسے ہوا۔ ادھر ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ بجلی کے کھمبے کو دھماکے سے اڑایا گیا ہے، لیکن سرکاری سطح پر اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ کوئٹہ کے علاقوں کلی ابراہیم اور سریاب سے دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں، لیکن کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔ دوسری طرف کوئٹہ کے قریب ریل کی پٹڑی کو دھماکے سے تباہ کر دیا گیا ہے اور مستونگ کے قریب گیس پائپ لائن کو دھماکے سے اڑایا گیا ہے۔ دریں اثناء ایک ٹیلی فون پر بیبرگ بلوچ کے نام سے تعارف کرانے والے ایک شخص نے خود کو کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کا ترجمان ظاہر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کوہلو میں کاہان کے قریب میہی کے مقام پر سکیورٹی فورسز کے کیمپ پر حملہ کیا گیا ہے، جس سے فورسز کو جانی نقصان ہوا ہے۔ تاہم ان کے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ کوئٹہ کے قریب ریل کی پٹڑی اور گیس پائپ لائن پر ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری بھی ’بیبرگ بلوچ‘ نے قبول کی ہے۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں منگل کی رات کو بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی جبکہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں چار دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔ text: محمد فنیّش کے خیال میں دولتِ اسلامیہ جیسے گروپوں کی وجہ سے مسلمانوں کی شبیہ پر برا اثر پڑتا ہے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تنظیم کے رہنما اور لبنانی وزیر محمد فنیّش نے کہا ہے کہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ میں ان کے مقاصد مغربی طاقتوں سے مشترک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے مقابلے میں دولتِ اسلامیہ نے کہیں زیادہ مسلمانوں کو ہلاک کیا ہے لیکن یہ معاملہ صرف مسلمانوں کے ہاتھوں دوسرے مسلمانوں کی ہلاکت کا نہیں ہے۔ بی بی سی کی مشعل حسین سے بات کرتے ہوئے محمد فنیّش نے کہا کہ ’مسلمانوں کے لیے اصل خطرہ اس (دولتِ اسلامیہ) قسم کی تنظیمیں ہیں۔ ان کی وجہ سے مسلمانوں کی شبیہ پر برا اثر پڑتا ہے کیونکہ ان گروپوں نے اسرائیل سے کہیں زیادہ مسلمانوں کو ہلاک کیا ہے۔‘ دولت اسلامیہ کیا ہے، بی بی سی اردو کی ویڈیو رپورٹ انھوں نے کہا کہ ’یہ سنّی مسلمانوں کو بھی مار رہے ہیں۔ ہم نے یہ موصل اور حمص کے علاوہ شام میں حزبِ مخالف کی باہمی لڑائیوں میں دیکھا ہے۔‘ حزب اللہ کے رہنما نے کہا کہ ’ان جنگجوؤں سے عوام کو پہنچنے والا نقصان شام میں بشار الاسد کی حکومت اور مخالفین کے مابین لڑائی سے ہونے والے نقصان سے کہیں زیادہ ہے۔‘ ساتھ ہی ساتھ محمد فنیّش نے یہ بھی الزام لگایا کچھ عرب اور مغربی ممالک شام میں جاری تنازع کو ہوا دینے کے ذمہ دار ہیں۔ حزب اللہ کے جنگجو شام میں صدر بشار الاسد کی مخالف افواج کے خلاف لڑائی میں شامل ہیں۔ محمد فنیّش کا کہنا تھا کہ شام میں جاری لڑائی کا خاتمہ طاقت کے استعمال کے ذریعے نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے ہونا چاہیے۔ خیال رہے کہ حزب اللہ کو ایران کی حمایت یافتہ تنظیم قرار دیا جاتا ہے اور اطلاعات کے مطابق امریکی صدر براک اوباما نے ایرانی رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خفیہ خط لکھا ہے جس میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف مشترکہ مفاد میں جنگ کی بات کی گئی تھی۔ یہ خط گذشتہ مہینے بھیجا گیا تھا اور صدارت سنبھالنے کے بعد براک اوباما کا ایرانی رہنما کے نام یہ چوتھا خط ہے۔ امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کے مطابق اس خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ صدر براک اوباما کے خیال میں ایران کو دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ میں شامل کرنا بہت اہم ہے۔ لبنانی عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ نے کہا ہے کہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ خطے کے مسلمانوں کے لیے اسرائیل سے بڑا خطرہ ہے۔ text: پاکستان کو بھارت پر اس وقت 614 رن کی سبقت حاصل ہے اور بھارت کو فالو آن سے بچنے کے لیے مزید 415 رن کی ضرورت ہے۔ دوسرے دن جب خراب روشنی کی وجہ سے کھیل 21 اوور قبل روک دیا گیا تو اس موقع پر وریندر سہواگ 36 اور ڈراوڈ 22 رن پر ناٹ آؤٹ تھے۔ اس سےقبل تیسری وکٹ کے لیے یونس خان اور محمد یوسف کی شاندار پارٹنر شپ اور شاہد آفریدی اور کامران اکمل کی دھواں دھار سنچریوں کی بدولت پاکستانی ٹیم نے پہلی اننگز 679 رن سات کھلاڑی آؤٹ پر ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان کی جانب سے یونس خان، محمد یوسف، شاہد آفریدی اور کامران اکمل نے سنچریاں سکور کیں۔ شاہد آفریدی سات چوکوں اور سات چھکوں کی مدد سے 80 گیندوں پر 103 رن بنا کر اجیت اگرکر کی گیند پر آؤٹ ہوئے۔ یہ ٹیسٹ میچوں میں ان کی چوتھی سنچری تھی۔ انہوں نے ہربھجن سنگھ کے ایک اوور میں چار لگاتار چھکوں کی مدد سے 27 رن بھی بنائے۔ وہ دو رن کی کمی سے ٹیسٹ کرکٹ میں ایک اوور میں سب سے زیادہ رن بنانے کا ریکارڈ نہ توڑ سکے۔ یہ ریکارڈ ویسٹ انڈیز کے برائن لارا کے پاس ہے۔ جب پاکستان نے اننگز ختم کرنے کا اعلان کیا تو وکٹ کیپر کامران اکمل اپنے کیرئر کی تیسری اور بھارت کے خلاف دوسری سنچری مکمل کرنے کے بعد 102 رن پر ناٹ آؤٹ تھے۔ کامران اکمل نے 80 گیندوں پر یہ سنچری بنائی اور ان کی یہ سنچری دنیائے کرکٹ کے کسی بھی وکٹ کیپر کی جانب سے ٹیسٹ میچ میں بنائی جانے والی تیزترین سنچری ہے۔ میچ کے دوسرے سیشن میں پاکستان نے آٹھ رن فی اوور کی اوسط سے رن بنائے اور کامران اکمل اور شاہد آفریدی کے درمیان 170 رن کی پارٹنرشپ ہوئی۔ اس سےقبل دوسرے دن کے کھیل کے پہلے سیشن میں پاکستانی ٹیم نے 159 رن بنائے اور اسے تین وکٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ نائب کپتان یونس خان ایک رن کی کمی سے ڈبل سنچری مکمل نہ کر سکے اور 199 رن بنا کر ہربھجن سنگھ کی تھرو پر رن آؤٹ ہو گئے۔ پاکستان کے آؤٹ ہونے والے دیگر کھلاڑیوں میں کپتان انضمام الحق صرف ایک رن بنا سکے۔ انہیں انیل کمبلے ایل بی ڈبلیو کیا۔ محمد یوسف بھی 173 رن بنا کر انیل کمبلے کی ہی گیند پر آؤٹ ہوئے۔ پاکستان کے لیے تیسری وکٹ کی شراکت میں محمد یوسف اور یونس خان نے 319 رن بنائے۔ محمد یوسف نے کھیل کی ابتداء میں ہی اپنی سنچری مکمل کی اور اس کے بعد یونس خان کے ساتھ مل کر پاکستان کے سکور کو تیزی سے آگے بڑھایا۔ بھارت کی جانب سے انیل کمبلے اور اجیت اگرکر نے دو، دو جبکہ عرفان پٹھان نے ایک وکٹ حاصل کی ہے جبکہ ہربھجن سنگھ، وریندر سہواگ اور سورو گنگولی کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ پہلے روز جب خراب روشنی کی وجہ سے جب کھیل پانچ اوور پہلے ہی روک دیا گیا تھا تو پاکستان نے پچاسی اووروں کے کھیل میں تین اعشاریہ چوراسی رنز فی اوور کی اوسط سے 326 رنز بنائے تھے اور اس کے دو کھلاڑی آؤٹ ہوئے تھے۔ پاکستانی ٹیم : انضمام الحق (کپتان)، سلمان بٹ، شعیب ملک، یونس خان، محمد یوسف، شاہد آفریدی، کامران اکمل، رانا نوید الحسن، محمد سمیع، شیعب اختر، اور دانش کنیریا۔ بھارتی ٹیم : راہول ڈراوڈ (کپتان)، وریندر سہواگ، وی وی ایس لکشمن، سچن تندولکر، سوروگنگولی، یوراج سنگھ، مہندر دھونی، عرفان پٹھان، انیل کمبلے، اجیت اگارکر اور ہربھجن سنگھ لاہور میں کھیلے جا رہے سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ کے دوسرے دن کے کھیل کے اختتام پر بھارت نے پاکستان کے پہلی اننگز کے سکور 679 رن کے جواب میں بنا کسی نقصان کے 65 رن بنائے ہیں۔ text: صوبائی حکومت کے وکیل عبدل حفیظ پیرزادہ نے اس بابت آئین کے آرٹیکل 184 (1) اور 187 کے تحت ایک آئینی پٹیشن عدالت عظمی میں دائر کی ہے۔ سرحد حکومت اور پانی اور بجلی کے ترقیاتی ادارے واپڈا کے درمیان چودہ برسوں سے پن بجلی کے خالص منافع کا تنازعہ چلا آ رہا ہے۔ سرحد حکومت کا موقف ہے کہ واپڈا کو ایک سو دس ارب روپے کے بقایاجات صوبہ سرحد کو دینے ہیں۔ وفاقی حکومت نے گزشتہ برس اس مسئلے کے حل کے لیئے ایک ثالثی کمیشن تشکیل دیا تھا۔ سرحد حکومت کے مطابق وفاقی حکومت نے اس کمیشن کے فیصلے پر عمل درآمد کی ضمانت دی تھی۔ تاہم یہ فیصلہ بھی ہوا تھا کہ کمیشن کے فیصلے کے خلاف کوئی بھی فریق عدالت سے رجوع نہیں کر سکے گا۔ ثالثی کمیشن کے فیصلے کے تحت واپڈاکو سرحد حکومت کو گزشتہ برس دسمبر تک بائیس ارب روپے کی پہلی قسط ادا کرنی تھی۔ لیکن واپڈا نے ایسا نہیں کیا۔ اس کا موقف تھا کہ وہ مالی بحران کا شکار ہے اور یہ رقم ادا نہیں کر سکتا۔ ادھر اسلام آباد میں آج فرنٹیر ہاؤس میں صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے تمام منتخب نمائندوں کا ایک جرگہ منعقد ہوا۔ جرگے میں صوبائی اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی، سینٹ اور ناظمین نے شرکت کی۔ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمان بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ایک قرار داد میں وفاقی حکومت سے اپنی آیئنی ذمہ داری پوری کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں وزیر اعلی سرحد اکرم خان درانی نے افسوس کا اظہار کیا کہ واپڈا کے رویے کی وجہ سے صوبے کی ترقی کا جو منصوبہ انہوں نے تیار کیا تھا وہ بری طرح متاثر ہوگا۔ صوبہ سرحد کی حکومت نے وفاقی حکومت اور پانی اور بجلی کے ترقیاتی ادارے واپڈا کے خلاف بجلی کے خالص منافع کا تنازعہ کوسپریم کورٹ میں لے گئی ہے۔ text: اوبامہ امریکی تاریخ میں وہ پہلے سیام فام شخص ہیں جنہیں کسی بڑی سیاسی جماعت نے عہدۂ صدارت کے لیے اپنا امیدوار چنا ہے۔ ڈینور کے انویسکو سٹیڈیم میں جاری کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے اوبامہ نے کہا کہ وہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ ہر کسی کے لیے موقع فراہم کرنے کا امریکی خواب زندہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اوبامہ کا کہنا تھا کہ ’میں ہماری(امریکی) اخلاقی حیثیت بحال کرواؤں گا۔ تاکہ امریکہ ایک مرتبہ پھر آزادی،امن اور بہتر مستقبل کے حصول کے لیے کام کرنے والوں کے لیے آخری بہترین امید بن جائے‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ آنے والے دس برس میں مشرقِ وسطٰی کے تیل پر امریکہ کا انحصار ختم کروا دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ’ امریکہ والو ہم گزر جانے والے آٹھ برسوں سے کہیں بہتر ہیں۔ ہم اس سے کہیں بہتر ملک ہیں۔ ہم یہاں اسی لیے جمع ہوئے ہیں کہ ہم اپنے ملک سے اتنا پیار کرتے ہیں کہ اس کے آنے والے چار برس کو گزرے ہوئے آٹھ برس جیسا ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے‘۔ انہوں نے کہا کہ’امریکی حکومت کو اپنے عوام کے لیے کام کرنا چاہیے نہ کہ ان کے خلاف‘۔ باراک اوبامہ کا کہنا تھا کہ اکیسویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ بیسویں صدی کی افسر شاہی کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ عراق جنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے باراک اوبامہ نے کہا کہ وہ عراق سے امریکی فوجیوں کو واپس بلائیں گے جبکہ جان مکین ’اس غلط رخ اختیار کر لینے والی جنگ کو ختم نہ کرنے کے حوالے سے ہٹ دھرمی کے مظاہرے میں اکیلے رہ گئے ہیں‘۔ اوبامہ کی نامزدگی کی تقریب اسی دن ہو رہی ہے جب آج سے پینتالیس برس قبل حقوقِ انسانی کے لیے کام کرنے والے امریکی سیاہ فام رہنما مارٹن لوتھر کنگ نے اپنی مشہور تقریر’میرا ایک خواب ہے‘ کی تھی۔ مارٹن لوتھر کنگ کے بیٹے مارٹن لوتھر کنگ سوئم نے کنونشن کے حاظرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد کا خواب اوبامہ کی نامزدگی کی صورت میں زندہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ ہم سب اسی خواب کی پیداوار ہیں اور وہ (مارٹن لوتھر کنگ) ہمارے دلوں اور دماغوں میں موجود ہیں۔ لیکن یہی نہیں بلکہ وہ باراک اوبامہ کی امیدوں، ان کے خوابوں، ان کے حوصلے اور ان کی راست بازی کی صورت میں بھی موجود ہیں‘۔ باراک اوبامہ کی تقریر سے قبل سابق امریکی صدر الگور نے اپنی تقریر میں کہا کہ ڈیموکریٹس کو چاہیے کہ وہ تبدیلی کے لیے ملنے والے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اوبامہ کو کامیاب کروائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکی خود ساختہ معاشی بحران سے چھٹکارا، امریکی عام کے حقوق کا تحفظ اورگلوبل وارمنگ کو روکنا چاہتے ہیں تو انہیں تبدیلی لانا ہو گی۔ رپبلکن امیدوار جان مکین کا تعلق موجودہ امریکی صدر جارج بش کی پالیسیوں سے جوڑتے ہوئے الگور نے کہا کہ ’اگر آپ کو بش اور چینی کا طریقہ پسند ہے تو مکین آپ کے امیدوار ہیں اور اگر آپ تبدیلی چاہتے ہیں تو باراک اوبامہ اور جو بائیڈن کو ووٹ دیں‘۔ امریکہ کی ڈیموکریٹ جماعت کے صدارتی امیدوار باراک اوبامہ نے قومی کنونشن میں موجود پچھہتر ہزار ڈیموکریٹس حامیوں کے سامنے اپنی نامزدگی قبول کر لی ہے۔ text: ایس ایل ایس یعنی سپیس لانچ سسٹم خلائی ادارے ناسا کے آرٹیمیس پروگرام کا ایک اہم حصہ ہے جس کا مقصد 2024 تک امریکی خلابازوں کو ایک مرتبہ پھر چاند پر لے کر جانا ہے۔ کور سٹیج نئے راکٹ کا مرکزی حصہ ہے اور اس پر ریاست مسیسیپی میں جامع تجربات کیے جائیں گے۔ بدھ کو اسے ایک بڑی سے چوکور کشتی پر لاد کر اس کی منزل کی جانب روانہ کر دیا گیا۔ یہ بھی پڑھیے ’خلابازوں کو مریخ پر بھیجنا بیوقوفی ہے‘ اپالو 11 مشن کی وہ چار باتیں جو آپ نہیں جانتے اپالو لینڈنگ: دنیا کی سب سے بڑی نشریات کور سٹیج 20 لاکھ پاؤنڈ کی قوت پیدا کرے گی جس سے آرٹیمس مشن کو چاند تک بھیجا جا سکے گا طیارہ ساز کمپنی بوئنگ 30 منزلہ عمارت سے زیادہ اونچا یہ راکٹ ناسا کے لیے تیار کر رہی ہے۔ ناسا کے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر جم مورہارڈ بھی اس راکٹ سٹیج کے فیکٹری سے باہر آنے کے موقع پر موجود تھے جسے نیو اورلینز میں میشود اسمبلی فیسیلیٹی (ایم اے ایف) میں تیار کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ راکٹ سٹیج کی تیاری ’جوش سے بھر دینے والی کامیابی ہے اور اس دوران ناسا کی ٹیمیں لانچ پیڈ تیار کر رہی ہیں۔‘ اس پروگرام کا اعلان سنہ 2010 میں کیا گیا تھا مگر تب سے اب تک اس میں کئی مرتبہ تاخیر ہوئی جبکہ اس کی لاگت میں اضافہ ہوا۔ اس راکٹ سٹیج کو نیو اورلینز میں فیکٹری سے مسیسیپی میں ناسا کے سٹینس سپیس سینٹر پانی کے ذریعے منتقل کیا جائے گا خلائی صنعت سے وابستہ چند افراد کا خیال ہے کہ خلا میں دور دراز تک کے سفر کے لیے بہتر ہو گا کہ کمرشل راکٹس کا استعمال کیا جائے، مگر اس پروگرام کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ناسا کے پاس ایسی صلاحیت خود موجود ہونی چاہیے۔ ایم اے ایف سے باہر آنے کے بعد اس کور کو ناسا کے پیگاسس بجرے پر لادا گیا جس کے بعد یہ آبی راستے سے گزرتا ہوا مسیسیپی میں بے سینٹ لوئس کے قریب ناسا کے سٹینِس خلائی مرکز جا پہنچے گا۔ آرٹیمس راکٹ کی پہلی سٹیج کو پیگاسس بجرے کی جانب لے جایا جا رہا ہے ناسا کے سٹینِس خلائی مرکز میں کی جا رہی اس آزمائشی مہم کو ’گرین رن‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس میں پہلی مرتبہ کور سٹیج کے تمام سسٹمز کو ایک ساتھ چلا کر دیکھا جائے گا۔ چار طاقتور آر ایس 25 انجنوں کو تقریباً آٹھ منٹ یا شاید اس سے کم کے لیے مختلف تھروٹل سیٹنگز پر چلایا جائے گا۔ یہ لانچ کے دوران درکار تھرسٹ یا قوت کی نقل کرنے جیسا ہو گا۔ ایس ایل ایس کی کور سٹیج میں دو ایندھن کے ٹینک ہوں گے جس میں سے ایک میں مائع آکسیجن اور دوسرے میں مائع ہائیڈروجن ہو گی۔ مجموعی طور پر ان دونوں ٹینکوں میں سات لاکھ 33 ہزار گیلن (27 لاکھ لیٹر) ایندھن ہو گا تاکہ دونوں انجنوں کو طاقت فراہم کی جائے۔ ایس ایل ایس کو 1981 سے 2011 تک چلنے والے خلائی شٹل پروگرام کے لیے تیار کی گئی ٹیکنالوجی دوبارہ استعمال کرنے کے حساب سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ آر ایس 25 انجن وہی ہیں جو خلائی شٹل میں استعمال کیے گئے تھے اور ایس ایل ایس کور سٹیج کو اس بیرونی ایندھن ٹینک کی طرح تیار کیا گیا ہے جس کے ذریعے شٹل کے انجنوں کو ایندھن فراہم کیا جاتا تھا۔ لیکن اس میں چند تبدیلیاں ضرور کی گئی ہیں۔ سپیس شٹل کو لانچ میں مدد دینے والے دو سولِڈ راکٹ بوسٹرز ایس ایل ایس کی کور کی دونوں جانب موجود ہوں گے۔ ناسا کے سٹینس خلائی مرکز میں بی 2 ٹیسٹ سٹینڈ کو گرین رن آزمائشی مہم کے لیے استعمال کیا جائے گا یہ راکٹ ناسا کے جدید ترین خلائی جہاز اورائن کو چاند کے راستے تک پہنچائے گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ راکٹ کی پہلی لانچ (آرٹیمس 1) سنہ 2021 میں کی جائے گی۔ گذشتہ برس ایس ایل ایس پروگرام میں بوئنگ کے 2015 سے سربراہ جان شینن نے بتایا: ’مجھے لگتا ہے کہ ایک مرتبہ ایس ایل ایس جب قومی صلاحیت بن جائے گا، تو ہمیں کئی برسوں تک کسی دوسری ہیوی لفٹ وہیکل کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ چنانچہ یہ واقعی بہت نایاب موقع ہے۔‘ خاکہ: ایس ایل ایس راکٹ ناسا کے اورائن خلائی جہاز کو چاند تک پہنچنے کے لیے قوت فراہم کرے گا یہ اب تک ناسا کی بنائی گئی سب سے بڑی راکٹ سٹیج ہے جس میں اپالو پروگرام کی سیٹرن فائیو راکٹ سٹیج بھی شامل ہیں۔ ناسا کی ایس ایل ایس سٹیجز مینیجر جولی بیسلر نے کہا کہ ’پرواز کے پہلے ضروری حصے کا فیکٹری سے نکلنا ناسا کے آرٹیمس پروگرام کے لیے تاریخی موقع ہے اور اس پر کام کرنے والی ٹیم کے لیے فخر کا مقام ہے۔‘ اس دوران ناسا اور اس کے پارٹنرز نے پہلے آرٹیمس مشن کے لیے اورائن سپیس کرافٹ کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ یہ اب ریاست اوہائیو میں پلم بروک سٹیشن میں حتمی آزمائشوں سے گزارا جا رہا ہے۔ اورائن خلائی جہاز جس کا سروس ماڈیول یورپیئن سپیس ایجنسی نے فراہم کیا ہے، کو ریاست اوہائیو میں آزمایا جا رہا ہے آرٹیمس 1 مشن میں اورائن کو چاند کے گرد چکر لگانے کے لیے بھیجا جائے گا تاکہ خلا کے حالات میں اس کی کارکردگی پرکھی جائے گی۔ اس مشن میں کوئی عملہ نہیں جائے گا۔ آرٹیمس 2 وہ پہلا مشن ہو گا جس میں چار خلا بازوں پر مشتمل عملے کو بھیجا جائے گا لیکن یہ چاند پر اترنے کے بجائے صرف چاند کا چکر لگا کر واپس آ جائے گا۔ آرٹیمس 3 جسے 2024 میں لانچ کرنے کی توقع کی جا رہے ہے، اس میں چاند کے جنوبی قطب پر ایک مرد اور ایک خاتون خلا باز کو اتارا جائے گا۔ یہ سنہ 1972 کے بعد پہلا موقع ہوگا جب خلا باز چاند کی سطح پر قدم رکھیں گے۔ . ناسا کے ’ میگا راکٹ ‘ ایس ایل ایس ک ا کور سٹیج امریکہ کی ریاست نیو اورلینز کی فیکٹری سے تیار ہو کر باہر آچ کا ہے اور اب اس پر اہم تجربے کیے جائیں گے تاکہ لانچ کے لیے اس کے تیار ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ لیا جا سکے۔ text: جنوبی افریقہ کی جانب سے کپتان سمتھ اور ڈی ویلیئرز نے دوسری اننگز کا آغاز کیا اور جب امپائروں نے کم روشنی کے وجہ سے کھیل ختم کرنے کا اعلان کیا تو سمتھ دس اور ڈیویلیرز سترہ رن پر ناٹ آؤٹ تھے۔ اس سے قبل آسٹریلوی کپتان نے تین سو سات رن چار کھلاڑی آؤٹ پر اپنی دوسری اننگز ختم کرنے کا اعلان کیا اور یوں آسٹریلیا کو جنوبی افریقہ پر چار سو نو رن کی مجموعی برتری حاصل ہوگئی تھی۔ ڈربن ٹیسٹ میں رکی پونٹنگ اور میتھیو ہیڈن کی سنچریوں کی بدولت آسٹریلوی ٹیم کی پوزیشن مضبوط ہے۔ چوتھے دن جب آسٹریلیا نے ایک سو پچیس رن ایک کھلاڑی آؤٹ پر اپنی دوسری اننگز دوبارہ شروع کی تو پونٹنگ اور ہیڈن نے وکٹ کے چاروں جانب دلکش سٹروک کھیلتے ہوئے ٹیم کے سکور کو بنا کسی مزید نقصان کے250 رن تک پہنچا دیا۔ اس موقع پر میتھیو ہیڈن سنچری مکمل کرنے کے بعد 102 کے انفرادی سکور پر نٹنی کی گیند پر آؤٹ ہوگئے۔ ہیڈن کی پویلین واپسی کے بعد پونٹنگ نے مارٹن کے ہمراہ ٹیم کے سکور میں اضافہ کرنا شروع کیا اور جب آسٹریلیا کا مجموعی سکور 278 پر پہنچا تو پونٹنگ شان پولاک کی گیند پر نکی بوئے کے ہاتھوں کیچ ہوگئے۔ انہوں نے 116 رن بنائے۔ یہ آسٹریلوی کپتان کی میچ میں لگاتار دوسری سنچری تھی۔ انہوں نے پہلی اننگز میں بھی 103 رن بنائے تھے۔ پونٹنگ اور میتھیو ہیڈن نے دوسری وکٹ کی شراکت میں دو سو ایک رن کا اضافہ کیا۔ پونٹنگ کے آؤٹ ہونے کے بعدگلکرسٹ نے نوگیندوں پر چوبیس رن کی برق رفتار اننگز کھیلی اور ان کے آؤٹ ہوتے ہی آسٹریلیا نے اننگز ڈیکلیئر کر دی۔ آسٹریلیا نے اپنے پہلی اننگز میں 369 رن بنائے تھے جس کے جواب میں جنوبی افریقہ کی ٹیم 267 رن بنا کر آؤٹ ہوگئی تھی۔ پہلی اننگز میں آسٹریلیا کے لیئے رکی پونٹنگ جبکہ جنوبی افریقہ کے لیئے ژاک کیلس نے سنچریاں بنائی تھیں۔ ڈربن میں آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان جاری دوسرا ٹیسٹ جیتنے کے لیئے آسٹریلیا نے جنوبی افریقہ کو 410 رن کا ہدف فراہم کیا ہے اور جنوبی افریقہ نے چوتھے دن کے کھیل کے اختتام پر انتیس رن بنائے ہیں اور اس کی دس وکٹیں باقی ہیں۔ text: اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد اسلم کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے حوالے سے مرکزی درخواست عدالت میں زیر سماعت ہے اور اس حوالے سے حکومت اور وزارت خارجہ کی طرف سے جواب آنا باقی ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ جب تک یہ ادارے جواب نہیں دیتے اُس وقت تک اس معاملے کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں نہیں بھجوایا جا سکتا۔ بیرسٹر جاوید اقبال جعفری کی طرف سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کے بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر دلائل دیتے ہوئے درخواست گزار نے کہا کہ نیویارک کی عدالت نے بھی یہ فیصلہ دیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ذہنی حالت درست نہیں ہے اس لیے وہ اپنے خلاف دائر مقدمے کا دفاع نہیں کر سکتی۔ جاوید اقبال جعفری نے کہا کہ پاکستانی حکومت میڈیکل گراونڈ پر ہی امریکی حکام سے ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے حوالے سے درخواست کرے۔ درخواست گذار نے عدالت سے کہا کہ وزارت خارجہ کو عدالت نے دوہفتوں کا وقت دیا تھا کہ وہ اس عرصے کے دوران وہ ان تمام کارروائی کے بارے میں عدالت کو آگاہ کریں جو ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے بارے میں کی جا رہی ہیں۔ جاوید اقبال جعفری نے کہا کہ اگر وزارت خارجہ کے اہلکار عدالتی احکامات پر عملدرامد نہیں کرتے تو اُن کے خلاف نہ صرف قانونی کارروائی کی جائے بلکہ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کا معاملہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کو بھیج دیا جائے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل امجد اقبال قریشی کا کہنا ہے کہ وہ اگلے چند روز میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کے بارے میں جواب عدالت میں داخل کروادیں گے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کے حوالے سے حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے اس معاملے کو ہر فورم پر اُٹھایا ہے اور کچھ عرصے پہلے خارجہ امور کے بارے میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کی تھی اور اُن کی وطن واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہی سٹیٹ بینک کی گورنر ڈاکٹر شمشاد اختر کا نام اور سابق صدر پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے بارے میں متفرق درخواست بھی خارج کردی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی بطور سٹیٹ بینک گورنر کی تعیناتی کی مرکزی درخواست پر اُنہیں نوٹس جاری کردیا گیا ہے اور ابھی تک اُن کی طرف سے کوئی جواب عدالت میں داخل نہیں کروایا گیا۔ درخواست گذار کا مؤقف ہے کہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی بطور سٹیٹ بینک کے گورنر کی تقرری قواعد وضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کی گئی ہے اس لیے اُنہیں خطرہ ہے کہ ڈاکٹر شمشاد اختر اور سابق صدر پرویز مشرف ملک سے فرار ہوسکتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے امریکی اداروں کی حراست میں پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لےجانے کی متفرق درخواست خارج کردی۔ text: انڈیا کے وزیر اعظم اتوار کو ایران کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں وزیر اعظم نریندر مودی کا ایران کا یہ پہلا دورہ ہے لیکن اقتصادی اور سفارتی نقطۂ نظر سے یہ انتہائی اہم ہے۔ مودی تہران میں ایران کے صدر ڈاکٹرحسن روحانی کے علاوہ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای سے بھی ملاقات کریں گے۔ انڈیا کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم کے اس دورے کا مقصد ایران کے خلاف عائد پابندیوں کو اٹھائے جانے کے بعد باہمی اشتراک اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کی کوششوں کو مزید تیز کرنا ہے۔ مودی سے پہلے انڈیا کے سڑک، شاہراہوں اور شپنگ کے وزیر نتین گڈکری، تیل کے وزیر دھرمیندر پردھان اور وزیر خارجہ سشما سوراج بھی تہران کا دورہ کر چکی ہیں۔ انڈیا ایران سے تیل خریدنے والا ایک اہم ملک ہے اور اس نے یورپ اور امریکہ کی پابندیوں کے درمیان امریکہ کے شدید دباؤ کے باوجود ایران سے خام تیل لینا جاری رکھا تھا۔ انڈیا چابہار بندرگاہ کی تعمیروتوسیع کے معاہدے پر دستخط کر سکتا ہے پابندیوں کے درمیان انڈیا کو ایران سے کافی مراعات بھی ملتی تھیں۔ خام تیل کی قیمتوں کی ادائیگی انڈین کرنسی روپے میں ہوتی تھی۔ بھارت دوائیں اور پابندیوں سے مستثنیٰ بعض دوشری اشیا بھی ایران کو برآمد کیا کرتا تھا۔ مودی کے اس دورے میں اس ساڑھے چھ ارب ڈالر کی ادائیگی کے طریقۂ کار اور وقت بھی طے کیے جائيں گے جو رقم بھارت پر واجب الادا ہے۔ یہ خطیر رقم ایران سے خریدے گئے تیل کی قیمتیں پابندیوں کے سبب نہ ادا کر پانے سے جمع ہو گئی ہے۔ انڈیا اور ایران کے درمیان چابہار بندرگاہ کی توسیع وتعمیر کے منصوبے کے ایک معاہدے پر باضابطہ دستخط کیے جانے کی توقع ہے۔ یہ منصوبہ انڈیا کے زیر نگرانی ہوگا۔ دونوں ممالک فرزاد بی تیل کے خطے میں انڈین کمپنیوں کے شامل ہونے سے متعلق بھی ایک سمجھوتے پر دستخط کریں گے۔ چابہار خطے کے فری ٹریڈ زون میں متعدد انڈین کمپنیاں سرمایہ کاری کرنے والی ہیں۔ اس سےمتعلق بھی ایک مفاہمت پر بات چیت ہو گی۔ انڈیا کے کتاب میلے میں ایرانی وفد ایران سے انڈیا کے ہمیشہ قریبی تعلقات رہے ہیں۔ چند برس قبل ایران میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق ایران میں انڈیا کی مقبولیت تقریباً 70 فی صدتھی جو کہ دنیا کے سبھی ممالک سے زیادہ تھی۔ بھارت میں بھی ایران کے تعلق سے ایک مثبت رویہ رہا ہے۔ پابندیوں کے خاتمے کے بعد ہندوستان نہ صرف تیل اور گیس کی اپنی مستقبل کی ضروریات کے لیے ایران کی طرف مائل ہے بلکہ وہ پابندیوں کے بعد ایران کی تعمیر نو میں سرمایہ کاری کا ایک بہترین موقع دیکھ رہا ہے۔ ایرانیوں کو بھی بھارت میں گہری دلچسپی ہے۔ بڑی تعدار میں ایرانی طلبہ انڈیا کی ٹکنولوجی اور سائنس کی مختلف یونورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔ انڈیا شیعہ اسلام اور ثقافت کا بھی ایک اہم مرکز ہے جو دنوں ملکوں کے درمیان گہرے تعلقات کا ایک اہم پہلو ہے۔ مودی حسن روحانی اور ایت اللہ خامنہ ای سے بھی ملاقات کریں گے ایران انڈیا کی مستقبل کی پالیسی کا ایک انتہائی ملک ہے۔ پاکستان میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کے پیش نظر انڈیا، افغانستان اور ایران کے ساتھ وسط ایشیا تک رسائی کے لیے ایک متبادل راستہ تلاش کررہا ہے۔ افغانستان کو شامل کر کے پاکستان کو الگ تھلگ کرنا بھی ایران سے انڈیا کے گہرے ہوتے ہوئے تعلقات کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اتوار کو ایران کے دورے پر جا رہے ہیں۔ ایران سے ہندوستان کے بہت گہرے تعلقات رہے ہیں اور ایران کے خلاف امریکہ اور یورپ کی پابندیوں کے دوران بھی انڈیا ایران کے ساتھ کھڑا رہا تھا۔ text: پاکستان کی حکومت نے ان ذخائر کی تلاش کے لیے 28 برس قبل ریکوڈک منصوبے کا آغاز کیا لیکن اس سے ملک کو کسی فائدے کے بجائے ناصرف چھ ارب ڈالر کا جرمانہ ہوا بلکہ سرمایہ کاری سے متعلق تنازعات کو نمٹانے کے لیے ثالثی کے دو بین الاقوامی اداروں میں مقدمہ بازی پر خطیر اخراجات بھی ہوئے ہیں۔ ثالثی کے بین الاقوامی فورمز پر یہ معاملہ اب بھی زیر التوا ہے۔ گذشتہ برس بین الاقوامی ثالثی ٹریبیونل نے پاکستان پر صوبہ بلوچستان میں سونے اور تانبے کے کروڑوں ڈالر مالیت کے ریکوڈک پراجیکٹ کے مقدمے میں تقریباً چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ یاد رہے کہ پاکستان کی عالمی ثالثی ٹریبونل میں سنہ 2019 کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست ابھی بھی زیر سماعت ہے جس ٹریبیونل نے پاکستان کو ریکوڈک پراجیکٹ میں ٹی سی سی کو لیز دینے سے انکار کرنے پر قصور وار ٹھہرایا تھا۔ واضح رہے کہ اس فیصلے کے تناظر میں برٹش ورجن آئی لینڈ (بی وی آئی) کی ایک عدالت نے نیویارک کے روزویلٹ ہوٹل اور پیرس کے سکرائب ہوٹل سمیت پاکستان کی قومی ایئرلائن (پی آئی اے) کی ملکیت والی تین کمپنیوں کے شیئرز کو آسٹریلوی ٹیتھان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) کی درخواست پر رواں برس سات جنوری کو منجمد کر دیا تھا۔ پاکستان کی جانب اس منصوبے سے متعلق قانونی لڑائی پر اب تک اربوں روپے کے اخراجات کیے جا چکے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے ریکوڈک: آئی ایم ایف کے قرض جتنے جرمانے کا ذمہ دار کون؟ ریکوڈک کیس: پی آئی اے کے بیرون ملک اثاثے منجمد ہونے سے کیا فرق پڑے گا؟ ریکوڈک: حکم امتناع کی شرائط پوری نہ کرنے پر پاکستان کو تین ارب ڈالر جرمانے کا سامنا ریکوڈک کی مقدمہ بازی پر اب تک کتنے اخراجات ہوئے؟ سنہ 2013 میں جب ریکوڈک پر کام کرنے والی کمپنی ٹھیتیان کاپر کمپنی کو مائننگ کا لائسنس نہیں دیا گیا تو کمپنی نے اس کے خلاف سرمایہ کاری سے متعلق تنازعات کو نمٹانے والے دو بین الاقوامی فورمز سے رجوع کیا۔ ان میں سے ایک انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپویٹس (ایکسڈ) کا تھا۔ محکمہ معدنیات حکومت بلوچستان کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق سات سال کے دوران ان فورمز پر مقدمہ بازی پر مجموعی طور پانچ ارب، 33 کروڑ 80 لاکھ آٹھ ہزار دو سو دو روپے کے اخراجات ہو چکے ہیں۔ ان اخراجات کی تفصیل کچھ یوں ہے: ریکوڈک کے کیس سے وابستہ ایک سابق سرکاری اہلکار نے بتایا کہ جہاں اس رقم کا بڑا حصہ وکیلوں کی فیسوں پر صرف ہوا وہاں ان فورمز پر سماعت کے سلسلے حکومتی اور سرکاری اہلکاروں کے دوروں پر ہونے والے اخراجات بھی ان میں شامل ہیں۔ ان کیسوں میں برطانیہ کی سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی اہلیہ چیری بلیئر بھی پاکستان کی نمائندگی کرتی رہی ہیں۔ مقدمے کی تازہ صورتحال کیا ہے؟ ایکسڈ کی جانب سے پاکستان پر چھ ارب ڈالر کے جرمانے کی ادائیگی کے بعد حکومت پاکستان کی جانب سے اپیل پر جزوی طور پر حکم امتناع جاری کیا گیا تھا۔ جب مقدمے کی موجودہ صورتحال کے بارے میں اٹارنی جنرل پاکستان خالد محمود خان سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ وہ اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ یہ معاملہ ثالثی کے فورم پر زیر التوا ہے۔ تاہم اس کیس سے وابستہ حکومت بلوچستان کے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے جرمانے کے فیصلے کی منسوخی کے حوالے سے درخواست دائر زیر سماعت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکم امتناع کے حوالے سے جرمانے کی نصف رقم یعنی تین ارب ڈالر جمع کرنے کی جو شرط عائد کی گئی تھی اس کو پورا کرنا ممکن نہیں تھا۔ اہلکار نے بتایا کہ حکومت کی یہ کوشش ہے جرمانے کے فیصلے کو منسوخ کرایا جائے۔ ریکوڈک کا معاملہ کوئٹہ کی احتساب عدالت میں بھی جہاں ریکوڈک کا معاملہ ثالثی کے دو بین الاقوامی فورمز پر زیر سماعت ہے وہاں نیب بلوچستان کی جانب سے ایک ریفرینس احتساب عدالت کوئٹہ میں بھی دائر کیا گیا ہے۔ یہ ریفرینس نیب کی جانب سے احتساب عدالت کوئٹہ میں گذشتہ برس دائر کیا گیا تھا۔ اس میں مجموعی طور پر 25 افراد نامزد ہیں جن میں غیر ملکی کمپنیوں کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ نیب کا الزام ہے کہ غیر ملکی کمپنیوں نے مقامی افسروں کی ملی بھگت سے غیر قانونی فوائد حاصل کیے جس کے باعث سرکاری خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔ اب تک اس ریفرینس کے حوالے سے دو گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں جن میں سابق چیئرمین بلوچستان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی محمد فاروق اور سابق سیکورٹی اینڈ گورنمنٹ افیئرز آفیسر ٹھیتیان کاپر کمپنی شیر خان شامل ہیں۔ ریکوڈک بلوچستان میں کہاں واقع ہے؟ ریکوڈک بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے۔ بعض رپورٹس کے مطابق ریکوڈک کا شمار پاکستان میں تانبے اور سونے کے سب سے بڑے جبکہ دنیا کے چند بڑے ذخائر میں ہوتا ہے۔ ریکوڈک کے قریب ہی سیندک واقع ہے جہاں ایک چینی کمپنی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے تانبے اور سونے کے ذخائر پر کام کر رہی ہے۔ تانبے اور سونے کے دیگر ذخائر کے ساتھ ساتھ چاغی میں بڑی تعداد میں دیگر معدنیات کی دریافت کے باعث ماہرین ارضیات چاغی کو معدنیات کا ’شو کیس‘ کہتے ہیں۔ ریکوڈک پر کام کب شروع ہوا اور یہ کب ایک کمپنی سے دوسری کو منتقل ہوا؟ بلوچستان کے سابق سیکریٹری خزانہ محفوظ علی خان کے ایک مضمون کے مطابق حکومت بلوچستان نے یہاں کے معدنی وسائل سے استفادہ کرنے کے لیے ریکوڈک کے حوالے سے سنہ 1993 میں ایک امریکی کمپنی بروکن ہلز پراپرٹیز منرلز کے ساتھ معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ بلوچستان ڈیویلپمنٹ کے ذریعے امریکی کمپنی کے ساتھ جوائنٹ وینچر کے طور پر کیا گیا تھا۔ چاغی ہلز ایکسپلوریشن کے نام سے اس معاہدے کے تحت 25 فیصد منافع حکومت بلوچستان کو ملنا تھا۔ اس معاہدے کی شقوں میں دستیاب رعایتوں کے تحت بی ایچ پی نے منکور کے نام سے اپنی ایک سسٹر کمپنی قائم کر کے اپنے شیئرز اس کے نام منتقل کیے تھے۔ منکور نے بعد میں اپنے شیئرز ایک آسٹریلوی کمپنی ٹھیتیان کوپر کمپنی (ٹی سی سی) کو فروخت کیے۔ نئی کمپنی نے علاقے میں ایکسپلوریشن کا کام جاری رکھا جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ریکوڈک کے ذخائر معاشی حوالے سے سود مند ہیں۔ بعد میں کینیڈا اور چِلی کی دو کمپنیوں کے کنسورشیم نے ٹی سی سی کے تمام شیئرز کو خرید لیا۔ ٹی سی سی اور حکومت بلوچستان کے درمیان تنازع کب پیدا ہوا؟ ریکوڈک کے حوالے سے بلوچستان کے بعض سیاسی حلقوں میں تحفظات پائے جاتے تھے۔ ان حلقوں کی جانب سے اس رائے کا اظہار کیا جاتا رہا کہ ریکوڈک کے معاہدے میں بلوچستان کے لوگوں کے مفاد کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اس معاہدے کو پہلے بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا مگر ہائی کورٹ نے اس حوالے سے مقدمے کو مسترد کر دیا اور بعد میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔ پاکستان کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں ایک بینچ نے قواعد کی خلاف ورزی پر ٹی سی سی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ٹی سی سی نے مائننگ کے لائسنس کے حصول کے لیے دوبارہ حکومت بلوچستان سے رجوع کیا۔ اس وقت کی بلوچستان حکومت نے لائسنس کی فراہمی کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ کمپنی یہاں سے حاصل ہونے والی معدنیات کو ریفائن کرنے کے لیے بیرون ملک نہیں لے جائے گی۔ حکومت کی جانب سے چاغی میں ریفائنری کی شرط رکھنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے حصے کو بھی بڑھانے کی شرط بھی رکھی گئی۔ سیندک پراجیکٹ سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ملنے کے باعث حکومت بلوچستان کی جانب سے یہ شرائط بلوچستان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کے لیے رکھی گئی تھیں۔ کمپنی کی جانب سے ان شرائط کو ماننے کے حوالے سے پیش رفت نہ ہونے اور محکمہ بلوچستان مائننگ رولز 2002 کے شرائط پوری نہ ہونے کے باعث معدنیات کی لائسنس دینے والی اتھارٹی نے نومبر 2011 میں ٹی سی سی کو مائننگ کا لائسنس دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف ٹی سی سی نے سیکریٹری مائنز اینڈ منرلز حکومت بلوچستان کے پاس اپیل دائر کی تھی جسے سیکریٹری نے مسترد کیا تھا۔ بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع معدنیات کے ذخائر کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دنیا میں وہ کاپر اور سونے کی سب سے بڑی کانوں میں سے ایک ہیں جن پر آج تک مکمل انداز میں کام شروع نہیں ہو سکا ہے۔ text: بغداد سے کیرولین ہاولے اور جان سمپسن نے اپنی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ عراق انتہائی مطلوب شدت پسند رہنما ابو مصعب الزرقاوی نے اس دھمکی میں کہا ہے کہ عراق میں تیس جنوری کو ہونے والے انتخابات کو درہم برہم کر دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ایک اور اطلاع کے مطابق مزید چار سو برطانوی فوجی اس ماہ کے آخر تک بصرہ پہنچ رہے ہیں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ انتخابات میں اضافی حفاظتی انتظامات کے لیے مدد دیں گے۔ کیرولین ہاولے کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے عراق میں انتخابی مہم کا خلاء دھمکیوں کی مہم پورا کرتی ہے۔ نئی انتخابی دھمکی ایک آڈیو ٹیپ کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ اس صوتی پیغام میں انتِابات میں حصہ لینے والوں کو دھمکایا گیا اور ووٹنگ ڈالنے والوں کو کافر قرار دیا گیا ہے۔ جب کہ انتخابی عمل کو عیاری کہا گیا ہے۔ ٹیپ میں سنائی دینے والی آواز انتخابت کے خلاف ایک انتہائی خونریز جدوجہد کی دھمکی دیتی ہے۔ ایک اسلامی ویب سائٹ پر موجود اس بیان میں فرقہ پرستی کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ ٹیپ میں سنائی دینے والی آواز انتخابات کو ایک ایسا جال قرار دیتی ہے جسے امریکہ شیعوں کو اقتدار سونپنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ عراق میں سنیوں کے مقابلے میں شیعہ اکثریت میں ہیں اور انہیں ان انتخابات سے خاصی امیدیں ہیں لیکن اب جب کہ خون خرابے کا امکان مزید بڑھ گیا دیکھنا یہ ہو گا کہ کتنے لوگ پولنگ اسٹیشنوں پر جا کر ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ایک اہم مرحلہ یہ بھی ہو گا کس طرح بیلٹ بکس، بیلٹ پیپر اور دوسرا انتخابی سامان پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پولنگ کے بعد بیلٹ بکسوں کا بغداد لایا جانا بھی ایک بڑا مرحلہ ہو گا اور اقوام متحدہ کے اعلیٰ انتخابی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ جنگ کے بعد عراق میں یہ اپنی نوعیت کا سب سے بڑا آپریشن ہے۔ ابو مصعب الزرقاوی اس سے پہلے عراق میں ہونے والے کئی بم دھماکوں اور سر قلم کرنے کی واقعات کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں۔ امریکہ نے الزرقاوی کے سر کی قیمت پچیس ملین ڈالر مقرر کر رکھی ہے۔ دوسری طرف عراق میں عبوری حکومت نے ملک میں تیس جنوری کو ہونے والے انتخابات کو پرامن رکھنے کے لیے ملک کے کئی علاقوں میں کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عراق میں انتخابات کے انعقاد کو ابھی ہفتہ بھر باقی ہے لیکن اب تک کئی اہلکار اور امیدوار قتل ہو چکے ہیں اور اب ابو مصعب الزرقاوی نے ایک اور دھمکی دی ہے۔ text: پنجگور میں پرائیویٹ سکولوں کی تعداد 20 سے زائد ہے جن میں 25 ہزار سے زائد طلبا و طالبات زیرِ تعلیم ہیں پنجگور پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ یہ حملہ oasis نامی پرائیویٹ سکول پر کیا گیا۔ پولیس اہلکار نے بتایا کہ نامعلوم افراد سکول کے احاطے میں داخل ہو کر تھوڑ پھوڑ کے بعد پرنسپل کے دفتر اور سٹاف روم کو آگ لگا دی۔ پرائیویٹ سکولوں کی تنظم آل پنجگور پرائیویٹ سکولز ایسوس ایشن کے پریس سیکریٹری وقار آسکانی نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ یہ حملہ رات کے وقت کیا گیا۔ وقاص آسکانی نے بتایا کہ پرائیویٹ سکول پر نئے حملے کے بعد پنجگور میں دیگر پرائیویٹ سکولوں کو بند نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ والدین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سکول بھیجیں گے۔ خیال رہے کہ پنجگور میں پرائیویٹ سکولوں کی تعداد 20 سے زائد ہے جن میں 25 ہزار سے زائد طلبا و طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔ پنجگور میں پرائیویٹ سکولوں کو ’الفرقان الاسلامی‘ نامی تنظیم کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔ اس تنظیم کی جانب سے ابتدا میں دھمکی آمیز خط بھیجا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ لڑکیوں کو تعلیم نہ دیں۔ خط میں والدین سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی بچیوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کرائیں۔ ان دھمکیوں اور حملوں کے بعد پنجگور میں رواں برس 13 مئی سے پرائیویٹ سکولز بند ہوگئے تھے تاہم تین ماہ بعد کے وقفے کے بعد رواں ماہ کے وسط میں ان سکولوں کو دوبارہ کھول دیا گیا تھا۔ ادھر حکمران جماعت نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر یٰسین بلوچ کا کہنا ہے کہ پنجگور میں پرائیویٹ سکولوں کی تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کیےگئے ہیں۔ انھوں نے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ اس سلسلے میں چند روز بیشتر پنجگور گئے تھے ۔ دوسری جانب تاہم پرائیویٹ سکولوں کی تنظیم کے پریس سیکریٹری وقار آسکانی حکومتی اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہمیں تحفظ کے سسلسلے میں جو یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں وہ صرف باتوں کی حد تک محدود ہیں۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ایران سے متصل ضلع پنجگور میں نامعلوم افراد نے ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارے پر حملہ کر کے پرنسپل کے دفتر اور سٹاف روم کو لگا دی۔ text: اس وقت نادرا کے عارضی ملازمین میں سے بارہ سو صرف بلوچستان سے ہیں ان ملازمین نے کہا کہ جب تک انہیں مستقل نہیں کیا جائےگا اس وقت تک وہ بطور احتجاج انتخابی فہرستوں کی تیاری کا کام بند رکھیں گے۔ کوئٹہ سے بی بی سی کے نامہ نگار ایوب ترین کے مطابق بلوچستان میں (نادرا) کے عارضی ملازمین نے مستقل نہ ہونے کے خلاف منگل سے صوبہ بھر میں انتخابی فہرستوں کی تیاری کے عمل کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ملازمین کے مطابق انہیں گذشتہ دس سال سے یقین دہانیاں کرائی جا رہی ہیں کہ انہیں مستقل کیا جائے گا لیکن آج تک انکے مستقل ہونے کے احکامات جاری نہیں ہوئے۔ اس وقت پورے ملک میں نادرا کے چودہ ہزار عارضی ملازمین ہیں جن میں سے بارہ سو کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ کوئٹہ میں نادرا کے ایک آفیسر شیریار خان کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں انہوں نے انتخابی فہرستوں کی تیاری کے عمل کا بائیکاٹ کیا ہے اور اگر تمام عارضی ملازمین کو جلد مستقل کرنے کے احکامات جاری نہ ہوئے تودوسرے مرحلے میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، وطن کارڈ اور شناختی کارڈ بنانے کے عمل کو بھی بند کر دیاجائےگا۔ ایک اور آفیسر عجب خان مندوخیل نے شکایت کی وزیراعظم سے لیکر چیئرمین نادرا تک نے مختلف اوقات میں اعلانات کیے کہ نادرا کے تمام ملازمین کو جلد مستقل کیا جائےگا لیکن ان اعلانات کے باوجود آج تک کسی ملازم کے مستقل ہونے کا حکم جاری نہ ہو سکا۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے نادرا کو پورے ملک میں انتخابی فہرستوں کی تیاری کا عمل تیز کرنے کا حکم دیا ہے لیکن بلوچستان میں نادرا کے ملازمین نے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے جس سے صوبائی سطح پر انتخابی فہرستوں کی تیاری کا کام یقیناً متاثر ہو سکتا ہے۔ بلوچستان میں نادرا کے سینکڑوں عارضی ملازمین نے انتخابی فہرستوں کی تیاری کےعمل کا بائیکاٹ کر دیا ہے جس سے صوبے میں انتخابی فہرستوں کی تیاری متاثر ہو سکتی ہے۔ text: امریکی سفارتخانے کی ترجمان نائیڈا ایمن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے امریکی نمائندے کی ان ملاقاتوں کی تصدیق تو کی لیکن تفصیلات نہیں بتائیں اور کہا کہ رچرڈ باؤچر شام کو ذرائع ابلاغ کے کچھ نمائندوں سے خود بات چیت کریں گے۔ امریکی سفارتخانے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ رچرڈ باؤچر نے چیف الیکشن کمشنر سے اپنی ملاقات میں پاکستان میں آئندہ عام انتخابات کو شفاف بنانے کے بارے میں بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ ان کے مطابق امریکی نمائندے نے چیف الیکشن کمشنر سے پاکستان میں انتخابات کے طریقہ کار اور کمیشن کے دائرہ اختیار کے بارے میں بھی معلومات لیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ پاکستان کے مختصر دورے کے دوران امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے پاکستان میں مضبوط جمہوری نظام کے قیام اور آئندہ انتخابات کو شفاف بنانے پر زور دیا تھا۔ امریکہ بظاہر تو عالمی اور علاقائی امور کے بارے میں پاکستان سے اپنے تعلقات پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتا ہے لیکن انتخابات کے شفاف ہونے کے بارے میں دلچسپی لینے سے لگتا ہے کہ وہ اب ملک کے اندرونی معاملات میں بھی دلچسپی لے رہا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کا پاکستان میں آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات کو غیر جانبدار اور شفاف بنانے میں گہری دلچسپی لینے سے حزب اختلاف کی جماعتوں کو فائدہ پہنچے گا۔ رچرڈ باؤچر منگل کے روز پاکستان پہنچے تھے اور انہوں نےاُسی روز وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری سے باضابطہ بات چیت کی تھی۔ اس بات چیت میں پاکستان نے زور دے کر کہا تھا کہ امریکہ بھارت کی طرح پاکستان کی بھی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے انہیں شہری جوہری پروگرام کے لیے پیکیج پیش کرے۔ صدر مشرف نے بھی امریکی نائب وزیر سے ملاقات میں جہاں سویلین نیوکلیئر تعاون کا معاملہ اٹھایا وہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور بھارت کے ساتھ جامع مزاکرات میں پیش رفت سے بھی مطلع کیا۔ تاہم تاحال امریکہ نے پاکستان کے جوہری تعاون کے مطالبے کا کھل کر کوئی جواب نہیں دیا اور وہ اپنے اس موقف پر قائم ہے جس میں صدر بش نے کہا تھا کہ بھارت اور پاکستان کی ضروریات مختلف ہیں اور جوہری پھیلاؤ کے حوالے سے دونوں کی تاریخ بھی مختلف ہے۔ امریکہ کے نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا رچرڈ باؤچر نے بدھ کے روز صدر جنرل پرویز مشرف اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس ( ر) قاضی محمد فاروق سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کی ہے۔ text: شفقت حسین کو 14 سال کی عمر میں ایک بچے کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی یاد رہے کہ حکومتِ پاکستان نے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے موت کی سزا پانے والے قیدی شفقت حسین کی سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا تھا۔ اس سے پہلے شفقت حسین کو 14 جنوری کو سزائے موت دی جانی تھی۔ سزا پر عمل درآمد کے خلاف درخواست سماجی تنظیم جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی جانب سے درخواست دائر کی گئی۔ تنظیم کا کہنا تھا کہ 14 سال کی عمر میں بچے کے اغوا اور پھر قتل کے الزام میں سزا پانے والے شفقت حسین پر پولیس نے تشدد کر کے اعترافی بیان حاصل کیا۔ میڈیا پر یہ کیس آنے کے بعد پاکستان کے وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پانچ جنوری کو شفقت حسین کی سزائے موت روکنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک تحقیقاتی ٹیم اس مقدمے کی مزید تفتیش کرے گی۔ اطلاعات کے مطابق کراچی سینٹرل جیل کے حکام نے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے بدھ کے روز درخواست کی تھی کہ شفقت حسین کے بلیک وارنٹ ازسرِ نو جاری کیے جائیں جس پر انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نمبر تین کے جج سلیم رضا بلوچ نے جمعرات کو بلیک وارنٹ جاری کر دیے۔ غربت کی وجہ سے شفقت کے اہلِ خانہ گذشتہ دس برس میں صرف دو بار اس سے ملنے کراچی جا سکے جسٹس پروجیکٹ پاکستان نامی نجی ادارے کی سارہ بلال نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے وفاقی وزارتِ داخلہ اور سندھ کی صوبائی حکومت کو اس ضمن میں خطوط لکھے ہیں اور وہ کوشش کر رہی ہیں کہ شفقت حسین کی پھانسی روکی جائے۔ انھوں نے بتایا کہ وزیرِ داخلہ نے متعلقہ حکام کو اس مقدمے کی تحقیقات کرنے کا کہاتھا مگر کسی قسم کی کوئی تحقیقات نہیں ہوئی ہیں اور نہ ہی ان سے کسی نے رابطہ کیا ہے۔ پشاور میں طالبان شدت پسندوں کے حملے میں 132 بچوں سمیت 143 افراد کی ہلاکت کے بعد پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے سزائے موت پر عمل درآمد کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔ کراچی میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے 14 سال کی عمر میں بچے کے اغوا اور پھر قتل کے جرم میں موت کی سزا پانے والے شفقت حسین کے بلیک وارنٹ 19 مارچ کے لیے جاری کر دیے ہیں۔ text: فائل فوٹو اطلاعات کے مطابق افغان سکیورٹی فورسز کی امریکی ساختہ ہموی گاڑی کو پیر کے دن پاکستان اور افغان سکیورٹی فورسز میں سرحد پر ایک جھڑپ کے دوران تحویل میں لیا گیا۔ ایک سینیئر حکومتی اہلکار نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ گاڑی پاکستانی حدود میں داخل ہوئی تھی جس پر اس کو تحویل میں لیا گیا۔ دوسری جانب بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کے مطابق کوئی افغان فوجی اہلکار پاکستانی فورسز کی تحویل میں نہیں ہے۔ دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز میں کشیدگی کے باعث پاکستانی حکام کو چمن میں باب دوستی کو چند گھنٹے کے لیے ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند کرنا پڑا تھا تاہم بعد میں دونوں ممالک کے حکام کے درمیان بات چیت کے بعد اسے کھول دیا گیا۔ یہ بھی پڑھیے پاکستان افغان سرحد پر کشیدگی، چمن میں سرحد بند پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع سرحدی فورسز کے درمیان کشیدگی کس بات پر ہوئی؟ بلوچستان حکومت کے ایک سینئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ پیر کے روز پاکستانی فورسز سرحد پر حسب معمول باڑ لگانے کے عمل میں مصروف تھیں کہ وہاں افغان فورسز نے موقع پر پہنچ کر سرحد پر باڑ لگانے کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ افغان فورسز کی جانب سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے عمل میں مداخلت کے بعد دونوں ممالک کی فورسز کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔ اہلکار نے یہ بھی بتایا کہ اس دوران افغان فورسز کی ایک امریکی ساختہ ’ہم وی‘ گاڑی پاکستانی حدود میں آئی تھی جس کو پاکستانی سرحدی فورسز نے تحویل میں لیا۔ تاہم افغان حکام نے صوبے کندھار میں بی بی سی پشتو کے نامہ نگار مامون درانی کو بتایا کہ یہ واقعہ کلی لقمان میں پیش آیا جو ان کے مطابق افغانستان کی حدود میں واقع ہیں۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج نے کلی لقمان میں باڑ لگانے کی کوشش کی تھی، جس پر دونوں فریقوں کے درمیان جھڑپ ہوئی۔ افغان حکام کے مطابق اس دوران افغان سکیورٹی فورسز کی ایک امریکی ساختہ ہم وی گاڑی اس جھڑپ میں تباہ ہوئی ہے جو ابھی تک اسی مقام پر موجود ہیں۔ دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز میں جھڑپ کے بعد پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع بابِ دوستی کو چار سے پانچ گھنٹوں کے لیے بند کر دیا گیا جس کے باعث دونوں جانب لوگوں اور گاڑیوں کی بڑی تعداد پھنس کر رہ گئی۔ سرحد بند ہونے کے باعث دونوں اطراف پھنسے افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کے مطابق بعدازاں دونوں ممالک کے اعلیٰ عسکری حکام کے درمیان سرحد پر اجلاس ہوا جس میں پاکستانی حکام کی جانب سے افغان حکام کو آگاہ کیا گیا کہ پاکستانی فورسز پاکستان کی حدود میں باڑ لگا رہی ہے اور اس پر افغان فورسز کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے افغان حکام کو بتایا گیا کہ آئندہ اگر کوئی مسئلہ ہو تو کشیدگی پیدا کرنے کی بجائے اس کو مل بیٹھ کر حل کیا جائے۔ پاکستانی حکومت کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ اس حوالے سے ضروری قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد ہموی گاڑی کو افغان فورسز کے حوالے کیا جائے گا۔ پاکستان، افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپیں پاکستان اور افغانستان کی سکیورٹی فورسز کے درمیان سرحدی علاقوں چمن اور سپن بولدک میں جھڑپوں کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان قلعہ عبداللہ بالخصوص چمن سے متصل سرحدی علاقوں میں گذشتہ چند برسوں کے دوران کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کشیدگی کے باعث بعض اوقات جھڑپیں بھی ہوتی رہیں جن میں دونوں اطراف سے ہلاکتیں بھی ہوئیں ہیں۔ گذشتہ چار سال کے دوران دونوں ممالک کی سرحدی فورسز کے درمیان سب سے بڑی جھڑپ مئی 2017 میں ہوئی تھی جب پاکستانی اہلکار مردم شماری کے سلسلے میں سرحد پر واقع دو غیر منقسم گاﺅں کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں مردم شماری کے لیے گئے تھے۔ اس جھڑپ میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان وقتاً فوقتاً سرحد پر باڑ لگانے کے معاملے پر کشیدگی رہی ہے۔ پشتون قوم پرست جماعتوں کی جانب سے باڑ لگانے کے اس اقدام کی مخالفت کی جا رہی ہے اور ان کا کہنا ہے یہ صدیوں سے اکٹھے رہنے والے قبائل کے لوگوں کی تقسیم کا باعث بنے گا۔ دوسری جانب باڑ لگانے کے حوالے سے بلوچستان میں مقامی سطح پر موجودہ اور مستقبل میں ممکنہ درپیش مسائل کے حل کے لیے محکمہ داخلہ بلوچستان کے زیر اہتمام مستقل اجلاس ہو رہے ہیں۔ 15 مارچ کو وزیر داخلہ بلوچستان کی صدارت میں ہونے والے پانچویں اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ اب تک بلوچستان سے متصل سرحدی علاقوں میں 187 کلومیٹر طویل باڑ لگائی گئی ہے۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ باڑ لگانے سے بلوچستان میں بد امنی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے اور باڈر پر باڑ کی تنصیب دونوں ممالک کے مشترکہ مفاد میں ہے۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں افغانستان سے متصل سرحدی ضلع قلعہ عبد اللہ میں پاکستانی سرحدی فورسز نے افغان فوج کی ایک امریکی ساختہ ’ہم وی‘ گاڑی کو تحویل میں لے لیا ہے۔ text: پاکستان میں جنوبی کوریا کے سفیر کی قیادت میں ایک آٹھ رکنی وفد نے سنیچر کو مولانا سمیع الحق سے درخواست کی کہ وہ طالبان کے ساتھ رابطہ کرکے انہیں جنوبی کوریا کے باشندوں کو رہا کرنے پر قائل کریں۔ جمیعت علماءاسلام کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ وفد نے تین روز قبل بھی ایک ملاقات میں کوریائی باشندوں کی رہائی کے لیے طالبان پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کرنے کے لیے ان سےدرخواست کی تھی تاہم انہوں نے وفد کو بتایا تھا کہ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد طالبان کےساتھ ان کے ہر قسم کے روابط منقطع ہوگئے ہیں۔ ان کے بقول جنوبی کوریا کے سفیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے طالبان کے مطالبات مان لیے ہیں اور اگلے ماہ سے افغانستان میں تعینات اپنے دو سو فوجیوں کے انخلاء کا فیصلہ کیا ہے اور اس طرح انہوں نے ایک قانون بھی منظور کرایا ہے کہ آئندہ جنوبی کوریا کا کوئی بھی باشندہ افغانستان نہیں جائےگا۔ مولانا سمیع الحق کے مطابق جنوبی کوریا کے سفیر کا کہنا تھا کہ ابتداء میں افغانستان کے صدر حامد کرزئی کا طالبان کے مطالبات کو ماننے کے سلسلے میں مؤقف قدرے سخت تھا تاہم اقوام متحدہ کے سکر یٹری جنرل اور جنوبی کوریا کے سابق وزیر خارجہ بان کیمون کی حامد کرزئی سے ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد ان کے مؤقف میں لچک آئی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے جنوبی کوریا کے وفد پر واضح کردیا ہے کہ ان کے طالبان کے ساتھ رابطے منقطع ہوچکے ہیں لہذا وہ اس سلسلے میں کچھ کرنے سے قاصر ہیں تاہم بقول ان کے وہ میڈیا کے ذریعے طالبان سے اپیل کریں گے کہ وہ مغویان کے ساتھ اسلامی اصولوں کے مطابق اچھا سلوک روا رکھیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے وفد کو یہ بھی بتایا کہ حامد کرزئی کو بھی طالبان کے مطالبوں پر سنجیدگی سے غور کرناچاہئے۔ واضح رہے طالبان نے بیس جولائی کو افغانستان کے ضلع غز نی میں بس میں سوارجنوبی کوریا کے تیئس باشندوں کواغوا کر لیا تھا جن میں اٹھارہ خواتین بتائی جاتیں ہیں ۔ ان میں سے ایک شخص کی لاش بعد میں ملی تھی جس کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ یہ کوریائی باشندے مشنری بتائے جاتے ہیں۔ طالبان ان افراد کے بدلے آٹھ قیدیوں کی رہائی اور جنوبی کوریا کی افواج کے افغانستان سے چلے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی جانب سے مبینہ طور پر اغوا کیے گئے کوریائی باشندوں کی رہائی کے لیے جنوبی کوریا کے ایک وفد نے جمیعت علماء اسلام(س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق سے مدد کی درخواست کی ہے۔ text: 381 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پاکستان کی پوری ٹیم دوسری اننگز میں 273 پر سمٹ گئی۔ پاکستان کے آؤٹ ہونے والے آخری کھلاڑی محمد عباس تھے جو نو رنز پر رن آؤٹ ہوئے۔ مہمان ٹیم کی جانب سے دوسری اننگز میں اسد شفیق 65 اور شاداب خان 47 رنز بنا کر نمایاں رہے۔ میچ کا تفصیلی سکور کارڈ میزبان ٹیم کی جانب سے دوسری اننگز میں اولیویئر اور ربادا نے تین، تین، جبکہ سٹین نے دو اور فلینڈر نے ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ جنوبی افریقہ کے کوئنٹن ڈی کو مین آف دی میچ جبکہ اولیویئر کو مین آف دی سیریز کا ایوارڈ دیا گیا۔ جوہانسبرگ میں کھیلے جانے والے میچ کے چوتھے دن پیر کو پاکستان نے 153 رنز تین کھلاڑی آؤٹ سے دوسری اننگز دوبارہ شروع کی تو اسے آغاز میں ہی نقصان اٹھانا پڑا۔ بابر اعظم سکور میں نو رنز کے اضافے کے بعد اولیویئر کی گیند پر وکٹوں کے پیچھے کیچ ہو گئے۔ ان کی جگہ آنے والے کپتان سرفراز احمد پہلی ہی گیند پر بولڈ ہوئے تو پاکستانی ٹیم شدید دباؤ میں آ گئی۔ یہ بھی پڑھیے جوہانسبرگ ٹیسٹ: ’وہی بند گلی، وہی ڈراؤنے سپنے‘ پاکستان کے 153 رنز پر تین کھلاڑی آوٹ پاکستانی اننگز کا ناقص آغاز، شان مسعود اور اظہر علی ناکام انضمام صاحب! آپ کا ’اینگری ینگ پاکستان‘ فلاپ ہو گیا پاکستان کی چھٹی وکٹ 179 کے سکور پر اس وقت گری جب فیلنڈر نے نصف سنچری بنانے والے اسد شفیق کو سلپ میں کیچ کروا دیا۔ پاکستان کی ساتویں وکٹ 204 رنز کے سکور پر اس وقت گری جب ربادا نے فہیم اشرف کو مکارم کے ہاتھوں کیچ آؤٹ کروا دیا۔ انھوں نے 15 رنز بنائے۔ آؤٹ ہونے والے آٹھویں کھلاڑی تھے انھیں بھی ربادا کی گیند پر مکارم نے ہی کیچ کیا۔ پاکستان کے آؤٹ ہونے والے نویں کھلاڑی حسن علی تھے جن کا ربادا نے اپنی ہی گیند پر کیچ لیا۔ پاکستانی اوپنرز نے دوسری اننگز میں اپنی ٹیم کو بغیر کسی نقصان کے 67 رن کا سٹینڈ دیا تاہم بعد میں آنے والے کھلاڑی اس کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ اس سے پہلے جنوبی افریقہ کی ٹیم دوسری اننگز میں 303 رن بنا کر آؤٹ ہو گئی تھی اور اس نے پاکستان کو جیت کے لیے 381 رنز کا ہدف دیا تھا۔ خیال رہے کہ تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں جنوبی افریقہ کو 2-0 سے ناقابل شکست برتری حاصل ہے اور اب اس کی نظریں سیریز میں کلین سویپ کرنے پر ہیں۔ سینچورین میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں جنوبی افریقہ نے چھ وکٹوں سے فتح حاصل کی تھی جبکہ کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں جنوبی افریقہ نے پاکستان کو نو وکٹوں سے شکست دے کر سیریز اپنے نام کر لی تھی۔ ٹیسٹ سیریز کے بعد دونوں ٹیموں کے درمیان پانچ ایک روزہ اور تین ٹی 20 انٹرنیشنل میچوں کی سیریز بھی کھیلی جائے گی۔ جوہانسبرگ میں کھیلے جانے والے تیسرے اور آخری کرکٹ ٹیسٹ میچ میں جنوبی افریقہ نے پاکستان کو 107 رنز سے شکست دے کر سیریز تین صفر سے جیت لی ہے۔ text: چھ سے تیرہ سال کی عمر کی تین چھوٹی بچیوں میں شانتا سب سے کم عمر ہے جسے گزشہ ماہ ریاست ہریانہ کے علاقے فرید آباد میں امداد پہنچائی گئی تھی۔ اکتوبر میں حکومت نے بچوں سے جبری مشقت لیے جانے سے متعلق ایک قانون پاس کیا تھا جس کے تحت چودہ سال سے کم عمر کے بچوں کے گھریلو ملازمین کے طور پر، چائے اور کھانے پینے کے سٹالوں، ریسٹورانٹس اور ہوٹلوں میں کام کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ نئے چائلڈ لیبر ایکٹ کے تحت قانون توڑنے والے کو دو سال سے زائد قید اور بیس ہزار روپے تک جرمانے کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کئی افراد اس بات پر حیران ہیں کہ مقامی پولیس ان بچیوں کو ملازمت دینے والے مالکان کے خلاف اس نئے قانون کے تحت کوئی کارروائی کیوں نہیں کرتی۔ شانتا کا کہنا ہے کہ اسے اس خاندان کے پاس گزشتہ سال اس کا بھائی چھوڑ کرگیا تھا وہ تب سے اس خاندان کے پاس کام کر رہی تھی۔ اس نے بی بی سی کو بتایا’میں پورا دن پانی میں کام کرتی تھی۔ وہ (مالکہ) روزانہ وقت پر کام ختم نہ کرنے پر ڈنڈے سے مجھے مارتی تھی۔ میں صبح چار بجے اٹھتی اور اس کے بعد کپڑے دھوتی، جھاڑو اور فرش پر پونچھا لگاتی تھی‘۔ ریٹا اور سونیتا نامی دو دوسری لڑکیوں کا کہنا تھا کہ انہیں بھی کم و بیش شانتا ہی کے طرح کے سلوک کا سامنا رہا۔ انہیں اس ظلم سے ایک این جی او نے نجات دلائی۔ ان پر ہونے والے ظلم کی شکایت پولیس سے ان کے مالکوں کے پڑوس میں رہنے والے نے اس وقت کی جب انہیں بری طرح سے مارا پیٹا جا رہا تھا۔ پولیس نے ان بچیوں کو ملازمت دینے والے افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیاہے تاہم یہ مقدمہ بچوں سے جبری مشقت لینے کے نئے اور قدرے سخت قانون کے تحت نہیں بلکہ ذرا کم سخت قانون جووینائل جسٹس ایکٹ کے تحت کیا گیا ہے۔ ان بچیوں کو اس ظلم سے نجات دلانے والی تنظیم شکتی وہنی کے رشی کانت نے بتایا کہ یہ لڑکیاں مغربی بنگال سے لائیں گئیں تھیں اور تب سے وہ غیر قانونی ورکر کے طور پر کام کر رہی تھیں۔ ان سے بدسلوکی کی گئی اور انہیں کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس کے باوجود ان کے مالکان کے خلاف چائلڈ لیبر ایکٹ کے تحت مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔ مالکان پہلے ہی ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ شانتا کو ملازمت دینے والے مالکوں کے خلاف چائلڈ لیبر ایکٹ کے تحت کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جا سکتی کیونکہ بچیوں کو کام کے بدلے اجرت دی جا رہی تھی۔ فرید آباد پولیس کے سپرنٹنڈنٹ مہندر سنگھ کا کہنا تھا کہ چائلڈ لیبر ایکٹ کے تحت اس وقت کارروائی کی جا سکتی ہے جب چودہ سال سے کم عمر بچے کو بلا معاوضہ مشقت کا نشانہ بنا جا رہا ہو اور بچوں کی خرید و فروخت کی جا رہی ہو۔ ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ہوئی اس لیے مالکان کے خلاف یہ قانون قابل عمل نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چائلڈ لیبر ایکٹ میں اس قسم کا امتیاز نہیں برتا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قانون چودہ سال سے کم عمر تمام بچوں کے گھریلو ملازم کے طور پر، سڑکوں اور ہوٹلوں میں کام کرنے پر پابندی عائد کرتا ہے۔ اکتوبر میں نئے چائلڈ لیبر ایکٹ کے نفاذ کے بعد سے ہی سماجی کارکن بڑے پیمانے پر اس پر عمل درآمد کے حوالے سے اپنے شکوک کا اظہار کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ شانتا کی طرح کے دیگر کیس ان کے اسی خوف پر یقین کی مہر لگاتے ہیں۔ غیر سرکاری اداروں کا کہنا ہے کہ اگر بچوں سے اسی طرح غیر انسانی طریقوں سے کام لیا جاتا رہا تو سیاسی اور انتظامی اداروں میں بیٹھے ہوئے افراد ان کی حالت زار سے بے خبر ہی رہیں گے۔ (شانتا، ریٹا اور سونیتا ان تینوں بچیوں کے نام اصل نہیں ہیں) شانتا دوسرے چھ سالہ بچوں کی طرح ہی نظر آتی ہے سوائے اس کے کہ اس کے سر پر ایک کھلا زخم ہے، اس کے ہاتھ سوجے، پھٹے اور سرمئی سے ہیں۔ وہ مشکل سے چل پھر سکتی ہے۔ text: جنوبی افریقہ کے سابق صدر 94 سالہ نیلسن مینڈیلا کو پھیپھڑوں میں انفیکشن کی وجہ سے بدھ کی شب ہسپتال منتقل کیا گیا تھا نیلسن مینڈیلا پھیپھڑوں میں انفیکشن کے علاج کے لیے تین دن سے ہسپتال میں ہیں اور ابھی تک یہ واضح نہیں کیا گیا کہ سابق صدر مزید کتنا عرصہ ہسپتال میں قیام کریں گے۔ جمعہ کو جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ سابق صدر کی طبعیت میں قدرے بہتری آئی ہے۔ حکام سابق صدر نیلسن مینڈیلا کی نجی زندگی میں مداخلت کو روکنے کے لیے اس ہسپتال کا نام ظاہر نہیں کر رہے ہیں جہاں وہ زیرعلاج ہیں۔ جمعہ کو جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما نے کہا تھا کہ لوگوں کو نیلسن مینڈیلا کی طبیعت کی ناسازی پر پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ صدر جیکب زوما نے یہ بیان سابق صدر نیلسن مینڈیلا کی طبیعت اچانک خراب ہونے پر عوام کو تسلی دلاتے ہوئے دیا۔ فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق صدارتی دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ’نیلسن مینڈیلا بہتر حالت میں ہے اور جمعہ کی صبح انہوں نے ٹھیک سے ناشتہ کیا ہے اور ان کی حالت میں بہتری آ رہی ہے حالانکہ ان کا علاج جاری ہے‘۔ بی بی سی کو ایک انٹرویو میں صدر جیکب زوما نے کہا کہ عوام کو پریشان نہیں ہونا چاہیے اور انہوں نے نیلسن مینڈیلا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’مادیبا ہم چاہتے ہیں کہ آپ جلد صحت یاب ہو جائیں اور ہم آپ کو جلد از جلد گھر واپس دیکھنا چاہتے ہیں‘۔ صدر جیکب زوما نے کہا کہ ’میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ انہیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مادیبا اب جوان نہیں ہیں اور اگر وہ چیک اپ کے لیے ہسپتال آتے جاتے ہیں تو اس پر لوگوں کو خطرے کی گھنٹیاں نہیں بجانی شروع کر دینی چاہیں۔ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ عوام کو بے چین نہیں ہونا چاہیے‘۔ نیلسن مینڈیلا کی صحت کئی سالوں سے تشویش کا باعث رہی ہے اور انہوں نے گذشتہ دسمبر میں بھی اسی بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں اٹھارہ دن گزارے تھے۔ مینڈیلا کو جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف تحریک میں ان کے کردار پر بابائے قوم کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اس مہم کے دوران بیس سال سے زیادہ عرصہ قید میں گزارا اور انہیں فروری سنہ انیس سو نوے میں رہائی ملی تھی۔ انہیں اپنے ملک پر نسل پرستی کی بنیاد پر قابض سفید فام حکمرانوں کے خلاف پر امن مہم چلانے پر سنہ انیس سو ترانوے میں امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ نیلسن مینڈیلا سنہ انیس سو چورانوے سے انیس سو ننانوے کے دوران جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر رہے ہیں۔ انہوں نے سنہ دو ہزار چار کے بعد سے عوامی مصروفیات کو الوداع کہہ دیا تھا۔ وہ روبین جزیرے میں قید کے دوران پہلی دفعہ دمہ کی بیماری میں مبتلا ہوئے تھے جہاں پتھر توڑنے کی بیگار کرنے کے دوران ان کے پھیپھڑوں میں تکلیف کا آغاز ہوا تھا۔ انہیں پہلی بار سنہ دو ہزار گیارہ میں سینے میں شدید تکلیف کے باعث ہسپتال داخل کروایا گیا تھا جبکہ رواں برس انہیں پیٹ کی تکلیف کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔ جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن مینڈیلا کی طبعیت بہتر ہے اور اب وہ بغیر کسی تکلیف کے سانس لے رہے ہیں۔ text: تھائی لینڈ میں ایڈزویکس نامی حفاظتی ٹیکہ تیار کرنے والی کمپنی ’ویکس جین‘ نے کہا ہے اس تجربے کے ابتدائی نتائج ناکام رہے ہیں کیونکہ جن افراد کو یہ تجرباتی ٹیکے لگائے گئے ان کے ایڈز میں مبتلا ہونے کے امکانات میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ ہی ان میں اس مرض کے پھیلاؤ کی رفتار کم ہوئی ہے۔ ویکس جین کے صدر ڈونلڈ فرانسس نے کہا ہے کہ اس تجربے کی ناکامی نے محققین کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ایڈز سے متعلق کامیاب حفاظتی ٹیکہ تیار کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو دگنا کر دیں۔ اگرچہ اس تجربے کے حوصلہ افزاء نتائج سامنے نہیں آئے لیکن تھائی لینڈ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو یہ ٹیکے لگائے گئے ہیں تاکہ وسیع پیمانے پر اس ٹیکے کے نتائج مرتب کیے جا سکیں اور یوں یہ تجربہ اپنے آخری مراحل میں ہے۔ اس تجرباتی ٹیکے کے کوئی خاص ضمنی اثرات دیکھنے میں نہیں آئے لیکن جنہیں یہ ٹیکے لگائے گئے اور جنہیں یہ ٹیکے نہیں لگائے گئے، ایڈز کے خلاف دونوں طرح کے لوگوں کی قدرتی مدافعت میں کوئی فرق دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔ اس تجربے میں بنکاک کے ان ڈھائی ہزار افراد کو شامل کیا گیا جو پہلے سے ٹیکے لگا رہے ہیں۔ ان میں سے نصف تعداد کو تجرباتی دوا سے بھرے ٹیکے لگائے گئے جبکہ نصف کو ’پلاسیبو‘ یعنی ایسے ٹیکے لگائے گئے جن کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ تجربے سے حاصل کردہ اعداد و شمار سے یہ بات معلوم ہوئی کہ پلاسیبو لینے والے ایک سو پانچ افراد ایچ آئی وی وائرس سے متاثر ہوئے لیکن وہ لوگ جنہیں تجرباتی دوا کے ٹیکے لگائے گئے تھے اور وہ ایچ آئی وی سےمتاثر بھی ہوئے، ان کی تعداد ایک سو چھ تھی۔ اس مطالعے کی بنا پر اب محققین کی تمام تر توجہ افریقہ اور دیگر ممالک میں جاری ایڈز سے تحفظ کے تجربات کی طرف مبذول ہو گی کیونکہ دیگر تجربات اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں البتہ ان کے نتائج سامنے آنے میں کچھ وقت لگے گا۔ ایڈز کے مرض سے بچاؤ کے ممکنہ حفاظتی ٹیکے کی آزمائش میں محققین کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ text: لاکھوں روہنگیا اپنے گھر بار چھوڑ کر بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں مقیم ہیں اس نے روہنگیا کے قتل، ان کے گھروں کو جلانے، عورتوں کو ریپ کرنے اور سامان چرانے کی تردید کی ہے۔ یہ نتائج بی بی سی کے نامہ نگاروں کے دیکھے ہوئے شواہد سے متضاد ہیں، جب کہ اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ یہ بحران'نسل کشی کی نصابی مثال' ہے۔ یہ بھی پڑھیے * روہنگیا مسلمانوں کا درد * روہنگیا جائیں تو جائیں کہاں؟ * روہنگیا بحران: سوچی کو عالمی ’جانچ پڑتال‘ کا ڈر نہیں ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے میانمار کی فوج کی رپورٹ کو 'وائٹ واش' یعنی خود کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کے مترداف قرار دیا ہے۔ ان علاقوں میں میڈیا کی رسائی پر سخت پابندیاں عائد ہیں، لیکن بی بی سی کے جنوبی ایشیا کے نامہ نگار جوناتھن ہیڈ نے اس علاقے کے دورے میں دیکھا کہ بودھ مرد مسلح پولیس اہلکاروں کے سامنے ایک روہنگیا گاؤں کو آگ لگا رہے تھے۔ اگست سے اب تک پانچ لاکھ سے زیادہ روہنگیا بےگھر ہو کر دوسرے ملکوں کو ہجرت کر گئے ہیں۔ ان کی اکثریت بنگلہ دیش میں مقیم ہے، اور ان میں سے کئی ایسے ہیں جنھیں گولیوں کے زخم آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج کی پشت پناہی میں سرگرم بودھ بلوائیوں نے ان کے گھر جلا ڈالے ہیں اور عام شہریوں کو قتل کیا ہے۔ روہنگیا دیہاتیوں کے خاکستر مکان تاہم سرکاری فوج نے فیس بک پر شائع کردہ ایک بیان میں کہا کہ انھوں نے ہزاروں دیہاتیوں کا انٹرویو کیا جنھوں نے فوج کے ملوث ہونے کے الزام کی تردید کی ہے۔ رپورٹ کے چیدہ چیدہ نکات کے مطابق برمی فوج نے: رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روہنگیا برادری کے 'دہشت گرد' مکان جلانے کے ذمہ دار ہیں، اور یہ کہ لوگ ان دہشت گردوں کے ڈر سے ملک چھوڑ کر گئے ہیں۔ اس کے ردِ عمل میں لایمنیسٹی انٹرنیشنل کے ایک ترجمان نے کہا کہ برمی 'فوج نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اس کا احتساب کو یقینی بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اب یہ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ مجرم سزا سے بچ نہ سکیں۔ میانمار (سابق نام برما) کی فوج نے روہنگیا کے بحران کے بارے میں کی جانے والی اندرونی تحقیقات کے نتائج جاری کر دیے ہیں جن کے مطابق اسے الزامات سے بری الزّمہ قرار دیا گیا ہے۔ text: اس معاہدہ سے قبل رتیک روشن ایک فلم کے تین سے چار کروڑ روپے ہی لیتے تھے۔ رتیک کی حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی فلم ' کرش ' کافی مقبول ہوئی ہے۔اس معاہدہ کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ رتیک کو یہ رقم چیک کے ذریعہ دی جائے گی یعنی پوری رقم پر انہیں انکم ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ جبکہ اب تک کی انڈسٹری میں فلمساز آّدھا معاوضہ چیک کے ذریعہ اور آدھا نقد دیتے ہیں تاکہ فلمساز اور اداکار دونوں اپنا ٹیکس بچا سکیں۔ لیکن اب چیک کے ذریعے رقم دینے اور لینے پر فلمساز اور اداکار دونوں پریشان ہیں۔ بالی وڈ فلمسازوں میں اس خبر سے تہلکہ مچ گیا ہے کیونکہ اب ان کی فلموں کے لئے انڈسٹری کے بڑے سٹار اس سے زیادہ معاوضہ طلب کر سکتے ہیں۔ اس سے قبل انڈسٹری میں سب سے زیادہ مہنگے سٹار عامر خان تھے جو سال میں ایک یا دو ہی فلمیں کرتے تھے لیکن ایک فلم کا سات سے آٹھ کروڑ روپے لیتے تھے۔ اس کے بعد نمبر شاہ رخ خان کا تھا جو چھ سے سات کروڑ روپے لیتے تھے۔ سلمان خان سال میں دو سے تین فلمیں کرتے ہیں لیکن چار سے پانچ کروڑ روپے لیتے ہیں۔ سیف علی خان کا نمبر سب سے بعد میں آتا ہے انہیں ایک فلم کا تین سے چار کروڑ معاوضہ ملتا ہے۔ البتہ امیتابھ بچن دو سے تین کروڑ روپے لیتے ہیں چاہے فلم میں ان کا کردار چھوٹا ہو یا بڑا۔ شاہ رخ اور عامر اکثر اپنی فلموں کے لئے اگر کچھ رقم چیک کے ذریعہ لیتے ہیں تو اس کا کچھ حصہ وہ اپنی فلموں کے غیر ملکی حقوق کے ذریعہ طلب کرتے ہیں۔ ایڈ لیب کے ساتھ اس معاہدے نے کئی فلمسازوں کی پریشانیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ایک فلمساز جو کہ نام ظاہر کرنا نہیں چاہتے، ان کا کہنا ہے کہ اس طرح تو انہیں بڑا خسارہ اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ اب ہر سٹار اپنا معاوضہ بڑھانے کی بات کرے گا۔ فلمساز کے مطابق ایک فلم بناتے وقت جو بجٹ بنتا ہے اس میں سے ساٹھ فیصد حصہ تو سٹارز کے معاوضوں میں ہی ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد جو بچتا ہے اس میں سے مزید اس فلم کی تشہیر پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اور اگر فلم کامیاب ہوئی تو کوئی بات نہیں لیکن اگر فلاپ ہوئی تو فلمساز پوری طرح ڈوب جاتا ہے۔ رتیک روشن اب بالی وڈ کے سب سے مہنگے سٹار بن گئے ہیں۔ رتیک نے نامور صنعت کار انیل امبانی کی کمپنی ایڈ لیب کے ساتھ تین فلموں کا معاہدہ کیا ہے اور انہیں ان تین فلموں کے لیے پینتیس کروڑ روپے دیئے جائیں گے۔ text: امریکہ کےقومی کمیشن کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وائٹ ہاؤس سی آئی اے اور ایف بی آئی کے دفاتر کے علاوہ کیلیفورنیا میں کچھ مقامات پر بھی حملے کا منصوبہ تھا۔ اس منصوبے کے تحت ایک سال سے امریکہ کی تحویل میں خالد شیخ محمد خود ایک جہاز اغوا کر کے حملوں میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اس جہاز کے تمام مرد مسافروں کو ہلاک کرنے کے بعد ٹیلی ویژن پر امریکہ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کے بارے میں خطاب کر سکیں گے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسامہ بن لادن نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون پر حملے کی حمایت کی۔ اس رپورٹ کے مطابق القاعدہ اب بھی کیمیائی، جراثیمی، جوہری یا ریڈیائی حملے کرنا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور رپورٹ میں ستمبر 2001 کے حملوں میں القاعدہ کو عراقی مدد حاصل ہونے کے امکان کو مسترد کیا گیا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ اب تک ایسی کوئی قابلِِ اعتبار شہادت نہیں ملی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ گیارہ ستمبر کو واشنگٹن اور نیو یارک پر کیے جانے والے حملوں میں القاعدہ کو عراقی مدد حاصل تھی۔ کمیشن کا یہ بیان اس کے دو روزہ آخری اجلاس سے قبل شائع ہوا ہے اور اس سے پیر کو امریکی نائب صدر کے شائع ہونے والے اس بیان کے تردید ہوتی ہے کہ صدام حسین کے القاعدہ سے ’گہرے تعلقات‘ تھے۔ عراق کے القاعدہ سے مبینہ تعلقات بھی ان بہانوں میں سے ایک تھا جو عراق پر عملے کے لیے بیان کیے گئے تھے۔ گیارہ ستمبر کے حملوں میں اس وقت تین ہزار کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو گئے تھے جب القاعدہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے طیارہ اغوا کر کے واشنگٹن اور نیویارک پینٹاگون اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو نشانہ بنایا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ کمیشن کی حتمی رپورٹ 28 جولائی کو جاری کی جائے گی۔ تاہم بی بی سی کے سفارتی نامہ نگار جوناتھن مارکس کا کہنا ہے کہ کمیشن کی ابتدائی رپورٹ میں جن امور کا احاطہ کیا گیا ہے اور جن کوتاہیوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہ بھی بش انتظامیہ کے لیے خوشگوار ثابت نہیں ہوں گی۔ ایک امریکی تحقیقاتی کمیشن کے مطابق القاعدہ ابتدائی طور پر امریکہ میں دس مقامات کو نشانہ بنانا چاہتی تھی۔ text: عمران خان کے بقول جب تک کمیشن اپنی تحقیقات مکمل نہیں کر لیتا تب تک نہ نواز شریف استعفی دیں اور نہ ہی وہ دھرنا ختم کریں گے جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے مطالبہ کیا کہ یہ کمیشن 30 نومبر سے قبل بنا دیا جائے اور وہ چار سے چھ ہفتوں میں اپنی رپورٹ پیش کرے۔ انھوں نے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک کمیشن اپنی تحقیقات مکمل نہیں کر لیتا تب تک نہ نواز شریف استعفیٰ دیں اور نہ ہی وہ دھرنا ختم کریں گے۔ اس سے قبل عمران خان مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے وزیرِ اعظم نواز شریف کے استعفے کو پہلی شرط قرار دیتے رہے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ کمیشن کے سربراہ کی تعیناتی تحریک انصاف سے مشاروت سے کی جائے۔ انھوں نے میاں نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر کمیشن کی رپورٹ میں یہ ثابت ہو گیا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے تو اُنھیں مستعفی ہو کر نئے اِنتخابات کروانےہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر دوبارہ الیکشن ہو گا تو نئے الیکشن کمیشن کی موجودگی میں ہونا چاہیے اور چاروں صوبائی الیکشن کمشنروں کو استعفی دینا چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے نئے چیف الیکشن کمشنر کے لیے جسٹس تصدق حسین جیلانی کو نام سامنے آنے پر کہا کہ اُن کو یہ عہدہ قبول نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ اُن کو تصدق حسین جیلانی کی غیر جانبداری پر اعتماد نہیں ہے۔ ان کے بقول نیا چیف الیکشن کمشنر کسی ایسے شخص کو ہونا چاہیے جس پر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد ہو۔ عمران خانے اپنی تقریر میں عدلیہ کی غیر جانبداری پر بھی سوالات اٹھائے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ 30 نومبر کے جلسے میں وہ اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے عمران خان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے عوام اور وکلا سڑکوں پر آئے، انھوں نے بھی جیل کاٹی، کراچی میں 50 لوگ ہلاک ہوئے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عدلیہ اس جدوجہد میں آزاد ہوگئی لیکن غیر جانبدار نہیں ہو سکی۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے سپریم کورٹ سے سوال کیا کہ اصغر خان کیس میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی نے عدالت میں حلف نامہ جمع کروایا کہ انھوں نے نواز شریف اور دیگر سیاست دانوں میں رقوم بانٹیں تو اِس کیس کا کیا ہوا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے احکامات جاری کیے تھے کہ اِس میں تفتیش ہونی چاہیے۔ عمران خان نے کہا کہ اُن کی جماعت کا دھرنا تین ماہ سے جاری ہے جو کہ پر امن دھرنا ہے اور بقول اُن کے دھرنے سے ملک میں کسی قسم کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ ہر دروازے پر دستک دینے کے بعد اپنے حق اور انصاف کے لیے دھرنا دے رہے ہیں لیکن اگر حکومت نے اُن کی تجویز نہ مانی تو اُس کے بعد حکومت کو نقصان پہنچےگا اور نواز شریف کے لیے حکومت چلانا مشکل ہو جائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گذشتہ انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایک ایسا غیر جانبدار کمیشن تشکیل دے جس میں ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے نمائندے بھی شامل ہوں۔ text: جے آئی ٹی نے حمد بن جاسم کو قطر میں پاکستانی سفارت خانے میں آ کر بیان ریکارڈ کروانے کی بھی پیش کش کی تھی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے امیگریشن حکام کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے دو ارکان جن میں قومی احتساب بیورو کے نعیم منگی اور فوج کے خفیہ ادارے ملٹری انٹیلیجنس کے کامران خورشید شامل ہیں، منگل کو نجی ایئر لائن کے ذریعے قطر پہنچے۔ نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق جے آئی ٹی نے اس سے پہلے حمد بن جاسم کو پیش ہونے کے لیے دوبار خصوصی ایلچی کے ذریعے پیغام بھجوایا تھا لیکن انھوں نے پاکستان آ کر جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ کیا قطر کے شہزادے گواہی کے لیے آئیں گے: چیف جسٹس حسین نواز کے پاناما لیکس کی تحقیقاتی ٹیم کے دو ارکان پر اعتراضات مسترد تحقیقاتی ٹیم کو ساٹھ دن سے زیادہ نہیں ملیں گے: سپریم کورٹ قطری شہزادے نے اپنے خط میں جے آئی ٹی کو سوالنامہ بھیجنے کے بارے میں کہا تھا تاہم اطلاعات کے مطابق جے آئی ٹی کی جانب سے انھیں سوالنامہ نہیں بھیجا گیا تھا۔ پاناما لیکس سے متعلق تحقیقات کرنے والی ٹیم دس جولائی کو اپنی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائے گی قطری شہزادے کا جوابی خط وزارتِ خارجہ کے ذریعے جے آئی ٹی کو بھجوا دیا گیا تھا جس میں انھوں نے پاناما لیکس سے متعلق سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران میاں نواز شریف کے خاندان کی جانب سے عدالت میں اُن کے (حمد بن جاسم) کی طرف سے لکھے گئے خط کے ہر ایک لفظ کی تصدیق کی تھی۔ جے آئی ٹی نے حمد بن جاسم کو قطر میں پاکستانی سفارت خانے میں آ کر بیان ریکارڈ کروانے کی بھی پیش کش کی تھی لیکن انھوں نے اس سے بھی انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ٹیم کے ارکان قطر آئیں تو وہ تمام ثبوت فراہم کردیں گے۔ پاناما لیکس سے متعلق تحقیقات کرنے والی ٹیم دس جولائی کو اپنی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائے گی۔ قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر جے آئی ٹی قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ کیے بغیر اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرواتی تو اسے نا مکمل تصور کیا جائے گا اور نا مکمل رپورٹ پر کسی کو قصوروار نہیں گردانا جاسکتا ہے۔ پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کی جانب سے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کروانے کے بعد پاکستان کے چیف جسٹس نیا بینچ تشکیل دینے یا پاناما کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے والے بینچ کو ہی اس حتمی رپورٹ کا جائزہ لینے کا حکم دے سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے دو ارکان قطری شہزادے حمد بن جاسم سے پوچھ گچھ کے لیے قطر پہنچ گئے ہیں۔ text: سرفراز اب 18 ویں نمبر پر آ گئے ہیں جو کہ ٹیسٹ کریئر میں ان کی آج تک کی بہترین رینکنگ ہے ہر چند کہ یہ ميچ بے نتیجہ ثابت ہوا لیکن آئی سی سی کی جانب سے جاری تازہ عالمی رینکنگ میں پاکستان کے وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز احمد کو ان کی زندگی کی بہترین رینکنگ ملی ہے جبکہ نیوزی لینڈ کے اوپنر ٹام لیتھم کو بھی ان کی زندگی کی اب تک کی بہترین رینکنگ ملی ہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی ویب سائٹ کے مطابق سرفراز اب 18 ویں نمبر پر آ گئے ہیں جو کہ ٹیسٹ کریئر میں ان کی آج تک کی بہترین رینکنگ ہے۔ ان کی رینکنگ میں بہتری دبئی ٹیسٹ میں سنچری کی بدولت آئی ہے۔ نیوزی لینڈ کے کپتان برینڈن میک کلم بھی ٹاپ 20 کھلاڑیوں میں شامل ہو گئے ہیں اور اب وہ 19 ویں نمبر پر ہیں۔ ٹام لیتھم نے 19 پوزیشنوں کی چھلانگ لگائی ہے اور اب وہ 36 ویں پوزیشن پر آ گئے ہیں۔ بولنگ میں بھی پاکستان اور نیوزی لینڈ کے کھلاڑی آگے آئے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے ٹرینٹ بولٹ پہلے 10 بولروں میں آ گئے ہیں جبکہ پاکستان کے ذولفقار بابر 28ویں اور یاسر شاہ 30 ویں نمبر پر آ گئے ہیں۔ ٹام لیتھم نے ابھی تک پاکستان کے خلاف اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے آئی سی سی کی تازہ ٹیسٹ رینکنگ میں بیٹنگ کے شعبے میں سری لنکا کے کمارا سنگاکارا پہلے نمبر پر ہیں جبکہ یونس خان چھٹے اور مصباح الحق آٹھویں نمبر پر ہیں۔ بولنگ کے شعبے میں جنوبی افریقہ کے ڈیل سٹین پہلے نمبر پر ہیں جبکہ آل راؤنڈروں میں بنگلہ دیش کے شکیب الحسن نے اپنی پہلی پوزیشن برقرار رکھی ہے۔ اس سے قبل آنے والی آئی سی سی کی رینکنگ میں بنگلہ دیش کے بعض کھلاڑیوں کی رینکنگ میں اضافہ ہوا تھا کیونکہ بنگلہ دیش نے زمبابوے کے خلاف بہترین کارکردگي کا مظاہرہ کیا تھا۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان جاری سیریز میں پاکستان کو ایک صفر کی برتری حاصل ہے اور ابھی تیسرا میچ ہونا باقی ہے۔ پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف کلین سوئپ کے بعد ٹیسٹ رینکنگ میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میچ کے جمعے کو اختتام کے بعد دونوں ممالک کے بعض کھلاڑیوں کی رینکنگ میں بہتری آئي ہے۔ text: جن ممالک کے وزراء داخلہ اس میٹنگ میں ہیں ان میں فرانس، جرمنی، اٹلی، اور سپین شامل ہیں۔ یہ اجلاس گزشتہ روز شیفیلڈ میں شروع ہوا تھا اور آج اس کا دوسرا دن ہے۔ برطانوی وزیرِ داخلہ کو امید ہے کہ یہ ’غیر رسمی‘ اجلاس یورپ کی پولیس ایجنسی انٹرپول کو منظم جرائم اور دہشت گردی جیسے معاملات سے نمٹنے میں مدد فراہم کرے گا۔ یہ منصوبہ بھی زیرِ غور ہے کہ انٹرپول دہشت گردوں کے لیے رقم لانے اور لے جانے والوں کے نیٹ ورک کا پتہ ٹیلیفون کے ریکارڈ سے لگائے۔ ڈیوڈ بلنکٹ چاہتے ہیں کہ یورپ کے پانچ ملک دہشت گردوں کے لیے رقم لانے اور لے جانے والوں کے ٹیلیفون ڈیٹا کا استعمال کریں تاکہ ان تک پہنچا جا سکے۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ یورپ کے ممالک کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلے اور ڈی این اے کے سلسلے میں بھی تعاون بڑھ جائے۔ بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ مارچ کے مہینے میں میڈرڈ کے بم دھماکوں کے بعد خطرات بڑھنے کے باوجود یورپ کی پولیس میں تعاون قدرے کم رہا ہے۔ تاہم برطانیہ نے کچھ اقدامات کیے ہیں جن میں ڈی این اے ڈیٹابیس کا قیام بھی ہے لیکن یورپ کے دوسرے ملکوں کو بھی اس طرح کے طریقوں پر قائل کرنا کچھ دشوار سا ہے۔ یورپی اتحاد میں شامل ممالک اس بات پر تکرار کر سکتے ہیں کہ ڈی این اے کے نمونے عدالتوں میں بھی پیش کیے جا سکتے ہیں اور پھر یہ مسئلہ درپیش ہوگا کہ ان نمونوں تک کسے رسائی حاصل ہو اور کسے نہیں۔ تاہم دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے اور کثیرالقومی رویہ اختیار کرنے کے لیے یورپی وزراء کو اپنے روایتی مفادات اور بیوروکریسی کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کا بھی خاتمہ کرنا پڑے گا۔ برطانیہ میں ہوم آفس کے ایک ترجمان کے مطابق برطانیہ میں ڈی این اے ڈیٹا بیس ہے لیکن ڈربی شائر کے اجلاس میں شامل وزراء کو اس پر غور کرنا ہے کہ پورے یورپ میں ایسا ہی ڈیٹا بیس قائم ہو جائے۔ برطانیہ کے وزیرِ داخلہ اور ان کے یورپی ہم منصب آج ڈربی شائر میں دہشت گردوں کے مال و دولت کا پتہ چلانے کے طریقوں پر گفتگو کر رہے ہیں مگر اس میٹنگ کو زیادہ پبلیسٹی نہیں دی گئی۔ text: سانحے کو اپنی آنکھ سے دیکھنے والے بچوں کا علاج کرنے کے لیے تربیت یافتہ عملے کی شدید کمی ہے سوال یہ بھی ہے کہ پشاور کے یہ بچے یا ان کے والدین مردوں کو مضبوط اور سخت جان سمجھنے والے معاشرے میں اپنے بچوں کی کاؤنسلنگ کروانا پسند کریں گے؟ اس حملے میں 134 بچوں کی جانیں گئیں اور ان کے والدین کے دکھ کا اندازہ لگانا ممکن نہیں لیکن حملے میں زخمی ہونے والے بچوں کے لیے بھی آگے کا سفر انتہائی کٹھن ہے۔ بہت سے بچے اب بھی لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں جہاں کے عملے نے شدت پسندی کے خلاف صفِ اول پر موجود اس شہر میں کئی ایسے سانحات کا سامنا کیا ہے۔ ہسپتال میں ایک بہترین ٹراما سینٹر تو ہے مگر اس قسم کے سانحے کو اپنی آنکھ سے دیکھنے والے بچوں کا علاج کرنے کے لیے اس کے پاس تربیت یافتہ عملے کی شدید کمی ہے۔ ہسپتال کا عملہ اعتراف کرتا ہے کہ بچوں کے زخم صرف ان کی جلد پر ہی نہیں بلکہ ان کی روح بھی گھائل ہوگئی ہے۔ ایمرجنسی وارڈ میں موجود ایک ڈاکٹر نے کہا ’بچے جب حملے کے بعد یہاں لائے گئے تو خاموش تھے۔ یہاں جب بھی پہلے کبھی ایسے واقعات پیش آئے تو شور کے نتیجے میں قیامت کا سماں ہوتا ہے مگر ان بچوں نے ایسا کچھ نہیں کیا یہ بڑوں سے زیادہ بہادر بچے تھے۔‘ شہر کے تعلیمی ادارے آج کل موسمِ سرما کی تعطیلات کی وجہ سے بند ہیں اور ان کے دوبارہ کھلنے کا دارومدار سکیورٹی کی صورتحال پر ہے اور پھر انہیں شاید کچھ خیال آیا اور آہ بھر کر بولے ’یا شاید وہ صدمے سے دوچار تھے۔‘ پندرہ سالہ علی نواز بھی ایسا ہی ایک طالبعلم ہے جس کی ٹانگوں اور بازوؤں پر پٹیاں بندھی ہیں۔ وہ اس کی عیادت کے لیے آنے والے افراد ہوں یا انٹرویو کے لیے آنے والے صحافی سب کا مسکراہٹ سے استقبال کرتا ہے مگر یہ مسکراہٹ اس کے رشتہ داروں کے چہروں پر موجود ہیں جنہیں پتا ہے کہ علی نواز کا بھائی اس حادثے میں بچ نہیں پایا مگر علی کو یہ بات نہیں بتائی گئی۔ علی کی خالہ نے میرا بازو پکڑ کر مجھے اپنے قریب کرتے ہوئے کہا ’کیا آپ اسے بتاؤ گی کہ اس کا بھائی شہید ہو چکا ہے۔ ہمیں تو نہیں پتا کہ ہم اسے کیسے بتائیں۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا کہ ہم اس سے کیسے بات کریں۔‘ آرمی پبلک کے ہی ایک اور طالبعلم 13 سالہ انس ممتاز ہسپتال میں علاج کے عمل سے گزر کر واپس اپنے گھر پہنچ چکے ہیں لیکن رات کو اسے ڈراؤنے خواب ستاتے ہیں۔ اس حملے میں وہ خود تو زخمی ہوئے مگر اُنہوں نے اپنی والدہ کو جو سکول میں استانی تھیں مرتے دیکھا۔ انس کے والد ڈاکٹر نعیم ممتاز ایک سرجن ہیں اور وہ دوسرے بچوں کی جان بچانے میں مصروف تھے کہ اُن کے پاس اُن کا اپنا بیٹا لایا گیا اور اس کے ساتھ ہی یہ اطلاع بھی کہ اُن کی اہلیہ اسی حملے میں جان سے گئیں۔ وہ ابھی اپنے صدمے سے نکل کر انے بیٹے سے اس بارے میں بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انس بہت زیادہ خوفزدہ ہے اور اسے ڈر ہے کہ شدت پسند پھر لوٹ آئیں گے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’مجھے گھر سے نکلتے ہوئے خوف آتا ہے ابھی سے ہی لوگ کہہ رہے ہیں کہ شدت پسند واپس لوٹ آئیں گے۔ مجھے نہیں پتا کہ یہ افواہ ہے یا سچ کہ پشاور میں چار سو دہشت گرد داخل ہو چکے ہیں۔‘ پشاور سے تعلق رکھنے والے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر افتخار حسین کا کہنا ہے کہ ان بچوں میں ’پوسٹ ٹرومیٹک سٹریس ڈس آرڈر‘ یعنی پی ٹی ایس ڈی کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مختصر مدت کی کاؤنسلنگ ان بچوں کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہے تاہم انھوں نے متنبہ کیا کہ طویل عرصے تک کاؤنسلنگ کے بغیر رہنے سے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔ ’اس کا الٹ نتیجہ سامنے آ سکتا ہے بچوں کی نشوونما پر اور اُن کی مستقبل کی کامیابیوں پر۔ انہیں غصہ محسوس ہو سکتا ہے اور یہ اضطراب بعد میں پرتشدد رویے میں بدل سکتا ہے اور بعض کیسز میں اس کا نتیجہ بدلے لینے کی خواہش میں بھی نظر آ سکتا ہے۔‘ پاکستان میں فوج کی جانب سے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کا عمل جب سے تیز ہوا ہے تب سے پشاور میں سکیورٹی ہائی الرٹ ہے جس کی وجہ ان حملوں کے ردعمل میں حملوں کا خوف ہے۔ شہر کے تعلیمی ادارے آج کل موسمِ سرما کی تعطیلات کی وجہ سے بند ہیں اور ان کے دوبارہ کھلنے کا دارومدار سکیورٹی کی صورتحال پر ہے۔ پشاور کے ان بچوں کے لیے آنے والے سال کٹھن ہیں شیر عالم شنواری ایک مقامی استاد ہیں اور انھوں نے بچوں کو اپنے چھوٹے سے گھر میں پڑھانا شروع کیا ہے تاکہ اُن کی پڑھائی کا حرج نہ ہو مگر ان تعلیمی اسباق سے زیادہ ان بچوں کو کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے۔ شیر عالم کے مطابق ’اب بچے سکول کو ایک ڈر اور خوف کی جگہ کے طور پر شناخت کرتے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں اب بہت محدود ہیں اگر وہ سکول جاتے بھی ہیں انہیں صبح کی اسمبلی میں بھی باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔‘ ان کے مطابق ’بچوں کا اعتماد بری طرح مجروح ہو چکا ہے اور یہ اُن کے مستقبل میں ایک بڑی رکاوٹ ہو گا۔‘ پشاور کے ان بچوں کے لیے آنے والے سال کٹھن ہیں اور انہیں ایک ایسے معاشرے میں تربیت مل رہی ہے جس پر اب بھی قبائلی معاشرتی رسوم و رواج کے سائے کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں اور یہاں خوف اور احساسات خصوصاً ذہنی خوف اور ڈر کے بارے میں بات کرنے کو صحیح نہیں سمجھا جاتا۔ اس شہر کو اس ایک حملے کی کتنی بڑی قیمت چکانی پڑے گی یہ اس وقت واضح ہو گا جب ممکنہ طور پر ایک خوفزدہ اور صدمے سے دوچار بچوں کی نسل ڈرپوک اور خوفزدہ نوجوانوں میں تبدیل ہو جائےگی۔ پشاور کے آرمی پبلک سکول میں طالبان کے حملے کا نشانہ بننے والے بچے ہسپتال سے آج نہیں تو کل فارغ ہو جائیں گے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ یہ اندوہناک واقعہ کب تک ان کے ذہن پر سوار رہے گا اور ان کے زخم کبھی مندمل ہو پائیں گے یا نہیں۔ text: حملہ آور موٹر سائیکل پر سوار تھے جو بعد میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے وکیل کو ہلاک کرنے کا واقعہ کوئٹہ شہر میں فیصل ٹاؤن کے علاقے میں پیش آیا۔ بلوچستان بار ایسوسی ایشن نے جہانزیب علوی کے قتل کے واقعے کی مذمت کی ہے۔ بلوچستان ایسوسی ایشن نے ان کے قتل کے خلاف بدھ کو عدالتوں کے بائیکاٹ کی کال دی ہے۔ بروری روڈ پولیس اسٹیشن کے ایک اہلکار نے بتایا کہ جس وقت واقعہ پیش آیا جہانزیب علوی ایڈووکیٹ عدالت سے فارغ ہونے کے بعد فیصل ٹاؤن میں واقع اپنے گھر جا رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ بروری روڈ سے فیصل ٹاؤن کی جانب موڑتے ہوئے وہ گاڑی کے ٹائروں میں ہوا بھروانے کے لیے رکے۔ پولیس اہلکار کے مطابق وہاں دو مسلح افراد آئے اور وکیل پر فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوگئے۔ پولیس اہلکار نے بتایا کہ حملہ آور موٹر سائیکل پر سوار تھے جو بعد میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ پولیس اسٹیشن کے اہلکار کے مطابق وکیل کے رشتہ داروں نے ان کے قتل کا مقدمہ درج کرنے کے لیے درخواست دی ہے۔ اہلکار نے بتایا کہ مقتول کے رشتہ داروں نے درخواست میں بعض لوگوں کو نامزد کیا ہے پولیس اہلکار نے دعویٰ کیا کہ وکیل کے قتل کا واقعہ خاندانی تنازع کے باعث پیش آیا ہے۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں فائرنگ کے واقعے میں ایک وکیل کو قتل کر دیا گیا ہے۔ text: پانچ روز تک جاری رہنے والے اس فیشن ویک کی ابتداء مشہور ڈیزائنر وکرم فڈنیس کے ڈیزائن کیے ہوئے ملبوسات سے ہوئی۔ اس سال فیشن شو کی خاصیت یہ ہے کہ اسے گیتا نجلی اور نکشتر ڈائمنڈ کے اشتراک سے منعقد کیا جارہا ہے۔ ماڈلز ملبوسات کی مناسبت سے تیار کردہ دیدہ زیب زیورات پہن کر ریمپ پر جلوہ گر ہوئیں۔ اس سال اِس فیشن ویک میں انڈیا کے نامور ڈیزائنرز نریندر کمار، سباسچی مکھرجی، نیتا للا، وکرم فڈنویس، وینڈیل راڈرکس، ونیت بہل، شہزاد کلیم، نندیتا مہتانی اور ندا محمود کے علاوہ عالمی ڈیزائنر بھی حصہ لے رہے ہیں۔ ان میں سسلے، گیووانی کوگنا اور FCUK کے نام قابل ذکر ہیں۔ فیشن ویک کے پہلے ہی دن اطالوی فیشن برانڈ سسلے اور گیووانی نے سونم دوبال کے ساتھ اپنے ڈیزائن کردہ ملبوسات کا کلیکشن پیش کیا۔ وکرم فڈنیس کے ڈیزائن کیے گئے ملبوسات کے لیے بالی وڈ حسینائیں پری زاد زورابین، منیشا لامبا اورگیتا بسرہ ریمپ پر اتریں۔ سونم دبال کے شو میں انڈین کے ساتھ ایشیائی پہناوے کی جھلکیاں دیکھنے کو ملی۔ ان کا انداز مختلف ممالک جیسے تبت، ازبکستان، شمالی افریقہ اور وسطی ایشیاء میں کافی مقبول ہے۔ انڈیا کے ڈیزائنر بھی مختلف ممالک کے فیشن ویک میں حصہ لیتے رہے ہیں لیکن انڈیا کے بازاروں میں غیر ملکی برانڈ نے اپنا سکہ جمانا شروع کر دیا ہے۔ اس لیے اس فیشن ویک میں کئی ڈیزائنرز کو یہ شکایت بھی تھی کہ انڈیا کو غیر ملکی خریدار کے بجائے اپنی مارکیٹ پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ فیشن ویک کے دوران پاکستان میں متوقع فیشن ویک کے چرچے بھی رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ فیشن ویک کراچی میں اگست اور ستمبر کے درمیان ہو سکتا ہے جس میں انڈیا سے کچھ ڈیزائنر کو مدعو کیے جانے کی توقع ہے۔ لیکمے فیشن ویک اکتیس مارچ تک ممبئی کے نیشنل سینٹر فار پرفارمنگ آرٹس یا این سی پی اے آڈیٹوریم میں جاری رہے گا۔ ہیروں کی چمک، جدید ملبوسات میں ملبوس خوبصورت ماڈلز اور ریمپ پر چمکتے بالی وڈ ستاروں کے ساتھ ممبئی میں لیکمے فیشن ویک کا آغاز ہوگیا ہے۔ text: یہ صورت حال اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد پیدا ہوئی ہے جس میں مسٹر المرت پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے لبنان جنگ کے دوران کئی غلط فیصلے کئے تھے۔ قدیمہ پارٹی کے چیرمین اوگدر یزہکی نے اسرائلی ریڈیو پر بات چیت کرتے ہوئےکہا ’ وزیم اعظم کو جانا ہوگا تاکہ قدییمہ پارٹی اپنے عمل پر جاری رہ سکے‘۔ بدھ کو مسٹر یزہکی نے کہا کہ فی الوقت انتخابات ہونے کی کوئی امید نہیں ہے لہذہ مسٹر المرت کو مستعفی ہو جانا چاہيے۔ ان کا کہنا تھا ’ ایک رہنما عوام کی رہنمائی اس وقت ہی کر سکتا ہے جب تک اسے عوام کا بھروسہ حاصل ہو۔ وزیر اعظم کو ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے اور مستعفی ہو کر قدیمہ کو نیا اتحاد بنانے کی اجازت دینی چاہیے۔‘ وزیر اعظم نے اس رپورٹ پر بات چیت کرنے کے لیے کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کیا ہے۔ رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم نے کہا کہ وہ فی الوقت اپنے عہدے پر برقرار رہنا چاہیں گے۔اس کے علاوہ وزیر اعظم نے اپنی پارٹی کے چیئرمین کے اس مطالبے پر بھی کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے جس ميں انہیں مستعفی ہونے کو کہا گیا ہے۔ بدھ کو اسرائیل کے اخبارات میں شائع کئے گئے ’پولز‘ سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں کے بیشتر افراد چاہتے ہیں کہ مسٹر المرت مستعفی ہو جائيں۔ ریڈیو اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس بحران کے سبب کابینہ سےایک وزیر مستعفی ہو چکے ہیں اور دفاعی وزیر عامر پریٹز اپنا عہدہ چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی کادیمہ پارٹی کے ایک سینئر ممبر نے وزیر اعظم سے ان کے لبنان جنگ کے سنمبھالنے کے طریقہ کار پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیر اعظم ایود اولمرت کا تعلق قدیمہ پارٹی سے ہی ہے۔ text: ادھر وانا میں کل رات ایک مرتبہ پھر نامعلوم افراد نے سکاؤٹ کیمپ پر راکٹ داغے ہیں لیکن کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔ قبائلی عمائدین اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ لدھا نوید ارشد کا درجنوں گاڑیوں پر مشتمل ایک تعزیتی جرگہ آج متاثرہ علاقے کوٹکی پہنچا۔ جرگے کے ہمراہ قبائلی روایت کے مطابق گیارہ دنبے بھی تھے جوکہ متاثرین کو دیے گئے۔ محسود علاقے کوٹکی پر گزشتہ منگل کے روز اس بمباری میں چودہ افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے تھے۔ اس موقعے پر ملک نیاز خان کے خاندان نے حکومت پر تنقید کی اور الزام لگایا کہ یہ ہلاکتیں سکیورٹی دستوں کی گولہ باری سے ہوئی ہے۔ جواب میں اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ لدھا نوید ارشد نے منگل کے واقعے کو افسوس ناک قرار دیا اور ہلاک ہونے والوں کے لیے سات لاکھ روپے اور ایک وارث کے لیے کلاس فور کی نوکری جبکہ زخمیوں کے لیے تین تین لاکھ روپے کا اعلان کیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس سال مارچ سے لے کر اب تک حکومت ایسی ہلاکتوں کے معاوضے کے طور پر ایک کروڑ اسی لاکھ روپے قبائلیوں میں تقسیم کر چکی ہے۔ ان میں بعض ایسے افراد بھی تھے جنہیں آغاز میں دہشت گرد قرار دیا گیا تھا لیکن بعد میں بےگناہ ثابت ہونے پر مالی امداد دی گئی ہے۔ جرگے میں محسود قبائل نے حکومت کے ساتھ مل کر علاقے میں تلاشی کی مہم دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں حکومت سے تعاون نہ کرنے والے کو دو لاکھ روپے جرمانہ کرنے کا اعلان بھی کیا۔ ادھر صدر مقام وانا میں نامعلوم افراد نے جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب تین بجے کے قریب سکاؤٹ کیمپ پر تین راکٹ داغے۔ ان میں سے دو اپر کیمپ جبکہ ایک لوئر کیمپ میں گرا لیکن کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے۔ ایک راکٹ ایک میجر کی خالی رہائش گاہ پر بھی گرا۔ جواب میں سکیورٹی دستوں نے مشرق کی جانب ایک گھنٹے تک شدید گولہ باری کی۔ پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں سنیچر کو مقامی انتظامیہ نے گزشتہ دنوں ایک جرگے پر بمباری کے نتیجے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے لیے مالی امداد کا اعلان کیا ہے۔ text: تاہم ایمنسٹی نے جواب میں کہا ہے ’لغو اور فضول بات یہ ہے کہ صدر بش اپنی انتظامیہ کی پالیسیوں سے انکار کررہے ہیں اور یہ کہ بش انتظامیہ نے اس سلسلے میں مکمل طور پر آزادانہ تحقیقات نہیں کرائی ہیں۔‘ تنظیم نے اپنی روپورٹ میں گوانتا نامو کے قید خانے کو سوویت زمانے کے گولاگ یعنی جبری کیمپوں سے تشبیہ دی تھی اور واشنگٹن پر الزام لگایا تھا کہ دنیا بھر میں حقوق انسانی کی بگڑتی صورت حال کے لیے امریکہ سب سے زیادہ قابل الزام ہے۔ گوانتانامو کے قید خانے میں محافظوں پر یہ الزام بھی لگا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی بے حرمتی کی تھی جس پر مسلمان دنیا نے بہت احتجاج کیا تھا۔ وائٹ ہاؤس میں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کے دوران صدر بش نے ایمنسٹی کی رپورٹ کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ امریکہ تو وہ ملک ہے جو دنیا بھر میں آزادیوں کے فروغ کی بات کرتا ہے۔ ’ایمنسٹی کی رپورٹ میں نے دیکھی ہے اور وہ فضول ہے۔ یہ ایک فضول الزام ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ امریکیوں کے خلاف الزامات کی پوری طرح چھان بین کی گئی ہے اور اس کے لیے شفاف انداز اختیار کیا گیا ہے۔ ایمنسٹی کی رپورٹ کے بعد امریکہ میں اعلیٰ ترین فوجی سطح پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ جنرل رچرڈ مائر نے بھی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا جبکہ امریکہ کے نائب صدر ڈک چینی نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ چینی کا کہنا تھا: ’میرے خیال میں حقیقت یہ ہے کہ دیگر اقوام کے مقابلے میں امریکہ نے آزادی کے لیے زیادہ کام کیا ہے اور بیسوی صدی میں استبداد سے زیادہ لوگوں کو نجات دلائی ہے۔‘ ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ گوانتانامو میں قیدیوں اور دنیا کے مختلف حصوں میں امریکی حکام کے زیرِ حراست افراد کی طرف سے عائد کیے جانے والے اعتراضات کے بعد مرتب کی تھی۔ صدر بش کا کہنا تھا کہ یہ الزامات دراصل ان لوگوں کے ہیں جو امریکہ سے نفرت کرتے ہیں اور انہیں اسی چیز کی تربیت دی جاتی ہے لہذا ان کی بات سچ نہیں ہے۔ تاہم ایمنسٹی کا جواب تھا ’خود صدر بش کی یہ کوشش لغو اور فضول ہے کہ وہ اپنی انتظامیہ کی پالیسیوں سے انکار کر رہے ہیں۔ اور لغو اور فضول بات یہ ہے بش انتظامیہ نے ایک مکمل اور آزادانہ انکوائری نہیں کرائی۔ امریکی صدر جارج بش نے حقوقِ انسانی کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ کو لغو اور فضول قرار دے کر مسترد کر دیا ہے جس میں گوانتانامو میں قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک پر امریکہ کی مذمت کی گئی تھی۔ text: ٹرمپ کو لوگ احمق کہتے ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ اندازوں سے زیادہ ذہین ہوں جواب: ہر وقت۔ یہ ان کی تواتر سے جاری حرکتوں کا نمونہ ہی تھا جب انھوں نے کہا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن سے ان کا آئی کیو زیادہ ہے۔ 2013 میں انھوں نے ٹویٹ کیا تھا کہ ان کا آئی کیو جارج بش اور براک اوباما دونوں سے زیادہ ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کا آئی کیو اداکار جان سٹیورٹ اور برطانوی ٹیلیویژن شو ’ایپرینٹس‘ کے میزبان لارڈ شوگر سے زیادہ ہے۔ ان تمام دعوؤں کے باوجود صدر ٹرمپ نے اپنے آئی یو کا سکور کبھی ظاہر نہیں کیا۔ تو کیا ہم کسی طرح اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں؟ ٹرمپ کے پاس یونیورسٹی آف پینسیلوینیا کے سکول آف وارٹن کی ڈگری بھی ہے۔ آئی کیو ہوتا کیا ہے؟ آئی کیو کسی شخص کا وہ سکور ہوتا ہے جو اس کے ٹیسٹ لیے جانے کے بعد حاصل کیا جاتا ہے۔ اس وقت آئی کیو ماپنے کے لیے کوئی ایک آئی کیو ٹیسٹ نہیں ہے۔ مینسا نامی ادارہ اپنے ٹیسٹ سمیت تقریباً 200 کے قریب آئی کیو ٹیسٹوں کو استعمال کرتا ہے۔ کچھ ٹیسٹ ایک گھنٹہ طویل ہوتے ہیں کچھ کی وقت کی کوئی حد ہی نہیں ہوتی۔ تاہم ایک اندازے کے لحاظ سے حجم سے متعلق سوالات شکلوں کے بارے میں ہوتے ہیں، مقداری سوالات ریاضی سے ہوتے ہیں، اور زبان اور تحریر سے متعلق سوالات الفاظ کی صورت میں ہوتے ہیں، مثال کے طور پر یہ سوال کہ ایک لفظ دوسرے سے کس طرح ملتا ہے۔ مینسا ان لوگوں کو ٹیسٹ میں کامیاب قرار دیتی ہے جن کا سکور چوٹی کے دو فیصد میں شمار ہوتا ہے، اور یہ کم و بیش 130 آئی کیو کے برابر بنتا ہے۔ زیادہ ذہین صدور کون رہے ہیں؟ یونیورسٹی آف ورجینیا کے ملر سینٹر میں پریزیڈینشل سٹڈیز کی ڈائریکٹر ڈاکٹر باربرا اے پیری کہتی ہیں ان کے علم میں امریکی صدور کے آئی کیو کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں ہے۔ ’لیکن آپ صدور کے ناموں کی فہرست ان کے زمانہ طالب علمی کے دوران ان کی یونیورسٹیوں کی فائی بیٹا کپا سوسائیٹیز میں شامل اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں والے طلبہ کے ناموں کی فہرست دیکھ سکتے ہیں۔ فائی بیٹا کیپا ادارہ 1776 میں قائم ہوا اور اس میں لبرل آرٹس اور سائنس کے مضامین میں امریکہ کی 286 بہترین یونیورسٹیوں سے ذہین ترین انڈر گریجویٹ جماعتوں کے طلبہ کے نام اعزاز کے طور پر شامل کیے جاتے ہیں۔ امریکہ کے 44 صدور میں سے 17 فائی بیٹا کیپا کی فہرست میں موجود ہیں۔ بل کلنٹن، جارج ڈبلیو ایچ بش اور جمی کارٹر کے نام اس فہرست میں موجود ہیں۔ ڈاکٹر پیری کئی اور ناموں کے علاوہ ہربرٹ ہوور کا نام لیتے ہیں جو ایک سائنس دان اور ماہر ارضیات تھے، ووڈرو ولسن جو واحد پی ایچ ڈی صدر تھے، اور ولیم ٹفٹ جو زبردست وکیل تھے۔ اگرچہ کسی بھی صدر کا آئی کیو ماپا نہیں گیا ہے تاہم یونیورسٹی کے اندازے کے مطابق جان کیوئینسی ایڈم سب سے زیادہ ذہین صدر تھے۔ 1945 کی یالٹا سربراہی کانفرنس کے موقع پر ونسٹن چرچل، فرینکلن روزوولٹ اور جوزف سٹالن ڈاکٹر پیری کا کہنا ہے کہ کچھ صدور کو ایک ایسی شہرت یا بدنامی ملی جس کے وہ حق دار نہ تھے۔ ’جیرالڈ فورڈ کو بےڈھنگا صدر کی شہرت ملی کیونکہ وہ ایک مرتبہ کسی تقریب میں پھسل گئے تھے۔ لیکن یہ ان کے ساتھ زیادتی تھی۔ ان کے پاس یونیورسٹی آف مشی گن کی انڈر گریجویٹ ڈگری تھی، جہاں سے ان کا تعلق تھا، وہ ایگل سکاؤٹ تھے، وہ ییل یونیورسٹی میں قانون پڑھنے گئے اور سب سے بڑھ کے وہ فٹ بال کے کھلاڑی تھے۔‘ پیری کا یہ بھی کہنا ہے کہ ذہانت کئی عوامل میں سے ایک ہے جو ایک اچھا صدر بناتی ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس آلیور ہومز جنھوں نے فرینکلن روزوولٹ کے بارے میں کہا تھا کہ ان میں دوسرے درجے کی دانش ہے مگر وہ اعلیٰ درجے کا مزاج رکھتے ہیں۔ روزوولٹ 1936 میں دو تہائی اکثریت سے دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تھے۔ اور سب سے کم ذہین صدور کون تھے؟ ڈاکٹر پیری کہتی ہیں کہ ’میں اس فہرست میں وہ وارن ہارڈنگ کا نام لوں گی۔ وہ تربیت کے لحاظ سے صحافی تھے۔‘ یہ تکلیف دہ بات ہے۔ انھوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’میرے کچھ بہترین دوست صحافی ہیں۔ ’اور میرا تو بھائی بھی صحافی ہے۔ لیکن میرا نکتہ یہ ہے کہ وہ (وارن ہارڈنگ) ہارورڈ یا ییل سے پڑھے ہوئے نہیں تھے۔ اور وہ کوئی بہترین وکیل نہیں تھے جو سپریم کورٹ میں جج بن پاتے۔‘ تو پھر ڈونلڈ ٹرمپ کس فہرست میں شامل کیے جا سکتے ہیں؟ ڈاکٹر پیری کہتی ہیں کہ ’اگر وہ اپنی آئی کیو کا سکور جاری کرتے ہیں تو، مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ، کیونکہ وہ ٹلرسن کو چیلنج کر رہے ہیں کہ وہ اپنا سکور جاری کرے، ان کا سکور لوگوں کے اندزاوں سے زیادہ نکلے۔ ’لوگ انھیں پسند نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں کہ وہ احمق ہیں، وہ بہت ہی بے وقوف ہیں، لیکن میں آپ سے شرط لگا سکتا ہوں کہ وہ ہمارے اندازوں سے زیادہ بہتر نکلیں گے۔‘ پروفیسر فریڈ گرینسٹائین، جو پرنسٹن یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں، کسی بھی صدر کی کارکردگی جانچنے کے لیے چھ خصوصیات گنواتے ہیں۔ اور وہ یہ ہیں: ابلاغ عامہ، تنظیمی صلاحیت، سیاسی فہم و فراست، معاملہ شناسی، اور جذبات پر قابو۔ ڈاکٹر پیری کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی جذبات پر قابو، معاملہ شناسی اور تنظیمی صلاحیت میں سکور کم ہے۔ لیکن جس چیز میں وہ زبردست ہیں اور جس کی وجہ سے وہ صدر بنے وہ ہے ان کی سیاسی سمجھ بوجھ اور ابلاغ عامہ کی صلاحیت۔ ڈاکٹر پیری ٹرمپ کی کاروباری ترقی کا بھی اشارہ دیتی ہیں: ’ظاہر ہے کامیابی کے لیے ان میں ایک مقامی قسم کی ذہانت تھی، جیسا کہ وہ ہیں۔‘ اور پھر ان کے پاس یونیورسٹی آف پینسیلوینیا کے سکول آف وارٹن کی ڈگری بھی ہے۔ مینسا کے ڈاکٹر لالس کہتے ہیں کہ بہرحال ٹرمپ کا آئی کیو کم ہے یا زیادہ، اس سے آپ کو ہر بات پتہ نہیں چلتی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ کسی کو لیں جسے ہم آئن سٹائن کی طرح ذہین و فطین سمجھتے ہوں، وہ ہو سکتا ہے کہ آئی کیو کے ٹیسٹ میں اچھا سکور نہ کر سکیں، کیوں کہ ایسا شخص آؤٹ آف باکس سوچتا ہے۔ ’ہو سکتا ہے کہ وہ ایک سوال کے جواب میں درجنوں جواب سوچ لیں۔‘ جو بھی ہو، لگتا ہے کہ اب اس موضوع پر گفتگو کا وقت جلد ختم ہو جائے۔ تاہم مینسا نے پیش کش کی ہے کہ وہ ٹرمپ اور ٹلرسن دونوں کو ٹیسٹ کر سکتے ہیں۔ سوال: صدر ٹرمپ آئی کیو کے بارے میں کتنی مرتبہ بات کرتے ہیں؟ text: تکریت صدام حسین کا آبائی شہر ہے اور بغداد سے ایک پچاس کلو میٹر کےے فاصلے پر واقع ہے۔ اقوام متحدہ کا مزید کہنا ہے کہ موصل سے پانچ لاکھ افراد کی نقل مکانی کے بعد شہر میں حالات انتہائی خطرناک ہیں۔ بدھ کے روز عراقی سکیورٹی حکام نے بتایا تھا کہ کہ اسلامی شدت پسندوں نے منگل کو موصل کے بعد سابق صدر صدام حسین کے آبائی شہر تکریت پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ شدت پسندوں کا تعلق دولتِ اسلامیہ عراق والشام (آئی ایس آئی ایس) سے ہے۔ اس تنظیم کو القاعدہ کی شاخ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو متحد ہو کر عراق کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنا چاہیے۔ اس سے پہلے عراق میں یونیسیف کے سربراہ مارزیو بابیل کا کہنا تھا کہ موصل میں صورتحال انتہائی پریشان کن ہے۔ دریں اثنا وزیرِ اعظم نوری المالکی نے کہا ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف لڑنے کی بجائے فرار ہونے والے سکیورٹی اہلکاروں کو سزائیں دی جائیں گی۔ آئی ایس آئی ایس کا صوبہ نینوا پر غیر رسمی کنٹرول کئی ماہ سے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ آئی ایس آئی ایس کو شام کے بڑے حصے اور مغربی و وسطی عراق پر کنٹرول حاصل ہے اور اس کی کوشش ہے کہ عسکریت پسند سنی علاقے قائم کیا جائے۔ موصل سے آخری اطلاعات ملنے تک شدت پسندوں کے قبضے کے بعد تقریباً پانچ لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔ تکریت بغداد کے شمال میں ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اطلاعات کے مطابق موصل میں متعدد پولیس سٹیشن جلا دیے گئے ہیں اور سینکڑوں قیدیوں کو رہا کروا لیا گیا وزیرِ اعظم نوری المالکی نے شدت پسندوں کے خلاف لڑنے اور فرار ہونے والے سکیورٹی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا ہے۔ موصل پر شدت پسندوں کے قبضے کے بعد عراقی وزیرِ اعظم نے پارلیمان سے وہاں ایمرجنسی نافذ کرنے کی درخواست کی ہے تاکہ انھیں مزید اختیارات مل سکیں۔ نوری المالکی نے ٹیلی ویژن پر کہا کہ سکیورٹی فورسز کو چوکنا کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے پارلیمان سے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا کہا ہے جس سے انھیں مزید اختیارات مل جائیں گے اور وہ کرفیو نافذ کر سکیں گے۔ ادھر امریکہ نے کہا ہے کہ موصل سے آنے والے اطلاعات سے ثابت ہو رہا ہے کہ دولتِ اسلامیہ پورے خطے کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان جین پساکی کا کہنا ہے کہ موصل کی صورتِ حال ’بہت زیادہ سنگین‘ ہے اور امریکہ چاہتا ہے کہ موصل سے شدت پسندوں کے خلاف مضبوط اور مربوط کارروائی کی جائے۔ دریں اثنا اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے موصل کی صورتِ حال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عراقی حکومت سے کہا ہے کہ وہ خطے میں سلامتی کے لیے علاقائی حکومت سے تعاون کرے۔ موصل میں موجود شہریوں کا کہنا ہے کہ سرکاری عمارتوں سے ’جہادی جھنڈے‘ لہرائے جا رہے ہیں اور شدت پسندوں نے لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے اعلان کیا ہے کہ وہ ’موصل کو آزاد‘ کروانے آئے ہیں۔ موصل میں موجود ایک سرکاری ملازم امِ کرم نے بتایا کہ ’شہر کی صورتِ حال بہت زیادہ خراب ہے اور کوئی ہماری مدد نہیں کر رہا۔ ہم خوف کا شکار ہیں۔‘ اطلاعات کے مطابق موصل میں متعدد پولیس سٹیشن جلا دیے گئے ہیں اور سینکڑوں قیدیوں کو رہا کروا لیا گیا۔ موصل سے بھاگنے والے ایک مقامی شخص محمد نوری نے خبر رساں ادارے اے ایف کو بتایا کہ آرمی فورسز نے اپنے ہتھیار پھینک کر کپڑے تبدیل کیے اور شہر چھوڑ دیا۔ ادھر موصل میں قائم ترک سفارت خانے نے صوبہ نینوا سے 28 ترک ڈرائیوروں کو اغوا کرنے کی تصدیق کی ہے۔ موصل میں قائم ترک سفارت خانے نے صوبہ نینوا سے 28 ترک ڈرائیوروں کو اغوا کرنے کی تصدیق کی ہے ذرائع نے بی بی سی عربی سروس کو بتایا کہ موصل سے بھاگنے والے ہزاروں افراد کردستان میں موجود تین قصبوں کا رخ کر رہے ہیں جہاں حکام نے ان کے لیے عارضی کیمپ لگائے ہیں۔ ادھر کردستان کے وزیرِ اعظم نے ایک بیان میں اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزیناں سے مدد کی اپیل کی ہے۔ اس سے پہلے موصول میں شدت پسندوں نے پیر اور منگل کی درمیانی رات راکٹ لانچروں، سنائپر رائفلوں اور مشین گنوں کی مدد سے صوبائی سرکاری دفاتر پر قبضہ کر لیا تھا۔ شدت پسندوں نے کئی پولیس سٹیشن تباہ کیے اور بعد میں ہوائی اڈے اور فوجی ہیڈ کوارٹر پر بھی قبضہ کر لیا۔ بیروت میں بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق صوبہ نینوا پر دولتِ اسلامیہ کا کئی ماہ سے غیر رسمی کنٹرول تھا جس میں یہ تنظیم مقامی اہلکاروں سے بھتہ وصول کیا کرتی تھی۔ پانچ روز کی لڑائی کے بعد دولتِ اسلامیہ نے نینوا کے دارالحکومت موصل پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ پیر کو موصل کے گورنر عقیل النجفی نے ٹی وی پر عوام سے اپیل کی کہ وہ دولتِ اسلامیہ کا مقابلہ کریں۔ انھوں نے کہا ’میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے علاقوں کو ان اجنبیوں سے بچائیں اور کمیٹیاں قائم کریں جو علاقوں کی حفاظت کریں۔‘ تاہم اس اپیل کے کچھ دیر بعد ہی گورنر موصل سے فرار ہو گئے اور دولتِ اسلامیہ نے صوبائی سرکاری دفاتر پر قبضہ کر لیا۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے عراق میں شدت پسندوں کی جانب سے موصل اور تکریت پر حملوں کے بعد قبضہ کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔ text: تاہم انہوں نے واضح کیا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہو جائیں۔ امریکی اخبار ’واشنگٹن ٹائمز‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں صدر مشرف نے اس بات کی بھی تردید کی کہ وہ پارلیمنٹ کا اجلاس طلب نہ کر کے 18 فروری کے انتخابات کے نتائج کو مجروح کرنے کی کوشش کریں گے۔ پیر کو صدر پرویز مشرف نے اپنے قانونی معتعمدین کے ایک اہم اجلاس کی بھی صدارات کی جس میں ملک کی تازہ ترین سیاسی صورتِ حال اور بالخصوص اعلانِ مری پر غور ہوا۔ صدر کے حلقے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ معزول ججز کو پارلیمینٹ کی محض ایک قرارداد سے بحال نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ اعلامیۂ مری میں کہا گیا ہے۔ راولپنڈی میں دیئے گئے اس انٹرویو میں صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے کہا کہ ’مجھ پر کڑی سے کڑی تنقید کرنے والوں نے بھی اس امر سے اتفاق کیا ہے کہ حالیہ عام انتخابات آزادانہ اور منصفانہ منعقد ہوئے اور وہ اسی خیال کو تقویت دینا چاہتے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ سوچنا چاہئے کہ وہ شخص جس نے اپنی پوری جوانی پاکستان کا دفاع کرتے ہوئے اور گذشتہ آٹھ سال جمہوریت کو واپس پٹری پر ڈالنے کے لیے وقف کر دی، کیا وہ حکومت کو ناکام اور ملک کو سیاسی انارکی کی طرف واپس جاتا ہوا دیکھنا چاہے گا؟ ’نہیں ایسا نہیں ہو گا‘۔ صدر مشرف نے سیاسی استحکام، ملک کی اقتصادی ترقی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کو اپنی تین اولین ترجیحات قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان میں سے سیاسی استحکام ’میری اولین ترجیح ہے کیونکہ اس کے بغیر دیگر دو اہداف حاصل نہیں کئے جا سکتے‘۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں کے درمیان محاذ آرائی قومی مفاد میں نہیں ہو گی۔ ’اگر انتخابات کے بعد سب سے پہلی چیز ایوان صدر اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی کی صورت میں نظر آتی ہے تو کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ممالک اور ملکی و غیر ملکی کاروباری برادری پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ اس کے گمبھیر اثرات مرتب ہوں گے‘۔ منصبِ صدارات سے سبکدوش ہونے کے لیے دباؤکے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کا ’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘۔ اپنے آٹھ سالہ اقتدار کے بارے میں سوال پر صدر مشرف نے کہا کہ بلاشبہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے معاشی صورتحال کہیں بہتر ہے۔ ’یہ اتفاقیہ نہیں بلکہ میں نے بعض بہت باصلاحیت اور مؤثر افراد کو تعینات کیا اور ان افراد نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی۔ مجھے سیاست میں خواتین کے کردار میں اضافہ کرنے پر بھی فخر ہے۔ اب قومی اسمبلی میں خواتین کی 60 مخصوص نشستیں ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین پارٹی ٹکٹ پر بھی کامیاب ہوئی ہیں جس سے قانون سازی کے امور میں ان کا کردار بڑھا ہے‘۔ صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے اپنے آئینی اختیارات کو استعمال نہیں کریں گے اور اس سلسلے میں میڈیا میں آنے والی خبریں درست نہیں ہیں۔ text: تاہم دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی اطلاعات میں ہلاک ہونے والے طالبان جنگجوؤں کی تعداد گیارہ بتائی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس کارروائی میں چار سو فوجی اور نیم فوجی دستوں نے حصہ لیا۔ قندھار کے اعلیٰ ترین پولیس افسر جنرل محمد سلیم احساس کے مطابق افغان اور امریکی فوجوں نے مشترکہ کارروائی میں حصہ لیا۔ پولیس افسر کے مطابق زمینی دستوں کو امریکی جنگی جہازوں کی مدد حاصل تھی۔ یہ فوجی کارروائی منگل کی صبح قندھار کے میاں شین ضلع میں کی گئی۔ پولیس افسر کے مطابق اکیس طالبان جنگجو ہوائی حملے میں ہلاک ہوئے جبکہ گیارہ طالباں بندوق بردار فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہوئے۔ تاہم طالبان کے ترجمان مفتی لطیف اللہ حکیمی نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے اور کہا کہ کارروائی میں کوئی طالبان جنگجو ہلاک نہیں ہوا۔ انہوں نے افغان حکومت کے دعویٰ کو بے بنیاد قرار دیا۔ افغان حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبہ قندھار میں ایک مشترکہ کارروائی کے دوران 32 طالبان ہلاک ہوئے ہیں۔ text: شہر میں اس طرح کے واقعے کا خطرہ تھا لیکن کوئی مخصوص معلومات نہیں تھیں: پولیس کمشنر پولیس نے اس دھماکے پس پشت کسی ’پیشہ ور ہاتھ‘ کے ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ مرنے والی خاتون کا نام بھوانی بتایا جاتا ہے جو چینئی شہر کی رہنے والی تھیں۔ یہ دھماکہ بنگلور میں واقع ایم جی روڈ کے قریب چرچ سٹریٹ میں مقامی وقت کے مطابق تقریباً ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔ دھماکے کے بعد دارالحکومت دہلی، ممبئی اور پونے کے علاوہ مختلف شہروں کے لیے الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ بنگلور کے پولیس کمشنر ریڈی نے بی بی سی کو بتایا ’کم شدت کا یہ دھماکہ گھریلو ساختہ بم سے کیا گیا ہے۔ اس دھماکے کے بعد پورے شہر میں الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ پولیس نے تفتیش شروع کر دی ہے اور فورنسک ٹیم کو بھی طلب کر لیا گیا ہے۔ یہ دھماکہ ایم جی روڈ کے سامنے چرچ سٹریٹ پر ایک مشہور ریسٹورنٹ کے مرکزی دروازے پر رکھے گلدستے میں ہوا۔ ریڈی نے کہا ’شہر میں اس طرح کے واقعے کا خطرہ تھا لیکن اس بارے میں کوئی مخصوص معلومات نہیں تھیں۔‘ بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ٹویٹ کیا کہ انھوں نے بنگلور میں ہونے والے اس دھماکے کے سلسلے میں کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سے بات کی ہے۔ وزیر اعلیٰ سدھا رمیا نے حملے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا: ’مہدی (مسرور بسواس، آئی ایس کا ٹوئٹر ہینڈل چلانے والا مبینہ شخص) کی گرفتاري کے بعد شہر میں الرٹ جاری کیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی یہ واقعہ ہوا۔ یہ کوئی لاپروائی کا معاملہ نہیں بلکہ لیکن بدقسمتی کا واقعہ ہے۔‘ وزیر اعلیٰ نے مرنے والی کے لواحقین کو پانچ لاکھ روپے کے معاوضے اور زخمیوں کے مفت علاج کا اعلان کیا ہے۔ بھارت کے شہر بنگلور کے ایک ریسٹورنٹ میں اتوار کی شام ایک کم شدت کے دھماکے میں ایک خاتون ہلاک جبکہ پانچ دیگر افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ text: صوبائی وزیر اطلاعات شاذیہ عطا مری نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہ صوبائی اسمبلی اس غیر قانونی، غیر اسلامی اور غیراخلاقی واقعہ کی مذمت کرتی ہے اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ ملوث ملزمان کو بے نقاب کیا جائے اور مستقبل میں ایسے واقعات روکنے کے اقدامات کیے جائیں۔ صوبائی اسمبلی کے قرار داد کو متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ شاذیہ مری، حمیرا علوانی، فرحین مغل، نرگس این ڈی خان اور دیگر اراکین اسمبلی نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو جان سے مارنے کو روایت قرار نہیں دیا جاسکتا اور اسلام بھی اس کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔ صوبائی وزیر نادر مگسی کا کہنا تھا کہ بلوچوں میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے اور جہالت کی وجہ سے یہ رجحان پایا جاتا ہے۔ اس کے خاتمے کے لیئے شعور اور تعلیم کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ایسے معاملات فیصلے کے لیے آتے ہیں۔ انہوں نے ایک سال کے اندر کوئی ایک سو خواتین کی زندگیاں بچائی ہیں۔ نادر مگسی کے مطابق جب فیصلوں میں لڑکیوں کو ان کے والدین کے حوالے کیا جاتا ہے تو ان لڑکیوں کی مرضی ضرور معلوم کرنی چاہیئے۔ دوسری جانب انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین اقبال حیدر نے سینٹر اسرار زہری اور قائم مقام چئرمین جان جمالی کے بیانات کی مذمت کی ہے اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعہ پر آنکھ بند نہ رکھی جائیں ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ واقعہ کی ایف آئی آر درج کرکے ملزمان کو کیف کردار تک پہنچایا جائے۔ وکلاء برائے انسانی حقوق تنظیم کے رہنما ضیا اعوان نے واقعہ کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ گزشتہ آٹھ سال میں خواتین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں جو اس بات کی گواہی ہیں کہ خواتین کے حوالے سے قوانین پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔ تنظیم کی جانب سے جاری کیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق آٹھ سال کے دوران اکسٹھ ہزار خواتین تشدد کا شکار ہوئیں، ساڑھے گیارہ ہزار سے زائد خواتین کو بے رحمانہ قتل کیا گیا، تین سو گیارہ خواتین کو زنا کے بعد قتل کیا گیا۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ چار ہزار خواتین سے زیادتی کی گئی اور سولہ سو خواتین اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئیں۔ چھ ہزار سے زائد خواتین کو کاری اور چار سو کے قریب خواتین اور بچیوں کو ونی قرار دیا گیا۔ سندھ اسمبلی نے بلوچستان کے علاقے جعفر آباد میں پانچ خواتین کے قتل کی مذمت کی ہے اور مطالبہ ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیئے اقدامات کیئے جائیں۔ text: پاکستانی وزارت خارجہ دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق افغان نائب ناظم الامور کو بتایا گیا ہے کہ یہ واقعہ ویانا کنونشن برائے سفارتی تعلقات کے منافی ہے اور دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات کی روح کے خلاف ہے۔ سرحد پر کشیدگی کا ذمہ دار کون؟ کیا بال پاکستان کے کورٹ میں ہے؟ افغان اہلکار سے مزید کہا گیا ہے کہ ایسے واقعات دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کو نقصان پہنچائیں گے اور اس امید کا بھی اظہار کیا گیا کہ مستقبل میں افغان حکومت ایسے اقدام اٹھائے گی جس سے پاکستان کے سفارت خانے کے اہلکاروں کی جان و مال کو خطرہ پیش نہ آئے اور نہ ہی ایسے واقعات دوبارہ رونما ہوں۔ واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن کی سرحد پر جھڑپوں کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ حکام کے مطابق مئی کے اوائل میں افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن کے قریب گولہ باری سے 12 افراد ہلاک اور کم از کم 42 زخمی ہو گئے تھے جس کے بعد چمن سرحد کو بند کر دیا گیا تھا۔ جواب میں پاکستان فوج کی جانب سے کارروائی کی گئی جس کے بارے میں انسپیکٹر جنرل فرنٹیئر کور میجر جنرل ندیم احمد نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’افغان بارڈر پولیس اور سکیورٹی فورسز کے 50 اہلکار ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے۔' پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ جھڑپوں کے بعد چمن کی سرحد بند کر دی گئی ہے سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اصل تنازع 28 اپریل کو شروع ہوا جب پاکستانی فوج نے افغان حکام کو اطلاع دی کہ وہ چمن سرحد کے قریب دو دیہاتوں میں مردم شماری کے لیے جا رہے ہیں۔ جس کے بعد وہاں افغان فورسز نے انھیں روک دیا اور کہا کہ یہ افغان علاقہ ہے۔ اس پر پاکستانی حکام نے انہیں نقشوں کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن تنازع حل نہ ہوا لہٰذا اس روز ٹیم واپس لوٹ گئی۔ پاکستانی ذرائع کے مطابق اس کے بعد متعدد مرتبہ افغان حکام سے رابطہ کیا گیا اور اپنی خواہش کا اظہار کیا گیا لیکن چار مئی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ جس کے بعد ٹیم ایک مرتبہ پھر وہاں روانہ کی گئی اور پھر جھڑپ ہوئی اور 12 افراد ہلاک ہوگئے۔ تاہم افغان میڈیا میں سرکاری ذرائع کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو وہاں جانے سے منع کیا گیا تھا لیکن پاکستان نے بات نہیں سنی۔ نتیجے میں چمن سرحد بند کر دی گئی اور تعلقات ایک مرتبہ پھر تلخی کی انتہا تک پہنچ گئے ہیں۔ خیال رہے کہ جھڑپ کے بعد سے دو فلیگ میٹنگز اب تک بے نتیجہ رہی ہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے افغان نائب ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر کے کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے دو اہلکاروں کو حراست میں لیے جانے کے واقعے پر شدید احتجاج کیا ہے۔ text: انسداد دہشت گردی کے ادارے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ممبئی کے پاسپورٹ آفس نے نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی کی درخواست پر مبلغ ذاکر نائیک کا پاسپورٹ منسوخ کیا۔ خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ قومی تحقیقاتی ایجنسی نے ذاکر نائیک کو تحقیقات میں شامل ہونے کے لیے بارہا نوٹس بھیجے لیکن وہ پیش نہیں ہوئے۔ ٭ ممبئی: مذہبی مبلغ ذاکر نائیک کے دفاتر پر چھاپے ٭ ذاکر نائیک کی تنظیم پر پانچ سال کی پابندی عائد اس کے علاوہ 21 اپریل کو ایڈیشنل سیشن جج نے نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی کی خصوصی عدالت کی ہدایت پر ناقابل ضمانت وارنٹ بھی جاری کیے تھے جبکہ 15 جون کو عدالت نے ذاکر نائیک کو پیش ہونے کے لیے باضابطہ حکم دیا تھا۔ بیان کے مطابق مبلغ ذاکر نائیک کی جانب سے ان حکم ناموں پر عمل نہ کرنے کے بعد انسداد دہشت گردی کے ادارے نے وزارت خارجہ سے درخواست کی کہ ان کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا جائے۔ اکیاون سالہ ذاکر نائیک اس وقت انڈیا سے باہر ہیں اور ان پر دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں۔ ممبئی کے رہنے والے مبلغ ذاکر نائیک گذشتہ سال یکم جوالائی کو انڈیا چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ وہ سکیورٹی اداروں کی نظر میں اس وقت آئے جب جولائی میں ہی ڈھاکہ کے ایک کیفے پر ہونے والے حملے میں مبینہ طور پر ملوث افراد نے دعوی کیا تھا کہ وہ ذاکر نائیک کی تقاریر سے متاثر تھے۔ ذاکر نائیک نے رواں سال جنوری میں ہی اپنا پاسپورٹ رینیو کروایا تھا جس کی معیاد دس سال تھی۔ پی ٹی آئی کے مطابق ان پر اپنی اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعے نفرت پھیلانے، شدت پسندوں کی مالی معاونت کرنے اور کروڑوں روپوں کی منی لانڈرنگ کرنے کے الزامات ہیں۔ تاہم انڈین میڈیا کے ساتھ بات چیت کے دوران وہ ان تمام الزامات کو بارہا مسترد کر چکے ہیں۔ انڈین وزارت خارجہ نے مبلغ ذاکر نائیک کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا ہے۔ ذاکر نائیک پر مبینہ طور پر شدت پسندوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں۔ text: بکری کے پیشاب کا ٹیسٹ کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ پٹھوں کو مضبوطی کرنے کی دوا کا استعمال کیا گیا ہے تھیوڈورنامی بکری نے امریکی ریاست کولوراڈو کی سالانہ میلے میں یہ اعزازجیتی تھی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اس کے چارے میں ممنوعہ ادویات استعمال کی گئی ہیں۔ منتظمین نے بکری کی مالک ماگریٹ وینورتھ کو پانچ ہزار پانچ سو ڈالر کا انعام دینے سے انکار کر دیا ہے۔ وینورتھ کے خاندان کی پالی ہوئی ایک دوسری بکری کا ڈوپ ٹیسٹ بھی مثبت آیا ہے۔ مارگریٹ وینورتھ نے کوئی بھی ممنوعہ خوراک دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بکری کی خوراک کے ساتھ کوئی گڑ بڑ کی گئی ہو۔ بکری کے پیشاب کا ٹیسٹ کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ پٹھوں کو مضبوطی کرنے کی دوا کا استعمال کیا گیا ہے۔ امریکی حکومت نے اس دوا کو سور کے لیے تجویز کر رکھا ہے۔ مارگریٹ وینورتھ کولوراڈو سٹیٹ یونیورسٹی میں اینمل سائنسز کی طالب علم ہیں۔ ان کی والدہ نے نامہ نگاروں کو بتایا ہے کہ ان کا خاندان ہمیشہ سے صاف یا غیر ممنوعہ خوراک کا استعمال کرتا ہے اور نتائج پر انھیں صدمہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقابلوں کے دوران دونوں بکریوں کی خوراک کے ساتھ گڑ بڑ کی گئی۔ مارگریٹ وینورتھ کی بکری تھیوڈور کے علاوہ اس کے بھائی کی پالی ہوئی ایک دوسری بکری بھی خوراک کھانے کے بعد بیمار پڑ گئی تھیں۔ ’میں نہیں کہوں گی کہ سیاسی حربے کے طور پر ایسا کیا گیا، میں صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ کیا ہوا۔‘ مارگریٹ وینورتھ کی پالی ہوئی بکریاں پہلے بھی انعامات جیت چکی ہیں۔ امریکہ کے ایک میلے میں گرینڈ چیمیئن کا اعزاز حاصل کرنے والی بکری کا ڈوپنگ یا ممنموعہ ادویات کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد اس کو نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ text: کوالیفائنگ میچز کھیلنے والی ٹیموں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے بنگلہ دیش اور افغانستان کے علاوہ آج کے دوسرے میچ میں ہانگ کانگ کا مقابلے نیپال سے ہوگا۔ یہ دونوں ٹیمیں ہی پہلی بار ٹی ٹوئنٹی کپ میں حصہ لے رہی ہیں۔ اس مرتبہ یہ ٹورنامنٹ دو مراحل میں کھیلا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں آٹھ ٹیموں کے درمیان کوالیفائنگ میچز کھیلے جائیں گے جن میں سے دو ٹیمیں سپر 10 مرحلے کے لیے کوالیفائی کریں گی جہاں وہ پہلے سے موجود آٹھ بڑی ٹیموں کے خلاف مدمقابل ہوں گی۔ کوالیفائنگ میچز کھیلنے والی ٹیموں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ گروپ اے بنگلہ دیش، افغانستان، نیپال اور ہانگ کانگ جبکہ گروپ بی آئرلینڈ، زمبابوے، ہالینڈ اور متحدہ عرب امارات پر مشتمل ہے۔ گروپ اے سے کوالیفائی کرنے والی ٹیم فائنل راؤنڈ میں گروپ ٹو میں پاکستان، بھارت، آسٹریلیا اور دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز سے مقابلہ کرے گی۔ گروپ بی کی فاتح ٹیم کا سامنا گروپ ون میں سری لنکا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ سے ہوگا۔ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا سپر 10 مرحلہ اکیس مارچ سے شروع ہوگا اور اس مرحلے کا آغاز روایتی حریف ٹیموں پاکستان اور بھارت کے درمیان میرپور میں کھیلے گئے میچ سے ہوگا۔ سپر 10 مرحلے میں گروپ ون کی ٹیمیں اپنے تمام میچ چٹاگانگ میں کھیلیں گی جبکہ گروپ ٹو کے تمام میچ میرپور میں رکھے گئے ہیں۔ میرپور کا ہی شیرِ بنگلہ سٹیڈیم ٹورنامنٹ کے دونوں سیمی فائنلز اور فائنل کی میزبانی کرے گا۔ پہلا سیمی فائنل تین اور دوسرا سیمی فائنل چار اپریل کو کھیلا جائے گا جبکہ ٹورنامنٹ کے فاتح کا فیصلہ چھ اپریل کو کھیلے جانے والے فائنل میں ہوگا۔ بنگلہ دیش میں پانچویں آئی سی سی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا آغاز اتوار سے ہو رہا ہے اور پہلے دن کوالیفائنگ راؤنڈ میں دو میچ کھیلے جائیں گے۔ text: رابطے کی ان کوششوں کے ساتھ ساتھ اس آفت سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے چندہ اکھٹا کرنے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ متاثرہ علاقے میں سرد موسم کی بناء پر گرم کپڑوں، کمبلوں اور اشیائے خورونوش کی قلت ہے اور اس کے لیے برطانوی مسلمانوں سے مدد کی اپیل کی گئی ہے۔ برمنگھم سے تعلق رکھنے والی ایک خیراتی تنظیم اسلامک ریلیف کی جانب سے دو ملین پاؤنڈ مالیت کی امدادی اشیاء پاکستان روانہ کر دی گئی ہیں۔ تنظیم کے ترجمان وسیم یعقوب نے بتایا کہ ’ہم پہلے ہی دو ملین پاؤنڈ مختص کر چکے ہیں اور ایمرجنسی مدد کے لیے خوراک، کمبل اور ادویات مہیا کر رہے ہیں‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ برطانیہ کا پاکستان سے ایک خصوصی رشتہ ہے اور پندرہ لاکھ برطانوی باشندوں کا اس خطے سے تعلق ہے جن میں سے زیادہ تر کسی نہ کسی طرح سے اس آفت سے متاثر ہوئے ہیں‘۔ کینٹ مسلم ویلفئیر ایسوسی ایشن کے عظیم نادر کا کہنا تھا کہ’ خبر ملتے ہی لوگوں نے اپنے رشتہ داروں سے رابطے کی کوشش کی‘۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ اپنے ذاتی نقصان کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ امدادی رقوم بھی بھیج رہے ہیں۔ ناٹنگھم میں جہاں بارہ ہزار پاکستانی رہائش پذیر ہیں زلزلے کے متاثرین کے لیے ایک ویلفیئر فنڈ قائم کیا گیا ہے۔ مدد کی اپیل کرتے ہوئے مقامی کونسلر محمد منیر کا کہنا تھا کہ ’ہمیں ان لوگوں کی مدد کرنی چاہیے‘۔ برطانیہ کی جنوب مغربی آبادی ہیومینٹی فرسٹ نامی خیراتی تنظیم کے ذریعے اپنی امداد بھیج رہی ہے۔ پاکستان اور کشمیر میں ہفتے کو آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد سے برطانیہ میں مقیم پاکستانی اور کشمیری باشندوے لگاتار اپنے خاندان والوں کی خیریت معلوم کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ text: کوہاٹ کی مسجد میں دھماکہ صوبہ سرحد کے شہر کوہاٹ میں جمعرات کی رات فوجی چھاؤنی کی مسجد میں ایک مبینہ خودکش حملے میں پندرہ افراد ہلاک اور اٹھارہ زخمی ہوئے ہیں۔ زخمی ہونے والوں میں سے دو افراد کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ پشاور میں بی بی سی کے نامہ نگار عبدالحئی کاکڑ کے مطابق کوہاٹ کے ڈی آئی جی ذوالفقار چیمہ نے بتایا ہے کہ یہ واقعہ رات کے ساڑھے نو بجے فوجی چھاؤنی میں واقعہ ایک مسجد میں اس وقت پیش آیا جب لوگ عشاء کی نماز پڑھنے میں مصروف تھے۔ ان کے مطابق یہ بظاہر ایک خودکش حملہ معلوم ہو رہا ہے کیونکہ ایک سر ملا ہے جس کی مدد سے شناختی خاکہ تیار کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ زخمیوں کو طبی امداد کے لیے سی ایم ایچ منتقل کردیا گیا ہے۔انکے بقول سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حملے کی تحقیقات کے لیے پولیس اور فوجیوں پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جائے گی۔ واضح رہے کہ گزشتہ دو ہفتوں کے درمیان ہونے والا یہ دسواں خود کش حملہ ہے جس میں پہلی مرتبہ فوجی چھاؤنی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ حب میں حملہ بلوچستان کے شہر حب میں بھی جمعرات ایک بم حملہ ہوا جس میں کم از کم آٹھ پولیس اہلکاروں سمیت 30 افراد ہلاک اور اتنے ہی زخمی ہو‎ئے ہیں۔ کوئٹہ میں بی بی سی کے نامہ نگار ایوب ترین کے مطابق واقعے کے بعد حکومت نے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر بڑے شہروں میں سیکورٹی سخت کردی ہے اور پولیس اور فرنٹیرکور نے صوبے کی مختلف شاہراہوں پر چیک پوسٹ قائم کر کےمشکوک لوگوں کی تلاشی شروع کر دی ہے۔ بلوچستان پولیس کے سربراہ طارق کھوسہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کا قافلہ پانچ چینی شہریوں کو لے کر کراچی کی طرف جا رہا تھا کہ حب بازار سے گزرتے ہوئے غالباً سڑک پر نصب بم کا دھماکہ ہوا۔ انسپکٹر جنرل فرنٹیرکور بلوچستان میجر جنرل سیلم نواز خان کے مطابق چائنیز انجینئرز پر حملے کی دھمکی حکومت کو پہلے ملی تھی۔ انہوں نے کہا صوبے میں امن و امان کو کنٹرول کرنے کے لیے اس وقت بھی فرنٹیرکور کی چالیس ہزاراور پولیس کی پینتیس ہزارنفری تعینات ہے جبکہ خفیہ اداروں کے ہزاروں اہلکار اس کے علاوہ ہیں۔ حب میں موجود ڈپٹی انسپیکٹر جنرل پولیس غلام قادر تیبو نے کہا کہ واقعہ میں ملوث مشکوک افراد کی گرفتاری کے لیے مختلف مقامات پر چھاپےمارے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بلوچستان نے مرنےوالوں کے لیے ایک لاکھ اور زخمیوں کے لیے 50 ہزار روپے دینےکا اعلان کیا ہے جبکہ پولیس اہلکاروں کے لیے تین لاکھ تین لاکھ اورانکے بچوں کو نوکریاں دینے کا وعدہ کیا ہے۔ دوسری جانب صوبائی حکومت نے پاک افغان سرحد پر بھی حفاظتی انتظامات مذید سخت کر دیے ہیں۔ اس کےعلاوہ چمن میں افغان سرحد پرافغانستان سے آنے والے لوگوں پر بھی کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ گورنر بلوچستان اویس احمد غنی اور وزیر اعلیٰ بلوچستان جام محمد یوسف نے اپنے بیانات میں حب میں بم دھماکے کے نتیجے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر دلی رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردی کی اس کارروائی کی پرزور مذمت کی ہے۔ اپنے ایک بیان میں وزیر اعلیٰ نے بم دھماکے کو بزدلانہ اور بہیمانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ معصوم انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مزدوروں، محنت کشوں اور عام افراد کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا انتہائی قابل نفرت فعل ہے۔ ہنگو میں خود کش دھماکہ اس سے قبل جمعرات کی صبح صوبہ سرحد کے ضلع ہنگو میں پولیس ٹریننگ کالج کے ایک تربیتی مرکز میں ایک مبینہ کار بم خودکش حملے میں سات افراد ہلاک اور بائیس زخمی ہوگئے ہیں۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تعداد پولیس اہلکاروں کی بتائی جا رہی ہے۔ ہنگو کے ضلعی رابطہ افسر فخرعالم محمد زئی نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ واقعہ جمعرات کی صبح ساڑھے سات بجے کے قریب اس وقت پیش آیا جب سوزوکی آلٹو گاڑی میں سوار ایک خودکش حملہ آور نے پولیس ٹریننگ کالج کے ایک تربیتی مرکز میں داخل ہونے کوشش کی۔ مرکز کے میدان میں پولیس اہلکار تربیت میں مصروف تھے۔ ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ حملہ آور کو جب تربیتی مرکز کے گیٹ پر روکا گیا تو اس دوران اس نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکے میں گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہے جبکہ قریب کھڑی دو اور گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ ضلعی رابط افسر کا کہنا تھا کہ جائے وقوعہ سے خودکش حملہ آور کا سر بھی ملا ہے جو پولیس نے اپنے تحویل میں لے لیا ہے۔ دھماکے کے فوری بعد ہنگو کوہاٹ روڈ ہر قسم کے ٹریفک کےلیے بند کر دی گئی۔ پاکستان کے مختلف شہروں کوہاٹ، حب اور ہنگو میں جمعرات کے روز تین مختلف بم حملوں میں کم از کم 52 افراد ہلاک اور ستر سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ ان میں سے دو کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ وہ خود کش حملے تھے جبکہ تیسرا سڑک کے کنارے نصب کیے گئے بم سے کیا گیا ہے۔ text: سردار اختر مینگل گزشتہ ڈیڑھ برس سے کراچی کی سینٹرل جیل میں قید ہیں اُن پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے ملازمین کے ساتھ مل کر انٹیلی جنس ایجنسی کے دو اہلکاروں کو اغواء کیا اور اپنے گھر میں لے جاکر تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ گزشتہ چند دنوں سے اختر مینگل دل میں تکلیف کی شکایت کررہے تھے اُن کے اہل خانہ کے مطابق اتوار کے روز اُن کی طبعیت زیادہ خراب ہوگئی تاہم جیل حکام نے اُنہیں نہ تو کسی ہسپتال منتقل کیا اور نہ ہی کسی ڈاکٹر کے ذریعے اُنہیں طبعی امداد فراہم کی۔ بلوچ رہنماء سردار عطااللہ مینگل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم یعنی دیگر بلوچ بڑی جیل میں رہ رہے ہیں جسے پاکستان کہتے ہیں جبکہ اختر مینگل چھوٹی جیل میں ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اختر مینگل مسلسل دل میں درد، پسینہ آنے اور بلڈپریشر کی شکایت کر رہے ہیں، ایک روز قبل جب اختر مینگل کے بچے ملنے گئے تو اُن کی طبعیت اس قدر خراب تھی کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ بھی نہیں پائے اور ملاقات کا وقت مکمل ہونے سے پہلے ہی واپس اپنی بیرک میں چلے گئے۔ کوئٹہ سے بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے عزیزاللہ خان کے مطابق بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کے قائدین نے الزام لگایا ہے کہ سردار اختر مینگل کو طبی سہولتیں فراہم نہیں کی جا رہی ہیں اور وہ اس کے خلاف احتجاجی تحریک چلائیں گے۔ بی این پی کے جنرل سیکرٹری حبیب جالب ایڈووکیٹ نے ایک ہنگامی اخباری کانفرنس میں بتایا کہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اختر مینگل کو کیا بیماری لاحق ہے تاہم انہوں نے کہا ہے کہ سردار اختر مینگل السر اور معدے کے مرض میں پہلے سے مبتلا تھے اور اس وقت جیل میں انہیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ سردار احتر مینگل کو نومبر دو ہزار چھ میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب بلوچستان نینشل پارٹی نے لشکر بلوچستان کے نام سے گوادر سے کوئٹہ تک لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بی این پی کے قائدین کے مطابق لانگ مارچ شروع ہونے سے پہلے جماعت کے کوئی بارہ سو قائدین اور کارکنوں کوگرفتار کر لیا گیا تھا۔ سردار اختر مینگل کی رہائی کے لیے آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ، پونم اور پیپلز پارٹی وغیرہ نے مطالبات کیے تھے لیکن ان پر اب تک عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی نے قائدین اور کارکنوں کی رہائی کے لیے چھ مارچ سے احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا گیا جس دوران مظاہرے، بھوک ہڑتالی کیمپ اور آخر میں پہیہ جام ہڑتال کی جائے گی۔ سردار اختر مینگل کو پولیس نے ستائیس نومبر 2004 کو حب میں واقع اُن کے ایک فارم ہاؤس میں نظر بند کیا گیا تھا جس کے کچھ عرصہ بعد اُنہیں کراچی پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا اور اُنہیں سخت حفاظتی انتظامات میں پولیس ہیڈکوارٹر گارڈن میں رکھا گیا تھا۔ بعدازان پولیس نے اُنہیں حساس اداروں کے اہلکاروں کو اغواء کرنے کے مقدمے میں باقاعدہ گرفتار کر لیا تھا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے اسیر رہنماء اور صوبہ بلوچستان کے سابق وزیرِ اعلی سردار اختر مینگل کی اتوار کے روز حالت ناساز ہوگئی جبکہ اُن کے اہلِ خانہ کا الزام ہے کہ سرکاری حکام دانستہ اُنہیں طبعی امداد مہیا نہیں کر رہے ہیں۔ text: ادارے کے مطابق سنہ انیس سو نوے کے برعکس چالیس لاکھ بچے اپنے پانچویں سالگرہ یا پانچ سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد بھی زندہ ہیں۔ یہ تحقیق اورسیز ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ نے بچوں کے ادارے سیو دی چلدڈرن اور اقوامِ متحدہ کے بچوں کی فلاح و بہود سے متعلق ادارے یونیسف کے لیے تیار کی ہے۔ پانچ سال کے عمر کے بعد بچوں کے زندہ رہنے میں ایک بڑی وجہ دنیا بھر میں بچوں کی دیکھ بھال پر زیادہ توجہ دینا ہے۔ ادارے کے مطابق حکومتوں کی اچھی پالیسیوں کی وجہ سے بچوں کے زندہ رہنے کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے۔ برازیل، بنگلہ دیش اور ویت نام جیسے ممالک نے خاص طور پر اس ضمن میں خاصی پیش رفت کی ہے۔ اس رپورٹ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران چھ ایسے شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں بہتری نے بچوں کی زندگیاں بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان میں بین الاقوامی امداد، حکومتی قیادت اور ان کا عزم، معاشی ترقی اور سماجی شعبے میں سرمایہ کاری، منظم منصوبے اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی شامل ہیں۔ تاہم سیو دی چلڈرن کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ بچوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے دی جانے والی امداد کا اس میں اتنا کردار ہے کیونکہ یہ صرف اس وقت ہی موثر ثابت ہو سکتی ہے جب اس کو اچھے طرز حکومت اور معاشی ترقی کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کی ایک تحقیق کے مطابق سنہ انیس سو نوے کے بعد سے دنیا بھر میں مزید چالیس لاکھ بچوں کی زندگیوں کو بچایا گیا ہے۔ text: ڈاکٹروں کا کہنا ہے دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے اور ایک دوسرے کو ہاتھ لگایا اور جب محمد کو اس کے کمرے میں واپس لے جایا جا رہا تو احمد رونے لگا۔ دونوں بچوں کو علیحدہ کمروں میں رکھا گیا ہے اور ان کے خودکار بستر ان کے جسموں کو آہستہ آہستہ گھماتے رہتے ہیں تاکہ جسموں پر زخم نہ بن سکیں۔ ڈاکٹر جیمز تھامس کا کہنا ہے کہ محمد کی حالت احمد سے کچھ بہتر ہے اور مجموعی طور پر دونوں کی صحت بہتری کی طرف مائل ہے۔ تاہم ابھی یہ جاننے میں کئی ہفتے لگیں گے کہ آیا اس آپریشن سے بچوں کے دماغوں کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچا۔ دونوں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے لانے کے موقع پر ان کے گھر والوں نے تصاویر کھینچیں۔ دو ہفتہ قبل دو سالہ مصری جڑواں بھائیوں کا طویل آپریشن ہوا تھا۔ یہ دونوں سر کے اوپری حصے سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ ڈاکڑوں کو ان بھائیوں کے جڑے ہوئے سروں اور ان میں موجود رگوں کے گنجلک جال کو علیحدہ کرنے میں چھتیس گھنٹے کا وقت لگا تھا۔ اس آپریشن میں پچاس سے زیادہ ڈاکٹروں ، نرسوں اور دیگر طبًی عملے نےحصہ لیا۔ محمد اور احمد ابراہیم کے دماغ علحیدہ تھے لیکن ان کی ایک اہم نس مشترک تھی۔ امریکی ریاست ٹیکساس کے ڈاکٹروں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ انہیں طویل آپریشن کے ذریعے الگ کرنے کے دوران ان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ تاہم ڈاکٹر دماغ میں رگوں کے گنجلک جال کو کامیابی سے علیحدہ کرلینے میں کامیاب ہوگئے۔ بچوں کے سروں کی ساخت کے باعث انہیں نہ صرف اپنی گردنیں موڑنے اور کھانا نگلنے میں مشکل پیش آتی تھی بلکہ یہ اپنی آنکھیں بھی صحیح طور پر نہیں جھپک سکتے۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اگر انہیں الگ نہ کیا گیا تو یہ ایک دوسرے سے جڑے ہونے کی وجہ سے زندگی بھر مسائل میں گرفتار رہیں گے۔ مصر سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں محمد اور احمد ابراہیم نے، جن کے سر آپریشن سے قبل جڑے ہوئے تھے، پہلی دفعہ ایک دوسرے کو آمنے سامنے سے دیکھا ہے۔ ڈیلاس کے چلڈرن میڈیکل سینٹر میں جمعہ اور ہفتہ کو محمد کو احمد کے کمرے میں لایا گیا۔ text: امریکہ ہتھیاروں پر خرچ کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جس کا فوجی سازوسامان پر عالمی خرچے میں تناسب 47 فیصد ہے۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ (سپری) جو دنیا میں ہتھیاروں کے پھیلاؤ سے متعلق ایک مستند آواز سھمجی جاتی ہے، نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 2004 میں جنگی سازو سامان پر عالمی خرچہ ایک کھرب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق جنگی سازو سامان پر خرچہ دنیا کی آبادی کے تناسب سے لحاظ سے ہر شخص کے لیے 162 امریکی ڈالر کا اسلحہ خریدا جاتا ہے۔ اسلحہ کی خرید و فروخت میں اضافہ امریکہ کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اعلان کرنے کے بعد ہوا ہے۔ جنگی سازو سامان میں اضافہ کی دوسری بڑی وجوہات میں چین اور بھارت کا دفاعی بجٹ میں اضافہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ نے 2002 سے 2004 تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 238 ارب امریکی ڈالر خرچ کیے ہیں جو تمام چین سمیت تیسری دنیا کے دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے۔ سپری کی مطابق 2004 میں فوجی سازوسان پر اخراجات میں آٹھ فیصد اضافہ ہواہے جس سے جنگی سازو سامان پر خرچہ 1987 اور 1988 سے بھی بڑھ گیا ہے جب دنیا میں سرد جنگ اپنے عروج پر تھی۔ دنیا میں جنگی سازو سامان پر اخراجات میں اضافہ ہو گیا ہے اور اس اضافے کی بڑی وجہ امریکہ کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف اس کی جنگ ہے۔ text: اس کا آغاز نو نومبر کو مقامی وقت صبح چھ بج کر 47 منٹ پر اس وقت ہوا جب برٹش ایئر ویز کی پائلٹ نے شینن ایئر ٹریفک کنٹرول سے رابطہ کیا۔ انھوں نے دریافت کیا کہ کیا اس علاقے میں فوجی مشقیں ہو رہی ہیں کیونکہ کچھ بہت تیزی سے حرکت میں ہے۔ ایئر ٹریفک کنٹرولر نے انھیں مطلع کیا کہ کسی قسم کی مشقیں نہیں ہو رہیں۔ برٹش ایئر ویز کی یہ پرواز کینیڈا کے شہر مونٹریال سے ہیتھرو جا رہی تھی۔ پائلٹ نے کہا کہ ’بہت تیز روشنی‘ ہے اور ایک شے ان کے جہاز کے ’بائیں جانب آئی اور پھر تیزی سے شمال کی جانب تیزی سے مڑ گئی‘۔ پائلٹ نے کنٹرول ٹاور کو بتایا کہ وہ یہ سوچ رہی ہیں کہ یہ کیا شے ہو سکتی ہے تاہم یہ شے جہاز کے ساتھ ٹکراؤ کی پوزیشن میں نہیں آئی۔ ورجن فلائٹ کے ایک اور پائلٹ نے بھی اس گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ شہاب ثاقب ہو۔ اس پائلٹ نے بتایا کہ کئی اشیا ایک ہی جیسی حرکت میں ہیں اور ان سے بہت تیز روشنی نکل رہی ہے۔ ورجن فلائٹ کے پائلٹ نے مزید کہا کہ انھوں نے دائیں جانب دو تیز روشنیاں دیکھیں جو تیزی سے اوپر کی جانب گئیں۔ ایک پائلٹ نے کہا کہ ان اشیا کی رفتار بہت تیز تھی شاید میک 2 یعنی آواز کی رفتار سے دگنی۔ یہ آخر کیا ہو سکتا ہے؟ ارمغ آبزرویٹری اینڈ پلینیٹیریئم کے ماہر فلکیات اپوسٹولس کرسٹو کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ پائلٹس نے جو دیکھا وہ دھول ہو جو بہت تیز رفتاری سے سفر کر رہی ہو۔ انھوں نے کہا ’زیادہ امکان ہے کہ یہ شوٹنگ سٹار ہوں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ بہت چمکدار تھا تو عین ممکن ہے کہ یہ کسی شے کا ایک بہت بڑا ٹکڑا ہو۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ پائلٹس کی وضاحت سے ان کو اندازہ نہیں ہو رہا لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ شے اخروٹ یا سیب کے سائز کا ہو۔ ماہر فلکیات اپوسٹولس کرسٹو نے کہا کہ نومبر میں عام طور پر اس قسم کی اشیا بہت نظر آتی ہیں۔ ’کہا جا رہا ہے کہ ان اشیا پر سے کچھ اتر رہا تھا اور جہاز کے قریب سے گزرے۔ ایسا ہی اس بڑے پتھر کے ساتھ ہوتا ہے جو خلا سے زمین کی فضا میں داخل ہوتا ہے۔ اس کے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔‘ آئرش ایوی ایشن اتھارٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’نومبر نو کو چند طیاروں نے غیر معمولی فضائی حرکات و سکنات پر رپورٹ کی۔ ان رپورٹس کی تحقیقات کی جائیں گی۔‘ امریکی فائٹر پائلٹ نے کیا دیکھا؟ گذشتہ سال نیو یارک ٹائمز نے امریکی فضائیہ کے ایک پائلٹ کی ویڈیو کے حوالے سے رپورٹ کیا تھا کہ پائلٹ نے اڑن طشتریاں دیکھیں۔ سنہ دو ہزار چار میں بنائی گئی اس ویڈیو کو اب منظر عام پر لایا گیا ہے رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان اڑن طشتریوں کی ویڈیو ایک پروگرام کے تحت 2004 میں بنائی گئی تھی اور امریکی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کو 2012 میں بند کر دیا گیا تھا۔ اس ویڈیو میں پائلٹ اڑن طشتریوں کو دیکھ کر کیا کہتا ہے؟ پائلٹ: یہ ڈرون ہے پائلٹ: یہ تو بڑی تعداد میں ہیں، اوہ! پائلٹ: یہ ہوا مخالف پرواز کر رہے ہیں اور ہوا کی رفتار 120 ناٹس مغرب کی جانب ہے پائلٹ: اس کو دیکھو پائلٹ: اس شے کو دیکھو یہ گھوم رہی ہے۔ آئرش ایوی ایشن اتھارٹی ان اطلاعات کی تحقیقات کر رہی ہے جن میں پائلٹس نے کہا کہ انھیں آئرلینڈ کے جنوب مغربی ساحل پر آسمان میں تیز روشنی نظر آئی اور اڑن طشتریاں دکھائی دیں۔ text: غیر سرکاری نتائج موصول ہونے کے بعد بی بی سی آن لائن سے بات چیت کرتے ہوئے نعمت اللہ خان نے بتایا کہ انتخابات میں انتہائی اعلیٰ درجے کی دھاندلی ہوئی ہے اور پہلے سے بیلٹ بکس بھرے گئے تھے۔ نعمت اللہ خان کا کہنا تھا کہ حکومت کے مخالف امیدواروں کو ووٹ نہ ملنا ان پر عوام کا عدم اعتماد نہیں ہے بلکہ عوام کی رائے کو پیروں تلے روندا گیا ہے۔ کیونک عوام تو کچھ اور چاہتے تھے۔ انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار کی جماعت اسلامی کے دفتر آمد کو سیاسی حربہ قرار دیا اور کہا کہ ایم کیو ایم لوگوں میں اپنا امیج درست کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم عام پبلک کے سامنے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرے اور سر عام معافی مانگے۔ صدر پرویز مشرف کے متعارف کرائے گئے بلدیاتی نظام میں کراچی کے سٹی ناظم بڑی اہمیت کے حامل رہے ہیں اور سخت سیاسی مخالفت کے باوجود وہ میدان میں ڈٹے رہے۔ سیاسی طور پر جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے نعمت اللہ خان اگست انیس سو سینتالیس میں اجمیر سے پاکستان آئے اور کراچی میں رہائش اختیار کی۔ انہوں نے میٹرک انڈیا سے ہی کیا تھا جبکہ بی اے، ایل ایل بی کراچی یونیورسٹی سے کیا۔ پیشے کے لحاظ سے وکیل نعمت اللہ نے ایم اے صحافت میں کیا ہوا ہے۔ نعمت اللہ خان نے انیس سو اڑسٹھ میں وکالت شروع کی۔ لیکن سیاست اس سے پہلے شروع کردی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ انیس سو ستاون میں جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے تھے۔ انہوں نے تین مرتبہ اسمبلی کا الیکشن لڑا لیکن ایک ہی مرتبہ غیر جماعتی انتخابات میں سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہو سکے۔ چھ بیٹوں اور تین بیٹیوں کے باپ نعمت اللہ مشترکہ خاندان میں رہتے ہیں۔ ان کے ایک بیٹے کینیڈا میں ہیں جبکہ بڑے بیٹے ان کے کاروبار کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں کراچی سے پیار ہے کیونکہ اس شہر نے انہیں بہت کچھ دیا ہے اور ان کی کوشش ہے کہ وہ اس شہر کو کچھ نہ کچھ لوٹا سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ بطور سٹی میئر ان کی چھ ترجیحات تھیں۔ جس میں پینے کا پانی، نکاسی آب، ٹرانسپورٹ، تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر شامل ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ نئے بلدیاتی نظام سے قبل کراچی کا بجٹ صرف پانچ سے چھ ارب روپے تھا لیکن انہوں نے پہلا بجٹ بیس ارب روپے کا، دوسرا ستائیس ارب کا اور تیسرا بتیس ارب کا پیش کیا جس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ کراچی کے سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کو ورلڈ میئر ایوارڈ 2005 کے لیے نامزد کیاگیا ہے۔ ان کا نام دنیا کے پینسٹھ میئروں کی فہرست میں ہے جن میں سے کسی ایک کا انتخاب ہوگا۔ ایم کیو ایم نے ان پر ناکامی اور پبلک پارک بنانے پر سخت تنقید کی مگرمیئر ایوارڈ کمیٹی نے نعمت اللہ خان نے محدود وسائل کے باوجود بچوں، خواتین اور فلاح عام کے منصوبوں پر عمل کیا اور ان کو وقت پر پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اچھی حکمرانی اور تفریح کے لیے پبلک پارک قائم کرنے پر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا ۔ الخذمت پینل کے امیدوار ایڈووکیٹ نعمت للہ خان پاکستان میں ناظم کے پہلے امیدوار ہیں جنہوں نے اپنے پروگرام کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر ان کی شہری حکومت بنی تو پورے شہر میں سرویلینس نظام نصب کریگی۔امن دشمن عناصر سے شہر کو پاک کرنے کے لیے ٹھوس انتظامات کیے جائینگے۔ ان کے مطابق خراب امن امان کی بنیادی وجوہات میں ایک وجہ بیروزگار بھی ہے۔جس کے خاتمے کے لیے دس ہزار ملازمتوں کے مواقع فوری پیدا کیے جائینگے۔ میں شہر میں اڑتالیس فلائی اوور اور زیر زمین گزرگاہوں کے قیام کی منصوبہ بندی کی گئی ہے جبکہ ہرٹاؤن کی سطح پر اٹھارہ ہسپتالوں کا قیام مکمل کیا جائیگا جبکہ شہر کے چار ہزار سرکاری پرائمری اسکولوں کو ماڈل اسکولز میں تبدیل کیا جائیگا۔ اپنے سفر کو روشنی کا سفر قرار دینے والے نعمت اللہ خان سیاست کے افق پر جگمگائیں گے یا نہیں یہ فیصلہ آئندہ ایک ہفتے میں ہوجائیگا۔ کراچی کے سابق سٹی ناظم اور الخدمت گروپ کے سربراہ نعمت اللہ خان نے کہا ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد وہ سٹی ناظم کے انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کے بارے میں ساتھیوں سے مشورہ کریں گے اور یہ فیصلہ ایک دو روز میں ہو جائےگا۔ text: زینت شہزادی لاہور کے ایک مقامی چینل کے لیے کام کرتی تھیں لاپتہ افراد کے کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے زینت شہزادی کی بازیابی کی تصدیق کی ہے۔ نامہ نگار شہزاد ملک سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھیں پرسوں شب افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقے سے بازیاب کروایا گیا ہے۔ یہ بھی پڑھیے 'میں کیوں زینت کو یاد کر کے روتی رہی،' 'کبھی میں بیٹے کا سوچتی ہوں، کبھی بیٹی کا' 'پولیس والے تسلی دیتے ہیں کہ بیٹی مل جائے گی' 'زینت شہزادی کو پہلے بھی زبردستی لےگئے تھے' ان کا کہنا تھا کہ کچھ غیر ریاستی عناصر اور ملک دشمن خفیہ اداروں نے انھیں اغوا کیا تھا اور انھیں ان کی تحویل سے ہی بازیاب کروایا گیا۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ ان کی رہائی میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے قبائلی عمائدین نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاحال زینت یا ان کے خاندان کے جانب سے ان کی رہائی یا اس سے جڑے واقعات کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار عمر دراز ننگیانہ جب لاہور میں زینت شہزادی کی رہائش گاہ پر پہنچے تو وہاں تالا لگا ہوا تھا۔ ان کے ایک ہمسائے نے بتایا کہ وہ لوگ تقریباً ایک ہفتے قبل وہاں سے جا چکے ہیں اور زینت کی والدہ نے کچھ عرصہ قبل انھیں بتایا تھا کہ انھیں زینت کے بارے میں اطلاعات ملی ہیں اور وہ پر امید ہیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار جب زینت شہزادی کے گھر پہنچے تو وہاں تالا لگا ہوا تھا زینت شہزادی لاہور کے ایک مقامی چینل کے لیے کام کرتی تھیں۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم وکیل حنا جیلانی کے مطابق زینت شہزادی 19 اگست 2015 کو اس وقت لاپتہ ہوئی تھیں جب رکشے میں دفتر جاتے ہوئے دو کرولا گاڑیوں نے ان کا راستہ روکا، مسلح افراد نکلے اور انھیں زبردستی گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔ اس واقعے کے اگلے دن زینت کی جبری گمشدگیوں کے کمیشن میں پیشی تھی۔ اغوا سے پہلے وہ بھارتی شہری حامد انصاری کی پاکستان میں گمشدگی کے کیس پر کام پر رہی تھیں اور انھوں نے ممبئی میں حامد کی والدہ سے رابطہ کرنے کے بعد ان کی جانب سے جبری گمشدگی کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ زینت کی گمشدگی کے دوران گذشتہ برس مارچ میں ان کے بھائی صدام نے بھی خودکشی کر لی تھی اور ان کی والدہ نے بی بی سی اردو کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ زینت کی طویل گمشدگی سے دلبرداشتہ ہو گیا تھا۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ لاہور سے سوا دو برس قبل اغوا ہونے والی خاتون صحافی زینت شہزادی کو بازیاب کروا لیا گیا ہے۔ text: ذ کا اشرف نے بی بی سی کو دیے گئے تفصیلی انٹرویو میں یہ بات واضح کر دی کہ وہ آئی سی سی کی جانب سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے آئین کو دی گئی منظوری کے بعد تمام تر آئینی تقاضے پورے کرتے ہوئے چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔ اس سوال پر کہ کرکٹ بورڈز کے آئین میں حکومتی مداخلت ختم کرنے کے بارے میں جو شقیں شامل کی ہیں اس کے نتیجے میں اب ایسی کوئی مداخلت نہیں ہوگی پر ان کا کہنا تھا ’یہ مداخلت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ آئی سی سی نے واضح کردیا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو وہ سخت کارروائی کرے گی اور ہو سکتا ہے کہ کرکٹ بورڈ کی رکنیت معطل کردی جائے یا کوئی اور سخت قدم اٹھایا جائے۔ ظاہر ہے اس کا نقصان پاکستانی کرکٹ کا ہی ہو گا۔‘ ذکا اشرف سے جب پوچھا گیا کہ آپ پر یہ اعتراض کیا جا رہا ہے کہ عام انتخابات سے صرف تین دن پہلے آپ نے خود کو منتخب کرالیا تو انہوں نے کہا ’پاکستان کرکٹ بورڈ کو ہر صورت میں آئی سی سی کی دی ہوئی ڈیڈ لائن سے پہلے اپنا چیئرمین منتخب کرنا تھا۔ ظاہر ہے اس کے لیے ملک کے عام انتخابات یا حکومتی تبدیلی کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔‘ انہوں نے کہا کہ جو لوگ ان پر اعتراض کر رہے ہیں انہیں اصل صورت حال کا علم نہیں یا پھر ان کے ذاتی مفادات ہیں۔ ذکا اشرف نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا آئین سنہ 2007 سے موجود تھا لیکن اس میں تبدیلی کی ضرورت آئی سی سی نے محسوس کی تھی کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ تمام کرکٹ بورڈز کے آئین اس کے قواعد وضوابط سے مطابقت پیدا کر لیں۔ انہوں نے کہا کہ ان سے پہلے بھی کئی لوگ پی سی بی کے چیئرمین رہے لیکن کسی نےاس جانب توجہ نہیں دی لیکن انہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بننے کے بعد اس پر کام شروع کردیا تھا اور آئی سی سی کے تحفظات دور کرنے کے بعد انہوں نے نیا آئین حکومت سے منظور کروایا۔ ذکا اشرف نے کہا کہ نئے آئین کے تحت صدر مملکت اب کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے لیے دو یا زائد نام تجویز کرسکتے ہیں اور کرکٹ بورڈ کی نامزدگی کمیٹی ان میں سے کسی ایک کا انتخاب میرٹ پر کرے گی جیسا کہ ان کے انتخاب میں ہوا۔ ’میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے تحفظ کے لیے بورڈ میں صدر مملکت کا کچھ نہ کچھ کردار رہنا چاہیے۔ تیسری دنیا کے کرکٹ بورڈ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوتا اس کے پاس تھانے کا ایک سپاہی بھی آجائے تو وہ بھی بھاری ہوتا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ آج اگر آصف علی زرداری ملک کے صدر ہیں تو کل کوئی اور صدر ہوگا جو پاکستان کرکٹ بورڈ پیٹرن انچیف کی حیثیت سے کرکٹ بورڈ کے کسی چیئرمین کے نام پیش کرے گا۔ اسی طرح وہ بھی ساری زندگی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نہیں رہیں گے لیکن جب تک وہ بورڈ میں ہیں کرکٹ کی خدمت کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا ’اگر پاکستان کرکٹ بورڈ کا تبدیل کیا گیا یا یہ موجودہ آئین نہ ہوتا تو لوگ نوٹوں کی بوریاں لے کر بیٹھ جاتے اور یہ عہدہ حاصل کرنے کے لیے ایک ایک ووٹ کروڑوں میں فروخت ہوتا، اسی صورت حال کو روکنے کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا نظام رکھوایا گیا اور آئی سی سی نے بھی پاکستان کے حالات کو سمجھتے ہوئے اس سے اتفاق کیا‘۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذ کا اشرف کا کہنا ہے کہ کرکٹ بورڈز میں حکومتی مداخلت کے بارے میں آئی سی سی کا موقف بالکل واضح ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ میں اس طرح کی کوئی بھی مداخلت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس کا نقصان پاکستانی کرکٹ کو ہوگا۔ text: کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دیگر مشینوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ عالمی حدت میں اسی قدر اضافہ کر رہی ہیں جتنا کہ ہوائی سفر کی صنعت کر رہی ہے۔ ٹاسک فورس ’گرین کمپیوٹرز‘ کے ایک ایسے تجرباتی پروگرام کی نگرانی کرے گی جس کے تحت ہر ذاتی کمپیوٹر یا پی سی اٹھانوے فیصد کم توانائی خرچ کرےگا۔ کہا جاتا ہے کہ برطانیہ میں آئی ٹی کے آلات ہر سال تین کروڑ پچاس لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔ ’گرین پی سی‘ کا نام دی جانے والی اس سروس میں ہوتا یہ ہے کہ کمپیوٹر کے دفتری استعمال، ای میل اور انٹرنیٹ کی سروس کے لیے ذاتی کمپیوٹر یا پی سی کی بجائے ایک بڑے ڈیٹا سینٹرمیں پڑے کمپیوٹر استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایسے ڈیٹا سینٹر کم توانئی پر چلیں گے اور ان تک رسائی ڈاتی کمپیوٹر کی بجائے ایک ڈیسک ٹاپ باکس کے ذریعے ہو گی۔ گرین کمپیوٹرز کے اس پروگرام کے تحت کمپیوٹر بنانے میں خرچ ہونے والی تونائی میں بھی پچھہتر فیصد تک بچت ہوگی۔ بلدیاتی حکومت کے وزیر فِل ولاس کا کہنا تھا کہ ’سائبر وارمنگ یا کمپیوٹروں سے پیدا ہونے والی حدت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور اسی لیے ہم نے ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ کن قدم اٹھایا ہے۔ یہ ٹاسک فورس دنیا بھر میں اپنی نوعیت کی پہلی ٹاسک فورس ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ سائبر وارمنگ کے مسئلے کو کس قدر سنجیدہ سمجھتا ہے۔‘ سرکاری ادروں کو عوام کے اشتراک سے چلنے والی اس ٹاسک فورس کا مرکز مانچسٹر شہر کی کونسل ہو گی۔ مانچسٹرسِٹی کونسل کے کونسلر رچرڈ لیزے نے اس سلسلے میں کہا کہ ’گرین پی سی سروس کے عنوان سے شروع کی جانے والی یہ سروس دراصل ان تجاویز کا حصہ ہے جن کا مقصد عالمی حدت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے بنیادی نوعیت کے اقدامات کرنا ہے۔ ہمارے اس منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ ہم ایسے حل تجویز نہیں کر رہے جو عام لوگوں کے بس میں نہ ہوں۔‘ اس منصوبے کے تجرباتی مرحلے کا آغاز اگلے سال کےابتدائی مہنیوں میں ہوگا جبکہ سنہ دو ہزار نو میں یہ سروس استعمال کے لیے تیار ہو جائے گی۔ برطانیہ میں ایک نئی سرکاری ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے جس کا مقصد کمپیوٹروں کی پیداوار، ان کو چلانے اور پھر انہیں ضائع کرنے کے دوران پیدا ہونی والی کاربن ڈائی آکسائڈ میں کمی لانا ہے۔ text: جمعے کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی میلاد کانفرنس کے دوران عمران خان نے فرانس اور مسلمان ممالک کے درمیان تناؤ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک میں لوگ پیغمبر اسلام سے متعلق مسلمانوں کے جذبات سے لاعلم ہیں اور یہ مسلم اکثریتی ممالک کے رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ اسلاموفوبیا (اسلام کی مخالفت) کے معاملے کو عالمی سطح پر اٹھائیں۔ ملک بھر میں جمعے کو بعض علاقوں میں فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں کے اسلام سے متعلق بیان کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ پاکستان اور ترکی سمیت بعض مسلم ممالک کا موقف ہے کہ میکخواں اسلام سے متعلق سخت موقف رکھتے ہیں اور اظہار رائے کی آزادی کی بنیاد پر متنازع خاکوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ یہ بھی پڑھیے عمران خان کا مسلم رہنماؤں کے نام خط، متعدد ممالک میں فرانس مخالف مظاہرے ترکی کا اردوغان کارٹون پر چارلی ایبڈو کے خلاف قانونی کارروائی کا ارادہ فرانس کے گرجا گھر میں چاقو حملہ ’دہشتگردی‘ قرار، تین افراد ہلاک عمران خان نے اپنے خطاب میں کیا کہا؟ اپنے خطاب کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے او آئی سی میں سب کو یہی بات کہی کہ مغرب میں بڑھتے اسلاموفوبیا کا حل یہی ہے کہ مسلمان ممالک کے رہنما مل کر اس کے خلاف اپنا موقف بیان کریں۔‘ ’اسلاموفوبیا کا سب سے بڑا نقصان وہاں ہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔‘ فرانس میں متنازع خاکوں کے خلاف پاکستان کے مختلف شہروں میں مظاہرے ہوچکے ہیں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’مغرب کے لوگوں کو یہ سمجھ نہیں کہ مسلمانوں کا پیغمبرِ اسلام کے ساتھ کیا رشتہ ہے۔‘ 'ان کو یہ سمجھ آ بھی نہیں سکتی۔۔۔ ان میں وہ ادب نہیں ہے جو ہمارے میں ہے۔ ہم تمام پیغمبروں کے نام ادب سے لیتے ہیں۔ وہاں یہ چیز نہیں ہے۔' انھوں نے نامور ادیب سلمان رشدی کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں نے اس پر جائز شور مچایا اور اس وقت بھی مغربی ممالک اس کی سمجھ نہیں رکھتے تھے کہ اس غم و غصے کی وجہ کیا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ’(مغرب) نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ مسلمان آزادی رائے کے خلاف ہیں، تنگ نظر ہیں۔ اس بارے میں پوری مہم چلائی گئی۔ وہ ہماری جمہوریت، آزادی اور اقدار کو نہیں سمجھتے۔' ان کا کہنا تھا کہ ’وہاں چھوٹا سا طبقہ اسلام کے خلاف ہے‘ جو اسلام کو ’بُری نظر میں دکھانا چاہتا‘ ہے۔ ’ہمیں اسی وقت عالمی سطح پر بتانا چاہیے تھا کہ یہ مسلمانوں کے لیے تکلیف دہ ہے۔‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’چارلی ایبڈو کے پیچھے بھی تھوڑے سے لوگ ہیں۔۔۔ جو (ہمارے) لوگوں کو بُرا دکھانا چاہتے ہیں۔' عمران خان کا کہنا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں کسی کی بھی جرات نہیں ہے کہ ہولوکاسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے خلاف بات کر سکیں ’کیونکہ یہودی طبقہ طاقتور ہے۔‘ فرانس میں مسلمانوں نے ’اسلاموفوبیا‘ کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی ہیں وزیر اعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو آپ کی بات سے تکلیف ہوتی ہے تو ایسی بات کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ 'ہم سوا ارب انسان ہیں۔ ہم ایسا کیوں نہیں کر سکے؟ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس میں ہماری مسلمان قیادت کی بڑی ناکامی ہے۔ ہم اس حوالے سے کوشش کریں گے۔' عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ عالمی سطح پر اس مہم کی قیادت کریں گے۔ 'ہم بھی اظہارِ رائے کی آزادی کو مانتے ہیں لیکن اس کی حد ہے۔ آپ کسی کو اس کے نام پر تکلیف نہیں پہنچا سکتے۔ جب آپ کارٹون بناتے ہیں تو یہ اظہارِ رائے کی آزادی نہیں ہے۔ اس کا مقصد جان بوجھ کر مسلمانوں کو تکلیف پہنچانا ہے۔' عمران خان نے 9ویں، 10ویں، 11ویں اور 12ویں جماعتوں میں پیغمبرِ اسلام کی سیرت سے متعلق معلومات نصاب میں شامل کرنے کا قانون متعارف کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ دریں اثنا اس کانفرنس کے دوران اپنے خطاب میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے خطے میں فرانس کی مصنوعات پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مسلم ممالک اور فرانس کے درمیان کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا جب فرانس میں ایک استاد نے طلبہ کو پیغمبرِ اسلام سے متعلق متنازع خاکے دکھائے جس کے بعد انھیں قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد میکخواں نے آزادی رائے کی بنیاد پر خاکوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ہم ان خاکوں کو نہیں چھوڑیں گے۔' فرانسیسی صدر نے کہا فرانس اس حوالے سے کبھی ہار نہیں مانے گا مگر امن کے لیے وہ تمام مذاہب کے مختلف خیالات کی عزت کرتے ہیں۔ فرانسیسی حکومت کی جانب سے ایک بیان میں بائیکاٹ کی اپیلوں کی بھی تنقید کی گئی ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی کی ایک مقررہ حد ہوتی ہے اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ دوسروں کو تکلیف پہنچائیں۔ text: وہ ایک سال میں سات سنچریاں بنانے کا ریکارڈ پہلے ہی توڑ چکے تھے جسے انہوں نے ایک اور سنچری بنا کر مزید بہتر کر لیا۔ اسی دوران کسی پاکستانی کھلاڑی کی طرف سے تین ٹیسٹ میچوں میں سب سے زیادہ پانچ سو تراسی رنز بنانے کا ظہیر عباس کا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا۔ ظہیر عباس نے یہ ریکارڈ انیس سو اٹہتر اور اناسی میں بھارت کے خلاف بنایا تھا۔ چھٹی مسلسل سنچری بنانے کے بعد محمد یوسف کرکٹ کی تاریخی میں جنوبی افریقہ کے ژاک کلس اور سر ڈان بریڈ مین کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں جنہوں نے چھ ٹیسٹ میچوں میں چھ سنچریاں بنانے کا اعزاز حاصل کر رکھا ہے۔ باب وولمر نے محمد یوسف کے اس کارنامے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ویوین رچرڈز کے ساتھ کھیلنے اور محمد یوسف کو کوچ کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ دونوں کھلاڑیوں کے انداز میں بہت فرق ہے۔ رچرڈز بہت جارحانہ انداز میں کھیلتے تھے جبکہ محمد یوسف بہت محتاط بلے باز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رچرڈز کا ریکارڈ توڑنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ سنجے منجریکر نے کہا کہ محمد یوسف کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بڑی محویت سے کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس قدر پرسکون نظر آتے ہیں اور ان کی دماغی کیفیت میں یہ تبدیلی حیران کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ گو محمد یوسف نے زیادہ تر رنز سپاٹ اور کمزور وکٹوں پر بنائے ہیں لیکن اس بات سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نسیم اشرف نے کہا کہ پاکستان کو محمد یوسف کے اس کارنامے پر فخر ہے۔ رمیز راجہ نے کہا کہ محمد یوسف بہتریں کھیل پیش کر رہے ہیں اور انہوں نے دنیا کی بہتریں انڈیا، انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کے خلاف یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ رمیز راجہ کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ محمد یوسف نے اپنی تیکنیک میں کوئی تبدیلی کی ہے بلکہ ان کی دماغی کیفیت بالکل بدلی ہوئی نظر آتی ہے۔ انہوں نے کہا مذہب نے ان کی شخصیت اور دماغی کیفیت کو بدلنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان ٹیم کے سابق کپتان نے کہا کہ انہیں محمد یوسف کی ٹیم کو مشکل صورت حال سے نکالنے کی صلاحیت پر ہمیشہ سے شبہ رہا ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ وہ ٹیم کو کسی بھی صورت حال میں میچ جتواسکتے ہیں۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف تیسرے ٹیسٹ کے چوتھے دن جب کھیل شروع ہوا تو دنیا بھر میں کرکٹ مبصرین اس فکر میں تھے کہ کیا وہ سنیتالیس رنز بنا کر کرکٹ کی دنیا میں سر کا خطاب پانے والے شہرہ آفاق کھلاڑی ویون رچرڈز کا ایک سال میں سب سے زیادہ رن بنانے کا تیس سال ریکارڈ برابر کر سکیں گے۔ text: جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات ڈمہ ڈولا کے تین مکانوں پر کیے جانے والے امریکی حملے میں عورتوں اور بچوں سمیت اٹھارہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے دو پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے سے کہا ہے کہ ایمن الظواہری کو عید کے موقع پر ہونے والی ایک دعوت کے لیے ڈمہ ڈولا مدعو کیا گیا تھا۔ سکیورٹی اہلکاروں کے مطابق القاعدہ رہنماء نے یہ دعوت قبول کر لی تھی لیکن عین موقع پر ڈمہ ڈولا آنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق ایمن الظواہری کی نمائندگی ان کے دو ساتھیوں نے کی تھی۔ امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق تفتیش کار اب اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا ایمن الظواہری کی نمائندگی کرنے والے مقامی القاعدہ رہنما ان گھروں میں تو موجود نہیں تھے جنہیں بمباری کا نشانہ بنایا گیا۔ دوسری طرف برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق پاکستانی کے انٹیلیجنس حکام ان اطلاعات کی بھی چھان بین کر رہے ہیں کہ حملے میں ہلاک ہونے والوں میں سات غیر ملکی جنگجو بھی شامل تھے جن کی لاشیں مقامی حامی اٹھا کر لے گئے تھے۔ پاکستان نے امریکہ سے حملے پر احتجاج کیااور کہا کہ یہ معاملہ پاکستان، افغانستان اور امریکہ پر مشتمل سہ فریقی کمیشن کے آئندہ اجلاس میں بھی اٹھایا جائے گا۔ دوسری طرف پاکستانی کی مذہبی اور سیاسی پارٹیوں نے باجوڑ ایجنسی میں ہونے والے اس حملے کے خلاف احتجاج کیا ہے اور اسے پاکستان کی سالمیت پر حملہ قرار دیا ہے۔ امریکہ نے ابھی تک باجوڑ ایجنسی میں ہونے والے اس حملے کے بارے میں کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا ہے لیکن اتوار کو کئی امریکی سینیٹروں نے حملے کا دفاع کیا۔ امریکی صدر بش کی ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جان مکین نے معصوم انسانی جانیں ضائع ہونے پر افسوس کا اظہار کیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ شدت پسندوں کے خلاف امریکی جنگ میں ایسی ہلاکتوں سے بچا نہیں جا سکتا۔ امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس کے پروگرام ’فیس دی نیشن‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں امریکی جانوں کے جانے پر افسوس ہے لیکن امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر وہ قدم اٹھائے گا جو اس کے خیال میں القادہ قیادت کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہوا۔ ڈیموکریٹ سینیٹر ایون بیہہ نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کا افغان سرحد کے قریب واقع اس علاقے کو کوئی خاص کنٹرول نہیں ہے جہاں بمباری ہوئی۔ سی این این کے کے پروگرام ’لیٹ ایڈیشن‘ میں گفتگو کے دوران نہوں نے کہا کہ یہ ایک قابل افسوس صورت حال ہے لیکن ہم اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ عید کے موقع پر القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کو دی گئی کھانے کی دعوت باجوڑ ایجنسی کا گاؤں ڈمہ ڈولا پر حملے کا باعث بنی۔ text: پناہ گزینوں کے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کی ترجمان ویوین کین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ سکیورٹی کی وجہ سے فی الحال منگل اور بدھ کے روز عملے کو دفاتر میں نہ آنے کا کہا گیا ہے۔ ان کے مطابق صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد وہ بعد دفاتر دوبارہ کھولنے یا نہ کھولنے کا فیصلہ کریں گے۔ کوئٹہ میں ترجمان کے مطابق اقوام متحدہ کے خوراک، ترقی اور بچوں سے متعلق اداروں کے دفاتر ہیں۔ پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان کے دارالحکومت میں اقوام متحدہ نے اپنے دفاتر بند کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب افغانستان کے شہر سپن بولدک میں خود کش بم حملہ ہوا۔ سپن بولدک میں کشتی کے میلے کے دوران ایک خودکش بمبار کے حملے میں پچیس افراد ہلاک اور اسی کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔ سپن بولدک بلوچستان کے شہر چمن کے قریب واقع ہے اور پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر دونوں جانب اچکزئی قبیلہ آباد ہے۔ سپن بولدک کے واقعے میں کئی پاکستانی بھی ہلاک و زخمی ہوئے تھے اور کئی زخمی اور کچھ لاشیں چمن لائی گئی تھیں۔ دریں اثناء منگل کے روز فرنٹیئر کور کا ایک اہلکار محمد عزیز کوہلو کے شہر کرمو وڈھ کے علاقے میں بارودی سرنگ پھٹنے سے ہلاک ہوگیا ہے۔ بلوچستان کے دو اضلاع کوہلو اور ڈیرہ بگٹی میں سیکورٹی فورسز کئی روز سے کارروائی کر رہی ہیں اور مری اور بگٹی قبائل کے ساتھ ان کی مسلح جھڑپیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اقوام متحدہ نے حفاظتی اقدامات کے پیش نظر پاکستان کے صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں اپنے مختلف اداروں کے دفاتر اڑتالیس گھنٹے کے لیے بند کر دیے ہیں۔ text: اے ایف ایم رضاء الکریم صدیق ملک کے مغرب میں واقع راج شاہی یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر تھے 58 سالہ اے ایف ایم رضا الکریم صدیق ملک کے مغرب میں واقع راج شاہی یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر تھے۔ ٭ بنگلہ دیش میں سیکولر بلاگر کے قتل پر طلبہ کا احتجاج ٭ بنگلہ دیش: آزاد خیال بلاگر کے قاتلوں کو سزائے موت جب وہ یونیورسٹی سے اپنے گھر جا رہے تھے تو چند نامعلوم افراد نے ان پر چھرے اور چاقو سے حملہ کر دیا۔ اس سے قبل گذشتہ سال چار اہم بلاگروں کو چاقو اور چھرے کے حملے میں ہلاک کیا جا چکا ہے۔ نائب پولیس کمیشنر ناہید الاسلام نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ پروفیسر صدیق مختلف قسم کے ثقافتی پروگرامز میں شریک رہتے تھے اور انھوں نے باگ مارا میں ایک سکول قائم کیا تھا۔ یہ علاقہ کالعدم تنظیم جمیعت المجاہدین (جے بی ایم) کا کبھی گڑھ کہا جاتا تھا۔ بلاگروں کے قتل پر مظاہرے کیے گئے ہیں اور سزائیں بھی دی گئی ہیں گذشتہ سال جے بی ایم کے چند اراکین کو اطالوی کیتھولک پادری پر حملے کے الزام میں گرفتار کیا گيا تھا۔ اس سے قبل رواں ماہ کے اوائل میں قانون کے ایک بنگلہ دیشی طالب علم کو دارالحکومت ڈھاکہ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گيا تھا۔ جن چار بلاگروں کو گذشتہ سال قتل کیا گیا ان کے نام ان 84 افراد کی فہرست میں شامل تھے جو خدا کے منکر تھے اور فہرست کو جے بی ایم نے سنہ 2013 میں جاری کیا تھا۔ اس کے علاوہ ملک میں شیعہ، صوفی، احمدی مسلمانوں اور مسیحی اور ہندو اقیلتوں پر بھی حملے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ دو غیر ملکی بھی نشانہ بنائے گئے ہیں۔ نام نہاد تنظیم دولت اسلامیہ نے ان میں سے بعض ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کی ہے لیکن آزادانہ طور پر ان کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ بنگلہ دیش میں ایک پروفیسر کو قتل کر دیا گیا ہے اور پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ہلاکت بھی حال ہی میں ہونے والی سیکولر بلاگرز کی ہلاکتوں کے زمرے میں آتی ہے۔ text: کم بولٹن، کیمبرج شائر انھوں نے اپنے اس پراجیکٹ کو ’پراجیکٹ کلین سوئیپ‘ کا نام دیا ہے۔ یہ نام برطانیہ کی وزارت دفاع کی جانب سے سنہ 2011 میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ کی مناسبت سے ہے۔ اس رپورٹ میں برطانیہ میں کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری، انھیں ذخیرہ کرنے اور تلف کرنے کے ان 14 مقامات کی بابت بتایا گیا تھا جو ان مقامات پر باقی رہ جانے والی آلودگی کے باعث خطرے کی زد میں ہیں۔ یہ بھی پڑھیے فلپائن میں لاوا اُگلتا آتش فشاں فن تعمیر کو اجاگر کرنے والی چند حیرت انگیز تصاویر زمین پر قدیم ترین شہابیہ گرنے سے ’برفانی دور ختم ہوا‘ جنگ عظیم دوئم کے دوران کیمبرج شائر کے علاقے کم بولٹن میں ریل گاڑی کے ایک چھوٹے ٹریک کو کیمیائی ہتھیاروں کو عارضی طور پر ذخیرہ کرنے اور مشرقی انگلینڈ میں قائم ہتھیاروں کے ڈپوز تک بھیجنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ یہ ہتھیار جرمنی کی فوج کی جانب سے انگلینڈ پر حملے کے پیشِ نظر ہنگامی استعمال کے لیے ترسیل کیے گئے تھے۔ آج کل یہ مقام ایک چراہ گاہ ہے۔ ریڈم وِن، فلنٹ شائر کی ایک سرنگ 87 ایکٹر پر محیط ریڈم وِن (فلنٹ شائر) میں واقع اس مقام کو ’دی ویلی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس سینٹر کو کیمیائی ہتھیاروں، جیسا کہ مسٹرڈ گیس، کی بڑے پیمانے پر تیاری اور ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ یہاں پر جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ہونے والے تحقیق بھی کی جاتی رہی ہے۔ ریڈم وِن کی دیواروں پر لگے پرانے پوسٹرز جب دوسری عالمی جنگ اپنے عروج پر تھی تو ریڈم وِن کے اس مقام پر 2200 افراد کام کرتے تھے۔ سنہ 1960 میں اس سائٹ کو بند کر دیا گیا تھا۔ سنہ 2008 میں یہاں واقع 21 عمارتوں اور سرنگوں کا اندراج تاریخی یادگاروں کے طور پر ہوا۔ ریڈم وِن میں واقع یہ سائٹ اب محفوظ قدرتی مقام بن چکی ہے جنگ عظیم کے دوران ڈربی شائر کے علاقے ہارپر ہل میں 104 ایکٹر پر محیط ’مینٹینینس یونٹ 28‘ برطانیہ میں کیمیائی ہتھیاروں کا سب سے بڑا ذخیرہ مرکز تھا۔ جنگ کے بعد اس مرکز میں دشمن افواج سے پکڑے جانے کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کا کام کیا جاتا تھا۔ یہ سائٹ سنہ 1960 میں بند کر دی گئی تھی۔ ڈربی شائر، ہارپر ہل برطانیہ کی وزارت دفاع کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں درج شدہ 14 مقامات کے علاوہ میک گراتھ نے اسی نوعیت کے مزید 92 مقامات کی نشاندہی کی ہے۔ سکاٹ لینڈ کے شمال مغربی ساحل پر واقع جزیرہ گروئینارڈ وہ مقام ہے جہاں سنہ 1942 میں برطانوی فوج کے سائنسدانوں نے حیاتیاتی ہتھیاروں کا سب سے پہلا تجربہ کیا تھا۔ شمال مغربی سکاٹ لینڈ میں واقع جزیرہ گروئینارڈ اس جزیرے پر 80 بھیڑوں کو لا کر چھوڑ دیا گیا اور اس کے بعد اینتھراکس سے بھرے بم چلائے گئے۔ جزیرہ گروئینارڈ میں نصب پرانے وارننگ بورڈ اس جزیرے کو چار سال تک کیمیائی اور حیاتیاتی کثافتوں سے پاک کرنے کے بعد اپریل 1990 میں عوام کے لیے محفوظ قرار دیا گیا تھا۔ جزیرہ گروئینارڈ اب بھی غیر آباد ہے 1950 کی دہائی میں کورنوال کے علاقے نینسکیوک میں واقع ’کیمیکل ڈیفنس اسٹیبلشمنٹ‘ برطانیہ میں اعصاب پر اثر انداز ہونے والی گیسوں کی پروڈکشن کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ جب اس مرکز کو بند کیا گیا تو یہاں موجود آلودہ عمارتوں اور سامان کی باقیات کو یہاں کھودے گئے گہرے گڑھوں میں پھینک کر تلف کیا گیا تھا۔ اس مقام پر اب ایک فوجی ریڈار سٹیشن قائم کیا گیا ہے۔ نینسکیوک سائٹ کے گرد خاردار باڑ لگائی گئی ہے ’آپریشن کولڈرون‘ سنہ 1952 میں جنگ میں استعمال ہونے والے حیاتیاتی ہتھیاروں کے سلسلہ وار تجربات پر مبنی تھا۔ رائل نیوی کے سائنسدانوں نے جزیرہ لوئس کے ساحل پر حیاتیاتی ایجنٹس چھوڑے تاکہ وہاں پنجروں میں قید 3500 بندروں اور سوروں پر ان کے اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔ اس بڑے ٹیسٹ سے قبل ’سینڈاؤن بے‘ میں بہت سے چھوٹے چھوٹے فرضی تجربات کیے گئے تھے۔ سینڈاؤن بے پر موجود افراد سنہ 1963 سے سنہ 1975 کے دوران ڈورسیٹ کے علاقے لائم بے پر بھی اس نوعیت کے تجربات کیے گئے تھے۔ اس خفیہ ٹیسٹنگ پروگرام کے تحت ایک کشتی سے زندہ اور مردہ بیکٹریا کا سپرے کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ان بیکٹریاز کے پھیلاؤ کی نگرانی 60 خفیہ موبائل سائٹس پر کی گئی۔ ان سائٹس کو فرضی طور پر فضائی آلودگی اور موسم کی جانکاری کے لیے قائم سٹیشنز کا نام دیا گیا تھا۔ لائم بے، ڈورسٹ اگرچہ بین الاقوامی معاہدے کے تحت کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کو روک دیا گیا ہے لیکن ان کے استعمال کا خطرہ تاحال برقرار ہے۔ سنہ 2018 میں سابق روسی کرنل سرگی سکریپل اور ان کی بیٹی یولیا کو ایک ایجنٹ نووچوک نے زہر دے کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد ڈان سٹروگس حادثاتی طور پر اپنے گھر میں ایک پرانی پرفیوم کی بوتل سے سپرے کرنے کے بعد ہلاک ہو گئی تھیں۔ پرفیوم کی یہ بوتل اس حملے میں استعمال کی گئی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق 600 سے 800 خصوصی تربیت یافتہ فوجی جوانوں نے سکریپل کے گھر اور سالسبری کے آس پاس موجود دیگر مقامات کی جانچ پڑتال کرنے میں 13 ہزار گھنٹے صرف کیے تھے۔ سالسبری، ولٹ شائر ’پراجیکٹ کلین سوئیپ‘ نامی کتاب اس کے ناشر کیہرر ورلاگ کے پاس دستیاب ہے۔ تمام تصاویر کے جملہ حقوق دارا میک گراتھ کے پاس محفوظ ہیں۔ آئ ر لینڈ سے تعلق رکھنے والے فوٹو گرافر دارا میک گراتھ کیمیائی اور حیاتیاتی جنگ سے منسلک برطانوی مقامات کی عکس بندی کرتے ہیں۔ text: بی بی سی اردو کے ریڈیو پروگرام میں کرشنا کماری نے نگر پارکر سے نامہ نگار علی حسن سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے والدین کو پتا ہی نہیں کہ سینیٹر کیا ہوتا ہے اور ان کا رکن منتخب ہو جانا کیا معنی رکھتا ہے۔ کرشنا کماری نے کہا کہ ان کی برداری کے جو لوگ ان کے گھر انھیں مبارک باد دینے کے لیے آ رہے ہیں اُن سے اُن کے والدین کا یہ ہی کہنا ہے کہ اُن کی بیٹی کو بہت بڑی نوکری مل گئی ہے اور وہ جلد اسلام آباد چلی جائیں گے۔ مزید پڑھیے تھر کے ہاری کی بیٹی سینیٹ کی امیدوار ’لڑکیاں وہ سب کریں جو وہ کرنا چاہتی ہیں‘ 'مجھ ابھی تک یقین نہیں آ رہا' کرشنا کماری نے کہا کہ ان کے گھر والے اور ان کی برادری والے بہت خوش ہیں اور مٹھائیاں تقسیم کر رہے ہیں۔ ملک کی سینیٹ میں منتخب ہونے پر کرشنا کماری نے اپنے جذبات اور تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اتنی خوشی ہوئی ہے کہ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ کرشنا کوہلی کا تعلق تھر کے ضلع نگرپارکر کے ایک گاؤں سے ہے ’یہ سب کچھ خواب سا لگ رہا ہے اور میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میں سینیٹر منتخب ہو جاؤں گی۔ مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رہا۔' کرشنا کماری نے کہا کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کی یہ سوچ تھی کہ انھیں کوئی اچھی نوکری مل جائے گی اور وہ اپنی برادری کی کچھ خدمت کر سکیں گی۔ کرشنا کماری عمرانیات میں ایم اے کی ڈگری رکھتی ہیں اور اپنے علاقے میں سماجی خدمات انجام دیتی رہی ہیں۔ سیاست میں آنے کے بارے میں ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ سیاست میں آنے کے بارے میں جب بھی وہ سوچتی تھیں تو انھیں یہ ہی خیال آتا تھا کہ کبھی موقع ملا تو صوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہو کر اپنے علاقے کے پسماندہ اور غریب لوگوں کے لیے کچھ کریں گی۔ صوبۂ سندھ میں ہندو اقلیت کی بھیل، کوہلی، میگاوار اور اوڈ برادریوں سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت انتہائی غریب ہے اور ان میں خواندگی کی شرح بھی بہت کم ہے۔ سندھ کے ان دور آفتادہ علاقوں میں بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانا ایک انہونی سے بات ہے۔ ان علاقوں میں غربت کی وجہ سے لوگوں میں اتنی سکت ہی نہیں ہوتی کہ وہ بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے شہروں میں بھیج سکیں۔ کرشنا کماری اپنی برادری کے لوگوں اور خاص طور پر خواتین کے لیے کچھ کرنے کے عزم سے سرشار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیونکہ وہ جرنل سیٹ سے منتخب ہوئی ہیں اس لیے وہ زیادہ مؤثر طریقے سے کام کر سکتی ہیں۔ کرشنا کماری کو اس بات کا پوری طرح ادراک ہے کہ سینیٹر کا کردار زیادہ تر قانون سازی تک محدود ہوتا ہے اور وہ پارلیمان کے ایوان بالا میں اپنے صوبے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کرشنا نے کہا کہ ’سینیٹ کا پلیٹ فارم ایک بڑا پلیٹ فارم ہے اور اس کا مؤثر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے خواتین کی تعلیم اور صحت کو اجاگر کرنے اور انھیں حل کرنے کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔‘ کرشنا کماری کا کہنا ہے کہ انھیں اپنی برادری کے اسّی فیصد سے زیادہ لوگوں کی حمایت حاصل ہے اور ان کا اپنی برادری کے لوگوں سے قریبی رابطہ ہے۔ نگر پارکر کے پسماندہ علاقے کی دلت برادری سے تعلق رکھنے والی پیپلز پارٹی کی نو منتخب سینیٹر کرشنا کماری کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کو اسلام آباد میں بہت بڑی نوکری مل گئی ہے اور اب وہ اسلام آباد چلی جائیں گی۔ text: حکومت کی طرف سے اس نشے کی روک تھام کے سسلسلے میں کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں لیے گئے اور نہ ابھی تک خصوصی طور پر اس کے سمگلرز اور پینے والوں کےلیے کوئی سزا مقرر کی گئی ہے: ڈاکٹر افتخار حسین مختلف کیمکلز سے تیار ہونے والے اس نشے کا رحجان خصوصی طور پر طالبات اور جسم فروش خواتین میں زیادہ دیکھا جارہا ہے۔ ٭’شراب، چرس باآسانی یونیورسٹی میں مل جاتی ہے‘ پشاور پولیس کے ایس ایس پی آپریشنز سجاد خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ چند دن پہلے ان کی بعض یونیورسٹیوں کی طلبہ تنظیموں سے ملاقات ہوئی تھی جس میں اس نشے کے روک تھام کے سلسلے میں تفصیلاً گفتگو کی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے یہ نشہ اب بعض پروفیشنل کالجز اور یونیورسٹیز کے ہاسٹلوں میں بھی پہنچ چکا ہے جہاں اس کے استعمال کرنے والوں میں حیران کن طور پر طالبات بھی شامل ہیں۔ تاہم انھوں نے نشہ کرنے والے طلبہ کی تعداد نہیں بتائی۔ سجاد خان کا مزید کہنا تھا کہ اس نشے کی روک تھام کے سلسلے میں یونیورسٹیوں کے اندر اور باہر اقدامات کیے جارہے ہیں جس میں آگاہی مہم اور سمینار قابل ذکر ہیں تاکہ اس کا مکمل خاتمہ کیا جاسکے۔ آئس نشے کی بڑی مقدار افغانستان سے پاکستان سمگل ہورہی ہے جبکہ اس کے علاوہ ایران اور چین سے بھی یہ نشہ مختلف طریقوں سے یہاں پہنچ رہا ہے: ایس ایس پی سجاد حان انھوں نے انکشاف کیا کہ آئس کی بڑی مقدار افغانستان سے سمگل ہورہی ہے جبکہ اس کے علاوہ ایران اور چین سے بھی یہ نشہ مختلف طریقوں سے پاکستان پہنچ رہا ہے۔ آئس نشے پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ آئس ’میتھ ایمفٹامین‘ نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے۔ یہ چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر ایک کرسٹل کی قسم کی سفید چیز ہوتی ہے جسے باریک شیشے سے گزار کر حرارت دی جاتی ہے۔ ان کے مطابق اس کے لیے عام طور پر بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اسے انجیکشن کے ذریعے سے بھی جسم میں اتارا جاتا ہے۔ پشاور میں نفسیاتی امراض کے ماہر ڈاکٹر میاں افتخار حسین گذشتہ کئی سالوں سے مختلف قسم کے نشوں میں مبتلا مریضوں کے علاج سے منسلک رہے ہیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں نشے کے عادی افراد کی بحالی کے لیے ایک نجی مرکز بھی قائم کیا ہوا ہے۔ ڈاکٹر میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو سالوں کے دوران ان کے مرکز میں تقریباً سو سے زیادہ آئس کا نشہ کرنے والے افراد کا علاج کیا جاچکا ہے جس میں چھ خواتین بھی شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 'آئس پینے کے بعد انسان کے اندر توانائی دو گنا ہوجاتی ہے اور ایک عام شخص 24 سے لے کر 48 گھنٹوں تک جاگ سکتا ہے اور اس دوران انھیں بالکل نیند نہیں آتی، تاہم جب نشہ اترتا ہے تو انسان انتہائی تھکاوٹ اور سستی محسوس کرتا ہے۔' ان کے بقول خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں یہ نشہ ہیروئن کی جگہ استعمال کیا جارہا ہے کیونکہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس کے بیشتر پینے والے ہیروئن کے عادی رہ چکے ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ اس کے پینے والوں میں اکثریت طلبہ، تجارت پیشہ افراد، سیاستدانوں، سرکاری افسران اور طوائفوں کی ہے۔ 'میرے سینٹر میں اب تک چھ خواتین کا علاج کیا جاچکا ہے اور یہ تمام خواتین محفلوں میں ڈانس کرتی تھیں۔ وہ اس لعنت میں گرفتار اس طرح ہوئیں کہ گروپ کی شکل میں دوستوں نے انھیں آئس پیش کی۔' تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس کے بیشتر پینے والے ہیروئن کے عادی رہ چکے ہیں ڈاکٹر میاں افتخار حسین کے مطابق کئی سال تک آئس کا نشہ کرنے والے اکثر افراد پاگل پن کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہوجاتی ہیں کہ وہ ہر قریبی شخص کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ شاید کوئی انھیں مارنے کے لیے سازش کررہا ہے۔ 'میں نے ایسے طلبا کا علاج کیا ہے جو چین میں پڑھا کرتے تھے اور وہاں انھیں اس نشے کی لت پڑ گئی تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نشہ اُدھر بھی ملتا ہے اور وہاں سے پاکستان بھی آرہا ہے۔' ڈاکٹر افتخار کے مطابق پاکستان میں تقریباً دو برس سے اس نشے کے عادی افراد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اب یہ ایک وبا کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے اس نشے کی روک تھام کے سسلسلے میں کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ابھی تک خصوصی طور پر اس کے سمگلروں اور پینے والوں کے لیے کوئی سزا مقرر کی گئی ہے۔ پشاور میں نشے کے عادی افراد کی بحالی کے لیے قائم ایک مرکز میں دو ماہ سے زیر علاج یہ نشہ کرنے والے ایک نوجوان جاوید خان (فرضی نام) نے بتایا کہ وہ تین ماہ تک آئس کا نشہ کرتے رہے تاہم جب ان کے والدین کو معلوم ہوا تو انھیں اس بحالی مرکز میں داخل کردیا گیا۔ ’میں انجینیئرنگ یونیورسٹی کے کچھ طالب علم ساتھیوں کے ساتھ ان کے ہاسٹل میں اکثر اوقات چرس پیا کرتا تھا اور پھر ایک دن ایک دوست نے آئس پلائی جس سے مجھے بڑا مزا آیا اور اس طرح میں بھی اس لعنت میں مبتلا ہوگیا۔‘ انھوں نے کہا کہ اس نشے میں انسان کا حافظہ انتہائی تیز ہوجاتا ہے اور اس میں بے پناہ توانائی آجاتی ہے اور وہ دو اور تین تین دنوں تک جاگ سکتا ہے۔ ان کے مطابق آئس کا نشہ پشاور اور قبائلی علاقوں میں باآسانی دستیاب ہے جہاں خاص مقامات پر یہ فروخت کیا جاتا ہے تاہم ہر کوئی اسے نہیں خرید سکتا۔ ’ہم جو آئس خریدتے تھے وہ ایران سے آتے تھی، ہم خریدنے والے سے معلوم کرتے تھے کہ یہ مال کہاں سے آیا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان سے بھی یہ نشہ بڑی مقدار میں یہاں آتا ہے۔‘ ادھر بعض اخباری اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخوا کی حکومت نے حال ہی میں سگریٹ نوشی پر پابندی سے متعلق بل میں آئس کو بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت اس نشے کے فروخت اور پینے پر پابندی عائد کردی جائے گی۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں حکام نے تصدیق کی ہے کہ پشاور یونیورسٹی کے احاطے میں موجود مختلف تعلیمی اداروں میں آئس نامی نشے کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ text: پمز میں خواجہ سراؤں کا وارڈ: ’گڈ۔۔۔ اسے کہتے ہیں جوبن‘ انھوں نے ایک ایک کرکے اپنے سارے دوستوں کے نام لیے جو ہسپتالوں میں کمرہ نہ ملنے کی وجہ سے یا تو دم توڑ گئے یا پھر علاج کا خرچہ نہ ہونے کی وجہ سے مفلسی کی بیمار زدہ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں! ’جو خواب دیکھا تھا اس کی پہلی سیڑھی چڑھ گئی ہوں‘ 'خوش ہوں کہ مجھے بھی انسان سمجھا جا رہا ہے' اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں خواجہ سراؤں کے لیے دو کمرے مختص کرنے کے عمل کو جہاں سراہا گیا وہیں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ الگ کمروں کے ذریعے ان کو باقی مریضوں سے دور تو نہیں کیا جارہا ہے؟ خواجہ سراؤں سے بات کرتے ہوئے یوں ہوا کہ انٹرویو کے لیے مارگلہ کی ٹریل فائیو پر جگہ ڈھونڈتے ہوئے جب ہم ایک جگہ پہنچے تو ہمیں وہاں موجود ریستوران کے مالک نے یہ کہہ کر بیٹھنے سے منع کردیا کہ ’یہ تو ان لوگوں کا روز کا ڈرامہ ہےـ آپ پلیز انھیں کہیں اور لے جائیں۔‘ جس پر میرے ساتھ کھڑی ڈیزی نے کہا کہ ’ہمارے ساتھ بھی یہ روز ہوتا ہے۔ لیکن کم بخت ذلیل ہونے کی عادت ہوگئی ہے۔‘ پمز انتظامیہ کے مطابق ہسپتال میں خواجہ سراؤں کا مفت علاج اور میڈیکل ٹیسٹ کیے جائیں گے خواجہ سراؤں کے لیے الگ کمروں کے بارے میں جب پمز کے ایک سینیئر ڈاکٹر سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ’الگ وارڈ یا کمرے اس لیے بھی ضروری ہیں تاکہ لوگ خواجہ سراؤں کو تسلیم تو کریں۔ ہسپتالوں میں تو ان کی موجودگی ہی ایک بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ایسا نہ ہو۔‘ چندا حال ہی میں لاہور سے اسلام آباد شفٹ ہوئی ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے لیے ایک اچھا فیصلہ ہے۔ ’ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔ اگر جنرل وارڈ میں ہمیں رکھا جاتا ہے تو ساتھ والے بیڈ پر موجود مریض یا ان کے لواحقین ہم پر جملے کستے ہیں اور نرس کے آنے پر کہتے ہیں کے اسے یہاں سے لے جاؤ۔ اس اقدام سے ہمیں یہ تسلی ملتی ہے کہ ہمیں تسلیم کیے جانے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔‘ اسلام آباد سے ہی تعلق رکھنے والی ڈیزی نے کہا کہ انھیں لوگوں کے دلوں میں جگہ چاہیے۔ ’ہمارے لیے کمرے بیشک بنائیں، لیکن اصل تبدیلی تب آئے گی جب ہمارے لیے لوگ اپنے دل میں جگہ بنائیں گے۔ کیا ہم پاکستانی نہیں ہیں؟ ہمیں دل میں جگہ ہی نہیں دیتے۔ ہم ہسپتال جاتے ہیں تو ہم سے کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ ہم دوا لینے کے بجائے الٹا افسردہ ہوکر واپس گھر جاتے ہیں۔‘ یہ بھی پڑھیں! خواجہ سراؤں پر غصہ کیوں آتا ہے ببلی کا جوبن کیفے بند کیوں ہوا؟ حسنہ پمز انتظامیہ کے مطابق ہسپتال میں خواجہ سراؤں کا مفت علاج اور میڈیکل ٹیسٹ کیے جائیں گے۔ اس اقدام کی وجہ ایک حالیہ واقعہ ہے جس میں روشنی نامی ایک خواجہ سرا سے ایک ہسپتال کے عملے کے برے برتاؤ کی وڈیو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر وائرل ہوگئی۔ پمز انتظامیہ کے مطابق واقعے کی اطلاع پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق، شیریں مزاری نے نوٹس لیتے ہوئے خواجہ سراؤں کے لیے الگ کمرے بنوانے کا اعلان کیا تھا۔ ڈیزی نایاب اس وقت روشنی کے ساتھ تھیں اور انھوں نے کہا کہ ’اگر ہم سب بروقت شور نہیں مچاتے تو آج ہمارا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی الگ کمرے بنوانے کی بات پر کوئی عمل ہوتا۔‘ روشنی کو آخری سٹیج کا کینسر ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹروں نے ان کا علاج کرنے سے انکار کردیا۔ بہت سے خواجہ سرا مانتے ہیں کہ اکثر فائنل سٹیج کینسر میں مریضوں کا علاج نہیں کیا جاتا لیکن ’جس طرح سے ہمیں رسوا کیا جاتا رہا ہے اور اس دن بھی کیا گیا، اس رویے کو بدلنا ہوگا۔‘ خواجہ سرا پاکستان کے چند غیر محفوظ طبقوں میں سے ایک ہیں جن پر حملوں کی خبریں اکثر سامنے آتی رہتی ہیں۔ پمز اسلام آباد کا پہلا ہسپتال بتایا جارہا ہے جہاں کے پرائیویٹ وارڈ کے 19 کمروں میں سے دو کمرے خواجہ سراؤں کے لیے رکھے گیے ہیں خواجہ سراؤں کی آبادی کی حوالے سے مختلف اعداد و شمار زیرِ بحث رہتے ہیں جن میں سے اکثر سے خود ان کی برادری بھی اتفاق نہیں کرتی۔ ان میں سے ایک پاپولیشن اینڈ ہاؤسنگ سکیم کے سنہ 2017 کے اعداد و شمار ہیں جن میں ملک بھر میں خواجہ سراؤں کی تعداد صرف 10000 بتائی گئی ہے۔ اس بات پر خواجہ سراؤں کا ماننا ہے کہ ان کی صرف اسلام آباد اور راولپنڈی میں 6000 آبادی ہے۔ اب تک پمز اسلام آباد کا پہلا ہسپتال بتایا جارہا ہے جہاں کے پرائیویٹ وارڈ کے 19 کمروں میں سے دو کمرے خواجہ سراؤں کے لیے رکھے گیے ہیں۔ اور کہا جارہا ہے کہ باقی صوبوں میں بھی اسی طرح کی کاوش کی جائے گی۔ ایک اور خواجہ سرا حسنہ نے کہا کہ ’آخرکار ہم جانوروں کی فہرست سے نکل کر اب انسانوں کی فہرست میں شامل ہورہے ہیں۔‘ نایاب علی کو جب پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے خواجہ سراؤں کے لیے مختص کیے گئے دو کمروں کی تصویریں دکھائیں تو وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پائیں۔ text: تحریک کے پرعزم ، حوصلہ مند اور جانثار کارکنان ہرآزمائش کے موقع پر ماضی کی طرح ثابت قدمی اور مثالی اتحاد کا مظاہرہ کریں، الطاف حسین انھوں نے کہا کہ ایسے اقدامات بیرون ممالک پاکستان کی کسی جماعت کے رہنما، کارکنوں اورہمدردوں کے ساتھ نہیں روا رکھے گئے۔ الطاف حسین نے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات کا تو کوئی حوالہ یا ذکر نہیں کیا لیکن انھوں نے کہا ہے کہ کسی بھی سطح پر ناانصافی اورانتہائی کڑی آزمائشوں کے پہاڑ حوصلوں کو پست نہیں کرسکتے۔ ایم کیو ایم کے اعلامیے مطابق الطاف حسین نے منگل کو رابطہ کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انھیں اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ بعض اطلاعات پر کارکنان وعوام میں کنفیوژن اور اضطراب کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تحریک کے پرعزم ، حوصلہ مند اور جانثار کارکنان ہرآزمائش کے موقع پر ماضی کی طرح ثابت قدمی اور مثالی اتحاد کا مظاہرہ کریں اور کسی بھی خبر پر کنفیوژن کا شکار ہونے اور اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے رابطہ کمیٹی سے رجوع کریں۔ اس سے پہلے لندن میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں پولیس نے منگل کی صبح شمال مغربی لندن میں دو مکانات پر چھاپے مارے۔ لندن میں میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق یہ چھاپے پولیس کے انسدادِ دہشت گردی کے یونٹ نے مارے اور ان گھروں کی تلاشی لی جو کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔ میٹرو پولیٹن پولیس کے پریس بیورو نے ان چھاپوں کے بعد ایک انتہائی مختصر بیان جاری کیا جو ان کی ویب سائٹ پر بھی شائع کیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق کی تحقیقات جاری ہیں۔ منگل کو مارے گئے چھاپوں کے بارے میں پولیس کا کہنا تھا اب تک انھوں نے کس شخص کو گرفتار نہیں کیا ہے۔ میٹرو پولیٹن پولیس نے چند ماہ قبل بھی شمالی لندن میں ایک بزنس ایڈرس پر چھاپے مارے تھے۔ تلاشی کے دوران میٹروپولیٹن پولیس نے جو شواہد اکھٹے کیے ان کے بارے میں پولیس کے ترجمان نے کوئی تفصیل سے آگاہ کرنے سے انکار کر دیا۔ ایم کیو ایم کے اہم رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر سنہ 2010 کو لندن میں قتل کر دیا گیا تھا اور ان کے قتل کو تین سال مکمل ہونے والے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین نے کہا ہے کہ قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ان کے اعصاب توڑنے اور ان کے ساتھیوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے افسوسناک اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ text: ہندوستانی ٹیم پیر کی صبج آسٹریلیا کے لیے روانہ ہوئی ہے۔انیل کمبلے نے یہ بات آسٹریلیا سیریز کے لیے روانہ ہونے سے پہلے کہی۔ ہندوستانی کپتان نے کہا’ آسٹریلیا کو اس کی سرزمین پر ہرانا ایک بڑا چیلنج ہے لیکن ہم اس چیلنج کے لیے تیار ہیں۔ ہمارے پاس ایسے کھلاڑی ہیں جو آسٹریلیا میں سیریز جتا سکتے ہیں۔‘ انیل کمبلے نے مزید کہا ’ ہم نے حال ہی میں پاکستان کے خلاف نہ صرف ون ڈے سیریز بلکہ ٹیسٹ سیریز بھی جیتی ہے اور اس جیت کے بعد ہمارے حوصلے بلند ہیں۔‘ انیل کمبلے نے یہ بھی کہا کہ انہیں آسٹرلیا کی پچوں کا تجربہ ہے اور ٹیم کے پاس تجربہ کار کھلاڑی ہیں جس سے انہیں آسٹریلیا سیریز جیتنے میں مدد ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بلے باز ایسی ہی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے جیسے انہوں نے حالیہ سیریز میں پاکستان کے خلاف کی تو سیریز جیتنا آسان ہوگا۔ انکا کہنا تھا ’اگر اچھے رنز بنتے ہیں تو وکٹ لینا بھی آسان ہوگا۔‘ انیل کمبلے نے اپنی ٹیم کی بولنگ لائن کے بارے میں کہا’ہمارے پاس ظہیر خان، عرفان پٹھان اور آر پی سنگھ جیسے کھلاڑی ہیں جو پہلے بھی آسٹریلیا میں کھیل چکے ہیں۔ اشانت اور پنکج سنگھ میں میچ جتانے کی صلاحیت ہے۔‘ انیل کمبلے نے یہ بھی کہا کہ ٹیم کے بعض سینئر کھلاڑیوں اور خود ان کے لیے یہ آسٹریلیائی دورہ آخری دورہ ہوسکتا ہے اس لیے ان کی کوشش رہے گی کہ وہ سیریز جیت کر ہی آئیں۔اس دورے کے بعد 2011 میں بھارتی ٹیم کو آسٹریلیا جانا ہے۔ ہندوستانی ٹیم کو آسٹریلیا کے خلاف پہلے چار ٹیسٹ کھیلنے ہیں اور اس کے بعد وہ آسٹریلیا اور سری لنکا کے ساتھ سہ رخی ون ڈے سیریز کھیلے گی۔ پہلا ٹیسٹ میچ ملبورن میں 26 دسمبر کو کھیلا جائے گا۔ ہندوستان کرکٹ ٹیم کے کپتان انیل کمبلے کا کہنا ہے کہ بھارتی ٹیم میں آسٹریلیا کو ہرانے کی طاقت ہے اور ان کی ٹیم آسٹریلیا کو اس کی اپنی سرزمین پر ہرانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ text: بلاول بھٹو اور مریم نواز کی ملاقات نے پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ہلچل مچائی ہے 1986 میں محترمہ بینظیر بھٹو وطن واپس آئیں تو ظاہر ہے کہ ہم عمر کے اُس حصے میں تھے جب سیاست کا قطعی علم نہ تھا مگر والد اور خاندان کے دیگر افراد سے بھٹو اور بھٹو کی بیٹی کی کہانی ضرور سنی تھی جو متاثر کن تھی۔ سنہ 1988 کے انتخابات کے دنوں میں ہم گاؤں میں تھے اور گاؤں میں صرف ہمارے ہاں ٹیلی ویژن تھا، گاؤں بھر کے مرد اور خصوصاً عورتیں شام کو ہمارے بڑے صحن میں اکٹھی ہو جاتیں۔ عورتیں بی بی کی ایک جھلک دیکھنے آتیں۔ یہ بھی پڑھیے! بھاگ لگے رہن۔۔۔ ڈیل اور ڈھیل، دونوں ختم۔۔۔ کوٹ لکھپت کا قیدی نمبر 4470 نو بجے کے خبرنامہ میں سیاسی جماعتوں کو کوریج مل رہی تھی اور چونکہ ایک طویل عرصے کے بعد سیاسی سرگرمیوں سے پابندیاں ہٹائی گئی تھیں اور عام انتخابات کا انعقاد دس سال کے بعد ہو رہا تھا لہٰذا عوام میں خاصا جوش و خروش تھا۔ ہر خاص و عام سیاست میں حصہ لے رہا تھا۔ گاؤں میں میلے کا سا سماں تھا۔ نو ستارے یعنی اسلامی جمہوری اتحاد اور پیپلز پارٹی آمنے سامنے تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ گاؤں میں بھانڈ ایک دوسرے سے مذاق کرتے تھے۔ اُن کے ہاتھوں میں بڑے بڑے چمڑے کے لتر تھے جنھیں وہ ایک دوسرے کے ہاتھ پر مارتے تھے اور موضوع جنرل ضیا الحق تھا۔ وہ بھانڈ جو بظاہر ان پڑھ مگر سیاسی طور پر درست تھے میری یادداشت میں آج بھی موجود ہیں۔ قصہ مختصر اسی سیاسی تفریق کے ساتھ ہم بڑے ہوئے۔ پیپلز پارٹی اپنی جدوجہد میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی حامی تھیں۔ بلاول بھٹو کی دعوتِ افطار میں اپوزیشن جماعتوں کے نمائندے شریک ہوئے تھے پاکستان میں سیاسی سوچ کا آغاز قائداعظم کے بعد بھٹو صاحب سے ہی ہوا اور یہ ماننا پڑے گا کہ سیاست یا تو بھٹو مخالف تھی یا بھٹو کی حمایت میں۔ اُن کی صاحبزادی والد کا نظریہ لے کر آگے بڑھتی گئیں۔ میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے حامی بلکہ پروردہ اور جنرل ضیاالحق کے سیاسی جانشین کہلاتے تھے۔ تصور نہیں تھا کہ کبھی ملک میں یہ حریف جماعتیں یا نظریے ایک صفحے پر آئیں گے لیکن ایسا ہوا۔ مجھے آج بھی سنہ 2006 کا وہ دن یاد ہے جب میں پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں اپنے پروگرام کی تیاری میں تھی کہ خواجہ آصف کیفے ٹیریا میں داخل ہوئے۔ حسب سابق کیمرا لے کر اُن کی جانب بڑھی تو خواجہ صاحب مسکرائے اور کہا کہ بڑی خبر ہے میری پاس لیکن کیمرے پر کہنا قبل از وقت ہے۔ کیمرہ سائیڈ پر کرانے پر خواجہ صاحب نے کہا کہ بی بی جدے میں میاں صاحب سے ملی ہیں اور اب ایک معاہدے پر دستخط کا امکان ہے جس کے مندرجات میں سب سے اوّل جنرل مشرف کے اقتدار کے خلاف ایک تحریک چلانا اور ایک دوسرے کو قبول کر کے سیاسی برداشت پیدا کرنا ہے۔ میثاق جمہوریت کی خبر بریک کرتے ہوئے میں نے نہیں سوچا تھا کہ کبھی کوئی معاہدہ طے پائے گا جس میں حریف جماعتیں جمہوریت کے لیے ایک پیج پر اکٹھی ہوں گی۔ سیاست کے اس پر پیچ دور میں جنرل مشرف احتساب کے مقدمے بھی دائر کر رہے تھے اور سیاسی قیادت کے ملک داخلے پر پابندی بھی تھی مگر پاکستان کے عوام کرپٹ کرپٹ کی گردان کے باوجود انھی سیاست دانوں کے اردگرد رہے۔ یہ سمجھنا ہو گا کہ کچھ ہو جائے پاکستان کے عوام کے دل سے جمہوریت نکالی نہیں جا سکتی۔ اپوزیشن نے عید کے بعد حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا عندیہ دیا ہے یہ سچ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں نے بدعنوانی کا تمغہ سینے پر سجایا ہے اور اس داغ کو دھونے کی کوشش بھی نہیں کی تاہم اپنی غلطیوں سے سیکھا ضرور ہے۔ آج مریم اور بلاول میثاق جمہوریت کو بڑھاوا دینے کی بات کر رہے ہیں۔۔۔ میراث جمہوریت منتقل ہو رہی ہے لیکن ان نوجوانوں کو کچھ غلطیوں کو ٹھیک کرنا ہے کیونکہ اب غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے۔ جمہوریت کو اصل شکل میں بحال کرنے کے لیے جماعتوں کے اندر جمہوری رویوں کو جگہ دینا ہو گی۔ جماعتوں میں تطہیر کا عمل شروع کرنا ہو گا۔ نظریاتی سیاست کو عملی طور پر آزمانا ہو گا اور اپنی سیاسی جماعتوں کو ادارہ بنانا ہو گا۔ بلاول بھٹو نے بہت قلیل وقت میں بہت سا سفر طے کیا ہے۔ انھوں نے اپنے نانا اور والدہ کی شہادت اور والد کی 11 سالہ جیل سے بہت سیکھا ہے اور وہ تلخ بھی ہیں۔ مریم نے گزشتہ کچھ عرصے میں اپنی اور والد کی جیل اور اس سے قبل برطرفی سے کچھ نتائج اخذ کیے ہیں۔دونوں کو مصلحتوں سے نہیں، نظریوں سے آگے جانا ہو گا۔ سب سے بڑھ کر عوام کو اعتماد دینا ہو گا کہ پاکستان کا مستقبل جمہوریت ہی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بلاول بھٹو نے مختصر وقت میں نوجوان اور بزرگ سیاست دانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا۔ مجھے بحالی جمہوریت تحریک اے آر ڈی کے سربراہ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم سے ملنے، دیکھنے اور حزب اختلاف کی سیاست سمجھنے کا بڑا موقع ملا۔ کسی وقت اُن پر لکھوں گی لیکن یہاں یہ تحریر کرنا ضروری ہے کہ بلاول کے اندر بی بی کے ساتھ ساتھ نوابزادہ صاحب کی بھی جھلک ہے۔ بلاول بھٹو نے میثاق جمہوریت کو میراث جمہوریت میں بدل دیا ہے۔ انھیں سیاسی اور جمہوری قوتوں کو اکٹھا کرنے میں دقّت نہیں ہوئی اور نہ ہو گی۔ تاہم آنے والے دنوں میں اس میراث کو بچانا اہم امتحان ہو گا۔ بلاول سیاست کی بساط پر اصل چال چلنے کے موقع سے کتنا فائدہ اٹھائیں گے یہ دیکھنا باقی ہے۔ ہم نے ہوش سنبھالا تو دو ہی جماعتیں برسر پیکار تھیں۔ پیپلز پارٹی جو بائیں بازو یعنی ترقی پسند جماعت تصور ہوتی تھی اور مسلم لیگ جس کے کئی حصے بخرے اس وقت بھی موجود تھے، دائیں بازو کی کنزرویٹو جماعت تصور کی جاتی تھی۔ text: ان کی عمر 81 برس تھی اور وہ سرطان کے مرض میں مبتلا تھے ان کی عمر 81 برس تھی اور وہ سرطان کے مرض میں مبتلا تھے۔ حنیف محمد طویل عرصے سے بسترِ علالت پر تھے اور انھیں دو روز قبل وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ ٭ حنیف محمد بجا طور پر میچ بچانے کی ڈھال تھے ٭ حنیف محمد کی یادگار تصاویر آغا خان ہسپتال کے ترجمان نے بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل سہیل سے بات کرتے ہوئے ُان کے انتقال کی تصدیق کی ہے۔ اُن کے بیٹے شعیب محمد کا کہنا ہے کہ اُن کی نماز جنازہ کل بعد از نماز جمعہ ادا کی جائے گی۔ جمعرات کی صبح بھی ان کے انتقال کی خبر آئی تھی تاہم پھر اُن کے صاحبزادے شعیب محمد نے پی ٹی وی کو بتایا تھا کہ ان کے دل کی دھڑکن چند منٹ بند رہنے کے بعد بحال ہوگئی تھی۔ 21 دسمبر 1934 کو انڈین ریاست جوناگڑھ میں پیدا ہونے والے حنیف محمد کے خاندان میں کئی افراد پاکستان کے لیے کرکٹ کھیل چکے ہیں۔ ان کے تین بھائی وزیر محمد، صادق محمد، رئیس محمد اور بیٹے شعیب محمد بھی ٹیسٹ کرکٹر رہ چکے ہیں۔ حنیف محمد طویل عرصے سے بسترِ علالت پر تھے اور انھیں دو روز قبل وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا حنیف محمد نے 55 ٹیسٹ میچوں کی 97 اننگز میں 43.98 کی اوسط سے 3915 رنز بنائے، جن میں 12 سینچریاں اور 15 نصف سینچریاں شامل ہیں۔ ان کی سب سے بڑی وجہ شہرت ان کی وہ طولانی اننگز ہے جو انھوں نے برج ٹاؤن میں 58-1957 کی سیریز میں کھیلی تھی۔ 990 منٹ پر محیط اس اننگز کا ریکارڈ آج بھی ٹیسٹ کرکٹ کی طویل ترین اننگز کے طور پر قائم ہے جس کے دوران انھوں نے 337 رنز بنائے تھے۔ اس کے علاوہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں 499 رنز کا ریکارڈ ایک عرصے تک قائم رہا جسے برائن لارا نے توڑا۔ وہ ان کھلاڑیوں میں شامل ہیں جنھیں پاکستانی کرکٹ کا اولین سپر سٹار کہا جا سکتا ہے۔ اپنی بےعیب تکنیک اور ہر قسم کے حالات میں وکٹ پر لمبے عرصے تک ٹھہرے رہنے کی صلاحیت وہ خوبیاں ہیں جنھوں نے لاکھوں لوگوں کو حنیف کا گرویدہ بنا دیا۔ کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں زیر علاج عالمی شہرت یافتہ پاکستانی کرکٹر اور قومی ٹیم کے سابق کپتان حنیف محمد انتقال کر گئے ہیں۔ text: حالیہ مہینوں میں کئی اہم افغان خواتین کو یا تو قتل کیا گیا ہے یا اغوا لیفٹیننٹ نگر پر یہ حملہ نامعلوم مسلح افراد نے ہلمند صوبے میں کیا۔ ہلمند کے گورنر کے ترجمان نے بتایا کہ لیفٹیننٹ نگر کو اتوار کے دن صوبے کے دارالحکومت لشکر گاہ کے پولیس ہیڈکورٹر کے قریب گولی ماری گئی جس کے بعد انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔ تاہم وہ ہسپتال میں زحموں کی تاب نہ لا سکیں۔ لیفٹیننٹ نگر سے پہلے اس عہدے پر فائز پولیس افسر کوگولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ ہلمند کے گورنر کے ترجمان عمر زواک نے اے پی کو بتایا کہ اٹھتیس سالہ نگر کی گردن پر گولی لگی تھی۔ طبی اہلکار اس کوشش میں تھے کہ اس گولی کے نتیجے میں ان کے جسم کو مفلوج ہونے سے بچایا جا سکے۔ لیفٹیننٹ نگر ایک سب انسپکٹر کی حیثیت سے ہلمند پولیس میں کام کرتی ہیں۔ خواتین پولیس اہلکاروں پر حملوں میں حالیہ دنوں میں شدت آئی ہے انہوں نے اس عہدے کا چارج اسلام بی بی سے لیا جو کہ ایک معروف پولیس اہلکار تھیں جنہیں جولائی میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا جب وہ موٹر سائیکل پر سوار کام پر جا رہی تھیں۔ سینتیس سالہ اسلام بی بی بتیس خواتین پولیس اہلکاروں کی نگران تھیں اور ایک اہم شخصیت کے طور پر اس علاقے میں جانی پہچانی جاتی تھیں۔ حالیہ مہینوں میں کئی اہم افغان خواتین کو یا تو قتل کیا گیا ہے یا اغوا جیسا کہ اس مہینے کے آغاز میں افغان طالبان نے ایک خاتون رکن پارلیمان کو ایک مہینے تک یرغمال بنائے رکھنے کے بعد رہا کیا تھا۔ اگست میں ایک افغان سینٹر کے قافلے پر حملے کیا گیا جس سے وہ شدید زخمی جبکہ ان کی نو سالہ بیٹی ہلاک ہو گئی تھی۔ اسی طرح 2008 میں قندہار میں لیفٹیننٹ کرنل ملالئی کاکڑ جو ملک کی نمایاں ترین فوجی افسر اور قندہار کے جرائم کے شعبہ کی انچارج تھیں کو بھی ہلاک کر دیا گیا تھا۔ افغانستان میں حکام کا کہنا ہے کہ خواتین کی پولیس فورس کی سینیئر ترین اہلکار پر نامعلوم افراد نے فائرنگ سے ہلاک ہو گئی ہیں۔ text: فائرنگ کے تبادلے میں کسی قسم کی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے۔ تحصیل ٹل میں پولیس کے ایک افسر میر علی خان نے بی بی سی کو بتایا کہ سنیچر کی صبح نو بجے کے قریب ضلع ہنگو کی تحصیل ٹل سے ایک نان کسٹم پیڈ گاڑی میں تین مسلح مشکوک افراد شمالی وزیرستان کی طرف جارہے تھے کہ ٹل سے چار کلومیٹر جنوب کی جانب کرُم پل میں سپین ٹل چیک پر سکیورٹی فورسز نے گاڑی رکنے کی کوشش کی تو مسلح افراد نے گاڑی کو بھگادیا۔ جس پر سکیورٹی فورسز نے گاڑی پر فائرنگ شروع کی جس کے نتیجہ میں مسلح افراد نے گاڑی چھوڑ کر دوسری جانب سے سکیورٹی فورسز پر جوابی فائرنگ شروع کی۔ پولیس افسر نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان تقریباً دو گھنٹوں تک فائرنگ کا تبادلہ ہوا اس کے بعد پولیس اور ایف سی اہلکار گاڑی تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ پولیس کے مطابق ایک مشکوک فرد گاڑی سمیت گرفتار کر لیاگیا ہے۔ پولیس افسر نے بتایا کہ گرفتار ہونے والے شخص کا نام عبیداللہ ہے اور اس کا تعلق محسود قبیلے سے ہے۔ گاڑی سے دو کلاشنکوف اور کچھ گرینیڈ برآمد ہوئے ہیں۔ تحصیل ٹل پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ملحقہ علاقہ ہے جہاں پہلے بھی کئی بار سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں پر حملے ہوچکے ہیں اور کئی بار اہلکاروں کو اغواء بھی کیا گیا ہے۔ صوبہ سرحد کے جنوبی ضلع ہنگو کی تحصیل ٹل میں سکیورٹی فورسز نے مقامی طالبان کے ایک اہلکار کو دو گھنٹے کی فائرنگ کے بعد گرفتار کر لیا ہے جبکہ دو جنگجوگاڑی چھوڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ text: فلم کے ہدایت کار شعیب منصور نے بی بی سی کو بتایا کہ ممبئی کی’پرسیپٹ پکچرز کمپنی‘ نے ہندوستان میں ان کی فلم کو ریلیز کرنے کے لیے حقوق حاصل کیے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’ادب و ثقافت اور موسیقی کے شعبہ میں دونوں ملکوں کے درمیان تبادلہ ہوتا رہا ہے لیکن فلم کے شعبہ میں یہ تبادلہ بہت ہی خوش آئند ہے۔‘ شعیب منصور نے بتایا کہ فلم کی پروسیسنگ اور کچھ پوسٹ پروڈکشن کا کام ممبئی میں ہوا تھا۔ تبھی سے انہوں نے ہندوستان میں ریلیز کرنے کی کوشیش شروع کی تھی۔ ’چونکہ عام تصور یہ ہے کہ پاکستانی فلمیں زیادہ معیاری نہیں ہوتی ہیں اس لیے مجھ سے کسی نے انکار تو نہیں کیا لیکن کوئی فلم لینے کو تیار بھی نہیں ہوا تھا۔ پھر میں نےگوا فلم فیسٹیول میں اپنی فلم بھیجی جس کے بعد وہ کئی دیگر فسٹیول کی زینت بنی اور پھر پرسیپٹ نے اسے ہندوستان میں ریلیز کرنے کا فیصلہ کیا۔‘ پرسیپٹ میں ڈسٹری بیوٹر شعبہ کے انچارج دنیش بدلانی نے بی بی سی کو بتایا کہ فلم ’خدا کے لیے‘ سے انہیں اچھے نتائج کی امید ہے۔’ دو روز قبل ہی سونی کمپنی نے اس کا میوزک ریلیز کیا ہے اور چار اپریل کو فلم رلیز ہوگی۔‘ دنیش نے بتایا کہ پرسیٹ نے موسیقی کے حقوق سونی کمپنی کو فروخت کر دئیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فلم کے حقوق خریدنے میں کوئی قانونی پیچدگی پیش نہیں آئی ہے اور اس کی ریلیز میں بھی کوئي مشکل نہیں ہے۔ ’سینسر بورڈ سےگزرنے میں تھوڑی مشکلیں آئی تھیں کیونکہ ان کا رویہ اس فلم کے تئیں بہت محتاط تھا، لیکن صرف ایک سین ہٹانے سے کام چل گیا۔‘ دنیش نے بتایا کہ انہیں صحیح علم نہیں کہ وہ کون سا شاٹ تھا لیکن ’اس شاٹ میں شاید ایک مولوی صاحب بتا رہے ہوتے ہیں کہ اسلام کو اگر ایک خاص نقطہ نظر سے پیش کیا جاتا تو مسلمانوں کی آج یہ حالت نہ ہوتی۔‘ بقول ان کے ایک خاص طبقے کے جذبات مجروح ہونے کے خدشے کے پیش نظر سینسر بورڈ نے مذکورہ سین کو فلم سے ہٹا دیا ہے۔ شعیب منصور نے بتایا کہ فلم کا مرکزی موضوع مذہب ہے۔ بقول ان کے اسلام کی ایک تشریح ریڈیکل علماء کرتے ہیں جسے نئی نسل کے لیے سمجھنا، یقین کرنا کافی دشوار ہے۔ ’میں نے اس پر کافی ریسرچ کی ہے اور احادیث، روایات اور عقل و دانش سے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس میں کیا کچھ اور کتنا کچھ ایسا ہے جو ہرگز، ہرگز حقیقی اسلام نہیں ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ فلم میں ایک پہلو امریکہ میں گیارہ ستمبر کے حملے کے بعد پیدا ہوئی صورت حال کے بارے میں بھی ہے۔ ’اس واقعے کے بعد مسلمانوں، خاص طور پاکستانیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ خوش گوار نہیں ہے۔ اس کے بعد کسی کو بھی دہشت گرد بتانے کے لیے مسلمان کا نام ہی ہونا کافی ہے، تو فلم میں اس پہلو پر بات کی گئی ہے۔‘ شعیب منصور کا کہنا ہے کہ اگر سنہ انیس سو پینسٹھ سے پہلے والی صورت حال بحال ہو جائے جب دونوں ملکوں کے درمیان فلموں کا آزادنہ تبادلہ ہوتا تھا تو اس سے پاکستانی فلم انڈسٹری کو کافی فائدہ پہنچےگا۔ ’فلموں پر پابندی سے ہندوستان کو تو نہیں لیکن پاکستانی فلم انڈسٹری کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ جب دونوں ملکوں میں فلم کا تبادلہ ہوتا تھا تو دونوں کی فلم انڈسٹری تقریباً برابری کی سطح پر تھیں لیکن امید کی جانی چاہیے کہ اس نئی شروعات سے یقیناً بہتری آئیگی۔‘ پاکستان کی معروف فلم ’خدا کے لیے‘ آئندہ چار اپریل کو ہندوستان کے مختلف شہروں میں ایک ساتھ ریلیز کی جائےگی۔گزشتہ تقریبا چار عشروں میں یہ پہلی پاکستانی فلم ہے جو باقاعدہ طور پر ہندوستان کے سنیماگھروں میں نمائش کے لیے پیش کی جارہی ہے۔ text: منگل کے روز بھی یورپی اخباروں میں مبینہ توہین رسالت کے خلاف احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے دوران میں دو افراد ایک بنک کے سیکیورٹی گارڈز کی گولیاں لگنے سے ہلاک ہوگئے تھے۔ اس مظاہرہ میں گولیاں اور لاٹھیاں لگنے سے چار افراد زخمی اور ایک رضوان نامی شخص ہلاک ہوگیا۔ مظارہین نے متعدد گاڑیوں کو پتھراؤ کرکے نقصان پہنچایا اور آگ لگانے کی کوشش کی۔ اسلامی جمعیت طلباء کا کہنا ہے کہ پولیس نے کئی مظاہرین کو گرفتار کیاہے۔ ان کا دعویُ تھا کہ طلباء پُر امن تھے اور تشدد کی کارروائیاں ان میں شامل ہونے والے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کارندوں نے کیں۔ اسلامی جمعیت طلباء کے صدر نصراللہ گورایا نے کہا کہ اگر پولیس نے اسلام آباد اور لاہور میں گرفتار کیے جانے والے ڈیڑھ سو سے زیادہ طالب علموں کو رہا نہ کیا تو جمعرات سے ان کی تنظیم ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع کردے گی۔ لاہور میں سینکڑوں وکلاء نے بدھ صبح احتجاج کے طور پر ایوان عدل سے ریگل چوک تک جلوس نکالا جو پُر امن طور پر منتشر ہوگیا۔ وکلاء امریکہ اور جنرل مشرف کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔ دوسری طرف پنجاب کے مختلف چھوٹے شہروں میں بھیبدھ کے روز مبینہ توہین رسالت کے خلاف احتجاج جاری رہا۔ سرگودھا، قصور، پتوکی، کھڈیاں، جڑانوالہ اور قلعہ دیدار سنگھ میں کاروبار بند رہا اور پنجاب حکومت کی طرف سے عائد پابندی کے باوجود احتجاجی جلسے جلوس نکالے گئے۔ سرگودھا میں مظاہرین نے ایک سینما کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس پھینکی۔ قصور میں مظاہرین نے ایک اسکول میں توڑ پھوڑ کی، اساتذہ اور طلباء کی پٹائی کی اور اسکول کو بند کروادیا۔ مظاہرین نے دکانوں کی توڑ پھوڑ بھی کی۔ جڑانوالہ میں ایک نجی ہسپتال کو نقصان پہنچایا گیا اور گاڑیوں پر پتھراؤ کیا۔ پولیس کے لاٹھی چارج سے دس افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ مظاہروں میں تشدد مذہبی جماعتوں نے نہیں کیا بلکہ حکومتی کارندوں نے کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ضمانت دیتے ہیں کہ ان کے پروگراموں میں پر تشدد کارروائی نہیں ہوگی۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ فوج پرویز مشرف سے کہے کہ وہ اقتدار چھوڑ دیں۔ بدھ کے روز لاہور میں اسلامی جمعیت طلباء کے مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپ میں پنجاب یونیورسٹی کا ایک ملازم گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا ہے۔ text: خدا اور جمشید مقتول سے پوچھنا کسی تجزیہ نگار کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ ہم صفحہ مثل پر موجود شہادت کی ہر مدد یہ جانچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا اس اندھے قتل کی ایسی کونسی شہادتیں موجود تھیں کہ مرزا کو سزائے موت سنانا ہی منصف نے مناسب سمجھا۔ مگر اس سے پہلے میں مشرق اور مغرب کے تبصرہ نگاروں اور پڑھنے والوں کے سامنے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اس سزائے موت کے فیصلہ کا اسلام کی خوفناک سزاؤں والے تھیسس اور شریعت کے قوانین سے ذرا بھی تعلق نہیں۔ مرزا کو جس قانون کے تحت سزائے موت دی گئی ہے وہ انگریز بادشاہ کا بنایا ہوا قانون ہے ۔ یہ وہ قانون ہے جسے اس زمانے کے قانون دانوں نے برطانیہ کا مستقبل کا قانون کہا تھا۔ مرزا کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت سزائے موت کا مستوجب قرار دیا گیا ہے۔ اسلام کا قصاص و دیعت کا قانون 1990 میں لاگو کیا گیا تھا۔ اس لیے اس مقدمہ میں غیر ترمیم شدہ دفعہ 302 کے تحت سزا تجویز کی گئی ہے۔ ہوا کیا؟ مقدمہ مرزا طاہر حسین بنام سرکار ماہانہ قانونی رپورٹ 1999 صفحہ 2675 پر اس وقوعہ کو مختصراً ان الفاظ میں اس طرح سے بیان کیا گیا ہے کہ کہ اٹھارہ دسمبر 1988 کی رات ساڑھے گیار بجے محمد عارف شکایت کنندہ / تفتیشی افسر / ایس ایج او پولیس اسٹیشن سہالہ اپنی ڈیوٹی پر میر داد ہوٹل بی ٹی روڈ پر موجود تھے کہ امجد مسعود ان کے پاس آیا اور اطلاع دی کہ ایک شخص مشتبہ حالات میں نزدیکی پٹرول پمپ پر ٹیکسی میں موجود ہے۔ ٹیکسی کی مسافر سیٹ پر خون کے دھبے ہیں۔ اس شخص نے ٹیکسی میں پٹرول ڈلوایا ہے مگر ٹیکسی سٹارٹ نہیں ہو رہی۔ سنتے ہی محمد عارف ایس ایچ او اپنے اہل کاروں کے ہمراہ پیٹرول پمپ پر پہنچے اور ڈرائیور مرزا طاہر سے کچھ سوالات کیے۔ مناسب جواب نہ ملنے پر مرزا کی تلاشی لی گئی جس کے پاس سے ایک تیس بور کا پستول بلا لائسینس بر آمد ہوا۔ نتیجتاً غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے جرم کی رپورٹ تیار کی گئی اور تفتیش شروع کر دی گئی۔ مزید تلاشی پر مرزا کے سامان سے ایک خنجر بھی بر آمد ہوا۔ دوران تفتیش ’مرزا‘ سے یہ معلوم ہوا کہ اس نے راولپنڈی سے ایک ٹیکسی کرائے پر لی تھی، جونہی یہ ٹیکسی جی ٹی روڈ پر پہنچی تو مرزا نے ڈرائیور سے کہا کہ ٹیکسی روک دو اور اسے چھوڑ کر بھاگ جاؤ ۔ ڈرائیور نہ مانا۔ مرزا نے ڈرائیور کو تیس بور کے اس پستول سے قتل کردیا اور اسے سڑک کے کنارے پھینک دیا۔ اس قتل کے بعد مرزا اسی ٹوٹی ہوئی کار میں پٹرول پہنچا اور اس میں پٹرول ڈلوایا ۔ مگر ٹیکسی سٹارٹ نہ ہوئی۔ اس اقرار جرم کے بعد مرزا کے خلاف دفعہ 302 اور حدود آرڈینینس کی دفعہ 20 [ ہائی وے روبنگ] کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ پٹرول پمپ پر ایس ایچ او ابھی اس مقدمہ کی تفتیش کر ہی رہے تھے کہ شیر خان ٹیکسی کے مالک اور محبت خان انکے دوست، جمشید مقتول اور ٹیکسی کی تلاش میں اسی پٹرول پمپ پر پہنچ گئے۔ ان حضرات کو لیکر ایس ایچ او محمد عارف مرزا کی نشاندہی پر لاش تک پہنچے اور اسے بر آمد کیا۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق مقتول کی لاش پر چوٹ کے چھ نشانات تھے۔ [1) سر پر ایک خراش ، چہرے پر ایک خراش، دائیں آنکھ پر سوزش ، دائیں آنکھ کے نتھنے پر خون ، ایک زحم چھاتی پر جہاں سے گولی اندر داخل ہوئی ، ایک زخم چھاتی پر جہاں سے گولی نکلی۔ شواہد مقدمہ کو ثابت کرنے کی ذمہ داری پولیس پر تھی جس نے گیارہ گواہ پیش کیے۔ ظاہر ہے کوئی بھی عینی شاہد تو موجود نہ تھا۔ چنانچہ ساری شہادتیں واقعاتی ہی تھیں۔ ٹیکسی کے مالک شیر خان عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ پولیس کی چالاکی مرزا طاہر حسین کے خلاف اسی روز شام میں ایک اور مقدمہ بھی درج کیا گیا۔ اس مقدمے کے مطابق مرزا نے 17 مئی 1988 ایک اور ٹیکسی کو بھی چھینا تھا۔ دوروز بعد درج کیے گیے اس مقدمہ میں کہا گیا تھا کہ کہ ساجد محمود بھٹی نے بتایا کہ 17 دسمبر انیس سو اٹھاسی کی شام ساڑھے چار بجے مرزا نے اس کی ٹیکسی چکوال روڈ جانے کی غرض سے کرائے پر لی تھی۔ ٹیکسی لینے سے پہلے مرزا نے ڈرائیور کو اپنا پاسپورٹ دکھایا جس پر مرزا طاہر حسین لکھا تھا اور اسکی تصویر لگی تھی۔ مرزا نے سامان کار کی ڈگّی میں رکھا اور پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ جب ٹیکسی ساڑھے پانچ بجے موگا موڑ جی ٹی روڈ پر پہنچی تو مرزا نے پستول نکالا اور ڈرائیور کو گاڑی روکنے کے لیے کہا۔ ڈرائیور نے گاڑی روکی اور چابی مرزا کے حوالے کر دی ۔ گاڑی چھیننے کے بعد مرزا تیزی سے راولپنڈی کی طرف روانہ ہوگیا۔ انہیں ایس ایچ اوصاحب نے جنہوں نے پہلے مقدمات فوری طور پر درج کیۓ تھے یہ مقدمہ دو روز بعد خاص طور پر قتل کا مقدمہ درج ہونے کے بعد درج کیا۔ یہ مقدمہ بھی دفعہ 17حرابہ ، حدود آرڈی نینس 1979 کے تحت ہوا تھا۔ اس مقدمہ میں مجسٹریٹ درجہ اول راولپنڈی نے مرزا کو تین مئی سنہ انیس سو چورانوے کو باعزت طور پر بری کر دیا۔ مرزا کا بیان مرزا کا کہنا ہے کہ وہ 16 دسمبر کو 1988 کو کراچی ایئر پورٹ پر اترے اور ایک دن وہیں اپنی خالہ کے پاس رہے۔ اگلے روز کراچی سے لاہور بذریعہ ٹرین پہنچے ۔ لاہور سے فلائنگ کوچ لیکر راولپنڈی پہنچے۔ ’تقریباً سات بجے کا وقت ہوگا جونہی میں فلائنگ کوچ سے اترا ڈرائیور حضرات نے مجھے گھیرے میں لے لیا۔ مگر جب انہوں نے یہ سنا کہ میں دیہات بھبھڑ ضلع چکوال جانا چاہتا ہوں تو وہ جھجک گئے۔ اسی دوران جمشید مرحوم وہاں آئے اور انہوں نے میری منزل کے بارے میں پوچھا اور یہ پوچھا کہ میں کہاں سے آیا ہوں۔ میں نے کہا میں لندن سے آیا ہوں۔ انہوں نے 500 روپئے کرایہ طے کیا اور مجھے رکنے کو کہا اور کہنے لگے کہ میں ایک اور آدمی کو تلاش کرتا ہوں جو ان کا سفر میں ساتھ دے گا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک اور آدمی کے ساتھ آئے ۔ جمشید ڈرائیور سیٹ پر بیٹھ گئے اور انکا دوست ساتھ والی سیٹ پر۔ تھوڑی دیر گاڑی چلی تھی کہ ڈرائیور اور انکا دوست آپس میں پشتو زبان میں جھگڑنے لگے۔ یہاں تک کہ نوبت ہاتھا پائی تک آگئی۔ جب ڈرائیور نے گاڑی سڑک کے کنارے روکی تو ڈرائیور کے ساتھی نے مجھے بتایا کہ ڈرائیور جمشید مجھ سے بد فعلی کرنا چاہتا ہے۔ جب جمشید نے یہ سنا تو تو اس نے پستول نکال لیا۔انکے درمیان دوبارہ ہاتھا پائی شروع ہوگئی۔ اسی دوران گولی چلی اور ڈرائیور کو لگ گئی۔ ڈرائیور نے فوری طور پر دروازہ کھولا اور باہر نکلنے کی کوشش کی مگر وہ وہیں گر گیا اور ڈرائیور کا ساتھی فرار ہوگیا۔ میں نے جمشید کو سہارا دینے کی کوشش کی مگر وہ زخم کی تاب نہ لا سکا اور دم توڑ گیا۔ میں سمجھا پولیس سٹیشن روات ہی اس علاقے کا پولیس اسٹیشن ہے اور یہاں پہنچا۔ مگر پولیس نے الٹا مجھے ہی اس مقدمے میں پھنسا لیا۔ پولیس نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ وہ اصل مجرم کو تلاش کرنے میں ناکام رہی۔ اٹھارہ اور انیس دسمبر تک پولیس نہ تو مفرور کو تلاش کر سکی نہ ہی ٹیکسی کے مالک کا پتہ چلا۔ اسی لیے انیس دسمبر کی شام تک انہوں نے لاش کا پوسٹ مارٹم تک نہیں کروایا تھا‘۔ نوٹ: سید طاہر حیدر واسطی اس وقت انگلینڈ کے سپریم کورٹ میں سولسٹر ہیں اور اس سے قبل پاکستان میں ایڈووکیٹ رہ چکے ہیں۔ اٹھارہ اور انیس دسمبر انیس سو اٹھاسی کی رات کو دس بجے کے قریب راولپنڈی۔لاہور کے جی ٹی روڈ پر روات اور کہوٹہ کے جنکشن کے نزدیک کیا ہوا کوئی نہیں جانتا ماسوائے عالم الغیب و موجودات اللہ تعالیٰ کے، مقتول جمشید ٹیکسی ڈرائیور کے یا مانچسٹر کے مرزا طاہر حسین کے۔ text: ممنون حسین دوسرے رفیق تارڑ بننے جا رہے ہیں: شرجیل میمن سندھ اسمبلی میں اس وقت ارکان کی تعداد 168 کی بجائے 162 ہے، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 90، متحدہ قومی موومنٹ کے 48، مسلم لیگ ن کے 6، مسلم لیگ فنکشنل کے 10، تحریک انصاف کے 4، نیشنل پیپلز پارٹی جس کو مسلم لیگ ن میں ضم کردیا گیا کے دو ارکان اور ارباب گروپ کا ایک رکن ہے۔ ایم کیو ایم کا ممنون کی حمایت کا اعلان مسلم لیگ فنکشنل پہلے ہی مسلم لیگ ن کی اتحادی جماعت ہے اور ارباب غلام رحیم بھی ان کی حمایت کر چکے ہیں۔ پچھلے دنوں متحدہ قومی موومنٹ نے ممنون حسین کی حمایت کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد سندھ میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کی پوزیشن مستحکم ہوگئی ہے۔ اس سے پہلے سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور موجودہ صدر آصف علی زرداری سندھ اسمبلی سے اکثریتی ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے۔ ان دونوں کا تعلق بھی صوبہ سندھ سے تھا۔ سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے صدارتی انتخابات کے بعد اسمبلی کے اجلاس کے بھی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ بائیکاٹ کی وجہ غیر ذمے دارانہ رویے اور یک طرفہ فیصلہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ چند لوگوں کی وجہ سے سپریم کورٹ کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ شرجیل میمن کے مطابق ممنون حسین دوسرے رفیق تارڑ بننے جا رہے ہیں اور ان کا ریموٹ کنٹرول میاں نواز شریف کے ہاتھ میں ہوگا۔ مسلم لیگ ن نے سندھ میں صدارتی امیدوار کے لیے ایم کیو ایم کی حمایت تو حاصل کر لی ہے، لیکن تنظیمی طور پر اسے مشکلات اور دباؤ کا سامنا ہے۔ مرکزی قیادت کے فیصلے سے خاص طور پر سندھی قیادت ناراض نظر آتی ہے، جس نے قیادت کو مشورہ دیا ہے کہ ایم کیو ایم سے اتحاد نہ کیا جائے کیونکہ اس سے ان کی ساکھ متاثر ہوگی۔ مسلم لیگ کی انتخابی اتحادی قوم پرست جماعتوں نے بھی شکوہ کیا ہے کہ ان سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کے صدارتی انتخابات میں شریک امیدوار ممنون حسین اور جسٹس ریٹائرڈ وجیھ الدین احمد صوبہ سندھ سے تعلق رکھتے ہیں تاہم دونوں کی جماعتوں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں اور ان کا تکیہ اتحادیوں پر ہے۔ text: بھوپال میں مسلم برادری اپنے مذہبی عقائد میں مداخلت پر ناراض ہے جانوروں کے حقوق اور تحفظ کے لیے کام کرنے والے معروف ادارے پيپلز فار دی ایتھیكل ٹریٹمنٹ آف اینملز (پیٹا) کے بعض ارکان کو شہر کی مسلم برادری کے غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ ہوا یوں کہ اس تنظیم کی ایک رکن نظیر ثریا نے شہر کی معروف تاج المسجد کے علاقے میں عید کے تہوار پر گوشت کے بجائے سبزی کے ساتھ منانے کا پیغام دیا۔ انھوں نے لوگوں سے درخواست کی کہ لوگوں کو گوشت خوری چھوڑ کر سبزی خور بننا چاہیے۔ یہ پیغام دیتے وقت نظیر ثریا پتیوں سے تیار کیے گئے برقعے میں ملبوس تھیں۔ مقامی لوگوں نے ان کی زبردست مخالفت کی۔ مسلم برادری کا کہنا تھا کہ عید پر بکرے کی قربانی کی مخالفت کرنے سے ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قربانی ان کا مذہبی حق ہے جس میں کسی بھی طرح کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ مسلمانوں کو عید پر قربانی نہ کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے مذہب میں مداخلت بھوپال شہر کے مسلمانوں کا ایک گروہ ان کے اس بیان سے سخت ناراض ہو گیا اور مشتعل ہجوم نے نظیر ثریا پر حملہ کرنے کی کوشش کی، تاہم وہاں پر موجود پولیس نے اسے روک دیا۔ اس اپیل کے خلاف احتجاج کی قیادت کرنے والے شاہد علی کا کہنا تھا: ’جب ہم کسی کے مذہب کے خلاف نہیں بولتے تو ہمارے مذہب میں بھی کسی کو مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں۔‘ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ انتظامیہ نے مسلم اکثریت والے تاج المسجد کے علاقے میں پیٹا جیسی تنظیم کو اس طرح کا پروگرام کرنے کی اجازت کیوں دی؟ بھارت میں جانوروں سے متعلق اس تنظیم کی سربراہ پوروا جوشي پورا نے نظیر ثریا پر حملے کی کوشش کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا ’یہ شرمناک بات ہے کہ ہمارے رکن جو تشدد کو روکنے کے لیے کام کر رہے ہیں انھیں ہی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔‘ بھارت کے شہر بھوپال میں مسلم برادری اس بات پر برہم ہے کہ اسے عید الاضحیٰ کے موقعے پر گوشت کی بجائے سبزی کھانے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ text: بریڈ پٹ اور اینجلینا جولی نے بہت سے فلاحی اور انسانی ہمدردی کے امور پر کام کیا ہے ترجمان نے بتایا کہ ابھی شادی کی حتمی تاریخ کا تعین نہیں کیا گیا، انہوں نے منگنی کو ’مستقبل کا وعدہ‘ کہا۔ یہ جوڑا سنہ دو ہزار پانچ سے ہالی وڈ کی معروف ترین شخصیات میں سے ہیں۔ ددنوں کے چھ بچے ہیں جن میں سے تین کو انہوں نےگود لیا ہے۔ اداکار جان وہٹ اور اداکارہ مارشلین برٹرینڈ کی بیٹی انجلینا جولی سنہ انیس سو ننانوے میں فلم ’گرل انٹرپٹڈ‘ کے لیے آسکر جیت چکی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے بہت سی کامیاب فلمیں میں کام کیا ہے جن میں ’مسٹر اینڈ مسز سمتھ‘ شامل ہے جہاں ان کی ملاقات بریڈ پٹ سے ہوئی تھی۔ انجلینا جولی اس سے پہلے اداکار جونی لی ملر اور بلی باب تھرٹن سے شادی کر چکی ہیں۔ دوسری جانب بریڈ پٹ بھی بہت سی کامیاب فلمیں بنا چکے ہیں جن میں ’اوشنز الیون‘ اور ’سیون‘ شامل ہیں۔ حال ہی میں انہیں مبصرین کی پسندیدہ فلموں ’منی بال‘ اور ’ٹری آف لائف‘ میں بھی دیکھا گیا۔ بریڈ پٹ کی اداکارہ گونتھ پالٹرو کے ساتھ ایک معروف رشتہ اور اداکارہ جینیفر اینسٹن کے ساتھ شادی رہ چکی ہے۔ بریڈ پٹ اور اینجلینا جولی نے بہت سے فلاحی اور انسانی ہمدردی کے امور پر کام کیا ہے۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات ہالی وڈ کے معروف اداکار بریڈ پٹ اور انجلینا جولی کی ترجمان نے ان کی منگنی کی تصدیق کر دی ہے۔ text: تحقیق میں بتایا گیا کہ گھریلو نفسیاتی تشدد سے دس تا 49 فیصد بچوں میں مختلف قسم کے نفسیاتی مسائل پیدا ہونے کا امکان رہتا ہے یہ بات پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنسز کے حالیہ شمارے میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں بتائی گئی ہے جس کے مطابق والدین کی جانب سے نفسیاتی تشدد کا شکار ہونے والے دس تا 49 فیصد بچوں میں مختلف قسم کے نفسیاتی مسائل پیدا ہونے کا امکان رہتا ہے۔ اس موضوع پر دنیا کے مختلف ممالک میں بھی تحقیقات کی گئی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے ساتھ والدین کی زبانی بدسلوکی اور گالم گلوچ کے اثرات ان کی نفسیات پر ایسے ہی پڑ سکتے ہیں جیسے جنگ سے واپس آنے والے فوجیوں پر پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر (PTSD) کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں والدین بچوں کو ڈانٹنا، گالم گلوچ سے ان کی تواضع کرنا، بلکہ مارنا پیٹنا تک اپنا حق سمجھتے ہیں، اور یہ کہا جاتا ہے کہ بچوں پر اگر سختی نہ کی جائے تو وہ بگڑ سکتے ہیں۔ ’کھلاؤ سونے کا نوالہ، دیکھو شیر کی نگاہ سے‘ جیسے ’اقوالِ زریں‘ اسی نقطۂ نظر سے تشکیل دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں پر والدین کا جسمانی یا نفسیاتی تشدد گھریلو معاملہ بلکہ ان کی تربیت کا حصہ سمجھا جاتا ہے، اور اس میں باہر کے کسی شخص کی مداخلت گوارا نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے تشدد کو نہ تو کہیں رپورٹ کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کا کہیں ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ تحقیق کے دوران سرکاری اور نجی سکول کے 13 سے 17 سالہ بچوں کو خصوصی فارم دیے گئے جرنل آف میڈیکل سائنسز میں شائع ہونے والی تحقیق سیدہ فریحہ ارم رضوی نجمہ نجم نے کی ہے۔ فریحہ رضوری نے بی بی سی کو بتایا: ’بچوں پر ڈانٹ پھٹکار، گالم گلوچ، توہین اور بے رخی جیسے برتاؤ سے شدید اثرات پڑتے ہیں، جن میں اضطراب، ڈپریشن، منشیات کی لت، جارحانہ و مجرمانہ رویہ اور قانون اور قواعد و ضوابط کو خاطر میں نہ لانا وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’اس سے بچوں کی تعلیمی کارکردگی پر بھی براہِ راست اثر پڑتا ہے، اور ان بچوں کے تعلیم ادھوری چھوڑنے کی شرح بھی عام بچوں کے مقابلے پر کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ’ایسے بچے نہ صرف اپنے خاندان پر معاشرے پر بھی بوجھ بن سکتے ہیں۔‘ تحقیق میں صرف ایسے بچوں کا مطالعہ کیا گیا جو اپنے دونوں والدین کے ساتھ رہتے تھے۔ فریحہ رضوی کا خیال ہے کہ صرف ماں یا صرف باپ کے ساتھ رہنے والے بچوں کی حالت اور بھی بری ہو سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ بات اس لیے اور بھی تشویش ناک ہے کہ ’ہمارے ملک میں نفسیاتی امراض کے علاج کے لیے مناسب سہولیات موجود نہیں ہیں، جو خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں کے لیے اور بھی کم ہیں۔‘ تحقیق کے دوران سرکاری اور نجی سکول کے 13 سے 17 سالہ بچوں کو خصوصی فارم دیے گئے جن میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی والدہ اور والدہ کی جانب سے کی جانے والی پانچ اقسام کی بدسلوکیوں کی تفصیل بیان کریں۔ جوابات کے سائنسی مطالعے اور بچوں کے نفسیاتی تجزیے سے معلوم ہوا کہ باپ کا دہشت خیز رویہ اور ماں کی جانب سے بدکلامی بچوں میں سب سے زیادہ نفسیاتی مسائل کا باعث بنتے ہیں۔ تحقیق میں بچوں پر کی جانے والی شدید بدسلوکی میں ماں کا حصہ 15 فیصد اور باپ کا 17 فیصد پایا گیا۔ تحقیق میں والدین کی تعلیم کو بھی مدِنظر رکھا گیا تھا، تاہم معلوم ہوا کہ کم پڑھے لکھے اور زیادہ پڑھے لکھے دونوں اقسام کے والدین بچوں پر نفسیاتی تشدد کرتے ہیں۔ البتہ کم پڑھے لکھے اور کم آمدن والے والدین بچوں کو مارتے پیٹتے زیادہ ہیں۔ فریحہ رضوی نے کہا کہ یہ تحقیق صرف شہری بچوں پر کی گئی ہے، لیکن دیہات اور دور دراز علاقوں میں اسی قسم کی تحقیق کی جائے تو شاید کہیں زیادہ منفی نتائج سامنے آئیں گے۔ بچوں کے ساتھ بدسلوکی صرف غیروں کی جانب سے نہیں ہوتی، بلکہ بچے سب سے زیادہ خود اپنے والدین کے ہاتھوں بدسلوکی کا نشانہ بنتے ہیں، اور اس کے بچوں پر ایسے دیرپا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو ان کی شخصیت کو بری طرح توڑ پھوڑ سکتے ہیں۔ text: انٹرپول نے ایسے افراد کی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں کہا جو جہاد میں شمولیت کے لیے کروز شپس کے ذریعے سفر کرتے ہیں عالمی پولیس کی تنظیم انٹرپول کا کہنا ہے کہ کئی افراد عراق اور شام میں شدت پسند گروہوں کے شانہ بشانہ لڑنے کی غرض سے کروز شپس کے ذریعے ترکی پہنچے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے کہ یہ ایک بڑا مسئلہ بن جائے، کروز شپس میں سفر کرنے والوں کی ہوائی جہازوں میں سفر کرنے والوں کی طرح سخت چیکنگ کی جائے۔ تاہم انٹرپول نے ایسے افراد کی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں کہا جو جہاد میں شمولیت کے لیےکروز شپس کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔ مناکو میں بات کرتے ہوئے انٹرپول کے سربراہ رونلڈ نوبل نے کہا کہ ملکوں کو چاہیے کہ وہ ہوائی سفر کرنے والے تمام مسافروں کے بارے میں معلومات لیں اور اس کے ساتھ بحری جہازوں سے سفر کرنے والوں پر بھی سخت نظر رکھیں۔ ترکی کے حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں سینکڑوں مبینہ غیر ملکی شدت پسندوں کو ہوائی اڈوں اور بس سٹیشنوں سے ملک بدر کیا گیا ہے۔ انٹرپول کے انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر پیئر شینٹ ہیلیئر نے امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کو بتایا کہ شدت پسند اب ہوائی جہازوں کی بجائے دیگر طریقوں سے تصادم والے علاقوں کی جانب سفر کر رہے ہیں۔ ’ان کو معلوم ہے کہ ہوائی اڈوں پر نگرانی سخت ہوتی ہے اس لیے وہ کروز شپس میں سفر کرتے ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا: ’کروز شپس کے مختلف بندر گاہوں پر رکنے کی وجہ سے یہ شدت پسند سکیورٹی ایجنسیوں کی نظر میں آئے بغیر شام اور عراق تک پہنچ سکتے ہیں۔ ایسے شواہد بھی ہیں کہ جنگجو خاص طور پر یورپ سے آنے والے، جہاد میں حصہ لینے کے لیے ترکی کے ساحلی شہر ازمیت پہنچتے ہیں۔‘ انٹرپول کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کی جانب سے کروز شپس کا استعمال گذشتہ تین ماہ ہی سے دیکھنے میں آیا ہے۔ اقوام متحدہ کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق شام اور عراق میں 80 ممالک سے تعلق رکھنے والے 15 ہزار شدت پسند دولت اسلامیہ اور دیگر شدت پسند گروہوں کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔ انٹرپول کا کہنا ہے کہ ان شدت پسندوں کو روکنے کے لیے ممالک میں مزید معلومات کا تبادلہ ہونا اہم ہے۔ انٹرپول کا کہنا ہے کہ جہاد میں حصہ لینے کے خواہش مند مشرق وسطیٰ میں تصادم والے علاقوں میں بحری جہازوں کے ذریعے پہنچتے ہیں۔ text: سمارٹ فون بنانے والی دنیا کی دو بڑی سرکردہ کمپنیاں دانشورانہ حق ملکیت کی قانونی جنگ لڑتی رہی ہیں عدالت نے سام سنگ پر یہ ہرجانہ ایپل کے دو پیٹنٹس کی خلاف ورزی کے جرم میں لگایا ہے۔ جمعے کو کیلیفورنیا میں سین جوز کی وفاقی عدالت یہ فیصلہ سنایا ہے۔ ایک مہینے تک جاری رہنے والے اس مقدمے میں ایپل نے الزام لگایا تھا کہ سام سنگ نے سمارٹ فون کی مخصوص تکنیک کے ان کے پیٹنٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔ عدالت نے یہ بھی فیصلہ سنایا کہ ایپل نے بھی سام سنگ کے بعض پیٹنٹس میں دخل اندازی کی ہے اور اسے بھی ایک لاکھ 58 ہزار ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے کے لیے کہا گیا۔ سام سنگ کی جانب سے اپنے پانچ پیٹنٹس کی خلاف ورزی کی نشاہدہی کے بعد ایپل نےاس پر 2.2 ارب ڈالر ہرجانے کا دعوی کیا تھا۔ ایپل کے جن پیٹنٹس میں سام سنگ نے دخل اندازی کی ہے ان میں ’سلائڈ ٹو ان لاک‘ کی تکنیک شامل ہے۔ ایپل نے سام سنگ پر یہ الزام لگایا ہے کہ سام سنگ نے ان کے سلائٹ ٹو ان لاک تکنیک کی خلاف ورزی کی ہے بہر حال سام سنگ نے کسی قسم کی خلاف ورزی سے انکار کرتے ہوئے ایپل پر اپنے سمارٹ فون کے دو پیٹنٹس میں دخل کرنے کا الزام لگایا اور 60 لاکھ ڈالر کا دعوی پیش کیا۔ اس نے کہا کہ ایپل نے ان کے کیمرے اور ویڈیو ٹرانسمیشن سے متعلق دو پیٹنٹس کی خلاف ورزی کی ہے۔ سینٹا کلارا یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر برائن لوو نے کہا: ’ہر چند کہ یہ فیصلہ معمول کے معیار سے بڑا ہے لیکن اس فتح کو اپیل کی جیت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ایپل نے جتنا دعوی پیش کیا تھا یہ رقم اس کا 10 فی صد ہے اور اس کیس کو لڑنے میں ایپل نے جتنی رقم خرچ کی ہے یہ اس سے بہت زیادہ بھی نہیں ہے۔‘ سمارٹ فون بنانے والی دنیا کی ان دو بڑی سرکردہ کمپنیوں میں دانشورانہ حق ملکیت کی قانونی لڑائی کے ضمن میں یہ تازہ فیصلہ ہے۔ دونوں کمپنیاں برسوں سے دنیا بھر میں پیٹنٹ کے سلسلے میں قانونی جنگ لڑتی رہی ہیں۔ دو سال قبل ایک عدالت نے سام سنگ سے کہا تھا کہ وہ ایپل کو 9300 لاکھ ہرجانے کے طور پر پیش کرے کیونکہ اس نے ایپل کی تکنیک کا استعمال کیا تھا تاہم اس فیصلے کو سام سنگ اب تک چیلنج کر رہی ہے۔ امریکہ کی ایک عدالت نے موبائل بنانے والی معروف کمپنی سام سنگ کو حکم دیا ہے کہ وہ ایپل کو 11 کروڑ 96 لاکھ ڈالر ہرجانہ ادا کرے۔ text: یہ مقابلے چین کے دارلحکومت بیجنگ میں پانچ روز تک ستائیس سے اکتیس مارچ تک جاری رہے۔ ماڈل یونائٹڈ نیشنز نامی ان مقابلوں کی تاریخ میں پہلی بار جنوبی ایشیا کے کسی ملک کی یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔ اس بین الاقوامی مقابلے کا اہتمام اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان کی سرپرستی میں قائم ورلڈ ماڈل یونائٹڈ نیشنز کانفرنس نے کیا تھا جس میں دنیا بھر سے چودہ سو سے زیادہ طلبا و طالبات شریک تھے۔ اقوام متحدہ کی طرز پر ہونے والے یہ پندرہویں بین الاقوامی مقابلے تھے جن میں برطانیہ سے اوکسفرڈ، کیمبرج، لندن اسکول آف اکنامکس، کنیڈا سے میک گل یونیورسٹی اور امریکہ سے ہارورڈ، ایم آئی ٹی اور برکلے سمیت دنیا کے ایک سو پچہتر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالبعلموں نے حصہ لیا۔ اس مباحثہ میں پاکستانی وفد لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمس) کے آٹھ طالبعلموں پر مشتمل تھا۔ ان طلبہ نے اقوام متحدہ کے آٹھ مختلف اداروں جیسے عالمی ادارہ صحت، یو این ڈی پی وغیرہ کے طور پر کام کیا اوراقوام متحدہ کی طرز پر قراردادیں تحریر کیں۔ اس مقابلہ میں ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ پاکستان کے وفد کو بھارت کے نمائندہ وفد کے طور پر کام کرنے کے لیے کہا گیا جسے مندوبین نے خاصی دلچسپی سے دیکھا۔ لمس کے ہاشم زیدی، احسن خان شیروانی اور رابعہ انعام کو سفارتکاری، مقررانہ صلاحیتوں اور حالات حاظرہ پر مبنی معلومات کی بنیاد پر انفرادی انعامات سے بھی نوازا گیا۔ وفد کے دوسرے چار ارکان میں سید حسن اکبر، قاضی محمد صدیقی، سروش ہارون اور سید احمد زیدی شامل تھے۔ پاکستانی وفد کے ترجمان عمار ملک نے بتایا کہ ٹیموں کی مجموعی کارکردگی کی بنیاد پر جن تین تعلیمی اداروں کو سرکردہ وفد کا اعزاز دیا گیا ان میں لمس کے علاوہ امریکہ کے کالج آف ولیم اینڈ میری اور یو ایس ملٹری اکیڈمی ویسٹ پوائنٹ شامل تھے۔ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ہونے والے طلبہ کے ایک بین الاقوامی مقابلہ میں لاہور کی لمس یونیورسٹی کے آٹھ طلبا و طالبات کو غیرمعمولی (یا سرکردہ) وفد کے اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ text: انتخابات میں بےقاعدگیوں اور دھاندلی کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں اور اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر تصاویر اور ویڈیو گردش کر رہی ہیں۔ پاکستانی ووٹروں نے کیا سوچا، کیا دیکھا؟ ذیل میں ان کے تجربات و تاثرات پیش کیے جا رہے ہیں۔ عائشہ شوکت، عمر 42 سال، سماجی کارکن، اسلام آباد لوگوں کو بلٹ ٹرینوں کی نہیں، بلکہ خوراک، صحت، تعلیم اور پانی کی فکر ہے میں نے اور میرے تمام خاندان نے عمران خان کو ووٹ دیا۔ نواز شریف کی فتح نے ہمیں حیران نہیں کیا، لیکن ہمارا خیال تھا کہ انھیں اتنی زیادہ نشستیں نہیں ملیں گی۔ اسی طرح ہمیں عمران خان کی جیت کی بھی توقع نہیں تھی، لیکن میں امید کر رہی تھی کہ وہ آدھ درجن مزید نشستوں پر کامیاب ہو جائیں گے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ اس وقت دھاندلی کی بہت باتیں ہو رہی ہیں، اگرچہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دھاندلی نہیں دیکھی لیکن لاہور میں میرے خاندان والوں نے دیکھی ہے۔ میرے کزن اور چچی کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا گیا۔ ان سے شناخت مانگی گئی اور ان کے نام کے آگے انگوٹھے لگوائے گئے لیکن پھر انھیں ووٹ کی پرچی نہیں دی گئی۔ ان کے ارد گرد تمام خواتین کا یہی حال تھا۔ وہ خاصی دیر تک پرچی کے لیے شور مچاتی رہیں لیکن آخرکار گھروں کو چلی گئیں۔غالباً کسی اور نے ان کی جگہ ووٹ ڈال دیا تھا۔ یہ اس علاقے میں ہوا جہاں سے مسلم لیگ ن کا امیدوار جیت گیا تھا۔ مجموعی طور پر میں خوش ہوں کہ پاکستان نے پیپلزپارٹی کو گھر بھیج دیا۔ یہ وہ نتیجہ نہیں ہے جس کی مجھے امید تھی تاہم کوئی بھی متبادل پیپلزپارٹی سے بہتر ہے۔ بھٹو خاندان اب پاکستان کے لیے غیر متعلق ہو گیا ہے۔ نواز شریف کے سامنے بہت بڑا چیلنج ہے۔ ہر چیز کا دارومدار اس بات پر ہے کہ انھوں نے ماضی سے سبق سیکھا ہے یا نئی حقیقتوں سے آگاہ ہوئے ہیں یا نہیں۔ لوگوں کو بلٹ ٹرینوں کی نہیں، بلکہ خوراک، صحت، تعلیم اور پانی کی فکر ہے۔ نواز لیگ نے ایک بےصبر پاکستان میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اگر انھوں نے کارکردگی نہیں دکھائی تو انھیں بھی پانچ برسوں میں دروازہ دکھا دیا جائے گا۔ فہد عزیز، طالب علم، لاہور اگر نواز لیگ قومی سطح پر اپنا کام کرتی رہی تو یہ ملک کے لیے بہت بہتر ہو گا میں نے مسلم لیگ نواز کو ووٹ دیا، اور میں نتائج سے بہت خوش ہوں۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ انتخابات پوری طرح منصفانہ تھے، لیکن یہ ماضی میں ہونے والی دھاندلیوں کے مقابلے پر بہت بہتر تھے۔ میں نے بہتر پاکستان کے لیے ووٹ دیا۔ میں نے گذشتہ پانچ برسوں میں مسلم لیگ نواز کی صوبائی حکومت میں بڑی ترقی دیکھی ہے۔ لاہور کی سڑکوں پر سفر کرنا پہلے سے مختلف تجربہ ہے۔ اکثر سڑکوں کی مرمت کی جا چکی ہے اور نئی میٹرو بس سے ہزاروں مسافروں کو فائدہ ہو رہا ہے۔ طلبہ کو میرٹ پر لیپ ٹاپ اور شمسی لیمپ دیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے اس قدر آرٹ کی نمائشیں کبھی نہیں ہوئیں۔ اگر یہ جماعت قومی سطح پر اپنا کام کرتی رہی تو یہ ملک کے لیے بہت بہتر ہو گا۔ میں بطورِ طالبِ علم پہلے سے زیادہ نواز لیگ کی تعلیمی اصلاحات کا متمنی ہوں۔ کشور گلزار، لیکچرر، اسلام آباد پیپلزپارٹی کے علاوہ کوئی اور جماعت میرے ووٹ کی حقدار نہیں ہے حالیہ انتخابات نے پاکستان بھر میں ووٹروں کو سوچ بچار کرنے اور سیاسی نظریات کی تصدیق کا موقع فراہم ہے۔ بائیں بازو کے ووٹر اپنے آپ کو الگ تھلگ اور مایوس محسوس کر رہے ہیں۔ مذہب کی آزادی، عورتوں کو اختیارات دینے اور انتہاپسندی کی مذمت مجھے بہت عزیز ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ پیپلزپارٹی وہ واحد جماعت ہے جس کا ان معاملات پر واضح موقف ہے۔ مایوس کن کارکردگی کے باوجود میں پیپلزپارٹی کے نظریاتی موقف کی وجہ سے اس کی حمایت کرتی ہوں۔ کوئی اور جماعت میرے ووٹ کی حقدار نہیں ہے۔ جاو، عمر 24 سال، کراچی ہم نے جو بےقاعدگیاں دیکھیں وہ چونکا دینے والی تھیں۔ میرے پولنگ سٹیشن کو آٹھ بجے کھلنا تھا لیکن وہ ساڑھے گیارہ بجے کھلا۔ دوسرے پولنگ سٹیشن تین بجے تک نہیں کھلے اور کچھ تو کھلے ہی نہیں۔ پولنگ سٹیشنوں پر کوئی بھی موجود نہیں تھا جو لوگوں کی رہنمائی کر سکتا۔ جب ووٹنگ شروع ہوئی تو قطاریں انتہائی لمبی تھیں۔ بعض لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے 12 گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ میں تو پھر بھی جیسے تیسے ووٹ دے دیا لیکن بہت سے نہیں دے پائے۔ میری ایک دوست نے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ جب اس نے دیکھا کہ بیلٹ بکس نہیں پہنچے تو اس نے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے بکسوں کی ترسیل خود کروائی۔ بدنظمی اور بدعنوانی کے اور بھی بہت سے واقعات ہوئے جن کی ویڈیو اور تصویریں آن لائن پوسٹ کی گئی ہیں۔ یہ عمران خان کے ووٹ تھے جو ضائع ہوئے۔ صرف یہ بات اچھی تھی کہ لوگ بہت منظم تھے۔ وہ اتنے پرعزم تھے کہ انھوں نے ووٹ ڈالنے کے لیے گھنٹوں انتظار کیا۔ ناصر محمود، لیکچرار ریاضی، بورے والا توانائی کے بحران نے معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ سابق حکومت کے ہارنے کی بڑی وجہ یہی ہے میں انتخابات کے نتائج سے بہت مطمئن ہوں۔ سابق حکومت بہت سے معاملات پر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی۔ توانائی کے بحران نے معیشت کا بیڑا غرق کر دیا۔ میرا خیال ہے کہ ان کے ہارنے کی بڑی وجہ یہی ہے۔ نواز لیگ نے ماضی میں معاشی میدان میں اچھی کارکردگی دکھائی۔ انھوں نے سڑکیں اور بنیادی ڈھانچہ تعمیر کیا اور صنعتیں لگائیں۔ انھیں سب سے زیادہ تعاون کاروباری طبقے سے ملا، اور یہی وہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ معیشت کو کس طرح مستحکم کیا جائے۔ جلد ہی یہ پاکستان کو معاشی ترقی اور سماجی بہتری کی راہ پر گامزن کر دیں گے۔ اس کے علاوہ عمران خان کی تحریکِ انصاف مضبوط متبادل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ وہ مرکزی حکومت پر بہتر کارکردگی کے لیے دباؤ ڈالے گی۔ پاکستان میں 11 مئی کے انتخابات کے بعد ایک نئی حکومت کی راہ ہموار ہو گئی ہے اور نواز شریف ملک کی تاریخ میں پہلی بار تیسری مدت کے لیے وزیرِاعظم بننے جا رہے ہیں۔ text: بچیوں کی پیدائش کینیڈا میں نہیں بلکہ امریکہ کی ریاست مونٹانا کے ایک ہسپتال میں ہوئی ہے۔ کینیڈین خاتون کیرن جیپ اور ان کے شوہر جے پی کو اس ولادت کے لیے کینیڈا میں کسی ہسپتال میں جگہ نہ مل سکی جس کے باعث جوڑے کو امریکی ریاست مونٹانا کے ایک ہسپتال لے جایا گیا جہاں چاروں بچیاں آپریشن کے ذریعے پیدا ہوئیں۔ چاروں بچیاں کیونکہ مقررہ وقت سے دو مہینے پہلے پیدا ہوئیں ہیں اس لیے انہیں بچوں کے انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا ہے۔ اوٹم، بروک، کیلیسا اور ڈالیا نامی یہ بچیاں اچھی حالت میں ہیں اورانہیں ’گریٹ فال‘ نامی ہسپتال میں رکھا گیا ہے۔ ان بچیوں کی پیدائش کے لیے کینیڈا کے شہر کیلگری کے فٹ ہل میڈیکل سینٹر میں ڈاکٹروں اور جگہ کا انتظام کیا گیا تھا لیکن کئی بچوں کے وقت سے پہلے پیدا ہونے کی وجہ سے وہاں بچوں کے آئی سی یو میں جگہ نہ رہی۔ مذکورہ بچیوں کے وزن ایک اعشاریہ صفر سات کلو سے ایک اعشاریہ تینتیس کلو کے درمیان ہیں پھر بھی انہیں مصنوعی طریقے سے سانس لینے کی ضرورت نہیں پڑ رہی ہے۔ یہ حمل قدرتی طریقے سے ہوا تھا۔ ڈاکٹروں کا اس بارے میں کہنا ہے کہ قدرتی طریقے سے حمل ہونے کی صورت میں ایک جیسی شکل کے چار بچے پیدا ہونے کا امکان ایک کروڑ تیس لاکھ میں ایک بار ہوتا ہے۔ مسز جیپ نے کینیڈین اخباروں ’گلوب‘ اور ’میل‘ کو بتایا کہ پچھلے دو ہفتے ان کے لیے انتہائی مشکل تھے۔ جیپ نے کہا: ’ہم ایک دوسرے ملک میں ہیں اور اپنے آئندہ دنوں کو کسی نہ کسی طرح گذارلینا چاہتے ہیں۔ ہم جلد سے جلد واپس جانا چاہتے ہیں۔‘ اس نے مزید کہا کہ وہ جلد سے جلد کیلگری واپس جانا چاہتے ہیں لیکن بچیوں کو مزید چار سے چھ ہفتے ہسپتال میں گذارنے پڑیں گے۔ اس جوڑے کے ایک رشتے دار نے گلوب اور میل اخبار کو بتایا ہے کہ اپنی متوقع بڑی فیملی کے لیے ایک بڑا گھر ڈھونڈ رہے ہیں۔ ان چاروں بچوں کا ایک دو سالہ بھائی بھی ہے جس کا نام سائمن ہے۔ ایک کینیڈین عورت نے چار ایک جیسی شکل و صورت کی بچیوں کو جنم دیا ہے جو میڈیکل سائنس کی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ ہے۔ text: پاکستان کے ایک حساس ادارے نےافغان سرحد کےقریب صوبہ بلوچستان میں کام کرنے والے عالمی امدادی اداروں کومتنبہ کیا ہے کہ طالبان خود کش حملہ آور انہیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے کوئٹہ میں ترجمان بابر بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ افغان کمشنریٹ کی طرف سے بین الاقوامی امدادی اداروں کو ایک خط جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ اور طالبان ان تنظیموں کے دفاتر یا کارکنوں پر حملے کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ علاقے میں کام کرنےوالی امریکی اور برطانوی امدادی تنظیموں کو بھی حملے کے خطرے سے متنبہ کیا ہے۔ اس خط کے بعد ان اداروں نے اپنے کارکنوں سے کہا ہے کہ وہ اس وقت تک دفتروں کو نہ جائیں جب تک انہیں آنے کا کہا نہ جائے۔ بابر بلوچ نے کہا ہے کہ ان اداروں کے حکام اس وقت سکریٹری داخلہ سے بات چیت کر رہے ہیں تا کہ آئندہ لائحہ عمل تیار کیا جا سکے۔ یہ مذاکرات اتوار کے روز بھی جاری رہیں گے۔ بابر بلوچ نے بتایا ہے کہ ان تنظیموں کے کارکنوں کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے اور اس حوالے سے یہ مذاکرات پر منحصر ہے کہ کن اقدامات کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ افغانستان میں کئی بین الاقوامی امدادی ادارے کام کر رہے ہیں اور ان میں بیشتر کے دفاتر پاکستان کے شہروں کوئٹہ اور پشاور میں بھی قائم ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی ایک خاتون رکن کو غزنی کے قریب حملہ کر کے ہلاک کردیا گیا تھا جس کے بعد ادارے نے اپنی سرگرمیاں معطل کر دی تھیں۔ اس کے علاوہ افغانستان کے جنوبی علاقوں میں بین الاقوامی اداروں کے دفاتر اور کارکنوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ القاعدہ اور طالبان کی یہ دھمکیاں افغانستان میں وقتاً فوقتاً سننے میں آتی رہی تھیں لیکن پاکستان میں ان اداروں کو اس طرح کی دھمکیاں پہلی مرتبہ دی گئی ہیں جس کا حکومت نے سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے اور اس بارے میں اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ انہیں ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ بلوچستان کے پناہ گزین کیمپ میں رہنے والا ایک طالبان جنگجو ان امدادی تنظیموں کوخود کش حملے کا نشانہ بنا سکتا ہے جن میں امریکی اور برطانوی باشندے کام کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد تقریباً تیس لاکھ افغانوں نے پاکستان میں پناہ لی تھی۔ان میں سے زیادہ ترصوبہ بلوچستان اور سرحد کے مہاجر کیمپوں میں تھے۔ لیکن کابل میں طالبان کے خاتمے اور کرزئی حکومت بننے کے بعد بیشتر پناہ گزین واپس افغانستان جا چکے ہیں تاہم کافی تعداد میں پناہ گزین اب بھی صوبہ بلوچستان میں موجود ہیں۔ دریں اثناء امریکی حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان کے جنوب میں موجود امریکی فوج پر حملوں میں مزید تیزی آگئی ہے۔ ایک امریکی ترجمان کا کہنا ہے کہ حملوں میں تیزی کی وجہ امریکی فوج کے طالبان کے خلاف جارحانہ آپریشن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان ملیشیا پاکستان کے بجائے ملک کے اندر ہی سے کارروائیاں کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتحادی فوجیں افغانستان کے شمال میں بھی فوجیوں کی تعداد میں اضافے کے بارے میں سوچ بچار کر رہی ہے۔ جمعہ کی رات امریکی فوجیوں اور افغان ملیشیا کے درمیان جھرپ میں سترہ افغان مارے گئے۔ پاکستان میں القاعدہ اور طالبان نے بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے کارکنوں پر حملوں کی دھمکی دی ہے۔ اس بارے میں حکومت نے بھی ان تنظیموں کو محتاط رہنے کی تاکید کی ہے۔ text: ہواوے کے نئے ڈیزائن والے سمارٹ فونز پر گوگل کی بعض ایپس نہیں چلیں گے اس طرح ہواوے کے نئے ڈیزائن والے سمارٹ فونز پر گوگل کی بعض ایپس نہیں چلیں گی، جو کمپنی کے لیے ایک دھچکہ ہے۔ خیال رہے کہ یہ اقدامات امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ہواوے کو ان کمپنیوں کی فہرست میں ڈالے جانے کے بعد کیے گئے ہیں جن کے ساتھ امریکی کمپنیاں اس وقت تک تجارت نہیں کر سکتیں جب تک کہ وہ لائسنس حاصل نہ کر لیں۔ گوگل نے ایک بیان میں کہا کہ وہ صدارتی حکم کی تعمیل کر رہے ہیں اور اس کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے ہواوے بحران: امریکہ اور چین کے درمیان نئی سرد جنگ؟ چینی کمپنی ہواوے، روبوٹ کا بازو اور ہیروں کا شیشہ امریکہ: غیر ملکی ٹیلی کام کمپنیوں کے خلاف اقدامات پاکستان میں مقبول، دنیا میں مشکوک ہواوے کے صارفین کے لیے اس کا کیا مطلب ہے؟ ہواوے کے موجودہ صارفین تاحال ایپس اور سکیورٹی فکسز اپ ڈیٹ کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ گوگل پلے سروسز بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن جب گوگل رواں سال اپنے اینڈرائڈ او ایس کا نیا ورژن لانچ کرے گا تو وہ ہواوے کے فونز پر دستیاب نہیں ہوگا۔ مستقبل کے ہواوے فون سیٹ میں اب یوٹیوب اور گوگل میپس جیسے ایپس نہیں ہو سکتے ہیں۔ اس کے باوجود ہواوے اینڈروئڈ آپریٹنگ سسٹم کا اوپن سورس لائسنس کے ذریعے استعمال کر سکتا ہے۔ اب ہواوے کیا کرے گا؟ گذشتہ بدھ کو ٹرمپ انتظامیہ نے ہواوے کو ان کمپنیوں کی فہرست میں شامل کر دیا تھا جو بغیر حکومت کی منظوری کے امریکی کمپنیوں سے ٹیکنالوجی حاصل نہیں کر سکتیں۔ اس ’اینٹیٹی لسٹ‘ میں شامل کیے جانے کے بعد اپنے پہلے بیان میں ہواوے کے چیف ایگزیکٹو رین زینگ فے نے سنیچر کو جاپانی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا: 'ہم پہلے سے ہی اس کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔' جاپانی اخبار نکے بزنس کے مطابق کمپنی کا کہنا ہے کہ سالانہ 67 ارب امریکی ڈالر کا ساز و سامان خریدنے والی کمپنی اپنے پرزے خود تیار کرنے کی جانب بھی جا سکتی ہے۔ ہواوے پر 5G موبائل نیٹ ورک کے استعمال میں ممکنہ خطرات کے پیش نظر مغربی ممالک کی جانب سے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور بہت سے ممالک نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ چینی حکومت ہواوے کا سامان جاسوسی کے لیے استعمال کر سکتی ہے، تاہم کمپنی ان الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ ہواوے کا کہنا ہے کہ اس کے کام سے کسی کو خطرہ نہیں اور وہ چینی حکومت سے آزاد ہیں۔ تاہم بعض ممالک نے ہواوے کی مصنوعات کا 5G موبائل نیٹ ورک میں استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔ بہر حال ابھی تک برطانیہ نے باضابطہ پابندی سے گریز کیا ہے۔ چینی کمپنی ہواوے کو حالیے دنوں میں کافی دباؤ کا سامنا ہے ہواوے کے لیے جزوقتی خسارہ؟ لیو کیلیون، بی بی سی ٹیکنالوجی ڈیسک ایڈیٹر مغرب میں ہواوے کے لیے جز وقتی طور پر یہ بہت ہی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ سمارٹ فون خریدنے والے ایسا اینڈروئڈ فون خریدنا نہیں چاہیں گے جس میں گوگل کا پلے سٹور یا سکیورٹی اپ ڈیٹس نہ ہوں۔ طویل مدت میں سمارٹ فون بنانے والے اس بات پر سنجیدگی سے غور کر سکتے ہیں کہ گوگل کے آپریٹنگ سسٹم کا قابل عمل متبادل کیا ہو سکتا ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں جب گوگل اپنے پکسل سمارٹ فون کو بیچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جہاں تک ہواوے کا تعلق ہے، وہ بالآخر امریکی ٹیکنالوجی سے رابطہ منقطہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ ان کے سمارٹ فون ان کے اپنے پراسیسر سے چلتے ہیں اور رواں سال کے اوائل میں ان کے ایک عہدے دار نے جرمنی کے اخبار ڈی ویلٹ کو بتایا تھا کہ 'ہم نے اپنا آپریٹنگ سسٹم تیار کر لیا ہے جو کہ ہمارا پلان بی ہے۔' اگر ایسا ہوتا ہے، تب بھی سام سنگ کو سنہ 2020 تک پیچھے چھوڑ کر دنیا کے سب سے زیادہ بکنے والے فون کا ان کا خواب ٹوٹ جائے گا۔ گوگل نے چینی ٹیکنالوجی کمپنی ہواوے کے لیے اینڈروئڈ آپریٹنگ سسٹم کے بعض اپ ڈیٹس بند کر دیے ہیں۔ text: امریکہ کی خفیہ ایجنسی این ایس اے پر الزام ہے کہ اس نے برازیلی صدر، ان کے مشیروں اور تیل کی قومی کمپنی پیٹروباس کے درمیان ای میلوں اور پیغامات کے تبادلے کی جاسوسی کی تھی۔ ’برازیل، میکسیکو کے صدور کی جاسوسی‘ جرمنی کا امریکہ سے جاسوسی کا معاہدہ ختم یہ الزامات امریکہ کو مطلوب خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے افشا کی گئی دستاویزات کی بنیاد پر لگائے گئے ہیں۔ امریکی صدر براک اوباما نے وعدہ کیا تھا کہ وہ واقعے کی تفتیش کروائیں گے۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ صدر اوباما نے پیر کو صدر جیلما روسیف سے اس معاملے پر بات چیت کے لیے فون کیا تھا۔ یاد رہے کہ صحافی گلین گرين والڈ نے برازيلي ٹی وی گلوبو پر کہا تھا کہ ’برازيل کی صدر جیلما روسیف اور میکسیکو کے صدر اینریک پینیا نیتو کے انٹرنیٹ ڈیٹا کو امریکی ایجنسی کی طرف سے درمیان میں روک کر دیکھا جاتا تھا۔‘ صحافی گلین گرين والڈ کی رپورٹ کے مطابق یہ اقدامات این ایس اے کی جانب سے ایک کیس سٹڈی کا حصہ تھے جس میں یہ معلوم کیا جا رہا تھا کہ ڈیٹا کو بہتر انداز میں کیسے فلٹر کیا جا سکتا ہے۔ تیل کی ریاستی کمپنی پیٹروباس نے آئندہ ماہ ایک اہم آئل فیلڈ کے حقوق کو نیلام کرنا ہے۔ جیلما روسیف نے کہا کہ اگر یہ الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ این ایس اے ’صنعتی جاسوسی‘ میں ملوث تھی۔ صدر جیلما روسیف کا ریاستی دورہ 23 اکتوبر کو شروع ہونا تھا اور 1994 کے بعد سے کسی بھی برازیلی صدر کا امریکہ کا یہ پہلا دورہ ہونا تھا۔ منگل کے روز برازیلی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ریاستی دورہ اس وقت تک نہیں کیا جائے گا جب تک اس معاملے کی بروقت تحقیقات نہیں کی جاتیں۔ بیان میں کہا گیا کہ معاملے کے تسلی بخش حل کے بعد جلد از جلد دورہ کیا جائے گا۔ ادھر وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی کا کہنا تھا کہ دورہ منسوخ کرنے کا فیصلہ دونوں صدور کا مشترکہ فیصلہ تھا تاکہ دورے پر کوئی باہمی تنازع اثر انداز نہ ہو۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ صدر اوباما اس معاملے کی سنگینی کو سمجھتے ہیں، انھیں اس پر افسوس ہے اور وہ تمام سفارتی راستوں کو استعمال کرتے ہوئے صدر روسیف کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ لاطینی امریکہ کے ملک برازیل کی صدر جیلما روسیف نے امریکہ کی جانب سے برازیل میں خفیہ معلومات اکٹھی کرنے کے الزامات کے بعد امریکہ کا آئندہ ماہ ہونے والا سرکاری دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ text: یہ دھماکہ کوئی ساڑھے چار بجے سِبّی سے کوئی پچاس کلومیٹر دور پیشی کے مقام پر ہوا ہے۔ ڈائریکٹر لیویز میجر انجم نے سبی سے بی بی سی کو بتایا ہے کہ دھماکہ بوگی نمبر چھ کی کے بیت الخلاء میں ہوا۔ زخمیوں میں زیادہ تر کو معمولی چوٹیں آئی ہیں جنہیں ابتدائی طبی امداد کے بعد فارغ کر دیا گیا ہے جبکہ دو فوجیوں کو گہرے زخم آئے ہیں۔ ان فوجیوں کے نام حوالدار وحید اور حوالدار محفوظ بتائے گئے ہیں۔ میجر انجم نے کہا ہے کہ کوئٹہ سے سبی تک ریلوے لائن پر حفاظتی انتظامات بہتر کیے جا رہے ہیں۔ اس کے لیے صوبائی حکومت سے کہا گیا ہے کہ لیویز کی تعداد میں اضا فہ کیا جائے۔ یاد رہے کہ گزشتہ ماہ کوئٹہ آنے والی اور لاہور جانے والی چلتن ایکسپریس کی دونوں گاڑیوں میں ایک ہی وقت میں علیحدہ علیحدہ دھماکے ہوئے تھے جن میں دو افراد ہلاک اور نو افراد زخمی ہوئے تھے ان میں فوجی اہلکار بھی شامل تھے۔ تین روز پہلے پنجگور میں نا معلوم افراد نے ہوائی اڈے کے راڈار کو نشانہ بنایا تھا جس کی ذمہ داری بلوچ لبریشن فرنٹ کے نمائندے دودا نے ٹیلیفون پر قبول کی تھی۔ صوبہ بلوچستان میں سبی کے قریب لاہور جانے والی ریل گاڑی چلتن ایکسپریس میں دھماکہ ہوا ہے جس میں دو فوجیوں سمیت دس افراد زخمی ہوئے ہیں۔ text: پیش مرگ نامی کردستان کی فوج سنی شدت پسندوں کے خلاف جوابی حملے کا منصوبہ بنا رہی ہے واضح رہے کہ کرد افواج ملک کے شمال میں سنی جنگجوؤں سے برسر پیکار ہیں۔ یہ حکم اس وقت صادر کیا گیا ہے جب گذشتہ دو دنوں کے دوران دولتِ اسلامیہ (جسے پہلے داعش کے نام سے جانا جاتا تھا) نے کردوں سے دو شہروں اور اس کے پاس موجود تیل کے کنووں پر قبضہ کر لیا۔ کرد فوج جسے ’پیش مرگ‘ کہا جاتا ہے، جوابی حملے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ سنی جنگجوؤں نے جون میں ہی عراقی حکومت سے شمالی عراق کے بڑے حصے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔ اس کے بعد سے خودمختار کردستان کے علاقے اور بغداد کے درمیان تعلقات میں کشیدگی نظر آئي۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ نوری المالکی کی پیشکش سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلامی مملکت کی پیش رفت کے پیش نظر عراق اور کردوں کے درمیان کسی قسم کا اتحاد کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔ یزیدی قبیلے کے دسیوں ہزار کرد سنجار اور زمار پر اسلامی مملکت کے قبضے کے بعد اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں پیر کو ایک بیان میں عراقی افواج کے ترجمان قاسم عطا نے کہا: ’مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف نے فضائیہ اور آرمی کے فضائی یونٹ کے سربراہان کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ پیش مرگ افواج کو فضائی تعاون فراہم کریں۔‘ ابھی تک کرد رہنماؤں نے اس پر اپنے رد عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ اس سے قبل ایک کرد اہلکار نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ پیش مرگ افواج بہت بکھر گئی تھی لیکن اب انھیں یکجا کیا جا رہا ہے تاکہ جوابی کارروائی کی جا سکے۔ انھوں نے کہا: ’علاقے کے لیے یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے اور جلد ہی کچھ نہ کچھ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔‘ شام کے کرد جنگجو گروپ پی وائی ڈی کا کہنا ہے کہ اس کے جنگجو پیر کو سرحد عبور کر کے عراق میں داخل ہو چکے ہیں۔ روئٹرز کے مطابق کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے ) نے تمام کردوں کو سنی جنگجوؤں کے خلاف لڑنے کے لیے کہا ہے۔ عراقی افواج کو کردستان کے فوجیوں کو فضائی تعاون فراہم کرنے کے لیے کہا گيا ہے واضح رہے کہ پی کے کے ترکی کے کردوں کی خودمختاری کے لیے تین دہائیوں تک لڑتی رہی ہے اور اب ترکی حکومت کے ساتھ امن کی بحالی میں مصروف ہے۔ دریں اثنا اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ عراقی اقلیت یزیدی برادری کے دسیوں ہزار افراد سنجاراور زمار شہروں پر سنیوں کے قبضے کے بعد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اور ان میں سے بہت سے لوگ ان شہروں کے پہاڑی علاقوں کی جانب بھاگ نکلے ہیں۔ عراق کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی نکولائی ملادینوو نےبی بی سی کو بتایا ہے کہ ان کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ عراقی وزیراعظم نوری المالکی نے ملک کی فضائیہ کو کرد افواج کی فضائی امداد کا حکم دیا ہے۔ text: سولہ کروڑ آبادی کے پینے اور گھریلو استعمال کے لیے بھی پانی کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے۔ اس سارے منظر میں کالاباغ ڈیم کا چھ ملین ایکڑ فٹ پانی اتنا اہم نہیں جتنا اس کی حمایت اور مخالفت کر کے اسے بنادیا گیا ہے۔ اس ڈیم سے نہ تو وہ خوشحالی آئے گی جس کا اسلام آباد کے حکمران پنجاب کے لوگوں کو خواب دکھا رہے ہیں اور اگر یہ ڈیم نہیں بنا تو بھی اگلے دس سال تک پانی کے کسی ایسے غیرمعمولی بحران کا خدشہ نہیں جو ڈیم بنائے بغیر حل نہ ہوسکے۔ گرمی میں پہاڑوں کی برف پھگلنے سے اور مون سون کی بارشوں سے پاکستان کے دریاؤں میں جو پانی آتا رہا ہے وہ تو آتا ہی رہے گا۔ یہ کم اور زیادہ تو ہمیشہ ہوتا ہی رہا ہے۔ حکومت منگلا کی جھیل کو اونچا کرکے اس میں پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد بڑھانے پر کام شروع کرچکی ہے۔ دی ورلڈ کنزرویشن یونین (آئی سی یو این) کی رپورٹ کےمطابق تربیلا اور منگل ڈیموں کی استعداد تقریبا ساڑھے چودہ ملین ایکڑ فٹ ہے اور ان کی استعداد صفر تک پہنچنے میں انہیں اگلے پینتیس سے پچاسی سال لگیں گے۔ پاکستان کی سولہ کروڑ آبادی کے لیے اس وقت فی آدمی بارہ سو کیوبک میٹر پانی دستیاب ہے۔ دنیا کے بہت سے ملکوں کی نسبت یہاں پانی کی فراہمی بہت اچھی ہے۔ دنیا میں ایک سو انتیس ملک ایسے ہیں جن میں پانی کی دستیابی پاکستان کی نسبت کم ہے۔ پاکستان کے دریاؤں میں کل دستیاب پانی کا نوے فیصد سے زیادہ زراعت اور آبپاشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور باقی پینے کے اور گھریلو استعمال کے لیے۔ اس ملک کا وسیع و عریض آبپاشی کا نظام ہے جس میں تین بڑے ڈیمز، انیس چھوٹے ڈیمز اور بیراج جبکہ تینتالیس نہریں ہیں جن کی ستاون ہزار کلومیٹر لمبائی ہے۔ انیس سو نوے میں چاروں صوبوں کے درمیان نہری (یا دریائی) پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا تھا۔ اس سمجھوتے میں کہا گیا کہ ملک کے دریاؤں میں آبپاشی کےلیے سالانہ دستیاب پانی تقریبا ایک سو پانچ ملین ایکڑ فٹ ہے حالانکہ یہ دستیابی اوسطا ایک سو تین ملین ایکڑ فٹ تھی۔ پانی کے معاہدہ کے وقت بھی ماہرین نے اس بات پر اعتراض کیا تھا کہ جو پانی معاہدہ میں ظاہر کیا گیا ہے وہ حقیقت سے زیادہ ہے لیکن اس وقت یہ جواب دیا گیا تھا کہ اضافی بارہ ملین ایکڑ فٹ پانی آبی دخائر بنا کر حاصل کیا جائے گا۔ کالا باغ ڈیم انہیں ذخائر میں سے ایک ہے۔ سکردو اور بھاشا دوسرے منصوبے ہیں۔ کالا باغ ڈیم سے گرمی کے موسم میں چھ ملین ایکڑ فٹ پانی جمع کیا جاسکے گا۔ اس میں سے کچھ پانی تو جھیل میں رہنے کی وجہ سے بخارات بن کر ہوا میں اڑ جائے گا۔ باقی پانی زیادہ سے زیادہ اس کام آئے گا کہ تربیلا، منگلا اور چشمہ کی جھیلوں کی تہہ میں مٹی جمنے سے پانی جمع کرنے کی گنجائش میں جو تین ملین ایکڑ فٹ کی کمی آئی ہے اسے پورا کردے۔ کالاباغ ڈیم کے بننے سے پنجاب کو زیادہ سے زیادہ پونے تین ملین ایکڑ فٹ پانی کا فائدہ ہوگا۔ اگر یہ ڈیم نہ بنے تب بھی پنجاب اپنے حصے کا یہ پانی تو نہیں چھوڑ دے گا۔ تربیلا میں چشمہ جہلم لنک نہر پہلے سے موجود ہے جس سے سندھ کے پانی کو پنجاب کی نہروں کی طرف موڑاجاسکتا ہے۔ سندھ کی مخالفت کے باوجود پنجاب میں تھل کینال کی تعمیر مکمل ہونے والی ہے اور اس میں بھی تقریبا دو ملین ایکڑ فٹ پانی موڑا جاسکتا ہے۔حقیت یہ ہے کہ پنجاب کی تمام سالانہ اور ششماہی نہروں کو اگر ایک ساتھ کھول دیاجائے تو تمام دریاؤں کا پانی ان میں بہنے لگے گا۔ ظاہر ہے ایسا کبھی نہیں ہوا۔ کالاباغ ڈیم بنا کر ہی پنجاب سندھ کے پانی کو قابو یا بند کرسکتا ہے یہ بات غیر حقیقی ہے۔ جتنا بھی جھگڑا رہتا ہو پنجاب اور سندھ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت کو خاصی حد تک پورا کرتے آئے ہیں۔ تاہم پانی کی بندش کا خوف اندرون سندھ کی سیاست میں اہم عنصر ہوسکتا ہے جہاں لوگوں کی معیشت صرف اور صرف زراعت کے گرد گھومتی ہے اور دریائے سندھ کے ساتھ ان کی ایک تہذیبی اور جذباتی وابستگی ہے۔ دوسری طرف کالاباغ ڈیم کا پنجاب کو اتنا معمولی سا فائدہ ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے پنجاب کے عوام کو کالاباغ ڈیم کے حق میں جذباتی بنادیا ہے۔ کالاباغ ڈیم کا معاملہ اٹھا کر اور پنجاب کو اس کے بارے میں سبز باغ دکھا کر شائد کچھ لوگ یہاں سے ایک عام الیکشن اس نعرہ پر جیتنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے پنجاب کے لیے کالا باغ ڈیم بنادیا۔ کالاباغ ڈیم بن گیا تو سندھ صحرا نہیں بنے گا اور نہ پنجاب میں پانی کی ریل پیل ہوجائے گی۔ اور اگر یہ ڈیم نہ بنا تب بھی کوئی بڑا فرق نہیں پڑے گا۔ کھالوں، نہروں اور دریاؤں کے کناروں کو پختہ کرکے آبپاشی کے لیے چالیس سے پچاس ملین ایکڑ فٹ پانی کی دستیابی بڑھائی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف فرانس اور اسرائیل جیسے ملکوں میں رائج آبپاشی کے جدید طریقوں کے استعمال سے فصلوں کے لیے پانی کی ضرورت تقریبا آدھی کی جاسکتی ہے۔ پنجاب کو یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ڈھائی تین ملین ایکڑ فٹ پانی کی اتنی حیثیت ہے کہ اس کے لیے چھوٹے صوبوں سے گالی کھائی جائے اور بدنامی مول لی جائے۔ جب دس پندرہ سال بعد پانی کچھ کم ہوگا تو سب کے لیے ہوگا۔ اس وقت تک پانی محفوظ کرنے کے دوسرے طریقے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ دوسری طرف سندھ ہے جہاں پر فی ایکڑ پانی کا استعمال اس وقت بھی پنجاب سے دگنا ہے یعنی دو فٹ پانی فی ایکڑ کے مقابلہ میں چار فٹ فی ایکڑ۔ سندھ کے دو شاخے ڈیلٹا اور مینگرووز کو گرمی کے تین چار مہینوں کے سوا پانی اس وقت بھی نہیں ملتا۔ اتنا پانی دریاؤں میں ہے ہی نہیں۔ دریائے سندھ کا شاندار سو سال پرانا ماضی جب کوٹری سے نیچے سمندر میں سو ملین ایکڑ فٹ پانی بہتا تھا اب واپس نہیں آسکتا۔ پاکستان میں زراعت کے لیے اوسطا سالانہ بارہ ملین ایکڑ فٹ پانی کی کمی رہتی ہے۔ سندھ کے آخری سرے پر دلدلی نباتات (مینگرووز) کے علاقے کو بچانے اور سمندر کو اندر کی طرف بڑھنے سے روکنے کے لیے بھی کم سے کم اتنا ہی پانی درکار ہے۔ text: تفصیلات کے مطابق جسٹس بھگوان داس جو پاکستان کے پہلے ہندو جج ہیں وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ کل لاہور امرتسر بس سروس میں بھارت جانے کے لیئے جب واہگہ بارڈر پہنچے تو انڈین حکام نے انہیں تو بھارت میں داخلے کی اجازت دے دی مگر ان کے اہل خانہ کو بھارت میں داخلے کی اجازت نہیں دی۔ اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے ترجمان کے مطابق ہائی کمیشن نے جسٹس رانا بھگوان داس اور ان کے اہل خانہ کو ویزے جاری نہیں کیئے تھے۔ عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار ڈاکٹر فقیر حسین نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جسٹس بھگوان داس کے اہل خانہ کو انڈیا میں داخلے کی اجازت نہیں ملی۔ سارک قوانین کے تحت پاکستان کی عدالت عظمٰی کے ججوں کو انڈیا میں داخلے کے لیئے ویزے کی ضرورت نہیں ہے مگر ان کے اہل خانہ کے لیئے ضروری ہے کہ وہ ویزا حاصل کریں۔ جسٹس بھگوان داس کے بھائی اشوک داس نے جو جسٹس داس کے ساتھ انڈیا جا رہے تھے اس بات کی تصدیق تو کی کہ انھیں بھارت نہیں جانے دیا گیا مگر یہ نہیں بتایا کہ ان کے پاس انڈیا کا ویزہ تھا یا نہیں۔ جسٹس بھگوان داس کو انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے شہر لکھنؤ جانا تھا اور وہ امرتسر سے براستہ سڑک لکھنؤ جانا چاہتے تھے۔ انڈین اخبار ’ٹریبیون‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق جسٹس بھگوان داس نے بھارتی حکام سے ان کے اہل خانہ کو بھارت میں داخلے کی استدعا کی مگر حکام نے ان کی درخواست مسترد کر دی۔ واہگہ بارڈر پر آئے ہوئے انڈیا کی عدلیہ کے اعلیٰ حکام نے بھی جسٹس بھگوان داس کے اہل خانہ کو انڈیا میں داخلے کی اجازت دینے سے متعلق انڈین اعلیٰ حکام سے بات کی مگر ان کے اہل خانہ کو انڈیا جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے سینیئر ترین جج جسٹس رانا بھگوان داس کے اہل خانہ کو انڈیا اور پاکستان کی سرحد پر روک دیئے جانے کے بعد جسٹس بھگوان داس نے بھارت کا دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ text: جنوبی انگلینڈ کے شہر بورنمتھ میں لیبر پارٹی کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حامد کرزئی نے کہا کہ دو سال قبل افغانستان میں اقتدار سے برطرف کیے جانے والے طالبان اب بھی متحرک ہیں۔ انہوں نے کہا: ’طالبان اب بھی متحرک ہیں۔ دہشت گردی اب بھی ہمارے لئے خطرہ بنی ہوئی ہے۔‘ حالیہ دنوں میں حامد کرزئی کے حامیوں اور امریکی فوجیوں پر حملے ہوئے ہیں۔ افغان صدر کا کہنا تھا کہ قانون ملک کے صرف پینتالیس فیصد حصے میں نافذ ہے اور دیگر علاقوں میں مسلح افراد سرگرم ہیں۔ طالبان اب بھی متحرک ہیں۔ دہشت گردی اب بھی ہمارے لئے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ حامد کرزئی حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ ان مشکلات کے باوجود گزشتہ دو برسوں میں حالات بہتر ہوئے ہیں اور ’آج بیالیس لاکھ افغان بچے اسکولوں میں زیرتعلیم ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ان میں سے چالیس فیصد لڑکیاں ہیں۔ انہوں نے اجلاس کے مندوبین کی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ’ہم قومی اداروں کی کی تعمیر کررہے ہیں اور افغان فوج اور افغان کرنسی کے قیام میں کافی پیش رفت آئی ہے۔‘ حامد کرزئی نے صدام حسین کو اقتدار سے برطرف کرنے کے لئے امریکہ اور برطانیہ کی حمایت کی۔ ’مجھے امید ہے کہ جلد ہی عراقی اپنی حکومت قائم کرسکیں گے۔ میں ان کے لئے آزادی، آزادئ صحافت، سیاسی جماعتیں، نتخابات اور حق خود ارادیت کا متمنی ہوں۔‘ افغان صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ افغانستان میں روز بروز بگڑتی ہوئی صورتحال کے مدنظر انہیں بین الاقوامی برادری کی حمایت کی درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالات کو بہتر بنانے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ text: سابق وفاقی وزیر حلقہ267 سے پاکستان مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے جعلی تعلیمی اسناد سے متعلق عدالت میں پیش نہ ہونے پر دو سابق ارکان اسمبلی کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے ایڈیشنل سیشن جج نے صوبائی اسمبلی کے سابق رکن خلیفہ عبدالقیوم کو جعلی ڈگری کے مقدمے میں تین سال قید اور پانچ ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی اور اُنہیں کمرہ عدالت سے ہی گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا گیا ہے۔ خلیفہ عبدالقیوم ڈیرہ اسماعیل خان کے سٹی ون پی کے 64 کے انتخابی حلقے سے صوبائی اسمبلی کے لیے 2008 میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے منتخب ہوئے تھے۔ بلوچستان سے سبی کی ایک مقامی عدالت نے سابق وفاقی وزیر ہمایوں عزیز کُرد کو جعلی ڈگری رکھنے کا الزام ثابت ہونے پر ایک سال قید اور پانچ ہزار جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ وہ گذشتہ عام انتخابات کے دوران جھل مگسی کے علاقے سے قومی اسمبلی کے حلقہ267 سے پاکستان مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ بلوچستان سے ہی تعلق رکھنے والے سابق رکن اسمبلی ناصر علی شاہ جب کہ پنجاب اسمبلی کے سابق رکن اقبال لنگڑیال کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے گئے ہیں۔ صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقے ڈیرہ غازی خان کی ضلعی عدالت نے سابق رکن صوبائی اسمبلی میر بادشاہ قیصرانی پر جعلی ڈگری رکھنے کے الزام میں فرد جرم عائد کر دی ہے۔ میر بادشاہ قیصرانی نے سنہ دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن بعد میں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد اُنہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیارکر لی تھی۔ اس سے پہلے مظفر گڑھ کی ایک عدالت نے سابق رکن قومی اسمبلی جمشید دستی پر جبکہ بہاولپور کی عدالت نے عامر یار ورن پر فرد جرم عائد کی دی ہے۔ الیکشن کمیشن نے بلوچستان سے این اے 161 سے جمعیت علمائے اسلام کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے آغا محمد کی ڈگری جعلی قرار دے کر ان کا معاملہ پشین کے سیشن جج کو بھجوا دیا ہے۔ سابق رکنِ قومی اسمبلی نے اپنی تعلیمی اسناد کے بارے میں الیکشن کمیشن میں نظرثانی کی اپیل دائر رکھی تھی۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے مقامی عدالتوں کو جعلی ڈگریوں سے متعلق مقدمات کو چار اپریل تک نمٹانے کا حکم دے رکھا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ابھی تک 189 ارکان نے ابھی تک اپنی ڈگریوں کی تصدیق نہیں کروائی اور سپریم کورٹ نے ان سابق ارکان کو پانچ اپریل تک اپنی تعلیمی اسناد کی تصدیق کروانے کی مہلت دی ہے۔ پاکستان میں مختلف ضلعی عدالتوں نے جعلی تعلیمی اسناد سے متعلق زیرِ سماعت مقدمات میں ایک سابق وفاقی وزیر اور صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی کے ایک سابق رکن کو سزا سنائی ہے۔ text: برطانیہ وزیر داخلہ ڈیوڈ بلنکٹ نے کہا ہے کہ اگر لیبر پارٹی انتخابات میں کامیاب ہو گئی تو وہ ایسے قانون بنائے گی جن کے تحت خفیہ طور پر ٹیلیفون ہونے والی گفتگو کی ٹیپ ریکارڈنگ کو عدالت میں بطور شہادت پیش کیا جا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی جوکسی بھی شخص کو دہشت گردوں کے ساتھ تعلق کے شک کی بنیاد پر ان کی حراست کے احکامات جاری کر سکیں گیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا شخص جس نے دہشت گردی کی نہ ہو لیکن اس پر ایسا کرنے کا شائبہ بھی اس حراست کے لیے کافی ہو گا۔ دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے برطانیہ پہلے بھی ایسے قانون بنا چکا ہے جن کے تحت کسی بھی شخص کو دہشت گردی میں ملوث ہونے کے شک کی بنیاد غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس قانون کے تحت کئی غیر ملکی باشندوں کو دہشت گردی میں ملوث ہونے کے شبے میں حراست میں رکھا ہوا اور ملک کی اعلی عدالتیں بھی ان کی حراست کو جائز قرار دے چکی ہیں۔ برطانیہ کی حکمران جماعت لیبر پارٹی نے کہا ہے کہ اگر وہ اگلے سال انتخاب جیتے میں کامیاب ہو گئی تو وہ برطانیہ میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتیں قائم کرئے گی۔ text: آرمی پبلک سکول کے باہر میڈیا کی ایک بڑی تعداد کوریج کے لیے آئی تھی لیکن انھیں وزیرِ اعلیٰ ہاؤس کے اندر جانے کی اجازت نہ مل سکی صوبے میں آج عام تعطیل تھی۔ رسم چہلم میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی شریک ہوئے لیکن ذرائع ابلاغ کو اس کی کوریج کرنے نہیں دی گئی۔ وزیر اعلی ہاؤس میں منعقد رسم چہلم میں ہونے والی قرآن خوانی میں بڑی تعداد میں والدین نے شرکت کی۔ اس موقع پر والدین نے عمران خان، وزیر اعلی اور گورنر خیبر پختونخوا کو اپنے مسائل سے آگاہ کیا۔ والدین کا موقف تھا کہ صوبے میں سرکاری سکولوں کو پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے نام سے منسوب کیا جائے، بچوں کی برسی پر سرکاری تعطیل ہونی چاہیے اور سکیورٹی انتظامات کو مزید بہتر بنایا جائے۔ حکام نے والدین کو یقین دہانی کرائی کہ جو کچھ بھی ممکن ہوا کیا جائے گا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ وزیرِ اعلیٰ سے کہیں گے کہ ان کی تمام شکایات کا ازالہ کیا جائے۔ حیران کن بات یہ تھی کہ اس چہلم کی کوریج کے لیے صحافیوں کو وزیر اعلی ہاؤس میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ دو درجن سے زیادہ صحافی وزیر اعلی ہاؤس کے باہر کوئی پانچ گھنٹے تک کھڑے رہے۔ اس دوران کچھ ناراض والدین میڈیا کے سامنے اپنے دکھ درد بیان کرتے رہے، کچھ والدین تقریب سے ناراض ہو کر وزیرِ اعلیٰ ہاؤس سے باہر آئے جہاں انھوں نے میڈیا کے سامنے حکومتی رویے پر ناراضی کا اظہار کیا۔ ان والدین کا کہنا تھا کہ وہ صرف قران خوانی کے لیے آئے تھے لیکن یہاں ان کے بچوں کی بولی لگائی جا رہی ہے۔ کچھ والدین کا موقف تھا کہ وہ حکومتی رویے سے مطمئن نہیں ہیں۔ کوریج کی اجازت نہ دیے جانے کے باوجود کئی والدین نے میڈیا سے اپنی ناراضی کا بھی اظہار کیا والدین یہ نہیں بتا پائے کہ وہ کس بات پر ناراض ہیں۔ جہاں تک آرمی پبلک سکول کی سکیورٹی کا مسئلہ ہے تواس کی ذمہ داری فوج کی تھی لیکن ان والدین نے فوجی حکام کے حوالے سے اس طرح کی کوئی بات نہیں کی۔ آرمی پبلک سکول میں زیر تعلیم ایک بچے کی بہن ہاجرہ نور نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ والدین کا سب سے بڑا مطالبہ یہی تھا کہ انھیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ سرکاری سطح پر چہلم منعقد کرانے کا فیصلہ آرمی پبلک سکول اینڈ کالج میں گذشتہ ہفتے عمران خان کے دورے کے بعد کیا گیا تھا۔ عمران خان کے اس دورے میں والدین نے سخت احتجاج کیا تھا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ انھیں نہیں معلوم کہ احتجاج کس وجہ سے کیا گیا، کیونکہ وہ والدین سے ملنے گئے لیکن والدین کا نہ تو کوئی مطالبہ تھا اور نہ ہی انھوں نے ان سے کسی قسم کا گلہ شکوہ کیا تھا۔ رسم چہلم میں شرکت کے لیے عمران خان صرف دو گاڑیوں کے قافلے میں پہنچے، چہلم میں شرکت کی اور میڈیا سے بات چیت کیے بغیر واپس چلے گئے۔ مبصرین کا کہنا تھا کہ یہ بات سمجھ سے بالا تر تھی کہ آخر میڈیا کو اس کی کوریج سے کیوں روکا گیا۔ ایک تاثر یہ تھا کہ حکومت نہیں چاہتی تھی کہ والدین کے گلے شکوے اور شکایات میڈیا پر آئیں یا عمران خان شاید پشاور کے صحافیوں کے سوالوں کے جواب نہیں دینا چاہتے تھے۔ عمران خان نے آج صبح پشاور روانگی سے پہلے اسلام آباد میں میڈیا سے مختصر بات چیت کی لیکن وہاں ان سے والدین کے تحفظات کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھے گئے۔ آرمی پبلک سکول اینڈ کالج پشاور پر حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کا چہلم منگل کو سرکاری سطح پر وزیر اعلی ہاؤس میں منعقد ہوا۔ text: یہ شخصیات اور سمارٹ فونز کے انتخاب سے تعلق کے بارے میں پہلی ریسرچ ہے لیکن یہ سمارٹ فونز ہمارے بارے میں کیا بتاتے ہیں کہ ہم کون ہیں؟ لینکاسٹر اور لنکن یونیورسٹیز نے تقریباً پانچ سو اینڈروئڈ اور آئی فونز استعمال کرنے والوں کی شخصیت کا مطالعہ کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ ان کا اپنے فون کے ساتھ رویہ کیسا ہے۔ ٹیکنالوجی کی بارے میں دیگر مضامین کیا آپ اپنے موبائل فون سے دوری برداشت کر سکتے ہیں؟ ٹیکنالوجی کی لت کیسے ہمارے دماغ کو آلودہ کر رہی ہے؟ یادداشت کے بارے میں چھ دلچسپ و عجیب انکشافات بلو ٹوتھ آن رکھا تو معلومات چوری ہو سکتی ہیں انھیں معلوم ہوا کہ ہمارے سمارٹ فونز ہماری شخصیت کے کچھ پہلوؤں کا انکشاف کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ریسرچرز کو معلوم ہوا کہ اینڈروئڈ فون استعمال کرنے والے آئی فون استعمال کرنے والوں سے زیادہ ’ایماندار‘ ہوتے ہیں۔ تاہم آئی فون استعمال کرنے والے اینڈروئڈ فون استعمال کرنے والوں کے نسبت کم عمر ہوتے ہیں اور زیادہ کھلے مزاج کے ہوتے ہیں۔ امکان یہ ہے کہ آئی فون استعمال کرنے والی زیادہ تر خواتین ہیں اس تحقیقی مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ خواتین مردوں کی نسبت آئی فون زیادہ پسند کرتی ہیں لیکن ان کی اس پسند کی وجہ نہیں جانی جاسکی۔ دوسری جانب اینڈروئڈ فون استعمال کرنے والے عموماً زیادہ عمر کے مرد ہیں۔ لیکن سمارٹ فون کے انتخاب سے آپ کی شخصیت کے بارے میں معلومات کیسے ملتی ہیں؟ ریسرچرز کا کہنا ہے کہ ان سمارٹ فونز کے انتخاب سے ہر فرد اپنی سوچ پیش کر رہا ہوتا ہے۔ اس ریسرچ ٹیم کی شریک سربراہ ہائیدر شا کہتی ہیں کہ ’اب یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ سمارٹ فون استعمال کرنے والے کی شخصیت کا ایک منی ڈیجیٹل ورژن بنتا جا رہا ہے۔‘ ’ہم میں سے کئی لوگ اپنا فون کسی دوسرے کو استعمال نہیں کرنے دیتے ہیں کیونکہ انھیں خدشہ ہوتا ہے کہ ہمارے راز افشا نہ ہوجائیں۔‘ اس ریسرچ کے مطابق، آئی فون استعمال کرنے والے اینڈروئڈ فون استعمال کرنے والوں سے زیادہ آسودہ نہیں ہوتے ہیں، لیکن آئی فون استعمال کرنے والے اس بارے میں فکر مند رہتے ہیں کہ اسے سٹیٹس کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہ لوگ اپنی جذباتی کیفیت کو ظاہر کرنے کی جانب زیادہ مائل ہوتے ہیں۔ ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ اینڈروئڈ فون استعمال کرنے والے آئی فونز کے استعمال کرنے والوں سے زیادہ ایماندار ہوتے ہیں ان ریسرچرز نے اپنی معلومات کی مدد سے ریسرچ کے اگلے مرحلے میں ایک کمپیوٹر پروگرام بھی بنایا دیا جس کے ذریعے وہ کسی شخص کے بارے میں بتا سکتے ہیں کہ اسے کون سا سمارٹ فون پسند آئے گا۔ سی این ای ٹی سے بات کرتے ہوئے ایک ریسرچر ڈیوڈ ایلیس نے کہا کہ ’ہم اعداد و شمار کی بنیاد پر ایک ایسا ماڈل بنانے کے قابل ہو گئے ہیں جس کی بدولت ہم کسی سے چند سوالات کر کے یہ پیشن گوئی کرسکتے ہیں کہ اس کی جیب میں کون سا فون ہے۔‘ ایسے ماحول میں جب ڈیٹا پرائیویسی پر بحث سنجیدہ ہوتی جا رہی ہے، ایلیس اور ان کی ٹیم کا کہنا ہے کہ کسی بھی شخص کے بارے میں اس کی نجی معلومات اس کے سمارٹ فون کے آپریٹنگ سسٹم کے انتخاب جیسی عام بات سے معلوم کی جا سکتی ہیں۔ سمارٹ فونز میں اینڈروئڈ دنیا کا سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا آپریٹنگ سسٹم ہے ہمارا سمارٹ فون اب ہماری شخصیت کا حصہ بن چکا ہے۔ ہم میں سے کئی ایک دن میں پانچ سے زیادہ گھنٹے اس پر مصروف رہتے ہیں۔ text: تاہم اس خبر کی ابھی تک نہ تو پاکستان میں اور نہ ہی افغانستان میں حکام نے تصدیق کی ہے۔ قبائلی علاقوں میں مقامی طالبان بھی اس کی تصدیق نہیں کر رہے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق بیت اللہ محسود کے قریبی ساتھی حکیم اللہ محسود کو افغانستان کے مشرقی صوبے پکتیا سےملحقہ علاقے سے گزشتہ روز گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں نیٹو فورسز نے حراست میں لے کر ہیلی کاپٹر کے ذریعے کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔ افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان ازمری بشیری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس اس گرفتاری سے متعلق کوئی اطلاع نہیں ہے تاہم نیٹو نے وہاں ایک کارروائی کی تھی جس کے بارے میں معلومات صرف وہ ہی دے سکتے ہیں۔ کابل میں نیٹو فورسز کے پریس آفس سے جب رابطہ کیا تو انہوں نے اس کے بارے میں جلد معلومات فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے تاہم ابھی تک اس بارے میں ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ پاکستان کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق نیٹو فورسز نے یہ کارروائی پاکستان کے اندر شمالی وزیرستان کے لواڑا منڈی کے سرحدی علاقے میں کی۔تاہم پاکستانی حکام نے کسی ایسی سرحدی خلاف ورزی کی تردید کی ہے۔ پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل وحید ارشد نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں کسی سرحدی خلاف ورزی کی اطلاع نہیں ہے۔ حکیم اللہ کی گرفتاری کی خبر اگر درست ہے تو یہ بیت اللہ گروپ کے لیے ایک شدید دھچکا ہوگا۔حکیم اللہ محسود کو بیت اللہ کے قریبی ساتھیوں میں سے بتایا جاتا ہے۔ اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیٹو اور افغان فوجیوں نے موسم بہار کی آمد پر شدت پسندوں کی جانب سے سرحد پار کرنے کی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے نگرانی میں اضافہ کیا ہوا ہے۔ شمالی وزیرستان میں مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے سے جاسوسی کے طیاروں کی پروازوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں مقامی طالبان بیت اللہ محسود کے ایک قریبی ساتھی کو افغانستان میں نیٹو افواج نے گرفتار کر لیا ہے۔ text: اس ساتویں فرد کے قتل کے بعد پولیس نے دہشت گردی کے علاوہ قتل کے دیگر محرکات کو بھی مد نظر رکھ کر تفتیش کا دائرہ کار بڑھا دیا ہے۔ لاہور کے علاقہ مغلپورہ میں جمعہ کے روزایک نجی سکول کے مالک نوید حیدر کو ان کے خاندان کے دیگر پانچ افراد کے ہمراہ قتل کر دیا گیا تھا اور ان کے گھر کی دیواروں پر سپرے پینٹ سے لفظ ’کافر‘ لکھا ہوا تھا۔ سنیچر کی صبح ان تمام افراد کو لاشوں کے پوسٹ مارٹم کے بعد سپردخاک کر دی گیا تھا۔ جنازے کے بعد اسی روز دوپہرکو مقتول نوید کے بھائی ندیم کوگھر سے ایک ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر نہر میں غوطے کھاتے اور مدد کے لیے چلاتےدیکھا گیا۔ نہر میں نہانے والے چند لڑکوں نے انہیں پانی سے نکالا۔ ندیم کی بائیں کلائی کی نس کٹی ہوئی تھی اور اس سے خون بہ رہا تھا۔ انہیں بے ہوشی کے عالم میں ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔ ان کی شناخت رات آٹھ بجے ہو ئی۔ ایس پی کینٹ ڈاکٹر عثمان نے بتایا کہ مقتول موبائل فون پر ایک کال سننے کے بعد اپنی کار پر پر گھر سے روانہ ہوئے تھے اور ان کی کار کی چابی تو ان کی جیب سے ملی جبکہ کار ان کے ڈوبنے کی جگہ سے کچھ فاصلے پر لاک حالت میں ملی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ندیم کی ہلاکت کا معمہ حل ہونے سے باقی افراد کے قتل کی گتھی بھی سلجھائی جا سکے گی۔ مقتول ندیم حیدر شاہ ایک انجئنرنگ فرم میں ملازم تھے اور چھ افراد کے قتل کے روز راولپنڈی گئے ہوئے تھے۔ لاہور میں شیعہ خاندان کے چھ افراد کے قتل کے مقدمہ کے مدعی ندیم حیدر شاہ بھی پراسرار حالت میں ہلاک ہو گئےجس سے ایک ہی خاندان کے اجتماعی قتل کا معاملہ مزید الجھ گیا ہے۔ text: رونالڈو کو گھٹنے پر ٹیپ لگا ٹریننگ کرتے دیکھا گیا ہے اتوار کو کھیلے جانے والے آخری میچ میں رونالڈو ایک مرتبہ پھر میدان میں اتریں گے۔ پرتگال اپنے دوسرے گروپ میچ میں امریکہ سے کھیلے گا اور جرمنی سے شکست کے بعد پرتگال کے لیے یہ میچ جیتنا بہت ضروری ہے۔ پرتگال کے پہلے گروپ میچ میں اسے جرمنی نے ایک یکطرفہ مقابلے میں چار صفر سے ہرا دیا تھا۔ اس میچ میں پرتگال کے دفاعی کھلاڑی پیپے کو اس وقت ریڈ کارڈ دکھا کر میدان سے باہر نکال دیا گیا جب اس نے اپنا سر جرمن کھلاڑی توماس مولر سے ٹکرایا۔ پرتگال کے سٹرائیکر رونالڈو کو گھٹنے پر ٹیپ لگا کر ٹریننگ میں دیکھا گیا لیکن وہ میچ کے آغاز میں ہی میدان میں اتریں گے۔ امریکہ کے کوچ کلنزمین کو امید ہے کہ اس مرتبہ پرتگال کی جو ٹیم میدان میں اترے گی وہ جرمنی کی ہاتھوں شکست کھانے والی ٹیم سے مختلف ہوگی۔ ان کا کہنا تھا ’پرتگال کی ٹیم اس مرتبہ میدان میں غصے میں آئے گی اور پتہ نہیں کہ رونالڈو غصے میں کیسا کھیلیں گے۔ ہمیں پرتگال کو دکھانا ہوگا کہ ہم ایک اچھی ٹیم ہیں۔‘ بیلجئم کے کوچ کو امید ہے کہ کمپنی روس کے خلاف میچ کھیلیں گے اس سے پہلے دونوں ٹیمیں ایک دوسرے سے دو دو میچ جیتیں ہیں جبکہ ایک میچ برابر ہوگیا تھا۔ اتوار کو پہلا میچ بیلجیئم اور روس کے درمیان کھیلا جا رہا ہے۔ بیلجئم کے کپتان وِنسینٹ کومپنی گذشتہ منگل کو الجزائر کے خلاف میچ کے آخری منٹوں میں زخمی ہوگئے تھے لیکن وہ آج کا میچ کھیل رہے ہیں۔ اگر بیلجیئم نے اس میچ میں روس کو ہرا دیا تو وہ دوسرے مرحلے کے کوالیفائی کر لے گا۔ اس سے پہلے ان دونوں ٹیموں کے درمیان آٹھ میچ ہوئے ہیں جس میں سے روس نے چار جبکہ بیلجیئم نے تین میچ جیتے ہیں۔ اتوار کو دوسرا میچ جنوبی کوریا اور الجزائر کی ٹیموں کے درمیان کھیلا جائے گا۔ یہ دونوں ٹیمیں اس سے قبل ایک مرتبہ 1985 میں ایک دوسرے کے خلاف کھیلیں تھی اور یہ میچ جنوبی کوریا نے 2 - 0 سے جیت لیا تھا۔ برازیل میں جاری 20ویں فٹبال ورلڈکپ کے دوران اتوار کو تین میچ کھیلے جائیں گے جن میں گروپ ایچ کی تمام اور گروپ جی کی دو ٹیمیں مدِ مقابل ہوں گی۔ text: یہ فیصلہ والدین کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ میں دی گئی ایک درخواست پر کیا گیا ہے۔ دوسری جانب نجی سکولوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ مفت تعلیم فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، نجی اداروں کی نہیں ہے۔ خیبر پختونخوا میں دو دن تک نجی سکول بند سٹیٹ بینک آف پاکستان کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ شیڈول بینکوں کو پابند کیا جائے کہ ان 22 سکولوں کے اکاونٹس منجمد یا سیل کر دیے جائیں تاکہ یہ سکول حکومت کے احکامات کے پابند رہیں۔ یہ فیصلہ والدین کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ میں دی گئی ایک درخواست پر کیا گیا ہے ۔ والدین کا کہنا تھا کہ بچوں کی سکول کی فیسوں میں ہر سال اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ والدین کے مطابق یہ سکول کہتے ہیں کہ اگر سکول میں ایک سے زیادہ بہن بھائی ہوں تو ایک کے علاوہ باقی بچوں کی آدھی فیس وصول کی جائے گی اور یہ کہ گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران سکولوں کی فیس وصول نہیں جائے گی، لیکن ان باتوں پرعمل نہیں کیا جاتا ہے۔ چند ایک سکولوں میں فیسوں میں مختصر عرصے میں بھاری اضافے کیے گئے اور جہاں فیسوں میں معمول کے مطابق اضافے کیے گئے وہاں اضافی فیس طلب کی گئی، مثلاً گرین ہاؤس فیس، وائلڈ لائف فیس اور سیکیورٹی فیس میں تین سے چار گنا اضافہ شامل ہے۔ فیسوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کرنے والے والدین کی تنظیم کے ایک رکن ساجد اقبال کا تعلق مردان سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان نجی سکولوں میں پہلے تو ایک بچے کے ساتھ دوسرے بچے کی تعلیم مفت تھی پھر دوسرے بچے کی آدھی فیس وصول کرنے لگے اور اب دونوں بچوں کی مکمل فیس وصول کی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک طرف ریگولیٹری اتھارٹی نے سکولوں کے اکاونٹس منجمد کرنے کا کہا ہے لیکن سکولوں نے آج بچوں کو فیس سلپ تھما دی ہے کہ گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے تین تین مہینوں کی فیس جمع کرائی جائے۔ اس بارے میں نجی سکولوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ ثانوی سطح تک مفت تعلیم فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، حکومت اپنی ذمہ داری نجی اداروں پر کیسے ڈال سکتی ہے۔ پشاور کے علاقے حیات آباد میں ایک نجی سکول کے مالک محمد طاہر نے بی بی سی کو بتایا کہ نجی سکولوں کے مختلف معیار ہیں، کچھ سکول تین سے پانچ ہزار ماہانہ فیس وصول کرتے ہیں تو کوئی پندرہ سے بیس ہزار فیس لیتے ہیں۔ ’اب والدین پر کسی نے بندوق نہیں تان رکھی کہ وہ مہنگے سکولوں میں بچوں کو پڑھائیں۔‘ محمد طاہر کا کہنا تھا کہ اگر سکول انتظامیہ غلط طریقے سے فیسوں میں اضافہ کرتے ہیں تو وہ بھی اس کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف عدالت میں اپیل داخل کریں گے اور سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گے ۔ نجی سکولوں میں فیسوں میں اضافے کے حوالے سے کیس پشاور ہائی کورٹ میں ایک عرصے سے جاری تھا۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے نجی سکولوں کے نگران ادارے پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی نے پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر صوبے کے بائیس نجی سکولوں کے بینک اکاونٹس منجمد کرنے کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو خط لکھ دیا ہے۔ text: ٹوئٹر نے حال ہی میں ’رپورٹ ٹویٹ بٹن‘ متعارف کروانے کا اعلان کیا ہے ان کالعدم شدہ تبدیلیوں کے نتیجے میں ایسے ٹوئٹر صارفین جنہیں کسی صارف نے بلاک کیا ہوگا پھر بھی وہ بلاک کرنے والے صارف کی تمام ٹوئٹس تک رسائی رکھے گا۔ اس کے نتیجے میں آن لائن بڑی تعداد میں لوگوں نے اپنے غصے کا اظہار کیا۔ ٹوئٹر کا کہنا ہے کہ وہ سابقہ قواعد کی جانب واپس جا رہے ہیں جس کے تحت صارفین ایک ایسے ٹوئٹر اکاؤنٹ کو فالو نہیں کر سکتے تھے جس نے انہیں بلاک کر دیا ہو۔ ٹوئٹر پر بلاک کرنے کا طریقہ ایسے صارفین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے جو یا تو ٹرولنگ (بے جا لوگوں تو تنگ کرنا) کرتے ہیں یا دوسرے صارفین کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں۔ ٹوئٹر کے نائب صدر مائیکل سپی نے کہا ہے کہ ’ہم نے ان تبدیلیوں کو واپس لینے کا فیصلہ بہت سارے صارفین کی جانب سے ردِ عمل حاصل کرنے کے بعد کیا ہے۔ ہم ایسی کوئی تبدیلی متعارف نہیں کروانا چاہتے جس کی وجہ سے ہمارے صارفین اپنے آپ کو کم محفوظ تصور کریں۔‘ انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ ’ایسے تمام صارفین جنہیں آپ نے بلاک کیا ہوا ہے وہ بلاک ہی رہیں گے۔‘ ٹوئٹر پر حالیہ دنوں میں کئی اہم شخصیات کو دھمکیاں ملنے اور ٹرولنگ کے بڑھتے واقعات کی وجہ سے دباؤ تھا کہ وہ اس کے سدِ باب کے لیے اقدامات کرے۔‘ ٹوئٹر نے حال ہی میں ’رپورٹ ٹویٹ بٹن‘ متعارف کروانے کا اعلان کیا تاکہ اس مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔ سپی نے کہا کہ ’بعض صارفین بلاک کرنے کے بعد کے ردِ عمل کی وجہ سے ڈرتے ہیں جتنا کہ وہ بلاک کرنے سے پہلے کی گالیوں سے۔‘ ایسا دیکھنے میں آیا کہ ایک صارف کو بلاک کرنے کے نتیجے میں اس کے دوست احباب نے ردِ عمل کے طور بلاک کرنے والے کو نشانہ بنایا جس سے معاملات مزید خراب ہوئے۔ ٹوئٹر نے اپنے صارفین کی جانب سے کی گئی تنقید کے نتیجے میں ’بلاک‘ کرنے سے متعلقہ نئی پالیسی ایک دن کے اندر ہی واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ text: اگرچہ امریکی محکمۂ خزانہ نے پابندی عائد کی جانے والی شخصیات کا نام ظاہر نہیں کیا تاہم اس کا یہ کہنا کہ ان تمام کا تعلق ایران سے ہے امریکی وزیرِ خزانہ سٹیو مونچن کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کے ذریعے اُن لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جنھوں نے ایران کی منفی سرگرمیوں کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کیے۔ اگرچہ امریکی محکمۂ خزانہ نے پابندی عائد کی جانے والی شخصیات کا نام ظاہر نہیں کیا تاہم اس کا یہ کہنا ہے کہ ان تمام کا تعلق ایران سے ہے۔ اب کسی بھی امریکی کمپنی یا فرد کو ان کے ساتھ کام کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ یہ اقدام متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے ساتھ مل کر کیا گیا ہے۔ یہ بھی پڑھیے ’ایران نے اسرائیل پر راکٹ داغ کر حد پار کر دی ہے‘ ’جوہری معاہدے سے نکل رہے ہیں، ایران پر پابندیاں لگیں گی‘ ’ایران نے ہم پر حملہ کیا تو یہ شامی صدر کا اختتام ہوگا‘ ’صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران پر نئی پابندیاں عائد کریں گے‘ امریکہ کا ایران پر خطرناک اشتعال انگیزی کا الزام امریکی وزیرِ خزانہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایرانی حکومت اور اس کے مرکزی بینک نے یو اے ای میں اداروں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے امریکی ڈالر حاصل کیے جس میں پاسدارانِ انقلاب کی تباہ کن سرگرمیوں کے لیے سرمایہ کاری اور اپنے علاقائی پراکسی گروہوں کو پیسہ اور اسلحہ فراہم کرنا تھا۔ سٹیو مونچن کا مزید کہنا تھا ’ہم پاسدارانِ انقلاب کی آمدنی کے تمام ذرائع کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘ پاسداران انقلاب کیا ہے؟ خیال رہے کہ سنہ 1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد ملک میں پاسدارانِ انقلاب کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کا مقصد ایران کے اسلامی نظام کی حفاظت کرنا تھا۔ ایران کے پاسدارانِ انقلاب کا شمار ملک کی بڑی فوجی سیاسی اور اقتصادی قوت میں ہوتا ہے۔ ایران کے انتظامی ڈھانچے کے مطابق عام حالات میں 'اندرونی سلامتی کے خطرے' سے نمٹنے کی ذمہ داری پولیس اور انٹیلیجنس پر ہوتی ہے لیکن صورت حال کے سنگین رخ اختیار کرنے پر اس سے نمٹنے کی ذمہ داری پاسدارانِ انقلاب کو دی جاتی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاسدارانِ انقلاب کو ’بد عنوان دہشت گرد ملیشیا‘ قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے گذشتہ سال اکتوبر میں پاسدارانِ انقلاب پر پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ سنہ 1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد ملک میں پاسدارانِ انقلاب کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کا مقصد ایران کے اسلامی نظام کی حفاظت کرنا تھا امریکی صدر نے اکتوبر میں کانگریس کے لیے اس بات کی از سرِ نو تصدیق کرنے سے انکار دیا تھا کہ ایران معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ تہران معاہدے کی 'روح کے مطابق نہیں چل رہا۔' خیال رہے کہ امریکی کی جانب سے ایران کے پاسدارانِ انقلاب پر عائد کی جانے والی نئی پابندیاں ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے دو روز بعد سامنے آئی ہیں۔ امریکی صدر نے نو مئی کو اعلان کیا تھا کہ ان کا ملک سنہ 2015 میں ہونے والے ایرانی جوہری معاہدے سے نکل رہا ہے اور اب ایران کے خلاف دوبارہ سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ بدھ کو وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ اس جوہری معاہدے کا مقصد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو محفوظ رکھنا تھا لیکن اس معاہدے نے ایران کو یورینئیم کی افزودگی جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔ امریکی صدر نے کہا کہ 'تباہ کن' ایران جوہری معاہدہ امریکہ کے لیے باعث 'شرمندگی' ہے۔ امریکہ کے اس فیصلے کے بعد ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے ڈونلڈ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے جوہری معاہدے سے نکلنے کا فیصلہ کر کے 'غلطی' کر دی ہے۔ آیت اللہ علی خامنہ ای کا کہنا تھا 'میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں، امریکہ پر بھروسہ نہ کرو۔' انھوں نے ایرانی حکومت سے کہا کہ وہ اس معاہدے کو جاری رکھنے کے لیے راضی ہونے سے قبل یورپی طاقتوں سے ضمانت لیں۔ خیال رہے کہ 2015 میں ہونے والا یہ جوہری معاہدہ ایران اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس سمیت جرمنی کے درمیان ہوا تھا۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے چھ ایرانی افراد اور تین کمپنیوں پر ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے ساتھ تعلقات کی بنا پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ text: رواں سال عراق میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 7150 افراد ہلاک ہو چکے ہیں: اقوام متحدہ عراق کے دارالحکومت بغداد کے مضافاتی علاقے راشد میں شیعہ زائرین پر ہونے والے دو کار بم حملوں میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہو گئے۔ ہزاروں کی تعداد میں شیعہ زائرین مقدس مقام کربلا جا رہے تھے کہ انھیں دھماکوں میں نشانہ بنایا گیا۔ بغداد میں ہی پیر کو ہونے والے والے سلسلہ وار بم دھماکوں میں 21 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ تکریت شہر کی کونسل اور بیجی شہر میں شدت پسندوں کے حملے میں 12 افراد ہلاک ہو گئے۔ اس کے علاوہ ملک کے شمالی شہر موصل میں بھی شیعہ زائرین کی بس پر فائرنگ کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک ہو گئے۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شدت پسند اب روزانہ کی بنیاد پر حملے کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق عراق میں صرف نومبر میں 659 افراد ہلاک ہوئے جس میں 565 عام شہری اور 94 سکیورٹی فورسز کے اہل کار شامل ہیں جب کہ جنوری سے اب تک 950 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 7150 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سال 2013 میں سال 2008 کے بعد سب سے زیادہ پرتشدد واقعات پیش آئے ہیں۔ عراق میں حالیہ مہینوں کے دوران فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پیر کو ہونے والے حملوں کی ذمہ داری تاحال کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے، تاہم عراق میں موجود القاعدہ حالیہ مہینوں میں بڑے پیمانے پر ہونے والے کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی رہی ہے اور اس کا بنیادی ہدف شیعہ آبادی، سکیورٹی حکام اور حکومتی تنصیبات رہی ہیں۔ ایسے واقعات کو روکنے میں حکومت کی ناکامی کے پیش نظر شیعہ ملیشیا دوبارہ اکٹھے ہو رہے ہیں اور انھوں نے خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کا تحفظ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ عراق شام میں جاری تنازعے سے بھی متاثر ہوا ہے جہاں تشدد میں فرقہ واریت کا عنصر نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ عراق میں حکام کے مطابق ملک میں تشدد کے مختلف واقعات میں 70 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں، جن میں اکثریت شیعہ زائرین کی ہے۔ یہ حالیہ مہنیوں میں عراق میں ہونے والا بدترین تشدد ہے۔ text: دونوں امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم کو منفی سطح پر لے گئے ہیں۔ ہلری کلنٹن نے باراک اوبامہ پرالزام لگایا کہ وہ ریپبلیکن امیدوار جان مکین کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ ہلری کلنٹن کو صدارتی امیدوار کی دوڑ میں رہنے کےپینیسلوینیا کی پرائمری میں بڑے مارجن سے کامیاب ہونا ضروری ہے۔ انتخِابی جائزوں کے مطابق پینیسلوینیا میں ہلری کلنٹن کو باراک اوبامہ پر معمولی برتری حاصل ہے لیکن مبصرین کے مطابق ہلری کلنٹن کی برتری معمولی ہے اور اسے صدارتی امیدوار بننے کے لیے پینیسلوینیا میں کم از کم ساٹھ فیصد مندوبین حاصل کرنے ضروری ہیں۔ ڈیموکریٹس نے پینیسلوینیا میں ایک سو اٹھاون مندوب کومنتخب کرنا ہے۔ باراک اوبامہ نے کہا کہ وہ پینسلوینیا میں جیت کی پیشگوئی نہیں کر رہے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک انتہائی دلچسپ مقابلہ ہو گا۔ ڈیموکریٹ امیدوار کی نامزدگی کی دوڑ مبصرین کے اندارزوں کے برعکس انتہائی دلچسپ رہی ہے اور پینسلوینیا کے نتائج اس مہم کو ختم نہیں کر سکیں گے اور پارٹی کے امیدوار کا فیصلہ اگست میں غیر منتخب مندوبین کے ہاتھوں ہو گا۔باراک اوبامہ کو ہلری کلنٹن پر ایک سو اٹھتیس مندوبین کی برتری حاصل ہے۔ ڈیمریٹ امیدوار کو پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے دوہزار پچیس مندوبین کی ضرورت ہے۔ باراک اوبامہ کے مندوبین کی تعداد 1645 ہے جبکہ ہلری کلنٹن کے مندوبین کی تعداد 1507 ہے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار کی نامزدگی کے لیے ہلری کلنٹن اور باراک حسین اوبامہ پینیسلوینیا کے پرائمری انتخابات کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔ text: ڈیرہ غازی خان کے پولیس انسپکٹر قاضی قیوم نے بی بی سی کو بتایا کہ صبح دس بجے کے قریب رکشہ ڈرائیور بلال گوپانگ کے رکشے میں دو نوجوان سوار ہوئےان کے رکشہ سے اترنے کے چند منٹ بعد سائیکل چوک پر رکشے کے اندر بم دھماکہ ہوا۔جس کے نتیجےمیں رکشہ ڈرائیور بلال اور ایک راہگیر زخمی ہوگئے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان پولیس نے نا معلوم افراد کے خلاف مقدمہ تھانہ سٹی میں درج کر لیا ہے۔پولیس کے مطابق انہوں نےشہر کی ناکہ بندی کررکھی ہے مگر اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ ڈیرہ غازی خان پولیس نے رکشہ ڈرائیور کے بیان پر مبنی ملزموں کے خاکے تیار کر لیے ہیں۔ پولیس کی جانب سے تیار کیے گئے خاکوں میں بم دھماکہ کرنے والے بیس بائیس سالہ نوجوان تھے جوحلیئے سے بلوچی لگتے تھے۔جنہوں نے سر پر بلوچی ٹوپی پہنی ہوئی تھی اور وہ آپس میں بلوچی سرائیکی ملی جلی زبان میں بات چیت کر رہے تھے۔ چودہ اگست کی صبح صوبہ پنجاب کےشہر ڈیرہ غازی کےسائیکل چوک پر چلتے ہوئے رکشہ میں بم دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں دو افراد شدید زخمی ہوئے ہیں۔ text: انگلینڈ کی جانب سے جیمز اینڈرسن نے دو، سٹورٹ براڈ، بین سٹوکس اور معین علی نے ایک ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا پہلے دن کے کھیل کے اختتام پر کریز پر محد شامی اور ایشانت شرما موجود تھے اور دونوں نے بالترتیب 14 اور 12 رنز بنائے تھے۔ میچ کا تفصیلی سکور کارڈ بھارت کی جانب سے مرالی وجے اور شیکھر دھون نے اننگز کا آغاز کیا۔ بھارت کا آغاز اچھا نہ تھا اور صرف 11 رنز کے مجوعی سکور پر شیکھر دھون سات رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے۔ بھارت کی جانب سے پجورا نے 28، مرالی وجے نے 24 اور کوہلی نے 25 رنز بنائے۔ انگلینڈ کی جانب سے جیمز اینڈرسن نے چار، سٹورٹ براڈ نے دو، بین سٹوکس اور معین علی نے ایک ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ جمعرات کو شروع ہونے والے اس ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ نے ٹاس جیت کر بھارت کو پہلے بیٹنگ کرنے کی دعوت دی تھی۔ لارڈز میں کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میچ کے پہلے دن کھیل کے اختتام پر بھارت نے انگلینڈ کے خلاف نو وکٹوں کے نقصان پر 280 رنز بنائے ہیں۔ text: ٹرنر شو کے بارے میں عام طور پر تنقید کی جاتی ہے کہ یہ سطحی اور اشتعال انگیز ہوتا ہے لیکن اس بار اس میں سنجیدہ موضوعات حاوی ہیں۔ آرٹسٹ جوڑے لینگلینڈ اور نکی بیل کا کام افغانستان میں طالبان کے زوال کے بعد ان کے افغانستان میں دو ہفتے قیام پر مبنی ہے۔ اس میں نمایاں چیز اسامہ بن لادن کے گھر کا دورہ ہے جو انٹرایکٹو ہے جس میں فوٹوز کو کمپیوٹر کی فوٹیج کے ساتھ ملایا گیا ہے تاکہ دیکھنے والا اس ویران جگہ میں اپنی مرضی سے گھوم پھر سکے۔ اس کام سے ہمارے تجسس میں تو اضافہ ہوتا ہے لیکن معلومات میں اضافہ نہیں ہوتا اور یہ خیال آتا ہے کہ ہم کچھ جگہوں پر ان کے اہم ہونے کا جو بوجھ لاد دیتے ہیں وہ ان جگہوں کے لیے اٹھانا مشکل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ لینگلینڈ اور بیلز نے افغانستان میں امدادی ایجنسیوں کے ناموں کے مخففوں جیسے یونیکا ، ایکو اور ہوپ وغیرہ کو جھنڈوں اور فوٹوز پر چھاپ کر اور نیون کی صورت میں دکھا کر ایک سادہ سے خیال کو خاصا لمبا کھینچنے کی کوشش کی ہے۔ نمائش کی ابتدا دنیا کی تاریخ سے ہوتی ہے جو جرمی ڈیلر نے دیواروں پر لکھی گئی چیزوں سے بنائی گئی ہے اور اس میں ان الفاظ کو اس طرح ملایا گیا ہے کہ پتا چلے کہ ایسڈ ہاؤس اور براس بینڈز کس طرح آپس میں جڑے ہوتے ہیں۔ ٹرنر شو تئیس دسمبر تک ٹیٹ برٹن میں جاری رہے گا۔ آجکل لندن میں ٹرنر پرائز شو جاری ہے اور اس بار اس میں جو ویڈیو فلمیں زیر نمائش ہیں ان میں طالبان کے بعد کا افغانستان اور اسامہ بن لادن کے گھر کا دورہ شامل ہیں۔ text: ملزمان کو جمعہ کے روز پولیس کے سخت پہرے میں عدالت میں پیش کیا گیا اور تھانہ سیکریٹریٹ کے انچارج الطاف عزیز نے انسداد دہشت کی عدالت کے جج سخی محمد کہوٹ سے استدعا کی کہ ملزمان کا دس دن کا ریمانڈ دیا جائے کیونکہ اُن کی نشاندہی پر اس مقدمے میں ملوث دیگر ملزمان کو بھی گرفتار کرنا ہے۔ تاہم عدالت نے ملزمان کا سات دن کا ریمانڈ دیا اور تفتیشی افسر کو حکم دیا کہ ملزمان کو 24 اکتوبر کو عدالت میں دوبارہ پیش کیا جائے۔ گرفتار ہونے والوں میں ڈاکٹر عثمان، رانا الیاس اور حمید افضل شامل ہیں اوران افراد کو پشاور اور وسطی پنجاب کے علاقوں سے گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ان ملزمان کو ایک روز قبل گرفتار کیا گیا تھا اور یہ افراد خودکش حملہ آوروں کے سہولت کار بتائے جاتے ہیں اور ان کے شدت پسندوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ اس ٹیم میں اسلام آباد پولیس کے علاوہ انٹیلجنس ایجسیوں کے اہلکار بھی شامل ہیں۔بیس ستمبر کو جب صدر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا تھا اُسی روز ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھرا ہوا ڈمپرمیریٹ ہوٹل کے باہر اڑا دیا تھا۔ اس خود کش حملے میں چیک جمہوریہ کے سفیر سمیت پچاس سے زائد افراد ہلاک اور ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ چند روز بعد داخلہ امور کے بارے میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سیکرٹری داخلہ نے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ میریٹ ہوٹل پر ہونے والہ خودکش حملہ ناقص حفاظتی اقدامات کا نتیجہ ہے جبکہ اسلام آباد پولیس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انٹیلیجنس ایجنسیوں نے پولیس کو بارود سے بھری ہوئی ایک گاڑی کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ راولپنڈی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے میریٹ ہوٹل میں ہونے والے خودکش حملے کے الزام میں گرفتار ہونے والے تین افراد کو سات روز کی ریمانڈ پر اسلام آباد پولیس کے حوالے کردیا ہے۔ text: تین ستمبر کو یوم فتح پریڈ کی تیاریاں عروج پر پہنچ چکی ہیں حکومت نے تمام تفریحی پروگراموں پر پابندی لگا دی ہے جن میں مشہو رئیلیٹی شو وائس آف چائنا ورائٹی شو ’ہیپی کیمپ‘ بھی شامل ہے۔ اس کامقصد تین ستمبر کو ہونے والی یومِ فتح پریڈ کے لیے لوگوں میں جوش پیدا کرنا ہے، جو دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے 70 سال منانے کے لیے منعقد کی جا رہی ہے۔ کچھ لوگوں نے اس کو اقدام کو حب الوطنی کہا ہے لیکن ہر کوئی اس سے متاثر نہیں ہوا۔ چین کی ٹوئٹر کی طرز کے ایک نیٹ ورک ویبو کے صارف یازیزی کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک غافلانہ برین واشنگ ہے۔‘ جبکہ ایلیکس ہوئیر کا کہنا ہے کہ ’فاتح ملک تفریح پر پابندی لگا رہا ہے۔ جبکہ ہارنے والے ناچ گانا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیا یہ غیر منطقی نہیں ہے؟‘ ٹی وی پروگراموں کے علاوہ چار اور ایسی پابندیاں ہیں، جو غیر متوقع نہیں ہیں، جن کے ذریعے چین جمعرات کو ہونے والی پریڈ کو بہترین بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ پرندوں پر پابندی چینی حکام نے کبوتر بازوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے کبوتروں کو اڑنے سے پرہیز کریں چین نے مکاک نسل کے بندروں اور بازوں کو جمع کیا ہے تاکہ پریڈ کے دن وسط بیجنگ کا آسمان پرندوں سے صاف رہے، کیونکہ پرندے لڑاکا طیاروں کے انجن سے ٹکرا سکتے ہیں جن سے طیاروں کو ممکنہ طور پر نقصان پہنچ سکتا ہے۔ چین کے میڈیا کے مطابق مکاک بندروں کو درختوں پر چڑھنے کی تربیت دی گئی تاکہ وہ وہاں پرندوں کے گھونسلوں کو پریڈ شروع ہونے سے پہلے ہی برباد کر دیں گے۔ بندروں کو تربیت دینے والے ٹرینر نے کا کہنا ہے کہ بندر ایک دن میں چھ سے آٹھ گھونسلے‘ تباہ کر سکتے ہیں، اور اپنی مہک بھی درختوں پر چھوڑ دیتے ہیں جو پرندوں کو وہاں دوبارہ گھونسلے بنانے سے روکتی ہے۔ اس کے علاوہ بازوں کے آسمان پر چکر لگوائے جا رہے ہیں تاکہ وہ دوسرے پرندوں کو وہاں سے ڈرا کر بھگا دیں۔ کچھ لوگوں کو ایسےاقدامات حد سےزیادہ لگے لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ برطانیہ میں بھی بعض جگہوں پر کبوتروں اور دوسرے چھوٹے پرندوں کو آسمان سے دور رکھنے کے لیے بازوں کا استعمال کیا جاتاہے۔ ان جگہوں میں ومبلڈن ٹینس گراؤنڈ بھی شامل ہے۔ دریں اثنا حکام نے پریڈ کے دوران کبوتروں کے آسمان پر اڑنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کبوتروں کی افزائشِ نسل والوں کو بھی خبردار کر دیا ہے کہ پریڈ کے دن ان کو نہ چھوڑیں۔ نیلا آسمان روسی صدر ولادی میر پوتن فتح پریڈ دیکھنے کے لیے چین پہنچے ہیں حالیہ سالوں میں بیجنگ اپنی فضائی آلودگی کی وجہ سے سے بدنام ہوا ہے۔ شدید دھویں کی صورت میں لوگ ماسک پہنے بغیر باہر نہیں نکل سکتے۔ لیکن چین کی حکومت یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ اگر وہ چاہے تو وہ موسم کو بھی بہتر بنا سکتی ہے۔ 2014 کے سربراہی اجلاس میں بیجنگ میں صاف اور نیلا آسمان دکھائی دیا جب حکام نے فیکٹریوں کو کام کرنے سے روک دیا، تعمیراتی کام کو آہستہ کروا دیا اور سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد کو محدود کر دیا۔ بیجنگ نے یومِ فتح کی پریڈ میں صاف آسمان کو یقینی بنانے کا عہد کر رکھاہے۔ حالانکہ کچھ مقامی لوگوں نے سوشل میڈیا پر کہاہے کہ حکومت کو عام آدمی کے لیے بھی فضا کو بہتر بنانے کی کوششں کرنی چاہیے۔ دبلے پتلے جرنیل جرنیلوں کی اعلیٰ قطار پریڈ کی قیادت کرے گی جس میں بہتر نظر آنے کے لیے انہیں کچھ قربانیاں دینی ہوں گی۔ سرکاری میڈیا رپورٹ کےمطابق 50 سے زیادہ جرنیل جو 53 سال کی عمر سے معمر ہیں، پریڈ میں حصہ لیں گے۔ ہر جرنیل کو اوسطاً پانچ کلو وزن کم کرنے کے لیے سخت تربیت دی جا رہی ہے۔ چین کے سرکاری اخبار چائنا ڈیلی کے مطابق ان کو ’پریڈ میں کھڑے ہونے کے بہترین انداز‘ کی تربیت بھی دی جا رہی ہے۔ سکیورٹی اور سنسرشپ حکام بندروں کی مدد سے درختوں پر پرندوں کے گھونسلے ختم کروا رہے ہیں چین کے میڈیا کو فوج کی مثبت کوریج کرنے کو یقینی بنانے کی تاکید کی گئی ہے۔ چین کی حکومت نے انٹرنیٹ پر سخت اختیار برقرار رکھا ہوا ہے۔ اس لیے اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر بھی نگرانی کر رہی ہے کہ لوگ پریڈ شروع ہونے سے پہلے کیا باتیں کر رہے ہیں۔ چین کی سنسرشپ پر رپورٹ کرنے والی ویب سائٹ چائنا ڈیجیٹل ٹائمز کے مطابق حکومت نے میڈیا کو ہدایات جاری کر دی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ پریڈ کے متعلق خبریں اور تبصرے لازماً ’مثبت‘ ہونے چاہییں، جبکہ تمام ویب سائٹوں کو کہا گیا ہے کہ ’انٹرنیٹ پر مثبت تبصروں کے فروغ کے لیے فعال ہو جائیں۔‘ بیجنگ کے میڈیا کی رپورٹ کے مطابق پریڈ کے دن بیجنگ کی کئی سڑکیں بند کر دی جائیں گی جبکہ بہت سے ہسپتالوں کو باہر کے مریض (آؤٹ پیشنٹ) لینے سے منع کر دیا گیاہے، البتہ ایمرجنسی کے شعبے کھلے رہیں گے۔ درین اثنا بیجنگ کی اہم شاہراہ چانگ آن ایوینیو، جہاں یہ پریڈ منعقد ہو گی، کے اطراف رہنے والے رہائشیوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ پریڈ کے دوران اپنی کھڑکیاں نہ کھولیں۔ ایک رہائشی نے سوشل میڈیا پر اعتراض کیاہے کہ اس اعلان کا مقصد یہ لگتاہے کہ ان کو جعرات کو ہونے والی ’پریڈ اپنی کھڑکیوں سے دیکھنے سے گریز کرنے کو کہا جا رہا ہے۔‘ بیجنگ کی حکومت پریڈ سے پہلے صاف فضا کو یقینی بنانا چاہتی ہے جس کے لیے حالیہ ہفتوں کے دوران گرم ہوا کے غبارے اور ہینگ گلائیڈرز اڑانے پر پابندی لگانا شامل ہے۔ چین میں رئیلیٹی ٹی وی کے مداحوں کو شاید اپنا ٹیلیویژن اگلے کچھ دن تک بند رکھنا پڑے کیونکہ مک کے تمام ٹی وی چینلوں پر جاپان مخالف جنگی ڈراموں اور دستاویزی فلموں نے جگہ لے لی ہے۔ text: جمعرات سے شروع ہونے والے اس جرگے کا مقصد طالبان اور القاعدہ سے نمٹنے کی حکمت عملی بنانا ہے۔ اس جرگے میں پاکستان اور افغانستان کے صدور کی شرکت متوقع تھی تاہم پاکستانی صدر نے اپنے افغان ہم منصب کو بدھ کو بذریعہ فون اپنی عدم شرکت سے مطلع کیا۔ بدھ کے روز وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک پریس ریلیز کے مطابق صدر جنرل پرویز مشرف نے افغان صدر حامد کرزئی کو بتایا کہ وہ اسلام آباد میں مصروفیات کی وجہ سے پاک افغان گرینڈ جرگہ میں شرکت نہیں کر سکتے۔ وزارتِ خارجہ کے مطابق صدر مشرف نے افغان صدر کو یقین دلایا کہ حکومت پاکستان جرگہ کی کامیابی کے لیے تمام کوششیں کرے گی جبکہ حامد کرزئی نے پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف کو مستقبل قریب میں افغانستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ اب جرگے میں شرکت کرنے والے پاکستانی وفد کی سربراہی وزیراعظم شوکت عزیز کریں گے اور وہی افتتاحی اجلاس سے بھی خطاب کریں گے۔ اس سے قبل پاکستان کے قبائلی علاقوں شمالی اور جنوبی وزیرستان کے مندوبین نے بھی عین وقت پر جرگے میں شرکت سے معذوری ظاہر کر چکے ہیں اور متحدہ مجلس عمل کے سربراہ اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمان بھی اس جرگے میں شرکت سے انکار کر چکے ہیں۔ پاکستان کے وزیر داخلہ اور پاکستان کے جرگہ کمیشن کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے بعض مندوبین کی عدم شرکت کا سبب پاکستانی طالبان کی جانب سے ملنے والی دھمکیاں بتایا ہے۔ جمعرات سے سنیچر تک منعقد ہونے والے جرگے میں توقع ہے کہ لگ بھگ چھ سو قبائلی مشران اور سیاسی رہنما شرکت کریں گے۔ ابتدائی طور پاکستان اور افغانستان کے مابین سات سو افراد کی شرکت پر اتفاق ہوا تھا۔ جرگے کے طے شدہ پروگرام کے مطابق افتتاحی خطاب کے بعد دونوں جانب سے دس دس مندوبین کو خطاب کی دعوت دی جائے گی اور پھر شرکاء کو سات ورکنگ گروپس میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ یہ ورکنگ گروپس شدت پسندی کو روکنے کے لیے مختلف تجاویز مرتب کریں گی جن کی توثیق جرگے کے شرکاء مل کر کریں گے۔ اس کے بعد ان تجاویز پر عملدرآمد کے لیے ایک مشترکہ کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے کابل میں ہونے والے پاک افغان گرینڈ جرگہ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرنے سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے افغانستان کا دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ text: بارش کا باعث میچ منسوخ کر دیا گیا بارش کی وجہ سے ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہونے والا میچ 47 اوورز اور اس کے بعد پھر مزید بارش کے بعد 41 اوورز کا کر دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود موسم نے ساتھ نہ دیا اور مقامی وقت کے مطابق شام سات بجے کے بعد میچ کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ سیریز کا دوسرا میچ ہفتے کو کھیلا جائے گا۔ تفصیلی سکور کارڈ جو روٹ اوول میں بارش ہوجانے سے واپس جا رہے ہیں جب بارش کی وجہ سے دوسری مرتبہ کھیل روکنا پڑا اس وقت پاکستان نے 19 اوورز میں دو وکٹوں کے نقصان پر80 رنز بنائے تھے۔ حارث سہیل 14 اور امام الحق 42 رنز کے ساتھ وکٹ پر موجود ہیں۔ اس سے قبل پاکستان کو دوسرا نقصان اس وقت اٹھانا پڑا جب بابر اعظم 16 رنز بنا کر لیئم پلنکٹ کی گیند پر آوٹ ہو گئے۔ انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پاکستان کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی اور پاکستان نے 15 اوورز میں دو وکٹوں کے نقصان پر 58 رنز بنائے ہیں۔ اس وقت حارث سہیل اور انعام الحق وکٹ پر موجود ہیں۔ ’یہ سورج انگلینڈ میں ہی ڈوب تو نہ جائے گا‘ کوئی ہے جو مورگن کو آؤٹ کر دے؟ پاکستان نے پہلے 5 اووروں میں ایک وکٹ کے نقصان پر 15 رن بنائے۔ پاکستان کو پہلا نقصان اس وقت اٹھانا پڑا جب فخر زمان جوفرا آرچر کی گیند پر دوسری سلپ میں جو روٹس کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گئے۔ وہ محض تین رنز بنا پائے۔ آرچر مسلسل آف سٹمپ پر گیند کر رہے تھے جسے فخر زمان پر اعتماد طریقے سے کھیل نہیں پا رہے تھے اور آخر کار وہ کیچ دے بیٹھے۔ ٹاس کے بعد پاکستانی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد کا کہنا تھا کہ اگر وہ ٹاس جیتتے تو وہ بھی پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کرتے۔ پاکستان نے اپنی ٹیم میں صرف ایک تبدیلی کی ہے اورمحمد حسنین کی جگہ محمد عامر کو شامل کیا ہے۔ یوں پاکستان کی ٹیم آج کپتان سرفراز احمد، آصف علی، بابر اعظم، فہیم اشرف، فخر زمان، حارث سہیل، حسن علی، عماد وسیم، امام الحق، محمد عامر اور شاہین شاہ آفریدی پر مشتمل تھی۔ انگلینڈ کی ٹیم جونی بئرسٹو، جمیز وِنس، جو رُوٹس، ایئن مورگن (کپتان)، بین سٹوکس،جو بٹلر، جو ڈینلی، کرس ووکس، جوفرا آرچر، عادل رشید اور لیئم پنکٹ پر مشتمل تھی۔ میچ مقامی وقت کے مطابق میچ دن ایک بجے شروع ہونا تھا لیکن بارش کی وجہ سے اس میں تاخیر ہو گئی۔ اگرچہ صبح سے جاری بارش دن بارہ بجے کے قریب تھم گئی، تاہم گراؤنٹ گیلی ہونے کی وجہ سے کھیل مقررہ وقت پر شروع نہیں ہو سکا۔ پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیموں کے اس دورے کا واحد ٹی ٹونٹی میچ اتوار کو کارڈف کے مقام پر کھیلا گیا تھا جو انگلینڈ نے سات وکٹوں سے جیت لیا تھا۔ پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور پانچ وکٹوں کے نقصان پر 173 رنز بنائے تھے۔ تین وکٹوں کے نقصان پر انگلینڈ نے کپتان ایون مورگن کی بہترین اننگز کی مدد سے میچ کے آخری اوور میں یہ ہدف پورا کر لیا تھا۔ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز کا پہلا میچ جنوبی لندن میں اوول کے میدان میں بارش کے باعث بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا۔ text: ’جسقم‘ کے ایک سرکردہ رہنما ریاض چانڈیو کی سربراہی میں ایک وفد نے جمعہ کو اسلام آباد میں واقع اقوام متحدہ کے دفتر میں یاداشت نامہ جمع کرایا اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا معاملہ پاکستان حکومت سے اٹھائیں اور صفدر سرکی کو بازیاب کروائیں۔ ’جسقم‘ کے وفد میں حفیظ آزاد ہکڑو سمیت چار اراکین شامل تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر بھی اظہار یکجہتی کے طور پر ان کے ہمراہ اقوام متحدہ کے دفتر گئے۔ ریاض چانڈیو نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا کہ خفیہ ایجنسی ’آئی ایس آئی‘ کے اہلکاروں نے ڈاکٹر صفدر سرکی کو جب کراچی سے اغوا کیا تھا تو سندھ پولیس کے ایک افسر چودھری اسلم بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ان کے مطابق صفدر سرکی کی بازیابی کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن بھی داخل کی گئی اور ان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کا مؤکل آئی ایس آئی کی ایک بیرک میں قید ہیں اور ان کے مطابق عدالت نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے ایک افسر آرتھر جینز نے ان سے یاداشت نامہ لیا اور انہیں یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ پاکستان حکومت سے اس بارے میں بات کریں گے۔ انہوں نے یاداشت نامے کی کاپیاں بھی صحافیوں میں تقسیم کیں جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی جماعت کے چار اور کارکن بھی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتہ ہیں جن میں آکاش ملاح، آصف بالادی، چیتن بجیر، اور بشیر شاہ شامل ہیں۔ ریاض چانڈیو نے کہا کہ ڈاکٹر صفدر سرکی کو اپنے صوبے کے عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کے جرم میں اٹھایا گیا ہے۔ ان کے مطابق ڈاکٹر سرکی کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں اور اگر حکومت کے پاس ان کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو وہ عدالت میں پیش کرے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کا کہنا ہے کہ صوبہ سندھ اور بلوچستان کے قوم پرست جماعتوں کے سیاسی کارکنوں اور ملک کے دیگر حصوں سے سخت گیر مذہبی رجحان رکھنے والے سینکڑوں افراد لاپتہ ہیں۔ کمیشن کے مطابق پراسرار طور پر لاپتہ افراد کے اہل خانہ کہتے ہیں کہ ان کے پیارے انٹیلی جنس حکام کی تحویل میں ہیں۔ پاکستان کے صوبہ سندھ کی ایک قوم پرست جماعت کے رہنما ڈاکٹر صفدر سرکی کی مبینہ طور پر انٹیلی جنس حکام کے ہاتھوں پراسرار گمشدگی کے ایک سال کی تکمیل پر ان کی جماعت نے اقوام متحدہ سے مداخلت کر کے انہیں بازیاب کرانے کی اپیل کی ہے۔ text: ہر طرف مایوسی کا عالم ہے۔ فلمی صنعت کے اس بحران پر گفتگو کیلئے میں نے ماضی کے معروف ہیرو اور کئی ایک معیاری اور کامیاب فلموں کے پروڈیوسر اعجاز درانی سے رابطہ کیا۔ لالی وڈ کی موجودہ حالت زار کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا:- ’سینما مالکان ہمارے فلم سٹوڈیو اور موجودہ دور کے فلمساز اس بحران کے ذمہ دار ہیں۔ دنیا میں فلمی انڈسٹری کے پس پشت تھوڑا بہت حکومت کی پالیسیوں کا بھی دخل ہوتا ہے۔ کوئی بھی کاروبار ہو اس میں اگر مشکلات آتی ہیں تو انہیں حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر معاملہ حکومت تک پہنچانا ہو تو نمائندہ تنظیموں کا کام ہےکہ وہ ان معاملات کو ایسے انداز سے حکومت تک پہنچائیں کہ وہ مسئلہ حل ہو جائے۔ یہاں صورت حال یہ ہے کہ یہاں ایک ہی حکومتی ادارہ نیف ڈیک تھا جس کے ذریعے حکومت سے رابطہ تھا، لیکن ہم نے اسے بند کرا کے دم لیا۔ دنیا کے ہر ملک میں نیف ڈیک قائم کی جاتی ہیں ۔ بھارت، بنگلہ دیش حتیٰ کے لندن میں بھی فلم انڈسٹری کی ترقی کیلے ادارے موجود ہیں۔ بنگلہ دیش جب پاکستان کا ہی حصہ تھا وہاں نیف ڈیک قائم کی گئی اور اس نے فلمی صنعت کو بھارت کے برابر لا کھڑا کیا۔ انہوں نے فلمسازوں کو فنی سہولتیں بھی دیں اور سرمایہ بھی فراہم کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بنگلہ دیش کی فلمی صنعت اپنے پاؤں پر کھڑی ہے۔ آپ آج کے سیاسی حالات پر غور کریں اگر پارلیمان نہیں چل سکتی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسے توڑ دیا جائے یا ختم کر دیا جائے۔ اسی طرح پاکستان میں نیف ڈیک کی اصلاح کی جا سکتی تھی۔ لیکن اس ختم نہیں کرنا چاہیے تھا فلم پروڈیوسرز اور حکومت کے درمیان رابطے کا یہی ایک ذریعہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک بحران کا تعلق ہے یہ پروڈیوسرز اور سینما مالکان کا خود پیدا کردہ ہے۔ گزشتہ پچس سال سے جو فلمیں بن رہی ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ جب تک اصلاحی ، معاشرتی اور رومانی ٹائپ کی فلمیں بنتی رہیں۔ فلم انڈسٹری میں بیک وقت دس دس ہیرو اور ہیروئینز موجود تھیں۔ ہر فلم بین کو اس کی چوائس کے مطابق فلم مل جاتی تھی لیکن جب سے فلموں میں ہیرو شپ منفی کرداروں کے سپرد کر دی گئی اور سارا بوجھ اکیلے سلطان راہی پر ڈال دیا گیا اور اس کی موت کے بعد اب شان کوسلطان راہی بنا دیا گیا۔ تو ایک ہی طرح کی فلمیں مسلسل آنے سے ہمارے فلم بین آہستہ آہستہ دور چلے گئے۔ ہر اچھی فلم فیملیز ذوق و شوق سے دیکھتی تھیں۔ سلطان راہی برانڈ فلموں کی وجہ سے عورتوں کی سو فی صد تعداد نے سینما کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔ جبکہ اس سے قبل فلموں کی کامیابی میں فیملیز کا ہی زیادہ تعلق ہوتا تھا۔ بار بار ایک ہی موضوع کو عوام کب تک دیکھتے۔ اس سلسلے میں سینما کا تصور یہ ہے کہ انہوں نے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دی۔ بلکہ حکومت کی طرف سے فکسڈ ٹیکس کی جو سہولت دی گئی اس کا فائدہ عوام کی بجائے سینما مالکان نے اٹھایا۔ سینما ٹکٹ جو تیس روپے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے ساٹھ روپے کر دیا جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ اب فلمی صنعت کا یہ بحران کیسے دور کیا جا سکتا ہے اعجاز درانی نے کہا کہ حکومت کو چاہیے نیف ڈیک کو دوبارہ فعال کرے اور نیف ڈیک کے اثاثوں سے جو رقم حاصل کی گئی ہے اس صیح طریقہ سے استعمال کرے۔ جدید ترین کیمرے اور لیب ہونا ضروری ہے۔ نیک نام پروڈیوسرز اور فلمسازوں کو سرمایہ مہیا کیا جائے۔ فلمساز اچھی کہانیوں کی تلاش کریں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اچھا پروڈیوسر ہی اچھی فلم بنا سکتا ہے۔ آج کے نوے فی صد فلمساز صرف پیسہ کمانے کو سوچ میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس فلم بنانے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوتی۔ ہمارے پاس صرف دو سرکٹ ہیں۔ ہمیں چاہئےکہ نئے سرکٹ تلاش کریں ۔ اگر یورپی ممالک کے لیے ہماری فلم کوالٹی کے لحاظ سے بہتر نہیں ہوتی تو آپ سری لنکا، نیپال، اور مڈل ایسٹ میں کوشش کریں۔ آخر انیس سو ستر سے پہلے دنیا میں ہماری فلم چلتی تھی۔ اب چونکہ فلم میکر ختم ہوگئے، تجربہ کار ہدایت کار اور پروڈیوسر کچھ چھوڑ گئے اور کچھ سلطان راہی برانڈ فلمسازوں کی وجہ سے سٹوڈیوز کا ماحول خراب ہونے کے باعث فلمی دنیا کو خیرباد کہے گئے۔ سٹوڈیوز کو دیکھ لیں وہاں کے ماحول کو دیکھ لیں کوئی سنجیدہ شخص وہاں کام نہیں کر سکتا۔ حکومت کی طرف سے فلم سٹی بنانے کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا یہ ہمارے فلمسازوں کی خوش فہمی ہے کہ حکومت فلم سٹی بنائے گی۔ فلم سٹی کی پہلے منصوبہ بندی تو کی جائے۔ دوسرے ملکوں میں جو اس قسم کے فلم سٹی بنے ہیں ان کا جائزہ لیا جائے۔ پھردیکھا جاے کہ ہماری محدود مارکیٹ کو دیکھتے ہوئے کیا فلم سٹی کا تجربہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ کے پاس فلمی صعنت کی نمائندہ جماعت ہی نہیں۔ ہم آپس میں دست و گریباں ہیں۔ یہ تو تجربہ کار اور نامور فلمسازوں کا کام ہے کہ وہ حکومت کے نمائندوں سے کوئی نتیجہ خیز بات کریں۔ اپنی فلموں کا معیار بلند کریں اور ان کی نمائش کیلے نئی مارکیٹ تلاش کریں۔ پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کیلئے جو کوشش کر جا رہی ہیں اس کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انیس سو پینسٹھ سے پہلے ہمارے ہاں بھارتی فلموں کا مقابلہ کیا۔ اب بھی ہمیں بھارتی فلموں سے کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے لیکن اب بھارتی فلمیں کسی پالیسی کے تحت ہی آسکتی ہیں۔ بھارتی فلموں کے آنےسے پاکستانی فلموں کی پروڈکشن میں جو کمی آئی ہے وہ پورا ہو سکتی ہیں لیکن اس سلسلے میں سب سے پہلے کشمیر کا فیصلہ ضروری ہے۔ اگر کلچر پالیسی حکومت بنالیتی ہے اور بھارت سے کلچر کے تبادلے میں بھارتی فلمیں بھی آتی ہیں تو وہ اس صورت میں ہی قابل عمل ہے کہ ہماری فلموں کی نمائش بھی بھارت میں ہو۔ یک طرفہ کارروائی ہماری فلمی صنعت کو اور لے ڈوبے گی۔ ابھی جو غیر قانونی طور پر بھارتی فلمیں وڈیو اور سی ڈی پر آ رہی ہیں ان سے ہی ہمیں کافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اگر بھارت کی مارکیٹ ہماری فلموں کے لیے کھل جاتی ہے تو بھارت فلمیں چلانے میں کوئی نقصان نہیں۔ لیکن اس کے لیے ہمارے تحفظات پر ضرور نظر رکھنی پڑے گی۔ پاکستانی فلمی صنعت کی گاڑی اس چوراہے پر کھڑی ہے جس کا ہر راستہ موت کی وادی کی طرف جاتا ہے۔ گزشتہ چھپن سالوں میں اتنا شدید بحران پہلے کبھی نہیں آیا تھا اور نہ ہی فلمی صنعت اس قدر زوال پزیر ہوئی تھی جتنی کہ ان دنوں نظر آرہی ہے۔ text: کبھی ایسا بھی محسوس ہوا ہے کہ اس میں چیزیں نہیں سمائیں گی؟ کیا آپ کو کبھی دو ہفتے کے لیے اپنے ضروری سامان کو طیارے سے منظور شدہ سفری بیگ میں پیک کرنے کا سابقہ پڑا ہے؟ اگر ہاں تو آپ کو جگہ بچانے کے یہ چند نسخے کارآمد نظر آئيں گے۔ کسے معلوم کہ آپ کو پھر سفر کے لیے سامان پیک کرنے میں مزہ آنے لگے۔ 1. اپنے جوتوں کو چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بھر لیں اگر آپ جوتوں کی خالی جگہ کو علیحدہ جگہ تصور کرتے ہیں تو آپ کو آسانی ہوگی جوتوں اور بوٹس میں بہت سی خالی جگہیں ہوتی ہیں۔ ان خالی جگہوں کے استعمال کے لیے آپ اس میں اپنی جرابیں، پینٹ، کچھے، وغیرہ بھر لیں۔ اور جہاں چھوٹی چیزوں کی بات ہے تو آپ کے پیڈ والے برا اور بکینی ذرا بھاری ہو سکتے ہیں لیکن انھیں بھی جوتوں میں بہ آسانی ڈالا جا سکتا ہے۔ انھیں ایک دوسرے کے اوپر ڈال دیں۔ 2. لپیٹیں، تہہ نہ لگائیں اپنے کپڑوں کو تہہ لگا کر رکھنے کے بجائے لپیٹ کر رکھیں سوٹ کیس میں زیادہ کپڑوں کے سمانے کے لیے انھیں تہہ کرکے رکھنے کے بجائے لپیٹیں۔ آپ لپیٹے ہوئے کپڑوں کو کس کر رکھ سکتے ہیں اور اس کے لیے ربر کے ایک آدھ بینڈ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کپڑے آپ کو پھر سے پریس نہیں کرنے پڑیں گے۔ 3. ہوا سے خالی بیگ کا استعمال کریں کم ہوا کا مطلب زیادہ جگہ اور اس کے لیے آپ ویکیوم کمپریشن بيک استعمال کر سکتے ہیں بازار میں ایسی بہت سی چیزیں ملتی ہیں جس سے آپ اپنے کپڑوں کے درمیان کی ہوا کو خالی کر کے اسے پیک کر سکتے ہیں اور جگہ بچا سکتے ہیں۔ بعض کمپریشن بيک میں پمپ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بعض میں آپ کپڑے بھر دیں جس سے ہوا از خود نکل جائے گی۔ اگر آپ زیادہ سے زیادہ کپڑے اپنے سوٹ کیس میں پیک کرنا چاہتے ہیں تو یہ ایک پر حکمت سرمایہ کاری ہے۔ 4. جوتوں کو ایک ساتھ رکھیں جوتوں کے آگے اور پیچھے کے حصے کو ملا کر رکھیں تاکہ جگہ بچ سکے بھاری سامان کے لیے جگہ بچانے کی غرض سے آپ کو جوتوں کو اس طرح رکھنا چاہیے کہ ایک کا انگوٹھے والا سرا دوسرے کے ایڑی والے سرے کے سامنے ہو۔ 5. ایی ریڈر پر خرچ کریں ایک ایی بک ریڈر لے جا کر آپ سینکڑوں کتاب چھٹیوں پر اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں چھٹیوں پر جانے والے پڑھنے کے شوقین لوگوں کے لیے یہ انتہائی حکمت کی بات ہے کہ وہ ایی بک ریڈر خرید لیں۔ آپ اس میں اپنی پسند کی تمام ناول اپ لوڈ کر سکتے ہیں اور وہ بھی بغیر کوئی جگہ لیے۔ 6. اپنے بھاری سامان پہن لیں چھوٹی ٹی شرٹ کو پیک کر کے رکھ لیں جبکہ بھاری ملبوسات کو سفر کے دوران پہن کر رکھیں جو سوٹ کیس میں نہ سما سکے اسے آپ پہن لیں۔ سوئٹر اور جیکٹ جیسی بھاری چیزیں پہن لینے سے آپ کے بیگ کی جگہ بچ جاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ آپ کو گرمی لگے گی اور پسینے آئیں گے لیکن جب آپ اپنی منزل پر پہنچیں گے تو آپ کے پاس بدلنے کے لیے بہت سے کپڑے ہوں گے۔ اپنی چپلوں کے لیے جگہ نکالنے کے لیے اپنے بھاری جوتے پہن کر رکھیں۔ 7. ٹوٹنے والی چیزوں کو اپنی جرابوں میں رکھیں کبھی ایسا بھی محسوس ہوا ہے کہ اس میں چیزیں نہیں سمائیں گی؟ آپ نے چھٹیوں کے لیے جو پرفیوم خریدی ہے کیا وہ بہت قیمتی ہے۔ اسے سفر میں ٹوٹنے سے بچانے کے لیے جرابوں میں رکھیں اور اگر شومیئ قسمت سے وہ ٹوٹ بھی گیا تو آپ ایک نئی خوشبو ڈیوٹی فری شاپ سے خرید سکتے ہیں۔ 8. گندے جوتوں کو شاور کیپ میں رکھیں شاور کیپ کے بہت سے دوسرے استعمال بھی ہیں ہوٹلوں میں عام طور پر مفت شاور کیپ ملتے ہیں۔ اگر آپ کے جوتے گندے ہیں تو آپ انھیں شاور کیپ میں رکھ کر پیک کرلیں تاکہ آپ کے دوسرے کپڑے صاف ستھرے رہیں۔ 9. وزنی سامان کو نچلے حصے میں رکھیں اگر وزنی سامان نیچے کی جانب ہیں تو آپ کو اپنے سوٹ کیس کے ساتھ چلنے میں آسانی ہوگی سامان پیک کرتے وقت ہم عام طور پر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمیں انھیں لے کر چلنا بھی پڑے گا۔ اس لیے وزنی سامان اگر سوٹ کیس میں نیچے پہیوں کی جانب ہوگا تو آپ کو سفر پر نکلنے کے ساتھ ہی ان کو ساتھ لے کر چلنے پھرنے میں بھی آسانی ہوگی۔ 10. اپنے ملبوسات کی منصوبہ بندی کر لیں صرف انھی سامانوں کو پیک کریں جک کا آپ استعمال کرنے والے ہیں دل میں یہ خیال آتا رہتا ہے کہ کہیں آپ کو اِس کی بھی ضرورت نہ پڑ جائے اور کہیں اُس کی بھی ضرورت نہ پڑ جائے۔ لیکن آپ اس معاملے میں سختی کا مظاہرہ کریں اور صرف اسی چیز کو پیک کریں جس کے بارے میں آپ یقینی ہوں کہ آپ ان کا استعمال کریں گے۔ 11. رسنے، چونے، ٹپکنے سے بچنے کے لیے کلنگ فلم استعمال کریں سامان کر اس طرح پیک کریں کہ سیال مادے بیگ میں رس کر کپڑوں کو خراب نہ کرین جب آپ اپنی ٹوائلٹریز جیسے شیمپو، شاور جیل، تیل وغیرہ کی بوتل کو پیک کر رہے ہوں تو پہلے اسکے ڈھکن کھول کر اس پر کلنگ فلم پھیلا لیں اور پھر ان کے ڈھکن کو مضبوطی سے بند کر دیں۔ باورچی خانے میں استعمال ہونے والے سٹیپل سے آپ کے سیال صابن اور سپیڈوز کو اضافی حفاظت ملتی ہے۔ 12. تولیے کی جگہ دوپٹہ یا بڑا رومال رکھ لیں ہلکا دوپٹہ یا بڑا رومال سب کو پسند آتا ہے نہانے کے لیے زیادہ تر ہوٹل اور گھر تولیے فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے سامان میں ساحل پر تفریح کے لیے اضافی تولیہ رکھ کر سوٹ کیس کو نہ بھریں بلکہ اس کی جگہ ہلکی چادر یا دوپٹہ رکھ لیں۔ دوپٹہ یا بڑا رومال کم جگہ لیتا ہے اور جلدی خشک ہوتا ہے اور ساحل پر موسم بدلنے کی صورت میں اس کا استعمال کئی طرح سے کیا جا سکتا ہے۔ 13. اپنے سوٹ کیس کو ذاتی پہچان دیں بھیڑ میں نمایاں ہو اور آپ کو پتہ ہو کہ آپ کا سوٹ کیس کون سا ہے سفر میں صرف پیکنگ ہی اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ ہوائی اڈے پر سامان کی بیلٹ پر سینکڑوں سوٹ کیس کے درمیان اپنے سوٹ کو پہچاننا بھی ایک مرحلہ ہے۔ اس کی تلاش میں پریشان ہونے کے بجائے اس کے ہینڈل کے ساتھ کوئی چمکیلا ربن باندھ دیں یا پھر کوئی چمکیلا سٹیکر لگا دیں یا پھر پورے بیگ پر کوئی چمکیلی ربر کی پٹی لگا دیں تاکہ آپ اسے دور سے ہی بہ آسانی پہچان لیں اور جلدی سے ایئرپورٹ سے نکل جائیں۔ امید کہ آپ کے لیے یہ نسخے کارآمد ثابت ہوں اور آپ ان کی مدد سے اپنی چھٹیوں سے لطف اندوز ہوں! اگر دنیا بھر کے سفر کرنے والوں میں ایک چیز یکساں ہے تو وہ سامان پیک کرنے کا مشکل مرحلہ ہے۔ text: تین ابتدائی کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے کے بعد مصباح الحق نے صورتحال کو سنھبال لیا گزشتہ سال اسی ابوظہبی میں اسوقت کی عالمی نمبر ایک انگلینڈ کی ٹیم پر بھی حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے اور آج کی عالمی نمبر ایک جنوبی افریقی ٹیم بھی حیران ہے کہ کیا یہ وہی پاکستانی ٹیم ہے جسے اس نے صرف دس ماہ پہلے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا لیکن ابوظہبی میں سب کچھ بدل گیا۔ پاکستانی ٹیم ٹیسٹ میچ جیت گئی لیکن چالیس رنز کے معمولی ہدف کو پہاڑ جیسا بنانے کے بعد۔ ایک کے بعد ایک گرنے والی تین وکٹوں نے جوہانسبرگ ٹیسٹ یاد دلادیا جب پاکستانی ٹیم اپنی تاریخ کے سب سے کم اسکور49 پر ڈھیر ہوئی تھی لیکن اس بار ذہنوں میں آنے والے وسوسے کپتان مصباح الحق نے دور کردیے۔ پہلی اننگز میں بہتر پوزیشن میں بیٹنگ کرکے سنچری بنانے والے مصباح الحق نے دوسری اننگز میں خود کو اسی پوزیشن میں پایا جس میں وہ ابتدائی وکٹیں جلد گرنے کے بعد عام طور پر بیٹنگ کرتے ہیں لیکن پرسکون اور اعتماد سے وہ ٹیم کو ایک یادگار جیت سے ہمکنار کرگئے۔ تیسرے دن چار اہم وکٹیں حاصل کرلینے کے باوجود مصباح کو بخوبی اندازہ تھا کہ جنوبی افریقی ٹیم آسانی سے قابو نہیں آئے گی اسی لئے انہوں نے تمام وقت اپنے چاروں بولروں کوعمدگی سے استعمال کرتے ہوئے دباؤ برقرار رکھا۔ جنید خان نے ڈینجرمین ایب ڈی ولئیرز کو آؤٹ کیا نائٹ واچ مین ڈیل اسٹین اور جے پی ڈومینی کی وکٹیں پاکستان کو جلد مل گئیں۔ لیکن اصل خطرہ اے بی ڈی ولیئرز سے تھا جو اسی گراؤنڈ پر تین سال پہلے پاکستانی بولنگ پر ڈبل سنچری بناچکے تھے ان کی مزاحمت سنچری سے دس رنز کی کمی پر ختم ہوئی تو گریم اسمتھ نوشتہ دیوار پڑھ چکے تھے۔ رابن پیٹرسن نے پاکستان کے خلاف کیپ ٹاؤن کی بیٹنگ کی یاد تازہ کرنے کی کوشش کی لیکن سعید اجمل کے مہلک وار نے ڈوپلیسس، فلینڈر اور مورکل کو شکار کرلیا اور پیٹرسن کے ہاتھ کچھ بھی نہ بچا۔ سعید اجمل کا غصہ اسوقت فطری تھا جب عدنان اکمل نے پیٹرسن کا کیچ ڈراپ کیا ۔ فلینڈر کا کیچ بھی وہ دوسری کوشش میں لے پائے۔ سعید اجمل کے بارے میں مصباح الحق زیادہ فکر مند تھے کہ جنوبی افریقی بیٹسمینوں کو ان کی بولنگ کے بارے میں کافی پتہ چل چکا ہے لیکن اجمل نے اس چیلنج کو قبول کیا اور ثابت کردیا کہ پاکستانی بولنگ انہی کے گرد گھومتی ہے۔ پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے ذوالفقار بابر نے خوب بولنگ کی محمد عرفان اور جنید خان نے بھی اپنے کپتان کو مایوس نہیں کیا۔جبکہ سرپرائز پیکج ذوالفقار بابر نے کسی بھی موقع پر یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیل رہے ہیں جو اعتماد ان میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹی ٹوئنٹی کھیلتے ہوئے تھا وہ ابوظہبی میں بھی واضح طور پر موجود تھا۔ بابر ذوالفقار نے پہلی اننگز میں تین وکٹیں حاصل کرنے کے بعد وہ دوسری اننگز میں بھی دو کھلاڑی آؤٹ کرنے میں کامیاب رہے جن میں ہاشم آملا کی قیمتی وکٹ بھی شامل ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کا انداز سب سے منفرد ہے کہ نہ کھیلنے پہ آئے تو عالمی رینکنگ کی سب سے نچلی ٹیم زمبابوے سے بھی ہار جائے اور جب اپنے موڈ میں ہو تو عالمی نمبر ایک ٹیم بھی اس سے نہ بچ پائے۔ text: اس حادثے میں کس شخص کے ہلاک ہونے کی اطلاع نہیں اطلاعات کے مطابق زخمی ہونے والے افراد میں سے آٹھ شدید زخمی ہیں اور ان کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ ایک عینی شاہد کا کہنا ہے کہ دھند کی وجہ سے کوئی شے نظر نہیں آ رہی تھی اور کراسنگ یا پل پر آنے والی گاڑیوں کی بتیاں بجھی ہوئی تھیں۔ کچھ عینی شاہدین نے بتایا کہ گاڑیوں کے ٹکرانے سے ایک انبار سا لگ گیا جس میں لاریاں اور ایک گاڑیاں لے جانے والا ٹرالر بھی شامل تھا۔ کچھ اطلاعات کے مطابق ابتدائی حادثے کے بعد دس منٹ تک اس شاہراہ پر آنے والی گاڑیاں اگلی گاڑیوں سے ٹکراتی رہیں۔ ایک ڈرائیور مارٹن سٹیمر نے حادثے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ یہ ایک انتہائی ہولناک منظر تھا۔ انھوں نے بتایا کہ کچھ گاڑیاں بڑی لاریوں کے نیچے دبی ہوئی تھیں اور لوگ زخمی حالت میں سڑک پر پڑے تھے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ دس سے بیس گز آگے کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی تھی اور جب وہ اس مقام پر پہنچے تو انھوں نے پانچ گاڑیوں کو دیکھا جو آپس میں ٹکرائیں تھیں اور ایک سڑک کے بیرونی جانب پڑی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں دس منٹ تک گاڑیوں کے ہنگامی انداز میں بریک لگانے پر پھر کسی دوسری گاڑی سے ٹکرانے کی زور دار آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کا بیٹا جائے حادثے کی طرف آتی گاڑیوں کو خبردار کرنے کے لیے بھاگا اور بعد میں ایک عورت روتی ہوئی ان کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ آپ لوگوں نے میری جان بچا لی۔ حادثے کے بعد کئی گھنٹوں تک امدادی کارکن جائے حادثے سے لوگوں کو ہستپالوں تک پہنچانے میں مصروف تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ کراسنگ جہاں پر یہ حادثہ ہوا تھا چوبیس گھنٹوں کے لیے بند رہے گی۔ حادثے کا شکار ہونے والی سو سے زیادہ گاڑیوں کو وہاں سے ہٹانے سے پہلے پولیس حادثے کی وجہ کی تحقیق کرنا چاہتی ہے۔ شیپی جزیرے کو کینٹ سے ملانے والی یہ کراسنگ یا پل دس کروڑ پاونڈ کی لاگت سے سنہ دو ہزار چھ میں مکمل کی گئی تھی اور یہ ایک اعشاریہ دوپانچ کلو میٹر لمبی ہے۔ برطانیہ میں کینٹ کی کاونٹی میں دھند کے باعث ایک پل پر سو گاڑیاں کے ٹکرانے سے کئی درجن افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ text: سٹیورٹ نے کہا فرانس میں لوگ جس قسم کی فلم بناتے ہیں وہ ہالی وڈ میں بنائی جانے والی فلموں سے بہت مختلف ہوتی ہیں اور میں یہاں کی فلم کو ترجیح دیتی ہوں واضح رہے کہ سیزر ایوارڈ فرانس میں آسکر ایوارڈ کا ہم پلہ تصور کیا جاتا ہے۔ انھیں فلم ’کلاؤڈس آف سلز ماریا‘ میں ان کی اداکاری پر بہترین معاون اداکارہ کا ایوارڈ دیا گیا ہے۔ سیزر ایوارڈز کی شام فلم ’ٹمبکٹو‘ کے نام رہی کیونکہ اس فلم کو بہترین فلم کے ساتھ سات ایوارڈز ملے اور ان میں بہترین ہدایت کار کا ایوراڈ بھی شامل تھا۔ اس فلم میں شمالی مالی کو پیش کیا گیا ہے جو اسلامی جنگجوؤں کے زیر اقتدار ہے۔ واضح رہے کہ یہ فلم آئندہ اتوار کو منعقد ہونے والی آسکر تقریب میں بہترین غیرملکی فلم کے زمرے میں نامزد ہے۔ امریکی اداکارہ سٹیورٹ نے ایوارڈ قبول کرتے ہوئے فرانسیسی میں کہا ’مجھے تم سے محبت ہے جولیئٹ۔‘ واضح رہے کہ جولیئٹ بنوشے فلم میں ان کی ساتھی اداکارہ ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے فرانسیسی فلم سازوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ قیصر ایوارڈز کی شام فلم ’ٹمبکٹو‘ کے نام رہی کیونکہ اس فلم کو بہترین فلم کے ساتھ سات ایوارڈز ملے انھوں نے ورائٹی میگزن سے بات کرتے ہوئے کہا: ’فرانس میں لوگ جس قسم کی فلم بناتے ہیں وہ ہالی وڈ میں بنائی جانے والی فلموں سے بہت مختلف ہوتی ہیں اور میں یہاں کی فلم کو ترجیح دیتی ہوں۔‘ اس ایوارڈ تقریب میں ایک دوسرے امریکی اداکار کو بھی اعزاز سے نوازا گیا۔ امریکی اداکار شان پین کو فلموں میں ان کی گرانقدر خدمات کے اعتراف میں ’لائف ٹائم اچیومنٹ‘ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ایوارڈ حاصل کرنے کے موقعے پر تیار کیے گئے اپنے خطاب میں ’ٹمبکٹو‘ کے ڈائرکٹر عبد الرحمن سیساکو نے گذشتہ اسلام پسند کی جانب سے ہونے والے تباہ کن حملے کے پیش نظر فرانس کو ایک ’شاندار ملک‘ کے طور پر یاد کیا۔ انھوں نے کہا: ’یہاں تہذیب کا کوئی تصادم نہیں ہے۔ یہاں تہذیب کا سنگم ہے۔‘ کرسٹین سٹیورٹ وہ پہلی امریکی اداکارہ بن گئی ہیں جنھوں نے فرانس کا باوقار سیزر ایوراڈ حاصل کیا ہے۔ text: ممبئی مونسپل کارپوریشن کی تین ہزار چار سو بسیں ہڑتال کی وجہ سے بند رہیں جس کی وجہ سے مسافروں سارا دن سفری مشکلات سے دوچار رہے۔ اس دوران شہر میں پولیس اور ٹرانسپورٹ ورکروں کے درمیان معمولی جھڑپوں کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ٹرانسپورٹ ورکز بہتر تنخواہوں اور مراعات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مونسپل کارپوریشن کی بسوں پر روز آنہ تقریباً پینتالیس لاکھ مسافروں سفر کرتے ہیں۔ شہر میں جب بسوں کی ہڑتال ہو جاتی ہے تو بہت سے لوگوں کو ٹرینوں سے سفر کرنا پڑتا ہے یا پھر ان کو ٹیکسیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ان لوگوں زیادہ مشکلات درپیش آتی ہیں جو شہر کے ایسے حصوں میں رہتے ہیں جہاں ٹرین کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق ہڑتالی کارکنوں نے شہر میں کم از کم سترہ جگہوں پر ہڑتال کرانے کی کوشش کی اور پرتشدد طریقے اپنائے۔ ایک اندازے کے مطابق چوالیس ہزار کارکن جمعہ کو کام پر نہیں آئے۔ ہڑتالی کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات پورے ہونے تک احتجاج جاری رکھیں گے۔ کارکنوں نے حکومت کے ساتھ تنخواہ میں اضافے کے لیے ہونے والے مذاکرات کے بعد ہڑتال کی اپیل کی تھی۔ ممبئی شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام پورے ملک سے بہتر ہے۔ بھارت کے تجارتی دارالحکومت ممبئی میں جمعہ کو بسوں کی ہڑتال کی وجہ سے لاکھوں شہریوں کو سفر کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ text: جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب حکومت کے وکیل نے کہا کہ تحویل میں لیے گئے افراد کے خلاف اب تک کوئی کیس درج نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حکومت چا ہتی ہے کہ زیر تفتیش افراد میں سے جو بھی بے گناہ ہو وہ واپس اپنی ملازمت پر چلا جائے۔ کیونکہ اگر کیس درج کر کے تحقیقات کی گئی تو پھر بے قصور شخص بھی واپس اپنی جاب پر نہیں جا سکے گا۔ اس موقع پر حراست میں لیے گئے اہلکاروں کے ایک کے عزیز نے بلند آواز میں کہا کہ ان کو نوکری نہیں بلکہ اپنے عزیز چاہئیں۔ اس پر سرکاری وکیل طارق شمیم نے جواب دیا: ’لگتا ہے آپ نے بہت مال بنا لیا ہے اس لئے آپ کو نوکری کی ضرورت نہیں ہے۔‘ اس کے بعد کمرہ عدالت جو حراست میں لیے گۓ اہلکاروں کے عزیز و اقارب اور وکیلوں سے بھرا ہوا تھا شیم شیم کے نعروں سے گونج اٹھا جس پر جسٹس مولوی انوارالحق نے عدالت برخاست کر دی اور کہا کہ ان حالات میں ان کے لیے کام کرنا مشکل ہے۔ اس کے بعد جب درخواست گزاروں کے وکیلوں نے جج کے چیمبر میں جا کر درخواست کی کہ سماعت دوبارہ شروع کی جائے تو جج نے کہا کہ اس کیس کی سماعت بدھ کے روز ہو گی۔ حکومت کے وکیل نے منگل کو بھی عدالت میں کوئی رپورٹ داخل نہیں کی اور عدالت سے درخواست کی کہ اس حساس معاملے کی تحقیقات کے لئے حکومت کو مزید وقت درکار ہے۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ اب چند دنوں کی بات ہے، جو قصور وار نہیں ہوگا وہ گھر چلا جائے گا اور جس نے غلط کام کیے ہیں اس کے خلاف مقدمہ درج ہو جائے گا اور قانون کے تحت کارروائی ہوگی۔ خان ریسرچ لیبارٹریز کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ آٹھ لوگوں کے عزيز و اقارب نے حبس بے جا کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں جس میں انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ان کے لواحقین کو امریکی ادارے، ایف بی آئی یا کسی اور امریکی ایجنسی کے حوالے کر دیا جائے گا۔ درخواست گزاروں کے ایک وکیل چوہدری اکرام نے کہا کہ یہ سب کچھ جنرل مشرف اپنی غیر قانونی حکمرانی کو بچانے کے لیے کر رہے ہیں۔ وکیل نے کہا کہ آج پاکستان فوج کے جرنیلوں کے اکڑ کر چلنے کی وجہ ملک کا جوہری پروگرام ہے جس کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں جن کو حراساں کیا جا رہا ہے۔ اور ان کے رفقاء کی تذلیل کی جا رہی ہے۔ اس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ ’منتخب صدر اور پاکستان کی محافظ فوج کے بارے میں کوئی ریمارکس نہ دیۓ جائیں‘۔ حکومت کے وکیل نے یہ بھی استدعا کی کہ اگر عدالت اس مقدمے کو سننا چاہتی ہے تو پھر اس کو بند کمرے میں (اِن کیمرہ) سماعت کرنی چاھیۓ۔ پاکستان جوہری پروگرام کے جن لوگوں کے لواحقین نے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے ان میں ، محمد فاروق (ڈائریکٹر جنرل)، میجر اسلام الحق ( ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے پرنسپل سٹاف افسر) ، برگیڈیئر سجاول (سابقہ ڈائریکٹر جنرل سروسز ڈویژن کے آر ایل)، ڈاکٹر عبدالمجید (موجودہ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ اینڈ فزکس ڈیپارٹمنٹ)، نسیم الدین (سربراہ میزائل مینوفیکچرنگ ڈویژن)، ڈاکٹر منصور احمد (سابقہ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ اینڈ فزکس) برگیڈیر محمد اقبال تاجور (سابقہ ڈائریکٹر جنرل سکیورٹی کہوٹہ)، ڈاکٹر نذیر احمد (موجودہ چیف انجنیئر میٹلجرک ڈیپارٹمنٹ کہوٹہ) شامل ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ڈاکٹر منصور احمد کو رہا کیا جا چکا ہے، جس کی تصدیق ان کے وکیل بیرسٹر طارق کھوکھر نے بھی کی۔ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ جہاں پاکستان کے جوہری پروگرام کہوٹہ میں کام کرنے والے سات افراد کے اہل خانہ نے حبس بے جا کی درخواست دائر کر رکھی ہے، سماعت کے دوران جھگڑا ہونے کے بعد عدالت نے سماعت ایک دن کے لئے ملتوی کر دی۔ text: عدالت نے وہاں جنگلات کے تحفظ کے لیے دو برس قبل پیڑ کاٹنے پر پابندی عائد کی تھی۔ انڈمان نکوبار جزائر میں سنامی لہروں سے زبردست جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ ہزاروں افراد بے گھر ہو گۓ ہیں۔ عدالت نے اسی کے پیش نظر گھروں کی تعمیر کے لیے یہ اجازت دی ہے جو صرف آئندہ چھ ماہ کے لیے ہے۔ ماہرین کے مطابق گمشدہ افراد کے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہے۔ مرکزی حکومت کے مطابق چار ہزار سے زیادہ لوگوں نے امدادی کیمپوں میں پناہ لی رکھی ہے۔ انڈمان نکوبار میں چھوٹے بڑے تقریباً پانچ ہزار جزیرے ہیں۔ ان میں سے صرف اڑتیس پر ہی آبادی ہے۔ سونامی لہروں سے آبادی والے دس جزیرے متاثر نہیں ہوئے تھے۔ لیکن باقی میں زبردست تباہی ہوئی ہے۔ تقریباً پندرہ جزیروں پر اب بھی پوری طرح رسائی نہیں ہوسکی ہے۔ لیکن حکام کا کہنا ہے کہ اب رابطہ بحال ہوگیا ہے۔ ابتداء میں ان جزائر میں امدادی کاموں میں بڑی پریشانیاں در پیش تھیں جس کے بعد اسے فوج کے حوالے کردیا گیا تھا۔ قانون کے مطابق یہاں کسی بھی غیر ملکی کو جانے کے لیے حکومت سے خصوصی اجازت لینی پڑتی ہے۔ حکومت نے کسی بھی غیرملکی امدادی تنظیم کو بھی وہاں جانے کی اجازت نہیں دی ہے۔ ہندوستان میں عدالت عظمیٰ نے انڈمان نکوبار جزائر میں سونامی سے متاثرہ افراد کی آباد کاری کے لیے درختوں کو کاٹنے کی اجازت دیدی ہے۔ text: لیبیا کے اعلان سے چاہے دنیا کو حیرت ہوئی ہو لیکن واشنگٹن اور لندن میں ایک چھوٹے سے حلقے میں اس پر کوئی تعجب نہیں تھا کیونکہ یہ لوگ اپنے ممالک کے رازوں سے واقف تھے۔ لیکن اب یہ واضح ہے کہ ایک عشرے سے زائد سے برطانوی اور امریکی انٹیلیجنس کو اس طرح کی اطلاعات مل رہی تھیں کہ کوئی ایٹمی ہتھیاروں کے راز فروخت کررہا ہے۔ یہ اطلاعات پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خفیہ نیٹ ورک کی جانب اشارہ کررہی تھیں۔ سی آئی اے کے سابق سربراہ جارج ٹینیٹ نے ڈاکٹر خان کو اتنا ہی خطرناک بتایا جتنا کہ اسامہ بن لادن۔ اس بات کی تفصیلات اب موصول ہونا شروع ہوئی ہیں کہ اس نیٹ ورک میں دراندازی کیسے کی گئی اور کون سے سوالات ہیں جو اب بھی جواب طلب ہیں۔ برطانوی خفیہ ادارے اور سی آئی ای نے انیس سو نوے کے اواخر میں ڈاکٹر خان کے نیٹ ورک میں رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ان ایجنسیوں نے کئی آپریشن کیے اور اپنے ایک افسر کو اس نیٹ ورک میں جگہ دلائی۔ دیگر ذرائع اور برطانوی انٹیجینس ہیڈکوارٹر کی مدد سے انہیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خریداروں، جعلی کمپنیوں، مالی فراہمی اور لیبارٹریوں کے جال کا پتہ چلا۔ جیسے جیسے یہ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر خان نے ایک بین الاقوامی نیٹ ورک تیار کیا ہے جو ایٹمی ہتھیاروں کے لیے آلات فراہم کررہا ہے، برطانیہ کی جوائنٹ انٹیلیجنس کمیٹی میں اس موضوع پر سن دوہزار کے آغاز سے تشویش کا اظہار کیا جانے لگا۔ واشنٹگن میں امریکی انٹیلیجنس کے کچھ اہلکار چاہتے تھے کہ ڈاکٹر خان کے نیٹ ورک اور لیبارٹریوں کو تباہ کیا جائے۔ لیکن کچھ سفارت کار اس بات پر فکرمند تھے کہ ایسا کرنے سے پہلے خفیہ اطلاعات کو ذرائع ابلاغ کے سامنے لانا پڑے گا تاکہ حکومتوں پر اس نیٹ ورک کو بند کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاسکے۔ لیکن انٹیلیجنس کے بعض اہلکاروں کو اس بات کا خدشہ تھا کہ ایسا کرنے سے انٹیلیجنس کے ذرائع کا نقصان ہوسکتا ہے۔ لہذا فیصلہ کیا گیا ہے کہ کچھ انتظار کیا جائے اور مزید معلومات حاصل کی جائیں۔ بعض ماہرین تاخیر کرنے کے اس فیصلے پر خوش نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا مزید موقع مل جائے گا، بالخصوص ان ہتھیاروں کا جن کے بارے میں شاید انٹیلیجنس کو کچھ معلوم نہیں۔ لیکن مارچ دو ہزار تین میں ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہونے کے لیبیا کے اعلان سے انٹیلیجنس برادری کو اس بات کا موقع ملا کہ صرف خفیہ کارروائی کرنے کے بجائے عوامی سطح پر اس بارے میں کچھ کیاجائے۔ اس سے اس بات کا موقع بھی ملا کہ خفیہ معلومات حکومتوں اور انٹرنیشنل اٹامِک انرجی ایجنسی کو کارروائی کے لیے فراہم کیا جائے۔ جاسوسوں سے ملنے والی اطلاعات نے بھی اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ لیبیا تمام حقائق سامنے لائے، لیکن ساتھ ہی لیبیا کی حکومت کے ساتھ ہونے والے طویل مذاکرات کی وجہ سے ڈاکٹر خان کے نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے میں تاخیر ہوتی گئی۔ جب سے ڈاکٹر خان کے نیٹ ورک کا پردہ فاش ہوا ہے تب سے جنوبی افریقہ سے ملیشیا اور ترکی تک کئی لوگوں کو حراست میں لیاجاچکا ہے۔ اگرچہ یہ کہا جارہا ہے کہ ڈاکٹر خان کا نیٹ ورک بند کردیا گیا ہے تاہم تفتیش کار ان لوگوں سے پوچھ گچھ کررہے ہیں جن کا اس نیٹ ورک سے تعلق رہا تھا۔ کئی سوالات جواب طلب ہیں۔ سی آئی اے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر خان کے نیٹ ورک سے ’ایران کے ایٹمی پروگرام کو اہم امددا ملی‘۔ حکام اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ لیبیا اور ایران کو ڈاکٹر خان سے ملنے والے معلومات میں کافی مماثلت ہے۔ اور اگر یہ صحیح ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے میں مصروف ہے، نہ کہ صرف ایٹمی توانائی۔ یہ بھی صحیح طور پر نہیں معلوم ہے کہ شمالی کوریا کو ڈاکٹر خان کے نیٹ ورک سے ملنے والی معلومات کی صحیح نوعیت کیا تھی۔ لیبیا، ایران اور شمالی کوریا کا ڈاکٹر خان کے نیٹ ورک سے تعلق رہا ہے۔ لیکن بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک چوتھا ملک بھی ہے جسے ان کی مدد ملی۔ اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ ایسا دوبارہ سے ہوسکتا ہے۔ ایٹمی راز پھیلانے والوں کو کافی پیسہ ملتا ہے۔ ایک وقت ڈاکٹر خان کے ایک مڈل مین کو تین ملین ڈالر کا بریف کیس دیا گیا۔ کبھی کبھی انٹیلیجنس ایجنسیوں کو اس بات کے اشارے ملتے رہتے ہیں کہ منڈی میں ایٹمی ہتھیاروں کی خریدو فروخت کا کام جاری ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ جرائم پیشہ لوگ پیسہ کمانے کے لیے اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایک سال قبل لیبیا نے یہ اعلان کرکے دنیا کو حیران کردیا کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانے کا خفیہ منصوبہ ترک کررہا ہے۔ کئی لوگوں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ لیبیا کے پاس کوئی ایٹمی منصوبہ بھی ہے۔ text: اینڈریو یری نے ساؤتھ اینڈ یونائیٹڈ اور بریڈفورڈ کا میچ دیکھنے کے لیے دس ہزار میل کا سفر کیا برزبین سے تعلق رکھنے والے اینڈریو یُری سنیچر کو آسٹریلیا سے برطانیہ کے شہر بریڈفورڈ پہنچے لیکن اس میچ کو گیلے گراؤنڈ کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ اینڈریو یُری نے کہا کہ ’جیسے ہی ہماری گاڑی سٹیڈیم کے باہر پہنچی، ہمیں ہمیں بتا دیا گیا۔ میں چند تصاویر لینے کے لیے گاڑی سے اترا اور پھر ہم واپسی کا سفر اختیار کیا۔‘ اس سے قبل ساؤتھ اینڈ میں رہائش پذیر یُری بہت سے میچ انٹرنیٹ پر دیکھ لیتے تھے تاہم شرمپرز کے کھیل کو براہ راست دیکھنے کے شوق نے انھیں برطانیہ جانے پر مجبور کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ پرانی یادوں کو تازہ کرنا چاہتے تھے۔ اینڈریو یُری کے مطابق سنیچر کے میچ کے بارے میں سوشل میڈیا کے ذریعے اپ ڈیٹس لے رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ یہ ملتوی ہو جائے گا، تاہم منتظمین نے میچ کے ملتوی ہونے کی تصدیق ان کی آمد کے بعد کی۔ تاہم وہ پرامید ہیں کہ وہ اگلے تین میچوں کے ساتھ ساتھ کرسمس کے اگلے دن کالچیسٹر میں گھڑ دوڑ کا مقابلہ بھی دیکھ سکیں گے۔ آسٹریلیا میں فٹبال کے ایک مداح نے ساؤتھ اینڈ یونائیٹڈ اور بریڈفورڈ کا میچ دیکھنے کے لیے دس ہزار میل کا سفر کیا لیکن پھر انھیں یہ پتہ چلا کہ میچ تو ملتوی ہو گیا ہے۔ text: وہیں بدھ کو پاکستان کے صدر عارف علوی دورہ لاہور کے دوران منظر عام پر آنے والی تصاویر میں این 95 ماسک پہنے ایک اجلاس کی سربراہی کرتے نظر آئے جس پر سوشل میڈیا اور ڈاکٹروں کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کی گئی۔ اس پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کی جانب سے جاری ایک بیان میں حکومتی عہدیداروں، سرکاری افسران اور سیاستدانوں کی جانب سے این 95 ماسک کے استعمال کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ پی ایم اے کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد کا جاری بیان میں کہنا تھا کہ ’یہ نہایت افسوس ناک ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک میں ذاتی حفاظت کے سامان کی قلت ہے اور ہسپتال کے عملے کو بھی یہ میسر نہیں، سیاستدان اور سرکاری افسران یہ ماسک پہنے نظر آتے ہیں۔‘ تاہم پی ایم اے کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں صدر مملکت عارف علوی کے نام کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ جبکہ صدر مملکت عارف علوی نے سوشل میڈیا پر ہی اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے اپنی صفائی میں ایک ٹویٹ کر دی۔ اپنی ٹویٹ میں ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ ’بطور ڈاکٹر میں اچھی طرح سے غلط استعمال اور ضیاع سے واقف ہوں۔ میں نے اپنے اس این 95 ماسک کو دوبارہ استعمال کیا جو مجھے چین کے دورے کے دوران دیا گیا تھا۔ بلاخر اس کا ایک سٹریپ ٹوٹ گیا ہے، لہذا شہید ونگ کمانڈر نعمان اکرم کے اہلخانہ سے تعزیت کے موقع پر آپ مجھے ایک عام ماسک پہنے دیکھ سکتے ہیں۔‘ جبکہ مہ بینا نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے ان کی حمایت کرتے ہوئے ردعمل دیا کہ ’جناب صدر آپ کو لوگوں سے ملتے وقت این 95 ماسک یا اچھا سرجیکل ماسک ضرور پہننا چاہیے۔‘ جبکہ ایک صارف نے صدر مملکت کے این 95 ماسک پہننے پر ہلکہ پھلکہ تنقیدی انداز اپناتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا۔ اس سے قبل بھی چند سرکاری اہلکار اور سیاستدان این 95 ماسک پہنے دکھائی دیتے رہے ہیں۔ پشاور کی ڈاکٹر بہنوں کے والدین کے خدشات اور جذبے کیا ہیں؟ کورونا سے پاکستان میں ایک کروڑ افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ پاکستان میں کلوروکوین کا کورونا متاثرین پر استعمال کتنا موثر کورونا وائرس کا ٹیسٹ کب اور کیسے غلط ہوسکتا ہے کیا آپ کورونا وائرس کو یو وی لائٹ کے ذریعے ختم کر سکتے ہیں؟ جبکہ دوسری جانب سوشل میڈیا پر ایک بحث یہ بھی جاری ہے کہ کس کس کو حفاظتی لباس پہننے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں بدھ کی رات بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے ٹوئٹر پر عوامی رائے کو جانچنے کے لیے رائے شماری کے لیے ایک ٹویٹ شئیر کی جس میں انھوں نے عوام سے پوچھا کہ ’کیا آپ کے خیال میں ایسے ڈاکٹروں کو جو اس ہسپتال کے شعبہ بیرونی مریضاں میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں جہاں کورونا سے متاثرہ ایک بھی مریض موجود نہیں ہے، ذاتی حفاظتی لباس پہننا چاہیے؟ وزیر اعلیٰ بلوچستان کی جانب سے اس پول کو شروع کرنا تھا کہ سوشل میڈیا صارفین نے فوری اس پر ردعمل دینا شروع کر دیا۔ لیکن وزیراعلیٰ بلوچستان بھی صارفین کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات اور اعتراضات کا جواب دیتے نظر آئے۔ بلال ڈار نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’او پی ڈی وہ جگہ ہے جہاں ہر طرح کے مریض آتے ہیں اس لیے ان ڈاکٹروں کا حفاظتی کِٹس کی اشد ضرورت ہے، جیسے آپ N95 ماسک پہن کر باہر نکالتے ہیں ویسے ہی ڈاکٹرز اور طبی عملے کو بھی اس کی ضرورت ہے۔‘ ایک اور صارف ڈاکٹر مستجاب خان نے جام کمال کی اس رائے شماری پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ اس سوال کا جواب انھیں دینا چاہیے جو صحت کے ماہرین نہیں ہیں اور میرے خیال میں ذاتی حفاظت کا سامان طبی عملے کے ہر فرد کا حق ہے۔‘ جس کے جواب میں وزیر اعلیٰ جام کمال کا کہنا تھا کہ ذاتی حفاظت کا سامان موجود ہونا چاہیے لیکن ضرورت پڑنے پر ہی ڈاکٹر کو فراہم کیا جائے۔ سوشل میڈیا صارفین فرحان ورک نے ویڈیو بنا کر جبکہ ڈاکٹر گلزار نے ٹویٹ کے ذریعے وزیر اعلیٰ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اب کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اکثر افراد جن میں یہ وائرس پایا جاتا ہے ان میں اس کی علامات نہ ہوں۔ تو عین ممکن ہے کہ جب ایسا شخص کسی بھی ہسپتال کے شعبہ بیرونی مریضاں میں آئے تو اس سے یہ وائرس ڈاکٹر میں منتقل ہو جائے اور کیونکہ ہسپتال کے شعبہ بیرونی مریضاں میں موجود ڈاکٹر روزانہ سینکٹروں مریضوں کو دیکھتے ہیں اس لیے یہ وائرس ڈاکٹر سے کئی دیگر مریضوں میں بھی منتقل ہو سکتا ہے۔ تاہم جام کمال کا کہنا ہے کہ اس صورت میں تمام مریضوں کو ماسک اور دستانے پہن کر ہسپتال کے شعبہ بیرونی مریضاں میں آنا چاہیے اور ڈاکٹر دو ماسک پہن کر ایسے مریضوں کو دیکھ سکتا ہے۔ متعدد سوشل میڈیا صارفین نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو مشورہ دیا کہ وہ سوشل میڈیا پر اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ جہاں ایک جانب سوشل میڈیا صارفین نے وزیر اعلیٰ بلوچستان پر تنقید کی وہیں چند صارفین نے ان کا ساتھ دیتے ہوئے انھیں اس رائے شماری کو نہ کروانے کا مشورہ بھی دیا۔ تاہم ایک طرف جہاں بعض حکومتی عہدیدار ڈاکٹروں سمیت تمام عوام کو اس بات کی تلقین کر رہے ہیں کہ این 95 ماسک جیسے حفاظتی سامان صرف ان ماہرین صحت کے لیے ہیں جو کورونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال پر معمور ہیں۔ پاکستان میں کورونا کی وبا کے بڑھتے ہوئے مریضوں اور ملک کے بیشتر ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو حفاظتی آلات کی قلت کا سامنا ہے۔ text: جبکہ چیچن باغیوں نے دھماکے کی مذمت کی ہے اور اسے جرم قرار دیا ہے۔ روسی صدر نے کہا کہ انہیں کسی تصدیق کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس دھماکے کے پیچھے جمہوریہ چیچنیا کے باغیوں کا ہاتھ ہے۔ پولیس کا خیال ہے کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا جس سے ٹرین کی ایک بوگی مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔ دھماکے کی وجہ سے ایک سو بیس سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ یہ دھماکہ ایک ریل گاڑی کی دوسری بوگی میں صبح کے وقت ہوا جب دفتر جانے والے افراد کی وجہ سے گاڑیوں میں بھیڑ زیادہ ہوتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق دھماکہ اس وقت ہوا جب ٹرین ایک سرنگ میں داخل ہوئی جس سے سرنگ میں دھواں بھر گیا۔ ماسکو میں بی بی سی کی نامہ نگار نے بتایا ہے کہ دھماکے کے بعد لوگوں میں سراسیمگی پھیل گئی اور لوگ دھماکے کی جگہ سے دور بھاگ کر گلیوں میں جمع ہونے لگے۔ روسی صدر پتین نے ریل میں ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری جس میں انتالیس افراد ہلاک ہوگئے تھے چیچن باغیوں پر عائد کی ہے۔ text: ایلڈر سکرولز سے ایک دل لبھانے والا سٹیک کوئی کھانا پسند کرے گا؟ چاہے یہ صحت واپس حاصل کرنے کے لیے فوری کچھ کھانا ہو، خصوصی طاقتیں حاصل کرنے کے لیے جادوئی محلول پینا ہو، کھانے ہمیشہ ویڈیو گیمز کا اہم حصہ رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ حیران کن بات ہو سکتی ہے مگر ’گیمنگ پکوان‘ واقعی ایک چیز ہے، اور یہاں ویڈیو گیمنگ کی تاریخ سے 10 لذیذ کھانوں کا ذکر کیا جائے گا۔ 1۔ سپر ماریو برادرز سے کھمبیاں ماریو کی کھمبیوں کو کون نہیں پہچانے گا؟ تمام ویڈیو گیمز میں سب سے زیادہ مشہور کھانا بلاشبہ ماریو برادران کی کھمبیاں ہیں۔ ماریو یا ان کے بھائی لوئیگی یہ بڑی سے کھمبی کھاتے ہیں اور سائز میں دوگنے ہو جاتے ہیں۔ سائز بڑا ہو جانے پر وہ بہتر انداز میں گومباس نامی جیتی جاگتی کھمبیوں اور انسانی خصوصیات رکھنے والے کوپاس نامی کچھوؤں سے نمٹ سکتے ہیں۔ مگر یہ بات بھی عجیب تھی کہ ماریو کے سب سے اچھے دوستوں میں سے ایک کھمبی ہی تھی، مگر چلیں اس کے بارے میں زیادہ نہیں سوچتے۔ 2۔ پورٹل سے کیک یہ مشہور سائنس دان اروِن شروڈنگر کی بلی والے تجربے کی طرح ہے۔ پورٹل (پزل پلیٹ فارم ویڈیو گیم) میں چاکلیٹ کا بڑا سا کیک مرکزی کردار شیل کو تب پیش کیا جاتا ہے جب وہ کھیل کے ہر ٹیسٹ چیمبر یا لیول کو پار کر لیتی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ شروڈنگر کے مشہور خیالی تجربے کی طرح جس میں کبھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ بلی زندہ ہے یا نہیں، کبھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کیک واقعی وجود رکھتا ہے یا نہیں۔ اور کھیل مکمل کرنے پر یہ تو یقینی ہے کہ آپ کو کیک کا سلائس نہیں دیا جاتا۔ اسی وجہ سے پورٹل کی ریلیز کے بعد یہ فقرہ ’کیک صرف ایک جھوٹ ہے‘ انٹرنیٹ میم بنا۔ 3۔ سٹریٹس آف ریج سے بھنی ہوئی مرغی ویڈیو گیمز میں کھانے کا عموماً مقصد توانائی بحال کرنا ہوتا ہے مگر تمام ویڈیو گیمز کو یہ چیز شامل کرنے کا حقیقت سے اتنا قریب تر خیال نہیں آیا جتنا کہ سٹریٹس آف ریج کو۔ 90 کی دہائی کے اس کلاسک ویڈیو گیم میں جب آپ کی توانائی کم ہونے لگتی تو آپ کو بھنی ہوئی مرغی کی تلاش میں کچرے کے ڈبوں کو توڑنا ہوتا تھا۔ کیونکہ ظاہر ہے، لوگ پوری بھنی ہوئی مرغی ایسے ہی شہر بھر میں کچرے کے ڈبوں میں چھوڑ دیا کرتے تھے۔ 4۔ آئی ایم بریڈ سے ڈبل روٹی آئی ایم بریڈ کی مرکزی کردار ایک ڈبل روٹی ہے ویڈیو گیمز کی تاریخ کے سب سے منفرد آئیڈیاز میں سے ایک میں ویڈیو گیم ’آئی ایم بریڈ‘ میں ڈبل روٹی کے ایک ٹکڑے کا مشن یہ ہوتا ہے کہ وہ خود کو ٹوسٹ کروائے۔ اور جب بھی یہ کسی ایسی چیز کو چھوتا ہے جسے اسے چھونا نہیں چاہیے، مثلاً کیڑوں یا فرش کو، تو یہ کھانے کے کم قابل ہو جاتا ہے اور آپ کے جیتنے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ بعد کے ورژنز میں ڈبل روٹی کی مزید اقسام متعارف کروائی گئیں کیونکہ جیتی جاگتی اور عجیب و غریب بریڈ سے کس کا دل بھرے گا؟ 5۔ مائن کرافٹ سے کورس فروٹ 2000 کی دہائی کے اوائل سے ’مائن کرافٹ‘ مقبول ہوئی اور دنیا بھر کے بچے ایک ایسی گیم میں مصروف ہو گئے جو انھیں ایسا کچھ بھی بنانے کی حوصلہ افزائی کرتا جو وہ سوچ سکتے تھے۔ کرنا صرف یہ ہوتا تھا کہ آپ مختلف چیزیں تعمیر کرتے اور اپنے کریکٹر کو زندہ رکھتے جس میں انھیں زمین پر پائی جانے والی مختلف چیزیں مثلاً کورس فروٹ کھلانا ہوتا تھا۔ یہ ایک ایسا پھل تھا جسے ویسے ہی یا پاپ کارن کی طرح پکا کر کھایا جا سکتا۔ لیکن یہ پھل کھانے کا ایک لازمی مگر عجیب سائیڈ افیکٹ یہ ہوتا کہ آپ کو کھیل کے کسی دوسرے حصے میں پہنچا دیا جاتا۔ 6۔ فال آؤٹ سے سیخ پر لگی اِگوانا چھپکلی فال آؤٹ گیمز میں مستقبل کی ایک بہت تاریک تصویر پیش کی گئی ہے جس میں ایک ایٹمی تباہی نے پوری دنیا کو تباہ کر دیا ہے اور اس کی زیادہ تر آبادی میں جینیاتی تبدیلیاں آ چکی ہیں اور یہ خونخوار ہو چکی ہیں۔ کھانا وافر مقدار میں دستیاب نہیں اور آپ کو اپنے آس پاس موجود چیزوں سے ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ آپ کو اس کھیل میں اپنی کم ہوتی ہوئی توانائی واپس بحال کرنے کے لیے سب سے عام دستیاب کھانوں میں سے ایک، یعنی سیخ چھپکلی کھانی پڑتی ہے۔ ویسے تو اگوانا چھپکلیاں فال آؤٹ ویڈیو گیم میں نظر آنے والے معدود چند رینگنے والے جانوروں میں سے ہیں مگر یہ کبھی بھی زندہ نظر نہیں آتیں۔ 7۔ اوورکُکڈ سے بریٹوز اوورکُکڈ میں بریٹو بنانا بھی ایک چیلنج سے کم نہیں اوورکُکڈ ویڈیو گیم اپنے لت انگیز گیم پلے کی وجہ سے انتہائی مشہور ہوا جس میں کھیلنے والے ایک ہلچل سے بھرپور کچن کے انچارج بنتے ہیں جنھیں بروقت کھانوں کے آرڈر پورے کرنے ہوتے ہیں۔ کچھ تراکیب تو بالکل سادہ اور ایک یا دو اجزا پر مشتمل ہوتی ہیں مگر پھر کچھ ڈشز بریٹو کی طرح اجزا سے لدی ہوئی بھی ہوتی ہیں جو کہ ویڈیو گیم لیجنڈ کا حصہ بن چکی ہیں۔ 8۔ گرینڈ تھیفٹ آٹو سے کلّکنگ بیل گرینڈ تھیفٹ آٹو یا جی ٹی اے ایک ایسے گیم سے شروع ہوا جس میں خراب انداز میں گاڑی چلانی ہوتی اور اس کی دنیا کھیلنے والوں کو ایسے نظر آتی جیسے وہ اوپر سے دیکھ رہے ہوں۔ بعد میں یہ گیم اس قدر وسیع ہو گیا کہ اس کے اندر موجود دنیا کو مکمل طور پر دیکھنا بھی ممکن نہ رہا۔ اور یہ دنیا اتنی زیادہ بڑی ہو گئی کہ اس میں ریستوران کی اپنی چین بھی تھیں جن کے نام برگر شاٹ اور کلّکنگ بیل تھے۔ کلّکنگ بیل فاسٹ فوڈ جوائنٹ تو ایسے کئی لطیفے بھی استعمال کرتا جنھیں ہم یہاں لکھ بھی نہیں سکتے۔ 9۔ بریتھ آف دی وائلڈ سے ’مشکوک فوڈ‘ جب آپ اس ویڈیو گیم میں ایک خونخوار مسلح کردار بوکوبلنز کو ہلاک کرنے اور خزانہ ڈھونڈ نکالنے میں مصروف نہ ہوں، تو لیجنڈ آف زیلڈا فرنچائز کا یہ گیم آپ کو کھانا پکانے کی ترغیب دیتا ہے۔ اگر آپ تمام کامبینیشن صحیح رکھیں تو انعام میں آپ کو ایک لذیذ ڈش ملتی ہے جو آپ کی زندگی بحال کر سکتی ہے اور ممکنہ طور پر آپ کو خصوصی طاقتیں بھی دے سکتی ہے۔ مگر غلط اجزا ملائیں اور آپ کو ’مشکوک فوڈ‘ ملتا ہے جس کی پلیٹ اتنی بری ہو گی کہ آپ کو شرمندہ ہونے سے بچانے کے لیے اسے سکرین پر دھندلا کر دیا جاتا ہے۔ 10۔ فائنل فینٹیسی 15 سے کچھ بھی فائنل فینٹیسی 15 کے منہ میں پانی بھر دینے والے کھانے زیادہ تر ویڈیو گیمز کھانوں کو دیکھنے میں لذیذ بنانے پر توجہ نہیں دیتے مگر فائنل فینٹیسی فرنچائز کے 15ویں گیم کی کوشش ہے کہ یہ کھانے سکرین پر بھی مزے دار نظر آئیں۔ اس گیم میں آپ کی بنائی گئی ہر ڈش کو اتنا حقیقی بنانے کے لیے لاتعداد گھنٹوں پر محیط ڈیزائننگ اور بے انتہا کمپیوٹنگ پاور استعمال ہوئی کہ آپ ہاتھ بڑھا کر اس ڈش کو ٹی وی سے نکال کر ہی کھا لینا چاہیں گے۔ یہ مضمون بی بی سی کے دی فوڈ پروگرام سے اخذ کیا گیا ہے۔ کسی ویڈیو گیم کے کردار کو کھانے کی ضرورت کیوں پڑے گی؟ مگر درحقیقت انھیں ضرورت پڑتی ہے اور ان کھانوں کی بڑی عجیب و غریب شکلیں ہو سکتی ہیں۔ text: صدر اوباما نے امریکی چینل اے بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران کا جوہری پروگرام کیمیائی ہتھیاروں سے ’بہت بڑا معاملہ‘ ہے صدر اوباما نے امریکی چینل اے بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران کا جوہری پروگرام کیمیائی ہتھیاروں سے ’بہت بڑا معاملہ‘ ہے۔ صدر اوباما نے کہا کہ اگرچہ امریکہ نے شام کے معاملے میں طاقت کا استعمال نہیں کیا ہے مگر ’طاقت کے استعمال کی ایک قابلِ یقین دھمکی‘ سے سمجھوتے پر پہنچا جا سکتا ہے۔ امریکی صدر نے اس بات کی تصدیق کی کہ انہوں نے ایران کے نو منتخب صدر حسن روحانی کے ساتھ خطوط کا تبادلہ کیا ہے۔ بے شک دونوں صدور نے خط و کتابت کی ہے جسے ایک قدم آگے کہا جا سکتا ہے مگر صدر اوباما کہنا تھا کہ نئے ایرانی صدر حالات کو اتنی جلدی نہیں بدل سکیں گے۔ یاد رہے کہ صدر اوباما ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے حوالے سے بات کر رہے تھے جس کے بارے میں مغربی ممالک کا خدشہ ہے کہ یہ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے ہے جبکہ ایران ان خدشات کو مسترد کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔ امریکی صدر نے اس بات کی تصدیق کی کہ انہوں نے ایران کے نو منتخب صدر حسن روحانی کے ساتھ خطوط کا تبادلہ کیا ہے اے بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں صدر اوباما نے کہا کہ ایران کو اس بات سے خوش نہیں ہونا چاہیے کہ امریکہ نے شام کے خلاف فوجی کارروائی نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ ’انہیں اس سے جو سبق حاصل کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ تنازعات پر امن اور سفارت کاری سے حل ہو سکتے ہیں۔‘ ’اگر آپ طاقت کی قابل یقین دھمکی دیں اور اس کے ساتھ ایک سخت سفارت کاری کی کوشش ہو تو آپ ایک سمجھوتے پر پہنچ سکتے ہیں۔‘ صدر روحانی کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ ایک مصالحت پر مبنی خارجہ پالیسی تشکیل دینا چاہتے ہیں جو کہ سابق صدر احمدی نژاد کے برعکس ہے۔ اس مہینے کے آغاز میں صدر روحانی نے ملک کے جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات وزارتِ خارجہ کے سپرد کر دیے جبکہ اب تک یہ مذاکرات ملک کی سپریم قومی سلامتی کی کونسل کے ذمے تھے جو ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کو جوابدہ تھی اور جسے وہی مقرر کرتے تھے۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ ایران اب ان مذاکرات میں اپنے سخت گیر موقف میں نرمی دکھائے گا۔ امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ ایران کو شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے معاہدے سے ’سبق حاصل‘ کرنا چاہیے۔ text: برطانوی محکمہ داخلہ کا کہنا ہے کہ وزیرِ داخلہ چارلس کلارک نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے کیونکہ عمر بکری کی برطانیہ میں موجودگی برطانوی عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔ وزارتِ داخلہ کی وزیر ہیزل بلیئر کا کہنا تھا کہ عمر بکری پر پابندی کا فیصلہ ایک قابلِ عمل اور مفید فیصلہ ہے اور اسے بڑے پیمانے پر سراہا جائے گا۔ لندن میں عمر بکری کے ترجمان انجم چودھری نےاس پابندی کو آزادی رائے کے اصول کی ناکامی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ عمر بکری برطانیہ کی مسلمان آبادی کے لیے اہم اثاثہ ہیں اور ان پر لگائی گئی پابندی سے برطانوی عوام اور مسلمانوں کو نقصان ہو گا‘۔ اسی اثناء میں عمر بکری کو لبنانی حکام نے رہا کر دیا ہے۔ انہیں گزشتہ روز شام کی درخواست پر گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں ایک ٹی وی انٹر ویو کے بعد گرفتار کیا گیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک ناپسندیدہ شخصیت کے طور پر واپس برطانیہ نہیں جائیں گے۔ عمر بکری محمدگزشتہ ہفتے برطانیہ سے لبنان چلے گئے تھے۔ عمر بکری کے پاس لبنان اور شام کی شہریت ہے۔ عمر بکری محمد شمالی لندن کے علاقے ٹاٹنھم میں رہائش پذیر رہے ہیں اور ایک شدت پسندگروہ المہاجرون کے روحِ رواں بھی ہیں۔ ان کی شخصیت اس وقت متنازعہ بن گئی تھی جب انہوں نے کہا تھا کہ اگر انہیں پتہ ہوتا کہ مسلمان برطانیہ میں بم حملوں کی تیاری کر رہے ہیں تو بھی وہ برطانوی پولیس کو نہ بتاتے۔ عمر بکری لبنانی نژاد ہیں اور انہیں 1980 میں سیاسی پناہ کی درخواست منظور ہونے کے بعد برطانیہ میں غیر معینہ مدت تک رہنے کی اجازت دی گئی تھی جو کہ اب برطانوی وزیرِ داخلہ نے منسوخ کر دی ہے۔ ان کی اہلیہ اورخاندان ابھی بھی برطانیہ میں ہی مقیم ہے اور وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ عمر بکری پر پابندی کا اثر ان کے خاندان پر نہیں پڑے گا۔ عمر بکری کے سات بچے ہیں جو کہ سب برطانیہ میں ہی پیدا ہوئے ہیں۔ ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ بکری کا خاندان سرکاری مراعات حاصل کرتا رہے گا جبکہ عمر بکری کو ملنے والی مراعات روک دی جائیں گی۔ شدت پسند مسلمان مبلغ عمر بکری محمد کے برطانیہ میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ text: برطانوی وزارتِ داخلہ کے مطابق جلد ہی اس ٹیکنالوجی سے حاصل شدہ معلومات کو عدالتوں میں بطور ثبوت پیش کیا جا سکے گا اس نئی ٹیکلنالوجی سے انگلیوں کے نشانات کا کیمیائی تجزیہ کیا جاتا ہے جس سے تفصیلی معلومات حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق اس نئے طریقۂ کار میں انگلیوں کے نشانات کے تجزیے سے یہ معلوم ہو سکے گا کہ وہ شخص کن چیزوں کو ہاتھ لگاتا رہا ہے جیسے خون یا پھر منشیات وغیرہ۔ محققین کے مطابق اس ٹیکنالوجی کی مدد سے اس حد تک معلوم کیا جا سکے گا کہ جس شخص کی انگلیوں کے یہ نشان ہیں آیا اس نے کسی کنڈوم کو ہاتھ تو نہیں لگایا اور اگر لگایا ہے تو اس کے برانڈ تک کی نشاندہی کی جاسکے گی یا اس نے سر پر کونسا جل لگایا ہوا تھا وغیرہ۔ اس کے علاوہ انگلیوں کے نشانات کے تجزیے سے صنف، خوراک اور شراب نوشی کے بارے میں بھی معلوم کیا جاسکے گا۔ برطانوی وزارتِ داخلہ کے مطابق جلد ہی اس ٹیکنالوجی سے حاصل شدہ معلومات کو عدالتوں میں بطور ثبوت پیش کیا جا سکے گا۔ شفیلڈ یونیورسٹی کے سائنسدان برطانوی پولیس کے تعاون سے اس نئے طریقۂ کار کے بارے میں تجربات کر رہے ہیں۔ اس تحقیقاتی منصوبے کی سربراہ ڈاکٹر سمونا کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم نے ایک 30 سالہ پرانے کاغذ پر خون کے نشانات ڈھونڈے جس کا مطلب ہے کہ اس سے پرانے مقدمات کی تحقیقات میں بھی مدد مل سکے گی۔ ان کے بقول ’میری خواہش ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال سنگین مقدمات جیسے ریپ یا قتل وغیرہ میں کیا جائے۔ یہ ایک جدید اور مہنگی ٹیکنالوجی ہے لیکن اہم مقدمات میں اس کا استعمال کارآمد ہوسکتا ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ انگلیوں کے نشانات دراصل انسان کا پسینہ ہوتا ہے اور پسینے کے کیمیائی تجزیے سے آپ بہت سی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ اس منصوبے پر کام کرنے والے امید کر رہے ہیں اگلے چند ماہ میں اس ٹیکنالوجی کے ان تمام پہلوں کا احاطہ کر لیا جائے گا جن کے حوالے سے عدالت میں سوال اٹھ سکتے ہیں۔ برطانیہ کی شفیلڈ ہالم یونیورسٹی میں سائنسدانوں نے ایسی ٹیکنالوجی دریافت کی ہے جس کے مدد سے اب انگلیوں کے نشانات سے کسی بھی شخص کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کی جا سکیں گی۔ text: برطانوی تھنک ٹینک دا ہینری جیکسن سوسائٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قطب شمالی میں روس نے فوجی تربیت اور مشقوں میں اضافہ کیا ہے، نئی بریگیڈز بنائی ہیں اور قدرتی وسائل کا استحصال کر رہا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ماسکو نے نئے برف توڑ بحری جہاز بنا رہا ہے، سوویت دور کے فوجی اڈے دوبارہ کھول دیے گئے ہیں اور قطب شمالی میں میزائل وارننگ نظام بھی نصب کر دیا ہے۔ اس بارے میں مزید پڑھیے روس کیوں اپنی فوج میں اضافہ کر رہا ہے؟ چین قطب شمالی میں بحری گزرگاہیں بنائے گا قطبِ شمالی میں زندگی کی جھلکیاں تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق روس ایرو ڈرومز کو بھی بحال کر رہا ہے اور ’آرکٹک ٹریفوئل‘ میں بہت بڑے فوجی اڈے کی تعمیر پر کام شروع کر دیا ہے۔ روس دیگر ممالک کی فضائی حدود کی تواتر سے خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ نیٹو کو فوری طور پر قطب شمالی کے حوالے سے حکمت عملی بنانی ہو گی اور سکیورٹی چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی پر کام کرنا ہو گا۔ روس کی جانب سے یہ اقدامات ایسے وقت کیے جا رہے ہیں جب روس اور مغرب کے درمیان 2015 میں کریمیا پر روس کے کنٹرول کے بعد کشیدگی جاری ہے۔ روس نے اپنی تمام سرحدوں پر فوجیوں کی تعداد بڑھا دی ہے جس کے باعث نیٹو کو بھی ہزاروں فوجی مشرقی یورپی اتحادیوں کی حفاظت کے لیے تعینات کر رہا ہے۔ ان ممالک میں ایوٹونیا، لیٹویا، لتھووینیا اور پولینڈ شامل ہیں۔ تھنک ٹینک کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ موسمی تبدیلی کے باعث قطب شمالی کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ برف پگھلنے سے ممالک کے لیے آسان ہو گیا ہے کہ وہ قدرتی وسائل کا استحصال کریں۔ دوسری جانب روسی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ قطب شمالی میں قائم فوجی اڈے پر دو ٹی یو 160 بمبار طیارے پہنچ گئے ہیں اور ان کے پہنچنے سے شوکاکا میں واقع ایئر فیلڈ پر تعیناتی مکمل ہو گئی ہے۔ وزارت دفاع کے بیان میں کہا گیا ہے کہ دو سٹریٹیجک بمبار طیارے پہلی بار انیدر ایروڈروم پر لینڈ کیے ہیں اور وہ طویل فاصلے کی فلائٹ کی مشق میں حصہ لیں گے۔ ’دو ٹی یو 160 بمبار طیاروں نے بغیر رکے اپنے بیس سے انیدر ایروڈروم کا سفر کیا جس میں انھوں نے سات ہزار کلومیٹر کا سفر طے کیا۔‘ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ان مشقوں میں 10 ٹی یو 160 بمبار طیارے، ٹی یو 95 ایم ایس جہاز حصہ لے رہے ہیں۔ برطانوی تھنک ٹینک کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قطب شمالی میں روس کی فوجی سرگرمیوں میں 2014 سے بہت تیزی آئی ہے اور اس نے مستقل فوجی چھاؤنی بھی قائم کر لی ہے۔ text: کامیابی کے بعد اپنی تقریر میں ٹرمپ نے اپنے بعض خاص وفادار ریپبلکن رہنماؤں کی تعریف کی تھی اور امکان ہے کہ وہی افراد ان کی کابینہ کے اہم رکن ہوں گے کامیابی کے بعد اپنی تقریر میں ٹرمپ نے اپنے بعض خاص وفادار رپبلکن رہنماؤں کی تعریف کی تھی اور امکان ہے کہ وہی افراد ان کی کابینہ کے اہم عہدوں پر فائز ہوں گے۔ ان کے بعض ساتھیوں نے انتخابی مہم کے دوران ہی ایسے بعض لوگوں کے نام بھی ظاہر کر دیے تھے۔ یہاں ایسے افراد کا ذکر کیا گیا ہے جن کے ٹرمپ کی انتظامیہ میں شامل ہونے کا زیادہ امکان ہے، سختگیر نظریات کے حامل قدامت پسند رہنما نیوٹ گنگرچ ابتدا ہی سے ٹرمپ کے حامی رہے ہیں اور وہ ان کی کابینہ میں وزارت خارجہ کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں نیوٹ گنگرچ سخت گیر نظریات کے حامل قدامت پسند رہنما نیوٹ گنگرچ ابتدا ہی سے ٹرمپ کے حامی رہے ہیں اور وہ ان کی کابینہ میں وزیرِ خارجہ کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں۔ کانگریس کے سپیکر کی حیثیت سے سنہ 1994 میں انھوں نے ایوان نمائندگان میں رپبلکنز کی اکثریت کے لیے کافی محنت کی تھی اور کامیاب ہوئے تھے۔ 73 سالہ گنگرچ کا تعلق جورجیا سے ہے جو بعض اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کی بنیاد پر اس وقت سپیکر کی حیثیت سے مستعفی ہوگئے تھے۔ سنہ 2011 میں وہ رپبلکنز کی جانب سے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں بھی شامل ہوئے تھے لیکن اس میں انھیں ناکامی ہاتھ آئی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک اور بڑے حامی روڈی جولیانی ہیں جن کے متعلق یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ ٹرمپ کی کابینہ میں اٹارنی جنرل کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں روڈی جولیانی - اٹارنی جنرل ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک اور بڑے حامی روڈی جولیانی ہیں جن کے متعلق یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ ٹرمپ کی کابینہ میں اٹارنی جنرل کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں۔ نائن الیون کے حملے کے وقت مسٹر جولیانی ہی نیو یارک کے میئر تھے اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے اور اس کے بعد کی مشکل صورت حال میں انھوں نے بڑی ثابت قدمی کا ثبوت دیا تھا۔ انھوں نے ہی نیو یارک پولیس میں کسی بھی شخص کو روک کر تلاشی لینے کے عمل کو متعارف کروایا تھا جس پر بہت سے لوگوں نے یہ کہہ کر تنقید کی تھی کہ یہ نسلی بنیادوں پر ایک طرح کی پروفائلنگ ہے۔ اپنے آپ کو قانون کا علمبردار ثابت کرنے کی کوشش میں ٹرمپ نے اس طریقے کی بھرپور حمایت کی تھی۔ روڈی جولیانی 2008 میں ریپبلکنز کی جانب سے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں شامل بھی ہوئے تھے لیکن جان مکین اور مٹ رومنی سے پیچھے رہ جانے کے باعث وہ اس دوڑ سے دستبردار ہوگئے تھے۔ 44 سالہ نوجوان دکھنے والے رینس پرائبس وہائٹ ہاؤس میں چیف آف سٹاف یعنی ٹرمپ کے مشیر خاص کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں۔ رینس پرائبس 44 سالہ نوجوان دکھنے والے رینس پرائبس وہائٹ ہاؤس میں چیف آف سٹاف یعنی ٹرمپ کے مشیر خاص کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں۔ انھوں نے رپبلکن نیشنل کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے صدارتی امیدوار کی نامزدگی اور پارٹی کے بڑے رہنماؤں، جو خود اپنے ہی امیدوار کے بیانات سے پریشان تھے، کے درمیان روابط قائم رکھنے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ مسٹر پرائبس کانگریس کے سپیکر پال رائن سے قریب تصور کیے جاتے ہیں جو کانگریس میں مختلف قوانین کی منظوری میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سالہ کرسٹی اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی وہائٹ ہاؤس میں منتقلی سے متعلق تمام ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں کرس کرسٹی ریاست نیو جرسی کے گورنر کرس کرسٹی کو وزارت تجارت کا عہدہ ملنے کا امکان ہے۔ کرس کرسٹی پہلے خود صدارتی امیدوار کی دوڑ میں شامل تھے پھر اس سے دستبردار ہوگئے اور ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا۔ 54 سالہ کرسٹی اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی وہائٹ ہاؤس میں منتقلی سے متعلق تمام ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ وزارت تجارت سمیت ان کے متعلق ٹرمپ کی کابینہ میں کئی عہدوں کی باتیں کہی جاتی رہی ہیں۔ نیو جرسی اور نیو یارک کے درمیان ایک پل کی تعمیر میں ہونے والے سکینڈل کے حوالے سے بھی ان کا نام آیا تھا۔ کابینہ میں کسی بھی شخص کی شمولیت تبھی ہو سکتی ہے جب سینیٹ بھی اس کے نام کی منظوری دے اور اس حساب سے ان کے بارے میں ابھی کچھ بھی کہنا آسان نہیں ہے۔ جیف ریاست الباما سے سینٹ کے رکن ہیں اور ان کا نام وزارت دفاع کے لیے لیا جا رہا ہے جیف سیشنز جیف ریاست الاباما سے سینٹ کے رکن ہیں اور ان کا نام وزیرِ دفاع کے لیے لیا جا رہا ہے۔ جیت کے بعد اپنے خطاب میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ 'چونکہ جیف بہت سمارٹ ہیں اس لیے واشنگٹن میں وہ بہت ہی محترم شخص ہیں۔' 59 برس کے جیف سیشنز نے 2003 میں عراق پر حملے کی حمایت کی تھی لیکن ٹرمپ نے عراق پر حملے کو خطرناک بیوقوفی سے تعبیر کیا تھا۔ جیف سینیٹ کی آرمڈ سروس کمیٹی، عدالتی کمیٹی اور بجٹ کمیٹی میں حصہ لیتے ہیں۔ مائیکل فلن امریکی فوج میں لفٹنٹ جنرل کے عہدے پر رہ چکے ہیں اور انہیں قومی سلامتی کا مشیر مقرر کیا جا سکتا ہے مائیکل فلن مائیکل فلن امریکی فوج میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں اور انھیں قومی سلامتی کا مشیر مقرر کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا فوج کا کوئی تجربہ نہیں ہے لیکن فلن ہی تھے جنھوں نے انتخابی مہم کے دوران ان سے امریکی فوجیوں سے رابطہ کروانے میں کامیابی دلوائی۔ ان کا کہنا ہے کہ ریڈیکل اسلام کے تعلق سے ان کے جو نظریات ہیں اسی کی وجہ سے انھیں سنہ 2014 میں ڈیفینس انٹیلیجنس ایجنسی کے ڈائریکٹر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ سے متعلق اوباما انتظامییہ کی جو پالیسیاں تھیں اس پر انھوں نے سخت نکتہ چینی کی۔ ٹرمپ کی کابینہ میں سٹیون منچن وزیر خزانہ بن سکتے ہیں سٹیون مینچن ٹرمپ کی کابینہ میں سٹیون منچن وزیر خزانہ بن سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ ٹرمپ کے اس قدم کو ان کے حامی تسلیم کرتے ہیں یا نہیں کیونکہ ان کا تعلق وال سٹریٹ سے اور بہت سے لوگوں کو یہ بات پسند نہیں آئے گی۔ گولڈ مین سیکس میں 17 برس تک کام کرتے ہوئے انھوں نے خوب رقم جمع کی اس کے بعد انھوں نے فلم بنانے کے لیے کمپنی لانچ کی تھی۔ اسی کمپنی نے ایکس مین فرینچائز اور امریکن سنائپر جیسی سپر ہٹ فلمیں بنائی ہیں۔ امریکہ میں صدارتی انتخابات کے نتائج کے بعد دارالحکومت واشنگٹن میں ہر محفل میں گفتگو کا یہ ہی محور ہے کہ ٹرمپ کی حکومت میں کسے کون سا عہدہ ملے گا۔ text: ہریکین فلورینس گذشتہ سال امریکہ کے مشرقی ساحل سے ٹکرایا تھا ادارے نے یہ بات ان اطلاعات کے بعد کہی جن کے مطابق صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ اس آپشن کا جائزہ لینا چاہیے۔ ایکسیوس نیوز ویب سائٹ کے مطابق صدر ٹرمپ نے قومی سلامتی کے بہت سے مشیروں سے اس کے امکانات کے بارے میں دریافت کیا ہے تاہم صدر ٹرمپ نے اس قسم کی تجویز سے انکار کیا ہے۔ امریکہ کی نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹماسفیرک ایڈمنسٹریشن (این او اے اے) یعنی قومی، بحری اور ماحولیاتی انتظامیہ نے کہا کہ اس کے نتائج 'تباہ کن' ہوں گے۔ یہ بھی پڑھیے ’ہزاروں بموں کی طاقت والا طوفان‘ فلوریڈا میں طوفان، 65 لاکھ مکانوں کی بجلی منقطع سمندری طوفان عام طور پر امریکہ کے مشرقی سواحل کو متاثر کرتا ہے اور اکثر بڑی تباہی لاتا ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں کہ اس خیال پر غور کیا گیا ہے۔ ٹرمپ کی تجویز کی خبر کے بعد ٹوئٹر پر 'دیٹس ہاؤ دی اپوکیلپس سٹارٹڈ' یعنی اس طرح سے کشفی چیز کی ابتدا ہوئی نامی ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگا۔ سمندری طوفان پر جوہری ہتھیار کے اثرات کیا ہوں گے؟ نیوز ویب سائٹ ایکسیوس کے مطابق صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ طوفان کی آنکھ میں بم کیوں نہیں گرا سکتا تاکہ اسے زمین پر آنے سے روکا جا سکے۔ نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹماسفیرک ایڈمنسٹریشن یا نوآ کا کہنا ہے کہ طوفان پر جوہری ہتھیار کے استعمال سے 'طوفان کا رخ نہیں موڑا جا سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں اٹھنے والی تابکار شعائيں طوفانی ہواؤں کو مزید تیزی سے زمین کی طرف لے آئيں گی۔' اس نے کہا کہ طوفان کو بدلنے کے لیے دھماکہ خیز مواد کے استعمال میں مشکل یہ ہے کہ کتنی مقدار میں تونائی کا استعمال کیا جائے کہ طوفان کے زور کو توڑا جا سکے۔ ایک ہریکین سے جو حدت نکلتی ہے وہ دس میگاٹن جوہری بم کے برابر ہوتی ہے جو ہر بیس منٹ میں دھماکے سے پھٹ رہا ہو۔ اس نے مزید کہا کہ اگر چہ بم کی میکانکی قوت طوفان کی شدت کے برابر ہوتی ہے تاہم 'سمندر کے اندر دور کسی خاص جگہ پر اس قوت کا نصف بھی مرکوز کرنا بڑا کام ہوگا۔' نوآ کا کہنا ہے کہ 'طوفان میں بدلنے سے قبل کمزور ٹراپیکل لہروں یا ہوا کے دباؤ کو بھی نشانہ بنانا زیادہ سود مند نہیں ہے۔' اس کا کہنا ہے کہ 'ہر سال بحر اوقیانوس میں اس قسم کے تقریبا 80 اضطراب پیدا ہوتے ہیں جن میں سے تقریباً صرف پانچ ہی ہریکین بنتے ہیں۔ پہلے سے یہ بتانے کا کوئی طریقہ نہیں کہ سمندر کی کون سی ہلچل ہریکین کی صورت اختیار کر لے گی۔' بحری جہاز کے کنٹینر سے تیار کیا جانے والا گھر کب سے یہ خیال گردش کر رہا ہے؟ ہریکین کو جوہری بم سے نشانہ بنانے کا خیال سنہ 1950 کی دہائی سے گشت کر رہا جب ایک سرکاری سائنسدان نے اس خیال کا اظہار کیا تھا۔ سنہ 1961 میں نیشنل پریس کلب میں ایک تقریر کے دوران امریکی ویدر بیورو کے فرانسس ریچلڈرفر نے کہا کہ وہ 'اس امکان کے بارے میں سوچ سکتے ہیں کہ ایک دن ایسا آئے گا جب سمندر کے اندر دور ہی کسی ہریکین کو جوہری بم سے اڑا دیا جائے گا۔' نیشنل جیوگرفک کے مطابق انھوں نے مزید کہا کہ 'ہمیں جب پتہ چل جائے گا کہ ہم کیا کر رہے ہیں' تو ویدر بیورو جوہری بم حاصل کرنا شروع کر دےگا۔ نوآ کا کہنا کہ اس قسم کے خیال کی تجاویز عام طور پر ہریکین کے موسم میں آتی ہیں۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر شیرن سکواسونی کا کہنا ہے کہ یہ خیال سنہ 1950 کے پلوشیئرس پروگرام سے پیدا ہوا جب سرکاری محققین کی جانب سے جوہری ہتھیار کے 'عجیب و غریب اور قدرے سنکی استعمال کی ایک فہرست' تیار کی گئی۔ تقریباً 20 سالوں میں امریکہ نے 27 جوہری تجربوں میں 31 بم کے تجربے کیے تاکہ یہ جانچ کی جا سکے کہ امریکی اسلحہ خانے کا استعمال نہر یا کان کھودنے میں یا پھر جہازوں کے لیے بندرگاہ بنانے میں ہو سکتا ہے یا نہیں۔ پروفیسر سکواسونی نے بی بی سی کو بتایا کہ جب تابکاری کے خطرات زیادہ واضح ہونے لگے تو اس خیال کو ترک کر دیا گیا۔ اس کےساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ حالیہ بین الاقوامی معاہدے امریکہ کو کسی ہریکین پر جوہری ہتھیار کے استعمال سے روکتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں اسی قسم کے کئی مختلف انوکھے خیالات ظاہر کیے گئے جن میں سے ایک سنہ 2017 میں فیس بک ایونٹ پر نظر آیا جس میں امریکی بندوق کے مالکان سے کہا گیا کہ ہریکین ارما کو گولی اور شعلہ افگن ہتھیاروں سے 'مار گرائیں'۔ اس ایونٹ کے لیے 55 ہزار افراد نے دستخط کیے اور فلوریڈا کے ایک شیرف نے تو ٹوئٹر پر سخت تنبیہ جاری کرتے ہوئے لکھا: 'اس طرح آپ اس کا رخ نہیں موڑ سکیں گے اور اس کے خطرناک دوسرے نتائج ہوں گے۔' امریکہ میں ہریکین کا موسم کیا ہے؟ بحر اوقیانوس کے ہریکین کا موسم یکم جون سے شروع ہو کر نومبر کے اخیر تک رہتا ہے۔ اس کا شباب سمتبر میں آتا ہے جب سمندر کا درجۂ حرارت سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ ٹراپیکل طوفان ڈورین فی الحال کریبیئن جزائر کی جانب بڑھ رہا ہے اور اس کے بارے میں پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ یہ منگل کو ہریکین بن جائے گا اور آنے والے دنوں میں امریکی جزائر پیورٹو ریکو کے لیے خطرے کا باعث ہوگا۔ جب بی بی سی نے دریافت کیا تو میامی میں نیشنل ہریکین سینٹر کے ایک ترجمان نے کہا کہ ایجنسی کی توجہ ڈورین پر مرکوز ہے اور اس نے نوآ گائڈلائنز کے تحت 'ہریکین اور جوہری ہتھیار کے استعمال کے موضوع' کو نظر انداز کر دیا۔ نوآ نے رواں ماہ کے اوائل میں متنبہ کیا ہے کہ معمول سے اوپر ہریکین کی سرگرمی کے لیے اب حالات زیادہ ساز گار ہیں۔ اس نے نام دیئے جانے والے دس سے 17 طوفانوں کی پیش گوئی کی ہے جس میں سے پانچ سے نو ہریکین بنیں گے جبکہ دو سے چار بڑے سمندری طوفان ثابت ہوں گے۔ اب تک چار نام والے طوفان سمندر میں پیدا ہو چکے ہیں جن میں اینڈریا، بیری، چینٹل اور ڈورین شامل ہیں۔ امریکہ کی ایک سائنسی ایجنسی نے کہا ہے کہ ہریکینز یعنی سمندری طوفانوں یا طوفان بادوباراں کو ختم کرنے کے لیے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خیال درست نہیں ہے۔ text: لا اینڈ آرڈر ٹھیک کیے بغیر معاملہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ یہ ہماری اولین ترجیح ہے:شہباز شریف لندن میں بی بی سی اردو کے شفیع نقی جامعی سے بات چیت میں امورِ قومی سلامتی کے لیے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے مشیر سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جو اب ہو رہا ہے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ انھوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ جس فیصلہ کن انداز میں پچھلے نو ماہ میں نواز شریف کی حکومت نے سکیورٹی معاملات پر کام کیا ہے، پہلے کراچی میں پھر قومی سلامتی پالیسی ہے۔ نیکٹا بن رہی ہے۔ سریع الحرکت فورس بن ر ہی ہے، جوائنٹ انٹیلیجنس آرگنائزیشن بن رہی ہے اور ان تمام سکیورٹی اقدامات سے مجھے امید ہے کہ ہم(دہشت گردی پر )قابو پا لیں گے۔‘ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے بھی اس معاملے پر بی بی سی اردو سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردی ایک مرض ہے جس کو آنے میں بھی وقت لگا اور اب اس کے جانے میں بھی وقت لگے گا۔‘ شہباز شریف نے تسلیم کیا کہ ’سکیورٹی کے حوالے سے سوالیہ نشان ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ اس میں پنجاب بھی شامل ہے۔ لیکن (یہ ایک) چیلینج ہے جس کو ہم نے قبول کیا ہے لیکن اصل دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اسے ختم کرنے یا اسے شکست دینے کے لیے ہماری کمٹمنٹ ہے یا نہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ چند برس میں دہشت گردی سے 40 ہزار پاکستانیوں کی ہلاکت کوئی معمولی بات نہیں اور ’ہم اس بارے میں مکمل طور پر یکسو ہیں کہ لا اینڈ آرڈر ٹھیک کیے بغیر معاملہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ یہ ہماری اولین ترجیح ہے۔‘ اس بارے میں بی بی سی اردو کے پروگرام سیربین میں بات کرتے ہوئے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل(ر) احسان الحق کا کہنا تھا کہ حکومت نے کافی مثبت اقدامات کیے ہیں اور قومی سلامتی کے اداروں میں اصلاحات سے اچھے نتائج آنے کی امید ہے۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’یہ کہنا کہ ہم زیرو لیول سے شروع کر رہے ہیں میرے خیال میں صحیح نہیں اور اس بارے میں حقائق جاننے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’پہلے بھی خفیہ اداروں کی رابطہ کاری اور انسدادِ دہشتگردی کا نظام موجود تھا۔‘ سکیورٹی اقدامات سے مجھے امید ہے کہ ہم (دہشت گردی پر )قابو پا لیں گے:سرتاج عزیز انھوں نے کہا کہ ’نائن الیون کے بعد جب ہمیں دہشت گردی کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا تو اس وقت بھی 2002 میں کچھ اصلاحات کی گئی تھیں اور ایک انسدادِ دہشت گردی کا سینٹر قائم کیا گیا تھا۔ پہلے بھی فوج کے تحت ایک خصوصی ٹاسک فورس بنائی گئی تھی جو ایک کاؤنٹر ٹیررازم فورس تھی۔‘ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ ’اب جب حکومت اس طرح کی فورس کی بات کرتی ہے تو اسے اس فورس کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ سنہ 2007 کے بعد دہشت گردی کے ڈائنامکس میں تبدیلی آئی ہے تو پھر ان اداروں کی بھی ڈائنامکس تبدیل کی جانی چاہییں۔‘ خیال رہے کہ جمعے کو ہی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی صدارت میں راولپنڈی میں کور کمانڈرز کانفرنس منعقد ہوئی ہے جس میں اندرونی اور بیرون سلامتی کے امور پر غور کیا گیا ہے۔ برطانیہ کے دورے پر آئے ہوئے پاکستان کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جو اقدامات کر رہی ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ text: لاہور میں عالمی اردو ثقافتی کانفرنس کے موقعے پر اہم ادیب اور نقاد سٹیج پر بیٹھے ہوئے ہیں اس کانفرنس کے موضوعات میں ادب کے علاوہ تصوف، فنونِ لطیفہ، میڈیا اور ثقافت شامل ہیں۔ کانفرنس کا افتتاح وزیرِ اعظمِ پاکستان میاں محمد نواز شریف نے کیا۔ کانفرنس کے پہلے دن نئے اردو افسانے پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا، جس میں اردو کے نامور افسانہ نگاروں نے شرکت کی۔ ادبی میلہ اب اسلام آباد میں بھی کراچی کا تین روزہ جشنِ ادب افسانہ نگار و نقاد حمید شاہد نے کہا کہ عجیب دور آ گیا ہے کہ دہشت ہڈیوں کے گودے تک اتر آئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں خبر بھی نہیں ہوئی کہ جہاد کرتے کرتے ہم کب دہشت گرد بن گئے ہیں۔ اس موقعے پر دوسرے مقررین نے بھی آج کل کے ماحول پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس معاشرے سے بنیادی اقدار ہی غائب ہو گئی ہوں وہاں ادب ضمنی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ ڈاکٹر انوار احمد نے منٹو کے مشہور افسانے ’شہید ساز‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج ملک میں جگہ جگہ شہید ساز فیکٹریاں کھلی ہوئی ہیں اور ہمارے رہنماؤں کو اپنی رہنمائی کے لیے اس افسانے کا ضرور مطالعہ کر لینا چاہیے۔ ہمارے عہد کے معروف نقاد ناصر عباس نیئر نے انتظار حسین پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اس تاثر کو رد کرنے کی کوشش کی کہ انتظار حسین ماضی پرستی کا شکار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’انتظار اردو کے پہلے پس نوآبادیاتی ادیب ہیں اور انھوں نے اپنے فکشن میں پہلی بار یورپی فکشن کے ڈھلے ڈھلائے سانچوں سے ہٹ کر کہانیاں لکھی ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ انتظار حسین کے کرداروں کے ہاں روحانی انحطاط نہیں بلکہ روحانی جدوجہد نظر آتی ہے۔ بلوچستان سے آئی ہوئی محقق اور دانشور صنوبر صبا نے اردو کے بڑے افسانہ نگاروں کے فن پر روشنی ڈالی۔ زاہدہ حنا نے محمد منشا یاد کو موضوع بناتے ہوئے کہا کہ وہ حساس اور باشعور ادیب تھے جنھوں نے مارشلائی جبر اور جمہوریت پر آئے دن ہونے والے شب خون کے خلاف علم بلند کیا۔ انھوں نے خاص طور پر منشا یاد کے افسانے ’کہانی کی رات‘ کا حوالہ دیا جس میں ایک شام ٹیلی ویژن کی سکرین یکایک سیاہ ہو جاتی ہے اور کسی کو سمجھ نہیں آتا کہ ہوا کیا ہے۔ اس موقعے پر معروف صوفی بابا یحییٰ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے سینیئر افسانہ نگار اور کالم نگار مسعود اشعر نے آخر میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دور فکری اور ذہنی انتشار کا دور ہے، اور ہمیں مستقبل کا کچھ پتا نہیں چل رہا کہ آگے چل کر کیا ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ تنزل کے اس دور میں ادیب معاشرے کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں اردو میں بڑے لکھنے والے گزرے ہیں لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ان سے آگے بڑھ کر سوچا لکھا جائے اور نئے ادیب اپنی منزل کا تعین ان کے بنائے ہوئے رستوں سے الگ چل کر کریں۔ اس موقعے پر سب رنگ ڈائجسٹ کے مدیر شکیل عادل زادہ، افسانہ نگار مسعود مفتی اور سعادت سعید نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس الحمرا کے دو ہالوں میں منعقد کی گئی اور کانفرنس کے پہلے دونوں دن ہال ادب کے شائقین سے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ کانفرنس کے دوسرے دن کا سب سے اہم حصہ طنز و مزاح کا اجلاس تھا جس میں لوگوں کو کھڑے ہونے کی جگہ بھی نہیں مل رہی تھی۔ اس اجلاس میں اردو کے کلاسک کا درجہ اختیار کرنے والے مزاح نگاروں مشتاق احمد یوسفی، کرنل محمد خان اور شفیق الرحمٰن کے فن پارے پڑھ کر سنائے گئے۔ جب کہ عطاالحق قاسمی، انعام الحق جاوید اور ڈاکٹر یونس بٹ نے بھی طنز و مزاح سے بھرپور تحریریں پیش کر کے شائقین کے دل موہ لیے۔ اس اجلاس کی صدارت وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کی۔ کانفرنس کے دوسرے اجلاسوں میں ’مسلم ثقافت کا روشن چہرہ۔ ماضی، حال اور مستقبل،‘ ’ٹیکنالوجی اور فنون لطیفہ کا باہمی رشتہ،‘ اور ’تصوف اور ہمارا ادب‘ تھے۔ اجلاس کے پہلے روز وزیرِ اعظم کی موجودگی کی وجہ سے سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے، جس کی وجہ سے ادیبوں کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس موقعے پر صرف خاص الخاص لوگوں ہی کو پاس جاری کیے گئے تھے اور بقیہ ادیب و دانش ور اس دوران الحمرا کے باہر گھومتے نظر آئے۔ کئی لوگوں نے اس بات پر تنقید کی کہ ادبی اور ثقافتی کانفرنس کے مرکزی اشتہار پر سب سے اوپر وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی تصاویر نمایاں ترین شائع کی گئی ہیں جب کہ انتظار حسین، عبداللہ حسین جیسے ادبا کو ان کے نیچے غیر نمایاں طریقے سے دکھایا گیا ہے۔ الحمرا آرٹس کونسل نے لاہور میں بین الاقوامی ادبی کانفرنس منعقد کی ہے، جس میں دنیا کے مختلف ملکوں سے ادیب، دانشور، فن کار اور صحافی شرکت کر رہے ہیں۔ text: جون 2014 میں عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت 115 ڈالر فی بیرل تھی ادھر اجلاس میں شریک سعودی عرب سمیت دیگر ممالک اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ تیل کی پیداوار کو منجمد کرنے سے قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ یاد رہے کہ جون 2014 میں عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت 115 ڈالر فی بیرل تھی۔ اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کے بعد ایران تیل کی منڈی میں اپنا کھویا ہوا حصہ دوبارہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس سے قبل ہی سعودی عرب کے ولی عہدنے کہا تھا کہ ایران کی جانب سے تیل کی پیداوار منجمد کرنے پر ہی سعودی عرب اس بارے میں کوئی فیصلہ کرے گا لیکن سعودی عرب کی جانب سے یہ حتمی فیصلہ ہے یا نہیں اس بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا ہے۔ قیمتوں میں کمی سے تیل کی برآمد پر انحصار کرنے والے ممالک کی آمدن بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ دوحا میں ہونے والے اجلاس میں اوپیک کے رکن ممالک کے ساتھ روس جیسے ممالک بھی شرکت کریں گے جو تیل برآمد تو کرتے ہیں لیکن اوپیک کے رکن نہیں ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تیل کی قیمتوں کو مستحکم کرنے کے لیے پیداوار کے بارے میں فیصلہ زیادہ اثر انداز نہیں ہو گا۔ ماضی میں بھی اوپیک ممالک کئی بار پیداوار میں کمی کرنے پر متفق ہوئے ہیں لیکن اس بار فیصلہ پیدوار میں کمی کے بجائے اُسے مزید نہ بڑھانے کے بارے میں ہو گا۔ قطر میں تیل برآمد کرنے والے ممالک کے اجلاس میں تیل کی پیداوار کو منجمد کرنے کا فیصلہ مشکلات سے دوچار ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ ایران اس پر آمادہ نہیں اور اس لیے اجلاس میں شرکت نہیں کر رہا۔ text: دلی میں ملک کے اعلٰی پولیس اہلکاروں کی ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ٹاسک فورس قومی سلامتی کے مشیر کے ماتحت کام کر سکتا ہے جس میں سبھی ریاستوں کی برابرکی نمائندگي ہو۔ وزیراعظم منموہن سنگھ نے کہا کہ ’میں ایک ٹاسک فورس کے قیام کی تجویز رکھتا ہوں جو سو روز کے اندر ماؤنواز، دہشت گردی اور شورش جیسے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک متحدہ منصوبے کو تیار کرنے کا کام شروع کرے گا۔‘ انہوں نے کہا کہ اس ٹاسک فورس کو ایک نیٹ سینٹر ک اطلاعاتی کمانڈ تیار کرنے کی ضرورت ہے جس سے مرکزی اور ریاستی ایجنسیز کو محفوظ طریقے سے مناسب وقت پراطلاعات مل سکیں اور ان کا استعمال بھی بخوبی ہوسکے۔ وزیراعظم منموہن سنگھ نے کہا کہ’ ٹاسک فورس کو سو روز کے اندر ایک روڈ میپ تیار کرنا چاہیے اور پھر بعد کے چند مہینوں میں ایک ایسی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے جس سے نیٹ سینٹرک صلاحیتیں حقیقی معنوں میں کام کرسکیں۔‘ دلی میں انٹلیجنس بیورو نے ڈائریکٹر جنرل اور انسپکٹر جنرل کی دو روزہ سالانہ کانفرنس کا انعقاد کیا ہے جس میں سبھی ریاستوں کے تمام بڑے پولیس افسران، پیرا ملٹری فورسز اور سکیورٹی ایجنسیز کے اہلکار شرکت کر رہے ہیں۔ وزیراعظم منموہن سنگھ نےایک ایسی ٹاسک فورس بنانے کی تجویز پیش کی ہے جو دہشت گردی، نکسلواد، اور شورش جیسے ابھرتے چیلنچز سے نمٹنے کے لیے آئندہ سو دن کے اندر منصوبہ سازی کا کام کر سکے۔ text: دنیا بھر میں کوورنا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کی 100 سے زیادہ کوششتیں جاری ہیں ادھر اقوامِ متحدہ نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے ساتھ ساتھ دنیا میں ذہنی صحت کا بحران بھی جنم لے رہا ہے اور اس کی وجہ کئی ممالک میں ذہنی امراض کے علاج پر عدم توجہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ہنگامی حالات کے شعبے کے ڈائریکٹر مائیکل رائن نے کورونا کے بارے میں یہ خدشہ بات بدھ کو جنیوا میں ایک ورچوئل پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ظاہر کیا۔ انھوں نے کہا کہ 'ہو سکتا ہے کہ یہ وائرس ہماری کمیونٹی میں ایک اینڈیمک بن جائے اور ہو سکتا ہے کہ یہ وائرس کبھی ختم نہ ہو۔' دنیا میں مئی کے وسط تک تین لاکھ کے قریب افراد کوورنا وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ متاثرین کی تعداد 43 لاکھ سے زیادہ ہے۔ کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟ دنیا میں کورونا کہاں کہاں: جانیے نقشوں اور چارٹس کی مدد سے کورونا وائرس کی ویکسین کب تک بن جائے گی؟ کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟ آخر کرونا وائرس شروع کہاں سے ہوا؟ کورونا وائرس: سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی کا مطلب کیا ہے؟ کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں کورونا وائرس: چہرے کو نہ چھونا اتنا مشکل کیوں؟ موازنے کیوں کیے جاتے ہیں؟ عالمی ادارۂ صحت کا کیا کہنا ہے؟ ڈاکٹر رائن کا کہنا تھا کہ 'ایچ آئی وی ختم نہیں ہوا ہے مگر ہم نے اس وائرس کا مقابلہ کرنا سیکھ لیا ہے۔' ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں کوئی بھی یہ پیشنگوئی نہیں کر سکتا کہ کووڈ-19 کی بیماری کا خاتمہ کب ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ ویکسین کے بغیر لوگوں میں اس وائرس کے خلاف قوتِ مدافعت درکار سطح تک آنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے ساتھ ساتھ دنیا میں ذہنی صحت کا بحران بھی جنم لے رہا ہے دنیا بھر میں کوورنا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کی 100 سے زیادہ کوششتیں جاری ہیں مگر ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ کبھی نہ بن سکے گی۔ مائیکل رائن کا کہنا تھا کہ اگر ویکسین بن بھی جاتی ہے تو وائرس پر قابو پانے کے لیے انتہائی بڑے پیمانے پر کوششوں کی ضرورت ہو گی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب بھی دنیا میں خسرہ جیسی کئی بیماریاں ہیں جن کی ویکسین موجود ے مگر ان کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔ یہ بھی پڑھیے یورپ میں کورونا سے سب سے زیادہ اموات برطانیہ میں کیوں؟ کیا امیر ممالک کووڈ 19 کی ویکسین ’ذخیرہ‘ کر سکتے ہیں؟ کیا آپ صحت یابی کے بعد دوبارہ کورونا کا شکار ہو سکتے ہیں؟ اقوامِ متحدہ نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا فرنٹ لائن طبی عملے سے لے کر اپنی نوکریاں کھونے والوں اور یا اپنے پیاروں کے بچھڑنے کا غم سہنے والوں سے لے کر گھروں میں قید بچوں اور طالب علموں تک، سب لوگوں کے لیے ذہنی دباؤ اور کوفت کا باعث ہے۔ جمعرات کو جاری ہونے والے ایک پالیسی بیان میں اقوامِ متحدہ نے دنیا کے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اپنے وبا سے نمٹنے کے منصوبوں میں ذہنی صحت کے علاج اور عوام کے لیے نفسیاتی امداد فراہم کرنے کے طریقے بھی شامل کریں۔ اچھی ذہنی صحت ایک پھلتے پھولتے معاشرے کے لیے ضروری ہے اور اقوامِ متحدہ کے مطابق ان اقدامات کے بغیر وبا کے ساتھ ساتھ دنیا میں ذہنی صحت کا بحران بھی جنم لے سکتا ہے۔ عالمی ادارہِ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ ممکن ہے کہ کووڈ 19 کبھی بھی ختم نہ ہو۔ text: پاکستانی ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ بھارتی ٹیم میں مرلی کارتک کی جگہ سریش رائنا کو شامل کیا گیا ہے جبکہ رمیش پوار سپر سب ہونگے۔ پاکستانی ٹیم ان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے: انضمام الحق ( کپتان)۔ سلمان بٹ۔ کامران اکمل۔ شعیب ملک۔محمد یوسف۔ شاہد آفریدی۔ عبدالرزاق۔ یونس خان۔ رانا نویدالحسن ۔عمر گل اور محمد آصف۔ سپرسب ارشدخان ہیں۔ بھارتی ٹیم: راہول ڈراوڈ ( کپتان)۔ وریندر سہواگ۔ سچن تندولکر۔ عرفان پٹھان۔ مہندرا دھونی۔ یوراج سنگھ۔ محمد کیف۔ اجیت اگرکار۔ ظہیرخان۔ سری سانتھ اور سریش رائنا شامل ہیں۔ امپائرز سائمن ٹافل اور اسد رؤف جبکہ میچ ریفری کرس براڈ ہیں۔ راولپنڈی میں کھیلے جانے والے دوسرے ایک روزہ میچ میں پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ text: پاکستان سن نوے کی دہائی کے اوائل سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علیحدگی پسندوں کے ساتھ پانچ فروری کو یکجہتی کے طور پر مناتا آرہا ہے۔ تاہم اس دن کی کوئی تاریحی پس منظر نہیں ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں اقوام متحدہ کی چند ایک پروازیں فضا میں اڑتے ہوئے دیکھے گئے ۔ایک پاکستانی ریلیف افسر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج کی امدادی پروازیں بھی معطل رہیں لیکن انھوں نے اس کی وجہ نہیں بتائی ۔ اس کے برعکس سول ایویشن کے افسر نے بتایا کہ سنچیر کو ایک سو ساٹھ امدادی پروازیں ہوئی تھیں ۔لیکن بعض حکام کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کی آمد کے باعث ریلیف کی سرگرمیاں میں خلل پڑا۔ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں پرویز مشرف کی آمد پر شہر مظفرآباد میں سخت سکیورٹی کے انتظامات کیےگئے تھے ۔مظفرآباد شہر میں عمارتوں پر پہاڑیوں پر ہزاروں فوجی، پولیس اور رینجرز کے اہلکار مشرف کے حفاطت کے لیے معمور کیےگئے تھے۔ شوکت لائن میں جس سٹیڈیم میں پرویز مشرف نے خطاب کیا اس کی طرف جانے والے تمام راستے نہ صرف ہر طرف سے پرائیویٹ ٹریفک کے لیے بند کر دیےگئے تھے بلکہ ان کی آمد پر سارے شہر کو ٹریفک کے لیے بند گیا تھا اور صرف وہ سرکاری گاڑیاں چل سکتی تھیں جن کو پہلے سے ہی سکیورٹی پاس جاری کیےگئے تھے ۔ جس مقام پر پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے خطاب کیا اس جگہ سے اقوام متحدہ کے اداروں کا کیمپ چند سو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ سخت سکیورٹی کی وجہ سے اقوام متحدہ کے ایک ادارے کے اہلکار نے بتایا کہ مظفرآباد میں اقوام متحدہ کے اداروں نے آج کے لیے اپنی سرگرمیاں معطل رکھیں کیوں کہ ان گاڑیوں کو بھی سڑک پر چلنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کی وجہ سے اقوام متحدہ کا بین الا اقوامی اور پاکستانی سٹاف کیمپ تک ہی محدود ہوکر رہ گیا جبکہ مقامی کشمیری سٹاف کو چھٹی دے دی گئی۔ اقوام متحدہ کی ایک تنظیم کے اہلکار نے بتایا کے اگر کوئی ہنگامی صورت حال ہو تو وہ مدد کرنے سے قاصر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ بہت افسوس ناک بات ہے۔ ٹریفک معطل رہنے کی وجہ سے عام لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا خاص طور پر ان لوگوں کو بہت ہی زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جو جلسے کے مقام کے قریب رہتے تھے۔ شہر میں پیدل چلنے والوں کو جگہ جگہ روک کر شناختی کارڈ چیک کیےجاتے رہے اس دوران سکیورٹی اہلکاروں اور لوگوں کے درمیان بعض مقامات پر تلخی ہوئی اور خواتین کو یہ کہا جاتا رہا کہ اگر ان کے پاس چاقو چھری ہے تو وہ جمع کرائیں ۔مقامی لوگوں نے اس صورت حال پر سخت نالاں تھے۔ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کا خطاب سننے کے لیے جو لوگ آئے ان کو تلاشی لی گئی اس دوران ان کو گھنٹوں قطار میں کھڑا رہنا پڑا ان میں سرکاری ملازمین کی بھی بہت بڑی تعداد تھی جن کو ایک سرکاری حکم نامے کے ذریعے جلسے میں اپنی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے کہا گیا تھا۔ جلسے میں اسکول کے بچوں کی بھی بڑی تعداد بھی لائی گئی۔ چھوٹے بچوں سمیت لوگ صبح آٹھ اور نو بجے کے درمیان جلسہ گاہ میں پہنچے اور وہ پورا دن وہاں بھوکے اور پیاسے رہے کیوں کہ ان کو باہر جانے کی اجازت نہیں تھی ۔ جماعت اسلامی نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سردار اعـجاز افضل نے کہا کہ اگر کشمیریوں کو یرغمال بناکر یوم یکجہتی منانا ہے تو پھر ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کی مظفرآباد آمد کے موقع پر ہوائی اور زمینی امدادی کاروائیوں میں خلل پڑا۔ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اتوار کے یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر مظفرآباد میں خطاب کیا۔ text: سپریم کورٹ کا ایک جج اس آئینی عہدے پر اضافی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے جس کی وجہ سے عدالتی امور متاثر ہو رہے ہیں: عدالت عدالت نے کہا ہے کہ اس آئینی عہدے پر 13 نومبر تک تعیناتی عمل میں لائی جائے اور اس ضمن میں اب کوئی تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے ضمن میں مشاورت اور قانون سازی کےلیے اپنا جواب جمع کروایا تھا جس میں عدالت سے تین ماہ کی مہلت دینے سے متعلق استدعا کی گئی تھی۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعرات کو انتخابی اصلاحات سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے وکیل سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی سے پہلے انتخابی اصلاحات مکمل کر لی جائیں تاکہ دوبارہ کوئی قانونی پیچیدگیاں پیدا نہ ہوں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انتخابی اصلاحات کا عمل تو اب شروع ہوا ہے جبکہ یہ آئینی عہدہ گذشتہ ایک سال سے خالی ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ملک میں رائج قوانین کے تحت ہی چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کیا جائے اور جب انتخابی اصلاحات ہوں گی تو اُس وقت دیکھا جائے گا۔ قائد حزب اختلاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس اہم عہدے کے لیے مشاورت ضروری ہے کیونکہ انتخابات ہی کے ذریعے عوام کے مستقبل کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کے لیے وزیر اعظم سے مشاورت کا عمل ابھی بھی جاری ہے اور اس عمل کو شفاف بنانے کے لیے مشاورت کے لیے مزید وقت درکار ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اس عہدے پر تعیناتی کے لیے قائد حزب اختلاف پہلے کیوں متحرک نہیں ہوئے؟ عدالت کا کہنا تھا کہ ایک سال سے چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ خالی ہونے کی وجہ سے الیکشن کمشن کے امور میں دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا ایک جج اس آئینی عہدے پر اضافی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے جس کی وجہ سے عدالتی امور متاثر ہو رہے ہیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ سے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعظم کو بھی مشاورت کے لیے وقت چاہیے جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت عدالتی حکم پر عمل درآمد کرے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کو مشاورت کے لیے وقت درکار نہیں ہے۔ یاد رہے کہ جسٹس ریٹائرڈ فخرالدین جی ابراہیم کے چیف الیکشن کمشنر کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد موجودہ چیف جسٹس ناصر الملک سمیت سپریم کورٹ کے متعدد جج اس عہدے پر اپنی ذمہ دایاں ادا کرتے رہے ہیں۔ اس وقت سپریم کورٹ کے جج جسٹس انور ظہیر جمالی بطور قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے مزید تین ماہ کی مہلت سے متعلق درخواست مسترد کر دی ہے۔ text: ذوالفقار علی بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر سے متعلق سے بیان بازی جار رہتی ہے بھارتی وزیر داخلہ سوشیل کمار شندے نے اتوار کو یہ الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان بھارتی زیر انتظام کشمیر میں دراندازی کے لیے شدت پسندوں کو مدد فراہم کر رہا ہے۔ منگل کی رات کو پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں ہندوستان کے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کردیا۔ ترجمان نے کہا کہ کسی ثبوت کے بغیر ایسے بیانات ساز گار ماحول پیدا کرنے میں مدد گار نہیں ہوسکتے جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ ترجمان نے اپنے بیان میں ہندوستان کو پیشکش کی کہ اگر اس کے پاس کوئی اطلاع یا شواہد ہیں تو پاکستان کے ساتھ اس کا تبادلہ کیا جائے اور پاکستان اس کا خیر مقدم کرے گا۔ ہندوستان کے وزیر داخلہ ایس کے شندے نے دلی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے پاس خفیہ اطلاعات ہیں کہ پاکستان شدت پسندوں کو وادی کشمیر میں داخل کرانے میں مدد فراہم کررہا ہے۔ گذشتہ ہفتے کے اوائل میں ہندوستان نے الزام عائد کیا تھا کہ لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب سے پاکستان کی فوج نے بلا اشتعال گولہ باری کی جس کے نتیجے میں سرحدی قصبے اوڑی کے ایک گاؤں میں ایک حاملہ عورت اور پندرہ سال کے ایک بچے سمیت تین افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ "دنوں کے درمیان دو ہزار تین میں متنازع کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کا معاہدہ ہوا تھا جو اب تک قائم ہے۔ لیکن اس دوران اب تک لائن آف کنٹرول پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان گولہ باری کے تبادلے کے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ اکثر اوقات فائرنگ کا یہ تبادلہ دونوں ممالک کی افواج کی چوکیوں تک ہی محدود رہا۔" لیکن پاکستان نے ہندوستان کے اس الزام پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ ہندوستان اور پاکستان کی طرف سے ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات ایک ایسے مرحلے پر لگائے جارہے ہیں جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان برسوں کی کشیدگی کے بعد نومبر سنہ دو ہزار تین میں متنازع کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کا معاہدہ ہوا تھا جو اب تک قائم ہے۔ لیکن اس دوران اب تک لائن آف کنٹرول پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان گولہ باری کے تبادلے کے کئی واقعات پیش آئے ہیں تاہم اکثر اوقات فائرنگ کا یہ تبادلہ دونوں ممالک کی افواج کی چوکیوں تک ہی محدود رہا۔ اس کے نتیجے میں دونوں اطراف سے کئی فوجی ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں البتہ ان نو سالوں کے دوران اب تک لائن آف کنٹرول پر حکام کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں کئی عام شہری بھی نشانہ بن چکے ہیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے پر فائر بندی کی خلاف ورزی کرنے اور فائرنگ شروع کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان فائر بندی کے معاہدے سے پہلے لائن آف کنٹرول پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان گولہ باری کا تبادلہ معمول کی بات تھی۔ اس کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب سینکڑوں شہری ہلاک و زخمی ہوئے یا پھر عمر بھر کے لیے معذور ہوئے اور لوگوں کی املاک تباہ ہوئیں یا ان کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات پاکستان نے وادی کشمیر میں شدت پسندوں کی دراندازی کے بارے میں ہندوستان کے الزام کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ text: پولیس کے مطابق ان چھاپوں میں وسطی پرگیا سے تین اطالوی اور دو تُرک نژاد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ اسی تفتیشی کارروائی کے سلسلے میں یورپ بھر سے نو مشتبہ افراد پکڑے گئے ہیں جن میں سات تُرک اور دیگر دو بیلجیئم اور ہالینڈ کے ہیں۔ اٹلی کی پولیس کا کہنا ہے اُس نے وہ تُرک سیل کو توڑ ڈالا ہے جو تُرکی میں دہشت گرد حملوں کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ اٹلی کے خفیہ اداروں کے مطابق انہیں مسلم شدت پسند جماعتوں کی جانب سے چھوٹے اور بڑے پیمانے پر منظم دہشت گرد حملوں کا خدشہ ہے۔ گزشتہ ماہ سپین میں ہونے والے ٹرین کے بم دھماکوں کے بعد سےاٹلی میں دہشت گرد حملوں سے ہوشیار رہنے کے رجحانات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور اطالوی سیکیورٹی ادارے چوکس ہوگئے ہیں۔ اٹلی کی پولیس نے بیشتر گرفتاریاں ملک کے شمالی حصوں سے کی ہیں۔ تفتیش کاروں کے مطابق کیونکہ ان علاقوں میں مسلمانوں گروپوں کی اکثریت ہےلہذا ہو سکتا ہے کہ ان کے القاعدہ سے روابط ہوں۔ اسی سلسلے میں اٹلی کی پولیس نے فروری میں ملک کے شمالی حصے ہی سے تین شمالی افریقی باشندوں کو گرفتار کیا تھا جن پر شبہہ تھا کہ وہ ملان کی ٹرینوں اور گرجا گھر میں بم نصب کرنا چاہتے تھے۔ اٹلی کی پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے کئی افراد کو مشتبہ دہشت گرد ہونے کے شبہے میں گرفتار کیا ہے۔ text: دونوں ملکوں کو مل کر مسئلے کا حل تلاش کرنے چاہیے: صدر ٹرمپ منگل کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ ہمیں اس بارے میں بہت سی رپورٹس ملی ہیں۔ ’صورتحال خوفناک ہے، تاہم بہتر ہو گا اگر دونوں ملک مل بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کریں۔‘ یہ بھی پڑھیئے حملے کی صورت میں جوابی حملہ کریں گے: عمران خان بات چیت کا وقت ختم،اب کارروائی کا وقت ہے: مودی اوڑی سے پلوامہ حملے تک اس سے پہلے امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رابرٹ پیلاڈینو نے ایک بریفنگ میں پلوامہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستان سے تعلق رکھنے والی دہشت گرد تنظیم جیش محمد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور ہم تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اقوامِ متحدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور دہشتگردوں کی پشت پناہی نہ کریں اور ان کی پناہ گاہیں ختم کریں۔‘ ادھر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے بھی دونوں جوہری طاقتوں کو 'حتی الامکان' تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اینٹونیو گوٹیریس نے بھی پاکستان اور انڈیا کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے سیکریٹری جنرل نے دونوں ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ کشیدگی کم کرنے کے لیے فوری اقدادمات اٹھائیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی خدمات اور تعاون کی بھی پیشکش کی ہے۔ عالمی برادری کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں آئے ہیں جب انڈیا نے پاکستان کی جانب سے پلوامہ حملے کی تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔ 'پاکستان دہشت گردی کا محور، تحقیقات کی پیشکش بےمعنی' نئی دہلی میں بی بی سی کے نامہ نگار شکیل اختر کے مطابق انڈین وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں پلوامہ حملے پر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے بیان پر مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔ انڈیا کا کہنا ہے کہ وہ ممبئی اور پٹھان کوٹ کے حملوں کے بھی ثبوت دے چکا ہے لیکن ان معاملات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ انڈین وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے اس حملے کو دہشت گری بھی نہیں مانا اور نہ ہی متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے ۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے پلوامہ حملے کا ارتکاب کرنے والے دہشت گرد اور جبیش محمد کے دعوے کو نظر انداز کر دیا جنھوں نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔ ’یہ سبھی کو پتہ ہے کہ جیش محمد اور اس کے سربراہ پاکستان میں ہیں۔ پاکستان کے لیے ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے یہی ثبوت کافی ہے۔‘ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے 'نئے پاکستان اور نئی سوچ کی بات کی ' کیا یہی نیا پاکستان ہے جس میں حکومت کے وزرا اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیوں کا شکار حافظ سعید جیسے دہشت گرد کے ساتھ پلیٹ فارم شیئر کرتے ہیں۔ ' عمران خان کی جانب سے بات چیت کی پیشکش پر انڈیا نے کہا کہ وہ صرف اس ماحول میں بات کرے گا جب فضا پوری طرح دہشت گردی اور تشدد سے پاک ہو۔ انڈیا نے پاکستان کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ وہ دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ہے۔ 'یہ حقیقت سے پرے ہے۔ بین الاقوامی برادری کو معلوم ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا محور ہے ۔' انڈیا میں ہندو قوم پرست تنظیمیں اس وقت بہت سرگرم ہیں اور پاکستان کے خلاف جلسے جلوسوں اور مظاہروں کا انعقاد کر رہی ہیں اس بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ افسوسناک ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے دہشت گردانہ حملے کے بارے انڈین حکومت کے سخت موقف کو آئندہ پارلیمانی انتخابات کے پیرائے میں دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔ بیان میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری کو گمراہ کرنے کے بجائے پلوامہ کے دہشت گردوں اور پاکستان میں سرگرم دوسری دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کاروائی کرے۔ انڈین میڈیا نےبھی عمران خان کے بیان پر منفی در عمل ظاہر کیا ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ عمران خاں نے پاکستان کی فوج کی ترجمانی کی ہے۔ پلوامہ حملے کے بعد دونوں ملکوں کے تعللقات انتہائی کشیدہ ہیں اور تلخیاں بڑھتی جا رہی ہیں ۔ وزریر اعظم نریندر مودی نے پیر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ 'پاکستان سے بات چیت کا وقت اب نکل چکا ہے ۔ اب کاروائی کا وقت ہے ' ۔ وزیر دفاع نرملا سیتا رمن سے جب پوچھا گیا کہ انڈیا کس طرح کی کارروائی کی بات کر رہا ہے تو انھوں نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں مزید تفصیلات شیر نہیں کر سکتیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پلوامہ حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے مابین بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ مل کر مسائل کا حل تلاش کریں جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی کشیدگی کم کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ text: محمد الیاس بنیادی طور پر ضلع شانگلہ میں سب انسپکٹر لیگل تھے لیکن انھیں ان دنوں ڈی ایس پی لیگل کا چارج بھی دیا گیا تھا (فائل فوٹو) سوات سے پولیس اہلکار نے بتایا کہ محمد الیاس پر حملہ پیپلز چوک پر کیا گیا ہے۔ یہ تھانہ مینگورہ کا علاقہ ہے۔ پولیس کے مطابق حملہ آور فائرنگ کے بعد موقع سے فرار ہو گئے ہیں۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ محمد الیاس بنیادی طور پر ضلع شانگلہ میں سب انسپکٹر لیگل تھے لیکن انھیں ان دنوں ڈی ایس پی لیگل کا چارج بھی دیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق انھیں گزشتہ روز سوات میں ایک ٹریننگ کورس کے لیے لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ انھوں نے پیر کو دوپہر کے وقت پولیس ٹریننگ سکول میں لیکچر دیا تھا۔ محمد الیاس کو اکثر و بیشتر ایڈوانس کورسز میں شریک اہلکاروں کو لیکچر کے لیے بلایا جاتا تھا ۔ محمد الیاس کو نشانہ بنانے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔ خیبر پختونخوا میں کچھ عرصے سے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ گذشتہ روز جنوبی ضلع لکی مروت میں ضلعی سیکیورٹی برانچ کے اہلکار طارق عثمان اور سپشل برانچ کے اہلکار مشال خان تحصیل نورنگ سے موٹر سائیکل پر گنڈی چوک کی جانب آ رہے تھے کہ راستے میں ان پر حملہ کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں کچھ عرصے سے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا جا رہا ہے لکی مروت سے پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ دونوں اہلکار معمول کی ڈیوٹی پر تھے کہ ان پر موٹر سائیکل پر سوار حملہ آوروں نے فائرنگ کی اور موقع سے فرار ہو گئے ہیں۔ لکی مروت میں دس دنوں کے اندر چار پولیس اہلکاروں کو فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا ہے ۔ اس مہینے کی چار تاریخ کو نا معلوم افراد نے لکی مروت شہر کے اندر امام بارگاہ کے سامنے ایک پولیس اہلکار کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا جبکہ اس کے بعد آٹھ اپریل کونورنگ میں لڑکوں کے ڈگری کالج کے سامنے ایک اہلکار کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ان دونوں اہلکاروں کا تعلق فرنٹیئر ریزرو پولیس سے بتایا گیا ہے ۔ یہاں یہ امر قابل زکر ہے کہ نورنگ میں گذشتہ ماہ کے وسط میں ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس اپنے گھر میں مردہ پائے گئے تھے۔ ان کی کن پٹی پر گولی کا نشان تھا لیکن اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ انھیں قتل کیا گیا تھا یا کوئی اور وجہ تھی۔ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے شانگلہ سے آئے ہوئے قائم مقام ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو ہلاک کر دیا ہے۔ گذشتہ روز جنوبی ضلع لکی مروت میں دو پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ text: کراچی میں بدعنوانی کے بارے میں رینجرز کے سربراہ کے بیان کے بعد سندھ حکومت دباؤ میں ہے نیشنل ایکش پلان کے تحت کراچی میں جاری دہشت گردوں کے خلاف جاری رینجرز کے آپریشن کے دائرے کو بظاہر صوبائی حکومت کی سطح پر مبینہ بدعنوانیوں تک وسیع کر دیا گیا ہے۔ قومی احتساب بیورو نےگذشتہ روز بدعنوانی کے الزام میں گرفتار چار افسران کا 14 دن کا ریمانڈ حاصل کر لیا۔ قومی احتساب بیورو نے موجودہ صوبائی وزیر علی مردان شاہ، سابق وزیر تعلیم پیر مظہرالحق، سیکریٹری اطلاعات ذوالفقار شاہلوانی اور ڈائریکٹر منصور راجپوت پر بھی بدعنوانی کے الزامات عائد کیے ہیں، جنہوں نے عدالتوں سے حفاظتی ضمانت حاصل کر لی ہے۔ یاد رہے کہ رینجرز کے ترجمان کی طرف بارہ جون کو ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ ڈائریکٹر جنرل رینجرز نے ایپکس کمیٹی کو بتایا ہے ہے صوبے میں مبینہ طور پر سالانہ 230 ارب روپے کی کرپشن کی جا رہی ہے۔ قومی احتساب بیورو نے جمعرات کو سجاول کے ٹاؤن افسر ممتاز زرداری، سہون شریف کے تین ٹاؤن افسران ظہور احمد شہانی، رحمت اللہ میمن اور انجینیئر ادریس میمن کو گرفتار کیا تھا۔ ممتاز زرداری پر دس کروڑ جبکہ سہون شریف ٹاؤن کمیٹی پر دس کروڑ 20 لاکھ روپے کی بدعنوانی کا الزام ہے۔ احتساب بیورو نے جمعے کو چاروں ملزمان کو نیب کورٹ کے جج عبداللطیف گولو کی عدالت میں پیش کیا۔ نیب نے موقف اختیار کیا کہ ملزمان کروڑوں روپوں کی بدعنوانی میں ملوث ہیں اور ان سے مزید تحقیقات کرنی ہے لہٰذا ان کا ریمانڈ دیا جائے۔ عدالت نے ملزمان کو دو جولائی تک احتساب بیورو کے حوالے کر دیا۔ دوسری جانب کمشنر بےنظیر آباد غلام مصطفیٰ پھل نے سندھ ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت حاصل کر لی ہے۔ جسٹس صادق حسین اور جسٹس حسن فیروز کی عدالت میں بیرسٹر ضمیرگھمرو نے قومی احتساب بیورو آرڈیننس کو بھی چیلنج کیا ہے۔ ضمیر گھمرو کا موقف ہے کہ نیب آرڈیننس کے تحت وفاقی حکومت صوبائی معاملات میں تحقیقات کا حق نہیں رکھتی کیونکہ بدعنوانی کی روک تھام 1962 اور 1973 کے آئینوں کے مطابق صوبائی معاملہ ہے۔ وفاقی حکومت صرف اپنے ماتحت اداروں میں کرپشن کی تحقیقات کا اختیار رکھتی ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ نیب کے صوبائی اداروں میں کارروائی کو اختیار نہیں ہے۔ عدالت نےدرخواست پر وفاقی وزرات قانون، چیئرمین نیب، سندھ حکومت اور صوبائی چیئرمین اینٹی کرپشن کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ ادھر پاکستان پیپلز پارٹی سندھ نے گرفتار سرکاری افسران سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر تاج حیدر اور نجمی عالم نے واضح کیا ہے کہ گرفتار شدگان سرکاری ملازمین ہیں۔ انھوں نےکہا کہ اگر ان افسران کےخلاف کوئی الزام ہے اور یہ الزام عدالت میں ثابت ہوتا ہے تو پاکستان پیپلزپارٹی سمیت کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ دونوں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت میڈیا یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ کس طرح یہ ثابت کیا جائے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے عہدیدار غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور حالیہ چند دنوں میں گرفتار ہونے کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے ہے جو کہ سراسر غلط اور حقائق کے منافی ہے ۔انھوں نے متنبہ کیا کہ میڈیا سمیت ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ قومی احتساب بیورو نے گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں کے دوران کراچی میں صوبائی حکومت کی مبینہ دھاندلی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے چار گرفتار صوبائی افسران کا چودہ دن کا ریمانڈ حاصل کر لیا ہے جبکہ ایک صوبائی وزیر سمیت کئی اہم حکومتی اہلکاروں نے قبل از گرفتاری ضمانتیں حاصل کر لی ہیں۔ text: آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی طرف سے مالی سال 2014 -15 کے لیے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بلین ٹری سونامی منصوبے میں پودوں کے حصول کےلیے ٹھیکے مبینہ طورپر میرٹ کے برعکس دیے گئے جس سے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ آڈٹ رپورٹ کے میں کہا گیا ہے کہ مالی سال ڈی ایف او سوات کے دفتر سے معلوم ہوا کہ نجی نرسریوں کے قیام کے لیے 40 لاکھ نوے ہزار روپے جاری کیے گئے جس میں 25 فیصد رقم پیشگی ادا کی گئی۔ لیکن مقررہ وقت گزرنے کے باوجود نرسریوں کے قیام میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی جبکہ پیشگی رقم دینے کے لیے بھی کوئی ضمانت نہیں لی گئی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نرسریوں کی موجودگی کے بارے میں یہ جانچ پڑتال بھی نہیں کی گئی کہ اصل میں نرسریاں وجود رکھتی بھی ہیں کہ نہیں۔ رپورٹ کے مطابق ڈی ایف او سوات کے دفتر سے معلوم ہوا کہ بلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت نرسریوں کےلیے کرائے پر حاصل کی گئی زمین زیادہ قیمت پر لی گئی جس پر آڈٹ رپورٹ میں اعتراض بھی اٹھایا گیا اور اسے میرٹ کے برعکس قرار دیا گیا ۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ منصوبے کے پی سی ون میں نرسریوں کے قیام کےلیے فی کنال زمین کرائے پر حاصل کرنے کےلیے چھ ہزار روپے کی منظوری دی گئی لیکن یہ زمین بجائے چھ ہزار روپے کے دس سے پندرہ ہزار روپے فی کنال پر لی گئی جس سے قومی خزانے کو تقریباً تیس لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے تحت محکمہ جنگلات کے ایک مقامی دفتر کو تقریباً چار کروڑ 35 لاکھ روپے جاری کیے گئے جس میں تقریباً دو کروڑ بارہ لاکھ روپے ڈیلی ویجز مزدوروں کو ادا کیے گئے جبکہ باقی ماندہ رقم یوتھ نرسریوں کے قیام پر خرچ کیے گئے۔ آڈٹ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ مزدوروں کو اتنی بڑی رقم ادا کرنا خلاف قانون تھا۔ اس کے علاوہ آڈٹ رپورٹ میں محکمہ جنگلات میں ہونے والی بے قاعدگیوں کا بھی انکشاف کیا گیا ہے۔ ادھر خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان اور صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے کہا ہے کہ ڈرافٹ آڈٹ رپورٹ کبھی بھی مصدقہ نہیں ہوتی بلکہ اس پر بحث کی جاسکتی ہے۔ جمعرات کو پشاور میں صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ خود بھی کئی مرتبہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاسوں کی سربراہی کرچکے ہیں۔ ان کے مطابق ان آڈٹ رپورٹوں میں کبھی کسی کرپشن کی بات نہیں ہوتی بلکہ ان میں بے قاعدگیوں کا تذکرہ ہوتا ہے جس کو تفصیلاً پڑھنے کے بعد معاملہ صاف ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں افسوس ہے کہ یہ رپورٹ کیسی شائع ہوئی کیونکہ قانون کے مطابق ڈرافٹ رپورٹ کو کبھی بھی شائع نہیں کیا جاسکتا تاہم یہ کام جس نے بھی کیا ہے صوبے کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صوبائی وزیر کے مطابق بلین ٹری سونامی منصوبہ سب کے سامنے ہے اور اس سلسلے میں جو کام ہوا ہے اسکی دنیا کے تمام بڑے بڑے ادارے تعریف کرچکے ہیں۔ شوکت یوسفزئی نے مزید کہا کہ بلین سونامی منصوبے کے تحت جن مقامات پر درخت لگائے گئے ہیں وہاں ہر کوئی جاکر دیکھ سکتا ہے کہ اگر درخت لگے ہوئے نہیں ملے تو وہ ہرقسم کی سزا بھگتنے کےلیے تیار ہیں۔ خیال رہے کہ بلین ٹری سونامی منصوبہ تحریک انصاف حکومت کے پہلے دور میں شروع ہوا۔ حکومت کا دعوی ہے کہ اس منصوبے کے تحت صوبہ بھر میں تقربناً ایک ارب کے قریب درخت لگائے گئے۔ بلین ٹری سونامی منصوبے کےلیے سنہ 2013 میں ٹاسک فورس بنائی گئی تھی ۔ تاہم اس منصوبے کا باقاعدہ آغاز 2015 میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کیا تھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ماحولیات پر تحقیق کرنے والی عالمی ادارے آئی یو سی این نے گزشتہ سال جاری اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا تھا کہ خیبر پختونخوا ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں گذشتہ کچھ سالوں کے دوران وسیع پیمانے پر شجرکاری کی گئی ہے۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں حکومت کی طرف سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے اور مجموعی طورپر جنگلات کا رقبہ بڑھانے کےلیے پہلی دفعہ شروع کی گئی 'بلین ٹری سونامی' منصوبے کے آڈٹ رپورٹ میں وسیع پیمانے پر بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ text: ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکیل بیرسٹر جاوید اقبال جعفری کا کہنا ہے کہ وہ اپنے موکل کو حبس بےجا میں رکھنے کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نئی درخواست دائر کریں گے۔ نظر ثانی کی یہ درخواست ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکیل بیرسٹر جاوید اقبال جعفری نے دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ عدالتی احکامات کے باوجود اُن کے موکل کو گھر سے باہر نکلنے، عزیزواقارب سے ملنے کی مشروط اجازت اور تحقیقی کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ۔ عدالت نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ضابطہ فوجداری کے مقدمات میں عدالت کے فیصلے پر نظر ثانی نہیں ہوسکتی۔ عدالت نے اس درخواست میں معاونت کے لیے ڈپٹی اٹارنی جنرل امجد اقبال قریشی کو بھی طلب کیا تھا جنہوں نے کہا کہ اس عدالت میں نظر ثانی کی درخواست پر سماعت نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ قانون میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد اسلم نے21 جولائی کو ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر کو حبس بےجا میں رکھنے کے خلاف بیرسٹر جاوید اقبال جعفری کی طرف سے دائر درخواست پر فیصلہ سُناتے ہوئے ممتاز سائنسدان کو اندرون ملک سفر کرنے، اپنی مرضی سے ڈاکٹروں سے علاج کروانے اور عزیز واقارب سے ملاقات کرنے کی اجازت دے دی ہے تاہم یہ تمام معاملات سیکورٹی کلیئرنس سے مشروط کر دیئے تھے۔ اُن پر یہ شرط بھی عائد کی گئی تھی کہ وہ جوہری پروگرام کے حوالے سے میڈیا میں کوئی بیان بازی نہیں کریں گے۔ درخواست گزار نے اپنی نظر ثانی درخواست میں یہ نکات اُٹھائے تھےجن میں کہا گیا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر سے ملاقات کرنے والوں کو اجازت نہیں دی جا رہی اس کے علاوہ اُن کے موکل کو بھی نقل وحرکت کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ واضح رہے کہ نظر ثانی کی اس درخواست کے سماعت کے دوران بیرسٹر جاوید اقبال نے عدالت میں ڈاکٹر عبدالقدیر کا خط بھی پیش کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے ٹیلی وژن پر آکر جوہری توانائی کے پھیلاو کے بارے میں جو بیان دیا تھا وہ ملکی مفاد میں تھاحالانکہ وہ اس میں کبھی بھی ملوث نہیں رہے۔ تاہم جیسا ان سے کہا گیا تھا ویسے ہی انہوں نے چار فروری 2004 کو سٹیٹرجیک ڈویژن کی طرف سے تیار کیئے گئے ایک بیان کو سرکاری ٹی وی پر جا کر پڑھ دیا۔ اسلام اباد ہائی کورٹ نے پیر کے روز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو حبس بےجا میں رکھنے کے بارے میں عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ text: مقامی انتظامیہ کے مطابق کم از کم ساڑھے تین ہزار بچوں بڑوں اور بوڑھوں نے سرکاری ہپستالوں سے رجوع کیا ہے جبکہ ایک محتاط اندازے کےمطابق نجی ہسپتالوں اور کلینکوں سے بھی تقریباً اتنے ہی افراد نے علاج کرایا ہے۔ حکام نے اب تک اگرچہ پانچ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے لیکن مقامی ذرائع ابلاغ یہ تعداد بارہ تک بتا رہے ہیں۔ پاکستان بھر سے ہمارے پڑھنے والے پانی کی کمی اور آلودگی جیسے مسائل پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ آپ کے علاقے میں پانی کی کیا صورت حال ہے؟ کیا آپ کو پینے کا صاف پانی آسانی سے مل جاتا ہے؟ جاوید اقبال ملک، چکوالہمارے شہر چکوال کی پندرہ لاکھ آبادی گندہ اور غلیز پانی پینے پر مجبور ہے۔ وہ پانی جس میں جانوروں کا فضلہ پھینکا جاتا ہے۔ مگر جو بھی حکومت آئی اس نے وعدے کیے، صرف وعدے، مگر عملاً کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے لوگ نجی ٹینکروں سے پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ بدھ اور جمرات کو فیصل آباد کی ڈیڑھ لاکھ آبادی پر مشتمل غلام محمد آباد کالونی کے نلکوں میں آلودہ پانی آنے سے انتڑیوں اور معدے میں انفیکشن کی بیماری پھوٹ پڑی۔ text: ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں گریم اسمتھ کی ٹیم نے پاکستانی بیٹنگ کو پچاس اوورز میں9 وکٹوں پر230 رنز پر محدود کرنے کے بعد مطلوبہ اسکور صرف 3 وکٹوں کے نقصان پر38 ویں اوور میں پورا کرلیا۔ شان پولاک نے شاندار بیٹنگ کرتے ہوئے9 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے90 رنز بنائے۔انہیں راؤ افتخار نے شعیب ملک کے ہاتھوں کیچ کرایا۔ جنوبی افریقہ کی طرف سے کھیلتے ہوئے یہ پولاک کا ون ڈے انٹرنیشنل کا سب سے بہترین سکور ہے۔ افریقن الیون کی طرف سے کھیلتے ہوئے انہوں نے ایشین الیون کے خلاف سنچری بنائی تھی۔ پولاک کو مین آف دی میچ بھی قرار دیا گیا۔ انہوں نے دس اوورز میں صرف رنز دے کر ایک وکٹ بھی حاصل کی تھی۔ کپتان سمتھ سات چوکوں کی مدد سے81 رنز کی عمدہ اننگز کھیل کر راؤ افتخار کی گیند پر عبدالرحمن کے ہاتھوں کیچ ہوئے تو جنوبی افریقی ٹیم جیت سے صرف3 رنز کی دوری پر تھی۔ پاکستانی اننگز کی خاص بات یونس خان کی عمدہ بیٹنگ تھی جنہوں نے 82 رنزسکور کیے۔ گریم سمتھ اور ہرشل گبز نے ٹیم کو دس اوورز میں65 رنز کا اچھا آغاز دیا۔ گبز7 چوکوں کی مدد سے39 رنز بناکر شاہد آفریدی کی پہلی ہی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوگئے۔ اس سے قبل شعیب ملک نے جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا لیکن گزشتہ میچ کے مین آف دی میچ شاہد آفریدی بغیر کوئی رن بنائے نتینی کی گیند پر مڈآن پر نیل کے ہاتھوں کیچ ہوگئے۔ یاسرحمید کو10 رنز کے انفرادی اسکور پر شان پولاک کی گیند پر ہرشل گبز نے شارٹ مڈ وکٹ پر خوبصورتی سے کیچ کرلیا۔ پاکستانی ٹیم کی سب سے بڑی امید محمد یوسف سے وابستہ تھی جنہوں نے پچھلے دو میچوں میں ایک سنچری اور دو نصف سنچریاں بنائی تھیں لیکن اس مرتبہ وہ صرف 5 رنز پر بوتھا کی تھرو پر رن آؤٹ ہوگئے۔ پاکستان کا سکور اس وقت 3 وکٹوں پر صرف38 رنز تھا۔ یونس خان اور کپتان شعیب ملک کے درمیان چوتھی وکٹ کی شراکت میں بننے والے91 رنز نے ایک بڑے سکور تک پہنچنے کی امید پیدا کی لیکن پاکستانی کپتان45 کے سکور پر کیلس کی سلو گیند پر دھوکہ کھاگئے اور مڈآف پر آسان کیچ سمتھ کو تھماگئے۔ یونس خان اور مصباح الحق کی ایک ہی اوور میں گرنے والی وکٹوں نے صورتحال یکسر تبدیل کردی۔ یونس خان82 رنز بنا کر نیل کی گیند کو پل کرنے کی کوشش میں مڈ وکٹ پر گبز کے ہاتھوں کیچ ہوئے۔ اس وقت پاکستان کا سکور158 رنز تھا۔ یونس خان نے ایک سو دس گیندوں پر مشتمل اپنی اننگز میں دو چھکے اور چھ چوکے لگائے۔ آندرے نیل نے اپنے اسی اوور میں7 رنز بنانے والے مصباح الحق کو باؤچر کے ہاتھوں کیچ کرادیا۔ عبدالرحمن اور کامران اکمل کے درمیان ساتویں وکٹ کے لئے بننے والے 60 رنز پاکستانی ٹیم کے لیے بہت قیمتی تھے۔ عبدالرحمن 37گیندوں پر3 چوکوں کی مدد سے31 رنز بناکر مورکل کی گیند پر بولڈ ہوئے۔ کامران اکمل دو چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 28 رنز بناکر پولاک کے ہاتھوں کیچ ہوکر اس سیریز میں بوتھا کی پہلی وکٹ بن گئے۔ بوتھا نے اسی اوور میں عمرگل کو بھی نتینی کے ہاتھوں کیچ کرادیا۔ پاکستان کی ٹیم: شعیب ملک ( کپتان) یاسرحمید، کامران اکمل، یونس خان، محمد یوسف، مصباح الحق، شاہد آفریدی، عمرگل، راؤافتخار، محمد آصف اور عبدالرحمن۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم: گریم اسمتھ( کپتان) ہرشل گبز۔ ژاک کیلس۔ اے ڈی بی ویلیئرز۔ مارک باؤچر۔ جین پال ڈومینی۔ شان پولاک۔ ایلبی مورکل۔یوہان بوتھا۔ آندرے نیل اور مکھایا نتینی شامل تھے۔ نیوزی لینڈ کے بلی باؤڈن اور پاکستان کے علیم ڈار میچ کے امپائرز ہیں جبکہ آسٹریلیا کے ایلن ہرسٹ میچ ریفری کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ جنوبی افریقہ نے پاکستان کو چوتھے ون ڈے انٹرنیشنل میں سات وکٹوں سے شکست دیکر پانچ میچوں کی سیریز دو دو سے برابر کردی ہے جس کے بعد پیر کو قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلا جانے والا ون ڈے فیصلہ کن حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ text: پاکستان میں زیادہ زلزلے شمال اور مغرب کے علاقوں میں آتے ہیں جہاں زمین کی سطح کے نیچے موجود غیر یکساں تہیں یعنی انڈین ٹیکٹونک پلیٹ ایرانی اور افغانی یوریشین ٹیکٹونک پلیٹوں کے ساتھ ملتی ہے۔ زیر زمین تہ جسے انڈین پلیٹ کہا جاتا ہے بھارت، پاکستان اور نیپال کے نیچے سے گزرتی ہے۔ انڈین پلیٹ اور یوریشین پلیٹ کے ٹکراؤ کے نتیجہ میں ہی ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے وجود میں آئے تھے۔ پاکستان میں جن علاقوں میں زلزلہ آنے کا سب سے زیادہ امکان ہے وہ وہ کوئٹہ سے افغانستان کی سرحد تک پھیلا ہوا علاقہ اور مکران کے ساحل کا علاقہ ہے جو ایرانی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔ دوسرے کوہ ہندوکش سے نکلنے والے زلزلہ شمالی علاقہ جات اور صوبہ سرحد کو متاثر کرتے ہیں۔ محکمہ موسمیات کراچی کے ڈائریکٹر صلاح الدین کے مطابق آج آٹھ اکتوبر کے بھونچال کا مرکز کشمیر میں تھا اور یہ زیادہ گہرائی میں نہیں تھا اس لیے کشمیر میں اس سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اگر زلزلہ کا مرکز کم گہرائی میں ہو تو زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق آج ہفتہ کے روز کا زلزلہ اسلام آباد سے پچانوے کلومیٹر دور کشمیر میں زمین میں صرف دس کلومیٹر گہرائی میں پیدا ہوا اور انڈین پلیٹ کے یوریشین پلیٹ کو دھکیلنے کے باعث اُچھال پیدا ہونے سے پیدا ہوا۔ کشمیر کے علاقہ میں اس دفعہ زلزلہ کا جو مرکز بنا ہے یہاں پر محکمہ موسمیات کے مطابق چھوٹے چھوٹے زلزلے تو آتے رہتے ہیں جنہیں محسوس نہیں کیا جاتا کیونکہ ان کی شدت رکٹر اسکیل پر تقریباً چار ہوتی تھی تاہم اس بار اس کی شدت سات سے زیادہ تھی۔ اس سے پہلے سنہ دو ہزار دو اور سنہ انیس سو اکیاسی میں کشمیر کے علاقہ میں زلزلے آئے تھے۔ پاکستان کے علاقہ میں اس صدی کا سب سے بڑا زلزلہ تیس مئی انیس سو پینتالیس میں کوئٹہ میں آیا تھا جس میں تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے اور کوئٹہ شہر تباہ ہوگیا تھا۔ اس کی شدت رکٹر اسکیل پر آٹھ اعشاریہ ایک تھی۔ موجودہ زلزلہ سے پہلے بیس نومبر سنہ دو ہزار دو کو گلگت کے علاقہ میں زلزلہ آیا تھا جس سے گلگت میں تئیس افراد ہلاک ہوئے تھے، گلگت اور اسطور میں خشف زمین (لینڈ سلائڈ) سے پندرہ ہزار لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔ تین نومبر سنہ دو ہزار دو میں گلگت اور اسطور کے علاقہ میں آنے والا زلزلہ پشاور، اسلام آباد اور سری نگر تک محسوس کیا گیا تھا جس سے شاہراہ قراقرم بند ہوگئی تھی۔ اس سے سترہ افراد ہلاک اور پینسٹھ زخمی ہوگئے تھے جبکہ ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے تھے۔ یکم نومبر سنہ دو ہزار دو میں گلگت اور اسطور کے علاقہ میں ہی ایک زلزلہ سے ایک شخص ہلاک ہوگیا تھا جبکہ شاہراہ قراقرم بند ہوگئی تھی۔ چھبیس جنوری سنہ دو ہزار ایک کو بھارت کے صوبہ گجرات میں جنم لینے والے زلزلہ سے جنوبی پاکستان کے کچھ کے علاقہ میں بیس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ستائیس فروری انیس سو ستانوے میں بلوچستان میں ہرنائی کے مقام پر ایک بڑی شدت کا زلزلہ آیا جس سے کوئٹہ، ہرنائی اور سبی میں خشف زمین (لینڈ سلائڈ) سے پچاس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ زلزلہ وسطی بلوچستانمیں محسوس کیا گیا تھا۔ نو اگست انیس سو ترانوے کو کوہ ہندوکش سے جنم لینا والے ایک بڑے زلزلہ نے وسطی ایشیا سے ملتان تک کے لعاقہ کو متاثر کیا لیکن اس کا مرکز بہت گہرائی میں تھا جس وجہ سے زندگی زیادہ متاثر نہیں ہوئی۔ اکتیس جنوری انیس سو اکیانوے کو کوہ ہندوکش میں زلزلہ آنے سے افغانستان میں ننگر ہار اور بدخشاں کے علاقوں میں دو سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ پاکستان کے شمالی علاقوں خصوصا چترال میں تین سو سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ انتیس جولائی انیس سو پچاسی کو کوہ ہندوکش ہی میں ایک بڑا زلزلہ (رکٹر اسکیل پر سات اعشاریہ ایک) آیا جس سے سوات اور چترال کے ضلعوں میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ زلزلہ پنجاب میں بھی محسوس کیا گیا تھا۔ تیس دسمبر انیس سو تراسی کو کوہ ہندوکش میں ایک بڑے زلزلہ سے شمالی پاکستان میں چودہ افراد ہلاک ہوئے۔ بارہ ستمبر انیس سو اکیاسی کو گلگت میں آنے والے ایک بڑے زلزلہ سے دو سے زیادہ افراد ہلاک اور ڈھائی ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہوگئے تھے۔ اٹھائیس دسمبر سنہ انیس سو چوہتر میں مالاکنڈ کے شمال مشرق میں آنے والے زلزلہ سے پانچ ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ ستائیس نومبر انیس سو پینتالیس کو بلوچستان کے ساحل مکران میں جنم لینے والے ایک بڑے زلزلہ سے دو ہزار لوگ ہلاک ہوئے تھے اور سنامی پیدا ہوئی تھی جس نے ممبئی کو بھی متاثر کیا تھا۔ اکیس نومبر انیس سو پینتیس کو کوئٹہ میں جنم لینے والے زلزلہ سے تیس ہزار سے ساٹھ ہزار لوگ ہلاک ہوئے تھے اور کوئٹہ شہر تقریبا مکمل طور پر تباہ ہوگیاتھا۔ یہ زلزلہ بہت کم گہرائی میں پیدا ہوا تھا اس لیے اس سے اتنی تباہی ہوئی۔سنہ اٹھارہ سو ستائیس اور انیس سو اکتیس کے درمیان بلوچستان کےمختلف علاقوں میں نو مختلف زلزلے آیے۔ چھبیس ستمبر اٹھارہ سو ستائیس کو لاہور کے قریب زلزلہ کا مرکز بنا جس سے ایک ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ سولہ جون اٹھارہ سو انیس کو جنوبی پنجاب اور بھارت کے علاقہ کچھ میں آنے والے زلزلہ سے بتیس ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے اور جنوبی پنجاب کے درجنوں قصبے اور دیہات تباہ ہوگئے تھے۔ یہاں پر نوے کلومیٹر تک زمین کی پٹی زلزلہ کی شدت سے سطح سے چار فٹ بلند ہوگئی تھی۔ یہ زلزلہ اللہ بند نامی فالٹ لائن (دو غیر مساوی زمین کی زیریں تہوں کے ملنے کا مقام) سے پیدا ہوا تھا۔ اسی فالٹ لائن سے کسی زمانے میں بھنبور شہر تباہ ہوا تھا۔ دنیا میں زلزلوں کی تاریخ کے جو بیس بڑے بھونچال آئے ہیں ان میں سے صرف ایک پاکستان میں آیا ہے جو انیس سو پینتیس میں کوئٹہ میں آنے والا زلزلہ تھا جس سے یہ شہر مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا اور امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق اس کے نتیجہ میں ساٹھ ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ text: سنہ 2009 سے ملک میں جاری بوکوحرام کی کارروئیوں کے نتیجے میں اب تک تقریباً 17 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں حکام کے مطابق پہلا دھماکہ ابوجا سے 40 کلومیٹر کی دوری پر واقع کوجی میں ایک پولیس سٹیشن کے قریب ہوا جبکہ دوسرا دھماکہ نیانیا میں ایک بس سٹاپ پر ہوا ہے۔ بوکوحرام کو جلد شکست ہو جائے گی؟ بوکو حرام کا تباہی وبربادی کا کھیل اگرچہ ابھی تک کسی گروہ نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن شبہہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ دھماکے اسلامی شدت پسند گروہ بوکو حرام نے کیے ہیں۔ واضح رہے کہ بوکو حرام کی جانب سے پہلے بھی ابو جا میں کارروائیاں کی جا چکی ہیں، تاہم گروہ کی زیادہ تر کارروائیوں کا مرکز ملک کے شمال مشرقی علاقے رہے ہیں۔ نائیجیریا میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے قائم ادارے نیشنل ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی کے ترجمان کے مطابق جمعے کو ہونے والے دھماکے تقریباً ایک ساتھ ہوئے ۔ ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ دھماکوں میں ایک جیسا بارودی مواد استعمال ہوا ہے اور یہ وہی مواد ہے جو بوکو حرام ملک کے شمال مشرقی علاقوں میں استعمال کرتی آئی ہے۔ حکام کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق کوجی میں ہونے والے دھماکے میں 13 اور نیانیا میں دو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ خیال رہے کہ سنہ 2009 سے ملک میں جاری بوکوحرام کی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک تقریباً 17 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ نائیجیریا کے دارالحکومت ابوجا کے مضافات میں ہونے والے دو بم دھماکوں کے نتیجے میں 15 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ text: آخری مرتبہ یہ آتش فشاں 1963 میں پھٹا تھا جس میں کم از کم 1600 افراد ہلاک ہوئے تھے یہ 'سرخ وارننگ' اس ہفتے آتش فشاں سے دوسری مرتبہ راکھ اور دھواں نکلنے کے بعد جاری کی گئی۔ مزید پڑھیے انڈونیشیا کے آتش فشاں کے پھٹنے کا خطرہ: تصاویر آتش فشاں میں گرنے سے والدین اور بچہ ہلاک دنیا کا سب سے بڑا قدرتی پریشر ککر ماؤنٹ آگنگ سے نکلنے والا دھواں چار ہزار میٹر تک اوپر اٹھا ہے اور اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ یہ آتش فشاں پھٹنے والا ہے۔ آخری مرتبہ یہ 1963 میں پھٹا تھا جس کے نتیجے میں تقریباً 1600 افراد ہلاک ہوئے تھے اور کئی گاؤں تباہ ہو گئے تھے۔ انتظامیہ نے پہاڑ کے آٹھ کلو میٹر کے دائرے میں رہنے والے افراد کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے گھر بار چھوڑ کر علاقہ خالی کر دیں۔ کئی دیگر افراد کو ماسک دیے جا رہے ہیں تاکہ وہ راکھ سے محفوظ رہیں۔ گرم لاوے کا آتش فشاں سے سمندر تک کا سفر ناسا سے منسلک مہم جو خاتون کے بقول انھیں آگل گلتے آتش فشاں آتشبازی جیسے لگتے ہیں۔ انڈونیشیا کی والکینولوجی اینڈ جیولوجیکل ڈیزاسٹر مِٹیگیشن ایجنسی کے سربراہ گیڈے سوانتیکا کہتے ہیں: 'ماؤنٹ آگنگ کی ہلچل اب پھٹنے کی سطح تک پہنچ چکی ہے، اگرچہ یہ ابھی بھی راکھ ہی نکال رہا ہے۔ لیکن ضرورت ہے کہ ہم اس کی نگرانی کرتے رہیں اور اس کے ممکنہ سخت اور دھماکے دار طریقے سے پھٹنے کے حوالے سے محتاط رہیں۔‘ بالی انڈونیشیا کا ایک اہم ترین سیاحتی مقام ہے۔ تاہم اس کے دو اہم مراکز کوتا اور سیمنیاک آتش فشاں پہاڑ سے 70 کلو میٹر کی دوری پر ہیں۔ جزیرے کا مرکزی ایئرپورٹ پوری طرح کام کر رہا ہے لیکن کچھ فضائی کمپنیوں نے اپنی پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔ آتش فشاں کی راکھ طیاروں کے انجن کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ علاقے کی طرف آنے جانے والے مسافروں کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنی پروازوں کے متعلق جاننے کے لیے اپنی فضائی کمپنی یا ٹریول ایجنٹ سے رابطہ کریں۔ آئس لینڈ میں آتش فشاں سے بجلی پیدا کرنے کی کوشش انڈونیشیا نے بالی میں ایک آتش فشاں سے راکھ اور بھاپ نکلنے کے بعد اس کے گرد پروازوں کے حوالے سے شہری ہوا بازی کی انتہائی وارننگ جاری کی ہے۔ text: بریگیڈیئر جنرل محمد سلیمان کو سنائیپر نے بحیرہ روم کے علاقے طرطوس میں قتل کیا تھا یاد رہے کہ بریگیڈیئر جنرل محمد سلیمان کو سنائیپر نے بحیرہ روم کے علاقے طرطوس میں قتل کیا تھا۔ اسرائیل نے کبھی بھی اس الزام پر تبصرہ نہیں کیا کہ محمد سلیمان کی ہلاکت میں وہ ملوث تھا۔ سابق سی آئی اے کے اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے منظر عام پر لائی دستاویزات انٹرسیپٹ ویب سائٹ کو فراہم کی گئی ہیں۔ منظر عام پر آئے امریکی خفیہ دستاویزات کے مطابق اسرائیل کے نیوی کمانڈوز نے بریگیڈیئر جنرل محمد سلیمان کو ہلاک کیا تھا۔ سابق امریکی انٹیلیجنس افسران کا کہنا ہے کہ ان دستاویزات پر جو خفیہ ہونے کی رینکنگ ہے اس سے لگتا ہے کہ ایڈورڈ سنوڈن کو یہ معلومات اسرائیلی کمیونیکیشن سننے کے دوران معلوم ہوئی۔ بریگیڈیئر جنرل محمد سلیمان کی موت کے وقت عرب میڈیا کا کہنا تھا کہ ان کو ایک گردن اور ایک سر پر گولی ماری گئی تھی۔ جس وقت ان کو ہلاک کیا گیا وہ یکم اگست 2008 کو ایک کشتی پر شام کا کھانا کھا رہے تھے۔ ذرائع کے مطابق بریگیڈیئر جنرل محمد سلیمان صدر بشار الاسد کے سکیورٹی کے امور کے مشیر تھے اور انھوں نے حزب اللہ کے ساتھ شامی رابطہ کار کے طور پر کام کیا تھا۔ بریگیڈیئر جنرل محمد سلیمان کے قتل کے بعد ایک کیبل میں ان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ بشار الاسد کے بہت قریب تھے۔ کیبل کے مطابق انھوں نے بشار الاسد کے لیے کچھ ایسے آپریشن بھی کیے تھے جن کا علم فوج کو نہیں تھا۔ کیبل میں کہا گیا ہے کہ ان کے قتل میں واضح الزام اسرائیل ہی پر جاتا ہے۔ ’شام کی سکیورٹی ایجنسیوں کو معلوم ہے کہ طرطوس میں اسرائیلی سپیشل فورسز کو کارروائی کرنے میں قدرے آسانی تھی۔‘ بدھ کو شائع ہونے والے این ایس اے کے خفیہ دستاویزات میں کہا گیا ہے ’اسرائیلی کمانڈوز کی جانب سے بریگیڈیئر جنرل محمد سلیمان کا قتل پہلا ایسا واقعہ ہے جس میں اسرائیل نے جائز سرکاری ہدف کو نشانہ بنایا ہو۔‘ امریکی خفیہ دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ 2008 میں سینیئر شامی فوجی افسر کی ہلاکت میں اسرائیلی سپیشل فورسز شامل تھیں۔ text: سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے آئینی درخواستوں پر اپنے مختصر فیصلے میں ان تمام پیٹیشنوں کو مسترد کر دیا ہے۔ درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ مداخلت کرکے مستقبل میں فوج کی حکومت کا راستہ روکے اور حکومت کی طرف سے اعلی عدالتوں کے ججوں کی تقرری حکومت کی مداخلت کو غیر آئنیی قرار دے۔ سپریم کورٹ نے سن 2000 میں صدر جنرل مشرف کے فوجی اقتدار کو نظریہ ضرورت کی بنیاد پر جائز قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ تین سال کے اندر انتخاب کراکے اقتدار دوبارہ عوامی نمائندوں کو منتقل کریں۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی سربراہی چیف جٹس ناظم حیسن صدیقی کر رہے تھے۔ عدالت اپنا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کرئے گی۔ پاکستان کے کچھ وکلاء نے جو ملک میں ہونے والے آئینی تبدیلیوں کو عدالتوں میں اکثر چیلنج کرنے کے لیے شہرت رکھتے ہیں، نے صدر مشرف کے دو عہدوں اور آئین میں سترہیویں ترمیم کو چیلنج کر رکھا تھا۔ آئینی درخواستیں اے کے ڈوگر ( پاکستان لائرز فورم) ، حبیب وہاب الخیری (الجہاد ٹرسٹ)، کیمونسٹ پارٹی کے لیڈر انجینئر جمیل، بیرسٹر ظفر اللہ (وطن پارٹی) اور مولوی اقبال حیدر کی طرف سے دائر کی گئی تھیں۔ عدالت نے حبیب وہاب الخیری نے ججوں کی عمر کے بارے آئینی درخواست جس میں اعلی عدالتوں کے ججوں کی عمر بڑھانے کے بارے میں درخواست تھی ، کو رد نہیں کیا ہے اور کہا کہ وہ اس کے سماعت بعد میں کرئے گا۔ پاکستان لائرز فورم کے وکیل اے کے ڈوگر کا موقف تھا کہ آئین میں سترہویں ترمیم کی وجہ سے وزیراعظم کے اختیارت سلب کر کے صدر کو تقویض کر دیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت سے استدعا کی تھی کہ صدر جنرل مشرف کو حکم دے جائے کہ وہ افواج پاکستان کے سربراہان کی تعیناتی سمیت تمام اختیارات واپس وزیراعظم کو تفویض کر دیں۔ الجہاد ٹرسٹ کے سربراہ حبیب وہاب الخیری نے کہا کہ سترہویں ترمیم میں عدلیہ کے مخالف کئی چیزیں شامل کی گئی ہیں جن میں ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر زیادہ کرنے کے فیصلے کو واپس لینا بھی شامل ہے۔ پاکستان سپریم کورٹ نے ان تمام آئینی درخواستوں کو مسترد کر دیا ہےجن میں پرویز مشرف کے دو عہدے رکھنے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ text: لوکش راہل صرف ایک رن کی کمی سے اپنی دبل سینچری مکمل نہ کر سکے مہمان ٹیم کو میزبان ٹیم کی برتری ختم کرنے کے لیے مزید 86 رنز کی ضرورت ہے اور پہلی اننگز میں چھ وکٹیں باقی ہیں۔ میچ کا تفصیلی سکور کارڈ تیسرے دن کے کھیل کے اختتام پر کرن نائر 71 اور مرلی وجے 17 رنز کے ساتھ کریز پر موجود تھے۔ اس سے قبل تیسرے دن کے کھیل کا آغاز پر انڈیا کے اپنی پہلی اننگز کا دوبارہ آغاز کیا تو لوکش راہل 30 اور پارتھو پٹیل 28 رنز کے ساتھ کریز پر موجود تھے۔ انڈیا کی جانب سے لوکش راہل نے عمدہ بلی بازی کا مظاہرہ کیا اور صرف ایک رن کی کمی سے اپنی ڈبل سینچری مکمل نہ کر سکے۔ پارتھو پٹیل نے 71 رنز کی اننگز کھیلی۔ دیگر بلے بازوں میں پچارا 16 اور وراٹ کوہلی 15 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ انگلینڈ کی جانب سے براڈ، معین علی، عادل رشید اور سٹوکس نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔، اس سے پہلے انگلینڈ کی پوری ٹیم اپنی پہلی اننگز میں 477 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی تھی۔ پانچ ٹیسٹ میچوں پر مشتمل سیریز میں انڈیا کو تین صفر کی برتری حاصل ہے۔ مہمان ٹیم کی جانب معین علی نے 13 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 146 اور جو روٹ نے 10 چوکوں کی مدد سے 88 رنز بنائے۔ میزبان ٹیم کی جانب سے رویندر جڈیجا نے تین، امیش یادو اور ایشانت شرما نے دو، دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ پانچ ٹیسٹ میچوں پر مشتمل سیریز میں انڈیا کو تین صفر کی برتری حاصل ہے۔ راجکوٹ میں کھیلا گیا پہلا ٹیسٹ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگیا تھا جب کہ موہالی، وشاکھاپٹنم اور ممبئی میں میں انڈیا نے فتح اپنے نام کی تھی۔ چنئی میں کھیلے جانے والے پانچوں ٹیسٹ میچ کے تیسرے دن کے کھیل کے اختتام پر انڈیا نے انگلینڈ کےخلاف پہلی اننگز میں چار وکٹوں کے نقصان پر 391 رنز بنا لیے تھے۔ text: اسلام آباد میں پشتو زبان کے شعرا نے وقت کے ساتھ اپنی جگہ بنائی ہے اکادمی ادبیات پاکستان کے سرسبز باغیچے میں بیٹھے سردار یوسفزئی آج بھی اپنی پختون شناخت اور زبان کے لیے اسلام آباد میں جگہ تلاش کر رہے ہیں۔ ’بالخصوص سنہ 2001 کے بعد جب حالات بگڑنے لگے تو چار پختون افراد ٹوپی اور چادر پہنے کہیں اکٹھے کھڑے نہیں ہو سکتے تھے۔ پولیس ہراساں کرتی تھی اور ان وجوہات کی بنا پر ہمارے لیے اس شہر میں اپنائیت کا احساس کم ہونے لگا تھا۔` یہ بھی پڑھیے افغان پناہ گزین طلبا ’نہ اِدھر کے رہیں گے نہ اُدھر کے‘ کیا آلہِ موسیقی ’رباب‘ پختونوں نے بنایا تھا؟ افغانستان میں جدید مزاحمتی شاعری مضبوط قد کاٹھ رکھنے والے صوابی کے 45 سالہ سردار یوسفزئی اپنے لڑکپن میں تھے جب سنہ 1996 میں وہ اپنا گاؤں چھوڑ کر اسلام آباد آ بسے۔ اس نئے شہر میں روزی روٹی ڈھونڈتے وہ جلد ہی ایک ادارے میں ٹیلی فون آپریٹر بھرتی ہو گئے ۔ پشتو زبان اور شاعری سے لگاؤ کے باعث سردار یوسفزئی سنہ 2006 میں پشتو ادبی سوسائٹی اسلام آباد کے رکن بنے اور اسی سال ڈپٹی سیکرٹری جنرل بھی مقرر ہوئے۔ ’گھر سے دور ہونے کی تکلیف میں اگر کچھ سامانِ راحت تھا تو وہ صرف شاعری اور اس زبان (پشتو) کی وجہ سے تھا جس نے مجھے اپنی جڑوں سے جوڑ کر رکھا۔‘ شعرا کی جدوجہد سنہ 1986 میں معرضِ وجود میں آنے والی پشتو ادبی سوسائٹی آج پاکستان کے دارالحکومت میں اس زبان کے حوالے سے نمایاں تنظیم ہے۔ اس کے ارکان ہر ماہ کے پہلے پیر کے روز اکادمی ادبیات میں مشاعرہ اور مجلس منعقد کرتے ہیں جس میں لگ بھگ 40 سے 50 شعرا حصہ لیتے ہیں۔ یہاں موجود ہر ادیب نے کم از کم ایک کتاب تو شائع ضرور کی ہے، لیکن اپنے خرچ پر۔ سردار یوسفزئی نے بھی اپنی دو کتابیں ایسے ہی شائع کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’خیبر پختونخوا کے محکمہِ ثقافت نے ہمارے چند ساتھیوں کی کتابیں چھاپی ہیں، لیکن عام طور پر ادیب اس کام پر اٹھنے والے اخراجات خود برداشت کرتے ہیں ۔ حکومت کو پشتو کے فروغ کی ذمہ داری صرف اس زبان کے شعرا پر نہیں چھوڑ دینی چاہیے۔‘ سردار یوسفزئی کہتے ہیں کہ اسلام آباد کے تمام پشتو ادیب کہیں نہ کہیں نوکری کرنے پر مجبور ہیں تاہم اس کے باوجود ان کا ماننا ہے کہ کسی فن کی تخلیق کر کے اس کو دنیا کے ساتھ بانٹنا انسانی فطرت ہے۔ ’میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمیں مالی امداد نہیں چاہیے۔ ایک شاعر کی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ وہ ایسے الفاظ لکھے جو اس کی قوم تک پہنچ سکیں۔ یہ ایسا عشق ہے جو نہ سمجھنے والے کو سمجھایا نہیں جا سکتا۔‘ اسلام آباد میں پختون سنہ 1960 کی دہائی میں اسلام آباد کے قیام سے ہی یہاں پختون موجود ہیں۔ نئے دارالحکومت کی تعمیر کے لیے مزدور طبقے سے لے کر سرکاری نظم و نسق چلانے کے لیے افسران، سب نے اسلام آباد کا رخ کیا۔ اور جس طرح ہجرت میں آنے والے اپنے ساتھ اپنی ثقافت بھی لاتے ہیں، خیبر پختونخوا سے آنے والے پشتو شاعری اور رباب لیے یہاں آن پہنچے۔ وقت گزرتا رہا اور کئی آبادکار یہیں کے ہو کر رہ گئے اور اس ماحول میں اس طرح رچ بس گئے کہ اب وہ اپنے ہی گاؤں مہمان بن کر جاتے ہیں۔ تاہم ابتدا میں ایسا نہیں تھا۔ سردار یوسفزئی کے پہلو میں بیٹھے ان کے رفیق اور سوسائٹی کے سیکرٹری جنرل اقبال حسین افکار خود کو ادیب سے زیادہ پشتو زبان کا خادم سمجھتے ہیں۔ اپنی بھاری آواز میں اقبال افکار کا کہنا تھا کہ نچلے طبقے کے پختونوں کو اسلام آباد میں کمتری کا احساس ہوتا تھا۔ ’ہمارے سینیئر شعرا جیسے کہ میم ر شفق، عنایت اللہ ضیا، غنی خٹک، عبرالرحمان بیتاب اور سید محمود احمد کی زیرِ نگرانی یہاں پشتو ادب نے اپنا گھر بنایا۔ آج میں اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ پشاور، کابل اور کوئٹہ سمیت اسلام آباد بھی اب اس زبان کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔‘ جنگ کے اثرات دہائیوں پر محیط جنگ کا پختون ادیبوں اور ان کے کام پر اثر کو جانچنا بھی بہت ضروری ہے۔ سوویت افغان جنگ سے لے کر امریکہ کی ’وار آن ٹیرر‘ اور ضرب عضب تک پختون خطہ برباد ہوتا چلا گیا اور اس تباہی کے اثرات پشتو ادب پر بھی مرتب ہوئے۔ افکار کہتے ہیں کہ روزمرہ زندگی میں اتنا تشدد دیکھنے کے بعد ایسا ممکن نہیں کہ شاعری اس کے سیاسی اور سماجی اثرات سے محفوظ رہ پائے۔ ’ہمارا آج کا ادب معاشرے کو آئینہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس میں شدت پسندی کی سخت مذمت اور امن کی شدید حمایت اور چاہت کی جھلک نظر آتی ہے۔ ہمیں پتا ہے کہ اس دہشت گردی کے ہاتھوں ہماری اپنی پختون شناخت پر کتنے سوال اٹھے ہیں۔ یہ ہمارا گھر ہے اور جب گھر میں آگ لگتی ہے تو تمام مکین متاثر ہوتے ہیں ۔‘ پشتو شاعری آج بھی زلفِ جاناں کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی لیکن چاربیتہ، غزل اور نظم جیسے روائتی طرز کو اب قوم کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالنے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین آج بھی ادیبوں کی آمد و رفت جاری ہے۔ پاک افغان پیپلز فورم جیسی تنظیموں کے تحت دونوں ممالک کے ادیب اور شعرا کے وفود آتے جاتے رہتے ہیں۔ سیاست بالائے طاق رکھتے ہوئے دونوں ممالک کے ادیب اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ امن میں ہی پختون قوم کا فائدہ ہے۔ پشتو کی مانگ اسلام آبار کے پشتو ادیبوں کی طرف سے ایک تنبیہ اور بھی ہے۔ وہ یہ کہ اگر آپ اپنا وقت، فن، محنت، خیالات اور نظریات استعمال کر کے پشتو ادب لکھ کر اپنے خرچے پر کتاب شائع کر بھی لیں تو اس کے بعد کی صورتحال کے لیے بھی تیار رہیے، یعنی اپنی کتابیں لوگوں میں خود بانٹتے پھریں۔ اقبال افکار کہتے ہیں ’اگرچہ خیبر پختونخوا کا محکمہِ ثقافت اس حوالے سے کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے تاہم ادیب ان کی سرگرمیوں سے مطمئن نہیں ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اگر واقعی پشتو زبان کے فروغ کے لیے سنجیدہ ہے تو خیرات سمجھ کر شعرا میں پینشن بانٹنے کے بجائے اشاعت پر توجہ دے۔ ’مجھے اسلام آباد میں وفاقی حکومت کے ذریعے اکادمی ادبیات اور لوک ورثہ سے امداد مل جاتی ہے، لیکن اپنے صوبے میں ہم دربدر پھرتے ہیں۔ پشاور کا نشتر ہال استعمال کرنے پر مجھے پیسے دینے پڑتے ہیں، لیکن خانہ فرہنگ میں پشتو ادب پر بات کرنے کی کوئی فیس نہیں۔‘ پشتو کی پسماندگی کی بنیادی وجہ پر روشنی ایک اور شاعر عبدالحمید زاہد نے یہ کہہ کر ڈالی کہ 'پشتو ادب کی معاشی حیثیت اس لیے نہیں کیونکہ یہ تعلیم کی زبان نہیں ہے۔ اگر پختون اپنی ہی زبان میں تعلیم حاصل کرنا شروع کر دیں تو ہمارے قلم کو بھی سہارا ملے گا ۔' مگر جب تک یہ وقت نہیں آتا زاہد کے بقول شعرا پورے جنون سے وہی کرتے رہیں گے جو کرتے آ رہے ہیں یعنی ’اپنے بچوں کے منہ سے نوالہ چھین کر پشتو کا پیٹ پالتے رہیں گے۔‘ ’ہمارے بزرگ شعرا بتاتے ہیں کہ ایک وقت تھا کہ اسلام آباد کے کسی سرکاری ادارے میں اردو کے علاوہ کوئی اور زبان بولنے کی سخت ممانعت تھی۔‘